رمضان کا مبارک مہینہ ایک مرتبہ پھر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آیا، غفرانِ عام کا مینہ برسا، اور ہم ابھی رحمتوں کی اس بہار سے بہرہ مند ہو ہی رہے تھے کہ یہ ہم سے رخصت بھی ہوگیا۔
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ وقت ہے کہ تھمتا نہیں۔ نعمتوں کی بارش ہورہی ہو، خوشیوں کا دل کش موسم ہو، راحتوں و فرحتوں سے ہمارا آنگن بھر رہا ہو، یا پھر مصائب و مشکلات آن گھیریں اور دکھ درد، رنج و اندوہ کے اَبر چھا جائیں، حالات ایک جیسے کبھی نہیں رہتے۔ گزرتا ہرلمحہ، قرآن کی اس پکار کا امین ہے کہ والعصر، یعنی غور کرو وقت اور زمانے کے تیزی سے گزرنے اور بدلنے پر، تم خسارے میں ہو!
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی زندگی کا کوئی اور سچ ہو نہ ہو، اُس کی موت اُس کی زندگی کا سب سے بڑا سچ ہوتا ہے۔ یہ بات کہ دنیا فانی ہے، میں فانی ہوں،اس کو پہچاننا، اس کو مان جانا، اور واقعی مان جانا، ایمان کے لیے شرطِ لازم تو ضرور ہے، البتہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ ایمان کا اظہار ہی کافی ہے نہ صرف ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے بلکہ اپنے آپ کو دھوکا و فریب دینے کے مترادف ہے۔ یہ تو فلاح کی سیڑھی پر پہلا قدم ہے۔گویا پیدایش سے ہی خسارے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ o مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍط وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o (۲۹:۲-۵) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔ جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
یہ دنیا کا قانون تو ہوسکتا ہے کہ اقرار باللسان سے جان خلاصی ہوجائے لیکن بارگاہِ ایزدی میں عدل کا تقاضا یہی ہے کہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز اعمال کی بنیاد پر ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسان پر روشنی ڈالتے ہوئے یہی مقصد تو بیان فرمایا کہ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط (الملک ۶۷:۲)، یعنی اُس نے موت پیدا کی تاکہ اُس کے آنے تک جو مہلتِ حیات ہمیں عطا کی گئی ہے وہ اس میں آزمائے کہ ہم میں سے کون کون بہترین اعمال کا مظاہرہ کرتا ہے۔اس امتحان میں اللہ رب العالمین ہمیں طرح طرح سے آزمائے گا۔ وہ فرماتا ہے:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِط (البقرہ ۲:۱۵۵) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔
اس سے کوئی مفر نہیں۔ موت کو تو ہم دُور گردانتے ہیں اور اُس کو واقعی سمجھنا بھی شاید مشکل محسوس ہوتا ہے، مگر ان کیفیات و واقعات سے تو ہر وقت دوچار رہتے ہیں۔ تاہم، اس بات میں ہمارے لیے بڑی ڈھارس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)۔ ہم پر اس دنیا کی بڑی سے بڑی آزمایش آئے، کٹھن سے کٹھن ابتلا ہو، ہمارے اندر وہ قوت پنہاں ہے جس سے ہم اس کا مقابلہ پامردی سے کرسکتے ہیں۔ ہم غور کریں تو رمضان کے روزے اسی احساس کو پروان چڑھانے کے لیے فرض کیے گئے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۳)، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔
ہم رمضان میں اپنے کھانے پینے کی بالکل جائز اور فطری ضروریات سے رُک گئے صرف اس لیے کہ اللہ نے ہم سے اس کا تقاضا کیا۔ خواہش کے باوجود، نہ کھلے نہ چھپے، نہ کھایا نہ پیا۔ وسائل موجود تھے،اُن پر اختیار بھی تھا، لیکن صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی رضا و خوشنودی کی خاطر ہم نے اپنا ہاتھ روکے رکھا، یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے اندر وہ قوتِ ارادی اور قوتِ برداشت بدرجہ اتم موجود ہے جس سے ہم اُن کاموں سے رُک جائیں جو اللہ کو ناپسند ہیں اور اُن اعمال کی طرف دوڑیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ یہی احساس، کہ اللہ دیکھ رہا ہے، وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے، جب پروان چڑھتا ہے تب ہی ہم قرآن کی ہدایت کے جس کا نزول رمضان المبارک میں ہوا، مستحق قرار پاتے ہیں۔
ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo (البقرہ۲:۲) یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے۔
آج ہرمحلے میں تراویح کی نماز ہوتی ہے، قریہ قریہ، نگر نگر فہم قرآن کلاسیں منعقد ہورہی ہیں، دروسِ قرآن کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے لیکن معاشرے میں اس کے اثرات مفقود نہ سہی تو محدود ضرور ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ قرآن انسان اور معاشرے میں حُریت فکر کا جو انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے، اُس کے بنیادی تقاضوں اور منازل سے قرآن کے سننے اور سنانے والے، پڑھنے اور پڑھانے والے، سبھی غافل ہیں، کجا کہ وہ جو قرآن کی دعوت کو لے کر اُٹھنے کے دعوے دار ہوں۔ وہ لوگ اگر آج مرجع خلائق نہیں تو اس کی بھی شاید یہی وجہ ہے۔ حاملِ قرآن ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔
لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ o (الحشر ۵۹:۲۱)، اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں۔
پس اگر ہم قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں، اُس کی دعوت کو لے کر اُٹھنا چاہتے ہیں، اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کو اُس کی اقدار کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں، تو پھر اپنے اندر تقویٰ اور وہ احساس و سوز پیدا کرنا، اور پروان چڑھانا ہوگا جو اس کے لیے شرطِ اوّل و لازم ہے، جس کی تعلیم و تربیت کے لیے رمضان آیا۔
یہ رمضان ہمیں کچھ زادِ راہ دے گیا ہے، تو اس پونجی کو روز بروز بڑھانے کی ضرورت ہے، تب ہی ہم قرآن و سنت کی دعوت لے کر اُٹھنے کے اہل ہوں گے اور تب ہی پوری دنیا پر اپنے اسلاف کی طرح چھا جائیں گے۔یہی مقصدِ حیات اور راہِ نجات ہے۔