غزہ پر ڈیڑھ سال کی مسلسل بمباری اور قتل عام کے باوجود قاتل ہاتھوں میں رحم کے آثار ہیں اور نہ مظلوم لیکن پرعزم مزاحمت کاروں کے پائے استقلال میں کوئی جنبش۔ ایک طرف تیر کی برسات ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی، تو دوسری جانب دل و جان کی قربانی میں کوئی تعطل نظر نہیں آرہا۔ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردینے والے بموں کے مقابلے میں اہل غزہ صرف نہتے ہی نہیں بلکہ بھوکے پیاسے بھی ہیں اور جبر اور صبر کا ایسا ٹکراؤ تاریخ نے اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ تمام تر جبر اور سفاکیت کے باوجود زخموں سے چور اہل غزہ کی مزاحمت بھی جاری ہے۔
ہنگری سے امریکا کی طرف سفر کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے خصوصی طیارے میں صحافیوں سے کہا: ’’دہشت گردوں ' کی کمر توڑ دی گئی ہے‘‘۔ اللہ کی شان کہ ۶؍ اپریل کی صبح جب نیتن یاہو نے یہ شیخی بگھاری اُدھر مزاحمت کاروں نے عین اسی وقت دس راکٹ اشدود کے بحری اڈے اور عثقلان عسکری کالونی کی طرف داغ دیے۔ پانچ کو امریکی ساختہ آئرن ڈوم نے فضا ہی میں غیر مؤثر کردیا، لیکن حفاظتی نظام کو پچھاڑتے ہوئے ہدف تک پہنچنے والے راکٹوں سے کئی جگہ آگ بھڑک اُٹھی۔
بمباری اور قتل عام کے ساتھ اپریل ۲۰۲۵ء کے ابتدائی دس دنوں سے اہل غزہ کو نقل مکانی کے عذاب کا سامنا کرنے کا آغاز ہوا۔ ہرروز انتباہ جاری ہوتا ہے کہ ’’اگلے تین گھنٹوں میں فلاں علاقے پر خوفناک فوجی کارروائی ہونے والی ہے، وہاں سے نکل جائو‘‘۔بے خانماں لوگ میلوں پیدل سفر کرکے دوسرے مقامات پر پہنچ کر خیمے گاڑہی رہے ہوتے ہیں کہ نئی نقل مکانی کا حکم جاری ہوجاتا ہے۔ اہل غزہ عیدالفطر کی شب سے مسلسل سفر میں ہیں۔اب تھکن کا یہ عالم ہے کہ ۶؍اپریل کو جب الشجاعیہ محلہ خالی کرانے کا حکم آیا تو نڈھال لوگوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ: ’’اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے‘‘۔ پھر مزاحمت کاروں نے عربی، انگریزی اور عبرانی میں پیغام جاری کردیا کہ ’’بہت سے اسرائیلی قیدی الشجاعیہ میں رکھے گئے ہیں جن کو یہاں سے نہیں ہٹایا جائے گا اور اگر بزور قوت قیدی چھڑانے کی کو شش کی گئی تو اس کے نتیجے میں اسرائیلیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘۔ اسرائیلی عوام کے نام پیغام میں ترجمان نے مزید کہا کہ ’’اگر نیتن یاہو حکومت کو اپنے قیدیوں کی فکر ہوتی تو وہ جنوری میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتا اور جنگ دوبارہ نہ چھیڑتا اور یہ قیدی اس وقت اپنے عزیزوں کے درمیان ہوتے۔ اب غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ اگر اسرائیلی قیدی بھی بمباری سے ہلاک ہوجائیں تو ہم سے شکوہ نہ کرنا‘‘۔
مزاحمت کاروں کے اس اعلان کے بعد قیدیوں کے لواحقین نے تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر پر زبردست مظاہرہ کیا۔ لوگ نعرے لگارہے تھے:’’تمھاری جنگ کی قیمت، ہمارے پیاروں کی زندگی‘‘۔ مظاہرین نے فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر سے ملاقات کی۔سخت مشتعل لوگوں نے مطالبہ کیا کہ فوج، جنگجو نیتن یاہو کا تختہ الٹ دے۔جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے تل ابیب میں مظاہرہ روز کا معمول ہے، لیکن مغربی دنیا کی غیر مشروط سرپرستی کی بنا پر نیتن یاہو کسی کی کچھ سننے کو تیار نہیں۔ تین اپریل کو امریکی سینیٹ نے اسرائیل کو اسلحے پر پابندی کی قرارداد جس بُری طرح مسترد کی، اس نے اسرائیل کے جنگجو حکمرانوں کو مزید ’دلیر‘ کردیا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ ہردوسرے روز نیتن یاہو کو فون کرکے امریکی حمایت کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔مزید فوجی امداد کی ضمانت لینے نیتن یاہو ۶؍ اپریل کو بنفس نفیس امریکا پہنچا۔ درحقیقت اس چوٹی ملاقات میں ’ٹرمپ غزہ‘ منصوبے کو آخری شکل دی گئی۔اسی دوران اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر نے ابوظہبی میں وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی۔ اماراتی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں رہنماوں نے غزہ امن پر بات چیت کی، لیکن آزاد صحافتی ذرائع بتارہے ہیں کہ اصل گفتگو ایران پرحملے کی صورت میں ایرانیوں کی جوابی کارروائی سے متحدہ عرب امارات کو محفوظ رکھنے کے لیے امریکی و اسرائیلی اقدامات اور فلسطینیوں کے انخلا کے بعد مجوزہ 'ٹرمپ غزہ منصوبے کی تعمیر میں امارات کے کردارپر ہوئی۔
تحقیقات کے بعد اقوام متحدہ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ۲۳ مارچ ۲۰۲۵ء کو غزہ میں پانچ ایمبولینسوں، ایک فائر انجن اور اقوام متحدہ کی گاڑی کو اسرائیلی ڈرون نے شناخت کے بعد نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں ۱۵ وردی پوش امدادی کارکن جان بحق ہوئے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے وہ تصویر بھی شائع کردی جو خود اسرائیلی ڈرون نے حملے سے پہلے لی تھی، جس میں ایمبولنسیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA کا کہنا ہے کہ غزہ میں بمباری سے ہرروز ۱۰۰ بچے جاں بحق یا شدید زخمی ہورہے ہیں اور اسرائیل نے دو تہائی غزہ کو No Go ایریابنادیاہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے بہت فخر سے کہا کہ ’’اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے متوازی ایک اور راہداری بناکر ر فح کے گرد گھیراؤ مکمل کرلیاہے اور اب مزاحمت کاروں کے لیے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں‘‘۔ہتھیار ڈالنے کی اسرائیلی خواہش تو شاید پوری نہ ہو، لیکن لگتاہے کہ خون کی ہولی غزہ کے آخری بچے کے قتل تک جاری رہے گی۔ گذشتہ ہفتے ہلال احمر غزہ کے سربراہ نے اپنے پیغام میں کہا:’’ غزہ پر مسلسل آگ برس رہی ہے، پانی کی آخری بوند بھی ختم ہوچکی، ہر طرف موت نظر آرہی ہے‘‘۔ ' اسی کے ساتھ غزہ کے ڈائریکٹر صحت ڈاکٹر منیر البرش کا پیغام بھی نشر ہوا: ’’غزہ آخری سانس لے رہا ہے، دنیا کا بہت انتظار کیا ۔خدا حافظ‘‘۔
اسرائیلی فوج بمباری کے لیے بنکر بسٹر بم استعمال کررہی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ بم پہاڑی علاقوں میں چٹانوں سے تراشے مورچوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور شہری علاقوں میں اس کے استعمال پر پابندی ہے، لیکن امریکا اور اسرائیل دنیا کے کسی ضابطے اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ امریکا نے کنکریٹ کو چیر دینے والے یہ بم افغانستان میں بے دریغ استعمال کیے تھے۔ روایتی بم کسی سخت سطح سے ٹکراتے ہی پھٹ جاتے ہیں،جب کہ بنکر بسٹر بم عمارت کی چھت چیرکر دس انچ زمین کے اندر گھس کر پھٹتے ہیں جس کی وجہ سے عمارت کا ملبہ اور وہاں موجود لوگ فوارے کی طرح فضا میں بلند ہوجاتے ہیں۔ مرکزی غزہ پر بمباری کے جو بصری تراشے اسرائیلی فوج نے جاری کیے ہیں، اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح گردو غبار اور دھوئیں کے ساتھ بچوں کے لاشے کئی سو فٹ اُوپر فضامیں اُچھلے اور نیچے گر کر پاش پاش ہو گئے۔
غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں بھی معاشرتی تطہیر کی مہم زور شور سے جاری ہے۔ عید کے دن اسرائیلی فوج نے جنین کے مضافاتی علاقے برقین اور وسطی غرب اردن کے شہر سلفیت پر حملہ کیا۔ اس دوران بمباری، ڈرون حملے اور ٹینکوں کے بھرپور استعمال نے دونوں قصبات کو کھنڈر بنادیا۔ بمباری اور فائرنگ سے درجنوں افرادجاں بحق ہوئے، زندہ بچ جانے والوں اور زخمیوں کو اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیاگیا۔۶؍ اپریل کو غربِ اردن کے شہر ترمسعيّا پر فوجی سرپرستی میں قابضین (Settlers)نے حملہ کیا۔گھر، دکانیں اور گاڑیوں کو آگ لگادی۔ اندھادھندفائرنگ سے امریکی شہریت کا حامل ایک ۱۴سالہ بچہ عمر محمد ربیع جاں بحق ہوگیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا دہرا معیار ملاحظہ فرمائیں کہ حماس کی قید میں اسرائیل شہری عیدن الیگزنڈر کی رہائی کے لیے ساری ٹرمپ حکومت سرگرم ہے لیکن اس امریکی بچے کے بہیمانہ قتل پر کسی کو کچھ تشویش نہیں، حتیٰ کے CNN نے اس واقعے پر امریکی حکومت کے ردعمل کے لیے جب وزارت خارجہ وائٹ ہائوس کو برقی خطوط بھیجے تو وہ ای میل مکتوب الیہ نے متن پڑھے بغیر ہی حذف کردی۔امریکا کے بعد جرمنی میں بھی غزہ نسل کشی کی مذمت کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہے۔
اس حوالے سے برصغیر کی خواتین کا جرأت مندانہ کردار ابلاغ عامہ پر چھایا رہا۔کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی معروف آرکیٹیکٹ محترمہ یاسمین لاری نے ایک لاکھ ڈالر کا اسرائیلی ایوارڈ یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ ' اسرائیلی ادارے سے انعام وصول کرکے میں فلسطینیوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک سکتی۔ یکم اپریل کو بنگلہ دیش کی لڑکی امامہ فاطمہ نے امریکا کے International Women of Courage انعام کو ٹھوکر ماردی۔ امامہ کو ایوارڈ وصول کرنے کے لیے امریکا آنے کی دعوت خاتونِ اول ملانیا ٹرمپ اور وزیرخاجہ مارکو روبیو نے دی تھی۔ اپنے جواب میں امامہ نے لکھا:’’ فلسطینی عوام طویل عرصے سے اپنے بنیادی انسانی حقوق بشمول زمین کے حق سے محروم ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے میں اس ایوارڈ کو مسترد کر رہی ہوں‘‘۔
غزہ کے طول و عرض پر بمباری اور بحروبر سے شدید گولہ باری کے ساتھ اسرائیل اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے مصر کی ثالثی میں مزاحمت کاروں ' سے براہ راست مذاکرات بھی کررہاہے۔ جمعہ ۱۱؍ اپریل کو شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے KAN نیوز ایجنسی کو بتایا:’’ نیتن یاہو، آٹھ قیدیوں اور آٹھ لاشوں کے عوض کئی سو فلسطینی رہا کرنے پر تیارہے۔اس دوران پائیدار امن مذاکرات کے لیے ۴۰ سے ۷۰دن حملے بند رہیں گے، جب کہ مزاحمت کار شہری علاقوں اور ر فح سے اسرائیلی فوج کی واپسی اور انسانی امداد کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کے مطالبے پرقائم ہیں‘‘۔
گفتگو کے مثبت اشاروں سے پھوٹنے والی امید کی کرن ۱۴؍ اپریل کو اس وقت ختم ہو گئی جب مزاحمت کاروں کے ترجمان سمیع ابوظہری نے الجزیرہ ٹیلی ویژن پر اس بات کی تصدیق کی کہ ’’اسرائیلی تجاویز کا متن ہمیں موصول ہوچکا ہے، جس کے مطابق دوسرے مرحلے کے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے مزاحمت کاروں کو غیرمسلح ہونا ہوگا اور ہم یہ مطالبہ کروڑوں بار مسترد کرتے ہیں۔لیکن اگر اسرائیل امن معاہدہ کرکے غزہ سے اپنی فوج واپس بلالے تو اس کے سارے کے سارے قیدی بیک وقت رہا کردیے جائیں گے‘‘۔
ہفتہ ۱۲؍ اپریل کو جہاں امن مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ روانہ ہوا، وہیں اسرائیلی طیاروں نے سارے غزہ پر عربی زبان میں وزیردفاع اسرائیل کاٹز کے آخری انتباہ پر مبنی پمفلٹ گرائے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں اس پمفلٹ کا جو متن شائع ہواہے، اس کے مطابق: ’’اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے شمال مغرب میں موراگ راہداری پر اپنا قبضہ مکمل کرلیا ہے۔ شمال میں بیت حنون کا علاقہ بھی اب اسرائیلی فوج کا سکیورٹی زون ہے۔ اہل غزہ کے لیے یہ جنگ ختم کرنے کا آخری موقع ہے‘‘۔
۹؍اپریل کو اسرائیل فضائیہ کے ایک ہزار سے زیادہ ریزرو افسران نے چیف آف ائر اسٹاف میجر جنرل تومر بار کو ایک خط لکھاجس کی نقول اسرائیلی اخبارات کو جاری کی گئیں۔ خط میں کہا گیا ہے: ’’شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری مسئلے کا حل نہیں۔ قیدیوں کی آزادی کو لڑائی پر ترجیح ملنی چاہیے‘‘۔ اس خط پر نیتن یاہو کو سخت غصہ آگیا اور وزیردفاع کے نام ایک مکتوب میں کہا کہ :’’اس حرکت سے فوج میں بددلی اور قیادت پر عدم اعتماد پیدا ہوگا، لہٰذا ان سرکش بزدلوں کو فوراً برطرف کردیا جائے‘‘۔ یاد رہے کہ اسرائیل میں فوجی ملازمت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی اور مناسب صحت کے حامل افراد کو محفوظ یا ریزرو دستے کا حصہ بنالیا جاتاہے۔ اس وقت غزہ میں پونے دولاکھ فعال سپاہ کے شانہ بشانہ ۳لاکھ محفوظ سپاہی لڑائی میں شریک ہیں، جوایک ماہ محاذ پر گزار کر ۳۰ دن آرام کرتے ہیں۔
ابھی ان اسرائیلی باغیوں کی گوشمالی کا کام شروع ہی ہوا تھا کہ اسرائیلی بحریہ کے ۱۵۰سے زیادہ ریٹائرڈ افسران نے وزیردفاع کے نام ایسا ہی ایک خط لکھ مارا۔ بحریہ کے افسران نے غزہ خونریزی فوراً بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’بے مقصد جنگ سے اسرائیل کو مالی و جانی نقصان اور عالمی سطح پر بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ جنگ دوبارہ شروع کرکے وزیراعظم نے ۵۹؍اسرائیلی قیدیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے‘‘۔ شام کو میڈیکل کور کے سیکڑوں افسران نے اسی مضمون کا پیغام اپنی قیادت کو بھجوادیا۔ عبرانی چینل ۱۲ کے مطابق اسرائیلی بکتر بند دستے کے سیکڑوں اہلکاروں نے بھی فوج کے سربراہ کے نام خط میں کہا ہے:’’غزہ میں جاری لڑائی اسرائیل کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے لڑی جا رہی ہے‘‘۔
جمعہ ۱۱؍ اپریل کو فوج کے انتہائی اہم ۸۲۰۰؍انٹیلی جنس یونٹ کے ۲۵۰ ایجنٹوں کی طرف سے لکھے جانے والے خط نے اسرائیلی قیادت کو مزید پریشان کردیا۔جدید ترین ٹکنالوجی سے مزین ۱۸ سے ۲۱ سال کے ۵ہزار نوخیز جوانوں پر مشتمل اس یونٹ کو اسرائیلی فوج کا دل ودماغ اور اصل قوت سمجھا جاتا ہے۔ اپنے خط میں ان افسران نے کہا کہ طویل اور بے مقصد جنگ نے اسرائیلی فوج کو تھکادیا ہے اور لڑائی سے ہمارے قیدیوں کے لیے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ خط میں جنگ ختم کرکے سفارتی کوششوں کے ذریعے قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔یونٹ ۸۲۰۰ کے خط پر وزیراعظم نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہمارے دشمنوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔
اس سے قبل ۱۴ فروری کو موساد کے سابق سربراہوں اور سیکڑوں سابق ایجنٹوں نے بھی جنگ بندی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور وزیراعظم کے نام کھلے خط میں انھوں نے قیدیوں کی رہائی کی خاطر فوری امن معاہدے کا مطالبہ کردیا: ’’لڑائی دوبارہ شروع کرکے نیتن یاہو نے اسرائیلی قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں‘‘۔ اس خط پر موساد کے سابق سربراہ دانیال جاسم، ابراہیم حلوی اور تامر پاردو کے علاوہ۲۵۰سابق افسران کے دستخط ہیں۔
امریکی یونی ورسٹیوں میں غزہ نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل دینے کاسلسلہ جاری ہے۔ جمعہ ۱۱؍ اپریل کو غزہ نسل کشی کے خلاف کولمبیا یونی و رسٹی میں طلبہ تحریک کے قائد محمود خلیل کی امریکا بدری کا فیصلہ سنادیا گیا۔محمود کے خلاف کسی پُرتشدد واقعے میں شرکت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔ گرین کارڈ ہولڈر محمود خلیل کے خلاف فردِ جرم، وزیرخارجہ مارکو روبیو کی دوصفحاتی یادداشت پر مشتمل ہے، جس پر تاریخ بھی درج نہیں ہے۔ میمو میں وزیرخارجہ نےتحریر کیاکہ ' ۷ مارچ کو انھیں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ سے خلیل کے بارے میں معلومات ملی تھیں کہ خلیل کے امریکا میں قیام سے سام دشمنی کا مقابلہ کرنے کی امریکی خارجہ پالیسی کے مقصد کو نقصان پہنچے گا۔یہود مخالف مظاہروں کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے۔ لوزیانہ کی امیگریش جج جیمی کومنز نے اپنے مختصر فیصلے میں لکھا: ’’میرے پاس مارکو روبیو کے خدشات پر سوال اٹھانے کا کوئی اختیار نہیں‘‘۔ فیصلہ سننے کے بعد محمود خلیل نے جج صاحبہ کو مخاطب کرکے کہا: ’’یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ حکومت نے مجھے اس عدالت میں بھیجا ہے، جو میرے خاندان سے ایک ہزار میل دُور ہے‘‘۔ جواں سال محمود خلیل ۸مارچ سے نظر بند ہے۔پیر ۱۴دسمبر کو کولمبیا یونی ورسٹی کے ایک اور طالب علم محسن مہدوی کو ریاست ورمونٹ (Vermont) سے اس وقت گرفتار کرلیا گیا، جب وہ شہریت کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا۔ دوسری طرف غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو روکنے میں ناکامی پر صدر ٹرمپ نے کورنیل یونی ورسٹی کی ایک ارب اور نارتھ ویسٹرن یونی ورسٹی کے لیے ۷۹کروڑ ڈالر کی وفاقی گرانٹ معطل کردی ہے۔
اس کے باوجود عرب ممالک کا تل ابیب سے تعاون جاری ہے۔ اپریل کے مہینے میں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فضائی مشقوں میں قطر اور متحدہ امارات نے شرکت کی۔ خلیج یونان پر ہونے والی اس مشق میں امریکا، انڈیا ، فرانس، اٹلی اور پولینڈ شریک ِ کار تھے، اور غزہ میں اسی طرح شہیدوں کے بے گوروکفن لاشے پڑے رہے۔ جھلستی دُھوپ میں اہل غزہ کو گھروں سے نکال کر جبری طور پر بکھیرا جاتا رہا۔
آج صبح ایک صحافی دوست نے فون کیا۔ ان کی کال کا مقصد حال ہی میں نافذ کیے گئے ’وقف (ترمیمی) ایکٹ ۲۰۲۵‘ پر حقائق کو جاننا تھا۔ واضح رہے کہ مسلمانوں سے متعلق ’وقف ایکٹ ۱۹۹۵/۲۰۱۳‘ میں ترمیم کو حکومتِ ہند نے ’لوک سبھا‘ (ایوانِ زیریں)اور ’راجیہ سبھا‘ (ایوانِ بالا) سے منظور کروا کر صدرِ ہند کے دستخط کے بعد باضابطہ طور پر نافذ کر دیا ہے۔ وقف کے قانون میں کی گئی یہ تبدیلی ملک بھر میں بحث و مباحثے کا موضوع بنی ہوئی ہے، اور مختلف مقامات پر اس کے خلاف احتجاج بھی جاری ہیں۔صحافی دوست کا ایک اہم سوال تھا: ’’ترکیہ اور سعودی عرب میں ’وقف‘ ریاست کے ماتحت ہے، تو پھر یہاں ہندستان کے مسلمانوں کو اس پہ اعتراض کیوں ہے؟‘‘ یہ ایک ایسا سوال ہے، جسے عوام کے ذہنوں میں ڈالنے کا کام خود حکومتِ ہند نے کیا ہے۔
جب سے ہندستان میں مسلمانوں کے خلاف ’لینڈ جہاد‘ (Land Jihad) کا من گھڑت پروپیگنڈا زور پکڑنے لگا، اسی وقت ترکیہ اور دیگر مسلم ممالک کا نام لے کر یہ تاثر پھیلایا گیا کہ ان ممالک میں وقف کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ ۸؍ اگست ۲۰۲۴ء کو جب ’وقف (ترمیمی) بل‘ لوک سبھا میں پیش کیا گیا، تو حکومت ہند نے اس بل کے حوالے سے ایک وضاحتی بیان سوال و جواب کی شکل میں جاری کیا۔ اس بیان میں ایک سوال یہ بھی تھا:’’کیا تمام مسلم ممالک کے پاس وقف جائیدادیں ہیں؟‘‘جس کے جواب میں کہا گیا: ’’نہیں، تمام مسلم ممالک کے پاس وقف جائیدادیں نہیں ہیں۔ ترکیہ، لیبیا، مصر، سوڈان، لبنان، شام، اردن، تیونس اور عراق میں وقف نہیں ہے۔ تاہم، بھارت میں نہ صرف وقف بورڈز سب سے بڑے شہری اراضی کے مالک ہیں بلکہ ان کے پاس ایک ایسا قانون بھی ہے جو انھیں قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے‘‘۔
پھر ۲؍ اپریل ۲۰۲۵ءکو جب ’لوک سبھا‘ میں وقف (ترمیمی) بل پر بحث ہو رہی تھی، تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ، سمبیت پاترا اور نشی کانت دوبے نے اپنی تقریروں میں دعویٰ کیا کہ کئی اسلامی ممالک جیسے ترکیہ، لیبیا، مصر، سوڈان، لبنان، شام، اردن، تیونس اور عراق میں وقف کا تو کوئی نظام موجود ہی نہیں ہے۔ مگر اگلے ہی روز، یعنی ۳؍ اپریل ۲۰۲۵ءکو راجیہ سبھا میں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے کہا: ’’ترکیہ میں تمام وقف املاک کو بہتر انتظام اور شفافیت کے لیے ریاست کے کنٹرول میں لے لیا گیا۔ یہ کب کیا گیا؟ ۱۹۲۴ء میں، یعنی ۱۰۰ سال پہلے‘‘۔
جے پی نڈا اس بات سے واقف نہیں ہوں گے کہ ترکیہ میں وقف کا نظام خلافتِ عثمانیہ سے بڑی مضبوطی سے قائم ہو چکا تھا۔ اور آج تو حقیقت یہ ہے کہ ترکیہ میں وقف محض ایک خیراتی ادارہ نہیں، بلکہ ایک مؤثر اقتصادی ایجنسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف سماجی بہبود کا علَم بردار ہے، بلکہ ملک کی معاشی ترقی اور مجموعی خوش حالی سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے۔
یہاں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ جب ہندستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی، تب ہندوستان میں ترکیہ اور دیگر مسلم ممالک کی طرز پر اوقاف کی ایک وزارت یا محکمہ قائم کیے جانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ دی ٹائمز آف انڈیا میں ۱۷جولائی ۱۹۲۸ء کو شائع ایک خبر کے مطابق، شملہ میں ستمبر کے اجلاس کے دوران قانون ساز اسمبلی میں غیر سرکاری قراردادوں کے لیے مختلف موضوعات پر قراردادوں کے نوٹس دیے گئے تھے۔ ان ہی نوٹس میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن سرعبدالحلیم خان غزنوی (۱۸۷۶ء-۱۹۵۳ء) کا بھی تھا۔ اخبار لکھتا ہے: ’’مسٹر اے- ایچ- غزنوی، جنھوں نے پہلے ہی مسلمانوں کے اوقاف ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک بل پیش کرنے کی اجازت طلب کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے، ایک قرارداد بھی رکھتے ہیں جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’اوقاف کے انتظامات کی جانچ پڑتال کے لیےسرکاری و غیر سرکاری افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، تاکہ ہندوستان میں ترکی اور دیگر مسلم ممالک کی طرز پر اوقاف کی ایک وزارت یا محکمہ قائم کیا جا سکے‘۔ ۱۹نومبر ۱۹۲۹ء کے ٹائمز آف انڈیا کے مطابق: ’’مسٹر غزنوی نے قانون ساز اسمبلی میں وقف کا یہ مسئلہ پھرسے اٹھایا‘‘… ایک اور سوال کے ذریعے وہ [مسٹر اے- ایچ- غزنوی] مطالبہ کرتے ہیں کہ ’’حکام اور غیر سرکاری افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو ہندستان میں اوقاف کے انتظامات کی جانچ کرے، تاکہ ترکی اور دیگر مسلم ممالک کی طرح ایک ’محکمہ برائے مذہبی اوقاف‘ قائم کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ جناب غزنوی اسی مقصد کے لیے اسمبلی میں ایک بل پہلے ہی پیش کر چکے ہیں‘‘۔
بہرحال، ترکیہ میں وقف مینجمنٹ کے لیے ایک پورا سسٹم موجو دہے۔ سرکاری ادارہ Vakıflar Genel Müdürlüğü یعنی General Directorate of Foundations ترکیہ کے وقف کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ ’’ترکیہ میں کوئی بھی فرد اپنا نجی وقف قائم کر سکتا ہے اور اس میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہوتا‘‘۔ یہ بات ابھی گذشتہ دنوں ہی میرے ایک ترکش دوست نے بتائی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی زبان میں ’وقف‘ کو Vakif لکھا جاتا ہے اور انگریزی میں اسے ’فاؤنڈیشن‘ کہا جاتا ہے۔
ترکیہ میں ’وقف‘ کے نظام کی تاریخ
ترکیہ، خلافت عثمانیہ کے جانشین ملک کے طور پر، ’وقف‘ کے میدان میں ایک گہری اور بھرپور وراثت کا حامل ہے۔ خلافت عثمانیہ کے قیام کے وقت سے ہی، وقف کو روایتی طور پر ان کے نگہبانوں کے ذریعے ہی سنبھالا جاتا تھا۔ عام طور پر، نگہبان وہ لوگ ہوتے تھے جو ’اوقاف‘ کے بانی ہوتے تھے اور ان کی وفات کے بعد، ان کے بچے اور نسلیں ان کے منتظمین بن جاتے تھے۔
صباح الدین یونی ورسٹی استنبول کے اوزان مراشلی کے مطابق، ان نجی طور پر قائم کردہ اوقاف کے علاوہ، ایسے irsādī اوقاف بھی موجود تھے جو سلاطین نے ریاستی بجٹ سے مختص رقم کے طور پر وقف کیے تھے۔ یہ ریاستی سرپرستی میں قائم اوقاف اعلیٰ عہدے داروں، جیسے صدرِ اعظم اور شیخ الاسلام (اعلیٰ مذہبی اتھارٹی)، کی نگرانی میں تھے۔اس کے بعد اوقاف کا انتظام ۱۸۲۶ء میں مرکزی حکومت کے تحت آ گیا، جب کہ مکہ اور مدینہ کی دو مقدس مساجد سے متعلق وقف کی ایک خصوصی وزارت قائم کی گئی، جسے ’وزارتِ اوقافِ شاہی‘ (Evkâf-ı Hümâyun Nezâreti) کہا گیا۔ یہ عثمانی تاریخ میں ایک اعلیٰ بورڈ تشکیل دینے کی پہلی کوشش تھی، جو اسی طرح کے مقاصد کے لیے وقف کیے گئے تھے۔ بعد میں، اس وزارت کے دائرۂ کار کو بڑھا کر ان اوقاف تک پھیلایا گیا، جو سلاطین، ان کے اہلِ خانہ اور پاشاؤں نے قائم کیے تھے۔ ڈاکٹر اوزان مراشلی نےسال ۲۰۲۲ء میں ترکیہ میں وقف کا معاشی نظام عنوان پر پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی ہے۔
غورطلب رہے کہ irsādī وقف وہ وقف ہے، جو حکومت کے ذریعے قائم کیے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے مخصوص آمدنی کے ذرائع کو مخصوص فلاحی مقاصد کے لیے مختص کیا گیا ہے، بجائے اس کے کہ یہ ایک جائز وقف ہو، جو کسی فرد یا انجمن کے ذریعے قائم کیا جائے۔ ترکیہ میں اس نوعیت کے وقف کی معروف مثالوں میں سوشل ایڈ اینڈ سولیڈیریٹی وقف، ترک ماحولیاتی تحفظ وقف اور ترک معارف فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ترکیہ میں ۱۰۰۲ (ایک ہزار دو) سوشل ایڈ اینڈ سولیڈیریٹی وقف موجود تھے، جن کی ہر ضلع میں کم از کم ایک شاخ موجودہے۔ ان کا بنیادی مقصد غریبوں اور ضرورت مندوں کو براہ راست مالی و مادی امداد فراہم کرنا ہے، تاکہ ان کی خوراک، رہائش، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر ضروریات پوری کی جا سکیں۔
۲ مئی ۱۹۲۰ء کو وقف کے انتظامی معاملات کو ترکیہ کی پہلی ’گرینڈ نیشنل اسمبلی‘ نے وزرا کے انتخاب کا ایک قانون منظور کیا، جس کے تحت ’وزارتِ شریعت و اوقاف‘ (Şeriye ve Evkaf Vekâleti) قائم کی گئی جس نے پرانی ’وزارتِ اوقافِ شاہی‘ کی جگہ لے لی۔ حالانکہ اس دورکے ابتدائی حصے میں پرانی ’وزارتِ اوقافِ شاہی‘ بھی فعال تھی، خاص طور پر استنبول کے علاقے میں۔ ۳مارچ ۱۹۲۴ء کو وزارتِ شریعت و اوقاف کو ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے ماتحت ایک نیا ادارہ،’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف وقف‘قائم کیا گیا۔
مرات چیزاکچا نے اپنے ریسرچ پیپر From Destruction to Restoration: Islamic Waqf in Türkiye and Malaysia میں لکھا ہے: ’’۱۹۶۷ء کے نئے وقف قانون نے ترکیہ میں وقف کے نظام کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ ’صرف اوقاف کے جائیداد کے حقوق کی دوبارہ ضمانت نہیں دی گئی، بلکہ وقف اور کمپنیوں کے روابط کو بھی مضبوط کیا گیا‘‘۔
ڈاکٹر مراشلی اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسس میں لکھتے ہیں:’’ ترکیہ میں سب سے حالیہ وقف قانون ۲۰۰۸ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت تمام حکومتی اداروں کو پابند کیا گیا کہ وہ قبضے میں لی گئی وقف جائیدادیں اصل اوقاف کو واپس کریں۔ اس حوالے سے، صرف استنبول میں، ۷۷ اہم وقف جائیدادیں اس قانون کے تحت واپس کی گئیں، جن میں سلیمانیہ مسجد، فاتح مسجد، سلطان احمد مسجد (بلیو مسجد)، آیاصوفیہ مسجد، حرکۃِ شریف مسجد، ایوپ سلطان مسجد، یینی مسجد، بیشکتاش ووڈافون پارک اسٹیڈیم (جزوی)، شیشلی اطفال ہسپتال، عدیلہ سلطان محل، معمار سنان گوزل سنات یونی ورسٹی، گالاتا ٹاور، مسالہ بازار، اور گرینڈ بازار شامل ہیں۔
ایک اور اہم پیش رفت جوترکیہ کے ’ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فاؤنڈیشنز ‘ نے شروع کی، وہ ہے پرانی وقف جائیدادوں کی بحالی۔ جس کے تحت سال ۲۰۱۸ء کے آخر تک تقریباً ۵ہزار۲سو۵۰ وقف املاک کو بحال کیا گیا۔ یہ بحالی ’بحال کرو، چلاؤ، منتقل کرو‘ یا ’تعمیر کرو، کرایہ پر دو/چلاؤ، منتقل کرو‘ جیسے طریقوں پر کی گئی۔
آج ترکیہ میں وقف کی پانچ مختلف اقسام ہیں، جو کہ ’مضبوط‘ (mazbūt) وقف، نئے وقف، ’ملحق‘ (mülhak) وقف، اقلیتی وقف اور ’ارسادی‘ (irsādī) وقف ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء تک ترکیہ میں ۵۲ہزار مضبوط (mazbūt) وقف، ۵ہزار۲سو۶۸ نئے وقف — جو ۱۹۲۶ء کے بعد قائم ہوئے ہیں، ۲۵۶ ملحق (mülhak) وقف، اور غیر مسلم اقلیتی کمیونٹیز کے ۱۶۷ وقف موجود تھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ ’مضبوط (mazbūt) وقف‘ وہ وقف ہیں، جن کا انتظام اور نمائندگی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فاؤنڈیشنز (DGF) کے ذریعے کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کا کوئی منتظم نہیں تھا جب سے انھیں ریاست کے ہاتھوں منتقل کیا گیا تھا۔ ان کی آمدنی کا اہم ذریعہ ان جائیدادوں سے کرائے کی آمدنی ہے، اوریہ آمدنی ان مقاصد کے لیے، جو ان کے وقف ناموں (waqfiyah) میں درج ہیں، جیسے کہ قرآن کی تلاوت، غریبوں، محتاجوں اور مسافروں کو خوراک فراہم کرنا، ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے طلبہ کو وظائف دینا، یتیموں اور معذوروں کو ماہانہ وظیفے دینا، تعلیمی، صحت کی دیکھ بھال اور سماجی امداد کے ادارے اور سہولتیں قائم کرنا، عوام کے لیے سوپ کچن چلانا، اور غریب اور محتاج غیر ملکی مریضوں کا علاج کروانا وغیرہ پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ’ملحق (mülhak) وقف‘ سلطنت عثمانیہ کے ان اوقاف کو کہا جاتا ہے، جو ۱۹۲۶ء سے قبل قائم ہوئے تھے اور آج بھی ان کے بانیوں کی نسلوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
اگست ۲۰۱۹ء تک، ترکیہ میں ۵ہزار ۲سو ۶۸ نئے وقف قائم ہوئے ہیں، جو ۱۹۲۶ء کے بعد بنائے گئے ہیں۔ اسی نئے وقف کے تحت فی الحال، ترکیہ میں ۷۳ وقف یونی ورسٹیاں اور چار پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم کے اسکول ہیں، جن میں ۸ لاکھ ۲۸ ہزار ۶ سو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ وقف اسلامی تعلیم کے لیے بھی قائم کیے گئے ہیں، جب کہ کئی دوسرے وقف ہیں جنھوں نے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے ساتھ ساتھ پری اسکول کے ادارے بھی قائم کیے ہیں، جن کا ترک معیشت پر قابلِ ذکر اثر ہے۔ کچھ وقف ایسے بھی ہیں جو ثانوی اور تیسری سطح کی تعلیم میں کامیاب طلبہ کو وظائف دیتے ہیں۔ کئی وقف ایسے قائم کیے گئے ہیں جو تعلیم کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے آگاہی اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکیہ کے معاصر وقف نظام کی ایک اہم اور جدید ترین شکل ’وقف کمپنیوں‘ کی صورت میں سامنے آئی ہے، جو نہ صرف فلاحی مقاصد کے لیے قائم کی جاتی ہیں بلکہ معاشی قدر بھی پیدا کرتی ہیں، اور یوں وقف کی روایت کو ایک نئے انداز میں آگے بڑھاتی ہیں۔
اقلیتی (کمیونٹی) یعنی غیرمسلموں کے ’وقف‘ ترکیہ کی سرحدوں میں بسنے والی غیر مسلم برادریوں نے ترک جمہوریہ کے قیام سے قبل قائم کیے تھے۔ آج کے دور میں، ترکیہ میں کل ۱۶۷ اقلیتی اوقاف رجسٹر ہیں، جو رومن آرتھوڈوکس، آرمینیائی آرتھوڈوکس، کیتھولک، اور یہودی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اوقاف چرچوں، خانقاہوں، یا اسکولوں کے لیے وقف ہیں۔ انھیں ’جماعت وقف‘ (Cemaat Vakıfları) بھی کہا جاتا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فاؤنڈیشنز (DGF) کی ویب سائٹ کے مطابق، وہ اوقاف جن کے مرکزی دفاتر بیرونِ ملک واقع ہیں اور جن کی ترکیہ میں شاخیں یا نمائندہ دفاتر موجود ہیں (یعنی غیر ملکی اوقاف)، وہ بین الاقوامی سطح پر تعاون کو مفید سمجھنے کی صورت میں، باہمی اصول (ریسپروسٹی) کے تحت، وزارتِ خارجہ اور بوقتِ ضرورت دیگر متعلقہ اداروں کی رائے لینے کے بعد، وزارتِ داخلہ کی اجازت سے ترکیہ میں سرگرمیوں، شراکت، شاخ یا نمائندہ دفاتر کے قیام، اعلیٰ ادارے (فیڈریشن وغیرہ) کے قیام، پہلے سے قائم اعلیٰ اداروں میں شمولیت یا پہلے سے قائم اوقاف کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، بیرونِ ملک قائم اوقاف کی ترکیہ میں شاخیں یا نمائندہ دفاتر کھولنے اور یہاں سرگرمیاں یا شراکت داری قائم کرنے کے لیے اجازت دینے کے معاملات پر انجمنوں سے متعلق قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس دائرہ کار میں، غیر ملکی اوقاف سے متعلق تمام اُمور و کارروائیاں ’سول سوسائٹی سے تعلقات کی جنرل ڈائریکٹوریٹ ‘ کے ذریعے طے قوانین کے تحت انجام دی جاتی ہیں۔
ترکیہ میں نقد وقف کے ذریعے قائم کردہ وقف بینک
ترکیہ میں ’نقد وقف‘ (Cash Waqf) کا ایک منظم اور مضبوط نظام بھی موجود ہے، جسے ابتدائی طور پر شہریوں کو جائیداد اور دیگر مقامی ٹیکسوں کی ادائیگی میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ان اوقاف کے ذریعے عوام سے فنڈز جمع کیے جاتے تھے، اور ٹیکس ریلیف کے علاوہ ان فنڈز کو مقامی سطح پر مختلف سماجی اور کمیونٹی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر اوزان مراشلی کے مطابق، ۱۹۵۴ء میں ’ڈیموکریٹ پارٹی‘ کے دورِ حکومت میں نقد اوقاف کے سرمائے کو استعمال کرتے ہوئے وقف بینک (Vakıf Bank) قائم کیا گیا تھا۔ آج ’وقف بینک‘ ،ترکیہ کے ہر شہر میں اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے، اور اثاثوں کے حجم کے لحاظ سے ملک کا دوسرا سب سے بڑا بینک شمار ہوتا ہے۔ وقف بینک کے علاوہ ترکیہ میں ایک اور بینک ’وقف پارٹی سپیشن بینک‘ (Vakıf Katılım Bank) بھی موجود ہے، جو ایک شراکت داری (اسلامی) بینک کے طور پر کام کرتا ہے، جس سے وقف کے ورثے اور اس کے ترکیہ کے جدید مالیاتی نظام میں کردار کو مزید وسعت ملتی ہے۔
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ترکیہ میں ایک اور ’ایش بینک‘ (İş Bankası) بھی وقف بینک کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہندستانی مسلمانوں کی طرف سے ۱۹۲۲ء میں بھیجے گئے عطیات کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔میرے پاس موجود تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ میرے آبائی شہر چمپارن (بہار) کے لوگ بھی عطیہ دہندگان میں شامل تھے۔ مصطفےٰ کمال پاشا نے اس فنڈ کو جنگ کے بعد ملک کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ اسی فنڈ کی بنیاد پر ’ایش بینک‘ قائم کیا۔
انقرہ میں وقف میوزیم کا آنکھوں دیکھا حال
ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ کی ’ملکہ خاتون مسجد‘ کے بائیں جانب ’وقف ورکس میوزیم‘ ہے۔ اس میوزیم کے اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ میوزیم ۲۰۰۹ء میں یورپی میوزیم فورم کی جانب سے نامزد کیا گیا۔اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ترکیہ کے وقف نظام سے متعلق کئی اہم کتابوں، مخطوطات اور وقف پر نکلنے والے میگزین کا دیدار ہوتا ہے، جسے پڑھ کر ترکیہ کے وقف کے نظام کو کافی بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ان میں زیادہ تر مواد ترکی زبان میں ہے، تاہم یہ وقف کے نظام پر گہری بصیرت فراہم کرتا ہے۔ جیسے جیسے آپ اندر کی جانب بڑھتے ہیں، میوزیم میں قالین، دری، قدیم گھڑیاں، تاریخی برتن، خطاطی کے فن پارے اور نایاب مخطوطات سمیت مختلف نادر اشیاء کی نمائش کی گئی ہے۔
اسی میوزیم میں مولانا جلالالدین رومی کی مثنوی، جسے ۱۲۷۲ ہجری میں درویش مہمت فہمی [محمد فہمی]نے فارسی میں لکھا تھا، موجود ہے۔ اس میوزیم میں آکر ہی پتہ چلا کہ ۱۶ویں صدی سے لے کر ۲۰ویں صدی کی پہلی سہ ماہی تک، مسلمانوں کے نزدیک سب سے مقدس مقام خانہ کعبہ کا غلاف ہر سال بلاانقطاع سلطنتِ عثمانیہ سے مکہ مکرمہ بھیجا جاتا تھا۔ اس موقع پر ترکیہ میں ایک عظیم الشان تقریب ’سُرّہ-ہمایوں‘ کے نام سے منعقد کی جاتی تھی۔ ابتدا میں غلافِ کعبہ، جسے 'ستارہ ' بھی کہا جاتا ہے، مصر میں تیار کیا جاتا تھا۔ تاہم، سلطان احمد اول کے دورِ حکومت میں اس کی تیاری سلطنتِ عثمانیہ کو منتقل کر دی گئی، جہاں یہ استنبول کے شاہی محل کے زیرِ نگرانی تیار ہوتا اور پھر سُرّہ عَلائی (وہ فوجی دستہ جو عثمانیوں کی جانب سے جمع کردہ امداد کعبہ لے جاتا تھا) کے ذریعے خانہ کعبہ تک پہنچایا جاتا۔
یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اٹھارھویں صدی کے کعبہ کے دو غلاف، جو نیوشہرلی داماد ابراہیم پاشا، جو ایک مشہور وزیر اعظم تھے، نے نیوشہر میں بنائی گئی قُرشُنلو مسجد کو حج کے بعد وقف کیے تھے۔ یہ دونوں غلاف ۲۰۰۳ء میں نیوشہر کی قُرشُنلو مسجد سے چوری کر لیے گئے تھے اور جنرل ڈائریکٹوریٹ آف فائونڈیشنز نے اس کی اطلاع ملکی اداروں، تنظیموں اور دیگر ممالک کو دی۔ جب ان غلافوں کو لندن میں ایک قدیم اشیاء کے تاجر فرانسسکا گیلوے کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی، تو تاجر نے ’ٹوپ کاپی محل‘ کے میوزیم سے ان اشیاء کے بارے میں رائے مانگی۔ میوزیم کی ڈائریکٹریٹ نے فاؤنڈیشنز جنرل ڈائریکٹوریٹ کو مطلع کیا اور اس موضوع پر تحقیقات کے بعد ۲۴ فروری ۲۰۰۴ء کو ترک سفارت خانے نے یہ تاریخی کعبہ کے غلاف فاؤنڈیشنز جنرل ڈائریکٹوریٹ کو واپس کردیے۔ اب یہ دونوں غلاف اسی میوزیم میں محفوظ ہیں۔
میوزیم میں موجود خوب صورت قالینوں اور دریوں کو دیکھ کر میں حیران ہوا کہ ان کا وقف سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ دریافت پر معلوم ہوا کہ ماضی میں جنازوں کے دوران میت کے تابوت پر قالین بچھانا عام رواج تھا، اور تدفین کے بعد اہلِ خانہ یہ قالین بطورِ صدقہ مسجد کو وقف یا عطیہ کردیتے تھے۔ یہ قالین، جو نہ صرف نفیس ڈیزائن کے حامل ہوتے بلکہ جذباتی اور تاریخی اہمیت بھی رکھتے تھے، اب اس میوزیم میں محفوظ اور نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ، سیکڑوں قالین مزید بھی محفوظ ہیں جو فی الحال نمائش کا حصہ نہیں ہیں۔اس میوزیم کا بنیادی مقصد ان لوگوں کی یادگاروں کو محفوظ رکھنا اور پیش کرنا ہے، جنھوں نے وقف کی تہذیب کو پروان چڑھایا۔ اس کے ذریعے نئی نسلوں کو وقف کی عظمت، اس کی معاشرتی اہمیت اور اس کے دیرپا اثرات سے روشناس کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سعودی عرب میں وقف کا نظام
سعودی عرب میں بھی وقف مینجمنٹ کا ایک بہترین نظام موجود ہے۔ یہاں کی ’جنرل اتھارٹی برائے اوقاف‘ (GAA) وقف املاک کی دیکھ بھال اور ترقی کی نگرانی کرتی ہے، تاکہ انھیں اقتصادی اور سماجی ترقی کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے، اور ساتھ ہی واقف کی نیت و ارادے کو بھی محفوظ رکھا جا سکے۔ اس کے علاوہ یہاں وزارت حج و اوقاف اور وقف کی اعلیٰ کونسل بھی موجود ہے۔
سعودی عرب نے وقف کے نظام کو بہت سنجیدگی سے منظم کیا ہے۔ ۱۹۶۶ء میں سعودی عرب نے اس مقصد سے وقف محکمہ قائم کیا۔ بنیادی طور پر، وقف کا یہ محکمہ مختلف وقف سے متعلقہ امور کو سنبھالنے کا ذمہ دار ہے، جیسے کہ وقف املاک کی منصوبہ بندی اور ترقی، منظور شدہ وقف پروگراموں کا فروغ، وقف کی آمدنی کو مستحق افراد میں تقسیم کرنا۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ سعودی عرب نے وقف کی نگرانی اور ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے ہیں، جن میں ’وزارت حج و اوقاف‘ کا قیام بھی شامل ہے۔ یہ وزارت وقف کو ’واقف‘ کی شرائط کے مطابق فروغ دینے اور نافذ کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اسی کے ساتھ، وقف پالیسی کی نگرانی کے لیے حکومت نے ایک ’وقف اعلیٰ کونسل‘ قائم کی، جس کی صدارت وزیر حج و اوقاف کرتے ہیں۔ اس کونسل کے ارکان میں وزارت انصاف کے اسلامی قانون کے ماہرین، وزارت معیشت و خزانہ کے نمائندے، محکمہ نوادرات کا ڈائریکٹر، اور تین افراد اہل دانش اور صحافیوں میں سے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کونسل وقف کی ترقی سے حاصل شدہ آمدنی کے استعمال اور ’واقف‘ کی شرائط کے مطابق وقف کے فروغ کے اقدامات کے تعین کا اختیار رکھتی ہے۔
سعودی عرب میں وقف کی مختلف اقسام موجود ہیں، جیسے ہوٹل، زمینیں، رہائشی عمارتیں، دکانیں، باغات، اور عبادت گاہیں۔ ان میں سے کچھ ’اوقاف‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جسے مقدس و محترم شہروں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، وقف سے حاصل ہونے والے تمام فوائد کا مقصد ان دونوں مقدس شہروں کی ترقی ہے، جیسے رہائشی مکانات کی تعمیر، مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کے گرد ہوٹلوں کی تعمیر، اور دیگر سہولیات جو حجاج کرام اور عمرہ زائرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ عوام براہِ راست ان وقف املاک سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، جنھیں حکومت نے منظم کیا ہے، یہاں تک کہ بیرون ملک سے آنے والے حجاج کرام بھی ان سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں اور مکہ و مدینہ میں جاری ترقی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق۲۰۲۰ء تک، وہ وقف املاک جو جنرل اتھارٹی آف اوقاف (GAA) کے تحت منظم کی جا رہی تھیں، ان کی مجموعی مالیت ۶۳؍ ارب امریکی ڈالر تھی۔
سعودی عرب میں وقف کا ایک منظم اور مؤثر نظام موجود ہے، جس کا ہندوستان میں رائج وقف نظام سے کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی، سعودی عرب میں جمہوریت کا نظام نہیں ہے، جب کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ اس لیے انڈین حکمرانوں کی یہ ساری منطق بے معنی اور غیرحقیقی اور مضحکہ خیز ہے کہ ’’ترکیہ و سعودیہ میں بھی تو وقف ریاست کے کنٹرول میں ہے‘‘۔ ہم نے دونوں ممالک میں اوقاف کی نوعیت اور عملی صورت بیان کردی ہے جن کا نام لے کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے: ’’امریکا کی نام نہاد ’وار آن ٹیرر‘ کیا ختم ہو گئی ہے ؟ یہ امریکی کھیل کب تک جاری رہے گا ؟ اس جنگ کی نوعیت اور شکل کیا ہے ؟‘‘
اُردن کی حکومت نے ۲۳؍ اپریل کی سہ پہر ملک کی سب سے مؤثر جماعت ’اخوان المسلمون‘ پر مکمل پابندی عائد کرنے سے ایک ہفتہ پہلے اس کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم چلا رکھی تھی، اور پھر پابندی عائد کرتے ہی اس کے تمام دفاتر کو بند کرکے اس کے اثاثے ضبط کر لیے۔ وزیرِ داخلہ مازن فرایہ نے اعلان کیا: ’’یہ فیصلہ جماعت کے ایک رہنما کے بیٹے کے ہمراہ پندرہ افراد کی گرفتاری کے بعد کیا گیا ہے۔ اخوان المسلمون کی تمام سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے اور جو کوئی بھی اس کے نظریات اور کتب کو پھیلائے گا، اسے قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے گی۔ اس پابندی میں جماعت کے دفاتر اور املاک کی بندش اور ضبطی شامل ہے۔ اخوان نے غیرقانونی طور پر اپنا دفتری ریکارڈ تلف کیا ہے‘‘۔ حکومت نے سوشل میڈیا پر اخوان کی حمایت یا اس کی کسی سرگرمی کو پھیلانے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
پابندی کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے ہی پولیس نے اخوان المسلمون کے مرکزی دفتر کا محاصرہ کرکے تلاشی شروع کردی تھی۔ اخوان کئی عشروں سے اُردن میں قانونی طور پر سرگرم ہے اور تمام بڑے شہروں میں اسے وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے۔
اُردن، طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں استحکام کی علامت سمجھا جارہا ہے۔ اُردن نے ۱۹۹۴ء میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی فلسطینی نژاد ہے۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف عوامی غم و غصے کی لہر موجود ہے، جس کا فائدہ اخوان المسلمون اور اس سے وابستہ جماعتوں کو عوامی حمایت کی صورت میں ملا ہے۔ تھنک ٹینک ’مڈل ایسٹ آئی‘ (MEE) کی ۲۷؍اپریل کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق: ’’اُردن میں اخوان کے خلاف یہ مہم سعودیہ، امارات اور اسرائیل کے مربوط دبائو کے تحت چلائی جارہی ہے۔ یاد رہے گذشتہ ۱۸ ماہ سے اُردن میں اسرائیل کے خلاف تقریباً روزانہ عوامی مظاہرے ہورہے ہیں‘‘۔
اسی طرح مشرق وسطیٰ کے کئی عوامی اور سیاسی و علمی حلقوں نے اخوان المسلمون کے خلاف ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔ مغربی ممالک کی انجمنوں نے بھی اس اقدام کو سیاسی دباؤ اور آزادیوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے کہ ایسی کارروائیاں معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی کو نقصان پہنچاتی ہیں اور علاقے میں مزید تناؤ کو جنم دیتی ہیں۔
درحقیقت یہ سب ایک پرانا کھیل دُہرایا جا رہا ہے، جیسا کہ ۲۰۰۳ء میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور امریکی صدر بش نے عراق کو صریحاً جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کرکے لاکھوں انسانوں کے قتل و غارت کا کھیل کھیلا تھا۔اب وہی عالمی سامراجی عناصر مسلم دُنیا میں جگہ جگہ اسلامی قوتوں کو نشانہ بنانے کے لیے من گھڑت الزامات عائد کر کے اور کمزور مسلم حکمرانوں کو ڈرا کر، انھیں اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف ایسے اقدامات پر اُبھارتے ہیں۔
۲۳؍اپریل کی شام تل ابیب سے انٹرنیٹ پر شائع شدہ اخباری اطلاع میں یروشلم پوسٹ نے اخوان پر پابندی کو اطمینان کی نظر سے دیکھتے ہوئے لکھا :’’اخوان المسلمون نے اُردن کی رائے عامہ کو اسرائیل کے خلاف کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بڑے پیمانے پر جلسے جلوس منعقد کیے تھے۔ یہ چیز اسرائیل کے لیے خطرہ بڑھا رہی تھی‘‘۔اسی طرح اُردن کی سیاسی اشرافیہ، اخوان کو خارجہ اور داخلہ سطح پر ایک بوجھ سمجھتی ہے اور علاقے کے طاقت ور ملکوں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اس سے چھٹکارا پانے اور اسرائیل سے تعلقات بڑھانے میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے امکانات دیکھتی ہے۔
ابتدا میں جو سوال اُٹھایا گیا تھا،وہی سوال سب اہل دل کے لیے غور طلب ہے کہ مسلم دُنیا کے تمام دینی اور قومی حلقے اس نام نہاد جنگ کے علَم برداروں کی اوچھی حرکتوں کو غور سے دیکھیں اور ان کی گھاتوں،وارداتوں کو سمجھیں۔ اظہارِ رائے اور انعقادِ اجتماع اور انجمن سازی پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کے بارے میں بیدار رہیں۔
سرینگر، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مکھن دین نامی نوجوان ضلع کٹھوعہ، کشمیر کی ایک خالی مسجد میں کھڑا اپنے موبائل فون پر آخری ویڈیو پیغام ریکارڈ کر رہا ہے۔سر پر ٹوپی اور نیلے اور سفید رنگ کی اسپورٹس جیکٹ پہنے، یہ ۲۵سالہ باریش نوجوان کہتا ہے: ’’میں اپنی جان ’قربان‘ کرنے جا رہا ہوں تاکہ خطّے میں کسی اور کو پولیس کے ’تشدد‘ کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘۔ پولیس نے اس پر ’شدت پسندوں سے وابستگی‘ کا شبہ ظاہر کیا تھا۔ —یہ وہ اصطلاح ہے جو بھارتی حکمرانی کے خلاف برسرِ پیکار نوجوانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
۵ فروری کو ریکارڈ کیے گئے اس چار منٹ کے دھندلے ویڈیو کلپ کے درمیان، اس نوجوان کو ایک شیلف سے قرآن اٹھاتے اور اسے اپنے سر پر رکھ کر قسم کھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ ’’میں نے کبھی کسی باغی کو نہیں دیکھا‘‘۔ وہ بیان کرتا ہے کہ پچھلی رات پولیس حراست میں اس پر کیا بیتی۔ پھر وہ قرآن کو واپس رکھ دیتا ہے اور مسلسل دعا کرتا رہتا ہے۔
’’میں مر جاؤں گا تاکہ میرے بعد دوسرے لوگ بچ جائیں۔ یااللہ! میری قربانی قبول فرما۔ میری فیملی کو ہمیشہ خوش رکھ، یا اللہ! مجھے قبر کے عذاب سے بچا… تو سب کچھ دیکھ رہا ہے… فرشتے بھیج جو میری روح مسجد سے لے جائیں۔ یااللہ! مجھے معاف کر دے‘‘۔وہ اتنا کہہ کر کیمرہ بند کر دیتا ہے۔
۷ فروری کو جاری کردہ ایک بیان میں، کشمیر پولیس نے دعویٰ کیا کہ: مکھن دین کے پاکستان اور دیگر غیر ملکی ممالک میں متعدد مشکوک روابط تھے۔ اس پر تشدد نہیں کیا گیا۔ اس سے تفتیش کی گئی، وہ گھر گیا، اور خودکشی کرلی۔ جموں ضلعی انتظامیہ دین کی خودکشی اور مبینہ تشدد کی تحقیقات کر رہی ہے۔
دوسری جانب، دین کا ویڈیو پیغام خطے کے اندر اور باہر لاکھوں موبائل فونز اور ٹی وی اسکرینوں تک پہنچ چکا تھا، جس نے کشیدگی کو بڑھا دیا اور وادیٔ کشمیر میں ہونے والے تشدد اور دیگر مظالم کی تلخ یادیں تازہ کر دیں۔ یہ وہ خطّہ ہے جہاں عشروں سے مسلح بغاوت جاری ہے۔
۱۹۴۷ء میں برطانوی راج سے آزادی اور تقسیم کے بعد، پورے کشمیر پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس پر تنازعہ پیدا ہوا۔ دونوں جوہری طاقتوں نے اس متنازع علاقے پر تین بڑی جنگیں لڑی ہیں اور اس کی برف پوش سرحدوں پر دسیوں ہزار فوجی تعینات ہیں۔ انڈیا، پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ بھارتی کشمیر میں جاری بغاوت کو تربیت اور مدد فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اسلام آباد اس الزام کو مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ صرف بین الاقوامی سطح پر سفارتی حمایت فراہم کرتا ہے۔ انڈیا نے وادیٔ کشمیر میں۵[۸] لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں، جس سے یہ دنیا کے سب سے زیادہ عسکری علاقوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ انڈین افواج کو وہاں خصوصی اختیارات اور استثنا حاصل ہے تاکہ وہ بغاوت کو کچل سکیں۔
مقامی باشندے کہتے ہیں کہ ۲۰۱۹ء کے بعد سے نئی دہلی نے خطے پر اپنی گرفت مزید سخت کر دی ہے، جس سال نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ [اور ۳۵-اے] کو منسوخ کر دیا، جو بھارتی کشمیر کو کچھ حد تک خودمختاری دیتا تھا، اور خطے کو دو وفاقی علاقوں —جموں و کشمیر اور لداخ —میں تقسیم کر دیا۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ ’’اس اقدام سے خطے میں ’معمول کی صورتِ حال‘، امن اور ترقی آئے گی‘‘، لیکن کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ نئی دہلی کی طرف سے بنائے گئے نئے قوانین اور پالیسیوں کا مقصد مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو بدلنا ہے۔
۲۰۱۹ء کے اس اقدام کے بعد مہینوں تک سکیورٹی لاک ڈاؤن اور عوامی احتجاج پر پابندی بھی عائد کر دی گئی، جب کہ ہزاروں افراد، —طلبہ، وکلاء، کارکنان، حتیٰ کہ بھارت نواز سیاست دان بھی —جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ لیکن پانچ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود، اس خطّے کی بے چین سڑکوں پر حقیقی امن تاحال نظر نہیں آتا۔
مگر مکھن دین کا مبینہ پولیس تشدد کے بعد خودکشی کا واقعہ شہریوں میں خوف کو مزید بڑھا رہا ہے۔ ایک ۲۲ سالہ نوجوان نے، جو انتقامی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا، کہا: ’’یہ خوفناک تھا کہ ایک شخص نے خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھایا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ یہ ایک سنگین گناہ ہے۔ ہمارا مذہب [اسلام] ہمیں اس عمل سے سختی سے روکتا ہے‘‘۔
اس نوجوان نے مزید کہا کہ ’’دین کے اس دل دہلا دینے والے اقدام نے میرے اعتماد کو ہلاکر رکھ دیا ہے‘‘۔میں اس تکلیف کا تصور بھی نہیں کر سکتا جو اس نے برداشت کی ہوگی۔ ایسے واقعات کے بارے میں یہاں کم ہی بات کی جاتی ہے۔ زیادہ تر خبریں اب زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتیں۔ کشمیر میں وقت بدل چکا ہے‘‘۔’’یہ درحقیقت ایک اختتام کا آغاز ہے‘‘۔
مکھن دین کی خودکشی کے اگلے ہی دن، ۳۲ سالہ وسیم احمد میر، جو شمالی کشمیر کے ضلع سوپور سے تعلق رکھنے والا ایک ٹرک ڈرائیور تھا، بھارتی فوج کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنادیاگیا۔ فوج کے بیان کے مطابق: وسیم میر نے سری نگر -بارہ مولہ ہائی وے پر ایک سکیورٹی چوکی عبور کی اور رُکنے کے احکامات کو نظرانداز کیا۔ فوج نے دعویٰ کیا کہ ٹرک کا ۲۳ کلومیٹر تک پیچھا کرنے کے بعد اسے گولی مار دی گئی۔تاہم، میر کے اہلِ خانہ نے فوج کے اس موقف کو مسترد کر دیا۔
فوج کہتی ہے کہ انھوں نے ۲۳ کلومیٹر تک پیچھا کیا، جب کہ [سپرنٹنڈنٹ آف پولیس] نے ہمیں بتایا کہ تعاقب ۳۵ کلومیٹر تک کیا گیا۔ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ جب اسے سری نگر جانا تھا تو گاڑی مخالف سمت بارہ مولہ کی طرف کیوں جا رہی تھی؟” میر کے ایک کزن نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا، اور فوج اور پولیس کے بیانات میں تضاد کی نشاندہی کی: اس کے کپڑے مٹی میں لت پت تھے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اسے مارا یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، قتل سے پہلے؟‘‘
بھارتی فورسز کے مبینہ مظالم کے نتیجے میں ان دو عام شہریوں کی ہلاکت ایسے وقت میں ہوئی جب ۵۰۰ سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ یہ گرفتاریاں ۳ فروری کو ’’جنوبی کشمیر کے کولگام میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کے قتل کے بعد عمل میں آئیں، جسے مشتبہ باغیوں نے گولی مار دی تھی، جب کہ اس کی بیوی اور بھانجی زخمی ہو گئی تھیں۔
قتل کے بعد حکام نے جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع میں نوجوانوں کو پکڑنا شروع کر دیا، جن میں سے زیادہ تر پہلے ہی حکومت مخالف احتجاج یا مسلح بغاوت میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کر چکے تھے۔ مختلف سکیورٹی چوکیوں پر گاڑیوں اور لوگوں کی تلاشی کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔
پلوامہ کے ایک ۲۱ سالہ نوجوان نے بتایا:’’حالیہ کریک ڈاؤن کے بعد میں خوف زدہ ہوں، کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہی کشمیر میں سکون سے نہیں زندہ رہ سکتے۔ یا تو ہمیں مسلسل خوف میں رہنا ہوگا، یا پھر یہاں سے چلے جانا ہوگا۔ آپ کبھی نہیں جان سکتے کہ کب اور کس وقت فوج آکر آپ کو اٹھا لے، اور پھر آپ کو بے گناہ ہونے کے باوجود تکلیف اٹھانی پڑے‘‘۔
اس نوجوان نے مزید کہا:’’یہاں بہت زیادہ خوف ہے۔ کئی نوجوانوں کو فوجی کیمپوں سے کالیں آ رہی ہیں، انھیں ’طلب‘ کیا جا رہا ہے۔ یہ سب انتہائی دہشت زدہ کر دینے والا ماحول ہے۔
اُوپر سے، گھریلو دباؤ بھی ہے۔ ہمارے خاندان خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی گھر سے نکلتا ہے، تو یہ یقینی نہیں ہوتا کہ وہ پھر واپس آئے گا یا نہیں؟ اگر ہمیں یہاں رہنا ہے، تو ہمیں ہروقت تیار رہنا ہوگا کہ جب وہ بلائیں، ہم فوراً حاضر ہو جائیں‘‘۔
صحافتی حلقوں کی جانب سے کئی ایسے افراد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی جو حالیہ دنوں میں حراست میں لیے گئے تھے یا جن سے پوچھ گچھ ہوئی تھی، لیکن ایسے نوجوانوں نے ’نتائج‘ کے خوف سے میڈیا سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
ایک سابقہ حراستی قیدی نے کہا:’’مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے رہا ہوا؟ میرا ذہن فی الحال آزاد ہے، لیکن اگر میں بات کروں گا، تو ایک اور خوف اور پریشانی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ مجھے دوبارہ پکڑ لیا جائے گا، کیونکہ میں نے آپ سے بات کی ہے‘‘۔
جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع سے تعلق رکھنے والے وکیل اقبال نے کہا کہ ’’پولیس کو کسی کو بھی ’شک‘ کی بنیاد پر حراست میں لینے کا اختیار حاصل ہے، لیکن یہ حراست ۲۴ گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اس دوران، مشتبہ شخص کو عدالت میں پیش کرنا اور گرفتاری کی وجوہ اس کے اہل خانہ کو بتانا ضروری ہوتا ہے۔۵۰۰ کے قریب لوگوں کو حراست میں لینا، جیسا کہ رپورٹ کیا گیا ہے، قانون کی صریح خلاف ورزی اور پولیس کے اختیارات کے ناجائز استعمال کی مثال ہے۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ زیرِ حراست افراد کے حقوق اور ان کے لیے دستیاب قانونی تحفظات کی خلاف ورزی کی جاتی ہے‘‘۔
ممبئی کے مصنف اور انسانی حقوق کے کارکن رام پونیانی نے کہا:’’پولیس محض شک کی بنیاد پر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں نہیں لے سکتی۔ ضرور کوئی قانونی اصول ہوگا جس کی وہ خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ مگر یہ تو واضح طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘‘۔
عام شہریوں کی اموات اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں نے کشمیری سیاستدانوں میں بھی شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے، جنھوں نے نئی دہلی کے اس دعوے پر سوال اٹھایا ہے کہ’’اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کشمیر میں معمول کی صورتِ حال بحال ہو چکی ہے‘‘۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما التجا مفتی نے بیان دیا: ’’خدشہ یہ ہے کہ پولیس وہی قانون توڑ رہی ہے جس کی وہ حفاظت کرنے کی پابند ہے۔ نتیجتاً، لوگ پولیس ہی سے خوف زدہ ہیں، نہ کہ عسکریت پسندوں سے۔ یہ ایک انتہائی بگڑا ہوا نظام ہے‘‘۔
۲۰۱۹ء کے بعد کشمیر میں وزیر اعلیٰ کے اختیارات کو سختی سے محدود کر دیا گیا ہے، اور اب پولیس براہِ راست وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے چیئرمین آکار پٹیل نے کہا کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کے انسانی حقوق میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔
بھارتی پارلیمنٹ میں کشمیری رکنِ پارلیمان شیخ عبدالرشید نے وسیم میر اور مکھن دین کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا:’’ہمارا خون سستا نہیں‘‘، ’’ہمیں بھی جینے کا حق حاصل ہے‘‘۔
۱۹۴۷ ء سے مسئلہ کشمیر لاینحل چلا آرہا ہے اور امن سے محروم بھی۔ اس کی وجہ بھارت کی مسلسل بدنیتی اور بدعہدی ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ بدامنی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہے۔ الحمدللہ! آزاد کشمیر میں تو مکمل امن وامان ہے، لوگ محفوظ اور اطمینان سے معمول کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ وادیٔ کشمیر جنت نظیر، آبشاروں اور جھرنوں کی سرزمین ،مشک نافہ ،زعفران اور پھولوں کی سرزمین ظلم وستم کی آگ میں جل رہی ہے۔ لوگ تقریباً ۸۰ سال سے ظلم وستم اور جبر کا شکار ہیں اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ’استصواب رائے‘ کے انعقاد کے فیصلے کے باوجود بھارت کشت وخون میں مصروف ہے۔ تقریباً آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے ڈھٹائی سے تباہی مچارہا ہے، خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے ہزاروں بچے یتیم ہو گئے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو رہا ہے۔
ان اسبا ب کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے پاکستان کا موقف برحق ہونے کے باوجود اقوام عالم میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مشرقی اور جنوبی سوڈان میں مختصر مدت کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہو گئی تھی، پھر کیا وجوہ ہیں کہ کشمیر میں ۷۰ سال سے جاری جدوجہد اور ۳۵ سال سے جاری کشت وخون کو اقوام عالم نے قرار واقعی مقام نہیں دیا؟
۱- ماضی میں کی جانے والی کمزور اور نااہل سفارت کاری کی وجہ سے دوسرے ممالک میں برسرِاقتدار اور حزب اختلاف کے مؤثر قائدین اور ذرائع ابلاغ کے اہم نمائندوں کو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے برحق موقف پر قائل کرنے میں کوتاہی ہوتی رہی ہے۔ سفارش پر میرٹ کے بغیر تقرریاں اور تعیناتیاں اور وزارت خارجہ کے افسران کی مسئلے پر پوری تربیت نہ ہونا اس کی بنیادی وجہ ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔
۲- سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی باہمی رنجشیں ،جوڑتوڑ اور سازشیں عام رہی ہیں۔ قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کے لیے پارٹیاں بدلنا معمول رہا ہے، جس کے نتیجے میں قومی کریکٹر پروان نہیں چڑھ سکا اور دنیا میں بھی ہمارے ملک کا تاثر خراب ہوا۔ ملک کا اعتبار اور وقار مجروح ہوا اور ہمارے موقف کو اہمیت نہ ملی۔
۳- ملک میں مسلکی اختلاف رائے کے بجائے فرقہ واریت کا فروغ ہماری بدنامی کا باعث بنا۔ اس میں شدت پیدا کرنے کے لیے بھارت نے سازش کے ذریعے منصوبہ بنایا جس کی نشان دہی معروف صحافی افتخار گیلانی نے ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن لاہور، ماہ جنوری ۲۰۲۲ء میں شائع شدہ مضمون میں کی ہے کہ دہلی کے قریب ایک زرعی فارم پر قائم دینی مدرسے میں جنونی ہندونوجوانوں کو مسلمان علمائے دین کے بھیس میں تیار کر کے پاکستان میں مختلف فرقوں کی مساجد میں پلانٹ کیا گیا یا نئی مساجد قائم کی گئیں یا پیرخانے قائم کیے گئے جہاں بیٹھ کر لوگوں کو دوسرے مسالک کے خلاف مشتعل کیا جاتا رہا ہے۔ فرقوں کی آپس کی لڑائیوں اور کشت وخون نے دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا۔ اس کا اثر بھی ہمارے موقف کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس کا حل یہ ہے کہ تمام مسالک کے رہنما اپنے اپنے موقف پر لچک دار اور برداشت کا رویہ اپنائیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا کریں، تا کہ ملک کی بدنامی ختم ہو سکے۔
۴- کمزور معیشت اور بیرونی قرضے بھی دنیا میں ہمارے وقار اور عزت واحترام کے خاتمے کا سبب بنے ہیں۔ کمزور ملک کو دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ملتی اور نہ اس کی بات سنی جاتی ہے اور اس کو حمایت کم ہی ملتی ہے۔
۵- ۱۹۷۹ء کے بعد دنیا میں اسلامو فوبیا کو اُبھارا گیا۔ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف شدت پسند عیسائیوں ،یہودیوں اور بدھوں کے ساتھ بھارتی نسل پرست ہندو بھی شامل ہوگئے، جو قیام پاکستان سے بھی پہلے سے مسلم دشمنی میں ملوث تھے۔ کشمیر پر پاکستان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہونے کی ایک وجہ اسلامو فوبیا بھی ہے۔
۶- بھارت بہتر ڈپلومیسی ،سفارت کاری ،مستحکم معیشت، اسرائیل کی مدد سے امریکا سے معاشی فوائد کا حصول اور امریکی اداروں میں سرایت اور متعدد عہدوں پر تعیناتی سے دنیا میں اور بالخصوص امریکا میں اثرورسوخ کا سبب بنا اور کشمیر کے کمزور موقف پر حمایت حاصل کر لی۔
ان اسباب اور عوامل کے علاوہ کچھ اور اسباب وعوامل بھی ہیں۔کشمیریوں کی جدوجہد اور مذکورہ بالا اسباب سے عہدہ برآ ہونے کے نتیجے کے طور پر ان شاء اللہ کشمیریوں کی برحق جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستانی سیاسی اور دینی رہنمائوں کو ان اسباب کے پیش نظر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ علامہ اقبال کے عثمانیوں کی ابتلا کے سلسلے میں کہے گئے شعر میں معمولی تصرف کرتے ہوئے کہوں گا ؎
اگر ’کشمیریوں‘ پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
۱۸مارچ کو سحری کے وقت تباہ حال غزہ پہ بغیر کسی وارننگ کے اسرائیلی فضائیہ نے سو سے زیادہ جنگی جہازوں سے بمباری کرکے۲۷۹ معصوم بچوں سمیت ۴۲۹ ؍ افراد کو شہید اور ۵۳۰ کو زخمی کردیا۔ اسرائیل نے اس بار حماس کی غیر فوجی قیادت کو نشانہ بنا تے ہوئے غز ہ میں حکومت کی نگران کمیٹی کے سربراہ عصام الدعلیس، حماس کے سیاسی بیورو کے رکن یاسر حرب، وزارت انصاف کے انڈرسیکرٹری، احمد الحطا، وزارت داخلہ کے انڈر سیکرٹری میجر جنرل محمود ابو وفا اور انٹرنل سیکورٹی سروس کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بہجت ابو سلطان کوشہید کردیا۔ ان کے علاوہ اسلامی جہاد کے ناجی ابو سیف عرف ابو حمزہ نےبھی اپنےخاندان کے متعدد افراد کے ساتھ جام شہادت نوش کیا ۔
اس پر حماس نےیہ بیان دیا: ’’ہم اپنےعوام، سرزمین اور اپنے مقدس مقامات کے دفاع کے لیے ثابت قدمی اور شہادت کی تمنا کے ساتھ دشمن کی جارحیت میں شہید ہونے والے رہنماؤں کی شہادت پر سوگ کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ فلسطینی عوامی قائدین کا یہ عظیم گروپ لوگوں کے ساتھ ثابت قدمی، استقامت اور یک جہتی کے ساتھ دشمن کے ساتھ نبرد آزما رہا ۔ اس نے اپنے لوگوں کی خدمت، ان کی سلامتی اور سماجی استحکام کو مضبوط بنانے میں اَ ن تھک محنت کی شاندار مثال قائم کی۔ حماس نے زور دیا کہ ’’یہ جرائم فلسطینی عوام کی خواہش یا ان کی قیادت اور مزاحمت کے ساتھ ان کی مضبوط یک جہتی کو نہیں توڑسکیں گے۔ یہ جارحیت ہماری قوم کے عزم اور ثابت قدمی کو مزید مضبوط کرے گی‘‘۔حماس کے مطابق: ’’امریکی انتظامیہ کا یہ اعتراف کہ اسے صہیونی جارحیت کے بارے میں پیشگی مطلع کر دیا گیا تھا، فلسطینیوں کی نسل کشی میں شراکت داری کا واضح ثبوت ہے۔ واشنگٹن کی لامحدود سیاسی اور فوجی مدد نے امریکا کوغزہ میں خواتین اور بچوں کے قتل عام کےجرم میں برابر کا شریک ثابت کیا ہے‘‘۔
اسرائیل کی داخلی سیاست سے جو لوگ واقف ہیں وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اچانک نتین یاہو پر یہ درندگی کا جنون کیوں سوار ہوگیا؟ امریکا کے معروف ماہر معاشیات پروفیسر جیفری شاس نے نیتن یاہو کو گہرے کالے کتے سے تعبیر کیا تھا اور اس ویڈیو کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر کرکے امریکی صدر نے بلا واسطہ اس کی تائید کردی تھی۔ اسی درندہ صفت نیتن یاہو سے یہ ظالمانہ حرکت کروائی ۔ یاہو کی پہلی مجبوری اپنی اقلیتی حکومت کا تحفظ ہے۔ اس کو سہارادینے والے امن کی دشمن جنگ پسند پارٹیاں ہیں۔
فلسطینی وزارتِ خارجہ نے ان حملوں کو غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے بین الاقوامی کوششوں میں خلل ڈالنے کی ظالمانہ حرکت قرار دیا اور کہا ہے کہ سیاسی حل ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔ الجزیرہ نے اسرائیلی حملوں کو غیرانسانی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے۔
ان حملوں نے خطّے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔
یاد رہے اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ یہ آپریشن غیرمعینہ مدت تک جاری رہے گا اور اس میں مزید شدت آئے گی۔ اب اسرائیل، حماس کے خلاف مزید فوجی طاقت کے ساتھ کارروائی کرے گا۔ اسرائیلی رائے عامہ میں ایک قابلِ ذکر تعداد اس حملے کی مخالف ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ پُرامن طریقے سے مسائل حل ہوں، جب کہ نیتن یاہو کا فاشسٹ ٹولہ غزہ میں مکمل نسل کشی پر تُلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ٹولا اسلحے کے ساتھ ساتھ، پانی، خوراک، ادویات اور چھت کو چھین کر، مظلوم فلسطینیوں کی زندگی تباہ کرنے کے خوفناک منصوبے پر عمل کر رہا ہے۔ اسرائیل کی اس تازہ درندگی کا جو بھی پس منظر ہو، لیکن اصل چیز یہ ہے کہ اسے مسلم دُنیا کی طرف سے کسی دبائو کا سامنا نہیں اور امریکا کی اندھی سرپرستی اس کی درندگی کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے یک طرفہ غزہ قبضہ منصوبے کے جواب میں، ۵۷ رکنی اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے ایک کثیرجہتی تعمیر نو منصوبہ منظور کیا، جس کی قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس نے بھی توثیق اور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح فرانس، جرمنی، اٹلی (یورپی یونین کے رکن ممالک) اور برطانیہ نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔
ٹرمپ کے نام نہاد’غزہ رویرا‘ منصوبے کے برعکس، جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، او آئی سی کا تجویز کردہ منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، جب کہ ٹرمپ کے منصوبے میں ۲۴ لاکھ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی شامل ہے۔ او آئی سی کا کثیرالملکی منصوبہ غزہ کو تعمیرِ نو کے ذریعے بحال کرنے کا خواہاں ہے، بغیر کسی مقامی باشندے کی نقل مکانی کے۔
اسی طرح جنگ کے بعد غزہ کی تعمیرِ نو کے حوالے سے امریکا، عرب ممالک اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔
قاہرہ سمٹ (۴ مارچ) میں عرب رہنماؤں نے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ۵۳ بلین ڈالر کے مصری منصوبے پر اتفاق کیا، جس کا بنیادی نکتہ ۲۴ لاکھ فلسطینیوں کی نقل مکانی کو روکنا ہے۔ اس کے بعد، ۷مارچ کو جدہ، سعودی عرب میں منعقدہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے ہنگامی اجلاس میں اس عرب متبادل منصوبے کو باضابطہ طور پر منظور کیا گیا۔
یہ منصوبہ ایک آزاد تکنیکی کمیٹی کے ذریعے غزہ کا چھ ماہ تک انتظام سنبھالنے کے بعد اختیار منتقل کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔
’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے مطابق: تنظیم نے غزہ کی ’جلد بحالی اور تعمیرِ نو‘ کے منصوبے کو اپنایا اور بین الاقوامی برادری، مالیاتی اداروں اور خطے کے فنڈنگ ذرائع سے فوری امداد کی اپیل کی۔مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی کے مطابق: ’’او آئی سی کے ہنگامی وزارتی اجلاس نے مصری منصوبے کو اپنا لیا ہے، جو اَب ’عرب-اسلامی منصوبہ‘ بن چکا ہے۔ اگلا قدم یہ ہوگا کہ اس منصوبے کو یورپی یونین اور دیگر عالمی قوتوں جیسے جاپان، روس اور چین کی منظوری حاصل ہو، تاکہ اسے بین الاقوامی منصوبہ بنایا جا سکے‘‘۔
علاوہ اَزیں، پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے زور دیا:’’او آئی سی کو اجتماعی طور پر فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی ہر کوشش کی مزاحمت کرنی چاہیے، چاہے وہ انسانی ہمدردی کے پردے میں ہو یا تعمیرِ نو کے بہانے۔ اور یہ کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو ’سرخ لکیر‘ تصور کیا جائے، کیونکہ یہ نسل کشی کے مترادف ہے اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے‘‘۔ انھوں نے اقوامِ متحدہ کے ادارے UNRWA کے فلسطینیوں کی بحالی میں کردار کو بحال کرنے پر بھی زور دیا اور نشاندہی کی کہ اسرائیل پر یہ قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۲(۵) کے تحت فلسطینیوں کو انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کو یقینی بنائے‘‘۔
’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے منظور کردہ منصوبے کا بنیادی مقصد تباہ حال غزہ کی تعمیرِ نو اور ’فلسطینی اتھارٹی‘ (PA) کے فعال کردار کے ذریعے وہاں امن و استحکام قائم کرنا ہے۔
اس منصوبے کے تحت، پانچ سال میں غزہ کی تعمیر نو کے تین مراحل مکمل کیے جائیں گے:
عرب منصوبے کے تحت ایک ’انتظامی کمیٹی‘ قائم کی جائے گی، جو آزاد فلسطینی ماہرین پر مشتمل ہوگی اور عبوری مدت کے دوران غزہ کا انتظام سنبھالے گی، تاکہ فلسطینی اتھارٹی کو مکمل اختیار کی منتقلی ممکن ہو سکے۔
’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے طویل مدتی منصوبے کے مطابق، ۲۰۳۰ء تک غزہ میں لاکھوں نئے مکانات، ایئرپورٹ، صنعتی زون، ہوٹل اور پارک بنائے جائیں گے اور اسے ایک جدید، خودمختار فلسطینی علاقہ بنایا جائے گا، جہاں فلسطینی اتھارٹی کی حکمرانی ہوگی۔
’فلسطینی اتھارٹی‘ (PA) اور حماس نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ’’غزہ کو عبوری طور پر آزاد ماہرین کی کمیٹی کے ذریعے چلایا جائے اور وہاں بین الاقوامی امن دستے تعینات کیے جائیں‘‘۔
تاہم، امریکا اور اسرائیل نے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے اس تعمیرِ نو منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، جو امریکی-اسرائیلی غزہ قبضہ پالیسی کے خلاف ایک کثیرالملکی مزاحمتی حکمت عملی کا نمونہ ہے۔
امریکا اور اسرائیل کی ہچکچاہٹ کے باوجود، صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی، اسٹیو وٹکوف نے بعد میں کہا کہ ’’یہ مصریوں کی جانب سے نیک نیتی پر مبنی پہلا قدم ہے‘‘۔
اُمید ہے کہ عالمی برادری جلد ہی ’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے اس منصوبے کو ایک قابلِ عمل روڈمیپ کے طور پر تسلیم کرے گی۔لہٰذا، قاہرہ کو اپنی سفارتی کوششوں کو مزید مضبوط بنانا ہوگا اور ایک وسیع ورکنگ گروپ تشکیل دینا ہوگا، جس میں مصر، اُردن، امریکا، فلسطینی اتھارٹی، خلیجی ریاستیں، یورپی یونین اور دیگر عطیہ دہندگان شامل ہوں۔
فلسطینی قیادت کے اندر مجوزہ منصوبے پر اتفاق رائے کی شدید ضرورت کے پیش نظر، ایک مشترکہ امریکی-عرب کوشش بھی ضروری ہے، تاکہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہو سکے اور حماس کے ساتھ جنگ بندی کے بعد ایک دیرپا معاہدہ طے پاسکے، اور امن سفارتکاری کو کامیاب ہونے کا موقع دیا جا سکے۔(ترجمہ: ادارہ)
نام نہاد جمہوریہ انڈیا کی نسل پرست اور فسطائی حکومت نے تہذیب و شائستگی کی تمام حدوں کو پامال کرتے ہوئے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو حالیہ اقدامات کیے ہیں، انھوں نے انڈین سیکولرازم اور جمہوریت کے داغ دار چہرے کو اور زیادہ بے نقاب کر دیا ہے۔
کشمیر کے طول و عرض میں انڈین پولیس اور عسکری عہدے داروں کی نگرانی میں عملے نے درجنوں دکانوں پر چھاپے مار کر دینی و سماجی موضوعات پر بڑے پیمانے پہ کتب ضبط کرلی ہیں۔ اسی طرح کئی جگہوں پر جماعت اسلامی کے فعال کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہوئے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ یہ سب کارروائیاں انڈیا نے اپنے زیرانتظام کشمیر کے علاقے میں اختلاف رائےدبانے کے لیے کی ہیں۔
انڈیا کے اخبار دی وائر (۱۴فروری ۲۰۲۵ء) کے مطابق: ’’سری نگر کے سب سے بڑے کاروباری مرکز لال چوک میں کتب کے ایک تاجر کے بقول: جمعرات (۱۳ فروری) کو ساڑھے تین بجے پولیس کا ایک گروہ ہماری دکان پر آن دھمکا اور اس کے افسر نے کہا: بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا(BNSS) ۲۰۲۳ء کی دفعہ ۱۲۶ کے تحت ہم مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی کتب ضبط کریں گے، اور اس کے بعد کچھ کہے سنے بغیر دکان پر دھاوا بول دیا‘‘۔
روزنامہ گارجین لندن (۱۹فروری ۲۰۲۵ء) نے لکھا ہے: ’’سیّد مودودی بیسویں صدی کے جید عالم ہیں، جن کی تحریریں دُنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں۔ کتابوں کی دکانوں پر یہ چھاپے سری نگر سے شروع ہوئے اور پھر دوسرے بڑے چھوٹے قصبوں تک پھیل گئے۔ یہ کتب زیادہ تر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے شائع کی ہیں۔ جماعت اسلامی برصغیر (پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش، جموں و کشمیر) کی سب سے بڑی دینی و سیاسی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے‘‘۔
ڈان نیوز (۲۰ فروری) کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے قصبوں سے مولانا مودودی کی کتب ضبط کرتے ہوئے پولیس نے کہا: ’’ابوالاعلیٰ کی تمام کتابوں کو ہم اس لیے ضبط کر رہے ہیں کہ ان پر پابندی ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ اس ممنوعہ لٹریچر کی تشہیر اور گردش کو روکنے کے لیے ہم سخت جانچ اور عملی اقدامات کرتے ہوئے ان کتب کے خلاف سخت کارروائی کریں گے‘‘۔
یاد رہے فروری ۲۰۱۹ء میں نسل پرست اور دہشت گرد تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (RSS) کی تابع فرمان بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی عائد کردی تھی۔ پھر اسی سال ۵؍اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو مختلف انتظامی حصوں میں تقسیم کرکے جبروظلم کے تمام ریکارڈ مات کر دیئے تھے، جس کے بعد اس پورے علاقے میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں شدت آگئی تھی۔
مقبوضہ کشمیر کے مختلف رہنمائوں، اخبار نویسوں، وکیلوں، یونی ورسٹی استادوں، ادیبوں اور دانش وروں نے مولانا مودودی کی کتب کی ضبطی اور ان پر پابندی کو غیرمنصفانہ، غیرآئینی قدم اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس فسطائی حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ یہ کتب ایک سو سال سے نہ صرف انڈیا بلکہ پوری دُنیا میں شائع ہورہی ہیں اور پڑھی جارہی ہیں۔ انڈین حکومت کا یہ قدم غیر مہذبانہ اور غیرمنصفانہ ہے۔
اخبار دی وائر کے مطابق:جماعت اسلامی کا دفاع کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کی جماعت ’پیپلزڈیموکریٹک پارٹی‘ (PDP) کی لیڈر التجامفتی نے الزام لگایا: ’’کتابوں کی یہ ضبطی، مطالعے کی آزادی پر حملہ ہے‘‘۔ نیشنل کانفرنس (NC)کے رکن پارلیمنٹ آغا سیّد روح اللہ مہدی کے بقول: ’’یہ جموں و کشمیر کے عوام کے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔ جس کے تحت مولانا مودودیؒ کی کتب ضبط کرلی گئی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب [انڈین] ریاست کشمیریوں کو یہ بتائے گی کہ وہ کیا پڑھیں، کیا سیکھیں اور کس پر ایمان و یقین رکھیں؟ یہ ناقابلِ تصور ہے، اسے فوراً منسوخ کیا جائے‘‘۔
اخبار دی ہندو کے مطابق سیّد روح اللہ مہدی نے مزید (ٹویٹر) ’ایکس‘ پر لکھا: ’’ریاست [انڈیا] کی جانب سے کشمیریوں کو ہراساں کرنے سے باز رہنا چاہیے اور ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت بند کرنی چاہیے ،کیونکہ اس غیر ذمہ دارانہ اقدام کی بھاری قیمت چکانا ہوگی‘‘۔
میرواعظ عمرفاروق نے اس کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اسلامی لٹریچر پر حکومت کا یہ کریک ڈائون نہایت قابلِ مذمت، حددرجہ افسوس ناک اور سخت مضحکہ خیز فعل ہے۔ اس طرح کتابوں کو ضبط کرکے اور خیالات پر پہرے بٹھا کر دھونس جمانا قطعی طور پر ایک بے معنی عمل ہے، خاص طور پر ایسے زمانے میں، جب کہ معلومات ’ورچول ہائی ویز‘ سے دُنیا بھر میں آسانی سے دستیاب ہیں‘‘۔ ’الجزیرہ‘ نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق: ’’عمر فاروق نے مزید کہا: ’’ضبط کی گئی کتابیں قانونی طور پر نئی دہلی سے شائع ہورہی ہیں اور جب پورے خطّے میں کتابوں کی دکانوں پر فروخت ہورہی ہیں تو ان پر کشمیر ہی میں پابندی کیوں؟‘‘
روزنامہ نوائے وقت کے مطابق ’’شمیم احمد نے کہا ہے: ’’مولانا مودودی کی یہ کتب لوگوں کے اخلاق سنوارنے اور ذمہ دار شہری بننے کی تعلیم دیتی ہیں۔ ان پر کریک ڈائون کرنا، ایک ناقابلِ فہم اور غیرمنطقی قدم ہے‘‘۔
اس افسوس ناک انڈین قدم پر وزارتِ خارجہ پاکستان کے ترجمان شفقت علی خاں نے کہا ہے: ’’یہ عمل اختلاف رائے کو کچلنے اور مقامی لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے مسلسل اقدامات کی کڑی ہے۔ اپنی پسند کی کتب پڑھنے کی آزادی کشمیریوں کا حق ہے‘‘۔
مولانا مودودی کی کتب کے ساتھ سیّد علی گیلانی مرحوم کی کتب بھی ضبط کی گئی ہیں۔ اس پابندی اور ضبطی کے افسوس ناک واقعے کے علاوہ جو دوسرا حددرجہ اذیت ناک قدم مودی حکومت نے اُٹھایا ہے، وہ یہ کہ ۱۴فروری کو سیّد علی گیلانی مرحوم و مغفور کی رہائش گاہ میں ان کے ذاتی کمرے کو سربمہر کردیا گیا ہے، اور ان کے ذاتی کاغذات، مسودات ، خطوط اور ڈائریاں وغیرہ قبضے میں لے لی ہیں۔ یہ کارروائی اُس وقت کی گئی جب محترم گیلانی صاحب کی اہلیہ اپنی بیٹی سے ملنے نئی دہلی گئی ہوئی تھیں۔ یہ اقدام گھر کے کسی فرد کے نوٹس میں لائے اور اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔ یہ تمام واقعات دُنیا بھر کے اہلِ دانش کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
گذشتہ شب (۲۴ فروری ۲۰۲۵ء) یوٹیوب پر محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک تازہ گفتگو سننے کا موقع ملا۔ یہ گفتگو فلسطین کی تحریک مزاحمت کے سلسلے میں تھی۔ اس گفتگو میں بھی مجھے وہی خلل نظر آیا، جو عام طور سے مسلمان دانش وروں کے یہاں پایا جاتا ہے۔ وہ بیانیہ تو اپنی سوچ اور مزاج کے مطابق بناتے ہیں، پھر قرآن کریم کی کسی آیت کے ٹکڑے یا حدیث کے کسی حصے کو حسب منشا چسپاں کرکے اپنے طبع زاد بیانیے کو قرآن و سنت کا بیانیہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ’’فلسطین کے باشندوں کو نیز پوری امت کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ اللہ سے لو لگانا چاہیے۔ اپنے اخلاق درست کرنے چاہئیں۔ علم کے میدان میں ترقی کرنی چاہیے۔ صہیونی غاصبوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ صہیونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ اللہ تعالیٰ موجود ہ نظامِ عالم کو خود تبدیل نہ کردے‘‘۔
اپنی اس سوچ کو قرآنی قرار دینے کے لیے موصوف قرآن مجید سے دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو مکہ سے باہر نکال دیا گیا تو اللہ نے انھیں حکم دیا (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو)۔ جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ جب تک جنگ جیتنے کا یقین یا غالب امکان نہ ہو، قرآن جنگ سے باز رہنے کا حکم دیتاہے، ورنہ وہ جنگ خود کشی ہے۔ ہمیں یہاں پر عرض کرنا ہے کہ قرآن مجید میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو) کی ہدایت نہیں فرمائی۔ قرآن کی ایک آیت میں یہ خبر تو دی گئی:’’ لوگوں سے کبھی کہا گیا تھا کہ ہاتھ روکو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو‘‘، لیکن پورے قرآن مجید میں کسی ایک بھی مقام پر اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو) کا حکم نہیں دیا گیا۔ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ والی آیت ملاحظہ فرمالیں کہ اس آیت میں بھی قتال سے بھاگنے والوں کی مذمت کی گئی ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۰ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـيَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَۃً۰ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ۰ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۰ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ۰ۚ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۰ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۷۷(النساء۴:۷۷) تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو تو جب ان پر جنگ فرض کردی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، کچھ اور مہلت کیوں نہ دی؟ کہہ دو اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اور تمھارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔
اصل میں كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ ایک وقتی پالیسی تھی، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے نکلنے کے بعد نہیں بلکہ مکہ میں رہتے ہوئے وہاں کے دعوتی مصالح کے تحت اختیار فرمائی تھی۔ قرآن مجید میں وہ بطور مستقل ہدایت کہیں مذکور نہیں ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ قاتلوا :جنگ کرو، کا حکم تو قرآن مجید میں متعدد مقام پر ہے، لیکن كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کا حکم کسی ایک مقام پر بھی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے اور بار بار کہنے کی ہے کہ قرآن مجید میں قتال کے سلسلے میں بہت اصولی اور بنیادی ہدایت یہ ہے کہ جو جنگ کرے اس سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور زیادتی نہ کرو:
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۱۹۰ (البقرہ۲:۱۹۰) اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں اور حد سے بڑھنے والے نہ بنو۔ بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
یعنی اسلام جنگ میں پہل کرنے کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن جنگ کی پہل کرنے والوں سے جنگ کرنے کی پُرزور تاکید کرتا ہے۔ قرآن مجید کا ایک اور پہلو سامنے رہنا چاہیے کہ قرآن کہیں یہ نہیں کہتا ہے کہ جب فتح یقینی ہو یا اس کا غالب گمان ہو تبھی جنگ کرو۔ قرآن تو بہت واضح، کھلے اور واشگاف الفاظ میں کمزور مظلوموں کو طرح طرح سے اس امر کے لیے آمادہ کرتا ہے کہ ’ظالم کتنا ہی زیادہ طاقت ور ہو تم اس کا مقابلہ کرو‘۔
سورۂ بقرہ میں طالوت کی فتح اور جالوت کی شکست کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا جس کا بنیادی پیغام یہ ہے جب دشمن کو دیکھ کر بہتوں کے حوصلے پست ہوجائیں، تو بھی ایمان والے اس یقین سے سرشار رہتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے چھوٹی فوج بڑی فوج کو شکست دے سکتی ہے:
فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَوَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ۰ۙ قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْيَـوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ۰ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ۰ۙ كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۲۴۹ (البقرہ ۲:۲۴۹) پھر جب طالوت اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ایمان پر ثابت قدم رہے دریا پار کر گئے تو یہ لوگ بولے کہ اب ہم میں تو جالوت اور اس کی فوجوں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ جو لوگ یہ گمان رکھتے تھے کہ بالآخر انھیں اللہ سے ملنا ہے انھوں نے للکارا کہ کتنی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئی ہیں، اللہ تو ثابت قدموں کے ساتھ ہوتا ہے۔
سورۂ مائدہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ تفصیلی مکالمہ ذکر کیا گیا ہے، اس کا پیغام بھی یہ ہے کہ اللہ کے مومن بندے دشمن کی بڑی طاقت کو دیکھ کر حوصلہ نہیں ہارتے:
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْہَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ۰ۤۖ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْہَا۰ۚ فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۲۲ قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمَا ادْخُلُوْا عَلَيْہِمُ الْبَابَ۰ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ۰ۥۚ وَعَلَي اللہِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۲۳ (المائدہ ۵:۲۲-۲۳) وہ بولے کہ اے موسی! اس میں تو بڑے زور آور لوگ ہیں۔ ہم اس میں نہیں داخل ہونے کے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہوں گے۔ دو شخصوں نے جو تھے تو انھی ڈرنے والوں ہی میں سے، پر خدا کا ان پر فضل تھا، للکارا کہ تم ان پر چڑھائی کر کے شہر کے پھاٹک میں گھس جاؤ۔ جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسا کرو اگر تم مومن ہو۔
سورۂ انفال میں جنگ بدر کا نقشہ کھینچا گیا کہ بظاہر فتح کے امکانات معدوم تھے، اس وجہ سے بعض لوگوں کو تو لگ رہا تھا کہ خودکشی کے راستے پر انھیں لے جایا جارہا ہے:
كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۰۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِہُوْنَ۵ۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَ۶ۭ (انفال۸:-۵-۶) اسی طرح کی بات اس وقت ظاہر ہوئی جب تمھارے رب نے ایک مقصد کے ساتھ تم کو گھر سے نکلنے کا حکم دیا اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو یہ بات ناگوار تھی۔ وہ تم سے امرِ حق میں جھگڑتے رہے باوجود یکہ حق ان پر اچھی طرح واضح تھا، معلوم ہوتا تھا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور اس کو دیکھ رہے ہیں۔
سورۂ آل عمران میں جنگ احد کے واقعے کی تفصیل ہے، اس میں بھی یہی پیغام دیا گیا ہے کہ لوگوں کی کثرتِ تعداد سے ایمان والے ذرا نہیں ڈرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ دین کے دشمنوں سے ڈرانا شیطان کا کام ہے:
اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۱۷۳ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ۰ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللہِ۰ۭ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ۱۷۴ اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ ۰۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۷۵ (اٰل عمرٰن۳: ۱۷۳-۱۷۵) یہ وہ ہیں کہ جن کو لوگوں نے سنایا کہ دشمن نے تمھارے لیے بڑی طاقت اکٹھی کی ہے تو اس سے ڈرو تو اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ سو یہ لوگ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ واپس آئے، ان کو ذرا گزند نہ پہنچی، اور یہ اللہ کی خوشنودی کے طالب ہوئے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ یہ شیطان ہے جو اپنے رفیقوں کے ڈراوے دے رہا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔
سورۂ احزاب میں قبائل کے متحدہ لشکر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دشمن بہت بڑی قوت کے ساتھ آیا تھا:
اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللہِ الظُّنُوْنَا۱۰ ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا۱۱ (احزاب۳۳:۱۰-۱۱) یاد کرو، جب کہ وہ تم پر آچڑھے، تمھارے اُوپر کی طرف سے بھی اور تمھارے نیچے کی طرف سے بھی، اور جب کہ نگاہیں کج ہوگئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم اللہ کے باب میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس وقت اہل ایمان امتحان میں ڈالے گئے اور بالکل ہلا دیے گئے۔
پھر سورۂ توبہ میں بتایا گیا کہ تبوک کے لیے جب نکلنے کا حکم ہوا تو وہ بڑی مشکل گھڑی تھی:
لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ فِيْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّہٗ بِہِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۱۱۷ (التوبہ۹:۱۱۷) اللہ نے نبی اور ان مہاجرین و انصار پر رحمت کی نظر کی جنھوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت میں دیا، بعد اس کے کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہوچکے تھے۔ پھر اللہ نے ان پر رحمت کی نگاہ کی۔ بے شک وہ ان پر نہایت مہربان اور رحیم ہے۔
سورۂ انفال میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ تعداد کے بڑے فرق سے قطع نظر قتال پر اُبھاریں:
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۶۵(انفال۸:۶۵) اے نبیؐ! مومنین کو جہاد پر ابھارو۔ اگر تمھارے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر بھاری ہوں گے۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ بصیرت سے محروم ہیں۔
غرض یہ کہ قرآن مجید میں تاریخِ اسلام کے متعدد مواقع کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور ان مواقع کا ذکر کیا گیا ہے جب اہلِ اسلام کے مقابلے میں دشمن کی تعداد اور مادی قوت خوف ناک حد تک زیادہ تھی۔ لیکن کہیں بھی كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کی تعلیم نہیں دی گئی۔ ہر موقعے پر قاتلوھم کی تاکید کی گئی۔ اس لیے محترم جاوید احمد صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی رائے وہ شوق سے پیش کریں، لیکن قرآن مجید کے ساتھ ظلم نہ کریں۔ قرآن مجید ظلم سے روکتا ہے، لیکن ظالموں سے ڈرنا اور ان کے ظلم کو قبول کرلینا نہیں سکھاتا ہے۔ ظالم کتنا ہی طاقت ور ہو وہ اللہ سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتا۔ اللہ کی نصرت کے آگے کسی طاقت ور ظالم کی نہیں چلنے والی ہے۔
آخر میں استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے اس ایمان افروز بیان کو ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، جو انھوں نے طالوت اور جالوت کے واقعے کی تفسیر میں تحریر کیا ہے :
وہ حقیقی شجاعت جو خدا کی راہ میں موت کو زندگی سے بھی زیادہ عزیز و محبوب بنا دیتی ہے وہ مومن کے اس عقیدے سے پیدا ہوتی ہے کہ خدا کی راہ میں قتل ہونے والے مرتے نہیں ہیں بلکہ حقیقی زندگی اور اپنے رب کی ملاقات سے مشرف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے ہمت چھوڑ بیٹھنے والے ساتھیوں کو اُبھارا کہ فلسطینیوں کی کثرتِ تعداد سے مرعوب ہو کر ہمت نہ ہارو اصل شے تعداد نہیں بلکہ اللہ کی تائید اور اس کی نصرت ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ نہایت قلیل التعداد گروہ محض اللہ کے حکم اور اس کی تائید سے دَل با دل فوجوں [بہت بڑی فوج] پر غالب آگیا ہے۔ خدا کی تائید حاصل کرنے کے لیے جو چیز مطلوب ہے وہ صبر و استقامت اور عزم و ہمت ہے نہ کہ تعداد کی کثرت و قلت۔(تدبر قرآن، ج ۱ ص ۵۷۸)
’’جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور ہمارے مفاد میں تو ہرگز بھی نہیں۔ بھلا کون ہے جو ایٹمی طاقت سے لیس ملک کا غلیل سے مقابلہ کرنا چاہے گا؟ آخرکار جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ وار رپورٹر ہیں، آپ ہی بتائیں: کیا آپ کو جنگ پسند ہے؟‘‘ یہ سوال ۲۰۱۸ء میں اطالوی صحافی فرانسسکو بوری کو انٹرویو میں ’طوفان الاقصیٰ‘ کے منصوبہ ساز اور حماس کے شہید سربراہ یحییٰ سنوار نے کیا تھا۔ ان کا یہ انٹرویو شہ سرخیوں کی زینت بنا، جسے سیاسی حل کی طرف پیش قدمی کی کوشش قرار دیا گیا۔
یحییٰ سنواراسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ بحری ، فضائی اور زمینی ناکہ بندی کا خاتمہ چاہتے تھے، جس نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا تھا۔ کیا کرۂ ارض پر ایسا کوئی دوسرا مقام ہے، جس کی ۲۳ لاکھ انسانوں پر مشتمل آبادی مسلسل ۱۸ سال سے محاصرے کی حالت میں ہے؟ زراعت، تجارت اور ماہی گیری، سب تباہ کر دیئے گئے۔ صرف چار گھنٹے کے لیے بجلی فراہم کی جاتی، ۶۲فی صد آبادی کو خوراک کے لیے امداد کی ضرورت تھی، جب کہ بے روزگاری کی شرح ۴۶فی صد پر پہنچ چکی تھی ۔ اس ناکہ بندی کو ختم کرنے کے لیے تمام بااثرعرب ممالک نے کوئی خاص کردار ادا نہ کیا۔ جمہوریہ ترکیہ کے ادارے نے ۲۰۱۰ء میں فریڈم فلوٹیلا بھیجا، جس پر اسرائیل نے حملہ کرکے ۹؍ افراد کو شہید کردیا ۔
۲۰۰۸ء، ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء کی غزہ اسرائیل جنگیں اسی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے ہوئی تھیں۔ ۲۰۱۷ءمیں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالنے والے یحییٰ سنوار ناکہ بندی کے خاتمے کے بدلے جنگ بندی پر آمادہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور ہمارے مفاد میں تو ہرگز بھی نہیں‘‘۔ انھوں نے نئی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مارچ ۲۰۱۸ء میں ’گریٹ مارچ آف ریٹرن‘ ' کے نام سے ہر جمعے کے بعد مظاہروں کا اعلان کیا۔ فلسطینی ہزاروں کی تعداد میں جمعہ کی نماز کے بعد غزہ کی سرحد پر مظاہرہ کرتے۔ اسرائیل نے ان پرامن مظاہرین کو بھی نہ بخشا۔ ۳۰ مارچ ۲۰۱۸ءسے ۲۷ دسمبر ۲۰۱۹ء تک پونے دو سال تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں اسرائیل نے ۲۲۳ فلسطینی شہریوں کو شہید کیا ، اور ایک سال مکمل ہونے پر بتایا گیا تھا کہ شہداء میں ۴۱ بچے بھی شامل تھے، جب کہ زخمیوں کی تعداد ۲۹ ہزار سے زیادہ تھی ۔
ماہرین نے ان پُرامن مظاہروں اور یحیٰی سنوار کے بیان کو پالیسی شفٹ قرار دیا تھا ۔ شاید عرب ممالک ، مسلم دُنیا اور بین الاقوامی برادری غزہ اور اہل غزہ کو بالکل فراموش کرچکے تھے۔ عرب حکمران ناکہ بندی تو کیا ختم کراتے، اب ان کی دلچسپی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے نام نہاد ’معاہدہ ابراہیمی‘ میں تھی۔ فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے ۲۰۲۰ء میں نام نہاد ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط نے دو ریاستی حل کی اُمید کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مراکش اور سوڈان نے ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کرکے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ اس سے پہلے۲۰۱۸ء میں امریکا، مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرچکا تھا۔ دو ریاستی حل ٹھیک ہے یا غلط؟ اب اس بحث کی گنجائش بھی نہ بچی تھی۔ سعودی عرب کی طرف سے ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کے ساتھ ہی دو ریاستی حل ماضی کا قصہ بن جانا تھا، اس کے شواہد ہم آگے پیش کردیں گے۔
یہ طویل تمہید ہمیں حماس ، فلسطین اور دو ریاستی حل سے متعلق، نہایت قابل احترام دانش ور کے بیان کی وجہ سے باندھنا پڑی، جو مختلف سوشل میڈیا صفحات پر زیر بحث ہے۔ کسی مسئلے پر افراد کی آراء میں اختلاف کا پایا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ محترم دانش ور نے حماس کے ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے اقدام پر قرآن و سنت اور تاریخ کے تعلق سے جو بات کی، اس کا بہتر جواب تو علما، اسکالرز اور مؤرخین ہی دے سکتے ہیں۔ ہم یہاں ان کی گفتگو کے کم از کم چار ایسے مقامات کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو ہمارے علم کی حد تک درست بات نہیں ہے۔یہاں وہی الفاظ نقل کیے جارہے ہیں، جو محترم صاحب ِدانش دوست نے ادا کیے:
۱- ’کیا سعودی عرب سے پوچھ کر(حماس نے ۷؍اکتوبر کا) حملہ کیا تھا؟ تین دن بعد فیصلہ ہونے والا تھا۔ دو ریاستیں بن جاتیں اب تک ، اناؤنس ہوجاتیں ، امریکا ضامن تھا اس کا‘۔
۲- ’جہاں اسرائیلی یرغمالی رکھے گئے وہاں [اسرائیل کی طرف سے] بمباری غلطی سے بھی نہیں ہوئی، صرف تین کی اموات اس وجہ سے ہوئیں کہ عین اس وقت یہ لوگ ان کو زبردستی اسپتال کی بیسمنٹ [تہہ خانے] میں لے گئے تھے۔ ان [یعنی اسرائیل]کو سب معلوم تھا کہ کیا کہاں ہے؟‘
۳- ’حماس کے ۷؍اکتوبر کے اقدام کے پیچھے ایران تھا‘۔
۴- ’حماس نے عرب سرپرستی کو چھوڑ کر جو ایرانی سرپرستی کو قبول کیا، یہ سخت ناعاقبت اندیشی کا فیصلہ تھا۔ انھیں اپنے بانی شیخ احمد یٰسین کے نقش عدم پر رہنا چاہیے تھا۔ شیخ احمد یٰسین تمام پیش کشوں کے باوجود کبھی ایران کی طرف نہیں بڑھے‘۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے والے ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کے بعد دو ریاستی حل کے نعرے کی زبانی کلامی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ ’طوفان الاقصیٰ‘ سے دو ہفتے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ۲۲ ستمبر ۲۰۲۳ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مشرق وسطیٰ کا جو نقشہ ساری دنیا کو دکھایا تھا، اس میں فلسطینی ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا۔ نقشے میں بیت المقدس کے مشرقی علاقے، غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیلی ریاست کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اسی تقریر میں قاتل نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا: ’اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ طے پانے کے قریب ہے‘۔
نیتن یاہو نے مصر، اردن اور ۲۰۲۰ء میں دیگر ممالک کے ساتھ اسرائیلی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے حاضرین سے کہا تھا: ’’غور کیجیے سعودی عرب کے ساتھ امن کا کیا نتیجہ نکلے گا؟‘‘۔ ساتھ ہی اس نقشے کی دوسری جانب ایک تصویر پر اسرائیل کے ارد گرد وسیع سبز علاقے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’امن کے نتیجے میں پورا مشرق وسطیٰ تبدیل ہو جائے گا‘‘۔اس سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل پر مشتمل ایک علاقائی راہداری بنے گی، جو ایشیا کو یورپ سے ملائے گی‘‘۔
نیتن یاہو نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان جس معاہدے کی بات کی تھی، اس میں دو ریاستوں کی کوئی بات نہیں تھی، سوائے ’معاہدہ ابراہیمی‘ کے، اور جس پر امارات، بحرین ، مراکش اور سوڈان تو پہلے ہی دستخط کرچکے تھے۔ اگر سعودی عرب بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے جارہا تھا، جس کے لیے آج بھی سخت دباؤ ہے تو پھر کون سی اور کہاں کی دو ریاستیں؟ یوں فلسطین کا معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا تھا۔ جس طرح ۱۹۴۸ء کے بعد سے آج تک فلسطینیوں کی جبری بے دخلی جاری ہے، غزہ اور مغربی کنارے سے یہ عمل بھی جلد یا بدیر مکمل کرلیا جاتا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے برابر میں بیٹھ کر اسی منصوبے کا تو اعلان کیا ہے یعنی ’فلسطینیوں سے خالی غزہ!‘___ معترض دانش ور صاحب وہ بات نہ کہیں، جس کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ اگر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان کوئی معاہدہ ہونا تھا تو وہ ’معاہدہ ابراہیمی‘ ہی تھا، جس کا ذکر نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں کیا تھا اور اس کا دو ریاستی حل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سخت بیان بازی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر چین کے سخت ردعمل نے ’دو ریاستی حل‘ کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے کہ جس کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ۲۲ ستمبر کو نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں کیا تھا۔ [تاہم، اپنے جائز تصور کے مطابق مسلم اُمہ کو بھی دو ریاستی حل قبول نہیں کہ اس میں غاصب ریاست کو زبردستی تحفظ دیا جارہا ہے۔ادارہ]
یہ بات بھی ریکارڈ پر رہنی چاہیے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو ریاست کے نام پر ایک انچ بھی نہیں دینا چاہتا۔ ان کا ایجنڈا فلسطینیوں سے غزہ مکمل خالی ہے اور ٹرمپ نے نتین یاہو کے ساتھ بیٹھ کر یہی اعلان بھی کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ موصوف کی یہ بات بھی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی کہ ’’صرف تین یرغمالی اسرائیل کی قید میں مارے گئے اور اسرائیل نے غلطی سے بھی ان مقامات پر بمباری نہیں کی جہاں یرغمالیوں کو رکھا گیا تھا‘‘۔ حقیقتاً اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مارے گئے یرغمالیوں کی تعداد کم از کم ۳۳ ہے۔ ۲۰ فروری ۲۰۲۵ءکو حماس نے بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے چار یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرتے ہوئے اسرائیلی خاندانوں کے نام پیغام میں کہا تھا: ’’ہم آپ کے بچوں کو زندہ واپس بھیجنا چاہتے تھے، مگر آپ کی فوج اور حکومتی رہنماؤں نے انھیں قتل کرنا پسند کیا۔ چارمزید مغویوں کی لاشیں اسرائیل کو آئندہ ہفتے واپس کی جائیں گی‘‘۔
دانش ور صاحب نے فرمایا ہے: ’’۷؍اکتوبر کے حملے کے پیچھے ایران تھا‘‘۔ یہ بھی حقیقت کے خلاف ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے۱۶ نومبر۲۰۲۳ء کو یہ خبر دی تھی کہ ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے تہران میں حماس رہنما اسماعیل ہنیہ سے ملاقات میں واضح پیغام دیا :’’آپ نے ہمیں ۷؍ اکتوبر کے حملوں سے باخبر نہیں کیا تھا اور ہم آپ کی طرف سے جنگ میں داخل نہیں ہوں گے‘‘۔
رائٹرز نے حماس اور ایرانی اعلیٰ حکام کے حوالے سے بتایا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کو آگاہ کیا: ’’ہم آپ کی سیاسی اور اخلاقی حمایت تو جاری رکھیں گے، مگر براہِ راست مداخلت نہیں کریں گے‘‘۔حماس نے رائٹرز کی اس رپورٹ کی تردید کی تھی، مگر ایرانی وزیرخارجہ نے اس دوران یہ بات کئی بار کہی کہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ اسرائیل حماس کی لڑائی پورے خطے میں پھیل جائے‘‘۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں بتایا کہ ’’ایران امریکا کو آگاہ کرچکا ہے کہ وہ اس بات کے حق میں نہیں کہ حماس، ایران تنازع پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے‘‘۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ایران یہ بات کئی بار کہہ چکا ہے کہ ’’اسے ۷؍اکتوبر کے حملے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور امریکا بھی ایران کی اس بات سے اتفاق کرتا ہے‘‘۔
ایران اور حماس کے تعلقات پر امریکی جریدے Foreign Policy میں شائع مضمون The 7 Reasons Iram Won't Fight for Hamas میں بتایا گیا ہے: ’’یہ سمجھنا غلط ہے کہ حماس اور حزب اللہ ایران کی پراکسیز ہیں ، تاہم یہ ایران کے نان اسٹیٹ اتحادی ہیں ۔ ماسکو اور بیجنگ میں ایران کے اسٹرے ٹیجک پارٹنرز نے حماس کی مکمل حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اسرائیلی اور امریکی انٹیلی جنس کے مطابق ایران کے اعلیٰ عہدے داران ۷؍اکتوبر کے حملے سے واقف نہیں تھے۔ Foreign Policy کے مطابق:
There is no top-down relationship between Tehran and Hamas. Even as Hamas aligns its actions with Iran, its approaches could diverge, as they notably did during the Syrian civil war when Hamas supported the Sunni anti-Assad rebels. American and Israeli intelligence has suggested that Iran’s top officials were not aware of the Hamas operation.
واجب الاحترام دانش ور نے اسی موضوع پر اپنی اگلی پوڈ کاسٹ میں یہ بھی کہا: ’’حماس نے عرب سرپرستی کو چھوڑ کر جو ایرانی سرپرستی کو قبول کیا، تو یہ سخت ناعاقبت اندیشی کا فیصلہ تھا، انھیں اپنے بانی شیخ احمد یٰسین کے نقش قدم پر رہنا چاہیے تھا۔ شیخ احمد یاسین کبھی ایران کی طرف نہیں بڑھے‘‘۔ ہماری رائے میں اگر موصوف ’سرپرستی‘ کے بجائے ’تعاون‘ کا لفظ استعمال کرتے تو یہ زیادہ مناسب تھا۔ پھر یہ بات بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ حماس کے سربراہ شیخ احمد یاسین نے ۱۹۹۸ء میں ایران کا دورہ کیا تھا اور ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی تھی۔ ایران اور حماس کے درمیان تعلقات ۱۹۹۲ء میں قائم ہوگئے تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ایران، ’الفتح‘ کی بھی حمایت کرتا رہا ہے۔ حماس نے ۱۹۹۹ء میں، جب کہ شیخ احمد یاسین حیات تھے اپنا سیاسی بیورو اردن سے ایران کے قریب ترین اتحادی ملک شام میں منتقل کرلیا تھا ۔ یہ فیصلہ اُردن کی جانب سے تنظیم کے خلاف پابندی ،خالد مشعل اور موسیٰ ابو مرزوق جیسے سینئر رہنماؤں کی گرفتاریوں اور دفاتر کی بندش کے بعد کیا گیا ۔ مگر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ حماس اپنے فیصلوں میں آزاد رہی ہے۔ اسی لیے جب شام میں بشار الاسد نے مارچ ۲۰۱۱ء میں اپنے ہی عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا، تو حماس نے ایران سے تعلقات کی خرابی کا خطرہ مول لیتے ہوئے فروری ۲۰۱۲ء میں قطر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ غزہ میں حماس کی منتخب حکومت کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بشار کے خلاف شامی عوام کی حمایت کا اعلان کیا اور اس طرح ایران کو ناراض کیا ۔ حماس کا سیاسی دفتر قطر میں ہے۔ کیا قطر عرب ملک نہیں ہے؟ محترم دانش ور صاحب نے اپنی گفتگو میں ۱۹۹۳ء میں ہونے والے معاہدے کا بھی ذکر کیا اور ایڈورڈ سعید کے کردار کی تعریف کی ہے، حالانکہ ایڈورڈ سعید کا ’اوسلو معاہدے‘ پر تبصرہ یہ تھا:
"It is an instrument of Palestinian surrender, a Palestinian Versailles".
ہمیں اسرائیلی پالیسی اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی کارکردگی پر حماس کے Foreign Policy چیف اسامہ حمدان کا یہ تجزیہ بالکل درست نظر آتا ہے: Abbas had given Israel everything but on other hand has received nothing in return. (عباس نے اسرائیل کو وہ سب کچھ دیا جو وہ چاہتا تھا، مگر دوسری جانب کچھ بھی وصول نہ کیا)
اس تحریر کا مقصد قارئین کو بھارت یا پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھنے کی اپیل کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کے ضمیر، انسانی ہمدردی، اور اخلاقی حِس کو مخاطب کرنا ہے۔
حقِ خودارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر کا ایک بنیادی اصول ہے، جس کی توثیق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں کی گئی اور متعدد بین الاقوامی تنازعات کے حل میں اسے کئی بار استعمال کیا گیا ہے۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۱ء کے اٹلانٹک چارٹر میں، جو برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے جاری کیا، تمام افراد یا قوموں کا اپنی حکومت کے انتخاب کا حق تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان قوموں کو خودمختار حقوق واپس دیے جائیں، جن سے زبردستی یہ حقوق چھین لیے گئے تھے۔
آخر کار، ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کے قیام نے خودارادیت کے اصول کو ایک نئی جہت دی اور اسے ان مقاصد میں شامل کیا گیا جنھیں اقوام متحدہ نے حاصل کرنے کا ہدف قرار دیا تھا، ساتھ ہی تمام اقوام کے مساوی حقوق کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۱.۲ میں مقاصد میں سے ایک درج ہے: ’’قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا، جو مساوی حقوق اور خودارادیت (Self-determination) کے اصول کے احترام پر مبنی ہو‘‘۔
۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشرے میں، خودارادیت کے حق کو تقریباً مکمل طور پر نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے عمل کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ قرارداد ۱۵۱۴ کا عنوان ہے: ’نوآبادیاتی ملکوں اور قوموں کو آزادی دینے کا اعلامیہ‘۔ اس میں اصول کا یہ بیان شامل ہے: ’’تمام قوموں کو خودارادیت (Self-determination)کا حق حاصل ہے؛ اس حق کے تحت وہ آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کرتی ہیں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آزادانہ طور پر آگے بڑھاتی ہیں‘‘۔
۱۹۷۰ء کی قرارداد ۲۶۲۵نے ایک دستاویز منظور کی جس کا عنوان تھا:’دوستانہ تعلقات اور ریاستوں کے درمیان تعاون سے متعلق بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ‘۔ ایک حصہ، جس کا عنوان ہے:’قوموں کے مساوی حقوق اور خودارادیت کا اصول‘، اعلامیہ میں کہا گیا: ’’اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج قوموں کے مساوی حقوق اور خودارادیت (Self-determination) کے اصول کے تحت، تمام قوموں کو حق حاصل ہے کہ وہ بیرونی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کریں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آگے بڑھائیں، اور ہر ریاست کا فرض ہے کہ اس حق کا احترام کرے، جیسا کہ چارٹر کی دفعات میں مقرر کیا گیا ہے‘‘۔
’’۱.۱تمام قوموں کو خودارادیت کا حق حاصل ہے۔ اس حق کے تحت وہ آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کرتی ہیں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آزادانہ طور پر آگے بڑھاتی ہیں‘‘۔
یہ معاہدے ۱۹۷۶ء میں نافذ ہوئے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے برعکس، بین الاقوامی قانون کے تحت توثیق کرنے والی ریاستیں ان کی پابند ہیں، بشرطیکہ توثیق کے وقت کوئی تحفظات پیش نہ کیے گئے ہوں۔ بھارت نے ان دونوں معاہدوں کی توثیق ۱۰؍ اپریل ۱۹۷۹ء کو کی تھی۔
یہ خیال کہ جموں و کشمیر کی حیثیت کا تنازعہ صرف عوام کی مرضی کے مطابق طے ہو سکتا ہے، جو آزاد اور غیر جانب دار استصواب رائے کے جمہوری طریقۂ کار سے معلوم ہو، پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کسی اختلاف کے بغیر اس کی حمایت کی اور اسے امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر جمہوری ریاستوں نے بھرپور انداز سے پیش کیا۔
اس قرارداد کے بعد، امریکا ’اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان‘ (UNCIP) کے ایک اہم رکن کے طور پر اس موقف پر قائم رہا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بنیادی فارمولا کمیشن کی ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادوں میں شامل کیا گیا۔
امریکا اور برطانیہ نے روایتی طور پر استصواب رائے (Plebiscite)کے معاہدے کو مسئلہ حل کرنے کا واحد راستہ سمجھا ہے۔ انھوں نے سلامتی کونسل کی ان تمام قراردادوں کی سرپرستی کی، جن میں استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کی وابستگی اس وقت ظاہر ہوئی جب امریکی صدر ہیری ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ذاتی اپیل کی کہ غیر مسلح ہونے کے تنازعے کو استصواب رائے کے منتظم، ایک ممتاز امریکی جنگی ہیرو، ایڈمرل چیسٹر نمٹز کے ذریعے ثالثی کے لیے پیش کیا جائے۔ انڈیا نے اس اپیل کو مسترد کر دیا اور بعد میں کسی امریکی کے استصواب رائے کے منتظم کے طور پر کام کرنے پر اعتراض کیا۔ ایک اور امریکی سینیٹر فرینک گراہم نے اقوام متحدہ کے نمائندے کے طور پر برصغیر کا دورہ کیا تاکہ استصواب رائے سے قبل کشمیر کو غیر مسلح کرنے پر بات چیت کریں۔ انڈیا نے ان کی تجاویز کو بھی مسترد کر دیا۔ یہ معاملہ صرف اس وقت متنازعہ ہوا جب انڈیا کو احساس ہوا کہ وہ استصوابِ رائے کے نتیجے میں تائید حاصل نہیں کرسکتا۔
… ہمارے پاس موجود دستاویزات فریقین کے درمیان درج ذیل تین نکات پر اتفاق ظاہر کرتی ہیں:
۱- یہ سوال کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت میں شامل ہوگی یا پاکستان میں، استصواب رائے کے ذریعے طے کیا جائے گا۔
۲- یہ استصواب رائے ایسے حالات میں کیا جانا چاہیے جو مکمل غیر جانبداری کو یقینی بنائیں۔
۳- لہٰذا، یہ استصواب رائے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں منعقد کیا جائے گا۔
انڈیا اور پاکستان کی حکومتیں اس خواہش کا اعادہ کرتی ہیں کہ جموں و کشمیر ریاست کی آئندہ حیثیت عوام کی خواہشات کے مطابق طے کی جائے گی، اور اس مقصد کے لیے جنگ بندی معاہدے کی منظوری پر، دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مشاورت کرنے پر متفق ہیں تاکہ ایسے منصفانہ اور مساوی حالات کا تعین کیا جا سکے جن کے ذریعے آزادانہ اظہار رائے کو یقینی بنایا جا سکے۔
۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قرارداد میں یہ حکم دیا گیا کہ جموں و کشمیر ریاست میں تمام حکام استصواب رائے کے منتظم کے ساتھ تعاون کریں تاکہ کشمیری عوام کی آزادانہ رائے شماری کے لیے بنیادی حالات کو یقینی بنایا جا سکے، جس میں اظہار رائے اور اجتماع کے بنیادی سیاسی حقوق کا تحفظ شامل ہے۔
چونکہ دونوں حکومتوں نے کمیشن کی تجاویز کو رسمی طور پر قبول کر لیا تھا، اور یہ ایک بین الاقوامی معاہدے کے طور پر اتنی ہی پابند تھیں جتنی کہ ایک معاہدہ۔ فوری طور پر جنگ بندی نافذ کی گئی۔ کمیشن نے انڈیا اور پاکستانی افواج کو ریاست سے اس طرح نکالنے کے لیے منصوبہ بندی پر بات چیت شروع کی کہ کسی بھی فریق کو نقصان نہ ہو اور استصواب رائے کی آزادی کو خطرہ نہ ہو۔ اس دوران امریکی ایڈمرل چیسٹر نمٹز کو استصواب رائے کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر نامزد کیا گیا۔
مہاتما گاندھی نے ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اپنی حکومت کی پوزیشن ان الفاظ میں بیان کی: ’’اگر کشمیری عوام پاکستان کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی۔ انھیں اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے‘‘۔
بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ۲ جنوری ۱۹۵۲ء کو اعلان کیا:’’ہم نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا ہے اور قابلِ احترام وعدہ کیا ہے کہ ہم نے مسئلے کے حتمی حل کو کشمیری عوام کے فیصلے پر چھوڑ دیا ہے‘‘۔
جب ہم کشمیر سے افواج کی واپسی کی بات کر رہے ہیں، تو بھارت یہ الزام لگاتا ہے کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے کیونکہ اس نے ان قراردادوں کے تحت اپنی افواج کشمیر سے واپس نہیں بلائیں۔ یہ ہراعتبار سے غلط بات ہے۔
پروفیسر جوزف کوربل، جو ’اقوامِ متحدہ کمیشن برائے بھارت و پاکستان‘ کے پہلے چیئرمین تھے، انھوں نے اس سوال کا جواب اپنے مضمون ’نہرو، اقوامِ متحدہ اور کشمیر‘ میں دیا ہے، جو ۴مارچ ۱۹۵۷ء کو دی نیو لیڈر میں شائع ہوا۔ جوزف کوربل لکھتے ہیں:
بھارتی مندوب کے مطابق: ’پاکستان نے اقوامِ متحدہ کمیشن کی قرارداد کے اس حصے پر عمل درآمد روک دیا جو استصوابِ رائے سے متعلق ہے، کیونکہ اس نے کشمیر سے اپنی افواج واپس بلانے کی تجویز پر عمل نہیں کیا‘۔ یہ سچ نہیں ہے۔ پاکستان سے اس وقت تک یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی افواج کشمیر سےواپس بلائے جب تک بھارت کے ساتھ افواج کی بیک وقت واپسی کے لیے کوئی متفقہ منصوبہ نہ ہو۔
ان تمام عوامل کے مطابق کشمیریوں کا خودارادیت کے حق کا دعویٰ غیرمعمولی طور پر مضبوط ہے۔ اس علاقے کی خود حکمرانی کی ایک طویل تاریخ ہے، جو نوآبادیاتی دور سے پہلے کی ہے۔ کشمیر نے کامیابی سے اپنی آزادی دوبارہ حاصل کی، جب اسے تیسری صدی قبل مسیح میں سکندراعظم کے دور میں اور ۱۶ویں اور ۱۷ویں صدی کے مغل دور میں زیر کیا گیا۔ کشمیر کی حدود کئی صدیوں سے واضح طور پر متعین ہیں اور دنیا کے نقشوں پر بھی واضح طور پر دکھائی گئی ہیں۔ کشمیر کا رقبہ تقریباً ۸۶ہزار مربع میل پر محیط ہے، جو برطانیہ سے کچھ بڑا اور بیلجیم، لکسمبرگ اور نیدرلینڈ کے مجموعی رقبے سے تین گنا بڑا ہے۔
کشمیری عوام کشمیری زبان بولتے ہیں، جو ہندی یا اردو سے مختلف ہے۔ ان کی ثقافت بھی ہر لحاظ سے علاقے کی دیگر ثقافتوں سے منفرد ہے - لوک کہانیاں، لباس، روایات، کھانے پینے کی اشیاء، یہاں تک کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء جیسے برتن، زیورات، خاص کشمیری انداز رکھتے ہیں۔ خاص طور پر کپڑے، کڑھائی اور قالین کشمیری ڈیزائن کے لیے مشہور ہیں۔
۱- یہ ایک ایسے علاقے میں موجود ہے جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے تحت ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق، اس علاقے کی حیثیت عوام کے آزادانہ ووٹ کے ذریعے اقوام متحدہ کی نگرانی میں طے کی جانی ہے۔
۲- یہ ایک ایسی حکومت کی جانب سے جبر کی نمائندگی کرتا ہے جو علیحدگی پسند یا علیحدگی کی تحریک کے خلاف نہیں بلکہ غیر ملکی قبضے کے خلاف بغاوت کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ قبضہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت ختم ہونے کی توقع تھی۔ کشمیریوں کو ’علیحدگی پسند‘ کہنا درست نہیں کیونکہ وہ کسی ایسے ملک سے الگ نہیں ہو رہے کہ جس کے ساتھ وہ کبھی شامل ہی نہیں ہوئے۔
۳- اقوام متحدہ نے اس معاملے کو نظرانداز کیا ہے۔ اس بے پروائی نے انڈیا کو مکمل استثنیٰ کا احساس دیا ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے اصولوں کے اطلاق میں متعصبانہ رویہ رکھتی ہے۔
۴- یہ اقوام متحدہ کے غیر فعال ہونے کا ایک افسوس ناک کیس ہے، جو ایک ایسی صورت حال کو حل کرنے سے قاصر ہے، جس پر اس نے متعدد قراردادیں منظور کیں اور اپنی موجودگی قائم کی۔ انڈیا اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا گروپ (UNMOGIP) اقوام متحدہ کے سب سے پرانے امن مشنوں میں سے ایک ہے۔ یہ فورس کشمیر میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی کے لیے تعینات ہے۔
۵- کشمیر واحد بین الاقوامی تنازع ہے جس کا حل خود فریقین – انڈیا اور پاکستان – نے تجویز کیا۔ یہ حل کہ کشمیری عوام خود فیصلہ کریں، انڈیا کی طرف سے تجویز کیا گیا، پاکستان نے اس کی حمایت کی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسے قبول کیا۔
۶- کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جو تین ایٹمی ممالک – انڈیا، پاکستان اور چین – کی سرحدوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر (UNHCHR) نے ۱۴ جون ۲۰۱۸ء اور ۸جولائی ۲۰۱۹ء کو ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال‘ پر رپورٹس جاری کیں۔ ان رپورٹس میں انڈین قابض افواج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلی دستاویزات شامل ہیں۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس سے کشمیری عوام پر انڈین فوج کے مظالم بین الاقوامی سطح پر سامنے آئے۔
رپورٹ میں انڈین حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کے خلاف جمہوری آزادیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات درج ہیں۔ اس میں متعدد ایسے مواقع کی تفصیلات دی گئی ہیں جہاں سخت قوانین کے استعمال نے انڈین فوج کو مکمل استثنیٰ فراہم کیا۔ رپورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استثنیٰ اور انصاف تک رسائی کا فقدان جموں و کشمیر میں کلیدی چیلنجز ہیں‘‘۔ مزید یہ کہ ’’کشمیر میں جبری گمشدگیوں کے لیے استثنیٰ برقرار ہے کیونکہ شکایات کی تحقیقات یا وادیٔ کشمیر اور جموں کے علاقوں میں مبینہ اجتماعی قبروں کے مقامات کی قابل اعتماد تفتیش کی طرف بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔
انڈیا اپنے آپ کو عالمی برادری میں بڑا دیکھنا چاہتا ہے، لیکن ایک ملک متنازعہ سرحدوں کے ساتھ اپنی ساکھ اور اثر و رسوخ برقرار نہیں رکھ سکتا۔درحقیقت، کچھ باشعور مبصرین پہلے ہی بھارتی متوسط طبقے میں بڑھتی ہوئی اس آگاہی کو محسوس کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا مستقل طور پر پایا جانا انڈیا کو کمزور کرتا ہے۔ اسی طرح خود انڈیا میں ہمیشہ ایسے معقول عناصر موجود رہے ہیں، جنھوں نے کشمیر پر انڈیا کے جارحانہ رویے کے اخلاقی اور عملی پہلو پر سوال اٹھائے ہیں۔ تاہم، انھیں باہر سے بہت کم حمایت ملی ہے، جس کی وجہ سے وہ دبے رہے ہیں۔
انڈیا کی پالیسیوں کی ظاہری ناکامی، کشمیر میں قائم کی گئی شکست خوردہ حکومت اور وہاں ہونے والے نقصانات، جنھیں کشمیری عوام کو دبانے کے لیے زبردست قوت کے استعمال کے باوجود برداشت کرنا پڑا۔ – یہ سب چیزیں انڈیا میں، یہاں تک کہ اس کی فوج میں، مزید لوگوں کو یہ باور کرا رہی ہیں کہ یہ فائدہ مند نہیں ہے۔ لیکن یہ تعمیری رجحان اس وقت ختم ہو جائے گا اگر دنیا کی طاقتیں بھارت کی ہٹ دھرمی کو برداشت کرتی نظر آئیں اور خود انڈیا میں صحت مند رائے عامہ کو نظرانداز کریں۔
اس کے ساتھ ہی، آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ انڈیا، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان تین طرفہ مذاکرات ہی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا واحد راستہ ہیں۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی قیادت اس حقیقت کو تسلیم کرے گی کہ جموں و کشمیر کے عوام کی مکمل اور فعال شرکت کے بغیر کشمیر تنازع کا کوئی حل ممکن نہیں۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۱۲۲ واضح کرتی ہے کہ ’’آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی جنرل کونسل کی سفارش پر ایک آئینی اسمبلی کا انعقاد اور اس اسمبلی کے ذریعے ریاست کی مستقبل کی شکل اور الحاق کے بارے میں کیے گئے یا کیے جانے والے کسی بھی اقدام کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق ریاست کا فیصلہ نہیں سمجھا جائے گا‘‘۔
تازہ ترین شکار خرم پرویز ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر معروف انسانی حقوق کے کارکن ہیں اور یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے محافظین کے لیے خصوصی نمائندہ مس ماری لاولر نے ۲۳ نومبر ۲۰۲۱ء کو کہا: ’’وہ (خرم پرویز) دہشت گرد نہیں، بلکہ انسانی حقوق کے محافظ ہیں‘‘۔اسی قانون کے تحت دیگر متاثرین میں محمد یاسین ملک (چیئرمین، جے کے ایل ایف)، شبیر احمد شاہ (۳۵ سال سے زائد قید میں رہے)، مسرت عالم، آسیہ اندرابی، مسز صوفی فہمیدہ، اور مسز ناہید نسرین شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں کبھی غیر مؤثر نہیں ہو سکتیں یا تبدیل شدہ حالات کے سبب ختم نہیں ہو سکتیں۔ وقت کا گزرنا کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت جیسے ناقابل تنسیخ اصول کو ختم نہیں کرسکتا۔ اگر وقت گزرنے سے عالمی معاہدے ختم ہو جائیں، تو اقوام متحدہ کے چارٹر کو بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہیے، جیسا کہ کشمیر پر قراردادوں کے ساتھ ہوا۔
۱۹۹۵ءمیں بین الاقوامی کمیشن برائے انصاف نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کو کبھی ختم نہیں کیا گیا اور انڈیا اور پاکستان کو تجویز دی کہ وہ ایک ایسا حل تلاش کریں جس کی ریاست کے عوام ریفرنڈم میں منظوری دیں۔
کشمیری عوام ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انتونیو گوتریس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۹۱ کے تحت کشمیر کی صورتِ حال میں مداخلت کریں۔ کیونکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں منظم، جانتے بوجھتے اور انڈین حکومت کی سرپرستی میں کی جارہی ہیں۔ انڈیا نے کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو قانونی حیثیت دی ہوئی ہے، اور اپنی قابض افواج کو گولی مارنے اور کشمیری عوام پر ظلم کرنے کا مکمل اختیار دے رکھا ہے۔
۱- شہری آبادی کے خلاف تمام فوجی اور نیم فوجی کارروائیوں کا فوری خاتمہ۔
۲- شہروں اور دیہاتوں سے فوج کی واپسی۔
۳- بنکرز، واچ ٹاورز اور رکاوٹوں کا خاتمہ۔
۴- سیاسی قیدیوں کی رہائی۔
۵- آبادیاتی تبدیلی کے لیے بنائے گئے ڈومیسائل قانون کو منسوخ کرنا۔
۶- جابرانہ قوانین کو ختم کرنا۔
۷- پُرامن اجتماع، مظاہروں اور تنظیم سازی کے حقوق بحال کرنا۔
۸- حریت قیادت کو بیرون ملک سفر کی اجازت دینا۔
۹-کشمیری قیادت کو جموں و کشمیر کے دورے کے لیے ویزا دینا تاکہ امن عمل شروع کیا جاسکے۔
انڈیا کی بڑھتی ہوئی ضد اور بین الاقوامی وعدوں کو نظر انداز کرنے کے پیش نظر، حکومت پاکستان کو کشمیر کے معاملے کی وکالت کے لیے اپنی پالیسی کو اَزسرنو مؤثر بنانا ہوگا۔ اگر پاکستان اس معاملے پر کسی مضبوط اور مؤثر حکمت عملی کے بغیر سست روی کا مظاہرہ کرے گا تو اس کے نتیجے میں انڈیا صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتا رہے گا۔
پاکستان کی موجودہ داخلی سیاست اہلِ کشمیر کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ وہ اپنی کامیابی صرف ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان میں دیکھتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کشمیر کے مسئلے پر مکمل اتفاق رائے کے ساتھ نظر آئے۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کمزوری انڈیا کے شدت پسند قوم پرست میڈیا کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہوگی۔
یہ انتہائی ضروری ہے کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلے پر کانفرنسز اور سیمینار منعقد کرے تاکہ اس مسئلے پر تفصیل سے بحث ہو اور ایک ایسی حکمت عملی تیار کی جا سکے جو تین فریقین: بھارت، پاکستان، اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کے درمیان فعال اور مؤثر مذاکرات کی راہ ہموار کرے۔ اس سے کم کسی بھی کوشش سے مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکامی ہوگی، جو خطے کو ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ عالمی برادری کو اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کیے بغیر اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے ۱۴ جون ۲۰۱۸ء اور ۸جولائی ۲۰۱۹ء کو جاری کی گئی رپورٹس، جن میں ’کشمیر کی صورتِ حال‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے، کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت پاکستان کو انسانی حقوق کونسل کے او آئی سی ارکان پر زور دینا چاہیے کہ وہ ان رپورٹس کی حمایت کریں اور آئندہ جنیوا میں جون-جولائی ۲۰۲۵ء اور ستمبر-اکتوبر ۲۰۲۵ء کے دوران ہونے والے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن کے قیام کے لیے مشترکہ او آئی سی قرارداد پیش کریں۔
ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن، چیئرمین ’جینوسائیڈ واچ‘، کی ۱۲ جنوری ۲۰۲۲ء کو امریکی کانگریس میں دی گئی گواہی اور ۱۹جنوری ۲۰۲۲ء کو کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو میں دیے گئے بیان کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی تیاری ہو رہی ہے، جو کشمیر اور آسام سے شروع ہو رہی ہے‘‘۔
حکومت پاکستان کو ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو قائل کرنا چاہیے کہ وہ کشمیری تارکینِ وطن کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں، جیسے طلبہ، اسکالرز، کارکنان، صحافی اور کاروباری افراد۔ او آئی سی کے رکن ممالک ان ہنر مند اور پیشہ ور کشمیریوں کے لیے ویزا، ملازمتوں، اور نقل مکانی کی سہولت کو ادارہ جاتی انداز میں یقینی بنائیں، جن کے لیے مودی کے انڈیا میں رہنا ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔
او آئی سی کو انڈیا مقبوضہ کشمیر کے مستحق طلبہ کے لیے اپنے تمام رکن ممالک میں اسکالرشپ پروگرام شروع کرنا چاہیے۔
آخر میں، یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ کئی اہم دارالحکومتوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ’جنرل پرویز مشرف فارمولا‘ پر عمل کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ لیکن ایک نکتے کے علاوہ، یعنی فوجوں کی واپسی (کشمیر کو غیر فوجی بنانا تاکہ تنازعے کا حل نکل سکے)، دیگر تمام نکات یا تو سراسر جھوٹ ہیں یا انڈین موقف کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ’مشرف فارمولا‘ ایک مکمل فریب (absolute fallacy) ہے۔
یہ اُمید کی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کے رکن ممالک مسئلہ کشمیر کا واحد حل – حقِ خودارادیت کا وہ اَدھورا وعدہ، جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مسلسل قراردادوں نے دی ہے – کے حل کی طرف توجہ دیں گے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امریکی قوانین کے مطابق ہر ۳۰ سال بعد امریکی خفیہ (کلاسیفائیڈ) دستاویزات، عوام کے لیے کھول (یعنی ڈی کلاسیفائی) دی جاتی ہیں۔ ان میں مختلف امریکی سفارت کاروں کے خفیہ مراسلے، ٹیلی گرامز وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے سے بہت سے انکشافات سامنے آتے ہیں۔ایسے ہی انکشافات کشمیر تنازع کے حوالے سے امریکی ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس سے سامنے آئے ہیں۔
ان کے مطابق تقسیم کے بعد پہلے ڈیڑھ سال تک امریکا، کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے حق میں تھا، تب بھارت میں موجود امریکی سفیر بھی واشنگٹن یہی رپورٹیں بھیجتے تھے کہ پاکستان کا کشمیری عوام سے رائے لینے کا مطالبہ جائز اور منصفانہ ہے، تاہم بتدریج اپنی مصلحتوں کی بنا پر امریکا اس سے پیچھے ہٹتا گیا۔ امریکیوں نے تب بھارت کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو پس پشت ڈال دیا۔
۱۹۵۶ء میں انڈیا میں امریکی سفیر نے اسٹیٹ آفس کو خط لکھا کہ بھارت کسی بھی صورت میں استصواب رائے نہیں کرائے گا اور جنگ کے بغیر اس سے یہ بات نہیں منوائی جاسکتی۔
یہ رپورٹ ممتاز کشمیری اخبار کشمیر ٹائمز نے چند دن قبل شائع کی ہے۔ اس میں ’کشمیر، لا اینڈ جسٹس پراجیکٹ‘ کی جانب سے امریکی اسٹیٹ آفس (وزارت خارجہ) کے ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس کےمطالعے کے بعد اخذ کردہ نتائج کا حوالہ دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ابتدا میں امریکا نے کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا انسانی حقوق اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر زور دیا کرتا تھا۔ تاہم، جیسے جیسے سرد جنگ کا آغاز ہوا، ایشیا میں اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات امریکی خارجہ پالیسی پر غالب آنے لگے، جس کے نتیجے میں کشمیر کے معاملے پر اس کے موقف میں نمایاں تبدیلی آئی۔
۱۹۴۸ء میں امریکا نے کشمیر میں رائے شماری کی بھرپور حمایت کی۔ پاکستان میں امریکی ناظم الامور چارلس ڈبلیو لیوس کی جانب سے کی گئی بات چیت میں پاکستان کی غیر جانب دار انتظامیہ اور بعد میں رائے شماری کی تجویز کو ’منصفانہ اور جائز‘ قرار دیا گیا۔
امریکا نے بھارت کو آزاد جموں و کشمیر کا تصور پیش بھی کیا اور یہ تجویز سامنے آئی کہ استصواب رائے دو مرحلوں میں ہو۔ کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں، الگ ملک بناکر؟ اگر جواب نفی میں ہو تو پھر بھارت یا پاکستان میں شمولیت کے ممکنہ سوال پر استصواب رائے ہو۔ امریکی سفارت کاروں نے اس تجویز پر سینئر بھارتی افسران سے تبادلۂ خیال بھی کیا۔
۱۹۵۰ء کے عشرے کے اوائل تک امریکی نقطۂ نظر میں واضح تبدیلی آچکی تھی۔ امریکی سفارت کاروں اور بھارتی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رائے شماری کی حمایت سے بتدریج دوری اختیار کی گئی۔ ۱۹۵۱ء میں بھارت میں امریکی سفیر لوئے ہینڈرسن کی خط کتابت میں بھارت کی رائے شماری کرانے میں ہچکچاہٹ پر امریکی مایوسی کا اظہار کیا گیا، لیکن ساتھ ہی بھارتی اعتراضات کے حوالے سے زیادہ مفاہمتی رویہ بھی اپنایا گیا۔
۱۹۵۰ء میں امریکی وزیرخارجہ کو ایک یادداشت میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر کشمیر الگ ملک ہوا تو اس پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہو جائے گا، یوں امریکا، کشمیر کی آزادی کا مخالف ہوگیا۔
۱۹۵۰ء کے عشرے میں امریکا نے کشمیر کے معاملے پر محتاط موقف اختیار کیا۔ بھارتی اور پاکستانی ریاستوں کے درمیان توازن برقرار رکھا۔ اندرونی یادداشتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں مایوسی کا احساس موجود تھا، اور امریکی سفارت کار اکثر کسی معاہدے کی عملیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتے تھے۔
۱۹۵۰ء کے عشرے کے وسط تک امریکا نے کشمیر میں فعال طور پر حل تلاش کرنے سے دستبرداری اختیار کرنا شروع کی، جیسا کہ ۱۹۵۶ء کے ایک ٹیلیگرام میں کہا گیا کہ ’’جنگ کے بغیر کوئی دباؤ بھارتی حکومت کو وادیٔ کشمیر چھوڑنے پر مجبور نہیں کرےگا‘‘۔ دراصل یہ جوں کی توں صورتِ حال قبول کرنے کی علامت تھی۔
۱۹۵۷ء میں ان دستاویزات کا اختتام ہوتا ہے۔ سرد جنگ یعنی کولڈ وار نے نہ صرف امریکی خارجہ پالیسیوں کو تشکیل دیا بلکہ کشمیر جیسے غیر حل شدہ تنازعات کو بھی چھوڑا۔ آخر کار امریکی اسٹرے ٹیجک مفادات غالب آئے اور حقِ خودارادیت و بین الاقوامی اصول پیچھے رہ گئے۔
ہمارے ہاں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب بھارت نے خود اقوام متحدہ جا کر استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا؟ پنڈت نہرو کے خطوط اور دیگر دستاویزات سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت دانستہ طور پر اقوام متحدہ گیا تھا۔
جب بھارت نے اقوامِ متحدہ سے جنگ بندی کی درخواست کی، تو یہ خدشہ تھا کہ اگر بھارت ایسا نہ کرتا تو پاکستان خود اقوامِ متحدہ سے رجوع کرسکتا تھا یا اقوامِ متحدہ قرارداد منظور کرسکتی تھی جو عمل درآمد کے طریقۂ کار کا تقاضا کرتی۔
کہا جاتا ہے کہ انڈیا نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت درخواست دی، جو پُرامن حل پر زور دیتا ہے اور عمل درآمد کے لیے لازمی طریقۂ کار فراہم نہیں کرتا۔ چونکہ پاکستان نے رائے شماری پر اتفاق کیا تھا، اس لیے اقوامِ متحدہ نے عمل درآمد کا کوئی مخصوص طریقۂ کار وضع نہیں کیا۔
اس حوالے سے قانون کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق خان کا کہنا ہے: یہ انڈین پروپیگنڈا ہے کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کم اہم ہے اور کشمیر کے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں اقوام متحدہ کے منشور کے بابِ ششم کے تحت تھیں اور اس وجہ سے کم اہمیت کی حامل تھیں، یا اس وجہ سے کم وزن ہیں کہ سلامتی کونسل نے تنفیذ کا کوئی نظام وضع نہیں کیا۔ بھارتی پروپیگنڈا کے زیر اثر لوگوں کا یہ دعویٰ بین الاقوامی قانون اور تعلقات، دونوں کے لحاظ سے غلط ہے۔
اس لیے بابِ ششم کی قراردادیں ہوں یا بابِ ہفتم کی، دونوں کا وزن یکساں ہے۔ ان میں فرق کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ مزید یہ کہ جب انڈیا نے یہ قراردادیں نہ صرف اقوامِ متحدہ میں تسلیم کیں، بلکہ باقاعدہ ان پر عمل کا اعلان کیا اور پھر اپنے آئین میں بھی دفعہ ۳۷۰ ڈال کر اسے آئینی حیثیت بھی دے دی، تو پھر یہ سوال ہی بے معنی ہے کہ کیا یہ قراردادیں اس پر لازم تھیں یا نہیں؟ ان کاموں کے بعد وہ اس پر لازم ہوگئیں۔اس لیے کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو کمزور قرار دینا درست نہیں ہے۔ بین الاقوامی قانون میں انھی قراردادوں پر تو پاکستان کا، بلکہ کشمیر کا، پورا مقدمہ قائم ہے۔
جب مہاراجا ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی مبینہ درخواست کی، تو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اس الحاق کو قبول کرتے ہوئے مہاراجا کو ایک خط لکھا: ’’یہ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی جموں و کشمیر میں قانون اور نظم بحال ہو جائے اور اس کی سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کردیا جائے، ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی رائے سے طے کیا جائے‘‘۔ یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے بہت پہلے کی بات ہے۔ لہٰذا اقوامِ متحدہ نے کسی عمل درآمد کے طریق کار کو وضع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہرو صرف وقت گزارنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کا رائے شماری کرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انھیں صرف کشمیر کی وادی اور جموں چاہیے تھا، انھیں باغ، پلندری، میرپور، مظفرآباد وغیرہ کی کوئی خواہش نہیں تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شیخ عبداللہ کا ان علاقوں میں کوئی اثرورسوخ نہیں ہے اور ان علاقوں پر قبضہ کرنا ہمیشہ کی سردردی مول لینے کے مترادف ہوگا۔
اس طرح پاکستان کو اس بات کا موردِ الزام ٹھیراتے ہیں کہ اس نے رائے شماری نہیں کروائی۔ یہ انکشافات بتاتے ہیں کہ ان کے یہ دعوے قطعی طور پر غلط ہیں۔ امریکی خفیہ دستاویزات صاف بتا رہی ہیں کہ امریکی یہ نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آئے۔
کشمیری قوم پرستوں کی بیان کی گئی کہانیوں کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر قبائلیوں اور بعد میں پاکستانی فوج نے مداخلت نہ کی ہوتی تو مہاراجا کے وزیراعظم مہر چند مہاجن اور ان کے نائب رام لال بٹرا میرپور، پونچھ اور مظفرآباد میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ جموں کی طرح مسلمانوں کو ان علاقوں سے نکال کر پاکستان دھکیل دیا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ مہاجن کے منصوبے کی وجہ سے جموں کی مسلم اکثریتی آبادی جو ۷۰ فی صد کے قریب تھی، قتل عام کے بعد آدھی رہ گئی۔ یہی سب کچھ مہاجن مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ وغیرہ میں کرنا چاہتا تھا، مگر قبائلی دستوں اور پھر پاکستانی فوج کی مداخلت کی وجہ سے آزاد کشمیر کے ان علاقوں کے مسلمانوں کی جانیں بچ گئیں۔ اس نکتے کا ادراک بیش تر کشمیری قوم پرست نہیں کرتے۔
ان حقائق کو پیش کرتے ہوئے معروف کشمیری دانش ور اور صحافی جناب افتخار گیلانی کی مشاورت اور رہنمائی بہت کام آئی۔ انھوں نے کشمیر ٹائمز کی خصوصی رپورٹ کی طرف رہنمائی کی، نہرو کے خط کی تفصیل فراہم کی اور بعض دیگر حقائق بھی آشکار کیے۔