جون ۲۰۲۱

فہرست مضامین

منگول یلغار اور بغدادکی تباہی

ظفر سیّد | جون ۲۰۲۱ | تاریخ

Responsive image Responsive image

منگول افواج نے ۱۳ دن سے بغداد کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ جب مزاحمت کی تمام اُمیدیں دم توڑ گئیں تو ۱۰ فروری ۱۲۵۸ء کو فصیلِ شہر کے دروازے کھل گئے۔ ۳۷ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ اپنے وزرا اور امرا کے ہمراہ مرکزی دروازے سے برآمد ہوئے اور ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ہلاکو [م:۱۲۶۵ء ]نے خلیفہ کے سوا تمام اشرافیہ کو وہیں تلوار سے موت کے گھاٹ اتار دیا اور منگول دستے ام البلاد بغداد میں داخل ہو گئے۔

اس کے اگلے چند دن تک جو ہوا اس کا کچھ اندازہ مؤرخ عبداللہ وصاف شیرازی کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے: ’’وہ شہر میں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے، اس طرح جیسے غضب ناک بھیڑیے، بھیڑوں پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیے گئے۔ حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی۔ '

دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد بغداد، الف لیلہ کی شہرزاد کا شہر، خلیفہ ہارون الرشید [م: ۸۰۹ء] اور مامون الرشید [م:۸۳۳ء]کے قائم کردہ دارالترجمہ کا شہر تھا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں مترجموں کو کتابیں تول کر سونا بطور معاوضہ دیا جاتا تھا۔ یہ دل کشا مسجدوں، وسیع کتب خانوں، عالی شان محلات، سرسبز باغات، پُررونق بازاروں، علم افروز مدرسوں اور پُرتعیش حماموں کا شہر تھا۔ اس بات کا درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اس قتلِ عام کا شکار ہوئے۔ مؤرخین کا اندازہ  دو لاکھ سے زیادہ ہے، جو تلوار، تیر یا بھالے کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔

تواریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ: بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی دوران جب عظیم الشان شاہی محل کو آگ لگائی گئی تو اس میں استعمال ہونے والے آبنوس اور صندل کی قیمتی لکڑی کی خوشبو آس پاس کے علاقے کی فضاؤں میں پھیلی بدبو میں مدغم ہو گئی ہو گی۔

کچھ اسی طرح کا منظر دریائے دجلہ میں بھی دیکھنے میں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اساطیری دریا کا مٹیالا پانی پہلے چند دن سرخ بہتا رہا اور پھر سیاہ پڑ گیا۔ سرخی کی وجہ وہ خون تھا، جو گلیوں سے بہہ بہہ کر دریا میں شامل ہوتا رہا اور سیاہی اس وجہ سے کہ شہر کے سیکڑوں کتب خانوں میں محفوظ نادر نسخے دریا میں پھینک دیے گئے تھے اور ان کی سیاہی نے گھل گھل کر دریا کی سرخی کو ماند کر دیا۔

ہلاکو خان نے ۲۹ جنوری ۱۲۵۷ء کو بغداد کا محاصرہ کرتے ہی خلیفہ مستعصم کو لکھا: 'لوہے کے سوئے کو مکا مارنے کی کوشش نہ کرو۔ سورج کو بجھی ہوئی موم بتی سمجھنے کی غلطی نہ کرو۔ بغداد کی دیواریں فوراً گرا دو۔ اس کی خندقیں پاٹ دو، حکومت چھوڑ دو اور ہمارے پاس آ جاؤ۔ اگر ہم نے بغداد پر چڑھائی کی تو تمھیں گہری ترین پاتال میں پناہ ملے گی نہ بلند ترین آسمان میں۔ '

۳۷ ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کی وہ شان و شوکت تو نہیں تھی، جو ان کے عظیم الشان اجداد کے حصے میں آئی تھی، لیکن پھر بھی مسلم دنیا کے بیش تر حصے پر ان کا سکّہ چلتا تھا اور خلیفہ کو زعم تھا کہ اس پر حملے کی خبر سن کر مراکش سے لے کر ایران تک کے سبھی مسلمان ان کے سامنے سینہ سپر ہوجائیں گے۔

چنانچہ خلیفہ نے ہلاکو کو جواب میں لکھا: '’’نوجوان، دس دن کی خوش قسمتی سے تم خود کو کائنات کا مالک سمجھنے لگے ہو۔ جان لو کہ مشرق تا مغرب اہلِ ایمان میری رعایا ہیں۔ سلامتی سے لوٹ جاؤ‘‘۔ '

ہلاکو خان اور اس کے سپاہی پچھلے چار عشروں کے دوران اپنے آبائی وطن منگولیا سے نکل کر چار ہزار میل دور تک آ پہنچے تھے اور اس دوران معلوم دنیا کے بڑے حصے کو اپنا مطیع بنا چکے تھے۔ بغداد پر حملے کی تیاریوں کے دوران نہ صرف ہلاکو خان کے بھائی منگوقآن نے تازہ دم دستے بھجوائے تھے بلکہ آرمینیا اور جارجیا سے خاصی تعداد میں مسیحی فوجی بھی آن ملے تھے، جو مسلمانوں سے صلیبی جنگوں میں یورپ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بےتاب تھے۔

منگول فوج تکنیکی لحاظ سے بھی کہیں زیادہ برتر اور جدید ٹکنالوجی سے بہرہ ور تھی۔ منگول فوج میں چینی انجینیروں کا یونٹ تھا جو منجنیقوں کی تیاری اور بارود کے استعمال میں مہارت رکھتا تھا۔ بغداد کے شہری آتش گیر مادے نفتا سے واقف تھے، جسے تیروں سے باندھ کر پھینکا جاتا تھا، لیکن بارود کے گولوں سے ان کا کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔

اس زمانے کا بارود آہستگی سے جلتا تھا، لیکن منگولوں نے اس میں یہ جدت پیدا کی، اسے لوہے یا پکائی گئی مٹی کےمٹکوں میں رکھ دیتے تھے، جس سے وہ دھماکے سے پھٹ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ منگولوں نے دھویں کے بم بنانے میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔

ان کی منجنیقوں نے شہر پر آتشی بارش برسانا شروع کر دی۔ یہی نہیں، منگولوں نے فصیل کے نیچے باردو لگا کر اسے بھی جگہ جگہ سے توڑنا شروع کر دیا۔ بغداد کے باسیوں نے یہ آفت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ابھی محاصرے کو ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ خلیفہ نے ہلاکو خان کو بھاری تاوان ادا کرنے اور اپنی سلطنت میں جمعے کے خطبے میں اس کا نام پڑھنے کی شرط پر صلح کی پیش کش کی، لیکن ہلاکو کو فتح سامنے نظر آ رہی تھی، اس نے یہ پیش کش فوراً ہی ٹھکرا دی۔ آخر ۱۰ فروری کا دن آیا جب خلیفہ نے شہر کے دروازے منگولوں کے لیے کھول دیے۔

ہلاکو شروع میں خلیفہ کو یہ باور کرواتا رہا جیسے وہ بغداد میں اس کا مہمان بن کر آیا ہے۔ خلیفہ مستعصم کی ہلاکت [م: ۲۰ فروری ۱۲۵۸ء]کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں، تاہم زیادہ قرینِ قیاس نصیر الدین طوسی [م: ۱۲۷۴ء]کا بیان ہے، جو اس موقعے پر موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا:’’ 'کھاؤ‘‘۔ '

مستعصم باللہ نے کہا: ’’ہیرے کیسے کھاؤں؟ ‘‘

' ہلاکو نے جواب دیا: ’’اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا‘‘۔ '

عباسی خلیفہ نے جواب دیا: ’’خدا کی یہی مرضی تھی‘‘۔ '

ہلاکو نے کہا: '’’اچھا، تو اب میں جو تمھارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں، وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔ اس نے خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا دیے تاکہ زمین پر خون نہ بہے‘‘۔

بغداد کی بنیاد مستعصم باللہ کے جد ابوجعفر بن المنصور [م: ۷۷۵ء] نے ۷۶۲ء میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب رکھی تھی۔ صرف چند عشروں کے اندر اندر یہ بستی دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین شہروں میں شامل ہو گئی۔ ایک تحقیق کے مطابق ۷۷۵ء سے لے کر ۹۳۲ء تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کے علاوہ اسے ۱۰ لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ہند سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر علمی سرگرمیوں سے معمور ہو گیا۔ نویں صدی میں بغداد کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔

دارالترجمہ بیت الحکمت میں یونانی، لاطینی، سنسکرت، سریانی اور دوسری زبانوں سے کتابیں ترجمہ ہونے لگیں۔ یہی کتابیں صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور انھوں نے یورپ کی نشات ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔ الجبرا، ایلگوردم، الکیمیا، زینتھ، الکوحل وغیرہ جیسے درجنوں الفاظ بغداد کے اسی سنہرے دور کی دین ہیں۔

بغداد میں بسنے والی چند مشہور ہستیوں کے نام بھی دیکھ لیجیے: جابر بن حیان (جدید کیمسٹری کا بانی)، الخوارزمی (الجبرا کا بانی)، الکندی اور الرازی (مشہور فلسفی)، الغزالی (مشہور صوفی مفکر)، ابونواس (عظیم عربی شاعر)، شیخ سعدی،(عظیم فارسی شاعر)، زریاب (مشہور موسیقار)، طبری (مشہور تاریخ دان)، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام ابو یوسف (ائمہ و فقہا)۔

آج سے ۷۶۲ برس قبل بغداد پر چلنے والی اس ناگہانی منگول آندھی نے میسوپوٹیمیا کی ہزاروں سالہ تہذیب کے قدم ایسے اکھاڑے کہ وہ آج تک سنبھل نہیں پائی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد سے آج تک دوبارہ کوئی مسلم شہر بھی بغداد کی شان و شوکت کے عشرِ عشیر تک نہیں پہنچ سکا۔

بعض ماہرین نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب صرف اسی وجہ سے پھل پھول سکی کہ منگولوں نے اس وقت کی برتر مسلم تہذیب کو تباہ کر کے مغرب کے لیے راستہ ہموار کر دیا تھا۔