اس تاریخ ساز اور عہد ساز رسالے کے ذریعے سید ابو الاعلیٰ مودویؒ نے ۳۰ کے عشرے میں اس تحریک کا آغاز کیا جو آج احیائے اسلام کی عالمی تحریک اور بیداری کی لہر ہے۔خرم مرادؒ نے ۹۰کے عشرے میں اسے نئی زندگی دی،باطنی وظاہری محاسن سے آراستہ کیا۔ اب پروفیسر خورشید احمد کی ادارت میں اکیسویں صدی میں مستقبل کی تعمیر کے لیے رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے اور آج کے سلگتے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں پیش کر رہا ہے
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برعظیم کے مسلمانوں کو اپنے ملی تشخص کے حوالے سے شدید کش مکش کا سامنا تھا۔ سطلنت مغلیہ کے زوال کے بعد برطانوی سامراج نے مسلمانوں کو سیاسی، معاشی ، مذہبی ،اخلاقی ، ثقافتی ، ہر حیثیت سے غلام بنانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور جدوجہد کی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور سید احمد شہید کی تحریک جہاد اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
انیسویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کی حالت ایک ہاری ہوئی فوج کی سی تھی جو مغربی فکر سے مغلوب ہو چکی تھی لیکن مجموعی طور پر مسلمانوں نے اس راستے کو اختیار نہیں کیاتھا۔ ایک کش مکش جاری تھی ۔ ایک گروہ نے نئے تقاضوں سے بالکل آنکھیں بند کر کے ماضی کی تقلید کا فیصلہ کر لیا تھا۔
بیسویں صدی میں برعظیم کے حالات نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ نئی تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں۔ سیاست کا انداز بدلنے لگا، جمہوری طریقے فروغ پانے لگے۔ انگریز سے نجات اور آزادی کی تحریک آگے بڑھتی محسوس ہو رہی تھی۔ ہندو مسلم اتحاد کا چرچا تھا، مسلم قومیت کا مسئلہ بھی در پیش تھا، جمہوری طریقے پر انتخابات کے نتیجے میں ہندو غلبہ واضح تھا۔ مسلمان اپنے ملی تشخص اور تہذیب وتمدن کا تحفظ بھی چاہتے تھے مگر ان کو کوئی راہ سوجھ رہی تھی۔ ایسی قیادت بھی سامنے نہیں تھی جو صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے۔ سیاسی طورپر قیادت کرنے والا گروہ اسلام کے تصور اور تہذیبی وتمدنی تقاضوں سے نابلد تھا اور مغربی اور جمہوری انداز میں مسائل کا حل چاہتا تھا۔ علما ماضی میں ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے تھے مگر وہ نئے حالات اور جدید تقاضوں سے ناواقف تھے اور اب اس پوزیشن میں بھی نہ رہے تھے کہ قیادت کر سکیں ۔ ایک نیا انقلاب تھا جو ہر صاحب فہم کو بصیرت کی آنکھوں سے امڈتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کو صحیح خطوط پر رہنمائی کی ضرورت تھی مگر صحیح فکر اور درست سمت میں رہنمائی کے لیے قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان ایک مخمصے کا شکار تھے۔
ان حالات میں سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے احیائے اسلام اور ملت اسلامیہ کی صحیح سمت میں فکری رہنمائی اور جدوجہد کے لیے قلم وقرطاس اور صحافت کے میدان ک وچنا۔ ماہنامہ ترجمان القرآن وہ پرچہ تھا جس سے آپ نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔
مولانا مودودی ؒ کی ادارت میں پہلا شمارہ محرم ۱۳۵۲ھ /مئی ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا۔ پہلے اداریے میں انھوں نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا کہ پیش نظر کام قرآن مجید کو اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا اور اس کے حقائق ومعارف کو اس سیدھے سادے طریقے سے سمجھانا ہے جس طرح قرن اول کے سچے مسلمان سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ یہ ترجمان القرآن کی ابتدا تھی۔ بہ تدریج اس تاریخ ساز رسالے نے ایک عہد کی تعمیر کی اور ملت اسلامیہ کی بیداری میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ترجمان القرآن نے علمی وعقلی بنیادوں پر اسلام کے تصور کو اجاگر کیا عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق مسائل زندگی کا حل پیش کیا اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر واضح کیا۔ اس نے اس فکر کے حاملین کو عملاً مجتمع اور منظم کرنے اور اسلامی تعلیمات کے نفاظ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے ‘‘جماعت اسلامی’’کے قیام میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ ترجمان القرآن کے ذریعے ہی مولانا مودودی نے حساس ذہنوں اور درد مند دلوں کو احیائے اسلام کے لیے تیار کیا اور عملاً ایک تحریک برپا کر دی۔
ترجمان القرآن آج بھی اس مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ سید مودودی ؒ کے بعد عبدالحمید صدیقی مرحوم اور نعیم صدیقی نے اس فکر کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۹۰ کے عشرے میں ترجمان القرآن ایک نئی آن بان کے ساتھ خرم مراد کی ادارت میں سامنے آیا اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اسی طرح فکری رہنمائی کا فریضہ انجام دینے لگا ۔جیسا کہ سید مودودی مرحوم کی زندگی میں اس کا نمایاں وصف رہا تھا۔
۱۹۹۷ء سے پروفیسر خورشید احمد کی ادارت میں ترجمان القرآن ، قرآن کے مفاہیم ، حدیث کا فہم، اسوہ حسنہ اور سیرت النبی ؐ کا پیغام ، فقہی مسائل میں رہنمائی ، تزکیہ وتربیت اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا علمی وفکری حل پیش کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔