مضامین کی فہرست


نومبر ۲۰۲۵

دین سے وابستگی اور دین کی خدمت کی توفیق، اللہ تعالیٰ کے بہترین انعامات میں سے ایک انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر میںبہت سے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ سعادت عطا فرمائی ہے۔ انھی خوش نصیب قافلوں میں ایک معتبر قافلے کا نام جماعت اسلامی ہے، جو دُنیا بھر میںمعروف ہے۔ 

جماعت اسلامی اپنی دعوت اور اپنی منزل کے حصول کی جدوجہد میں، انبیائے کرام علیہم السلام کی اطاعت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قافلے کے اِتباع اور صلحائے امتؒ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرنے والی ایک منظم تحریک ہے۔ 

جماعت اسلامی آج سے ۸۵ برس قبل ۲۶؍اگست۱۹۴۱ء کو لاہور میں قائم ہوئی تھی۔ آج یہ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش سمیت پورے جنوب مشرقی ایشیا میں اپنا گہرا اثر و نفوذ رکھتی ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر اور ان کی قیادت میں جب اس قافلے نے سفر کا آغاز کیا تو اس میں صرف ۷۵ افراد شامل تھے۔ مگر ان کے خلوص اور دینی جذبے نے اس تحریک کی ایسی مضبوط بنیاد رکھی کہ رفتہ رفتہ یہ کارواں عالم گیر صورت اختیار کرتے ہوئے فکروعمل کی دُنیا میں گہرے نقوش ثبت کرتا آرہا ہے۔  

جماعت کی تاسیس کے وقت بمشکل ۷۴ روپے سے بیت المال قائم ہو سکا۔ مگر اس قافلے کی رفتارِکار کی راہ میں نہ مالی وسائل آڑے آئے اور نہ افرادی قوت کی کمی کوئی نفسیاتی رکاوٹ پیدا کرسکی۔ اسلام کے یہ جاں نثار پورے ہند میں پھیل گئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جماعت کے متعین کردہ مقاصد کے شعور سے مالا مال اور حکمت عملی سے وابستہ کارکنان کی اجتماعیت دنیا کے مختلف حصوں میں مصروفِ عمل ہے۔ اقامت دین کی جدوجہد کے ذریعے، اللہ کی رضا کے حصول اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں لاکھوں مرد و زن اور پیروجوان متحرک ہیں۔ 

جماعت اسلامی نے اسلام کی جو دعوت پیش کی اس کو قبول کرتے ہوئے ایک تعداد اس سے عملاً وابستہ ہوئی۔ دوسری بڑی تعداد نے اسے اچھا تو سمجھا، لیکن اس کے ساتھ وابستگی کا فیصلہ نہ کرپائی۔ اسی طرح ایک تیسری تعداد نے اس کا راستہ روکنے کے لیے الزام تراشی، اِتہام بازی اور ظلم و زیادتی کا طرزِعمل اپنایا۔ ان سبھی کے لیے ہم خیروعافیت کی دُعا کرتے ہیں۔ بہرحال، زندگی کے ان مختلف دائروں کے پہلو بہ پہلو جماعت اسلامی آج دنیا میں ایک حوالہ ہے، خیر، تعمیر اور حق کی گواہی کا، خدمت، خلوص اور امانت داری کا۔ اسی جماعت کا کل پاکستان اجتماع عام ۲۱-۲۳ نومبر ۲۰۲۵ء کو لاہور میں منعقد ہو رہا ہے۔ 

مسلم اُمہ اس وقت جن مصائب، بحرانوں اور غلامی کی نئی قسموں سے دوچار ہے، ان میں یہ اجتماع، زندگی بخش راہوں کو کشادہ کرسکتا ہے۔ وطن عزیز جن اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے، اُن میں ہم آہنگ جذبۂ عمل دے سکتا ہے۔ سیاسی ابتری، معاشی فساد اور ماورائے دستور حکمرانی کی حقیقت کو آشکار کرسکتا ہے۔ مخصوص این جی اوز کے ذریعے ملک و ملّت کی فکری و نظریاتی تخریب کا جو سامان کیا جارہا ہے اور شریعت ِ اسلامی پر حملہ آور ہونے کے لیے جس ’میٹھے زہر‘ کو نام نہاد ’مذہبی اسکالروں اور اصلاح پسندوں‘ کی سرپرستی کے ذریعے پھیلایا جارہا ہے، اس فکری ارتداد سے باخبر رہنے کا اسلوب دیا جاسکتا ہے۔ 

آنے والا کل جن فکری، علمی اور کلامی چیلنجوں کے ساتھ یلغار کرتا چلا آرہا ہے، اس تباہی کا احساس بیدار کرنا پہلی ضرورت ہے۔ اس کا جواب دینے کے لیے میدانِ عمل میں آنا دوسری ضرورت ہے، اور عمل و رَدعمل سے بڑھ کر مثبت انداز سے ایک نظامِ فکر اور لائحہ عمل پیش کرنا تیسری اور سب سے اہم ضرورت ہے۔  

جماعتوں اور پارٹیوں کے اجتماعات میں مذہبی یا سیاسی ہنگامے ہوتے ہیں، لیکن ان سب سے بالکل مختلف انداز اور امتیازی شان کے ساتھ جماعت اسلامی کا اجتماع عام منعقد ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کی تنظیمی اور تحریکی زندگی میں مرکزی اجتماع کی کیا اہمیت ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے ۱۶۶کلومیٹر کے فاصلے پر دارالاسلام میں منعقد ہونے والے پہلے کُل ہند اجتماع میں ۱۹؍اپریل ۱۹۴۵ء کو فرمایا تھا: 

مختلف گوشوں سے، موجودہ زمانے کے پُر صعوبت سفر کی تکلیفیں برداشت کرکے یہاں جمع ہو کر آپ نے میری طاقت میں بھی اضافہ کیا ہے اور اپنی طاقت میں بھی۔ [اگر آپ] ایسا نہ کرتے تو میں اپنی جگہ کم زور ہو جاتا اور آپ اپنی جگہ۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ہماری یہ تحریک جو ایک بڑے عزم کا اظہار ہے، آپ اپنی جگہ ٹھٹھر کر رہ جاتی۔ آپ جب کسی ایک شخص کو، ایک مقصدِ عظیم کے لیے خود اپنا امیر بناتے ہیں، تو اس کی اطاعت کر کے دراصل اپنی ہی طاقت کو مضبوط کرتے ہیں، اور جتنی کم اطاعت کا ا ظہار آپ سے ہوگا، اس کمزوری کی وجہ سے آپ کی جماعت کی طاقت ضعیف ہوگی۔ [مگر] اس کے برعکس جس قدر زیادہ آپ کے قلب و دماغ پر اپنا مقصد حاوی ہوگا، اور جتنا زیادہ اپنے مقصد کی خاطر اطاعتِ امر کا صدور آپ سے ہوگا، اُسی قدر زیادہ آپ کا مرکز قوی ہوگا اور آپ کی تنظیمی طاقت زبردست ہوگی۔ 

مولانا محترمؒ نے اپنے خطاب میں اس چیز کی طرف توجہ دلائی ہے کہ: lآپ نے مالی، سفری اور صحت کی مشکلات برداشت کرکے یہاں جمع ہونے کا قدم اٹھایا lاس طرح آپ نے نظم جماعت، جماعت اور خود اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے lیوںآپ نے مقصدِ عظیم سے وابستگی کا اظہار کیا ہے lاوراطاعتِ نظم کا قدم اٹھا کر مقصد کی قوت میں اضافہ کیا ہے ___ دراصل یہی ہے وہ روح، جس کے تحت جماعت کے نظم کی دعوت پر ہم تمام کارکنان لبیک کہتے ہوئے اس اجتماع میں شرکت کریں گے۔ اس طرح ہم نظم ہی کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی مضبوط بنائیں گے، ان شاء اللہ۔ 

جماعت اسلامی، قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے لیے مختلف سطحوں پر چھوٹے بڑے تنظیمی اجتماعات کا انعقاد معمول کا ایک مسلسل عمل ہے۔ اور یہی ذیلی اجتماعات جماعت کی ہم آہنگی، ترقی، تربیت اور ہمہ پہلو پھیلائو کا ذریعہ ہیں۔ مگر قومی سطح پر بڑے اجتماع کا انعقاد فکری، تربیتی، روحانی اور تحریکی تجدید کا طاقت ور مظہر بھی ہوتاہے اور ذریعہ بھی۔ اس بڑے اجتماع سے متعدد فوائد حاصل ہونے کی اُمید ہوتی ہے: 

  • اجتماع کے اختتام کے بعد کارکنوں کی زندگی میں اخلاقی، روحانی ، عملی اور تحریکی پہلوئوں سے نمایاں تبدیلی رُونما ہوتی ہے۔ 
  • یہ اجتماع، خالقِ حقیقی سے تعلق کو گہرا اور نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے عہد کو تازہ و توانا بناتا ہے۔ 
  • اجتماع موجودہ حالات میں دعوت کی راہ میں پیش آنے والے چیلنجوں کے جواب کے لیے راہ نمائی ہوتی ہے۔ 
  • اجتماع اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹوں کی نشاندہی اور ممکنہ راستے تجویز کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ 
  • اجتماع میں کارکنوں کو قرآنی تعلیمات اور نبویؐ ہدایات کے زیرسایہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی یاددہانی کرائی جاتی ہے۔ 
  • اجتماع میں دعوتی ذمہ داریوں اور معاشرتی اصلاح و سدھار کے لیے کارکنوں اور ذیلی نظم کو عزم و عمل کی سرشاری عطا ہوتی ہے۔ 
  • اجتماع سے وحدتِ فکر اور اجتماعیت کی یکجہتی میں مضبوطی و توانائی آتی ہے۔ 
  • اجتماع میں خاندان، گلی ، محلے، قصبے، گائوںاور شہر سے نوجوان اور مردو زن شرکت کرتے اور دین، دعوت، تحریک اور ملت کےمستقبل کا سرمایہ بنتے ہیں۔ 
  • اجتماع میں مختلف فکری، معاشرتی اور پیشہ وارانہ طبقوں کے افراد آتے، باہم ملتے اور مستقبل کو سنوارنے کے لیے عزائم کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ 
  • یہ اجتماع قومی، ملّی اور عالمی منظرنامے میں تحریک کی راہ نمائی کا پیغام بن کر شرکا کو لائحہ عمل دیتا ہے، کیونکہ یہ اجتماع نہ تو رنگ و نسل سے منسوب ہوتا ہے اور نہ علاقوں اور قومیتوں تک محدود تنگ نظری سے آلودہ ہوتا ہے۔ 
  • یہ اجتماع سیاسی طاقت کا مظاہرہ نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بالاتر رہتے ہوئے زندگی کی جامعیت کو حوالہ بناتا، اور فکر و عمل کے ہر پہلو پر برابر زور دینے اور معاملات کو سمجھنے، سمجھانے کا نقیب بنتا ہے۔ 
  • اجتماع: ایثار وقربانی، صبر و اخوت، ذکر و استغفار، بھوک پیاس اور تنگی ترشی میں وقار اور ربّ سے ملاقات کی تیاری کا سبق دیتا ہے۔ 

دوسرے لفظوں میں جماعت اسلامی کا اجتماع عام کوئی روایتی میلہ یا جلسۂ عام نہیں ہوتا، بلکہ یہ اسلامی تہذیب اور اسلامی کلچر کا روحانی و انقلابی عکس ہوتا ہے۔ اس لیے ہر سطح کےکارکنوں پر لازم ہے کہ وہ اجتماع میں شرکت کے لیے خود بھی شعوری طور پر تیار ہوں، اور اپنے اہل خانہ ، خاندان اور قریبی لوگوں کو بھی تیار کریں۔ 

سیّد مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اپریل ۱۹۴۵ء میں اسی طرح کے ملکی اجتماع میں فرمایا تھا: 

آپ کے اجتماعات میں خواہ کتنا ہی بڑا مجمع ہو، مگر خیال رکھیے کہ بھیڑ اور ہڑبونگ، اور شوروہنگامہ کی کیفیت کبھی رونما نہیں ہونی چاہیے۔ 

جو کام ہم نے اپنے ہاتھ میںلیا ہے، یعنی اخلاقی اصولوں پر دنیا کی اصلاح کرنا، دنیا کے نظم کو درست کرنا، اس کا تقاضا ہے کہ اخلاقی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو دنیا کا صالح ترین گروہ ثابت کر دکھائیں۔ 

جس طرح ہمیں دنیا کے بگاڑ پر تنقید کا حق ہے، اسی طرح دنیا کو بھی یہ دیکھنے کا حق ہے کہ ہم انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر کیسے رہتے ہیں؟ کیا برتائو کرتے ہیں؟ کس طرح جمع ہوتے ہیں اور کس طرح اپنے اجتماعات کا انتظام کرتے ہیں؟ 

اگر دنیا نے یہ دیکھا کہ ہمارے اجتماعات میں بدنظمی ہے، ہمارے مجمعوں میں انتشار اور شوروغل ہوتا ہے۔ ہمارے رہنےا ور بیٹھنے کی جگہیں بدسلیقگی کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اور جہاں مشورے کے لیے جمع ہوتے ہیں، وہاں مذاق، قہقہے اور جھگڑے برپا ہوتے ہیں، تو دنیا خدا کی پناہ مانگے گی۔ 

اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے اجتماعات کے دوران نظم، باقاعدگی، سنجیدگی و وقار، صفائی و طہارت اور حسنِ اخلاق اور خوش سلیقگی کا ایسا مکمل مظاہرہ کریں، جو دنیا میں نمونہ بن سکے.... ایک منظم گروہ کی طرح اٹھیے اور بیٹھیے، کھائیے اور جمع ہو جائیے اور منتشر ہو جائیے۔ 

جہاں آپ جمع ہوں، وہاں آپ کی دیانت و امانت بالکل ایک محسوس و مشہود شکل میں نظر آنی چاہیے۔ [وہاں]کسی شخص کو اپنے سامان کی حفاظت کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت پیش نہ آئے۔ جس کا مال اور سامان جہاں رکھا ہو، بغیر کسی نگران اور محافظ کے محفوظ پڑا رہے۔ 

بانی ٔ جماعت کے ان الفاظ میں اجتماع اور شرکائے اجتماع کے اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی پہلو کو انفرادیت بخشنے کا بہترین سبق موجود ہے۔  

اسی طرح سیّد مودودی علیہ الرحمہ نے معاشرے، ماحول، سوچ کے زاویے اور عمل کی دُنیا کی تبدیلی کا درس دیتے ہوئے فرمایا تھا: 

اس وقت ہماری حقیقی ضرورت یہ ہے کہ وہ سارانظامِ زندگی تبدیل کیا جائے، جو انگریز نے سرمایہ داری، استعماریت اور مادہ پرستی کی بنیاد پر قائم کیا تھا اور جو آج بھی جوں کا توں ہمارے ملک پر قائم ہے۔ جب تک یہ نہیں ہوگا، کوئی تکلیف، کوئی شکایت اور کوئی خرابی کُلی طور پر رفع ہونا ممکن نہیں ہے۔ خرابیوں کا اصل علاج یہ ہے کہ سارا نظام اپنی نظریاتی اور اخلاقی بنیادوں کے ساتھ بدلا جائے اور اس کو اسلامی، اخلاقی و نظریاتی بنیادوں پر قائم کیا جائے، جو اجتماعی انصاف کی ضامن ہوں۔ جب نظامِ زندگی بدلے گا تو عدل و انصاف خود قائم ہوجائے گا اور لوگوں کی مشکلات اور شکایات آپ سے آپ دُور ہوجائیں گی۔ 

اجتماع میں شرکت اور اجتماع کی تمام تر کارروائی اسی فرسودہ نظامِ کار کو بدلنے کی تمہید ہے۔ جب کہ اجتماع کے بعد کارکنوں اور شرکائے اجتماع کی اپنے اپنے مقامات پر واپسی ، ان شاء اللہ نظام کو بدلنے کی واضح حکمت عملی سے آگاہی اور جذبہ و تحرک کی سرشاری کا عنوان بنے گی۔ 

یہاں پر ہم ان پہلوئوں اور رویوں کو مختصر الفاظ میں زیر بحث لائیں گے، جو مسلم اُمت کے مختلف طبقوں اور معاشروں میں دینی امور کی نسبت سے پائے جاتے ہیں: 

ترجیحی توازن قائم کرنے کی ضرورت 

اگر ہم اپنی زندگی پر غور کریں اور مادی، معنوی، فکری، معاشی، معاشرتی، سیاسی یعنی ہر پہلو سے اس پر نظر ڈالیںتو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں ترجیحات کا توازن بری طرح الٹ پلٹ ہوچکا ہے۔ تقریباً تمام مسلم ملکوں میں ایک عجیب طرح کی افراط وتفریط ہے۔ فن وتفریح کو تعلیم وتعلم پر ترجیح دی جاتی ہے۔ نوجوانوںکی سرگرمیوں میں جسمانی ورزشوں کو عقل وفکر اور روحانی تربیت پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ گویا کہ نوجوانوں کی تربیت کا ایک ہی مطلب ہے کہ ان کو جسمانی ورزش کرائی جائے۔ کیا ’انسان‘ صرف جسم کا نام ہے یا جسم اور عقل کے مجموعے کو ’انسان‘ کہتے ہیں؟ 

کاش! یہ لوگ تفریح کی ان قسموں کا اہتمام کرتے، جن سے عوام زیادہ بڑے پیمانے پر استفادہ کر سکتے۔ مگر ان کی ساری توجہ کھیل کے مقابلوں کی طرف ہوتی ہے، خاص طور پر فٹ بال [اور کرکٹ]، جس میں چند کھلاڑی کھیلتے ہیں اور باقی کروڑوں محض تماشائی! 

معاشرے میں عزّت و شہرت عالموں، ادیبوں، سائنس دانوں اور اہلِ دین ودانش کو نہیں بلکہ اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو حاصل ہے۔ اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو کے مذاکروں کا موضوع بحث یہی لوگ ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ان کے کھیلوںاور’ کارناموں‘ کی خبریں نشر ہوتی ہیں، خواہ وہ کتنی ہی غیراہم کیوں نہ ہوں۔ دوسرے لوگ [جوکوئی فائدے کا کا م کرتے ہیں] ان کا کسی پر سایہ بھی نہیں پڑنے دیا جاتابلکہ وہ فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ 

اگر کوئی ’ادا کار‘ فوت ہوجائے تو تہلکہ مچ جاتاہے اور اُس کی تعریف وتوصیف کے دریا بہادیتے ہیں، مگر کوئی عالم، ادیب، یا کوئی بڑا ماہرِ فن وفات پا جائے تو کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ معاشی پہلو سے دیکھاجائے تو کھیل کود اور اداکاری کو فروغ دینے، اور حکمرانوں کی ذاتی حفاظت کے لیے تو بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں لیکن تعلیمی اور فلاحی ادارے، ہسپتال اورشفاخانے اور دعوتِ دین کی تحریکیں فنڈز کا رونا روتی رہتی ہیں۔ وہ جب اپنی ترقی اور عصری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی مطالبہ کرتی ہیں تو ان سے معذرت کر دی جاتی ہے اور بہانے بناکر ان سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ آدمی حیران ہوجاتاہے کہ اُدھر سخاوت کے دریا بہائے جاتے ہیں اور اِدھرایک گھونٹ کی بخیلی۔ 

دین دارطبقے کا رویہ 

یہ خرابی صرف عوام یا سیکولر طبقے میں نہیں در آئی، بلکہ خود مذہبی طبقہ بھی طرح طرح کی بے اعتدالیوں کا شکارہے۔ ان میں بھی معاملات کے درست فہم اور دین کے صحیح علم کی کمی پائی جاتی ہے۔ صحیح علم تو وہی ہوتاہے جو آدمی کے سامنے اہم اور کم اہم کو واضح کردے اوراس کے ذریعے معلوم ہوسکے کہ صحیح کیاہے اور غلط کیا، قابلِ قبول کیاہے اور قابلِ رَد کیا؟ وہ اسے بتاسکے کہ کون سی چیز ’سنت‘ ہے اور کون سی ’بدعت‘؟ اِسی طرح وہ شریعت کے مطابق ہرچیز کی اصل قدروقیمت کی پہچان کرائے۔ 

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ علم کی روشنی اور معاملات کی سمجھ سے محروم لوگ، مختلف امور کے  درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ یا تو افراط سے کام لیتے ہیں یا تفریط کا شکارہوجاتے ہیں۔ ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ ایسے لوگ اپنے اخلاص کے باوجود زیادہ اہم اور زیادہ افضل سے غفلت برتتے اور کم افضل پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ 

میں نے بہت سے نیک طبع مسلمانوں کو دیکھاہے کہ وہ کسی ایسے شہر میں مسجد کے لیے عطیہ دیتے ہیں، جہاں پہلے سے بہت سی مسجدیں موجود ہوتی ہیں اور اس پر پانچ دس لاکھ ڈالر یا اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کرڈالتے ہیں۔مگر جب ان سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ آپ اس سے آدھی یا چوتھائی کے برابر رقم دعوتِ اسلام کی اشاعت میں، کفر والحاد کا مقابلہ کرنے میں یا اسلامی نظام کے نفاذکی خاطر جاری کوششوں میں، یا اس طرح کے دوسرے عظیم مقاصد میں خرچ کریں جن کے لیے بعض اوقات اہل افراد تو دستیاب ہوتے ہیں، مگر وسائل کی کمی ہوتی ہے، تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ آپ کو کوئی مثبت جواب نہیں دیںگے۔ وہ اینٹوں اورپتھروں کی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں، مگر انسانوں کی تعمیر ان کی نظر میں فضول کام ہے۔ 

ہرسال حج کے دنوں میں صاحبِ ثروت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر بضد ہوتی ہے کہ وہ نفلی حج کریں گے، اور بہت سے لوگ رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا بھی اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں، اور کبھی کبھی اپنے خرچ پر دوست احباب کوبھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ مگر ان سے جب آپ کہتے ہیں کہ وہ یہ سالانہ اخراجات فلسطین میں یہودیوں کے مقابلے کے لیے، ہرذی گوونیا میں سربوں کے مقابلے کے لیے، یا انڈونیشیا، بنگلہ دیش یادوسرے ایشیائی اور افریقی ممالک میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنے کے لیے دے دیں، یا کوئی دعوتی اور تحریکی مرکز قائم کرنے کے لیے یا ایسے داعیوں کی تیاری کے لیے خرچ کریں، جو اس میں تخصص حاصل کرکے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے وقف کریں، یا بلند پایہ تحقیق، تصنیف، تالیف، ترجمے یا دینی کتابوں کی اشاعت کا کوئی ادارہ قائم کرنے کے لیے عطیہ کردیں، تو سر جھٹک دیتے ہیں۔ یہ ہے لوگوں کی حالت! 

دوسری طرف قرآن سے یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ جہاد سے متعلقہ اعمال اُن اعمال سے افضل ہیں، جو حج سے متعلق ہیں: 

کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد ِحرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرالیاہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جاںفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک تو انھی لوگوں کا درجہ بڑاہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان ومال سے جہاد کیا۔ وہی کامیاب ہیں۔ ان کا ربّ انھیں اپنی رحمت اور خوش نودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتاہے جہاں ان کے لیے پائے دار عیش کے سامان ہیں۔ (التوبۃ ۹: ۱۹-۲۱) 

۹۰ کے عشرے میںجب بوسنیا میں آزادی کی جدوجہد جاری تھی، ہمارے دوست اور معروف اسلامی اسکالر استاذفہمی ہویدی نے وضاحت کے ساتھ مسلمانوں سے یہ بات کہی تھی کہ ’بوسنیا کی آزادی فریضۂ حج پر مقد م ہے‘۔ جن لوگوں نے یہ مقالہ پڑھا، ان میں سے بہت سے لوگوں نے مجھ سے پوچھا: ’’یہ بات شرعی اور فقہی نقطۂ نظر سے کس حد تک درست ہے؟‘‘ میں نے ان حضرات کو کہا: ’’استاد ہویدی کی بات بالکل درست ہے اور فقہی لحاظ سے قابلِ اعتبار بھی ہے۔ شرعی طور پر یہ بات متعین ہے کہ جو فرائض فوری طور پر مطلوب ہوں، ان کو ایسے فرائض پر مقدم کیاجائے گا جن میں تاخیر کی گنجایش ہوتی ہے، اور فریضۂ حج میں تاخیر کی گنجایش موجود ہے۔ بعض ائمہ کے نزدیک یہ واجب عندالتراخی  ہے، یعنی اس میں ڈھیل ہوسکتی ہے۔ بوسنیا کے مسلمانوں کو جس موت، بھوک وافلاس، امراض، سردی اور اجتماعی ہلاکت کا سامنا ہے، انھیں اس سے بچانا، ایک فوری فریضہ ہے، جسے بروقت انجام دینے کی ضرورت ہے اوراس میں نہ تاخیر کی گنجایش ہے اور نہ ’تراخی‘ یعنی ’ڈھیل‘ کی۔ کیوں کہ یہ فریضۂ وقت ہے اور ساری اُمت پر آج کا اہم ترین واجب ہے‘‘۔ 

جولوگ ہرسال نفل حج ادا کرتے ہیں ان کی تعداد یقیناً بہت زیادہ ہوتی ہے___اسی طرح خصوصاً رمضان کے دنوں میں عمرہ کرنے والوں کی بڑی تعداد۔ کاش! وہ اپنے حج اور عمرے کی قربانی دیںاور یہ اخراجات اللہ کی راہ میں دے دیں۔ یعنی اپنے مال کو اپنے ان مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو نجات دلانے کے لیے خرچ کریں، جو مادی اور معنوی ہلاکت سے دوچارہیں، جنھیں بے انتہا ظلم وجبرکا سامنا ہے۔ ان کا دشمن ان کی جان ومال اور عزت کے درپے ہے، اور چاہتاہے کہ دُنیا سے ان کا نام ونشان مٹ جائے۔ 

ایک بار میں انڈونیشیا گیا تو میں نے وہاں دیکھا کہ عیسائی مشنری بڑے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان کے بالمقابل تعلیمی، طبی اور اجتماعی ادارے قائم کرنے کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ چنانچہ میں نے ان نیک طبع بھائیوں سے کہا: ’’اس سال آپ حج کا ارادہ ترک کردیںاور اس پر اُٹھنے والے اخراجات انڈونیشیا میں عیسائیت کے جواب میں خرچ کریں۔ اگر ایک سو افراد ہوں اور ایک فرد کا خرچہ دس ہزار روپیہ ہو تو اس کا کُل ۱۰ لاکھ روپیہ بنتاہے۔ اس رقم سے ایک بہت بڑے منصوبے کا آغاز کیاجاسکتا ہے۔ اگر ہم نے اس طرح کے کسی منصوبے کا آغاز کیا اور اس کی تشہیر کی تو دوسرے لوگ بھی ہماری تقلید کریںگے اور ان کے کام میں ہمیں بھی ثواب ملے گا‘‘۔ مگر ان دوستوں نے کہا: ’’جب بھی ذوالحجہ کا مہینہ آتاہے، تو ہم اپنے دل میں حج کا ایسا جذبہ محسوس کرتے ہیں، جس کا ہم کسی دوسری چیز سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ جب وہاں حاضر ہوتے ہیں تو ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے‘‘۔ 

اگر فہم صحیح ہوتا اور مسلمانوں کے ہاں ترجیحات کے مسئلے کی اہمیت ہوتی تو یقیناً وہ اس سے زیادہ خوشی، سعادت اور روحانیت اس وقت محسوس کرتے، جب وہ اپنے حج وعمرے کے اخراجات کو کسی اسلامی منصوبے کا آغاز کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، ملک بدر لوگوں کو پناہ دینے، مریضوں کا علاج کرنے، اَن پڑھوں کو تعلیم دینے اور بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے میں صرف کردیتے۔ 

ایسے بہت سے نوجوان دیکھے ہیں، جو یونی ورسٹی کے میڈیکل، ایگری کلچر، انجینئرنگ، یاایجوکیشن کے شعبے میں یا دوسرے نظری یا سائنسی شعبوں میں اچھا بھلا پڑھتے اور دوسروں سے آگے تھے۔زیادہ عرصہ نہ گزرا ہوگا کہ انھوں نے اپنے اپنے شعبے کو یہ کہتے ہوئے خیرباد کہا کہ ’’ہم تو دعوت و تبلیغ کے لیے فارغ ہوںگے‘‘۔ لیکن اگر وہ اپنے تخصص کے شعبےہی میں کام کرتے، جو ایک فرض کفایہ تھا، تو وہ اچھی نیت سے اپنے کام کو پوری مہارت کے ساتھ انجام دیتے ہوئے اور اس میں حدود اللہ کی پابندی کرتے ہوئے اسے عبادت اور جہاد میں تبدیل کرسکتے تھے۔ 

اگر ہرمسلمان اجتماعی، تمدنی اور معاشرتی زندگی میں اپنے پیشے کو چھوڑ دے تو پھر اُمت کی ضروریات کون پوری کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب منصب نبوت عطا ہوا تو صحابہ کرامؓ مختلف پیشوں سے وابستہ تھے۔ آپ ؐنے ان میں سے کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنے پیشے کو چھوڑ کر اپنے آپ کو دعوت کے لیے فارغ کرلے۔ ہجرت سے پہلے بھی اور ہجرت کے بعد بھی یہی طریقہ رہا کہ سارے لوگ اپنے اپنے پیشے سے وابستہ رہے۔ مگر جب جہاد کا موقع آتا اور انھیں جہاد کے لیے بلایا جاتا تو سارے لوگ، خواہ ہلکے ہوتے یا بوجھل، میدانِ جہاد کی طرف نکل پڑتے اور اپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کردیتے تھے۔ 

امام غزالیؒ نے اپنے دور میں یہ بات ناپسند کی کہ اکثر طالب علم فقہ اور اس طرح کے دوسرے علوم کی طرف متوجہ ہوتے تھے، اور دوسری طرف مسلم ممالک میں کسی یہودی یا عیسائی طبیب کے علاوہ کوئی معالج نہ ہوتاتھا۔ وہ انھی سے اپنے مردوں اور عورتوں کا علاج کراتے تھے اور اپنے پردوں کو انھی کے سامنے کھولتے تھے۔ وہ انھی سے ایسے امور بھی معلوم کرتے تھے، جن کا تعلق شرعی احکام کے ساتھ ہوتاتھا۔ 

اسی طرح میں نے کچھ لوگوں کو دیکھاہے کہ وہ روزانہ ایسے معرکے گرم کرتے ہیں، جن کا مقصد جزئی یا اختلافی مسائل پر مناظرے کرنا ہوتاہے۔ وہ اس بنیادی اور اصولی بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا بڑا معرکہ ایسے دشمن کے ساتھ ہے جسے اسلام سے نفرت ہے،وہ اس کو کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ 

یہاں تک کہ امریکا، کینیڈا اور دوسرے یورپی ممالک میں رہایش پذیر مسلمانوں میں بھی ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں، جن کے ہاں سب سے اہم مسئلہ جو پوچھنے کے لیے رہ گیاہے وہ یہ ہے کہ گھڑی دائیں ہاتھ میں باندھی جائے یا بائیں ہاتھ میں، کوٹ پتلون کے مقابلے میں سفیدکرتاقمیص پہننافرض ہے یاسنت، اور عورتوں کا مسجد میں جانا جائز ہے یا ناجائز؟ اسی طرح کھانے کے لیے میز کرسی استعمال کرنا اور چھری کانٹے سے کھانا کیا کفار کی مشابہت ہے یانہیں؟ 

یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جو ہمارے بہت سارے اوقات کو کھاجاتے ہیں، لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کردیتے ہیں، دلوں کو ٹکرے ٹکڑے کردیتے ہیںاور اس سے بہت سی محنتیں اور صلاحیتیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ کیوںکہ یہ ایسی کوشش ہے جس کا کوئی ہدف نہیں اور یہ ایسا ’نام نہاد جہاد‘ ہے، جو دشمن کے خلاف نہیں بلکہ اپنوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ 

میں نے بہت سے نوجوانوں کو دیکھاہے جو اپنے ماں باپ کے ساتھ اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اس لیے سختی سے پیش آتے ہیں کہ وہ گناہ گار ہیں اور دین سے منحرف ہیں۔ وہ نوجوان یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیاہے خواہ وہ مشرک ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: 

اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مانو۔ البتہ دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے رہو۔ (لقمان ۳۱:۱۵) 

اس طرح والدین کی طرف سے اس پُرزور دباؤ کے باوجود ___ جسے قرآن نے مجاہدہ علی الشرک کہاہے ___  اللہ تعالیٰ حکم دیتاہے کہ ان کے ساتھ معروف کے ساتھ پیش آیاجائے: 

میرا شکر کرو اور اپنے والدین کاشکر بھی بجالاؤ، میری ہی طرف تجھے پلٹ کر آنا ہے۔(لقمان۳۱:۱۴) 

اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔(النساء۴:۱) 

دور انحطاط کی روایات کو بدلنے کی ضرورت 

انحطاط کے دور میں مسلمان جن بُری عادات کا شکار ہوئے اور اب تک چلے آرہے ہیں، ان میں سے چندعادات یہ ہیں: 

۱- انھوں نے ایسے فرائضِ کفایہ کو بڑی حد تک چھوڑ دیاہے جن کا تعلق بحیثیت ِمجموعی پوری اُمت کے ساتھ تھا،مثلاً سائنسی، صنعتی اور عسکری برتری، جو اُمت کو اپنے اختیارات کا مالک بناتی ہے اور اسے صرف دعوؤں اور باتوں کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں دُنیا کی قیادت عطا کرتی ہے۔ مثلاً فقہی مسائل میں اجتہاد اور احکامِ شریعت کا استنباط، دعوتِ اسلامی کی نشرواشاعت، شوریٰ کے حکمِ ربانی کو بیعت او رآزادانہ اختیارات کی بنیادپرقائم کرنا، ظالم اور دین سے منحرف بلکہ دین دشمن حکمران کے خلاف جہاد کرنا وغیرہ۔ 

۲- انھوں نے ایسے امور کو بھی چھوڑدیاہے جوفرضِ عین کے درجے میں ہیں، یااگر چھوڑا نہیں تو کم از کم انھیں وہ مقام نہیں دیا جو اِن کو دیا جانا چاہیے تھا۔ جیسے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ، جسے قرآن نے اہلِ ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے نماز اور زکوٰۃ سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے:’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کاحکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں‘‘۔(التوبۃ۹:۷۱) 

اس فریضے کو اُمت مسلمہ کے بہترین اُمت ہونے کا سب سے پہلا سبب قرار دیاگیاہے: ’’اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت او راصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) 

۳- مسلمانوں نے بعض ارکانِ اسلام کو بعض دوسرے ارکان پر زیادہ اہمیت دی ہے، مثلاً نماز کے مقابلے میں روزے کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں دن کے وقت مسلمان بہت کم کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ اسی طرح خواتین، نماز میں غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنھوںنے عمر بھر میں ایک مرتبہ بھی اللہ کے سامنے رکوع اور سجدہ کرنے کی زحمت نہیں کی ہوگی۔ بعض لوگ نماز کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں، مگر زکوٰۃ کے معاملے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ۲۸ مقامات پر ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیاہے۔ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’ہمیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیاہے اور جو شخص زکوٰۃ نہیں دیتا اس کی نماز مقبول ہی نہیں‘‘۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایاتھا: وَاللّٰہِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ ’’خدا کی قسم ! میں ان لوگوں کے خلاف ضرور لڑوںگا، جو نماز ا ورزکوٰۃ کے درمیان فرق روا رکھتے ہیں‘‘۔  

صحابہ کرامؓ، مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف جہادپراسی طرح متفق تھے جس طرح وہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروںاور مرتدین کے خلاف متفق تھے۔ اس طرح گویا اسلامی حکومت روئے زمین کی پہلی حکومت تھی، جس نے غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔ 

۴- بہت سے دین دار لوگ ذکرو اذکاراور تسبیحات و اورادکا بے حد اہتمام کرتے ہیں، مگر ان کے ہاں بعض فرائض کے بارے یہ اہتمام نظر نہیں آتا، خصوصاً معاشرتی فرائض جیسے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، پڑوسی کے ساتھ احسان، کمزوروں پر رحم کرنا،  یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنا، منکر کو روکنا اور اجتماعی وسیاسی ظلم وجبر کے خلاف جہاد کرنا۔ 

۵- بعض اوقات انفرادی عبادات ،جیسے نماز اور ذکر وغیرہ کی بڑی پابندی کی جاتی ہے، مگر اجتماعی فرض عبادات، جن کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتاہے، ان کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، جیسے جہاد ، علم، اصلاح بین الناس،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون، صبر اور رحم کی تلقین، عدل وانصاف اور شوریٰ کے قیام کی دعوت، عمومی انسانی حقوق کی پاسداری اور خاص طورپر کمزور انسانوں کا خیال رکھنا۔ 

۶- بہت سے لوگ ’فروع‘ [ضمنی مسائل]کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ’اصول‘ [بنیادی مسائل] کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ امام راغب کا قول ہے: مَنْ ضَیَّعَ الْأُصُوْلَ حُرِمَ الْوُصُوْلَ ’جس نے بنیاد کو چھوڑدیا وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتا‘۔ مطلب یہ کہ اُنھوں نے عقیدۂ توحید، ایمان باللہ اور اخلاص فی الدین سے غفلت برتی ہے۔ 

۷- اسی طرح جن مسائل کے درمیان توازن میں خلل پیدا ہواہے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ بہت سے لوگ مکروہات اور مشتبہ امور کے خلاف برسرپیکار ہیں، مگر انھوں نے کھلی حرام اشیاء کے بارے میں اتنی سرگرمی نہیں دکھائی، نہ ان واجبات کو قائم کرنے کا کوئی خاص اہتمام کیاہے، جنھیں لوگوں نے چھوڑ دیاہے۔ اسی طرح بعض لوگ ان اُمور پر اپنی زیادہ قوتیں صرف کرتے ہیں، جن کے حلال و حرام ہونے میں اختلاف پایاجاتاہے، مگر ان چیزوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے جن کی حُرمت قطعی اور یقینی ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اسی طرح کے اختلافی مسائل کو زندگی موت کا مسئلہ بنادیا ہے۔ جیسے تصویر، موسیقی، چہرے کاپردہ اور اس طرح کے دوسرے مسائل۔ دوسری طرف وہ بڑی فیصلہ کن لڑائیوں سے غافل ہیں جن کا تعلق اُمت کے وجود، اس کے انجام، اور دُنیا کے نقشے پر اس کی بقا کے ساتھ ہے۔ 

۸- اسی طرح کے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ صغیرہ گناہوں کو ختم کرنے کے لیے توایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، مگر تباہ کُن کبیرہ گناہوں کو نظرانداز کرتے ہیں، خواہ وہ دینی لحاظ سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہوں، یامعاشرتی اورسیاسی طور پر ہلاکت سے دوچار کرنے والے ہوں۔ 

یہ ایک بہت بڑی بیماری ہے کہ بڑی چیز یا مسئلے کو چھوٹا بنا کرپیش کیاجاتاہے اور چھوٹی چیز یا مسئلے کو بڑا کرنے کا رجحان پروان چڑھایا جاتا ہے۔ رائی کو پہاڑ بنالیا جاتاہے اور ایک اہم ترین معاملے کو بالکل نظرانداز کر دیا جاتاہے۔ پہلے کو آخر پر رکھاجاتاہے اورآخری کو پہلے درجے پر لایا جاتاہے۔ اختلافی مسائل کے لیے میدانِ جنگ گرم کیاجاتا ہے۔ یہ ساری باتیں آج کے دور میں اُمت ِمسلمہ کو اس ضرورت کا احساس دلاتی، بلکہ شدت کے ساتھ اس بات کا محتاج بناتی ہیں کہ وہ چیزوں کی ترجیح کے مسئلے کو سمجھے، تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنے طریق کار کا نئے سرے سے جائزہ لے، اس کے بارے میںگفت وشنید کرے، افہام وتفہیم کرے اورہرایک اپنی بات سامنے رکھے۔ اس کے نتیجے میں، دلوں کو اطمینان ہوگا، بصیرت کو روشنی ملے گی اور اس کے بعد اُمت کے ارادے عملِ خیر اور خیرالعمل کی طرف متوجہ ہوںگے۔(جاری) 

میں قرآن مجید کا ایک حقیر طالب علم ہوں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ قرآنِ مجید روزانہ پڑھا جاتا ہے اور حسب توفیق بار بار اور زیادہ سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب آدمی کسی چیز کو حیرت سے دیکھتا ہے تو اس کا یہ تعجب ہمیشہ قائم نہیں رہتا، وہ زائل بھی ہوجاتا ہے ۔میں اپنا حال آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں، اور اسی سے میں نے اپنی بات کہنے کا مضمون اخذ کیا ہے، کہ جب میں قرآنِ مجید میں سورئہ انفال کی یہ آیت کریمہ پڑھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں: 

اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَكُنْ فِتْنَۃٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ۝۷۳ (الانفال ۸:۷۳) (تو مومنو!) اگر تم یہ کام نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ برپا ہوجائے گا اور بڑا فساد مچے گا۔ 

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان مہاجرین اور انصار کو مخاطب فرمایا ہے، جو مشرف بہ اسلام تھے۔ جہاں تک ان مہاجرین کا تعلق ہے جو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آئے تھے، وہ چندسو کی تعداد میں تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہجرت کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ ہجرت میں آدمی کو گھربار چھوڑنا پڑتا ہے، اعزّہ واقربا سے دُور ہونا پڑتاہے، اور ان سہولتوںکو خیرباد کہنا پڑتا ہے جو موروثی اور مقامی طور پر اس کو حاصل ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان مہاجرین کی تعداد محدود تھی، اور جن لوگوں نے مدینہ طیبہ میں اسلام قبول کیا تھا، ان کی تعداد بھی اس وقت تک کچھ زیادہ نہ تھی۔ حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تین مرتبہ مسلمانوں کو شمار کیا گیا، یعنی مردم شماری کی گئی۔ پہلی مرتبہ شمار کرنے میں مسلمانوں کی تعداد پانچ سو، دوسری مرتبہ چھ سو، سات سو کے درمیان تھی، اور تیسری مرتبہ شمار میں مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے۔ اس تعداد پر مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اطمینان کا سانس لیا کہ اب ہم ڈیڑھ ہزار ہوگئے ہیں، اب ہمیں کیا ڈر ہے؟ ہم نے تو وہ زمانہ دیکھا ہے جب ہم میں سے کوئی اکیلا نماز پڑھتا تھا، پھر بھی دشمنوں کا ڈر لگا رہتا تھا(صحیح بخاری، ج۲،کتاب الجہاد، باب کتابۃ الامام للناس)۔ 

 گویا یہ مٹھی بھر انسانوں کی آبادی تھی، جس نے اسلام قبول کیا تھا، اور جس نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی کہ اس کے چاروں طرف انسانی آبادی کا جو سمندر پھیلا ہوا ہے، اس میں وہ ہدایت و تبلیغ کا کام کرے گی۔ اس کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ساری دُنیا میں زیادہ تر وہ لوگ تھے، جنھوں نے اسلام کا نام بھی نہیں سنا تھا، قبول کرنے کا کیا ذکر، پھر اُس وقت دُنیا کی دوعظیم الشان سلطنتیں تھیں جن کو Empire کہنا چاہیے۔ وہ صرف ایمپائر ہی نہیں تھیں، اور ان کی حیثیت محض انتظامیہ اور حکومت ہی کی نہیں تھی، ان کے ساتھ مستقل تہذیب تھی، مستقل تمدن، طرزِ زندگی اورمعیارواقدار تھے۔ متمدن دُنیا کا سب سے بڑا حصہ جس پر دونوں شہنشاہیاں بلاواسطہ یا بالواسطہ قابض تھیں، وہیں سےوہ تہذیب لیتے تھے، وہیں سے فیشن اخذ کرتے تھے، اور وہیں سے قانون لیتے تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ Roman Law (رومی قانون) دُنیا میں کتنی وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اور ایرانی تہذیب ہندستان اور دُور دراز ملکوں تک پہنچ گئی تھی۔ 

میں جب اس آیت پر پہنچتا ہوں تو ہمیشہ تصویرِ حیرت بن کر رہ جاتا ہوں۔ سوچنے لگتا ہوں کہ یااللہ! یہ کس سے کہا جارہا ہے، کب کہا جارہا ہے، اور کہاں کہا جارہا ہے؟ یہ آخری مسلم شماری جس میں مسلمان ڈیڑھ ہزار نکلے، بعض شُرّاحِ حدیث اور محققین کی تحقیق میں جنگ اُحد کے موقعے پر ہوئی، جو تین ہجری میں پیش آئی اور بعض کے نزدیک جنگ ِ خندق (جس کو غزوۃ الاحزاب بھی کہا جاتا ہے) کے موقعے پر ہوئی جو پانچ ہجری میں پیش آئی۔ اس طرح یہ مدت زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی ہوتی ہے، جس میں مسلمانوں کے شمار کرنے کا یہ کام ہوا ۔ اس طرح یہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دوہزار مسلمان تھے، جن سے کہا جارہا ہے کہ تم اپنی شیرازہ بندی کرو اور ایک نئی ’وحدت‘ (Unit) قائم کرو، جس کی اساس ایمان پر ہو، قرآن پر ہو، صحیح عقیدہ پر ہو اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سرپرستی میںہو۔ 

یہ ’وحدت‘ اس لیے قائم کرنے کے لیے کہا جارہا ہےکہ تم اس ’وحدت‘ کے ذریعے دُنیا میں اسلام کا پیغام پہنچائو اور دُنیا کو ’جاہلیت‘ (من مانی آزادی اور نفس پرستی) کی زندگی سے نکال کر اسلام (خدا پرستی اور کامل خود سپردگی) کی دعوت دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو دُنیا میں فتنۂ کبریٰ اور فسادِعظیم برپا ہوگا۔ 

میں اس موقعے پر سوچتا ہوں کہ جن سے کہا جارہا ہے اور جو اس آیت کے مخاطب ہیں، ان میں اور ان پر جس کام کی اور دُنیا کی جس آبادی کی ذمہ داری ڈالی جارہی ہے، دونوں میں کیا تناسب تھا؟ لیکن فارسی میں ایک محاورہ ہے، اور ہم اس کو عربی میں بھی ادا کردیا کرتے ہیں کہ ’’بقامت کہتر و بقیمت بہتر‘ یعنی قدوقامت کے لحاظ سے چھوٹا، لیکن قیمت کے لحاظ سے کہیں بڑا اور بہتر، یعنی العبرۃ بالقیمۃ لابالقامۃ ۔ یہ اس جماعت سے کہا جارہا ہے جو ’بقامت کہتر‘ تھی، لیکن ’بقیمت بہتر‘۔ اصل چیز جو فیصلہ کُن ہے وہ ’قیمت‘ ہے، ’قامت‘ نہیں۔ 

چنانچہ، اس کہتر قامت اور بہتر قیمت نے اپنی انقلاب انگیزی اور عہد آفرینی ثابت کردی۔ ایرانی سلطنت کا چراغ گُل ہوگیا۔ صرف سلطنت کا نہیں، ایرانی تہذیب کا، اُن کے معیاروں اور اُن کی قدروں (Ideals & Values) کا جو حقیقی طور پر حکومت کرتے اور زندگی کی تشکیل کرتے ہیں، جن کو عربی میں الْمُثُل وَالقیَم کہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی خلافت کے آخری دور یا زیادہ سے زیادہ خلافت ِ راشدہ کے اختتام تک دُنیا کا متمدن ترین حصہ جو مہذب اور ترقی پسند انسانوں کے لیے نمونہ اور معیار (Ideal) کا درجہ رکھتا تھا، وہ بدل گیا تھا یا برابر بدل رہا تھا۔ معیار بدل گئے، سوچنے کے طریقے بدل گئے تھے۔ لوگ ایران اور روم کی ذہنی و فکری غلامی سے آزاد ہورہے تھے۔ مہذب اور ترقی یافتہ کہلانا، احترام اور وقعت کی نگاہ سے دیکھا جانا معیار نہیں رہا تھا۔ حکمِ خداوندی کی تعمیل اور سنت ِ نبویؐ کی پیروی اور عہد ِ رسالت اور اس کے معتبر نمائندوں سے مشابہت، تہذیب میں، معاشرت میں، رسوم و عادات میں اور لباس و مظاہر میں تعریف اور قدر کی چیز سمجھی جانے لگی تھی۔ اس کی مثالیں آپ کو بڑے بڑے دولت مندوں اور بااقتدار لوگوں کی زندگی میں تاریخ کی کتابوں میں ملیں گی۔ 

آپ کو معلوم ہے کہ زندگی کے آلات و وسائل تو بدلتے رہتے ہیں، تمدن کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں، لیکن ذلّت و عزّت کے پیمانے، علم و جہالت کے معیار اور علامتیں، بہت دیر اور بہت مشکل سے بدلتی ہیں۔ اس میں بعض اوقات صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اگر آپ انسانی تہذیب کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض پیمانے صدیوں تک حکومت کرتے رہے، لیکن یہاں سوچنے کے طریقے بدل گئے۔ کرنا تو الگ چیز ہے، کرنے میں تو بہت جلد تغیر آجاتا ہے، لیکن سوچنے کا طریقہ بہت بڑی طاقت ہے، اور وہی زندگی پر حکمرانی کرتا ہے۔ ہم بھی بہت سے اسلامی ممالک میں دیکھتے ہیں کہ مغربی اقتدار اور تہذیب کے اثر کے پیمانے نہیں بدلے، پیمانوں میں ناپنے والی چیزیں بدل گئیں۔ عزّت و شرافت، خوش نصیبی و بدنصیبی، علم و جہالت، ترقی و پس ماندگی کے وہی معیار ہیں جو باہر کی حکومت کرنے والی قوموں اور تہذیبوں نے عطا کیے ہیں۔ 

اب آپ ان حقائق کی روشنی میں دیکھیے کہ کس پر اور کس وقت ساری دُنیا میں انقلاب لانے کی اور اس کو خداپرستی ، خدا ترسی، انسان دوستی، ایثار و قربانی اور ہدایتِ ربانی کے راستے پر چلنے اور چلانے کی عالم گیر ذمہ داری ڈالی جارہی ہے؟ اور اس ذمہ داری کے ادا کرنے اور اس کے سلسلے میں کامیابی حاصل کرنے میں اس ’بقامت کہتر و بقیمت بہتر‘ جماعت کو کتنی بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے لیے آپ چھٹی صدی عیسوی کے بعد کی مختلف زبانوں (اور خاص طور پر انگریزی) میں لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ فرمایئے۔ 

حضرات! میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نے اس مرکز (Islamic Foundation) کے قیام کے لیے صحیح جگہ کا انتخاب کیا۔ اگر یہاں سے یا کسی بڑے مغربی ملک یا مغربی تہذیب کے بڑے مرکز سے انقلاب شروع ہوا تو وہ طاقت میں اور گہرائی میں، وسعت میں بھی، اور حجم میں بھی، قابلِ لحاظ ہوگا۔ خدا کرے وہ دن آئے کہ ان ملکوں میں بھی لوگوں میں حق کی طلب اور اپنی زندگی کے خلا کا احساس پیدا ہو، اور وہ یہ کہیں کہ آپ ہم کو اس تاریکی کی زندگی، نفس پرستی کی زندگی اور کوتاہ نظری کی زندگی سے نکالیے۔ یہاں پر یہ نکتہ یاد رہے کہ قرآنِ مجید میں تاریکی کے لیے اکثر جمع کا صیغہ ظلمات آتا ہے اور روشنی کے لیے واحد کا صیغہ النُّور آتا ہے۔ یُخْرِجُھُمْ  مِّنَ الظُّلُمَاتِ  اِلَی  النُّوْرِ وغیرہ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ظلمتیں بے شمار ہیں اور نُور ایک ہے۔ اہلِ مغرب کہیں کہ ہمیں یہ دولت آپ ہی کے یہاں سے مل سکتی ہے۔ 

اگر آپ نے اس ملک میں رہتے ہوئے زندگی کا ایک نیا ماڈل، ایک نیا سانچا اور ایک نیا نمونہ پیش کیا، جس میں یہاں کی زندگی، طرزِ معاشرت، نفس پرستی اور دولت پرستی اور ہرقسم کی آزادی سے امتیاز ظاہر ہوا، تو لوگوں کے اندر اسلام کے مطالعے کا شوق پیدا ہوگا۔ وہ آپ کے یہاں آئیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں کوئی کتاب دیجیے جس سے ہم سمجھیں کہ اس انقلاب کا سرچشمہ کہاں ہے؟ کہاں سے یہ تبدیلی آئی اور آپ میں امتیاز پیدا ہوا؟ 

میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں خاص طور پر خورشیداحمد صاحب اور مناظر احسن صاحب اور سب حضرات اور اس ادارہ کے ذمہ داروں کا کہ آپ نے ہمارے ساتھ برادرانہ ہی نہیں کریمانہ اور فیاضانہ سلوک کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ توفیق دے کہ یہ مرکز زیادہ سے زیادہ ہدایت اور نفع کا سرچشمہ بنے۔ اللہ وہ دن ہمیں دکھائے کہ جیسے پہلے اس ملک سے دُنیا پرستی اور نفس پرستی اور مادّیت کی ہوا چلی تھی، الحاد اور لادینیت کا رجحان پیدا ہوا تھا، ویسے ہی یہاں سے اب ایمان کی، اخلاق کی، انسانیت اور شرافت کی اور ہدایت کی ہوا چلے۔ 

آخر میں اقبال کے ان چند اشعار پر اس خطاب کو ختم کرتا ہوں، جو اس مقام و ماحول، عہدوزمانہ اور مسلمانوں کے مقام و پیغام سے بھی خاص مناسبت رکھتے ہیں:  

ناموسِ اَزل را تو امینی تو امینی 
دارائے جہاں را تو یساری تو یمینی 

اے بندئہ خاکی تو زمانی تو زمینی 
صہبائے یقیں درکش و ازدیر گماں خیز 

از خوابِ گراں ، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز 
از خوابِ گراں خیز 

فریاد ز افرنگ و دلآویزیٔ افرنگ 
فریاد زشیرینی و پرویزیٔ افرنگ 

عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیٔ افرنگ 
معمارِ حرم! باز بہ تعمیرِ جہاں خیز 

از خوابِ گراں ، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز 
از خوابِ گراں خیز 

[زبورِ عجم، ص ۸۳] 

انبیائے کرام ؑ کی تمام تر جدوجہد کی منتہائے مراد یہ تھی کہ بنی نوع انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد بھی یہی تھا کہ روئے زمین پر اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ (الشورٰی ۴۲:۱۳)’ تاکید کے ساتھ قائم کرو، اس دین کو‘۔ چنانچہ آں حضوؐر کے برپا کردہ فکری اور ذہنی انقلاب کے ذریعے جاہلی معاشرے کی کایاپلٹ گئی۔ اسلام بساطِ عالم پر ایک غیرمعمولی قوت بن کر اُبھرا اور مشرق و مغرب کے باطل پرستوں کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔ 

مگر خلفائے راشدینؓ کے بعد مال و دولت کی فراوانی اور سلطنت و اختیار کی وسعت سے جاہلیت کی روح پھر سے بیدار ہونے لگی۔ نظمِ مملکت شاہانہ اور غیراسلامی بنیادوں پر استوار ہونا شروع ہوا۔ اس مرحلے پر مصلحین اُمت کو اصلاحِ احوال کی فکر دامن گیر ہوئی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے حقیقی معنوں میں احیائے اسلام کی سنجیدہ کوشش کی۔ 

آپ کے بعد امام احمد بن حنبل، امام غزالی، مجدد الف ثانی، اورنگ زیب عالم گیر، شاہ ولی اللہ، سیّداحمد شہید، شاہ اسماعیل شہید اور متعدد دیگر اکابر کی مختلف النوع تجدیدی کاوشیں، تاریخ تجدید و احیائے دین کا ایک روشن باب ہیں۔ بیسویں صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے جن اکابر نے تگ و دو کی، اُن میں علامہ اقبال کا نام بہت نمایاں ہے۔ 

علامہ اقبال کے اسلامی اور دینی مزاج کی تشکیل میں اُن کے آباواجداد کے متصوفانہ رجحانات، والدین کی دین داری، گھر کا اخلاقی ماحول اور علامہ سیدمیرحسن کی تعلیم و تربیت اور فیضانِ نظر کے علاوہ دو باتوں کو بنیادی دخل ہے___ اوّل: قرآنِ حکیم سے اُن کا گہرا شغف۔ دوم:آں حضوؐر کی ذاتِ گرامی سے والہانہ عقیدت۔ احیائے اسلام کے لیے علّامہ اقبال نے جو مختلف النوع کوششیں کیں، وہ انھی بنیادوں پر تشکیل پانے والے اُن کے دینی مزاج کا حصہ تھیں۔ 

جب علامہ اقبال نے شعور کی آنکھ کھولی تو اس وقت پورا عالمِ اسلام نہایت پیچیدہ مسائل کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ فکری اور سیاسی، دونوں اعتبار سے مغربی استعمار اس پر حاوی ہو چکا تھا۔ غلامی کے نتیجے میں مسلم معاشرہ جمود، تعصب اور تنگ نظری کا شکار تھا۔زوال پذیری کے ردِّعمل میں جو آوازیں بلند ہوئیں، اُن میں سب سے توانا اور بلند آہنگ آواز علامہ اقبال کی تھی جنھوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کی تلقین کی۔مقصود یہ تھا کہ غلامی سے نجات‘ احیائے اسلام کی تمہید بن سکے۔ 

تجدید و احیائے اسلام کی یہ تمنا بالکل ابتدائی زمانے ہی سے اُن کے ہاں موجود تھی اور یہ کبھی سرد نہیں ہوئی، بلکہ عمرکے ساتھ اس جذبے کی حرارت و شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ تجدید و احیائے دین کے لیے اقبال کی کاوشیں، ان کی طویل زندگی میں مختلف شکلوں میں اور کئی سطحوں پر سامنے آتی رہیں۔ ان کی اُردو فارسی شاعری، ان کی تمام نثری تحریریں، ان کا پورا نظامِ فکروفلسفہ، اُن کے جملہ تصورات و نظریات (مثلاً: ’خودی‘، ’بے خودی‘، ’فقر‘، ’عشق‘، ’مردِ مومن‘، ’عقل‘ وغیرہ) احیائے اسلام کے لیے اُن کی مساعی کے ساتھ بہت گہرے طور پر مربوط ہیں۔ 

اسلام کی سربلندی کے لیے اُن کے بے تاب جذبوں اور مضطرب تمنائوں کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ انھیں اسلام کی حقانیت کے ساتھ، اسلام کے روشن مستقبل پر بھی کامل یقین تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں، عالمِ اسلام ایک مایوس کن منظر پیش کر رہا تھا۔ ان حالات میں اقبال کی طرف سے غلبۂ اسلام کی یہ نوید سامنے آئی: 

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش 
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی 

اس قدر ہوگی ترنم آفریں بادِ بہار 
نکہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی 

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود 
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی 

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے 
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے 

اُس وقت یہ نوید ایک خواب معلوم ہوتی تھی یا محض ایک شاعرانہ تعلّی--- مگر اقبال کو ایک عالم گیر اسلامی انقلاب پر کامل یقین تھا، جس کا واشگاف اظہار انھوں نے نثر میں بھی کئی جگہ کیا ہے، مثلاً: ’’اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے، جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی اور جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہتوں اور سرمایہ داریوں کی گنجایش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کر دے گا۔ غیرمسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض خواب ہو، لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے‘‘۔ (گفتارِ اقبال،مرتبہ: ڈاکٹر رفیق افضل، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، طبع دوم، نومبر۱۹۷۷ء، ص ۱۷۸) 

ایک اور موقعے پر فرمایا: اس وقت جو قوتیں دنیا میں کارفرما ہیں، اُن میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں، لیکن لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کے دعوے پر میرا ایمان ہے کہ انجام کار اسلام کی قوتیں کامیاب اور فائز ہوں گی‘‘۔ (گفتارِ اقبال، ص۱۹) 

تجدید و احیائے دین کے لیے علامہ اقبال کے مجموعی کام کو تین دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱- فرد کی تعمیر سیرت ۲- فکری اور علمی کاوشیں ۳- پاکستان کا تصور اور اس کے لیے عملی جدوجہد۔ 

فرد کی تعمیرِسیرت 

علامہ اقبال نے تاریخِ عالم کے مطالعے سے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک فرد اپنے اخلاق و اطوار اور سیرت و کردار میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتا، معاشرے میں کسی بڑے انقلاب کی توقع عبث ہے۔ اقبال کے الفاظ میں: ’’دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں‘‘۔(مقالاتِ اقبال،سیّد عبدالواحد معینی، ص ۹۰) 

اور: ’’کردار ہی وہ غیرمرئی قوت ہے جس سے قوموں کے مقدر متعین ہوتے ہیں‘‘۔ (شذراتِ فکراقبال، (مترجم) ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، طبع اوّل، ۱۹۷۳، ص۱۲۴) 

مسلمان مجموعی اعتبار سے اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ انھیں اس پستی سے نکالنے کے لیے اقبال ان کی اخلاقی تربیت کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اخلاقی تربیت کے لیے: ’’سب سے زیادہ اہم فرض یہ ہے کہ آئندہ نسل کو دہریانہ مادیت کے چنگل سے محفوظ کریں___ [اس لیے] مذہب بے حد ضروری  ہے‘‘۔(گفتارِ اقبال، ص۲۵۵) 

اور مذہب کی مضبوط گرفت ہی ہمیں بھٹکنے اور گمراہ ہونے سے بچاسکتی ہے۔ اگر: ’’یہ گرفت ڈھیلی پڑی تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ شاید ہمارا انجام وہی ہو جو یہودیوں کا ہوا‘‘۔ (شذراتِ فکراقبال، ص۸۵) 

 اقبال کے نزدیک انسانی کردار کی تعمیر میں قرآن حکیم اساسی حیثیت رکھتا ہے: 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں 
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار 

ایک بار چند نوجوانوں سے مخاطب ہو کرکہا: ’’یاد رکھو، مسلمانوں کے لیے جائے پناہ صرف قرآنِ کریم ہے___ میں اس گھرکو صدہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں، جس گھرسے علی الصبح تلاوتِ قرآن مجید کی آواز آئے‘‘ [مگر اس کے ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کی]: قرآن مجید کا صرف مطالعہ ہی نہ کیا کرو بلکہ اس کو سمجھنے کی کوشش کرو‘‘۔(گفتارِ اقبال، ص ۲۱۳) 

قرآنی تعلیمات کے حوالے سے اقبال نے افراد اُمت کو ارکانِ خمسہ کی پابندی (ملفوظاتِ  اقبال،(مرتبہ) محمود نظامی، لوہاری گیٹ، لاہور، طبع اوّل، ص۳۹)، اور فرائض کے ساتھ نوافل، شب بیداری، اور تہجد کے اہتمام کی طرف متوجہ کیا۔(اقبال نامہ، (مجموعہ مکاتیبِ اقبال)، مرتبہ: شیخ عطاءاللہ، ناشر:شیخ محمد اشرف، تاجر کتب ،کشمیری بازار، لاہور، طبع اول، ۱۹۵۱ء، ص۱۹۳) 

 یہ اہتمام مسلمان کے اندر اخلاقِ فاضلہ کا سبب بنتا ہے۔ 

علامہ اقبال، قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق آں حضورؐ کے اُسوئہ حسنہ کو بھی پیشِ نظر رکھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اسوئہ حسنہ میں کلمۂ حق کے اعلان کو ایک نمایاں اور روشن باب کی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک ایک حقیقی مسلمان کلمۂ حق کا اعلان و اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا، مگر سچائی کا اظہار خوداعتمادی کی بنا پر ہی ممکن ہے۔ فلسفۂ خودی کا پس منظر یہی ہے۔ 

اقبال کے فلسفۂ خودی کی تشکیل میں ’عشق‘ اور ’فقر‘ کو اہم عناصر کی حیثیت حاصل ہے۔ ’جذبۂ عشق‘ ایک غیرمعمولی قوت اور ’فقر‘ کی لازوال دولت بھی عشق سے کم اہم نہیں۔ جس قوم کو یہ دونوںقوتیں حاصل ہو جائیں، دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کا راستہ نہیں روک سکتی: 

خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم 
عشق ہو جس کا جسور‘ فقر ہو جس کا غیور 

اقبال، احیائے اسلام کے لیے جس انقلاب کے داعی ہیں، اُسے برپا کرنے کے لیے خودی، فقر اور عشق سے متصف ہونا ضروری ہے۔ فرد کے اندر یہ صفات پیدا ہو جائیں تو وہ ’مردِمومن‘ کا روپ اختیار کرلیتا ہے اور اس جدوجہد میں مردِ مومن کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ 

اُمت مسلمہ کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ضعف ِاسلام کا بہت بڑا سبب اُمت کے اندر فروعی مسائل پر شدید اختلافات، اوراس بنیاد پر باہمی دشمنیاں اور مجموعی طور پر انتشار و افتراق کی افسوس ناک صورتِ حال رہی ہے۔ علامہ اقبال، غیر اسلامی اور عجمی تصوف کو خاص طور پر خرابیِ احوال کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں عجمی تصوف نے’’مسلمانوں کے زوال میں ایک اہم عنصر کے طور پر کام کیا ہے‘‘۔(اقبال نامہ، ج ۱،ص ۷۸) 

علمائے سوء اور نام نہاد مدعیانِ تصوف کے متعلق وہ بہت شدید جذبات رکھتے تھے۔ 

دوسرا طبقہ جس سے اقبال بطور خاص مخاطب ہوئے، نوجوانوں کا طبقہ تھا۔ اقبال کی نظر میں احیائے اسلام کی تحریک میں کامیابی کا انحصار بڑی حد تک نوجوان طبقے پر ہے۔ خود آںحضوؐر کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں اوّلیت کا شرف بھی نوجوان طبقے کو حاصل ہوا۔ اقبال، مسلم نوجوانوں کو تن آسانی اور عیش پسندی کے بجائے جفاکشی اور سخت کوشی کی تلقین کرتے ہیں: 

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے 
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند 

اس طرح احیائے اسلام کے سلسلے میں اوّلین سطح پر اقبال نے فرد کی انفرادی اصلاح اوراس کی تعمیرسیرت پر زور دیا اور پھر معاشرے کے دو اہم طبقوں‘یعنی علما و صوفیہ اورنوجوانوں کو متوجہ کیا کہ وہ آگے بڑھ کر اسلامی نشات ثانیہ کی تحریک میں اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کریں۔ 

فکری اور علمی کاوشیں 

مسلمان، انگریزوں کی سیاسی غلامی کے ساتھ، ذہنی اور فکری اعتبار سے بھی مغرب سے مغلوب ہو چکے تھے۔ اس مغلوبیت کی تین صورتیں تھیں: اوّل: نیشنلزم کا سراب ۔ دوم: دین و دنیا کی دوئی۔ سوم: مغربی تہذیب سے ایک مجموعی مرعوبیت۔ علامہ محمد اقبال نے ان تینوں تصورات پر کاری ضرب لگائی۔ 

اپنے فکری سفر کے آغاز میں اقبال خود بھی قوم پرست تھے مگر یورپ کو قریب سے دیکھنے پر انھیں نیشنلزم کے کھوکھلے پن کا احساس ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ قیامِ یورپ نے ان کے خیالات میں عظیم انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ اقبال کے الفاظ ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا‘‘۔(انوارِ اقبال، اقبال اکادمی، کراچی،طبع اوّل،۱۹۶۷ء، ص ۱۷۶) 

 وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر قوم پرستی کے ’فرنگی نظریۂ وطنیت‘ کی اشاعت کا مقصد ’’اسلام کی وحدتِ دینی کو پارہ پارہ کرنا ہے‘‘۔(حرفِ اقبال، المنار اکادمی، لاہور، ۱۹۴۵ء، ص۲۲۲) 

 اسی بنا پر عرب قوم پرستی کا فتنہ پروان چڑھا اور سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرگیا۔ علامہ نے مغربی تصورِ قومیت کو ایک ’’روحانی بیماری‘‘ قرار دیتے ہوئے، اس کے خلاف عمربھرجہاد کیا۔ اقبال کے نزدیک انسانی اشتراک کا سب سے قوی رابطہ اور ان کے درمیان سب سے زیادہ مضبوط رشتہ کلمۂ توحید کا ہے۔ اسی بنیاد پر انھوں نے تصورِ ملت کی بازیافت کی: 

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر 
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ 

اسی تصورِ ملّت نے آگے چل کر علامہ کے ہاں اتحادِ عالم اسلامی کی شکل اختیار کی:  ع 

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے 

مسلمانوں کے فکری و ذہنی انحطاط کا دوسرا نمایاں پہلو اُن کا محدود تصورِ دین تھا۔ شہنشاہیت نے اہل مذہب کو مساجد تک محدود کر دیا اور سیاست کی باگ ڈور خود سنبھال لی۔ دین و سیاست میں بُعد پیدا ہو گیا۔ اقبال کے نزدیک: ’’ازروئے شریعت محمدیہؐ مذہب و سیاست میں کوئی تفریق و تمیز نہیں‘‘۔(مقالاتِ اقبال، ص ۱۳۰) 

انھوں نے دین و سیاست کی علیحدگی پر سخت تنقید کی کیونکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ خوں ریزی و چنگیزی اور عالم گیر تباہی کی شکل میں نکلتا ہے۔ 

درحقیقت احیائے اسلام کی تحریک میں کسی طرح کی پیش رفت اس کے بغیر ممکن ہی نہ تھی کہ دین و سیاست میں دوئی کی نفی کرکے، دین کا حقیقی اور (سیاست، تمدّن، معیشت، تعلیم، عمرانیات، قانون، غرض زندگی کے تمام شعبوں پر محیط) جامع تصور نہ پیش کیا جاتا۔ 

تجدید و احیائے دین کی راہ میں تیسری بڑی رکاوٹ مغرب سے ذہنی مرعوبیت تھی۔ علامہ اقبال مغرب اور مغربیت کا بذاتِ خود مشاہدہ کر چکے تھے۔ اس لیے انھوں نے نہایت واشگاف الفاظ میں اس کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا: 

یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے 
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات 

فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب 
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف 

خطبات میں ایک جگہ کہتے ہیں: ’’یورپ سے بڑھ کر، آج انسان کے اخلاقی ارتقا میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں‘‘۔ (تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ، ڈاکٹر محمد اقبال، ترجمہ: نذیر نیازی، لاہور، ۱۹۵۸ء، ص ۲۷۶) 

یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ فکرِمغرب کے جو ثمرات،سوشلزم اور نام نہاد جمہوریت اور سرمایہ داری کی شکل میںدنیا کے سامنے رونما ہوئے تھے، اقبال نے ان سب کو باطل اور بہرطور ناقابلِ قبول ٹھیرایا تھا۔ مغربی جمہوریت کو انھوں نے رد کر دیا، جس کی بنیاد مادر پدر آزادی ہے، کیونکہ: 

گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو 
کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانی نمے آید 

(طرزِ جمہوری سے گریز کر، کسی مرد پختہ کار کا دامن پکڑ، کیونکہ دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے۔) 

خیال رہے کہ سوشلزم اور اشتراکیت کے بارے میں اقبال کے خیالات میں ایک ارتقا ملتا ہے۔ پہلے پہل انھوں نے ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کو سراہا کیونکہ وہ مظلوموں کا حامی بن کر سامنے آیا تھا، مگر بہت جلد اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ چنانچہ انھوں نے اس سے براء ت کا اعلان کرتے ہوئے تاریخ کی مادی تعبیر کو سراسر غلط قرار دیا۔(اقبال نامہ،ج ۱، ص۳۱۹) 

علامہ اقبال کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا ریڈیائی پیغام،مغربی فکر اور سیاست پر ایک جامع تبصرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ فی الحقیقت انھوں نے جس طرح مغربی تہذیب اور فکروفلسفے پر تنقید کی، ہماری فکری تاریخ میں ان سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ اُن کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی اس جرأت مندانہ تنقید کے نتیجے میں تعلیم یافتہ مسلمانوں میں مغرب سے مرعوبیت ختم ہونے لگی اور احیائے اسلام کے لیے فضا سازگار ہو گئی۔ 

علامہ اقبال کو اس امر کا بھی شدید احساس تھا کہ ہمارے علما ’اجتہاد‘ کی اہمیت سے غافل ہو چکے ہیں۔ فکری سطح پر علامہ اقبال کی ایک مثبت عطا یہ بھی ہے کہ انھوں نے عصرحاضر میں ’اجتہاد‘ کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا۔ ان کے انگریزی خطبات میں چھٹا خطبہ الاجتہاد فی الاسلام کے موضوع پر ہے۔ اس سلسلے میں ایک بار فرمایا: آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت فقہ کی جدید تدوین ہے، جس میں زندگی کے ان سیکڑوں ہزاروں مسائل کا صحیح اسلامی حل پیش کیا گیا ہو، جن کو دنیا کے موجودہ قومی اور بین الاقوامی سیاسی، معاشی اور سماجی احوال و ظروف نے پیدا کر دیا ہے۔ (حیاتِ انور، (مرتبہ) سید محمد ازہر شاہ قیصر، شاہ منزل، دیوبند، ۱۹۵۵ء، ص ۱۶۵) 

’اجتہاد‘ پر یہ زور مسلم علما کے اندر صدیوں کے فقہی جمود کے خلاف ایک ردِّعمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ردِّعمل کا ایک مثبت پہلو، اقبال کا یہ احساس ہے کہ عصرِحاضر کے تقاضوں اور مسائل کی روشنی میں اسلامی فقہ کی ازسرنو ترتیب و تشکیل کی ضرورت ہے۔ 

ابتدا میں اقبال نے خود اس طرح کے کام کا آغاز کیا(اقبال نامہ، ج ۱، ص۳۲۰)۔ لیکن پھر یہ نازک ذمّہ داری کسی روشن دماغ عالم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔غالباً اسی خیال کے پیشِ نظر انھوں نے مختلف اوقات میں مولانا شبلی نعمانی، سیدانورشاہ کاشمیری اور سید سلیمان ندوی کو پنجاب منتقل ہونے کی دعوت دی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ پٹھان کوٹ کا ادارہ دارالاسلام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ عبدالمجید سالک کے خیال میں اس ادارے کی غایت یہ تھی کہ دینی و دنیاوی علوم کے ماہرین ’’ایک گوشے میں بیٹھ کر، علامہ کے نصب العین کے مطابق، اسلام، تاریخِ اسلام، تمدنِ اسلام، ثقافت ِ اسلامی اور شرعِ اسلام کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں جو آج کل کی دنیائے فکر میں انقلاب پیدا کر دیں‘‘۔(ذکرِاقبال، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۹۳ء، ص۲۱۲-۲۱۳) 

علامہ اقبال ہی کے ایما اور مشورے پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، ۱۹۳۸ء کے اوائل میں حیدرآباد، دکن سے ہجرت کر کے جمال پور (پٹھان کوٹ) آگئے تھے۔ علامہ کا ارادہ تھا کہ وہ بھی ہر سال چند ماہ کے لیے وہاں آکر قیام کیا کریں گے، مگر افسوس کہ وہ جلد ہی خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس ادارے نے قابلِ قدر خدمات انجام دیں، اور اس نے آگے چل کر تجدید و احیائے دین کے لیے ایک عملی تحریک کی صورت اختیار کی۔ 

اسلامی ریاست (پاکستان) کا تصور 

ہندستان میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست (جسے بعد میں پاکستان کا نام دیا گیا) کا تصور اور اس کے حصول و قیام کے لیے عملی کوششیں، احیائے اسلام کے لیے اقبال کی مساعی میں آخری سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے مغرب کے نظریۂ قوم پرستی کو ردّ کر کے اسلام کے تصورِ ملّت کو اُجاگر کیا۔ ہندستانی سیاست سے ان کی دل چسپی اسی حوالے سے تھی۔ اس سلسلے میں اقبال کی خواہش تھی کہ اوّل: ہندستان آزاد ہو۔ دوم: یہاں اسلامی حکومت قائم ہو۔ 

ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہونے کی حیثیت سے،اسلام ہمیشہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ و رائج کیا جائے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور أَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ  کا مفہوم بھی یہی ہے مگر سیاسی قوت کے بغیر اقامت ِ دین ممکن نہیں۔ اقبال کا یہ معروف شعر اسی نکتے کی شعری تفسیر ہے: 

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم 
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد 

اقبال کے خیال میں باطل کی بیخ کنی بھی قوت ہی سے ممکن ہے: 

تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحرِقدیم 
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم 

یہاں اُن کا یہ قول لائق توجہ ہے: ’’مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا حکم دیا گیا ہے [لیکن] بغیرطاقت کے امرونہی کیسے ممکن ہے؟ اگر مسلمان امرونہی کے فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے بازوئوں میں طاقت ہونا ضروری ہے‘‘۔(نقوش، اقبال نمبر، (مرتبہ: محمد طفیل) اوّل، ۱۹۷۷ء، ص ۴۰۷) 

برطانوی سامراج کی غلامی میں فوری طور پر قوت و طاقت اور اقتدار کا حصول آسان نہ تھا۔ اقبال نے مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور کی بیداری پر پوری توجہ مرکوز کی۔ آزادیِ ہند سے متعلق کوئی معاملہ ہو یا مسلمانوں کا کوئی ملّی مسئلہ، وہ برابر کوشاں رہے کہ مسلمان مستقبل کے منظرنامے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں۔ سیاسی سطح پر اقبال نے ہمیشہ مسلمانوں کی علیحدہ قومیت پر زور دیا اور مخلوط انتخاب کی مخالفت کی۔ 

مسلمانوںکے ملّی تشخص کی خاطر جداگانہ اصولِ انتخاب پر اقبال کا اصرار،آگے چل کر ایک علیحدہ مسلم مملکت کے تصور کی شکل میں سامنے آیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ انگریز کے رخصت ہونے کے بعد، اصولِ جمہوریت کے تحت ہندستان کا اقتدار ہندوئوں کو منتقل ہو جائے گا اور اکھنڈ بھارت میں مسلمانوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس لیے انھوں نے دسمبر ۱۹۳۰ء میں ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا تصور پیش کیا۔(دیکھیے:علامہ محمد اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد) 

جس موقعے پر اقبال نے ایک ’منظم اسلامی ریاست‘ کا تصور پیش کیا‘ مسلمان شدید انتشار اور مایوسی کا شکار تھے۔ محمد علی جناح ہندستانی سیاسیات سے بددل ہو کر لندن جا بسے تھے اور مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بقول سیّد نوراحمد: ’’مسلم لیگ کا پلیٹ فارم طفلانہ حرکتوں کا میدان بن گیا تھا‘‘۔(مارشل لا سے مارشل لا تک، سید نور احمد، ص۱۴۱) 

 اس مایوس کن صورت حال میں اقبال کی پیش کردہ اسلامی ریاست کی تجویز، مسلمانوں کے لیے ایک بڑا سہارا ثابت ہوئی۔ 

مسلمانوں کے مسائل سے ان کی دل چسپی اور ان کے مستقبل کے بارے میں فکرمندی، قائداعظم کے نام ان کے خطوط سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ خطوط، اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے اقبال کے ولولوں، اُمنگوں اور مضطرب جذبوں کا خوب صورت اظہار ہیں۔ اقبال تو ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنے ربّ سے جا ملے، مگر ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کے سات سال بعد، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے، کرئہ ارض پر نمودار ہوا۔ 

بلاشبہ پاکستان کا قیام اسلامی نشاتِ ثانیہ کی جدوجہد میں ایک اہم پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے مگر علامہ اقبال کے خوابوں کی حقیقی تعبیر اُس وقت سامنے آئے گی، جب پاکستان میں اسلامی قانون اور شریعت ِ محمدیہؐ کا مکمل اور نتیجہ خیز نفاذ ہوگا اور پاکستان، دنیا میں اسلام کے احیا اورمسلمانوں کی سربلندی کی علامت بن جائے گا۔ 

احیائے اسلام کے لیے علامہ اقبال کی اس جدوجہد میں اسلام اور ملّت ِ اسلامیہ کے لیے ان کے انتہائی خلوص، دردمندی اور دل سوزی کے جذبات بہت نمایاں ہیں۔ اُن کا یہ شعر اسی کیفیت کا آئینہ دار ہے: 

اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں 
کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی 

پھر اپنی ساری مساعی میں حبِ رسولؐ، اقبال کے لیے سب سے بڑا source of inspiration رہا۔آں حضوؐر کی ذات اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ کارزارِ حیات میں اقبال کے لیے روحانی تائید کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایک صاحب نے علامہ سے ذکر کیا کہ انھوں نے خواب میں حضورؐ رسالت مآب کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں دیکھا ہے ۔ اس پر علامہ نے انھیں لکھا: ’’میرے خیال میں یہ علامت احیائے اسلام کی ہے‘‘۔(انوارِ اقبال، ص۲۱۶) 

تجدید و احیائے دین کے لیے اقبال کی اس ساری تگ و دو اور جدوجہد کا مقصد بھی سنت ِ رسولؐ کی پیروی ہے۔ اقبال کے نزدیک، ایک مسلمان کی جملہ مساعی کا محور یہی ہونا چاہیے: 

بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست 
اگر بہ او نہ رسیدی‘ تمام بولہبی ست 

اُن کے خیال میں آں حضوؐر کی ذاتِ گرامی سے تعلق خاطر، نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی مومن کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ احیائے اسلام اور تجدید و احیائے دین کے لیے کی جانے والی کوششوں اور کاوشوں کا منتہائے مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کے قلوب حبِ رسولؐ کی سچائی، روشنی اور حرارت سے منور ہوکر جگمگا اُٹھیں: 

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں 

تجدید و احیائے دین کے لیے علامہ اقبال کے ایمان افروز مشن کی داستان، اقبال کے نام لیوائوں اور عقیدت مندوں کے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے نشاتِ ثانیہ کے لیے عمربھر جو کاوشیں کیں، ابھی ان کی تکمیل ہونا باقی ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُن کا فرض یاد دلا رہا ہے: 

وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے 
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے 

تہذیب کے پھیلائو کا اندازہ اس کی سلطنت کی وسعت، اس کی تعمیر کردہ یادگاروں کی بلندی یا اس میں ٹکنالوجی کی ترقی سے نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس کی ایسی صلاحیت کی پرکھ سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے اندر اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کو کیسے پروان چڑھاتی ہے۔ نوربرٹ ایلیاس کے نظریے کے مطابق، تہذیبی عمل خود پر قابو، ہمدردی اور سفارت کاری کے اندرونی جذب کا ایک تدریجی عمل ہے ۔یہ وہ اخلاقی ذرائع ہیں جو جارحیت کو دباتے ہیں اور انسانی بقائے باہمی کو ایک مشترکہ اخلاقی کوشش میں بدل دیتے ہیں۔ 

تاریخی طور پر، فلسفیوں نے امن کو ایک غیر فعال حالت کے طور پر نہیں، بلکہ عقل اور اخلاقی ارتقاء کی سب سے اعلیٰ شکل کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ ایمانوئل کانٹ نے اپنی کتاب دائمی امن (۱۷۹۵ء) میں آزاد ریاستوں کے ایک اتحاد کا تصور پیش کیا، جو فتح کے بجائے قانون سے بندھا ہو، یہ استدلال کرتے ہوئے کہ اصلی تہذیب اسی وقت اُبھرتی ہے، جب ’عقل غلبے کے جذبات پر غالب آتی ہے‘۔ ٹوئن بی نے اپنی کتاب تاریخ کا مطالعہ میں بھی یہی بات کہی: تہذیبیں اخلاقی تخلیقی صلاحیت سے عروج پاتی ہیں اور جب وہ عسکریت پسندی کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہیں تو زوال پذیر ہوتی ہیں۔ 

یہ سبق لازوال ہے کہ جارحیت، خواہ اسے تحفظ کے نام پر کتنا ہی جواز دیا جائے، آخرکار انھی نظریات کو کھوکھلا کر دیتی ہے جو تہذیب کو برقرار رکھتے ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے خبردار کیا تھا، ’’جنگیں پُرامن مستقبل کو تراشنے کا ناقص ذریعہ ہیں‘‘۔ اور: ’’کسی قوم یا خطّے کا استحکام اس کی فوجوں کی طاقت پر نہیں، بلکہ اس کے اخلاقی تخیل کی قوت پر منحصر ہے‘‘۔ 

تہذیب کے لیے اندرونی اور بیرونی امن دونوں ضروری ہیں، اسی طرح اندرونی ہم آہنگی اور بیرونی سفارت کاری بھی۔ امن کا اندرونی پہلو انصاف، مساوات اور اس یقین دہانی پر منحصر ہے کہ شہری خوف یا جبر کے بغیر زندگی گزار سکیں۔ سچا انصاف صرف قانون کی حکمرانی کے تحت ممکن ہے، جب کوئی فرد، کوئی حکمران اور کوئی ادارہ قانون سے بالاتر نہ ہو۔ قانون کی حکمرانی وہ غیر مرئی ڈھانچا ہے جس پر انسانی وقار کی عمارت استوار ہوتی ہے، اور جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر اور جواب دہ ہیں۔ تاریخ بار بار دکھاتی ہے کہ جہاں قانون طاقت کے آگے جھکتا ہے، وہاں امن، ظلم میں بدل جاتا ہے۔ 

اس اخلاقی ڈھانچے کے لیے انسانی حقوق کی شناخت بھی اسی قدر ضروری ہے۔ یہ حقوق وہ مراعات نہیں جو ریاست عطا کرتی ہے، بلکہ انسانیت کے ناقابلِ تنسیخ اوصاف ہیں۔ آزادانہ سوچنے، کھل کر بولنے اور بغیر خوف کے اختلاف کرنے کا حق تہذیب یافتہ نظام کی جان ہے۔ وہ معاشرہ جو فکر اور اظہار کی آزادی کو دباتا ہے، وہ تہذیب کے ضمیر کو رفتہ رفتہ قتل کر دیتا ہے۔ بدقسمتی سے، ایک ایسی دنیا میں جہاں آمرانہ پاپولزم تیزی سے غالب آ رہا ہے، یہ آزادی خطرے میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگوں کی قیادت میں دنیا نے پریس، فکری اختلاف اور تکثیریت کے خلاف عدم برداشت اور دشمنی میں اضافہ دیکھا ہے۔ ان آزادیوں کا زوال نہ صرف جمہوریت کو کمزور کرتا ہے بلکہ پُرامن بقائے باہمی کے جذبے کو بھی زہر آلود کرتا ہے، کیونکہ جہاں فکر زنجیروں میں جکڑی ہو اور خوف گفتگو پر حاوی ہو، وہاں مکالمہ پنپ نہیں سکتا۔ 

بیرونی طور پر، امن سفارت کاری کا تقاضا کرتا ہے، نہ کہ جبر اور غلبے کا۔ نیلسن منڈیلا، جن کی زندگی مصالحت کی گواہی ہے، نے ایک بار کہا تھا، ’’اگر آپ اپنے دشمن سے امن قائم کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنے دشمن کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا، پھر وہ آپ کا شراکت دار بن جاتا ہے‘‘۔ یہ فلسفہ عملیت پسندی پر مبنی ہے اور تہذیبی ترقی کا راستہ ! 

جدید دنیا، اپنی تمام تکنیکی ترقی کے باوجود، اس تہذیبی وعدے کو پورا نہیں کر سکی۔ بیسویں اور اکیسویں صدی عسکریت پسندی اور طاقت کی دھونس سے داغ دار چلی آرہی ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ کوفی عنان نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ’’ہم نے بیرونی خلا کو فتح کیا ہوگا، لیکن اندرونی خلا کو پُرنہیں کیا۔ ہم نے اپنی دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے بہت کچھ کیا، مگر پھر بھی ہم خود سے محفوظ نہیں ہیں‘‘۔ جنگ، اکثر مسخ شدہ قوم پرستی یا نظریاتی خوف کے ذریعے جواز کے طور پر پیش کی جاتی ہے، اورحب الوطنی کے رُوپ میں پیش کی جاتی ہے، حالانکہ یہ اس اخلاقی ڈھانچے کو توڑتی ہے جو معاشروں کو جوڑتا ہے۔ 

جنوبی ایشیا میں یہ تضاد کہیں زیادہ واضح ہے، جہاں تاریخی شکایات اور سیاسی ہیرا پھیری نے بار بار امن کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔ پاکستان کا تجربہ ایک سبق آموز حقیقت پیش کرتا ہے۔ فوجی حکمرانوں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا تعلق مہم جوئی سے رہا ہے۔ مکالمے اور مصالحت کو نظرانداز کرنے والی سویلین حکومتیں تصادم کی راہ پر چلنے کے سبب ناکام ہوئیں۔ 

یہ نمونہ واضح ہے: جب جمہوری عمل دبائے جاتے ہیں، جنگجوئی کی آواز بلند ہوتی ہے، جب جمہوریت سانس لیتی ہے، تو سفارت کاری پنپتی ہے۔ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ’’جنگ یہ طے نہیں کرتی کہ کون صحیح ہے، صرف یہ کہ کون باقی بچتا ہے‘‘۔ ایک ریاست کی سلامتی اس کی حملہ کرنے کی صلاحیت میں نہیں، بلکہ تنازعات کو مذاکرات، ہمدردی اور قانون کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت میں ہے۔ اس لحاظ سے، قانون کی حکمرانی نہ صرف اندرونی ضرورت ہے بلکہ ایک بیرونی حکمت عملی بھی ہے، یہ قوموں میں تحمل اور تنازعات کے پُرامن حل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ 

پاکستان اور افغانستان کے درمیان المناک تعلق اس نکتے کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ مشترکہ مذہب، ثقافت اور جغرافیہ کے باوجود، دونوں ممالک قربت کو شراکت داری میں بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی ابتدائی مخالفت، جو ڈیورنڈ لائن کے غیر حل شدہ مسئلے پر مبنی تھی، نے عدم اعتماد کے بیج بوئے جو کبھی مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے۔ اس کے بعد کے عشروں میں مداخلت اور الزام تراشی کے تذکرے گردش میں چلے آرہے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں سوویت یونین کی افغانستان میں بھرپور مداخلت کے جواب میں جہاد اور اس میں پاکستان کی شمولیت، اور نائن الیون کے بعد سرحد پار عسکریت پسندی کے الزامات تک، پھر حالیہ  فوجی آپریشنز، فضائی حملوں اور جوابی کارروائیوں نے دشمنیوں کو مزید گہرا کیا ہے۔ 

ایسی محاذ آرائیاں دونوں ممالک کے مفادات میں نہیں ہیں۔ یہ سرحدی شہریوں کو غریب بناتی ہیں، نظم و نسق کو غیر مستحکم کرتی ہیں اور اس ’خواب و خیال‘ کو برقرار رکھتی ہیں کہ ’طاقت ہی سفارت کاری کا متبادل ہو سکتی ہے‘۔ حالانکہ تاریخ کا سبق اس کے برعکس ہے: ہر پائیدار امن، یورپ کی جنگ کے بعد کی مصالحت سے لے کر جنوبی افریقہ کے نسل پرستی سے جمہوریت کی طرف منتقلی تک مذاکرات کے ذریعے ہی ابھرا ہے، نہ کہ جبر کے ذریعے۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے آگے کا راستہ مکالمے، اعتماد سازی اور ادارہ جاتی تعاون میں مضمر ہے، نہ کہ طاقت کے مظاہرے میں۔ 

فلسفی رین ہولڈ نیبور نے اس تضاد کو اخلاقی درستی کے ساتھ یوں بیان کیا: ’’انسان کی انصاف کی صلاحیت جمہوریت کو ممکن بناتی ہے، لیکن انسان کا ناانصافی کا رجحان جمہوریت کو ضروری بناتا ہے‘‘۔ یہی بات قوموں کے لیے بھی سچ ہے۔ ان کی ہمدردی کی صلاحیت امن کو ممکن بناتی ہے، لیکن ان کا غلبے کی طرف میلان امن کو نازک بناتا ہے۔ تہذیب کو برقرار رکھنے کے لیے، قوموں کو وہ اخلاقی نظم و ضبط پیدا کرنا ہوگا جو تباہی پر مکالمے، جبر پر قائل کرنے اور انتقام پر انصاف کو ترجیح دے۔ 

بالآخر، امن اور تہذیب لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرا پروان چڑھ نہیں سکتا۔ مؤرخ ول ڈیورانٹ نے تاریخ کے سبق میں درست کہا تھا، ’’تہذیب ایک ندی ہے جس کے کنارے ہیں۔ ندی کبھی کبھار خون سے بھر جاتی ہے، لیکن کنارے تہذیب ہیں اور ان کے بغیر ندی جلد خشک ہوجائے گی‘‘۔ یہ کنارے انصاف سے بنتے ہیں، جمہوریت سے سہارا پاتے ہیں، قانون کی حکمرانی سے مضبوط ہوتے ہیں اور اخلاقی جرأت سے تقویت پاتے ہیں۔ 

اگر انسانیت کو ایک اور صدی کے تنازعات سے بچنا ہے، تو اسے ہتھیاروں میں نہیں بلکہ مکالمے کے اداروں میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، دیواروں میں نہیں، بلکہ پل بنانے میں اور جبر میں نہیں بلکہ رضامندی میں۔ ایک مضبوط جمہوریت جو انصاف، قانون کے سامنے سب کی برابری اور ایک آزاد نظام عدل پر مبنی ہو امن کی سب سے یقینی ضمانت ہے۔ صرف جہاں پر فکر اور اظہار کی آزادی محفوظ ہو، جہاں انسانی حقوق کی عزّت کی جاتی ہو، اور جہاں طاقت عوام کے سامنے جواب دہ ہو، تہذیب یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس نے وحشت پر فتح حاصل کی۔ کیونکہ جب انصاف غالب آتا ہے، قانون حکمرانی کرتا ہے، اور ضمیر آزاد ہوتا ہے، تب امن تہذیب کا محض خواب نہیں رہتا، یہ اس کی روشن حقیقت بن جاتا ہے۔(انگریزی سے ترجمہ: س م خ) 

۵؍اکتوبر۲۰۲۵ء کو ’الجزیرہ‘ نے اپنی ویب سائٹ پر غزہ میں اسرائیلی فوج کی درندگی، قتل و غارت اور ظلم و سفاکی سے ہونے والی تباہی و بربادی کو اعداد و شمار کی صورت میں شائع کیا ہے۔ یہ رپورٹ غزہ کے سرکاری میڈیا کی طرف سے جاری کی گئی ہے، جو بے گناہ شہریوں اور نہتے عوام پر اسرائیل کے اندھے اور بے حدوحساب بارود برسانے کی المناک صورتِ حال کو بیان کرتی ہے۔ سرکاری میڈیا کے دفتر نے بتایا ہے کہ ۶۷ ہزار سے زائد افراد شہادت سے سرفراز ہوئے۔ یہ اُن لوگوں کی تعداد ہے جن کو ہسپتالوں تک پہنچایا گیا اور ان کا ہسپتال کے ریکارڈ میں اندراج موجود ہے، جب کہ ۱۰ ہزار افراد کا اَتا پتا نہیں۔ ان میں سے کئی ملبے تلے دب گئے اور کئی نامعلوم صورتِ حال سے دوچار ہوئے۔ 

اس رپورٹ کے مطابق ۲۰ ہزار سے زائد بچّے شہید ہوئے، جن میں ایک ہزار ابھی دودھ پیتے بچّے تھے اور ۵ سو کے قریب وہ شیرخوار تھے جو پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ناموافق حالات سے دوچار ہونے کی بنا پر انتقال کر گئے۔ اس رپورٹ کے مطابق اندراج میں موجود شہید عورتوں کی تعداد ۱۰ ہزار سے زائد ہے۔ 

اس سرکاری بیان کے مطابق مکانوں، دکانوں اور مارکیٹوں ، پلازوں کی تخریب و تباہی کے تخمینے کا گراف ۹۰ فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ یہ تمام تباہی راکٹوں، میزائلوں، گولہ و بارود اور ڈرون ٹکنالوجی سے برسائی گئی آگ کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی جنگی جنون نے ان دو برسوں میں دو لاکھ ٹن بارود غزہ کی بے گناہ آبادی پر برسایا ہے۔ یہاں اس رپورٹ کی تفصیل درج کی جارہی ہے: 

آبادیاتی اعداد و شمار 

۲۵ لاکھ کے قریب غزہ کے رہائشی انسان قتل و غارت، نسل کشی اور جبری قحط و بھوک کا شکار ہوئے۔ اجتماعی نسل کشی اور تباہی کا یہ اسرائیلی عمل ۷۳۰ دن (دو برس) تک مسلسل جاری رہا۔ ۹۰فی صد عمارتیں مکمل طور پر تباہ و برباد کردی گئیں۔ غزہ کے ۸۰ فی صد رقبے پر غاصب نے اپنا کنٹرول حاصل کرلیا تھا جہاں بے دریغ طریقے سے بارود برسایا، شہریوں کو شہر چھوڑنے پر مجبور کیا اور ظلم و عدوان کا کھلا مظاہرہ کیا۔  

شہداء، لاپتا افراد اور قتل عام 

مجموعی طور پر ۸۶ ہزار سے زائد افراد شہادت، لاپتا او ر قتل عام کا شکار ہوئے۔ شہداء کی ۶۷ہزار تعداد تو صرف وہ ہے جن کا ہسپتالوں میں اندراج ہوسکا۔ لاپتا افراد کی تعداد ساڑھے۹ہزار سے زائد ہے۔ ان میں وہ شہداء بھی شامل ہیں جو ابھی تک ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، یا ان کا کوئی اتاپتا نہیں۔ ۲۰ہزار سے زائد شہداء تو بچّے ہیں اور ان میں ۱۹ہزار سے زائد بچّے وہ ہیں جو ہسپتالوں کے ریکارڈ میں آئے ہیں۔ ساڑھے ۱۲ہزار سے زائد عورتیں شہید ہوئی ہیں۔ ان میں بھی ۱۰ہزار سے زائد کا اندراج موجود ہے۔ ۹ہزار سے زائد مائیں شہید ہوئیں۔ ۲۲ہزار سے زائد باپ شہادت کا رُتبہ پاگئے۔ ایک ہزار سے زائد اُن شہید بچوں کی تعداد ہے جن کی عمر ابھی ایک برس سےکم تھی۔ ۳۵ ہزار کے قریب بچّے پیدائش کے بعد شہید ہوگئے۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد، طبّی عملے کے افراد کو غاصب فوج نے قتل کردیا اور انھوں نے شہادت پائی۔ ڈیڑھ سو کے قریب شہری دفاع کے افراد تہہ تیغ کیے گئے۔ ڈھائی سو سے زائد صحافی شہید ہوئے۔ ۲سو سے زائد بلدیاتی ملازمین کو شہید کردیا گیا جن میں چار بلدیات کے صدور تھے۔ ۸سو کے قریب پولیس کے سپاہی اور امدادی سامان کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کو شہید کیا گیا۔ ۹سو افراد ہلال احمر کی تنظیموں کے شہید کیے گئے، ۳ہزار کے قریب گھرانے اور خاندان بالکل ختم کر دیے گئے جن کا اندراج شہری ریکارڈ سے ختم کردیا گیا ہے۔ یہ ساڑھے۸ہزار شہداء میں سے ہیں۔ ۶ ہزار سے زائد وہ خاندان ہیں جومکمل طور پر ختم ہوگئے اور ان کا صرف ایک ایک فرد زندہ بچا۔ یہ تعداد ۱۳ ہزار کے قریب شہداء میں سے ہے۔ شہداء میں ۵۵ فی صد سے زائد تعداد بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ۵ سو کے قریب شہداء کی وہ تعداد ہے جو بھوک اور ناکارہ غذا کے سبب شہید ہوگئے۔ ان میں بھی ڈیڑھ سو سے زائد بچّے ہیں۔ اسی طرح فضائی ذرائع سے گرائی گئی امداد کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۲۴ کے قریب ہے۔ ۴۰ فی صد سے زائد لوگ گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوکر جان سے گزر گئے کیونکہ انھیں مناسب اور ضروری غذا اور علاج کی سہولت نہ مل سکی۔ ۱۲ہزار سے زائد حاملہ خواتین ناقص غذا اور صحت کی سہولت کی عدم دستیابی کے باعث اسقاطِ حمل کا شکار ہوئیں۔ ۲۵۰ کے قریب شہری سردی کی شدت کے سبب خیموں میں دم توڑ گئے۔ان میں بھی زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ 

زخمی، گرفتاریاں اور انسانی صورتِ حال 

اس دو برس کی بمباری، ڈرون گردی اور میزائل حملوں سے زخمی ہونے والوں کی مجموعی تعداد پونے دو لاکھ کے قریب ہے۔ ۱۹ہزار سے زائد زخمی وہ ہیں جن کو بحالی میں ایک طویل مدت درکار ہوگی۔ ۵ہزار کے قریب زخمیوں کے اعضاء کاٹ دیے گئے ہیں جن میں ۱۸ فی صد تعداد بچوں کی ہے۔ ۱۲ سو فالج کے کیس ، اتنے ہی بینائی کی کمی کے کیس ریکارڈ ہوئے ہیں۔ ۴سو سے زائد صحافی زخمی ہیں۔ ۷ہزار کے قریب شہری گرفتار ہوئے۔۴سو کے قریب تو میڈیکل عملے کے لوگوں کی تعداد ہے جو گرفتار ہوئے۔ ایک سو کے قریب صحافی اور شہری دفاع سے متعلقہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ ۲۱ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں اور ۵۶ ہزار سے زائد بچّے یتیم ہوئے۔ ان میں دونوں ماں باپ یا ایک کی شہادت کی صورت میں یتیم ہونے والے بچّے شامل ہیں۔ ۲۰لاکھ سے زائدافراد جبری نقل مکانی کے نتیجے میں متعدی امراض کا شکار ہوگئے۔ ۷۰ہزار سے زائد افراد یرقان کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ 

صحت کے شعبے کی صورتِ حال 

۴۰ کے قریب ہسپتال حملہ آوروں نے تو بالکل تباہ کر دیے یا انھیں کام کے قابل نہیں چھوڑا۔ ایک سو کے قریب مراکز صحت ملیامیٹ کر دیے یا برباد کر دیے یا انھیں کام کے قابل نہیں رہنے دیا۔ ۲سوکے قریب ایمبولینسوں کو ظالموں نے نشانہ بنایا۔ صحت کی دیکھ بھال کی خدمات، سہولیات، گاڑیوں اور سپلائی چینوں پر ۸سو کے قریب حملے کیے گئے۔ ۶۰ سے زائد سرکاری فائربریگیڈاور شہری دفاع کے شعبے کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 

تعلیم اور تعلیمی ادارے 

غزہ کی ۹۵ فی صد اسکول عمارات کو سخت نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ۹۵ فی صد سے زائد اسکولوں کی عمارتیں نئے سرے سے تعمیر ہوں گی یا اُن کا بڑا حصہ تعمیر کرنا پڑے گا۔ ۷سو کے قریب اسکول عمارتوں کو براہِ راست نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا۔ یہ مدارس کی مجموعی تعداد کا ۸۰ فی صد ہے۔ ۲سو کے قریب اسکول، یونی ورسٹیاں اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔ ۴سو کے قریب اسکول،یونی ورسٹیاں اور تعلیمی ادارے جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ ساڑھے ۱۳ ہزار سے زائد طلبہ اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے۔ ۸ لاکھ کے قریب طلبہ کو سفاک دشمن نے تعلیم سے محروم کردیا۔ ۸سو سے زائد اساتذہ اور تعلیمی و تربیتی شعبوں کے افراد اس جنگ میں اسرائیلی ظلم سے شہید ہوگئے۔ اسی طرح ۲ سو کے قریب علما، دانش ور اور محقق اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہید ہوئے۔ 

عبادت گاہوں اورقبرستانوں کی صورت حال 

ساڑھے ۸سو کے قریب مساجد کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ ۲سو کے قریب مساجد  جزوی طور پر منہدم ہوئیں۔ تین گرجوں کو بھی ایک سے زائد مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ ۶۰ میں سے ۴۰قبرستانوں کو بلڈوز کر دیا گیا۔ اڑھائی ہزار کے قریب فوت شدگان اور شہداء کی لاشیں قبروں سے غائب کردی گئیں۔ سات اجتماعی قبریں ہسپتالوں کے اندر ہی بنائی گئیں۔ ۵ سو سے زائد افراد کو سفاک دشمن نے قتل کیا اور پھر ان کی لاشیں اجتماعی قبروں سے بھی نکال کر لے گئے۔ 

مکانات، جبری نقل مکانی اور پناہ گزین کیمپ 

قابض و جابر اور غاصب ظالم نے پونے تین لاکھ رہائشی یونٹس مکمل طور پر تباہ کر دیے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب رہائشی یونٹس کو شدید نقصان پہنچایا جو رہائش کے قابل نہیں رہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد رہائشی یونٹس کو جزوی طور پر تباہ کر دیا گیا۔ تین لاکھ کے قریب فلسطینی خاندان بے گھر ہوئے۔ سوا لاکھ سے زائد خیموں کو مکمل طور پر ناکارہ کر دیا گیا جو استعمال کے قابل نہ رہے۔ ۲۰لاکھ کے قریب شہری جبری نقل مکانی کے باعث بے گھر ہوئے۔ سو کے قریب پناہ گاہوں اور جبری نقل مکانی کے نتیجے میں قائم ہونے والے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ 

امداد و علاج کی روک تھام اور مسلط کردہ بھوک  

۲۲۰ دن تک غزہ کی پٹی کی تمام گزرگاہوں کو مکمل طور پر بند رکھا گیا۔ سوا لاکھ انسانی امداد اور ایندھن وغیرہ کے ٹرکوں کو غزہ میں داخل نہ ہونے دیا گیا۔ فلسطینی شہریوں کو بھوک سے مارنے کی پالیسی کے تحت ۵۰ کے قریب کھانے کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح امداد اور خوراک کی تقسیم کے ۶۰ سے زائد مراکز کو بھی اسی پالیسی کے تحت نشانہ بنایا گیا۔ امدادی کاموں میں حصہ لینے والے ساڑھے ۵سو افراد کو شہید کردیا گیا۔ ۱۲۸ مرتبہ امدادی قافلوں اور انسانی وفود کو نشانہ بنایا گیا۔ اڑھائی ہزار سے زائد شہید اور ۱۹سو سے زائد زخمی موت کے جال میں گم ہوگئے۔ ان کو ’اسرائیلی امریکی امدادی مراکز‘ کہا جاتا ہے اور ’مستحقین امداد کے متلاشی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ساڑھے ۶لاکھ بچّے غذائی قلّت، بھوک اور خوراک کی کمی کے باعث موت کے خطرے سے دوچار تھے۔ ۴۰ ہزار شیرخوار (ایک سال سے کم عمر) دودھ کی نایابی کے سبب موت کا سامنا کر رہے ہیں۔ دودھ کے اڑھائی لاکھ پیکٹ اسرائیلی فوج نے غزہ کے معصوموں تک پہنچنے سے روکے رکھے۔ 

بنیادی ڈھانچہ اور عوامی سہولیات کی تباہی 

۷سو سے زائد پانی کے مرکزی کنوئیں اسرائیل نے تباہ کردیے اور انھیں ناکارہ بنادیا۔ میٹھے پانی کے ۱۳۴ منصوبوں کو اسرائیلی فوج نے نشانہ بنایا اور اس کے دوران ساڑھے  ۹ہزار کے قریب شہادتیں ہوئیںجن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ ۵ہزار سے زائد کلومیٹر بجلی کے نیٹ ورکس کو تباہ کر دیا۔ سوا دو لاکھ سے زائد بجلی میٹر اسرائیلی تباہی کا نشانہ بن کر ختم ہوگئے۔ ۲ہزار ارب کلوواٹ فی گھنٹہ بجلی کی مقدار سے غزہ کی پٹی کو محروم رکھا گیا۔ ۷لاکھ میٹر پانی کے پائپ، نیٹ ورک کو اسرائیل نے تباہ کردیا۔ ۳۰ لاکھ میٹر سڑکوں کے نیٹ ورکس کو برباد کر دیا گیا۔ اڑھائی سو کے قریب سرکاری عمارتوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ۳سو کے قریب پارکس، کھیل کے گرائونڈ اور اسپورٹس ہال تباہ کر دیے گئے۔ ۲سو سے زائد قومی و ثقافتی ورثے کے مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ 

زراعت، لائیو اسٹاک اور ماہی گیری کے شعبوں کی بربادی 

۹۴ فی صد زرعی اراضی کو اسرائیلی فوج نے تباہ کردیا ہے جو اصل میں ایک لاکھ ۷۸ہزار دونم ہے۔ ایک ہزار سے زائد زرعی کنوئوں کو ناکارہ بنا دیا گیا۔ ۷سو کے قریب گائے، بھیڑبکری اور مرغی فارموں کو جنونی اسرائیلیوں نے برباد کردیا۔ سبزیوں کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والی اراضی ۹۳ دونم سے کم ہوکر صرف۴ ہزار دونم رہ گئی ہے۔ غزہ کی پٹی کے زیرانتظام ۸۴ فی صد زرعی سہولیات تباہ کردی گئی ہیں۔ سبزیوں کی سالانہ پیداوار ساڑھے ۴۵ لاکھ ٹن سے کم ہوکر صرف ۲۸ہزار ٹن رہ گئی ہے۔ ماہی گیری کے علاقوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے یہ شعبہ سوفی صد متاثر ہوا ہے۔ 

پانچ اہم شعبہ ہائـے حیات کے نقصانات 

اجتماعی نسل کشی کے باعث ۷۰؍ارب ڈالر ابتدائی نقصان ہے۔ ۵؍ ارب ڈالر صحت کے شعبے،۴؍ارب ڈالر تعلیمی شعبے، ۳؍ارب ڈالر کے قریب ہائوسنگ سیکٹر، ایک ارب ڈالر مذہبی اُمور کے شعبے، ساڑھے ۴؍ارب ڈالر کے قریب زرعی شعبے، ۴؍ ارب ڈالر گھریلو سامان کے ضمن میں، ۳؍ارب ڈالر مواصلات اور انٹرنیٹ کے شعبے میں، ۲؍ارب ڈالر کے قریب نقل و حمل اور مواصلات کے شعبے میں، ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب بجلی کے شعبے اور ۶؍ارب ڈالر شہری سہولیات اور بلدیاتی کاموں کے شعبے میں نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ 

جنگ بندی کے بعد کی صورتِ حال 

۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۵ء کو دو برس کی بے رحم اسرائیلی حملوں سے غزہ کی خوفناک تباہی کے بعد امریکا اور چند اسلامی ممالک کی مشاورت کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوا جس کے پہلے مرحلے میں دونوں اطراف کے جنگی قیدیوں کی واپسی طے پائی۔ غزہ میں امداد و خوراک کی بندش کو کھولنے پر اتفاق ہوا۔ غزہ کی بحالی کے لیے کاوشوں کی بات کی گئی۔ مگر اسرائیل اور وزیراعظم اسرائیل نے ہٹ دھرم طبیعت اور سرشت کی اپنی تاریخی روایات پر قائم رہتے ہوئے معاہدے کی ان شرائط اور نکات کی ذرا پروانہ کی۔ غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جنگی کارروائیاں اور حملے مزید قبضے کی کوششیں اور غزہ پر مکمل قبضے کی دھمکیاں، زیتون کے درختوں کی تباہی جیسے پرانے ہتھکنڈوں سے ہاتھ نہ روکا۔ غزہ سے رابطے کی سات کراسنگ میں سے صرف دو کرم ابوسالم اور کیہوویم سے امدادی ٹرکوں کے گزرنے کی اجازت دی۔ باقی پانچ گزرگاہوں کو حسب سابق بند رکھا ہوا ہے۔ رفح کراسنگ جو غزہ کے لیے زیادہ قابلِ رسائی گزرگاہ ہے، اس کو نہ کھولنے کا بار بار اعلان کیا۔ غزہ کی مقامی انتظامیہ کی اطلاعات کے مطابق ۱۸ہزار امدادی ٹرکوں میں صرف۱۸ سو ٹرکوں کو داخلے کی اجازت ملی جن میں سے صرف ساڑھے ۶ سو ٹرک، ۱۲ اور ۱۳؍اکتوبر کو داخل ہوسکے۔ یہ بھی اقوام متحدہ کے مطالبے پر ممکن ہوسکا۔ اس دوران فلسطینیوں کو مارنے، ان پر میزائل پھینکنے کا عمل جاری رہا۔ ادھر اسرائیلی اسمبلی ’کینسٹ‘ میں غزہ پر مکمل قبضے کی قرارداد بھی منظور کرالی گئی۔ امریکی صدر اور اس کے نمائندے کہتے ہیں کہ ایسا نہ ہوگا مگراس کی کوئی ضمانت نہیں۔ اس دوران اسرائیل آبادکاری میں توسیع اور قبضہ گیری میں مسلسل پیش قدمی کرتا رہا۔ اب تو باقاعدہ پیلی لکیر کھینچی جارہی ہے جہاں تک اسرائیل کے قبضے کی حدود ہوں گی۔ اس میں رفح کا بہت سا رقبہ بغیر حدود کے اپنے اندر شامل کر رہا ہے۔ اسرائیل نے اس لائن پر ساڑھے ۳میٹر اُونچی کنکریٹ کی دیواربنانا شروع کر دی ہے۔ ۱۰؍اکتوبر کے بعد سے اب تک ایک سو سے زائد فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید کیے گئے اور اڑھائی سو کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ 

اسرائیل کا مذہبی عقیدہ اور جنگی جنون 

غزہ کی اس خوفناک تباہی کے پیچھے کیا ذہنیت اور عقیدہ کام کرتا ہے؟ اس کومعروف مصری عالم اور محقق و مصنف پروفیسر محمد عمارہ (۱۹۳۱ء-۲۰۲۰ء)نے یوں بیان کیا ہے:اسرائیل کی ۱۹۴۸ء سے لے کر آج تک تمام جنگوں میں ایک مظاہرہ خاص طور پر ہوتا رہا کہ وہ اپنے جنگی اہداف کو نشانہ بنانے کے دوران صرف انھی اہداف تک محدود نہیں رہتا بلکہ قتل و غارت اور تباہی و بربادی سے بلاامتیاز کام لیتا ہے۔ کسی بچے پر ترس کھاتا ہے، نہ کسی عورت کا لحاظ رکھتا ہے۔ کسی مجاہد اور شہری میں کوئی فرق نہیں کرتا، کسی جنگجو اور غیر جنگجو کو نہیں چھوڑتا۔ ۱۹۴۸ء کی جنگ میں اس کی فوج نے سیکڑوں فلسطینی دیہات تباہ کیے، نہ مسجدوں کو چھوڑا نہ گھروں اور قبرستانوں کو۔ بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور پُرامن شہریوں تک کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ۱۹۷۸ء میں تو اس نے قیدیوں کے بھی قتل سے دریغ نہ کیا۔ ساحل پر موجود شہروں کو تباہ کر دیا، شہری آبادی کو نشانہ بنا کر مٹا دیا۔ اسرائیل نے اس تباہ کن ذہنیت کا غزہ اور لبنان کے خلاف ہر لڑائی میں مظاہرہ کیا۔ اس ہمہ گیر تباہی میں اسکول، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیرانتظام اسکولوں کو بھی نہ چھوڑا۔ مساجد اور ہسپتالوں کو تباہ کر دیا، حتیٰ کہ ایمبولینسیں بھی اس کے حملوں سے محفوظ نہ رہیں۔صہیونیت کا یہ مسلسل اور عجیب و غریب مظاہرہ جس میں جنگی قواعد و ضوابط کا ذرا لحاظ نہیں رکھا جاتا، اس کا سبب کیا ہے؟ تجزیہ نگار، صحافی اور سیاست دان اس کو ’اجتماعی سزا‘ کا نام دیتے ہیں جو بین الاقوامی قانون جنیوا معاہدے کی روح سے جرم ہے لیکن کوئی تجزیہ کار، صحافی یا سیاست دان اس طرف متوجہ نہیں ہوتا کہ اس کا سبب ایک دینی حکم کی بجا آوری ہے جس کا متن تلمود میں موجود ہے۔ یہودی علما ’حاخامات‘ نے عہد نامۂ قدیم میں اس کو درج کیا ہے اور یہودی علما اس حکم کی تعلیم صہیونی فوج کی یونٹوں میں دیتے ہیں۔ فوج کا یہ جنگی عقیدہ عربوں کی نسل کشی اور ان کا خاتمہ ہے۔ یہودیوں کے نزدیک موجودہ عرب قدیم عمالقہ کا نمونہ ہے جن کے بارے میں کتاب مقدس کے سفر الخروج کے باب ۱۴:۱۷ میں کہا گیا ہے: 

رب نے موسیٰ سے کہا : یہ بات کتاب میں بطور یادداشت لکھ اور یشوع کو بھی سنادے ، کیونکہ میں عمالیق کا نام آسمان کے نیچے سے مٹا ڈالوں گا۔ 

 فوج جو انسانوں اور مکانوں کو نیست و نابود کر دیتی ہے، بستیوں اور شہروں کو ملبے کے ڈھیر بنا دیتی ہے دراصل وہ یہ تعلیم کتاب مقدس کے باب ۱۳: ۱۲ ، ۱۵ - ۱۷ سے پاتی ہے جو اس کے رب کی زبان سے اس کی پسندیدہ قوم کے لیے آیا ہے: 

اگر تو ان شہروں میں سے کسی کے بارے میں، جو تیرا رب تجھے عطا کرے کہ تو ان میں رہے، کوئی بات سنے تو اس شہر کے باشندوں کو تلوار کی دھار سے کاٹ کر رکھ دے اور ہرجانور چوپایا جو اس شہر میں ہے اسے بھی تلوار سے ختم کر دے۔ اس شہر کے تمام ساز و سامان کو ایک میدان میں اکٹھا کر اور آگ لگا کر اس شہر اور اس کے سارے سامان کو جلا کر رکھ دے تاکہ یہ شہر ایک ٹیلا بن کر رہ جائے ، دوبارہ تعمیر نہ ہو سکے۔ 

یہ تو ان شہروں کی سزا ہے جو پُرامن ہیں، لڑائی میں حصہ نہیں لیتے، نہ اسرائیل کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ اس متن میں ’کوئی بات‘ کا مطلب ہے کہ وہ اپنی سرزمین اسرائیل کے لیے چھوڑنے اور خالی کرنے سے انکار کریں۔اسرائیل جب اپنی تمام جنگوں میں تشدد و ہلاکت کی انتہا تک جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ کوئی شفقت کرتا ہے، نہ عورتوں پر ترس کھاتا ہے اور نہ کسی معاہدے اور پیمان کا پاس رکھتا ہے، تو وہ اسی جنگی عقیدے کا نفاذ عمل میں لاتا ہے جو اس کی فوج اپنی مقدس مذہبی کتب سے اپنے علما سے سیکھتی ہے۔ یہ عقیدہ انھیں دیگر تمام قوموں کو ختم کر ڈالنے بلکہ کسی ترس اور عہد کا لحاظ رکھے بغیر تباہ کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس عقیدے کے مطابق وہی مقدس قوم ہیں اور ہر قوم پر فوقیت رکھتے ہیں۔ سفر التثنیہ میں ہی ہے: 

جب خداوند تیرا خدا ان سات قوموں کو، جو تجھ سے بڑی اور طاقت ور ہیں، تیرے سامنے سے ہٹا دے اور تو انھیں شکست دے تو انھیں مکمل طور پر تباہ کر دینا۔ ان کے ساتھ کوئی عہد نہ کرنا اور نہ ہی ان پر رحم کرنا۔ ان کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرنا۔ کیونکہ تو ایک مقدس قوم ہے۔ خداوند تیرے خدا نے تجھے زمین کی تمام قوموں میں سے چُن لیا ہے تاکہ تو اس کی خاص قوم ہو۔ تو تمام قوموں سے زیادہ بابرکت ہو گا اور تو ان سب قوموں کو تباہ کر دے گا، اور تو ان پر رحم نہ کرنا۔ 

اسی طرح صہیونی جب مقبوضہ زمین سے باقی عربوں کے نکل جانے کی بات کرتے ہیں تاکہ یہودی اپنی خالص یہودی ریاست وہاں قائم کر سکیں، تو یہ بھی ان کا دینی عقیدہ ہے۔ سفر العدد  ۳۳:۵۰-۵۱، ۵۵- ۵۶ میں یہ آتا ہے: 

۴- اور خداوند نے موآب کے میدانوں میں یردن کے کنارے یریحو کے مقابل موسٰی سے کہا: بنی اسرائیل سے کہو: تم یردن پار کر کے ملک کنعان میں جاؤ گے، اور تم اس ملک کے تمام باشندوں کو اپنے سامنے سے نکال دو گے، اور اس ملک کو اپنا بنا لو گے اور اس میں بس جاؤ گے۔ لیکن اگر تم اس ملک کے باشندوں کو اپنے سامنے سے نہ نکالو گے، تو جو لوگ تم میں سے باقی رہ جائیں گے وہ تمھاری آنکھوں میں کانٹے اور تمھاری پسلیوں میں خار بن جائیں گے، اور وہ اس ملک میں جہاں تم رہتے ہو تمھیں تنگ کریں گے۔ 

ان متون سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں اور عربوں پر بے دردی کے ساتھ مسلط کی گئی اسرائیل کی جنگ ان کا محض سیاسی تصادم نہیں بلکہ ایک دینی فریضے اور حکم کی تکمیل ہے جس کا ہمیں احساس ہی نہیں ہے۔ 

معصوم شہریوں کو قتل کرنا فرض ہـے 

اسرائیلی فوج کے یونٹوں میں جو یہودی علما تعینات ہوتے ہیں، ان کو عسکری رینک دیے جاتے ہیں جن کی ڈیوٹی فوجیوں کو مذکورہ عقیدے کی تعلیم دینا ہے۔ فلسطینیوں پر ظلم و تشدد اور تباہی و بربادی کے ذریعے وہ اس عقیدے پر عمل کرتے ہیں۔ یہ یہودی علما کے فتاویٰ جاری کرتے ہیں جن کو بڑی تعداد میں طبع کر کے فوج میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ علماء جنگی عقیدے سے متعلق سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ تلمود میں اس سوچ کو ’اسلحہ کی صفائی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔اسرائیلی فوج نے وسطی علاقے میں جو کہ اس کی مقبوضہ زمین کے مغربی کنارے پر واقع ہے، ایک حاخام برگیڈیئر فیضان زیمبل کا فتویٰ شائع کیا۔ اس میں اس حاخام نے معصوم فلسطینی شہریوں کے قتل کو فرض قرار دیا کیونکہ یہودی قانون ’ہلاکات‘ [ہلاخات]کی روشنی میں یہ ایک دینی ذمہ داری ہے۔اسرائیلی کاتب ’اسرائیل شاحاک‘ نے اس فتوے کو اپنی کتاب ’یہودی مذہب اور غیر یہودیوں کے بارے میں اس کا موقف‘ میں شامل کیا ہے۔ شاحاک اس کتاب میں لکھتا ہے: جنگ کے دوران افواج کا شہریوں سے آمنا سامنا ہو جانے کی صورت میں یا سخت جارحانہ حملے یا مدافعانہ حملے کی صورت میں ہماری افواج کے پاس شہریوں کو تکلیف پہنچانے کی کوئی دلیل نہیں ہے، تاہم انھیں قتل کرنے کا امکان موجود ہے کیونکہ انھیں قتل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ یہودی قانون ’ہلاکات‘ تو معصوم شہریوں کو قتل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ 

حاخام شمعون وائزر، تو اسرائیلی فوجی موشی جو ۱۹۶۰ء میں مقبوضہ فلسطین میں خدمات انجام دے رہا تھا کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے جس میں موشی پوچھتا ہے کہ کیا ہم عربوں کے ساتھ عمالقہ جیسا معاملہ کریں یعنی ان کو قتل کر دیں تاکہ ان کا ذکر زمین سے ختم ہوجائے جیسا کہ سفرالتثنیہ ۲۵:۱۹ میں آیا ہے: ’’تاکہ تم آسمان کے نیچے عمالقہ کا ذکر ہی ختم کر دو‘‘۔ ہم اس پر عمل کریں یا عادلانہ قوانین جنگ کا اطلاق کریں جن کے مطابق صرف محارب (جنگجو) کو قتل کیا جاتا ہے اور کیا ہتھیار ڈال دینے والے عربی کو پانی پیش کرنا میرے لیے جائز ہے؟ 

اس خط کا جواب دیتے ہوئے حاخام شمعون وائزر، یہودی شریعت ’ہلاکات‘ کا حکم واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تمھارے سامنے بعض دانشوروں کے اقوال رکھتا ہوں اور ان کی وضاحت کرتا ہوں: یہودیوں کے علاوہ دیگر مذاہب میں جنگ کے مخصوص قوانین ہیں جس طرح فٹ بال اور باسکٹ بال کے قوانین ہوتے ہیں مگر ہمارے دانش وروں کے مطابق جنگ ہمارے نزدیک کھیل نہیں بلکہ زندگی کی ضرورت ہے اور صرف ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس کو نافذ کرنے کی صورت حال کے بارے میں سوچنا ضروری ہے۔ غیر یہودی کو قتل کر دو، اس کا سرقلم کردو۔ یہی ’ہلاکات‘ کے مطابق ’قانون اسلحہ صفائی‘ ہے۔اسرائیلی فوجی موشی نے اس خط کا جواب اپنے ساتھی فوجیوں کو بھی پڑھ کر سنایا تاکہ وہ اپنی شریعت کا وہ قانون جان لیں جس کے مطابق بہترین غیر محارب [غیرجنگجو]،بے گناہ اور معصوم فلسطینی کا قتل لازمی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ وہ غیریہودی ہے، وہ سانپ ہے جس کا سر کچلنا ضروری ہے۔موشی نے حاخام شمون وائزر کو جوابی خط لکھا کہ مجھے آپ کا خط مل گیا ہے۔ میں نے اس کو یوں سمجھا ہے کہ میرے لیے زمانۂ جنگ میں ان عرب مرد و عورت کو قتل کرنا نہ صرف جائز ہے جو اچانک میری زد میں آجائیں بلکہ میرا یہ فریضہ ہے کہ اس قانون کو نافذ کر کے رہوں۔ 

نسل پرست قبضہ گیر نوآبادیات 

اسرائیل نو آبادیاتی اور نسلی امتیاز کے استعمار کی آخری نشانی ہے۔ سفید فاموں نے اپنے زوال سے قبل یہ نظام جنوبی افریقہ میں اس نسل پرستی کی بنیاد پر نافذ کیا جس کے مطابق سفید فام تمام نوع انسانی سے برتر مخلوق ہیں۔ ادھر صہیونیت نے سرزمین فلسطین میں اسی نسلی برتری کا امتیاز قائم کرنے کا کھیل کھیلا ہے۔ صہیونیت اس کو اپنا دین بنائے ہوئے ہے کیونکہ یہ عہد نامہ قدیم اور اس کی شرح تلمود کی تعلیمات ہیں۔اسرائیل شاحاک (۱۹۳۳ء-۲۰۰۱ء) اپنی مذکورہ کتاب میں اس نسلی برتری کے عقیدے سے متعلق متعدد مثالیں پیش کرتا ہے۔ ان کے ہاں ’نفس‘ لفظ کا مطلب یہودی ہے وہ اس میں غیر یہودیوں اور کتوں کو بالکل شامل نہیں کرتے۔ آرتھوڈوکس یہودی اپنی نوخیز عمری ہی سے مقدس تعلیمات میں یہ عقیدہ بھی سیکھ لیتا ہے کہ غیر یہودی کتوں کے برابر ہیں اور ان کو اچھا سمجھنا گناہ ہے۔ 

’کتاب تربیت‘ جس پر حکومت اسرائیل نے ایک بڑی رقم خرچ کر کے طبع کرایا ہے اور اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور یہ اسرائیل کی قومی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتاب کے آغاز ہی میں لکھا ہے: غیر یہودی غلام کو تاحیات غلام رکھنا واجب ہے اور یہودی غلام کو آزاد کردینا واجب ہے۔ اس لیے کہ یہودی کائنات کے افضل ترین انسان ہیں۔ وہ اس لیے پیدا کیے گئے تاکہ خالق کو پہچانیں اور اس کی عبادت بجا لائیں۔ بندوں کو غلام بنانا ان کا حق ہے اور جب ان کے پاس دیگر قوموں کا فرد غلام نہ ہو تو پھر وہ اپنی ہی قوم کے فرد کو غلام بنانے پر مجبور ہوں گے، جو اپنے ربّ کی خدمت نہ کرپائیں گے۔ یہی اس آیت کا مقصد ہے: 

تم اپنے بھائیوں کو جو سب رب کی عبادت کے لیے تیار ہو رہے ہیں دُور نہیں کرو گے۔(سفراللاویین ۲۵-۲۶) 

ان کی کتاب مقدس (عہد نامہ قدیم) کی وصیت یہ ہے کہ تم کسی ایسی شے کو زندہ نہ چھوڑو جو سانس لیتی ہو(سفر التثنیہ۶۰، ۶۱)،تو یہ آیت اسرائیلی افواج کے لیے ایسا تربیتی لیکچر بن جاتی ہے جو مقبوضہ فلسطین کے علاقے میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، جس لیکچر میں کہا جاتا ہے کہ فلسطینی عمالقہ کی مانند ہیں اور عمالقہ کا ذکر آسمان کے نیچے سے مٹا ڈالو(سفرالتثنیہ ۲۵:۹)۔ اور جو فلسطینی عمالقہ جیسے انجام سے بچ جائے، اس کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جائے۔ 

موسیٰ بن میمون فلسفی (۱۱۳۵ء-۱۲۰۴ء)کو یہودی سیّدنا موسٰی جیسا بلند مقام سمجھتے ہیں۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ موسٰی کے بعد موسٰی جیسا کوئی نہیں آیا سوائے موسی (بن میمون) کے۔ یہ یہودی فلسفی عہد نامہ قدیم کے اسفار کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے کہتا ہے: غیر یہودی بلند دینی قیمت تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ رب کی حقیقی عبادت کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی طبیعت ہی بے زبان حیوانوں کی طرح ہے۔ وہ کائنات میں ادنیٰ ترین انسان ہیں، بندروں سے کچھ اوپر کا درجہ رکھتے ہیں۔ 

 یہودی عورت کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے ماہوار غسل طہارت کے بعد مذہبی حمام سے واپسی پر چار شیطانی اشیاء کا سامنا کرنے سے پرہیز کرے: کسی غیر یہودی سے، کسی خنزیر سے، کسی کتے سے اور کسی گدھے سے۔ اگر ان میں سے کسی سے بھی اس کا سامنا ہو جائے تو وہ دوبارہ غسل کرے۔ 

اسرائیل نے درجنوں قوانین ایسے بنا رکھے اور جاری کر رکھے ہیں جو فلسطین کی سرزمین پر یہودی نوآبادیاتی نظام میں نسلی برتری کے امتیاز کے مظہر ہیں۔ اس امتیازی یہودی نظام اور نسلی برتری قائم کرنے والے یہودی نظام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والوں نے کیا کبھی ان حقائق پر بھی توجہ کی؟ کیا مسیحی تہذیب کے فرزندوں نے جو کہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف صہیونیت کے اتحادی ہیں موسیٰ بن میمون کے بیان کو پڑھا ہے؟ اس نے تورات شفاہیہ (تورات کی شفوی تشریح) میں سیّدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے اور ہر یہودی کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ جب یسوع کا نام سنے تو کہے اللہ تعالیٰ شریر نام کو ہلاک کرے تاکہ یہ شریر نام یسوع ناصری اور اس کے شاگردوں کو مبتلائے مصیبت کرے۔ یہ یہودی دیگر انسانوں کو نہ انسان سمجھتے ہیں اورنہ اُنھیں زمین پر زندہ رہنے کا حق دینے کے لیے تیار ہیں۔ 

یہ اعتقاد رکھنا ایمان کے نہایت سادہ وسطحی معانی میں سے ہے کہ جب مومن احکامِ الٰہی کی پابندی کرے اور گناہوں سے اجتناب کرے تو اس دُنیا میں اس کی زندگی کا سفر پھولوں کی سیج پر گزرے گا۔ اس کی دُعائیں رَد نہیں ہوں گی، اسے بیماریوں میں مبتلا نہیں کیا جائے گا، اس کا رزق تنگ نہیں کیا جائے گا، اور وہ ظالموں کے ظلم کا شکار نہیں ہوگا۔ 

حقیقت یہ ہے کہ دُنیا دارالامتحان ہے، دارالجزا نہیں۔ یہ بیج بونے کی زمین ہے، فصل کاٹنے کا کھیت نہیں، جہد و سعی کا راستہ ہے، منزلِ مقصود نہیں۔ 

حقیقت یہ ہے کہ مومن کی خوش بختی اور سعادت اُس کے اس تسلیم و رضا کے رویے سے پھوٹتی ہے کہ اللہ کا ہر فیصلہ خیر ہوتا ہے، خواہ اس کی حکمتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہی ہوں۔ اللہ کی تقدیر جاری اور نافذ ہوکر رہتی ہے۔ کوئی ناراضی و رضامندی اُسے روک نہیں سکتی، بلکہ ناراض ہونے اور شکایت کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور رضامندی کا اظہار کرنے والا اجر اور سعادت کا حق دار قرار پاتا ہے۔ 

کائنات میں جاری قوانینِ قدرت کا فہم رکھنے والا صاحب ِ عقل اس بات سے ناواقف نہیں ہوتا کہ اللہ کی فرماں برداری کا معاملات کی آسانی میں ایک اثر ضرور ہوتا ہے، اور معاملات کو اُلجھانے اور بگاڑنے میں گناہوں کا اثر۔مگر دُنیا کی ہر آزمائش و امتحان کو اس اصول سے مربوط کردینا اور اسے ایک مستقل قانون مان لینا ایمان کا سطحی مفہوم ہے بلکہ سیکڑوں دلائل و شواہد اس بات کو یقینی ٹھیراتے ہیں کہ اہل ایمان کو پہنچنے والی بیشتر تکلیفوں کا سبب اُن کا حق پر ثابت قدم رہنا ہوتا ہے نہ کہ باطل پر ہونا۔ یعنی یہ تکلیفیں اُن پر اس لیے آئیں کہ وہ اللہ کی فرماں برداری کے راستے پر تھے، معصیت و گمراہی کے راستے پر نہیں۔ 

فرعون نے اپنی بیٹی کی خادمہ کے بچوں کو یکے بعد دیگرے، کھولتے ہوئے تیل میں محض اس لیے پھینکا کہ وہ اطاعتِ الٰہی کی راہ پر تھیں، اس لیے نہیں کہ وہ معصیت کے راستے پر تھیں۔ اور پھر خود اُس خاتون کو بھی جب تیل میں پھینکا گیا تو صرف اس وجہ سے کہ اُس نے اپنی اولاد کے عوض اپنے ایمان و عقیدے کا سودا کرنے سے انکار کردیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس ظالم فرعون کو اُس خاتون کے گناہوں کے سبب اُس پر نہیں مسلط کیا تھا، بلکہ یہ تو حق و باطل کی کش مکش تھی۔ 

اسی طرح جب ظالم بادشاہ نے خندقیں کھدوا کر اُن میں اہل ایمان کو پھینک کر آخری فرد تک کو ہلاک کر دیا تو یہ اُن اہل ایمان کے گناہوں کے باعث نہیں ہوا تھا بلکہ اُن کے ایمان کی وجہ سے ہوا تھا۔ایک بچّے کے ساتھ ملاقات سے چند ہی گھڑیاں پہلے یہ لوگ محفوظ و مطمئن تھے کیونکہ اس وقت شرک پر تھے لیکن خندقوں کی آگ نے انھیں اس لیے بھسم کیا کہ وہ ایمان کے راستے پر آچکے تھے۔ 

یہ ظالم ان لوگوں پر اُن کے گناہوں کے سبب مسلط نہیں ہوا تھا بلکہ یہ حق و باطل کا ٹکرائو تھا۔ جب جادوگروں کی جماعت فرعون کی عزّت کی خاطر حضرت موسٰی کو زیر کرنے آئی تھی تو وہ فرعون کے ہاں بڑی معزز و مکرم جماعت تھی۔ اُس نے انھیں انعامات و اکرامات سے نوازنے اور اپنا مقرب بنانے کے وعدے بھی کیے تھے اور یہ سب کچھ اُس وقت تک تھا جب تک وہ شرک پر تھے۔ مگر اس نے ان کے ہاتھ پائوں الٹی سمتوں سے کاٹ دیئے، اور انھیں کھجور کے بلند تنوں پر پھانسی چڑھا دیا، اس لیے کہ اُس وقت وہ شرک کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ایمان پر آچکے تھے۔یہ ظالم، اُن جادوگروں کے گناہوں کی بنا پر اُن کے اُوپر مسلط نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ حق اور باطل کا تصادم تھا۔ 

جب سیّدنا زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیرا گیا تو اُن کے گناہوں کی بنا پر نہیں بلکہ اُن کی اطاعت ِ خداوندی کے باعث، لہٰذا بہت سادہ بات ہے کہ یہ حق و باطل کی کش مکش تھی۔ 

اسی طرح جب سیّدنا یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کیا گیا اور ایک فاحشہ عورت کو بطورِ مہر پیش کیا گیا تو سیّدنا یحییٰ ؑ پر یہ ظلم اُن کی گنہگاری کی وجہ سے نہیں، بلکہ اللہ کی فرماں برداری کا اعلان کرنے اور ظالم کی بے حیائیوں پر اُسے ٹوکنے کے باعث ڈھایا گیا!___ ظاہر ہے کہ یہ حق و باطل کے ٹکرائو کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ 

جب قریش مکہ نے سیّدہ سمیہؓ کو زمین میں گاڑا تو یہ اُن کے غیرمتزلزل ایمان کے باعث ہوا۔ جب ابوجہل نے انھیں اپنا نیزہ مارا، جب کہ وہ زمین میں گڑی ہوئی تھیں، تو اس ظلم کا سبب سیّدہ سمیہؓ کی گنہگاری نہیں بلکہ ایمان سے وفاداری تھی۔ جب اس ظالم نے اُن کے عقیدے کا سودا کرنا چاہا تو اُنھوں نے اس کے منہ پر تھوک دیا جو اس بات کا اعلان تھا کہ میرا ایمان قابلِ فروخت نہیں___کوئی شک نہیں کہ یہ حق و باطل کا ٹکرائو تھا۔ 

اسی طرح جب سیّدنا یاسرؓ کو سیّدنا عمارؓ کی نظروں کے سامنے سولی پر چڑھایا گیا تو یہ اُن کے گناہوں کی سزا نہیں تھی،بلکہ یہ کائنات میں جاری قوانین الٰہی میں سے ایک قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اس کے ایمان کی بناپر کافر کے کفر کے ذریعے مبتلائے آزمائش کرتا ہے___ یقینی بات ہے کہ یہ کش مکشِ حق و باطل ہے۔ 

جب صحابہ کرامؓ کو مکہ مکرمہ سے اجنبی سرزمین حبشہ کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا تو قریش نے ان کی نافرمانیوں کی بنا پر ایسا نہیں کیا تھا، بلکہ اس ہجرت کا سبب صحابہؓ کا پختہ عقیدئہ ایمان تھا، جس کو متزلزل کرنے میں قریش ناکام رہے تھے۔صحابہ کرامؓ ایمان کے اُس عظیم مقام پر تھے جس نے ان کے وطن و قبیلے اور اہل و عیال پر ایمان کو اُن کے لیے مقدم بنا دیا تھا۔ 

امام بخاری کی روایت کردہ حدیث خباب بن ارتؓ کے مطابق: ہم نے رسولؐ اللہ سے شکوہ کیا اور اُس وقت آپؐ کعبہ کے سایے میں چادر کا تکیہ بنائے آرام فرما تھے۔ ہم نے عرض کیا: کیا آپؐ ہمارے لیے مدد و نصرت نہیں مانگیں گے؟ کیا ہمارے لیے دُعا نہیں فرمائیں گے؟ 

آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے جو تھے، اُن میں سے تو کسی کو پکڑا جاتا، اس کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور اس میں اُسے گاڑ دیا جاتا۔ پھر آرا لایاجا تا، اس کے سر پر رکھا جاتا اور اس کو دوحصوں میں چیر دیا جاتا۔ لوہے کی کنگھیوں سے اُس کا گوشت نوچ کر ہڈیوں سے الگ کر دیا جاتا۔ مگر یہ ظلم بھی اُس کو اُس کے دین سے باز نہ رکھ سکا۔ 

بخدا، اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل کر کے رہے گا یہاں تک کہ سوار صنعاء سے چلے گا اور حضرموت تک آجائے گا کہ اُس کو اللہ کے خوف کے علاوہ کسی کا خوف نہیں ہوگا۔ ہاں بھیڑبکریوں پر بھیڑیے کا خوف ہوسکتا ہے مگر تم جلدبازی سے کام لے رہے ہو! 

رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ مفہوم کی گہرائی کا اندازہ کیجیے کہ یہ ظلم بھی انھیں اُن کے دین سے باز نہ رکھ سکا۔یہ صاحبانِ ایمان نہایت بُری طرح قتل کیے گئے اور صرف اس لیے کہ دین پر پختگی سے قائم تھے۔ اگر اُن میں سے کوئی دین کو چھوڑ دیتا تو قتل کا آلہ اُسی وقت اُس کے سرسے ہٹا لیا جاتا۔یہ ظالمانہ اور بہیمانہ قتل کوئی گناہوں کا خمیازہ نہیں تھا، بلکہ یہ حق و باطل کی کش مکش کا نتیجہ تھا۔ 

جب سیّدنا حمزہ ؓ کو نیزہ مارا گیا تو محض اس لیے کہ وہ ایمان لاچکے تھے۔ جب اُن کا سینہ چاک کیا گیا اور جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے تو اس لیے کہ صرف اُن کے قتل سے دشمنوں کے سینے ٹھنڈے نہ ہوئے تھے۔ سیّدنا حمزہؓ انھیں غزوئہ بدر میں غیرمعمولی تباہی کا مزہ چکھا چکے تھے۔ 

ذرا سوچیے، اس کا سبب کیا تھا؟ کفروشرک نہیں بلکہ توحید کا عقیدہ و ایمان! 

سیّدنا مصعب بن عمیرؓ، قریش کے جوانِ رعنا کے قتل کا منظر بھی دیکھیے کہ غزوئہ اُحد میں ان کے دونوں بازو کاٹ دیئے گئے، سبب کیا تھا؟ گناہ نہیں ایمان! 

جب وہ شرک پر تھے تو قریش کے سب سے وجیہ اور نمایاں نوجوان تھے مگر جب ایمان قبول کرچکے تو قریش ہی نہیں، بلکہ حقیقی ماں بھی خلاف ہوگئی۔ یہ اصل میں حق و باطل کا معرکہ ہے۔ 

قرآن کریم کی جمع و تدوین کا سبب جنگِ یمامہ کے روز شہید کیے جانے والے حفاظ صحابہؓ کا قتل بنا۔ مسلمانوں کو خدشہ لاحق ہوا کہ قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ رکھنے والے صحابہؓ کی شہادتوں سے کہیں قرآن مجید ہی ناپید نہ ہوجائے۔کیونکہ یہی صحابہؓ قرآن کے حافظ تھے، اور یہی سرحدوں کے مجاہد اور محافظ! 

ان عظیم انسانوں کو محض اس لیے قتل کیا گیا کہ یہ اسلام کے علَم بردار تھے۔ میدانِ جہاد میں موجود تھے، ان کو گناہوں کے سبب قتل نہیں کیا گیا، بلکہ یہ ایمان تھا جس پر استقامت ان کے قتل کا سبب بنی۔ 

چلیے فرض کر لیتے ہیں کہ گنہگار مسلمان پر ہی کافر اور فاجر مسلط ہوتا ہے ، لیکن یہ کون کہتا ہے کہ بے گناہ اور نیک و پرہیزگار انسان بیٹھے رہیں اور یہ موقع اور حالات فراہم کرتے رہیں کہ اُسے قتل کر دیا جائے؟

وہ ریاست جو عالمی جنگ کی راکھ پر قائم ہوئی تھی، اور جسے لامحدود عرب حمایت حاصل تھی، وہ اس تاریک لمحے تک بھی پہنچ جائے گی؟ میں واضح الفاظ اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہتا ہوں، کیا اسرائیل تھوڑی مدت کے اندر اندر گر جائے گا۔ 

آج ہم جس چیز کا سامنا کر رہے ہیں وہ محض ’سیکورٹی کا بحران‘ یا ’سیاسی ناکامی‘ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک زلزلہ ہے جو صہیونی منصوبے کی بنیادوں کو ہلا رہا ہے۔ 

تحریک حماس نے نہ صرف میدانِ جنگ میں فتح حاصل کی، بلکہ اس نے ’ناقابل تسخیر ریاست‘ کے افسانے کو بھی تباہ کر دیا، اور دنیا کے سامنے ہماری کمزوری کو بے نقاب کر دیا۔ 

ہم خون بہا رہے ہیں، مگر ہمارے لوگ بھاگ رہے ہیں۔یورپ، امریکا اور کینیڈا کی پروازیں مکمل طور پر بک ہو چکی ہیں، سفارت خانے ہجرت کی درخواستوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ 

خاندان خاموشی سے اپنی جائیدادیں بیچ رہے ہیں، والد اپنے بیٹوں کو واپس نہ آنے کے ارادے سے بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیج رہے ہیں۔ ہم کوئی ہجرت نہیں کر رہے… بلکہ ہم بھاگ رہے ہیں، ہاں، ہم ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں۔ 

ذلّت کے مناظر روزانہ کا معمول بن گئے ہیں۔ 

کیمروں کے سامنے روتے ہوئے فوجی۔ 

زبردستی کے آبادکار شمال اور جنوب سے بھاگ رہے ہیں۔ 

وزیر چیخ رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں  ___ مگر کوئی فائدہ نہیں۔ 

اور پوری قوم کو سکون آور گولیوں پر رکھا جا رہا ہے۔ 

یہ کیسی ریاست ہے جو اپنے دارالحکومت اور اپنی بستیوں پر روزانہ بمباری ہوتی دیکھتی ہے اور جواب نہیں دے سکتی؟ 

یہ کیسی فوج ہے جو ہزاروں ٹینکوں کے باوجود ’غزہ کو گھٹنے ٹیکنے‘ میں ناکام ہو جاتی ہے؟ 

یہ کیسی قیادت ہے جو فتح کی بات کرتی ہے، جب کہ اندرونی طور پر ہم تباہ ہو رہے ہیں؟ 

حماس کی تحریک نے سب کچھ بے نقاب کر دیا۔ 

ہماری نسل نے فخر کیا، اور اس نفرت کی چنگاریوں کو بھڑکایا جو ہمیں اندر سے کھا رہی ہے۔ اندرونی سطح پر انتفاضہ قریب ہے، عرب خود پر اعتماد بحال کر رہے ہیں۔ 

اور ہم؟ ہم بکھرے ہوئے، خوف زدہ، اور اندر سے کھوکھلے ہیں۔ 

آج ہم ایک ایسی ہستی ہیں جس کا کوئی منصوبہ نہیں، کوئی سمت نہیں، کوئی جواز نہیں۔ ایک ایسی ریاست ہیں جس کی کوئی اخلاقیات نہیں، جو عام شہریوں کو قتل کرتی اور بچوں کو گرفتار کرتی ہے، اور پھر دنیا سے اس کے لیے تالی بجانے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ 

مستقبل قریب میں اسرائیل اس طرح نہیں رہے گا جیسا کہ ہم آج اسے جانتے ہیں۔ 

شاید یہ ’محصور قلعوں کی ریاست‘ بن جائے، یا ایک ’مسلح یہودی علاقہ‘ جو امریکی تحفظ کے ٹکڑوں پر زندہ رہے۔ 

اور شاید مکمل طور پر اس کا سقوط ہو جائے، اور زمین اس کے مالکان کو واپس مل جائے۔ 

کیا میں مبالغہ کر رہا ہوں؟تاریخ سے پوچھو، ہر وہ استعماری منصوبہ جو قتل اور جھوٹ پر مبنی تھا، وہ مٹ گیا۔ ہر وہ ہستی جو ظلم پر قائم تھی، وہ تباہ ہو گئی۔ 

گھڑی ٹک ٹک کر رہی ہے۔ 

اور جب اسرائیل گرے گا … اور یہ ضرور گرے گا … تو دنیا اس لمحے کے بارے میں بات کرے گی جب ایک جوہری ریاست نے اپنی انسانیت کو ترک کر دیا تھا اور سب کچھ کھو دیا تھا۔ 

اور ہم، اگر ہم اب بھی بیدار نہیں ہوئے، تو ہمیں ایک ایسی احمق قوم کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو طاقت کے وہم میں جی رہی تھی،جب کہ دُنیا اسے گرتے ہوئے دیکھ رہی تھی! 

بے حُرمتی کا شکار فلسطینی لاشیں ’تشدد‘ کے عقوبت خانے سے منسلک! 

دنیا کہاں ہے؟ ہمارے تمام قیدی تشدد زدہ، ٹوٹی ہڈیوں اور کچلے اعضاء کے ساتھ واپس آئے، ایک فلسطینی مقتول کی والدہ۔ 

غزہ کی وزارتِ صحت کے حکام نے دی گارڈین کو بتایا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے واپس کی گئی کم از کم ۱۳۵ مسخ شدہ فلسطینی قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے ایک ایسے بدنام زمانہ حراستی مرکز میں رکھی گئی تھیں، جو پہلے ہی تشدد اور حراست میں ہلاکتوں کے الزامات کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ 

وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البُرش اور خان یونس کے ناصر ہسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ ہر لاش کے تھیلے کے اندر ایک دستاویز موجود تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام لاشیں ’سدی تیمن‘ (Sde Teiman) نامی فوجی اڈے سے آئی ہیں، جو نیگیو صحرا میں واقع ہے۔ 

دی گارڈین کی جانب سے گذشتہ سال شائع کی گئی تصاویر اور عینی شہادتوں کے مطابق، فلسطینی قیدیوں کو وہاں پنجرے نما خیموں میں رکھا گیا تھا، آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں، ہاتھ پاؤں زنجیروں سے جکڑے گئے، ہسپتال کے بستروں سے باندھ دیا گیا اور ڈائپر پہننے پر مجبور کیا گیا۔ 

ڈاکٹر البُرش کے مطابق:’’لاشوں کے تھیلوں میں موجود ٹیگ عبرانی زبان میں تھے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ باقیات سدی تیمن میں رکھی گئی تھیں۔ کچھ کے بارے میں تو ڈی این اے ٹیسٹ کے ریکارڈ بھی وہاں کے تھے‘‘۔ 

گذشتہ سال اسرائیلی فوج نے سدی تیمن میں حراست میں ۳۶ قیدیوں کی ہلاکتوں کی تفتیش شروع کی تھی جو ابھی جاری ہے۔ 

امریکی ثالثی میں ہونے والے غزہ کے جنگ بندی معاہدے کے تحت، حماس نے جنگ کے دوران مرنے والے چند اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں واپس کیں، جب کہ اسرائیل نے اب تک ۱۵۰ فلسطینیوں کی لاشیں واپس کی ہیں، جو ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد قید میں مارے گئے تھے۔ 

دی گارڈین کو دکھائی گئی فلسطینی لاشوں کی کچھ تصاویر [تشدد] کی خوفناک نوعیت کی وجہ سے شائع نہیں کی جاسکتیں۔ ان میں کئی مقتولین کی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھ پیچھے بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تصویر میں ایک شخص کی گردن کے گرد رسی بندھی نظر آتی ہے۔ 

خان یونس کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ’’لاشیں دیکھنے سے واضح ہے کہ اسرائیل نے کئی فلسطینیوں کے خلاف قتل، فوری پھانسیاں اور منظم تشدد کے اقدامات کیے ہیں‘‘۔ ان شواہد میں شامل ہے کہ متعدد لاشوں پر نزدیکی فائرنگ کے نشانات اور ٹینکوں کے نیچے کچلے جانے کے آثار پائے گئے ہیں‘‘۔ 

ایاد برہوم، ناصر میڈیکل کمپلیکس کے انتظامی ڈائریکٹر، نے کہا کہ لاشوں پر نام نہیں بلکہ صرف کوڈ درج تھے اور شناختی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ 

اگرچہ کئی شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان میں سے بیش تر فلسطینی قیدیوں کو قتل کیا گیا ہے، مگر یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ انھیں کہاں مارا گیا؟ سدی تیمن ایک ایسا مقام ہے جہاں غزہ سے لائی گئی لاشیں رکھی جاتی ہیں، لیکن یہ ایک قید خانہ بھی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ جاننے کے لیے تفتیش کی جائے کہ آیا ان میں سے کتنے افراد وہیں مارے گئے تھے؟ 

محمود اسماعیل شباط، عمر ۳۴ سال، شمالی غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی لاش پر گردن میں پھانسی کے نشانات اور ٹینک کے نیچے کچلے جانے کے آثار پائے گئے۔ اس کے بھائی رامی شباط نے اسے سر کی پرانی سرجری کے نشان سے پہچانا اور کہا:’’سب سے زیادہ دکھ یہ تھا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور جسم پر واضح تشدد کے نشانات تھے‘‘۔ 

اس کی والدہ نے کہا:’’دنیا کہاں ہے؟ ہمارے تمام قیدی تشدد زدہ ، ٹوٹی ہڈیوں اور کچلے جسموں کے ساتھ واپس آئے ہیں‘‘۔ 

کئی فلسطینی ڈاکٹروں کے مطابق: بہت سی لاشوں پر پٹیاں اور بندھے ہوئے ہاتھ اس بات کا اشارہ ہیں کہ انھیں سدی تیمن میں تشدد کے بعد قتل کیا گیا جہاں اسرائیلی میڈیا اور قیدخانے کے محافظوں کی شہادتوں کے مطابق، غزہ کے تقریباً ۱۵۰۰ فلسطینیوں کی لاشیں رکھی ہوئی ہیں‘‘۔ 

ایک گواہ نے دی گارڈین کو بتایا:’’میں نے دیکھا کہ غزہ سے ایک زخمی قیدی لایا گیا جس کے سینے میں گولی لگی تھی، آنکھوں پر پٹی، ہاتھ بندھے ہوئے، اور وہ بے لباس تھا۔ ایک اور مریض، جس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی، بالکل اسی حالت میں پہنچا‘‘۔ 

دوسرے گواہ نے بتایا:’’ تمام مریض بستروں سے ہتھکڑیوں سے بندھے، بے لباس اور ڈائپر پہنے ہوئے، آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی حالت میں تھے۔ان میں سے کئی کو غزہ کے ہسپتالوں سے گرفتار کیا گیا تھا جب وہ علاج کروا رہے تھے۔ ان کے زخم گل سڑ گئے تھے، وہ درد سے کراہ رہے تھے‘‘۔ 

اس کے مطابق: ’’اسرائیلی فوج کے پاس ان فلسطینی قیدیوں کے حماس کے رکن ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ بعض تو بار بار پوچھتے تھے کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟ ایک قیدی کا ہاتھ ہتھکڑی کے زخموں کے باعث گل گیا جسے کاٹنا پڑا‘‘۔ 

شادی ابو سیدو، فلسطینی صحافی (فلسطین ٹوڈے) نے بتایا: ’’مجھے ۱۸ مارچ ۲۰۲۴ء کو الشفاع ہسپتال سے اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور ۲۰ ماہ بعد رہا کیا ‘‘۔انھوں نے بتایا:’’مجھے ۱۰گھنٹے تک سردی میں بالکل ننگا رکھا گیا۔ پھر سدی تیمن منتقل کیا گیا، جہاں میں ۱۰۰ دن تک  آنکھوں پر پٹی اور ہتھکڑیوں میں قید رہا۔بہت سے قیدی مر گئے، کئی پاگل ہو گئے، کچھ کے اعضا کاٹ دیے گئے، ان پر جنسی و جسمانی تشدد کیا گیا۔ انھوں نے کتوں کو ہم پر چھوڑ دیا جو پیشاب کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ مجھے کیوں گرفتار کیا گیا ہے، تو انھوں نے کہا: ’’ہم نے تمام صحافیوں کو ماردیا، وہ ایک بار مرے۔ لیکن تم یہاں مرے بغیر سو بار مرو گے‘‘۔ 

نجی عباس، فزیشنز فار ہیومن رائٹس اسرائیل (PHR) کے قیدیوں کے شعبے کے ڈائریکٹر نے کہا:’’تشدد اور بدسلوکی کے جو آثار اسرائیل کی جانب سے واپس کی گئی فلسطینی لاشوں پر پائے گئے ہیں، وہ ہولناک ہیں مگر حیران کن نہیں۔یہ اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں جو ہماری تنظیم نے گذشتہ دو برسوں میں بار بار بتائی ہے، خصوصاً سدی تیمن کیمپ میں جہاں فلسطینیوں کو منظم تشدد اور قتل و غارت کا سامنا رہا‘‘۔ 

’فزیشن فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق: اسرائیلی حراست میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد، تشدد اور طبّی غفلت سے اموات کے مصدقہ شواہد پیش کرتی ہے۔ اور اب واپس کی گئی لاشوں کے معائنے، سب اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ آزاد بین الاقوامی تحقیق فوری طور پر شروع کی جائے، تاکہ اسرائیل میں ذمہ داروں کا احتساب کیا جا سکے‘‘۔ 

دی گارڈین نے لاشوں کی تصاویر ایک اسرائیلی ڈاکٹر کو دکھائیں جنھوں نے سدی تیمن کے فیلڈ ہسپتال میں قیدیوں کے علاج کے حالات دیکھے تھے۔ انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا:’’ایک تصویر میں نظر آتا ہے کہ آدمی کے ہاتھ ممکنہ طور پر زپ ٹائیز سے بندھے تھے۔ بازوؤں اور ہاتھوں کے رنگ میں فرق ظاہر کرتا ہے کہ سخت بندش کی وجہ سے خون کی روانی رُک گئی تھی۔ یہ شخص زخمی حالت میں قید میں ہلاک ہو سکتا ہے یا گرفتاری کے بعد تشدد سے جان دی ہوگی‘‘۔ 

ڈاکٹر مورس ٹڈبال بنز، اقوام متحدہ کے فرانزک ماہر، نے کہا:’’ضرورت ہے کہ آزاد اور غیر جانب دار فرانزک ماہرین کی مدد سے ان لاشوں کا معائنہ اور شناخت کی جائے‘‘۔ 

جب اسرائیلی فوج سے تشدد کے الزامات پر پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:’’ اسرائیل کے محکمہ جیل خانہ سے تفتیش کا کہا گیا ہے‘‘۔ مگر اسرائیلی محکمہ جیل نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جب کہ اسرائیلی فوج کا موقف رہا کہ وہ قیدیوں کے ساتھ ’’مناسب اور احتیاط سے برتاؤ کرتی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’بدسلوکی کے کسی بھی الزام کی تحقیقات کی جاتی ہیں، اور مناسب صورتوں میں فوجی پولیس مقدمات کھولتی ہے‘‘۔ 

اقوام متحدہ کے مطابق:’’ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد ۷۵ سے زیادہ فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں مارے جا چکے ہیں‘‘۔(روزنامہ گارڈین، لندن، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۲۵ء) 

عزّت سے جئے تو جی لیں گے، یا جامِ شہادت پی لیں گے 

بروز جمعہ، ۱۸ ربیع الثانی ۱۴۴۷ھ کو پورے دو سال بعد غزہ کی جنگ کا ایک مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ دنیا کے لیے یہ دو سال صدیوں پر بھاری تھے اور حساس دل والوں کے لیے اس قدر تکلیف دہ تھے، جیسے خود ان کے اپنے سینوں میں خنجر گھونپ دیئے گئے ہوں۔ ان دو برسوں میں دنیا نے اپنی آنکھوں سے جو ہولناک مناظر دیکھے ،ان کے لیے انھیں بیان کرپانا مشکل ہے اوراپنے کانوں سے جو رپورٹس سنیں ان پریقین کرنا ناممکن ہے ۔ لوگوں نے غزہ میں ایسے ہولناک مناظر دیکھے جو بچوں کو بوڑھا کردیں، پہاڑوں کو متزلزل کردیں اور کمزور دل والوں کی دھڑکنیں بند کردیں۔ ان دوبرسوں میں پورا غزہ قتل کا میدان، موت کی وادی اور قیامت خیز حشرسامانی کا میدانِ کارزار بنارہا۔ 

لوگوں نے غزہ میں قتل وغارت گری اور قحط سامانی وفاقہ کشی جیسے ہولناک مناظر دیکھے۔ ایسے مناظر اس سے پہلے شاید ہی کبھی کسی نے دیکھے ہوں گے۔ اگر اہل غزہ کے جسموں میں ایسی روح نہ ہوتی جسے موت بھی آسانی سے نہیں مارسکتی، ایسا عزم نہ ہوتا جسے مہلک ہتھیاروں سے مغلوب نہیں کیاجاسکتا، اور اگروہ ایسے عزائم کے مالک نہ ہوتے جو ذلت وتسلط کو ناپسند کرتے ہیں اور غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں، تو شاید اس درندگی و بہیمیت کے ہاتھوں کچلے جانے والے دلوں میں اُمیدوں کے چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ جاتے اورلوگوں کے دلوں سے رحم کا مطلب ہمیشہ کے لیے محو ہوجاتا۔ 

جب مجھے خبرملی کہ غزہ میں جنگ کے شعلے سرد پڑ گئے ہیں، تومیرے دل میں غزہ کا دورہ کرنے کاخیال پیدا ہوا۔ اس لیے نہیں کہ میں غزہ کے کھنڈرات دیکھنا چاہتا تھا، بلکہ اس لیے کہ غزہ کے نوجوانوں کے چہرے دیکھنا چاہتا تھا، ان کی زبانوں سے صبر وعزیمت کی داستانیں سننا چاہتا تھا۔ میں یہی آرزو لیے غزہ میں داخل ہوا۔ یہاں میں نے ایسی تباہی دیکھی جو عظمتوں کے قصے سناتی تھی، ایسے کھنڈرات دیکھے جو ایسی زبان میں بات کررہےتھے، جسے صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو آزاد اورباعزت زندگی کی اہمیت کو جانتے اور سمجھتے ہوں۔میں نے دیکھا کہ غزہ کی گلیوں سے ابھی تک بارود کی بُو اٹھ رہی ہے، غیر آباد اور ٹوٹے پھوٹے گھروں سے ابھی بھی دھوئیں کے مرغولے بلند ہورہے تھے، لیکن یہ عجیب بات تھی کہ اہل غزہ کے چہروں پر غموں کی پرچھائیاں نہیں تھیں۔ ان کے چہرے اور لب مسکراہٹوں سے سجے ہوئے تھے، جیسے وہ موت کی گھاٹی سے نکل کر خوابوں سے سجی زندگی کی روپہلی وادی میں آگئے ہوں، پہلے سے زیادہ تازہ دم اور پہلے سے زیادہ زندہ دلی کے ساتھ۔ 

میں نے یہاں لوگوں کوسراٹھاکر چلتے ہوئے دیکھا، جیسے وہ اس سرزمین کے بادشاہ ہیں۔ میں نے دیکھا کہ خواتین درد اور تکلیف کے باوجود خوشی سے جھوم رہی ہیں اور بچے ملبے کے درمیان ایسے دوڑتے پھررہے ہیں جیسے وہ جنت کے باغوں میں ہوں۔ میں نے دیکھا کہ لوگ خوشی سے مسرور ہیں۔ گویا ان پر کبھی کوئی مصیبت آئی ہی نہیں ، نہ انھیں محصور کیا گیا،نہ ان پر بمباری کی گئی اور نہ انھوں نے اپنے پیاروں اور جنت کے پھول جیسے بچوں کو کھویا ہے۔ میں نے ان کے درمیان چلتے ہوئے حیرت زدہ ہوکر ان کی آنکھوں میں دیکھا، ان میں فتح کی روشنیاں جگمگارہی تھیں۔ان کی آواز بلند اور پُرجلال تھی۔ میں نے ان کی زبانوں سے ایسا پُرکیف نغمہ سنا کہ میرا سینہ تشکر سے بھرگیا اور وجود اندر تک ہل گیا:’’ہم وہ قوم ہیں جو درمیان کی کوئی راہ نہیں جانتے،یا تو سربلند رہیں گے یا پھر شہادت کی موت مرجائیں گے‘‘۔ 

میرے قدم رُک گئے ، میں ان کے نغمات کو شوق وجستجو کے ساتھ سننے لگا۔ 

میں نے اپنے دل میں کہا: ’’اے دنیا کے بہادر ترین لوگو! سچ کہا تم نے ، واللہ! سچ کہاتم نے۔ تم نے عظمتوں کی راہ میں اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈالا۔بے شک جو جنتوں کے باغات کی تلاش میں ہوگا، انھیں یہ قیمت زیادہ نہیں معلوم ہوگی۔ تم دنیا میں سب سے بہادر قوم ہو،تمھارا مقام دنیا کے تمام لوگوں سے بلند ہے ، تم زمین پر چلنے والے ہر شخص سے زیادہ عظیم ہو۔ یہ تم ہی ہو جو خوفناک وادیوں میں بھی بے خوف وخطر کود پڑے۔ تم بھوکے پیاسے رہے یہاں تک کہ ٹینک، میزائل اور قیامت برساتی بندوقیں خون سے سیراب ہوگئیں۔ تم فاقہ کش رہے اور بھیڑیے اور گِدھ شکم سیر ہوتے رہے۔ 

تم سے کہا گیا کہ ’’ہتھیار ڈال دو یا ہجرت کرجاؤ ، یا پھر بے موت مارے جاؤگے‘‘۔ اورتم نے ڈرے اور ہچکچائے بغیر خطرات کا راستہ چُنا۔ تم عزیمت کی راہوں پر، جس میں قدم قدم پر موت گھات لگائے بیٹھی تھی، اس طرح خوشی خوشی اور ہنستے مسکراتے دوڑنے لگے جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کی طرف دوڑتا بھاگتا ہے۔ تمھیں یہ الزام دیا گیا کہ ’تم نے امن کے بدلے موت کو خرید لیا ہے‘، تو تم نے اس کا جواب دیا: ’خدا کی قسم! ہم نے خسارے کا سودا نہیں کیا‘۔ 

یارو! تم کیسے لوگ ہو آخر؟ تمھارے سینوں میں کیسے دل ہیں؟ واللہ ! میں نے اپنی زندگی میں ایسی قوم نہیں دیکھی، جو اپنے شہر کے کھنڈرات پر بھی فخر کے ساتھ کھڑی ہوسکے۔تمھارے روح ودل زخمی ہیں مگرتم خوشی کے ترانے گارہے ہو۔تمھارے اندرون میں آنسو ٹپ ٹپ گر رہے ہیں مگر تمھارے چہروں پر بشاشت اور مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔ تم زخموں سے نڈھال ہو مگرتمھارے چہروں پر کامرانی کا جوش وخروش ہے۔ 

 اے غزہ کے لوگو! تم نے صرف عسکری فتح حاصل نہیں کی ہے، تم نے ناقابلِ یقین کہانی تخلیق کرڈالی ہے، جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ تم نے دنیا کو بتایا ہے کہ عزت سے جینا کسے کہتے ہیں؟ اور انسانوں کو سمجھایا ہے کہ انسانیت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ 

بے شک تم انسانیت کا سرمایہ اور فخر ہو۔دنیا تمھیں یاد کرے گی جب جب بھی وہ سنجیدہ ہوگی۔ جب دنیا پر یاس وغم کے بادل چھاجائیں گے تو وہ تمھارے اجلے اور روشن کردار سے روشنی حاصل کرے گی۔ دنیا جب جب فتنوں اور آزمائشوں سے بھر جائے گی اور لوگ مضطرب اور بے حال ہوجائیں گے، تو تم ان کے لیے اس چاند کی طرح ہو گےجس کے نکلنے کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے۔ تم نے دنیا کو بتادیا کہ آزادی بھیک میں نہیں ملتی بلکہ اسے زور بازو سے حاصل کیا جاتا ہے۔  تم نے دکھا دیا کہ عزیمت سے خالی زندگی ذلت کی موت کی طرح ہے اور یہ کہ فتح مصائب کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہے۔ 

اے غزہ کے لوگو! تمھاری ہمت وبہادری کو سلام، تم نے خش وخاشاک سے شرافت کے مینار قائم کردیے ہیں۔ تم نے بہتے زخموں سے لازوال نغمے تخلیق کرڈالے ہیں اور تم نے اپنے خونِ جگر سے ایسے قصیدے لکھ ڈالے ہیں جنھیں آسمان کی بلندیوں پر آویزاں کیا جائے گا۔  

اے غزہ کے لوگو! تمھارے صبر واستقامت کو سلام! تمھارا صبر بے مثال ہے۔ تمھاری عزیمتوں کو سلام! جو عزیمتوں سے بھی بلند تر اور ذیشان ہیں۔ 

اے غزہ کے جگرپارو! یہ تم ہی ہو جو شکست وہزیمت کے وقت ثابت قدمی اورپامردی کی زندہ علامت بن گئے اور جنھوں نے اپنے نحیف ونزار جسموں سے شرف و عزیمت کے فسانے لکھ ڈالے۔ روئے زمین پر تمھاری بہادری کی داستانیں نسل در نسل سنائی جاتی رہیں گی اور تمھارے ترانے آزاد وزندہ لوگوں کی زبانوں پر ہمیشہ اسی طرح جاری ر ہیں گے۔ کیا ہی خوب ترانہ ہے: ’’عزت سے جئے تو جی لیں گے، یا جام شہادت پی لیں گے ‘‘۔ 

 اے غزہ کے لوگو! یہ بس تمھارا ہی حوصلہ اور تمھارا ہی جگر ہے کہ تم نے ذلت وخواری کے بجائے سربلندرہنا پسند کیا ، یا پھر شہادت کی موت کی تمنا کی۔ جھکنے کے بجائے عزت نفس کے ساتھ رہنا پسند کیا اور باعزّت زندگی کو،گرچہ وہ مشکل ہو، ذلت آمیز عیش کوشی پر ترجیح دی۔ تمھیں اور تمھارے کردار کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ وقت خواہ کتنا بھی طویل ہوجائے، مگر تاریخ یاد رکھے گی کہ غزہ میں ایک ایسی قوم آباد تھی، جو سر اٹھاکر جینا جانتی تھی اور جس نے یہ کرکے دکھا دیا۔ یہ تمھاری ہی شان ہے کہ تم نے ایک آواز کے ساتھ ایسا نعرہ دیا، جو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا:’’ دیکھو! ہم یہاں ہیں، ہم صرف دو ہی باتیں جانتے ہیں، عزت کی زندگی یا پھرشہادت کی موت:  

’’عزّت سے جئے تو جی لیں گے، یا جام شہادت پی لیں گے‘‘۔ 

لگتا ہے کہ جمو ں و کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے۔ اقتدار کی کرسی پر کوئی بھی بیٹھے، اختیارات ہمیشہ کہیں اور سمٹ جاتے ہیں۔ کبھی بندوق برداروں کا خوف تھا، مگر آج لیفٹیننٹ گورنر کی انتظامیہ، خفیہ ایجنسیاں اور ہندو قوم پرستوں کے نیٹ ورک نے وہی کردار سنبھال لیا ہے۔ عام لوگوں کے لیے جینے، بولنے اور سوچنے کی جگہ تنگ تر ہوتی جا رہی ہے۔ 

ایسے میں جب گذشتہ سال اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوا تو عوام میں ایک نئی امید جاگی۔ لوگوں کو لگا کہ شاید اب ایک عوامی حکومت قائم ہوگی، جو کم سے کم سانس لینے کی گنجائش فراہم کرے۔ 

ان انتخابات میں، بالکل ۱۹۹۶ء کی طرح، ’نیشنل کانفرنس‘ کو سبقت حاصل ہوئی۔ ۹۰ رکنی اسمبلی میں اس نے ۴۲ نشستیں جیتیں۔ اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر کامیابی ملی۔ وادیٔ کشمیر کی ۴۷ میں سے ۳۵ نشستیں ’نیشنل کانفرنس‘ نے جیتیں،جب کہ جموں کی ۴۳ میں سے سات نشستیں حاصل کیں۔ بی جے پی جموں خطے میں ۲۹ نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بنی۔ ان نتائج نے ایک طرف دہلی کو سکون دیا کہ کوئی مزاحمتی جماعت اقتدار میں نہیں آئی، مگر دوسری طرف کشمیری عوام کے لیے یہ ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھے گئے، جہاں وہ اپنی انفرادیت، آبادیاتی شناخت اور کھوئی ہوئی خودمختاری کے احساس کو دوبارہ بحال کر سکتے تھے۔ 

مگر ایک سال گزرنے کے بعد وہ تمام اُمیدیں دھندلی پڑ چکی ہیں۔ عمر عبداللہ کی قیادت میں بننے والی حکومت کے پاس اقتدار تو ہے، مگر اختیار نہیں۔ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو جب انھوں نے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیا، تو یہ تصور تھا کہ ایک عشرے سے زیادہ مرکزی حکمرانی کے بعد اب قدرے جمہوری دور کا آغاز ہوگا۔ بہت سے لوگ اسے نئی صبح کہہ رہے تھے۔ لیکن آج، ایک سال گزرنے کے بعد، وہی لوگ اعتراف کر رہے ہیں کہ شاید کشمیر کی تاریخ میں یہ سب سے بے اختیار حکومت ہے۔ 

سینئر صحافی مسعود حسین لکھتے ہیں: عمر عبداللہ کی مخالفت حلف لینے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ جب انھوں نے ہچکچاتے ہوئے انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو ان پر طنز کیا گیا:’’نہ نہ کرتے، ہاں کر دی‘‘۔ اب جب ایک سال گزر گیا ہے تو وہ جموں و کشمیر کے سب سے کمزور وزرائے اعلیٰ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں: ’’وہ ایک ’آئینی مجسمہ‘ ہیں، جن کے اردگرد طاقت کے سارے بٹن کسی اور کے ہاتھ میں ہیں‘‘۔ 

اصل مسئلہ ڈھانچے کا ہے۔ یونین ٹیریٹری کے نظام میں لیفٹیننٹ گورنر (LG) اعلیٰ ترین انتظامی اتھارٹی ہے۔ وہ افسران کی سالانہ خفیہ رپورٹیں لکھتا ہے۔ تمام بڑے فیصلوں کے لیے اس کی منظوری ضروری ہے۔ بیوروکریسی عملاً اس کے سامنے جواب دہ ہے، نہ کہ منتخب وزیراعلیٰ کے سامنے۔ افسران جانتے ہیں کہ ان کے تبادلے، ترقی اور مراعات کا دارومدار راج بھون پر ہے، اس لیے وہ سیاسی قیادت کے احکامات کو ترجیح نہیں دیتے۔ کئی بار وزیراعلیٰ دفتر سے جاری احکامات بھی محض فائلوں میں دب جاتے ہیں۔ 

ایک سینئر بیوروکریٹ نے نجی گفتگو میں کہا:’’یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں وزیراعلیٰ کے دستخط کا وزن کم اور ’ایل جی‘ کی خاموشی کا اثر زیادہ ہے‘‘۔ عمر عبداللہ کے اقتدار کا پہلا سال اسی توازن کی تلاش میں گزرا ہے، مگر نتیجہ صفر رہا۔ کئی بار اجلاس بلانے کے بعد افسران شریک نہیں ہوئے۔ وزیراعلیٰ دفتر کو خود خط لکھنے پڑے کہ متعلقہ سکریٹری کیوں غیر حاضر ہیں؟ 

مارچ ۲۰۲۵ء تک کابینہ نے جو فیصلے کیے، ان میں سے متعدد آج تک راج بھون کی منظوری کے منتظر ہیں۔ حکومت کی مشاورتی کونسل کو ایک طرح سے ’عارضی کابینہ‘ بنا کر رکھا گیا ہے، جس کے فیصلے نافذ نہیں ہو سکتے جب تک لیفٹیننٹ گورنر مہر نہ لگائے۔ یہ وہی تاثر ہے جسے عمر عبداللہ خود بھی کئی بار اشاروں کنایوں میں ظاہر کر چکے ہیں۔ انھوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا: ’’ہم فیصلہ تو کرتے ہیں ،مگر عمل درآمد کا اختیار نہیں‘‘۔ 

یہی نہیں، عمر عبداللہ اپنے قریبی مشیر ناصر اسلم وانی کو باضابطہ تعینات نہیں کرسکے۔ ایڈووکیٹ جنرل، جسے وزیراعلیٰ نے برقرار رہنے کے لیے قائل کیا تھا، راج بھون کی زبانی ہدایت پر واپس نہیں آیا۔ حتیٰ کہ عمر عبداللہ کو پیرس کے ایک سرکاری دورے کو منسوخ کرنا پڑا کیونکہ کلیئرنس نہیں ملی۔ حالانکہ یہ دورہ ’ٹورازم فیسٹیول‘ (سیاحتی فروغ میلے) کے لیے تھا، تاکہ بیرونی سیاحوں کو کشمیر کی طرف دعوت دی جائے۔ دہلی کے ایک عہدیدار نے بعد میں تبصرہ کیا: ’’جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ کی حیثیت اب کسی ریاستی وزیر سے زیادہ نہیں رہی‘‘۔ 

اقتدار کے دھارے کہاں ہیں؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امن و امان، پولیس، اینٹی کرپشن بیورو، آئی اے ایس افسران کی تقرریاں، حتیٰ کہ معمول کی انتظامی تبدیلیاں بھی راج بھون کے کنٹرول میں ہیں۔ وزارت داخلہ نے پولیس فورس کا پورا مالی بوجھ اپنے بجٹ میں منتقل کر دیا ہے۔ بیوروکریٹس کے لیے راج بھون حکم ہے اور وزیراعلیٰ محض مشورہ۔ 

’جموں و کشمیر اسٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن‘، جو ایک منافع بخش ادارہ ہے، اب بھی بیوروکریٹس کے زیر کنٹرول ہے۔ آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز اکیڈمی، جو کبھی کشمیری شناخت کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب وزارت سے باہر ہے۔ شیرکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جیسے اہم ادارے میں بھی ڈائریکٹر وزیراعلیٰ کو نہیں بلکہ براہ راست لیفٹیننٹ گورنر کو رپورٹ کرتا ہے۔ اردو، جو سرکاری زبان تھی، اب ہندی اور انگریزی کے دباؤ میں آچکی ہے۔ عمرعبداللہ نے وعدہ کیا تھا کہ سو دن میں کلچر پالیسی لاگو کریں گے، مگر وہ فائل ابھی تک راج بھون کے پاس پڑی ہے۔ 

یہ وہی منظرنامہ ہے جسے کئی لوگ ’جمہوری فریب‘ کہتے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو موجود ہے، مگر فیصلہ سازی کے قابل نہیں۔ ’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ نے بھی بیان دیا کہ نیشنل کانفرنس ایک رسمی حکومت بننے کے خطرے میں ہے جو علامت تو ہے مگر جوہر نہیں۔ مرکز کے ساتھ نرمی اور تعلقات کی سیاست نے بھی کوئی فائدہ نہیں دیا۔ عمر عبداللہ نے ہمیشہ ٹکراؤ سے بچنے کی پالیسی اپنائی۔ انھوں نے نہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرح احتجاج کیا، نہ کجریوال کی طرح عدالتی لڑائیاں لڑیں، مگر دہلی نے اس شائستگی کو کمزوری سمجھا۔پھر ریاستی درجہ کی بحالی پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ 

کئی مواقع پر عمر عبداللہ کو سرکاری تقریبات میں نظرانداز کیا گیا۔ ۱۳ جولائی کو انھیں شہداء کے قبرستان جانے کی اجازت نہیں دی گئی، وہ اگلے دن اکیلے گئے۔ مرکزی وزراء کے ساتھ دوروں میں وہ پیچھے کھڑے دکھائی دیے۔ ایک ویڈیو میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے لیڈر اور اپوزیشن لیڈر سنیل شرما افسران کو بریفنگ دیتے دکھائی دیے، جو عام طور پر وزیراعلیٰ کا کام ہوتا ہے۔ نائب وزیراعلیٰ کو بھی سیکیورٹی اور سفر کے مسائل کا سامنا رہا۔ یہ سب مظاہر اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ عمرعبداللہ حکومت محض برائے نام ہے۔ 

پہاڑی بولنے والے طبقے کو شیڈولڈ قبائل میں شامل کرنے سے ریزرویشن کا توازن بگڑ گیا ہے۔ اب تقریباً ۷۰ فی صد سرکاری نوکریاں مخصوص کیٹیگریز کے لیے مختص ہیں۔ اوپن میرٹ سکڑ گیا ہے اور نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ جون ۲۰۲۵ء میں پیش کی گئی وزارتی سب کمیٹی کی رپورٹ پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ حکومت کے اہداف میں جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن کی ایک ہزار ایک سوبیس تقرریاں،ایس ایس بی کی ۵ہزار ۸ سو ۵۳ اور ۷۵ ہمدردی کی بنیاد پر ملازمتیں شامل تھیں، مگر ان میں معمولی پیش رفت ہے۔ 

سیب کی فصل کے دوران جب قومی شاہراہ تین ہفتے بند رہی، ہزاروں ٹرک پھنس گئے۔ سیب سڑ گئے اور معیشت کو ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ عمرعبداللہ نے کہا کہ اگر اختیار ان کے پاس ہوتا تو وہ ایک دن میں سڑک کھول دیتے، مگر یہ ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ 

تاہم، اتنے دبائو کے باوجود کچھ مثبت اقدامات بھی ہوئے: حکومت نے نجی اسکولوں سے مشاورت کے بعد ۲۰۱۹ء سے پہلے کا تعلیمی کیلنڈر بحال کیا۔ سرکاری بسوں میں خواتین کے لیے نشستیں مخصوص کی گئیں۔ غریب لڑکیوں کی شادی کی امداد بڑھا کر ۷۰ ہزار روپے کر دی گئی۔ خاندان کے اندر زمین کی منتقلی پر اسٹامپ ڈیوٹی ختم کر دی گئی، اس سے رجسٹریشن کی آمدنی بڑھی۔ 

اسی طرح مقامی چھوٹے کاروباروں کے لیے ۳۰ فی صد سرکاری خریداری مختص کرنے کی پالیسی زیر غور ہے، جس میں خواتین اور پسماندہ طبقے کے اداروں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ لیکن یہ سب اقدامات اسی احساس کے سائے میں ہیں کہ وزیراعلیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ 

ریاستی درجہ کی بحالی پر عمر عبداللہ کا موقف واضح ہے، مگر عملی پیش رفت نہیں۔ وہ بارہا کہتے رہے کہ یہ ان کا مرکزی انتخابی وعدہ تھا، مگر نئی دہلی نے اب تک کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا۔ سابق مالیاتی افسران کے مطابق، حکومت نے ری آرگنائزیشن ایکٹ کی شق ۸۳(۱) استعمال کرنے کا موقع گنوا دیا، جس کے تحت مرکز سے ٹیکسوں میں حصہ مانگا جا سکتا تھا۔ یہ سیاسی طور پر ایک مضبوط اشارہ ہوتا مگر حکومت نے خاموشی اختیار کی۔ 

جنرل سیلز ٹیکس کے نظام نے ریاستی مالیاتی آزادی مزید محدود کر دی ہے۔ اب زیادہ تر ترقیاتی اسکیمیں مرکزی فنڈز سے چلتی ہیں۔ بجٹ دراصل دہلی کی توسیع بن گیا ہے۔ عمرعبدﷲ حکومت کا مالی دائرہ اختیار اتنا محدود ہے کہ وہ اپنے منصوبے آزادانہ طور پر طے نہیں کر سکتی۔ 

پھر اس دوران دو مرتبہ وادیٔ کشمیر میں بڑے پیمانے پر کتابوں پر پابندی عائد کی گئی، جماعت اسلامی سے کچھ بھی نسبت رکھنے والے اسکولوں کا گلا گھونٹا گیا، کئی جگہ ماورائے عدالت لوگوں کو جان سے مارا گیا، بڑے پیمانے پرگرفتاریاں کی گئیں، تشدد کے واقعات تو معمول بنے رہے، بعض جگہ جائیدادیں ضبط بھی کی گئیں اور کئی جگہ بلڈوزروں سے تعمیرات زمین بوس کی گئیں۔ 

یہ سب حالات مل کر اس احساس کو جنم دیتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت محض ایک چہرہ ہے، جس کے پیچھے مکمل انتظامی کنٹرول مرکز کے ہاتھ میں ہے۔ اس نئے نظام میں وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ مشورہ دے سکتی ہے، مگر فیصلہ نہیں۔ راج بھون حکم دیتا ہے، مگر جواب دہی سے آزاد ہے۔ 

عمر عبداللہ کا سیاسی طرزِعمل ہمیشہ شائستگی اور دلیل پر مبنی رہا ہے۔ مگر یہ سلجھا ہوا طرزِ سیاست ایک ایسے سخت بیوروکریٹک نظام کے سامنے ناکام دکھائی دیتا ہے، جہاں نرم لہجہ کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ انھیں زیادہ جارحانہ رویہ اپنانا چاہیے تھا، ورنہ دہلی حکومت انھیں محض نمائشی چہرے کے طور پر استعمال کرتی رہے گی۔ 

پچھلے ایک سال میں عوامی سطح پر مایوسی بڑھ گئی ہے۔ جو لوگ ووٹ ڈالنے نکلے تھے، وہ اب کہہ رہے ہیں کہ شاید مرکز نے انتخابات کروا کر دنیا کو صرف یہ دکھانا چاہا کہ کشمیر میں جمہوریت بحال ہو گئی ہے، حالانکہ عملی طور پر کچھ نہیں بدلا۔ نیشنل کانفرنس کے کارکن برملا اعتراف کرتے ہیں کہ:’’ہمارے لیڈر کے پاس فیصلے کرنے کی طاقت نہیں۔ ہم نے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود لیں گے، مگر اب فیصلے وہی لوگ کر رہے ہیں جنھیں ووٹ نہیں ملا‘‘۔ 

جموں و کشمیر کی سیاست ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ نیشنل کانفرنس، جو دہلی اور سرینگر کے درمیان پل سمجھی جاتی تھی، اب دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ دہلی کے لیے وہ قابلِ قبول ہے مگر مفید نہیں، اور وادی کے عوام کے لیے وہ اپنی ہے مگر بے بس۔ 

عمر عبداللہ حکومت کا پہلا سال ایک ایسی مثال بن چکا ہے، جو ۲۰۱۹ء کے بعد کے انتظامی نظام کی تمام خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ حکومت کے پاس آئینی جواز تو ہے، مگر اثر و رسوخ نہیں۔ راج بھون کمانڈ رکھتا ہے مگر جواب دہی نہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس نے عوامی اعتماد کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ 

عمر عبداللہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ’’کئی ایسے شعبے ہیں جہاں منتخب نمائندوں کو فیصلہ کرنا چاہیے، لیکن ہم ابھی تک اس اختیار کے منتظر ہیں‘‘۔ ان کا یہ جملہ دراصل پورے سال کی داستان ہے۔ 

کشمیر کے عوام، جنھوں نے گھٹن بھرے پانچ برسوں کے بعد ووٹ ڈالا، آج ایک بار پھر وہی سوال لیے کھڑے ہیں کہ جمہوریت آخر کہاں ہے؟ اگر منتخب وزیراعلیٰ بھی محض دستخط کرنے والا ربڑ سٹمپ رہ گیا ہے تو اس نظام کو جمہوری کہنے کا مطلب کیا ہے؟ 

عمر عبداللہ کی حکومت ایک امید کے طور پر شروع ہوئی تھی مگر اب وہ ایک علامت بن گئی ہے، ایسی علامت جو بتاتی ہے کہ جموں و کشمیر میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ مرکز کی بیوروکریسی کے شکنجے میں ہے۔ جمہوریت کا جسد موجود ہے مگر روح سے خالی ہے۔ اور یہی اس حکومت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔یہ وہ کشمیر ہے جہاں عوام کو وعدے تو بار بار ملتے ہیں، مگر اختیار کبھی نہیں۔ جہاں ووٹ ڈالنے کے بعد بھی فیصلہ وہی کرتا ہے جو سرینگر میں نہیں، دہلی میں بیٹھا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر وہیں لوٹ آئی ہےجہاں اقتدار تھا مگر اختیار نہیں۔

یہ دو سال پہلے کی بات ہے، ۵ سے ۸ مئی ۲۰۲۳ء کے دوران پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں افغانستان کے امارت اسلامی کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا دوسرا باقاعدہ دورہ ہوا تھا۔اس دوران سہ فریقی مذاکرات بھی منعقد ہوئے،جن میں چین ،پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ افغان وزیر خارجہ کا یہ پانچ روزہ دورہ اس لحاظ سے اہم تھاکہ اقوام متحدہ نے اس کی رسمی طور پر منظوری دی تھی۔اس لحاظ سے یہ ایک اہم سفارتی پیش رفت تھی۔ 

امیر خان متقی نے اپنے دورے میں دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں، جن میں پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے ان کی ملاقات بہت اہم رہی۔ ’تحریک طالبان پاکستان‘ (TTP) کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی تخریبی کارروائیوں کو افغانستان میں قائم مراکز سے جوڑا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات اور حملوں کے نتیجے میں افواج پاکستان،پولیس کے جوانوں اور عوام کا مسلسل جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ اس دورے میں پاکستانی حکام نے امارت اسلامی افغانستان سے اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔اس بارے میں افغان وزیر خارجہ نے چیف آف آرمی اسٹاف سے جو مذاکرات کیے، اس کی تفصیلات تو معلوم نہیں ہو سکیں البتہ ان کا یہ بیان سامنے آیا، جس میں انھوں نے کہا تھا، ’’امارت اسلامی نے حکومت پاکستان کے مطالبے پر ٹی ٹی پی کی قیادت کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا اور آئندہ بھی اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے‘‘۔ 

موجودہ سال یہ دورہ پھر متوقع تھا اور امیر خان متقی کو ماسکو میں کانفرنس سے پہلے یا بعد میں پاکستان اور انڈیا دونوں ملکوں کا دورہ کرنا تھا لیکن چونکہ ان کا نام اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اس فہرست میں شامل ہے جن پر فضائی سفر کی پابندی ہے، اس لیے ان ممالک کو اس پر اس پابندی کے خاتمے کے لیےدرخواست دینی تھی۔ پاکستان کی درخواست منظور نہ ہو سکی اس لیے وہ یہاں نہ آئے اورروس کی مددسےانڈیا جانے کی اجازت مل گئی اور وہ نئی دہلی چلے گئے۔ اس دوران ۷؍اکتوبر کو پاکستان کے قبائلی علاقے اور کزئی میں تخریب کاری کا خونیں واقعہ ہوا، جس میں گیارہ فوجی افسروں اوراہل کاروں کی شہادت ہوئی۔ پاکستان نے ۱۰؍ اکتوبر کو جوابی کارروائی کرتے ہوئے کابل اور پکتیامیں ٹی ٹی پی کے ممکنہ عسکری مراکز پر فضائی حملے کیے، جن میں ٹی ٹی پی کے اہم افراد کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا گیا۔ اس وقت افغان وزیر خارجہ دہلی میں موجود تھے اور وہیں سے انھوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستانی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور جوابی کارروائی کا اعلان کیا۔ چنانچہ ۱۳؍ اکتوبر کو افغان فورسز نے پاک افغان سرحد کے ساتھ مختلف مقامات پر پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کیے،جن کے جواب میں پاکستانی مسلح افواج نے افغان ٹھکانوں پر حملے کیے۔ اس طرح دونوں طرف سے شہادتوں، ہلاکتوں اور عسکری پوسٹوں پر قبضوں کے دعوے کیے گئے اور ثبوت کے طور پر ویڈیو فوٹیج بھی دکھائی گئیں۔ 

۱۲؍ اکتوبر کو پاکستانی عسکری تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل جنرل احمد شریف نے بھی پشاور میں ایک اہم پریس کانفرنس کی، جس میں انھوں نے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا سرکاری موقف پیش کیا۔ یادرہے پاکستان کے وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار ہیں، جو نائب وزیراعظم بھی ہیں لیکن افغانستان کے حوالے سے زیادہ بیانات وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ہی کے میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ جنرل احمد شریف نے ٹی ٹی پی کی تمام تخریبی کارروائیوں کا ذمہ دار امارت اسلامیہ افغانستان کو قرار دیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے سخت کارروائیوں کے عزم کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے خود پاکستان ہی کی سابقہ سیاسی اور عسکری قیادت سمیت انڈیا کو بھی اس افسوس ناک صورتِ حال کا ذمے دار قرار دیا ۔اس پریس بریفنگ میں انھوں نے پاکستان میں گذشتہ ۱۰ برسوں میں ہونے والے تخریب کاری کے واقعات، جانی نقصانات اور پاک فوج کی جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے تخریب کاروں کے اعداد و شمار بھی پیش کیے، جن میں کافی تعداد میں افغان شہری بھی شامل ہیں۔ 

پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگی صورتِ حال اور انسانی جانوں کے ضیا ع کو محسوس کرتے ہوئے کئی دوست ممالک جن میں ایران، قطر ،سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات، ترکی اور چین شامل ہیں، انھوں نے دونوں اطراف کی قیادت سےحملے روکنے کی اپیل کی۔ جس کے نتیجے میں ۱۶؍اکتوبر کو سیز فائر کا اعلان ہو گیا اور دوحہ، قطر میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز بھی ہوا ۔ اس سیز فائر کے ۴۸ گھنٹے مکمل ہونے کے بعد اس میں توسیع کر دی گئی اور اعلان ہوا کہ مذاکراتی عمل مکمل ہونے تک یہ پابندی جاری رہے گی۔ البتہ اس دوران پاکستانی وزیر دفاع کے جارحانہ بیانات کا سلسلہ جاری رہا اور سوشل میڈیا پر بھی پاکستان کی مقتدر حلقوں میں شامل شخصیات افغان حکومت کے خلاف سخت تبصرے کرتے رہے، جن میں مولانا طاہر اشرفی صاحب بھی شامل ہیں۔ یہ موصوف گذشتہ اَدوار حکومت میں بھی سرکاری وسائل کا بھرپور استعمال کرتے رہے ہیں، جب کہ افغان وزیر دفاع ملا محمد یعقوب کاایک انٹرویو سوشل میڈیا پرچلا، جس میں انھوں نے پاکستان کے فضائی حملوں پر افسوس کااظہار کیا ۔افغان سوشل میڈیا پر پاکستانی فضائی حملے سے ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ دکھائی گئی جس میں مقامی نوجوان کرکٹرزشامل تھے۔ 

برادر مسلم پڑوسی ملک افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا سرکاری موقف یہ ہے کہ ’’پاکستان نے گذشتہ اَدوار میں افغان قوم و ملت پر جو احسانات کیے تھے، وہ اس کا بدلہ چکانے کے بجائے انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف مسلح جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے، اور پراکسی وار میں ملوث ہے، جس کا علاج یہ ہے کہ طاقت کا بھرپور استعمال کر کے اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے‘‘۔  

چونکہ اس سال ماہ مئی میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستانی افواج نے اپنے دیرینہ دشمن انڈیا کے خلاف چار روزہ مختصر جنگ میں ایک تاریخی فتح حاصل کی تھی، جس کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دی اور اس کے بعد دنیا کی واحد سوپر پاور امریکا نے پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف اور پاکستانی آرمی چیف کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے اپنے ہمراہ رکھا ہے۔ اس لیے پاکستانی قیادت کے خیال میں دیگر پڑوسی ممالک بشمول افغانستان کو اس کا لحاظ کرنا چاہیے اور پاکستانی مطالبات کو درست تصور کرتے ہوئے اس کو پورا کرنا چاہیے۔ اس طرح ڈپلومیسی کی جگہ طاقت کے استعمال کی یہ پالیسی، افغانستان کے تناظر میں کتنی کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، لیکن اس حکمت عملی پر ملک کے اندر سے سوالات اٹھنا شروع ہو چکے ہیں ۔ 

مولانا فضل الرحمٰن صاحب صدر جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے جنرل احمد شریف کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور فوجی حکمت عملی پر مبنی راستے کا انتخاب یکسرمسترد کر دیا ۔ اسی طرح جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن صاحب نے بھی جنگ کے بجائے مذاکرات کا راستہ تجویز کیا ۔ سابق وزیراعظم جناب عمران خان نے اڈیالہ جیل سے اپنے بیان میں پیش کش کی ہے کہ اگر ان کو پیرول پر رہا کیا جائے تو وہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ 

گذشتہ دنوں جماعت اسلامی کا ایک اعلیٰ سطحی وفدجناب پروفیسر محمد ابراہیم خان کی قیادت میں افغانستان گیا تھا جہاں انھوں نےامارت اسلامی افغانستان کے وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیراُمور مہاجرین اور وزیر تجارت سے ملاقاتیں کی تھیں، جس میں اس موضوع پر بھی تفصیل سے گفتگو ہوئی اور پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی تخریبی سرگرمیوں اور جانی و مالی نقصانات کے تدارک کے لیےامارت اسلامی کے ممکنہ کردار پر تجاویز پیش کیں۔  

ان ملاقاتوں میں افغان وزیروں کا موقف یہ تھا کہ ’’ہم کسی بھی پاکستان مخالف تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے۔ پاکستان ہمارے لیے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ ٹی ٹی پی کے وابستگان کو لگام دینے کے لیے ہم ایک طویل المعیاد منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے کئی اقدامات کا ذکر کیا، جس کا علم پاکستانی حکام کو بھی ہے۔ انھوں نے امید ظاہرکی کہ ’’آئندہ ایک،دوبرسوں میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پہلے مرحلے میں ہماری پوری کوشش ہے کہ کوئی بھی افغان شہری جہاد میں شرکت کی نیت سے پاکستان نہ جائے کہ امیر المومنین مُلّاہیبت اللہ اخوندزادہ کی یہ ہدایت ہے۔ گذشتہ عرصے میں کئی سوافغان شہریوں کو اس جرم میں قید بھی کیا گیا ہے‘‘۔ 

افغان قائدین کی بات یقینا اپنی جگہ درست ہوگی، لیکن پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور پاکستانی شہریوں، پاک افواج اور پولیس کے اہل کاروں کی مسلسل شہادتوں نے پورے ملک میں شدید غم و غصے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ چونکہ اس وقت ملک کی قیادت اور پالیسی سازی میں فوج کا کردار بہت زیادہ مرکزیت کا حامل ہے، اس لیے انھوں نے معاملات نمٹانے میں طاقت کا مظاہرہ ضروری سمجھا۔ اب، جب کہ صورتِ حال میں بہتری آگئی ہے اور دوست ممالک کی مدد سے دونوں ممالک کے درمیان پہلے فائر بندی اور پھر  صلح نامے پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دستخط بھی ہوگئے ہیں، جہاں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف اور افغان وزیر دفاع مُلّا یعقوب جوافغان طالبان تحریک کے بانی مُلّا محمد عمر [۱۹۶۰ء- ۲۰۱۳ء] کے صاحبزادے ہیں ،نے اپنے ممالک کی نمائندگی کی۔معاہدے کی تقریب میں ترک وزیر اور قطرانٹیلی جنس چیف عبد اللہ بن محمد الخلیفہ کی موجودگی میں ہاتھ بھی ملا لیے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات معمول پر آ جائیں گے اور جنگی صورتِ حال ختم ہوجائےگی۔ اس وقت بھی طورخم ،چمن اور دیگر دو ملکی راہداریوں پر ہزاروں مال بردار گاڑیاں اور لوگ راستے کھلنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ اسی طرح باہمی تجارت میں تاجروں کو سخت نقصان کا سامنا ہے۔اس معاہدے کی تفصیلات اورعمل درآمد کا میکنزم ۲۵؍اکتوبرکوترکی میں طے کرنے پر اتفاق ہوا۔ 

 پاک افغان قضیہ میں انڈیا کا کردار 

حسب معمول اس دوران پاکستان کے مقتدر حلقوں اور سوشل میڈیا میں اس پورے معاملے میں انڈیا کے کردار کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ افغانستان اور انڈیا کے پاکستان مخالف اتحاد اور مشترکہ ایجنڈےکی با ت ہوئی۔ یہ حقیقت ہم پر واضح رہنی چاہیے کہ مختلف گذشتہ ا َدوار میں انڈیا نے افغانستان کی حکومتوں میں گہرا اثر و نفوذ پیدا کیا تھا ۔روسی مداخلت کے دوران انڈیا ان چند آزاد ممالک میں شامل تھا، جس نے ببرک کارمل کی روسی کٹھ پتلی حکومت (دسمبر ۱۹۷۹ء-اپریل ۱۹۸۶ء) اور ڈاکٹر محمد نجیب اللہ کی حکومت (مئی ۱۹۸۶ء-اپریل ۱۹۹۲ء)، حامدکرزئی کی حکومت (جون ۲۰۰۲ء-ستمبر ۲۰۱۴ء) کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد اشرف غنی کے دور (ستمبر۲۰۱۴ء- اگست ۲۰۲۱ء) میں امریکی سرپرستی میں انڈیا نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی، جس کی مالیت دو بلین ڈالر سے تجاوز کرگئی تھی۔ اسی دوران انڈین سفارت خانہ اور قونصل خانے پاکستان مخالف سرگرمیوں کی آماجگاہ بن گئے تھے اور ٹی ٹی پی کے علاوہ بلوچ علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کی جاتی رہی۔ اس دور میں انڈیا، تحریک طالبان افغانستان کو اپنا بڑا دشمن تصور کرتا تھا۔دوسری طرف طالبان، انڈین منصوبوں کو نشانہ بناتے تھے اور جہاد کشمیر کی حمایت کرتے تھے۔ اس لیے جب ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو کابل میں امارت اسلامی کی حکومت بحال ہوئی تو انڈیا نے اس کو اپنی شکست سمجھتے ہوئے نہ صرف اپنا سفارت خانہ اور قونصل خانے بند کردیئے، بلکہ ایئر انڈیا کی پروازیں بھی بند کرد یں اور انڈین سرمایہ کار بھی اپنا کاروبار سمیٹ کر واپس چلے گئے۔ 

 یہی وہ وقت تھا جب پاکستان نے طالبان کی آمد کو اپنی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیااور ان سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیں ۔گذشتہ تین برسوں میں جب پاک افغان تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا، تواس کو بھانپتے ہوئے انڈین سفارت کاروں نے دوبارہ موجودہ افغان حکومت سے اپنے تعلقات استوار کیے، جس پر پاکستان میں رائے عامہ نے تشویش کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے موجودہ دورہ انڈیا کے وقت اور پاکستان مخالف پریس کانفرنس نے افغانستان اور انڈیا کے تعلقات میں ایک ایسا عروج پیدا کیا، جس کی توقع خود انڈین حکمت کاروں کو بھی نہیں تھی۔ 

یہ سوال پیدا ہوا کہ امیر خان متقی نے دہلی میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیوں کیا؟ یہ تو نہیں معلوم لیکن بہر کیف یہ ایک غیر دانش مندانہ اقدام تھا ۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان شدید تلخی کے اس دور میں افغان حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔یہ کام کابل میں موجود کوئی بھی اہم شخصیت کر سکتی تھی۔ افغان وزیر دفاع کوئی ایسا بیان دے سکتے تھے، جو انھوں نے دیا بھی، مگر دہلی میں بیٹھ کرپاکستان مخالف بیانات دینا سخت تلخی اور پاکستان میں عوامی سطح پر ردعمل کا سبب بنا۔ 

 پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں۔تعلقات میں بحالی دونوں کی ضرورت ہے۔دونوںممالک کے مفادات مشترکہ ہیں ۔ انڈیا، پاکستان کی جگہ نہیں لے سکتا، جس کی سرحد افغانستان کے ساتھ نہیں ملتی ۔یہ بات انڈین تجزیہ کاروں نے بھی کہی اور وہ خود بھی طالبان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ پاک افغان تعلقات میں بگاڑاور تناؤ پر خوشی کے شادیانے تو بجا رہے ہیں، لیکن اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بہر صورت انڈیا، پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کی مدد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ 

پاکستان کے سماجی رابطوں پر اس وقت افغان مخالف موقف میں ایک اہم نکتے کے طور پر جوحضرات ’افغان، انڈین گٹھ جوڑ‘ کو پیش کررہےہیں، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ کسی بھی درجے میں پاک افغان تعلقات کو سدھارنا چاہتے ہیں تو اس طرزِعمل اور طرزِبیان کوترک کر دیں۔ افغانستان میں پاکستان کے حق میں موجود حلقہ اس کو پسند نہیں کرتا۔ وہ پاک افغان تعلقات کے شاخسانے میں انڈین کردار کا تذکرہ قبول نہیں کرتا ۔خود میں نے بیسیوں بار افغانستان کا سفر کیا ہے اور افغان عوام کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے تعلق کو دینی، تاریخی، لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر ضروری اور لازمی تصور کرتی ہے اور اس پس منظر میں انڈیا کہیں فٹ نہیں ہوتا ۔ 

۱۹۸۳ء سے افغانستان میں پیش آنے والے حالات، واقعات اور تغیرات سے واقفیت رکھتا ہوں۔اس بارے میں میری یہ معروضات ہیں: 

افغانستان قبائلی معاشرت پر مشتمل ایک مسلم ملک ہے، جوگذشتہ۵۰ برس میں نظریاتی و تہذیبی کش مکش کا مرکز رہا ہے۔اس دوران وہاں بہت ساری حکومتیں بنتی اور گرتی رہی ہیں۔لیکن کم ازکم تین بار افغانستان میں اسلامی نظام کی حامی قوتیں برسراقتدارآئی ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں مجاہدین کی حکومت اور ۱۹۹۶ء میں طالبان حکومت اور۲۰۲۱ء میں دوبارہ امارت اسلامی کی صورت میں افغان طالبان کی حکومتوں کا قیام آج کی دنیا میں انوکھا تجربہ رہا ہے۔ پہلی بار جہاد افغانستان کے طویل دور کے بعد قائم مجاہدین کی حکومت کو تنظیموں اور حزبوں کی آپس کی لڑائی کروا کر ختم کیا گیا۔ دوسری بار طالبان حکومت کو ختم کرنے کے لیے ۲۰۰۱ء کے آخر میں القاعدہ اوراسامہ بن لادن کو بہانہ بنا کر امریکا اور ناٹو افواج افغانستان پرچڑھ دوڑیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب تیسری بار قائم اس حکومت کو ختم کرنے کے لیے، کیا پاکستان کی جنگی مشینری کو استعمال کیا جائے گا؟ 

 یہ سوال پاکستان افغانستان دونوں ممالک کے پالیسی سازوں کے لیے بھی اور اُمت مسلمہ کا درد رکھنے والے دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کے لیے بھی غوروفکر کا چیلنج پیش کرتاہے۔ دُوربیٹھے ممالک چاہے وہ امریکا ہو یا انڈیا، پاکستان اور افغانستان میں جنگ وجدل سے انھیں کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، مگر دونفع ضرور ملیں گے: پہلا یہ کہ دونوں ملک، تعمیروترقی کے کام ٹھپ کرکے باہم لڑیںگے اور اسلحے کی کھپت کا بازار گرم ہوگا۔ دوسرا یہ کہ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر، نقصان تو خربوزے کا ہوگا، یعنی افغان مسلمان مارا جائے یا پاکستانی مسلمان مارا جائے، اُن کی بلا سے___ نقصان تو مسلمان کا ہوگا! 

۱۹۴۱ء میں تقریباً تیرہ ماہ میری زندگی کے یادگار دور کے طور پر دارالاسلام ، پٹھان کوٹ میں گزرے۔ چودھری نیاز علی خان بڑے زمین دار اور محکمہ انہار کے ایک نیک دل ریٹائرڈ آفیسر تھے۔ ہوشیار پور میں اُن کی جدّی اراضی تھی اور گورداسپور میں اُن کی ذاتی زرعی اراضی تھی۔ قومی خدمت کا جذبہ اُن کے دل میں موجزن تھا۔ اُنھوں نے علامہ محمداقبال کے مشورے سے ایک علمی اور تعلیمی ادارے کا ایک عظیم منصوبہ بنایا اور اپنی ذاتی ملکیت سے ایک وسیع رقبہ اور کچھ مزید زرعی اراضی خرید کر۶۴؍ایکڑ اراضی اس مقصد کے لیے وقف کردی۔ یہ ادارہ آگے چل کر ’دارالاسلام‘ کے نام سے معروف ہوا۔’دارالاسلام‘ صحیح معنوں میں ایک مکمل کالونی تھی، جس میں طلبہ کے لیے ایک درجن کے قریب کمروں پر مشتمل وسیع ہوسٹل مع لوازمات، اساتذہ کے لیے دو دو کمروں پر مشتمل چھ مکانات، پرنسپل اور انتظامی عملے کے لیے دو کوٹھیاں، کارخانے کے لیے وسیع ہال بنایا گیا تھا۔ ایک چھوٹی سی خوب صورت مسجد بھی تھی جس سے ملحق مدرسہ و دفتر کی عمارت تھی۔ اس میں دو کمروں کے علاوہ لائبریری اور دارالمطالعہ تھا۔ 

’دارالاسلام‘ کی یہ آبادی پٹھان کوٹ سے چھ کلومیٹر پہلے راوی سے نکلنے والی نہر کے ایک طرف پُرفضا مقام پر واقع تھی۔ اُس کے شمال میں ریلوے لائن تھی۔’ دارالاسلام‘، سرنااسٹیشن کے بیرونی سگنل کے سامنے دو ڈھائی فرلانگ [۴۴۰ میٹر فاصلے]پر واقع تھا۔  

یہ تاریخی حقیقت سب کے علم میں ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی و امیر سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ’دارالاسلام ‘چودھری نیاز علی خان کی دعوت پر ہی حیدرآباد دکن سے ترکِ سکونت کرکے پنجاب آئے تھے۔ ابتداء میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت ’دارالاسلام‘ میں قیام پذیر ہوئے، مگر تھوڑے عرصے کے بعد چودھری صاحب اور ان کے درمیان کچھ [اُمور پر]اختلاف پیدا ہوگیا تو سیّدصاحب نے ’دارالاسلام‘ سے لاہور نقل مکانی کرلی۔ چند ماہ ایسے ہی گزر گئے۔ پھر چودھری صاحب نے مرزا عبدالحمید صاحب کو دعوت دی کہ وہ یہاں کے انتظامات سنبھال لیں۔ مرزا صاحب وہاں تشریف لے گئے، مگر شہری دُنیا سے دُور ایک ایسے الگ تھلگ مقام میں وقت گزارنااور شب وروز کی شہری مصروفیات ترک کر کے خلوت کی زندگی بسر کرنا کہاں آسان ہوتاہے۔ اُنھوں نے چودھری صاحب کو آمادہ کیاکہ مجھے [نذراحمد] بطورِ قائم مقام ناظم یہاں بلا لیں، چنانچہ میں نے ’دارالاسلام‘ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیا۔ یہاں میری مصروفیات اور ذمہ داریوں کا مختصر نقشہ یہ رہا: 

میرے شب و روز 

اُس وقت ’دارالاسلام‘ میں چند بیرونی طلبہ مقیم تھے۔ میں اُن کا معلّم ، ہوسٹل انچارج، مسجد کا خطیب، دفتر میں چودھری نیاز علی خان صاحب کا نائب، اکائونٹنٹ، ماہنامہ دارالاسلام کا نائب مدیر، پروف ریڈر، مزید برآں طلبہ کو ہنر سے آراستہ کرنے کے لیے قائم شدہ جفت سازی کے کارخانے اور کپڑے کی کھڈیوں کا نگران تھا۔ اس مختصر بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شب و روز کیسے گزرتے ہوں گے۔ 

چودھری نیاز علی خان کی رہائش نہر کے اُس پار ایک قلعہ نما وسیع و عریض مکان میں تھی، اُسے ’قلعہ جمال پور‘کہتے تھے۔ ابتدائی ایام میں میرے کھانے پینے کا انتظام وہیں تھا۔ عصر کے بعد باہر لان میں چودھری صاحب، اُن کے صاحبزادے اور آنے جانے والے مہمان بیٹھ جاتے تھے اور ایک مجلس سی جم جاتی تھی، جس میں علمی، اصلاحی، سیاسی، غرض ہرموضوع پر گفتگو ہوتی تھی۔ مغرب کے بعد سب ایک میز پر کھانا کھاتے تھے۔ رات کو مَیں ’دارالاسلام‘ آجاتا تھا۔ میں نے ’دارالاسلام‘ میں انتہائی مصروف اور بھرپور زندگی گزاری۔ صبح اُٹھ کر نمازِ فجر اوردرسِ قرآن اور اُس کے بعد ایک طویل واک (walk)۔ اس میں طلبہ کے ساتھ ڈیڑھ دوکلومیٹر تیز دوڑ بھی ہوتی تھی۔ 

’دارالاسلام‘ میں ملک بھر سے مہمانوں کی آمدورفت رہتی تھی۔ اُن میں سے چند ایک کا ذکر: 

  • پروفیسر یوسف سلیم چشتی: اُن سے یہیں پہلی ملاقات ہوئی۔ چشتی صاحب کا قیام چودھری صاحب کی رہائش گاہ میں تھا، لیکن وہ دن کا بیشتر حصہ ’دارالاسلام‘ میں گزارتے اور گھنٹوں لائبریری میں مطالعے میں مصروف رہتے، باقی وقت علمی گفتگو میں صرف ہوتا تھا۔ ’دارالاسلام‘ کی مختصر لائبریری میں بعض بڑی نایاب اور نہایت قیمتی کتب موجود تھیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد اور مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال  و البلاغ  کی جلدیں یہیں دیکھیں جو چند ایک پرچوں کے علاوہ مکمل تھیں۔چشتی صاحب کا مطالعہ ہمہ جہت تھا۔ وہ کتاب وسنت، تاریخ، فلسفہ، ادب اور تقابلِ ادیان کے متبحرعالم تھے۔ 
  • عبدالمجید قرشی: عبدالمجید قرشی صاحب ’سیرت کمیٹی‘ پٹی (ضلع لاہور) کے سیکرٹری سے بھی یہیں پہلی بار تعارف ہوا۔ وہ نہایت سادہ مزاج ، سادہ پوش اور سادہ خوراک تھے۔ سردی ہو یا گرمی، کھلی آستینوں کا سفید کُرتا اور سفید تہبند اُن کا لباس تھا۔ زیادہ سردی محسوس ہوتی تو اُوپر ہاف کوٹ پہن لیتے تھے۔ عام طور پر ناشتے کے لیے ایک روٹی جیب میں رکھ لیتے تھے۔ فجر کے بعد کافی دیر ٹہلتے، ایک لقمہ توڑ کر منہ میں رکھ لیتے اور دیر تک چباتے۔ اگر مطالعے یا تحریر میں مصروف ہوتے تو بھی یہی صورت ہوتی۔ ایک روٹی آدھ پون گھنٹے میں ختم کرتے تھے۔ 

موصوف اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ ’سیرت کمیٹی‘ کے بانی اور مستقل سیکرٹری تھے۔ اُنھوں نے سیرت النبیؐ پر بے شمارمضامین لکھے۔ متعدد چھوٹی بڑی کتابیں تحریر کیں اور شائع کیں۔ وہ سیرت النبیؐ کے جلوس اور جلسوں کے بانی حضرات میں سے تھے۔ اُس دور میں جلوس ایک ہجوم اور ہڑبونگ کی صورت میں نہ ہوتے تھے، بلکہ علما جلوس کی قیادت کرتے، ہرچوراہے پر رُک کر مختصر تقریر ہوتی۔ درود وسلام شرکا کی زبانوں پر ہوتا، غرضیکہ یہ جلوس تبلیغ دین اور سیرت النبیؐ کے تذکار کا دریا ہوتا تھا۔ سیرت کی کتب اور رسائل کے علاوہ قرشی صاحب نے ہفت روزہ ایمان جاری کیا۔ وہ رسالے کے مدیر ، پروف ریڈر اور ناشر تھے۔ وہی چندے کے منی آرڈر وصول کرتے اور ان کا ریکارڈ رکھتے تھے، خود ہی خریداروں کے نام پتے لکھ کر رسالہ ڈاک کے حوالے کرتے تھے۔ 

قرشی صاحب نے درس قرآن شائع کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ انھوں نے کئی منصوبے شروع کیے، جن میں نہایت اہم منصوبہ اسلامی یونی ورسٹی کے قیام کا تھا۔ 

’دارالاسلام‘ سے مَیں لاہور واپس آیا تو عبدالمجید قرشی صاحب نے بڑے اصرار سے مجھے دعوت دی کہ میں ’سیرت کمیٹی‘ میں اُن کا شریکِ کار ہوجائوں۔ میں نے پس و پیش کی تو انھوں نے اپنی چیک بُک میرے سامنے رکھ دی کہ جس قدر چاہوں، سال بھر کی پیشگی تنخواہ وصول کرلوں۔ لیکن میں ادارہ اصلاح و تبلیغ کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔ وہ یکّہ و تنہا کام کر رہے تھے۔ ایک نوجوان حمیدانور اُن کے ساتھ تھا۔ 

پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ پٹی کا قصبہ ہندستان میں رہ گیا۔ قرشی صاحب نے لاہور ہجرت کرلی، اور میکلوڈ روڈ پر روزنامہ زمین دار  کے دفتر کے قریب ایک متروکہ بلڈنگ میں قیام پذیر ہوگئے۔ یہ پُرآشوب دور تھا جہاں ایک روز کسی نے اُنھیں شہید کر دیا۔ گمان ہے کہ ملازم کا کام ہوگا۔ اُس نے پیسے کے لالچ میں ملک و ملّت کو ایک انتہائی مخلص ہستی سے محروم کر دیا۔ 

  • چودھری افضل حق: قائد احرار چودھری افضل حق صاحب سے بھی میری ملاقات چودھری نیاز علی خان صاحب کے مکان قلعہ جمال پور میں ہوئی۔ وہ اُن کے قریبی عزیز تھے، جو ڈلہوزی جاتے ہوئے چند دن کے لیے اُن کے ہاں ٹھیرے تھے۔ گلا بیٹھا ہوا تھا، لیکن گفتگو پُرجوش انداز میں فرماتے تھے۔ اُن کے اہل خانہ ساتھ تھے۔ اُن کے بیٹے کی عمر اُس وقت دس بارہ سال ہوگی۔ آزادی کی لگن اور انگریز کے خلاف نفرت ان کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 
  • محمد صدیق مستری:محمد صدیق مستری صاحب، محترم چودھری صاحب کے مہمان تھے، لیکن اُن کا مستقل مسکن قیامِ پاکستان تک ’دارالاسلام‘ کے دو کمروں والے مکان میں رہا۔مستری صاحب اپنے وطن کپور تھلہ میں آٹے کی چکّیوں کے ڈیزل انجنوں کو نصب کرنے اور مرمت کرنے کا کام کرتے تھے۔ آپ جماعت اسلامی کے اوّلین ارکان میں سے تھے۔ 

مستری صاحب کا مطالعہ نہایت گہرا اور وسیع تھا۔ دین اور دین کے تقاضوں پر اُن کی نظر گہری تھی۔ اُن کی زندگی اسلامی تعلیمات کا مظہر تھی۔ وہ انگریز کی حکومت کو طاغوتی نظام سمجھتے اور کسی طور بھی اُس سے تعاون کو جائز نہ سمجھتے تھے۔ اُن کی اہلیہ مالیخولیا کی مریضہ اور اس وہم میں گرفتار تھیں کہ ساری دُنیا اُن کے شوہر کی دشمن ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اُنھیں نماز کے علاوہ گھر سے باہر ہی نکلنے نہ دیتیں، اور وہ بھی گھڑی دیکھ کر چند منٹ کے لیے۔ اگر مقررہ منٹوں سے کچھ دیر زیادہ ہوجاتی تو لاٹھی ٹیکتی ہوئی مسجد پہنچ جاتیں اور للکارتیں: ’’دشمنوں میں بیٹھے کیا کررہے ہو؟‘‘ 

 خوش قسمتی سے موصوفہ کو مجھ پر کچھ اعتماد تھا۔ میں مستری صاحب کے پاس جابیٹھتا یا وہ میرے پاس تشریف لے آتے۔ اُنھوں نے مجھے الصلوٰۃ معراج المؤمن  (نماز مومن کی معراج ہے) کی لذت سے آشنا کیا۔ نمازِ عشاء کے بعد جب سب لوگ مسجد سے رخصت ہوجاتے تو ہم دونوں دو نفل باجماعت ادا کرتے۔ اس میں وقت ضرور لگتا، لیکن یہ حدیث مبارکہ وارد ہوتی محسوس ہوتی۔ یہ بات قلبی واردات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا ذریعہ دو اُمور ہوتے ہیں: ایک یہ کہ نماز کے جملہ الفاظ اور اوراد زبان سے یوںادا کیے جائیں کہ اپنے کانوں تک آواز پہنچے اور شروع سے آخر تک نماز کے الفاظ کے مطالب پیش نظر رہیں۔ مزیدبرآں نماز کی ہرحرکت کا مقصود پیش نظر ہو، یعنی ہم نے کانوں کی لو تک ہاتھ سب سے قطع تعلق کرنے کے لیے بلند کیے ہیں۔ ہم کیوں اور کس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں؟ رکوع میں ہمارا سر کس کے آگے خم ہے، سجدے میں ہم اپنی پیشانی اور ناک کس کے سامنے رگڑ رہے ہیں؟ اور زبان سے ربّی الاعلٰی  کا اقرار کر رہے ہیں۔ 

محمد صدیق مستری گو عرفِ عام میں عالم نہ تھے، لیکن سچ یہ ہے کہ قرآن کریم کے مطالعے کا ذوق اور معنی کی حقیقت تک پہنچنے کا انداز انھوں نے خوب خوب دل نشین کرایا۔ انھوں نے لفظ ’طاغوت‘ پر مجھے ایک مضمون لکھنے کی تحریک دی۔ اس کام میں کئی دن لگے، مگر ’طاغوت‘ کے متعین معنی اور اس کی حقیقت واضح ہوگئی۔ لفظ ’طاغوت‘ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ میں نے مستری صاحب کی تحریک پر یہ تمام آیات ایک کاغذ پر تحریر کرلیں۔ اس کے ساتھ ہی لفظ ’طاغوت‘ کے تمام مشتقات مثلاً طغٰی، طُغیان وغیرہ کی آیات تحریر کیں۔ ان سب آیات کا ترجمہ کیا تو ’طاغوت‘ کا ایک ہی مفہوم اور ایک ہی ترجمہ متعین ہوگیا، یعنی وہ بااختیار، صاحب ِ قوت ، جو اپنے اقتدار کے نشے میں حد سے بڑھ جائے اور سرکش ہوجائے، حکمِ خداوندی کے آگے سر نہ جھکائے۔ اگر ایک لفظ میں مفہوم کو ادا کرنا ہوتو’حد سے بڑھ جانے والا‘ ہوگا۔ یہ مضمون اس وقت کے متعدد علمی جرائد کو بھیجا، بعض نے اسے نمایاں طور پر شائع کیا ۔ 

  • علّامہ محمد اسد (سابق لیوپولڈوئیس):جن دنوں میرا قیام ’دارالاسلام‘ میں رہا، یہ دوسری عالمگیر جنگ کا زمانہ تھا۔ حکومت ِ برطانیہ نے ہر اُس شخص کو قیدوبند میں ڈالا، یا نظربند کیا ہوا تھا جس پر اُسے ذرا بھی شک تھا۔ علّامہ محمداسد (سابق لیوپولڈوئیس) ایک یہودی خاندان سے کٹ کر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ گو، اب سارا عالمِ اسلام ان کا وطن تھا، خاص طور پر سعودی عرب کی شہریت اُنھیں حاصل تھی، محض اس ’تہمت‘ پر کہ وہ آسٹریا میں پیدا ہوئے، اُنھیں نظربند کردیا گیا‘۔ 

چودھری نیاز علی خان صاحب سے اُن کے گہرے مراسم تھے۔ علامہ صاحب کی اہلیہ اُن کی بیٹی بنی ہوئی تھیں۔ آخرکار جب وہ رہا ہوئے تو چودھری صاحب اور اُن کے رفقا کے ساتھ بندہ بھی امرتسر ریلوے اسٹیشن پر اُن کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھا۔ وہ اپنی بیگم اور بیٹے کے ساتھ چودھری صاحب کے ساتھ قلعہ جمال پور میں مقیم رہے۔ اب چودھری صاحب کی کوٹھی کے باہر بعدعصر جمنے والی مجلس میں علامہ اسد روحِ رواں ہوتے تھے۔انگریزی زبان میں اُن کی عالمانہ گفتگو نہایت توجہ سے سنی جاتی تھی۔ اُن کے حسین چہرے پر مختصر سی چھدری داڑھی نہایت بھلی لگتی تھی۔ ایک دن ایک صاحب نے [اُن کی]داڑھی پر بے ہنگم سوال کردیا۔ علامہ صاحب جوش میں آگئے۔  فرمایا: ’’مسٹر! اگر میری داڑھی کے دو بال بھی ہوتے تو میں جان سے زیادہ اُن کی حفاظت کرتا‘‘۔ 

علامہ اسد نے یہیں بخاری شریف کا انگریزی میں ترجمہ تشریح کے ساتھ شروع کیا۔ ’دارالاسلام‘ میں اس کے لیے ایک مختصر سا پریس بھی لگایا۔ قیامِ پاکستان تک چار پارے طبع ہوسکے تھے۔ محترم علامہ اسد نے ایک ایک لفظ کی تحقیق کا حق ادا کیا۔ مولانا عطاء الرحمٰن ایک جیّد عالم ’دارالاسلام‘ میں مستقل مقیم تھے۔ اگر کسی لفظ پر علامہ اسد کو اشتباہ ہوتا تو بلاتکلف اُن سے رجوع کرتے تھے۔ دوسری طرف علامہ اسد نے طباعت اور اشاعت کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ’دارالاسلام‘ کے قیام کے دوران میں محترم علامہ اسد سے میں نے بہت سی باتیں سیکھیں۔ 

  • چودھری نیاز علی خان:چودھری صاحب نہایت مخلص، ایثار پیشہ اور باکردار بزرگ تھے۔ بڑھاپے میں نوجوانوں سے زیادہ نوجوان تھے۔ صبح سے شام تک سرگرمِ عمل رہتے تھے۔ کبھی اُن کے چہرے پر تکان کے آثار نظر نہ آئے۔ اُن کے معمولات کچھ اس نوعیت کے تھے: 

نمازِ تہجد کے بعد قرآن کریم کا مطالعہ کرتے اور ضروری مضامین اور خطوط کے جواب لکھتے۔ نمازِ فجر کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ قرآن کریم کے ترجمے پر کام کرتے تھے۔ وہ ترجمے کا کام اس طرح کرتے تھے کہ اُن کے سامنے بڑے سائزکا ایک رجسٹر ہوتا تھا۔ اس کی پہلی سطر میں قرآن کریم کی آیت چسپاں کرتے، پھر نیچے متعدد مترجمین کے کیے ہوئے تراجم نقل کرتے، اس احتیاط کے ساتھ کہ ہرسطر کا ترجمہ اُسی سطر میں آجائے۔ اُن کی یہ خدمت قرآن کریم پر کام کرنے والوں کے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مترجمین قرآن نے کلام اللہ کی تفہیم میں کتنی محنت کی ہے، اور مفہومِ قرآنی کے قریب تر جانے کی کس قدر کوشش کی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد تاج کمپنی کی طرف سے دس مختلف تراجم پرمشتمل پانچ پاروں کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی۔ 

قرآن کریم کے ترجمے سے فارغ ہو کر چودھری صاحب ناشتہ کرتے۔ اُن کا معمول تھا کہ تمام مہمان ناشتے اور کھانے میں ایک میز پر اکٹھے ہوں۔ ناشتے میں توس، انڈا، پراٹھا، مکھن دہی، اور مربّہ ہمیشہ ہوتا تھا۔ دودھ اور چائے اس کے علاوہ ناشتے کا جز ہوتی۔ ناشتے کے بعد چودھری صاحب بالعموم ’دارالاسلام‘ آجاتے۔ اُن کا حلقۂ احباب خاصا وسیع تھا اور خط کتابت اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس کے علاوہ حسابات مرتب کرتے، ماہنامہ دارالاسلام کے لیے مضامین کا انتخاب کرتے۔ وہ رسالے میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر اپنے خاص انداز میں بالاقساط لکھ رہے تھے۔ ماہنامہ دارالاسلام میں طبع شدہ پہلا پارہ اور تیسواں پارہ جدا کتابی صورت میں بھی چھپ گیا ہے (ان کا دوسرا ایڈیشن جوہر آباد سے شائع ہوا ہے)۔ چودھری صاحب ادارے کی جزئیات پر نظر رکھتے تھے۔ دوپہر کو کھانے کے وقت اپنے دولت خانے پر واپس جاتے، کھانے اور نمازِ ظہر کے بعد قیلولہ اُن کا معمول تھا۔ عام طور پر دوپہر کے بعد بھی ’دارالاسلام‘ کا چکّر لگاتے تھے۔ 

چودھری صاحب کی مزروعہ اراضی وسیع و عریض تھی۔ جس میں امرود، لوکاٹ، آم اور مختلف پھلوں کے کئی باغ تھے۔ اُن کی نرسری نہایت اعلیٰ درجے کی تھی۔ ملک کے دُور دراز مقامات سے پودوں کے لیے فرمائشیں آتی تھیں۔چودھری صاحب کے بڑے بیٹے چودھری محمد اسلم خان ایگریکلچر میں بی ایس سی کے بعد اسی کام کے لیے وقف ہوکر رہ گئے تھے۔ اُن کے دوسرے بیٹے چودھری محمداعظم خان نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اقوام متحدہ میں بطورِ ماہر معاشیات ملازم ہوئے۔  

چودھری نیاز علی خان صاحب نے مضمون نگاری میں ایک اُپج پیدا کی تھی۔ وہ طویل مضامین کا اختصار اس طور کرتے کہ مضمون کے غیرضروری فقرے اورمترادف الفاظ قلم زد کر دیتے۔ اس طرح نہ مضمون کا تسلسل ٹوٹتا، نہ قاری کو کوئی تشنگی محسوس ہوتی۔ اگر مضمون نگار خود اپنے مضمون کی تلخیص کو پڑھتا تو اسے کسی تبدیلی کا گمان نہ ہوتا تھا۔ 

’دارالاسلام‘ میں میری زندگی کے تیرہ ماہ انتہائی مصروفیت کے تھے۔ رات کو صرف چند گھنٹوں کے لیے کمر سیدھی کرنے کا موقع ملتا تھا اور یہ سب کچھ میں نے اپنے اُوپر اَزخود مسلط کیا ہوا تھا۔ چودھری صاحب نے کبھی کوئی ایسی پابندی مجھ پر عائد نہ کی تھی۔ پٹھان کوٹ سے ہی پُرفضا پہاڑی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، ڈلہوزی کے مشہور پہاڑ کچھ زیادہ دُور نہیں، لیکن اس کے باوجود ایک دو دن کے لیے بھی وہاں جانے کا موقع نہ ملا۔ ’دارالاسلام‘ سے لاہور واپسی کے بعد میں حسب ِ سابق ادارہ اصلاح و تبلیغ کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا۔ 

لاہور واپسی 

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ’دارالاسلام‘ سے لاہور آگئے تھے اور یہاں اُنھوں نے ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت اسلامی کے نام سے ایک دینی و سیاسی تنظیم قائم کردی تھی۔ چودھری صاحب کا اُن سے اختلاف رائے کام کے طریقے سے تھا، کوئی ذاتی مخالفت نہ تھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ سیّدابوالاعلیٰ مودودی بھی ’دارالاسلام‘ کے ماحول کو بھولے نہیں تھے۔ چودھری نیاز علی خان صاحب بھی انھیں واپسی کے لیے تحریک دیتے رہتے تھے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے بعد سیّدمودودی کو بھی بڑے شہر کی بھیڑ بھاڑ سے کچھ فاصلے پر رہ کر اپنے ساتھیوں کی تربیت کی ضرورت تھی۔ چودھری صاحب اور اُن کے درمیان سلسلہ جنبانی ہوا اور ۱۹۴۲ء کے وسط میں وہ دوبارہ ’دارالاسلام‘ چلے گئے۔ معاملات نبٹانے کے لیے مجھے ایک ماہ مزید ٹھہرنا پڑا۔ یوں مجھے ایک مہینہ مولانا مودودی صاحب کی رفاقت کا موقع ملا۔ 

وقت گزرتا رہا، حالات دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر اس نہج پر آگئے کہ نوآبادیاتی طاقت نے آسودگی اسی میں محسوس کی کہ برصغیر کو آزادی مل جائے۔ قیامِ پاکستان کے بعد چودھری صاحب پہلے لاہور اور پھر جوہرآباد میں قیام پذیر ہوگئے۔ 

چودھری صاحب سے میرے تعلقات 

’دارالاسلام‘ سے آنے کے بعد بھی چودھری صاحب سے میرے تعلقات حسب سابق رہے۔ وہ مجھے خط لکھتے تو ’اخویم حافظ نذراحمد‘ سے مخاطب کرتے۔ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی تو ہرہفتے دو ایک مرتبہ اُن سے ضرور ملاقات ہوتی تھی۔ 

لاہور میں چودھری صاحب کا قیام اپنے داماد رانا جہاں داد خان کی کوٹھی پر تھا۔ وہ ان دنوں ایس ایس پی لاہور تھے۔ میں ایک دن حاضر ہوا تو فرمانے لگے: ’’مجھے رات بھر نیند نہیں آتی، ڈاکٹر محمد مسعود صاحب کے کلینک لے چلو‘‘۔ میں نے وہیں سے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلی فون کیا۔ انھوں نے کہا: ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ چودھری صاحب جیسے بزرگ چل کر میرے ہاں تشریف لائیں، میں خود اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں‘‘۔ چودھری صاحب کا جواب تھا کہ کنواں پیاسے کے پاس نہیں جایا کرتا۔ آخر طے پایا کہ چودھری صاحب ہی ڈاکٹر صاحب کے مطب پر جائیں گے۔ 

ڈاکٹر محمد مسعود صاحب نے بڑے احترام سے استقبال کیا۔ علیک سلیک کے بعد بیماری کی بات چھڑی کہ ’رات کو نیند نہیں آتی‘۔ ڈاکٹر صاحب نے استفسار کیا۔ ’کیا ایسی بات تو نہیں کہ آپ کچھ سوچیں اور آپ کے دل کی بات زبان سے نکلے بغیر پوری ہوجائے؟‘ چودھری صاحب نے جواب دیا: ’’یہ بات تو ہے، مثلاً مجھے علامہ اسد کی Islam at the Crossroads کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چند منٹ کے بعد اُس کا ناشر خود لے کر آگیا۔ آج ہی آپ سے ملاقات کے لیے حافظ صاحب کی ضرورت تھی تو بن بلائے یہ خود آگئے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ’’آپ کو نیند تو آجائے گی‘‘، لیکن یہ ’کرامت‘ ختم ہوجائے گی۔ چودھری صاحب نے بڑے اعتماد سے فرمایا: ’’میں ایسی کرامتوں کا قائل نہیں‘‘۔ 

اپنے وطن مالوف سے ہجرت کرنا اور ’دارالاسلام‘ جیسے مرکز کو چھوڑنا کوئی معمولی بات نہ تھی، مگر چودھری صاحب کا جذبۂ دعوتِ دین اُسی طرح جوان تھا۔ ایک دن مجھ سے فرمایا: ’’لاہور کے مسلمانوں کو کیا ہوگیاہے؟ اُن کی حمیت و غیرت کہاں گئی؟ عورتوں نے برقع اُتار دیا ہے، بے حجابانہ سڑکوں پر پھر رہی ہیں۔ اگر مجھے کوئی ایسا نوجوان مل جائے جو سٹول اُٹھا کر میرے ساتھ چلے تو میں مال روڈ کے ہرچوک پر کھڑے ہوکر ان کی غیرت کو للکاروں‘‘۔ بالآخر وہ لاہور چھوڑ کر جوہرآباد منتقل ہوگئے۔ 

جوہـر آباد 

یہاں انھیں ہندستان میں اپنی چھوڑی ہوئی جائیداد کے عوض زرعی اراضی اور وسیع قطعات شہری آبادی میں الاٹ ہوئے تھے۔ اپنی رہائش کے لیے انھوں نے بلاک-اے جوہرآباد میں کوٹھی تعمیر کی تھی۔ چودھری نیاز علی خان صاحب نے چند پلاٹ چھوڑ کر اُسی ہلاک کے آخر میں ’دارالاسلام‘ (پٹھان کوٹ) کے عین نمونے پر تعمیرات کیں۔ ظاہر ہے پٹھان کوٹ کے مقابل یہ چھوٹا سا قطعۂ اراضی ہے، لیکن انھوں نے یہاں چھوٹے پیمانے پر ’دارالاسلام‘ تعمیر کردیا۔ اس میں دارالاقامہ بھی ہے، مسجد بھی ہے، دینی تعلیم کے لیے کمرے بھی، مزید برآں ہائی اسکول کی عمارت ہے، لائبریری اور ریڈنگ روم کا وسیع ہال بھی ہے۔ 

بندہ ہرسال جوہرآباد جاتا رہا ہے۔ عام طور پر۱۴؍اگست کو پروفیسر افتخاراحمد چشتی، جوہرآباد کے لیے رفیقِ سفر ہوتے تھے۔مرحوم چودھری نیاز علی خان صاحب کو ہم دونوں سے اس قدر محبت اور قلبی تعلق تھا کہ جوہرآباد دارالاسلام مسجد کی تعمیر کا آغاز ہمارے سالانہ دورے تک مؤخر رکھا۔ ہمیںاس کا قطعاً علم نہ تھا۔ نمازِ فجر کے بعد ہمیں وہاں لے گئے، بنیاد کھدی ہوئی تھی، ایک چٹائی پر بیٹھ کر مجلّہ صدقِ جدید (لکھنؤ)کا ایک مضمون خود پڑھ کر سنایا جو دارالاقامہ اور مسجد کے موضوع پر تھا۔ مجھ حقیر سے فرمایا: ’’چلو مسجد کی بنیاد کے لیے اینٹ رکھ دو‘‘۔میں لرزگیا، اینٹ پکڑ تو لی، لیکن رکھنے کی ہمت نہ ہوئی، تاہم آخر اپنے اس بزرگِ محترم کے اصرار پر پہلی اینٹ رکھی۔ دوسری اینٹ پروفیسر افتخاراحمد چشتی صاحب سے رکھائی گئی، تیسری اینٹ خود رکھی ۔ اللہ اللہ! وہ کس قدر خُردنواز تھے۔ 

 

۲۴ ستمبر۲۰۲۵ء کو ’النہضہ اسلامی پارٹی‘ تاجکستان کی صف اوّل کے رہنما معروف عالم دین علّامہ زبیداللہ روزیق (۱۹۴۶ء-۲۰۲۵ء) تاجکستان کے شہر فاہدات کی جیل میں انتقال کرگئے۔ شیخ روزیق کی عمر۸۳برس کے قریب تھی۔ ’حزب النہضہ‘ ۱۹۷۳ء میں قائم ہوئی۔ اس کی بنیاد حسن البنا شہید، سید قطب شہید، محمد الغزالی، اور سید مودودی کے افکار پر رکھی گئی، مگر یہ جماعت اپنے اندرونی نظام کےلحاظ سے مکمل خود مختار تھی۔ ان شخصیات کی فکر پر قائم تحریکوں سے کوئی رہنمائی اور ہدایات نہیں لیتی تھی۔ بنیادی طور پر تو اس کا سرچشمۂ رہنمائی قرآن و سنت ہی تھا۔ پارٹی کی بنیاد سیّد عبداللہ نوری [۱۹۳۷ء- ۹؍اگست ۲۰۰۶ء] نے ۱۹۹۰ء میں ’استراخان‘ میں رکھی۔ تب اگرچہ اشتراکی روس میں صدر گوربا چوف کی زیرقیادت ’گلاسناسٹ‘ (کشادگی) کا دور تھا، مگر پارٹی کی تشکیل غیرقانونی تھی۔ یہ تاسیس زیرزمین تھی، جب کہ عزم کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ ماسکو کی سامراجی حکومت سے بے زاری اور آزادی کی سمت سفر تھا۔ اس طرح عملاً ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۷ء کے عرصے میں النہضہ، تاجکستان کی آزادی کی جنگ میں سرگرم رہی۔ 

۱۹۹۲ء میں جب سابق کمیونسٹ صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تو پارٹی نے پارلیمنٹ کے سامنے ایک ہفتے تک دھرنا دیے رکھا۔ آخرکار رحمان علی نائیف نے مظاہرین کے مطالبات مان لیے اور اتحادی حکومت قائم ہو گئی۔ مگر اسی سال نائف نے استعفا دے کر ماسکو میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ حزب النہضہ نے اکبراسکندروف کی سربراہی میں اتحادی حکومت کا ساتھ دیا۔ لیکن جب ماسکو نے دبائو ڈالا تو اسکندروف بھی اتحادی حکومت کی سربراہی سے مستعفی ہوگیا اور ایک سابق کمیونسٹ صدر بن بیٹھا اور سابق کمیونسٹ فوجی دارالحکومت میں داخل ہو گئے۔ اس طرح ’النہضہ‘ کو سابقہ کمیونسٹ پارٹی کی باقیات پر مشتمل ایک حددرجہ سخت گیر اور استبدادی حکومتی سختیوں اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کے بانی سیّد عبداللہ نوری کو فوجی حکومت نے اغوا کیا اور پارٹی کی قیادت کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ یہ بات معروف ہے کہ ۲۰۰۶ء میں سیّد عبداللہ نوری کو زہر دے کر مارا گیا تھا۔ 

جناب زبید اللہ روزیق کا شمار النہضہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں ہوتا تھا۔ اس پارٹی نے  دینی آزادیوں کے دفاع اور جمہوری اصلاح کے لیے بڑی جان دار آواز بلند کی۔ زبید اللہ ۱۹۶۷ء میں کمیونسٹ ریاستی جبر کے باوجود زیرزمین اسلامی تحریک سے وابستہ ہوئے۔ تب تاجکستان پر ماسکو کی حکومت تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ۱۹۹۲ء میں جب یہ تحریک باقاعدہ رجسٹر ہوئی تو زبیداللہ اس کے بانیوں میں شامل تھے۔ وہ پارٹی کے علمی شعبے کے صدر مقرر ہوئے، جس کے ذمے اہل علم کی تیاری تھا۔ لیکن ۲۰۱۳ء میں پارٹی پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں، مگر جناب زبیداللہ اس کے بعد بھی علمی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ اتنی طویل اور مسلسل تحریکی و دینی اور علمی خدمات کی بنا پر وہ ملک میں اسلامی بیداری کی علامت بن گئے تھے۔ 

۲۰۱۵ء میں حکومت نے پارٹی کی بساط مکمل طور پر لپیٹتےہوئے بڑے وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں قائدین اور کارکنان کو گرفتار کیا، شیخ زبیداللہ روزیق ان میں سرفہرست تھے۔ ان پر ’دہشت گردی‘ اور حکومت کا تختہ الٹنے کی فرد جرم عائد کرتے ہوئے ۲۵سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس الزام کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی مسترد کیا اور اسے محض اسلامی تحریک مزاحمت کوکچلنے کا اقدام قرار دیا۔ گرفتاری کے ساتھ ہی اُن کو ’فاہدات جیل‘ کی شدید حراست میں رکھا گیا، جو بدترین جیلوںمیں سے ایک ہے۔ 

علّامہ زبید اللہ اپنی گرفتاری سے وفات تک مختلف جسمانی عوارض کے ساتھ قید کی سختیاں صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے۔ جولائی ۲۰۲۰ء میں انھیں جیل کے نہایت تنگ و تاریک سیل میں بند کیا گیا، جہاں شدید تعفن تھا اور کیڑوں مکوڑوں کی بہتات تھی۔ ایسا کھانا دیا جاتا، جو جانوروں کے لیے بھی مناسب نہیں تھا۔ نومبر۲۰۲۱ء میں انھیں دوبارہ دو ماہ کال کوٹھڑی میں مولانا رحمت اللہ رجب کے ہمراہ رکھا گیا۔ 

جولائی ۲۰۲۲ء میںانھیں قیدتنہائی میں رکھا گیا، کہ ان کا جرم دوسرے قیدیوں کو تعلیم دینا قرار پایا۔ اس دوران، ان کے زخم مسلسل رستے رہے۔ انھیں اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ ظلم وستم اور تشدد کے ان تمام حربوں اور ہتھکنڈوں کا مقصد ان کے عزم وہمت اور صبروثبات کو متزلزل کرنا تھا، مگر وہ اللہ کی مدد سے ثابت قدم رہے۔ 

علّامہ زبیداللہ روزیق کی وفات سے چند روز قبل انھیں جیل کے چھوٹے سے ہسپتال میں منتقل کیا گیا، مگر پھر جلد ہی واپس لا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اور یہ قدم ڈاکٹروں کی ہدایات کے برعکس اٹھایا گیا تھا۔ یاد رہے، ۲۰۲۴ء میں ایک اور رہنما محمد علی فائزمحمد بھی ۶۵ سال کی عمر میں اسی جیل کے ہسپتال میں جان سے گزر گئے تھے۔ 

’ہیومن رائٹس واچ‘ ۲۰۲۵ء کی رپورٹ کے مطابق ایسی میڈیکل غفلت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قیدی سسک سسک کر موت کے منہ میں چلا جائے۔ ایسا ظالمانہ رویہ، اسلامی تحریک کے کارکنوں کے علاوہ دیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اس وحشیانہ طرزِعمل کے خلاف ہیومن رائٹس واچ نے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سخت بیان جاری کیے ہیں جو قیدیوں کو اس طرح مارنے کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پارٹی کے ایسے لاتعداد  قیدیوں کو رہا کیا جائے، جو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے برسوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عذاب سہ رہے ہیں۔ 

علّامہ زبید اللہ روزیق نے جیل سے اپنے رفقاء کے لیے یہ وصیت بھیجی : 

میری طرف سے احباب کو سلام پہنچا دیجیے اور انھیں بتا دیجیے کہ ہم اپنے عہد پر قائم ہیں۔ الحمدللہ، نہ بدلے ہیں، نہ ڈگمگائے ہیں۔ لہٰذا ،آپ بھی ثابت قدم رہیں۔ ایمان، عزیمت اور استقامت سے اپنا سفر جاری رکھیں۔ ظالم کی حکومت کی زندگی ایک پل پر ہی مشتمل ہوتی ہے! ظلم کو آخرکار ختم ہونا ہے خواہ کتنا طویل ہو جائے!

تاشقند، سمرقند اور بخارا سے اگر کچھ لوگ واقف نہ ہوں تو بخارا کے محدثِ بے مثل امام بخاری رحمہ اللہ کو تو یقینا جانتے ہوں گے۔ یہ تینوں شہر ازبکستان میں واقع ہیں۔ معروف فاتح جنگجو امیر تیمور بھی اسی ملک کے شہر سمرقند میں پیدا ہوا تھا۔ اس ملک نے علم و تحقیق، تدریس و تفسیر اور حدیث و فقہ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر اسی ملک کے شہر فرغانہ کا باشندہ تھا۔ 

ترکستانی ممالک پر اشتراکی روسی سلطنت (سوویت یونین:USSR) کا قبضہ ہوا تو لٹے پٹے مہاجروں میں سے ایک مہاجر قاری یوسف نےکہوٹہ میں پناہ لے کر وہاں چنبہ محلہ میں پھولوں بھری مسجد تعمیر کی۔ ان قاری صاحب سے ناظرہ قرآن پڑھنے کی مجھے سعادت حاصل ہوئی۔ اُردو ڈائجسٹ کے ۱۹۶۹ء کے شماروں میں معروف ازبک عالم دین اعظم ہاشمی کی داستانِ ہجرت چھپتی رہی۔ ان کے دوبیٹوں میں سے ایک ریڈیو پاکستان کی ازبک عالمی سروس چلاتے تھے۔ دوسرے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز میں ازبک زبان کے استاد تھے، ان سے بھی قریبی رابطہ رہا۔ 

سوویت یونین کی تحلیل پر ۲۹ دسمبر ۱۹۹۱ء کو یہ ملک آزاد ہوا، تو پاکستان نے اس سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ ان ایام میں ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ دعوۃ اکیڈمی، انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اسی سال وہ نو آزاد ترکستانی ممالک سے چالیس کے لگ بھگ علما کو چندہفتوں کی تربیت کے لیے لائے۔ ڈاکٹر غازی خاموشی سے کام کرتے اور یہی تلقین کرتے کہ کام کی اشاعت ضروری ہو تو کرو، ورنہ خود نمائی کے لیے وہ کام کبھی نہ کرو جس سے مقصد کو نقصان پہنچے۔ انھوں نے ہمارے سامنے سعودی حکومت سے ازبک زبان میں قرآن مجید کے نسخے منگوا کر ازبک مذہبی بورڈ کے حوالے کیے۔  

ماضی کے نو آزاد ازبکستان اور پاکستان کے تعلقات 

آج کا ازبکستان سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کا ازبکستان بھی سامنے رہے، ورنہ ماضی اور حال میں ربط نہیں ملے گا اور مستقبل پر نظر ڈالنا آسان نہیں ہوگا۔ سوویت یونین تحلیل ہوا تو ترکستانی اور متعدد مشرقی یورپی ممالک آزاد ہو گئے۔ یہ ملک آزاد تو ہو گئے تھے لیکن ان کی ہیئت حاکمہ ماضی ہی کے ریاستی کارندوں اور سوویت فکر پر کھڑی تھی۔ لہٰذا، ان ریاستوں سے ہمارے سرکاری تعلقات کا قیام بڑی احتیاط کا متقاضی تھا۔ پاکستان نے ازبکستان سے بھی فوراً سفارتی تعلقات قائم کیے، جس سے فضائی روابط بھی جڑ گئے۔ تب کے ہمارے اخوانی صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ڈاکٹر حسین حامد حسان اور ڈاکٹر غازی رحمہم اللہ نے بھی بڑھ چڑھ کر ان ترکستانی ممالک سے قریبی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ ازبک اہل علم، حکام اور بالخصوص صدر قازقستان نور سلطان نذر بائیوف سے ان دونوں کے قریبی تعلقات تھے۔ 

نو آزاد ازبکستان پر بھی مطلقًا اشتراکی فکر کی چھاپ تھی۔ مختصر سی لیکن توانا مسلم فکر کا دائرہ نہایت محدود تھا۔ لوگوں کا رہن سہن غالب حد تک مغربی تہذیب کے اشتراکی پنجے میں تھا۔ ادھر حکام نے تمام مقبوضہ مسلم ممالک میں آبادی کی ترتیب چند عشروں میں کلیتاً بدل ڈالی تھی۔ بخارا میں کچھ یہودی صدیوں سے آباد تھے، لیکن سوویت حکام نے سفید فاموں، لامذہب روسیوں، مسیحیوں کے ساتھ یہاں گورے ’اشکنازی یہودی‘ بھی آباد کر دیے۔ چنانچہ نو آزاد سوویت ازبکستان آج کے مستحکم مسلم ازبکستان سے مختلف تھا۔ 

سوویت پنجرے میں پیدا شدہ حبس سے ۷۰ سال بعد لوگوں کو ذرا سی آزادی ملی تو وہ بالکل آزاد ہوگئے۔نئے حاکم چونکہ اشتراکی فکر ہی کے لوگ تھے۔ اس لیے شراب خانوں، رقص گاہوں اور ساز و آواز کی دنیا ویسی ہی آباد رہی۔ چنانچہ اس ’آزادی‘ کے بعد بہت سی روسی نژاد ازبک آوارہ خواتین دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی آنے جانے لگیں۔ ساتھ ہی آوارہ افراد کی آمد و رفت بھی ازبکستان میں شروع ہو گئی۔ لیکن الحمدللہ متوازی خطوط پر بہت کچھ اس کے برعکس بھی ہو رہا تھا۔  

ازبک زبان کا رسم الخط اور پاکستان  

ازبک زبان بولنے والی آبادی کا اصل حصہ ازبکستان میں، قابل ذکر حصہ افغانستان میں، اور معمولی سا حصہ دیگر پڑوسی ممالک میں آباد ہے۔ سوویت قبضے سے قبل یہ زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ افغان ازبک اپنی یہ زبان صدیوں سے (اور اب بھی) عربی رسم الخط میں لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ سنکیانگ میں آباد چینی ازبک یہ زبان عربی اور ’سیریلک‘ (Cyrillic) دونوں میں لکھتے ہیں۔ رسم الخط کا یہ مسئلہ ازبکستان کی آزادی کے بعد اٹھا، کیونکہ اشتراکی قابضین نے ازبک زبان کا عربی رسم الخط ترکیہ کے مصطفیٰ کمال پاشا کی طرح بدل کر ’سیریلک‘ کر دیا تھا۔ آزادی ملنے پر اس مسئلے نے طاقت کے ساتھ سر اٹھایا۔  

 علمی سطح پر ازبک حکام اور دانشوروں سے ڈاکٹر حسان اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کے روابط مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئے اور حکومت پاکستان کی سرپرستی ان پر مستزاد تھی۔ ان متعدد عوامل نے مل کر اپنا وزن ان ازبک حکام کے پلڑے میں ڈالا جو ’سیریلک‘ رسم الخط ترک کر کے اصل عربی، نسخ رسم الخط بحال کرنا چاہتے تھے۔ حکومت پاکستان اور ڈاکٹر غازی نے ازبک حکام سے اس مقصد کے لیے مطلوبہ وسائل اور علمی معاونت فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ دعوۃ اکیڈمی نے فوراً بذریعہ ہوائی جہاز ایک پرنٹنگ پریس ازبک حکومت کو تحفتاً دے دیا۔ مزید یہ کہ اکیڈمی نے اسلامی تعلیمات پر مبنی تقریباً تین درجن اسلامی کتب کا ترجمہ فوراً روسی زبان میں کرایا اور ان کے تمام ایڈیشن ازبکستان بھیج دیے۔ لیکن پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ 

ڈاکٹر غازی مرحوم سے دفتر کے علاوہ سفر میں، حضر میں، اذان سحر میں بھی میل جول رہا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم بہت کچھ آزردگی سے اور دل گرفتہ ہو کر بھی سنایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کچھ یوں فرمایا: ’’سب امور بخوبی چل رہے تھے۔ معاملات ہماری گرفت میں تھے۔ ہماری کوشش تھی کہ ازبک اپنی خواہش کے مطابق یہ فیصلہ کریں کہ اپنی زبان کا ’سیریلک‘ رسم الخط بدل کر سابقہ عربی نسخ بحال کر دیں۔ یہ کام ہونے کو تھا۔لیکن یہی وہ ایام تھے کہ جب ہمارے وزیراعظم اور صدر مقتدرہ کے اشارے پر لڑ رہے تھے۔ ایک ڈکٹیشن نہ لینے پر مصر تھا تو دوسرا اسے نکالنے پر کمر بستہ تھا۔ دونوں کو مستعفی ہونا پڑا، جس سے خارجہ امور اتنے بے ربط ہوئے کہ مارکیٹ کا بڑا حصہ انڈیا لے اڑا۔ رسم الخط جیسا علمی مسئلہ نئی وزیراعظم اور صدر غلام اسحاق خان کے جانشین صدر کے سر سے بہت اوپر کی چیز تھی۔ میدان خالی ملا تو مصطفیٰ کمال پاشا کا ترکیہ اپنا ترک سیریلک رسم الخط اٹھائے آ دھمکا‘‘۔ 

آج حال یہ ہے کہ پرانے ازبک یہ زبان سیریلک (روسی) رسم الخط میں لکھتے ہیں۔ نئی نسل لاطینی اور سیریلک (ترکی و روسی) دونوں پر انحصار کرتی ہے۔ سرکاری طور پر لاطینی رسم الخط اختیار کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا، لیکن ہو جائے گا۔ یہ البتہ طے ہے کہ عربی رسم الخط کی (فی الحال) یہاں جگہ نہیں ہے۔  

 تاشقند پر ایک طائرانہ نظر 

۲۳ تا ۲۷ ستمبر ۲۰۲۵ء کو ’تاشقند انٹرنیشنل آربیٹریشن سینٹر‘ (TIAC) نے تاشقند میں ’بذریعہ ثالث مقدمات کے حل پر‘ پانچ روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی۔ متعدد ممالک کے وفود نے شرکت کی۔ پاکستان سے معروف لا فرم ’صمدانی، قریشی اینڈ اقلال‘ کے چیف بیرسٹر فرخ کریم قریشی اور مجھے شرکت کا موقع ملا۔ قانون کے طلبہ اور نو آموز وکیلوں پر مبنی ہماری آٹھ رکنی ٹیم بھی ہمارے ساتھ تھی۔ کسی ملک میں محض سات روزہ قیام سے حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ پس اس تحریر کو ازبکستانی سیاست سے خالی ہمارے مشاہدات کا بیان سمجھ لیجیے۔ اس میں ماضی و حال کے ازبکستان کا موازنہ بھی ہے۔ جس کی گرافی ترتیب (graphic order) سے مستقبل کی منظر کشی کر لی جائے تو یہ کام غیر مفید نہیں ہوگا۔  

مدیر تکبیر محمد صلاح الدین مرحوم کے الفاظ کی یاد آتی ہے: ’’اشتراکیت کے جبر و استبداد اور مذہب دشمنی اپنی جگہ جن سے قطع نظر یہ ماننا پڑتا ہے کہ سوویت قابضین نے مسلم ترکستانی ممالک میں بھی وہی بنیادی مدنی ڈھانچا تعمیر کیا جو ماسکو اور لینن گراڈ میں تھا۔ شرح خواندگی تمام ترکستان میں ۱۰۰ فی صد ہے‘‘۔  

ہم نے تقریباً پورا تاشقند گھوم پھر کر دیکھا، پورے شہر کی عمارتوں، سڑکوں، ٹریفک، طرزِ زندگی اور لباس سے ہمیں معمولی سی معاشرتی اونچ نیچ کے آثار دکھائی نہیں دیئے۔ صفائی کا معیار مثالی ہے۔ 

پیزا والوں کے سوا کوئی ایک موٹر سائیکل سوار نظر نہیں آیا۔ نہایت منظم و مرتب ٹریفک اور بدنظمی سے پاک اس شہر میں بسوں، میٹرو اور ٹرین کا وہ منضبط نظام دیکھا کہ کم ہی آبادی کو کار جیسی انفرادی سواری کی ضرورت پیش آتی ہے اور مکھی، مچھر کا نشان نہیں دیکھا۔اسی طرح تتلی، کبوتر، فاختہ، چڑیا، کوّا یا پرندہ نام کی کوئی شے بھی نہیں دیکھی۔ لائسنس یافتہ دکانوں پر شراب کھلے عام بکتی ہے۔ 

دوسری طرف نمازِ جمعہ میں نمازی اتنے ملے کہ کہیں اور کبھی نہیں دیکھے۔ ازبک مسلمان خطیب کی تقریر شوق سے سنتے دیکھے۔ حنفی انداز پر ہماری ان کی نماز جمعہ میں یہ فرق دیکھا کہ پہلی اذان ایک بجے جس کے بعد سنتیں پڑھنے کا وقت دیا جاتا ہے۔ فوراً بعد دوسری اذان اور ساتھ ہی خطبہ جمعہ ہوتا ہے۔ تعجب اس پر ہوا کہ لوگ بارہ بجے سے آنا شروع کرتے ہیں اور ایک بجے تک خطیب کی تقریر شوق سے سنتے ہیں۔ مسجدیں نہایت باوقار، صاف اور سلیقہ مندی کا نمونہ ہیں۔ خطیب کا رتبہ پروقار اور باتمکنت ہے۔ نمازیوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شہر تاشقند میں ایسی ۲۵تا ۳۵مساجد ہیں۔ نمازی اتنے کہ سڑک، فٹ پاتھ، گیراج وغیرہ جہاں جگہ ملے اپنی جائے نماز بچھا لیتے ہیں۔ سلام پھیر کر ہماری ہی طرح ہفتہ بھر کے مرحومین اور بیماروں کے لیے دعا کی جاتی ہے مگر عجلت میں کسی کو نکلتے نہیں دیکھا۔ دعا کے بعد البتہ لوگ نکلنے لگتے ہیں۔ 

تاشقند کی روز مرہ شہری زندگی 

 ہوٹل کا کمرہ لینے کے لیے عورت مرد کا مشترکہ کمرہ لینے پر نکاح کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔ میں نے تاشقند جا کر چار منزلہ اور سوئمنگ پول والے وسیع ہوٹل میں کمرہ لیا اور ازبک معاشرت کا مشاہدہ کیا۔ روزانہ صبح ناشتے پر گھنٹہ بھر کے مشاہدے کے دوران اوسط دو تین کنبے بچوں سمیت ضرور نظر آتے رہے جن کے لیے الگ فیملی ہال تھا۔ مجموعی طور پر ہمیں تاشقند میں ۴۰/۴۵ فی صد وہ خواتین نظر آئیں جو نقاب، کالے برقعے، یا حجاب کی کسی مقامی شکل یا اسکارف استعمال کر رہی تھیں۔ باقی وہ خواتین دیکھیں جو مغربی لباس کی کسی شکل میں تھیں۔ کوئی ایک خاتون نہیں دیکھی جس نے شانے، کمر یا ٹانگیں بے پردہ رکھی ہوں۔ جوڑے تو بکثرت دیکھے لیکن ہم دونوں نے ایک جوڑا نہیں دیکھا جو بانہوں میں بانہیں ڈالے ہو، یا باہم ہاتھ پکڑے ہو۔ گلے لگنا، چہلیں کرنا، جھوم اور لہرا کر چلنا تو بہت دُور کی بات ہے۔ مرد و زن دونوں کو پتلون اور ٹی شرٹ پہنے دیکھا۔ لیکن کسی کے لباس یا چال میں معمولی سی رکاکت، سوقیانہ انداز، چھچھورا پن یا وہ اتھلا رنگ نہیں دیکھا، جو مغربی دنیا میں اور ہمارے یہاں عام ہے۔ مختصراً یہ کہ ہم نے مغربی دنیا کے برعکس مقامی اور مغربی دونوں ملبوسات میں وقار، تمکنت اور شائستگی ہی پائی۔ 

 ازبکستان اور ترکستانی ممالک میں  قدر مشترک 

مجھے ماضی میں بھی بیرون ملک ترکستانی و روسی مسلمانوں سے ملنے کا موقع ملتا رہا۔ یکساں سوویت طرز تعلیم کے باعث میں نے ان سب کو ایک جیسا پایا۔ حکومتی تعلقات سے قطع نظر پاکستان کے حق میں داغستان کے ایک مسلمان کو اٹھارہ سال قبل اور ازبک مسلمانوں کو حالیہ سفر میں ایک ہی زبان بولتے پایا۔ مثلاً ایک ازبک دوست کو میں نے ہیجانی انداز میں تین مختلف اوقات میں یہ کہتے سنا: ’’تاشقند کی فلاں فلاں کثیر منزلہ عمارتوں میں چینی کمپنیاں آچکی ہیں اور مزید آرہی ہیں، معلوم نہیں پاکستان کیوں بیدار نہیں ہوتا؟‘‘ مقامی مسلمانوں سے اسلامی تعلیمات اور شعائر کی ترقی یا تنزل پر بھی گفتگو ہوئی۔ اکثر سے یہ تاثر ملا کہ کئی کام بخوبی ہو رہے ہیں۔ امریکی اصطلاح کا ’سیاسی اسلام‘ ہمیں نہیں ملا۔ فی الحال وہاں ثقافتی سطح پر اسلام کے آثار نمایاں ہیں۔ ہر ازبک کو  اور ریاست کو بحیثیت کُل اپنے ثقافتی اور مذہبی ورثے پر بے پناہ فخر ہے۔  

چنانچہ اسلامی شعائر سے محبت اور دینی فکر کا دائرہ بتدریج پھیل رہا ہے اور ایک دوسرے کو چھیڑے اور تنقید کیے بغیر آگے بڑھ رہا ہے۔ مقامی لوگوں سے تبادلۂ خیال اور مطالعے کے بعد میرا تاثر یہ ہے کہ آزادی کے بعد کا ازبکستان اور دیگر ترکستانی ممالک اب روسی آباد کاروں (یہودیوں، مسیحوں اور لا مذہبوں) سے بتدریج خالی ہو رہے ہیں اور یہ عمل پاکستان سے مماثل ہے۔ تقسیم کے وقت پاکستان میں پارسی، اینگلو انڈین اور یہودی کثیر یا معتد بہ تعداد میں تھے۔ لیکن آج عام لوگوں کو اینگلو انڈین کا مفہوم تک پتا نہیں اور ملک میں ایک یہودی باقی نہیں رہا۔ پارسیوں کی بڑی تعداد بھی بلادِ غیر میں جا بسی ہے۔ 

 ازبکستان اسی فطری عمل سے گزر رہا ہے۔ لا مذہب سفید فام، روسی اور یہودی آباد کار ملک چھوڑ رہے ہیں۔ یہ یہودی آباد کار ۳۵ برسوں میں ۹۵ ہزار سے گھٹ کر ۱۰ ہزار رہ گئے ہیں۔ ازبکوں کا قیمتی اثاثہ بلا تفریق مسلک و مذہب عدم تعرض ہے۔ یعنی کوئی نہ چھیڑے تو تعرض نہ کرو، کام سے کام رکھو۔ ہر ازبک دوسرے کو چھیڑے بغیر کام سے کام رکھتا ہے۔ اس مفید رویے کی طاقت سے دین فطرت بتدریج پیش قدمی کرتا نظر آرہا ہے۔ یکساں نظام تعلیم اور متعدد دیگر عوامل کے باعث میں بقیہ نو آزاد سوویت مقبوضات کو ازبکستان پر قیاس کر کے سب کے لیے یہی نتیجہ نکالتا ہوں۔ 

پاک ازبک و ترکستانی ممالک کے تعلقات 

ملک اور قبائل، اپنے ماضی میں کبھی لا تعلق نہیں رہے، اور آج تو ہر ملک کا داخلی فیصلہ کسی کو بغیر بتائے ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ ازبک رسم الخط بدلنے کے فیصلے نے تمام ترکستانی ممالک تک کو متاثر کیا۔ جہاں تک باہمی میل جول کا تعلق ہے تو بنیادی اسلامی عقائد ہر ملک میں متفق علیہ ہیں۔ لیکن جزئیات ہر ملک اور ہر بستی کی اپنی ہوا کرتی ہیں۔ ازبکستان میں فی الوقت جو اسلام پیش قدمی کر رہا ہے، اسے ہمارے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن مطلب یہ نہیں کہ پاکستان ان ممالک سے ہر معاملے میں لا تعلق ہوجائے۔ 

دونوں ملکوں کے حکومتی تعلقات کو مختلف طریقوں پر وسعت دینا لازم ہے۔ سینئر ریاستی حکام، چیمبرز آف کامرس کے افراد، یونی ورسٹی اساتذہ، سپریم کورٹ کے وکلا اور سینئر صحافیوں کے لیے دونوں ملک اگر بدون ویزا آمد و رفت کو فروغ دیں تو یہ دونوں کے حق میں مفید ہے۔ باہمی تجارت میں اضافہ تعلقات کی کلید ہے۔ لیکن ان سب امور سے قبل ہمارے پڑوسی افغان حکام کے لیے جدید ریاستی انداز کار کی تفہیم بڑی ضروری ہے۔ دونوں ملک مل کر اوّلاً افغان مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش کریں۔ غور کیجیے کہ پاکستان، ایران، تاجکستان، قازقستان ازبکستان اور ترکمانستان جیسے آسودہ حال ممالک کے سمندر میں افغانستان افلاس کا ایک جزیرہ نظر آتا ہے۔ یہی وہ ملک ہے جس کا جغرافیہ جنوبی ایشیا تا مشرقی یورپ تک کے تمام ممالک کو متاثر کرتا ہے۔ سوویت مداخلت سے قبل پاکستان کے لوگ براستہ افغانستان یورپ اور برطانیہ تک جاتے آتے تھے۔ آج، جب کہ نوآزاد ترکستانی ممالک کے راستے کھل چکے ہیں تو وہاں بھی رسائی ممکن ہے۔ لیکن افغانستان کے داخلی حالات اور اس کی خارجہ پالیسی اس آمد و رفت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ 

خالی الذہن عام سیاحوں کو ازبکستان مغربی رنگ میں نظر آتا ہے، وجہ ظاہر ہے۔ بلاشبہ وہاں شراب، رقص گاہوں اور ساز و آواز کو مکمل مغربی انداز کی آزادی حاصل ہے، لیکن رفتہ رفتہ سوویت ماضی کا تسلسل دم توڑ رہا ہے۔ مسجد کے علاوہ کسی دکان، پارک یا کھلے عام کسی کو نماز ادا کرتے نہیں دیکھا۔ یہ ازبک زندگی کا پہلا دائرہ ہے۔ بقول ازبک دوستوں کے یہ دائرہ خود بخود اور روز بروز سکڑتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کسی مسجد میں جائیں تو اسی مغربی لباس میں ملبوس جوانوں کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ اسی شہر میں رات کو جام لنڈھائے جاتے ہیں۔ الحمدللہ یہ دائرہ پھیل رہا ہے۔ 

ان شاء اللہ ، مستقبل قریب میں یا قدرے بعید کہہ لیجیے، تمام ترکستانی ممالک، ترکیہ، روس، پاکستان اور ایران مل کر ایک مضبوط اسلامی بلاک بنائیں گے۔ اس فہرست میں روس کو دیکھ کر تعجب نہ کیجیے۔ سرکاری طور پر روس میں ۱۵ فی صد مسلمان بتائے جاتے ہیں۔ لیکن آزاد ذرائع یہ تناسب ۲۰،۲۲ فی صد تک بتاتے ہیں۔ جو بھی ہو، اس پر سبھی محققین متفق ہیں کہ ۲۰۵۰ء تک روسی مسلمان آبادی کا ایک تہائی ہو جائیں گے۔ بعض مغربی جرائد نے بطور پھپتی ماسکو کو مستقبل کا ’ماسکو آباد‘ قرار دے رکھا ہے۔  

روس کی غالب مسلم آبادی ترکستانی اور داغستانی خطوں میں ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی اسلامی قدریں لیے تعلیم، روزگار، تجارت اور ملازمتوں میں بتدریج آگے آرہے ہیں۔ چنانچہ آج اگر روس اور پاکستان کی قربت میں اضافہ اور انڈیا سے روس کے تعلقات میں فاصلہ پیدا ہوتا جارہا ہے تو تعجب نہ کیجیے۔ اس کی ایک وجہ روس میں مسلم فکر کا بڑھتا ہوا عمل دخل بھی ہے۔ لیکن آج کا موضوع ازبکستان تھا جس پر چند معروضات پیش کی گئی ہیں۔ 

ہندستان اور مسلمانوں کا تعلق اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود اسلام۔ اسلام کے ظہور سے پہلے ہی عربوں کے ہند سے تجارتی تعلقات قائم تھے، جس کے بعد تاریخِ اسلام کے دوسرے دور میں مسلم فاتحین نے اس سرزمین کا رُخ کیا۔ تیسرے دور میں دہلی سلطنت کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد مغلیہ سلطنت نے ہندستان میں قدم جمائے۔ اس طویل عرصے میں مسلمانوں نے ہند کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ انھی اَدوار میں التمش، شیر شاہ سوری اور علاء الدین خلجی جیسے مدبر اور باصلاحیت حکمران پیدا ہوئے، جنھوں نے نہ صرف انتظامی اصلاحات کیں بلکہ ہند کی تعمیرو ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اگر علاء الدین خلجی نہ ہوتا تو منگول، ہندستان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے جو انھوں نے بغداد اور مسلم دنیا کے دیگر شہروں کے ساتھ کیا تھا۔ علاء الدین خلجی کے عہد میں عام آدمی کی زندگی جتنی آسان تھی، شاید تاریخِ ہند میں کبھی نہ رہی ہو۔ اس کے سخت مگر مؤثر اقدامات کی بدولت اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بے حد کم تھیں اور افراطِ زر مکمل طور پر قابو میں تھا۔ 

بعد کے دور میں مغلوں نے ہند کو ایک مضبوط مرکزی حکومت، منظم نظم و نسق، شاندار فنِ تعمیر، خوش حال معیشت اور ایک متنوع مگر مربوط تہذیب عطا کی۔ ان کے دور میں زمین کی پیمائش، مالیاتی اصلاحات، اور ٹیکس کے منصفانہ نظام نے زراعت اور تجارت کو فروغ دیا۔ عظیم الشان فنِ تعمیر نے فن اور ثقافت کو نئی بلندی پر پہنچایا۔ فارسی زبان، ادب، مصوری، موسیقی، اور لباس میں جو امتزاج پیدا ہوا، اس نے ایک ہم آہنگ تہذیب کی بنیاد رکھی۔ مغل عہد میں ہند عالمی تجارت کا مرکز تھا اور دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا تھا۔ان کےدور میں ہند کا جی ڈی پی ۲۴ فی صد تک تھا۔ 

اورنگ زیب عالم گیر کی آنکھیں بند ہوتے ہی اس عروج کا زوال شروع ہوگیا۔ اورنگ زیب کا انتقال ۱۷۰۷ء میں ہوا، اور وہ آخری دیوار گر گئی جس نے مغلوں کے زوال کو روک رکھا تھا۔اس کے جانے کے ساتھ ہی برصغیر میں طوائف الملوکی کا دور شروع ہو گیا۔ ایک طرف دُور دراز کے صوبے مرکز سے آزاد ہونے لگے، اور دوسری طرف خود صوبے داروں کے درمیان تخت نشینی کے لیے خون ریز لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں مرہٹے، راجپوت اور جاٹ اُٹھ کھڑے ہوئے، جنھوں نے ملک میں افراتفری اور بدامنی پھیلا دی۔ اس داخلی خلفشار نے دہلی کی مرکزی حکومت کا باقی ماندہ رعب و دبدبہ بھی ختم کر دیا۔لیکن جس واقعے نے بھارت میں مسلمانوں کی عظیم تاریخ پر گویا حرفِ آخر ثبت کیا، وہ ۱۸۵۷ء کا سانحہ تھا، — جسے انگریزی تاریخ نویسی کے زیراثر تحریروں میں ’غدر‘ کہا گیا اور بھارت میں ’پہلی جنگ ِ آزادی‘۔ ۱۸۵۷ء صرف ایک ہندسہ نہیں ، بلکہ ایک تہذیب، ایک تمدن، اور ایک قوم کے لٹ جانے کی داستان کا عنوان ہے۔ 

انگریزوں نے اس انقلاب کو تو بمشکل کچلا، لیکن اس کے بعد ظلم و ستم کا جو طوفان برپا ہوا، وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں شامل ہے۔ گلی گلی خون بہایا گیا، کوچہ کوچہ لاشوں سے بھر گیا۔ لاکھوں بے گناہ انسان گولیوں کا نشانہ بنے، ہزاروں پھانسی کے رسّوں پر لٹکائے گئے۔ شہزادوں کے سر قلم کر کے ان کے بوڑھے والدین کے قدموں میں پھینکے گئے، اور عزّت و حمیت کو ننگی تلوار سے ذبح کیا گیا۔انگریزوں کی درندگی اور خباثت نے روحِ ہند کو مجروح کردیا۔جب ۱۸۵۷ء کی بغاوت شروع ہوئی تو ہندو اور مسلمان دونوں نے اس میں بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ یہ کسی ایک قوم کی بغاوت نہ تھی، لیکن مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف چند تاریخی اور نظریاتی وجوہ پر مبنیشدید مخالفت پائی جاتی تھی۔ ان میں سے بہت سے افراد حضرت شاہ ولیؒ اللہ کے فلسفے سے متاثر تھے اور انگریزی حکومت کے تحت ہندستان کو ’دارالحرب‘ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک بیرونی حکمرانوں کے خلاف جہاد نہ صرف ایک قومی ضرورت تھی بلکہ مذہبی فریضہ بھی تھا۔ 

اسی بنا پر انگریز حکومت، مسلمانوں کو ہندوؤں کی نسبت زیادہ خطرناک تصور کرتی تھی اور جوشیلے مسلمانوں سے انھیں زیادہ خوف محسوس ہوتا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں پر نہایت سخت ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ جھجر، بلاب گڑھ، فرخ نگر اور فرخ آباد کے نوابوں کو پھانسی دے دی گئی یا جلا وطن کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے گھروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کی جائیدادیں بڑے پیمانے پر ضبط کی گئیں۔ دہلی پر دوبارہ قبضے کے کچھ ہی عرصے بعد ہندوؤں کو واپس آنے کی اجازت دے دی گئی، لیکن مسلمانوں کو اس کی اجازت نہ دی گئی۔ دہلی ڈویژن میں ہر مسلمان پر اس کی جائیداد کے چوتھائی حصے کے برابر جرمانہ عائد کیا گیا، جب کہ ہندوؤں پر محض دس فی صد کا جرمانہ لگایا گیا۔ برطانوی حکام کے غصے کا اصل نشانہ مسلمان ہی تھے۔ کیپٹن رابرٹ نے لکھا:’’ان بدمعاش مسلمانوں کو دکھا دو کہ خدا کے فضل سے انگریز ہمیشہ ہندستان کے مالک رہیں گے‘‘۔ 

مسلمانوں کی مصیبتیں بے پناہ تھیں۔ معصوم اور مجرم دونوں ہی یکساں طور پر انتقامی کارروائیوں کا شکار بنے۔ حتیٰ کہ سرسید احمد خان جیسے وفادار کے خاندان کو بھی مصیبتوں اور اموات کی صورت میں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ اُس دور کے خوف و ہراس کی عکاسی غالب کے خطوط میں بخوبی موجود ہے۔ 

غالب ۱۸۵۷ء کے المیے کے چشم دید گواہ تھے۔ دہلی کی بربادی، انگریزوں کا ظلم اور مسلمانوں کا قتل عام، سب کچھ انھوں نے خود دیکھا۔ اس کیفیت کو انھوں نے ایک قطعے میں بیان کیا ہے: 

بس کہ فعال مایرید ہے آج 
ہر سلح شور انگلستاں کا 

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے 
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا 

چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے 
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا 

شہر دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک 
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا 

کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک 
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا 

یہ اشعار اس عہد کی دل دہلا دینے والی تصویر پیش کرتے ہیں۔ وہ شاعر جو کبھی انگریزوں کی مدح کرتا تھا، اب انھی کے مظالم پر اشکبار ہے۔ غالب کا یہ قطعہ محض جذباتی اظہار نہیں بلکہ ایک تہذیب کی موت کا مرثیہ ہے اور قابض قوت کی بے رحمی اور بہیمانہ انتقام کی عکاسی ہے۔ ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی ناکامی نے غالب کو اندر سے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے نزدیک اس ناکامی نے صرف ایک بغاوت کو نہیں دبایا بلکہ ایک پوری تہذیب، ثقافت، اور طرزِ زندگی کو مٹادیا۔ بستیوں کی ویرانی، شہروں کی بربادی، اور انسانوں کی بے وطنی —یہ سب کچھ غالب نے سہا، دیکھا، اور شاعری میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ 

مولانا غلام رسول مہر اپنی کتاب ’۱۸۵۷ء‘ میں پھانسی کے عمل کو بتاتے ہوئے لکھتے ہیں : 

 کوتوالی اور ترپولیے کے درمیان چاندنی چوک میں جو حوض تھا اس کے تین طرف پھانسیاں کھڑی کی گئی تھیں ۔ ان میں ایک دفعہ دس بارہ آدمیوں کو پھانسی لگ سکتی تھی۔ جس روز پھانسی پانے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ، ایک گروہ کو پھانسیوں پر چڑھا دیا جاتا، باقی لوگ کھڑے ہوئے دیکھتے رہتے کہ ان کے خاتمے کے بعد ہماری باری آئے گی اور یہ مقام انگریزوں کی خاص سیرگاہ بن گیا تھا۔ پاس کے ایک موقع شناس دکان دار نے اپنی دکان کے سامنے کرسیاں رکھ دیں کہ انگریز بیٹھیں گے تو خوش بھی ہو جائیں گے اور کچھ [بخشیش]دے بھی جائیں گے۔ چنانچہ انگریز افسر آتے، کرسیوں پر بیٹھتے، سگریٹ سلگاتے، پھانسی پر چڑھنے والوں کی جان کنی کا تماشا دیکھتے اور چند پیسے دکا ن دار کو دے جاتے۔ مظلوم بے دم ہو جاتے تو ان کی نعشیں ایک بیل گاڑی میں ایک دوسرے کے اوپر ڈال دی جاتیں تاکہ نئے مظلوموں کے گلے میں پھندا ڈالا جائے ۔ 

۱۸۵۷ء ہندستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا، جب پرانی اور نئی دنیائیں آپس میں مل رہی تھیں، یا پھر جدید اور قدیم کا ٹکراؤ ہورہا تھا ۔اس دور کو دیکھ کر ہم ماضی کی جھلک بھی پا سکتے ہیں اور مستقبل کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ پرانا سماجی نظام تلپٹ ہوگیا اور نئے حالات نے صرف سوچ بدلنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ زندگی کے اصول اور انداز بھی بدل دیے۔ حقیقت میں، ۱۸۵۷ء میں صرف ایک حکومت کا خاتمہ نہیں ہوا، بلکہ وہ سارا تہذیبی ورثہ بھی تباہ ہو گیا جو صدیوں سے لوگوں کے دلوں اور فنی آثار میں زندہ تھا۔دہلی، جو صدیوں تک علم و فن اور تہذیب کا مرکز رہی، وہ برباد ہوئی۔ الطاف حسین حالی دہلی کا ماتم کرتے ہوئے پکار اُٹھتے ہیں: 

تذکرہ دہلیٔ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ 
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز 

چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہہ خاک 
دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز 

مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو 
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز 

یہ بات واضح طور پر ثابت ہے کہ انگریز ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی مسلمانوں سے دشمنی رکھتے تھے۔  رابرٹ کلائیو نے ۳۰ دسمبر ۱۷۵۸ء کو لارنس سیلیون کے نام اپنے خط میں مسلمانوں کے بارے میں لکھا تھا:’’یہ کوتاہ عقل اور بدطینت مسلمان، جذبۂ احسان مندی سے یکسر خالی ہیں۔ ان کے ہاں ایک ایسا سیاسی طریقہ رائج ہے جو روئے زمین پر کہیں اور نہیں پایا جاتا — کہ جو چاہو کر گزرو، مگر طاقت کے زور سے نہیں بلکہ مکر و فریب کے ذریعے‘‘۔  

ہنری مارٹن لکھتا ہے ’’ : فطرتِ انسانی جب اپنی اسفل ترین شکل میں نمودار ہونا چاہتی ہے تو ایک مسلمان کا رُوپ دھار لیتی ہے‘‘۔ 

مسلم بیزاری کا یہ رجحان ۱۸۴۲ء میں اُس وقت نقطۂ عروج پر پہنچ گیا، جب لارڈ ایلن برو گورنر جنرل بنا۔ ایلن برو جہاں ہندوؤں کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا، وہیں مسلمانوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ سومنات کے مندر کے دروازوں کی تعمیر کرتے ہوئے وہ ہندو راجاؤں کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا ’’ آج آخرکار آٹھ سو سالہ پرانی بے عزتی کا بدلہ لے لیا گیا ‘‘ پوری تقریر سنیے تو حدسے زیادہ جذباتی ڈرامے سے بھری ہوئی۔موجودہ دور کا ’ہندوتوا‘راگ لگتی ہے۔ 

یہ دشمنی ۱۸۵۷ء سے بھی پہلے سے چلی آرہی تھی لیکن اس کے بعد انگریزوں نے یہ طے کیا کہ مسلمانوں کو معاشی اور سماجی سطح پر تباہ ہی کردیا جائے ۔ اس لیے جب انگریزی افواج نے مسلمانوں کے خون سے اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرلیا اورہند براہِ راست برطانوی تاج کے زیرِنگیں آگیا تو ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کا پردہ ہٹا اور برطانوی حکومت نے حکمرانی کی لگامیں اپنے ہاتھ میں لے لیں، تب ملکہ وکٹوریہ نے عام معافی کا اعلان کیا ۔اس معافی کے بعد وہ گھناؤنا کھیل شروع ہوا، جس میں طے ہوا کہ مسلمانوں کو اس حد تک ختم کر دیا جائے کہ دوبارہ کبھی نہ اُٹھ پائیں۔ان مسلمانوں کو، جو کبھی اس ملک کے حاکم اور تہذیب کے معمار تھے، بے دست و پا کر دینا، ان کے وقار اور اثر کو مٹادینا، اور ہر اس نشانی کو ختم کر دینا جو ان کے ماضی کو لوٹانے کا حوصلہ دے سکتی تھی۔ انگریزوں نے اس مقصد کو پانے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ مسلمانوں کو معاشی اور تعلیمی طور پر پس ماندہ کرنے کی باضابطہ کوشش کی گئی۔  

لندن کے ایک اخبار میں رسل لکھتا ہے:’’ہمیں مسلمانوں کے ساتھ جو دشمنی ہے وہ اس کش مکش کے مقابلے میں زیادہ شدید ہے جو ہم شیو اور وشنو کے پرستاروں [ہندوئوں] کے ساتھ رکھتے ہیں۔ مسلمان ہماری حکومت کے لیے زیادہ خطرناک ہیں … اگر ه بیک جنبش محمد کی حدیثوں اور معبدوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے میں کامیاب ہو جائیں، تو یہ بات عیسائی مذہب اور برطانوی حکومت دونوں کے لیے نیک فال ثابت ہوگی ‘‘ ۔  

برطانوی عہدے داروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اس قدر شدت اختیار کر چکی تھی کہ کئی عہدےدار اس خیال کی پر زور حمایت کرنے لگے تھے کہ دہلی کی جامع مسجد کو منہدم کر دیا جائے تاکہ اُن پر یہ بات واضح ہو جائے کہ ہندستان میں ان کا وقار کس حد تک مجروح ہوچکا ہے۔ ایک گورنر جنرل نے ، تو یہ تجویز بھی پیش کر دی تھی کہ ’’آگرے کے تاج محل کو منہدم کر دیا جائے اور سنگ مرمر کی سلوں کو فروخت کر دیا جائے ‘‘۔ 

ہندپر اپنا تسلط قائم رکھنے اور اس کو مزید مضبوط بنانے کے لیے انگریزوں نے یہ اصول اپنا لیا تھا کہ مسلمانوں کو ہمیشہ پیروں تلے دبا کر رکھا جائے۔ ۱۸۵۷ء کی بغاوت نے ان کے اس بدگمانی پر مبنی نظریے کو گویا درست ثابت کردیا۔ اب ہر شورش، ہر بدامنی، اور ہر بگاڑ کی ذمہ داری بلاتردّد مسلمانوں کے سر ڈال دی جاتی۔انگریز عہدے دار مسلمانوں کو کسی بھی انتظامی منصب پر دیکھ کر بیزاری محسوس کرتے، حقارت آمیز لہجے میں گفتگو کرتے اور تمسخر کا نشانہ بناتے۔ یہ رویہ محض نفسیاتی دشمنی کا نہیں بلکہ سوچی سمجھی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ اس کے برعکس ہندوؤں کے ساتھ ان کا سلوک بالکل مختلف تھا۔ —وہ انھیں خوشی سے انتظامی مناصب پر فائز کرتے، اور وہ اپنے انگریز افسران کے لیے مکمل فرماںبرداری کا مظاہرہ کرتے۔ اس تعاون اور اطاعت کے صلے میں ہندو طبقہ بتدریج انتظامی ڈھانچے میں جڑیں مضبوط کرتا گیا، جب کہ مسلمان، جو کبھی سلطنت کے ستون تھے، اب ایوانِ اقتدار کے دروازے پر اجنبیوں کی طرح کھڑے تھے۔ 

۱۸۵۷ءکی جنگِ آزادی کے بعد ہندستانی مسلمانوں کی صورتِ حال نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی، سماجی اور تعلیمی میدان میں بھی شدید ابتری کا شکار ہوئی۔ 

۱-   معاشی بدحالی :۱۸۵۷ءکی شکست نے مسلمانوں کی تلوار تو پہلے ہی توڑ دی تھی، اب انگریز نے ان کے ہاتھ سے روٹی بھی چھین لی۔ وہ تہذیب جو کبھی زمین پر زرخیزی اور بازاروں کی رونق سے پہچانی جاتی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے فاقہ کشی اور مفلسی کی تصویر بن گئی۔ 

۲-  زمین اور جاگیروں کی ضبطی:سب سے پہلے ان کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی گئی۔ جو خاندان صدیوں سے کھیتوں کے وارث اور جاگیروں کے مالک تھے، وہ ایک حکم نامے سے بے زمین ہو گئے۔ یہ زمینیں یا تو انگریزوں کے وفاداروں میں تقسیم ہوئیں یا نیلامی میں غیر مسلم سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلی گئیں۔ یوں مسلم تہذیب کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ 

۳-  تجارت اور ہنر پر ضرب:مسلمان صنعت کار اور ہنرمند، جو قالین بافی سے لے کر اسلحہ سازی تک اپنی مہارت کا سکہ جمانے والے تھے، برطانوی تجارتی پالیسی کے نشانے پر آگئے۔ مقامی صنعتوں پر بھاری ٹیکس لگے، خام مال سستے داموں برطانیہ بھیجا جانے لگا اور وہاں کا تیار شدہ مال واپس لا کر مہنگے داموں بیچا گیا۔ بازاروں میں مقامی دستکاری کی جگہ یورپی سامان چھاگیا۔ جن ہاتھوں میں کبھی فن کی خوشبو تھی، وہاں اب فاقہ اور بیکاری کی دھول جم گئی۔ 

۴-  سودی کاروبار کا شکنجہ:ہندو بنیے اور انگریز افسران ایک دوسرے کے حلیف بن گئے۔ قرض کے نام پر مسلمانوں پر ایسا جال ڈالا گیا جس سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ بھاری سود، کاغذی کارروائی اور قانونی فریب کاریوں نے زمین داروں اور تاجروں کو اپنی زمین اور دکانیں گروی رکھنے پر مجبور کر دیا۔ کل کے خوشحال تاجر آج قرض خواہوں کے در پر کھڑے ذلیل و خوار نظر آتے تھے۔ 

۵-  ملازمتوں کے دروازے بند: انگریز کے نزدیک مسلمان نہ وفادار تھے، نہ قابلِ اعتماد۔ اس لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔ ادنیٰ درجے کی نوکری بھی انھیں دینا گوارا نہ کیا گیا۔ یوں متوسط طبقہ بے روزگار ہو کر غربت کی دلدل میں اتر گیا اور نچلا طبقہ محنت مزدوری یا دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور ہوگیا۔ 

یہ محض ایک طبقے کی غربت نہیں تھی، بلکہ ایک پوری قوم کے وقار، خودداری اور عزتِ نفس کو روندنے کا منظم منصوبہ تھا۔پیری اینڈرسن لکھتا ہے:’’ غدر کے بعد ، (برٹش )راج میں میدان تیزی سے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہوگیا۔ اب وہ اس علاقے کے مالک نہیں رہ گئے تھے جہاں کبھی ان کی حکومت چلتی تھی۔ سپاہیوں کی حیثیت سے ان پہ اعتبار نہیں کیا گیا۔ تجارت کا انھیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کا اپنا انتظامی ڈھانچا فارسی زبان میں تھا، جب کہ انگریزی تعلیم سے وہ دُور تھے۔ ایک صدی کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ وہ ہندوؤں سے گورنمنٹ جاب، انڈسٹری اور دوسرے پیشوں میں کتنے پیچھے رہ گئے‘‘۔ 

 The Cambridge Economic History of India Volume 2 میں اس پوری تبدیلی کے عمل کو بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں صرف کا اس خلاصہ دیا جارہا ہے: 

برطانوی دور میں ہندستان کی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ بنیے، مارواڑی اور دیگر ہندو تاجر برادریاں مالیاتی واسطے اور قرض دہندہ و تاجر کی حیثیت سے نمایاں طور پر اُبھریں۔ لیکن مقابلے میں مسلم تاجروں اور زمین داروں کی حیثیت زوال پذیر ہوگئی۔ 

مشرقی صوبوں جیسے بنگال، بہار اور اڑیسہ میں یورپی کمپنیوں کی خرید و فروخت میں بنیے، مارواڑی، اور دیگر دلال اہم کردار ادا کرتے تھے۔ وہ کسانوں یا پیداواریوں کو پیشگی ادائیگی کرتے اور کمپنیوں سے منافع کماتے۔ یہی طبقہ دیہی قرض دہندگان کے طور پر بھی معروف تھا، جو سود پر قرض دے کر زمین اور پیداوار پر بالواسطہ اثرانداز ہوتا۔ 

برطانوی مالیاتی و زرعی پالیسیوں نے سودخوروں کو طاقت ور بنایا، جن میں بنیے بھی شامل تھے۔ جیسے ہوشنگ آباد، بندیل کھنڈ اور جھانسی میں ان کا کردار استحصالی رہا، جہاں بعض اوقات وہ غلہ روک کر قحط جیسی صورتِ حال پیدا کر دیتے۔ ان کے سودی نظام کی بدولت کئی کسان زمین سے محروم ہو گئے، اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہے۔ ہندو سرمایہ داروں نے برطانوی نظام کے ساتھ خود کو کامیابی سے ہم آہنگ کیا اور تجارت، قرض، اور زمین کے ذریعے سرمایہ اور اثر و رسوخ اکٹھا کیا۔ یوں وہ برطانوی معیشت کے بنیادی ستونوں میں شامل ہوگئے۔ 

اس کے برعکس، مسلمانوں کی معاشی حیثیت میں زوال آیا۔ برطانوی قبضے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجارہ داری نے مسلمانوں کو بین الاقوامی تجارت سے بے دخل کر دیا۔ اٹھارھویں صدی کے وسط تک مسلمان تاجر خلیج، افریقہ اور ایشیائی منڈیوں میں سرگرم تھے، لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی غلبے اور امتیازی سلوک نے ان کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔ کورومنڈل، بنگال اور جنوبی ہند کے اندرونِ ملک تجارت پر بھی مسلمانوں کا غلبہ تھا، جو آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔ ساتھ ہی، مسلم زمیندار اور اشرافیہ بھی متاثر ہوئے۔ مستقل بندوبست جیسی برطانوی زمین داری پالیسیوں نے پرانے مسلم جاگیردار طبقے کو کمزور کیا، اور ان میں سے کئی اپنی زمینیں کھو بیٹھے یا زمینداری سے باہر ہو گئے۔ 

مجموعی طور پر، برطانوی دور میں ہندو تاجر برادریوں، خاص طور پر بنیوں اور مارواڑیوں نے تجارت، مالیات اور زمین داری کے ذریعے نمایاں ترقی کی اور طاقت ور طبقہ بن کر اُبھرے، جب کہ مسلم تاجر، زمیندار اور اشرافیہ اپنی سابقہ برتری کھو بیٹھے اور معاشی طور پر کمزور ہو گئے۔ یہ تبدیلی ہندستان کی سماجی-معاشی ساخت میں ایک گہرا فرق پیدا کرنے والی تھی۔ 

خلافت ِ راشدہؓ کا زوال جن حالات میں اور جن اسباب سے ہوا، ان کے نتائج میں سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی تھا کہ اُمت مسلمہ کے اندر مذہبی اختلافات رُونما ہوگئے۔ پھر ان اختلافات کو جس چیز نے جمنے اور مستقل فرقوں کی بنیاد بننے کا موقع دے دیا، وہ بھی اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ نظامِ خلافت اپنی اصلی شکل پر قائم نہ رہا تھا، کیونکہ ملوکیت کے نظام میں کوئی ایسا بااختیار اور معتمدعلیہ ادارہ موجود نہ تھا، جو اختلافات کے پیدا ہوجانے کی صورت میں اُن کو بروقت، صحیح طریقے سے حل کر دیتا۔ 

ابتدا اس فتنے کی بھی بظاہر کچھ بہت زیادہ خطرناک نہ تھی۔ صرف ایک شورش تھی جو بعض سیاسی اورانتظامی شکایات کی بنا پر سیّدنا عثمانؓ کے خلاف ان کے آخری دور میں اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اُس کی پشت پر نہ کوئی نظریہ اور فلسفہ تھا، نہ کوئی مذہبی عقیدہ۔ مگر جب اس کے نتیجے میں آنجناب کی شہادت واقع ہوگئی، اور حضرت علیؓ کے عہد ِخلافت میں نزاعات کے طوفان نے ایک زبردست خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی، اورجنگ ِ جمل، جنگ ِ صفّین، قضیہ تحکیم اور جنگ ِ نہروان کے واقعات پے درپے پیش آتے چلے گئے، تو ذہنوں میں یہ سوالات اُبھرنے اور جگہ جگہ موضوعِ بحث بننے لگے۔ ان سوالات کے نتیجے میں چندقطعی اور واضح نظریات پیدا ہوئے جو اپنی اصل کے لحاظ سے خالص سیاسی تھے، مگر بعد میں ہر نظریے کے حامی گروہ کو بتدریج اپنا موقف مضبوط کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ دینیاتی بنیادیں فراہم کرنی پڑیں اور اس طرح یہ سیاسی فرقے رفتہ رفتہ مذہبی فرقوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے....[ان] اختلافات نے مسلمانوں کی وحدتِ ملّی کو سخت خطرے میں مبتلا کردیا۔ اختلافی بحثیں گھر گھر چل پڑیں۔ہربحث میں سے نئے نئے سیاسی، دینیاتی اور فلسفیانہ مسائل نکلتے رہے۔ ہرنئے مسئلے کے اُٹھنے پر فرقے اور فرقوں کے اندر مزید چھوٹے چھوٹے فرقے بننے لگے۔ اور ان فرقوں کے اندر باہمی تعصبات ہی نہیں ہوئے بلکہ جھگڑوں اور فسادات تک نوبت پہنچ گئی۔ (’مسلمانوں میں مذہبی اختلافات کی ابتداء‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، نومبر ۱۹۶۵ء، جلد۶۴، عدد۳، ص۳۸-۳۹)