مضامین کی فہرست


ستمبر ۲۰۲۵

ایک ’غزہ‘ کا مقتل ساری دُنیا کے سامنے ہے، دوسرے ’غزہ‘ کے بارے میں خود اس کے ہمسائے میں  بسنے والے بھی بے خبر، لاتعلق یا مجرمانہ غفلت کاشکار ہیں۔ اس غزہ سے مرادہے مقبوضہ جموں و کشمیر پر ٹوٹنے والی قیامت اور لمحہ بہ لمحہ مسلط کی جانے والی برہمنی توسیع پسندانہ درندگی! 

دُنیا بھر میں عام لوگ بجاطور پر اہل غزہ کے غم کی ٹیسیں روح کی گہرائیوں تک محسوس کررہے ہیں، جو انسانی دردمندی کا ایک قیمتی پہلو ہے، جب کہ انھی قوموں کے حکومتی ایوانوں میں بیٹھے حکمران، سنگ دلی کے عنوان اور ہرجگہ ظلم کے معاون ہیں۔ برہمنی سامراج نے دُنیا کے سامنے جھوٹ، دھوکے اور مادی مفادات کے لالچ پھیلا کر ان حکمرانوں پر اندھا پن مسلط کررکھا ہے۔ دوسری طرف قلم اور کیمرے نے بھی اپنی گواہی پیش کرنے کے بجائے اس سفاکیت کو بیان کرنے سے رخصت لے رکھی ہے۔ انڈیا نے ہمیشہ عالمی بحرانی حالات میں اپنےایجنڈے کے حصول کی کوشش کی ہے۔ نائن الیون کے افسوس ناک واقعے کے بعد، جب امریکی سربراہی میں دُنیا کی ریاستی قیادتیں، مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں تو انڈیا نے ایک طرف کشمیر میں حُریت اور آزادی کی جدوجہد کو کچلنے میں شدت برتی، تو دوسری طرف خود انڈیا کے طول و عرض میں مسلمانوں کے خلاف ’ہندوتوا گردی‘ کی درندگی کو پروان چڑھایا۔ 


 

اس تحریر میں جموں و کشمیر میں ایک خاص انداز سے انڈین حکومت اور فوج کی اس پالیسی کو دیکھنے کے لیے کچھ تفصیلات دی جارہی ہیں، جو گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ میں اخبارات اور ابلاغ کے دیگر ذرائع  سے سامنے آئیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہی کچھ روا رکھا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ محض چندمثالیں ہیں۔ ان اطلاعات اور خبروں کو چند لفظوں کا مجموعہ سمجھ کر نظرانداز کرکے، سرسری طور پر دیکھ کر آگے بڑھ جانا انتہائی غفلت اور سنگ دلی ہوگی۔ کاش! پڑھنے اور جاننے والے، ان مظلوم کشمیری بھائیوں کے روز افزوں دُکھ کو محسوس کرسکیں۔ 

ان تفصیلات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس انداز سے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے صبح و شام گزر رہے ہیں:  

  •  ۱۶ جون: ضلع کپواڑہ (ماور بالاقلم آباد) میں انڈین انتظامیہ نے کشمیری حُریت رہنما عبدالحمید لون کی چار کنال پر آبائی زرعی اراضی ضبط کرلی، جنھوں نے انڈین مظالم سے تنگ آکر ۹۰کے عشرے میں آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کی تھی۔ 
  •  ۱۷ جون: ضلع سرینگر (بادامی باغ) میں انڈین فوج کے ایک نائیک پی کمار نےاپنے کیمپ میں خودکشی کر لی۔ اس طرح گذشتہ چند برسوں کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں ذہنی دبائو کا شکار ہوکر خودکشی کرنے والے انڈین فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی تعداد ۶۳۰ ہو گئی ہے۔ 
  •  ۲۱ جون: ضلع بانڈی پورہ (کیتسن بنلی پورہ) میں ایک ناکے پر ایک عام شہری بشیر احمدکو گرفتارکرلیا ۔پہلگام میں دونوجوانوں پرویز احمد جوتھراور بشیر احمد جوتھر کو پہلگام فالس فلیگ میں ملوث کرکے گرفتارکرلیا۔ پہلگام فالس فلیگ کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں اب تک ۴ہزار سے زیادہ نوجوان گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ ضلع سانبہ (گائوں بڑودی) میں ایک خاتون سمیت چارافراد گرفتار کرلیے۔ 
  •  ۲۳ جون: انڈین فوج نے ضلع اودھمپور (بسنت گڑھ) کے رہائشی محمد شفیق کی آبائی زرعی اراضی ضبط کرلی، جب کہ محمد شفیق کو گذشتہ برس جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیاہے۔ 
  •  ۲۴ جون: سرینگر کےزیڈ بل میںامام بارگاہ کے مرکزی دروازے کے باہر سڑک پر اسرائیلی پرچم کی گریفٹی بنانے پر تین نو عمر بچیوں کو گرفتار کر کے تفتیش کی، بُری طرح ڈرایا دھمکایا اور مستقبل میں اسرائیل کے خلاف احتجاج نہ کرنے کا حکم دیا۔ 
  •  ۲۵جون: ضلع کپواڑہ (ہندواڑہ بگٹ پورہ نیو کالونی) میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن محمد امین شاہ کے گھر میں گھس کر پولیس نے جائیداد کی دستاویزات ، دینی کتب، موبائل فون اور لیپ ٹاپ ضبط کر لیے۔ جموں میں پولیس نے ایک مسلمان کو جوتوں کے ہار پہنا کر پولیس گاڑی کے بونٹ پر بٹھاکر سڑکوں پہ گشت کرتے ہوئے انسانیت کی تذلیل کی۔  
  •  ۲۶ جون: ضلع ادھمپور (بسنت گڑھ) میں ایک جعلی مقابلے میں انڈین فوجیوںنے ایک کشمیری نوجوان کو شہید کر دیاہے۔  
  •  ۲۷ جون: ضلع بارہمولہ کے علاقے سوپور میں تین کشمیری نوجوانوں عرفان محی الدین ڈار، محمد آصف خان اور گوہر مقبول راتھر کو گرفتار کرکے جموں، کوٹ بھلوال جیل میں ڈال دیا۔ 
  •  ۲۹ جون: انڈین افواج نے ضلع سرینگر میں ۳۲مختلف مقامات پر انسانی حقوق کے کارکنوںاور آزادی پسندوں کے گھروں پہ چھاپے مارے۔ ضلع سرینگر کے باہر ۱۶۵ مقامات پر چھاپے مارے اور بڑی تعداد میں جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔ 
  •  ۳۰ جون: ضلع راجوری (کیری) میں انڈین فوج نے دو کشمیری نوجوانوں کو شہید اور ایک کو گرفتار کر لیا۔ضلع پلوامہ (پامپور) میں محمد مقبول وانی نظربند کارکن کے گھر پر چھاپہ مارا اور موبائل فون، کمپیوٹر سمیت اہم دستاویزات اپنے قبضے میں لے لیں، اور گھریلو سامان کی توڑ پھوڑ کی۔ 
  •  یکم جولائی: سرینگر ( لال چوک) میں لوگوں نے انڈین اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں کشمیری نوجوانوں کی طویل نظربندیوں کے خلاف مظاہرہ کیا تو پولیس نے متعددمظاہرین کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا، مقدمے قائم کیے۔ اسی طرح ضلع پلوامہ (ترال) میں تلاشی آپریشن کے دوران دو نوجوان گرفتار کر لیے ہیں۔ ضلع کولگام میں جغرافیہ کے پروفیسر اور معروف سماجی کارکن ڈاکٹر باری نائیک کو حراست میں لے لیا۔ 
  •  ۹ جولائی : ضلع کپواڑہ ( لولاب) میںایک کشمیری حریت راہنما غلام رسول شاہ کی ۵کنال ۳مرلے پر مشتمل زرعی اراضی کو ضبط کرلیا ہے ۔ضلع پونچھ کے ڈسٹرکٹ جیل میں انڈین پولیس نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتے ہوئے کشمیری سیاسی قیدیوں کو لاٹھی چارج کرتے ہوئے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ پونچھ ڈسٹرکٹ جیل میں کشمیری نظربندوں کو زبردستی داڑھیاں منڈوانے کا حکم دیاگیا اور جیل میں قرآن پاک کی تلاوت پربھی پابندی عائد ہے۔ 
  •  ۱۰ جولائی : ضلع پلوامہ سے ۵۴سالہ سجاد احمد شاہ ساکن کپواڑہ پنزگام کی لاش پُراسرار حالت میں کدل بل پامپورسے ملی ہے۔ 
  •  ۱۱ جولائی: میر واعظ عمر فاروق کو جامع مسجد سرینگرمیں نماز جمعہ اداکرنے کی اجازت نہیں دی اور گھر پہ نظربند کردیا۔ میرواعظ عمرفاروق، جامع مسجد میں نماز جمعہ کے خطبے میں ۱۳جولائی ۱۹۳۱ءکے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے تھے۔ 
  •  ۱۲ جولائی : ضلع بانڈی پورہ (پتو شاہی) میں کشمیری مسلمان حاشر رفیق پرے نامی شہری کی ایک کنال اور ۱۸ مرلے سے زائد اراضی اور ایک رہائشی مکان ضبط کر لیا ہے ۔ جائیداد کی مالیت ساڑھے تین کروڑ ۵۹لاکھ (یعنی ساڑھے دس کروڑ پاکستانی روپے) ہے۔ 
  •  ۱۶ جولائی: ضلع بڈگام (ہروانی ، چیوہ اورکھاگ) منظور احمد چوپان کا دو منزلہ رہائشی مکان، محمد یوسف ملک کا دومنزلہ مکان اور۵ کنال۱۳مرلہ اراضی اور بلال احمد وانی کی ۱۹مرلہ زرعی اراضی سمیت تین جائیدادیںضبط کرلی گئی ہیں۔ضلع بانڈی پورہ میں بی جے پی سے وابستہ ایک سرپنچ کی مسلمانوں کے خلاف غنڈا گردی کے خلاف لوگوں نے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ 
  •  ۱۷ جولائی : ضلع بانڈی پورہ ( سنبل) میں انڈین فوجی نے ایک پی ایچ ڈی اسکالر محمدزبیرکی گاڑی کو بلاجواز ٹکر ماردی، جس کے نتیجے میں وہ شدیدزخمی ہوگئے، اور زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے۔  
  •  ۱۸ جولائی : ضلع بارہمولہ (سوپور)، کرال ٹینگ میں عرفان احمد انتوکی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا ۔عرفان احمد انتو غیر قانونی طورپر جیل میں قید ہیں۔ انھیں آزادی پسند تنظیم مسلم لیگ کا رکن قرار دیتے ہوئے چھاپے کے دوران گھر سے کاغذات، موبائل فون اور لیپ ٹاپ قبضے میں لے لیے۔ 
  •  ۲۰ جولائی: انڈین فوج نے مختلف اضلاع سرینگر، بڈگام، پلوامہ اور گاندر بل میں حریت پسند کشمیریوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران دو درجن سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ گرفتارشدگان پر سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے رکھنے کا الزام ہے ۔ 
  •  ۲۱ جولائی: ضلع اسلام آباد (گنشی بل) سے منیب مشتاق شیخ کو چہرے کی شناخت کے نظام (FRS)کی مدد سے گرفتارکیا۔اسی طرح محمد طاہر اور حفیظ اللہ کو گرفتارکرکے کٹھوعہ ڈسٹرکٹ جیل اور بھدرواہ جیل منتقل کردیا گیا ۔ 
  •  ۲۳ جولائی : ضلع بانڈی پورہ کے علاقے گڈورہ میں انڈین فوج نےطارق احمد، بلال احمد اور مدثر احمد کو گرفتار کرلیا۔ 
  •  ۲۵جولائی: ضلع پونچھ (کرشناگھاٹی) میں بارودی سرنگ کے ایک دھماکے میں انڈین فوج کا ایک اہلکارللت کمار ہلاک،جب کہ ایک آفیسر(جے سی او) سمیت دو اہلکار زخمی ہو گئے۔  ضلع بارہمولہ (ربن سوپور) میں انڈین پولیس نے جاوید احمد ڈار کی تین کنال اور تین مرلہ اراضی اور رہائشی مکان ضبط کر لیا ہے۔ضلع کپواڑہ (بٹہ پورہ ہیہامہ) میں متوالی پسوال کی دوکنال ۱۴مرلہ اراضی، کپواڑہ ضلع (کرناہ) میں عبدالحمید شیخ کی تین کنال ۶ مرلہ ، خوشحال پٹھان کی ۱۸مرلہ،اور اسی ضلع کے علاقے نواگبرا میں منظور احمد شیخ کی دوکنال اور ۹مرلہ اراضی پر قبضہ کرلیا۔ ضلع جموں انڈین پولیس نے ۲۱سالہ کشمیری نوجوان محمدپرویز احمد کو ضلع کے نواحی علاقے سورے چک میں تلاشی کی کارروائی کے دوران جعلی مقابلے میں شہید کردیا۔پرویز کو اس وقت شہید کیا، جب وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ ستواری میں موٹر سائیکل پر جارہاتھا۔  
  •  ۲۸ جولائی : ضلع کپواڑہ (کرال پورہ) میں انڈین فوج نے ایک نوجوان ولی محمدمیرکو گرفتار کرلیا ۔ ضلع سرینگرکے علاقے داچھی گام علاقے میںمجاہدین اور انڈین فوج کے درمیان ایک معرکے میں تین مجاہدین کمانڈر سلیمان شاہ، ابوحمزہ اورجبران بھائی نے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔ سرینگر کے ایک پہاڑی علاقےڈھگون میں انڈین فوجیوں نے خانہ بدوش گوجر قبائلیوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔راجوری کے محمد لیاقت، محمد اعظم، شوکت احمد اور عبدالقادر کوایک فوجی کیمپ میں درجن بھر اہلکاروں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں تینوں افراد نہایت تشویش ناک حالت میں زخمی پائے گئے۔ 
  •  ۳۰ جولائی : ضلع پونچھ (کسیلیان) میں جھڑپ کے دوران انڈین افواج نے دومجاہدین کو شہید دیا۔ 
  •  یکم اگست : ضلع شوپیاں (علیال پور) سے ایک ۴۰سالہ شخص ریاض احمدلون کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ ایک تلاشی مہم کے دوران ضلع راجوری میں ایک سرکاری سکول ٹیچر سمیت چار افراد کو گرفتار کرلیا ہے، ضلع کولگام (دیوسر) میں جیل میں قید کشمیری محمداشرف کی منقولہ جائیداد، ایک کار اور دیگر املاک ضبط کرلیں۔ 
  •  ۲؍ اگست : ضلع کپواڑہ (ہائی ہامہ) میں ایک ۱۸ سالہ نوجوان محمد اسلم خان کی تشدد شدہ لاش قریبی جنگل میں پائی گئی۔ 
  •  ۳؍ اگست: انڈین فوج کے کرنل نے سرینگر ہوائی اڈے پر ہوائی کمپنی اسپائس جیٹ کے ملازمین کو بہیمانہ تشدد کانشانہ بنایا اور ایک ملازم کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی، جب کہ دوسرے ملازم کے جبڑے توڑ دیے گئے۔ یہ واقعہ سری نگر سے دہلی جانے والی پرواز کے بورڈنگ عمل کے دوران پیش آیا۔ ضلع اسلام آباد میں انڈین پولیس نے ایک کشمیری نوجوان منظور احمد کو، جوتین بہنوں کا اکلوتا بھائی اور اپنے بزرگ والدین کا سہاراتھا، دورانِ حراست شدید تشدد کا نشانہ بناکر شہید کردیا۔ یہ واقعہ ضلع کی جیل میں دورانِ حراست پیش آیا۔مسلسل تین دن تک تشویشناک حالت میں رہنے کے باوجود جیل حکام نےمنظور احمدکو بروقت طبی امداد فراہم نہیں کی، جس کے باعث ان کی شہادت ہوئی۔ 
  •  ۶؍ اگست : انڈین دارلحکومت نئی دلی میںانڈین پولیس کے ’کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر‘ نے دوکشمیریوں محمد ایوب بٹ اور محمد رفیق شاہ نامی تاجروں کو لاجپت نگر سے گرفتار کیا۔ انڈین پولیس نے سرینگرکے عید گاہ علاقے میں ایک کشمیری نوجوان ریاض احمد کو دوران حراست بہیمانہ تشدد کرکے شہید کر دیا۔ نوجوان کےاس حراستی قتل پر علاقے کے لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اورانھوں نے سڑکوں پر نکل کر شدید احتجاج کیا۔ ضلع کٹھوعہ (بنی کے) کے رہائشی محمد اشرف کی ۵مرلہ غیر منقولہ جائیداد ضبط کرلی۔ کٹھوعہ ، ادھم پوراورسانبہ اضلاع میں حُریت پسندکشمیریوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے قابض حکام نے انڈین فوج کی ۲۵مزید کمپنیوں اور ’کوبرا‘ کمانڈوز کے دو یونٹ تعینات کر دیئے ہیں۔ جموں کی ایک خصوصی عدالت نے جماعت اسلامی کی فلاحی سرگرمیوں کے لیے فعال تین افراد کو گرفتار کرلیا، اور راجوری کے ایک ٹرسٹ کے خلاف فرد جرم عائد کردی ہے، اور پھر امیر محمد شمسی، عبدالحمید گنائی اور مشتاق احمد میر اور ’الہدیٰ ایجوکیشنل ٹرسٹ‘ کے خلاف خصوصی عدالتی حکم سنایا۔ 
  •  ۸؍ اگست: انڈین انتظامیہ نے ۲۵کتب پر پابندی عائدکردی۔ 
  •  ۱۱؍ اگست: ضلع کٹھوعہ کے سرحدی علاقے میں انڈین فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ایک پاکستانی باشندے کو شہید کردیا ہے۔ 
  •  ۱۲؍اگست: ضلعی مجسٹریٹ سانبہ، آیوشی سوان نے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان بین الاقوامی جنگ بندی لائن سے ملحق دوکلومیٹر کے فاصلے پر دوماہ کے لیے رات کا کرفیو نافذ کردیا ہے، جو رات ۱۰ بجے سے صبح ۵بجے تک مؤثر رہے گا۔ (بحوالہ ہندستان سماچار) 
  •  ۱۳؍ اگست: ضلع بانڈی پورہ میں تین کشمیریوںاشفاق احمد بٹ ،جمیل احمد خان اور منظور احمد ڈار کی دو کنال اور ۱۲مرلے پر مشتمل اراضی ضبط کر لی، جس کی مالیت دوکروڑ۱۱ لاکھ انڈین روپے ہے ۔پولیس نے تینوںافراد کو آزادی پسندسرگرمیوں سے وابستہ قرار دیا۔ ضلع بارہمولہ (اوڑی) میں  فوجی آپریشن کے دوران مجاہدین اور انڈین فوج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں ایک انڈین فوجی ہلاک، جب کہ دیگر تین اہلکار زخمی ہوگئے۔ انڈین فوج نے آپریشن کے دوران گھروںمیں گھس کر خواتین اور بچوں سمیت مکینوںکو سخت ہراساں کیا اور قیمتی گھریلو اشیاءکی توڑ پھوڑ کی۔ 
  •  ۱۴؍ اگست: ضلع کپواڑہ (وجھہامہ اور گلگام) کے جنگلاتی علاقوں میں تلاشی آپریشن میں انڈین افواج نے تین نوجوانوں کو مجاہد تنظیم کے کارندے قرار دے کر گرفتار کرلیا۔ ضلع کولگام کی تحصیل دمہال ہانجی پورہ کے دیوسر اکہال کے جنگلاتی علاقے میںمجاہدین اور انڈین فوج کے درمیان ایک خونی معرکہ ہوا جو بارہ دن تک جاری رہا۔معرکے کے نتیجے میں مجاہد حارث نذیر ڈار ولدنذیر احمد ڈار ساکن راجپورہ ضلع پلوامہ، ذاکر احمد گنائی ولد غلام محی الدین ساکن متالہامہ کولگام اور عادل رحمان ڈینٹوولد عبد الرحمان ساکن گلاب باغ آرم پورہ سوپورسمیت چار مجاہدین نےمردانہ وار لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔ جھڑپ کے دوران انڈین فوج کے دو اہلکارلانس نائیک پرتپال سنگھ اور کانسٹیبل ہرمندرسنگھ ہلاک، اور ایک درجن سے زائد فوجی زخمی ہوئے۔ اس کارروائی میں انڈین فوج نے ڈرونز، ہیلی کاپٹر اور ایلیٹ اسپیشل فورسز کو بھی استعمال کیا ۔  
  •  ۱۵؍ اگست: ضلع بانڈی پورہ کے گائوں کوئل مقام کے رہائشی ۵۵سالہ بشیر احمد گوجر کی لاش ایک باغ سے ملی ہے ۔وادی کے طول و عرض میں لوگوں نے انڈیا کے یومِ آزادی کو ’یومِ غلامی‘ اور ’یومِ سیاہ‘ کے طور پر منایا۔ انڈین فوج نے کپواڑہ، بانڈی پورہ، بارہمولا کے اضلاع میں بڑے پیمانے پر محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں کیں۔دس اضلاع میں سے خاص طور پر راجوری، پونچھ، کشتواڑ، ڈوڈہ، ادھمپور، کٹھوعہ میں سخت پابندیاں نافذ کرکے تلاشیاں لی گئیں اور راستوں میں مسافروں ہی کو نہیں بلکہ گھروں میں مقیم شہریوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔ درجنوں نوجوانوں کو گرفتار کیا، جس پر نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا: ’’پہلگام فالس فلیگ کو جواز بنا کر جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہ کرنا انتہائی افسوس ناک ہے‘‘۔ 
  •  ۱۶؍اگست: حکومت نے ۹۱ سرکاری ویب سائٹس بند کردی ہیں، تاکہ شہری براہِ راست دفاتر میں پہنچ کر خوار ہوں (۲۵؍اگست تک ان غیرفعال، سرکاری ویب سائٹس کی تعداد ۱۵۰ تک پہنچ گئی)۔ 
  •  ۲۰؍اگست: بارہمولا (بنڈی پائین) کے آصف مقبول ڈار کے باغات اور مکانات ضبط کرلیے گئے۔ بجیہاڑ(گری) کے عادل حسین ٹھوکر کی غیرمنقولہ جائیداد ضبط کرلی گئی اور محاصرہ کرکے چھ افراد کو گرفتار کرلیا، وغیرہ وغیرہ۔ 

اسکولوں پر قبضہ 

۲۲؍اگست ۲۰۲۵ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا: 

’’چونکہ وزارتِ داخلہ، حکومتِ ہند نے ۲۸ فروری ۲۰۱۹ء اور بعدازاں ۲۷فروری ۲۰۲۴ء کے تحت جماعتِ اسلامی ، جموں و کشمیر کو ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا تھا۔ چونکہ ایجنسیوں نے ایسے متعدد اسکولوں کی نشان دہی کی جو براہِ راست یا بالواسطہ جماعت ِ اسلامی / ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ سے منسلک پائے گئے، اور چونکہ ان ۲۱۵؍ اسکولوں کی انتظامی کمیٹیوں کے بارے ایجنسیوں کی جانب سے ان پر منفی رپورٹ دی گئی ہے۔جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ: ان ۲۱۵؍ اسکولوں کی انتظامی کمیٹیاں، متعلقہ ضلع مجسٹریٹ/ڈپٹی کمشنر کے زیرانتظام لی جائیں۔ متعلقہ ضلع مجسٹریٹ/ڈپٹی کمشنر، ان اسکولوں کا انتظام سنبھالنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں‘‘۔ 

نسل پرست انڈین حکومت، مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں، رفاہی سلسلوں اور اخباروں پر پابندیاں لگانے کے ساتھ انھیں تباہ کرنے اور قبضے میں لینے کے لیے جارحیت کا ارتکاب کر رہی ہے، اور اسرائیل کے ماڈل پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے۔ مذکورہ بالا حکم نامے میں جن تعلیمی اداروں پر قبضہ جمانے کا اعلان کیا گیا ہے، یہ تعلیمی ادارے عام لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کیے ہیں اور ان میں پڑھایا جانے والا نصاب کوئی خفیہ کتابوں پر مشتمل نہیں۔ ان کے معیاری تعلیمی، تربیتی اور تدریسی ماحول سے یہاں کے لوگ خوش بھی ہیں اور اعتماد بھی کرتے ہیں۔ لیکن انڈین حکومت ہرسطح پر اور ہردرجے میں کشمیری مسلمانوں کو کچلنے کے لیے، ایک کے بعد دوسرا قدم اُٹھاتی چلی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حالیہ فیصلے کے خلاف کشمیر بھر میں غم و غصے کی لہردوڑ گئی ہے۔ 

پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (PDP)کی سربراہ، سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے: ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کے ۲۱۵؍اسکولوں پر قبضے کا حکم فوری طور پر واپس لیا جائے۔ یہ قدم بدترین ظلم کی ایک شکل ہے، جس کا مقصد کشمیری نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کو سبوتاژ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ زمین، وسائل اور ملازمتوں پر من مانی کرنے کے بعد اب اہل کشمیر کی تعلیم کو نشانہ بنانے سے ہمارے مستقبل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ ان اداروں میں ۵۱ہزار سے زیادہ معصوم بچوں کا مستقبل اور تعلیمی ترقی خطرے میں پڑگئے ہیں۔ حکومت اپنا یہ انتقامی فیصلہ فوری طور پر منسوخ کرے اور ٹرسٹ کو بغیر کسی مداخلت کے دوبارہ تعلیمی انتظام سنبھالنے اور تدریسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دے‘‘۔ 

جموں و کشمیر میں ’اپنی پارٹی‘ کے سربراہ الطاف بخاری نے ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کے اسکولوں پر پابندی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’جماعت اسلامی سے کسی کا سیاسی اور نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ ’فلاحِ عام ٹرسٹ‘ اسکولوں نے کئی عشروں کے دوران تعلیم کے شعبے میں مثبت اور قابلِ ستائش کردارادا کیا ہے، اس لیےموجودہ بلاجواز قدم کو واپس لیا جائے اور بچوں کے مستقبل سے نہ کھیلا جائے‘‘۔ 

’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ فرنٹ‘ نے اس قدم کو ’انتظامی زیادتی، انتقامی کارروائی اور عوامی اعتماد کی پامالی‘ قرار دیا۔ ’عوامی اتحاد پارٹی‘ کے لیڈر انعام النبی نے الزام لگایا: ’حکومت ۵۱ہزار سے زیادہ بچوں کے تعلیمی اور سماجی مستقبل سے کھیل رہی ہے‘‘۔ ’عوامی کانفرنس‘ کے صدر سجاد لون نے ان تعلیمی اداروں کو ’غریب طلبہ کے خدمت گار اور معیاری ادارے‘ قرار دیتے ہوئے، ان کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ 


گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران جن واقعات کی مختصر تصویر مضمون کے پہلے حصے میں پیش کی گئی ہے، اسے مقبوضہ جموں و کشمیر کے زمینی حقائق کا ایک معمولی حصہ سمجھاجائے کہ جو کسی نہ کسی صورت میں لوگوں کے سامنے آگیا ہے۔ ورنہ سلسلہ وار طریقے سے پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں یہ ظالمانہ واقعات نہایت تسلسل، بڑی تیزی سے اور وسیع پیمانے پر،سخت بے رحمی سے ہورہے ہیں۔ جن سے دُنیا بھی بے خبر ہے، اور ’بیس کیمپ‘ (آزاد کشمیر) اور پاکستان بھی مجموعی طور پر احساسِ ذمہ داری کے معاملے میں بے حسی کی صورت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ 

ریاست پاکستان اور آزاد کشمیر کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ظلم و زیادتی کے بارے میں عوامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر، ابلاغی، سفارتی اور رفاہی سرگرمیوں میں اپنا قرارِواقعی کردار ادا کریں۔ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے اور دفاعی نظام پر بہرصورت یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار پوری قوت اور مکمل احساسِ ذمہ داری سے ادا کریں۔ یہی ذمہ داری تمام سیاسی اور دینی پارٹیوں کو ادا کرنی چاہیے۔ ابلاغِ عامہ کے اداروں اور یونی ورسٹیوں کو اس ضمن میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ 

پاکستان کے عوام جس طرح اُمت مسلمہ کے ہرملّی مسئلے پر تڑپتے اور اپنی آواز بلند کرتے ہیں، اسی طرح پوری اُمت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر مظلوم اہلِ کشمیر کا ساتھ دیں۔یہ نہ ہو کہ ’دوسرا غزہ‘ تڑپتا رہ جائے اور راوی اپنی اپنی جگہ سُکھ، چین، فتح کے شادیانے بجاتا رہے۔ 

قرآن کریم کا وہ حصہ جو مکی سورتوں پر مشتمل ہے، پورے تیرہ سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوتا رہا۔ اس پوری مدت میںقرآن کا مدارِ بحث صرف ایک ہی مسئلہ کے مختلف پہلوئوں کی توضیح و تفہیم رہا۔اِس مسئلہ کی بنیادی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی، مگر اُسے پیش کرنے کا زاویہ اور انداز برابر بدلتا رہا۔ قرآن نے اس کے مختلف زاویوں کو پیش کرنے میں ہر دفعہ ایک نیا اسلوب اور نیا پیرایہ اختیار کیا اور ہر مرتبہ یوں محسوس ہوا کہ گویا اُسے پہلی بار ہی چھیڑا گیا ہے۔ قرآن کریم پورے مکی دور میں اسی مسئلہ کی توضیح و تفہیم میں لگا رہا۔ اُس کی نگاہ میں یہ مسئلہ دین اسلام کے تمام مسائل میں اوّلین اہمیت کا حامل تھا۔ یہ عظیم تر مسئلہ اساسی اور اُصولی مسئلہ تھا، عقیدہ کا مسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ دو عظیم نظریوں پر مشتمل تھا: ایک اللہ تعالیٰ کی اُلوہیت اور انسان کی عبودیت اور دوسرے ان کے باہمی تعلق کی نوعیت۔ 

 قرآن کریم اسی بنیادی مسئلے کی تفہیم کے لیے انسان سے بحیثیت ’انسان‘ خطاب کرتا رہا کیونکہ یہ مسئلہ ایسا تھا کہ اُس سے تمام انسانوں کا تعلق یکساں ہے۔ وہ چاہے عرب کے رہنے والے ہوں یا غیر عرب، نزولِ قرآن کے زمانہ کے لوگ ہوں یا بعد کے کسی زمانہ کے لوگ، یہ وہ بنیادی انسانی مسئلہ ہے جس میں کسی ترمیم و تغیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ اس کائنات میں انسان کےوجود و بقا کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے درست فہم کی بنیادپر ہی یہ طے ہوگا کہ انسان کا اِس کائنات میں کیا مقام ہے؟ اور اس کائنات میں بسنے والی دوسری مخلوقات کے ساتھ اُس کا کیا تعلق ہے؟ اور خو د کائنات اور موجودات کے خالق کے ساتھ اس کا کیا رشتہ ہے؟ یہ وہ پہلو ہے جس کی وجہ سے اس مسئلے میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ یہ اس کائنات اور کائنات کے ایک حقیر جز انسان سے براہِ راست متعلق ہے۔  

بنیادی مسئلہ 

مکی زندگی میں قرآن انسان کو یہ بتاتا رہا کہ اس کے اپنے وجود اور اُس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کی اصل حقیقت کیا ہے؟ وہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور کس غرض کے لیے آیا ہے اور آخرکار وہ کہاں جائے گا؟ وہ معدوم تھا، اُسے کس انجام سے دوچار ہونا ہوگا؟ وہ انسان کو یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے جسے وہ محسوس تو کرتا ہے لیکن دیکھ نہیںپاتا؟ اس طلسماتی کائنات کو کس نے وجود بخشا اور کون اس کا منتظم و مُدبر ہے؟ کون اسے گردش دے رہا ہے؟ کون اسے باربار نیا پیراہن بخشتا ہے؟ کس کے ہاتھ میں ان تغیرات کا سررشتہ ہے، جن کا ہرچشمِ بینا مشاہدہ کر رہی ہے؟ وہ اُسے یہ بھی سکھاتا ہے کہ خالق کائنات کے ساتھ اس کا رویہ کیساہونا چاہیے؟ اور خود کائنات کے بارے میں اسے کیا رَوِش اختیار کرنی چاہیے؟ اس کے ساتھ ساتھ ہی وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ انسانوں کے باہمی تعلقات کیسے ہونے چاہییں؟ 

یہ ہے وہ اصل اور بنیادی مسئلہ، جس پرانسان کی بقا اور وجود کا دارومدار ہے اور رہتی دُنیا تک اسی عظیم مسئلے پر انسان کی بقا اور وجود کا انحصار رہے گا۔اس اہم مسئلے کی تحقیق و توضیح وتفہیم میں مکّی زندگی کا پورا تیرہ سالہ دور صرف ہوا۔ اس لیے کہ انسانی زندگی کا بنیادی مسئلہ یہی ہے، اور اس کے بعد جتنے مسائل ہیں وہ اسی مسئلہ کے تقاضے میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت اس مسئلہ کی تفصیلات اور جزئیات سے زیادہ کچھ نہیں۔ قرآن نے مکی دور میں اسی بنیادی مسئلے کو اپنی دعوت کا مدار بنائے رکھا اور اس سے صرفِ نظر کرکے اسلامی نظامِ حیات کی فروعی اور ضمنی بحثوں سے تعرض نہیں کیا اور اُس وقت تک انھیں نہیں چھیڑا جب تک علمِ الٰہی نے یہ فیصلہ نہیں فرما دیا کہ اب اس مسئلہ کی توضیح و تشریح کا حق ادا ہوچکا اور یہ مسئلہ اس جماعت کے دلوں میں پوری طرح جاگزیں ہوچکا ہے، جسے حکمت ِالٰہی اقامت ِدین کا ذریعہ بناکر اس کے ہاتھوں اس دین کو عملی شکل میں برپا کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ 

جو لوگ دینِ حق کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں اور وہ دُنیا کے اندر ایک ایسا نظام برپا کرنا چاہتے ہیں جو بالفعل اس دین کی نمائندگی کرے، انھیں اس عظیم حقیقت کے مختلف پہلوئوں پر غوروفکر کرنا چاہیے، کیونکہ یہی وہ حقیقت ہے جسے راسخ کرنے کے لیے قرآن کریم نے مکی زندگی کے پورے ۱۳برس صرف کیے، اور کبھی اس سے توجہ ہٹاکر نظامِ زندگی کی دوسری تفصیلات کو نہیں چھیڑا، نہ ان قوانین و احکام کو بیان کرنے کی حاجت محسوس کی جو آگے چل کر مسلم معاشرے میں نافذ ہونے والے تھے۔ 

کارِ رسالت ؐ  کا آغاز 

یہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ تھی کہ آغازِ رسالت ہی میں اس اہم مسئلہ کو جو عقیدہ و ایمان کا مسئلہ ہے دعوت کا مرکزو محور بنایا جائے۔ گویا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم راہِ حق میں پہلا قدم ہی اس دعوت سے اُٹھائیں: ’’لوگو! گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘‘ اور پھر اسی دعوت کی توضیح و اشاعت و تفہیم پر اپنا تمام وقت اور صلاحیتیں صرف کردیں۔ انسانوں کو ان کے خالقِ حقیقی سے روشناس کرکے انھیں صرف اسی کی بندگی کی راہ پر لگائیں۔ 

اگر ظاہربین نگاہ اور محدودانسانی عقل کی روشنی میں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عرب اس طریقِ دعوت سے بآسانی رام ہونے والے نہیں تھے۔ عرب اپنی زبان دانی کی بدولت ’اللہ‘کا مفہوم اور ’لا الٰہ الا اللہ‘ کا مُدعا خوب سمجھتے تھے۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اُلوہیت سے مراد حاکمیت اعلیٰ ہے۔ وہ اس امر سے بھی کماحقہٗ آگاہ تھے کہ اُلوہیت کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص گرداننے کے صاف معنی یہ ہیں کہ اقتدار پورے کا پورا کاہنوں، پروہتوں، قبائل کے سرداروں اور امراء و حکام کے ہاتھ سے چھین کر اللہ کی طرف لوٹا دیا جائے۔ ضمیروقلب پر، مذہبی شعائر و مناسک پر، معاملاتِ زندگی پر، مال و دولت اور عدل و قضا، الغرض اَرواح واجسام پر اللہ اور صرف اللہ ہی کا اقتدار ہو۔  

وہ خوب جانتے تھے کہ ’لا الٰہ الا اللہ‘ کا اعلان درحقیقت اِس دُنیاوی اقتدار کے لیے ایک چیلنج ہے جس نے اُلوہیت کی سب سے بڑی خصوصیت (حاکمیت) کو غصب کر رکھا ہے۔ یہ ان تمام قوانین اور نظاموں کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے جو اس غاصبانہ قبضہ کی بنیاد پر وضع کیے جاتے ہیں، اور ان تمام قوتوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جو خانہ ساز شریعتوں کی بدولت دُنیا میں کوس  لمن الملک بجاتی ہیں۔ عرب اپنی زبان کے نشیب و فراز سے بخوبی آگاہ تھے اور وہ لا الٰہ الا اللہ کے حقیقی مفہوم کو پوری طرح سمجھ رہے تھے۔ ان سے یہ امر بھی پوشیدہ نہ تھا کہ ان کے خود ساختہ نظاموں اور ان کی پیشوائی اور قیادت کے ساتھ یہ دعوت کیا سلوک کرنا چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے اُنھوں نے اِس دعوت یا بالفاظِ دیگر اس پیامِ انقلاب کا اس تشدداور غیظ و غضب کے ساتھ استقبال کیا اور اس کے خلاف وہ معرکہ آرائی کی جس سے ہرخاص و عام واقف ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دعوت کا آغاز اس انداز سے کیوں ہوا؟ اور حکمت الٰہی نے کس بناپر یہ فیصلہ کیا کہ اس دعوت کا افتتاح ہی مصیبتوں اور آزمایشوں سے ہو؟ 

قومیّت کا نعرہ کیوں نہیں؟ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ کی طرف سے دینِ حق کی تنزیل و اشاعت و غلبہ کی جدوجہد کے لیے مبعوث ہوئے تو اس وقت حالت یہ تھی کہ عرب کے سب سے زیادہ شاداب و زرخیز اور مال دار علاقے عربوں کے ہاتھ میں نہیں تھے بلکہ دوسری اقوام ان پر قابض تھیں۔ شمال میں شام کے علاقے رومیوں کے زیرِنگیں تھے، جن پرعرب حکام رومیوں کے زیرِسایہ حکومت چلارہے تھے۔ جنوب میں یمن کا پورا علاقہ اہلِ فارس کے قبضے میں تھا، جنھوں نے اپنے ماتحت عرب شیوخ کو فرائضِ حکمرانی سونپ رکھے تھے۔ عربوں کے پاس صرف حجاز اور تہامہ اور نجد کے علاقے تھے،یا وہ بے آب و گیاہ صحرا تھے جن میں اِکا دُکا نخلستان پائے جاتے تھے۔  

یہ بات بھی کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم میں صادق اور امین کی حیثیت سے معروف تھے۔ آغازِ رسالتؐ سے پندرہ سال قبل اشرافِ قریش حجراَسود کے تنازعہ میں آپ کو اپنا حَکم بناچکے تھے اور آپؐ کے فیصلے کو بخوشی مان چکے تھے۔ نسب کے لحاظ سے بھی آپؐ بنوہاشم کے چشم و چراغ تھے جو قریش کا معزز ترین خاندان تھا۔ اِن حالات و اسباب کی بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر پوری طرح قادر تھے کہ اپنے ہم وطنوں کے اندرعرب قومیت کے جذبے کو بھڑکاتے اور اِس طرح ان قبائلِ عرب کو اپنے گرد جمع کرلیتے، جنھیں باہمی جھگڑوں نے پارہ پارہ کر رکھا تھا اور جو کشت و خون اور انتقام در انتقام کی چکّی میں بُری طرح پسے ہوئے تھے۔ حضوؐر اگر چاہتے تو ان سب عربوںکو ایک جھنڈے تلے جمع کرکے انھیں قومیت کا درس دیتے اور شمال کے رُومی اور جنوب کے ایرانی استعمار کے تسلط سے عرب سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے۔ عرب کے تمام اَطراف و اکناف کو ملا کر متحدہ عرب ریاست کی داغ بیل ڈال دیتے۔ 

یہ حقیقت ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قوم پرستی کے نعرہ کو لے کر اُٹھتے تو عرب کا بچہ بچہ اس پر لبیک کہتا ہوا لپکتا، اور آپؐ کو وہ مصائب و آلام نہ سہنے پڑتے جو آپؐ کو تیرہ برس تک صرف اس بنا پر سہنے پڑے کہ آپؐ کی دعوت اور نظریہ جزیرۃُ العرب کے فرماں روائوں کی خواہشات سے متصادم تھا۔ مزید برآں یہ بھی حقیقت ہے کہ آپؐ میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ جب عرب آپؐ کی قومی دعوت کو جوش و خروش کے ساتھ قبول کرچکتے، قیادت کا منصب آپؐ کو سونپ دیتے اور اقتدار کی ساری کنجیاں پوری طرح ؐ کے قبضے میں آجاتیں ، اور رفعت و عظمت کا تاج آپؐ کے مبارک سر پر رکھ دیاجاتا، توآپؐاپنی اس بے پناہ طاقت اور اثر کو عقیدئہ توحید کا سکّہ رواں کرنے کے لیے استعمال فرماتے، اور لوگوں کو اپنے انسانی اقتدار کے سامنے سر نگوں کرنے کے بعد اللہ سبحانہ کے آگے سرنگوں کر دیتے۔  

لیکن اللہ علیم و حکیم نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس راستے پر نہیں چلایا، بلکہ انھیں حکم دیا کہ صاف صاف اعلان کردیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور ساتھ ہی متنبہ بھی کردیا کہ اس اعلان کے بعد آپؐ خود اور وہ مٹھی بھر افراد جو اس اعلان پر لبیک کہیں، ہرقسم کی تکلیف و اذیت برداشت کرنے کے لیے بھی تیار رہیں۔  

قوم پرستی اختیار نہ کرنے کی وجہ 

آخر کٹھن راستہ اللہ تعالیٰ نے کیوں منتخب فرمایا؟ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کے حق میں یہ تو ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ وہ تشدد اور ظلم کا نشانہ بنیں۔ لیکن ربّ العزت کے علم میں تھا کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ اس دعوت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔ اور نہ یہ کوئی معقول بات ہوتی کہ اللہ کے بندے رُومی یا ایرانی طاغوت کے پنجے سے نجات پاکر عرب طاغوت کے پنجے میں گرفتار ہوجاتے۔ ملک سارے کا سارا صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کا ہے اور اس پر صرف اللہ ہی کا اقتدار قائم ہونا چاہیے اور اللہ کا اقتدار صرف اس صورت میں قائم ہوسکتا ہے کہ اس کی فضائوں میں صرف لا الٰہ الا اللہ کا پرچم لہرائے۔ یہ بات کیوںکر مقبول اور درست ہوسکتی تھی کہ اللہ کی زمین پر بسنے والی مخلوق رومی اور ایرانی طاغوتوں سے نجات پاتے ہی عربی طاغوت کا طوقِ غلامی اپنے گلے میں ڈال لے۔  

طاغوت جس قبا میں بھی ہو وہ طاغوت ہے۔ انسان صرف اللہ سبحانہٗ کے بندے اور غلام ہیں اور وہ صرف اسی صورت میں صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے بندے اور غلام رہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں صرف اللہ ہی کی اُلوہیت کا بول بالا ہو۔ ایک عرب لا الٰہ الا اللہ  کا لغوی لحاظ سے جو مفہوم سمجھتا تھا وہ یہ تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو، اللہ کے سوا کوئی اور ہستی قانون اور شریعت کا منبع و ماخذ نہ ہو، اور انسان کا انسان پر غلبہ و اقتدار باقی نہ رہے، کیونکہ اقتدار صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اور اسلام انسانوں کے لیے جس ’قومیت‘ کا علَم بردار ہے وہ اسی عقیدہ کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔ تمام اقوام خواہ وہ کسی رنگ ونسل کی ہوں، عربی ہوں یا رومی یا ایرانی، سب اس عقیدہ کی نگاہ میں پرچمِ الٰہی کے تحت مساویانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ قرآن کے نزدیک اسلامی دعوت کا یہی صحیح اور فطری طریقِ کار ہے۔ 

اقتصادی انقلاب کیوں نہیں؟ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدل و انصاف کے صحت مندانہ نظام سے یکسر بیگانہ ہوچکا تھا۔ ایک قلیل گروہ تمام مال و دولت اور تجارت پر قابض تھا اور سودی کاروبار کے ذریعے اپنی تمام تجارت اور سرمائے کو برابر بڑھاتا اور پھیلاتا جارہا تھا۔ اس کے مقابلے میں ملک کی غالب اکثریت مفلوک الحال اور بھوک کا شکار تھی۔ جن لوگوں کے ہاتھ میںدولت تھی وہی عزّت و شرافت کے اجارہ دار تھے۔ رہے بیچارے عوام تو وہ جس طرح مال و دولت سے تہی دامن تھے، اسی طرح عزّت و شرافت سے بھی محروم تھے۔ 

اس صورتِ حال کے پیش نظر سوال پیدا ہوتا ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اجتماعی اقتصادی تحریک کیوں نہ اُٹھائی اور دعوت کا مقصد دولت کی منصفانہ تقسیم ٹھیرا کر اُمراء و شرفاء کے خلاف طبقاتی جنگ کیوں نہ چھیڑی تاکہ سرمایہ داروں سے محنت کش عوام کو اُن کا حق دلواتے؟ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس دور میں ایسی کوئی اجتماعی اقتصادی تحریک اور دعوت لے کر اُٹھتے توعرب معاشرہ لازماً دو طبقوں میں بٹ جاتا۔ مگر غالب اکثریت تو آپؐ کی تحریک کا ہی ساتھ دیتی اور سرمایۂ جاہ و شرف کی ستمگری کے سامنے ڈٹ جاتی اور آپؐ کی اس تحریک کے مقابلے میں وہ معمولی سی اقلیت ہی رہ جاتی جو اپنے پشتینی مال و جاہ سے چمٹی رہتی۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہج اختیار فرماتے تو قرین قیاس ہے کہ زیادہ مؤثر اور کارگر ہوتا۔ اور یہ صورت پیش نہ آتی کہ پورا معاشرہ لا الٰہ الا اللہ کے اعلان کے خلاف صف آرا ہوجائے اور صرف چند نادرِ روزگار ہستیاں ہی دعوتِ حق کے اُفق تک پہنچ سکیں۔ 

کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ صلاحیت بدرجۂ کمال موجود تھی کہ جب اکثریت آپؐ کی تحریک سے وابستہ ہوکر اپنی زمامِ کار آپؐ کے ہاتھ میں دے دیتی اور آپؐ دولت مند اقلیت پر قابو پاکر اس کو اپنا مطیع وفرماں بردار بناچُکتے، تو آپؐ اپنے اس منصب و اِقتدار کو اور پوری قوت و طاقت کو اس عقیدئہ توحید کے منوانے اور اسے قائم و راسخ کرنے میں استعمال فرمالیتے جس کے لیے دراصل اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپؐ انسانوں کو اپنے اقتدار کے آگے جھکا کر انھیں خالقِ حقیقی کے آگے جھکا دیتے۔ 

ایسا طریق کار اختیار نہ کرنے کی وجہ 

لیکن اللہ علیم و حکیم نے آپؐ کو اس طریق کار پر بھی نہیں چلایا۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ طریقِ کار دعوتِ اسلامی کے لیے موزوں اور مناسب نہیں ہے۔ وہ جانتا تھا کہ معاشرے کے اندر حقیقی اجتماعی انصاف کے سوتے صرف ایک ہمہ گیر نظریہ کے چشمۂ صافی سے ہی پھوٹ سکتے ہیں جو معاملات کی زمامِ کار کلیتاً اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے ہاتھ میں دیتا ہو اور جو معاشرہ ہر اس فیصلے کو برضاورغبت قبول کرتا ہو، جو دولت کی منصفانہ تقسیم اور اجتماعی کفالت کے بارے میں بارگاہِ الٰہی سے صادر ہو، اور معاشرے کے ہرفرد کے دل میں، دینے والے کے دل میں بھی اور پانے والے کے دل میں بھی یہ بات پوری طرح نقش ہوکہ وہ جس نظام کو نافذ کر رہا ہے اس کا شارع خود اللہ سبحانہٗ تعالیٰ ہے، اور اس نظام کی اطاعت سے وہ نہ صرف دُنیا بلکہ آخرت میں بھی فلاح پائےگا۔ 

 معاشرے کی یہ کیفیت نہ ہو کہ کچھ انسانوں کے دل حسدوکینہ کی آگ میں جل رہے ہوں۔ معاشرے کے تمام معاملات تلوار اور ڈنڈے کے زور پر طے کیے جارہے ہوں اور انسانوں کے دل ویران اور ان کی روحیں دم توڑ رہی ہوں۔ جیساکہ آج ان نظاموں کے تحت ہورہا ہے جو غیراللہ کی اُلوہیت پر قائم ہیں۔ 

اصلاحِ اخلاق کی مہم کیوں نہیں؟ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جزیرۃ العرب کی اخلاقی سطح ہرپہلو سے انحطاط کے آخری کنارے تک پہنچی ہوئی تھی۔ صرف چند بدویانہ فضائلِ اخلاق خام حالت میں موجود تھے۔ ظلم اور جارحیت نے معاشرے کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جاہلی دور کا نامور شاعر زہیر ابن ابی سلمیٰ اسی معاشرتی فساد کی طرف اپنے اس شعر میں حکیمانہ انداز سے اشارہ کرتا ہے: 

ومن لم یرد عن حوضہٖ بسلاحہٖ 
یُھدّم ومن لا یظلم  النَّاس یُظلم 

[جو ہتھیار کی طاقت سے اپنا دفاع نہیں کرے گا، تباہ و برباد ہوگا اور جو خود بڑھ کر لوگوں پر ظلم نہیں کرے گا وہ خود (بالآخر) ظلم کا شکار ہوجائے گا۔] 

اسی خرابی کی طرف جاہلی دور کا یہ مشہور و معروف مقولہ بھی اشارہ کرتا ہے:  

اُنْصُرْ اَخَاکَ ظَالِمًا  اَوْ مَظْلُوْمًا، اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظلم کر رہا ہو یا اُس پر ظلم ہورہا ہو۔

شراب خوری اور جوا بازی معاشرتی زندگی کی روایت بن چکے تھے، اور ان پر فخر کیا جاتا تھا۔ جاہلی دور کی تمام شاعری خُمر اور قمار کے محور پر گھومتی ہے۔ طرفہ ابن العبد کہتا ہے: 

فلولا ثلاث ھن من عیشۃ  الفتٰی 
وجدّک لم احفل متی قام عوَّدی 

[اگر تین چیزیں جو ایک نوجوان کی زندگی کا لازمہ ہیں نہ ہوتیں، تو مجھے کسی چیز کی پروا نہ رہتی بشرطیکہ مجھے تابسدِ رمق غذا ملتی رہتی۔] 

فمنھن سبقی العاذلات بشربۃٍ 
کمیت متی ما تعدّ بالماء تزید 

[ان میں سے ایک میرا اپنے رقیبوں سے مَے نوشی میں سبقت لے جانا ہے، اور مَے بھی وہ دوآتشہ جس میں اگر پانی ملایا جائے تو اس پر کف آجائے۔] 

وما ذال تشرابی الخمور ولذّتی 
وبذلی وانفاقی طریفی ومتلدی 

شراب نوشی، لذت پرستی میں میری رغبت ہے، اور میرا طریقہ ہے کہ کھلا خرچ کروں اور دوسروں پر نثار کروں۔ 

الٰی ان تحامتنی العشیرۃ کلّھا 
وافردت افراد البعیر المعبّد 

[یہاں تک کہ میرا پورا قبیلہ مجھ سے دُور ہٹ جائے اور مَیں الگ تھلگ کر دیا جائوں، جیسے کہ خارش زدہ اُونٹ کو گلّہ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔] 

زناکاری مختلف شکلوں میں رائج تھی اور اس جاہلی معاشرے کی قابلِ فخر روایت بن چکی تھی۔یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں ہردور کا جاہلی معاشرہ عریاں نظر آتا ہے، خواہ وہ دورِ قدیم کا جاہلی معاشرہ ہو یا عہد ِ حاضر کا (نام نہاد مہذب معاشرہ)۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے جاہلی معاشرے کی حالت ان الفاظ میں بیان کی ہے: 

جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک تو وہ صورت تھی جو آج لوگوں میں جاری ہے، یعنی ایک آدمی دوسرے شخص کو اس کی بیٹی یا اس کی تولیّت میں رہنے والی دوشیزہ کے لیے پیغامِ نکاح دیتا اور اس کا مہر ادا کرکے اس سے نکاح کرلیتا۔ نکاح کی دوسری صورت یہ تھی کہ مرد اپنی بیوی سے، جب کہ وہ حیض سے پاک ہوچکی ہوتی، کہتا کہ فلاں شخص کو بلا، اور اُس سے پیٹ رکھوا۔ چنانچہ وہ خود اس سے الگ رہتا اور اس وقت تک نہ چھوتا جب تک اُس آدمی کے حمل کے آثار ظاہر نہ ہوجاتے۔ آثار ظاہر ہوجانے کے بعد خاوند اگر چاہتا تو اس سے ہم بستری کرلیتا۔وہ یہ طریقہ اس لیے اختیار کرتا، تاکہ اُسے اپنے سے اچھے نسب کا لڑکا ملے۔ نکاح کی اس شکل کو استبضاع کہا جاتا ہے۔  

نکاح کی ایک تیسری صورت بھی تھی۔ مردوں کی ایک ٹولی جو دس سے کم ہوتی، جمع ہوجاتی اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتی، اور اُس سے مقاربت کرتی۔ جب اُسے حمل ٹھیر جاتا تو بچے کی ولادت پر چند راتیں گزر جانے کے بعد وہ اُن سب کو بلا بھیجتی۔ اس طرح بلاوا ملنے پر کوئی شخص جانے سے انکار نہ کرسکتا تھا۔ جب وہ اُس کے پاس جمع ہوجاتے، تو وہ عورت اُن سے کہتی: تمھیں اپنی کارروائی کا نتیجہ تو معلوم ہوہی چکا ہے۔ میں نے ایک بچہ جنا ہے۔ پھر وہ اُن میں سے ایک کی طرف اشارہ کرکے کہتی کہ یہ تیرا بیٹا ہے۔ اس پر بچّے کا نام اُس شخص کے نام پر رکھ دیا جاتا، اور لڑکا اُس کی طرف منسوب ہوجاتا اور وہ اِس نسبت سے انکار نہ کرسکتا تھا۔  

نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہوجاتے اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتے، جس کے پاس جانے میں کسی کو کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی۔ دراصل یہ پیشہ ور فاحشہ عورتیں تھیں اور علامت کے طور پر اپنے دروازوں پر جھنڈے نصب کرلیتیں۔ جو شخص بھی اپنی حاجت پوری کرنا چاہتا، اُن کے پاس چلا جاتا۔ ایسی عورتوں میں سے اگر کسی کو حمل ٹھیرجاتا تو وضع حمل کے بعد سارے لوگ اُس کے پاس اکٹھے ہوجاتے، اور ایک قیافہ شناس کو بلا لیتے۔ وہ اُن میں سے جس کی طرف اس لڑکے کو منسوب کرتا وہ لڑکا اس شخص کا قرار پاتا اور وہ اُس سے انکار نہ کرسکتا۔(بخاری، کتاب النکاح) 

سوال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ایک اصلاحی تنظیم کے قیام کا اعلان کرکے اس کے ذریعے اصلاحِ اخلاق، تزکیۂ نفوس اور تطہیرِ معاشرہ کا کام شروع کر دیتے۔ کیونکہ جس طرح ہرمصلحِ اخلاق کو اپنے ماحول کے اندر چند پاکیزہ اور سلیم الفطرت نفوس ملتے رہے ہیں، اسی طرح آپؐ کو بھی ایک ایسا پاک سرشت گروہ بالیقین دستیاب ہوجاتا جو اپنے ہم جنسوں کے اخلاقی انحطاط اور زوال پر دلی دُکھ محسوس کرتا۔ یہ گروہ اپنی سلامتی ٔ فطرت اور نفاستِ طبع کے پیش نظر آپؐ کی دعوتِ تطہیر و اصلاح پر لازماً لبیک کہتا۔  

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کا بیڑا اُٹھاتے تو بڑی آسانی سے اچھے انسانوں کی ایک جماعت کی تنظیم میں کامیاب ہوجاتے۔ یہ جماعت اپنی اخلاقی طہارت اور روحانی پاکیزگی کی وجہ سے دوسرے انسانوں سے بڑھ کر عقیدئہ توحید کو قبول کرنے اور اُس کی گراں بار ذمہ داریوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتی اور اس حکیمانہ آغاز سے آپ کی یہ دعوت کہ اُلوہیت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے، پہلے ہی مرحلہ میں تُند و تیز مخالفت سے دوچار نہ ہوتی۔ 

اس طریقہ میں کیا کمزو ری تھی؟ 

یہ راستہ بھی منزلِ مقصود کو نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے یہ معلوم تھا کہ اخلاق کی تعمیر صرف عقیدہ کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے۔ ایک ایسا عقیدہ جو ایک طرف اخلاقی اقدار اور معیارِ ردّوقبول فراہم کرے اور دوسری طرف اس بالاتر قوت کا تعین بھی کرے، جس سے یہ اقدار و معیارات ماخوذ ہوں، اور انھیں سند کا درجہ حاصل ہو اور اُس جزاوسزا کی نشان دہی بھی کرے جو اِن اقدار و معیارات کی پابندی یا اُن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اُس بالاتر قوت کی طرف سے دی جائے گی۔ دلوں پر اِس نوعیت کے عقیدہ کی تفہیم اور بالاتر قوت کے تصور کے بغیر اقدارومعیارات خواہ وہ کتنے ہی بلندپایہ کیوں نہ ہوں مسلسل تغیر کا نشانہ بنے رہیں گے، اور ان کی بنیاد پر جو بھی اخلاقی نظام قائم ہوگا وہ ڈانواں ڈول ہی رہے گا۔ چنانچہ اُس کے پاس کوئی ضابطہ نہ ہوگا، کوئی نگران اور محتسب طاقت نہ ہوگی، کیونکہ دل جزا و سزا کے کسی لالچ یا خوف سے بالکل خالی ہوں گے۔ 

ہمہ گیر انقلاب 

صبر آزما کوششوں سے جب عقیدئہ اُلوہیت دلوں میں راسخ ہوگیا اور اس ہمہ گیر بالاتر قوت کا تصور بھی دلوں میں اُتر گیا جس سے اِس عقیدہ کو سند حاصل ہوتی تھی، دوسرے لفظوں میں جب انسانوں نے اپنے ربّ کو پہچان لیا اور صرف اُسی کی بندگی کرنے لگے، جب انسان خواہشاتِ نفس کی غلامی سے، اور اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کی آقائی سے آزاد ہوگئے اور لا الٰہ الا اللہ  کا تصور دلوں میں پوری طرح نقش ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ کے ماننے والوں کے ذریعے وہ سب کچھ عطا فرما دیا جو وہ تصور کرسکتے تھے۔ اللہ کی زمین رُومی اور ایرانی سامراج سے پاک ہوگئی، لیکن اس تطہیر کا مُدعا یہ نہیں تھا کہ اب اللہ کی زمین پر عربوں کا سکّہ رواں ہو بلکہ یہ انقلاب اس لیے تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ ہی کا بول بالا ہو۔ چنانچہ زمین اللہ کے سب باغیوں سے، خواہ وہ رُومی تھے یا ایرانی یا عربی پاک کردی گئی۔ 

نیا اسلامی معاشرہ ظلم اور لُوٹ کھسوٹ سے بالکل پاک تھا۔ یہ اسلامی نظام تھا اور اس میں عدلِ الٰہی پوری طرح جلوہ گر تھا۔ یہاں صرف میزانِ الٰہی میں ہر صحیح و غلط کو تولا جاتا تھا۔ اِس عدلِ اجتماعی کی بنیاد توحید تھی اور اس کا اصطلاحی نام ’اسلام‘ تھا۔ اس کے ساتھ کسی اور نام یا اصطلاح کا اضافہ کبھی گوارا نہیں کیا گیا۔ اس پر صرف یہ عبارت کندہ تھی: ’لا الٰہ الا اللہ‘۔ 

نفوس اور اخلاق میں نکھار آگیا۔ قلوب و اَرواح کا تزکیہ ہوگیا اور یہ اصلاح اس انداز سے ہوئی کہ چند مستثنیٰ مثالوں کو چھوڑ کر ان حدود و تعزیرات کے استعمال کی نوبت ہی نہ آئی، جن کو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا تھا۔ اس لیے کہ اب ضمیروں کے اندر پولیس کی چوکیاں قائم ہوگئیں۔ اب اللہ کی خوشنو دی کی طلب، اجر کی خواہش، اللہ کے غضب اور عذاب کا خو ف محتسب کا فرض انجام دے رہا تھا۔ الغرض انسانی نظام، انسانی اخلاق اور انسانی زندگی کمال کی اُس بلندی تک پہنچ گئی جس تک نہ پہلے کبھی پہنچی تھی، اور نہ صدرِ اوّل کے بعد آج تک پہنچ سکی ہے۔ 

یہ انقلابِ عظیم کیسے برپا ہوا؟ 

یہ انقلابِ عظیم اور کمالِ انسانیت صرف اِس بنا پر حاصل ہوا کہ جن لوگوں نے دینِ حق کو ایک ریاست، ایک نظام اور جامع قانون وشریعت کی شکل میں قائم کیا تھا، وہ خود پہلے اسے اپنے قلب و ضمیر اور اپنی زندگی میں قائم کرچکے تھے۔ اسے عقیدہ و فکر کے طور پر تسلیم کرچکے تھے۔ اپنے اخلاق کو اس سے آراستہ و پیراستہ کرچکے تھے، اپنی عبادات میں اسے سند کا درجہ دے چکے تھے اور اپنے معاملات میں اس کا سکّہ رواں کرچکے تھے۔ اُس دین کی اقامت پر اُن سے صرف ایک ہی وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ وعدہ ان کے غلبہ و اقتدار کا وعدہ نہ تھا، حتیٰ کہ یہ وعدہ بھی نہ تھا کہ یہ دین لازماً انھی کے ہاتھوں غالب ہوگا۔ یہ وعدہ اس دُنیا کی کسی بھی چیز سے متعلق نہ تھا، ایک ہی وعدہ جو ان سے کیا گیا تھا وہ جنّت کا وعدہ تھا۔ یہی ایک وعدہ تھا جو صبر آزما جہاد اور زُہرہ گداز آزمایشیں جھیلنے اور پامردی و استقامت کے ساتھ راہِ دعوت پر رواں دواں رہنے اور پھر جاہلیت کا مقابلہ لا الٰہ الا اللہ  میں پنہاں حقیقت کبریٰ کے ساتھ کرنے پر ان سے کیا گیا تھا۔ لا الٰہ الا اللہ  میں پنہاں حقیقت کبریٰ جو ہر زمان و مکان کے فرماں روائوں کے لیے ناگوار رہی ہے۔ 

جب اللہ تعالیٰ نے انھیں آزمائش کی بھٹی میں ڈالا اور وہ ثابت قدم رہے اور ہرنفسانی خواہش اور حظ سے دست بردار ہوگئے، اور جب اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ وہ اب کسی طور پر کسی دُنیاوی جزا اور صلہ کے منتظر نہیں، نہ انھیں اس کا ہی انتظار ہے کہ یہ دعوت لازماً اُن ہی کے ہاتھوں غلبہ حاصل کرے، اور یہ دین ان ہی کی قربانیوں اورکوششوں سے بالاو برتر ہو، ان کے دلوں میں نہ آبا واجدادکا تفاخر باقی رہا ہے، نہ قومی گھمنڈ کے جراثیم، نہ وطن و ملک کی بڑائی کا جذبہ اور نہ قبائلی اور نسبی عصبیتوں کی خُوبُو۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انھیں ان خوبیوں سے آراستہ دیکھا، تب جاکر اُن کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ یہ لوگ اب ’امانت عظمیٰ‘ (یعنی خلافت ِ ارضی) کے بار کو اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس عقیدے میں کھرےہیں جس کا تقاضا ہے کہ ہرطرح کی حاکمیت صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہو، دل و ضمیر پر، اخلاق و عبادات پر، جان و مال پر، اور حالات و ظروف پر صرف اُسی کی حاکمیت ہو۔ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ یہ اس سیاسی اقتدار کے سچے محافظ ثابت ہوں گے، جو اُن کے ہاتھوں میں اس غرض کے لیے دیا جائے گا تاکہ شریعت الٰہی کو نافذ کریں اور عدلِ الٰہی کو قائم کریں، مگر اس اقتدار میں سے ان کی اپنی ذات کے لیے یا اپنی قوم کے لیے کوئی حصہ نہ ہو۔ بلکہ وہ حاکمیت سراسر اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو اور اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی خدمت کے لیے ہو، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقتدار کا منبع صرف اللہ ہی ہے اور اُسی نے اسے ان کی تحویل میں دیا ہے۔ 

اگر دعوتِ اسلامی کا قافلہ اس انداز سے روانۂ سفر نہ ہوتا، اور دوسرے تمام جھنڈوں کو پھینک کر صرف اسی جھنڈے یعنی ’لا الٰہ الا اللہ‘ کے پرچمِ توحید کو بلند نہ کرتا، اور اس راہ کو اختیار نہ کرتا جو ظاہر میں دشوار گزار اور جاں گسل راہ تھی، مگر حقیقت میں آسان اور بابرکت تھی، تو اِس مبارک اور پاکیزہ نظام کا کوئی جز بھی اتنے بلند معیار کے ساتھ ہرگز بروئے عمل نہ آسکتا تھا۔ اِسی طرح اگر یہ دعوت اپنے ابتدائی مراحل میں قومی نعرہ بن کر سامنے آتی یا اقتصادی تحریک کے لبادے میں ظاہر ہوتی، یا اصلاحی مہم کا قالب اختیار کرتی، یا ’لا الٰہ الا اللہ‘ کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے شعار اور نعرے بھی شامل کرلیتی، تو یہ پاکیزہ و مبارک نظام جو اس دعوت کے نتیجے میں قائم ہوا، کبھی خالص ربانی نظام بن کر جلوہ گر نہ ہوسکتا۔  

اب ہم ہندستان میں تاریخ دعوتِ اسلام کے جس مقام کا تذکرہ کرنے لگے ہیں، یہ ہماری تاریخ کا نہایت اہم موڑ ہے۔ یعنی مملکت ِہند کا دو آزاد و خود مختار مملکتوں: انڈیا اور پاکستان میں تبدیل ہو جانا___ یہ آزادی اور خود مختاری بڑی آسانی اور سکون سے حاصل نہیں ہوسکی جیسا کہ سب لوگوں کی خواہش تھی اور وہ اس کے لیے دلائل بھی دیتے تھے۔ آزادی کا یہ حصول اور برصغیر ہند میں مسلمانوں کو ایک چھوٹے سے خطۂ زمین پر اپنی حکومت قائم کرنے کا موقع مل جانا ایک خوفناک تباہی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد ممکن ہوا۔  

تقسیم ہند اور اس کی مشکلات  

تقسیمِ ہند کے موقع پر ایسی تباہی اور قتل عام ہوا کہ انسانی تاریخ نے اس کی مثال نہ دیکھی اور سنی ہوگی، حتیٰ کہ انسانیت نے اپنی تاریخ کے ظالمانہ اَدوار، بدترین ظلم و جہالت اور بے رحمی و درندگی کے زمانوں میں بھی ایسی مثال کا مشاہدہ نہ کیا ہوگا۔ ایسا قتل عام جس میں پانچ لاکھ فرزندانِ اسلام کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مرد و عورت، بچّے بوڑھے اور لاغر و نحیف مریض کو بخشا گیا نہ دودھ پیتے بچے کو چھوڑا گیا۔ عزتوں اور آبروؤں کی ایسی بے حُرمتی کی گئی کہ حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کر دیے گئے۔اللہ ہی جانتا ہے کہ عزت و آبرو کی بے حرمتی کے ان گھناؤنے حملوں میں کتنی جانیں مر مر کر زندہ ہوئیں۔ ایسے دل دوز واقعات پیش آئے کہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آ جائے اور دل ریزہ ریزہ ہوجائے۔ بے شرمی اور بے حیائی کے ایسے ایسے مظاہرے دیکھنے کو ملے کہ لحاظ و مروت کی پیشانی جھک جائے اور انسانیت کا چہرہ شرم سے سرخ ہوجائے۔  

خوفناک تباہی اور بے مثال ظلم و ستم کا یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب عام مسلمان اس سے بالکل غافل تھے۔ وہ اپنی سیاسی قیادت پر بھروسا کیے بیٹھے تھے، جب کہ ان کی قیادت یعنی مسلم لیگ کے ممبران و ارکان جن کو نئی مملکت کی زمامِ اقتدار سونپی جانا تھی، اپنی قوم کے اس خوفناک انجام سے بے پروا تھے۔ وہ ان تقریبات اور پارٹیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے جو ملک کے دارالحکومت کراچی میں منعقد ہو رہی تھیں۔ وہ بس آزادی کی خوشی اور حکومت کی کنجیاں حوالے کیے جانے کی خوشی میں نڈھال تھے۔ اسی دوران مشرقی پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں مسلمان خواتین کی حرمتیں پامال کی جا رہی تھیں، مساجد شہید اور قرآن مجید جلائے اور پاؤں تلے روندے جارہے تھے۔ پاکستان کی طرف آنے والے مہاجرین کے دَل کے دَل دوران سفر راہ میں ایسی المناک مصیبتوں اور مشکلات سے دوچار کیے جا رہے تھے کہ انھیں دیکھ کر دل لرز اٹھیں اور جسم ٹھٹھر جائیں۔ 

قتل و غارت اور بے آبرو گردی کا یہ سلسلہ تقسیم ملک سے ایک ماہ قبل ہی شروع ہو گیا تھا، لیکن قوم اس سے بے خبر تھی۔ ان کو حکمرانی کے نشے نے مدہوش اور اقتدار کے تکبر نے بے خود کررکھا تھا،جب کہ اقتدار کی کنجیاں عملی طور پر ابھی انھیں سپرد نہیں کی گئی تھیں ۔ یہ لوگ اپنی ذمہ داری سے غافل رہے اور خطرے کو محسوس کرنے اور اس سے ہوشیار رہنے میں غلطی کے مرتکب ہوئے، حالانکہ یہ وہ حالات تھے جب دشمنوں کی ناپاک سازشیں اور فرزندانِ اسلام کے خلاف ان کی ملعون کارروائیاں طشت اَزبام ہو چکی تھیں ۔ افسوس کہ ملکی قیادت نے ایک طویل عرصہ ان خطرناک حالات سے بے اعتنائی برتی۔ 

قوم کی بات کریں تو اس نے اپنی غفلت و لاپروائی کا خمیازہ بھگت لیا اور اسے یہ بھی یقین ہو گیا کہ جن لوگوں کو اس نے اپنے اپنے مقام پر راہ نما بنایا تھا، ان میں سے ایک بڑی تعداد کا مقصد حکومتی منصبوں اور ایوانوں تک رسائی اور حقیر دنیاوی دولت اور جاہ کا حصول تھا۔پھر جب ان لوگوں نے اپنی طلب و تلاش کا سامان حکومتی وزارتوں اور مناصب کی شکل میں پا لیا تو ان کا مقصد پورا ہو گیا جس کے لیے وہ دوڑ دھوپ کرتے رہے تھے۔ مناصب اور عہدوں پر براجمان ہوتے ہی یہ قوم کے مسائل سے بے پروا ہو گئے۔ انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ قوم کس طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ انھوں نے ان جھوٹے وعدوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیا جووہ قوم سے کر چکے تھے۔  

اس وقت ہندستان میں مسلمان قوم کی صورتِ حال کیا تھی ؟ ان کو جس طرح کے خطرات اور  مصائب و مشکلات: دینی، تعلیمی اور معاشرتی طور پر درپیش تھیں، ان کی سنگینی اور شدت کا کچھ نہ پوچھیے۔ ان کی مثال ان یتیموں جیسی تھی جو کمینوں کے دسترخوان پر بیٹھ جائیں اور کمینہ صفت انسان ان کے اوپر کوئی ترس کھائیں نہ انھیں انسانیت کا کوئی خیال آئے، وہ صرف اپنا پیٹ بھرنے میں مصروف رہیں۔ ان کا مقصد بھی حکومتی مناصب اور قانون ساز مجالس کی نشستوں کا حصول تھا یا پھر کسی یورپی ملک میں سفارت کاری کے مزے لوٹنا تھا۔ ان لوگوں کی بزدلی اور پست ہمتی کا یہ عالم تھا کہ مسلم لیگ کے صدر چوہدری خلیق الزماں بھی ہندستان میں قیام کرنے کا حوصلہ نہ رکھ پائے کہ وہ اپنے پیروکاروں کے ہمراہ ان مشکلات و مصائب کا سامنا کرتے۔ وہ تقسیم ملک کے تھوڑے ہی عرصے بعد وہاں سے نکل آئے۔وہ اپنے ان ساتھیوں اور پیروکاروں کو خطرات جھیلنے اور ہندوؤں کے تیروں تلواروں کے وار سہنے کے لیے وہیں چھوڑ آئے جنھوں نے ان کو اپنا لیڈر بنایا تھا۔  

جماعت اسلامی ہند اور اس کی دعوت  

پاکستان کی طرف ہجرت کرآنے والے مسلمانوں کے علاوہ جو مسلمان انڈیا میں رہ گئے تھے، وہ بڑی آزمائش میں گھر گئے۔ مسلمانوں کا سیاسی اور تنظیمی وجود ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا۔ اس صورتِ حال میں وہاں پر جماعت اسلامی ہند نے تنکا تنکا اکٹھا کر کے، بے سروسامانی کے عالم میں دعوت، تنظیم، حوصلے اور تربیت کے لیے قدم اُٹھایا۔ جماعت اسلامی کا یہ عمل ان سچے اور مخلص مسلم مجاہدین کی پیروی کا نمونہ دکھائی دیتا ہے، جنھوں نے ہر حال میں اپنی ذمہ داری کو نبھانے اور پورا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے خطرات اور مظالم کی ذرا پروا نہ کی خواہ وہ کتنے ہی سخت اور ہولناک کیوں نہ تھے۔ ان لوگوں کا طریق کار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے طریقِ کار کی پیروی پر مشتمل تھا۔ اس راہ میں وہ انھی خطوط پر عمل پیرا تھے جو رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مقرر کیے تھے۔ وہ انسانیت تک اپنی دعوت پہنچانے کے لیے آپؐ کے سیدھے راستے اور آپؐ کی صاف سیدھی سنت پر چلنے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہندستان میں کارکنانِ جماعت کے سامنے راستہ بہت خراب، مشکل اور خطرات سے گھرا ہوا تھا۔ ذاتِ باری تعالیٰ ہی کی قدرت تھی کہ اس نے اپنے ان بندوں کو اس طرح کے بدترین حالات میں اسلام کی دعوت کو پھیلانے اور پہنچانے کی توفیق عنایت فرمائی۔ لہٰذا، اسی ذاتِ باری تعالیٰ نے ان کو اپنے راستے پر ثابت قدمی اور طریقۂ کار پر استقامت عطا فرمائی اور اسی نے انھیں دشمن کے شر اور زمانے کے مصائب سے محفوظ رکھا۔ 

یہاں یہ امر بھی اختصار کے ساتھ عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر ہند میں دعوتِ اسلام کو لے کر اٹھنے والی جماعت اسلامی بھی تقسیم ہند کے بعد دو مستقل اور الگ الگ جماعتوں میں تقسیم ہو گئی۔ ہندستان کی جماعت اسلامی اپنے پروگرام اور لائحہ عمل میں بالکل آزاد تھی۔ لہٰذا ہندستان میں مقیم رہ جانے والے ارکانِ جماعت نے دعوتِ دین کی ذمہ داری کو اپنے طور پر اپنے کندھوں پر لے لیا اور پھر مسلسل اسی طرح اس کو ادا کرتے رہے۔ انھوں نے رام پور شہر میں اپنا مرکز قائم کیا اور مولانا ابو اللیث اصلاحی کو اپنا امیر منتخب کیا۔ مولانا ابواللیث اصلاحی قرآنی علوم و معارف اور وقت کے تقاضوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اس بے نظیر خوبی کے ساتھ وہ ان مخلص باعمل لوگوں میں سے تھے جن کی مثال اس تاریک دور میں ملنا بہت مشکل ہے۔ 

 یہاں یہ بات ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی ہند کا جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ تنظیمی طور پر کوئی تعلق نہیں۔ اس کا اپنا تنظیمی ڈھانچا اور مستقل نظام ہے۔ ہاں، نظریہ و عقیدہ، طریقِ کار اور طرزِ عمل میں تمام مسلمان جس طرح متحد ہیں اسی طرح وہ اسلام کی دعوت کو انسانیت تک پہنچانے میں بھی ایک ہو سکتے اور ایک دوسرے کے لیے محبت کے جذبات رکھ سکتے ہیں خواہ وہ مصر کے رہنے والے ہوں یا انڈونیشیا اور پاک و ہند کے باشندے ہوں۔ 

یہ ا س جد و جہد کا مختصر تذکرہ ہے جو جماعت اسلامی نے ہندستان میں کی اور ان شاءاللہ کرتی رہے گی۔ اب ہم پاکستان میں جماعت اسلامی کی دعوت سے متعلق بات کی طرف آتے ہیں۔ 

جماعت اسلامی پاکستان کی جدوجہد  

قبل اَز تقسیم ہند جماعت اسلامی کے طریقِ دعوت اور لائحہ عمل اور تقسیم کے بعد ہندستان کے جو حالات پیدا ہوئے ان کا ذکر اُوپر گزر چکا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان جماعت اسلامی کا مرکز قرار پایا۔  

یہ بات سب کے علم میں ہے کہ تحریک پاکستان میں اور ہندستان سے اس خطۂ زمین کی آزادی کا مطالبہ اسلام کے نام پر کیا گیا تھا اور عام مسلمانوں نے اپنے جان و مال اور قوتوں اور صلاحیتوں کی قربانی صرف اور صرف اسی غرض کے لیے دی تھی کہ یہاں اسلام کا کلمہ بلند ہو اور اللہ کے قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ 

پاکستان میں حاکم جماعت، تحریک پاکستان کے دوران ہر جلسے، تقریب اور اجتماع میں یہ اعلان کرتے رہے کہ آزادیِ ملک کی اس تحریک کی منزل یہ ہے کہ ایک اسلامی مملکت کی بنیاد رکھیں۔ اس کے قوانین اور طریقۂ کار کو مرتب کرنے میں کتاب و سنت کے چشمۂ صافی سے رہنمائی لیں مگر بدقسمتی سے جونہی انھوں نے نوزائیدہ مملکت کے مناصب کو سنبھالا اور اس خطۂ زمین پر آزاد حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اسلام سے لاتعلقی ظاہر کرنا شروع کر دی۔ اس سلسلے میں حیلوں بہانوں سے کام لینے لگے۔ ٹال مٹول اور پہلوتہی کی روش اختیار کر لی۔ انھیں اس بارے میں جب بھی کچھ کہا جاتا تو وہ اس کے جواب میں کہتے کہ یہ ابھی نئی نئی مملکت ہے، اس کی اسلامیت کو ظاہر کرکے کیوں اس کا قلع قمع کر دینا چاہتے ہو؟  لفظ ’اسلام‘ ہمسایوں کو دشمن اور طاقت ور عالمی قوتوں کو ہمارا مخالف بنا دے گا۔ 

ہم نے جب بھی انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ خیالات اور توہمات اپنے کہنے والوں کے دلی امراض، کمزور عقائد اور اللہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ڈگمگاتے ایمان کی چغلی کھاتے ہیں۔ تو یہ سن کر وہ اپنے سر جھکا لیتے اور اپنے جھوٹے دعوؤں اور وعدوں پر اصرار کرنے لگتے۔ حالانکہ سیدھی سادی اور صاف اسلامی شریعت جس کے بارے میں انھوں نے طرح طرح کے گمان قائم کر لیے تھے اور اس کی طرف اپنے انتساب کو لمحہ بہ لمحہ تازہ کرتے بھی رہتے تھے اور اس پر مضبوطی سے کاربند ہونے کی دعوت بھی دیتے تھے، بخدا اگر یہ اس شریعت پر عمل پیرا ہو جاتے، امور و معاملات کو اس کے تقاضوں اور مطالبات کے مطابق چلایا جاتا، تو اس کی عظمت کے سامنے بڑے بڑے جابر اور سرکش بھی گردنیں جھکا دیتے اور غرور و تکبر کے نشے میں مدہوش بھی اس کے واضح دلائل اور صاف ستھرے نظام کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ۔ 

مگر اسلام تو اپنے ہی ماننے والوں میں اجنبی ہو کر رہ گیا ہے۔ اپنے ہی پیروکاروں میں حیران کھڑا ہے، جو اس کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں۔ لیکن پھر اس کو ناپسند بھی کرتے ہیں، اس کے حکم کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں، زمانے کی گردش کے اس کے خلاف جانے کا انتظار بھی کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس قوم کی چند ماہ کی حکومت میں لوٹ کھسوٹ، متروکہ املاک پر جعلی قبضوں اور خود ان کے قول و فعل کے درمیان بدترین تضاد اور نیتوں کے فساد نے قوم کی اکثریت کو یہ باور کرنے پر مجبور کر دیا کہ یہ لوگ دین کے ساتھ کچھ برا ہی کریں گے۔ قوم کو یہ بھی یقین ہو گیا کہ یہ لوگ امریکا و برطانیہ کے دساتیر سے انتخاب کر کے ملک کا دستور بنائیں گے۔ البتہ وہ اس بات کے علی الاعلان اظہار کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتے۔ رائے عام سے ڈرتے ہیں جس نے آزادی کی دعوت پر محض اس لیے لبیک کہا تھا اور جہاد کا راستہ اس لیے چُنا تھا اور اپنی جان و مال کی قربانی اس لیے دی تھی کہ انھیں اسلام کے کلمے کی سربلندی محبوب تھی۔ زمین کے ایسے ٹکڑے کو حاصل کرنے کا شوق تھا جس کے اوپر عادلانہ اسلامی حکومت کا پرچم لہرائے۔ 

جب معاملہ اصل میں یہ تھا تو دیدہ بینا رکھنے والوں کے سامنے جب صورت حال کھلی تو قوم کو یقین ہو گیا کہ یہ لوگ سنجیدہ نہیں ہیں ۔چھوٹے بڑے معاملات میں ان کے نزدیک دین کا حکم کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ بس اپنی شہوات و خواہشات کے سمندر میں غرق ہیں ۔ لہٰذا اگر انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا گیا تو وہ معاملے ہی کو خراب کر کے رکھ دیں گے۔ 

 ان حالات میں جماعت اسلامی فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھی اور میدان عمل میں اُتری۔ پورے ملک کو جگایا اور متحرک کیا۔ امورِ سلطنت پر اختیار رکھنے والوں پر زور دیا کہ وہ مجلسِ تاسیسی میں قرارداد مقاصد پیش کریں جو مملکتِ جدید کی حیثیت (status) اور اس کے دستور کو واضح کرے۔ یہ لوگ مجلس تاسیسی کو حتمی طور پر حکم دیں کہ وہ ملک کا شریعت اسلامیہ پر مبنی دستور تیار کرے اور اس کے قوانین کتاب و سنت کے سرچشموں سے ماخوذ ہوں۔ 

سب سے بڑھ کر یہ کہ واضح الفاظ میں یہ اعلان کریں کہ مملکت مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور زمین پر حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اور یہ کہ نیا دستور ان حدود سے باہر نہیں ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کی ہیں ۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد کے باقی مشتملات بھی ان مطالبات میں شامل ہیں۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ سب کچھ ایک ہی دن میں اور بغیر کسی جدوجہد اور کش مکش کے حاصل نہیں ہو گیا تھا۔ اس جد و جہد کی مختصر داستان یہاں بیان کی جاتی ہے: 

ملک کو ماہِ رمضان ۱۳۶۶ھ/ اگست ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل ہوئی تو جماعت اسلامی قیامِ پاکستان کے اوّل روز ہی سے مصروف عمل ہو گئی۔ جماعت نے اس کا خاص اہتمام کیا تھا اور وہ یہ کہ ان زخم خوردہ اور لُٹے پُٹے مہاجرین کی مدد کا ذمہ لیا جن کو ہندستان میں مسلسل قتل و غارت نے وہاں سے ہجرت کرکے حدودِ پاکستان کے اندر پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس وقت صورتِ حال کیا تھی؟ اس کی ہر شخص کو بخوبی خبر ہے، لہٰذا یہاں دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ 

خلاصۂ کلام یہ کہ مہاجرین کا مسئلہ، ان کی مدد، ان کی آباد کاری، ان کے امور و مسائل کی دیکھ بھال اور ان کی طرح طرح کی ضرورتوں کے بارے میں باخبر رہنا، آزادی کے ابتدائی کئی ماہ تک جماعت اسلامی کا یہی ایک کام تھا۔ اس دوران جماعت کی بہترین جانچ ہوئی۔ ان حالات میں جماعت کے ارکان و مددگار اپنے کام میں ثابت قدمی اور حسن اخلاق کا مظہر بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے اور امانت و دیانت سے لوگوں کے کام آنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ان کے بدترین دشمن بھی ان کی تعریف کرنے اور اس ضمن میں ان کے پہل کرنے کی گواہی دینے پر مجبور ہو گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکومت کے ذمہ داران اور بڑے افسران نے بھی یہ اعتراف کیا کہ اگر جماعت اسلامی نہ ہوتی اور امداد و تعاون کی مسلسل عملی جدوجہد نہ ہوتی تو یہ ممکن نہ تھا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنا فرض ادا کر سکتی۔ 

مطالبہ نفاذِ اسلام 

پاکستان میں پناہ لینے والے مہاجرین کا بوجھ کچھ کم ہوا تو جماعت اسلامی پاکستان اور اس کے ارکان و کارکنان اس کٹھن مرحلے سے سرفراز ہو کر نکلے۔ جماعت کو مصیبت زدہ زخمیوں اور بے بس و لاچار لوگوں کی خدمت کے دوران بہت سے تجربات ہوئے۔ اس سے فارغ ہو کر جماعت نے اپنے اصلی میدان میں قدم رکھا اور ایک بہت بڑی تحریک کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ اور مملکت جدید کے لیے قرآن و سنت کی اساس پر مبنی دستور کی تشکیل کا مطالبہ شروع کر دیا۔ جماعت نے پہلے ان مطالبات کو مرتب کر کے ملک کے طول و عرض میں ہر ممکن ذریعے: اخبارات و مجلات، جلسوں اور کانفرنسوں اور خطبات مساجد میں عام کیا۔ یہ مطالبات پلے کارڈز، بینرز اور وال چاکنگ کے ذریعے بھی شائع کیے گئے، یہاں تک کہ مطالبات کی آواز پورے ملک میں گونج اُٹھی اور کراچی میں حکومتی ایوان کے دروازوں پر بھی دستک دینے اور انھیں خوابِ غفلت سے بیدار کرنے لگی۔ عوام نے ملک کے کونے کونے میں لاکھوں کی تعداد میں جلسوں اور کانفرنسوں میں ان مطالبات کے حق میں قراردادیں پاس کیں۔ پھر قائدین تحریک نے قومی محضرنامہ بھی حکومت کو پیش کر دیا جس کے اُوپر تمام طبقات کے دستخط موجود تھے۔ اس بھرپور جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ امور حکومت چلانے والے مجبور ہو گئے کہ اس مسئلے کا جائزہ لیں اور اس کے بارے میں باہمی صلاح مشورہ کریں تاکہ اس بند گلی سے نکلنے کا راستہ مل جائے۔ 

جماعت اسلامی پاکستان نے جو مطالبات حکومت کو پیش کیے اور پوری قوم بھی اس سلسلے میں جماعت سے متفق تھی وہ مطالبات حسب ذیل تھے: 

جب پاکستان کے باشندوں کی غالب اکثریت اسلام کے اصولوں پر ایمان رکھتی ہے اور مسلمانوں نے اس کی خاطر عظیم قربانیاں دی ہیں، ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ ان کے اُمورِ زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق چلائے جائیں۔ اب، جب کہ پاکستان کی تشکیل کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ ہر پاکستانی مسلمان کا یہ مطالبہ ہے کہ تاسیسی اسمبلی یہ اعلان کرے کہ: 

۱- پاکستان میں حاکمیت ایک اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے۔ حکومت ِپاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے مالک کی منشا و مرضی کو اس کی زمین پر پورا کرے اور اسی کی پیروی کرے۔ 

۲- اسلامی شریعت ہی پاکستان کا اساسی قانون ہوگا۔ 

۳- ملک میں نافذ جتنے قوانین اسلامی شریعت سے متصادم ہوں وہ کالعدم قرار پائیں گے اور اس کے بعد بھی کوئی قانون شریعت کے خلاف نافذ نہیں کیا جائے گا۔ 

۴- حکومت ِپاکستان اُمورِ حکومت میں شریعت کی طے کردہ حدود میں رہ کر ہی کوئی کام کرسکتی ہے۔ 

یہ چار مطالبات تھے جن کی بنیاد پر پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ان مطالبات نے غفلت کی نیند سونے والوں کو جگا دیا اور قوم کی آنکھیں کھول دیں کہ اسے کس چیز کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرنا ہے اور کس چیز کے منوانے پر حکومت کو مجبور کرنا ہے۔ 

ان مطالبات نے جہاں پوری قوم کو کھڑا کر دیا تھا، وہیں کراچی میں حکومتی ذمہ داران بھی راہِ راست کی طرف لوٹنے لگے۔ دراصل اس بھرپور قومی تحریک نے ان کی نیندیں اڑا کر رکھ دی تھیں اور انھیں اس معاملے سے متعلق غور و فکر اور سوچ بچار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔لیکن اس کے باوجود کہ انھیں اس قومی مطالبے کی شدت کا کچھ احساس ہو چلا تھا وہ آسانی اور خوش دلی کے ساتھ کہاں اس سے نصیحت پکڑنے والے تھے، لہٰذا یہ ان مطالبات کی آواز کو دبانے کی غرض سے پابندیوں اور سختیوں پر اُتر آئے۔ اخبارات و رسائل اور دیگر ذرائع ابلاغ کو بند کرنے لگے۔ اس معاملے میں ان کا سب سے پہلا قدم ملک کے نامور عالم دین، امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی گرفتاری تھی۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں سے قیم جماعت میاں طفیل محمد کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت نے ان لوگوں کو کسی عدالت میں پیش کرنے اور کوئی فردِ جرم عائد کیے بغیر جیل میں ڈال دیا۔ یہ ۴؍ اکتوبر ۱۹۴۸ء کا واقعہ ہے بعدازاں ملک کی شمال مغربی سرحدوں اور مغربی پنجاب کے علاقوں سے جماعت اسلامی کے بہت سے ارکان کو بھی پس دیوار زندان پہنچا دیا گیا۔ یہ دراصل دعوت اسلامی اور اس کو لے کر اُٹھنے والوں کے خلاف ذمہ داران حکومت کے دلوں میں جلتی آگ اور دشمنی تھی۔ اسی طرح حکومت نے ان لوگوں کی ڈاک اور خط کتابت پر بھی سخت نگرانی کے پہرے بٹھا دیے۔ خفیہ پولیس کے آدمی سفر و حضر میں ارکانِ جماعت کے ساتھ چمٹے رہتے۔  

لیکن یہ سختیاں اور پابندیاں دعوت کو لے کر اٹھنے والوں کی توجہ کو اس سے ہٹانہ سکیں۔ نہ ان کی سرگرمیوں اور مطالبہ نفاذِ اسلامی کی جدوجہد میں کوئی کمی لا سکیں، بلکہ یہاں تو معاملہ اُلٹ دکھائی دیا کہ تحریک کی سرگرمیوں میں مزید تیزی آگئی۔ ان کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہوا۔ خود ارکان جماعت اور وابستگانِ جماعت کی رفتارِ کار، نصب العین سے وابستگی اور عقیدے کی مضبوطی میں اضافہ ہوا۔ 

شب و روز کی اس مسلسل اور اہم جدوجہد کا نتیجہ چھ ماہ بعد سامنے آیا، جب کہ امیر جماعت سیدابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر قائدین و ارکانِ جماعت ابھی جیل میں ہی تھے کہ تخت حکمرانی پر براجمان ظالموں نے قوم کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور معمولی تبدیلی و ترمیم کے بعد ان کو قبول کر کے تاسیسی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ ذمہ دارانِ حکومت نے پہلے ان مطالبات کو ایک جامع قرارداد کی شکل میں ڈھالا اور پھر پوری قوم کے اس عزم و ارادے کا اعلان کیا کہ نیا دستور قرآن و سنت کے اصولوں اور اسلامی شریعت کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا جائے۔  

یہاں اس تاریخی قرارداد کے ابتدائی جز کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جو تاسیسی اسمبلی نے اپنے ارکان کی تائید اور اتفاق کے ساتھ ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء/۱۴ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۸ھ کو جاری کی۔ یہ’ قرارداد مقاصد‘ (Objectives Resolution) کے نام سے مشہور ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کہ یہ ان اصولوں اور بنیادوں کو بیان کرتی ہے جو تاسیسی اسمبلی کے اوپر لازم کرتے ہیں کہ وہ دستور کی تشکیل و تشریح میں ان بنیادوں کے دائرے سے باہر نہ نکلے۔ قرارداد ملاحظہ کیجیے: 

اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے، آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔جس کی رُو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ ( آئین پاکستان مجریہ ۱۹۷۳ء: ابتدائیہ، ص ۳، دفعہ نمبر۲، اور ضمیمہ دفعہ نمبر ۲، مطبوعہ ۳۱ جولائی ۲۰۰۴ء، اسلام آباد، پاکستان) 

قرارداد کا یہ وہ جز ہے جو دستور پاکستان کی اسلامی بنیادوں کو صراحت سے بیان کرتا ہے اور لازم کرتا ہے کہ وہ دستور کی تشکیل اور تدوین میں اسلامی شریعت کے اصول و قواعد سے باہر نہ جائے، جب کہ اس سے متصل دیگر اجزاء غیر مسلم اقلیتوں سے متعلق دستور کا موقف واضح کرتے اور نظام کی تشکیل، عدلیہ کے قیام اور حقوقِ عامہ وغیرہ کے متعلق تشریح کرتے ہیں جن کا ذکر مقدمۂ دستور (Preamble) میں لازمی تھا تاکہ دستور کی تدوین میں ان سے رہنمائی لی جاسکے۔ 

اُوپر مذکور دفعات دستور کا وہ حصہ ہے جو اس تاریخی قرارداد کی اہمیت کو پیش کرتا ہے۔ مجلس تاسیسی کا اس قرارداد کو جاری کرنا، اس مسلمان قوم کی شاندار کامیابی اور واضح فتح تھی جس قوم نے اپنے دین کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرنے اور اپنے اس حق کا مطالبہ ڈٹ کر کیا تھا، یعنی اللہ کی زمین میں اس کے بندوں پر اسی کے قانون کے نفاذ کا مطالبہ! (جاری( 

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒبیسویں صدی کی ایک نابغۂ  روز گار شخصیت تھے ۔ انھوں نے اسلام کے مکمل نظام حیات کو مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ جدیددور کی زبان میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی تقریر اور تحریر سے پوری انسانی زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا جامع علم حاصل ہوجاتا ہے ۔ انھوں نے مغربی تہذیب کی چکا چوند سے مرعوب ہوئے بغیر اس پر مؤثر تنقید کی اور پوری یکسوئی کے ساتھ دور حاضر کے تمام فتنوں کا بڑی مہارت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اور فوقیت کو واضح کیا۔ انھوں نے اسلامی نظام کی صرف نظری وضاحت ہی نہیں کی بلکہ یہ بھی سمجھایا کہ اس نظامِ رحمت و برکت کو آج کے جدید دور میں کس طرح بالفعل قائم کیا جاسکتا ہے اور ایک جدید ریاست کے تمام اداروں کو کس طرح اسلامی سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے۔ مزید برآں انھوں نے اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے ایک جماعت بھی قائم کی تھی۔ 

اسلامی ریاست کے تصور کے تمام پہلوئوں اور اس کے عملی نظام کار کی وضاحت و تشریح کا کام انھوں نے جس اعتماد،یقین، مہارت اور بالغ نظری سے انجام دیا، بیسویں صدی میں اس کی کوئی اور مثال اسلامی دنیا میں نہیں ملتی۔ انھوں نے دور جدید کے جملہ تقاضوں کے پیش نظر ایک اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پوری تفصیل کے ساتھ اور اپنی اجتہادی بصیرت اور خدادادقابلیت اور صلاحیت سے پیش کیاہے ۔ اسلام کے اصول حکمرانی، اسلامی ریاست کے قیام کا نقشہ، اس میں اسلامی قوانین کے نفاذ، اسلامی قانون کے مآخذاور کیا جدید دور میں اسلامی قوانین قابلِ نفاذ ہیں؟ ان سب امور کی توضیح و تشریح انھوں نے اپنی مختلف تقاریر، مضامین اور مقالات میں اس قدر شرح و بسط کے ساتھ کردی ہے کہ میری نظر میں یہی ان کا امتیازی کارنامہ ہے ۔ اگرچہ تفسیر قرآن، حدیث کی تشریح اور وضاحت،سنت کی حجیت اور فقہ کی تدوین جدید کے سلسلے میں ان کے کارہائے نمایاں کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے، تاہم میں اس مضمون میں مولانا مودودیؒ کا تذکرہ بطور ایک ماہرقانون اسلامی کرنا چاہتا ہوں ۔ اس سلسلے میں اپنی یادداشتوں اور ریکارڈ کی بنیاد پر چند  معلومات پیش ہیں۔ 

  • مولانا مودودی کے دو خطابات: قیامِ پاکستان کے چند ماہ بعد جب مولانا مودودیؒ مطالبہ نظام اسلامی لے کر اٹھے تھے تو جامعہ پنجاب کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک نے انھیں یونی ورسٹی لا کالج میں اسلامی قانون کے حوالہ سے لیکچر دینے کی دعوت دی تھی۔ ان کی دعوت پر مولانا مودودیؒ نے ۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامی قانون کے موضوع پر ایک مفصل لیکچر دیا تھا۔ جس میں اسلامی قانون کی حقیقت، اس کی روح، اس کا مقصد اور اس کے بنیادی اصول بڑی وضاحت سے بیان کیے تھے۔اس کے بعد ۱۹ فروری ۱۹۴۸ء کو پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہوسکتا ہے، کے موضوع پر یونی ورسٹی لا کالج لاہور میں ایک اور لیکچر میں اسلامی قانون کے نفاذ میں تدریج کا اصول، عہد نبوی کی مثال اور نفاذ کا صحیح طریق کار بیان کیا تھا۔(ڈاکٹر عمر حیات ملک ۱۹۳۹ء سے مولانامودودیؒکے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتے تھے جب وہ اسلامیہ کالج کے پرنسپل تھے اور مولانا مودودیؒوہاں اسلامیات پڑھایا کرتے تھے)۔ 
  • اسلامی قانون سازی پر بیش قیمت مقالہ : حکومت پاکستان اور پنجاب یونی ورسٹی نے مشترکہ طورپر۶ تا۱۶جمادی الثانیہ ۱۳۷۷ھ مطابق ۲۹ دسمبر ۱۹۵۷ء تا۸جنوری ۱۹۵۸ء ’الندوہ العالمیہ للاسلامیات‘ منعقد کرایا تھا جس میں دنیائے اسلام کے نامور مفکرین، ممتاز علما و مشائخ، سابق وزراء اور اساتذہ کرام کے علاوہ یورپ اور امریکا سمیت کل ۳۳ ممالک کے بعض ممتاز اسکالروںاور مشہور مستشرقین کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔ مولانا مودودیؒکو بھی ۱۶ رکنی انٹرنیشنل کلوکیم کمیٹی کا رکن مقرر کیاگیا تھا ۔ اس کمیٹی نے اس کلوکیم کے موضوعات طے کیے تھے اور اس کی پوری منصوبہ بندی کی تھی ۔ 

میں ان دنوں قصور شہر میں وکالت کر رہا تھا ۔ میں نے اس کے بعض اجلاسوں میں حاضر ہو کر عالم اسلام کے بعض نامور اسکالروں کے بلند پایہ خطابات او رمقالات سے استفادہ کیا تھا۔ خاص طور پر مولانا مودودیؒ کے پیش کردہ مقالہ کو بڑے غور سے سنا اور پلے باندھ لیا بلکہ عربی محاورے کے مطابق دانتوں سے پکڑ لیا تھا ۔ 

دنیا بھر کے فاضل اسکالروں کی اس مجلس مذاکرہ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۳جنوری ۱۹۵۸ء کو ’اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام‘ کے عنوان سے ایک بیش قیمت مقالہ پیش کیا جو بہت پسند کیا گیا، خاص طور پر عرب ممالک سے آئے ہوئے ممتاز علما و مشائخ نے بہت داد دی۔ مولانا مودودیؒ کے مقالے کا عربی اور انگریزی ترجمہ پہلے سے تیار کر لیا گیا تھا اور وہ غیر ملکی اسکالروں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ 

  • تمہید : اس مقالے کی تمہید میں مولانا مودودیؒ نے اللہ کی حاکمیت کی تشریح کی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، خاص طور پر عقیدۂ ختم نبوت کی وضاحت کی۔ اسلام میں قانون سازی کے دائرہ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایاکہ اسلام انسانی قانون سازی کے عمل کو خدائی قانون یعنی قرآن و سنت کی بالاتری سے محدود کرتاہے۔ اس بالاترقانون کے تحت اور اس کے قائم کیے ہوئے حدود کے اندر انسانی قانون سازی کے دائرۂ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے تعبیر احکام شریعت، قیاس اور استنباط کے اصولوں کی تشریح کی اور اس کے بعد آزادانہ قانون سازی کے دائرے کے بارے میں فرمایا کہ انسانی زندگی کے جن معاملات میں قرآن و سنت کے واضح اور قطعی احکام موجود ہیں، ان میں تو کوئی فقیہ، کوئی قاضی، کوئی قانون ساز ادارہ، شریعت کے دیئے ہوئے حکم یا اس کے مقرر کردہ قاعدے کو نہیں بدل سکتا ۔ البتہ ان کے علاوہ ایک بہت بڑی قسم ان معاملات کی ہے جن کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے۔ وہ نہ تو براہِ راست ان کے متعلق کوئی حکم دیتی ہے اور نہ ان سے ملتے جلتے معاملات ہی کے متعلق کوئی ہدایت اس میں ملتی ہے کہ ان کو اس پر قیاس کیا جا سکے ۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ حاکم اعلیٰ ان میں انسان کو خود اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہا ہے۔ اس لیے آزادانہ قانون سازی اس دائرے کے اندر کی جاسکتی ہے، مگر یہ قانون سازی ایسی ہونی چاہیے، جو اسلام کی روح اور اس کے اصول عامہ سے مطابقت رکھتی ہو ، جس کا مزاج اسلام کے مجموعی مزاج سے مختلف نہ ہواور جو اسلامی زندگی کے پورے نظام میں ٹھیک ٹھیک نصب ہوسکتی ہو۔ 
  • اجتہاد کی تعریف :اس کے بعد اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے مولانا مودودی ؒ نے فرمایا کہ قانون سازی کا یہ سارا عمل، جو اسلام کے قانونی نظام کو متحرک بناتا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کو نشوو نما دیتا چلا جاتا ہے، ایک خاص عملی تحقیق اور عقلی کاوش ہی کے ذریعے سے انجام پا سکتا ہے اور اسی کا نام اسلامی اصطلاح میں اجتہاد ہے ۔ اس کے لغوی معنی تو ہیں کسی کام کی انجام دہی میں انتہائی کوشش صرف کرنا،مگر اصطلاحاً اس سے مراد ہے ’’یہ معلوم کرنے کی انتہائی کوشش کہ مسئلہ زیر بحث میں اسلام کا حکم یا اس کا منشاء کیا ہے‘‘۔ 

مولانا نے مزید فرمایا کہ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمالِ رائے کے معنوں میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہو‘ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزاد اجتہاد کی بھی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنت ہے۔ جو قانون سازی انسان کر سکتے ہیں، وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیے، جن میں وہ استعمالِ رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے، وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔ 

  • مجتہد کے لیے ضروری اوصاف :اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کرنے والے شخص کے لیے مجتہد کے ضروری اوصاف بیان کیے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے: 

انھوں نے بتایا کہ کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسب ذیل اوصاف موجود ہوں: 

۱- شریعت پر پختہ ایمان، اس کے برحق ہونے کا یقین، اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ، اس سے آزاد ہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اورقانون کے مقاصد، اصول اور اقدار کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجائے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔ 

۲- عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت۔ 

۳- قرآن و سنت کا گہرا علم جس سے آدمی شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔ 

۴- پچھلے اَدوار کے مجتہدینِ امت کے کام سے واقفیت۔ قانونی ارتقا کے تسلسل کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ 

۵- عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت، کیونکہ انھی پر شریعت کے احکام اور اصول و قواعد کو منطبق کرنا ہے۔ 

۶- اسلامی معیارِ اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار، کیونکہ اس کے بغیر کسی اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہو سکتااور نہ اس قانون کے لیے عوام میں کوئی جذبۂ احترام پیدا ہو سکتا ہے، جو غیر صالح لوگوں کے اجتہاد سے بنا ہو۔ 

مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ ان اوصاف کے بیان سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ اجتہاد کے ذریعے سے اسلامی قانون کا نشو و نما اگر صحیح خطوط پر ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں، جب کہ قانونی تعلیم و تربیت کا نظام ایسے اوصاف کے حامل اہل علم تیار کرنے لگے۔ 

  • اجتہاد کے ذریعے قانون سازی :اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کا صحیح طریقہ تفصیل سے بیان کیا اور آخر میں یہ بتایا کہ اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں انھوں نے درج ذیل چار صورتیں بیان کیں: 

۱- ایک یہ کہ تمام امت کے اہلِ علم کا اس پر اجماع ہو۔ 

۲- دوسری یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبولِ عام حاصل ہو جائے اور لوگ خود بخود اس کی پیروی شروع کر دیں جس طرح فقہ حنفی و شافعی و مالکی وحنبلی کو قبولِ عام حاصل ہو گیا ہے۔ 

۳- تیسری یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے، جیسے ترکی کی عثمانی سلطنت نے فقہ حنفی کو اپنا قانونِ ملکی قرار دیا تھا۔ 

۴- چوتھی یہ کہ ریاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنا دے۔ایسے ادارے میں مجتہد کی صفات رکھنے والے لوگ شامل ہوں۔ 

اپنے مقالے کے آخر میں مولانا مودودی ؒنے واضح کیا کہ اسلامی نظامِ قانون میں قاضیوں کے فیصلے ان خاص مقدمات میں تو ضرور قانون کے طور پر نافذ ہوتے ہیں، جن میں وہ کسی عدالت نے کیے ہوں اور انھیں نظائر (Precedents) کی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے، لیکن صحیح معنوں میں وہ قانون نہیں ہوتے۔ اسلامی نظامِ قانون میں قاضیوں کے بنائے ہوئے قانون (Judge made Law) کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ 

مولانا مودودیؒ کی رائے کے مطابق اسلامی نظامِ قانون میںاس طرح کے فیصلے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 

  • یونی ورسٹی لا کالج میں خطاب :میں ۱۹۵۵ سے ۱۹۵۷ تک پنجاب یونی ورسٹی لا کالج کا طالب علم رہا۔ اس دوران میں لا کالج اسٹوڈنٹس یونین کے انتخاب میں پہلی مرتبہ اسلامی جمعیت طلبہ کا پینل کامیاب ہوا تھا۔ یونین نے لا کالج میں خطاب کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ۔ طلبہ کا جو وفد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا، مَیں بھی ان میں شامل تھا۔ ہم نے مولانا سے کالج میں خطاب کی درخواست کی تو مولانا نے بکمال شفقت دعوت قبول فرما لی اور فرمایا کہ آپ کس موضوع پر میری تقریر کرانا چاہتے ہیں؟ ہم نے عرض کیا کہ لا کالج کے طلبہ دو نکات پر آپ سے رہنمائی کے طالب ہیں۔ ایک تو آپ اسلامی قانون کے مآخذ بیان کریں جن میں سنت کے ماخذ قانون ہونے کی کھل کر وضاحت کی جائے کیونکہ فتنۂ انکار سنت نے سنت کی حجیت کے بارے میں بعض ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیے ہیں۔ دوسرے یہ سوال بعض طلبہ کے ذہن میں موجود ہے کہ کیا جدید دور میں اسلامی قوانین قابل نفاذ ہیں اور پاکستان میں کیوں اسلامی قوانین نافذ ہونے چاہئیں؟ اس سوال کی وضاحت مطلوب ہے۔آپ اس سوال کا جواب دے کر طلبہ کو مطمئن فرمائیں۔ 

مولانامودودیؒ نے طلبہ اسٹوڈنٹس لا کالج کی تقریب میں اپنے پون گھنٹے کے خطاب کو ان دو اُمور کی اچھی طرح وضاحت تک محدود رکھا۔ 

مولانامودودیؒ نے فرمایا کہ اسلامی قانون کا سب سے پہلا اور اہم ماخذ قرآن مجید ہے جواُنھی الفاظ میں محفوظ ہے جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ وہ عربی زبان میں اترا ہے جو ایک زندہ زبان ہے۔ وہ سراسر حق ہے اور اول تا آخر الٰہی تعلیمات سے لبریز ہے۔ اس کے اندر کلام الٰہی کے ساتھ انسانی کلام کی ذرہ برابر آمیزش نہیں ہو سکی ہے۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (Latest edition)ہے ۔ ہرمسلمان کے لیے اصل سند اور حجت قرآن پاک ہے۔ 

اسلامی قانون کے دوسرے ماخذ کے بارے میں مولانا مودودیؒ نے زیادہ کھل کر وضاحت فرمائی کہ وہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سنت سے ہی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی ہدایات کو سرزمین عرب پر کس طرح نافذ کیا تھا؟ کس طرح اس کے مطابق ایک اسلامی معاشرہ اور ایک اسلامی ریاست قائم کی تھی؟اسلامی ریاست کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلایا تھا؟ سنت ہمارے دستوری قانون کا دوسرا اور بڑا اہم ماخذ ہے۔ 

مولانا مودودی ؒنے فرمایا کہ افسوس ہے کہ ایک عرصے سے ایک گروہ اس کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کے قانونی حجت ہونے کے پہلو کا انکار کرکے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار برپا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لیے مولانا مودودی ؒنے سنت کے حجت ہونے پر خوب روشنی ڈالی۔ 

مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر، حاکم اور معلم بھی تھے، جن کی پیروی و اطاعت قرآن کی رو سے تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور جن کی زندگی کو قرآن نے تمام اہل ایمان کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام حیثیتوں میں مامور من اللہ تھے۔ اسی بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سُنّت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ 

اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے قرآنی آیات کی روشنی میں تفصیل سے بتایا کہ رسول اکرمؐ بحیثیت شارح کتاب اللہ، بحیثیت پیشوا و نمونۂ تقلید، بحیثیت شارع، بحیثیت قاضی اور بحیثیت حاکم و فرماں روا ہمارے لیے قیامت تک واجب الاتباع ہیں۔ 

مولانا مودودیؒ نے سنت کے ماخذ قانون ہونے پر پوری امت کے اجماع کی تفصیل بھی بیان کی۔ 

مولانا مودودیؒ نے بتایا کہ تیسرا ماخذ خلافت راشدہ کا تعامل ہے۔ خلفائے راشدین نے جس طرح حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدینہ کی اسلامی ریاست کو چلایا، اس کے نظائر سے، روایات سے، حدیث، تاریخ اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سب چیزیں ہمارے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی روشنی میں آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست کو نہایت خوبی سے چلایا جا سکتا ہے۔ 

چوتھے ماخذ قانون کے طور پر مولانا مودودیؒ نے بتایا کہ یہ مجتہدینِ اُمت کے وہ فیصلے ہیں جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں صادر کیے تھے۔ یہ فیصلے اسلامی دستور کی روح اور اس کے اصولوں کو سمجھنے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔ 

اسلامی قانون کے چاروں مآخذ کی تشریح و توضیح کے بعد مولانامودودیؒ نے اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب دیا کہ چودہ صدیاں پرانا اسلامی قانون جدید زمانے کی سوسائٹی اور سٹیٹ کی ضروریات کے لیے کس طرح کافی ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی قانون کی نام نہاد سختی اور فقہی اختلافات کے بہانے کا تسلی بخش جواب بھی انھوں نے دیا۔ 

مولانامودودیؒ کے خطاب کے دوران لا کالج ہال میں بالکل خاموشی چھائی رہی اور لا کالج اور یونی ورسٹی کے دوسرے شعبوں کے طلبہ نے پوری توجہ سے ان کا خطاب سنا اور بعض لوگوں نے یہ ریمارک بھی دیا کہ پہلی دفعہ ایک عالم دین کو موضوع کے عین مطابق تقریر کرتے ہوئے سنا ہے۔ جس کے نتیجے میں طلبہ کو یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔ 

  • بھٹو صاحب سے دو ملاقاتیں: دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد فوجی جرنیلوں نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل یحییٰ خان کی جگہ پاکستان کا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر نامزد کیا تھا۔صدارت کامنصب سنبھالنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد بھٹو صاحب نے مولانا مودودیؒ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ ان سے ملاقات کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی طبعی انکساری کی وجہ سے یہ مناسب نہ سمجھا کہ صدر پاکستان کو اپنے گھر آنے کے لیے کہیں۔ چنانچہ انھوں نے پیغام بر کو جواب دیا کہ میں خود ان سے ملاقات کے لیے لاہور میںکسی مناسب جگہ پر جانے کے لیے تیار ہوں۔ اس پر یہ طے ہوا کہ مولانا مودودیؒ بھٹو صاحب سے ان کی خواہش پر گورنمنٹ ہائوس لاہور میں ملاقات کرلیں۔اس ملاقات کے لیے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے ساتھ میں گیا تھا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ غلام مصطفےٰ کھر بھی جو اس وقت پنجاب کے گورنر تھے، اس کمرے میں آئے جس میں مولانا مودودیؒ کوملاقات کے لیے بٹھایا گیا تھا۔ اس ملاقات میں بھٹو صاحب نے مولانا سے کہا کہ آپ عالم اسلام کے نامور عالم دین اور ماہرِ اسلامی قانون ہیں۔ میں بچے کھچے پاکستان کی حکومت کو چلانے کے لیے آپ کے تعاون کا طلبگار ہوں کیونکہ ہماری پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ 

مولانا مودودی ؒنے کمال شان بے نیازی اور بڑی جرأت سے فرمایا کہ ’’بھٹو صاحب آپ نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا‘‘۔ آپ کے ارد گرد نامی گرامی سوشلسٹ، ملحد اور لبرل افراد جمع ہیں اورحکومت میںشامل ہیں۔ان لوگوں کی موجودگی میں، مَیں یا جماعت اسلامی کے لوگ آپ سے کس طرح تعاون کر سکتے ہیں؟ 

دوسری ملاقات ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ملک گیر تحریک نظامِ مصطفےٰ کے دوران میں بھٹو صاحب نے مولانا مودودیؒ سے ان کے گھر۵-اے ذیلدار پارک اچھرہ آ کر کی تھی۔ اس ملاقات کی خبر جب منصورہ پہنچی تو مولانا جان محمد عباسی مرحوم جو اس وقت قائمقام امیرجماعت تھے، اچھرہ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو بھٹو صاحب مل کر جارہے تھے ۔مولانا عباسی مرحوم نے مولانا مودودیؒ سے عرض کیا کہ بھٹو سے آپ کی ملاقات کی خبر سے تحریک پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ آپ ابھی پریس کانفرنس میں بھٹو سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ بتا دیں تاکہ ملاقات کی خبر کے ساتھ ہی کل کے اخبارات میں وہ گفتگو بھی لوگوں کے سامنے آجائے جو آپ نے بھٹو سے کی ہے۔ چنانچہ مولانا مودودی ؒرضا مند ہو گئے اور اسی وقت ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں مولانا مودودیؒ نے ملکی اور بین الاقوامی پریس کو بتادیا کہ بھٹو صاحب میرے پاس آئے تھے تو میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ بھٹو صاحب! اب تو تحریک اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ لوگ آپ کے سر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ وزارت عظمیٰ سے استعفا دے کر نئے سرے سے شفاف اور منصفانہ انتخابات ہونے دیں، تاکہ قوم اپنے حقیقی نمائندوں کو منتخب کرکے پاکستان کی حکومت کی باگ ڈور ان کے حوالے کردے۔ اسی صورت میں ملک میں امن و امان بھی قائم ہو سکتا ہے اور آپ کی جان بھی بچ سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ بھٹو نے مولانا مودودیؒ کے اس مخلصانہ مشورے پر عمل نہ کیا۔ 

عصر حاضر ملکُ الموت ہے تیرا ، جس نے 
قبض کی رُوح تری دے کے تجھے فکرِ معاش 

آپ کا کہنا بجاہے کہ ایک کافرانہ نظامِ تمدن و سیاست کے اندر رہتے ہوئے خالص حلال کی روٹی تقریباً محال ہے۔ مگر میں نے وسائلِ رزق کے معاملے میں حلال و حرام کی تمیز پر اپنے مضامین میں بار بار جو زور دیا ہے، اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ حلال ذرائع یہیں کہیں موجود ہیں۔ لوگ حرام ذرائع کو چھوڑ کر ان کو حاصل کرلیں، بلکہ اس سے میرا مقصود یہ تھا کہ حلال و حرام کی تمیز پیدا ہوجانے کے بعد ایک سچّا مسلمان جب اپنے گردوپیش کا جائزہ لے گا، تب اس کو صحیح اندازہ ہوگا کہ اس کفر کے تسلّط کی بدولت وہ کس طرح چاروں طرف گندگیوں اور نجاستوں میں گھر گیا ہے۔ پھر اگر واقعی وہ پاکیزگی کا خواہاں ہو تو اس کے اندر اس نجاست خیز نظام کو مٹانے اور بدلنے کا شدید جذبہ پیدا ہوگا، اور وہ ہر آن اس نظام سے سخت نفرت و کراہت کرے گا۔ 

اس اصولی بات کو سمجھنے کے بعد عملی نقطۂ نظر سے ہمارے لیے اگر کچھ ممکن ہے تو صرف یہ کہ زیادہ حرام کو چھوڑ کر کم حرام یا ملوث بہ حرام رزق کو مجبوراً گوارا کریں۔ خالص حلال کی قید کے ساتھ زندگی کا سامان بہم پہنچانا، اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔ اب یہ آپ کے حالات پر اور آپ کی قوتوں اور صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ عملاً کون سے ذرائع آپ اختیار کرسکتے ہیں، جن پر حرام کی آمیزش کم سے کم ہو اور آپ موجودہ کافرانہ نظام کے بقاو استحکام میں کم سے کم مددگار بنیں۔ عملاً اس میں کامیابی کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ آپ اپنے معیارِ زندگی کو بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ جن کے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا ہوچکی ہے، یہ شرط لگاتے ہیں کہ حلال تو ملے مگر زندگی کا معیار وہی رہے جو حرام خور ی کے زمانے میں ہم نے اختیار کیا تھا۔ یہ شرط انھیں مجبوراً اسی حرام خوری میں مبتلا رکھتی ہے۔ حلال خوری پر آدمی قائم اسی وقت رہ سکتا ہے، جب کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرلے کہ کھانا بہرحال حلال ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ پلائو ہو یا چٹنی، پہننا بہرحال حلال ہے ، خواہ وہ نفیس کپڑے ہوں یا ٹاٹ کا پیوند لگا ہوا گاڑھا۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، ستمبر۱۹۴۳ء، رسائل و مسائل، اوّل، ص ۹۲-۹۳) 


عام حُریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے 
اے مسلماں آج تُو اُس خواب کی تعبیر دیکھ 

تقریباً تین صدیوں تک تحقیق و اجتہاد اور حُریتِ فکر و نظر اور آزادانہ طلب ِ حق کی وہ اسپرٹ مسلمانوں میں پوری شان کے ساتھ باقی رہی، جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین میں پیدا کرگئے تھے۔ اس کے بعد امرا و حکام اور علما و مشائخ کے استبداد نے اس روح کو کھانا شروع کردیا۔ سوچنے والے دماغوں سے سوچنے کا حق اور دیکھنے والی آنکھوں سے دیکھنے کا حق اور بولنے والی زبانوں سے بولنے کا حق سلب کرلیا گیا۔ درباروں سے لے کر مدرسوں اور خانقاہوں تک ہرجگہ مسلمانوں کو غلامی کی باقاعدہ تربیت دی جانے لگی۔ دل و دماغ کی غلامی، روح و جسم کی غلامی، ان پر پوری طرح مسلط ہوگئی۔ دربار والوں نے اپنے سامنے رکوع اور سجدے کرا کے غلامانہ ذہنیت پیدا کی، اور مدرسے والوں نے خدا پرستی کے ساتھ اکابر پرستی کا زہر دماغوں میں اُتارا۔ خانقاہ والوں نے ’بیعت‘ کے مسنون طریقے کو مسخ کر کے مقدس غلامی کا وہ طوق مسلمانوں کی گردن میں ڈالا، جس سے زیادہ سخت اور بھاری طوق انسان نے انسان کے لیے کبھی ایجاد نہ کیا ہوگا۔ جب غیراللہ کے سامنے زمین تک سر جھکنے لگیں، جب غیراللہ کے آگے نماز کی طرح ہاتھ باندھے جانے لگیں، جب انسان کے سامنے نظر اُٹھا کر دیکھنا سوء ادبی ہوجائے، جب انسان کے ہاتھ اور پائوں چُومے جانے لگیں، جب انسان انسان کا خداوند اور اَن داتا بن جائے، جب انسان بذاتِ خود امرونہی کا مختار اور کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کی سند سے بے نیاز قرار دیا جائے، جب انسان خطا سے پاک اور نقص سے بَری اور عیب سے منزہ سمجھ لیا جائے، جب انسان کا حکم اور اس کی رائے اعتقاداً نہ سہی، عملاً اس طرح واجب الاطاعت قرار دے لی جائے، جس طرح خدا کا حکم واجب الاطاعت ہے، تو پھر سمجھ لیجیے کہ اس دعوت سے منہ موڑلیے گئے، جو: اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۶۴) [ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا ربّ نہ بنالے]کے الفاظ میں دی گئی تھی۔ اس کے بعد کوئی علمی، اخلاقی، روحانی ترقی ممکن ہی نہیں، پستی اور زوال اسی کا لازمی نتیجہ ہے۔(دسمبر ۱۹۳۶ء: تفہیمات، اوّل،ص ۸۹-۹۰) 


کہتا ہے زمانے سے یہ درویشِ جواں مرد 
جاتا ہے جدھر بندئہ حق، تُو بھی اُدھر جا! 

یہ خیال کہ زندگی کا دریا جس رُخ پہ بہہ گیا ہے اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا ، عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دُنیا میں ایک نہیں سیکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رُخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم جب دُنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رُخ پہ بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دُنیا پر کفروشرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر فواحش، معاشرت پر نفس پرستی، معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری، اور قانون پر بے اعتدالی کا تسلّط نہ تھا؟ مگر ایک تنِ واحد نے اُٹھ کر تمام دُنیا کو چیلنج دے دیا۔ تمام ان غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رَدکر دیا، جو اس وقت دُنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلے میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا، اور چندسال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دُنیا کے رُخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔ (مئی ۱۹۳۶ء: تنقیحات، ص۲۱۵) 


کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت 
وہ کُہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پَیرو! 

واقعات کی رفتار دُنیا کو ، اور دُنیا کا ایک جز ہونے کی حیثیت سے ہمارے ملک کو بھی ایک ایسے مقام پر لے آئی ہے جہاں سے وہ اسلام کی طرف مڑ بھی سکتی ہے اور مادہ پرستی اور فسادِ اخلاق کے اسفل السافلین کی طرف بھی۔ طبعاً اُس کا رُخ ابھی تک دوسرے راستے کی طرف ہے۔ کیونکہ اس راستے پر وہ ایک مدت دراز سے بڑھتی چلی آرہی ہے۔ اگرچہ اس راستے کے مہالک دیکھ دیکھ کر وہ سہم رہی ہے اور چاروں طرف گھبرا گھبرا کر دیکھتی ہے کہ کوئی بچائو کی راہ بھی ہے یا نہیں؟ مگر بچائو کی راہ خود اس کی اپنی نگاہوں سے اوجھل ہے۔  

وہ درحقیقت اس وقت ایسے لیڈروں کی محتاج ہے جو قوت کے ساتھ اُٹھ کر اُس کی نگاہوں پر سے پردہ اُٹھا دیں اور اسلام کی صراطِ مستقیم کا واحد راہِ نجات ہونا ثابت و مبرہن کر دیں۔ ایک ایسی مجاہد و مجتہد جماعت اگر مسلمانوں میں پیدا ہوجائے تو مسلمان تمام دُنیا کے پیشوا بن سکتے ہیں۔ ان کو وہی مقامِ عزّت پھر سے حاصل ہوسکتا ہے جس پر وہ کبھی سرفراز تھے اور جس پر مغربی قوموں کو متمکن دیکھ کر آج ان کے منہ میں پانی بھرا چلا آرہا ہے۔ لیکن اگر اس قوم کے جمہور اسی طرح دوں ہمتی و پست حوصلگی کے ساتھ بیٹھے رہے، اگر اس کے نوجوان یونہی غیروں کا پس خوردہ کھانے کو اپنا منتہائے کمال سمجھتے رہے، اگر اس کے علما اپنی انھی پرانی فقہ و کلام کی فرسودہ بحثوں میں اُلجھے رہے، اگر ان کے لیڈروں اور سیاسی پیشوائوں کی ذلیل ذہنیت کا یہی حال رہا کہ لشکرِ اَغیار کے پیچھے لگ جانے کو ’مجاہدانہ عزیمت‘ کا بلند ترین مرتبہ سمجھیں اور سب سے بڑے فریب میں اپنی قوم کو مبتلا کرنا کمال دانش مندی خیال کریں۔ غرض اگر اس قوم کے دست و پا سے لے کر دل و دماغ تک سب کے سب تعطل یا خام کاری ہی میں گرفتار رہیں اور اس کروڑوں کے انبوہ سے چند مردانِ خدا بھی جہاد اور اجتہاد فی سبیل اللہ کے لیے کمر باندھ کر نہ اُٹھ سکیں تو پھر دُنیا جس اسفل السافلین کی طرف جارہی ہے، اُس طبقۂ جہنم میں یہ قوم بھی دُنیا کی دُم کے ساتھ بندھی بندھی جاگرے گی۔(مارچ ۱۹۳۸ء: تنقیحات، ص ۷۴-۷۵)

زندگی کے میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے، لیکن کامیابی کے اس سفر کی جب ابتداء ہوتی ہے تو کوئی متعین سمت نظر نہیں آتی، جہاں منزل کے واقع ہونے کا تصور کیا جاسکے۔ اسی سمت کا تعین ’ہدف‘ کا تعیین کہلاتا ہے۔ اہداف کا تعین ہی انسان کی رہنمائی کرتا ہے کہ اُسے کہاں جانا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ دنیا میں کامیاب انسان وہی گزرے ہیں یا تاریخ میں انھی کا نام زندہ ہے جنھوں نے اپنی زندگی کے اہداف کا واضح تعین کیا۔ آپ کے اہداف آپ کو ، آپ کی توانائی، وقت اور وسائل کا درست استعمال سکھاتے ہیں۔ ’ہدف‘ کے لغوی معنی ’نشانہ‘ یا ’مقصد‘ کے ہوتے ہیں۔ ہدف وہ چیز ہے جسے نشانہ بنایا جائے یا کوئی ایسا مقصد جسے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ’ہدف‘ کا لفظ مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہوسکتا ہے، لیکن اس کا بنیادی مطلب ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔ یعنی ’ایک ایسی چیز یا مقام جس کی طرف توجہ مرکوز کی جائے‘۔ 

اہداف دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن کے طے کرنے میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور وہ دنیا میں ہر انسان دانستہ اور نا دانستہ طے کر تا ہے۔ مثال کے طور پر انسان کھانا کھاتا ہے، کھانا کھانے میں اس کا ہدف بھوک مٹانا ہوتا ہے۔ انسان سوتا ہے، سونے میں اس کا ہدف آرام کرکے اگلے دن کےلیے تر و تازہ ہونا ہوتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے اہداف ہیں جنھیں انسان ہر حالت میں طے کرتاہے۔ انھیں ہم ’تکوینی اہداف‘ کا نام بھی دے سکتے ہیں اور دوسرے اہداف کو ’اختیاری اہداف‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ عموماً دیکھا جائے تو دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ملتے ہیں جو اپنی زندگی میں ’اختیاری اہداف‘ کا تعین کرتے ہوں۔ اہداف کا تعین نہ کرنے کی بنیادی وجہ زندگی کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کا فقدان ہے۔ جو لوگ اپنے اہداف کا تعین نہیں کرتے، وہ زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ اہداف کا تعین نہ کرنے والے شخص کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی گاڑی پر سوار تو ہوگیا لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کہاں اترناہے اور اس گاڑی کو کہاں جاناہے؟ ایسا شخص راستے میں کہیں بھی اتر سکتاہے یا پھر گاڑی اپنی آخری منزل پر اسے خود بخود ضرور اُتار دے گی۔ بغیر تیاری اور ہدف کے سفر کا انجام ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے۔ بقولِ شاعر  ؎ 

نہ کسی کو فکرِ منزل نہ کہیں سُراغِ جادہ  
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ 

ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’بے مقصدیت موت ہوا کرتی ہے‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ؓ اور سلف کو دیکھیں تو ان کی زندگی اہداف سے کہیں خالی نظر نہیں آتی۔  

دُنیا میں بہتر زندگی گزارنے کے لیے ٹھوس مقاصد کا ہونا اور اس کے لیے واضح اہداف کا مقرر کیا جانا نہایت ضروری ہے ۔ یاد رکھیے زندگی میں سب سے مشکل کام اہداف کا وضع کرنا اور پھر ان کا تحفظ کرنا ہے۔ اگر ہم نے ابھی تک زندگی کا کوئی مقصد نہیں بنایا اور اپنے اہداف مقرر نہیں کیے تو پریشان نہ ہوں کیونکہ زندگی کی ڈور ابھی تک آپ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا باقی ماندہ زندگی کےلیے آج ہی سے پختہ ارادہ کریں کہ اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں گے اور ان مقاصد کے حصول کےلیے اپنے اہداف کا تعین کریں گے۔ یہ اہداف انفرادی اُمور کا احاطہ بھی کریں گے، گھریلو زندگی کےلیے بھی ہوں گے، کاروباری، تجارتی اور دفتری سرگرمیوں سے متعلق بھی ہوں گے۔ سماجی و معاشرتی مسائل کا سامنا کرنے سے بھی ان کا تعلق ہوگا اور محلّے سے لے کر ملکی سطح کے معاملات بھی ان کے تحت آئیں گے۔ جب ہم ان اہداف کا تعین کرلیں گے تو پھر ان کا حصول ہمیں جدوجہد پر اُبھارے گا کیونکہ ہم ان تک پہنچنا چاہیں گے، نشانِ منزل ہمارے سامنے ہوگا۔ 

کچھ بین الاقوامی یونی ورسٹیوں کی تحقیقات کی روشنی میں اہداف کے تعین اور اُن کے حصول کے لیے کچھ لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لوازمات قارئین کی دلچسپی اور عمل درآمد کے لیے پیشِ خدمت ہیں۔ 

مخصوص اہداف طے کریں (Specific)  

جو بھی ہدف طے کریں وہ واضح اور متعین ہو، مجہول نہ ہو۔ خواہ یہ ہدف انفرادی ہو یا عائلی، کاروباری ہو یا دفتری، سماجی ہو یا معاشرتی، تنظیمی ہو یا کوئی اور۔ مثال کے طور آپ ایک سماجی، اصلاحی و فلاحی تنظیم کے کارکن ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی تنظیم میں زیادہ سے زیادہ افراد شامل ہوجائیں۔ اگر اس کی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی گئی کہ کتنے لوگ ممبر بن جائیں، اور کیسے بنیں؟ وغیرہ تو آپ الل ٹپ دوڑ لگا کر خود کو تھکاتے رہیں گے اور آپ کی کامیابی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ لیکن اسی کام کے لیے یہ طے کرلیں کہ میں ایک سال میں کم از کم ۱۰ افراد کو اپنی تنظیم کا کارکن بناؤں گا۔ تو آپ کے لیے ۱۰؍افراد کا تعاقب کرنا، ان سے راہ و رسم بڑھانا، ان سے اپنی تنظیم کا تعارف کرانا اور جو کام آپ کررہے ہیں وہ کرنے پر اُنھیں آمادہ کرنا آسان ہوجائے گا۔ اسی طرح دیگر اہداف کو بھی اسی انداز میں متعین اور واضح رکھیں تو ان کی جانب پیش قدمی میں تیزی لائی جاسکتی ہے اور منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ 

 اہداف آپ کےلیے چیلنج ہوں (Challenging)  

آپ کا ہدف ایسا ہو جو آپ کے لیے چیلنج ہو۔ اس طرح آپ کے اندر کام کرنے کا زیادہ جذبہ پیدا ہوگا۔ کچھ حاصل کرنے کی تحریک پیدا ہوگی، آپ کی سستی دور ہوگی ، اعتماد میں اضافہ ہوگا اور آپ مایوسی کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ یاد رکھیے سامنے پڑی ہوئی چیز اُٹھا لینا بہت آسان ہوتا ہے لیکن نظروں سے اوجھل کسی چیز کو حاصل کرنے کےلیے جدوجہد کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر آپ کسی اصلاحی و تعمیری تنظیم سے وابستہ ہیں اور اس تنظیم کا مشن ہے کہ وہ معاشرے کو ہر قسم کے خرافات اور تباہ کاریوں سے پاک کردے گی۔ یہ ایک مشکل ترین اور چیلنج سے بھرپور ہدف ہے۔ اِس ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کے لیے معاشرے میں نکلنا ہوگا، افراد سے ملنا ہوگا، انھیں درست اور غلط کا فرق بتانا ہوگا، انھیں قائل کرنا ہوگا اور تبدیلی کےلیے اُبھارنا ہوگا۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر وہ افراد آپ کا دست و بازو بنیں گے اور قافلہ کے ہم رکاب ہوں گے۔ اس طرح مدت طویل تو ہوسکتی ہے لیکن یہ ایک ایسا چیلنج سے بھرپور ہدف ہوگا کہ جو آپ کو مکمل طور پر متحرک رکھے گا اور سست پڑنے نہیں دے گا۔ 

اہداف حقیقت پسندانہ ہوں(Realistic)  

اپنے اہداف کو طے کرتے ہوئے ایک بات خصوصی طور پر پیشِ نظر رہے کہ آپ کے اہداف حقیقت پسندانہ ہوں۔ صرف خیالی باتیں ، محض خواہشات نہ ہوں۔ اہداف ایسے ہوںجن کا امکان موجود ہو، جو قابلِ عمل اور قابلِ حصول ہوں۔مثال کے طور پر آپ کسی مغربی معاشرے میں قیام پذیر ہیں۔ آپ وہاں آج کے مادر پدر آزادی اور میڈیا کے دور میں اپنی اولاد کی اسلامی اُصولوں کے مطابق تربیت کو اپنا ہدف بناسکتے ہیں۔ ایسی تربیت جس میں وہ اسلامی اقدار کی مکمل پابندی کرنے والی بھی ہو، معاشرے میں اپنی خصوصی شناخت بھی رکھے، اپنے وطن سے محبت بھی رکھے، معزز بھی ہو اور معاشی طور پر مستحکم بھی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ایک ایسا ہدف ہے جو موجودہ دور میں مشکل تو ضرور ہے لیکن اسے ناممکن یا غیر حقیقت پسندانہ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح دیگر بہت سے مسائل ہوسکتے ہیں جن کے اہداف طے کرتے وقت اس بات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں، ان کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔ 

اہداف قابلِ پیمائش ہوں(Measurable)  

کسی بھی کام کی جانچ کا کوئی نہ کوئی پیمانہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اُس کی وقت پر تکمیل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے ۔ اس کی مثال تلاوتِ قرآنِ پاک سے لے لیں۔ اگر آپ اس کی تلاوت محض ثواب کی نیت سے کرتے رہیں، جس طرح ہمارے معاشرے میں رواج ہے، تو اُس پر ثواب ضرور ملے گا لیکن قرآن سے جو کچھ ایک مومن حاصل کرسکتا ہے ، اُس کے لیے محض ثواب اُس کی ایک ادنیٰ سی اکائی ہے۔ اس کے برعکس آپ حقیقی فائدہ حاصل کرنے کےلیے اپنا ہدف یہ طے کریں کہ میں قرآن کی اس کے مضامین کی مناسبت سے تلاوت بھی کروں گا، ترجمہ سے آگاہی بھی حاصل کروں گا اور اس پر مزید تحقیق کی غرض سے مختلف علمائے کرام کی تفاسیر کا مطالعہ کروں گا، اور اپنے علم کی حد تک خود تحقیق کی کوشش کروں گا۔ چنانچہ آپ نے جس موضوع کو اپنا ہدف بنایا اُس کی جانب پیش قدمی شروع کی ، تو دیکھیں گے کہ اُس مضمون سے متعلق بہت سی آیات مختلف حالات و واقعات کے تناظر میں آپ کے سامنے ہوں گی، بہت سے راز آشکار ہوں گے اور قرآن سے حقیقی انداز میں مستفید ہوسکیں گے۔ گویا کہ موضوع کا انتخاب آپ کے ہدف کا پیمانہ قرار پایا۔ 

اب آپ اپنے ہدف کو اسی پیمانے کی مدد سے جانچ سکتے ہیں۔ اس کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ میرا ہدف کتنے فی صد حاصل ہوا؟ کتنے فی صد باقی ہے؟ مزید توجہ، محنت اور سعی کی کتنی ضرورت ہے؟ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اپنے طے شدہ ہدف کو حاصل کرنے میں آپ کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ 

ہدف کو تحریری شکل میں لے آئیں(Written)  

تحقیقات کے مطابق جو لوگ اپنے اہداف لکھ لیتے ہیں، ان کے اہداف پورے ہونے کے امکانات ۴۲ فی صد زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے اہداف صرف ذہن میں رکھنے کے بجائے انھیں تحریر میں لائیں، دیوار پر آویزاں کرلیں یا ڈائری میں محفوظ کرلیں، پھر گاہے بگاہے اُس پر نظر ڈالتے رہیں، یہ پریکٹس آپ کو درست سمت میں رواں رکھے گی۔ ہدف کو لکھنا اسے ٹھوس، قابلِ پیمائش اور ٹریک کرنا آسان بنا دیتا ہے۔ جب اہداف صرف آپ کے ذہن میں رہتے ہیں، تو وہ مبہم رہ سکتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ توجہ کھو سکتے ہیں۔ انھیں تحریری شکل میں لا کر، آپ ایک واضح روڈمیپ پر رہنے کے لیے خود اپنے لیے ایک یاد دہانی بناتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ دن کے آغاز کے ساتھ مطلوبہ اہداف کی فہرست مرتب کریں اور دن کے اختتام کے ساتھ ان پر تنقیدی نگاہ ڈالیں۔ اس سے آپ شعوری اور لاشعوری طور پر اپنی منزل کو پانے کے لیے متحرک رہیں گے۔ کاغذ پر تحریر کردہ ہدف کی تفصیلات کی مثال نقشے کی سی ہے۔ جس طرح نقشہ آپ کو درپیش سفر کے لیے مدد فراہم کرتا ہے، بالکل اسی طرح یہ مشق آپ کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ 

ترجیحات کا تعین کریں(Priority)  

اگر ہم اپنی زندگی کا بغور تجزیہ کریں تو دیکھیں گے کہ بچپن میں جو ہماری ترجیح تھی وہ جوانی میں بہت معصوم نظر آئی۔ جوانی میں جس ترجیح کا تعین ہم نے اپنے لیے کیا، ادھیڑ پن میں وہ جذباتی محسوس ہوئی، اور اسی طرح جو افراد بڑھاپے تک پہنچ گئے انھیں ادھیڑ پن کی ترجیحات کچھ اور طرح کی محسوس ہورہی ہوں گی۔  

اپنی زندگی کے ہر شعبے کے لیے اور اگر کسی تنظیم سے وابستہ ہوں تو اُس تنظیم سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے آپ جو بھی اہداف طے کریں اُن کی ترجیحات کا تعین ضرور کرلیں تاکہ اُن اہداف کو حاصل کرلینے میں آسانی ہو۔ بہتر ہوگا کہ قابلِ حصول اہداف کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ لیں اور اپنی تر جیحات کے مطابق ان کی فہرست بنائیں۔ ان میں سے پہلے تین ، پہلے پانچ یا اپنی سہولت کے مطابق ایک ہدف کو اپنی توجہ کا مرکز بنائیں اور اس کے حصول کے لیے اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں۔ تب ہی آپ اپنے اہداف کو کامیابی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔اگر بے شمار اہداف کو بیک وقت حاصل کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے رہیں گے، تو ان میں سے کوئی اہم اور کوئی غیراہم یا کوئی فوری نوعیت کا اور کوئی آخری نوعیت کا کام کسی ترتیب سے انجام نہیں پائے گا۔ ہرکام کو اس کی ترجیح کے مطابق پہلے یا بعد میں انجام دیا جائے۔ 

متعین وقت کے تحت ہدف کا  حصول ممکن بنائیں (Time-bound)  

ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جن اہداف کا تعین ہم کرتے ہیں اگر اُن کو حاصل کرنے کےلیے وقت کا تعین نہیں کرتے تو پھر اُن کے حاصل کرنے کی کوششوں میں ٹال مٹول ہوتی رہتی ہے اور ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ ہم اپنے ہدف تک کب پہنچیں گے؟ البتہ اُن تک پہنچنے کی خواہش ضرور ہمارے اندر موجود رہتی ہے، اور بعض اوقات اس خواہش پر محض ہماری سستی کی وجہ سے عمل نہیں ہوپاتا۔ گویا کہ وقت کا تعین اور اہداف کا حصول ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔  

مثال کے طور پر آپ کسی اہم موضوع پر کوئی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس کے مطالعے کو مکمل کرنے کےلیے اگر آپ وقت کی پابندی اپنے اوپر نہیں عائد کریں گے تو اس کے مطالعے میں کافی وقت لگ سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ دیگر مصروفیات کی بنا پر اسے پڑھ ہی نہ سکیں۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ اُس کے وقت کا تعین کریں کہ موجودہ ماہ کے آخر تک میں اس کتاب کا مطالعہ مکمل کرلوں گا۔ اب آپ اس کتاب کے کل صفحات کو روزانہ کی بنیاد پر ایک ماہ میں تقسیم کرکے یا اگر اس میں مختلف مضامین یا شہ سُرخیاں ہیں تو اُن کی تقسیم کے مطابق بآسانی مطالعہ مکمل کرکے اپنے ہدف کو حاصل کرسکتے ہیں۔ 

منصوبہ بندی(Planning)  

دُنیا میں کوئی بھی کام منصوبہ بندی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا، بالکل اسی طرح کسی بھی ہدف کا حصول بہتر منصوبہ بندی کے بغیر نا ممکن ہے۔ لہٰذا بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ اپنے ہدف کی نوعیت کے لحاظ سے ایک منصوبہ تیار کرلیں کہ اسے حاصل کرنے کےلیے آپ کو کون کون سے اقدامات کرنے ہوں گے، کون سے وسائل درکار ہوں گے، یہ وسائل کہاں سے حاصل کیے جائیں گے؟ 

اب اس منصوبہ بندی کے مطابق عمل کیجیے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ تفریح کا پروگرام بنائیں۔ سب سے پہلے آپ کو جگہ کا تعین کرنا ہے کہ آپ جانا کہاں چاہتے ہیں؟ یہ فیصلہ آپ اپنے وسائل، ضرورت اور حالات کے مطابق کریں گے۔ جگہ کے تعین کے بعد آپ سفر کا سامان تیار کریں گے۔ اس سفر میں پیش آنے والے متوقع حالات کے مطابق تیاری اور Backup پلان بھی شامل کریں گے۔ یہ سب کرنے کے بعد سفر آسان بھی ہوگا اور خوب صورت بھی۔ 

اہداف کے حصول میں مستقل مزاجی اور خود اعتمادی   

یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ زندگی میں کسی بھی کام کو کرنے کےلیے مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کا ہونا نہایت ضروری ہے، یعنی مقصد کے حصول اور کامیاب ہونے پر سو فی صد یقین ہونا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر کوئی بھی کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ ظاہر ہے اگر کوئی فرد خود اپنا ہدف طے کرے اور اُس کے حاصل کرنے میں سنجیدہ نہ ہو، تو وہ اپنے ہدف کو خود ایک مذاق بنا دے گا۔  مثال کے طور پر ہم ایک ایسے ساتھی کو جانتے ہیں جو اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں ، جس کے لیے وہ اپنی ٹیم کے ساتھ یوٹیوب چینل، ویب سائٹ، فیس بک اور دیگر ذرائع کا بخوبی استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے ایک مشکل ترین ہدف طے کیا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک انتہائی مختصر دورانیہ کا درس (Short Dars) جو تین منٹ سے زیادہ کا نہ ہو، تیار کرکے اسے اپنے چینلوں سے نشر کریں گے۔ بہت سے دوستوں نے انھیں سمجھایا کہ اس ہدف کا حصول بہت مشکل ہے، مدرسین نہیں ملیں گے، روزانہ موضوعات کا ملنا مشکل ہے وغیرہ وغیرہ ، لہٰذا اس سے رجوع کرلیں۔ لیکن وہ ساتھی اپنے ہدف پر قائم رہے اور نہ صرف قائم رہے بلکہ مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کے ساتھ آج تقریباً ۱۳ سال سے اس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ قارئین یو ٹیوب اور فیس بک پر Daroosquran کو وزٹ کرکے ان دروس کو روزانہ کی بنیاد پر دیکھ سکتے ہیں۔ 

لہٰذا اگر کسی ہدف کو طے کرکے اُس تک پہنچنے کےلیے مستقل مزاجی اور خود اعتمادی ہو تو اُس ہدف کو بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کےلیے مسلسل جدوجہد کرنا پڑے گی، خون پسینہ ایک کرنا پڑے گا، کام کو روزانہ کی بنیاد پر مکمل کیا جائے گا اور ساتھ ہی خود متحرک رہیں تو مشکل ترین ہدف کا حصول بھی نا ممکن نہیں۔ 

ضرورت کے تحت دوسروں کی مدد طلب کریں 

دُنیا میں آنے والا ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر ، خواندہ ہو یا ناخواندہ، سب کسی نہ کسی کی مدد کے طلب گار ہیں۔ لہٰذا ہر انسان کی زندگی میں طے کیے جانے والے کچھ اہداف ایسے ہوتے ہیں جو کسی دوسرے کی مدد حاصل کیے بغیر ممکن نہیں ہوتے۔ اور اگر ممکن بھی ہوں تب بھی کسی کی رہنمائی، تعاون، یا مہارت، سفر کو تیز، آسان اور زیادہ مؤثر بناسکتی ہے۔ صحیح مدد نئے آئیڈیاز فراہم کر سکتی ہے، مسائل کو حل کر سکتی ہے اور آپ کو متحرک رکھ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ بہت ذہین ہیں اور بیوروکریسی میں اعلیٰ عہدے کےلیے مقابلے کا امتحان پاس کرنا آپ کا ہدف ہے، تو اس میں آپ کی ذہانت اور مہارت اپنی جگہ لیکن اگر کسی ایسی اکیڈمی میں داخلہ لے لیں جو ایسے طالب علموں کو اس امتحان کی تیاری کراتی ہے یا کوئی ایسا اُستاد ہے جو اس امتحان کی تیاری کرانے میں مہارت رکھتا ہو، تو آپ کو اُس اکیڈمی میں داخلہ لینا ہوگا یا اُس ماہر اُستاد کی شاگردی اختیار کرنا ہوگی تاکہ ان کی مدد آپ کو غلطیوں سے بچنے اور اعتماد کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچنے میں مدد دے سکے۔  

 اگر ایسا ہدف طے کیا جائے، جس میں کسی کی مدد درکار ہو تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کسی مناسب اور متعلقہ فرد سے مدد طلب کرنی چاہیے، تاکہ اپنے ہدف کو وقت پر حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔  

پیش رفت کاجائزہ مستقل طور پر لینا(Review of Progress)  

انسان کی زندگی میں کوئی بھی چیز حرفِ آخر نہیں ہوا کرتی۔ لہٰذا اپنے اہداف کے حصول کی پیش رفت کا مستقلاً جائزہ لیتے رہیں۔ اس سے آپ کو اپنے کام کی رفتار کا اندازہ ہوسکے گا اور ہدف کے حصول میں اگر کوئی چیز مانع ہو رہی ہو گی تو اس کا بروقت ازالہ کر سکیں گے۔ اس کی بہترین مثال بچوں کے اسکولوں میں ہونے والے ماہانہ اور سہ ماہی ٹیسٹ کا نظام ہے جس میں اساتذہ طالب علم کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتےہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ سال کے آخر میں یہ طالبِ عالم اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکے گا۔ اسی طرح ہم ایک مثال کسی سماجی، اصلاحی و فلاحی تنظیم کی لے سکتے ہیں کہ ایک اچھی تنظیم اپنے کارکنان سے دیے گئے ہدف کی بابت ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی، اور سالانہ بنیادوں پر ان کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیتی رہتی ہے۔ اس سے انھیں اپنے کام کی رفتارِ کار کا درست اندازہ لگانے میں کامیابی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اگر ہدف کے حصول کی رفتار سست روی کا شکار نظر آئے تو اس کے حصول کی منصوبہ بندی میں تبدیل لاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے ہر قسم کے اہداف کے حصول کی پیش رفت کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر کسی وجہ سے اس کا حصول سُست روی کا شکار ہو رہا ہو یا اس کے حصول کی راہ میں مشکلات کا سامنا ہو، تو بروقت اپنی منصوبہ بندی میں تبدیلی لائی جاسکے اور اسے ممکنہ طور پر حاصل کیا جاسکے۔ 

اگر ہم نے ابھی تک اپنی زندگی کا کوئی مقصد نہیں بنایا اور اپنے چھوٹے بڑے اہداف مقرر نہیں کیے، تو آئیے آج سے ہم یہ کام شروع کریں کہ اب سے اپنی زندگی کو بامقصد گزاریں گے۔ ہم آج سے طے کرلیں کہ ہم نے زندگی میں کیا کرنا ہے؟ اپنے لیے ایک مقصد کا تعین کریں، پھر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ میں لگ جائیں، اور روزانہ اس مقصد کے حصول کےلیے کوشش کرتے رہیں۔ یہاں پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کوشش سے مراد سخت محنت ہے، جس کے بغیر اپنے ہدف تک پہنچنا بہت ہی مشکل اور ناممکن ہے۔ اپنے اس اہم اور بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں وہ تمام راستے اپنانے ہوں گے اور وہ تمام کام کرنے ہوں گے جو ہمیں روز بروز اپنے ہدف اور مقصد کے قریب لے جائیں۔  

یہ بات پیشِ نظر رکھیں کہ اہداف محض الفاظ یا تعداد کا گورکھ دھندا نہیں ہوتے —بلکہ یہ آپ کے عزم، آپ کی صلاحیتوں اور آپ کے خوابوں کا عملی اظہار ہوتے ہیں۔ ہرہدف ایک موقع ہے خود کو ثابت کرنے کا، ایک سیڑھی ہے ترقی کی جانب، اور ایک چراغ ہے جو راستے کو روشن کرتا ہے، خصوصاً اُس وقت جب آپ کچھ بڑا کرنے کے لیے پُر عزم ہوں۔ اگر ہم نے اب تک اپنی زندگی میں اہداف کا تعین نہیں کیا اور بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں تو پھر ذہنی دباؤ، معاشی پریشانیاں اور مختلف رکاوٹیں ہماری منتظر ہیں ۔ جو افراد زندگی کو بامقصد نہیں گزارتے، زندگی بھی انھیں اس مسافر کی طرح بھٹکا دیتی ہے جو سواری پرسوار تو ہوچکا ہو لیکن اُسے اپنی منزل کا پتا نہ ہو۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ منزل تک پہنچنے کا وہی راستہ محفوظ اور کامیابی کا ضامن ہے جس میں ربّ کی نافرمانی نہ ہو بلکہ وہ راہ اُس کی رضا کی ضامن ہو، کیونکہ سارے اقدامات کے باوجود آپ اپنے ہدف کو حاصل نہیں کرسکتے اگر آپ کے حقیقی مالک کے حضور اس ہدف کی تکمیل منظور نہ ہو ۔ 

معروف انڈین جریدے آوٹ لک نے مجھے فلسطین کے محبوس علاقہ غزہ پر آئی نئی آفت یعنی قحط و بھوک پر رپورٹ لکھنے کے لیے کہا۔ میں نے نوّے کے عشرے کے اوائل میں شورش زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کی تھی۔ کشمیر، شام، فلسطین، آذربائیجان، آرمینیا جنگ، افریقہ، انڈیا کے اندر نکسل واد کے متاثرہ علاقے اور کسی حد تک شمال مشرقی ریاستوں میں جنگ و شورش کو کور کیا۔  

آوٹ لک کی اسٹوری کے لیے جب میں نے غزہ میں ایک صحافی اور مقامی سول سوسائٹی کے ساتھ وابستہ والینٹر دوست کو فون کیا، جن کے ساتھ خبروں کے حوالے سے پچھلے دوبرسوں سے ایک تعلق بن گیا تھا، تو کئی بار پیغامات بھیجنے اور کال کرنے کے بعد جب انھوں نے فون اٹھایا، تو ان کی آواز لرز رہی تھی۔ لگتا تھا کہ جیسے وہ کہیں دور سے سرگوشیوں میں بات کر رہے ہیں۔ ان کے الفاظ تھے: ’’برادر، میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ جیسے ہی ایک روٹی ملتی ہے، آپ کو فون کروں گا‘‘ (پھر ان کا فون کبھی نہیں آیا، اور میں نے دوبارہ کال کرنے کی ہمت نہیں کی)۔ 

میں دیر تک فون تھامے بیٹھا رہا کہ وہ آواز سُن کر سُن ہوگیا تھا۔ حیران صرف اس کے الفاظ پر نہیں تھا، بلکہ اس وقار پر بھی تھا جس کے ساتھ اس نے وہ جملہ ادا کیا۔ اس لمحے مجھے لگا کہ میں نے گناہ کیا ہے۔ بھوکے انسان سے مجھے خبر مانگنے کا کیا حق بنتا ہے؟ اُس لمحے مجھے اتنی شرمندگی ہوئی جتنی کبھی کسی فوجی ناکے پر تلاشیاں دیتے ہوئے نہیں ہوئی ہے۔ اس ایک لمحے، میں رپورٹر نہیں رہا، بلکہ ایک اخلاقی انہدام کا گواہ بن گیا۔ غزہ کا منظرنامہ انسان کو توڑ دیتا ہے۔ اب غزہ کی رپورٹنگ، گولیوں کے زاویوں، جارح قوت کی وحشت، جنگ بندی کے ڈرامے یا مذاکرات کے سفاکانہ ناٹک بارے میں نہیں، بلکہ بھوک کے بارے میں ہے اور پوری دنیا سمیت ’اقوام متحدہ‘ اور ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے شرم سے عاری رویوں کے بارے میں ہے۔آج کا غزہ صرف بموں اور ناکہ بندیوں کی کہانی نہیں۔ یہ بھوک کی کہانی ہے۔ ایسی قحط سالی جو قحط یا آفت سے نہیں، بلکہ منصوبہ بند جبر سے پیدا کی گئی ہے۔ غزہ کے عوام کے پیٹ ہی خالی نہیں بلکہ نام نہاد دنیا کی روح بھی خالی ہو چکی ہے۔ 

پھر اس تحریر کے لیے میں نے ۲۸ سالہ ابو رمضان سے بات کی، جو غزہ کے شہر النصر کے رہائشی ہیں۔ اُن کی گفتگو تلخی اور بے یقینی سے لبریز تھی۔جب میں نے انتہائی ڈھٹائی سے پوچھا کہ ’’آج کیا کھاؤ گے‘‘؟ تو اُنھوں نے جواب دیا:’’افسوس کہ ابھی تک ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ کھانا کہاں سے لائیں گے؟ ہر دن اپنی تقدیر لاتا ہے۔ کبھی باسی روٹی کا ٹکڑا، کبھی بالکل کچھ نہیں۔ کبھی تلخ زعتر میں ڈوبا ہوا نوالہ، اور —وہ بھی اگر زعتر میسر ہو‘‘۔ 

میں نے پوچھا کہ ’’بھوک کی اس کیفیت کو آپ کس طرح محسوس کرتے ہیں؟‘‘ وہ لمحہ بھر رُکے، پھر ایسا جواب دیا جو ہمیشہ یاد رہے گا: ’’یہ ایسے ہی ہے جیسے دل میں خنجر مارا جائے اور ہاتھ بندھے ہوں۔ آپ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے، تڑپتے اور روتے دیکھتے ہیں مگر انھیں کچھ دینے کا وعدہ بھی نہیں کر پاتے۔ تسلی کا کوئی لفظ نہیں —بس خاموشی رہ جاتی ہے۔ جیب میں پیسے ہیں لیکن خریدنے کو کچھ نہیں۔چولہے پر سمندر کا پانی چڑھا دیتے ہیں۔ بچے اس کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اب کھانا تیار ہوجائے گا اور اس چولہے کو دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں‘‘۔ 

ان کا کہنا تھا:’’امریکا اور اسرائیل کی مدد سے قائم امدادی مراکز’موت کے پھندے‘ ہیں۔ جب وہاں جاتے ہیں، تو بھروسا نہیں ہوتا ہے کہ واپس پیروں پر چل کر آسکیں گے‘‘۔سب جانتے ہیں کہ امدادی مراکز کے سامنے خطرات ہیں۔ یا تو آٹے کا سفید تھیلا لے کر واپس آؤ گے، یا سفید کفن کی تلاش میں اپنی لاش چھوڑ کر آئو گے، مگر اس کے باوجود وہاں جانا پڑتا ہے کہ کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔ 

انھوں نے مزید کہا: ’’غزہ میں میں بھوک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اب ایک بند گلی بن چکا ہے۔ ڈاکٹروں کی مہارت اور ان کی لگن بھی مثالی ہے۔ لیکن جب مسلسل محاصرہ اور مکمل محرومی ہو، تو ڈاکٹر کیسے کسی مریض کو غذا کھانے کا لکھ سکتا ہے کہ جس نے ہفتوں سے کھانا نہیں دیکھا؟‘‘  

ابو رمضان بتا رہے تھے: ’’یہ سست موت ہے۔ اور ہم سب اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اُمڈتا اور انسانی جانوں کو اُچکتا دیکھ رہے ہیں‘‘۔ پھر بھی وہ کہتے ہیں: ’’مگر اس کے باوجود انسانوں میں بھلائی باقی ہے۔اگر کسی کے پاس روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ہو،جو کبھی اضافی نہیں ہوتا، وہ پڑوسی کے ساتھ بانٹ لیتا ہے، اس یقین پر کہ کل وہی نیکی واپس ملے گی۔ ہم سب موت کے پھندوں کی طرف اکٹھے جاتے ہیں۔ اگر ایک شہید ہو جائے تو دوسرا دونوں گھروں کے لیے لے آتا ہے، تاکہ دونوں خاندان زندہ رہ سکیں۔ لیکن زندہ رہنے میں کیا باقی بچا ہے جب ’زندگی‘کا تصور ہی چھین لیا گیا ہو؟‘‘ 

ابو رمضان نے مجھے بتایا:’’یہ جینا نہیں، یہ صرف بچنا ہے۔ ہر چیز بدل گئی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی عادتوں سے لے کر ہمارے باطن تک۔ جب سے بھوک نے قبضہ کیا ہے، آئینے میں دیکھنا بھی عذاب ہو گیا ہے۔ ہمارے چہرے ہمارے جیسے نہیں لگتے ، بس کھوکھلے ڈھانچے اور تھکے سائے‘‘۔ افسوس یہ ہے کہ دنیا کو ابھی بھی غزہ کی اصل صورت حال کا ادراک نہیں ہے۔ میڈیا کوریج کے باوجود، کوئی نہیں سمجھتا۔ اگر سمجھتے ، واقعی ہمیں دیکھتے ، تو یہ جنگ ایک دن بھی نہ چلتی‘‘۔ میں نے جب پوچھا کہ دنیا کے لیے کیا پیغام ہے؟ تو ان کی آواز میں تلخی اُمڈی: ’’بس دنیا والوں کو کہیں کہ جا گ جاؤ۔ اس سے پہلے کہ تاریخ تم پر لعنت بھیجے۔ ایک دن تم خود ہم سے بھی بدتر حالت میں کھانے کے محتاج ہوگے۔ قیامت کے د ن ہم یہی گواہی دیں گے‘‘۔ 

’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ (Medecins Sans Frontieres: MSF) کی ایک تازہ رپورٹ میں ’غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن‘ (GHF)کو، جو امریکی و اسرائیلی سرپرستی میں چل رہا ہے، ’ظلم کی تجربہ گاہ‘قرار دیا گیا ہے۔ صرف سات ہفتوں میں ان مراکز کے باہر۱۸۰۰ ہلاکتیں درج کی گئیں۔ ۱۰۰ کے قریب بچوں کو گولیاں مار دی گئیں۔ بعض کو سر یا سینے میں۔ زخموں کی نوعیت —سر اور سینے میں زخم —ثابت کرتی ہے۔ امدادی مراکز ہدف اور ذلت کے میدان بن چکے ہیں، جن کی حفاظت امریکی نجی ٹھیکے دار کرتے ہیں۔ بچ جانے والے کہتے ہیں کہ پیغام صاف ہے: ’بھوکے مرو، یا کھانے کے لیے کوشش کرتے مرو‘۔ٹی وی پر امدادی ٹرکوں کی تصاویر چلتی ہیں، مگر زمین پر حقیقت مختلف ہے۔ 

مارچ ۲۰۲۵ء سے، جب اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات کے دوران امداد کی ناکہ بندی کی، خطے کو ایک منصوبہ بند طریقے سے ’قحط کی موت‘ کے مذبح خانے میں جھونک دیا گیا۔  

غزہ کی صحافی راشا ابوجلال لکھتی ہیں: امدادی ٹرک بھی راستے میں لُوٹ لیے جاتے ہیں یا چند گروہوں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں۔غزہ کی ضروریات کے لیے روزانہ۵۰۰/۶۰۰ ٹرک درکار ہیں۔مگر اسرائیل ۱۰۰ سے بھی کم ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ چھ بچوں کے باپ خالد تنیرہ کہتے ہیں:’’یہ امداد سب تماشا ہے۔ ایک فوجی طیارے نے سات فضائی غباروں سے آٹے کے تھیلے ہمارے محلے کے اوپر گرائے۔ ہزاروں لوگ ان پر ٹوٹ پڑے، —حالانکہ وہ سامان چند درجن خاندانوں کے لیے بھی کافی نہ تھا‘‘۔ 

 صحافی ابو جلال اپنی حالت زار بتاتی ہیں: ’’دو دن سے امدادی کھانے کا انتظارکرنے کے بعد میں نے ۲۵ ڈالر میں ایک کلو آٹا خریدا، جو مشکل سے ایک ڈالر کا ہوتا تھا۔ اب شیر خوار بچوں کا دودھ ۸۰ ڈالر فی ڈبہ ہے، جو پہلے ۱۰ ڈالر تھا۔ مائیں اپنے زیورات بیچ کر بچوں کو کھلا رہی ہیں‘‘۔ غزہ کے کالم نگار طلال اوکل لکھتے ہیں:’’جب تک امدادی رسائی بہتر نہیں ہوتی اور سیکیورٹی بحال نہیں ہوتی، بھوک مزید افراد کو ہلاک کردے گی‘‘۔ بین الاقوامی فضائی ڈراپ تماشے کو ’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ نے ایک ’بے اثر اور خطرناک‘بتایا ہے۔  

ایک نرس نے بتایا: ’’امدادی جگہوں پر ایک پانچ سالہ بچہ ہجوم میں کچلا گیا، اس کا چہرہ دم گھٹنے سے نیلا پڑ گیا تھا۔ ایک آٹھ سالہ بچے کے سینے میں امداد لیتے ہوئی گولی لگی۔ ہم صرف چند زخمیوں کا علاج کر پاتے ہیں۔ یہ جنگ نہیں رہی۔ جنگ کے علاوہ کچھ اور ہے، جنگ سے بھی زیادہ لرزہ خیز ہولناک اور تباہ کن ‘‘۔ ۴۲سالہ خدیجہ خدیر کہتی ہیں:’’میرے چار بچے بھوک سے سکڑ رہے ہیں۔ ہم تین چار روز کے بعد ایک روٹی کھاتے ہیں اور غزہ میں یہی آج کل ایک ’عیاشی‘ ہے‘‘۔ 

غزہ میں میڈیا آفس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسماعیل الثوابتا کا کہنا تھا: ’’قحط براہِ راست اسرائیلی فوجی محاصرے کا نتیجہ ہے۔ برسوں سے کھانے، ایندھن اور دواؤں کی منظم پابندی، اور تقسیم کے راستوں کی بار بار توڑ پھوڑ نے صورت حال بگاڑ دی ہے۔ محفوظ رسائی ناممکن ہوگئی ہے۔ خطے میں بدترین قحط شروع ہو چکا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے ۲۶ جنوری، ۲۸ مارچ، اور ۲۴مئی ۲۰۲۴ءکو واضح حکم دیا کہ اسرائیل ’بلارکاوٹ‘انسانی امداد کی رسائی یقینی بنائے اور شہریوں کی حفاظت کرے۔ مگر اسرائیل اب بھی گذرگاہیں بند رکھتا ہے، امدادی اور رفاہی کام روکتا ہے، اور تقسیم مراکز کو نشانہ بناتا ہے‘‘۔میں نے ان سے پوچھا: ’’مغربی حکومتوں کا کیا کردار رہا ہے؟‘‘ تو فلسطینی رہنما کا کہنا تھا:’’ زیادہ تر نے اسرائیل کو عسکری و سیاسی سہارا دیا ،یا اپنی قانونی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا۔ اس سے رکاوٹیں قائم رہیں۔ انھوں نے نہ گزرگاہیں کھولیں اور نہ عدالتی احکام منوائے‘‘۔  

میں نے اسماعیل الثوابتا سے پوچھا: ’’آپ کے گھرانے نے آج اور اس ہفتے کیا کھایا؟‘‘ ان کا کہنا تھا: ’’کئی روز کے بعد آج ہم کو دال کا سوپ نصیب ہوا ہے۔ چند روز قبل تھوڑے سے چاول پانی کے ساتھ حلق سے اتارے تھے۔ یہ میری زندگی کا سب سے کڑا لمحہ ہے ۔گھر میں بیٹی روٹی مانگتی ہے مگر روٹی کو دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ امدادی مراکز پر اسرائیلی اکثر سر، گردن اور ٹانگوں میں گولیاں مارتے ہیں۔ لوگ تھوڑی تھوڑی چیزیں بانٹتے ہیں۔ ایک کلو پھلیاں دس لیٹر پانی میں اُبال کر کئی گھروں میں بانٹ دی جاتی ہیں۔ یہ یکجہتی ابھی باقی ہے۔ محاصرے اور روزانہ ہلاکتوں کے باوجود لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ فلسطینی لیڈر نے بتایا:’’میں نے پچھلے دوماہ میں ۱۶کلو وزن کھو دیا۔ میرے کزنز مازن نے ۵۱ کلو، اور ماہر نے ۴۶کلووزن کھو دیا ہے‘‘۔  

بھوک کو ہتھیار بنایا گیا ہے۔اسرائیل اور امریکا نے یہ اہتمام کیا ہے کہ اسرائیلی ٹرک ان کی اپنی زمین پر روٹیاں لائیں اور ان کو جاں بہ لب فلسطینی اور بھوک سے لاچار آبادی کے سامنے پھینک کر ان کا تماشا دیکھیں۔ اس دوران کسی اسرائیلی فوجی کا دل چاہا تو فائرنگ شروع کردی۔ اتنی تذلیل کوئی قوم برداشت کیسے کرسکتی ہے؟ 

 بطور صحافی لکھتے لکھتے میرا قلم رُک جاتا ہے۔ بھوک نے الفاظ چھین لیے ہیں۔ اس باپ کے دُکھ کے مداوے کے لیے کیا لکھوں جو اپنے بچے کو سُوکھتے ہوئے دیکھ کر کڑھتاہے۔ وہ ماں جس نے پانی کا برتن چولہے پر رکھا ہے اور بچے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں، یا اس نوجوان کے خون کا بدلہ جس کی جان کی قیمت بس آٹے کاتھیلا تھا۔ جب آنے والی نسلیں یہ باب پڑھیں گی تو وہ یہ نہیں پوچھیں گی کہ فلسطینی کیوں غصے میں تھے؟ وہ پوچھیں گی: دُنیا کیسے کھانے کھاتی رہی؟___ یہ قحط صرف خوراک کا نہیں، اخلاقی اور سیاسی بھی ہے۔  

قومیں اُمت مسلمہ پر اس طرح ٹوٹ پڑی ہیں جیسے بسیارخور کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، مسائل بہت زیادہ اُلجھ گئے ہیں۔ مفادات کی جنگ جاری ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کی بھرمار ہے۔ مسلمان راہِ نجات اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہیں، جو انھیں اس خوفناک معرکے کی لپیٹ سے بچا سکے اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دینے والے طوفان میں محفوظ رکھ سکے۔ ایسا طوفان جو اُمت کو دوکیمپوں میں تقسیم کررہا ہے: ایمان کیمپ ، جس میں نفاق نہیں، اور نفاق کیمپ، جس میں ایمان کی رمق بھی نہیں۔ اس طوفان میں اہلِ حق اور اہلِ باطل کے درمیان فرق کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ اس میں کھرے اور کھوٹے کی تمیز بھی ہورہی ہے۔ پھر جس کو ہلاک ہونا ہے وہ دلیل پر ہلاک ہوگا اور جس کو زندہ رہنا ہے وہ دلیل پر زندہ رہے گا۔ اور یہ اٹل قرآنی قانون کے مطابق ہوگا: 

فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۝۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ  (الرعد ۱۳: ۱۷)  جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیرجاتی ہے۔  

اس انتہائی مشکل اور پریشان کن صورتِ حال میں اُمت کو یہ پناہ گاہ کب میسر آئے گی اور  کہاں مل سکے گی؟ 

عالم اسلام اور افرادِ اُمت کو بہت سی فکری و نظری پناہ گاہوں میں حفاظت کی توقع بندھ جاتی ہے اور وہ ان کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ ذیل میں ایسی تصوراتی پناہ گاہوں کی نشان دہی اور ان کی حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں: 

کفر و طغیان کے سامنے ہتھیار ڈال دینا 

امن و سلامتی اور حفاظت کی پناہ گاہ یقینا اس پرچم تلے نہیں ہوسکتی، جو دشمنوں کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے اپنی شناخت اور امتیاز کے خاتمے سے ممکن ہو، یعنی بدترین حالات کو دیکھ کر ان کے سامنے ہتھیار ڈال دینا، طوفان کے سامنے کھڑے نہ ہونا، جینے کی ادنیٰ ترین سطح پر آکر زندگی کی بھیک مانگنا، یا زیادہ سے زیادہ کفر کے نظام کے تحت، اصلاح کی موہوم اور معمولی شکل کو حاصل کرنے پر راضی ہوکر بیٹھ جانا۔ یہ سب ظلم سے مصالحت اور مداہنت کی وہ شکل ہے، جس کی ادنیٰ ترین حد کے قریب جانے سے بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیںمنع فرمایا ہے: 

وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ۝۰ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۝۱۱۳ (ھود ۱۱:۱۱۳) ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی۔ 

یہ دراصل اس طوفان کے انجام سے بے خبری ہے، طوفان خواہ کتنا ہی دُور تک چلا جائے اس کا انجام ہلاکت و تباہی اور بربادی ہی ہوتا ہے:  

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) اور اعلان کر دوکہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔ 

اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا انجام بھی بیان کردیا ہے، جو اپنی شناخت کو بھول کر کفر و طغیان کے کیمپ میں داخلے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ جو قوم ان کے نقش قدم پر چلے گی اسے اسی حتمی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا: 

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْہِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَۃٌ۝۰ۭ فَعَسَى اللہُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَسَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِيْنَ۝۵۲(المائدہ ۵:۵۲) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکّر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کُن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے۔ 

اس آیت میں لفظ عَسَی آیا ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں اُمیدورجاء اور توقع کے لیے نہیں بلکہ حتمی اور قطعی بات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ اس راستے کے انجام سے خبردار کر رہا ہے، کہ جلد ہی وہ یقینی طور پر فتح اہل حق کے مقدر میں کردے گا ، یا ایسے حادثات و واقعات رُونما کرے گا، جو بیمار دلوں کی توقعات اور اُمنگوں کے برعکس ہوں گے اور وقت گزرجانے کے بعد ان میں شرمندگی کا احساس گہرا کریں گے۔ ان کے اُوپر وہ بیماری، کمزوری اور بزدلی و کم ہمتی کھل جائے گی جس کی طرف ان کے دل لڑھکتے پھرتے تھے۔ 

نفاق اور مصالحت کی پناہ گاہ 

حفاظت و سلامتی کی پناہ گاہ ، اُمت کے دلوں پر ظلم و استبداد کے مونگ دَلنے والے نظاموں اور اُن کے کارپرداز منافقین کی قلیل سی تعداد کے ساتھ اپنی نسبت جوڑنے سے بھی میسر نہیں آئے گی۔ یہ اقلیت اُمت کی دولت اور وسائل ضائع کر رہی ہے ۔ اس حاکم اقلیت نے اُمت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے ، اس کی شناخت کو تبدیل کردیا ہے، اور اُمت سے عزم و ہمت کی قوت سلب کرلی ہے۔ اس حاکم گروہ نے اُمت کو اس کی آزادی سے محروم کر دیا ہے اور اللہ کے دین و شریعت سے عالمی نظام کی خدمت کے لیے اُمت کو غلام بنا رکھا ہے۔ اسلام اور اسلامی اقدار و روایات کا دشمن یہ استبدادی نظام ہے اور نظامِ شریعت سے جنگ آزما ہے اور انسانی فطرت کو تبدیل کردینے کے درپے ہے۔ 

اس منافقانہ نظام میں اپنے آپ کو گم کر دینا نہ اُمت مسلمہ کے مسائل کا حل ہے اور نہ اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ، بلکہ یہ مزید گراوٹ اور پستی میں گرنے پر ڈھٹائی سے جمے رہنے کے مترادف ہے۔ یہ ناکامی و پسپائی کو یقینی بنانے کا عمل ہے اور بڑی قیمت چکا کے اسے  مزید جاری رکھنے کا منصوبہ ہے۔ ان منافقین کے پاس سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں اور ان کی دوستی کا کوئی اعتبار نہیں۔ خود ان کے وجود اور موجودگی کا بھی کوئی مستقبل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے باطل کی حقیقت کو بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا ہے: 

يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۹ۭ (البقرہ ۲:۹) وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنھیں اس کا شعور نہیں ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے ان کی اس روش جس کے سبب عذاب ان کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور کسی مددگار کا وجود ان کو نظر نہ آنے کا بیان کرتے ہوئے فرمایا:  

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا۝۱۴۵(النساء ۴:۱۴۵) یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے، اور تم کسی کو اُن کا مددگار نہ پائو گے۔ 

اللہ تعالیٰ اس قبیل کے تمام منافقوں (اور ان سے منسوب ہونے والوں کو) کافروں کے ساتھ جہنم میں ایک جگہ جمع کردے گا: 

 اِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَہَنَّمَ جَمِيْعَۨا۝۱۴۰ۙ(النساء ۴ :۱۴۰) یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے۔ 

الحاد کی پناہ گاہ 

ہمیں یقین ہے کہ کوئی عقل مند آدمی نہ اس راستے کا انتخاب کرسکتا ہے، نہ کوئی رہنمائی کرنے والا دوسروں کو یہ راستہ دکھاسکتا ہے۔ یہ تو فطرتِ سلیمہ کی مخالفت اور ربِّ کائنات سے بغاوت و سرکشی کا راستہ ہے۔ قوانین قدرت اور قطعی دلائلِ ایمان کا انکار ہے۔ شروع میں تو اس خیال کا آدمی سمجھتا ہے کہ وہ پابندیوں سے آزاد ہوگیا ہے، مگر اسے یہ ادراک نہیں ہوپاتا کہ وہ کس تنگ و تاریک مقام پر جاگرا ہے، جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اور کس طرح کے غم و اندوہ میں مبتلا ہوگیا ہے جن سے چھٹکارے اور خلاصی کی کوئی سبیل نہیں۔ ایسا شخص ایسی بے سکونی اور بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے کہ پھر سکون و اطمینان اسے کبھی میسر نہیں آسکتا۔ وہ حال کا سکون بھی گنوا بیٹھتا ہے اور مستقبل کے خوف کی آگ میں بھی جلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی کیفیت کو بیان فرمایا ہے: 

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴) اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اُٹھائیں گے۔ 

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 

وَمَنْ  يُّشْرِكْ بِاللہِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ  مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّيْرُ اَوْ تَہْوِيْ بِہِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ۝۳۱ (الحج ۲۲:۳۱) اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے، یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اُڑجائیں گے۔ 

پسپائی اور فرار کی پناہ گاہ 

یہ عزّت و تکریم کی بلندی سے اُتر کر خواہشاتِ نفس کی تکمیل میں مصروف ہوجانے، کھوجانے اور غرق ہوجانے کی پست سطح پر آجانا ہے۔ خوش حالی اور زندگی کی سہولتوں کے حصول کے پیچھے بھاگنا ہے، اور انھی سے لطف اندوزی کو مقصودِ زندگی ٹھیرا لینا ہے۔ اس کیفیت میں اللہ کے پیغام کا ابلاغ، امانت الٰہی کی ادائیگی اور اقامت دین کی ذمہ داری سے انسان منہ موڑ لیتا ہے، یا غفلت کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس نیابت کی خاطر پیدا کیا ہے، اُس فریضے کی ادائیگی سے پہلو بچاتا ہے، حالانکہ کائنات اور اس کی قوتیں اسی مہم کی انجام دہی کے لیے اس کی معاونت کی خاطر مسخر و مطیع کی گئی ہیں۔ 

اس فرار کو قرآنِ مجید نے ’ہلاکت‘ کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے آخری نبیؐ کو فتح و نصرت سے شادکام کردیا تو بعض صحابہؓ نے اپنی گفتگوئوں میں اس بات کا اظہار کیا کہ ہم نے اپنے مال ودولت کو اس خاطر چھوڑا تھا کہ ہم آپؐ کی جدوجہد میں شریک رہیں۔ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فتح و نصرت عطا فرما دی ہے، لہٰذا آئو ہم مال و کاروبار کی طرف واپس لوٹ جائیں تاکہ ان کی بہتری اور ترقی کے لیے محنت کرسکیں۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے اس خفیہ اظہار رائے کی خبر وحی کے ذریعے دی اور فرمایا: 

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ ۝۰ۚۖ (البقرہ ۲:۱۹۵) اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ 

یہاں اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ’ہلاکت‘ میں ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے دُنیاوی کاروبار اور روزگار کے ذرائع کی ترقی اور بہتری میں لگ جائیں اور جہاد کو ترک کر دیں۔ اس لیے فرار اور پسپائی کسی کے لیے ہرگز پناہ گاہ نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے: 

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۲۴ۧ (التوبۃ ۹:۲۴) اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار، جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ 

کسی سے پناہ لینے کا راستہ 

دُنیا اور آخرت میں اہل ایمان کے لیے ایمان کے سوا کوئی پناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲) حقیقت میں تو امن اُنھی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔ 

اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ ہم نہ کافروں کی کشتی میں سوار ہوں، نہ اُن کی ہمراہی میں سفر اختیار کریں بلکہ اپنے دلوں میں ایمان کی علامات کو مضبوط تر کریں۔ قلبی صفائی اور اللہ پر توکّل کی سچائی کو دائمی طور پر اختیار کرلیں۔ یہی دو بنیادیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بیان ہوئی ہیں: 

وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا۝۰ۭ (ابراھیم ۱۴: ۱۲) اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسا کریں، جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟ 

امن و سلامتی کی پناہ گاہ اسلام کے ساتھ اپنے مخلص انتساب کی تجدید میں پوشیدہ ہے۔ اسلام کی شاہراہِ مستقیم کے مسافر کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ پوری وضاحت، قوت اور استقامت کے ساتھ باوقار انداز میں اس تجدید ِعہد کا اعلان کرے کہ: 

وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۷۲ (یونس ۱۰ :۷۲) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں ۔ 

بلکہ وہ اپنے ربّ سے ہروقت یہ دُعا بھی کرتا رہے: 

تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۝۱۰۱ (یوسف ۱۲: ۱۰۱) میرا خاتمہ اسلام پرکر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔ 

شاہراہِ اسلام کے مسافر کا شعار اور عزم یہ ہونا چاہیے کہ ’’میں اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام کر زندگی گزاروں گا اور مسکراتے ہوئے موت کا استقبال کروں گا، تاکہ میرا دین زندہ اور قائم رہے‘‘۔ 

جدوجہد میں اپنا کردارادا کرنا 

پہاڑوں کی طرح بلند موجوں کا یہ طوفانِ بلاخیز اُمت مسلمہ کو پکار پکار کر اپنا سفینۂ نجات وقت ضائع کیے بغیر تیار کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔اس کشتی کی تیاری وقت کا فریضہ اور محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے مگر شرط یہ ہے کہ کشتی کی تیاری میں قرآنِ مجید کے حکم کا وہ متن پیش نظر رہے جس میں حضرت نوحؑ کو مخاطب کیا گیا ہے: 

وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۝۰ۚ اِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ۝۳۷  (ھود ۱۱:۳۷) اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو۔اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔ 

یہ کام سب سے پہلے تو اللہ پر توکّل میں اخلاص کا تقاضا کرتا ہے اور پھر اس سے مدد و استعانت کو بھی لازم ٹھیراتا ہے۔ یعنی بِاَعْيُنِنَا (ہماری نظروں کے سامنے)۔ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ کشتی اللہ تعالیٰ کے طریق اور اس کے قانون و ضابطے کے مطابق تیار کی جائے یعنی  بِوَحْينَا (ہماری ہدایت کے مطابق)۔ زمینی فلسفوں، عالمی حکم ناموں اور گروہی آرزوئوں کے مطابق نہیں۔ 

اس کشتی کے مسافروں پر لازم ہے کہ کشتی بانوں کو ان کا تعاون اور ہمدردی مکمل طور پر حاصل ہو۔قائد کاغذ پر نقشہ کے ذریعے اس کے ابتدائی خطوط طے کرے۔ کارکن مواد کو تیار کرے۔ انجینئر اس کی تفصیل بنائے۔ دولت مند دولت خرچ کرے۔ عبادت گزاردُعائیں کرے گا۔ عالم اس کے معانی و مفاہیم لوگوں کے ذہن نشین کرائے۔ بڑھئی اس میں کیلیں ٹھونکے۔ ماہرِفن تختیوں کی ترتیب لگا کر ان کی حرکت کو باضابطہ بنائے۔ 

اگر آپ ان سفینہ گروں میں سے نہیں ہیں تو سفینہ گری سے وابستہ لوگوں میں ہی شامل ہوجائیں، اس کام کو معاونت دینے والے بن جائیں۔ اس کی حفاظت و نگرانی پر مامور ہوجائیں۔ جو شخص اس کشتی کی تیاری میں اپنی کسی بھی طرح کی جہد و سعی صرف نہیں کرے گا، گویا وہ طوفان کے دوران جاری جہاد میں کسی کام نہیں آیا۔  

آخری بات یہ کہ کسی عمل کو چھوٹا اور معمولی نہ سمجھیے۔ ایک نوخیز بچّے کے دماغ میں لفظ ’اسلام‘ ڈالنے میں بھی تردد نہ کیجیے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی نوجوان نسل کی اسلام کے مطابق تربیت کرنے میں ہچکچاہٹ نہ برتیں۔ انحطاط پذیر معاشرے میں اسلامی اقدار کی حمایت و اشاعت کا ساتھ دیں۔ کسی مایوس سوسائٹی میں اُمید کا کلمہ بلند کرتے ہوئے نہ شرمائیں۔ اُٹھیں اور پوری وضاحت سے بغیر کسی تردّد کے یہ اعلان کریں: 

اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللہِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ۝۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۝۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۵۶ (ھود ۱۱ : ۵۶) میرا بھروسا اللہ پر ہے جو میرا ربّ بھی ہے اور تمھارا ربّ بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔ 

اور یہ یقین رکھیں کہ آپ ایمان کی پناہ گاہ میں جاکر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے حق دار قرار پائیں گے: 

وَلَنْ يَّجْعَلَ اللہُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا۝۱۴۱(النساء ۴: ۱۴۱) اور (اس فیصلہ میں)اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔ 

آج کی مغربی دُنیا، عشروں پر محیط ایک طویل نیند اور اذیت ناک غفلت کے بعد ہوش میں آئی ہے۔ شاید وہ اپنے کیے ہوئے غلط کام سے نصیحت پکڑے اور اس جرم کا ازالہ کرے، جس کی وہ مرتکب ہوئی تھی اور اسرائیل کی شکل میں اس زہریلے پودے کی زہرناکی کو محسوس کرے، جو اس نے کاشت کیا تھا اور سرزمین فلسطین کی اصلی قوم کی مظلومیت کو محسوس کرے، جس کو اس نے پارہ پارہ کردیا تھا۔ 

تاہم، اس ’ہوش مندی‘ کا قدم اُٹھاتے ہوئے بھی مغرب ایک موہوم اور ایک زہرآلودہ مفہوم کا نعرہ لے کر نکلا ہے، یعنی دو ریاستوں کا نعرہ۔جس کا مطلب ہے: دو پیمانوں سے وزن کرنا اور دو نگاہوں سے دیکھنا۔ 

کیا تعجب خیز سادگی ہے جو مغرب سرزمین فلسطین کے اصلی حق داروں کے ساتھ روا رکھ رہا ہے۔ اس نے انھیں ان کے تمام ظاہروباہر حقوق سے محروم کرکے ان کی اصل ملکیتوں سے بے دخل کردیا اور اس کے بالمقابل ان کے دشمنوں کو نوازتا رہا ہے، یہاں تک کہ جعلی اور اضافی حقوق بھی عطا کرتا رہا ہے۔   

سب جانتے ہیں کہ ’اسرائیل‘ نام کی ریاست خطّے میں ایک غاصب اور دخیل ریاست ہے۔ تاریخ اس کی تائید نہیں کرتی اور نہ کوئی حساب کتاب اس کو جواز فراہم کرتا ہے۔ تو پھر ان مغربی اقوام کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ تاریخ کو بھی نہیں سمجھتے، یا پھر یہ اپنے اور تاریخ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں؟ 

دُنیا میں بہت سے لوگ یہ خیال کرتے رہے کہ مغرب نے عربوں اور فلسطینیوں کے حق میں کی ہوئی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور اپنی رائے کو بدل لیا ہے۔ مظلوموں کو ان کے حقوق کی واپسی کے ذریعے انصاف کی فراہمی کی طرف لوٹ آیا ہے۔ لیکن منطق کا یہ نہایت سادہ اصول ہے کہ کسی غلطی پر بنیاد رکھی جائے تو وہ بھی غلطی ہی ہوتی ہے، لہٰذا یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ غلطی کی تصحیح غلطی کے ساتھ ہو؟ کیا یہ عقل مندی ہے کہ ہم نیکی کرنے والے سے کہیں کہ تُو نے بُرائی کی ہے؟ اور بُرائی کرنے والے سے کہیں کہ تُو نے نیکی کی ہے؟ 

فلسطین قانونی طور پر کس کا حق ہے؟ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے، اس میں ذرہ بھر شک و شبہ نہیں۔ اس حق کا کوئی اندھا ہی انکار کرسکتا ہے، لہٰذا وہ لوگ جو دُنیا کی لیڈرشپ کے دعوے دار ہیں اور انھوں نے آزادی و جمہوریت کا علَم اُٹھا رکھا ہے، ان کے لیے کیسے یہ جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اس حقیقت سے انکار کریں؟ 

لہٰذا عدل و انصاف کی بات تو یہی ہے کہ اہل مغرب آئیں اور اصل مسئلۂ فلسطین میں جرم کا ازالہ کریں، غلط فہمی کی تصحیح کریں اور ظلم کی جگہ انصاف کریں۔ 

ہمارایہ ایمان ہے اور ہر صاحب ِ عقل اور حق گو ہمارے اس یقین میں شریک ہے کہ  ’فلسطین‘ کا لفظ اپنے معنی و مفہوم اور وجود و حیثیت کے اعتبار سے تاریخ میں مضبوط پہاڑوں کی مانند قائم ہے۔ غاصبانہ طور پر چھن جانے والی سرزمین کا مطالبہ کرنے والے تمام لوگ اسی وجود کو مانتے ہیں۔لہٰذا ہم اُن سب کے لیے جو اس سرزمین فلسطین سے تعلق کا اعلان کرتے ہیں ایک کامل اور جامع ریاست کیوں نہیں بحال کرتے، جس کا نام فلسطین ہو؟ ایسی ریاست جو تمام کونوں گوشوں کو اپنے اندر سمولے۔ تمام ادیان و مذاہب کے لیے آزادی کی ضمانت دے ۔ تمام نظریات کے لیے زندہ رہنا اس میں ممکن ہو۔ 

اگر ہم سب کے لیے انصاف کو ممکن بنا دیں اور ہرکمزور و طاقت ور کو اس کا حق دے دیں تو ہم وہ ’عظیم تر فلسطین‘ کی ریاست قائم کرسکتے ہیں، جس کی بنیاد مکمل آزادی، کامل جمہوریت اور منصفانہ معاشرت پر رکھی گئی ہو۔ 

وہ اگر اس سے انکار کریں اور یہ یقینی طور پر متوقع ہے، تو پھر اہلِ فلسطین رواداری اور دست برداری کے پہلو سے دو ریاستی حل کو قبول کرسکتے ہیں، مگر اپنی مکمل قیادت، آزاد مرضی اور قیادت کے آزادانہ انتخاب کی بنیاد پر۔ تب دونوں ریاستوں کو یہ حق حاصل ہوسکے گا کہ اُن میں سے ہرایک اپنے دفاع کی غرض سے اسلحہ رکھ سکے۔ اسے ہر پابندی سے آزاد رہ کر اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی ضمانت حاصل ہوگی اور وہ اپنے امن و آزادی کو یقینی بنانے کی خاطر بیرونی عسکری پابندیوں سے بھی آزاد ہوگی۔ 

اس تصور اور تجویز کو عملی طور پر ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یہودی اپنی صہیونیت سے دست کش ہوجائیں جو کہ اُن کی نسل پرستی، فاشزم، انتہاپسندی اور توسیع پسندی کی بنیادی جڑ ہے۔ اسی طرح وہ دوسروں کے ساتھ امن و سلامتی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ 

وہ تجاویز اور حل جو بعض مغربی ممالک پیش کرتے ہیں، وہ تو ابتدا ہی سے نسل پرستی کو جنم دیتے ہیں اور بالآخر انتہا پسندی تک لے جاتے ہیں، لہٰذا، کیا اس ذہنیت سے آلودہ مغرب ’ریاست فلسطین‘ کے قیام کی ضمانت دے سکتا ہے؟ جب کہ اسی مغرب نے فلسطین کے بے گناہ شہریوں کو بھوک سے مارنے، بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے، اور نسل پرست صہیونی سیاست کو بلاروک ٹوک کھل کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ 

یہ مغرب جس نے فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیل کو مال و دولت اور اسلحہ و سازوسامان کے ذریعے امداد دی ہے، یہی مغرب دو ریاستی حل کے مطالبے میں کیونکر غیرجانب دار ہوسکتا ہے؟ اس لیے کہ وہ ہمیشہ سے اور آج بھی دوپیمانوں سے وزن کرتا آیا ہے کیونکہ وہ آنکھوں کا اندھا ہے! 

ہم یہ کہہ رہے ہیں اور ہمیں یہ یقین بھی ہے کہ ایسی ’فلسطینی ریاست‘ کو تسلیم کرنے کا مسئلہ جو پُرامن ریاست کے تمام حقوق سے خالی ہو، معاملے کو مزید بگاڑنے کا سبب ہوگا۔مسئلے کا حقیقی حل فلسطینی قوم کی واپسی، اسے اپنے مستقبل کے انتخاب کی پوری آزادی، اپنی قیادت کو منتخب کرنے کا پورا حق اور اپنے لیے مفید مناسب طرزِ حکومت اختیار کرنے کی آزادی میں پوشیدہ ہے۔ 

آزادی ایسا ’کُل‘ ہے، جو اپنے حصے بخرے ہونا قبول نہیں کرتی۔ یہ ہوتی ہے تو، مکمل ہوتی ہے اور نہ ہو تو یہ جزوی طور پر نہیں ہوتی۔ فلسطینی قیادت کا حق اسی کو حاصل ہوگا، جس کو قوم قبول کرتی ہے۔ اس قیادت کا مذہب خواہ کچھ ہو، اور اس کا نقطۂ نظر خواہ کچھ ہو۔ یہی قومی موقف اور ارادے کی نمائندہ ہوگی، اسی کو اپنی ذمہ داری ہرقسم کی مداخلت کے بغیر سنبھالنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ جہاں تک اتھارٹی کو مسلط کرنے اور حکمران متعین کرنے کی بات ہے، تو اس پر ایک زمانہ گزر چکا ہے اور اب اس کا وجود خون، آنسوئوں، بھوک، پیاس اور خوف و دہشت کے سیلاب میں بہہ گیا ہے۔  

اب تک قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں نفاق سے بھی بہت کام لیا گیا۔ چشم پوشی اور نظراندازی کا بھی خوب مظاہرہ کیا گیا۔ جن قوموں نے اپنی جدوجہد کے سلسلے میں جو کچھ کیا، ہمارے لیے اس میں عبرت کے درس موجود ہیں، جیسے الجزائر، ویت نام، جنوبی افریقہ اور افغانستان ہیں۔ ثابت شدہ اور ٹھوس حقیقت جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا، یہی ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہوگا، قائم ہوکر رہے گی۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ غاصب اور قاتل نیتن یاہو کی حکومت خواہ کتنا ہی خوف پھیلا لے اور تشدد اور سفاکیت کا مظاہرہ کرے، اس کے مقابلے میں حق کا پرچم بلند ہوکر رہے گا، اس کو مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جعلی اور بناوٹی اَدوارِ حکومت جو مغربی پٹی پر ایک من پسند قیادت کو مسلط کرکے یا اسلحہ سے خالی ریاست کا نعرہ لگا کر اور ’حماس کی اس میں کوئی جگہ نہیں‘ کا بیان دے کر ظاہر کیے جاتے ہیں، سب خالی نعرے ہیں۔ حقیقت کی دُنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ 

فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۝۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ  (الرعد ۱۳: ۱۷)  جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتی ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے، وہ زمین میں ٹھیرجاتی ہے۔  

یہ ۲۰۰۶ء کی بات ہے کہ ایک ماہرِ قانون نے ’آئین پاکستان‘ اور آزادکشمیر کے ’عبوری آئین کی فراہمی کے لیے مجھ سے تقاضا کیا۔ میری اہلیہ ان دنوں ایک شادی میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کتابوں کو خرید کر ساتھ لیتی آئیں۔ واپسی پر جب وہ واہگہ -اٹاری سرحد پر پہنچیں تو ان کا فون آیا: ’کسٹم افسران نے ان دونوں کتابوں کو ضبط کرلیا ہے‘۔ میں نے مذکورہ افسر سے بات کی ، تو بڑی مشکل سے خاصے بحث و مباحثہ کے بعد اس نے ’آئین پاکستان‘ کی کاپی ساتھ لے جانے کی اجازت تودے دی، مگر آزاد کشمیر کے عبوری آئین کو ضبط کرکے اس کی رسید تھما دی۔ یہ واقعہ تو یہاں تمام ہوا، ازاں بعد مذکورہ ماہرِ قانون نے بھی اس کتاب کو بارڈر سے لانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔  

دنیا کے مختلف ممالک میں کتابوں پر پابندیاں لگانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مگر جمہوری ممالک کی صف میں انڈیا اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے میں بازی لے رہاہے۔ اگست ۲۰۲۵ء میں جس طرح زیرک اور معروف دانشوروں کی پچیس کتابوں پر تھوک کے حساب سے جموں و کشمیر میں پابندی عائد کی گئی اور پھر اگلے ہی روز کتابوں کی دکانوں کی تلاشیاں لی گئیں، اس سے دانش ور طبقہ میں خوف و تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 

ماضی میں جائیں تو آزادی کے بعد پہلی بار ۱۹۵۰ءمیں تین کتابوں پر پابندی لگائی گئی، وہ حمید انور کی پاکستان پس منظر، آغا بابر کی سیز فائر اور نسیم حجازی کا ناول خاک و خون تھا۔ اس کے دوسال بعد مولانا صادق حسین سردھنوی کے ناول معرکہ سومنات پر پابندی لگا دی گئی۔ اسٹانلے وولپرٹ کی Nine Hours to Rama پر ۱۹۶۲ءمیں پابندی عائد کی گئی۔ اس کے اگلے سال برٹرینڈرسل کی Unarmed Victory ممنوع قرار دی گئی۔ اسی طرح وی ایس نیپال کی An Area of Darkness، تامل ناڈو کے ایک لیڈر پیریار راماسوامی Ramayana: A True Reading بھی اس فہرست میں ہے۔ ۱۹۸۳ءمیں امریکی تفتیشی صحافی کی کتاب سیمور ہرش، ۱۹۸۹ء میں زوہیر کشمیری اور برائن میک انڈریو کی کتابSoft Target: How the Indian Intelligence Services Penetrated Canada? پر پابندی لگائی گئی۔ اسی قبیل میں آخری پابندی ۲۰۱۴ءمیں سنت سوریہ تکا رام اور لوک ساکا دنیشور پر لکھی گئی کتاب پر لگائی گئی۔ ۲۰۱۷ء میں ایچ ایس شیکھر کی قبائلیوں پر لکھی ایک کتاب پر بھی پابندی لگائی گئی تھی، مگر جلد ہی یہ واپس لے لی گئی۔  

اگرچہ ہر سال ریاستی سطح پر اکا دکا ایسی پابندیوں کی خبریں تو آتی رہتی ہیں، مگر اس بڑے پیمانے پر ایک ہی ساتھ ۲۵تحقیقی کتابوں کو ممنوع قرار دینا پہلا واقعہ ہے۔ ان کتب میں بوکر انعام یافتہ ارون دھتی رائے کی آزادی، معروف تاریخ دانوں عائشہ جلال اور سوگاتا بوس کی کتاب Kashmir and the Future of South Asia، معروف قانون دان اور کالم نویس اے جی نورانی کی دو جلدوں پر مشتمل The Kashmir Dispute 1947-2012کے علاوہ کشمیر ٹائمز کی مدیرہ انورادھا بھسین کی کتاب A Dismentled State: The Untold Story of Kashmir after Article 370، محقق سمنترا بوس کی دو کتابیں، امریکا یونی ورسٹی کے پروفیسر اطہر ضیا اور حفصہ کنجوال کی کتابوں کے علاوہ مولانا مودودی کی الجہاد فی الاسلام اور امام حسن البنا کی مجاہد کی اذان اور کئی دیگر کتابیںشامل ہیں۔ اگر کسی کو کشمیر پر کہیں بھی کوئی تحقیق کرنی ہے یا مقالہ لکھنا ہے، تو ان کتابوں کے بغیر یہ مہم سر کرنا ناممکن ہے، مگر حکومت نے تقابلی مطالعے کا یہ باب ہی بند کردیا ہے۔ 

اس پابندی کی خبر پڑھ کر یہ لگا کہ محکمۂ داخلہ میں کسی وسیع المطالعہ شخص کا تقرر ہوا ہے، جس نے ارون دھتی رائے ، اے جی نورانی،سوگتابوس وغیرہ سبھی کو پڑھا ہے۔ مگر جب میں نے دوبارہ فہرست پر نظر ڈالی، تو اس میں معروف رضا اور ڈیوڈ دیوداس کی کتابیں بھی نظر آگئیں، تواس چیز سے یہ محسوس ہوا کہ اس افسر نے تو صرف کتابوں کے سرورق دیکھ کر پابندی کا حکم نامہ صادر کر دیا ہے۔ یہ دونوں مصنّفین انتہائی حد تک بھارت کا موقف تیار کرنے اور اس کی تشہیر کے لیے معروف ہیں۔ ڈیوڈ دیوداس کی کتاب In Search of a Future، سابق عسکریت پسندوں اور بھارت و کشمیر کے اہم سیاست دانوں کے انٹرویوز اور خفیہ ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔ اس کے مطابق: ’’کشمیری آزادی حاصل کرکے بھارت اور پاکستان کے وسائل نچوڑنا چاہتے ہیں۔ حقِ خودارادیت کا مطالبہ ’دوغلا‘ہے۔ کشمیری خود بھی واضح نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ جدید دور میں حقِ خودارادیت ناقابلِ قبول ہے۔ ۱۹۸۹ء میں عسکریت کی ابتدا کا محرک سرحد پار سے آنے والی تحریک ہے، وغیرہ وغیرہ‘‘۔اس طرح موصوف نے کشمیر کے مسئلہ پر خوب بحث کی ہے۔ اسی طرح ڈیوڈ نے مسلمانوں کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

دیگر جن کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے، ان میں سب سے اہم مرحوم اے جی نورانی کی دوجلدوں پر مشتمل The Kashmir Dispute 1947-2012 ہے۔ میں نے ان کی جن پانچ کتابوں کے لیے بطور ریسرچر کام کیا ہے، ان میں یہ کتاب بھی شامل ہے۔ اس کتاب کے لیے دستاویزات ڈھونڈنے کی وجہ سے نیشنل آرکائیوز تک رسائی حاصل کی تھی۔یہ کتاب دستاویزات پر مشتمل ہے، جو پہلے ہی انڈین نیشنل آرکائیوز میں موجود ہیں۔ اب کیا ان کو بھی تلف کیا جائے گا؟ اس کی دوسری جلد مصنف کے مضامین کا مجموعہ ہے جو گذشتہ پانچ عشروں کے دوران مختلف روزناموں، جرائد اور کتابوں میں شائع ہوئے ہیں جن کو موضوعاتی طور پر سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس میں نایاب دستاویزات کے متن شامل ہیں، جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم جارحیت معاہدے کے مسودے جو کبھی عملی شکل اختیار نہ کرسکے۔ 

 کشمیر پر مختلف برطانوی اور امریکی دستاویزات، کشمیر کی تقسیم کی امریکی تجویز، مصنف کا اگست ۲۰۰۶ء میں پاکستانی صدرجنرل پرویز مشرف سے کیا گیا انٹرویو، ان کے منصوبے کی تفصیلات، انڈین آئین کے آرٹیکل ۳۷۰کو بدلنے کے لیے نئے آرٹیکل کا مسودہ (جو انڈیا کے زیرقبضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے)، اور قائدین — جناح، ماؤنٹ بیٹن، نہرو، شیخ عبداللہ، جے پرکاش نرائن اور رادھا کرشنن — کے درمیان خط کتابت کے ساتھ ساتھ اب تک غیر شائع شدہ خفیہ دستاویزات کے متن بھی شامل ہیں۔ 

پچھلے سال ۲۹؍ اگست کو ممبئی میں جب اے جی نورانی کا انتقال ہوا، تو اس سے پندرہ روز قبل انھوں نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ ’’ان پر دو کتابوں کا قرض ہے‘‘۔ میں سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ پر کتاب مکمل کروں گا۔ اس سلسلے میں سبھی دستاویزات میرے پاس آچکی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی کتاب انڈین آرمی اور کشمیر  مکمل کرکے مَیں کتابیں لکھنے سے ریٹائرمنٹ لے لوں گا۔‘‘ ان کا کہنا تھا: ’’ناشرین میری کتاب انڈیا-چین باؤنڈری ڈسپیوٹ کی دوسری جلد لکھنے پر زور دے رہے ہیں، مگر اب مزید لکھنا اور تحقیق کرنا میری دسترس سے باہر ہے‘‘۔  

امریکی ریاست پنسلوینیا کی یونی ورسٹی میں پروفیسر حفصہ کنجوال کی کتاب Colonizing Kashmir: State-Building under Indian Occuption بھی اس خطے کی تحقیق کے حوالے سے ایک اہم اضافہ ہے۔اس پر کیسے کوئی پابندی لگا سکتا ہے،سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ کتاب مجموعی طور پر ۱۹۵۳ءکے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیراعظم کا عہدہ ہوتا تھا) شیخ محمد عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تھا۔ اگلے دس سال تک بخشی اقتدار میں رہے اور ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام، دام، ڈنڈاور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، جس سے وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے تائب ہوکر انڈین یونین میں ضم ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔ 

کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔ ۳۸۴ صفحات پر مشتمل کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار ادا کرنے پر جب شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو ۱۹۴۹ءمیں ہی وہ انڈین حکمرانوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہوگئے تھے۔ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرزم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا ہندوستان میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجاکے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔ ۱۹۵۳ء تک انڈین لیڈروں بشمول شیخ عبداللہ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ۹؍اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ عبداللہ گلمرگ سیر و تفریح کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپردکردی گئی۔ جس کو ابھی تک کشمیری بکاؤ اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، گو کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کا دور امتیازی رہا ہے۔ 

پابندی کی اس لسٹ میں ریاست جموں و کشمیر کے مؤقر انگریزی اخبار دی کشمیر ٹائمز کی مدیرہ انورادھا بھسین کی کتاب A Dismentled State: The Story of Kashmir after Article 370بھی شامل ہے۔ انورادھا لکھتی ہیں کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ءکی صبح جب کشمیریوں کی بدقسمتی کی ایک اوررات کا آغازہو رہا تھا، تو اپنے مضطرب ذہن کو سکون دینے کے لیے میں جموں شہر کی مقتدر شخصیت کرشن دیو سیٹھی کے پاس چلی گئی‘‘۔ بارہ ابواب پر مشتمل ۴۰۰صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ 

مواصلاتی پابندیوں سے کس قدر عوام کو ہراساں ا ور پریشان کردیا گیا تھا، اس کا اندازہ بھی اسی کتاب سے ہوتا ہے۔ 

 کتاب میں راجوری ضلع کی تحصیل بدھل کے ایک دُور دراز علاقے کے ایک سرپنچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے علاقے کے ہر گاؤں کے باہر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے، جو لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رہے تھے اور موبائل و دیگر فون بند تھے۔ بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایت کرنے کے لیے سرپنچ کے پاس سول انتظامیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ آخرکار قدیم زمانے کی سواری یعنی گھوڑے پر سوار ہوکر یہ سرپنچ دسمبر ۲۰۱۹ءکو راجوری تحصیل آفس پہنچا اور اپنی شکایت سول انتظامیہ تک پہنچائی۔  

اندازہ کیجیے کہ ایک طالب علم اور محقق کے لیے یہ کتابیں قیمتی معلومات اور تجزیات کا خزانہ ہیں۔اس سے قبل سال کے اوائل میں ہی کشمیر میں پولیس نے متعدد کتاب فروشوں پر چھاپے مارے تھے اور تقریباً ۶۶۸کتابیں ضبط کیں۔ حکام نے ان چھاپوں کو قابلِ اعتماد خفیہ اطلاع کی بنیاد پر جائز قرار دیا کہ ایک ممنوعہ تنظیم (جماعت اسلامی) کے نظریات کو فروغ دینے والا لٹریچر خفیہ طور پر بیچا جارہا تھا۔ ۲۰۲۳ء میں، کشمیر کی یونی ورسٹیوں نے علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے عالمی سطح پر تسلیم شدہ معروف شعرا کے کلام کو اپنے نصاب سے خارج کر دیا۔ 

ایسا کرنے سے آخر انڈین حکومت کون سا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے؟ معروف صحافی فرینی منیکشا عسکریت کے سماجی اثرات سمجھنے کے لیے ایک عرصہ قبل کشمیر کے قریہ قریہ گئی تھیں۔انھوں نے بتایا: پتا چلا کہ ایک بوڑھی عورت نے اپنے ہلاک شدہ بیٹے کی تصویر فریم میں لگا کر دیوار پر لٹکا رکھی تھی۔ جب بھی علاقے میں سیکورٹی فورسز تلاشی لیتی تھیں، تو اس گھر کی دیوار پر اس تصویر کو دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ جاتا تھا اور اس معمر خاتون سمیت سبھی اہل خانہ کو ہراساں و پریشان کرتے تھے۔ آئے دن کی اس طرح کی وارداتوں کے بعد اس بوڑھی عورت نے بیٹے کی تصویر دیوار سے اتار کر اس کو کسی بکس میں رکھ دیا اور اس کی جگہ پر پہاڑوں کے خوب صورت منظر کی تصویر لگا دی۔ اس نے اپنے آس پاس کے لوگوں سے کہا کہ اس کو اپنے بیٹے کو یاد کرنے کے لیے تصویر کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ میں رچا ہوا ہے، اور اس کی یاد ہمیشہ قائم رہے گی۔ حکام اور سیکورٹی فورسز کی ناراضی اس کو کھرچ نہیں سکتی۔ 

موجودہ پابندیاں ان یادداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے، جو کئی عشروں سے جاری ہے، اگرچہ ۲۰۱۹ء کے بعد یہ عمل بے حد بڑھ گیا ہے۔یہ بار بار باور کرایا جا رہا ہے کہ جیسے انڈیا کو آزادی وزیراعظم نریندر مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ۲۰۱۴ء میں ملی اور کشمیر کو یہ آزادی ۲۰۱۹ءمیں نصیب ہوئی۔ لہٰذا، اس سے قبل کے دور کو دور غلامی یا ’تاریک دور‘ کے طور پر ہی یاد کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کردیے گئے ہیں۔ پچھلے ۳۰ برسوں میں اس خطے پر کیا کیا قیامت برپا ہوئی؟ اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ 

 سرکاری نوٹیفکیشن میں پابندی کا دفاع کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ لٹریچر شکایت، مظلومیت اور دہشت گردانہ ہیرو ازم کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے۔’شکایت اور مظلومیت ‘بیان کر نا اب جرم ہو گیا ہے۔ لوگ اپنے دُکھ بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں، نہ اپنے آپ کو مظلوم کہہ سکتے ہیں۔ یادداشتوں کو کھرچنے کے عمل کا ایک حصہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کی بغاوت کی یاد کو مٹانے کی کوشش تھی۔ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے لوگوں کو شہدا کے قبرستان میں جمع ہونے ا ور فاتحہ پڑھنے پر ہی پابندی لگادی۔ یہ تاریخی واقعہ کشمیریوں کی اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے اور ۲۰۱۹ء تک پارٹی اور نظریاتی وابستگیوں سے بالاتر یادگاری تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ اس سال ایک وزیر اعلیٰ کو بندگیٹ پھلانگنے پر مجبور ہوکر اس مزار میں داخل ہونا پڑا۔  

 سری نگرمیں لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن (APDP) کے اراکین تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا کر ریاست سے جوابدہی کا مطالبہ کرتے تھے۔۲۰۱۹ء کے بعد اس عمل کو روک دیا گیا، اور اب پروفیسر اطہر ضیا کی کتاب Resisting Disappearance: Military Occupation & Women' Activism in Kashmir  پر پابندی لگا کر یادداشت غائب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی کتاب APDP پر مبنی ایک نسلیاتی مطالعہ ہے، جو یہ تجزیہ کرتی ہے کہ سیاسی تشدد خواتین پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور کشمیری خواتین اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کا سوگ اور یاد کس طرح مناتی ہیں۔ 

اس پورے قضیہ کا المناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا کے لبرل طبقے نے بھی اس پر آنکھیں موند لیں اور اس پر قابلِ قدر رد عمل نہیں دیا۔ فرینی منیکشا کے مطابق شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ کشمیر کی جماعت اسلامی کو صرف مذہب کے ہی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جب کشمیر سوشل میڈیا کا ہیش ٹیگ بھی نہیں بنا تھا، تب جماعت اسلامی ہی کے لوگ وہ تواریخ محفوظ کر رہے تھے، جنھیں کوئی اور چھونے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔  

انورادھا بھسین نے بھی انڈیا کے سیکولر اور لبرل طبقے کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ ’’موجودہ حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی انڈیا کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے‘‘۔اگرچہ لوگ سوشل میڈیا پر ان ممنوعہ کتابوں کے گوگل ڈرائیو لنکس شیئر کر رہے ہیں، لیکن اہل کشمیر کے لیے یہ معمولی سا سہارا ہے۔  

ایک صحت مند جمہوریت، بحث سے پروان چڑھتی ہے نہ کہ جبری خاموشی سے۔ جیسا کہ انورادھا بھسین، لکھتی ہیں: 'جب آپ کتابوں پر پابندی لگاتے ہیں، تو آپ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی جوابی دلیل نہیں ہے۔ آپ سچائی کا سامنا کرنے کے بجائے اس اقدام سے اپنے خوف کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس لیے یہ پابندی ایک مایوس کن عمل ہے۔ یہ عمل ایک ایسی ریاست کو ظاہر کرتا ہے جو ایک باخبر شہری سے خوف زدہ ہے۔ لیکن تاریخ پوشیدہ نسخوں میں زندہ رہتی ہے۔ 

۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ کے خلاف جاری جنگ عالمی رائے عامہ کی تشکیلِ نو کے باب میں تبدیلی کا ایک اہم موڑ بن گئی ہے۔ نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی بلکہ اس سے عالمی نظام کی ہیئت و ساخت اور اس کے اخلاقی وجود،معیار اور مفہوم پر بھی سوالات پیدا ہوچکے ہیں۔ 

غزہ میں جاری اہل فلسطین کا ’ہولوکاسٹ‘ اور اس کے براہِ راست مشاہدے نے صہیونی بیانیے کی کمزوری اور کھوکھلے پن کو پوری دنیا پر آشکارا کردیا ہے ، ساتھ ہی ساتھ اس نےمغرب کے دوہرے معیار کا پردہ بھی چاک کردیا ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں اُس ادنیٰ ترین اخلاقی توازن کو قائم رکھنے میں بھی بُری طرح ناکام رہی ہیں، جس کا وہ دعویٰ کرتی چلی آئی ہیں ۔ 

اس کے برعکس، فلسطین اور اس کا مسئلہ ایک ایسے اخلاقی پیمانے کی حیثیت سے اُبھر کر عالم انسانیت کے سامنے آیا ہے جو خواص اور عوام کے موقف کو یکساں طور پر، روایتی سیاسی صف بندیوں سے بلند ہوکر اَزسر نو مرتب کررہا ہے۔ غزہ نے اپنے آپ کو ایک ایسے محرک اور عامل کی حیثیت سے منوایا ہے، جو پوری انسانیت کو بین البر اعظمی اور عالمی، ہر دو سطح پر نئی صف بندی پر مجبور کررہا ہے،تا کہ قومی اور سماجی سطح پر ایک ایسا بندوبست تشکیل پائے، جس سے ممکنہ طور پر نئی اسٹرے ٹیجک تبدیلیوں کا دروازہ کھل سکے ،اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کی گمراہ کن راہیں مسدود ہوں، عرب حکومتوں پر دباؤ بڑھے اور اسرائیلی قبضہ گیروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کے لیے ضروری قانونی چارہ جوئی کی کوششوں میں وسعت آئے ۔غزہ میں جاری معرکہ ہر گز ایک علاقائی ایشو اور محض فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالم گیر قضیہ ہے جوموجودہ عالمی نظام کے لیے ایک اخلاقی امتحان کی حیثیت رکھتا ہے ۔ 

حال ہی میں خطے نے براہِ راست تصادم کو بھی دیکھا ہے۔ ایران اور ’صہیونی- امریکی محور‘ کے درمیان ہونے والے اس تصادم نے ایرانی فضائی دفاعی نظام کی کمزوری کو تو آشکارا کیا ہی، تاہم ساتھ ہی ساتھ ایران کی یہ صلاحیت بھی نمایاں تر ہوکر سامنے آئی ہے کہ وہ صہیونی ریاست ِ اسرائیل کے اندر دُور تک، اور اس کے جدید ترین فوجی اڈوں اور دیگر دفاعی اور حساس تنصیبات کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔ 

۱۲ روزہ جنگ کا یہ زمانہ محض ایک عارضی اوروقتی تصادم نہ تھا، بلکہ خطے میں جاری کش مکش میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جس نے دونوں برسرپیکار طاقتوں کے درمیان قائم توازن اور اس میں موجود خامیوں کو بھی آشکارا کردیا ۔ تصادم کا غیر فیصلہ کن ہونا اشارہ کررہا ہے کہ ٹکراؤ کے آئندہ مرحلے خطرناک اور شدید تر ہوسکتے ہیں اور کوئی غلط اندازہ یا کسی فریق کی طرف سے غیر مدبرانہ فیصلہ امکانی طور پر کش مکش اور تصادم کے دائرے کو وسیع تر بھی کرسکتا ہے۔ 

اگرچہ بظاہر اب مشرق وسطیٰ کے منظرنامے پر ایک خاموشی چھائی ہوئی ہے، مگر ہر فریق اپنی اپنی تلواریں تیز کر رہا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران، عوامی جمہوریہ چین کی حمایت اور اس کی بے مثال اقتصادی پشت پناہی سے انتہائی خاموشی کے ساتھ اپنی اسٹرے ٹیجک پوزیشن کو پھر سے ترتیب دے رہا ہے، اور اس کے اتحادی لبنان، یمن اور عراق بھی متحرک ہیں۔ اسی تناظر میں واشنگٹن حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مداخلت کے لیے ہمہ دم تیار بیٹھا ہے کہ دباؤ کے کسی لمحے میں مداخلت کر ڈالے۔ اس صورتِ حال میں اسرائیل میں وہ سیاسی و عدالتی دھماکے رُونما ہو رہے ہیں، جو نیتن یاہو حکومت پر شدید دبائو کا باعث ہیں۔ 

سبھی فریق محتاط تیاری کی حالت میں ہیں، گویا ایک دھماکا ہے جو عنقریب ہوکر رہے گا۔ آئندہ ہونے والا معرکہ محض گولہ باری اور سپرسانک میزائل باری کا تبادلہ نہیں ہوگا، بلکہ یہ ایک اسٹرے ٹیجک، ابلاغی، اور قانونی تصادم بھی ہوگا۔  

ایران اور ’صہیونی - امریکی محور‘ کے درمیان جنگ بندی کا عالمی سطح پر محتاط خیرمقدم ہوا ہے، جب کہ حالات کی نزاکت اور قائدین کے متضاد بیانات نے اصل صورتِ حال کو مبہم بنا دیا ہے۔ ایک طرف امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا، تو دوسری جانب نیتن یاہو نے 'ایرانی جوہری پروگرام کی تباہی کا اعلان کیا، حالانکہ انٹیلی جنس رپورٹیں اس دعوے کی تردید کرتی ہیں۔ 

مغربی ذرائع ابلاغ — جیسے نیویارک ٹائمز اور دی اکانومسٹ وغیرہ — نے اس جنگ بندی کو غزہ میں تنازع کے خاتمے کی ممکنہ صورت قرار دیا تھا۔ تاہم، دیگر تجزیہ نگاروں نے بجا طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے حقیقی حل سے گریز کیا تو خطہ میں تشدد کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ 

فناشنل ٹائمز نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ موجودہ جنگ بندی محض ایک ناپائیدار عبوری مرحلہ ہے، جب کہ اصل فیصلے کا اس بات پر انحصار ہے کہ کیا اسرائیل ایک منصفانہ تصفیے میں شامل ہونے پر آمادہ ہے، جو بالآخر ایک مکمل خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام پر منتج ہو، —یا اس کا مقصد صرف تنازع کے دوران بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنبھالا دینا ہے؟ 

اس سارے منظرنامے کے بیچوں بیچ گریٹر اسرائیل ' کا مذموم منصوبہ ایک نمایاں خطرے کے طور پر موجود ہے،اور اب [نیتن یاہو کے بیان کے بعد] بالکل واضح اور حقیقی خطرے کے طور پر اُبھر کر سامنے بھی آچکا ہے ۔ تل ابیب ، نیل سے فرات تک مکمل بالادستی قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ گویا —اسرائیل اپنی تاخت و تاراج کو فلسطینی سرزمین تک محدود نہیں رکھنا چاہتا، بلکہ عرب ممالک کی خودمختاری کو روندتے ہوئے انھیں تابع مہمل باج گزار ریاستوں میں تبدیل کرنے کے اپنے عزائم آشکارا کرچکا ہے۔ 

مشرق وسطیٰ پر بالادستی کا اسرائیلی منصوبہ، عالم عرب پر اس کے عسکری غلبے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ معیشت، سلامتی کے امور، ثقافتی تعلقات، نارملائزیشن، اور عرب ممالک کے حکومتی اداروں میں خفیہ اثر و رسوخ کا جال بچھانےتک وسیع ہے۔ 

اگرچہ ’صہیونی-امریکی محور‘ کو خفیہ معلومات کاری اور عسکری میدان میں بظاہر کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں، تاہم 'نئے مشرقِ وسطیٰ کی قیادت سنبھالنے کے اس کے خواب کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا  ہے: عرب اقوام کی طرف سے انکار، مزاحمتی قوتوں کا باہم اتحاد، اسرائیل کے داخلی بحرانوں کی شدت، اور ایک جامع علاقائی پروگرام کی عدم موجودگی جس پر سبھی متفق ہوں۔یہ وہ عوامل ہیں جو دیرپا تسلط کی اسرائیلی و امریکی خواہش اور صلاحیت کو کمزور کرتے ہیں۔ 

مشرق وسطیٰ پر غلبہ پانے کے اسرائیلی منصوبے کا مکمل طور پر امریکی مدد پر انحصار بھی اسے ایک اسٹرے ٹیجک مخمصے میں ڈال رہاہے، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب واشنگٹن کا اپنا اثر و رسوخ اندرونی بحرانوں اور یوکرین و چین کے دُہرے دباؤ کے باعث زوال پذیر ہے —اور خطے کے معاملات پر اس کی یک طرفہ گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ 

بظاہر یہ جغرافیائی،سیاسی خلا اب بتدریج چین اور روس کے ذریعے پُر ہو رہا ہے، جو نئی اقتصادی و عسکری حکمتِ عملیوں کے ذریعے ایک کثیرقطبی عالمی نظام کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ —ایسا نظام جو واحد امریکی بالادستی کے دور کا اختتام ثابت ہو سکتا ہے۔ 

خلیجی ممالک چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود قومی سلامتی کی ایسی شراکتوں کے نفاذ کی کوششیں ان کی خود مختارانہ فیصلہ سازی کی صلاحیت اور آزادی کو متاثر کررہی ہیں۔ عراق، شام، لبنان اور اُردن میں ’صہیونی-امریکی محور‘، ایک ایسا نفسیاتی اور فضائی غلبہ قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے جو ان کے خودمختار کردار کو بحالی اور اختیار سے محروم رکھ سکے۔ 

دوسری طرف ایران کا کردار ایک ایسے مزاحمتی محور کے طور پر نمایاں ہوا ہے، جو غزہ سے صنعا تک پھیلی اسٹرے ٹیجک وسعت کا حامل ہے، اور آزادی کے اس مفہوم پر مشتمل موقف کی تشکیل کررہا ہے، کہ امت کی بقا فلسطین کی آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔ 

مزاحمتی جماعتیں، جن میں سرِفہرست حماس ہے، اب محض دباؤ کا پریشر گروپ نہیں رہی، بلکہ ایسی مؤثر قوت بن چکی ہے، جو عسکری، ابلاغی، اور سیاسی سطح پر خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 

غزہ، مسلسل محاصرے ،فوج کشی اور تباہی کے باوجود، ایک ایسے اخلاقی مرکزومحور میں تبدیل ہوچکا ہے، جو مزاحمت کے قانونی و اخلاقی جوازکی تشکیلِ نو کر رہا ہے، اور عالمی رائے عامہ کے سامنے، ’صہیونی-امریکی محور‘ کے چہرے پر پڑا باقی ماندہ اخلاقی پردہ بے نقاب کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ پر غلبے کی اس کش مکش میں روایتی جنگی ذرائع اب فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ شعور اور فہم کا محاذ بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ 

مزاحمتی ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، تعلیم، دین، ثقافت، معیشت، اور مصنوعی ذہانت، —یہ سب آزادی کی جنگ کے مرکزی میدان بن گئے ہیں، جو اقوام عالم کے شعورو ادراک کی اَزسرِنو تشکیل کررہے ہیں، اور اسرائیلی قبضہ گیروں کے مسلط کردہ جھوٹے موقف کی اجارہ داری کو توڑ کر مزاحمت و انصاف کے بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں۔ 

ان ذرائع کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور فیصلہ کن حیثیت نے فلسطین کی آزادی کے منصوبے کو نہ صرف نفسیاتی، ثقافتی اور اقتصادی وسعت فراہم کی ہے،بلکہ اسے محدود فوجی مزاحمت کے عمل سے نکال کر ایک ایسے جامع تہذیبی احیائی منصوبے میں بھی تبدیل کیا ہے جو زور زبردستی کے موجودہ مسلط شدہ نظام کو متاثر کر رہا ہے، اور خطے میں طاقت کے توازن کو نہ صرف فوجی نقطۂ نظر سے بلکہ علمی،شعوری اور اخلاقی زاویے سے بھی دوبارہ متعین کر رہا ہے۔ 

ہماری دانست میں اصل معرکہ، جو خطے کی حتمی سمت کا تعین کرے گا، سیاست یا جغرافیہ کے میدانوں میں نہیں، بلکہ شعور اور جواز کے میدان میں ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ کا آئندہ قائد وہی ہوگا، جو گہری تہذیبی بصیرت رکھتا ہو، اور آزادی و قیادت کے حقیقی تصور پر مبنی توازن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ —ایسا توازن جو اُمت کو اس کی خودمختاری واپس دلائے، اور اس خطہ کی اقوام کو نئے عالمی نظام میں آزادی اور وقار عطا کرے۔کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کسی نئے استعمار کا منتظر نہیں، بلکہ ایک انقلابی رہنما کا خواہاں ہے جو قیادت کے مفہوم کو اَزسرِنو تشکیل دے اور صفوں کو متحد کرے۔ 

پنجاب و سندھ کے بعد اسلام آباد میں ’کم سنی کی شادی کے امتناع کے قانون ۲۰۲۵ء‘ نے مسلمانانِ پاکستان کے لیے ایک بار پھر یہ سوال لا کھڑا کیا ہے کہ وہ اپنے نکاح و طلاق کے معاملات اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق طے کریں یا ان عائلی قوانین کے مطابق جو حکمران اپنی خواہشات، مفادات، بیرونی دباؤ اور شریعت کی من مانی تشریح کے ذریعے ان کے لیے وضع کریں؟ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نفاذ سے لے کر فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کی شرائط و نگرانی میں پے در پے ہونے والی قانون سازی کے بعد یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان میں ہونے والی اکثرو بیش تر قانون سازی عالمی اداروں کے دباؤ، مطالبات اور پالیسی پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ حکومت نے مذکورہ بالا قانون کی منظوری کے لیے بھی اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ءمنصوبہ کا ہدف نمبر ۵ یعنی کم عمر شادیوں کے تدارک کے ہدف اور بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری کو وجۂ جواز بتایا ہے۔  

اگرچہ بین الاقوامی معاہدات اور ’آئین پاکستان‘ کے باہمی تعامل کے اصولوں کا تفصیلی جائزہ اس مضمون کے دائرۂ کار سے باہر ہے لیکن اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ دونوں متعلقہ بین الاقوامی معاہدات یعنی اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال (UNCRC) اور عورتوں کے خلاف امتیاز کے خاتمہ کے معاہدہ (CEDAW) میں کہیں بھی نکاح و شادی کے لیے اٹھارہ برس کی مخصوص عمر مقرر کرنے کی لازمی ہدایت نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے حقوقِ اطفال کی شق 1 کے مطابق: ’’بچہ وہ ہے جو اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہو، اِلا یہ کہ اس پر لاگو قومی قانون کے تحت سنِ بلوغ اس سے پہلے حاصل ہوجائے‘‘۔ اس شق سے واضح ہوتا ہے کہ قومی قوانین، بلوغت یا نکاح کی عمر کو ۱۸ سال سے کم بھی مقرر کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ۱۸سال سے کم عمر کا نکاح بذاتِ خود اس بین الاقوامی کنونشن کی خلاف ورزی نہیں، بشرطیکہ وہ متعلقہ ملکی قانون یا شرعی روایت کے مطابق ہو۔ اسی طرح عورتوں کے خلاف امتیاز کے خاتمے کے معاہدہ (CEDAW) کی شق ۱۶ میں عمر کے تعین کے حوالے سے براہِ راست کسی مخصوص عمر کا ذکر نہیں ہے۔ شق ۱۶(۲) شادی کی کم سے کم عمر صرف مقرر کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی شادی (Child Marriage) کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور شادی کے لیے کم سے کم عمر مقرر کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کی جانی چاہیے۔اس لیے  بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں بنیادی معاہدات میں شادی کی کم سے کم عمر متعین نہیں کی گئی بلکہ اسے ملکی قانون پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ شادی کی عمر اور پیدائش کے اندراج پر قانون سازی کرے۔ 

چونکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے قانون سازی ملک کی پارلیمان کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے، اس لیے حالیہ قانون اطلاق کے اعتبار سے تو محض ایک علاقائی ضابطہ ہے لیکن فی الواقع پاکستان کی مرکزی حکومت اور مقننہ کے قانونی و فکری عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس قانون کے ابتدائی مطالعے سے ہی ایک سلیم الفطرت انسان پر یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ یہ محض انتظامی ضابطہ نہیں بلکہ گہرے سماجی و معاشرتی اثرات کا حامل قانون ہے، جو براہِ راست ہمارے خاندانی نظام، فقہی روایت اور معاشرتی اقدار پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  

  • حالیہ قانون کی چند نمایاں دفعات :کم سنی کی شادی کے امتناع کے قانون کی چند نمایاں دفعات درج ذیل ہیں: 

۱- دفعہ ۲ (اے) کی رو سے ہر وہ مرد یا عورت جو اٹھارہ سال سے کم عمر ہو، ’بچہ‘ یا ’بچی‘ قرار دیا گیا ہے۔ 

۲- دفعہ ۲ (بی) کے مطابق، دو ایسے افراد کا نکاح جن میں دونوں یا کوئی ایک اٹھارہ برس سے کم عمر ہو، ’بچوں کے ساتھ زیادتی‘ (Child Abuse)کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔ 

۳- دفعہ ۲ (سی) اور (ڈی) کی رو سے ایسے نکاح کے فریقین کو ’کم سن دُلہا‘ اور ’کم سن دُلہن‘ کہا جائے گا۔ 

۴- دفعہ ۳ کے تحت ایسے کسی نکاح کی رجسٹریشن پر قانونی پابندی عائد کی گئی ہے جس میں کوئی بھی فریق اٹھارہ سال سے کم عمر ہو۔ مزید یہ کہ نادرا کا شناختی کارڈ بطور ثبوتِ عمر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس دفعہ کی خلاف ورزی کی صورت میں نکاح خواں/ نکاح رجسٹرار کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے۔ 

۵- دفعہ ۴ کے مطابق، اگر کوئی اٹھارہ برس سے زائد عمر کا مرد اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی سے نکاح کرے، تو اسے کم از کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ 

۶- دفعہ ۵کی رُو سے، اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل بچوں کی شادی کے نتیجے میں اگر کسی بھی نوع کی ہم زیستی (Cohabitation) واقع ہو، خواہ وہ رضامندی سے ہو یا بلارضامندی تو ایسی ہم زیستی بچوں پر ظلم قرار پائے گی۔اس جرم میں اعانت، اکسانے یا خاموش رضامندی دینے والے تمام افراد کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال قید اور کم از کم ۱۰ لاکھ روپے جرمانے کی سزا کے مستحق ہوں گے۔ 

۷- دفعہ ۶ کے مطابق: اگر کوئی شخص ایسے نکاح کے لیے بچے کو اسلام آباد کی حدود سے باہر لے جائے تو یہ چائلڈ ٹریفکنگ (بچوں کی غیر قانونی نقل و حرکت) شمار ہو گا، جس کی سزا پانچ سے سات سال قید اور جرمانہ ہے۔ 

۸- دفعہ ۷ کی رُو سے اگر کسی نابالغ کے والدین یا سرپرست نے نکاح کی اجازت دی، اسے فروغ دیا یا اس کے انعقاد کو روکنے میں غفلت یا مداہنت برتی، تو وہ قانوناً مجرم تصور کیے جائیں گے۔ انھیں تین سال قید اور جرمانے کی سزا ہو گی، جب تک وہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت نہ کردیں۔  

۹-تمام جرائم کو ناقابلِ ضمانت، ناقابلِ راضی نامہ، اور قابلِ دست اندازی پولیس قرار دیا گیا ہے۔ عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ محض اطلاع کی بنیاد پر، اطلاع کنندہ کا نام صیغۂ راز میں رکھتے ہوئے، ایسے کسی نکاح پر حکمِ امتناعی (injunction) جاری کر سکتی ہے۔  

  • حالیہ قانون کی دفعات کے بنیادی نکات اور اثرات : ان دفعات سے درج ذیل بنیادی نکات مترشح ہوتے ہیں: 

۱- اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے مابین یا ان میں سے کسی ایک فریق کے ساتھ نکاح کو سنگین مجرمانہ فعل قرار دے دیا گیا ہے۔ 

۲-ایسے نکاح کی رجسٹریشن کو بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے، خواہ نکاح شرعی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہو۔ 

۳- اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے نکاح کے عمل میں شرکت یا اعانت کرنے والے، حتیٰ کہ والدین اور سرپرست بھی، جب تک وہ اپنی بے گناہی عدالت میں ثابت نہ کرلیں، قانوناً مجرم سمجھے جائیں گے۔ ان کی گرفتاری وارنٹ کے بغیر ممکن ہو گی، اور وہ ضمانت یا صلح کے حق دار نہیں ہوں گے۔ اس قانون میں بارِ ثبوت استغاثہ پر نہیں بلکہ ملزم پر ڈال دیا گیا ہے، جو فوجداری قانون کے مسلّمہ اصولوں سے صریحاً انحراف ہے۔  

۴- اگر اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کا نکاح بالفعل ہو جائے تو زوجین کے مابین کسی قسم کی ہم زیستی (Cohabitation) [ محض اکٹھے رہنے یا ازدواجی تعلق قائم کرنے] کو بچوں پر ظلم (Child Abuse)اور قانوناً جرم قرار دے دیا گیا ہے، اور اس جرم میں اعانت یا خاموشی اختیار کرنے والے تمام افراد کے لیے سخت سزائیں لازمی قرار دے دی گئیں ہیں۔ 

درج بالا نکات سے بالکل واضح ہے کہ یہ قانون نکاح کے لیے صرف ایک عمر کی حد مقرر کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے ذریعے اسلامی شریعت کے مسلّمہ اصولوں، نکاح کے تصور، ولی و سرپرست کے حقوق، اور عدالتی اصولِ انصاف (مثلاً بارِ ثبوت) کو بنیادی طور پر متاثر کیا گیا ہے۔ اس کا اطلاق نہ صرف شرعی، بلکہ آئینی، عدالتی اور سماجی حوالوں سے بھی نہایت دُور رس مضر اثرات مرتب کرے گا۔  

  • اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے: خوش آئند بات یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ان قوانین کو خلافِ شریعت قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ مگر گنجلک یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت حالیہ وفاقی قانون سے قبل ’علی اظہر بنام سندھ حکومت‘ اور ’فاروق بھوجا بنام وفاق وغیرہ‘ کے مقدمات میں سندھ و پنجاب کے کم سنی کی شادی کے قوانین کو قرآن و سنت کے احکام سے ہم آہنگ قرار دے چکی ہے۔ دونوں ادارے آئینی حیثیت کے حامل ہیں اور شریعت کی روشنی میں ملکی قوانین کا جائزہ لینا ان کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ موجودہ وفاقی قانون کی شرعی حیثیت کا تعین بھی بالآخر وفاقی شرعی عدالت کو کرنا ہوگا۔ 
  • وفاقی شرعی عدالت کے دلائل کا تجزیہ :ہماری رائے میں وفاقی شرعی عدالت کے ان فیصلوں میں نہ صرف شرعی نصوص کے قطعی اور صریح دلالات (دلائل)کو نظر انداز کیا گیا ہے، بلکہ امت کے چودہ صدیوں پر محیط اجماعی موقف کو بھی اس کے علمی سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ حالیہ  وفاقی قانون، جو ’کم سنی‘ کے نکاح پر مزید سخت سزاؤں اور وسیع تر قانونی پابندیوں کا حامل ہے، دراصل صوبائی قوانین کی توسیع اور تعمیم ہے۔ یوں یہ قانون ایک ایسے تشریعی رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جو اسلامی خاندانی نظام کے بنیادی تصورات کو از سرِ نو متعین کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ ان فیصلوں کے بارے وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار (jurisdiction) پر بھی قانونی و آئینی سطح پر سنجیدہ سوالات موجود ہیں، تاہم فی الوقت ہمارا مطمح نظر صرف ان دلائل کا علمی تجزیہ ہے، جن کی بنیاد پر عدالت نے ان قوانین کو ’غیر مخالفِ قرآن و سنت‘ قرار دیا۔ اس لیے کہ یہی استدلال آج ملک میں فعال لبرل فکر کے حامل حلقوں، قانون ساز اداروں اور حکومتی طبقات کی جانب سے اسلامی قوانین میں ’جدید تعبیرات‘ کے جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔  
  • وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور عائلی کمیشن رپورٹ   :یہ کہنا خلافِ واقعہ نہ ہو گا کہ وفاقی شرعی عدالت نے دراصل ان نکات کو اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے، جو اس سے پہلے ۱۹۵۶ء کی عائلی کمیشن رپورٹ میں بھی سامنے لائے گئے تھے، جنھیں اس وقت ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علما نے متفقہ طور پر غیراسلامی اور ناقابلِ قبول قرار دیا تھا۔ آج انھی تجاویز کو ریاستی قانون کا حصہ بنا کر اسلامی خاندانی نظام پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی گئی ہے جس کی تیاری کئی دہائیوں سے جاری تھی۔اس پس منظر میں، یہ معاملہ محض ایک قانونی یا فقہی اختلاف تک محدود نہیں، بلکہ یہ درحقیقت ایک فکری اور تہذیبی یلغار ہے، جس کا اصل ہدف اسلامی معاشرت کی اقدار، خاندانی ڈھانچے، اور شریعت کے مسلّمہ اصولوں کو آہستہ آہستہ تحلیل کرنا ہے۔ 
  • کم سنی کے نکاح کے مختلف پہلوؤں پر قرآن و سنت سے رہنمائی : اس لیے ضروری ہے کہ کم سنی کے نکاح سے متعلقہ شرعی پہلوؤں کے درست فہم کے لیے قرآن و سنت سے  درج ذیل بنیادی سوالات پر رہنمائی طلب کی جائے: 

۱- کیا شریعت میں نابالغ لڑکا یا لڑکی کا نکاح جائز ہے، اور اس کا اختیار کسے حاصل ہے؟ 

۲- بلوغ کی شرعی تعریف، علامات اور کم از کم عمر کیا ہے؟ 

۳- نکاح میں ولی کا تصور اور اس کے اختیارات کیا ہیں؟ 

۴- کیا نکاح محض ایک مباح امر ہے کہ ریاست نکاح پر پابندیاں عائد کرنے کی مجاز ہے؟ 

۵- اگر ریاست کسی نکاح کو تسلیم نہ کرے تو شرعی و قانونی سطح پر اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ 

  • بلوغ کی شرعی تعریف، علامات اور عمر:شریعت میں نکاح کی عمر کے تناظر میں ایک لڑکا نابالغ (صغیر) ہوتا ہے یا پھر بالغ،جب کہ ایک عورت چار حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں لازماً ہوتی ہے: ۱- نابالغہ (صغیرہ) غیر شادی شدہ ، ۲- نابالغہ (صغیرہ) مطلقہ یا بیوہ، ۳- بالغہ غیر شادی شدہ، ۴-بالغہ مطلقہ یا بیوہ۔ لڑکی چاہے صغیرہ ہو یا بالغہ، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے تو اس کے لیے باکرہ، جب کہ اگر وہ شوہر دیدہ، مطلقہ یا بیوہ ہے تو اس کے لیے ثیبہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔  

شریعت کی رُو سے لڑکی اگر نو سال سے کم عمر ہے اور لڑکا اگر بارہ سال سے کم عمر ہے تو وہ ہر صورت نابالغ تصور کیے جائیں گے کیونکہ اس سے قبل وہ بالغ ہو نہیں سکتے۔ لڑکی نو سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد اور لڑکا بارہ برس کا ہونے کے بعد بھی اگر بالغ نہ ہوئے ہوں تو وہ صغیرہ اور صغیر ہی تصور کیے جائیں گے۔  

لڑکااور لڑکی کے بالغ ہونے کامعیاراصلی علاماتِ بلوغ (احتلام، حیض، احبال یا دیگر جسمانی علامات) کااظہار ہے۔ لیکن اگر بلوغ کی علامات ظاہر نہ ہوں تو صرف اسی صورت میں عمر کے ذریعے بلوغت کا تعین کیا جائے گا۔  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ۱۵ سال سے کم عمرعبداللہ بن عمرؓ کو غزوئہ اُحد میں شمولیت کے لیے قبول نہ کرنا اور ۱۵سال کی عمر پر غزوئہ اَحزاب میں شرکت کے لیے قبول کرنے (صحیح بخاری)سے استدلال کی بنا پر جمہورفقہاء کے مطابق بلوغ کی بالائی عمر لڑکا و لڑکی دونوں کے لیے ۱۵ سال ہے۔ اگرچہ امام ابوحنیفہ سے ایک روایت بلوغ کی بالائی عمر لڑکی کے لیے ۱۷ اور لڑکے کے لیے ۱۸سال کی بھی ہے، لیکن امام ابوحنیفہؒ سے دوسری روایت اور صاحبین یعنی امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسن الشیبانی ؒکے مطابق علامات بلوغ ظاہر نہ ہونے کی صورت میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے بلوغ کی بالائی عمر ۱۵سال ہی ہے، لہٰذا ابن عمرؓ کی روایت کی بناپر بلوغ کی بالائی عمر ۱۵سال ہونے پر فقہاء کا اجماع ہے (تکملۃ البحر الرائق شرح کنزالدقائق، فصل فی حد البلوغ)۔لہٰذا شرعاً ۱۵ سال کی عمر کے بعد اگر علاماتِ بلوغ ظاہر نہ ہوں تب بھی لڑکا لڑکی بالغ شمار کیے جائیں گے۔  

  • نکاح کی شرعی عمر اور ولی کا اختیار و کردار :ان میں سے کون اپنا نکاح خود کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، کس کا نکاح کرنے کا اختیار صرف ولی رکھتا ہے اور کس کے نکاح میں دونوں کی رضا مندی اور اجازت ضروری ہے؟ درج ذیل تفصیل سے ان سوالوں کے ساتھ ساتھ اوپر ذکر کردہ تین سوالوں [نکاح کی کم سے کم عمر، بلوغ کی عمر اور ولی کے اختیار سے متعلقہ سوالات] کے جوابات بھی حاصل ہو جائیں گے:  

۱- فقہاء کے نزدیک نابالغ لڑکا یا لڑکی خود نکاح کا اختیار نہیں رکھتے، البتہ اولیاء کو ان کا نکاح کرنے کا یہ اختیار حاصل ہے۔ ابنِ منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے (الاجماع لابن منذر، کتاب النکاح)۔ قرآنِ مجید نے عدت کے احکام بیان کرتے ہوئے ان خواتین کا ذکر صراحتاً فرمایا ہے جنھیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو: وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ (الطلاق۶۵: ۴)’’اور (وہ عورتیں) جنھیں حیض نہ آیا ہو ‘‘۔ اگرچہ اس آیت کے ضمن میں وہ بالغ عورتیں بھی آجاتی ہیں جنھیں رحم کی کسی پیچیدہ بیماری کی وجہ سے حیض آتا ہی نہیں مگر جمہور فقہا نے اس آیت کو نابالغہ لڑکی کے نکاح اور اس کے بعد طلاق کے تصور کوشریعت میں ممکن اور معقول ہونے پر واضح دلیل قرار دیا ہے، کیونکہ عدت کا حکم اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب نکاح ہو چکا ہو۔ اگر نکاح ہی ممنوع ہوتا تو عدت کا حکم دینا غیر متعلق اور لغو ٹھیرتا۔ امام سرخسیؒ (المتوفی ۴۸۳ھ) نے صراحت سے لکھا: بین اللہ تعالٰی عدۃ الصغیرۃ وسبب العدّۃ النكاح  وذٰلك دليل تصوّر نكاح الصغيرة (المبسوط، نکاح الصغیر و الصغیرہ،ج۴) یعنی ’’نکاح ہی عدت کا سبب ہے، اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ نابالغہ لڑکی کا نکاح شریعت میں متصور ہے۔ امام جصاصؒ (المتوفی ۳۷۰ھ) نے أحكام القرآن میں لکھا کہ نابالغ لڑکی سے نکاح نہ صرف جائز ہے بلکہ اس پر امت کا اتفاق ہے۔ علامہ ابن کثیرؒ (المتوفی ۷۷۴ھ) نے بھی اس سے مراد وہ صغیرہ لیا ہے جو ابھی حیض کی عمر کو نہ پہنچی ہوں (الصغار اللآئی لم یبلغن سن الحیض)۔ سیدابوالاعلی مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں لکھاہے: ’’یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ شرعاً کم عمر لڑکیوں سے نکاح اور نکاح میں آنے پر خلوت دونوں جائز ہیں‘‘۔ 

 ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ جمہور فقہاء نابالغہ لڑکی سے نکاح اور نکاح میں آنے پر خلوت دونوں کا جواز براہِ راست قرآنِ مجید سے ثابت کرتے ہیں، اور جس فعل کو قرآن کریم جائز قرار دے رہا ہو، اسے ’غیر قانونی‘ یا ’حرام‘ کہنا کسی صورت درست نہیں۔  

وفاقی شرعی عدالت نے اس قرآنی دلیل سے، جو اس مسئلے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اپنے فیصلے میں تعرض ہی نہیں کیا اور یہی اس فیصلے کا سب سے بنیادی علمی و اصولی سقم ہے، کیونکہ عدالت نے اس معاملہ میں قرآن حکیم کی ایسی صریح آیت کو نظر انداز کر دیا ہے، جس سے فقہائے سلف نے اس معاملے میں ہمیشہ استدلال کیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں قرآن کے اس اہم مقام کا عدم ذکر، علمی غیرت و فقہی دیانت کے معیار میں ایک قابلِ توجہ خلا ہے۔  

دوسری آیت جس سے کم سنی کے نکاح کا جواز ثابت ہوتا ہے وہ سورۃالنساء کی آیت (۳) ہے، جس میں نکاح کے عمومی حکم میں الیتامى  سے مراد امام جصاصؒ کے بقول نابالغ لڑکیاں ہیں، اور فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ  کا اطلاق بالغ و نابالغ دونوں پر ہوتا ہے (أحکام القرآن للجصاص)۔ سنت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، اُم المومنین عائشہؓ کا نکاح ۶ سال کی عمر میں اور رخصتی ۹ سال کی عمر میں ہوئی (صحیح بخاری)، جس پر فقہاء کا اجماع ہے۔ امام نوویؒ نے واضح کیا کہ باپ یا دادا صغیرہ کا نکاح کر سکتے ہیں، اور خلوت کا وقت اس کی جسمانی اہلیت سے مشروط ہے، کسی خاص عمر سے نہیں۔ (شرح مسلم، نووی) 

۲- بالغ عاقل مرد کو بلا اختلاف نکاح کا مکمل اختیار حاصل ہے، اس پر شرعاً ولی کی پابندی نہیں۔ 

۳- بالغہ لڑکی کے نکاح کے اختیار میں فقہاء کا اختلاف ہے: امام ابو حنیفہؒ کے مطابق اگر کفو (دین، نسب، خاندان، وجاہت میں برابری) کا لحاظ رکھا جائے تو باکرہ بالغہ خود نکاح کر سکتی ہے، جب کہ جمہور کے نزدیک حدیث(لا نکاح الا بولی)   اور اس باب میں مذکور دیگر احادیث کی رُو سے باکرہ بالغہ کا نکاح ولی کی اجازت سے مشروط ہے (المبسوط للسرخسی، الموسوعہ الفقیہ، الکویت)۔ سیّد مودودیؒ نے دونوں آراء کے تقابل سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نکاح میں اصل فریق مرد اور عورت ہیں، لیکن شارع نے عورت کے لیے ولی کی مشاورت کو ضروری رکھا ہے تاکہ معاشرتی نظم برقرار رہے، لہٰذا نہ ولی، عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کر سکتا ہے، نہ عورت ولی کی مخالفت میں غیر مناسب نکاح کر سکتی ہے، اور اختلاف کی صورت میں کرے گی(’رسائل و مسائل‘، ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۵۲ء)۔ بہرحال، فقہاء کے مابین اس اختلاف کے باوجود کہ ولی کی اجازت کے بغیر بالغہ باکرہ کا نکاح منعقد ہوتا ہے یا نہیں، اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ اسلامی خاندانی نظام میں ’ادارۂ ولایت‘ کو ایک بنیادی اور ناگزیر حیثیت حاصل ہے۔ ولی کے وجود اور اس کے شرعی مقام کو تمام فقہی مکاتب ِ فکر نے تسلیم کیا ہے، جس سے اس ادارے کی اہمیت اور اسلامی معاشرت میں اس کے توازن ساز کردار کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ 

۴- ثیبہ عورت (مطلقہ یا بیوہ) کوجمہور فقہاء کے مطابق اپنا نکاح خود کرنے کا اختیارہے، اس میں ولی کی اجازت شرط نہیں۔(بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد، کتاب النکاح) 

۵- رہی نابالغہ مطلقہ یا بیوہ تو جن فقہاء کے نزدیک وہ عقد کی اہل نہیں ہے، ان کے نزدیک ولی کو ہی اس کا دوبارہ نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ 

چنانچہ مندرجہ بالا فقہی دلائل سے تصویر یہ اُبھرتی ہے کہ اسلام نے نکاح کے لیے کوئی کم از کم عمر متعین نہیں کی؛ صغیر/صغیرہ کا نکاح ولی ہی کرا سکتا ہے، اور بالغ/بالغہ (ولی کی رضامندی سے یا بعض آراء میں اس کے بغیر) نکاح کا اختیار رکھتے ہیں۔  

  • نئی قانون سازی اور مسلّمہ شرعی اصول:نئی قانون سازی نے بحیثیت مجموعی متعدد مسلّمہ شرعی اصولوں کو مجروح کیا ہے، مگر بالخصوص دو اصول عملاً کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں: 

۱- صغیر و صغیرہ کے نکاح میں ولی کا شرعی اختیار ختم کر کے اسے قابلِ تعزیر جرم بنا دیا گیا ہے۔ 

۲- بلوغت کے باوجود نکاح کا شرعی حق ۱۸ سال کی عمر سے مشروط کر دیا گیا ہے، اور اس سے قبل نکاح کی ہر کوشش اور اس کوشش میں ہرقسم کی معاونت کو بھیکو قابلِ سزا جرم قرار دے دیا گیا ہے ، خواہ اس کی زد میں والدین یا دیگر اولیاء ہی کیوں نہ آتے ہوں۔  

  • کیا نکاح کے لیے رشد شرط ہے؟ :نئی قانون سازی کے حق میں ایک بڑی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نکاح جیسا اہم اور سنجیدہ معاملہ صرف جسمانی بلوغ پر ہی نہیں، بلکہ ذہنی و فکری بلوغ (رشد) پر بھی موقوف ہونا چاہیے، کیونکہ کم عمر بچے اپنے مستقبل کے فیصلے درست طور پر نہیں کر سکتے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلوں میں آیتِ رشد (وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰٓي اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۝۰ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ۝۰ۚ ) ’’اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان میں رُشد (عقل مندی اور معاملہ فہمی) پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو‘‘ (النساء۴: ۶) سے استدلال کیا ہے کہ جیسے یتیموں کو مال سپرد کرنے سے قبل ’رشد‘ شرط ہے، ویسے ہی نکاح کے لیے بھی رشد ضروری ہے۔  

لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے محلِ نظر ہے: اولاً، آیت کا سیاق و سباق مالی معاملات سے متعلق ہے، نہ کہ نکاح سے۔ قرآن کا خطاب یتیموں کے بارے میں ہے جن کے حقیقی اولیاء موجود نہیں ہوتے، اس لیے مال ان کے حوالے کرنے سے قبل ان کی مالی معاملات میں اہلیت (رشد) کا امتحان ضروری ہے۔ برخلاف اس کے، نکاح کے وقت اکثر نوجوانوں کے شرعی اولیاء موجود ہوتے ہیں، اور فقہی اصول کے مطابق، جب ولی موجود ہو تو نکاح میں اس کی نگرانی ’رُشد‘ کا متبادل ہوتی ہے۔ ثانیاً، فقہاء نے اس آیت سے صرف مالی معاملات میں رشد کی شرط اخذ کی ہے، نہ کہ نکاح، طلاق، یا دیگر ذاتی معاملات میں۔ جیسا کہ دکتور وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں: ’’اگر کوئی شخص عقل و فہم کی سطح کو پہنچ جائے تو ہی اس کی مالی ولایت ختم ہوتی ہے، لیکن تعلیم، تربیت اور نکاح جیسے معاملات میں ولایت صرف نابالغی تک محدود ہے، رُشد شرط نہیں‘‘ (الفقہ الاسلامی و أدلتہٗ، بحث نظریۃ العقد ج ۴)۔ ثالثاً، اگر نکاح کو رُشد سے مشروط کیا بھی جائے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ رشد کی عمر کیا ہوگی؟ اٹھارہ سال؟ بیس یا پچیس سال؟ یہ سوال یقینا قابلِ غور ہے کہ اگر نکاح و شادی کے لیے ’رُشد‘ شرط ہو، تو یہ کیسے فرض کر لیا گیا ہے کہ ہرفرد ۱۸ سال کی عمر میں لازماً باشعور ہو جاتا ہے؟ کیونکہ نہ تو ہر شخص ۱۸سال میں لازماً سمجھ دار ہو جاتا ہے، اور نہ ہر نابالغ غیرذمہ دار ہی ہوتا ہے۔ قرآنی آیت (النساء۴: ۶) سے کم عمری کی شادی پر پابندی کے حق میں استدلال نہایت کمزور ہے کیوں کہ جب قرآن نے اس آیت میں واضح طور پر خود بلوغ کو ’نکاح کی عمر‘ سے تعبیر کیا ہے، تو پھر شادی کی عمر کو بلوغ سے آگے بڑھانے کے لیے کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔  

امام جصاصؒ، امام ابوحنیفہؒ کے موقف کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’آیت: حتی اذا بلغوا النکاح سے واضح ہوتا ہے کہ بلوغ کا مرحلہ ابتلا (آزمائش) کے بعد آتا ہے، کیونکہ ’حتی‘ غایت کے لیے آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکے کی آزمائش بلوغ سے قبل ہوگی‘‘۔ (احکام القرآن للجصاص)۔آزمائش کا مطلب یہی ہے کہ اسے کاروبار یا تجارت کی اجازت دی جائے تاکہ اس کی استعداد کا اندازہ ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس آیت سے ’رشد‘ کو نکاح کے لیے شرط قرار دیا جائے، تو پھر کیا نابالغ، مگر سمجھدار لڑکے یا لڑکی کو خود ’نکاح‘ کرنے کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے؟ کیونکہ امام ابو حنیفہؒ کے مطابق تو رشد کی آزمائش بلوغ سے پہلے ہوتی ہے۔ یہ استدلال ان تمام اجتہادات کو الٹ دیتا ہے جو نکاح کو ’رشد‘ سے مشروط کرکے صرف ’بالغ اور سمجھ دار‘ افراد تک محدود کرنا چاہتے ہیں، جب کہ امام جصاصؒ کے فہم کے مطابق اگر نابالغ بھی سمجھدار ہو تو وہ مالی تصرفات بلکہ تجارت کا اہل بن سکتا ہے، تو پھر نکاح کے باب میں اس کا مکمل اختیار خارج از امکان کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح بالغ یتیم کے نکاح پر فقہاء کا اتفاق ہے۔ امام قرطبیؒ نے مالکیہ کا موقف بیان کیا ہے کہ نابالغ لڑکی کے رشد کی آزمائش اس وقت ممکن ہے جب وہ بالغ ہوجائے اور اس کا شوہر اس سے دخول کرلے، کیونکہ لڑکی عام طور پر معاشی و سماجی معاملات سے الگ رہتی ہے، اس لیے اس کی صلاحیتیں نکاح کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ برخلاف لڑکے کے، جو شروع سے سماجی و مالی معاملات سے وابستہ ہوتا ہے، اس لیے اس کی آزمائش بلوغ سے پہلے ممکن ہے (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ رشد کا تعلق صرف مالی معاملات سے ہے، نہ کہ نکاح سے۔  

  • نکاح کے لیے عقل کی شرط :وفاقی شرعی عدالت اس اہم فقہی مبحث کو سمجھنے میں قطعی طور پر ناکام رہی ہے کہ نکاح کے لیے رشد تو درکنار عقل کی شرط بھی ضروری نہیں۔ دکتور وھبہ الزحیلی نے الفقہ الاسلامی و الادلتہ میں نکاح کے لیے عقل کی شرط کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ: ’’بالاتفاق نکاح کے لیے ’عقل‘ شرط نہیں ہے۔ چنانچہ ولی کے لیے جائز ہے کہ وہ مجنون (پاگل) لڑکے یا لڑکی، یا معتوہ لڑکے یا لڑکی، خواہ نابالغ ہی کیوں نہ ہوں، کا نکاح کر دے، اور ایسا نکاح حنفیہ کے نزدیک منعقد ہو جاتا ہے۔ مالکیہ کے نزدیک بھی باپ کو مجنون لڑکے یا لڑکی کا نکاح کرانے کا اختیار حاصل ہے۔ حنابلہ کے نزدیک اگر کوئی بالغ مجنون (پاگل لڑکی) مردوں کی طرف طبعی میلان رکھتی ہو اور شہوت محسوس کرتی ہو تو اولیاء کو اس کا نکاح کرانے کا اختیار حاصل ہے، کیونکہ ایسی صورت میں شہوت کی تسکین اور عفت کی حفاظت ضروری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ولی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کا نکاح کر دے تاکہ اس کی شہوت حلال طریقے سے پوری ہو، وہ کسی فتنہ یا گناہ میں مبتلا نہ ہو، اور ایک مناسب شوہر کے ذریعے اس کی نگرانی اور اصلاح ہو سکے۔ یہ تمام آراء اس بنیادی اصول پر متفق ہیں کہ نکاح، اگرچہ ایک اہم اور مقدس بندھن ہے، لیکن اس کے انعقاد کے لیے عقل و فہم یا رُشد شرط نہیں۔ بلکہ کئی صورتوں میں مجنون یا معتوہ فرد کا نکاح بھی نہ صرف جائز بلکہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ جب ’عقل‘ کو ہی نکاح کے لیے شرط قرار نہیں دیا گیا، تو ’رشد‘ کو شرط قرار دینا چہ معنی دارد؟ 
  • نکاح میں ولی کی نگرانی کی حیثیت :وفاقی شرعی عدالت کا نکاح کے لیے ’رشد‘ اور ’سمجھ داری‘ کی شرط پر اصرار اسلامی قانون کے اس بنیادی اصول سے غفلت ہے جس کی رُو سے  نکاح صرف دو افراد کا معاہدہ نہیں بلکہ ایک خاندانی ادارہ ہے، جس میں ’ولی‘ کی نگرانی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر کہیں رشد شرط ہو سکتی ہے تو وہ لڑکی یا لڑکے کی نہیں بلکہ ولی کا رشد ہے۔  

شریعت میں باپ کو فطری ولی قرار دیا گیا ہے کیونکہ اولاد کے لیے سب سے زیادہ محبت، شفقت اور خیرخواہی اسی سے متوقع ہے۔ جب قانون سازی کے ذریعے اس ولایت کو سلب کیا جاتا ہے اور باپ کو محض چند استثنائی واقعات کی بنیاد پر ظالم یا مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تو اس کا نتیجہ صرف ایک فرد کی محرومی نہیں بلکہ خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا ہے۔اسلامی تصورِ نکاح میں ’ولی‘ صرف ایک قانونی کردار نہیں بلکہ خاندانی شوریٰ کی علامت ہے (پروفیسر خورشید احمد، اشارات، ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۵ء)۔ نکاح کا فیصلہ صرف لڑکے لڑکی کا انفرادی انتخاب نہیں بلکہ خاندان کی مشاورت، تجربہ، اور اخلاقی اقدار پر مبنی ہوتا ہے۔ جب اس عمل کو قانون کے ذریعے کمزور کیا جاتا ہے تو نوجوان نسل کو ایک ایسے معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو نہ ان کا محافظ ہے اور نہ خیرخواہ۔ اس قانون میں ولی کو مشتبہ بنا دیا گیا ہے، اور جو رشتہ اعتماد اور محبت پر قائم تھا، اسے شک اور جبر کے آئینے میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ صرف فقہی اصول کی نفی نہیں بلکہ اسلامی تمدن پر حملہ ہے، جس کا انجام خاندانی ادارے کی تباہی اور افراد کی بے سمتی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ 

  • کیا نکاح صرف مباح ہـے؟ :وفاقی شرعی عدالت اور شادی کی عمر کی تحدید کے حامیان کا یہ کہنا کہ نکاح چونکہ ’مباح‘ ہے، اس لیے حکومت اس کی عمر کی تحدید کر سکتی ہے، ایک فکری و فقہی مغالطہ ہے۔ نکاح صرف ایک مباح معاہدہ نہیں، بلکہ نسلِ انسانی کے بقاء و افزائش کے لیے ربّ رحمٰن کی طرف سے ہرفرد کو ودیعت کردہ تولیدی صلاحیت کے جائز استعمال کا واحد راستہ ہونے کی بناپر ایک سماجی فریضہ،  مقدس شرعی بندھن اور عبادت ہے۔ اور تولیدی صلاحیت /شہوت کے ہرطرح کے غیرفطری استعمال اسلامی تعلیمات کے مطابق  موجب لعنت، حرام اور قابل تعزیر گھنائونے جرائم ہیں۔ اور نکاح سے باہر اس کا فطری استعمال (زنا) ایسا گھنائونا جرم ہے کہ جو اللہ کے غضب کا موجب ہے اور جس کی سزا غیرشادی شدہ افراد کے لیے سوکوڑے اور شادی شدہ افراد کے لیے رجم مقرر ہے۔ اس لیے فرد کی عفت کی حفاظت، معاشرہ کی پاکیزگی اور حفاطت نسب جیسے عالی مقاصد شریعت کو یقینی بنانے کے لیے اسلامی تعلیمات میں نکاح کی حیثیت ہرفرد کے لیے ایک جیسی نہیں۔ بلکہ نکاح شخصی حالات کے مطابق واجب، حرام، مستحب یا مکروہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو زنا کا اندیشہ ہو تو نکاح فرض/ واجب ہے۔ اگر کوئی بیوی کے حقوق ادا نہ کر سکے تو نکاح اس پر حرام ہے۔ اگر نکاح طلب عفت اور نسلِ صالحہ، یا شہوت کے جائز استعمال کی نیت سے ہو تو مستحب ہے۔اور اگر نکاح سے کوئی واجب متاثر ہو، یا مرد بانجھ ہو اور عورت مرد کے اس بانجھ پن سے لاعلم ہو، تو وہ مکروہ ہو سکتا ہے۔ امام قرطبیؒ نے امام مازریؒ کے حوالہ سے یہ تصریح نقل کی ہے کہ ھو الاباحۃُ فیمن انتفت الدواعی والموانع، یعنی نکاح کا محض مباح ہونا صرف اُس شخص کے لیے ہے جس میں نکاح کی طرف کوئی داعیہ اور محرک (مثلاً اعفافِ نفس یا تولید نسل کی خواہش) موجود نہ ہو، اور نہ ہی اس کے راستے میں کوئی مانع (جیسے فقر، ظلم، یا ضرر) درپیش ہو (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتح الباری، ابن حجر عسقلانی ج ۹، احکام نکاح، محمد منیر احمد)۔ پس، نکاح کی حیثیت صرف ’مباح‘ سمجھ کر اس پر قانون سازی کا جواز نکالنا ایک ناقص استدلال ہے۔ شریعت نے نکاح کو نہ صرف مشروع بلکہ بعض اوقات فرض، واجب یا سنت مؤکدہ قرار دیا ہے، اس لیے اس کی عمر کی تحدید کوئی سادہ انتظامی اقدام نہیں، بلکہ ایک شرعی دائرے میں مداخلت ہے۔  

 بعض اہلِ علم نے ریاست کو ’مباح‘ پر عارضی پابندی لگانے کا جو اختیار دیا ہے، وہ بھی متعدد شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے فقہ الاسرۃ و قضایا المرأۃ میں وضاحت کی ہے کہ مباح پر ریاستی پابندی کا جواز صرف اس وقت ہے جب مصلحت غالب ہو؛ یہ پابندی صرف عارضی، موقع و محل کے لحاظ سے اور مخصوص افراد پر ہی ہو سکتی ہے۔ ایسی کوئی بھی پابندی عام، مطلق اور دائمی نہیں ہو سکتی، کیونکہ ایسی پابندی تحریم کے مشابہ ہے، جو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اگر کسی حلال چیز — جیسے نکاح، طلاق یا تعدد ازواج — کو عام، مستقل اور مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیا جائے، یا شرعی شرائط سے ماوراء شرائط سے مشروط کردیا جائے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اہلِ کتاب نے اپنے علماء و راہبوں کو حلال و حرام کا اختیار دے دیا تھا، جس پر قرآن کریم نے سخت نکیر فرمائی: اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ (التوبہ۹:۳۱)  

  • نکاح اور دیگر قانونی معاہدات کا فرق :نکاح کو محض ایک معاہدہ سمجھ کر دیگر قانونی معاہدات سے تشبیہ دینا بھی فکری غلطی ہے۔ کیونکہ نکاح عام معاہدات سے مختلف ہے، مثلاً نکاح صرف مرد و عورت کے درمیان ہو سکتا ہے، اس میں ولی، گواہ اور دیگر شرعی ضوابط شرط ہیں، نکاح کے نتیجے میں نان و نفقہ، صحبت، وراثت وغیرہ کے حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں، مسجد میں نکاح کو باعثِ برکت اور تجارت کو مکروہ کہا گیا ہے۔ (اسلام کا خاندانی نظام، ڈاکٹر عبدالحئ ابڑو)۔ قرآن کریم نکاح کو’میثاقِ غلیظ‘ قرار دیتا ہے، اور سنت میں اسے ’نصف دین کی تکمیل‘ کہا گیا ہے۔ یہ محض سماجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک روحانی، اخلاقی اور دینی تعلق اور عبادت ہے۔ نوآبادیاتی اثرات کے تحت ہندوستانی عدلیہ نے نکاح کو صرف ایک سول معاہدہ قرار دیا تھا، اور پاکستان کی عدلیہ بھی اسی مغالطے کا شکار ہے۔ تا ہم لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ نکاح ایک باوقار دینی ادارہ ہے۔ لہٰذا نکاح کو دیگر قانونی معاہدات پر قیاس کرکے قانون سازی کا نشانہ بنانا، شریعت کے  مسلّمہ اصولوں سے انحراف ہے۔  

ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ پاکستان میں فرد کی قانونی اہلیت کی عمر اکثر معاملات میں اٹھارہ سال مقرر ہے، —جیسے ووٹ ڈالنا، ڈرائیونگ لائسنس، شناختی کارڈ، بیرون ملک سفر، حضانت اور فوجداری قوانین میں بچوں کی تعریف۔ جب دیگر تمام قوانین اٹھارہ سال کی حد تسلیم کرتے ہیں تو نکاح جیسے حساس اور خاندانی نظام سے متعلق معاملے میں یہ شرط کیوں نہ ہو؟ تاہم مذکورہ قوانین کسی صریح شرعی نص پر مبنی نہیں، اس لیے ان کا تقابل نکاح جیسے معاملے سے کہ جس کے لیے نصوص شریعت میں  واضح احکام موجود ہیں، قیاس مع الفارق ہے جو قطعاً درست نہیں۔  

  • کیا حالات کی تبدیلی سے ہرقانون بدل سکتا ہـے؟ :ہمارے تعلیم یافتہ طبقے میں ایک عام مغالطہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ زمانے اور حالات کی تبدیلی سے ہر قانون بدل سکتا ہے۔اس مغالطہ کی وجہ لاعلمی ہے کہ یہ اصول شریعت کے ان قوانین پر لاگو نہیں ہوتا جو قرآن و سنت کی قطعی نصوص پر مبنی ہوں۔ ان کے نفاذ میں سے کسی شرط نفاذ کی عدم موجودگی کے باعث وقتی تعطل تو ممکن ہے، مگر ان کی اصل حیثیت ختم نہیں کی جاسکتی، جیسے قحط میں چور کی سزا موقوف کرنا، جب کہ نکاحِ صغیر و صغیرہ کا ولی کے ذریعے انعقاد، اور بالغ کا حقِ نکاح، شریعت کے ایسے  قطعی احکام ہیں جنھیں محض زمانہ یا حالات کی تبدیلی کی بنیاد پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ 
  • حالیہ قانون سے پیدا ہونے والے قانونی تضادات: تعجب ہے کہ حکومت اور عدالت کم عمری کی شادی کے امتناع کے قانون سے قانونی نظام میں پیدا ہونے والے تضادات پر خاموش ہیں۔ ۱- حالیہ قانون کے تحت ۱۸سال سے کم عمر لڑکی کے نکاح پر عائد پابندی ’قانونِ تنسیخ نکاح مسلمانان‘ ۱۹۳۹ء کی دفعہ ۲ کی ذیلی دفعہ ۷ سے صریحاً اور اصولی طور پر متصادم ہے۔ اس دفعہ کے تحت اگر کوئی ولی کسی لڑکی کا نکاح اُس کی ۱۶برس کی عمر سے پہلے کردے، تو بشرط عدمِ دخول لڑکی کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ ۱۶برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد اور اٹھارہ برس کی عمر سے پہلے عدالت سے رجوع کرکے نکاح کو فسخ کروا سکتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جب قانون خود ۱۶ سالہ لڑکی کو نکاح جیسے اہم اور بامعنی عقد کو ختم کرنے کا بااختیار فریق تسلیم کرتا ہے، تو پھر وہ اُسی عمر میں نکاح پر رضامندی دینے کی اہل کیوں نہیں؟ نکاح کی تشکیل کے وقت اس کی رضامندی کو غیرمعتبر قرار دینا ، نہ صرف شرعی اصولوں بالخصوص ’قاعدہ خیارالبلوغ‘ سے صریحاً متصادم ہے، بلکہ یہ تصادم قانونی نظام کے اندر ایک سنگین تضاد اور خلفشار کو بھی جنم دیتا ہے۔ 

۲- اس قانون کے نتیجے میں ’نکاح کے لیے درکار رضامندی‘ (marital consent) اور ’جنسی عمل کے لیے رضامندی‘ (sexual consent) کی عمر کے درمیان بھی واضح تضاد سامنے آتا ہے، جہاں جنسی عمل کے لیے رضامندی کی عمر ۱۶ سال مقرر ہے، جب کہ اس قانون میں نکاح کے لیے کم از کم عمر ۱۸ سال رکھی گئی ہے، جس کی عمارت اس مفروضے پر کھڑی ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر فرد ناسمجھ، کم فہم اور فیصلہ سازی کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے، اور اس بنا پر اس کی شادی کو ایک جبر، زیادتی اور ظلم تصور کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف، پاکستان کے فوجداری قانون (تعزیراتِ پاکستان) میں جنسی عمل کے لیے رضامندی کی عمر ۱۶ سال مقرر کی گئی ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۳۷۵ کے مطابق ۱۶سال سے کم عمر بچے یا بچی کے ساتھ کسی قسم کا جنسی تعلق، خواہ وہ رضامندی سے ہو یا زبردستی، ’ریپ‘ (زنابالجبر) شمار ہوتا ہے، جس کی سزا موت، عمر قید یا کم از کم ۲۵سال قیدِ بامشقت ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون یہ تسلیم کرتا ہے کہ۱۶ سال عمر کا فرد جنسی عمل کے لیے ’رضامند‘ ہوسکتا ہے اور اس کی رضامندی قانونی طور پر معتبر ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ اسی عمر کے فرد کو نکاح جیسے پاکیزہ، محفوظ اور قانونی بندھن کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ ’رُشد‘ یا ’سمجھ داری‘ کے مزعومہ معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ یہ تضاد صرف منطقی یا قانونی نوعیت کا نہیں، بلکہ ایک عمیق تہذیبی اور اخلاقی بحران کو جنم دیتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ’رُشد‘ کو اہلیت نکاح کی شرط قرار دیتےہوئے اس تضاد کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ۱۶ سالہ نوجوان لڑکا یا لڑکی جنسی عمل کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کر سکتا ہے، تو نکاح کے لیے وہ رضامندی ظاہر کرنے کا اہل کیوں نہیں؟ 

اگر قانون اس عمر میں لڑکی کی رضامندی کو ’جنسی تعلق‘ کے لیے تو تسلیم کرتا ہے لیکن نکاح جیسے مہذب ادارے کے لیے تسلیم نہیں کرتا، تو یہ قانون سازی تہذیبی انحراف، اور مغربی ماڈل کی تقلید کا واضح ثبوت ہے۔ یہی عمر ہے جب بچے بلوغت کے بعد جنسی کشش، جذباتی وابستگی اور نفسیاتی ہیجان کے مرحلے میں ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ عمر ہے جہاں دنیا بھر کے اعداد و شمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ جنسی جرائم، بدکاری، ناجائز تعلقات، مانع حمل ادویات کا استعمال، اسقاط حمل، اور عارضی تعلقات کی شرح سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستانی ’قانون ساز طبقہ‘ ایک طرف جنسی آزادی کو ’رضامندی‘ کے پردے میں جائز قرار دے رہا ہے، اور دوسری طرف نکاح جیسے محفوظ اور ذمہ دار رشتے پر ۱۸سال کی عمر اور ’رشد‘ کی شرط لگا کر اسے محدود کر رہا ہے۔یہی مغربی تہذیب کا ماڈل ہے، اور کیا یہی خطرناک ایجنڈا پاکستان میں نافذ کیا جا رہا ہے؟ 

  • حالیہ قانون سے پیدا ہونے والے قانونی ابہامات:حالیہ قانون سے متعلق ایک نہایت بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ آیا اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یا بچی کا نکاح بذاتِ خود ’باطل‘ یا ’کالعدم‘ تصور کیا گیا ہے، یا صرف اس فعل کی کسی قسم کی اعانت پر تعزیری سزا عائد کی گئی ہے، جب کہ نکاح اپنی جگہ درست اور نافذ شمار ہوگا؟ یہ معاملہ عدالتی تشریحات پر چھوڑ دیا گیا ہے (’شادی کی عمر کی تحدید کا نیا قانون: چند اہم سوالات‘، اَز ڈاکٹر مشتاق احمد)۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے حال ہی میں ’ممتاز بی بی کیس‘ میں اسی سوال پر فیصلہ دیتے ہوئے ایسا نکاح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور نکاح کرنے والے کو مجرم قرار دیا۔ فاضل جج کا استدلال یہ تھا کہ جو معاہدہ ایک مجرمانہ عمل کے نتیجے میں وجود میں آئے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوسکتی۔  

قانون میں نکاح کو باقاعدہ ’منسوخ‘ یا ’باطل‘ قرار دینے کے بجائے اس کے اندراج اور عمل کو جرم قرار دیا گیا ہے، تا کہ نہ صرف نکاح کے امکان کو عملی طور پر مسدود کر دیا جائے، بلکہ ایسے نکاح کو ریکارڈ کا حصہ بنانا ہی مجرمانہ فعل قرار پائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قانونی ابہام محض غفلت کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک دانستہ اختیار کردہ پالیسی ہے۔ قانون سازی کے ذریعے ایک اُلجھاؤ کی فضا پیدا کی گئی ہے تا کہ نکاح جیسے شرعی اور فطری ادارے کو مشکل بنا کر لوگوں کو اس سے دور کرکے انھیں تجرد کی زندگی، جنسی بے راہ روی اور زنا کی طرف دھکیلا جائے۔ 

یہ ابہام کئی اور انتہائی بنیادی قانونی ابہامات کو جنم دیتا ہے۔ اگر ایسے نکاح میں بندھی ہوئی لڑکی اس نکاح کو ’غیرقانونی‘ یا ’ممنوع‘ تسلیم کر بھی لے، تو وہ اس سے طلاق یا فسخ کے بغیر کس بنیاد پر نجات حاصل کرسکے گی؟ اگر نکاح کا کوئی وجود ہی نہیں، تو کیا اس لڑکی پر عدت کے احکام لاگو ہوں گے یا نہیں؟ اگر اس نکاح کے نتیجے میں حمل ٹھہرے یا بچہ پیدا ہو جائے، تو اس بچے کا نسب، وراثت اور ولدیت کا شرعی اور قانونی مقام کیا ہو گا؟ ایسے نکاح کے نتیجے میں نان و نفقہ، حق مہر، رہائش، اور دیگر معاشی حقوق کی قانونی حیثیت کیا ہو گی؟ یہ تمام سوالات محض نظری یا تجریدی نہیں، بلکہ عملی اور بنیادی ہیں۔ 

یہاں یہ نکتہ بھی نہایت اہم ہے کہ قانون سازی میںمبہم/ کثیرالمعانی الفاظ کا استعمال، مثلاً دفعہ۵ میں ’ہم زیستی‘ (Cohabitation) کو بغیر کسی مخصوص قانونی تعریف و تحدید کے شامل کر کے بچوں پر ظلم اور قانوناً جرم قرار دینا اور اس جرم میں کسی بھی قسم کی معاونت یا خاموشی پر سخت سزائیں مقرر کرنا، نہ صرف قانونی سقم ہے بلکہ یہ آئینی طور پر بھی محلِ اعتراض ہے۔ کیونکہ اس سے عدالت اور پولیس کے لیے بے جا وسعتِ تعبیر کے دروازے کھل جاتے ہیں اور شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوسکتے ہیں۔ 

فوجداری قانون میں مبہم اور غیرواضح اصطلاحات کا استعمال بذاتِ خود خلافِ اصول ہے۔ فوجداری قانون کا مسلّمہ قاعدہ یہ ہے کہ جرم کی تعریف، اس کے عناصر اور اس کی حدود نہایت صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کیے جائیں تاکہ شہری کو یہ یقینی علم ہو کہ کون سا فعل ممنوع اور قابلِ تعزیر ہے۔ 

  • ابہامات / تضادات کا ممکنہ اگلا مرحلہ :حالیہ قانون سے پیدا کیے گئے دانستہ یا نادانستہ انتشار اور ابہام کا اگلا ممکنہ مرحلہ بالکل واضح ہے۔ نکاح جیسے شرعی اور قانونی بندھن کو اتنا پیچیدہ، خطرناک اور تعزیری بنا دیا گیا ہے کہ لوگ اس سے اجتناب برتنے لگیں۔ نتیجتاً معاشرے میں نکاح سے باہر تعلقات کو ’سماجی حقیقت‘ کہہ کر قانونی تحفظ فراہم کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی۔ مغربی معاشروں کی طرح ہمارے ہاں بھی ’کامن لا پارٹنرشپ‘ جیسے تصورات کی راہ کھلے گی، یعنی نکاح کے بغیر مرد و عورت کے باہمی رضامندی سے ساتھ رہنے کے رویے کو پہلے معمول، پھر قابلِ برداشت، اور آخرکار قابلِ قبول قرار دیا جائے گا، حتیٰ کہ وہ قوانین کی شکل اختیار کر لیں گے۔   

اس سلسلہ میں بین الاقوامی سیکولر ایجنڈے کو پاکستانی لیگل فریم ورک میں داخل کرنے اور سماج میں قابلِ قبول بنانے کے لیے سرگرم این جی اوز نے اگلے قدم کے طور پر مؤثر لابنگ کے ذریعے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت سے ’تولیدی صحت کی جامع تعلیم‘ (Comprehensive Reproductive Health Education) کو ۱۴سال کی عمر کے بچوں کے لیے اسکول کے نصاب میں شامل کرنے کا بل منظور کروا لیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بیرونی دبائو پر ریاست نوجوانوں کو نکاح سے دُور اور آزاد جنسی تعلقات کی طرف دھکیل رہی ہے۔  

  •  ریاست کی عائلی قوانین میں مداخلت اور شرعی فریضہ : ہماری رائے میں ریاست نے بیرونی دبائو پر شخصی و عائلی قوانین میں آئے روز کی مداخلت سے مسلمانوں کے عائلی قوانین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ عائلی یا شخصی قوانین میں مداخلت آئین پاکستان کی بنیاد قراردادِ مقاصد، آئین پاکستان، خصوصاً آئین کی دفعات۲-اے،۳۵ اور ۲۲۷، اور اس پر مبنی پورے قانونی نظام کی صریح خلاف ورزی اور مسلمان شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے۔ حالیہ قانون قوانین نفاذِ شریعت ، مثلاً مغربی پاکستان مسلم پرسنل لاء (شریعت) اطلاق ایکٹ ۱۹۶۲ء اور قانونِ نفاذِ شریعت ۱۹۹۱ء سے بھی متصادم ہے۔  

خاندان کے ادارے اور خاندانی نظام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے آج خاندان کے ادارے کو سب سے بڑا خطرہ ریاست اور ریاستی اداروں کی سوشل انجینئرنگ سے ہے۔ جس کے ذریعے سیکولر مغربی طرزِ زندگی کو پوری قوم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ یہ ریاستی طاقت کا مجرمانہ استعمال ہے جس کا تدارک ایک شرعی فریضہ ہے۔  

سوال:  زندگی مسلسل متحرک ہے۔ یہ بڑھتی، گھٹتی اور پھیلتی رہتی ہے۔ اس کے خول میں بے پناہ لچک ہے۔ اگر اسلام ایک نظامِ زندگی ہے تو کیا اس میں بھی لچک موجود ہے؟ 

جواب: اسلام میں وہ فطری لچک موجود ہے جس کا تقاضا زندگی کرتی ہے۔’اجتہاد‘ اسی لچک کا دوسرا نام ہے۔ اجتہاد کے ذریعے سے اسلام زندگی کے ہرگلِ تازہ کی آبیاری کرتا ہے اور ہرنئے اُبھرتے گوشے کو روشنی فراہم کرتا ہے۔ اسی بناء پر اسلام میں ’اجتہاد‘ کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اور ہر زمانے میں اس کی ضرورت رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ’اجتہاد‘ کو متضاد مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ 


سوال : وہ متضاد مقاصد کیا ہیں؟ 

جواب :’اجتہاد‘ کا ایک مقصد تو یہ ہوسکتا ہے کہ جو نئے حالات پیش آئیں، ان پر اسلام کے اصول اور احکام منطبق کیے جائیں۔ دوسرا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے جو کچھ مخصوص نظریات اور خواہشات ذہن میں پہلے سے موجود ہوں، ان کے مطابق اسلام کو ڈھالا جائے۔ پہلی قسم کا ’اجتہاد‘ صحیح معنوں میں ’اجتہاد‘ ہے اور ہر دور میں علما اس ’اجتہاد‘ کے قائل رہے ہیں۔ لیکن مؤخرالذکر ’اجتہاد‘ نہ تو اسلامی اصطلاح کے مطابق ’اجتہاد‘ ہے، اور نہ کوئی مسلمان اس ’اجتہاد‘ کا قائل ہے۔ غرض یہ ہے کہ ’اجتہاد‘ کا نازک کام آج کل وہ لوگ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں، جو اس کام کے سرے سے اہل ہی نہیں۔ ’اجتہاد‘ کے لیے خاص قسم کی صلاحیتوں اور اہلیتوں کی ضرورت ہے۔ 


سوال:  ’اجتہاد‘ کے لیے کس نوعیت کی صلاحیتیں درکار ہیں؟ آخر ہرشخص ’اجتہاد‘ کیوں نہیں کرسکتا؟ 

جواب:  ’اس کام کے لیے بہت سی بنیادی اور ضروری صلاحیتیں درکار ہیں۔ لیکن کچھ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ’اجتہاد‘ کے لیے مغربی قوانین، معاشیات وغیرہ کا علم کافی ہے اور انگریزی ترجموں سے قرآن پڑھ کر اور حدیث و فقہ کو بالائے طاق رکھ کر، بڑی کامیابی سے ’اجتہاد‘ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کا اجتہاد کوئی ایسا شخص نہیں کرسکتا، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کچھ خوف ہو یا، جو اخلاص کے ساتھ مسلمان رہنے کا خواہش مند ہو۔ صحیح معنوں میں اجتہاد کا اہل وہی شخص ہوسکتا ہے، جو عربی میں مہارت رکھتا ہو، زبان کی نزاکتوں کو سمجھ سکتا ہو، قرآن کو اس کی اصل زبان میں نہ صرف سمجھنے کے قابل ہو، بلکہ اپنی عمر کاغالب حصہ اس نے فہم قرآنی کی نزاکتوں کے سمجھنے میں صرف کیا ہو۔ حدیث پر وسیع نگاہ رکھتا ہو، فقہ اسلامی کی تاریخ اور اس کے اصولوں اور مختلف اَدوار کے فقہا کے کام سے واقف ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وقت کے مسائلِ زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہو۔ 


سوال:  اگر ایک گروہ دوسرے قسم کا ’اجتہاد‘ کرنے لگے اور اسے ملک میں نافذ کرنے پر بھی مُصر ہو تو پھر قوم کو کیا کرنا چاہیے؟ 

جواب:  پوری قوت سے مزاحمت کرنی چاہیے، کیونکہ ایسے گروہ کا طرزِ عمل لازمی طور پر ملک کو انتشار اور تباہی کے گرداب میں پھینک دے گا۔ یہ مختصر سا مغرب زدہ گروہ جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے ایک نیا دین قوم پر زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کرتا رہے گا اور قوم اس کو دفع کرنے کے لیے زور لگاتی رہے گی۔ اس کشاکش میں ترقی کے راستے پر ہمارا قدم ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکے گا۔ 


سوال:  کیا ان حالات میں علما پر بھاری ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ 

جواب:  مجھے آپ کے جذبات کی شدت کا احساس ہے، مگر یہ تو سوچیے کہ علما اس سوسائٹی ہی کے تو فرد ہیں، جس کی اخلاقی حِس قریباً مرچکی ہے۔ ایسے معاشرے میں حق گو، جرأت مند، باضمیر اور ایثارکیش علما کہاں سے آئیں؟ اگرچہ علما کا طبقہ ، دوسرے طبقوں کی نسبت اب بھی کئی اعتبار سے بلندتر ہے، لیکن دین کے لیے جان کی بازی لگانے کا جذبہ بڑی حد تک سرد پڑچکا ہے، کم ہمت معاشرے میں یہ جذبہ زندہ رہ نہیں سکتا۔(سوال و جواب کی مجلس سے( 

اسلام جس بنیاد پر دُنیا میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت سب پر بالا ہے۔ حکومت اور حکمران، راعی اور رعیّت، بڑے اور چھوٹے، عوام اور خواص، سب اُس کے تابع ہیں۔ کوئی اُس سے آزاد یا مستثنیٰ نہیں اور کسی کو اس سے ہٹ کر کام کرنے کا حق نہیں۔ دوست ہو یا دشمن، حربی کافر ہو یا معاہد، مسلم رعیّت ہو یا ذمّی، مسلمان وفادار ہو یا باغی یا برسرِجنگ، غرض جو بھی ہو شریعت میں اُس سے برتائو کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے، جس سے کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ 

خلافت ِ راشدہ اپنے پورے دور میں اِس قاعدے کی سختی کے ساتھ پابند رہی، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے انتہائی نازک اور سخت اشتعال انگیز حالات میں بھی حدودِ شرع سے قدم باہر نہ رکھا۔ ان راست رو خلفاء کی حکومت کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ ایک حدود آشنا حکومت تھی، نہ کہ مطلق العنان حکومت۔ 

مگر جب ملوکیت کا دور آیا تو بادشاہوں نے اپنے مفاد ، اپنی سیاسی اغراض، اور خصوصاً اپنی حکومت کے قیام و بقا کے معاملے میں شریعت کی عائد کی ہوئی کسی پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی کسی حد کو پھاند جانے میں تامّل نہ کیا۔ اگرچہ ان کے عہد میں بھی مملکت کا قانون اسلامی قانون ہی رہا۔ کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ کی آئینی حیثیت کا اُن میں سے کسی نے کبھی انکار نہیں کیا۔ عدالتیں اِسی قانون پر فیصلے کرتی تھیں، اور عام حالات میں سارے معاملات، شرعی احکام ہی کے مطابق انجام دیئے جاتے تھے۔ لیکن ان بادشاہوں کی سیاست دین کی تابع نہ تھی۔ اُس کے تقاضے وہ ہرجائزو ناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے، اور اس معاملے میں حلال و حرام کی کوئی تمیز روا نہ رکھتے تھے۔ یہ پالیسی بھی حضرت معاویہ ؓ کے عہد ہی سے شروع ہوگئی تھی۔(’خلافت اور ملوکیت کا فرق‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۵ء، ص۳۶-۳۷)