ستمبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

محفوظ پناہ گاہ کی تلاش!

ڈاکٹر جمال عبدالستار | ستمبر ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

قومیں اُمت مسلمہ پر اس طرح ٹوٹ پڑی ہیں جیسے بسیارخور کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، مسائل بہت زیادہ اُلجھ گئے ہیں۔ مفادات کی جنگ جاری ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کی بھرمار ہے۔ مسلمان راہِ نجات اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہیں، جو انھیں اس خوفناک معرکے کی لپیٹ سے بچا سکے اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دینے والے طوفان میں محفوظ رکھ سکے۔ ایسا طوفان جو اُمت کو دوکیمپوں میں تقسیم کررہا ہے: ایمان کیمپ ، جس میں نفاق نہیں، اور نفاق کیمپ، جس میں ایمان کی رمق بھی نہیں۔ اس طوفان میں اہلِ حق اور اہلِ باطل کے درمیان فرق کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ اس میں کھرے اور کھوٹے کی تمیز بھی ہورہی ہے۔ پھر جس کو ہلاک ہونا ہے وہ دلیل پر ہلاک ہوگا اور جس کو زندہ رہنا ہے وہ دلیل پر زندہ رہے گا۔ اور یہ اٹل قرآنی قانون کے مطابق ہوگا: 

فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۝۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ  (الرعد ۱۳: ۱۷)  جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیرجاتی ہے۔  

اس انتہائی مشکل اور پریشان کن صورتِ حال میں اُمت کو یہ پناہ گاہ کب میسر آئے گی اور  کہاں مل سکے گی؟ 

عالم اسلام اور افرادِ اُمت کو بہت سی فکری و نظری پناہ گاہوں میں حفاظت کی توقع بندھ جاتی ہے اور وہ ان کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ ذیل میں ایسی تصوراتی پناہ گاہوں کی نشان دہی اور ان کی حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں: 

کفر و طغیان کے سامنے ہتھیار ڈال دینا 

امن و سلامتی اور حفاظت کی پناہ گاہ یقینا اس پرچم تلے نہیں ہوسکتی، جو دشمنوں کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے اپنی شناخت اور امتیاز کے خاتمے سے ممکن ہو، یعنی بدترین حالات کو دیکھ کر ان کے سامنے ہتھیار ڈال دینا، طوفان کے سامنے کھڑے نہ ہونا، جینے کی ادنیٰ ترین سطح پر آکر زندگی کی بھیک مانگنا، یا زیادہ سے زیادہ کفر کے نظام کے تحت، اصلاح کی موہوم اور معمولی شکل کو حاصل کرنے پر راضی ہوکر بیٹھ جانا۔ یہ سب ظلم سے مصالحت اور مداہنت کی وہ شکل ہے، جس کی ادنیٰ ترین حد کے قریب جانے سے بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیںمنع فرمایا ہے: 

وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ۝۰ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۝۱۱۳ (ھود ۱۱:۱۱۳) ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی۔ 

یہ دراصل اس طوفان کے انجام سے بے خبری ہے، طوفان خواہ کتنا ہی دُور تک چلا جائے اس کا انجام ہلاکت و تباہی اور بربادی ہی ہوتا ہے:  

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) اور اعلان کر دوکہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔ 

اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا انجام بھی بیان کردیا ہے، جو اپنی شناخت کو بھول کر کفر و طغیان کے کیمپ میں داخلے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ جو قوم ان کے نقش قدم پر چلے گی اسے اسی حتمی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا: 

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْہِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَۃٌ۝۰ۭ فَعَسَى اللہُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَسَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِيْنَ۝۵۲(المائدہ ۵:۵۲) تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکّر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمھیں فیصلہ کُن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے۔ 

اس آیت میں لفظ عَسَی آیا ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں اُمیدورجاء اور توقع کے لیے نہیں بلکہ حتمی اور قطعی بات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ اس راستے کے انجام سے خبردار کر رہا ہے، کہ جلد ہی وہ یقینی طور پر فتح اہل حق کے مقدر میں کردے گا ، یا ایسے حادثات و واقعات رُونما کرے گا، جو بیمار دلوں کی توقعات اور اُمنگوں کے برعکس ہوں گے اور وقت گزرجانے کے بعد ان میں شرمندگی کا احساس گہرا کریں گے۔ ان کے اُوپر وہ بیماری، کمزوری اور بزدلی و کم ہمتی کھل جائے گی جس کی طرف ان کے دل لڑھکتے پھرتے تھے۔ 

نفاق اور مصالحت کی پناہ گاہ 

حفاظت و سلامتی کی پناہ گاہ ، اُمت کے دلوں پر ظلم و استبداد کے مونگ دَلنے والے نظاموں اور اُن کے کارپرداز منافقین کی قلیل سی تعداد کے ساتھ اپنی نسبت جوڑنے سے بھی میسر نہیں آئے گی۔ یہ اقلیت اُمت کی دولت اور وسائل ضائع کر رہی ہے ۔ اس حاکم اقلیت نے اُمت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے ، اس کی شناخت کو تبدیل کردیا ہے، اور اُمت سے عزم و ہمت کی قوت سلب کرلی ہے۔ اس حاکم گروہ نے اُمت کو اس کی آزادی سے محروم کر دیا ہے اور اللہ کے دین و شریعت سے عالمی نظام کی خدمت کے لیے اُمت کو غلام بنا رکھا ہے۔ اسلام اور اسلامی اقدار و روایات کا دشمن یہ استبدادی نظام ہے اور نظامِ شریعت سے جنگ آزما ہے اور انسانی فطرت کو تبدیل کردینے کے درپے ہے۔ 

اس منافقانہ نظام میں اپنے آپ کو گم کر دینا نہ اُمت مسلمہ کے مسائل کا حل ہے اور نہ اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ، بلکہ یہ مزید گراوٹ اور پستی میں گرنے پر ڈھٹائی سے جمے رہنے کے مترادف ہے۔ یہ ناکامی و پسپائی کو یقینی بنانے کا عمل ہے اور بڑی قیمت چکا کے اسے  مزید جاری رکھنے کا منصوبہ ہے۔ ان منافقین کے پاس سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں اور ان کی دوستی کا کوئی اعتبار نہیں۔ خود ان کے وجود اور موجودگی کا بھی کوئی مستقبل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے باطل کی حقیقت کو بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا ہے: 

يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۹ۭ (البقرہ ۲:۹) وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنھیں اس کا شعور نہیں ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے ان کی اس روش جس کے سبب عذاب ان کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور کسی مددگار کا وجود ان کو نظر نہ آنے کا بیان کرتے ہوئے فرمایا:  

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا۝۱۴۵(النساء ۴:۱۴۵) یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے، اور تم کسی کو اُن کا مددگار نہ پائو گے۔ 

اللہ تعالیٰ اس قبیل کے تمام منافقوں (اور ان سے منسوب ہونے والوں کو) کافروں کے ساتھ جہنم میں ایک جگہ جمع کردے گا: 

 اِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَہَنَّمَ جَمِيْعَۨا۝۱۴۰ۙ(النساء ۴ :۱۴۰) یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے۔ 

الحاد کی پناہ گاہ 

ہمیں یقین ہے کہ کوئی عقل مند آدمی نہ اس راستے کا انتخاب کرسکتا ہے، نہ کوئی رہنمائی کرنے والا دوسروں کو یہ راستہ دکھاسکتا ہے۔ یہ تو فطرتِ سلیمہ کی مخالفت اور ربِّ کائنات سے بغاوت و سرکشی کا راستہ ہے۔ قوانین قدرت اور قطعی دلائلِ ایمان کا انکار ہے۔ شروع میں تو اس خیال کا آدمی سمجھتا ہے کہ وہ پابندیوں سے آزاد ہوگیا ہے، مگر اسے یہ ادراک نہیں ہوپاتا کہ وہ کس تنگ و تاریک مقام پر جاگرا ہے، جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اور کس طرح کے غم و اندوہ میں مبتلا ہوگیا ہے جن سے چھٹکارے اور خلاصی کی کوئی سبیل نہیں۔ ایسا شخص ایسی بے سکونی اور بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے کہ پھر سکون و اطمینان اسے کبھی میسر نہیں آسکتا۔ وہ حال کا سکون بھی گنوا بیٹھتا ہے اور مستقبل کے خوف کی آگ میں بھی جلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی کیفیت کو بیان فرمایا ہے: 

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴) اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اُٹھائیں گے۔ 

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 

وَمَنْ  يُّشْرِكْ بِاللہِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ  مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّيْرُ اَوْ تَہْوِيْ بِہِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ۝۳۱ (الحج ۲۲:۳۱) اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے، یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اُڑجائیں گے۔ 

پسپائی اور فرار کی پناہ گاہ 

یہ عزّت و تکریم کی بلندی سے اُتر کر خواہشاتِ نفس کی تکمیل میں مصروف ہوجانے، کھوجانے اور غرق ہوجانے کی پست سطح پر آجانا ہے۔ خوش حالی اور زندگی کی سہولتوں کے حصول کے پیچھے بھاگنا ہے، اور انھی سے لطف اندوزی کو مقصودِ زندگی ٹھیرا لینا ہے۔ اس کیفیت میں اللہ کے پیغام کا ابلاغ، امانت الٰہی کی ادائیگی اور اقامت دین کی ذمہ داری سے انسان منہ موڑ لیتا ہے، یا غفلت کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس نیابت کی خاطر پیدا کیا ہے، اُس فریضے کی ادائیگی سے پہلو بچاتا ہے، حالانکہ کائنات اور اس کی قوتیں اسی مہم کی انجام دہی کے لیے اس کی معاونت کی خاطر مسخر و مطیع کی گئی ہیں۔ 

اس فرار کو قرآنِ مجید نے ’ہلاکت‘ کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے آخری نبیؐ کو فتح و نصرت سے شادکام کردیا تو بعض صحابہؓ نے اپنی گفتگوئوں میں اس بات کا اظہار کیا کہ ہم نے اپنے مال ودولت کو اس خاطر چھوڑا تھا کہ ہم آپؐ کی جدوجہد میں شریک رہیں۔ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فتح و نصرت عطا فرما دی ہے، لہٰذا آئو ہم مال و کاروبار کی طرف واپس لوٹ جائیں تاکہ ان کی بہتری اور ترقی کے لیے محنت کرسکیں۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے اس خفیہ اظہار رائے کی خبر وحی کے ذریعے دی اور فرمایا: 

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ ۝۰ۚۖ (البقرہ ۲:۱۹۵) اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ 

یہاں اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ’ہلاکت‘ میں ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے دُنیاوی کاروبار اور روزگار کے ذرائع کی ترقی اور بہتری میں لگ جائیں اور جہاد کو ترک کر دیں۔ اس لیے فرار اور پسپائی کسی کے لیے ہرگز پناہ گاہ نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے: 

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۲۴ۧ (التوبۃ ۹:۲۴) اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار، جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ 

کسی سے پناہ لینے کا راستہ 

دُنیا اور آخرت میں اہل ایمان کے لیے ایمان کے سوا کوئی پناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲) حقیقت میں تو امن اُنھی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔ 

اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ ہم نہ کافروں کی کشتی میں سوار ہوں، نہ اُن کی ہمراہی میں سفر اختیار کریں بلکہ اپنے دلوں میں ایمان کی علامات کو مضبوط تر کریں۔ قلبی صفائی اور اللہ پر توکّل کی سچائی کو دائمی طور پر اختیار کرلیں۔ یہی دو بنیادیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بیان ہوئی ہیں: 

وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا۝۰ۭ (ابراھیم ۱۴: ۱۲) اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسا کریں، جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟ 

امن و سلامتی کی پناہ گاہ اسلام کے ساتھ اپنے مخلص انتساب کی تجدید میں پوشیدہ ہے۔ اسلام کی شاہراہِ مستقیم کے مسافر کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ پوری وضاحت، قوت اور استقامت کے ساتھ باوقار انداز میں اس تجدید ِعہد کا اعلان کرے کہ: 

وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۷۲ (یونس ۱۰ :۷۲) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں ۔ 

بلکہ وہ اپنے ربّ سے ہروقت یہ دُعا بھی کرتا رہے: 

تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۝۱۰۱ (یوسف ۱۲: ۱۰۱) میرا خاتمہ اسلام پرکر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔ 

شاہراہِ اسلام کے مسافر کا شعار اور عزم یہ ہونا چاہیے کہ ’’میں اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام کر زندگی گزاروں گا اور مسکراتے ہوئے موت کا استقبال کروں گا، تاکہ میرا دین زندہ اور قائم رہے‘‘۔ 

جدوجہد میں اپنا کردارادا کرنا 

پہاڑوں کی طرح بلند موجوں کا یہ طوفانِ بلاخیز اُمت مسلمہ کو پکار پکار کر اپنا سفینۂ نجات وقت ضائع کیے بغیر تیار کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔اس کشتی کی تیاری وقت کا فریضہ اور محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے مگر شرط یہ ہے کہ کشتی کی تیاری میں قرآنِ مجید کے حکم کا وہ متن پیش نظر رہے جس میں حضرت نوحؑ کو مخاطب کیا گیا ہے: 

وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۝۰ۚ اِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ۝۳۷  (ھود ۱۱:۳۷) اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو۔اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔ 

یہ کام سب سے پہلے تو اللہ پر توکّل میں اخلاص کا تقاضا کرتا ہے اور پھر اس سے مدد و استعانت کو بھی لازم ٹھیراتا ہے۔ یعنی بِاَعْيُنِنَا (ہماری نظروں کے سامنے)۔ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ کشتی اللہ تعالیٰ کے طریق اور اس کے قانون و ضابطے کے مطابق تیار کی جائے یعنی  بِوَحْينَا (ہماری ہدایت کے مطابق)۔ زمینی فلسفوں، عالمی حکم ناموں اور گروہی آرزوئوں کے مطابق نہیں۔ 

اس کشتی کے مسافروں پر لازم ہے کہ کشتی بانوں کو ان کا تعاون اور ہمدردی مکمل طور پر حاصل ہو۔قائد کاغذ پر نقشہ کے ذریعے اس کے ابتدائی خطوط طے کرے۔ کارکن مواد کو تیار کرے۔ انجینئر اس کی تفصیل بنائے۔ دولت مند دولت خرچ کرے۔ عبادت گزاردُعائیں کرے گا۔ عالم اس کے معانی و مفاہیم لوگوں کے ذہن نشین کرائے۔ بڑھئی اس میں کیلیں ٹھونکے۔ ماہرِفن تختیوں کی ترتیب لگا کر ان کی حرکت کو باضابطہ بنائے۔ 

اگر آپ ان سفینہ گروں میں سے نہیں ہیں تو سفینہ گری سے وابستہ لوگوں میں ہی شامل ہوجائیں، اس کام کو معاونت دینے والے بن جائیں۔ اس کی حفاظت و نگرانی پر مامور ہوجائیں۔ جو شخص اس کشتی کی تیاری میں اپنی کسی بھی طرح کی جہد و سعی صرف نہیں کرے گا، گویا وہ طوفان کے دوران جاری جہاد میں کسی کام نہیں آیا۔  

آخری بات یہ کہ کسی عمل کو چھوٹا اور معمولی نہ سمجھیے۔ ایک نوخیز بچّے کے دماغ میں لفظ ’اسلام‘ ڈالنے میں بھی تردد نہ کیجیے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی نوجوان نسل کی اسلام کے مطابق تربیت کرنے میں ہچکچاہٹ نہ برتیں۔ انحطاط پذیر معاشرے میں اسلامی اقدار کی حمایت و اشاعت کا ساتھ دیں۔ کسی مایوس سوسائٹی میں اُمید کا کلمہ بلند کرتے ہوئے نہ شرمائیں۔ اُٹھیں اور پوری وضاحت سے بغیر کسی تردّد کے یہ اعلان کریں: 

اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللہِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ۝۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۝۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۵۶ (ھود ۱۱ : ۵۶) میرا بھروسا اللہ پر ہے جو میرا ربّ بھی ہے اور تمھارا ربّ بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔ 

اور یہ یقین رکھیں کہ آپ ایمان کی پناہ گاہ میں جاکر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے حق دار قرار پائیں گے: 

وَلَنْ يَّجْعَلَ اللہُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا۝۱۴۱(النساء ۴: ۱۴۱) اور (اس فیصلہ میں)اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔