آج کی مغربی دُنیا، عشروں پر محیط ایک طویل نیند اور اذیت ناک غفلت کے بعد ہوش میں آئی ہے۔ شاید وہ اپنے کیے ہوئے غلط کام سے نصیحت پکڑے اور اس جرم کا ازالہ کرے، جس کی وہ مرتکب ہوئی تھی اور اسرائیل کی شکل میں اس زہریلے پودے کی زہرناکی کو محسوس کرے، جو اس نے کاشت کیا تھا اور سرزمین فلسطین کی اصلی قوم کی مظلومیت کو محسوس کرے، جس کو اس نے پارہ پارہ کردیا تھا۔
تاہم، اس ’ہوش مندی‘ کا قدم اُٹھاتے ہوئے بھی مغرب ایک موہوم اور ایک زہرآلودہ مفہوم کا نعرہ لے کر نکلا ہے، یعنی دو ریاستوں کا نعرہ۔جس کا مطلب ہے: دو پیمانوں سے وزن کرنا اور دو نگاہوں سے دیکھنا۔
کیا تعجب خیز سادگی ہے جو مغرب سرزمین فلسطین کے اصلی حق داروں کے ساتھ روا رکھ رہا ہے۔ اس نے انھیں ان کے تمام ظاہروباہر حقوق سے محروم کرکے ان کی اصل ملکیتوں سے بے دخل کردیا اور اس کے بالمقابل ان کے دشمنوں کو نوازتا رہا ہے، یہاں تک کہ جعلی اور اضافی حقوق بھی عطا کرتا رہا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ ’اسرائیل‘ نام کی ریاست خطّے میں ایک غاصب اور دخیل ریاست ہے۔ تاریخ اس کی تائید نہیں کرتی اور نہ کوئی حساب کتاب اس کو جواز فراہم کرتا ہے۔ تو پھر ان مغربی اقوام کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ تاریخ کو بھی نہیں سمجھتے، یا پھر یہ اپنے اور تاریخ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں؟
دُنیا میں بہت سے لوگ یہ خیال کرتے رہے کہ مغرب نے عربوں اور فلسطینیوں کے حق میں کی ہوئی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور اپنی رائے کو بدل لیا ہے۔ مظلوموں کو ان کے حقوق کی واپسی کے ذریعے انصاف کی فراہمی کی طرف لوٹ آیا ہے۔ لیکن منطق کا یہ نہایت سادہ اصول ہے کہ کسی غلطی پر بنیاد رکھی جائے تو وہ بھی غلطی ہی ہوتی ہے، لہٰذا یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ غلطی کی تصحیح غلطی کے ساتھ ہو؟ کیا یہ عقل مندی ہے کہ ہم نیکی کرنے والے سے کہیں کہ تُو نے بُرائی کی ہے؟ اور بُرائی کرنے والے سے کہیں کہ تُو نے نیکی کی ہے؟
فلسطین قانونی طور پر کس کا حق ہے؟ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے، اس میں ذرہ بھر شک و شبہ نہیں۔ اس حق کا کوئی اندھا ہی انکار کرسکتا ہے، لہٰذا وہ لوگ جو دُنیا کی لیڈرشپ کے دعوے دار ہیں اور انھوں نے آزادی و جمہوریت کا علَم اُٹھا رکھا ہے، ان کے لیے کیسے یہ جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اس حقیقت سے انکار کریں؟
لہٰذا عدل و انصاف کی بات تو یہی ہے کہ اہل مغرب آئیں اور اصل مسئلۂ فلسطین میں جرم کا ازالہ کریں، غلط فہمی کی تصحیح کریں اور ظلم کی جگہ انصاف کریں۔
ہمارایہ ایمان ہے اور ہر صاحب ِ عقل اور حق گو ہمارے اس یقین میں شریک ہے کہ ’فلسطین‘ کا لفظ اپنے معنی و مفہوم اور وجود و حیثیت کے اعتبار سے تاریخ میں مضبوط پہاڑوں کی مانند قائم ہے۔ غاصبانہ طور پر چھن جانے والی سرزمین کا مطالبہ کرنے والے تمام لوگ اسی وجود کو مانتے ہیں۔لہٰذا ہم اُن سب کے لیے جو اس سرزمین فلسطین سے تعلق کا اعلان کرتے ہیں ایک کامل اور جامع ریاست کیوں نہیں بحال کرتے، جس کا نام فلسطین ہو؟ ایسی ریاست جو تمام کونوں گوشوں کو اپنے اندر سمولے۔ تمام ادیان و مذاہب کے لیے آزادی کی ضمانت دے ۔ تمام نظریات کے لیے زندہ رہنا اس میں ممکن ہو۔
اگر ہم سب کے لیے انصاف کو ممکن بنا دیں اور ہرکمزور و طاقت ور کو اس کا حق دے دیں تو ہم وہ ’عظیم تر فلسطین‘ کی ریاست قائم کرسکتے ہیں، جس کی بنیاد مکمل آزادی، کامل جمہوریت اور منصفانہ معاشرت پر رکھی گئی ہو۔
وہ اگر اس سے انکار کریں اور یہ یقینی طور پر متوقع ہے، تو پھر اہلِ فلسطین رواداری اور دست برداری کے پہلو سے دو ریاستی حل کو قبول کرسکتے ہیں، مگر اپنی مکمل قیادت، آزاد مرضی اور قیادت کے آزادانہ انتخاب کی بنیاد پر۔ تب دونوں ریاستوں کو یہ حق حاصل ہوسکے گا کہ اُن میں سے ہرایک اپنے دفاع کی غرض سے اسلحہ رکھ سکے۔ اسے ہر پابندی سے آزاد رہ کر اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی ضمانت حاصل ہوگی اور وہ اپنے امن و آزادی کو یقینی بنانے کی خاطر بیرونی عسکری پابندیوں سے بھی آزاد ہوگی۔
اس تصور اور تجویز کو عملی طور پر ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یہودی اپنی صہیونیت سے دست کش ہوجائیں جو کہ اُن کی نسل پرستی، فاشزم، انتہاپسندی اور توسیع پسندی کی بنیادی جڑ ہے۔ اسی طرح وہ دوسروں کے ساتھ امن و سلامتی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
وہ تجاویز اور حل جو بعض مغربی ممالک پیش کرتے ہیں، وہ تو ابتدا ہی سے نسل پرستی کو جنم دیتے ہیں اور بالآخر انتہا پسندی تک لے جاتے ہیں، لہٰذا، کیا اس ذہنیت سے آلودہ مغرب ’ریاست فلسطین‘ کے قیام کی ضمانت دے سکتا ہے؟ جب کہ اسی مغرب نے فلسطین کے بے گناہ شہریوں کو بھوک سے مارنے، بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے، اور نسل پرست صہیونی سیاست کو بلاروک ٹوک کھل کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
یہ مغرب جس نے فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیل کو مال و دولت اور اسلحہ و سازوسامان کے ذریعے امداد دی ہے، یہی مغرب دو ریاستی حل کے مطالبے میں کیونکر غیرجانب دار ہوسکتا ہے؟ اس لیے کہ وہ ہمیشہ سے اور آج بھی دوپیمانوں سے وزن کرتا آیا ہے کیونکہ وہ آنکھوں کا اندھا ہے!
ہم یہ کہہ رہے ہیں اور ہمیں یہ یقین بھی ہے کہ ایسی ’فلسطینی ریاست‘ کو تسلیم کرنے کا مسئلہ جو پُرامن ریاست کے تمام حقوق سے خالی ہو، معاملے کو مزید بگاڑنے کا سبب ہوگا۔مسئلے کا حقیقی حل فلسطینی قوم کی واپسی، اسے اپنے مستقبل کے انتخاب کی پوری آزادی، اپنی قیادت کو منتخب کرنے کا پورا حق اور اپنے لیے مفید مناسب طرزِ حکومت اختیار کرنے کی آزادی میں پوشیدہ ہے۔
آزادی ایسا ’کُل‘ ہے، جو اپنے حصے بخرے ہونا قبول نہیں کرتی۔ یہ ہوتی ہے تو، مکمل ہوتی ہے اور نہ ہو تو یہ جزوی طور پر نہیں ہوتی۔ فلسطینی قیادت کا حق اسی کو حاصل ہوگا، جس کو قوم قبول کرتی ہے۔ اس قیادت کا مذہب خواہ کچھ ہو، اور اس کا نقطۂ نظر خواہ کچھ ہو۔ یہی قومی موقف اور ارادے کی نمائندہ ہوگی، اسی کو اپنی ذمہ داری ہرقسم کی مداخلت کے بغیر سنبھالنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ جہاں تک اتھارٹی کو مسلط کرنے اور حکمران متعین کرنے کی بات ہے، تو اس پر ایک زمانہ گزر چکا ہے اور اب اس کا وجود خون، آنسوئوں، بھوک، پیاس اور خوف و دہشت کے سیلاب میں بہہ گیا ہے۔
اب تک قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں نفاق سے بھی بہت کام لیا گیا۔ چشم پوشی اور نظراندازی کا بھی خوب مظاہرہ کیا گیا۔ جن قوموں نے اپنی جدوجہد کے سلسلے میں جو کچھ کیا، ہمارے لیے اس میں عبرت کے درس موجود ہیں، جیسے الجزائر، ویت نام، جنوبی افریقہ اور افغانستان ہیں۔ ثابت شدہ اور ٹھوس حقیقت جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا، یہی ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہوگا، قائم ہوکر رہے گی۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ غاصب اور قاتل نیتن یاہو کی حکومت خواہ کتنا ہی خوف پھیلا لے اور تشدد اور سفاکیت کا مظاہرہ کرے، اس کے مقابلے میں حق کا پرچم بلند ہوکر رہے گا، اس کو مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جعلی اور بناوٹی اَدوارِ حکومت جو مغربی پٹی پر ایک من پسند قیادت کو مسلط کرکے یا اسلحہ سے خالی ریاست کا نعرہ لگا کر اور ’حماس کی اس میں کوئی جگہ نہیں‘ کا بیان دے کر ظاہر کیے جاتے ہیں، سب خالی نعرے ہیں۔ حقیقت کی دُنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں۔
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۰ۭ (الرعد ۱۳: ۱۷) جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتی ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے، وہ زمین میں ٹھیرجاتی ہے۔