قرآن کریم کا وہ حصہ جو مکی سورتوں پر مشتمل ہے، پورے تیرہ سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوتا رہا۔ اس پوری مدت میںقرآن کا مدارِ بحث صرف ایک ہی مسئلہ کے مختلف پہلوئوں کی توضیح و تفہیم رہا۔اِس مسئلہ کی بنیادی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی، مگر اُسے پیش کرنے کا زاویہ اور انداز برابر بدلتا رہا۔ قرآن نے اس کے مختلف زاویوں کو پیش کرنے میں ہر دفعہ ایک نیا اسلوب اور نیا پیرایہ اختیار کیا اور ہر مرتبہ یوں محسوس ہوا کہ گویا اُسے پہلی بار ہی چھیڑا گیا ہے۔ قرآن کریم پورے مکی دور میں اسی مسئلہ کی توضیح و تفہیم میں لگا رہا۔ اُس کی نگاہ میں یہ مسئلہ دین اسلام کے تمام مسائل میں اوّلین اہمیت کا حامل تھا۔ یہ عظیم تر مسئلہ اساسی اور اُصولی مسئلہ تھا، عقیدہ کا مسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ دو عظیم نظریوں پر مشتمل تھا: ایک اللہ تعالیٰ کی اُلوہیت اور انسان کی عبودیت اور دوسرے ان کے باہمی تعلق کی نوعیت۔
قرآن کریم اسی بنیادی مسئلے کی تفہیم کے لیے انسان سے بحیثیت ’انسان‘ خطاب کرتا رہا کیونکہ یہ مسئلہ ایسا تھا کہ اُس سے تمام انسانوں کا تعلق یکساں ہے۔ وہ چاہے عرب کے رہنے والے ہوں یا غیر عرب، نزولِ قرآن کے زمانہ کے لوگ ہوں یا بعد کے کسی زمانہ کے لوگ، یہ وہ بنیادی انسانی مسئلہ ہے جس میں کسی ترمیم و تغیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ اس کائنات میں انسان کےوجود و بقا کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے درست فہم کی بنیادپر ہی یہ طے ہوگا کہ انسان کا اِس کائنات میں کیا مقام ہے؟ اور اس کائنات میں بسنے والی دوسری مخلوقات کے ساتھ اُس کا کیا تعلق ہے؟ اور خو د کائنات اور موجودات کے خالق کے ساتھ اس کا کیا رشتہ ہے؟ یہ وہ پہلو ہے جس کی وجہ سے اس مسئلے میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ یہ اس کائنات اور کائنات کے ایک حقیر جز انسان سے براہِ راست متعلق ہے۔
مکی زندگی میں قرآن انسان کو یہ بتاتا رہا کہ اس کے اپنے وجود اور اُس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کی اصل حقیقت کیا ہے؟ وہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور کس غرض کے لیے آیا ہے اور آخرکار وہ کہاں جائے گا؟ وہ معدوم تھا، اُسے کس انجام سے دوچار ہونا ہوگا؟ وہ انسان کو یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے جسے وہ محسوس تو کرتا ہے لیکن دیکھ نہیںپاتا؟ اس طلسماتی کائنات کو کس نے وجود بخشا اور کون اس کا منتظم و مُدبر ہے؟ کون اسے گردش دے رہا ہے؟ کون اسے باربار نیا پیراہن بخشتا ہے؟ کس کے ہاتھ میں ان تغیرات کا سررشتہ ہے، جن کا ہرچشمِ بینا مشاہدہ کر رہی ہے؟ وہ اُسے یہ بھی سکھاتا ہے کہ خالق کائنات کے ساتھ اس کا رویہ کیساہونا چاہیے؟ اور خود کائنات کے بارے میں اسے کیا رَوِش اختیار کرنی چاہیے؟ اس کے ساتھ ساتھ ہی وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ انسانوں کے باہمی تعلقات کیسے ہونے چاہییں؟
یہ ہے وہ اصل اور بنیادی مسئلہ، جس پرانسان کی بقا اور وجود کا دارومدار ہے اور رہتی دُنیا تک اسی عظیم مسئلے پر انسان کی بقا اور وجود کا انحصار رہے گا۔اس اہم مسئلے کی تحقیق و توضیح وتفہیم میں مکّی زندگی کا پورا تیرہ سالہ دور صرف ہوا۔ اس لیے کہ انسانی زندگی کا بنیادی مسئلہ یہی ہے، اور اس کے بعد جتنے مسائل ہیں وہ اسی مسئلہ کے تقاضے میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت اس مسئلہ کی تفصیلات اور جزئیات سے زیادہ کچھ نہیں۔ قرآن نے مکی دور میں اسی بنیادی مسئلے کو اپنی دعوت کا مدار بنائے رکھا اور اس سے صرفِ نظر کرکے اسلامی نظامِ حیات کی فروعی اور ضمنی بحثوں سے تعرض نہیں کیا اور اُس وقت تک انھیں نہیں چھیڑا جب تک علمِ الٰہی نے یہ فیصلہ نہیں فرما دیا کہ اب اس مسئلہ کی توضیح و تشریح کا حق ادا ہوچکا اور یہ مسئلہ اس جماعت کے دلوں میں پوری طرح جاگزیں ہوچکا ہے، جسے حکمت ِالٰہی اقامت ِدین کا ذریعہ بناکر اس کے ہاتھوں اس دین کو عملی شکل میں برپا کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
جو لوگ دینِ حق کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں اور وہ دُنیا کے اندر ایک ایسا نظام برپا کرنا چاہتے ہیں جو بالفعل اس دین کی نمائندگی کرے، انھیں اس عظیم حقیقت کے مختلف پہلوئوں پر غوروفکر کرنا چاہیے، کیونکہ یہی وہ حقیقت ہے جسے راسخ کرنے کے لیے قرآن کریم نے مکی زندگی کے پورے ۱۳برس صرف کیے، اور کبھی اس سے توجہ ہٹاکر نظامِ زندگی کی دوسری تفصیلات کو نہیں چھیڑا، نہ ان قوانین و احکام کو بیان کرنے کی حاجت محسوس کی جو آگے چل کر مسلم معاشرے میں نافذ ہونے والے تھے۔
کارِ رسالت ؐ کا آغاز
یہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ تھی کہ آغازِ رسالت ہی میں اس اہم مسئلہ کو جو عقیدہ و ایمان کا مسئلہ ہے دعوت کا مرکزو محور بنایا جائے۔ گویا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم راہِ حق میں پہلا قدم ہی اس دعوت سے اُٹھائیں: ’’لوگو! گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘‘ اور پھر اسی دعوت کی توضیح و اشاعت و تفہیم پر اپنا تمام وقت اور صلاحیتیں صرف کردیں۔ انسانوں کو ان کے خالقِ حقیقی سے روشناس کرکے انھیں صرف اسی کی بندگی کی راہ پر لگائیں۔
اگر ظاہربین نگاہ اور محدودانسانی عقل کی روشنی میں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عرب اس طریقِ دعوت سے بآسانی رام ہونے والے نہیں تھے۔ عرب اپنی زبان دانی کی بدولت ’اللہ‘کا مفہوم اور ’لا الٰہ الا اللہ‘ کا مُدعا خوب سمجھتے تھے۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اُلوہیت سے مراد حاکمیت اعلیٰ ہے۔ وہ اس امر سے بھی کماحقہٗ آگاہ تھے کہ اُلوہیت کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص گرداننے کے صاف معنی یہ ہیں کہ اقتدار پورے کا پورا کاہنوں، پروہتوں، قبائل کے سرداروں اور امراء و حکام کے ہاتھ سے چھین کر اللہ کی طرف لوٹا دیا جائے۔ ضمیروقلب پر، مذہبی شعائر و مناسک پر، معاملاتِ زندگی پر، مال و دولت اور عدل و قضا، الغرض اَرواح واجسام پر اللہ اور صرف اللہ ہی کا اقتدار ہو۔
وہ خوب جانتے تھے کہ ’لا الٰہ الا اللہ‘ کا اعلان درحقیقت اِس دُنیاوی اقتدار کے لیے ایک چیلنج ہے جس نے اُلوہیت کی سب سے بڑی خصوصیت (حاکمیت) کو غصب کر رکھا ہے۔ یہ ان تمام قوانین اور نظاموں کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے جو اس غاصبانہ قبضہ کی بنیاد پر وضع کیے جاتے ہیں، اور ان تمام قوتوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جو خانہ ساز شریعتوں کی بدولت دُنیا میں کوس لمن الملک بجاتی ہیں۔ عرب اپنی زبان کے نشیب و فراز سے بخوبی آگاہ تھے اور وہ لا الٰہ الا اللہ کے حقیقی مفہوم کو پوری طرح سمجھ رہے تھے۔ ان سے یہ امر بھی پوشیدہ نہ تھا کہ ان کے خود ساختہ نظاموں اور ان کی پیشوائی اور قیادت کے ساتھ یہ دعوت کیا سلوک کرنا چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے اُنھوں نے اِس دعوت یا بالفاظِ دیگر اس پیامِ انقلاب کا اس تشدداور غیظ و غضب کے ساتھ استقبال کیا اور اس کے خلاف وہ معرکہ آرائی کی جس سے ہرخاص و عام واقف ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دعوت کا آغاز اس انداز سے کیوں ہوا؟ اور حکمت الٰہی نے کس بناپر یہ فیصلہ کیا کہ اس دعوت کا افتتاح ہی مصیبتوں اور آزمایشوں سے ہو؟
قومیّت کا نعرہ کیوں نہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ کی طرف سے دینِ حق کی تنزیل و اشاعت و غلبہ کی جدوجہد کے لیے مبعوث ہوئے تو اس وقت حالت یہ تھی کہ عرب کے سب سے زیادہ شاداب و زرخیز اور مال دار علاقے عربوں کے ہاتھ میں نہیں تھے بلکہ دوسری اقوام ان پر قابض تھیں۔ شمال میں شام کے علاقے رومیوں کے زیرِنگیں تھے، جن پرعرب حکام رومیوں کے زیرِسایہ حکومت چلارہے تھے۔ جنوب میں یمن کا پورا علاقہ اہلِ فارس کے قبضے میں تھا، جنھوں نے اپنے ماتحت عرب شیوخ کو فرائضِ حکمرانی سونپ رکھے تھے۔ عربوں کے پاس صرف حجاز اور تہامہ اور نجد کے علاقے تھے،یا وہ بے آب و گیاہ صحرا تھے جن میں اِکا دُکا نخلستان پائے جاتے تھے۔
یہ بات بھی کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم میں صادق اور امین کی حیثیت سے معروف تھے۔ آغازِ رسالتؐ سے پندرہ سال قبل اشرافِ قریش حجراَسود کے تنازعہ میں آپ کو اپنا حَکم بناچکے تھے اور آپؐ کے فیصلے کو بخوشی مان چکے تھے۔ نسب کے لحاظ سے بھی آپؐ بنوہاشم کے چشم و چراغ تھے جو قریش کا معزز ترین خاندان تھا۔ اِن حالات و اسباب کی بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر پوری طرح قادر تھے کہ اپنے ہم وطنوں کے اندرعرب قومیت کے جذبے کو بھڑکاتے اور اِس طرح ان قبائلِ عرب کو اپنے گرد جمع کرلیتے، جنھیں باہمی جھگڑوں نے پارہ پارہ کر رکھا تھا اور جو کشت و خون اور انتقام در انتقام کی چکّی میں بُری طرح پسے ہوئے تھے۔ حضوؐر اگر چاہتے تو ان سب عربوںکو ایک جھنڈے تلے جمع کرکے انھیں قومیت کا درس دیتے اور شمال کے رُومی اور جنوب کے ایرانی استعمار کے تسلط سے عرب سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے۔ عرب کے تمام اَطراف و اکناف کو ملا کر متحدہ عرب ریاست کی داغ بیل ڈال دیتے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قوم پرستی کے نعرہ کو لے کر اُٹھتے تو عرب کا بچہ بچہ اس پر لبیک کہتا ہوا لپکتا، اور آپؐ کو وہ مصائب و آلام نہ سہنے پڑتے جو آپؐ کو تیرہ برس تک صرف اس بنا پر سہنے پڑے کہ آپؐ کی دعوت اور نظریہ جزیرۃُ العرب کے فرماں روائوں کی خواہشات سے متصادم تھا۔ مزید برآں یہ بھی حقیقت ہے کہ آپؐ میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ جب عرب آپؐ کی قومی دعوت کو جوش و خروش کے ساتھ قبول کرچکتے، قیادت کا منصب آپؐ کو سونپ دیتے اور اقتدار کی ساری کنجیاں پوری طرح ؐ کے قبضے میں آجاتیں ، اور رفعت و عظمت کا تاج آپؐ کے مبارک سر پر رکھ دیاجاتا، توآپؐاپنی اس بے پناہ طاقت اور اثر کو عقیدئہ توحید کا سکّہ رواں کرنے کے لیے استعمال فرماتے، اور لوگوں کو اپنے انسانی اقتدار کے سامنے سر نگوں کرنے کے بعد اللہ سبحانہ کے آگے سرنگوں کر دیتے۔
لیکن اللہ علیم و حکیم نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس راستے پر نہیں چلایا، بلکہ انھیں حکم دیا کہ صاف صاف اعلان کردیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور ساتھ ہی متنبہ بھی کردیا کہ اس اعلان کے بعد آپؐ خود اور وہ مٹھی بھر افراد جو اس اعلان پر لبیک کہیں، ہرقسم کی تکلیف و اذیت برداشت کرنے کے لیے بھی تیار رہیں۔
قوم پرستی اختیار نہ کرنے کی وجہ
آخر کٹھن راستہ اللہ تعالیٰ نے کیوں منتخب فرمایا؟ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کے حق میں یہ تو ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ وہ تشدد اور ظلم کا نشانہ بنیں۔ لیکن ربّ العزت کے علم میں تھا کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ اس دعوت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔ اور نہ یہ کوئی معقول بات ہوتی کہ اللہ کے بندے رُومی یا ایرانی طاغوت کے پنجے سے نجات پاکر عرب طاغوت کے پنجے میں گرفتار ہوجاتے۔ ملک سارے کا سارا صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کا ہے اور اس پر صرف اللہ ہی کا اقتدار قائم ہونا چاہیے اور اللہ کا اقتدار صرف اس صورت میں قائم ہوسکتا ہے کہ اس کی فضائوں میں صرف لا الٰہ الا اللہ کا پرچم لہرائے۔ یہ بات کیوںکر مقبول اور درست ہوسکتی تھی کہ اللہ کی زمین پر بسنے والی مخلوق رومی اور ایرانی طاغوتوں سے نجات پاتے ہی عربی طاغوت کا طوقِ غلامی اپنے گلے میں ڈال لے۔
طاغوت جس قبا میں بھی ہو وہ طاغوت ہے۔ انسان صرف اللہ سبحانہٗ کے بندے اور غلام ہیں اور وہ صرف اسی صورت میں صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے بندے اور غلام رہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں صرف اللہ ہی کی اُلوہیت کا بول بالا ہو۔ ایک عرب لا الٰہ الا اللہ کا لغوی لحاظ سے جو مفہوم سمجھتا تھا وہ یہ تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو، اللہ کے سوا کوئی اور ہستی قانون اور شریعت کا منبع و ماخذ نہ ہو، اور انسان کا انسان پر غلبہ و اقتدار باقی نہ رہے، کیونکہ اقتدار صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اور اسلام انسانوں کے لیے جس ’قومیت‘ کا علَم بردار ہے وہ اسی عقیدہ کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔ تمام اقوام خواہ وہ کسی رنگ ونسل کی ہوں، عربی ہوں یا رومی یا ایرانی، سب اس عقیدہ کی نگاہ میں پرچمِ الٰہی کے تحت مساویانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ قرآن کے نزدیک اسلامی دعوت کا یہی صحیح اور فطری طریقِ کار ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدل و انصاف کے صحت مندانہ نظام سے یکسر بیگانہ ہوچکا تھا۔ ایک قلیل گروہ تمام مال و دولت اور تجارت پر قابض تھا اور سودی کاروبار کے ذریعے اپنی تمام تجارت اور سرمائے کو برابر بڑھاتا اور پھیلاتا جارہا تھا۔ اس کے مقابلے میں ملک کی غالب اکثریت مفلوک الحال اور بھوک کا شکار تھی۔ جن لوگوں کے ہاتھ میںدولت تھی وہی عزّت و شرافت کے اجارہ دار تھے۔ رہے بیچارے عوام تو وہ جس طرح مال و دولت سے تہی دامن تھے، اسی طرح عزّت و شرافت سے بھی محروم تھے۔
اس صورتِ حال کے پیش نظر سوال پیدا ہوتا ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اجتماعی اقتصادی تحریک کیوں نہ اُٹھائی اور دعوت کا مقصد دولت کی منصفانہ تقسیم ٹھیرا کر اُمراء و شرفاء کے خلاف طبقاتی جنگ کیوں نہ چھیڑی تاکہ سرمایہ داروں سے محنت کش عوام کو اُن کا حق دلواتے؟ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس دور میں ایسی کوئی اجتماعی اقتصادی تحریک اور دعوت لے کر اُٹھتے توعرب معاشرہ لازماً دو طبقوں میں بٹ جاتا۔ مگر غالب اکثریت تو آپؐ کی تحریک کا ہی ساتھ دیتی اور سرمایۂ جاہ و شرف کی ستمگری کے سامنے ڈٹ جاتی اور آپؐ کی اس تحریک کے مقابلے میں وہ معمولی سی اقلیت ہی رہ جاتی جو اپنے پشتینی مال و جاہ سے چمٹی رہتی۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہج اختیار فرماتے تو قرین قیاس ہے کہ زیادہ مؤثر اور کارگر ہوتا۔ اور یہ صورت پیش نہ آتی کہ پورا معاشرہ لا الٰہ الا اللہ کے اعلان کے خلاف صف آرا ہوجائے اور صرف چند نادرِ روزگار ہستیاں ہی دعوتِ حق کے اُفق تک پہنچ سکیں۔
کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ صلاحیت بدرجۂ کمال موجود تھی کہ جب اکثریت آپؐ کی تحریک سے وابستہ ہوکر اپنی زمامِ کار آپؐ کے ہاتھ میں دے دیتی اور آپؐ دولت مند اقلیت پر قابو پاکر اس کو اپنا مطیع وفرماں بردار بناچُکتے، تو آپؐ اپنے اس منصب و اِقتدار کو اور پوری قوت و طاقت کو اس عقیدئہ توحید کے منوانے اور اسے قائم و راسخ کرنے میں استعمال فرمالیتے جس کے لیے دراصل اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپؐ انسانوں کو اپنے اقتدار کے آگے جھکا کر انھیں خالقِ حقیقی کے آگے جھکا دیتے۔
لیکن اللہ علیم و حکیم نے آپؐ کو اس طریق کار پر بھی نہیں چلایا۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ طریقِ کار دعوتِ اسلامی کے لیے موزوں اور مناسب نہیں ہے۔ وہ جانتا تھا کہ معاشرے کے اندر حقیقی اجتماعی انصاف کے سوتے صرف ایک ہمہ گیر نظریہ کے چشمۂ صافی سے ہی پھوٹ سکتے ہیں جو معاملات کی زمامِ کار کلیتاً اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے ہاتھ میں دیتا ہو اور جو معاشرہ ہر اس فیصلے کو برضاورغبت قبول کرتا ہو، جو دولت کی منصفانہ تقسیم اور اجتماعی کفالت کے بارے میں بارگاہِ الٰہی سے صادر ہو، اور معاشرے کے ہرفرد کے دل میں، دینے والے کے دل میں بھی اور پانے والے کے دل میں بھی یہ بات پوری طرح نقش ہوکہ وہ جس نظام کو نافذ کر رہا ہے اس کا شارع خود اللہ سبحانہٗ تعالیٰ ہے، اور اس نظام کی اطاعت سے وہ نہ صرف دُنیا بلکہ آخرت میں بھی فلاح پائےگا۔
معاشرے کی یہ کیفیت نہ ہو کہ کچھ انسانوں کے دل حسدوکینہ کی آگ میں جل رہے ہوں۔ معاشرے کے تمام معاملات تلوار اور ڈنڈے کے زور پر طے کیے جارہے ہوں اور انسانوں کے دل ویران اور ان کی روحیں دم توڑ رہی ہوں۔ جیساکہ آج ان نظاموں کے تحت ہورہا ہے جو غیراللہ کی اُلوہیت پر قائم ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جزیرۃ العرب کی اخلاقی سطح ہرپہلو سے انحطاط کے آخری کنارے تک پہنچی ہوئی تھی۔ صرف چند بدویانہ فضائلِ اخلاق خام حالت میں موجود تھے۔ ظلم اور جارحیت نے معاشرے کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جاہلی دور کا نامور شاعر زہیر ابن ابی سلمیٰ اسی معاشرتی فساد کی طرف اپنے اس شعر میں حکیمانہ انداز سے اشارہ کرتا ہے:
ومن لم یرد عن حوضہٖ بسلاحہٖ
یُھدّم ومن لا یظلم النَّاس یُظلم
[جو ہتھیار کی طاقت سے اپنا دفاع نہیں کرے گا، تباہ و برباد ہوگا اور جو خود بڑھ کر لوگوں پر ظلم نہیں کرے گا وہ خود (بالآخر) ظلم کا شکار ہوجائے گا۔]
اسی خرابی کی طرف جاہلی دور کا یہ مشہور و معروف مقولہ بھی اشارہ کرتا ہے:
اُنْصُرْ اَخَاکَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُوْمًا، اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظلم کر رہا ہو یا اُس پر ظلم ہورہا ہو۔
شراب خوری اور جوا بازی معاشرتی زندگی کی روایت بن چکے تھے، اور ان پر فخر کیا جاتا تھا۔ جاہلی دور کی تمام شاعری خُمر اور قمار کے محور پر گھومتی ہے۔ طرفہ ابن العبد کہتا ہے:
فلولا ثلاث ھن من عیشۃ الفتٰی
وجدّک لم احفل متی قام عوَّدی
[اگر تین چیزیں جو ایک نوجوان کی زندگی کا لازمہ ہیں نہ ہوتیں، تو مجھے کسی چیز کی پروا نہ رہتی بشرطیکہ مجھے تابسدِ رمق غذا ملتی رہتی۔]
فمنھن سبقی العاذلات بشربۃٍ
کمیت متی ما تعدّ بالماء تزید
[ان میں سے ایک میرا اپنے رقیبوں سے مَے نوشی میں سبقت لے جانا ہے، اور مَے بھی وہ دوآتشہ جس میں اگر پانی ملایا جائے تو اس پر کف آجائے۔]
وما ذال تشرابی الخمور ولذّتی
وبذلی وانفاقی طریفی ومتلدی
شراب نوشی، لذت پرستی میں میری رغبت ہے، اور میرا طریقہ ہے کہ کھلا خرچ کروں اور دوسروں پر نثار کروں۔
الٰی ان تحامتنی العشیرۃ کلّھا
وافردت افراد البعیر المعبّد
[یہاں تک کہ میرا پورا قبیلہ مجھ سے دُور ہٹ جائے اور مَیں الگ تھلگ کر دیا جائوں، جیسے کہ خارش زدہ اُونٹ کو گلّہ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔]
زناکاری مختلف شکلوں میں رائج تھی اور اس جاہلی معاشرے کی قابلِ فخر روایت بن چکی تھی۔یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں ہردور کا جاہلی معاشرہ عریاں نظر آتا ہے، خواہ وہ دورِ قدیم کا جاہلی معاشرہ ہو یا عہد ِ حاضر کا (نام نہاد مہذب معاشرہ)۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے جاہلی معاشرے کی حالت ان الفاظ میں بیان کی ہے:
جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک تو وہ صورت تھی جو آج لوگوں میں جاری ہے، یعنی ایک آدمی دوسرے شخص کو اس کی بیٹی یا اس کی تولیّت میں رہنے والی دوشیزہ کے لیے پیغامِ نکاح دیتا اور اس کا مہر ادا کرکے اس سے نکاح کرلیتا۔ نکاح کی دوسری صورت یہ تھی کہ مرد اپنی بیوی سے، جب کہ وہ حیض سے پاک ہوچکی ہوتی، کہتا کہ فلاں شخص کو بلا، اور اُس سے پیٹ رکھوا۔ چنانچہ وہ خود اس سے الگ رہتا اور اس وقت تک نہ چھوتا جب تک اُس آدمی کے حمل کے آثار ظاہر نہ ہوجاتے۔ آثار ظاہر ہوجانے کے بعد خاوند اگر چاہتا تو اس سے ہم بستری کرلیتا۔وہ یہ طریقہ اس لیے اختیار کرتا، تاکہ اُسے اپنے سے اچھے نسب کا لڑکا ملے۔ نکاح کی اس شکل کو استبضاع کہا جاتا ہے۔
نکاح کی ایک تیسری صورت بھی تھی۔ مردوں کی ایک ٹولی جو دس سے کم ہوتی، جمع ہوجاتی اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتی، اور اُس سے مقاربت کرتی۔ جب اُسے حمل ٹھیر جاتا تو بچے کی ولادت پر چند راتیں گزر جانے کے بعد وہ اُن سب کو بلا بھیجتی۔ اس طرح بلاوا ملنے پر کوئی شخص جانے سے انکار نہ کرسکتا تھا۔ جب وہ اُس کے پاس جمع ہوجاتے، تو وہ عورت اُن سے کہتی: تمھیں اپنی کارروائی کا نتیجہ تو معلوم ہوہی چکا ہے۔ میں نے ایک بچہ جنا ہے۔ پھر وہ اُن میں سے ایک کی طرف اشارہ کرکے کہتی کہ یہ تیرا بیٹا ہے۔ اس پر بچّے کا نام اُس شخص کے نام پر رکھ دیا جاتا، اور لڑکا اُس کی طرف منسوب ہوجاتا اور وہ اِس نسبت سے انکار نہ کرسکتا تھا۔
نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہوجاتے اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتے، جس کے پاس جانے میں کسی کو کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی۔ دراصل یہ پیشہ ور فاحشہ عورتیں تھیں اور علامت کے طور پر اپنے دروازوں پر جھنڈے نصب کرلیتیں۔ جو شخص بھی اپنی حاجت پوری کرنا چاہتا، اُن کے پاس چلا جاتا۔ ایسی عورتوں میں سے اگر کسی کو حمل ٹھیرجاتا تو وضع حمل کے بعد سارے لوگ اُس کے پاس اکٹھے ہوجاتے، اور ایک قیافہ شناس کو بلا لیتے۔ وہ اُن میں سے جس کی طرف اس لڑکے کو منسوب کرتا وہ لڑکا اس شخص کا قرار پاتا اور وہ اُس سے انکار نہ کرسکتا۔(بخاری، کتاب النکاح)
سوال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ایک اصلاحی تنظیم کے قیام کا اعلان کرکے اس کے ذریعے اصلاحِ اخلاق، تزکیۂ نفوس اور تطہیرِ معاشرہ کا کام شروع کر دیتے۔ کیونکہ جس طرح ہرمصلحِ اخلاق کو اپنے ماحول کے اندر چند پاکیزہ اور سلیم الفطرت نفوس ملتے رہے ہیں، اسی طرح آپؐ کو بھی ایک ایسا پاک سرشت گروہ بالیقین دستیاب ہوجاتا جو اپنے ہم جنسوں کے اخلاقی انحطاط اور زوال پر دلی دُکھ محسوس کرتا۔ یہ گروہ اپنی سلامتی ٔ فطرت اور نفاستِ طبع کے پیش نظر آپؐ کی دعوتِ تطہیر و اصلاح پر لازماً لبیک کہتا۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کا بیڑا اُٹھاتے تو بڑی آسانی سے اچھے انسانوں کی ایک جماعت کی تنظیم میں کامیاب ہوجاتے۔ یہ جماعت اپنی اخلاقی طہارت اور روحانی پاکیزگی کی وجہ سے دوسرے انسانوں سے بڑھ کر عقیدئہ توحید کو قبول کرنے اور اُس کی گراں بار ذمہ داریوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتی اور اس حکیمانہ آغاز سے آپ کی یہ دعوت کہ اُلوہیت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے، پہلے ہی مرحلہ میں تُند و تیز مخالفت سے دوچار نہ ہوتی۔
یہ راستہ بھی منزلِ مقصود کو نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے یہ معلوم تھا کہ اخلاق کی تعمیر صرف عقیدہ کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے۔ ایک ایسا عقیدہ جو ایک طرف اخلاقی اقدار اور معیارِ ردّوقبول فراہم کرے اور دوسری طرف اس بالاتر قوت کا تعین بھی کرے، جس سے یہ اقدار و معیارات ماخوذ ہوں، اور انھیں سند کا درجہ حاصل ہو اور اُس جزاوسزا کی نشان دہی بھی کرے جو اِن اقدار و معیارات کی پابندی یا اُن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اُس بالاتر قوت کی طرف سے دی جائے گی۔ دلوں پر اِس نوعیت کے عقیدہ کی تفہیم اور بالاتر قوت کے تصور کے بغیر اقدارومعیارات خواہ وہ کتنے ہی بلندپایہ کیوں نہ ہوں مسلسل تغیر کا نشانہ بنے رہیں گے، اور ان کی بنیاد پر جو بھی اخلاقی نظام قائم ہوگا وہ ڈانواں ڈول ہی رہے گا۔ چنانچہ اُس کے پاس کوئی ضابطہ نہ ہوگا، کوئی نگران اور محتسب طاقت نہ ہوگی، کیونکہ دل جزا و سزا کے کسی لالچ یا خوف سے بالکل خالی ہوں گے۔
صبر آزما کوششوں سے جب عقیدئہ اُلوہیت دلوں میں راسخ ہوگیا اور اس ہمہ گیر بالاتر قوت کا تصور بھی دلوں میں اُتر گیا جس سے اِس عقیدہ کو سند حاصل ہوتی تھی، دوسرے لفظوں میں جب انسانوں نے اپنے ربّ کو پہچان لیا اور صرف اُسی کی بندگی کرنے لگے، جب انسان خواہشاتِ نفس کی غلامی سے، اور اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کی آقائی سے آزاد ہوگئے اور لا الٰہ الا اللہ کا تصور دلوں میں پوری طرح نقش ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ کے ماننے والوں کے ذریعے وہ سب کچھ عطا فرما دیا جو وہ تصور کرسکتے تھے۔ اللہ کی زمین رُومی اور ایرانی سامراج سے پاک ہوگئی، لیکن اس تطہیر کا مُدعا یہ نہیں تھا کہ اب اللہ کی زمین پر عربوں کا سکّہ رواں ہو بلکہ یہ انقلاب اس لیے تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ ہی کا بول بالا ہو۔ چنانچہ زمین اللہ کے سب باغیوں سے، خواہ وہ رُومی تھے یا ایرانی یا عربی پاک کردی گئی۔
نیا اسلامی معاشرہ ظلم اور لُوٹ کھسوٹ سے بالکل پاک تھا۔ یہ اسلامی نظام تھا اور اس میں عدلِ الٰہی پوری طرح جلوہ گر تھا۔ یہاں صرف میزانِ الٰہی میں ہر صحیح و غلط کو تولا جاتا تھا۔ اِس عدلِ اجتماعی کی بنیاد توحید تھی اور اس کا اصطلاحی نام ’اسلام‘ تھا۔ اس کے ساتھ کسی اور نام یا اصطلاح کا اضافہ کبھی گوارا نہیں کیا گیا۔ اس پر صرف یہ عبارت کندہ تھی: ’لا الٰہ الا اللہ‘۔
نفوس اور اخلاق میں نکھار آگیا۔ قلوب و اَرواح کا تزکیہ ہوگیا اور یہ اصلاح اس انداز سے ہوئی کہ چند مستثنیٰ مثالوں کو چھوڑ کر ان حدود و تعزیرات کے استعمال کی نوبت ہی نہ آئی، جن کو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا تھا۔ اس لیے کہ اب ضمیروں کے اندر پولیس کی چوکیاں قائم ہوگئیں۔ اب اللہ کی خوشنو دی کی طلب، اجر کی خواہش، اللہ کے غضب اور عذاب کا خو ف محتسب کا فرض انجام دے رہا تھا۔ الغرض انسانی نظام، انسانی اخلاق اور انسانی زندگی کمال کی اُس بلندی تک پہنچ گئی جس تک نہ پہلے کبھی پہنچی تھی، اور نہ صدرِ اوّل کے بعد آج تک پہنچ سکی ہے۔
یہ انقلابِ عظیم اور کمالِ انسانیت صرف اِس بنا پر حاصل ہوا کہ جن لوگوں نے دینِ حق کو ایک ریاست، ایک نظام اور جامع قانون وشریعت کی شکل میں قائم کیا تھا، وہ خود پہلے اسے اپنے قلب و ضمیر اور اپنی زندگی میں قائم کرچکے تھے۔ اسے عقیدہ و فکر کے طور پر تسلیم کرچکے تھے۔ اپنے اخلاق کو اس سے آراستہ و پیراستہ کرچکے تھے، اپنی عبادات میں اسے سند کا درجہ دے چکے تھے اور اپنے معاملات میں اس کا سکّہ رواں کرچکے تھے۔ اُس دین کی اقامت پر اُن سے صرف ایک ہی وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ وعدہ ان کے غلبہ و اقتدار کا وعدہ نہ تھا، حتیٰ کہ یہ وعدہ بھی نہ تھا کہ یہ دین لازماً انھی کے ہاتھوں غالب ہوگا۔ یہ وعدہ اس دُنیا کی کسی بھی چیز سے متعلق نہ تھا، ایک ہی وعدہ جو ان سے کیا گیا تھا وہ جنّت کا وعدہ تھا۔ یہی ایک وعدہ تھا جو صبر آزما جہاد اور زُہرہ گداز آزمایشیں جھیلنے اور پامردی و استقامت کے ساتھ راہِ دعوت پر رواں دواں رہنے اور پھر جاہلیت کا مقابلہ لا الٰہ الا اللہ میں پنہاں حقیقت کبریٰ کے ساتھ کرنے پر ان سے کیا گیا تھا۔ لا الٰہ الا اللہ میں پنہاں حقیقت کبریٰ جو ہر زمان و مکان کے فرماں روائوں کے لیے ناگوار رہی ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے انھیں آزمائش کی بھٹی میں ڈالا اور وہ ثابت قدم رہے اور ہرنفسانی خواہش اور حظ سے دست بردار ہوگئے، اور جب اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ وہ اب کسی طور پر کسی دُنیاوی جزا اور صلہ کے منتظر نہیں، نہ انھیں اس کا ہی انتظار ہے کہ یہ دعوت لازماً اُن ہی کے ہاتھوں غلبہ حاصل کرے، اور یہ دین ان ہی کی قربانیوں اورکوششوں سے بالاو برتر ہو، ان کے دلوں میں نہ آبا واجدادکا تفاخر باقی رہا ہے، نہ قومی گھمنڈ کے جراثیم، نہ وطن و ملک کی بڑائی کا جذبہ اور نہ قبائلی اور نسبی عصبیتوں کی خُوبُو۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انھیں ان خوبیوں سے آراستہ دیکھا، تب جاکر اُن کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ یہ لوگ اب ’امانت عظمیٰ‘ (یعنی خلافت ِ ارضی) کے بار کو اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس عقیدے میں کھرےہیں جس کا تقاضا ہے کہ ہرطرح کی حاکمیت صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہو، دل و ضمیر پر، اخلاق و عبادات پر، جان و مال پر، اور حالات و ظروف پر صرف اُسی کی حاکمیت ہو۔ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ یہ اس سیاسی اقتدار کے سچے محافظ ثابت ہوں گے، جو اُن کے ہاتھوں میں اس غرض کے لیے دیا جائے گا تاکہ شریعت الٰہی کو نافذ کریں اور عدلِ الٰہی کو قائم کریں، مگر اس اقتدار میں سے ان کی اپنی ذات کے لیے یا اپنی قوم کے لیے کوئی حصہ نہ ہو۔ بلکہ وہ حاکمیت سراسر اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو اور اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی خدمت کے لیے ہو، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقتدار کا منبع صرف اللہ ہی ہے اور اُسی نے اسے ان کی تحویل میں دیا ہے۔
اگر دعوتِ اسلامی کا قافلہ اس انداز سے روانۂ سفر نہ ہوتا، اور دوسرے تمام جھنڈوں کو پھینک کر صرف اسی جھنڈے یعنی ’لا الٰہ الا اللہ‘ کے پرچمِ توحید کو بلند نہ کرتا، اور اس راہ کو اختیار نہ کرتا جو ظاہر میں دشوار گزار اور جاں گسل راہ تھی، مگر حقیقت میں آسان اور بابرکت تھی، تو اِس مبارک اور پاکیزہ نظام کا کوئی جز بھی اتنے بلند معیار کے ساتھ ہرگز بروئے عمل نہ آسکتا تھا۔ اِسی طرح اگر یہ دعوت اپنے ابتدائی مراحل میں قومی نعرہ بن کر سامنے آتی یا اقتصادی تحریک کے لبادے میں ظاہر ہوتی، یا اصلاحی مہم کا قالب اختیار کرتی، یا ’لا الٰہ الا اللہ‘ کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے شعار اور نعرے بھی شامل کرلیتی، تو یہ پاکیزہ و مبارک نظام جو اس دعوت کے نتیجے میں قائم ہوا، کبھی خالص ربانی نظام بن کر جلوہ گر نہ ہوسکتا۔