نام نہاد جدید تہذیب، بدترین بے عملی کا مظہر اقوام متحدہ اور شرمناک غلامی کی منہ بولتی تصویر ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کے سامنے غزہ دم توڑ رہا ہے، مگر جدید تہذیب اور ان اداروں کی طرف سے چند قراردادیں اور منافقت پر مبنی تقریروں کے سوا کچھ سامنے نہ آسکا۔ امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل قتل عام اور نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔ استاد وصفی عاشور ابوزید قرآن و سنت کی روشنی میں اس صورتِ حال کے تناظر میں لکھتے ہیں:
زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں کہ جن سے گزرتے ہوئے انسان محسوس کرتا ہے کہ زمین اس کے قدموں کے نیچے سے نکل گئی ہو۔ ایسی صورتِ حال میں انسان آرزو کرتا ہے کہ کاش! زمین اس کو نگل لیتی، یا اس کی ماں نے اس کو جنم ہی نہ دیا ہوتا۔ قرآن مجید حضرت مریم ؑ پر طاری ہونے والی ایسی ہی کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے:
يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَكُنْتُ نَسْـيًا مَّنْسِـيًّا۲۳ (مریم ۱۹:۲۳) کاش! میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا۔
اس حالت میں زبان پر جاری الفاظ میں کوئی ترتیب ہوتی ہے نہ ذہن میں معانی و مفاہیم کا احساس باقی رہتا ہے۔ سینہ تنگ اور زبان گنگ ہوجاتی ہے۔قرآنِ مجید نے اس حالت کو ایک جامع لفظ’زلزلہ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ زلزلہ محض زمین کی تھرتھراہٹ اور ہلچل کا نام نہیں بلکہ یہ پورے وجدان و شعور کی اُس سنسناہٹ کا نام بھی ہے، جو ابتلا و تعذیب کی شدت سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۰ۭ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۲۱۴ (البقرہ ۲:۲۱۴) پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنّت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، وہ ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اُس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت اُنھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں، اللہ کی مدد قریب ہے۔
یہ آیت دو افق ہمارے سامنے لاتی ہے:
۱- حقیقت:یہ حقیقت کہ ’ایمان‘ ایک آسمانی عطیہ ہے مگر اس کی جانچ اور پرکھ زمین پر ہوتی ہے۔ یہ ’لفظ‘ بہت بڑی قیمت ادا کر کے اور بہترین قربانیاں پیش کر کے اپنی تکمیل کوپہنچتا ہے۔
۲- عزیمت: عزیمت کا یہ درس کہ ابتلا و آزمائش اور تعذیب و تشدد کسی شخص یا فرد کی انفرادی حالت نہیں ہوتی جو صرف اسی کے ساتھ مخصوص ہو بلکہ یہ ہراُس فرد کی قسمت اور تقدیر ہے جو بھی اس راہِ نبوت پر گامزن ہوگا۔ یہ ’زلزلہ‘ امتحان کی چوٹی ہے۔ وہ دروازہ ہے جس پر فتح و نصرت کے دروازے کھلنے سے پہلے دستک دینا پڑتی ہے۔ کوئی فتح اور کوئی نصرت اس تجربے کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
اس آیت میں کوئی سختی نہیں ہے، بلکہ اللہ کی رحمت ہے اور اس کی طرف سے خبردار کیا گیا ہے جو مومن کو اپنی کمزوری و عاجزی کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اُسے یہ معلوم رہے کہ اللہ کے سوا اُس کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے اور مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ؟ ’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘یہ سوال بیزاری و اُکتاہٹ سے تنگ آچکے دل سے نہیں بلکہ تعذیب کی شدت سے پھٹ جانے کے قریب دل سے نکلنے والا سوال ہے۔ ایسا دل اپنے سوال کو اُس ذاتِ باری کے حضور میں دُعا بنالیتا ہے، زمین و آسمان کی کنجیاں جس کے دست ِ قدرت میں ہیں اور وہی ذات ہے جو کسی کام کے ہوجانے کے لیے ’کُن‘ کہتا ہے تو وہ کام ہوجاتا ہے۔
زلزلہ، فرد کے ساتھ ساتھ معاشرے اور جماعت کے شعور کی بھی تربیت کرتا ہے کہ آپ نے کب تک صبر کرنا ہے؟ کن لوگوں کی صف میں کھڑے ہونا ہے؟ کتنی بڑی قیمت ادا کرنے کی تیاری کرنی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ قرآنی مفاہیم، فرد کی حد تک محدود نہیں ہوتے بلکہ تاریخ اور اُمت کے شعور تک ان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ ’زلزلہ‘ زبانوں پر جاری ہونے والا محض ایک لفظ نہیں، بلکہ ایک مدرسہ ہے، تربیت گاہ ہے، جو صبر کرنے والوں، شہادتِ حق کا اظہار کرنے والوں، اور استقامت و عزیمت کی راہ اختیار کرنے والوں کی ایک نسل کی تیاری ہے۔ اس تربیت گاہ میں صبر کی آزمائش ہوتی ہے، شہادت کی بنیاد استوار کی جاتی ہے، عزیمت کی بلندوبالادیواروں کی تعمیر کی جاتی ہے۔اسی لیے آیت کا اختتام اس وعدے پر ہوا ہے: اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ! یہ زمانی فاصلے سے قریب نصرت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ موقف کی سچائی اور راستے کی استقامت کے اعتبار سے نصرت کی بات ہے۔ اس معنی میں قریب ہے کہ مظلوم کی دُعا کبھی رَد نہیں ہوتی۔ اس مفہوم میں قریب ہے کہ باطل کی عمر بہت محدود ہے اور حق کو ایک لامحدود مدت حاصل ہے۔
زلزلے کے مفہوم کا یہ ادراک کوئی تفسیری خیال آرائی نہیں ہے بلکہ یہ اُس امتحان کا شعور اور احساس ہے جو نسلوںسے دُہراتا چلا آرہا ہے اور آیندہ بھی چلتا رہے گا۔ جو شخص اس مفہوم کو سمجھ لے گا وہ تھرتھراہٹ کی رفتار کا معائنہ کرتے رہنے پر بس نہیں کرے گا بلکہ وہ ملبے کے درمیان سے نکل کر راستے پر آکھڑا ہوگا اور اندھیروں میں روشنی کی شمع جلائے گا۔
غزہ صرف ایک شہر کا نام نہیں، بلکہ وہ خونیں آئینہ ہے جو انسان کے وجدان کو ہلا کر رکھ دینے والے الٰہی امتحان کا عکس پیش کر رہا ہے۔ غزہ میں جو کچھ پیش آیا ہے یہ قرآنی لفظ ’زلزلہ‘ کی ایک مکمل جھلک ہے۔جہاں لفظ و آتش کا ملاپ ہوتا ہے، جہاں معنی خون سے بغل گیر ہوتا ہے، اور جہاں تفسیر کی حقیقی صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ اہل غزہ قحط اور بھوک کی اُس آخری حد تک پہنچ گئے ہیں، جس کی جدید فلسطین، بلکہ انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسیف‘ کی غذائی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ غزہ کے ۹۰ فی صد باشندے اتنی سی غذا سے بھی محروم ہیں جو زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچّے ضروری غذا کی کمی کا بُری طرح شکار ہیں۔ بھوک یہاں شماریات کے گراف میں بیان نہیں ہوسکتی بلکہ اسے بھوک سے بلکتے بچّے کی اُس نحیف آواز کا نام دیا جاسکتا ہے جس کی ماں کے سینے میں بچّے کے لیے ایک گھونٹ دودھ بھی موجود نہیں ہے۔ اسے اُس باپ کی چیخ کہا جاسکتا ہے، جو اپنے بچّے کو روٹی کے ایک ٹکڑے کی کمی کے سبب موت کا شکار ہوتے دیکھتا ہے۔
پانی زندگی کی بنیاد و بقا کا مدار ہے، غزہ میں سونے سے بھی زیادہ مہنگا ہوگیا ہے۔ عالمی ادارئہ صحت بیان کرتا ہے کہ روزانہ ایک آدمی کو بمشکل ہی کچھ پانی میسر آتا ہے۔ یہ محض شماریاتی حد تک بیان کردہ کمی نہیں ہے بلکہ اُس ماں کی کیفیت کا حقیقی منظر ہے، جو پیاس سے لرزتے بچّے کا ہاتھ تھامے کھڑی ہو اور اسے ایک گھونٹ پانی نہ مل سکے، جو اس کے بچّے کی زندگی بچا سکے۔
جب بھوک اور پیاس جسم ہی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے تو پھر محاصرہ جسموں کا نہیں روحوں کا ہونے لگتا ہے۔ ۲۳ لاکھ انسان دُنیا کے تنگ ترین خطۂ زمین میں بستے ہیں۔ ایک طرف سے انھیں سمندر نے گھیر رکھا ہے اور دوسری طرف سے اسرائیلی دیوار نے، آسمان ہی رہ جاتا ہے وہاں سے بھی اُن کے اُوپر ڈرون اور بم برسائے جاتے ہیں۔ ہسپتال تباہ کر دیے گئے ہیں، مساجد منہدم کردی گئیں، یونی ورسٹیاں برباد کردی گئیں، اسکول بچوں کی تعلیم کے بجائے قبرستان بنادیے گئے۔ اقوام متحدہ نے توثیق کی ہے کہ ۵۰۰ سے زائد اسکول اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے، یا انھیں استعمال کے قابل ہی نہیں چھوڑا گیا۔
جبری بے دخلی اس سانحے کا ایک دوسرا سنگین پہلو ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی اُمور کے رابطہ دفتر نے یقینی طور پر بتایا ہے کہ ۱ء۷ ملین سے زائد انسان ان کےگھروں سے نکال دیے گئے۔ ایک بچّہ صبح اپنی ماں کے ساتھ نکلتا ہے تو پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے واپس نہیں آتا۔ بوڑھے ضعیف نے پچاس برس جس مسجد میں نماز ادا کی اُس کی آنکھوں کے سامنے اُسے شہید کر دیا جاتا ہے۔ یہ محض جسمانی انخلا اور بے دخلی نہیں ہے جو مکانوں اور گھروں سے کی جارہی ہے بلکہ اپنی یادداشت، شناخت اور مستقبل سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا جبری عمل ہے جو اہل غزہ پر مسلط کیا گیا ہے۔
اسی پر بس نہیں، اس کے بعد اس سے بھی بڑی آفت ٹوٹتی ہے۔ اجتماعی طور پر نیست و نابود کرنے کا وحشیانہ مظاہرہ ہوتا ہے۔ غزہ میں وزارتِ صحت نے ۷۰ ہزار سے زائد شہداء کی تعداد رپورٹ کی ہے، جن میں آدھی عورتیں اور بچّے ہیں۔ انٹرنیشنل جرنلٹس یونین نے اعلان کیا ہے کہ ایک سو سے زیادہ صحافی قتل کیے گئے ہیں، جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ عالمی قانون کی رُو سے محفوظ ہیں۔ غزہ، جنگ کا میدان نہیں رہا بلکہ مسلّمہ رپورٹوں کے مطابق اجتماعی نسل کشی کا تھیٹر بن گیا ہے۔
مگر اس تمام تر اسرائیلی ظلم وتعدی اور سفاکی و درندگی کے باوجود غزہ کا شہری پہاڑ جیسی استقامت سے کھڑا ہے۔ چھوٹا بچہ انگلی اُٹھاتاہے اور اس کے ہونٹوں پر ’اللہ اکبر‘ کی مدہم آواز اُبھرتی ہے۔ عورت ملبے کے ڈھیر میں سے پتھر اُٹھاتی ہے اور دُنیا سے کہتی ہے کہ ’ہم ہمت نہیں ہاریں گے‘۔ بوڑھا شخص شہید مسجد کے دروازے پر بیٹھا لرزتی آواز میں قرآنِ مجید پڑھتا ہے مگر ثابت قدم ہے۔ یہ لوگ زلزلۂ آزمائش کے آخری درجے پر پہنچ چکے ہیں مگر انھوں نے اپنے دلوں کی ’لرزش‘ کو اپنے موقف کی ’ثابت قدمی‘ میں بدل لینے کا راستہ اختیار کیا ہے۔
آج غزہ محض جغرافیہ نہیں ہے بلکہ مذکورہ آیت کی زندہ تفسیر ہے۔ ان کی بھوک ہماری سیرشکمی کا محاسبہ کرے گی، ان کی پیاس ہماری خاموشی کی مذمت کرے گی، ان کی جبری بے دخلی ہماری نرم روی کا پردہ چاک کردے گی، ان کی شہادتیں ہمیں تاریخ و ضمیر کے سوال کے سامنے لاکھڑا کریں گی کہ کب؟ تم کب اُٹھو گے؟ تم کب ظلم سے کہو گے: بہت ہوگیا، اب بس؟ تم کب یہ ثابت کرو گے کہ انسانیت ہمیشہ زندہ رہتی ہے؟
عین اس دوران جب غزہ میں بچوں کے چیتھڑے اُڑ رہے ہیں، گلیوں، بازاروں میں خون بہہ رہا ہے، دُنیا پر گہری خاموشی طاری ہے۔ کالے دھوئیں سے زیادہ گہری اور محاصرے کی شدت سے بھی زیادہ سخت خاموشی! اس دور میں صرف بموں کے دھماکے عظیم ترین زلزلہ نہیں ہیں بلکہ عالمی خاموشی کی وہ سنسناہٹ بھی زلزلہ ہے جس نے قاتلوں کو بھی دبا رکھا ہے اور مظلوم کو بھی بے یارومددگار بنادیا ہے۔
یورپ، جو یوکرین کے دفاع کے لیے چھلانگیں لگاتا ہوا آیا تھا، غزہ کے مسئلے پر اسے سانپ سونگھ گیا ہے اور وہ خاموش ہے،یا امن وسلامتی کے ذاتی دفاع کے دلائل دے رہا ہے۔ برلن، پیرس اور لندن میں فلسطین کی حمایت و تائید میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو روکا گیا، جب کہ اُدھر اسرائیل کی جنگی مشین بے گناہوں کے سروں کی فصل کاٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ یوں مغرب کے اُن دُہرے معیارات کی حقیقت کھل گئی ہے جس کو فلسطینی خون کے اندر وہ چیز نظر نہیں آتی جو دوسرے انسانی خون میں نظر آتی ہے۔
آج غزہ صرف اسرائیل کے راکٹوں میں محصور نہیں ہے بلکہ قریب والوں کی غداری، مسلم ممالک کی خاموشی اور متمدن دُنیا کی ریاکاری میں گھرا ہوا ہے۔یہ امتحانِ اکبر ہے: اُس اُمت کا امتحان، جس کو وحی الٰہی نے بہت پہلے اخوت کی طرف بلایا تھا، اور مغرب کا امتحان ہے جس کو حقوقِ انسانی میں عالم گیریت کا دعویٰ ہے۔ دونوں اس امتحان میں ناکام ہیں، مگر تاریخ حقیقت نگاری میں کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ تاریخ عنقریب لکھے گی کہ غزہ پر زلزلہ آیا تو اہل غزہ نے صبر کیا، جب کہ اس کے اردگرد کے انسانوں کے دلوں میں خون جم گیا اور وہ اخوت و نصرت کے امتحان میں کامیاب نہ ہوسکے۔
غزہ کی چیخ پکار اب مقامی صورتِ حال اور علاقائی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ پوری انسانیت کو جانچنے کی آواز اور پکار بن گئی ہے۔ یہ ملبے کے ڈھیروں تلے سے اُٹھتی اور کہتی ہے: عالمی ضمیر کہاں ہے؟ اخوت اسلامی کہاں ہے؟ عدل و انصاف کہاں ہے؟ اس کا جواب ٹھنڈے ٹھار ڈپلومیٹک بیانات نہیں ہیں بلکہ اس کا جواب ایسا اجتماعی رَدعمل ہے، جو ظلم و جَور کے پیمانوں کو بدل دے اور بغاوت و سرکشی کی غاصب قوت کو توڑ کر رکھ دے۔
۱- محفوظ انسانی گزرگاہوں کو کھلوایا جائے۔
۲- اسرائیلی جرائم کو ریکارڈ پر لاکر عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا جائے۔
۳- مشترکہ مالی اور امدادی بنک قائم کیے جائیں۔
۴- آزاد عالمی میڈیا کو بلا کر جنگی مجرم اسرائیل کے جرائم بے نقاب کیے جائیں۔
یہ اقدامات محض سیاسی کارروائیاں نہیں ہیں بلکہ یہ انسانی اور شرعی فریضہ بن گیا ہے۔ اس لیے جو بھی ظلم پر خاموش رہے گا وہ اس ظلم میں برابر کا شریک ہوگا، اور جس نے ایک لفظ کے ذریعے بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف مزاحمت کی آواز بلند کی گویا اس نے گواہی کی امانت ادا کردی۔
تاریخ ایک عظیم کتاب ہے۔ یہ نہ سرکشوں پر ترس کھاتی ہے نہ جابروں کو بخشتی ہے۔ یہ ان کے انجام کو پوری دیانت کے ساتھ ریکارڈ اور قوموں کے لیے بطورِ عبرت محفوظ کردیتی ہے۔ کتنی ہی تہذیبیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں، اور کتنی ہی شہنشاہتیں خاک میں مل گئیں۔آج اسرائیل بھی طاقت کے نشے میں بدمست ہوکر ظلم و جبر کے اسی راستے پر چل رہا ہے۔ اس نے ظالموں پر جاری ہونے والے قوانین الٰہی سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
آج غزہ پر جو بیتی ہے، یہ اکیلے اہل فلسطین کا امتحان نہیں ہے، یہ ساری انسانیت کا امتحان ہے۔ یہ ایک بہت بڑا آئینہ ہے جس میں ہرفرد کا چہرہ سامنے آجائے گا۔ ہر رہنما کا ضمیر بے نقاب ہوجائے گا۔ ہر قوم کی فطرت اور سرشت کا پول کھل جائے گا۔ وہاں غزہ کے کھنڈرات تلے سوال لکھا جاتا ہے اوریہاں ہمارے ضمیروں پر اس کا جواب تحریر ہوتا ہے کہ تم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوگے اور ان کی مدد کرو گے، یا ظالم کے کندھے سے کندھا ملائو گے اور خاموشی اختیار کرتے ہوئے اس کی تائید و حمایت کرو گے؟
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا۷۲ۙ (احزاب ۳۳:۷۲) ہم نے اِس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اُس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اُسے اُٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔
غزہ کے یتیم بچّوں کے آنسو ہم سے پوچھتے ہیں: تمھاری نصرت و مدد کہاں ہے؟ اپنے بچّے کو کھودینے والی ماں کی سسکی ہمارا پیچھا کرتی ہوئی کہتی ہے: کیا تمھارے اندر رحم دلی کی رمق باقی نہیں ہے؟ شہداء کا خون ہمارے نامۂ اعمال میں یہ سوال ثبت کر رہا ہے: تم کس جگہ کھڑے ہو، حق و صداقت کی حمایت میں یا ظلم و جَور کی تائید میں؟
ہرانسان خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم، مومن ہو یا غیرمومن، اس کی انسانیت کا امتحان ہورہا ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کرتا ہے، خواہ دُعا اور ان کی حمایت کا موقف اختیار کرنے کی صورت میں ہو، یا پھر وہ ضمیر کے امتحان میں فیل ہوجاتا ہے اور اسے غفلت کے شکار اور خاموشی کے مارے لوگوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ قیامت کے روز اس کا نام خسارہ پانے والوں میں پکارا جائے گا جنھوں نے دُنیا بھی گنوائی اور آخرت بھی برباد کی،اور یہی سب سے بڑا اور کھلا کھلا خسارہ ہے۔
انسانیت کو نعروں سے نہیں ناپا جاتا، بلکہ اُس مقدار سے ناپا جائے گا جتنی ہم مظلوم کی مدد کرتے ہیں اور ظالم کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور انسان ہونے کے ہردعویدار پر یہ فرض ہے کہ وہ غزہ کے امتحان میں اپنی صداقت کو ثابت کرے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پوچھے گا اور اُس روز کوئی تنہا نہیں آئے گا۔ پوچھا جائے گا: جب اہل غزہ ہلا مارے جارہے تھے (زُلزِلُوا) تو تم نے اس موقع پر کیا کردار ادا کیا؟ کیا تم نے مدد و نصرت کا حق ادا کیا یا عدم نصرت کا رویہ اپنایا؟ کیا تم نے خون ریزی اور قتل و غارت کو روکا یا صرف خاموشی اختیار کیے رکھی؟ یاد رکھیے وہاں کوئی عُذر کام نہیں آئے گا، اور یہ ساعت ِندامت آیا ہی چاہتی ہے۔
اپنا مقام منتخب کر لیجیے۔ اے انسان، اے رہنما، اے مسلم! اے دنیا بھر کے آزادی پسندو! تاریخ میں اپنے لیے ، اپنے نام کے اندراج کے لیے اپنا مقام منتخب کر لیجیے اور یہی اللہ کے حضور تمھارے مقام کا تعین ہوگا۔ گویا وہاں بھی تمھارا مقام تمھارے اپنے ہی ہاتھوں متعین ہوگا ۔ اس لیے یا تو آپ کا تذکرہ نُورانی حروف میں اُن شرفاء کے اندر ہوگا جنھوں نے مظلوم کی حمایت و نصرت کا فریضہ ادا کیا، یا پھر خفت و ذلت کے اُس خانے میں آپ کا اندراج ہوگا جو غداروں اور گونگے شیطانوں کے لیے مخصوص ہوگا۔
غزہ، چھوٹا سا محصور، محدود اور بدترین تباہی پر مشتمل زمینی قطعہ نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑا کینوس ہے جس نے ہم سب کے موقف و آراء کو اپنی حدود میں سمو رکھا ہے کہ کیا ہم ضمیر کے ساتھ زندہ ہیں، یا خاموشی کے ساتھ مُردہ جسم بن کے رہ گئے ہیں؟ کیا ہم اللہ کے کسی سوال سے قیامت کے روز جان چھڑا پائیں گے، یا ہم شرم و ندامت اور بہت بڑی رُسوائی کے ساتھ ناکام و نامراد لوگوں میں شامل کیے جائیں گے؟ (ادارہ)
سائنس کے نظریے ہوں یا دوائوں کے خواص، اِن میں سے بعض انسان کی اپنی تحقیقی کوشش اور تجربے کا نتیجہ اور ماحصل ہیں۔ لیکن بعض نظریے اور خواص ایسے بھی ہیں جن کی طرف انسان کا ذہن کسی کوشش کے بغیر ایکا ایکی منتقل ہوگیا۔ اسی چیز کا نام ’القا‘ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ بعض اوقات انسان کے دل میں ایک بات ڈال دیتا ہے۔ دُنیوی معاملات میں کتنی بہت سی تدبیریں ہیں ، جو ذہنوں میں القاء کی جاتی ہیں اور آدمی خود حیران رہ جاتا ہے کہ یہ تدبیر یا فلاں بات تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا،یہ تو اُسے سمجھائی گئی ہے۔ کتنے بہت سے علوم ہیں جن کی ابتدا ’القا‘ اور ’الہام‘ سے ہوئی ہے۔ قرآن کریم اس پر شاہد ہے کہ کرئہ ارضی کے پہلے انسان کو اشیاء کے نام کا الہام ہوا۔ اِس حقیقت کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ انسانی علم کی اوّلین بنیاد وحی، الہام اور القاء ہے۔ جس اللہ نے کائنات کو خلق فرمایا، اُسی نے اپنے فضل سے انسان کو کائنات کی اشیاء کا علم بھی عطا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے انسانوں ہی میں سے ایسے مقدس نفوس کو منتخب فرمایا جو ہراعتبار سے مکمل انسان تھے، جن کی دیانت و صداقت اور سیرت پر معاشرہ اعتماد رکھتا تھا۔ اِن مقدس نفوس کو اسلامی اصطلاح میں نبیؑ اور رسولؑ کہتے ہیں اور ان کو خالق کائنات کی طرف سے جو رہنمائی اور ہدایت فراہم کی گئی اُس کا نام ’وحی‘ ہے۔ وحی میں نبیؑ اور رسولؑ کی اپنی کوشش اور تجربے کا ذرّہ برابر دخل نہیں ہوتا۔ وہ مہبط ِ وحی ہوتا ہے یعنی وحی اُس پر نازل ہوتی ہے، وہ خود ’وحی ساز‘ نہیں ہوتا۔
ہردور میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ِ بالغہ اور مشیت کامل کے تحت انبیا و رُسل آتےرہے۔ اُن میں سے بعض پر صحیفے اور کتابیں بھی نازل ہوئیں یہاں تک کہ:
جب اپنی پوری جوانی پہ آگئی دُنیا
جہاں کے واسطے اِک آخری نظام آیا
اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کئی سو سال بعد اُس ’انسانِ کامل‘ کو مبعوث فرمایا جس پر دین اسلام کا اتمام و اَکمال کردیا گیا اور نبوت اور رسالت کے عہدے کو ختم کرکے اعلان فرما دیا گیا کہ یہ نبی ___ احمد، محمد،مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم___ خاتم النبیین ہے، یعنی اب کسی قسم اور کسی نوع کا کوئی نبی، ظلی یا بروزی قیامت تک مبعوث نہیں ہوگا۔ نبوت اور رسالت کا منصب اب کسی اور کے لیے باقی نہیں رہا۔ قیامت تک کے لیے اس نبی ٔ آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کی ہوئی ہدایت و شریعت ہر اعتبار سے کافی و وافی ہے۔ اس میں نہ کوئی اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ ترمیم۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اُس کا نام ’قرآن‘ ہے۔
سب سے پہلی بات غور کرنے کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی جن حروف و الفاظ کے ساتھ نازل ہوئی، آپؐ نے حرفاً حرفاً اور لفظاً لفظاً ہوبہو اسی طرح اُس کی تلاوت فرمائی۔ ساتھ ہی اس کو لکھوا بھی دیا اور بہت سے صحابہ نے اُسے زبانی یاد بھی کرلیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو پورے کا پورا قرآن سفینوں اور سینوں میں محفوظ تھا۔ قرآن کریم میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن میں کسی ترکِ اولیٰ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی ہے۔ حضورؐ نے اس قسم کی آیتوں کو بھی لفظ بہ لفظ تلاوت فرمایا۔ وہ انسانِ کامل، جسے اُس کے دشمن ’الامین‘ کہتے تھے۔ اُس نے کمالِ امانت کے ساتھ خالق کا کلام مخلوق تک پہنچادیا۔
قرآن کریم سورتوں کی جس ترتیب کے ساتھ آج دُنیا میں پایا جاتا ہے، یہ ترتیب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے ہی بتائی گئی تھی۔
اُمت نے نہ صرف قرآن کو سفینوں اور سینوں میں محفوظ رکھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس لب و لہجہ میں قرآنی آیات تلاوت فرماتے تھے اُس لب و لہجہ کو بھی محفوظ کیا گیا۔
دُنیا میں کوئی کتاب، صحیفہ، بیاض اور مخطوطہ قرآن کریم کے برابر تو کیا اس سے سیکڑوں درجہ کم تعداد میں بھی نہیں پڑھا جاتا۔ تنہا یہی وہ کتاب ہے جو دن رات میں پانچوں وقت کی نمازوں کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کی جاتی ہے، جس کی معنوی تعلیم کے علاوہ اس کی قرأت و تجوید بھی تعلیم کی جاتی ہے، جس کی معنوی تعلیم کے علاوہ اس کی قرأت و تجوید کی تعلیم کے لیے ہزاروں مدرسے دُنیا میں پائے جاتے ہیں۔ تنہا یہی وہ کتاب ہے جو سب سے زیادہ مضامین، تحریروں، تقریروں میں نقل و بیان کی جاتی ہے اور سال کے سال رمضان کے مہینے میں کروڑوں مسلمان پورے قرآن کو حفاظ کی زبان سے سنتے بھی ہیں۔
دُنیا میں نظم و نثر کی کوئی ایسی قدیم و جدید کتاب نہیں ملتی جس کے کچھ محاورے، اصطلاحیں اور الفاظ متروک نہ ہوگئے ہوں، اور اُن میں فرسودگی اور اجنبیت پیدا نہ ہوگئی ہو۔ ہاں، صرف قرآن کریم ہی وہ تنہا مقدس کتاب ہے، جس کا ایک لفظ بھی چودہ سو سال کی طویل مدت میں متروک نہیں ہوا۔ عربی زبان و ادب کا یہ وہ بلند ترین معیار ہے جس کے سامنے عربی ادب کی تمام شاہکار اور شہرئہ آفاق کتابیں کم درجہ اور فروتر نظر آتی ہیں۔ قرآن کریم جس طرح اب سے چودہ سو سال پہلے لغت، الفاظ، طرزِبیان اور مفہوم و معنی کے اعتبار سے تروتازہ تھا، آج بھی وہ اسی طرح تروتازہ اور سدابہار ہے۔ اس گُل کدہ کا ایک پتّہ بھی خزاں رسیدہ نہیں ہوا، اور اس کی ایک آیت اور ایک لفظ کو کروڑوں بار دُہرانے کے بعد بھی وجدان ذرا سی اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
تقریر و تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں شعریت پیدا ہوجائے۔ شاعری کا زبان و ادب میں بہت بلند مقام ہے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نبیؐ کو نہ تو ہم نے شاعری سکھائی ہے اور نہ شاعری اُس کے شان کے شایان ہی ہے (یٰٓس۳۶:۴۹)۔ یہ بھی قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ وہ شاعری نہ ہونے کے باوجود کمال درجے کا حسین و دلکش ، فصیح و سادہ، بلکہ سہلِ ممتنع کلام ہے۔
علامہ اقبال نے اس مصرع ’آہنگ میں یکتا صفت ِ سورۃرحمٰن‘ میں مردِ مومن کی تعریف کرتے ہوئے قرآن کریم کی معجزانہ نغمگی کی طرف بھی لطیف اشارہ کر دیا ہے۔ قرآن کریم میں وہ مقدس نغمگی اور ایسا پاکیزہ آہنگ پایا جاتا ہے، جو شریفانہ جذبات کو حرکت میں لاتا ہے۔ قرآن کی نغمگی کے سامنے وہ راگ راگنیاں کوئی وزن نہیں رکھتیں جنھیں سن کر آدمی کے اندر سفلی جذبات اور ہولناک خیالات حرکت میں آتے ہیں۔
قرآن کریم کوئی خیالی کتاب نہیں ہے جس کے الفاظ کاغذ پر تو بھلے معلوم ہوتے ہیں مگر عملی دُنیا میں ان الفاظ کی معنویت ساتھ نہیں دیتی۔ قرآن کریم مکمل ترین دستورِ حیات اور اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا آخری اور قطعی منشورِ زندگی ہے۔ یہ زندگی کے تجربوں کے مرحلوں سے گزرا ہے اور زندگی کے سفر میں قدم قدم پر قرآن زندگی اور فطرت سے انتہائی مربوط ثابت ہوا ہے۔ قرآن کریم میں زندگی سے گریز و فرار کا کوئی چور دروازہ یا پوشیدہ سرنگ نہیں ملتا۔ ترکِ دُنیا اور رہبانیت کے علی الرغم قرآن کریم نے تو اس دُعا کی تعلیم دی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے اس مادی دُنیا کو حسین و خوب صورت، یعنی صالح بنانے کی تمنا کی گئی ہے (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً)۔ اللہ تعالیٰ نے دُنیا کا کارخانہ بچوں کے گھروندوں کی مانند کھیل کے لیے نہیں بنایا۔ یہ تو شعور و بصیرت کی تمام قوتوں اور توانائیوں کے ساتھ برتنے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مقدس میں قرآنی اخلاق کی بنیادوں پر معاشرہ استوار کیا گیا اور اس طرح قرآنی تعلیمات کو متشکل کردیا گیا۔ اسلامی معاشرہ راہبوں اور جوگیوں کا معاشرہ نہیں، فاتحوں اور کشور کشائوں کا معاشرہ تھا۔اس معاشرے میں صفّہ کے فقرا اور مسکینوں سے زیادہ فاتحین بدر و حُنین پائے جاتے تھے۔ قرآن کریم نے ان نفوسِ قدسیہ میں اس قدر جوش اور ولولہ پیدا کر دیا تھا کہ مٹھی بھر انسان قریش کے لشکر سے ٹکرا گئے اور چشمِ فلک نے دیکھ لیا کہ فتح اُن بے سروسامان اور بوریا نشینوں ہی کی ہوئی۔
اس کے بعد خلافت ِ راشدہ کے مبارک دور میں حاملین قرآن نے روم و مدائن کی پُرشکوہ سلطنتوں کے دھوئیں اُڑا دیئے۔ فتح مندی قرآن کریم کے اُن عملی مفسرین کے قدم چُومتی تھی اور شوکت و اقبال اُن کے گھوڑوں کی رُکابیں تھام کر چلتے تھے۔ دُنیا میں صداقت و امانت اُن کےنام اور کام سے پہچانی جاتی تھی۔ صحابہ کرامؓ کو تمدن و معیشت کے کیسے کیسے نئے نئے اور پیچیدہ مسائل سے سابقہ پڑا مگر کتاب و سنت کی رہنمائی میں انھوں نے ہرمسئلے کا حل تلاش کرلیا اور جنگ کے میدانوں ہی میں نہیں تمدن و تہذیب اور سیاست و معیشت کے محاذوں پر بھی غالب اور فتح مند رہے۔
قرآن کریم میں جہاں بُت تراشی کا ذکر آتا ہے یا اُن لوگوں کا ذکر ہے جو پہاڑ کو تراش کر مکانات بنایا کرتے تھے، تو اس اجمال سے یہ نکتہ پیدا کرنا کہ قرآن کریم کی ان آیتوں میں فن تعمیر سمویا ہوا ہے۔ قرآن فہمی کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہے۔ قرآن کریم کو تمام علوم و فنون کی انسائیکلوپیڈیا ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے قرآن کو سخت امتحان میں ڈال رہے ہیں اور نکتہ چینوں کے لیے زمین ہموار کر رہے ہیں۔
قرآن کریم کی جامعیت اس اعتبار سے مسلّم ہے کہ زندگی کے تمام دائروں کے بارے میں قرآن کریم میں ہدایت کا ہر جامع عنوان پایا جاتا ہے اور جو اُمہات و اُصول ہدایت کے ہوسکتے ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہیں جو انسانوں کے پیش کردہ تمام نظریات و کلیات کو پرکھنے کی کسوٹی ہیں۔ اخلاق و تقویٰ اور حقائق کائنات کی مکمل ترین تعلیم اس مقدس صحیفہ میں ملتی ہے۔ اس لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ حَسْبُنَا کِتٰبَ اللہِ ___’’ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘۔
یہ ہے قرآن کے منشورِ حکومت و سیاست کی وہ پہلی دفعہ جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اصل حاکمیت اور حکومت اللہ تعالیٰ کی ہے اور انسانوں کی حکمرانی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تابع ہونی چاہیے۔ پھر قرآن کریم نے’مشاورت‘ کی ہدایت دے کر دُنیا کو ’شورائیت‘ کا رہنما اُصول دیا۔ پھر مسلمان حکمرانوں کی یہ صفت بتائی کہ:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔
جس ملک میں بھی مسلمانوں کو غلبہ، اقتدار اور حاکمیت حاصل ہو اور وہاں کا حکمران طبقہ اقامت ِ صلوٰۃ اور تنظیمِ زکوٰۃ سے غافل ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دیا جارہا ہو، اس جگہ حکومت صحیح ہاتھوں میں نہیں ہے۔ وہ جوہر عہدہ اور منصب کے لیے کچھ صفات ضروری ہوتی ہیں، مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلم حکمرانوں کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ کی زمین صالحین کا ورثہ ہے (انبیاء۲۱:۱۰۵)۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دُنیا کے جن خطّوں پر بھی غیرصالحین یعنی فساق و فجار کا قبضہ اور عمل دخل ہے، وہ لوگ دراصل غاصب ہیں۔ اس لیے اِس بات کی مسلسل جدوجہد ہوتی رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین غاصبوں کے قبضہ سے نکل کر زمین کے جائز وارثوں یعنی صالحین کے قبضہ میں آجائے۔
قرآن کریم نے سود اور قمار کو حرام قرار دے کر سرمایہ داری اور ہوسِ زر کا مٹھ مار دیا۔ ’شراب‘ جو ’اُم الخبائث‘ ہے، قرآن نے اُسے رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ کہا (المائدہ ۵:۹۰)۔ عورت جو معاشرے میں آزادانہ اختلاط کے سبب بہت بڑے فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کی عصمت و عفت کے لیے جلباب و خمار کے حصار قائم کیے۔ اس کو مقامِ زینت کی نمود و نمائش اور تبرجِ جاہلیت سے روکا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواج یعنی اُمہات المومنینؓ کو براہِ راست اور تمام مسلم خواتین کو تبعاً حکم دیا کہ وقار کے ساتھ گھروں میں بیٹھیں اور کسی نامحرم سے گفتگو کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو دوبدو اور رُوبرو، نہیں، پردے کی آڑ میں گفتگو کریں اور بات کرنے میں ایسا لہجہ پیدا نہ ہونے دیں جس سے سننے والا غلط قسم کی کوئی اُمید اپنے دل میں قائم کرلے۔(احزاب ۳۳:۳۳)
قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ملتی ہیں: ایک وہ جن کو ’محکمات‘ فرمایا گیا ہے اور یہی ’اُم الکتاب‘ یعنی کتاب اللہ کی اصل بنیاد ہیں۔ دوسری آیات ’متشابہات‘ ہیں۔ اُن کے بارے میں خود قرآن کہتا ہے:
فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ زَيْـغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِہٖ۰ۚ۬ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ۰ۘؔ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ۰ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا۰ۚ (اٰل عمرٰن ۳:۷) جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے سدا پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اُن کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلاف اِس کے جو لوگ علم (دین) میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے ربّ ہی کی طرف سے ہیں‘‘۔
کائنات کا آغاز کس طرح ہوا؟ اس کا اختتام کس طرح ہوگا؟اللہ تعالیٰ کی کیا صفات ہیں؟ اُن کے بارے میں قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں اُن پر ایمان لانا اور اُن کا سادہ تصور کافی ہے۔ اُن کی ماہیت جاننے کی کوشش سے روکا گیا ہے۔ دُنیا سائنس میں کہاں تک ترقی کرگئی ہے مگر آج تک اس کو پتہ نہیں لگ سکا کہ دُنیا میں سب سے پہلے مرغی پیدا ہوئی تھی یا انڈا۔ اسی طرح یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ گندم کا پودا سب سے پہلے خلق ہوا تھا یا اُس کا بیج، یعنی دانۂ گندم، لیکن اِن حقائق اور ماہیتوں کے نہ جاننے سے انسانی معیشت کا کوئی کام رُکا ہوا نہیں ہے۔ اسی طرح متشابہات پر ایمان رکھتے ہوئے اُن کا مکمل اور واقعی علم نہ ہونے سے دین و شریعت اور اخلاق و ایمان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوجاتی۔
قرآن کریم مصنّفوں کی لکھی ہوئی کتابوں اور اہل قلم کے مرتب کیے ہوئے مجموعوں کی طرح کوئی کتاب نہیں ہے، جن میں عنوانات ہوں اور ہرعنوان کے تحت ذیلی ابواب اور حواشی ہوں اور جب ایک مضمون ختم ہوجائے تو پھر دوسرا شروع کیا جائے۔ قرآن کا اندازِ بیان تحریری و تصنیفی نہیں، تقریری ہے۔ جو لوگ عام تصانیف و تالیف پر قرآن کریم کا قیاس کر کے اُس کا مطالعہ کرتے ہیں، اُنھیں قرآن کریم کی آیتوں اور مضامین میں بے ربطی محسوس ہوتی ہے۔ قرآن کریم اس قسم کی تصنیف سرے سے ہے ہی نہیں۔
نظم قرآن کا محور یہ ہے کہ اس کتابِ بے مثال میں بار بار اور جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور شانِ خلاقیت کا ذکر ہے۔ قرآن بار بار آخرت کے محاسبہ کی یاد دلاتا ہے۔ وہ اُن لوگوں کا بھی ذکر کرتا ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا ہے اور اُن کا بھی جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا۔ کسی فرد یا قوم کا ذکر ہو، آثار و مشاہدات کی تفصیل ہو، معاشرے کے لیے کسی قانون و حکم کی تنفیذ کا اعلان ہو، ہرموقع پر قرآن کریم ذہنِ انسانی کو یاد دلاتا اور چونکاتا رہتا ہے کہ:
قرآن کریم کا ہر مضمون اسی دعوت کے اردگردگردش کرتا ہے، اسی کی جگہ جگہ تکرار کی گئی ہے اور یہی ’تذکیر‘ اس دعوت کا عمود اور مرکزی نکتہ ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۚ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انھی میں سے ایسا پیغمبرؐ اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
دُنیا کے قدیم و جدید طریقۂ تعلیم میں ہرمعلّم جس کسی کتاب کی تعلیم دیتا ہے تو وہ یہ نہیں کرتا کہ اپنی طرف سے کتاب کی شرح و تفصیل میں کچھ نہ کہے ، بلکہ کتاب کی اصل عبارت کو دُہراتا رہے۔ کتاب کی تعلیم کے معنٰی ہی یہ ہیں اور یہی تعلیم کی غرض و غایت ہے کہ معلّم جن مقامات کی مناسب سمجھتا ہے شرح کرتا جاتا ہے اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ طلبہ اور شاگرد بھی کتاب کے بارے میں اُستاد سے سوال کرتے ہیں۔ وہ اُ ن کے جواب دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’کتاب و حکمت‘ کی تعلیم کے منصب پر مامور فرمایا تھا۔ اس منصب کی ذمہ داریوں کو رسولؐ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی ؑ کی حیثیت سے انجام دیا۔ رسول ؐاللہ کے اس منصب کو ذہن میں رکھ کرنطقِ رسولؐ کے بارے میں قرآن کریم کا فیصلہ سنیے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۳ۭ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۴ۙ (النجم۵۳:۳-۴) (یہ نبیؐ) اپنے (نفس کی) خواہش سے کلام نہیں کرتا۔ اس کا کلام تو وحی ہوتا ہے۔
(۱) تلاوتِ قرآن (۲) تزکیۂ نفس اور (۳) کتاب و حکمت کی تعلیم___ وہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کی گئی تھیں اور قرآن کریم نطقِ رسولؐ کو وحی کہتا ہے، یعنی جو زبان کتاب اللہ کی تلاوت کرتی تھی وہی زبان کتاب اللہ کی تعلیم بھی دیتی تھی، اور قدیم اور جدید طریق تعلیم میں کتاب کی تعلیم سے مراد کتاب کے مضامین کی شرح و تفصیل ہی ہوتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب و حکمت کی جو تعلیم دی وہ بھی وحی الٰہی ہے اور چونکہ کتاب و حکمت کی تعلیم کا فریضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی ہونے کی حیثیت سے انجام دیا ہے، اس لیے وہ منصوص ہے اور اس کی اطاعت اُمت پر فرض ہے۔
اس صورتِ حال کو سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم جن لفظوں میں نازل ہوا ہے، یہ الفاظ اگرچہ نطقِ رسولؐ سے ادا ہوئے ہیں مگر اس میں حضوؐر کی کوشش اور ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایک ایک لفظ وحی (متلّو) ہے مگر احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ معانی اللہ کی طرف سے وحی ہوئے ہیں لیکن ان وحی شدہ معانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لفظوں میں یا عمل سے ادا فرمایا ہے۔ اس لیے احادیث کو’وحی غیرمتلّو‘ کہا جاتا ہے مگر وحی متلّو اور وحی غیر متلّو دونوں دین میں حجت ہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کے کلام کی تقدیس کا تصور ذہن وفکر میں جمانا چاہیے۔ قرآن مجید کی آیتیں ٹھیر ٹھیر کر پڑھنی چاہییں۔ پورے قرآن کو ایک دن میں بغیر سمجھے ختم کر دینے کے مقابلے میں ایک رکوع سمجھ کر اور عمل کرنے کی نیت سے پڑھنا زیادہ فائدہ مند ہے۔ جن آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مغفرت کی اور جنّت کی بشارت دی ہے، اُن کو تلاوت کرتے ہوئے زبان سے یا دل ہی دل میں اللہ سے دُعا مانگنی اور تمنا کرنی چاہیے کہ اس بشارت کی سعادت ہمیں بھی میسر آجائے۔ جن آیتوں میں عذابِ آخرت سے ڈرایا گیا ہے اور عذابِ جہنم کا ذکر آیا ہے، اُن کو پڑھتے وقت، خوف و اندیشہ کی کیفیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے۔ دل میں تڑپ، گداز، خلوص، لگن، سوز و درد اور خشیت الٰہی ہو تو قرآن کی تلاوت کے دوران آنکھیں ضرور اَشک بار ہوجاتی ہیں ؎
سرا بے کہ رخشد بہ ویرانہ خوشتر
ز چشمے کہ پیرایۂ نم نہ دارد
اللہ تعالیٰ نے جن آیتوں میں اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے، اُن کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ رات کو سوتے وقت اپنی زندگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ قرآن کریم نے اخلاق و نیکوکاری کا جو معیار پیش کیا ہے، اُس معیار سے اپنی زندگی کس کس جز اور مرحلہ میں مطابقت نہیں کرتی۔ اس جائزے اور احتساب کے بعد اس کی پوری پوری جدوجہد کرنی چاہیے کہ ہماری زندگی میں قرآنی اخلاق زیادہ سے زیادہ جھلکنے لگیں۔ یہاں تک کہ یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ ’مومن قاری نظر آتاہے، حقیقت میں ہے قرآن ‘کا مصداق بن جائیں۔
یہ بات سچ ہے کہ کبھی قوم تو درست راہ پر ہوتی ہے مگر کمزوری قیادت کے اندر ہوتی ہے۔ یہی حال مملکت ِ خداداد کے مسلمانوں کا ہے۔ مگر اس کے ساتھ حادثہ یہ ہوا ہے کہ اُسے ایک ایسے چھوٹے سے گروہ کا سامنا ہے جس نے برطانوی عہد ِ حکومت میں لیڈرشپ پر قبضہ جما لیا تھا۔ ان لوگوں نے اپنے انگریز اساتذہ سے سند ِ قیادت حاصل کررکھی تھی، انھی کے عادات و خصائل کے طرز پر پرورش پائی تھی اور دینِ اسلام کسی معاملے میں ان کے نزدیک اہم نہ تھا۔ ان لوگوں کی بڑی دلچسپی لہوولعب، ناچ گانے اور فحاشی و عریانی کے پروگراموں میں شرکت تھی۔ اسلامی اخلاقیات سے بے زاری پھیلانا، انگریزی طرزِ معاشرت اور بداخلاقیوں کو عام کرنا اُن کا مطمح نظر تھا۔یہ کلچر انھیں ایسی فضا مہیا کرتا ہے جس میں وہ جو چاہیں کریں اور کوئی انھیں اُن کی غلط کاریوں پر روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ جب مارچ ۱۹۴۹ء میں تاریخی ’قرارداد مقاصد‘ منظور ہوگئی تو اہل وطن نے بجا طور پر یہ اُمید باندھی کہ اب ان کے حالات تبدیل ہوں گے۔ قوم اپنے انفرادی و عائلی حالات کی اصلاح کا آغاز کرے گی تاکہ ان کی عملی زندگی اس قرارداد کے مطابق ڈھل سکے کیونکہ یہ قرارداد اُن پر لازم کرتی ہے کہ وہ اصولِ حکومت و سلطنت کتاب و سنت کے چشمۂ صافی سے اخذ کریں اور اپنے معاملاتِ حکمرانی کو شریعت اسلامیہ کے مطابق چلائیں۔
اہل وطن نے حکمرانوں سے یہ اُمید باندھی تھی کہ وہ اُسی راستے اور طریقے پر چلنا شروع کر دیں جو انھوں نے قوم و ملک کے لیے اختیار اور پسند کیا ہے۔ اسی طرح ہم نے بھی یہ اُمید رکھی کہ وہ نئے دستور کی تدوین کے لیے لازمی ابتدائی اُمور کی تیاری اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کا آغاز کریں۔ کم سے کم جو مطالبہ ان لوگوں سے کیا گیا وہ یہ تھاکہ کوئی نیا قانون ایسا نہ بنایا جائے جو شریعت اسلامیہ سے متصادم اور خلاف ہو۔ اگرچہ اہل وطن نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ حکومت اُن فاسد اور بے کار قوانین کو ختم کرنے میں تاخیر سے کام نہ لے جو ملک کو برطانوی عہد سے وراثت میں ملے ہیں۔ مگر حکومت نے کوئی معمولی قدم بھی ایسا نہ اُٹھایا، جس سے یہ پتا چلتا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہے اور وہ قوم کے ساتھ مذاق نہیں کر رہی ہے۔
اس کے برعکس واقعات بتا رہے تھے کہ یہ لوگ اپنی باتوں میں سچّے نہیں ہیں بلکہ وہ مطالبہ نفاذِ اسلام کی قومی تحریک کے زور کو توڑنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے قراردادِ مقاصد جاری کر کے اور مجلس قانون ساز کی طرف سے قواعد ِ شریعت کے مطابق نئے دستور کی تیاری کے عزم کا اعلان کرکے وقت کو ٹال دیا تھا۔ جب بھی انھیں یاد دلایا گیا کہ یہ تاریخی قرارداد اس ضمن میں کس طرح کی سنجیدہ، عملی اور فیصلہ کن پلاننگ کا مطالبہ کرتی ہے تو وہ سُنی اَن سنی کردیتے۔
ہر تقریب اور جلسے اور بین الاقوامی کانفرنس اور پروگرام میں تو بآواز بلند اس بات کا اظہار کرنے لگے کہ ہم تو مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ہمارا یہ عزم ہے کہ ہم اپنی اس مملکت کو شریعت کے اصولوں اور اسلام کے دائمی قوانین کی بنیاد پر استوار کریں گے۔ حکومت کا سب سے بڑا ذمہ دار بھی یہی بات کہتا تھا اور معمولی منصب رکھنے والا وزیر بھی اسی کا اظہار کرتا تھا۔ عالمی سطح پر منعقد ہونے والی ہرمعاشی کانفرنس اور ہر سوسائٹی میں بھی یہ لوگ اسلام کا نام لیتے تھے لیکن عملاً اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی مصنوعات کی نمائشوں تک کو بے حیائی کی تقریبات بنادیتے۔
وہ اس حد تک اخلاق باختہ ہوچکے تھے کہ تھیٹر اور سینما اور کلبوں کا افتتاح قرآنِ مجید کی تلاوت سے کرنے لگے۔گویا انھیں اپنی سرکشی و نافرمانی پر ابھی تسلی نہیں ہوئی تھی کہ مزید اس عمل کے ذریعے اللہ کی ناراضی کو دعوت دینے لگتے۔ اب بس اسی بات کی کسر رہ گئی تھی کہ وہ شراب خانوں کا افتتاح بھی قرآنِ مجید کی اس آیت سے کرتے:
اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۹۰(المائدہ ۵:۹۰) یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی۔
یہ تو اُن کی بے شمار منکرات اور قول و فعل کے تضاد کی معمولی سی جھلک ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسی قومیں اور قبیلے گزر چکے ہیں جو زبانی اظہار تو اسلام کا کرتے تھے لیکن عملاً بُرائیوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ وہ گناہوں اور معصیت کاریوں کے ارتکاب میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ مگر ان میں سے کسی نے اپنے فسق و فجور اور نافرمانی و سرکشی کو اللہ کی پیروی کا نام نہیں دیا تھا۔ آج بھی ہمارے اسلامی ممالک ایسے افراد، جماعتوں اور حکومتوں سے خالی نہیں ہیں جو صرف نام کے مسلمان ہیں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں شریعت کے احکام کی پیروی اور اُس نظام و قانون پر عمل پیرا نہیں ہوتے جو اسلام نے دیے ہیں، مگر ہمارے کانوں نے آج تک یہ نہیں سنا کہ اُن میں سے کسی نے یہ جرأت کی ہو کہ وہ حکومتی ایوانوں میں اسلام کا بھی اعلان کرے۔ دین حق کو مضبوطی سے تھامنے کی بات بھی کرے، ملک کے نظامِ حکومت کو قواعد ِ شریعت کے مطابق قائم کرنے کا اظہار بھی کرے، اور پھر اپنی گھریلو اور نجی زندگی میں اور حکومت و عدالت کی مسندوں پر بیٹھ کر اسلام کی مخالفت بھی کرے اور اس کی بنیادوں کو ایک ایک کرکے گرانے کی کوشش بھی کرے۔ ایسا کبھی نہیں سنا تھا، نہ ماضی میں نہ موجودہ زمانے میں۔ اس بدترین جرم کا ارتکاب مسلمانوں کے اسی خطۂ زمین کے حکمران کرسکتے ہیں۔ یہ ایسا جرم ہے جو اللہ کے غضب اور اُس کے عذاب کو جلد سے جلد آنے کی دعوت دیتا ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اُوپر رحم فرمائے، اپنی خاص مہربانی اور فضل فرمائے اور بُرائی کرنے والوں کے مواخذے کی لپیٹ سے ہمیں بچائے۔
اس صورتِ حال کی وجہ سے اہل وطن اور دعوتِ اسلامی اور اقامت دین کے لیے کوشاں تحریک کے لوگ بھی سرزمین پاکستان کی حکومت پر قابض لیڈروں سے مایوس اور نااُمید ہوتے گئے۔ اُمید کی کوئی کرن باقی نہ رہی کہ یہ لوگ اپنے وعدوں کو کبھی پورا کریں گے اور انھی خطوط پر چلیں گے جو اسلام نے اپنے پیروکاروں کے لیے طے کیے ہیں؟ جب پوری قوم ان لوگوں سے مایوس ہوگئی تو جماعت اسلامی نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی، اور قوم کی اُمنگوں کی ترجمانی کے لیے ایک اور تحریک شروع کر دی۔ یہ قیادت میں تغیر اور اُمورِ مملکت چلانے والے ہاتھوں کی تبدیلی کی تحریک تھی۔ جو ہاتھ آج بھی اقامت ِ دین اور اسلامی قانون کے نفاذ کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں،پہلے بھی یہی لوگ اس راہ میں رکاوٹ رہے اور اُس وقت سے مسلسل یہی لوگ اس کام اور مطلوب اصلاح کے راستے پر آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا قوم کے پاس تبدیلی ٔ قیادت کا مطالبہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ یہ قیادت اور مناصب پر مسلط اور قابض لوگوں کو ہٹا کران کی جگہ ایسے دیانت دار لوگوں کو لانے کا مطالبہ تھا جو واقعتاً اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوں، شریعت کا اتباع اور احکام کی فرماں برداری کرنے والے ہوں۔ ربّ کی نافرمانی جن کا وتیرہ نہ ہو، وہ اللہ کے نظامِ جزا و سزا پر کامل یقین رکھتے ہوں۔ جو اُمورِ حکومت کی ادائیگی اور کارِ سرکار کی انجام دہی کو بھی ایسی ایمانی حرارت اور ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں۔
مگر مناصب ِ حکومت پر براجمان اور اختیارات کی کنجیوں پر قابض کہاں اس مطالبے کو صبروتحمل اور خوش دلی سے قبول کرنے کے روادار ہوسکتے تھے۔ یہ انسانی کمزوری ہے کہ نفوسِ انسانی کی سرشت و طبیعت ہی میں اپنی ذات کی محبت، ترجیح، فوقیت اور انانیت موجود ہے۔ خاص طور پر اس قسم کے لوگوں سے کیسے توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اس مطالبے کو کشادہ دلی اور خندہ روئی کے ساتھ قبول کرلیں گے جنھوں نے خالص مادیت کے تحت پرورش پائی اور خواہشات و مرغوباتِ نفس ہی کو دل و دماغ میں بٹھائے پروان چڑھے ہوں۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ لوگ بغیر کسی کش مکش اور مزاحمت کے مناصب ِ حکومت سے الگ ہوجائیں گے۔
لہٰذا، یہاں سے ایک بھرپور اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے والی تحریک شروع ہوئی جو واقعی تسلسل کے ساتھ قائم رہی اور مناصب ِ حکومت پر براجمان لوگوں کو اپنے مطالبے کا احساس دلاتی رہی۔ اس تحریک نے مطالبہ کیا کہ حکومت نئی مجلس قانون ساز کے لیے قوم کی رائے اور ووٹنگ سے انتخاب کرائے، اور پھر یہ مجلس یا اسمبلی نئے دستور کی تشکیل کی ذمہ داری سرانجام دے۔ کیونکہ یہ مجلس تاسیسی اپنی سُست روی اور درست راستے سے ہٹ جانے کی وجہ سے ثابت کرچکی ہے کہ اس کے ارکان اس نہایت اہم کام کی انجام دہی کے اہل نہیں۔ وہ اپنے معاملات تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے اندر دیانت، رائے کی پختگی اور سچ کی جستجو جیسی صفات موجود نہیں ہیں جو انھیں اس قرارداد مقاصد پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی صلاحیت عطا کرسکیں ۔وہ قرارداد جو دستور کی تشکیل اور اس کی دفعات کی تدوین و تشریح کے لیے بطور راہنما جاری کی گئی تھی۔
اسی طرح مجلس قانون ساز کی بعض کمیٹیوں کی رپورٹوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا اور دستور کے بعض پہلوئوں کے بارے میں اجمالی اور تفصیلی سفارشات (Recommondations) میں بھی یہی چیز موجود تھی کہ یہ لوگ امریکا و برطانیہ کے دستاتیر پر چل رہے ہیں اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکا و برطانیہ کے دساتیر اور اسلام کے عادلانہ و حکیمانہ جامع اصولوں کے مابین زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ارکان و اعیان حکومت کی کارگزاریوں سے یہ بھی واضح ہوچکا تھا کہ یہ لوگ ایسی آمریت کی بنیاد رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں جس میں یہ خود تمام قانونی اور غیرقانونی اختیارات پر قابض ہوسکیں۔ اور یہ ارادے بھی دکھائی دے رہے تھے کہ یہ حکومت کے کسی منصب اور اختیار سے کسی بھی حالت میں دستبردار نہیں ہوں گے۔ تبدیلی ٔ قیادت کی اس تحریک کو سال ڈیڑھ ہوچکا تھا۔ قوم اس دوران امیرجماعت اسلامی پاکستان سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی تھی، جنھوں نے اسلام کی دعوت کا علَم بلند کیا تھا اور مطالبہ نفاذِ اسلام کی اس قومی تحریک کو شروع کیا تھا۔
قوم ہر جلسے جلوس میں یہ دونوں مطالبات مسلسل دُہراتی رہی۔ بالآخر حکومت شعبان ۱۳۶۹ھ/ مئی ۱۹۵۰ء کے آخر میں مولانا مودودیؒ اور اُن کے ساتھیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ مولانا مودودیؒ کی رہائی سے تبدیلی ٔ قیادت کی تحریک کو طاقت ملی اور انھوں نے پوری استقامت اور غیرمعمولی تسلسل کے ساتھ اپنا کام جاری رکھا۔ پھر مجلس دستور ساز کی بعض کمیٹیوں کی سفارشات کا پلندہ آگیا۔ اس پلندے نے اس شک کی گنجائش ہی نہ رہنے دی کہ موجودہ مجلس دستورساز اس عظیم ذمہ داری کی اہل نہیں اور ارکانِ مجلس کو اسلام کے معاملے سے ذرا بھی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تو امریکا و برطانیہ کے دساتیر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ انھی کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں، انھی کے خطوطِ کار کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ تبدیلی ٔ قیادت اور موجودہ مجلس دستورساز کی تحلیل اور نئی مجلس دستور ساز کے انتخاب کا مطالبہ کرے۔
اِدھر یہ تحریک زوروں پر تھی اور اُدھر حکومت اپنی طاقت کے نشے میں مست تھی۔ جماعت اسلامی اس عام قومی تحریک کی تنظیم میں پوری تندہی سے مصروف تھی تاکہ حکومت کو اس مطالبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرسکے اور قوم نئے دستور کی تدوین کے لیے اہل نمائندوں کا انتخاب کرسکے۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ انگریز کے چھوڑے ہوئے ان قائدین کے گروۂ قلیل کی کارستانیوں کا شکار اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس دُنیا میں اپنی معمولی نفسانی خواہشات اور پست شہوات کی تکمیل کے علاوہ کوئی غم و پریشانی ہی نہیں ہے۔
اسلام کی دعوت ، فریضہ اقامت ِ دین کی انجام دہی اور شہادتِ حق کے جواب میں یہ ملک کو درپیش حالات کا تذکرہ ہے۔ اس میں جس بات پر ہم دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں وہ جماعت اسلامی کی تشکیل ہے، جو اللہ و رسولؐ کی طرف بلاتی ہے جس کا نصب العین شہادتِ حق کی ادائیگی، کامل دین کے نفاذ اور اَزسرنو اسلامی شریعت کی بنیادوں پر نظامِ زندگی کو استوار کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلے سے اچھی طرح تیاری کی گئی۔ اوّل روز سے ہی اپنے ارکان کی پاکیزہ اسلامی، اخلاقی اور اعلیٰ انسانی آداب کے مطابق تربیت پر خاص توجہ دی گئی تاکہ وہ دعوتِ حق کے میدانِ جہدوسعی میں نہ صرف گفتار کی حد تک نمونہ ہوں بلکہ عمل و کردار میں بھی ایک جاندار نمونہ پیش کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی جماعت عملی جدوجہد کے میدان میں داخل ہوئی تو اُس کے ارکان کو تکالیف سے دوچار کیے جانے کا عمل شروع ہوگیا اور پھر وہ مسلسل ظلم کا نشانہ بنتے رہے۔ وہ طرح طرح کے آلام و مصائب میں مبتلا کیے گئے۔ انھیں ان کے موقف سے دستبردار کرنے اور اس راہ سے ہٹانے کے لیے ہرطرح کے خطرات اور مظالم سے دوچار کیا گیا، مگر وہ اللہ کی توفیق اور مدد سے اپنے عملی پروگرام اور لائحہ عمل سے ذرہ بھر پیچھے ہٹے نہ اُس سے دستبرار ہوئے۔
اسی طرح یہ ارکانِ جماعت ان نہایت مشکل حالات میں اپنی اساسی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کرنے اور اُسے عوام کے لیے مقبول بنانے کی مساعی سے غافل نہ ہوئے۔ وہ لوگوں کو اس دعوت کے سایۂ رحمت میں پناہ لینے اور اس کے محفوظ حصار میں داخل ہونے پر مسلسل متوجہ کرتے رہے۔ آج وہ ایک ساتھ دو اُمور کو انجام دینے والے اوردُہری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے والے ہیں: اوّل،حکومت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ یا حکومتی مناصب چھوڑ دینے کا راستہ، دوم: قوم کی اخلاقی تربیت اور دینی محاسن کی نشرواشاعت اور اسلام کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات اور مکارمِ اخلاق کو پھیلانے کا کام۔ بلاشبہ کش مکش کٹھن ہے، مگر جدوجہد جاری ہے، حالات بدل رہے ہیں، نفس باغی ہیں اور طبیعتیں شر اور بُرائی کی طرف مائل ہیں۔ ہماری دُعاہے کہ اللہ ہماری سعی و جہد کو اپنے لیے خالص کرلے۔ ہم اس کے سوا کسی پر توکّل نہیں کرتے۔ اس کے سوا کسی سے مدد اور توفیق نہیں مانگتے ، وہی توفیق عطا کرنے والا اور وہی قریب سے سن کر ہماری دُعائوں کوقبول کرنے والا ہے۔
جہاں تک مستقبل کی بات ہے تو یہ ان سطور کو تحریر کرنے والے کی طرح کسی کے لیے بھی ممکن اور آسان نہیں کہ اس کے بارے میں یقینی اور حتمی طور پر کسی چیز سے آگاہ ہو۔ البتہ ہم یہ یقین اور اعتقاد ضرور رکھتے ہیں کہ اسلام ہی عالم گیر جامع دین ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط ہے اور تمام انسانیت کی ضروریات کو پورا کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں اور نہ کوئی امر اس کے دائرئہ نفوذ سے متصادم ہے۔ یہ دُنیا کو لاحق امراض اور اس کے زخموں کی نہایت کارگر دوا اور شفابخش مرہم ہے۔ اگر ہم نے آج قولی اور عملی طور پر شہادتِ حق کو ادا نہ کیا، اور دین اسلام کے کامل ہونے اور اجتماعی و سیاسی اور اقتصادی امراضِ عالم کی شفابخش دوا ہونے کی دلیل کو لوگوں کے سامنے ثابت نہ کیا تو قیامت کے روز اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں، یہ ہمارا عقیدہ ہے اور ہمارا دین ہے۔ اسلام کی اہمیت اور اس کے دائمی پیغام پر یہ پختہ یقین، یہ ایمان اور عقیدہ ہی وہ محرک اور داعیہ ہے جو ہمیں عمل پر اُبھارتا، جہاد کے لیے اُٹھاتا اور عالم اسلام کے اس قطعۂ ارض پر شریعت اسلامیہ کی تنفیذ اور اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے سرگرمِ عمل رکھتا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ہم شہادتِ حق کے فریضے کی ادائیگی سے پوری طرح سبکدوش ہوسکیں اور اللہ و رسولؐ کے حضور بری الذمہ ہوسکیں۔
ہم عین اس صورتِ حال میں یہ بھی جانتے اور یقینی طور پر علم رکھتے ہیں کہ داعیانِ حق اور حکومتی مناصب پر قابض گروہ کے درمیان اس کش مکش کا یہ مزاج اور طبیعت ہی نہیں کہ وہ مسلمانوں کے صرف اسی قطعۂ زمین تک ہی محدود رہے گی بلکہ ہمارا یہ گمان ہے کہ حق و باطل کے درمیان شروع ہونے والی یہ کش مکش عالمِ اسلام کے مختلف اَطراف میں پھیلے گی اور دُور تک اس کے اثرات پہنچیں گے۔ اس لیے کہ مسلسل اور پے درپے حادثات، قومی تحریکوں کے بدترین نتائج ، وطنی و نسلی نعروں کے تباہ کن عواقب اور روس و امریکا سے اُمڈتے ہوئے الحاد و عصیان کے سیلاب نے ہرمسلمان اور معاشرتی اور قومی اصلاح کی جدوجہد میں مصروف شخصیات کو چونکا دیا ہے۔ ان حالات نے ان تباہ کن یلغاروں کے شدید خطرات اور ان باطل دعوئوں کے بڑے بڑے نقصانات کے بارے میں خبردار کردیا ہے۔
ایک طرف یہ حالات ہیں اور دوسری طرف ہم مغرب کے پیروکاروں ، مقلدوں اور ’وفادار‘ شاگردوں کومسلمانوں کے ہر ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کے مقابلے میں باطل مغربی نظریات کو حق ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ روحِ اسلام کے خلاف اور برعکس مغربی افکار و نظریات اور سیاسی و اقتصادی طور طریقوں کو شدت سے اختیار کرتے ہیں جو طریقے اور نظریات نہ صرف تعلیماتِ شریعت اسلامیہ سے ٹکراتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے بچے کھچے اُن پاکیزہ اخلاق و عادات کا بھی خاتمہ کردیتے ہیں جو انھیں اپنے نیک وصالح آبا و اجداد سے وراثت میں ملے تھے۔
یہیں سے حق و باطل کے درمیان کش مکش شروع ہوجاتی ہے اُن لوگوں کے درمیان جو فرزندانِ اسلام کو دینِ اسلام کے دائرے میں واپس لانا چاہتے، نظامِ حکومت و سلطنت کو اسلام کے محکم اصولوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں، اور اُن کے درمیان جو انگریز کی تقلید، اُن کے طاغوتوں کی پیروی اور گمراہی و سرکشی میں انھی کے نقش قدم پر چلنا اور باقی رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان باطل پسندوں میں سے اگر کچھ لوگ اپنے اندر دین داری، اسلامی اُصولوں اور تعلیمات پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو اس کو عقائد و عبادات اور اجتماعی زندگی کے اُن چند مسائل تک محدود رکھتے ہیں جنھیں ’شخصی احوال کے قوانین‘ کا نام دیا جاتا ہے۔نظمِ حکومت، نظامِ معیشت، سیاست کے حالات اور امن و جنگ میں تو ان کے نزدیک اسلام کے دائمی قوانین اس ’عصرنو‘ اور ’جدید تہذیب‘ میں موزوں نہیں ہیں:
كَبُرَتْ كَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ۰ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا۵ (الکہف ۱۸: ۵) یہ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔
حق و باطل کے درمیان، داعیانِ حق اور مغرب کے اہل کاروں کے درمیان، اسلام کے دائمی پیغام پر یقین رکھنے والوں اور مغرب کے طاغوتوں کا کلمہ پڑھنے والوں کے درمیان کش مکش، مزاحمت، تنازع اور تصادم ایک واقعی حقیقت ہے۔یہ ہر صورت میں ہوتا رہے گا۔ یہ دراصل دو قوتوں کے مابین کش مکش ہے۔ فرزندانِ اسلام کو اس کش مکش اور مقابلے سے قطعاً گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ دراصل دو اُصولوں اور قاعدوں کے درمیان نزاع ہے۔ دو متضاد اور مخالف راستوں کے درمیان کش مکش ہے، اس سے فرار ممکن نہیں۔ لہٰذا کسی کو اس سے خوفزدہ ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک طبعی صورتِ حال ہے جس سے گزرنا ہمارے لیے اُس وقت تو اور زیادہ لازمی ہوجاتا ہے جب ہم زمین پر اسلامی نظام قائم کرنا اور شریعت ِ الٰہیہ کو نافذ کرنا چاہیں گے۔
جیساکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے ہمارے ملک میں دعوتِ اسلام کا مستقبل اور اس جدوجہد اور نزاع کا مستقبل حتمی اور متعین طور پر بیان کرنا آسان نہیں۔ اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جن داعیانِ حق نے اس معاملے پر اللہ سے عہد باندھا ہے وہ اپنے لائحۂ عمل کی تکمیل میں پُرعزم ہیں، اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں پوری جان لڑا رہے ہیں۔ وہ دو نتائج میں سے کسی ایک کے حصول میں ہرصورت کامیاب ہوں گے، یعنی: یا تو اللہ تعالیٰ انھیں اس مقصد میں کامیابی عطا کرکے سرفراز فرمائے گا، اور وہ سعادت دارین سے بہرہ اندوز ہوں گے، یا پھر اس جدوجہد میں اپنی زندگی لگا کر بالآخر مخلوقِ خدا پر حجت تمام کردیں گے اور اللہ و رسولؐ کے حضور سرخرو ٹھیریں گے۔ اللہ تعالیٰ انھی لوگوں کا ولی و مددگار ہوتاہے جواس کی راہ میں جدوجہد کرتے اور اس کے دین کے مددگار ہوتے ہیں اور اللہ اُس شخص کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اللہ کی مدد میں مصروف ہے اور اللہ ہی قوت و طاقت اور حکومت و اختیار کا اصل مالک ہے!
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ وَعَلٰی رَسُوْلِہٖ أَلفُ تَحِیَّۃ وَسَلَام!
۱۵ ربیع الآخر ۱۳۷۰ھ/ ۲۲جنوری ۱۹۵۱ء
مصر کے ، شہید محمد یوسف ھواشؒ امام حسن البنا ؒکے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے اور انھیں سیّدقطب شہید ؒکے ساتھ پھانسی دی گئی۔ یوسف ھواش ۱۹۲۳ء میں ڈیلٹا کے ضلع الغربیہ کے گائوں کفرالحمام میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں قرآنِ مجید حفظ کرلیا۔ طنطا کے ٹیکنیکل اسکول سے ڈپلومہ حاصل کیا۔ عملی زندگی کا آغاز پٹرولیم کوآپریٹو سوسائٹی میں پمپس کے نگران کے طور پر کیا۔ بعدازاں شبراویشی کمپنی میں کام کیا۔ محمد یوسف ھواش۱۹۴۵ء میں ٹیکنیکل اسکول طنطا کی تعلیم کے دوران ہی اخوان کی دعوت سے روشناس ہوگئے کیونکہ طنطا اس وقت بہی الخولی کی وجہ سے اخوان کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔
یوسف ھواش قاہرہ منتقل ہوئے تو اخوان کی تنظیم میں شامل ہوگئے اور خاص افراد میں شمار کیے جانے لگے۔ ان کی شادی فاطمہ عبدالہادی سے ہوئی جو شہید امام حسن البنا کا جنازہ اُٹھانے والی خواتین میں سے ایک ہیں۔ المنشیہ کے حادثے کے بعد یوسف ھواش کا نام بھی گرفتاری کے لیے شامل کرلیا گیا مگر وہ روپوش ہوگئے۔ بالآخر ۴؍اگست ۱۹۵۵ء کو گرفتار کرلیے گئے، جب کہ وہ گرفتار شدگان کے خاندانوں کے اُمور کی دیکھ بھال کے لیے نوجوانوں کو منظم کرچکے تھے۔ یوسف ھواش کو تنظیم کے لیےمالی وسائل فراہم کرنے کے جرم میں ۱۵ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران وہ بیمار پڑگئے اور انھوں نے بیماری کے ایام سیّد قطب کے ساتھ طرہ ہسپتال میں گزارے ۔ ۱۹۶۴ء کے آخر میں انھیں رہا کردیا گیا مگر ۱۹۶۵ء کی اخوانی قیادت میں ان کا نام بھی ڈال دیا گیا حالانکہ وہ قائد نہیں تھے۔ پھر بدترین تعذیب و تشدد کے بعد محمد دجوی کی سربراہی میں یوسف ھواش اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جس پر ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو عمل درآمد کردیا گیا۔ اس روز پھانسی پانے والے تینوں شہدا سیّد قطب، محمدیوسف ھواش اور عبدالفتاح اسماعیل نے اپنے قاتل سے معافی مانگنے سے انکار کیا مگر پھانسی کو قبول کرلیا۔
یوسف ھواش کی رُودادِ زندگی میں، یہ منظر بڑا واضح اور نمایاں نظر آتا ہے جب ان کی باہمت بیوہ ، محترمہ فاطمہ بنت عبدالہادی ا پنی ثابت قدمی کی ایمان افروز داستان سناتے ہوئے،ہمت اور استقامت کی ایک مضبوط چٹان اور صبر و استقامت کا پہاڑ نظر آتی ہیں۔ فاطمہ بنت محمد عبدالہادی نے ۱۹۶۶ء میں، صدر جمال عبد الناصر کے زمانے میں ،اپنے خاوند کی قید سے لے کر،سزائے موت تک کے حالات و واقعات اورحوادث کا تذکرہ، اپنی آنکھوں سے کوئی آ نسو بہائے بغیر،بڑی بہادری سے کیا۔
اس عظیم خاتون سے ہماری ملاقات ان کے ایک عام اور سادہ سے گھر میں ہوئی۔ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود انھوں نے ہمارا استقبال روشن چہرے کے ساتھ کیا۔ ان کانورانی چہرہ جھریوں کے باوجود ان کی عظمت، عزیمت اور بے نیازی کو ظاہر کر رہا تھا۔ اپنی گفتگو میں وہ ہمیں پچاس برسوں پر پھیلے اپنے ماضی کے ایسے دور میں لے گئیں جس میں خوش گوار یادوں کے پھول اور کلیاں بھی تھیں اورسخت آزمائشوں ،امتحانوں کے تلخ اور ناخوشگوار کانٹے بھی تھے ۔
انھوں نے بتایا: ’’شہید محمد یوسف ھواش بڑے پُرعزم اور عالی ہمت شخص تھے۔اخوان المسلمون کے کارکن ہونے کے جرم میں ان پر قید و بند کی مصیبتیں آئیں اور ان پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑے گئے، آخرکار ان کو اور ان کے ایک ساتھی عبدالفتاح اسماعیل کو عالم اسلام کے عظیم رہنما سیدقطب کے ہمراہ سزائے موت دے دی گئی ۔ انھوں نےتختۂ دار کو چوما اوراپنی جان ، جاں آفریں کے سپرد کرتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوگئے‘‘۔
شہید محمد یوسف ھواش کی بیوہ فاطمہ بنت محمدعبدالہادی ایک عظیم خاتون ہیں کہ جنھوں نے دعوتِ دین کے کام کو، صدر جمال عبدالناصر کی حکومت کے زمانے سے ہی، اپنے شہید خاوند کی سزائے موت کے بعد اپنے خاوند کےمشن کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔اپنے خاوند کی جدائی پر ، اپنی آنکھوں سے آنسو بہائے بغیر، اپنے سینے میں ایک دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ دعوت و تربیت کے عظیم کا م کو جاری رکھا۔ اس عظیم خاتون نے اپنے شہید خاوند کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ ، نہ صرف صدر ناصر کے ظالمانہ نظامِ حکومت کی وحشیانہ کارروائیوں کو بے نقاب کیا، بلکہ مصائب، آلام، تکلیفوں اور اذیتوں کے باوجود،بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھا اور بڑے بے مثال طریقے سے ان کی پرورش اور تربیت کی۔ ان سے کی گئی گفتگو پیش ہے:
سوال:آپ کا تعارف، اپنے شہید خاوند کے ساتھ کیسے ہوا اور بد ترین حالات میں آپ دونوں کی زندگی کیسے گزری؟
جواب میرا ایک بھائی، شیخ حسن البنا ؒکے ایک دینی درس میں شریک ہوتا تھا۔ یوسف ھواش ؒبھی ان کے ساتھ اس درس میں شریک ہوتے تھے۔میرا بھائی جب بھی یوسف ھواشؒ کو دیکھتا تو دل ہی دل میں کہتاکہ ’’اے فاطمہ! میری دلی تمنا ہے کہ تیری شادی اس جیسے نوجوان سے ہو۔ ادھر محمد یوسف ھواش ؒبھی، مرشدعام سیّدحسن البناؒ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ میری شادی کے لیے ایسی لڑکی تلاش کریں، جو میری مشکلات میں میرا سہارا بنے، تو امام حسن البنا ؒنے میری طرف اشارہ کر دیا۔پہلے تو میں نے انکار کردیا کیونکہ محمدیوسف ؒکی تعلیمی اہلیت صرف ایک ’ڈپلومہ‘ تھی، لیکن جب میرے بھائی نے مجھے یقین دلایا کہ یہ نوجوان میرا بہت خیال رکھے گا، تو میں نے اس رشتے کو قبول کرلیا۔
پھر ہماری شادی ۱۹۵۳ء میں اسی روز ہوئی جس دن انوارالسادات کی شادی ہوئی، جو بعد میں مصر کے صدر بنے۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہماری شادی کےبعد شروع کے دنوں میں بہت سی مشکلات اور پریشانیاں آئیں لیکن یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ میرے شہید خاوند نے مجھے مشکل اور سخت ترین حالات میں صبر کرنا سکھادیا تھا۔شادی سے پہلے منگنی کی تقریب میں یوسف کسی اخوانی بھائی سے باتیں کر رہے تھے توجذبات کی شدت سے ان پر غشی طاری ہوگئی اور ان کے منہ سے خون بہنے لگا۔ مجھے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ یوسف تو پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہے۔ پھر اس کو چھوڑ دینے کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالا جانے لگا یہاں تک کہ کچھ اخوانی بھائی بھی ہمارے گھر آئے اور میرے بھائی سے اس بارے میں بات کی۔ بھائی میرے پاس آیا اور اس نے اخوانی بھائیوں کا نقطۂ نظر میرے سامنے رکھا۔لیکن اب میں ،اپنا اور یوسف کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کرچکی تھی اور اسےاپنے شوہر کے طور پر منتخب کرچکی تھی ،اس لیے میں نے اپنے عزیزوں کو یہ فیصلہ سنا دیا کہ میرے لیے اب واپسی نا ممکن ہے۔ یہاں تک کہ اگر مجھے اپنی پوری زندگی اس کی خدمت کرنا اور نگہداشت کرنا پڑے تو میں کروں گی۔
ہماری شادی کے بعدمیرے شہید خاوند نے مجھے اس مرض کا سبب یہ بتایا کہ ہماری قید کے دوران جیل خانہ کو پانی سے بھر دیا جاتا تھا اور اس میں ’اخوان‘قیدیوں کو رکھا جاتا تھا، جس کے نتیجے میں ان کے پھیپھڑوں میں یہ مرض پیدا ہو گیا۔ہماری شادی کے بعد جلد ہی میرے خاوند کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ہمیں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد جب میں ایک مرتبہ بہن نعیمہ الہضیبی ؒ سے ملنے ان کے گھر گئی تو میں نے ان کے ہاں تقریباً ایک مہینہ گزارا۔وہاں سے میں جب واپس آئی تو میرے آنے کے فوراً بعد حکومتی ایجنسیوں کے لوگ میرے گھر آ گئے۔ان کے ساتھ شراب کے نشے میں مد ہوش کچھ افراد بھی تھے جو میرے گھر کا دروازہ توڑنے میں مصروف ہو گئے۔یہ لوگ حملہ آوروں کی طرح میرے گھر میں داخل ہوئے۔ میری بیٹی سمیہ کی عمر اس وقت صرف دو سال تھی۔ وہ یہ صورت حال دیکھ کر ڈر گئی۔ ایک سرکاری افسر نے بڑی بے دردی کے ساتھ ،اس حال میں کہ میں حاملہ تھی ،مجھے بڑے زور سے دھکا دیا اور میں ایک دیوار سے جاٹکرائی۔پھر انھوں نے میرے گھر کی الماریوں کی تلاشی لینا شروع کردی۔ الماری میں کچھ اخوانی بھائیوں کی تصویریں تھیں، لیکن ان پر ان لوگوں کی نظر نہیں پڑی، اللہ نے ان کی نظروں پر پردہ ڈال دیا اور ان کو جیسے اندھا کر دیا۔ان کو ان تصویروں کا کچھ پتا نہ چلا۔ ان لوگوں نے اس موقع پر جو کچھ چاہا گھر سےچوری کر لیا۔
میرے شہید خاوند نے ۱۹۵۷ء میں معرکہ ’لیمان طرہ‘ میں اخوانی بھائیوں کے قتل عام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔یہ معرکہ اخوان کے جوانوں اور حکومتی ایجنسیوں کے اہل کاروں کے درمیان ہوا تھا۔ یہ خوں ریزی اور قتل و غارت گری کی ایک وحشت ناک کارروائی تھی۔اس واقعہ میں اخوان کے اکیس جوان شہید ہوئے اوراتنے ہی شدید زخمی ہوئے، اور معرکے کی ہولناک اور وحشت ناک کارروائی کی وجہ سے زخمیوں میں سے چھ افراد اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے تھے۔ شہید محمدیوسف ؒاس واقعے کی یادوں کو روزانہ ایک کاغذ پر لکھتے ،اور پھر اس کاغذ کو انتہائی خفیہ طریقے سے جیل سے باہر بھیج دیا جاتا۔بعد میں یہ یاد داشتیں شہید محمد یوسف کی ڈائری کے عنوان سے شائع ہوئیں۔
مجھے یہ بات بھی یاد آتی ہے کہ ایک مرتبہ جب بہن زینب الغزالی ؒ نے مجھے یہ بتایا کہ انھوں نے شہید محمد یوسفؒ کو تفتیشی ادارے کے ایک دفتر میں، اپنی کہنیوں اور گھٹنوں کے بل چل کر جاتے ہوئے دیکھا ہے، تو مجھے یوں لگا کہ میرا دل بس اب پھٹ جانے کو ہے۔شہید محمد یوسف کی دونوں ٹانگیں فوج کے تربیت یافتہ کتوں کی چیر پھاڑ کی وجہ سے بہت بُری طرح زخمی تھیں، جب کہ تشدد،اذیت اور تعذیب کی اس حالت میں ان پر پانچ ماہ گزر چکے تھے۔
جیل میں میری صحت بُری طرح سے بگڑگئی یہاں تک کہ وہ مجھے سخت فوجی پہرے میں ہسپتال منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے،اور اسی دوران ہماری رہائی کا حکم آ گیا۔اس دوران میری والدہ محترمہ وفات پا گئیں۔ ان کی وفات کی خبر مجھ سےاب تک چھپائی گئی تھی۔ مجھ پر اس سے پہلے جو گزر چکی تھی، میرے لیے یہ اس سے بھی بڑا صدمہ تھا۔مگر چونکہ اس معاملے میں اللہ کی مشیت اور اس کی رضا کام کر رہی تھی اور اللہ نےپچھلے سات مہینوں میں مجھے سخت مشکلات میں صبر کرنا سکھادیا تھا، اس لیے میں نے صبر کیا۔ایک بات مجھے یہ بھی یاد آتی ہے کہ ہماری قید کے دوران ایک بہن نے مجھ سے میرے بیٹے کا نام پوچھا تا کہ وہ بھی اپنے بیٹے کا وہی نام رکھ سکیں۔اسی دوران ایک افسر اس کے پاس آیا اوراس سے پوچھا کہ ’’تو اپنے بیٹے کا کیا نام رکھے گی؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’احمد جہاد‘ ، تو اس افسر نے اسے دھکا دیا اور گالیاں بھی دیں۔پھر ہماری اس بہن نے اپنے بیٹے کا نام ’عادل‘ رکھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس موقعے پر میرا بیٹا احمد ، اپنے باپ کی ٹانگ پر بیٹھا ہوا ان سے یہ پوچھ رہا تھا:’’ ابا جان، کیا صدر ناصر آپ کو قتل کرنا چاہتا ہے؟‘‘ تو محمدیوسف نے اس کو جوا ب دیا: الموازین مقلوبۃ و ستظل مقلوبۃ حتٰی یوم القیامۃ [عدل و انصاف کے ترازو اُلٹ دیے گئے ہیں اور قیامت تک اُلٹے ہی رہیں گے]۔ جب محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ سیّدقطبؒ اور عبدالفتاح اسماعیلؒ کے ساتھ ہی اُن کو ’سزائے موت‘ دے دی جائے گی تو ہم نے ان کو ’الوداع‘ کہا۔
اس سے اگلے روز ۲۹؍ اگست ۱۹۶۶ءکی صبح ، اخبارات نے سیّد قطبؒ کی سزائے موت کی خبر شا ئع کی۔اس موقع پر میں نہیں روئی، بالکل نہیں روئی اور اپنے اللہ سے اجر اور صبر کی دُعا کی۔ شہید کا ایک بھائی ’طوسون‘ہمارے پاس آیا تو وہ رو رہا تھا۔میں نے اس سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ ہی رہے اور انتظار کرے،کیونکہ سرکاری حکام شہید کا جسد خاکی ہمارے حوالے کریں گے اور میرے گھر میں کوئی مرد موجود نہیں ہے۔میرے پاس اس وقت سب اخوانی بہنیں جمع تھیں۔ جب میں تحقیقاتی ادارے کے مرکزی دفتر گئی تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے خاوندکی سزائے موت کی خبر اپنے ہاتھوں سے لکھوں، تو اس وقت میں بہت روئی۔ یوسف کی سزائے موت کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ میں بہت روئی،یہاں تک کہ وہاں موجود افسر بھی رو پڑا اور اس نے کہا کہ’’ بہن! مت رو، سچی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ آج کے دن زمین کے اندر جانے والے ہیں، وہ ان لوگوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں جو اس زمین کی پشت پر چل پھر رہے ہیں‘‘۔ اس موقع پر تعزیت کی کوئی مجلس نہ ہوئی اور نہ شہید کا جسد خاکی ہمارے حوالے کیا گیا،اور آج تک ہمیں یہ بھی پتا نہیں چلا کہ شہید محمدیوسفؒ کو کہاں دفن کیا گیا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے قبل مبعوث ہونے والے تمام انبیاؑ اور رسولوںؑ کی بعثت کا حتمی مقصد اگرچہ تمام انسانیت کو عدل پر مبنی معاشرہ میں منظم و قائم کرنا ہی ہے جیساکہ سورئہ حدید کی آیت ۲۵ میں ارشاد ربانی ہے: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ (۵۷: ۲۵) ’’ہم نے اپنے رسولوںؑ کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔مگر کارِ رسالت کی ابتدا ہر نبیؑ و رسولؑ کی طرح آپؐ نے تعلیم کتاب و حکمت سے ہی فرمائی۔ قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے: وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۤ ’’اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۱۲۹، اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴، الجمعۃ ۶۲:۲)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنیادی حقیقت کو یوں بیان فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا (ابن ماجہ، ۱/۱۵۰)، ’’مجھے معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے‘‘۔
مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا یہ فریضہ آپؐ کے دمِ وصال تک جاری رہا۔ اس لیے اسلام میں معلم ہونا بہت عزّت و شرف کا مقام ہے۔ معلم، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر قوم کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ معلّمین کا شمار قوم کے باشعور طبقے میں ہوتا ہے۔ان کے فرائض منصبی میں اپنے تلامذہ کو عقلی، تجرباتی اور وحی کے علوم سے متصف کرکے قوم کی کردارسازی، تزکیۂ نفس اور قیادت کی تیاری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی مسلمانوں کی براہِ راست تعلیم و تربیت کو اوّلین ترجیح دی اور سرزمین مکہ و مدینہ سے باہر بھی لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے چیدہ چیدہ اصحابؓ کو معلم بنا کر بھیجا۔ اسی طرح وفود کی شکل میں عرب کے مختلف گوشوں سے آنے والوں کی تعلیم و تربیت کا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصی اہتمام فرماتے تھے کیونکہ اسلامی عقیدہ کے درست ہونے کے لیے ’علم‘ بنیادی شرط ہے اور علم کے بغیر ارکانِ اسلام اور زندگی کے باقی معاملات عبادت بن ہی نہیں سکتے۔ اس لیے علم کے بغیر اسلامی زندگی کا تصور ہی محال ہے۔
یثرب جو کہ مدینۃ الرسول، اور اسلامی ریاست کا مرکز بننے جارہا تھا، وہاں کے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اسی حقیقت کے تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیرؓ کو معلّم بناکر بھیجا۔ تاریخ اسلام میں وہ پہلے معلّم ہیں جنھوں نے مکہ سے باہر دوسرے شہر میں یہ ذمہ داری نبھائی۔(اسدالغابہ،ج۳، ص ۱۹۶؛ الاصابہ، ج۳ ، طبقات ابن سعد،ج۳، ص ۲۷۶-۲۸۰)
ہجرتِ نبویؐ کے بعد اسلام تیزی سے پھیلا تو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی مختلف مساجد میں باقاعدہ درس و تدریس کا انتظام فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی مختلف قبائل میں تشریف لے جا کر انھیں اسلام کی طرف راغب فرماتے تھے۔ دوسری طرف دُور دراز کے وہ قبائل جو ایمان کی تڑپ لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپؐ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے اور اس کے بعد ان کو انھی کے قبیلوں میں دعوتِ اسلام اور تعلیم و تربیت کے لیے مقرر فرما دیتے تھے۔
احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عموماً ہم عمر نوجوان ہوتے جو ٹولیوں کی شکل میں حاضر خدمت ہوا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں صحیح بخاری میں ابوسلیمان مالک بن حویرثؓ سے مروی ہے کہ ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیس دن تک رہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آرہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ان کی بابت پوچھا جنھیں ہم اپنے گھروں پر چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمخود بھی بڑے نرم خُو اور رحم دل تھے، اس لیے آپؐ نے ہمیں اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دے دی اور تاکید فرمائی کہ جو کچھ تم نے یہاں سیکھا ہے وہ اپنے گھر والوں کو بتائو اور سکھائو۔ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک شخص تمھارے لیے اذان دے اور پھر جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرے (صحیح بخاری ،حدیث: ۹۴۸)۔ اسی طرح آپؐ نے ابوذرغفاریؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ، طفیل بن عمردوسیؓ اور دوسرے متعدد اصحاب کو انفرادی طور پر اپنے اپنے قبیلوں میں دعوتِ دین اور تعلیم و تربیت کے لیے تعینات فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے گئے معلّمین کو جہاں لوگوں نے عموماً خوش آمدید کہا اور ان سے علمی، دینی اور فقہی استفادہ کیا، وہیں ابتدا میں بعض معلّمین کو نامساعد حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں بئرمعونہ کا واقعہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ جب ابوبراء بن مالک کلابی نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے قبیلے کی تعلیم و تربیت کے لیے معلّمین بھیجنے کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرما کر ۴۰؍ اور بعض کے نزدیک ۷۰ معلّمین کو نجد روانہ فرمایا، جنھیں بئرمعونہ کے مقام پر بدعہدی کرکے شہید کردیا گیا۔ بدعہدی کرنے والوں کو درپردہ مدینہ کے یہود بنی نضیر کی حمایت حاصل تھی۔ اس بدعہدی اور المناک واقعہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید صدمہ پہنچا اور آپؐ نے مہینہ بھر فجر کی نماز میں ان ظالموں کے حق میں بددُعا کی۔ یہ دل خراش واقعہ ۶ہجری کو پیش آیا تھا۔ (صحیح بخاری،کتاب المغازی)
دراصل بنیادی اور اہم بات یہ تھی کہ محض اسلام کی تبلیغ سے نہ تو سرزمین عرب پر اسلامی ریاست کی توسیع و استحکام کا مقصد حاصل کیا جاسکتا تھا اور نہ دین کے قیام و بقا کی ضمانت مل سکتی تھی، جب تک کہ اسلامی تعلیمات کو ہرمسلمان کے رگ و ریشے میں اُتار نہ دیا جاتا۔ اس بناپر قرآن حکیم کا حکم ہے کہ ہرطبقہ میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو دین میں تفقہ کا درجہ حاصل کرے تاکہ وہ عام مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
ارشادِ ربانی ہے: فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۱۲۲ (التوبہ۹:۱۲۲) ’’پس ایساکیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہرحصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے‘‘۔
چنانچہ دین اسلام کی تعلیم و تدریس اور اصول اسلام کی تفہیم و تشریح کارِ نبویؐ کا اہم ترین حصہ تھا جس کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا ہی سے پوری توجہ دی تھی۔
اس میدان میں سب سے اہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات گرامی تھی جو معلّم اوّل اور مرجع اساسی کا درجہ رکھتی تھی۔ تمام صحابہ کرامؓ دین اسلام کے اصول و فروعات کی تفہیم و تعلیم کے لیے آپؐ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے فقہاء اور اصحابِ علم تھے جو تعلیم و تدریس کے نقش اوّل کے ہوبہو عکس بن کر اُبھرے۔(عہدنبویؐ کا نظامِ حکومت ،ص ۹۶)
ان صحابہ کرامؓ میں معاذ بن جبلؓ، اسعد بن زرارہ خزرجیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، سالم مولیٰ حذیفہؓ اور ابی بن کعبؓ اور چند دیگر کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ فتح مکہ کے بعد اہل مکہ کی تعلیم و تربیت کے لیے معاذ بن جبلؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ کو مقرر کیا گیا تھا، جب کہ اپنی رحلت سے قبل رسولؐ اللہ نے ان دونوں اصحاب کو عامل اور معلّم بناکر یمن بھیجا اور وہ دورِفاروقیؓ تک امارت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے فرائض بھی نبھاتے رہے۔
عمر بن الخطابؓ جب خلیفہ بنے تو اس وقت حالات سازگار ہوچکے تھے۔ شورشوں اور فتنوں کی سرکوبی ہوچکی تھی۔ اس لیے انھیں ابوبکر صدیقؓ کی بہ نسبت فلاحی، سماجی اور کاروبار مملکت چلانے اور منظم کرنے کے لیے زیادہ وقت ملا۔ انھوں نے ریاست کے تمام شعبوں کو منظم کیا اور ان میں اصلاحات کیں۔ مملکت کے دیگر شعبوں کی طرح عمر بن الخطابؓ نے شعبۂ تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ دی اور اس میں انقلابی اصلاحات کیں۔ انھوں نے عاملین کو انتظامی اُمور اور معلّمین کو درس و تدریس کی ذمہ داری سونپ دیں اور تعلیم کو انتظامیہ سے جدا ایک علیحدہ شعبہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے کبار صحابہ کرامؓ میں سے انتہائی جلیل القدر فقیہ صحابہؓ کو شام،مصر، حمص، کوفہ، بصرہ وغیرہ میں تعینات کیا اور ان کے لیے وظائف مقرر کیے۔ یہ معلّمین عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد بھی طویل عرصہ تک مقررہ شہروں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔
عمر فاروقؓ نے تمام مسلمانوں کے لیے قرآن مجید کی تعلیم لازمی قرار دی۔ انھوں نے خصوصاً خانہ بدوش لوگوں کے لیے جو شہروں سے دُور رہتے تھے اور تعلیم وتربیت سے زیادہ رغبت نہیں رکھتے تھے اسلامی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام فرمایا۔ انھوں نے ابوسفیانؓ بن حرب اور چند دیگر افراد کو ایسے معلّمین کے طور پر مقرر کیا جو مختلف جگہوں پر خانہ بدوش عربوں کو قرآن، نماز اور دیگر اُمورِ ضروریہ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔اس کے ساتھ بچوں کو تیراکی، شہسواری، منقولات، الانساب اور شاعری کی تعلیم کا بھی حکم تھا (کنزالعمال، جلداوّل، فی سنن الاقوال والافعال، ص ۲۱۷؛ الفاروق،ص۲۶۴)۔انھوں نے قرآن مجید کے صحیح تلفظ کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم دیا اور تاکید کی کہ قرآن مجید کی صحتِ اعراب کے ساتھ تعلیم دی جائے اور جو شخص لغت کا ماہر نہ ہو وہ قرآن مجید نہ پڑھائے۔(کنز العمال،جلداوّل، ص ۲۲۸ ، بحوالہ اسوۂ صحابہؓ، جلددوم،ص ۴۶۰)
بلاشبہ ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، عثمان غنیؓ اور علیؓ بن ابی طالب بذاتِ خود قرآن، احادیث، فقہ اور اجتہاد میں بے نظیر صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر وہ ریاست کے انتظامی اُمور میں اس قدر مصروف رہا کرتے تھے کہ ان کے لیے باقاعدگی سے تدریسی فرائض سرانجام دینا ممکن نہ تھا، اس کے باوجود ان سے کافی احادیث روایت کی گئی ہیں۔ ایک دفعہ ابوعبدالرحمٰن سلمیؓ نے اپنی تلاوت عثمان غنیؓ کو سنائی اور اصلاح چاہی تو انھوں نے فرمایا کہ میں کاروبارِ حکومت میں مصروف ہوں۔ تم پر توجہ دینے سے میں رعایا اور عام سائلین کو پورا وقت نہیں دے سکوں گا۔ لہٰذا تم جا کر زید بن ثابتؓ کو اپنی تلاوت سنائو اور ان سے اصلاح لو۔ ہمارا منبع فیض یکساں ہے۔(حیات الصحابہؓ، جلدسوم، ص ۳۰۵)
اس طرح دیگر کبار صحابہؓ میں بھی بہت سے افراد علم و فضل میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے مگر وہ باقاعدہ معلّم نہ تھے۔ ان کی عسکری، انتظامی اور دیگر اُمورمیں مصروفیت آڑے آتی تھی اس لیے مخصوص تدریسی ذہن اورمیلان رکھنے والے صحابہ کرامؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں خلفائے راشدینؓ نے بھی تدریسی ذمہ داریاں سونپیں۔
اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مدینہ ہی وہ شہر ہے جہاں پہلے پہل سارے اسلامی علوم پروان چڑھے۔ رحلت ِ نبویؐ کے بعد یہاں صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد تابعین کی بہت بڑی تعداد آباد تھی جنھوں نے علوم القرآن اور حدیث و مغازی پر بہت کام کیا کیونکہ ہجرتِ نبویؐ کے بعد دعوتِ اسلامی کا مرکز مدینہ منورہ ہی رہا اور یہاں سے ہی اسلام پھیلا۔ مدینہ میں رحلت ِ نبویؐ کے وقت موجود صحابہ کرامؓ کی تعداد ۳۰ ہزار بتائی جاتی ہے، جب کہ اسلامی مملکت کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے صحابہ کرامؓ کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ ۲۴ہزار تھی۔(تدوین سیر و مغازی، ص ۱۶۷، سیرت نگاران مصطفٰی ،ص ۱۷)
مدینہ منورہ میں ان تیس ہزار صحابہ کرامؓ میں سے وہ کبار صحابہؓ جو علم و فضل میں یکتا تھے، جن کی علمی بصیرت بے نظیر تھی، جن میں سے ہرایک اپنی ذات میں ایک علمی دبستان تھا۔ انھوں نے مسجدنبویؐ میں ترویج علم کی مسند سنبھالی۔ قرآن، حدیث، فقہ ، مغازی اور علم سَیر کے دروس شروع ہوئے۔ ان صحابہ کرامؓ کی علمی نشستوں کو متلاشیانِ علم نے ’حلقہ‘ کا نام دیا۔ ’حلقہ‘ کی یہ روایت بعد میں تمام اسلامی دُنیا نے اپنائی اور آج بھی مسجد حرام اور مسجدنبویؐ میں نمازِ ظہر اور عصر کے بعد مختلف مقامات پر یہ علمی حلقے قائم ہیں جہاں جید علمائے کرام تعلیم و تدریس کا کام کرتے ہیں۔ کثیر تعداد میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ حلقہ بنا کر بیٹھتے ہیں اور تدریس سے مستفید ہوتے ہیں۔مسجد نبویؐ میں جن اکابر علماء صحابہ ؓ کے ’حلقے‘ قائم ہوا کرتے تھے ، اُن میں ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ اور عبداللہ بن عمرؓ کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
عہد فاروقی میں مسجد نبویؐ کے تعلیمی حلقوں میں صرف اہل مدینہ ہی نہیں بلکہ دُور دراز علاقوں سے متلاشیانِ علم سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرکے آیا کرتے تھے۔ خاص کر ابی بن کعبؓ کے حلقے میں بیرونِ مدینہ کے طلبہ زیادہ شریک ہوتے تھے۔ یہ حلقے مسجد نبویؐ کے مختلف ستونوں کے پاس قائم ہوتے تھے۔ طلبہ معلم صحابیؓ کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے تھے۔ عمر فاروقؓ نے مختلف علاقوں میں بھی معلّمین تعینات کیے تاکہ لوگوں کو علم حاصل کرنے کے مواقع بہ آسانی میسر ہوں۔ عثمان غنیؓ نے مسجد نبویؐ میں توسیع کی تاکہ حلقوں کے شرکا کے لیے مزید گنجائش اور کشادگی ہو۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی یاد رکھنے کا ہے کہ عہد صحابہؓ تک کتاب و سنت اور فقہ و فتاویٰ میں تبخر اور مرجعیت رکھنے والے علما کو قراء کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اور ان کے تلامذہ کے لیے فقہا کا لقب مشہور ہوا جس سے مراد کتاب و سنت اور فقہ و فتویٰ کے جامع حضرات تھے۔ (خیر القرون کے مدارس،ص ۱۸۲)
معلم صحابہ کرامؓ کے طریقۂ تدریس کی جو تصویر صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کے مطالعے سے سامنے آتی ہے، وہ زیادہ تر انفرادی نوعیت اور مزاج کے مطابق ہے۔ ہر ایک کا طریقۂ تدریس جداگانہ رنگ رکھتا تھا۔ تاہم ان کو بحیثیت مجموعی مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- صحابہ کرامؓ حدیث کے علمی مذاکرہ پر بہت زیادہ زور دیا کرتے تھے کیونکہ آپس میں علمی مذاکرہ سے علم حدیث کو بہتر انداز میں محفوظ کیا جاسکتا تھا۔ صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین میں یہ طریقہ زیادہ معروف، پسندیدہ اور مروج تھا۔ بعد میں آنے والے اکابر علماء اور فضلاء نے بھی اس طریقے کو اپنایا۔(علم جرح و تعدیل،ص ۳۶)
۲- معلّم صحابہ کرامؓ شاگردوں کے سامنے حدیث بیان کرتے اور شاگرد اسے زبانی یاد کرتے یا قلم بند کرتے تھے۔ احادیث بیان کرنے کا یہ بہت عمدہ اور اعلیٰ طریقہ تھا۔ بالعموم تمام حلقوں میں یہ طریقہ رائج تھا اور شاگرد اس طریق تعلیم سے حاصل کردہ علم کو سمعنا یا حدثنا کے کلمات سے اپنے شاگردوں تک پہنچاتے۔
۳- تاہم بعض صحابہ کرامؓ احادیث کے تحریر کرنے کے حق میں نہ تھے۔ وہ حدیث کو قلمبند کرنا اچھا نہیں سمجھتے تھے اور طلبہ کو احادیث حفظ کرنے پر زور دیتے تھے۔
۴- تابعین اور تبع تابعین کے دور میں تعلیم و تربیت کا ایک دوسرا طریقہ مروج ہوا کہ جس میں شاگرد اپنے شیوخ کے سامنے ان کا تحریر کردہ نسخہ حدیث پڑھتے اور شیوخ ان کی تصحیح و تصدیق فرماتے۔ اس طریقۂ تدریس کو عرض یا عرض القراء کہا جاتا تھا اورشاگرد اس طریقہ سے حاصل کردہ علم اپنے شاگردوں کو سکھاتے ہوئے أخبرنا کا کلمہ استعمال کرتے۔
۵- بعض شیوخ اپنی احادیث کا نسخہ تیار کرتے اور اسے علم میں پختگی حاصل کرچکنے والے طلبہ کو دے کر اس کو روایت کرنے کی اجازت دے دیتے تھے۔ اس طریقہ کو مناولہ یا عرضِ مناولہ کہا جاتا تھا۔
۶- درس کے دوران توضیح وتشریح کے لیے سوال و جواب کے مواقع بھی میسر ہوتے۔
۷- درس کے اختتام پر شیوخ صحابہؓ اور بعد کے معلّمین اپنے لیے اور شرکاء مجلس کے لیے دُعائے خیر فرما کر حلقہ برخاست کیا کرتے تھے۔
صحابہ کرامؓ کے ساتھ ساتھ صحابیاتؓکا بھی اشاعت ِ علم میں بڑا کردار رہا۔ انھوں نے مسلم خواتین کو قرآن خواندگی اور دیگر فرائض کی تعلیم دی۔ معلمات صحابیاتؓ میں سے اُم المومنین عائشہ صدیقہؓ کا تذکرہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ان کی ذات بابرکت سے مردوں اور عورتوں نے یکساں علمی استفادہ کیا۔ وہ پردے میں بیٹھ کر تعلیم دیا کرتی تھیں۔
اسلامی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ خلفائے راشدینؓ کے بعد ان صحابہ کرامؓ کے حالاتِ زندگی زیادہ تر محفوظ ہیں جنھوں نے بطورِ معلّم فرائض سرانجام دیئے۔ ان معلّمین میں سے بیش تر صحابہ کرامؓ نے باوجود ترغیبات، سرکاری عہدوں اور انتظامی اُمور میں حصہ نہیں لیا اور خود کو درس و تدریس تک محدود رکھا۔ معاش کے لیے اگرچہ سرکاری وظائف کے علاوہ ان کے اپنے ذاتی ذرائع آمدن، جیسے تجارت، زراعت وغیرہ تھے، مگر ان کی اوّلین ترجیح اشاعت علم ہی تھی۔
یہ ان صحابہ کرامؓ کی اَن تھک محنت اور جدوجہد کا ثمرہ ہے کہ اسلامی تعلیمات نہ صرف محفوظ رہیں بلکہ دُنیا بھر میں اُن کی اشاعت بھی ہوئی۔ ان صحابہ کرامؓ نے ایک علمی تہذیب تشکیل دی اور اس اسلامی علمی عربی تہذیب نے موجودہ دُنیا کو جو میراث سپرد کی ان میں سیّدقطب شہیدؒ کے مطابق اہم ترین چیز علم ہے۔(اسلام اور مغرب کے تہذیبی مسائل،ص ۴۳)
اہل غزہ کو بھوک پیاس، آتش و آہن اور سخت حصار و محاصرے کے ذریعے موت کے منہ میں پہنچانے کی خبریں اور رپورٹیں اس وقت ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر ہم دیکھ رہے ہیں۔ ان مناظر کی المناکی بتاتی ہے کہ اہل غزہ کن سخت حالات سے دوچار ہیں۔ ان کی اجتماعی نسل کشی کا جو بھیانک مظاہرہ اسرائیل نے ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے شروع کر رکھا ہے، اس پر اُمت مسلمہ کی خاموشی مسلمانوں کی بے بسی اور کمزو ری کو ظاہر کرتی ہے یا ان کی بے حسی کا شرمناک مظاہرہ ہے۔ اس ناگفتہ بہ حالت کو جو نام بھی دیا جائے بہرحال یہ حالت آج سے پہلے کبھی اُمت پر نہیں گزری۔ نہایت تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اہل غزہ پر ظلم و ستم اور تباہی و بربادی کا یہ سلسلہ اُمت مسلمہ کے وافر مادی اور افرادی وسائل و امکانات کے باوجود جاری ہے۔ اُمت کے پاس ایسی طاقت موجود ہے جو عالمی سطح پر ایک وزن رکھتی ہے اور اس وزن کو محسوس بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے پاس کئی ملین پر مشتمل افواج موجود ہیں۔ قدرتی وسائل کی بے حد و حساب دولت سے اُمت مالامال ہے، سب سے بڑی دولت تیل ہے جس کو بطور دبائواستعمال کرکے اُمت عالمی معیشت کو ہلاسکتی ہے۔
قوت و طاقت کا توازن قائم کرنے کے لیے اُمت کے پاس وسائل کی کمی نہیں، تاہم اس کو ایسی فکر اور ایسے مفکرین کی ضرورت ہے جو ان حالات کے اسباب کو جان کر اس کا حل وضع کرسکیں۔ خاص طور پر مغربی دُنیا کے اسرائیل کے صہیونی نظام کے تابع فرمان ہونے کی صورت میں اُمت کے لیے کوئی لائحہ عمل وضع کرنا۔
یہ مسلمانوں کی کمزوری اور قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد و نصرت سے ہاتھ کھینچ لینا ہی تھا جس نے مغرب کو اسرائیل کی حمایت کا حوصلہ دیا۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم اُن اسباب کو جاننے کی کوشش کریں جنھوں نے ہمیں بے بسی و بے چارگی کی اس حالت تک پہنچایا ہے اور معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ محاصرین نے غزہ میں انسانی امداد کی رسائی تک کو روک رکھا ہے۔
ان حالات سے نبٹنے کے لیے، موجودہ نہیں تو آئندہ کے لیے یا آئندہ نسلوں کی خاطر ہی سہی ہمیں کوئی لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ زیادہ نہیں تو دشمن ہی سے سبق حاصل کرلیا جائے کہ ۱۸۹۷ء میں مٹھی بھر یہودیوں نے ریاست ’اسرائیل‘ کے قیام کا منصوبہ ایک کانفرنس میں بنایا اور پچاس سال بعد عملاً اس مقصد کو حاصل کرلیا۔ اگرچہ بزدلی و کم ہمتی اور باہمی چپقلش ان میں بھی موجود ہے لیکن پھر بھی وہ سوچتے ہیں، غوروفکر کرتے ہیں، منصوبے بناتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لیے عملی طور پر مصروف ہو جاتے ہیں۔ اور ہمارا کیا حال ہے؟ ہمارے اُوپر بے کاری و بے فکری اور اسباب و وسائل کے ضیاع کی قابلِ رحم حالت طاری ہے۔ یہ ایسا خطرناک اور مہلک مرض ہے جو قوموں کو لاحق ہوجائے تو زمین سے اُن کا وجود اور تاریخ سے اُن کا تذکرہ مٹادیتا ہے ، جب کہ اُدھر ہم نیتن یاہو کے بیانات کی صورت میں باطل کو روز بروز سر اُٹھاتا دیکھ رہے ہیں۔امریکی صدرٹرمپ کی گفتگو میں اس کی حکمرانی کو اُونچی سطح پر دیکھتے ہیں اور لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں بوڑھوں کا قتل عام بڑھتا ہوا پاتے ہیں۔
ہم روزانہ کی بنیاد پر دشمنانِ خدا کو دن رات سازشیں کرتے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے تباہ کن مادی اور تکنیکی و انسانی وسائل سے کام لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے مقابل ہماری بے فکری میں اسی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے۔ گویا ہم کوئی کھلونا ہیں جن کو یہود اور ان کے پیروکار کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ یا یوں کہیے کہ ہم اُن کے نزدیک شطرنج کے وہ مہرے ہیں جن کو کچھ سمجھے بغیر دائیں بائیں بڑی بے دردی سے پھینکا جاتا ہے۔
آزمائش پر آزمائش اُمت مسلمہ کا مقدر ہے۔ اس کا دائرئہ حیات روز بروز تنگ سے تنگ کیا جارہا ہے۔ اس کی ہمت کمزوری کے آخری درجے پر پہنچی ہوئی ہے۔ اس وقت ہم پسپائی و نااُمیدی کے سمندر میں غرق ہیں۔ ہرکوئی صرف اپنے آپ کو محفوظ و مامون بنانے کی فکر میں ہے ۔اس لیے گوشہ نشین اور غیرجانب دار ہوکر دبکا بیٹھا ہے۔ ہر کوئی تقدیر الٰہی کے فیصلے کا منتظر ہے کہ وہ آئے اور ہماری کسی حرکت و عمل کے بغیر ہمیں اس حالت سے باہر نکال دے۔ کیا یہ سقوط و خاتمے کی علامات نہیں؟ کیا یہ ضُعف ایمان کی نشانیاں نہیں؟ کیا یہ قادرِ مطلق اور اس کی رہنما کتاب پر عدم یقین نہیں؟
مسئلۂ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ یہ تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ یہ ہرمسلمان کی نسبت سے اسلامی عقیدے کا مسئلہ ہے۔ یعنی اُن لوگوں کا مسئلہ ہے جو ایمانی اخوت کے ذریعے ہمارے ساتھ مربوط اور جڑے ہوئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:
مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی تَوَادِّھِمْ وَتَرَاحُمِھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ الجَسَدِ ، اِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّھَرِ وَالْحُمَّی (بخاری، حدیث: ۵۶۷۱) مومنوں کی مثال باہمی مودت و رحمدلی اور محبت و مہربانی میں جسم کی مانند ہے کہ جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو بے خوابی اور بخار سے سارا جسم بلبلا اُٹھتا ہے۔
اہل ایمان میں سے مضبوط اور حقیقی مسلمان وہ ہوتا ہے جس کا اپنے اللہ پر پختہ یقین ہو، اس کے اُوپر بے حد توکّل ہو۔ وہ اسباب و ذرائع سے کام لیتا اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامتا ہے۔ مددو نصرت کے موقع پر اُسے بے یارومددگار چھوڑ جانے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور نہ کوئی مخالف اُسے کوئی تکلیف دے سکتا ہے جب تک اللہ کی طرف سے منظور نہ ہو۔ اسے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ اللہ اُس کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ساتھ قوت و طاقت کے عناصر میں سب سے بڑا عنصر ہے۔ مسلمان نااُمیدی سے آشنا نہیں ہوتا۔ وہ باطل کی طاقت سے نہ مرعوب ہوتا ہے اور نہ اس کے سامنے ہتھیار ڈالتا ہے بلکہ وہ باطل کے مقابلے کے لیے اپنے اندر ہمت پیدا کرتااور اپنے دفاع میں صبروبرداشت سے کام لیتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۱۷۳ (اٰل عمرٰن ۳:۱۷۳) جن سے لوگوں نے کہا کہ: ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سن کر اُن کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ: ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔
غزوئہ اُحد کے موقع پر صحابہ کرامؓ کی ثابت قدمی اور جانبازی ہمارے لیے اُسوہ و نمونہ ہے۔ اس وقت جب کبار صحابہ کرامؓ شہید ہوگئے اور مسلمانوں کی قوت ٹوٹ گئی تو نہایت اہمیت کی حامل اس حقیقت کو یقینی طور پر بیان کرنے کے لیے قرآنِ مجید نازل ہوا۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ مومن ہمیشہ عزّت و رفعت اور بلندی و سرفرازی کا سوچتا ہے۔ موت کا خوف اوریاس و نااُمیدی کا گزر اس کے دل میں نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ عجز و انکساری کی حالت میں بھی یہ چیز اس کے دل میں داخل نہیں ہوسکتی۔ قرآن مجید نے اس صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۳۹ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان بلندوبالا مقام پر ہوتا ہے، انھیں اپنے دین پر فخر ہوتا ہے۔ دُنیا کی طاقت ور قوموں کا بھی ان کو مقابلہ کرنا پڑے تووہ اپنے اندراس کی ہمت اور جرأت رکھتے ہیں۔
ہمیں اپنے پیش رو ملکوں اور قوموں سے سبق سیکھتے ہوئے اس امریکی صہیونی منصوبے کو روکنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے جس کے مطابق وہ خطّے میں اپنا تسلط مضبوط کرنا اور اہل خطّہ کو ان کی شناخت، ورثے اور امتیاز سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ وہ اُمت کو نرگسیت کی طرف لے جاکر روحِ جہاد کو ان کے دلوں سے کھینچ لینا چاہتا ہے۔
آج اُمت عملی طور پر مایوسی و بے بسی اور اپنے بھائیوں کی مدد و نصرت سے کنارہ کشی کے جس فتنے سے گزر رہی ہے معاذاللہ وہ اسے دین میں نقص اور کمزوری کی طرف لے جارہا ہے۔ دشمن اُمت پر طاری مایوسی و نااُمیدی کو حقیقت بنانے کی جدوجہد کر رہا ہے اور اُمت کے اپنے معزز و سچے دین اسلام کے ساتھ وابستگی اور تعلق میں ضُعف اور انحطاط کو گہرا کر رہا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عقیدے کی چنگاری کو زندہ کیا جائے تاکہ وہ اُن دلوں میں شعلہ بن جائے جن دلوں پر پستی و پسپائی کا غلبہ ہوچکا ہے۔ وہ قوت و طاقت کے حصول کی اس تیاری سے منہ موڑے کھڑے ہیں جس کا اہتمام و التزام کرنے کا ان کو خاص طور پر حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ ان حالات سے نکل سکیں جن سے آج اسلام دوچار ہے۔ ضروری ہے کہ مسلمانوں کا ایک ایک فرد اس خطرے کو ٹالنے اور روکنے میں اپنا حصہ ادا کرے۔ وہ خطرہ جو اسلامی مفاہیم و معانی کو تلپٹ کر رہا ہے۔ اُمت کی شناخت کے ساتھ مربوط مفاہیم کو مسخ کر رہا ہے۔ ترجیحات کو سمجھنے سے بیگانہ کر رہا ہے، مصلحت کے فہم میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے، حادثاتی طور پر پیدا ہوجانے والے حالات کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے کی فکر سلب کر رہا ہے۔ لہٰذا، اسلام کا جوہر اُس وقت تک باقی ہے جب تک یہ مسلمانوں کے دلوں اور اُن کے مظاہر حیات میں موجود ہے۔
ہمیں اسلامی سوسائٹی کے بعض روشن پہلوئوں کے وجود سے انکار نہیں۔یہ اُسی طرح متحرک و سرگرمِ عمل ہیں جس طرح عموماً انسانی معاشرہ باہم متحرک ہوتا ہے۔ یعنی غزہ میں جاری قتل و غارت اور ظلم و ستم کے خلاف دُنیا بھر کے دارالحکومتوں میں ہونے والا احتجاج۔ بعید نہیں کہ آج کے یہ احتجاجی مظاہرے کسی بھی لمحے آتش فشاں بن جائیں اور جس قدر تبدیلی لاسکتے ہوں لے آئیں، کم سے کم غزہ کے محاصرے کو توڑ کر غذا و دوا اور بچوں کے لیے دودھ کی فراہمی کو ممکن بناسکیں۔ اُمیدکا ایک پہلو یہ ہے کہ بے بسی و لاچاری نے اسلامی معاشروں کو ابھی مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں نہیں لیا ہے۔ ان کے اندر جہاد کی روح نے جاگنا اور پنپنا ابھی بند نہیں کیا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے کہ جس سے پوری اُمت کو خیرکثیر کا پھل ملنے کی اُمید ہے۔ یہ پہلو اُمت کے بعض دلوں میں جاگزیں، مایوسی و شکست خوردگی کا خاتمہ کرسکتا ہے۔
اُمت کو صرف رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اس کے سامنے ایسا عملی پروگرام پیش کرسکے جو دلوں میں بیٹھی صورتِ حال اور معاشروں میں پھیلی بے راہ روی اور بے مقصدیت کو درست کرسکے۔ اس کے مسائل کے حل کے لیے اس کی کمزوری کے نکات کوواضح کرسکے اور اَزسرنو اس کے اندر اعتماد کا بیج بوسکے۔ یہ ہمارے اُوپر فرض ہے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں، شہدا اور ان کے بہنے والے خون کو ، ان کے زخمیوں کے درد کو، اور ان کی بھوک پیاس اور دیگر آلام کو محسوس کریں۔ اس کے ساتھ ہی ہم اُن کے دفاع میں جس قدر ہوسکتا ہے مال و جان کے ذریعے شاملِ جہاد ہوجائیں۔ یہ ہمارا انسانی سے پہلے دینی فریضہ ہے۔ جی ہاں! یہ ہمارے اُوپر فرض ہے کہ ہم اپنی طاقت و قدرت کے مطابق جہاد کے لیے نکلیں جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ (التوبۃ ۹:۴۱) نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ۔
کل کے بجائے اگر آج اُمت مسلمہ متحرک نہ ہوئی ،اور وہ بھی اس فیصلہ کن موقع پر، اور تاریخ کے ایسے غیرمعمولی حالات اور باضابطہ جرائم اور مظالم میں، تو پھر کب متحرک ہوگی؟ اور پھرکس بنیاد پر متحرک ہوگی؟ اور اپنے دینی بھائیوں کے خلاف غیرجانب داری اور مدد و نصرت سے پہلو بچانے کی حالت کب ختم ہوگی؟اور یہ غیر جانب داری کا اسلامی ہونا تو جائز ہی نہیں ہے بلکہ غیرجانب داری کو عسکری یا سیاسی یا اقتصادی کسی قسم کی کمزوری بھی جائز نہیں ٹھیراتی۔ اس لیے کہ اربوں کی تعداد پر مشتمل امت کے پاس ان تمام پہلوئوں کے اعتبار سے وافر وسائل اور دولت موجود ہے۔ وسائل و افراد سے مالامال اس اُمت کے لیے دشمن یہی چاہتا ہے کہ اُمت نام نہاد انسانیت کے نام پر بے حسی کا مظاہرہ جاری رکھے جو خاموشی کے علاوہ کسی شے سے واقف نہ ہو۔ جسے نرگسیت اور چت ہونے کے علاوہ کوئی تجربہ نہ ہو۔ لہٰذا آج اُمت مسلمہ ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے، جو تفسیروعمل کے صحیح قرآنی منہج کی طرف رجوع کو اس کے اُوپر لازم کرتا ہے___ وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ !
کچھ عرصہ سے عرب اور دیگر مسلم معاشروں میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیاں بہت تاخیر سے ہو رہی ہیں۔ یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور کئی خاندانوں میں نظر آ رہا ہے۔
شادی نہ کرنے کا یہ رجحان سنجیدہ سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ بنیادی طور پر اسلامی روایات سے دُوری کا نتیجہ ہے، جو بیٹیوں کی شادی کی ترغیب اور شادی میں تاخیر اور سُست روی سے خبردار کرتی ہیں۔
یہ رجحان پہلے عرب اور دیگر اسلامی معاشروں میں نہیں تھا، مگر مغربی سوسائٹی میں کافی پہلے سے اسے فروغ حاصل رہا ہے، جہاں نہ صرف یہ کہ ان کی آبادی میں بچوں کا تناسب کم ہے، بلکہ شادیاں اور ولادتیں نہ ہونے کی وجہ سے انھیں اب ورک فورس کے لیے تارکین وطن کو اپنے ملک میں بسانا پڑ رہا ہے۔
تجرد (کنوار پن/عنوسہ) کے کئی سماجی اسباب ہیں، جن کی بنا پر اسے مختلف معانی دیے جاسکتے ہیں: رہائشی علاقہ، طرزِ زندگی (لائف اسٹائل)، کلچر، رسوم و روایات وغیرہ۔ اصطلاحاً العنوسه سے مراد وہ عورت ہے جس کی عمر شادی کے لیے موزوں عمر سے تجاوز کر گئی ہو۔
شادی کو آسان بنانا نہ صرف بنیادی انسانی ضرورت ہے بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے۔ معاشرے کا یہ کام ہونا چاہیے کہ ان تمام رکاوٹوں کو دُور کرے، جو اس میں آڑے آتی ہیں۔ ایسا کرنا عبادت و احکاماتِ اسلام کی اطاعت ہے۔ ساتھ ہی یہ عصمت کی حفاظت اور شرم و حیا کے حصار کو قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔
شادی کے نتیجے میں بہت سارے فوائد مرتب ہوتے ہیں، مثلاً امت کی تعداد میں اضافہ، مرد و عورت کی حرمت کی حفاظت، خاندان کی بنیاد، جو معاشرے کی تشکیل کا پہلا جز ہے۔ اسی لیے شریعت اسے آسان بنانے پر زور دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ روم میں فرمایا ہے: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سےتمھارے جوڑ بنائے، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘۔(الروم۳۰: ۲۱)
سورۂ نور ہی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’تم میں سے جو لوگ مجرّد (غیر شادی شدہ) ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا‘‘۔(النور۲۴: ۳۲)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے نوجوانو، تم میں سے جو بھی نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم و حیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے ‘‘۔(بخاری، مسلم)
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے: ’’بہترین اور برکت والا نکاح وہ ہے، جس میں خرچہ کم ہو‘‘۔
ایک صحابیؓ جو شادی کا ارادہ رکھتے تھے، ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جاؤ اور لوہے کی انگوٹھی بھی ہے تو لے کے آؤ (مہر کے لیے)‘‘۔ (بخاری)
ابی العجفاء السلمی کہتے ہیں، ہم سے عمر فاروقؓ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’عورتوں کے مہر میں مبالغہ (غلو) نہ کرو، کیونکہ اگر یہ دنیا میں عزّت یا اللہ کے نزدیک تقویٰ کا ذریعہ ہوتا تو نبی (صلی الله علیہ وسلم) اس کے سب سے زیادہ حق دار ہوتے۔ نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے اپنی بیویوں یا بیٹیوں کو کبھی بھی بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر نہیں دیا‘‘۔
مسلم معاشروں میں شادی کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جنھوں نے غیر شادی شدہ نوجوانوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ مصر میں نیشنل سینٹر فار سوشل اینڈ کریمنل اسٹڈیز کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ پہلو سامنے آیا ہے کہ مصر میں ایک تہائی لڑکیاں ایسی ہیں جن کی عمر ۳۰برس سے زائد ہے اور وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ اور اب تو زیادہ تر عرب ممالک کا یہی حال ہے۔
اس صورتِ حال کے کئی اسباب ہیں:
۱- سوسائٹی اور اس کے عناصرِ ترکیبی یعنی افراد، خاندان اور اداروں میں اسلامی اقدار کی قبولیت کتنی ہے؟ یہ ایک اہم وجہ ہوگی اگر روایات اوّلیت رکھتی ہوں اور دینی روح ثانوی حیثیت رکھتی ہو۔
۲- معاشرے کے بُرے رسوم و رواج کی تقلید کرنا، جیسے شادیوں پردکھاوے کی غرض سے بے جا اخراجات اور فضول خرچی، بہت سی فضول تقریبات، یا پھر یہ کہ بڑی بہن کی شادی سے پہلے چھوٹی کی نہیں ہوگی۔
۳- مناسب روزگار کے مواقع کی عدم موجودگی اور نوجوانوں کے درمیان بے روزگاری کا پھیلاؤ جو انھیں گھریلو اور ازدواجی اخراجات کی فراہمی سے عاجز کردیتے ہیں۔
۴- کیریرازم ، یعنی اچھی ملازمت کی طلب اور انتظار تاکہ زیادہ آمدن ہو سکے۔ اسی کے پیچھے توانائیاں لگا دینا اور زیادہ سے زیادہ کی ہوس رکھنا۔
۵- بعض ولی حضرات کا لڑکی کا مہر بہت زیادہ مقرر کرنا۔
۶- لڑکیوں اور اکثر پڑھی لکھی لڑکیوں کا شوہرکی خوبیوں کے حوالے سے مبالغہ آمیز شرائط عائد کرنا اور پھر ان جملہ صفات کا مدتوں انتظار کرتے رہنا۔
۷- کچھ خاندانوں کی خراب ساکھ جس کی وجہ سے ان کے بچوں اور بچیوں سے کوئی رشتۂ اَزدواج میں منسلک ہونا نہیں چاہتا۔
۸- اکثر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دینی رجحانات و خیالات میں کمزوری، جس کی وجہ سے وہ حلال ترک کر کے حرام اختیار کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے نکاح ان کے نزدیک ایسا مسئلہ بن جاتا ہے، جس میں ان کو کوئی جلدی نہیں ہوتی۔
۹- بڑے پیمانے پر نوجوان لڑکوں کا بیرون ملک تعلیم یا ملازمت کے لیے منتقل ہونا، جو انھیں وہیں پر قیام اور وہاں کی مقامی خواتین سے شادی کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ان سے شادی کرنے کے کم اخراجات کی وجہ سے یا کچھ دوسرے مقاصد کے حصول کے لیے، جیسے وہاں کی شہریت پانے کی وجہ سے، جہاں انھوں نے شادی کی ہو۔
۱۰- بعض لڑکیوں کا تعلیم کو شادی پر ترجیح دینا، جس کی وجہ سے وہ تعلیم مکمل کرنے تک شادی سے رُکی رہتی ہیں۔
۱۱- والدین کا اپنی بیٹیوں پر جبر اور ان کی شادیوں میں مختلف وجوہ کی بنا پر یا بلا وجہ رکاوٹ ڈالنا، یا ان فوائد کے حصول کی خاطر جو وہ ان سے حاصل کرتے ہیں، شادی میں تاخیر کرنا۔
۱۲- میڈیا کے اثرات جومرد اور عورت کے درمیان مساوات کا دعوے دار ہے۔ یہ چیز بھی عورتوں کو مردوں کے سامنے چیلنج کرنے پر اُبھارتی اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور ان سے شادی کرنے سے انکار پر آمادہ کرتی ہے۔
تجرد یا شادیوں میں تاخیر یا نہ ہونے کے اثرات افراد اور معاشروں پر اس کے رواج کی بناپر مختلف طریقوں سے پڑتے ہیں۔ بعض لڑکیوں کے نزدیک یہ ایک بھیانک خواب ہوتا ہے، جو ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیتا ہے، جب کہ بعض اسے ذاتی پسند یا تقدیر سمجھتی ہیں جس سے فرار ممکن نہیں۔
اگرچہ عرب اور دیگر مسلم معاشروں میں یہ تناسب اب بھی مغرب سے کم تر ہے لیکن بہرحال اس کے منفی اثرات بہت زیادہ ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
یہ مسئلہ ہر ایک کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے، چاہے وہ گھر ہو، معاشرہ ہو یا حتیٰ کہ ادارے۔ اسلام اور شریعت نے ایسے مسائل کے حل کے لیے چودہ صدیاں قبل بنیادی اصول فراہم کیے ہیں، لیکن لوگوں کا اسلامی تعلیمات سے دُور ہونا ان مظاہر کے پھیلنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں: شادی پہلے سب سے آسان چیزوں میں سے تھی، لیکن اس کے بعد خصوصاً ہمارے زمانے میں لوگوں نے اللہ کی آسان کردہ چیزوں کو مشکل بنا دیا، اور جسے اللہ نے وسیع کیا، اسے تنگ کر دیا، اور خود پر ایسی سختیاں عائد کیں جو اللہ نے عائد نہیں کیں تھیں، جس کے نتیجے میں نوجوان لڑکوں میں تجرد اور لڑکیوں میں کنوار پن دیکھنے کو ملتا ہے‘‘۔
اسلام نے اس طرح کے رجحانات کے حل کے سلسلے میں کئی بنیادیں اوراصول وضع کیے ہیں، جومسلمانوں کو اس کے خطرات سے محفوظ کرتے ہیں:
۱- اُمت کی دینی اور اعتقادی اساس کو بحال کرتے ہوئے اور لوگوں کے قلوب میں ربّ پر اس انداز سے توکّل کا بیج بونا کہ اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق کی فراوانی پر قادر ہے اور انھیں رزق دیتا ہے۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین لوگوں کی مدد کرنے کی ضمانت اللّٰہ نے دی ہے: ایک جو اس کی راہ میں جہاد کو نکلے، دوسرا وہ جو قرض کوادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، اور تیسرا وہ جو پاکدامنی کے لیے نکاح کرے‘‘۔ (ترمذی)
۲- اخلاقی تعمیر نو: اس کا مطلب ہے لوگوں کے دلوں میں صحیح تصورات کے بیج بونا، خاص طور پر نوجوانوں اور اُبھرتی ہوئی نسلوں میں، تاکہ ان میں طہارت اور عفت کی حفاظت کی محبت پیدا کی جائے۔
۳- ہر چیز میں اعتدال اور توازن کی ترغیب دینا، خاص طور پر مہر میں، تاکہ یہ کسی کی استطاعت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے: ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کردے گا‘‘ (النور۲۴:۳۲)۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک، عورت کے لیے ایک نعمت یہ ہے کہ اس کی منگنی، اس کا مہر، اور اس کی زچگی آسان ہو‘‘۔ (صحیح الجامع)
۴- مناسب شریکِ حیات کا انتخاب کرتے وقت اخلاق اور دین کو دولت پر ترجیح دینا چاہیے۔ اگر نیک اخلاق اور دین کا التزام موجود ہو، تو یہی حقیقی کامیابی اور فائدہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تمھارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو، تو اس سے نکاح کرو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین پر فتنہ اور فساد پھیل جائے گا‘‘۔ (ترمذی)
۵- مسلم ممالک میں معاشی استحکام حاصل کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں، تاکہ معاشی حالات بہتر ہوں اور باعزت روزگار کے مواقع فراہم ہوں اور شادی کے ذریعے نئے خاندان قائم کیے جاسکیں۔
۶- مہر کو کم کرنا اوراس کی ادائیگی کو آسان بنانا، اور اس میں مبالغہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسلام میں خاندان اور معاشرت کے فائدے کے لیے اس کی ترغیب دی گئی ہے، جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ایک آدمی اپنی بیوی کے مہر سے اس قدر بوجھل ہوسکتا ہے کہ اس کے دل میں اس کے خلاف عداوت پیدا ہو جائے‘‘۔ (ابن ماجہ)
۷- میڈیا کو اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرنا چاہیے اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو شادی کرنے کی ترغیب دینے کا ذریعہ بننا چاہیے، نہ کہ حوصلہ شکنی کا ذریعہ۔
۸- ہاؤسنگ کے بحران اور محدود ملازمت کے مواقع کے حل کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں، تاکہ ملازمت کے مواقع پیدا کیے جا سکیں اور نوجوانوں کی مہارتوں اور صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکے۔
۹- شادی میں مالی معاونت اور سہولت کے منصوبوں، دعوتی فورمز، مساجد اور سیمینارز کو فعال کرنا، خاص طور پر شادی سے ہچکچاہٹ اور تجرد پسندی کے اس دور میں۔
۱۰- رسم و رواج پر نظر ثانی کرنا اور ان غلط معاشرتی عادات کو ترک کرنا جو شادی میں رکاوٹ بنتے ہیں، جیسے برادری و قوم کا تعصب اور والدین کا ملازمت کرنے والی بیٹیوں کی شادی میں تاخیر کرنا۔
۱۱- اس پر توجہ دینے کے لیے خاص سیمینار اور نشستیں منعقد کرنا سماجی اداروں اور خصوصاً یونی ورسٹیوں کی ذمہ داری ہے۔
۱۲- افراد میں شادی کے بعض معیارات میں تبدیلی کرنا، جہاں خوب صورتی ایک نوجوان کے لیے دلھن کی تلاش میں واحد معیار نہ ہو، اور نہ ایک نوجوان کی خوب صورتی اور دولت ہی لڑکی کے لیے بنیادی مقاصد ہوں۔
اس تجرد یا کنوار پن کی روش عرب اور اسلامی معاشروں کی بنیادوں کے لیے سنجیدہ خطرہ بن چکی ہے، جیسا کہ مختلف تحقیقات اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے، اسلام شادی کے قابل ہر نوجوان کو شادی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ سورۃ النور کی آیت ۳۲کی تشریح کرتے ہوئے ابن عباسؓ نے کہا: ’’اللہ نے نکاح کا حکم دیا، اس کی ترغیب دی، اور انھیں اپنے آزاد اور غلاموں کی شادی کرنے کا کہا، اور اس بارے میں انھیں خوش حالی کا وعدہ دیا ہے‘‘۔
ایک زمانے کی بات ہے، ایک گاؤں میں مختلف قبیلوں کے لوگ آباد تھے۔ ان میں ایک قبیلے کی آبادی سب سے زیادہ تھی، جب کہ باقی قبیلے اقلیت میں شمار ہوتے تھے۔اچانک اکثریتی قبیلے کے چند افراد کی نظر اقلیت کی زمینوں اور جائیدادوں پر پڑی، جو انھیں اپنے آبا و اجداد سے ورثے میں ملی تھیں اور جنھیں وہ ’وقف ‘ کہا کرتے تھے۔ بس پھر کیا تھا، ان لوگوں نے گاؤں میں ایک جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا دیا کہ ’’یہ لوگ ’لینڈ جہاد‘ کر رہے ہیں‘‘۔ کیونکہ گاؤں کا سردار انھی چند افراد کا سرپرست تھا اور انھی کا ہم نوا تھا، اس لیے اس پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر اس نے وقف کی زمینوں سے متعلق موجودہ قانون میں ترمیم کر ڈالی۔ وہ ان اقلیت والوں کو کہتا تھا، ’’یہ سب تمھاری بھلائی کے لیے ہے۔ میں تمھیں نئے قوانین دے رہا ہوں تاکہ تم بہتر زندگی گزار سکو‘‘۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ ترمیمیں صرف ان کی وقف زمینیں چھیننے اور انھیں مزید کمزور کرنے کا آلہ تھیں۔
گاؤں کے اقلیتی طبقے نے آواز اٹھائی، احتجاج کیا، ہر گلی کوچے میں اپنی فریاد سنائی، مگر سردار کے پاس طاقت بھی زیادہ تھی اور اثر و رسوخ بھی۔ آخرکار اقلیتی لوگ گاؤں کے چند انصاف پسند افراد کے سہارے عدالت پہنچے۔ عدالت میں طویل سماعتیں ہوئیں: دلائل دیے گئے، اعتراضات اور وضاحتیں سامنے آئیں۔ ایک طویل انتظار کے بعد عدالت نے اپنا عبوری فیصلہ سنایا، ’’پورے قانون کو ختم کرنے کی فی الحال کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ تاہم کچھ شقوں کو عارضی طور پر معطل کیا جاتا ہے‘‘۔ اس پر اقلیت کے لوگ سوچ میں پڑ گئے کہ کیا وہ اس فیصلے پر خوشی منائیں یا احتجاج کریں؟ ان کی آنکھوں میں سوال تھا: کیا یہ انصاف ہے یا محض وقتی دلاسا؟ کیا یہ جیت ہے یا صرف ہار کو خوشنما بنانے کی کوشش؟ وہ لوگ گاؤں کے کھنڈرات کے سامنے کھڑے اپنے حالات پر افسوس کرتے رہے، شاید خود سے یہ پوچھتے ہوئے: ’’جب سب کچھ لٹ چکا ہو تو انصاف کا ایک کاغذ آخر ہمیں کیا دے سکتا ہے؟ ایک دن یہ وقف بھی مٹ ہی جائے گا‘‘۔
اب تک آپ اس کہانی کے ذریعے انڈین مسلمانوں کے دلوں کی کیفیت کو بخوبی محسوس کر چکے ہوں گے۔ میرا اشارہ وقف ایکٹ ۲۰۲۵ء پر سپریم کورٹ کے حالیہ عبوری فیصلے کی طرف ہے۔ اس فیصلے میں اگرچہ چند دفعات کو عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے، لیکن متعدد دیگر دفعات کے حق میں بات کی گئی ہے، جو یکساں طور پر غیر منصفانہ معلوم ہوتی ہیں۔ — گویا ان کے جواز کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ایسے میں یہ فیصلہ مسلمانوں کے اندر بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کو کم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ رویہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب مسلمانوں کو ریاستی طاقت کے بے جا استعمال پر شدید تشویش ہے۔ مجموعی طور پر یہ فیصلہ اطمینان بخش نہیں ، تاہم دفعہ 3C کے تحت کلیکٹر کو دیئے گئے غیر معمولی اختیارات پر روک لگایا جانا ایک مثبت پیش رفت ہے۔ جس کا مطلب ہے، باقی تمام وقف جائیدادوں کے سلسلے میں مسلمانوں کو طویل اور مشکل عدالتی جنگ لڑنی ہوگی۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا ہے: ہم یہ نہیں پاتے کہ پورے قانون کو معطل کرنے کی کوئی معقول بنیاد موجود ہے۔ لہٰذا، متنازعہ قانون کو معطل کرنے کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ البتہ، ایسا کرتے ہوئے، تمام فریقین کے مفادات کے تحفظ اور انصاف کے تقاضوں میں توازن برقرار رکھنے کے لیے، جب تک ان مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، ہم درج ذیل احکامات جاری کرتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد کہا گیا ہے: ’’ترمیم شدہ وقف ایکٹ کی دفعہ ۳کی شق (R) میں موجود یہ عبارت: ’’کوئی بھی شخص جو یہ ظاہر کرے یا ثابت کرے کہ وہ کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہے‘‘، کو اس وقت تک معطل رکھا جائے گا، جب تک ریاستی حکومت اس بات کا تعین کرنے کے لیے کوئی ضابطہ (Rule) وضع نہ کر دے کہ آیا کوئی شخص واقعی کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل کررہا ہے یا نہیں؟‘‘۔ عدالت نے اس شق کو عارضی طور پر معطل تو کیا ہے، مگر اس کو سرے سے کالعدم قرار دینے سے گریز کیا۔ یہ دفعہ دراصل مذہبی شناخت کی ریاستی نگرانی کو جنم دیتی ہے، جو آئین کے آرٹیکل ۲۵ (مذہبی آزادی) کے منافی ہے۔ کیا کوئی ریاست یہ طے کرے گی کہ ایک شخص کتنا ’مسلمان ‘ہے؟ یہ اپنی جگہ خود ایک خطرناک نظریاتی سوال ہے جو مذہب میں ریاستی مداخلت کے دروازے کھولتا ہے۔
اس کے بعد اس فیصلے میں ترمیم شدہ وقف ایکٹ کی دفعہ ۳ سی کی ذیلی دفعات (۲)، (۳) اور (۴) کو بھی عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے۔ ان دفعات کے تحت، ایک افسر کسی جائیداد کو سرکاری زمین قرار دے کر وقف ریکارڈ سے نکال سکتا تھا۔ عدالت نے کہا ہے کہ جب تک ٹریبونل فیصلہ نہ دے اور ہائی کورٹ کوئی اور حکم نہ دے، وقف املاک سے کسی کو بے دخل نہیں کیا جائے گا اور نہ وقف بورڈ یا ریونیو ریکارڈ میں کوئی تبدیلی کی جائے گی۔ اور جب تک فیصلہ نہ ہو، اس دوران ایسی املاک پر کسی تیسرے فریق کا حق نہیں پیدا کیا جا سکتا۔
یہ اقدام وقتی طور پر وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے سودمند ہے، مگر عدالت نے اس پورے عمل کو غیر آئینی قرار دینے سے گریز کیا۔ یہ بھی کافی حد تک واضح نہیں ہے کہ وقف ایکٹ ۲۰۲۵ء کے نافذ ہونے سے لے کر اس فیصلے کے آنے تک کے درمیان کئی ریاستوں میں کئی وقف جائیدادوں کو وقف کی تعریف سے باہر کردیا گیا، اب ان کا کیا ہوگا؟ مثال کے طور پر مہاراشٹرا میں تقریباً ۱۵۰ سال پرانا حاجی اسماعیل حاجی حبیب مسافر خانہ کو مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ کے ذریعے ۸؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو ’غیر وقف ادارہ‘ قرار د دیا جانا، جب کہ ۹؍ اپریل ۲۰۱۹ء کو اسی وقف بورڈ نے اس مسافر خانے کو وقف جائیداد کے طور پر رجسٹر کیا تھا۔
یہاں یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ انڈیا کی موجودہ مرکزی حکومت اس وقف ایکٹ میں ترمیم کرتے وقت یہ کہتی رہی ہے: ’’وہ مسلمانوں کی بھلائی چاہتی ہے اور وقف املاک کو غیر قانونی قبضوں سے بچانا چاہتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈیا میں وقف کی جائیدادوں پر غیر قانونی قبضوں کے معاملے میں حکومت کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی ہے اور آج بھی نہیں ہے۔ اگر واقعی حکومت اپنے دعوے میں مخلص ہے اور مسلمانوں کی بھلائی چاہتی ہے تو سب سے پہلے ان وقف املاک کو مسلمانوں کو واپس کرنا چاہیے، جن پر حکومت نے خود ہی غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ ۲۰ جولائی ۲۰۲۰ءکو انڈین مرکزی وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت معلومات کے مطابق ملک میں۱۸۲۵۹ وقف جائیدادوں کے ساتھ ساتھ ۳۱۵۹۴ ؍ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ اسی مرکزی وقف کونسل کے مطابق جولائی ۲۰۲۰ء تک ۱۳۴۲ جائیدادیں اور ۳۱۵۹۴ ایکڑ زمین مختلف سرکاری محکموں یا ایجنسیوں کے قبضے میں ہے۔ یاد رہے ان اعداد و شمار میں گجرات، تلنگانہ اور اتر پردیش کے شیعہ مرکزی وقف بورڈ کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ ان جائیدادوں سے کیا مسلمانوں کو ہاتھ دھونا پڑے گا یا یہ وقف بورڈ اس پر کچھ کر سکے گا؟ اس پر عدالت کی طرف سے پوری طرح خاموشی ہے۔
اس فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ’’مرکزی وقف کونسل (۲۲؍ ارکان) میں غیرمسلم ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار ہوگی، وہیں ریاستی وقف بورڈ (۱۱؍ ارکان) میں غیرمسلم ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ تین ہوگی‘‘۔ ظاہری طور پر دیکھنے میں یہ فیصلہ خوش کن ہو سکتا ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسی بہانے ہمارے کچھ ہندو بھائی وقف سے جڑی چیزوں کو جانیں اور سمجھیں گے۔ اچھے لوگ اگر وقف بورڈ میں ہوں گے تو وہ بورڈ کے دیگر ممبران کو چیک بیلنس رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ قدم وقف بورڈ کو برباد کرنے والا بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اچھے لوگوں کے آنے کے امکانات موجودہ حالات میں کم ہی نظر آتے ہیں، کیونکہ ہم نے دیکھا کہ جس ریاست میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے، اسی پارٹی یا آئیڈیولوجی کے لوگوں کا وقف بورڈ میں دبدبہ ہوتا ہے۔یہی چیز مسلمانوں کے وقف کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس طرح وقف بورڈ نے ہی سب سے زیادہ وقف کو نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ مسلمان نمائندوں نے کبھی وقف کے تحفظ کی خاطر آواز نہیں اٹھائی، یہاں تک کہ قبرستان کے معاملے میں بھی خاموش رہے، جب کہ دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کے کئی قبرستان غائب ہوگئے ہیں، یہاں تک جس گڑگاؤں میں مسلمان سڑک پر نماز پڑھنے کے لیے مارےپیٹے جارہے تھے، اسی گڑگاؤں میں ہریانہ وقف بورڈ مسجد تک کو ہندوؤں کو لیز پر دے رکھا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم اقلیتی اداروں میں غیر مسلموں کی موجودگی خود ان اداروں کی خودمختاری کے خلاف نہیں؟ کیا اکثریتی مذہب کے ماننے والے (خاص طور پر ہندتوا آئیڈیالوجی سے جڑے افراد) کسی اقلیتی مذہبی ادارے میں فیصلہ سازی کا حصہ بن سکتے ہیں؟ یہ نہ صرف اقلیتوں کے انتظامی حقوق (Article 26) کی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی آزادی کے اصول کو بھی مجروح کرتی ہے۔ اس عبوری حکم کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مودی حکومت کی اس شق کو آئینی تسلیم کر لیا ہے، جب کہ انڈین آئین کا آرٹیکل ۲۶مذہبی برادریوں کو اپنے ادارے خود چلانے کا حق دیتا ہے۔ کوئی بھی قانون جو اس حق سے محروم کرے، غیر آئینی ہے، اور افسوس کہ سپریم کورٹ نے اس غیر آئینی شق کو مسترد کرنے کے بجائے، صرف اس کی حد مقرر کی۔
ساتھ ہی عدالت نے دفعہ ۲۳ کو معطل نہیں کیا، مگر ہدایت دی: ’’ممکنہ حد تک وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر، جو بورڈ کا سیکریٹری بھی ہوتا ہے ، مسلمان ہونا چاہیے‘‘۔ دراصل، عدالت کا یہ کمزور موقف اس خدشے کو برقرار رکھتا ہے کہ غیر مسلم افسر کو بھی وقف بورڈ کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے، جو نہ صرف مذہبی جذبات کے خلاف ہو گا بلکہ مسلم ادارے کی نمائندگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے: ’’ہم واضح کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا مشاہدات صرف ابتدائی غور کے لیے ہیں تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ متنازعہ قانون یا اس کی کسی مخصوص دفعہ کو عارضی طور پر معطل کیا جائے یا نہیں؟ ان مشاہدات کی بنیاد پر فریقین کو ترمیم شدہ وقف ایکٹ یا اس کی کسی بھی دفعہ کی آئینی حیثیت پر دلائل دینے سے نہیں روکا جائے گا‘‘۔
عدالت نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس کے یہ مشاہدات محض عبوری نوعیت کے ہیں اور حتمی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ لیکن تاثر یہی ملتا ہے کہ عدالت شاید سیاسی دباؤ یا معاملے کی حساسیت کے سبب آئینی اور قانونی نکات پر کھل کر رائے دینے سے گریزاں ہے۔ یہ طرزِ عمل آزاد عدلیہ کے اصول کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، خاص طور پر اس وقت جب بنیادی حقوق اور اقلیتی مفادات داؤ پر لگے ہوں۔ فیصلے کا یہ پہلو انڈین مسلمانوں میں مزید بےچینی اور اضطراب پیدا کرتا ہے۔ وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر عدلیہ بھی واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار نہ کرے، تو انصاف کی امید کہاں سے رکھی جائے؟ آخر کار، تاریخ یہ سوال ضرور اٹھائے گی کہ کیا انصاف محض کاغذی الفاظ میں قید رہ گیا، یا واقعی کمزوروں کی ڈھال بن سکا؟
عجب واعظ کی دِیں داری ہے یاربّ!
عداوت ہے اُسے سارے جہاں سے
اگر آپ نے جمعہ کی امامت کے لیے کسی دوسرے گروہ کا انتخاب کرنا چاہا تو لامحالہ اس کے لیے آپ کو علما ہی کے طبقے کی طرف رجوع کرنا ہوگا، اور باستثناء چند اس طبقے کے سوادِاعظم کا جو حال ہے اُسے بیان کرنا گویا اپنی ٹانگ کھولنا اور آپ ہی لاجوں مرنا ہے۔ ان حضرات کو اگر آپ نے عام فہم زبان میں من مانے خطبے دینے کا موقع دیا تو یقین جانیے کہ آئے دن مسجدوں میں سرپھٹول ہوگی۔ اس لیے کہ ان میں کا ہرشخص اپنا ایک الگ مشرب رکھتا ہےاور اپنے مشرب میں وہ اتنا سخت ہے کہ دوسرے مشرب والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کرنا اس کے نزدیک گناہ سے کم نہیں۔ پھر اللہ نے اس کی زبان میں ایک ڈنک رکھ دیا ہے جس سے دلوں کو زخمی کیے بغیر وہ کوئی بات نہیں کرسکتا۔ وہ جس ماحول سے تعلیم و تربیت پا کر آتا ہے اور جس ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے، وہاں دین کے مہمات اور قوم کے مصالح کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ تمام دلچسپیاں سمٹ کر چند چھوٹی چھوٹی نزاعی باتوں میں جمع ہوگئی ہیں۔ اس لیے لامحالہ جب وہ زبان کھولے گا انھی مسائل پر کھولے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ کے گھر میں گالم گلوچ اور جوتی پیزار ہوگی اور آخرکار ہرمشرب کے مسلمان اپنے جمعے الگ الگ قائم کرنے لگیں گے۔ یہ تو مذہبی ذہنیت رکھنے والوں کا حال ہوا۔ رہے نئے تعلیم یافتہ حضرات جو ان مسائل سے دل چسپی نہیں رکھتے، تو ان پر ایک دوسری مصیبت نازل ہوگی۔ وہ ہرجمعہ کو رسولؐ اللہ کے منبر پر سے وہ وہ موضوع اور ضعیف روایتیں اور لاطائل کہانیاں اور احکامِ اسلامی کی غلط تعبیریں سنیں گے جن کو سُن کر غیرمسلموں کا مسلمان ہونا تو درکنار، ذی ہوش مسلمانوں کا مسلمان رہنا بھی مشکل ہے۔(تفہیمات، دوم، ص ۴۲۰-۴۲۱)
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
’’اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی ربّ کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں‘‘۔ یعنی انھیں یہ بات سخت ناگوار ہوتی ہے کہ تم بس اللہ ہی کو ربّ قرار دیتے ہو، ان کے بنائے ہوئے دوسرے ارباب کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ ان کو یہ وہابیت ایک آن پسند نہیں آتی کہ آدمی بس اللہ ہی اللہ کی رٹ لگائے چلا جائے۔ نہ بزرگوں کے تصرفات کا کوئی ذکر، نہ آستانوں کی فیض رسانی کا کوئی اعتراف، نہ اُن شخصیتوں کی خدمت میں کوئی خراجِ تحسین جن پر، ان کے خیال میں، اللہ نے اپنی خدائی کے اختیارات بانٹ رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب شخص ہے جس کے نزدیک علمِ غیب ہے تو اللہ کو، قدرت ہے تو اللہ کی، تصرفات و اختیارات ہیں تو بس ایک اللہ ہی کے۔ آخر یہ ہمارے آستانوں والے بھی کوئی چیز ہیں یا نہیں جن کے ہاں سے ہمیں اولاد ملتی ہے۔ بیماروں کو شفا نصیب ہوتی ہے، کاروبار چمکتے ہیں ، اور منہ مانگی مرادیں بَر آتی ہیں۔ (تفہیم القرآن،ج۲،ص ۶۲۰-۶۲۱)
کس طرح ہوا کند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
ہم جو ریسرچ چاہتے ہیں اور جس غرض کے لیے چاہتے ہیں وہ ہے ٹھیک ٹھیک اسلام کے مطابق علوم و فنون کی تحقیقات کی جائے اور تحقیقات کر کے اسلام کے نظامِ فکروعمل کو باقاعدگی کے ساتھ مرتب کیا جائے۔ اس سلسلہ میں چند مقاصد پیش نظر ہیں اور انھی مقاصد کی تحصیل کے لیے ہم کام کرنا چاہتے ہیں:
۱- سب سے پہلا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفۂ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلل علمی تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم و فنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں وہ دراصل تمام دُنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں اور ان کے ساتھ کسی تعصّب کا سوال نہیں ہے لیکن ان معلومات و حقائق کو جمع کر کے جو فلسفۂ حیات اہل مغرب نے بنایا ہے وہ قطعی باطل ہے۔ ان کو مرتب کر کے جو طرزِفکر اورکائنات کے متعلق جو تصوّر اور انسان کے بارے میں جو خیال انھوں نے قائم کیا ہے اور جس کے اُوپر اپنی پوری تہذیب کی عمارت انھوں نے اُٹھائی ہے، وہ ساری کی ساری اَز اوّل تا آخر باطل ہے۔ جو معاشرتی علوم (Social Sciences) انھوں نے مرتب کیے ہیں، جو معاشرتی فلسفہ (Social Philosophy) انھوں نے گھڑا ہے وہ موجب فتنہ و فساد ہے، وہ انسان کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ انسان کی تباہی کے لیے ہے، خود ان کی اپنی تباہی کے لیے ہے۔
یہ پہلا ضروری کام ہے جس کے ذریعے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مغربی فکروفلسفے کا جو سحر ہے وہ ختم ہوجائے گا جس کے بغیر مسلمانوں کو ان کی ذہنی مرعوبیت اور ذہنی شکست خوردگی کی حالت سے نہیں نکالا جاسکتا۔ اور جب تک وہ اس ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہیں، اس وقت تک آپ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ مقلّد کی زندگی چھوڑ کر مجتہد کی زندگی اختیار کریں گے۔ اس و قت تک تو ان کا کام آنکھیں بند کر کے اہل مغرب کے پیچھے چلنا ہے۔ اس حالت کو آپ نہیں بدل سکتے، جب تک کہ اس سحر کو نہ توڑ دیں اور اس حقیقت کو واضح کریں کہ علمی حقائق اور چیز ہیں اور علمی حقائق کو ترتیب دے کر ایک فلسفۂ زندگی اور نظامِ حیات مرتب کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ حقائق اپنی جگہ بالکل صحیح لیکن ان کو مرتب کر کے جو فلسفۂ حیات بنایا گیا ہے وہ فی الحقیقت بالکل غلط ہے۔
۲- اس کے آگے جو دوسرا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام علوم و فنون کو نئے اسلوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے تاکہ وہ ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔ اسی طرح اسلام کے مطابق ہمیں ایک فلسفہ درکار ہے، جو انسان کے ذہن کی اس تلاش کو تسکین دے کہ حقیقت کیا ہے، مگریہ تسکین اس عقیدے کے مطابق دے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ حقیقت کی تلاش اور اس کی تڑپ انسان کی فطرت میں ہے، وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا مگر کائنات کی حقیقت اور انسان کی حقیقت، نیز اس کے مآل کو ایک فلسفے کی شکل میں مرتب کرنا تاکہ آدمی کو اس کے مطابق ڈھالا جائے، اور ظاہر ہے اس کے بغیر یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ کی یونی ورسٹیوں اورکالجوں میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے یا نفسیات کے جو علوم پڑھائے جاتے ہیں یا دوسرے فلسفیانہ علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کو تبدیل کیا جاسکے اور ان کی جگہ کوئی دوسرا فلسفہ پڑھایا جاسکے۔(ماہنامہ تجلّی، دیوبند، جون ۱۹۷۱ء)
کُشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیازمند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتادو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انھیں سنادو، شاید کہ وہ راہِ راست پا لیں۔(البقرہ ۲:۱۸۶)
یعنی اگرچہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کرسکتے ہو، لیکن یہ خیال نہ کرو کہ میں تم سے دُور ہوں۔ نہیں، میں اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے، مجھ سے عرض معروض کرسکتا ہے، حتیٰ کہ دل ہی دل میں وہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ہے میں اسے بھی سن لیتا ہوں اور صرف سنتا ہی نہیں، فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں۔ جن بے حقیقت اور بے اختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے اِلٰہ اور ربّ قرار دے رکھا ہے ، ان کے پاس تو تمھیں دوڑ دوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمھاری شنوائی کرسکتے ہیں اور نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمھاری درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر کرسکیں۔ مگر میں کائنات بے پایاں کا فرماں روائے مطلق، تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک، تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم خود بغیر کسی واسطے اور وسیلے اور سفارش کے براہِ راست ہروقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتا ہو۔ لہٰذا تم اپنی اس نادانی کو چھوڑ دو کہ ایک ایک بے اختیار بناوٹی خدا کے در پر مارے مارے پھرتے ہو۔ میں جو دعوت تمھیں دے رہا ہوں، اس پر لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو، میری طرف رجوع کرو، مجھ پر بھروسا کرو اور میری بندگی و اطاعت میں آجائو۔
پھر فرمایا: اے نبیؐ !تمھارے ذریعے سے یہ حقیقت ِ حال معلوم کرکے ان کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اس صحیح رویے کی طرف آجائیں، جس میں ان کی اپنی ہی بھلائی ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، ص ۱۴۴)
قاہرہ سے فلسطین کی سرحد یعنی رفح کراسنگ تک کا فاصلہ چار سو کلومیٹر ہے۔ پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت، لیکن یوں لگتا ہے جیسے یہ دو مختلف دنیاؤں کا سفر ہو۔ قاہرہ، دریائے نیل ، اس کے پلُوں اور اہرام کی جھلکیوں کے ساتھ ایسی تہذیب کی یاد دلاتا ہے، جو ہزاروں برسوں سے قائم ہے۔ جوں جوں سفر کرتے ہوئے مسافر مشرق کی طرف بڑھتا ہے اور گاڑی سینائی کے صحرا میں داخل ہوتی ہے، منظرنامہ بے آباد، ویران اورسنگلاخ ہوجاتا ہے۔ چار گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد العریش شہر کی فلک نما عمارتیں نظر آتی ہیں، جو سینائی کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں سڑک بحیرۂ روم کی طرف مڑتے ہی غزہ کے بحران کا ابتدائی چہرہ سامنے آتا ہے۔یہاں اُفق کو پہاڑ ، سمندر یا ویرانے نہیں، بلکہ امدادی ٹرکوں کی قطاریں روک لیتی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میںحد نگاہ تک تقریباً ۴۴ کلومیٹر لمبی ٹرکوں کی قطار، جن میں آٹا، چاول، دالیں، پھلیاں، بوتلوں میں پانی، دوائیں یعنی وہ سب کچھ موجود ہے جو بھوک سے تڑپتی قوم کو درکار ہے۔ ڈرائیور مٹی کے تیل کے چولھوں پر تلخ قہوہ بنارہے ہیں۔ کچھ ڈرائیور اپنے ٹرکوں کے نیچے لٹکے جھولوں میں سورہے ہیں۔ ان کے ٹرکوں میں زندگی کی بقا کا سامان ہے مگر وہ بے حال زندہ لوگوں کی طرف نہیں بڑھ پار ہے، ساکت اور جامد ہیں۔
حالات کی ستم ظریفی ایک ایک پہلو سے ظاہر ہے۔ رفح کراسنگ کے ایک طرف وافر غذائی اجناس ہیں، دوسری طرف بس چند میٹر کے فاصلے پر بھوک کے ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی ٹینک صاف نظر آرہے ہیں۔دور غزہ کے رفح قصبہ کی کھڑکیوں اور چھتوں پر کھڑے بچوں اور بڑوں کے سوکھے ہوئے ڈھانچے نظر آرہے ہیں جنھوں نے شاید کئی ہفتوں سے روٹی کے نوالے اور چاول کے دانے کی صورت تک نہیں دیکھی ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ پکی ہوئی خوراک کی خوشبو سرحد پار پہنچ رہی ہے، مگرمحصور لوگوں کے لیے اس کی اشتہا انگیز خوشبو اذیت سے کم نہیں ہے ۔ ان کی بقا کا دارومدار خوراک کی خوشبوؤں کو سونگھنے پر رہ گیا ہے، جس کو وہ چھو نہیں سکتے ہیں، بس سونگھ سکتے ہیں۔
دُنیا بھر سے شخصیات غزہ کے محصور باسیوں کے ساتھ یکجہتی کےلیے آرہی ہیں، لیکن رفح کراسنگ سے واپس چلی جاتی ہیں۔ ترکیہ کی حکمراں جماعت آق پارٹی کے حقوق انسانی شعبہ کے نائب چیئرمین حسن بصری یالچن کی قیادت میں ۳۰ رکنی پارلیمانی وفد رفح کراسنگ پر اظہار یک جہتی کے لیے آیا ہے۔ وہ وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ واپس آئیں گے اور رکاوٹیں پھلانگ کر غزہ کے اندر جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ قطر پر حالیہ حملہ کرنے سے اسرائیل نے ساتویں ملک پر ہلہ بول دیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے ’’ اسرائیل کا سانپ ایک ایک کرکے ہم سب کو ڈس رہا ہے اور ہم بس اپنی باریوں کا انتظار کر رہے ہیں‘‘ ۔
غزہ کے اندر قحط جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ ۲۳ لاکھ کی آبادی کا ایک تہائی حصہ بھوک سے مرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ بچے بھوکے پیٹ سوتے ہیں۔ والدین کئی کئی دن کچھ نہیں کھاتے تاکہ بچے آدھی روٹی کھا سکیں۔ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ فلپ لزارینی کہتے ہیں کہ ان کی ٹیموں نے جن بچوں کو دیکھا وہ سب لاغر، کمزور اور موت کی دہلیز پر ہیں اور فوری علاج کے منتظر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز بھی فاقوں کا شکار ہیں۔ وہ بسااوقات کام کے دوران بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق فی الوقت ۶ہزار امدادی ٹرک اردن اور مصر میں کھڑے ہیں،مگر اسرائیل کی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ ایتھوپیا اور یمن کی طرح یہ قحط خشک سالی یا فصل کی ناکامی کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسانی ہاتھوں کا مسلط کیا ہوا قحط ہے۔ مصر کے وزیرِ خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا: ’یہ انجینئرڈ بھوک ہے‘۔
غزہ کے اندر النصر شہر کے رہائشی ابو رمضان بتا تے ہیں: ’’بھوک ایسی ہے جیسے ہاتھ بندھے ہوں اور دل میں خنجر گھونپ دیا جائے۔ آپ اپنے بچوں کو روتا دیکھتے ہیں اور ان سے کچھ وعدہ بھی نہیں کر سکتے۔ امداد کی جگہیں موت کے پھندے ہیں۔ آپ یا تو آٹا لے کر لوٹتے ہیں یا کفن میں لپٹے ہوئے گھرآتے ہیں‘‘۔ چار بچوں کی ماں ۴۲ برس کی خدیجہ خضیر ، کہتی ہیں: ’’تین دن میں صرف ایک روٹی ملتی ہے۔ اکثر چولھے پر پانی چڑھا دیتی ہوں تاکہ بچے سمجھیں کھانا پک رہا ہے۔ گھنٹوں کے انتظار کے بعد یہ معصوم بھوکے ہی سوجاتے ہیں۔کبھی کبھار فوجی جہاز امدادی غبارے گراتے ہیں۔ ہزاروں لوگ ان پر جھپٹتے ہیں مگر یہ سامان چند درجن خاندانوں کے لیے ہوتا ہے۔ غزہ کے صحافی کہتے ہیں: ’’یہ امداد نہیں بلکہ ذلّت ہے‘‘۔
غزہ کو روزانہ کم از کم ۸۰۰ ٹرکوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیل ۵۰ سے ۱۵۰ ٹرک داخل ہونے دیتا ہے۔ یہ سرحد پر تعینات سپاہیوں کے موڈ پر منحصر ہے۔العریش شہر اور رفح کراسنگ کے درمیان ایک ٹرک ڈرائیور مدحت محمد(جن کے ٹرک میں جام اور دالیںبھری ہوئی تھیں) نے بتایا: ’’میں نے دو ہفتے انتظار کیا اور پھر کہا گیا واپس چلے جاؤ۔اسرائیلی فوجی سوال کر رہے تھے کہ اتنا زیادہ کھانا کس کےلیے لے جا رہے ہو؟ بعض اوقات اسرائیلی فوجیوں کا جواب ہوتا ہے: وقت ختم ہو گیا‘‘۔ اسی طرح محمود الشیخ، جو آٹا لے کر ۱۳ دن سے کراسنگ کے باہر انتظار کر رہے ہیں کا کہنا تھا : ’’کل ہی ایک دن میں ۳۰۰ ٹرک واپس کر دیے گئے اور صرف ۳۵ کو اندر جانے دیا گیا۔ ’’سب کچھ ان اسرائیلی فوجیوں کی مرضی پر منحصر ہے‘‘۔ ہر رات ۱۵۰ ٹرک لائن میں لگائے جاتے ہیں مگر صبح صرف ۱۵ یا ۲۰کو جانچ کے لیے بلایا جاتا ہے اور باقی سب کو لوٹا یاجاتا ہے‘‘۔
جب ٹرک اندر پہنچ بھی جائیں تو ڈرائیور کی اذیت اس کے باوجود بھی ختم نہیں ہوتی۔ ٹرک اکثر لوٹ لیے جاتے ہیں ۔ بھوک، تشدد میں بدل جاتی ہے۔اسرائیلی اس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ان کو فائرنگ کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ مئی سے اب تک۲۵۰۰؍ افراد غذائی اجناس تقسیم کرنے والی جگہوں پر مارے گئے اور ۱۵ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ۔اسی پس منظر میں ’میڈیسن سان فرنٹیئر‘ نے امریکا –اسرائیل کی پشت پناہی والے غزہ ’ہیومینی ٹیرین فاؤنڈیشن‘ پر الزام لگایا کہ یہ ریلیف کا نظام کم اور’ظلم کی تجربہ گاہ‘ زیادہ ہے۔ایک نرس نے بتایا: ’’میں نے پانچ سالہ بچے کا علاج کیا جو بھگدڑ میں کچلا گیا تھا۔ ایک اور آٹھ سالہ بچے کے سینے میں گولی کا زخم تھا‘‘۔
عام فلسطینیوں کے لیے کھانے کی تقسیم بھوک اور موت کے درمیان ایک جُوا بن چکی ہے۔ فلسطینی اسے ’موت کا سفر ‘ کہتے ہیں۔صبح ہوتے ہی مرد، عورتیں اور بچے کئی کلومیٹر ’محفوظ راستوں‘ کی طرف پیدل چلتے ہیں، جو امداد کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اور ان میں سے بہت سارے واپس نہیں آتے۔ سنائپر فائر اور ڈرون حملے قطاروں میں لگے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔اُمِ سعید الرفاعی، جو رفح کے قریب ایک غذائی تقسم کے مقام پر گئیں، خالی ہاتھ اور آنسو گیس کے زخموں کے ساتھ واپس گھر پہنچ گئیں:’’میں صرف اپنی بیٹی کو کچھ کھلانا چاہتی تھی، مگر ہم پر حملہ ہوا، مرچ اسپرے، گولیاں، گیس۔ میں سانس نہیں لے پائی۔ جان بچا کر بھاگی اور خالی ہاتھ لوٹی‘‘۔ ان کے الفاظ غزہ کی نئی حقیقت ہیں: ’’اب زندہ واپس آ جانا ہی کامیابی ہے، چاہے کھانا نہ ملا ہو‘‘۔
اقوام متحدہ پہلے ہی غزہ کو قحط زدہ قرار دے چکا ہے۔ عالمی قانون کے تحت جان بوجھ کر بھوکا رکھنا جنگی جرم ہے۔ ۲۰۲۴ء میں تین بار عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو ہدایت دی کہ انسانی امداد بلا رکاوٹ داخل ہونے دے۔ مگر ہر فیصلے کو نظر انداز کیا گیا۔استنبول یونی ورسٹی کے وکیل دنیز باران کہتے ہیں: ’’اسرائیل کی ناکہ بندی اور امداد روکنا شہریوں کو جنگی ہتھیار کے طور پر بھوکا رکھنے کے مترادف ہے، جو جنیوا کنونشن کے تحت ممنوع ہے‘‘۔یہ منظم، دانستہ اور بے مثال ہے۔ ایک ایسا قحط جو براہِ راست نشر ہو رہا ہے۔‘‘جب رفح پر ٹرک رکے پڑے ہیں تو بحیرۂ روم کی طرف مزاحمت کی ایک اور شکل گلوبل صمود فلوٹیلا کی صور ت میں ساحل کی طرف رواں ہے۔ ۴۴ممالک کے ۵۰ سے زائد جہازوں کا غزہ کی طرف سفر۔ یہ جدید تاریخ کا سب سے بڑا شہری امدادی قافلہ ہے۔ اس فلوٹیلا میں ڈاکٹر، پارلیمانی اراکین، فنکار اور سماجی کارکن شامل ہیں، جن میں گریٹا تھنبرگ بھی ہیں۔یہ جہاز خوراک، دوا اور امید سے لدے ہوئے ہیں۔ لیکن ممکن ہے کہ یہ بھی رفح کے ٹرکوں کی طرح غزہ سے چند کلومیٹر دُور ہی رُک جائیں۔ بھوکوں کے لیے یہ ایک اور ستم ظریفی ہے ۔ خورا ک سامنے ہے مگر سفاک ناکہ بندی اس کو روک لیتی ہے۔
رفح کراسنگ ہمیشہ سے کش مکش کا مقام رہی ہے۔ ۱۹۷۹ء کے مصر –اسرائیل امن معاہدے کے تحت ’فلاڈیلفی روٹ بفر زون‘ قائم کیا گیا۔ دوسری انتفاضہ (۲۰۰۰) کے دوران اسرائیل نے اسے وسیع کیا، گھر گرائے اور رکاوٹیں بنائیں۔۲۰۰۸ء میں جنگجوؤں نے دیوار میں سوراخ کیے اور ہزاروں فلسطینی مصر میں داخل ہو کر سامان لائے۔ مصر نے بعد میں سرحد کو مزید مضبوط کیا اور ۲۰۲۱ءتک تین ہزار سے زائد سرنگیں تباہ کر دیں۔ کچھ میں پانی بھرا گیا، کچھ میں زہریلی گیس بھری گئی، اور اندر موجود اکثر لوگ مارے گئے۔۲۰۰۷ء سے حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد مصر نے غزہ کو ہمسایہ بھی سمجھا اور خطرہ بھی۔ نتیجہ ایک ایسی سرحد ہے جو کنکریٹ اور بدگمانی سے بنی ہوئی ہے اور آج بھوک سے۔میں نے کشمیر، افغانستان اور حال ہی میں شام کی رپورٹنگ کی ہے۔ لیکن غزہ ایک جہاندیدہ رپورٹر کو بھی توڑ دیتا ہے۔ مجھے یاد آرہا تھا کہ جب میں غزہ کے ایک صحافی کو فون کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو کئی بار کال کرنے کے بعد جب اس نے فون اٹھایا، تو لرزتی آواز میں کہا: ’’بھائی، تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ جب روٹی ملے گی تو کال کروں گا۔‘‘وہ کبھی کال نہیں کرپایا اور میں نے بھی دوبارہ فون نہیں کیا۔غزہ اب صرف جنگ کا نہیں بلکہ بھوک کو ہتھیار بنانے کا معاملہ ہے۔ یہ قحط چھپایا نہیں گیا بلکہ براہِ راست دکھایا جا رہا ہے۔ آنے والی نسلیں یہ نہیں پوچھیں گی کہ فلسطینیوں نے مزاحمت کیوں کی؟ وہ یہ پوچھیں گی: دنیا کیسے کھاتی رہی، جب کہ غزہ بھوکا سسک رہا تھا؟ ایک بوجھ کے ساتھ میں قاہر ہ اور پھر انقرہ واپس روانہ ہو رہا ہوں۔
رفح سے قاہر ہ تک کا یہ سفر اب صرف جغرافیائی فاصلہ نہیں بلکہ انسانی ضمیر اور عالمی سیاست کے درمیان حائل اس دیوار کا استعارہ ہے، جو محصور غزہ کے عوام کے گرد کھڑی کر دی گئی ہے۔ سینائی کے سنسان ریگستان میں سفر کرتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ صحرا اپنی خاموشی میں لاکھوں دبی ہوئی صداؤں کا نوحہ پڑھ رہا ہے۔ ریت کے ذرّے بھی جیسے سوال کر رہے ہوں کہ آخر انسان نے انسان کو بھوک اور پیاس کا شکار کیوں بنایا؟غزہ کی کہانی محض ایک خطے کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزمائش ہے۔ یہ ایک ایسا امتحان ہے جس میں صرف فلسطینی نہیں، بلکہ ہم سب شریک ہیں۔ رفح کے گیٹ پر موجود خوراک کے ٹرک انسانیت کے مُردہ ضمیر پر ماتم کر رہے ہیں ۔ دنیا بھر کی طاقتیں، اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی عدالتوں کے فیصلے اس بھوک کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
میں جب قاہرہ لوٹ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ تاریخ آنے والی نسلوں سے یہی سوال پوچھے گی: ’’کیا تم نے کھاتے ہوئے غزہ کے بچوں کو بھوکا مرنے دیا؟‘‘ یہ سوال ہمارے عہد کی سب سے بڑی گواہی بن جائے گا۔فلسطینی مائیں جب بھوکے بچوں کو گود میں لے کر سلاتی ہیں، تو ان کی لوریاں دراصل دنیا کے کانوں پر دستک ہیں۔ اگر یہ دستک ہم نے نہ سنی تو شاید کل ہماری اپنی اولاد بھی اسی اندھی بھوک کی زد میں آ جائے۔غزہ آج صرف ایک جغرافیہ نہیں، ایک چیخ ہے۔ یہ چیخ وقت کی دیواروں کو چیر کر ہماری روحوں کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ہم جاگیں گے، یا یہ چیخ تاریخ کے قبرستان میں دب جائے گی؟
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سری نگر میں مسلمانوں کے لیے مقدس درگاہ حضرت بل کے کتبے ’پر اشوک لاٹ‘ کا سرکاری نشان کنندہ کرنے پر تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ کچھ مقامی افراد نے ’جموں و کشمیر وقف بورڈ‘ کے خلاف احتجاج کیا ہے،جب کہ پتھر کے کتبے پر مہاراجا اشوک کے نشان کو توڑنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ یہ واقعہ ۵ستمبر جمعہ کے دن پیش آیا۔ دوسری جانب حکمران جماعت نیشنل کانفرنس (این سی) نے کہا ہے کہ ’ہمارے مزارات ایمان، عاجزی اور اتحاد کی علامت ہیں، ان مقامات کو عبادت گاہ ہی بنے رہنا چاہیے، تقسیم کی جگہ نہیں‘ ۔
کچھ عرصہ قبل درگاہ حضرت بل کی تعمیرِ نو کا کام شروع ہوا تھا۔ اس دوران وہاں سنگ بنیاد پر اشوک کی لاٹ کا نشان بنایا گیا تھا، جس پر لوگوں میں ناراضی کی لہر پھیل گئی۔ مشتعل لوگوں نے اسے توڑنے کی کوشش بھی کی۔ اس واقعے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں۔ سری نگر کی یہ درگاہ اور مسجد مسلمانوں کے لیے بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ صدیوں پر محیط روایت کے مطابق یہاں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’موئے مبارک‘ ہے۔ اس درگاہ کی تعمیرِ نو مسلم اوقاف ٹرسٹ کے شیخ محمد عبداللہ کی نگرانی میں ۱۹۶۸ء میں شروع ہوئی اور کام ۱۹۷۹ء میں ختم ہوا۔
’موئے مقدس‘ کو پہلی بار سنہ ۱۶۹۹ء میں کشمیر لایا گیا۔ پہلے اسے نقش آباد صاحب میں رکھا گیا اور پھر بعد میں اسے حضرت بل لایا گیا۔ ہر سال شب معراج اور میلاد النبی کے خاص موقعوں پر ریاست بھر اور دُور دراز کے علاقوں سے لوگ اس مسجد میں رکھے ہوئے ’موئے مقدس‘ کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔
توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد بی جے پی حکومتی اہل کار درخشاں اندرابی نے جمعے کی شام میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسے افسوس ناک کارروائی قرار دیا اور کہا کہ ’قومی نشان کو توڑنا جرم ہے۔ یہ ایک سیاسی جماعت کے غنڈے ہیں جنھوں نے ایسا کیا ہے‘۔ ان کا اشارہ بظاہر نیشنل کانفرنس کی جانب تھا۔ انھوں نے ایف آئی آر درج کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: ’قانونی طور پر قومی نشان کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جائے گی اور ان پر درگاہ میں داخلے کے لیے تاحیات پابندی عائد کر دی جائے گی ‘‘۔
حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنما اور ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ’پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ نشان پتھر پر لگانا بھی چاہیے تھا یا نہیں؟‘ انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کسی مذہبی تقریب یا مذہبی مقام پر ایسا نشان استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ کیا کوئی مجبوری تھی کہ حضرت بل کے اس پتھر پر یہ نشان استعمال کیا گیا؟‘ سوال یہ ہے کہ ’پتھر لگانے کی کیا ضرورت تھی، کیا مرمت کا کام کافی نہیں تھا؟ اگر کام ٹھیک ہوتا تو لوگ خود کام کو پہچان لیتے‘۔ انھوں نے کتبہ لگانے والوں سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’مندر، مسجد، گرودوارہ، یہ تمام مذہبی مقامات ہیں جہاں قومی نشان کے استعمال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان مقامات پر قومی نشان کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ سرکاری پروگراموں میں سرکاری نشانات کا استعمال کیا جاتا ہے‘۔
اس سے قبل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس (جے کے این سی) نے درخشاں اندرابی کے الزام کے جواب میں سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا: ’یہ امر انتہائی تشویشناک ہے اور درگاہ حضرت بل کے اندر کسی جاندار (شخص یا جانور) کی تصویر یا علامتی نشانی کا استعمال اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ ہزاروں عقیدت مندوں کے لیے ایک محترم مقام ہے اور توحید کے اصول کے مطابق اس طرح کی نشانیوں کا استعمال ممنوع ہے۔ عقیدت مندوں کے لیے یہ معمولی بات نہیں، بلکہ اس کا ان کے مذہبی جذبات سے گہرا تعلق ہے‘۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ ’وقف کوئی نجی ملکیت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ٹرسٹ ہے جو عام مسلمانوں کے تعاون سے چلتا ہے۔ اسے لوگوں کے عقیدے اور روایت کے مطابق ہی چلایا جانا چاہیے‘۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے بیان میں وقف بورڈ کی چیئرپرسن اندرابی کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’ہم ایسے نمائندوں کو دیکھ رہے ہیں جو منتخب نہیں ہوئے، انھیں جموں و کشمیر کے لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہے، بلکہ انھوں نے از خود اس مقدس مقام پر ایک اعلیٰ عہدہ سنبھالا ہوا ہے۔ یہ نہ صرف اس درگاہ کے تقدس کی توہین ہے، بلکہ احتساب اور خاکساری جیسے بنیادی اصولوں کا مذاق بھی ہے۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر معافی مانگنے کے بجائے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاری کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ دریں اثنا، نیشنل کانفرنس کے چیف ترجمان ایم ایل اے تنویر صادق نے کہا کہ ’درگاہ پر کسی جاندار کی تصویر لگانا اسلام کے خلاف ہے کیونکہ اسلام میں بت پرستی کی ممانعت ہے‘۔کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا غلط ہے۔ ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں بت پرستی کی سختی سے ممانعت ہے۔ یہ کوئی سرکاری عمارت نہیں ہے، یہ ایک درگاہ ہے‘۔
پی ڈی پی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جمعہ کو پیش آنے والے اس واقعہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا: ’یہ درگاہ پیغمبر اسلام سے متعلق ہے، لوگ یہاں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے لیے ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، وہاں اس قسم کی گستاخی سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ لوگ اس نشان کے خلاف نہیں ہیں لیکن اسلام میں بت پرستی کی ممانعت ہے۔ اس لیے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اسے یہاں کیوں نصب کیا گیا؟‘
انھوں نے کہا: ’یہ کہنا غلط ہے کہ لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں ان کے خلاف ۲۹۵- اے کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے کیونکہ یہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی توہین کے مترادف ہے‘۔ انھوں نے وزیراعلیٰ سے ایکشن لینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا: ’اس واقعے کا اوقاف ذمہ دار ہے کیونکہ وہاں کے تمام لوگ مسلمان ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ انھوں نے سنگ بنیاد (کے کتبے) میں ایسی چیز کیسے رکھی جسے اسلام میں حرام سمجھا جاتا ہے‘۔ جمعہ کو انڈیا بھر میں عید میلاد النبی منائی گئی لیکن جموں و کشمیر میں اس کے لیے سنیچر کو سرکاری چھٹی دی گئی۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک سابق پوسٹ میں کہا کہ انتظامیہ کا جمعہ کی چھٹی کو سنیچر کی چھٹی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔ انھوں نے سرکاری پریس کی طرف سے چھپنے والے کیلنڈر کی تصویر شیئر کی جس میں عید میلاد النبیؐ کے چاند کی رویت کی بنیاد پر ۵ستمبر کو چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس نسبت سے مختلف بیانات گردش میں ہیں: ’مسلمان کی وفاداری قوم سے نہیں بلکہ ان کے ایمان سے ہے‘ ۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اشوک لاٹ کی تین شیر والی علامت کوئی مذہبی علامت نہیں ہے۔ آنند رنگناتھن نے لکھا: ’اشوک کا نشان انڈیا کی نمائندگی کرتا ہے، خدا کی نہیں، یہ ایک آئیڈیل کی تصویر ہے۔ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے درست کہا تھا: ’مسلمان کی وفاداری اس کی قوم سے نہیں بلکہ ان کے ایمان سے ہے‘۔
عارف اجاکیا نے لکھا: ’اسلام کو بچانے کے لیے انھوں نے درگاہ سے اشوک کا نشان ہٹادیا ہے لیکن وہ وہی نشان کعبہ اور مدینہ کے دورے کے دوران اپنے سینے کے قریب رکھتے ہیں جو ان کے پاسپورٹ اور بینک نوٹوں پر ہوتا ہے۔ یاد رکھیں آپ اشوک کے نشان کے بغیر حج پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘۔ اس کے جواب میں حسن وانی نامی ایک صارف نے لکھا: ’ہر چیز کو آپس میں نہ ملائیں۔ پہلی بات یہ کہ مسجد کی دیوار پر کوئی تصویر یا نقش و نگار لٹکانا اسلامی شریعت میں قطعی طور پر ناجائز اور حرام ہے، جب کہ اپنی جیب میں پیسے یا پاسپورٹ رکھنا ایک الگ بات ہے۔ جذبات کو بھڑکانے اور سیاسی ماحول کو گرمانے کے لیے اس کا سیاسی مقاصد کے لیے فائدہ اٹھانا، ان دونوں حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ بات حماقت سے کم نہیں!‘
بہت سے صارفین نے اسے جہاد کا طرزِ عمل کہا ہے ، جب کہ کئی افراد نے اسے تنگ نظری سے تعبیر کیا ہے اور کچھ نے سوال اُٹھایا ہے کہ اسے دوسرے مذہبی مقامات پر کیوں نہیں لگایا جاتا؟ بہت سے ہندو اس واقعے کو مسلمانوں کی انڈیا سے وفاداری پر سوالیہ نشان کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ فلٹریشن نامی ایک صارف نے لکھا: ’اشوک، بودھ مت کے پیروکار تھے۔ اشوک کی لاٹ مہاتما بودھ کی تعلیمات سے متاثر ہے۔ جنھوں نے مسلمانوں کی عقیدت کے مقام حضرت بل میں اشوک کی علامت کو لگایا وہ مذہبی انتشار کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں‘۔
عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس ۱۵ ستمبر ۲۰۲۵ء کو دوحہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد ۹ ستمبر کو قطر کے دارالحکومت پر اسرائیلی حملے کے بعد کی صورتِ حال پر غور اور جارحیت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا تھا۔اجلاس میں پاکستان، ترکیہ، ملائیشیا اور ایران کی جانب سے تجاویز تو پیش کی گئیں، مگر کوئی ٹھوس عملی منصوبہ سامنے نہ آیا۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اقوام متحدہ سے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے اور ’عرب اسلامی ٹاسک فورس‘ کی تشکیل کی تجویز دی، مگراسرائیل کے خلاف سفارتی مہم کی کوئی حکمت عملی بیان ہوئی نہ ٹاسک فورس کے خدوخال واضح کیے گئے۔
اجلاس سے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کا خطاب سخت اور جوشیلا تھا۔ انھوں نے اسرائیلی حکومت کو ’’اقتدار کی جنونیت، تکبر اور خون کی پیاس میں مبتلا‘‘ قرار دیا اور کہا کہ ثالثوں پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کو امن میں کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ وہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔قطری امیر نے غزہ میں جاری جنگ میں ۶۵ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کا ذکر کیا اور نیتن یاہو کی توسیع پسندانہ سوچ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے شامی زمین پر قبضہ کیا اور اب جنوبی لبنان سے انخلاء پر تیار نہیں۔تاہم، قطری قیادت کی گفتگو عملی بے بسی کا شکار رہی۔ اربوں ڈالر کے امریکی و برطانوی دفاعی نظام کی موجودگی میں اسرائیلی طیارے حملہ کر کے چلے گئے اور قطر کو ان کی آمد کی آہٹ تک محسوس نہ ہوئی۔
ایران پر اسرائیلی حملوں اور یمن میں اسرائیلی مداخلت یا تباہی کا براہِ راست ذکر قطری امیر کی تقریر میں نہیں آیا۔حالانکہ اسرائیل اور امریکا نے ایران اور یمن میں وحشیانہ کارروائیاں کی ہیں۔خطے میں ان حملوں پر شدید ردِعمل بھی موجود ہے۔قطر، ایران اور امریکا کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایران کا ذکر نہ کرنا شاید سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش ہو، جب کہ یمن کے معاملے پر خلیج یکسو نہیں اور ان ممالک کی سفارتی کشیدگی سے خود کو باہر رکھنے کے لیے امیرقطر نے گفتگو میں احتیاط برتی۔
خلیجی تعاون کونسل (GCC) نے اپنےاجلاس میں مشترکہ دفاعی نظام کو فعال کرنے اور فوجی کمان کا اجلاس دوحہ میں بلانے کا اعلان کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ خلیج کونسل کے کسی ایک رکن پر حملہ، تمام پر حملہ تصور کیا جائے گا۔اجلاس کے بعد جی سی سی کے ترجمان ماجد محمد الانصاری نے بتایا کہ خلیجی ممالک کی فوجی قیادت کے درمیان مشاورت جاری ہے تاکہ علاقائی دفاعی صلاحیت کو مضبوط کیا جاسکے۔
اوآئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اعلامیے میں اسرائیلی حملے کی شدید مذمت اور قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔بیان میں اسرائیل کی جانب سے قطر کو دوبارہ نشانہ بنانے کی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار بھی ہوا،لیکن اس سلسلہ میں کسی تزویراتی حکمت عملی کا ذکر سامنے نہ آیا۔ جی سی سی کے سیکرٹری جنرل جاسم محمد البدیوی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔
اسلامی تعاون تنظیم (OIC)کا قیام ۱۹۶۹ء میں مسجد اقصٰی کی آتشزدگی کا ردعمل تھا۔ تاسیس کے وقت اس کا مقصد مسلم ممالک کا اتحاد، مظلوموں کی آواز بننا اور عالمی سطح پر اسلامی دنیا کے مفادات کا تحفظ طے پایا تھا لیکن نصف صدی بعد OIC عملاً مفلوج ہو چکی ہے۔اس کی قراردادیں صرف کاغذی بیانات، اجلاس صرف رسمی تصاویر اور قیادت خلیجی طاقتوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔
تنظیم کو فعال بنانے کے لیے ۱۸ سے ۲۰ دسمبر ۲۰۱۹ء کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک چوٹی کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں ترکی، ایران، قطر اور دیگر مسلم ممالک کے رہنماؤں، دانش وروں اور اسکالرز نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس کا مقصد مسلم دنیا کو درپیش مسائل، اسلاموفوبیا، معاشی پس ماندگی، اور سیاسی انتشار کا حل اور اسلامی تنظیم کی غیر مؤثر حیثیت کے متبادل پر غور کرناتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیٹھک کے تجویز کنندگان میں سب سے اہم کردار پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا تھا، لیکن سعودی دباؤ کے باعث عین وقت پر پاکستان نے شرکت سے معذرت کر لی، جس نے مسلم دنیا میں نئی سفارتی صف بندی اور قیادت کے بحران کو مزید واضح کر دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان کو امت کی قیادت کا موقع ملا، مگر خان صاحب نے ریال کی سفارت کاری کو ترجیح دی۔
یہ اسلامی تعاون تنظیم کو فعال کرنے کا آخری موقع تھا جو ضائع کردیا گیا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی پر امت کی قیادت کا عزم لے کر بننے والی تنظیم، غزہ کی نسل کشی، قطرپر حملے اور فلسطینی قیادت کے قتل پر صرف بیانات جاری کر رہی ہے۔ تنظیم کی قیادت ان ممالک کے زیرِ اثر ہے جنھوں نےاسرائیل سے تعلقات بڑھائے اور اب تنظیم کو اپنے مفادات کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔حالیہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے ’بزدلانہ‘ حملے کی مذمت تو کی گئی، مگر کوئی ٹھوس سیاسی یا اقتصادی منصوبہ سامنے نہ آیا۔ خلیج تعاون کونسل نے مشترکہ دفاعی نظام کی بات تو کی، مگر عملی مزاحمت کا کوئی نقشہ پیش نہیں کیا گیا۔
کیا اُمتِ مسلمہ نئی قیادت، نئی صف بندی اور نئی مزاحمت کے لیے تیار ہے؟ یا تنظیم کو تاریخ کا ایک ناکام تجربہ مان کر اسرائیل اور امریکا کے سامنے ہتھیار رکھ دینے ہی میں عافیت سمجھی جائے گی؟
حال ہی میں بنگلہ دیش میں کچھ ایسے حیرت انگیز واقعات پیش آئے ہیں جنھوں نے لوگوں کو دنگ کر دیا۔ کچھ لوگ اس سے مایوسی میں ہیں، جب کہ کچھ لوگ سیاسی اور سماجی زندگی میں زلزلے اور کچھ اپنے خیال کے مطابق اس میں تباہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ واقعہ ہے بنگلہ دیش میں طلبہ و عوام کی بغاوت کے بعد بدعنوان اور فاشسٹ حسینہ حکومت کا تختہ اُلٹا دیا جانا اور اسلامی نظریۂ حیات کو فروغ دینے والی طلبہ تنظیم ’اسلامی چھاترو شبر‘ کی بحالی، خاص طور پر ڈھاکا اور جہانگیر نگر یونی ورسٹیوں میں اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں اسلامی چھاتروشبر کی شاندار فتح۔ گذشتہ پندرہ برسوں کے دوران اسلامی چھاترو شبر کو ختم کرنے کے لیے ہر طرح کا الزام، ریاستی جبر اور پارٹی دہشت گردی سے جڑا ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ یہاں تک کہ کچھ نام نہاد علما، جو یہ مانتے ہیں کہ اسلام کا دائرئہ کار صرف خانقاہوں اور مزاروں تک محدود ہے، نہ کہ سیاست یا ریاستی انتظام میں بھی، وہ بھی اس ظلم میں شامل تھے۔ شبر کی حالیہ فتح نے ان کے اس نظریے کو غلط ثابت کیا اور نہ صرف طلبہ سیاست بلکہ قومی سیاست کو بھی متاثر کیا، جس سے بائیں اور دائیں بازو کے لوگوں کی تشویش بڑھ گئی ہے۔
۱۹۴۷ء میں ہماری پہلی آزادی کے بعد مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی کی سرگرمیاں فوری طور پر شروع ہوئیں، لیکن موجودہ بنگلہ دیش اور اُس وقت مشرقی پاکستان میں اس کی سرگرمیاں ۱۹۵۰ء کے عشرے میں شروع ہوئیں۔ اس وقت علما کی ایک بڑی تعداد یہ تسلیم کرتی تھی کہ اسلام میں سیاست کا کوئی مقام نہیں اور مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی قیادت میں جماعت اسلامی نے اپنی دعوت اور پروگرام کے ذریعے ریاست اور معاشرے میں ایمان دار اور قابل لوگوں کو متعارف کروانے کے نام پر سیاست میں جو دخل اندازی کی ہے، وہ ایک غلط عقیدہ ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد دستور سازی کے لیے برپا ہونے والی تحریک میں جماعت اسلامی کا کردار اہم تھا۔ اس سے پاکستان کے دونوں بازوئوں میں جماعت کئی سیاسی جماعتوں کی آنکھوں میں کانٹا بن گئی۔ اسی دوران پنجاب میں قادیانی مسئلہ اٹھا۔ قادیانی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ اس دوران فسادات پھوٹ پڑے اور لاہور میں مارشل لا نافذ ہوا۔ اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے علما کی ایکشن کمیٹی نے قادیانیوں کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن جدوجہد کا اعلان کیا، مگر پُرتشدد ڈائریکٹ ایکشن سے جماعت اسلامی نے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ مگر دوسری طرف دلیل کے میدان میں مولانا مودودی نےقادیانی مسئلہ کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا، جس میں انھوں نے قادیانیوں کے رہنما مرزاغلام احمد قادیانی کی متعدد تحریروں کے حوالوں سے ثابت کیا کہ وہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے اور خود کو نبی کہتے ہیں، لہٰذا قرآن و سنت کی روشنی میں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس مقالے کی وجہ سے مولانا مودودیؒ کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی، لیکن ملکی و غیر ملکی علما اور سربراہان مملکت کے احتجاج کے بعد یہ سزا معطل ہوئی اور بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے اسے منسوخ کر دیا۔
۱۹۵۸ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی کے خود اپنے ہی بنگالی مخالفین کے ہاتھوں قتل کے بعد اکتوبر میں جنرل محمد ایوب خاں نے مارشل لا نافذ کردیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔ ۱۹۶۲ء میں مارشل لا ختم ہوا تو جماعت اسلامی نے سب سے پہلے خود کو بحال کیا اور اپنی سرگرمیاں جاری کیں۔ جماعت اسلامی اپنے قیام سے ہی ایک منظم، قانون پسند، اور عوام دوست تنظیم رہی ہے۔ اس کی کوئی خفیہ سرگرمیاں نہیں تھیں، اور اس کے کارکن ایمانداری اور وفاداری کے معیار پر لوگوں کی نظر میں قابلِ احترام تھے۔
جنوری ۱۹۶۴ء میں جنرل ایوب خاں کی زیرقیادت پاکستانی حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی لگادی۔ جماعت اسلامی نے اس پابندی کے خلاف مشرقی پاکستان ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ حکومت اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی،اور جسٹس محبوب مرشد کی سربراہی میں مشرقی پاکستان ہائی کورٹ نے پابندی کو غیر قانونی قرار دیا۔ مگر مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے پابندی برقرا رکھی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے مشرقی پاکستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے، پاکستان بھر میں پابندی ختم کردی۔
دسمبر ۱۹۷۰ء میں عوامی لیگ نے پورے انتخابی عمل پر قبضہ جماکر من مانا نتیجہ لیا۔ سول نافرمانی کی، پُرتشدد بغاوت کی، انڈیا نے اس کی مدد کی، اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ اس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ شیخ مجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شنگھو سمیت تمام مذہبی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ پھر ۱۹۷۵ء میں آئین کی چوتھی ترمیم کے ذریعے انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو غیر قانونی قرار دے کر صرف ایک جماعت’ بکسال‘ ( BKSAL) قائم کی جو ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ کا مخفف ہے، اور اپنے آپ کو اس کا تاحیات صدر قرار دیا۔ انھوں نے دوجماعتی اور دو سرکاری اخبارات کے علاوہ تمام اخبارات کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔ دسمبر۱۹۷۱ء کے بعد بھی جماعت سمیت تمام اسلامی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں کو راکھی باہنی نے بغیر کسی مقدمہ کے قتل کیا۔ اسی دوران ۱۵؍ اگست ۱۹۷۵ء کو شیخ مجیب ایک فوجی بغاوت میں مارے گئے۔ ان کے زوال کے بعد دیگر جماعتوں نے نئے سرے سے رجسٹریشن کے بعد اپنا کام شروع کیا۔ فروری ۱۹۷۷ء میں اسلامی چھاترو شبر قائم ہوئی اور ایمان داری، قابلیت، اور حُبِ وطن کی بنیاد پر ایک معاشرتی ڈھانچا کی تعمیر کے لیے طلبہ میں کام شروع کیا۔ ۱۹۷۹ء میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے بھی نئے سرے سے کام شروع کیا۔ لیکن ان کا کام کبھی آسان نہیں رہا۔ شروع سے ہی انھیں سرکاری سرپرستی میں دائیں اور بائیں بازو کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ جماعت اسلامی اورشبر کے کارکنوں پر قتل، عصمت دری، آتش زنی، اور دہشت گردی کے ہزاروں نہایت بیہودہ جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ کئی جگہوں پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے گھر اور کاروبار کو بلڈوزر سے مسمار کردیا گیا۔ ۱۹۹۲ء میں نہایت گھنائونے الزامات سب سے پہلے راجشاہی یونی ورسٹی میں پھیلائے گئے۔ اس وقت میرے ایک ساتھی جناب شفیق الرحمٰن حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ انھوں نے راج شاہی میں اس الزام کو سراسر جھوٹا افسانہ قرار دیا اور افسوس کا اظہار کیا۔
ہماری یونی ورسٹیوں میں ’اسلامی چھاتروشبر ‘پرپابندی تھی۔ ان کے لیے وہاں کوئی انسانی حقوق نہیں تھے۔ ساٹھ کے عشرے میں مَیں خود ڈھاکا یونی ورسٹی کا طالب علم تھا، لیکن ’اسلامی چھاترو شنگھو‘ کی سرگرمیوں میں حصہ لینا مشکل تھا۔ شہید محمد عبدالمالک میرے جونیئر بھائی تھے، جنھیں اگست ۱۹۶۹ء میں شہید کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کا ایک واقعہ ہے۔ ۱۹۶۲ء میں، مَیں نے ڈھاکہ کالج انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیا۔ اس وقت پرنسپل جلال الدین احمد تھے۔ میں اس وقت پاجامہ پہنتا تھا، وہ ہمیں انگریزی کی کلاس پڑھاتے تھے۔ ایک دن کلاس میں مجھ سے پوچھ بیٹھے: ’تم مولوی ہو؟‘ میں نے کہا:’’نہیں سر‘‘۔ انھوں نے صاف کہا:’’یاد رکھو! میرے کالج میں مُلّامولوی کی کوئی جگہ نہیں‘‘۔ حالات کی سنگینی کا آپ اس سے اندازہ لگائیں!
اب سے پندرہ برس پہلے شیخ حسینہ نے اقتدار میں آتے ہی جماعت اسلامی اور چھاتروشبر کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے جماعت اسلامی اورشبر سمیت اسلامی جماعتوں کے خلاف لاکھوں کتابچے چھاپ کر پوری دنیا میں تقسیم کیے گئے۔ جماعت اسلامی اور شبر کے مرکزی دفتر سے لے کر گراس روٹ تک تمام دفتروں کو بند کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے رہنما خاندان سے دُور خفیہ ٹھکانوں پر رہ کر کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طلبہ کلاسز یا امتحانات نہیں دے سکتے تھے۔ مختلف مسلم ممالک کی حکومتوں اور ان کی یوتھ تنظیموں کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ شبر کے طلبہ سے تعاون نہ کریں۔ بنگلہ دیش کے سفارت کاروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر خطوط بھیجیں۔ مجھے ان خطوط کی کاپی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ہمارے ایک بڑے پڑوسی ملک نے اس سلسلے میں ان ظالمانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی کی۔
اب تبدیل شدہ حالات میں وہ واویلا کر رہے ہیں کہ ’بنگلہ دیش پاکستان بن گیا ہے‘۔ اس واویلا میں ہمارے کچھ صحافی، سیاسی، اور ثقافتی رہنما بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اس مہم میں بدنامِ زمانہ مصنفہ اور بھارت کی سرپرستی میں پلنے والی تسلیمہ نسرین بھی نظر آتی ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ ملک کے لوگ کردار اور اخلاقیات کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔
کراچی کے ایوانِ صدر میں دستخطوں کی تقریب میں ساگوان کی چمکتی میز کے گرد صدر پاکستان ایوب خان اور ان کے دائیں پہلو میں بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور بائیں طرف ورلڈ بینک کے ولیم الیف بیٹھے ہوئے تھے۔
’اس معاہدے نے شاید ’ایک اور کوریا‘ بننے کے امکانات کو ختم کر دیا۔‘ آج سے ٹھیک ۶۵ برس قبل ۱۹ ستمبر ۱۹۶۵ء کو سندھ طاس معاہدے پر دستخط کی تقریب کے بارے میں یہ الفاظ انڈین محقق اور مصنف اتم کمار سہنا نے اپنی کتاب Indus Basin: Uninterrupted میں لکھے ہیں۔
۱۹۵۰ء کے عشرے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر جاری تناؤ اور کش مکش کے بارے میں معروف امریکی تکنیکی ماہر ڈیوڈ للی نتھیل نے دونوں ملکوں کے دورے کے بعد ’Collier‘ نامی میگزین کے لیے اپنے مضامین میں کشمیر کے مسئلے کو امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے دوسرا ’کوریا‘ کہا تھا اور دونوں ملکوں کے مابین آبی تنازعات کے حل کا نظریہ پیش کیا۔
للی نتھیل امریکی ٹینیسی ویلی ڈیویلپمنٹ پلان کے ذریعے امریکا کے جنوب مشرقی حصے میں ڈیموں اور آبی ذخائر کے انتظام کے ذریعے سیلابوں پر قابو پانے اور زراعت کی بہتری کے منصوبے کے سربراہ رہ چکے تھے۔
انھیں سندھ طاس معاہدے کے اتفاق رائے تک پہنچانے والے ابتدائی معاہدوں کا معمار کہا جاتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے پانیوں کو غیر سیاسی اور تکنیکی بنیادوں پر ترقی دینے اور ان کے استعمال کے بارے میں ان کے فارمولے نے ورلڈ بینک کی ثالثی اور سہولت کاری میں دونوں ملکوں کے درمیان آبی تنازع کو حل کرنے کی طویل سفارتی کوششوں کو بنیاد فراہم کی تھی۔
اپریل ۲۰۲۵ءمیں انڈیا نے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے فالس فلیگ واقعے کے اگلے روز انڈین وزیراعظم مودی نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان آبی ذخائر اور پانی کی ملکیت کے حوالے سے ایک زبانی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ان کے اس بیان پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور اپنے پانیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جانے کا عندیہ ظاہر کیا۔ پھر بہت جلد یہ تنائو ایک محدود نوعیت کی حقیقی جنگ میں بدل گیا۔
پاکستان کے سکیورٹی اور سفارتی منظر نامے پر انڈیا کی ’آبی جارحیت‘ اور ’پانی کو ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کرنے جیسی اصطلاحات کے استعمال سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد بڑھتی ہوئی سفارتی کشیدگی اور تناؤ کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
مگر اگست ۲۰۲۵ء کے وسط میں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی مقدار اور ملکیت پر ایک دوسرے سے نبرد آزما دونوں ہمسایوں کے سرحدی علاقوں میں شدید بارشوں نے بدترین سیلابوں کو جنم دیا۔سرحد کی دونوں جانب بپھرے پانیوں نے ’سندھ طاس معاہدے‘ کے بارے میں روایتی موقف اور تکنیکی دعوؤں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نئے سوالات اُٹھا دیئے۔ یہ سوالات کروڑوں انسانوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے موسمی اثرات اور تبدیلیوں کے بارے میں ہیں۔
اس معاہدے کی رو سے مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا، جب کہ راوی، ستلج اور بیاس کے مشرقی دریاؤں کا انتظام اور استعمال انڈیا کے حوالے کیا گیا۔
جغرافیائی طور پر پاکستان دریاؤں کے بہاؤ کے زیریں حصے میں اور انڈیا اس کے اوپری حصے میں واقع ہے۔سندھ طاس کے سارے دریا انڈیا کے علاقوں سے بہہ کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ ستلج ،جہلم ،چناب اور راوی پاکستان اور انڈین پنجاب کے بڑے حصے کو آب پاشی کا پانی مہیا کرتے ہیں۔ ان کا منبع ہمالیائی پہاڑی سلسلوں کے دامن میں ہے۔
اس سال غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے ان دریاؤں سے منسلک نالوں اور معاون دریاؤں میں پانی کی مقدار حد سے بڑھ گئی۔ جس سے مشرقی اور مغربی پنجاب کی لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی زیر آب آگئی۔ مقبوضہ کشمیر سمیت پنجاب کے دونوں حصوں میں درجنوں شہر پانی میں ڈوب گئے۔
پاکستان اور انڈیا اس معاہدے کے بارہ ابواب اور آٹھ ضمیموں میں درج عبارتوں اور اصطلاحات کی تشریح اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق کرتے ہیں۔ اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔البتہ اس کی شرائط اور ترامیم کے لیے آرٹیکل ۱۰ موجود ہے، جو دونوں ملکوں کی رضامندی سے معاہدے کی نئی شکل کے خد و خال واضح کرتا ہے۔
جب سندھ طاس معاہدے پر اتفاق ہوا تو اس وقت سندھ طاس کے علاقے میں سرحد کے دونوں طرف پانچ کروڑ لوگ آباد تھے لیکن اب اسی علاقے میں ۳۰ کروڑ کے قریب افراد بستے ہیں۔ اس نظام میں سے ۹۳ فی صد پانی آب پاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے خوراک، پینے کا پانی اور توانائی کا حصول اور سب سے بڑھ کر آبادی میں اضافے سے ’سندھ طاس‘ کا علاقہ ماحولیاتی اور معاشی مسائل کے گرداب میں ہے۔
جنوبی ایشیا میں پانی کے ذخائر پر جنم لینے والی کش مکش کے جائزے پر مبنی کتاب Hydro Politics and Water Wars in South Asia کے مصنف اقتدار حسین صدیقی کے مطابق انڈیا کے لیے اس معاہدے کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اسے ۱۹۴۷ء میں ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے ملنے والے آبی ذخائر کے ہیڈورکس کے علاوہ مشرقی دریاؤں کا اضافی پانی بھی مل گیا۔ جس کی وجہ سے وہ بھاکرا اور نانگل ڈیمز مکمل کر سکا اور راجستھان نہر اور راوی بیاس نہر جیسے منصوبے شروع ہو سکے ۔مگر اس دوران انڈیا میں یہ احساس جڑ پکڑنے لگا کہ تمام دریاؤں کے ہیڈورکس ان کی ملکیت میں واقع ہیں مگر انڈس سسٹم کا صرف۲۱ فیصد پانی اسے ملتا ہے۔
مصنف کے خیال میں دوسری جانب پاکستان میں شروع سے ہی اس معاہدے کے حوالے سے منقسم رائے موجود رہی ہے۔ ایک طبقے کے خیال میں پاکستان نے اس معاہدے سے دو دریاؤں کا پانی کھو دیا،جب کہ دوسرے کے خیال میں دو دریاؤں کے پانی سے محرومی کے باوجود پاکستان نے متبادل نہری نظام اور پانی ذخیرہ کرنے میں خاطرخواہ کامیابیاں حاصل کیں۔ دو بڑے ڈیموں، چھ بیراجوں، آٹھ رابطہ نہریں اور ۲۵۰۰ ٹیوب ویلوں کی تنصیب اس معاہدے کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
۱۹۶۰ء میں جب اس معاہدے کی شرائط و تفصیلات طے کی گئیں تو ماحولیاتی تبدیلیوں کا موجودہ تصور اس وقت موجود نہ تھا۔ ڈینیل ہاینز برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی تاریخ دان کی تحقیق کے موضوعات میں پاکستان اور انڈیا کے آبی ذخائر کی تقسیم بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتاب Rivers Divided: Indus Basin Waters ’سندھ طاس معاہدے‘ کی تاریخ اور مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔
ان کے مطابق امریکی ماہر للی نتھیل کی تجاویز کو ورلڈ بینک نے دونوں ملکوں کے درمیان پانی پر مذاکرات کے آغاز کی شرائط کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ تجاویز اس مفروضے پر مبنی تھیں کہ انڈس کے آبی وسائل دونوں ملکوں کی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ اس کے علاوہ دریاؤں کو مشترکہ طور پر اس طرح منظم کیا جائے گا کہ پورے انڈس سسٹم کی ترقی ہوگی۔لیکن معاہدے کی چھ سے زیادہ دہائیاں گزرنے کے بعد یہ خطہ پانی کی بدترین قلت کا شکار ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر تیزی سے پگھلتے گلیشیئروں، برفانی تودوں کی ٹوٹ پھوٹ، بارشوں کے اوقات اور کمیت میں تبدیلی، کلاؤڈ برسٹ کی صورت میں ناگہانی آفات سندھ طاس میں پانی کے بہاؤ پر اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس تناظر میں کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ معاہدہ دوبارہ تحریر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں یہ معاہدہ اس مفروضے پر قائم تھا کہ ایک مخصوص مقدار میں پانی دریائے سندھ کے نظام سے بہتا رہے گا۔ لیکن ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے اس میں تغیر آچکا ہے جو کہ معاہدے پر نظرثانی کا جواز بن سکتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات اور عالمی قوانین کے پاکستانی ماہر اعجاز حسین نے معاہدے میں تبدیلی یا اسے ختم کرنے کے دلائل پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کی کتاب Political and Legal Dimensions: Indus Water Treaty موسمیاتی تبدیلیوں کی مروجہ تعریف اور بین الاقوامی اداروں کی تحقیق اور سائنسی امور پر اختلافات کا جائزہ لیتی ہے۔وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل کے حل کے طور پر اس معاہدے کو ختم کرنے کے مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں دونوں ملکوں میں پائے جانے والے سیاسی اختلافات اور سرحدی تنازعات اس نوعیت کے ہیں کہ ان کی موجودگی میں اگلی بار کسی اور معاہدے کا ہونا مشکل ہوگا۔تاہم وہ موسمیاتی مسائل کا حل انڈس ٹو کی صورت میں تجویز کرتے ہیں۔
پالیسی سازی کے انڈین ماہر اتم کمار سہنا کے مطابق: ’’موجودہ چیلنجوںسے نمٹنے کے لیے اس معاہدے کو کسی دوسرے معاہدے سے بدلنے یا منسوخ کرنے کا سوال ہی غیر منطقی ہے۔ مسائل کا حل خود سندھ طاس معاہدے میں موجود ہے۔معاہدے کی شک نمبر سات مستقبل میں تعاون کے وسیع امکانات کو سامنے لاتی ہے، جو کہ ’دریاؤں کی بہتر ترقی میں باہمی دلچسپی‘ اور ’دریاؤں پر انجینئرنگ کے کام کو سرانجام دینے‘ کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کام کے لیے سندھ طاس کا درست اور نیا سروے درکار ہوگا ‘‘۔
پانی کے ذخائر پر ماحولیاتی اثرات کے ماہر ڈاکٹر پرویز عامر کے مطابق: ’’دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ تین سے پانچ سال تک سندھ طاس معاہدے کو ایک طرف رکھ کر اپنے آبی تنازعات کا جائزہ لیں۔ متنازع اُمور پر اَزسر نو غور کریں۔یہ معاہدہ زمین کی سطح پر موجود پانی کے متعلقہ امور کے بارے میں ہے، جب کہ زیر زمین پانی کی کیفیت اور مسائل کے بارے میں اس میں کوئی ذکر موجود نہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں کے زیر زمین پانی کے مسائل ماحولیاتی تبدیلیوں میں اضافے کا شاخسانہ ہیں۔ جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق انڈس بیسن کے دریاؤں سے ہے۔ اس لیے پاکستان اور انڈیا کو اپنے سیاسی مسائل سے ہٹ کر تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر پانی کے معاملات کا جائزہ لے کر اس کے حل کی تخلیقی بنیادیں فراہم کرنی ہوں گی ‘‘۔
۶۵ برس قبل اس کا بنیادی تصور اس اصول پر قائم تھا کہ سندھ طاس کے پانیوں کے بہتر استعمال کو نہ تو مذہبی اور نہ سیاسی مسئلہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک قابلِ عمل انجینئرنگ اور کاروباری مسئلہ ہے۔
بدقسمتی سے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد اس مسئلے کو سیاسی مسائل سے ہٹ کر خالصتاً تکنیکی معاملے کے طور پر دیکھنے کی سوچ میں کمی آئی۔ دونوں ملکوں کے سیاسی معاملات، اندرونی قوم پرستی کے تصورات اور علاقائی بالادستی سے جڑے شکوک و شبہات اس سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔
انڈیا میں اس معاہدے کے دو ماہ بعد لوک سبھا میں اس پر تندو تیز سوالات اور تلخ بحث و مباحثہ ہوا۔ اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو ایوان میں تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان پر تنقید کرنے والوں میں دھیمے لہجے اور منطقی انداز میں گفتگو کرنے والے ایک نوجوان پارلیمنٹیرین پیش پیش تھے جو بعد میں انڈیا کے وزیراعظم بنے۔ یہ اٹل بہاری واجپائی تھے جن کی جماعت بی جے پی نے ۲۰۱۵ءکے بعد انڈس واٹر ٹریٹی کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دے کر اپنے سیاسی اور انتخابی مفاد کے لیے استعمال کیا۔
یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ پاکستان میں بھی اس معاہدے پر تنقید اور اس کے مضمرات کا ذکر پہلی بار ۱۹۶۵ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر ہوا۔ اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان کو محترمہ فاطمہ جناح کے حامیوں نے انھیں پاکستان کے دریا انڈیا کے ہاتھ بیچنے والا قرار دیا۔
پالیسی سازی کے برطانوی ماہر ڈینیل ہینز معاہدے کی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا تعلق معاہدے کے وقت چین اور افغانستان کو نظرانداز کرنے کے حوالے سے ہے اور جو پاکستان اور انڈیا کے پڑوسی ممالک ہیں۔
دریائے سندھ اور ستلج کے پانیوں کا ماخذ اور منبع تِبت کا سطح مرتفع ہے، جو چین کا حصہ ہے۔ یہ علاقہ جسے دنیا کی چھت کہا جاتا ہے سب سے زیادہ برفانی تودوں اور منجمد زمین کے ٹکڑوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ علاقہ سندھ طاس کے کُل کیچمنٹ ایریا کا ۱۴ فی صد مہیا کرتا ہے۔
دو ماہ قبل چین نے ارونا چل میں انڈین سرحد کے ساتھ دریائے برہماپترا پر دنیا کا سب سے بڑا پن بجلی کا منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دریا چین سے انڈیا میں بہتے ہوئے بنگلہ دیش کا رُخ کرتا ہے۔ پانی کے زیریں بہاؤ پر ہونے کی وجہ سے انڈیا نے اپنی آبادی کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔یہ اسی طرح کے خدشات ہیں جو پاکستان کی جانب سے دریائے چناب پر انڈین پن بجلی کے منصوبوں کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں کمی کے بارے میں ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔
پانی کے تنازعات کے حل کے بارے میں عالمی طاقتوں کے کردار کے بارے میں ڈاکٹر پرویز عامر کا کہنا ہے: ’’ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمالیائی خطے سے منسلک چینی علاقوں کے گلیشیئرز بھی خطرے کی زد میں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ پاکستان انڈیا اور چین کو یکساں طور پر درپیش ہے۔ اس سے نمٹنے کی تدابیر اس خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مشترکہ اقدامات کا پلیٹ فارم بھی مہیا کر سکتی ہیں۔یہ تینوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ اور جدید ٹکنالوجی سے آبی وسائل کے سروے جیسے اقدامات کر کے کلائمیٹ چینج کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔
اس معاہدے کی تشکیل کے دوران پاکستان انڈیا اور عالمی بینک کے درمیان مذاکرات کے طویل دور ہوتے رہے۔ اس دور کے ورلڈ بینک کے صدر یوجین بلیک نے دونوں ہمسایوں کو معاہدہ نہ ہونے کے نتائج سے خبردار کرنے کے لیے پانی کے تنازع کو بارود کا ڈھیر قرار دیا تھا۔
معاہدے پر دستخطوں نے بہت سارے خطرات کو کم کر دیا، مگر انسانی سرگرمیوں اور قدرتی موسمی عوامل نے مل کر ۶۵برسوں بعد ہمالیہ کے خطے کے برفانی گلیشیئروں میں بارود کا ایک نیا ڈھیر جمع کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی چنگاریاں روز بہ روز اس ڈھیر کے قریب بڑھتی جا رہی ہیں۔
'’ہندوتوا‘ یعنی ’ہندو نسل پرستی‘ کے نظریے پر قائم راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ (RSS) نے ۲۷ستمبر ۲۰۲۵ء کو اپنے قیام کے سو سال مکمل کیے ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس اپنا تعارف محض ایک ثقافتی اور سماجی تنظیم کے طور پر کرواتی ہے، تاہم ان برسوں کے دوران میں اس نے انڈیا کی قومی شناخت، سیاست، معاشرے، ریاستی ڈھانچے، اور پالیسی سازی کے عمل پر دور رس نظریاتی و عملی اثرات مرتب کیے ہیں۔ موجودہ حکمران جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (BJP)سمیت تین درجن سے زائد چھوٹے بڑے گروہ آرایس ایس کی چھتری تلے متفرق میدانوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان تمام گروہوں کا مجموعہ ' ’سَنگھ پریوار ‘ کہلاتا ہے۔ایک صدی پر محیط آر ایس ایس کا یہ سفر اپنی بنیاد سے جڑی ایک نسل پرستانہ تنظیم کی جدوجہد کی داستان ہے، جس نے وقت کے ہمہ قسم کے مد و جزر سے گزر کر مستقل مزاجی سے نہ صرف ہندوستان میں قبولِ عام حاصل کیا، بلکہ عالمی سیاست میں بھی اپنے نظریات کے زیرِ اثر مرتب کردہ پالیسیوں کے لیے جگہ بنائی۔ ہندونسل پرستی کے قبیح اثرات سے قطع نظر، آر ایس ایس کی اس صدسالہ جدوجہد میں کسی بھی نظریے کی بنیاد پر قائم تحریکات کے لیے سیکھنے اور سمجھنے کو بہت سے اسباق موجود ہیں۔ مزید برآں، آر ایس ایس کے سفر کی روشنی میں ہندوستان کے ماضی و حال کا تجزیہ اس کے مستقبل کی سمت جانچنے میں بھی مددگار ہو سکتا ہے۔
گذشتہ صدی کے ابتدائی عشرے انڈیا کے لیے انتہائی ہنگامہ خیزی کے حامل رہے۔ ایک طرف برطانوی تسلط سے آزادی کی آوازیں توانا تر ہو رہی تھیں، تو دوسری طرف مختلف حلقے قوم، قومیت، اور نسل پرستی(Nation, Nationhood and Nationalism)سے متعلق مباحث کو اپنے نظریات کا پیراہن پہنا رہے تھے۔۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کے قیام سے خائف ہندو طبقے نے کانگریس کی 'سیکولر ' قوم پرستی کو ہندو آبادی کی شناخت اور مفادات کے لیے ضرر رساں خیال کرتے ہوئے 'ہندو مہاسبھا کی شکل اختیار کی۔ ہندو مہاسبھا کا دائرہ کار بالعموم سیاسی تھا۔ چند ہندو زعماء بالخصوص ڈاکٹر کیشو بالی رام ہیڈگوار(م:۱۹۴۰ء)نے ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوؤں کی سماجی و تہذیبی شناخت کے تحفظ کے لیے ہندو قوم کو متحد، منظم اور عسکری طور پر مضبوط کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ڈسپلن اور جسمانی تربیت کا پروگرام مختلف علاقوں میں ہونے والے ہندومسلم فسادات کو دیکھتے ہوئے ترتیب دیا۔ اسی پروگرام کو زیادہ مربوط انداز میں آگے بڑھانے کے لیے ہیڈ گوار نے ۲۷ ستمبر ۱۹۲۵ء کو آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔
آر ایس ایس کے صد سالہ سفر کو چار مختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا دور ماقبل آزادئ ہندوستان کا ہے۔اپنے قیام کے ابتدائی بیس برسوں میں تنظیم نے اپنی جڑیں مضبوط کرنے اور تنظیم استوار کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے بانی سربراہ ہیڈگوار اور ان کے جانشین ایم ایس گولوالکر (م:۱۹۷۳ء) نےتنظیم کو تحریکِ آزادی سے دانستہ دور رکھا۔ گولوالکر کے خیال میں آر ایس ایس کا نظریۂ آزادی مذکورہ تحریک سے مختلف تھا۔ وہ برطانوی حکومت سے کش مکش کے بجائے ہندو مذہب و ثقافت کے دفاع کو آزادی کا درست راستہ خیال کرتے تھے۔ تحریکِ آزادی میں عدم شمولیت کی بنا پر آزادی پسند طبقات کی جانب سے آر ایس ایس کو برطانوی حکومت کے پروردہ اور سہولت کار کے طور پر دیکھا گیا۔ البتہ آر ایس ایس کے کارکنان نے تقسیم کے دوران مشرقی پنجاب اور دیگر علاقوں سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے قتلِ عام میں فعال کردار ادا کیا۔
آر ایس ایس کا دوسرا دور جنوری ۱۹۴۸ء میں نتھورام گوڈسے کے ہاتھوں موہن داس کرم چند گاندھی کے قتل سے شروع ہوتا ہے۔ گوڈسے کی تنظیمی رفاقت کی بنا پر آر ایس ایس پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوئیں تو ۴ فروری ۱۹۴۸ءء کو تنظیم پر پابندی لگا دی گئی۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور کانگریس حکومت میں موجود اپنے دیگر ہمدردوں کی مدد سے آر ایس ایس جولائی ۱۹۴۹ءء میں یہ پابندی ختم کروانے میں کامیاب رہی۔ جواباً سردار پٹیل کی شرط کے مطابق سنگھ نے پہلی بار انڈیا کے نئے آئین اور جھنڈے کو تسلیم کر لیا۔ پابندی کے تجربات کی روشنی میں تنظیم نے سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جَن سَنگھ نامی سیاسی وِنگ تشکیل دیا۔ اگلی تین دہائیوں میں آر ایس ایس اور جَن سنگھ نے ملکی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۵ء میں اندرا گاندھی (م: ۱۹۸۴ء) کی جانب سے لگائی گئی ملک گیر ایمرجنسی کے دوران آر ایس ایس کو ایک بار پھر پابندی کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ تاہم اندرا حکومت کے ساتھ اندرونِ خانہ گفت و شنید کے ذریعے آر ایس ایس قیادت اپنے اسیر رہنماؤں کے لیے کچھ سہولیات حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں اپوزیشن اتحاد نےپہلی مرتبہ کانگریس کو شکست دے کر حکومت بنائی تو آر ایس ایس کےحصے میں خارجہ اور اطلاعات جیسی اہم وزارتیں آئیں۔
ہندو نسل پرستی کی اس تحریک کا تیسرا دور اسی اتحادی حکومت سے شروع ہوتا ہے۔ وزارتوں سے حاصل ہونے والے سیاسی و حکومتی تجربے نے آر ایس ایس کو وہ اعتماد بخشا جس کی مدد سے اس نے ۸۰ء اور ۹۰ء کے عشروں میں اپنے فرقہ ورانہ پروگرام کی تکمیل کی جانب تیزی سے پیش رفت کی۔ انڈین معاشرے میں آر ایس ایس اور اس کے نظریے کی حمایت میں بتدریج اضافہ ہوا۔ نفرت انگیز سیاست کے ذریعے سماجی خلیج گہری ہوئی، مذہبی اقلیتوں کے خلاف فسادات میں تیزی آئی، اور نتیجتاً آر ایس ایس کا سیاسی قد کاٹھ بڑھتا گیا۔
’ہندوتوا‘ کی مقبولیت میں اضافے کی ایک نمایاں وجہ ملک کی بانی جماعت کانگریس کی دوغلی پالیسیاں اور اندراگاندھی دور کا آمرانہ طرزِحکومت بھی تھا جس نے عام آدمی کو متبادل امکانات کی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس خلا کو تیزی سے پُر کرتے ہوئے آر ایس ایس اور سَنگھ پریوار کی جماعتوں نے سماجی اور سیاسی سطح پر عام ہندو کی آواز بننا شروع کیا۔ اسی عرصے میں لال کرشن ایڈوانی کی قیادت میں ’رتھ یاترا‘ سے بابری مسجد کے انہدام کی مہم شروع ہوئی جو دسمبر ۱۹۹۲ء میں مسجد کی شہادت پر منتج ہوئی۔ یہ ملک گیر رتھ یاترا دراصل آرایس ایس کا نظریہ ملک کے طول و عرض تک پہنچانے کی مہم تھی جس کا پہلا منطقی انجام مسجد کی شہادت اور دوسرا سیاسی ڈھانچے میں آر ایس ایس کا نفوذ تھا جو آیندہ آنے والے ہر انتخابات میں نمایاں تر ہو کر سامنے آتا رہا۔ اس مہم کی صورت ہندو قوم پرست قیادت اور کارکنان رہے سہے سماجی، سیاسی، او ر ریاستی خوف سے بھی آزاد ہوگئے اور ان کی نظریاتی وابستگی اور اقلیت بیزاری میں مزید اضافہ ہوا۔
چوتھا دور ۲۰۰۹ء سے شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں کانگریس اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہی، تاہم آر ایس ایس اور اس سے وابستہ جماعتیں اسی عرصے میں اگلے انتخابات جیتنے کی تیاری میں لگ گئیں۔ آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات میں نامزد اپنے دوست نریندر مودی کو اسی دور میں وزارتِ عظمیٰ کے ممکنہ اُمیدوار کے طور پر متعارف کروانا شروع کر دیا تھا۔ کانگریسی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت پر بدعنوانی اور دفاعی معاملات میں نااہلی کے الزامات نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا اور یوں آر ایس ایس کے سیاسی چہرے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔۲۰۱۴ء کا لوک سبھا چناؤ اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم کو پہلی مرتبہ دو تہائی سے زائد اکثریت ملی۔ یہ دور گذشتہ تین اَدوار میں کی گئی کوششوں کے ثمرات سمیٹنے کا دور تھا جس سے آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں نے بخوبی فائدہ اٹھایا۔
مودی حکومت کے زیرِ سرپرستی پہلے پانچ سال آر ایس ایس نے سماجی میدان میں اقلیتوں کو مرکزی دھارے سے خارج کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ ہندو اکثریت کو مسلسل اس خوف میں مبتلا رکھا گیا کہ ان کی جان، مال، املاک، رسوم و رواج، عقائد، اور مجموعی شناخت مسلم اقلیت کے ہاتھوں خطرے میں ہے۔ اس ضمن میں 'گئو رکھشا '، 'لَو جہاد، اور سماجی و معاشی مقاطعے جیسی عوامی مہمات کا سہارا لیا گیا۔ گلی محلے میں 'فوری انصاف ' کے نام پر اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے میں تیزی آئی۔ مسلمانوں، مسیحیوں اور دلتوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہندو رہنماؤں اور کارکنوں کو مکمل ریاستی اور تنظیمی تحفظ فراہم کیا گیا۔
تاریخ کی تدوینِ نو (Re-writing History) کے نام پر نصابی کتب میں سے انڈیا کی مسلم شناخت کھرچنے اور خطے کی تہذیبی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے کرداروں کو بطور دشمن ، لٹیرا، اور قابض پیش کرنے کا عمل آگے بڑھایا گیا۔ مسلم سطوت کے نشان کھرچنے کی اس مہم کے تسلسل میں تاریخی شہروں، علاقوں، شاہراؤں اور عوامی مقامات کے نام تبدیل کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ اِلہٰ آباد کا تاریخی شہر اب 'پریاگ راج ' اور بنارس کا نیا نام 'واراناسی ' قرار پایا ہے۔ بعید نہیں کہ کچھ عرصے میں بہت سے دیگر شہروں بشمول علی گڑھ کو بھی کسی ہندو نام سے منسوب کر دیا جائے۔
عوام کے ذہن میں اسلام اور مسلم تشخص مسخ کرنے کے لیے ریاستی سرپرستی میں فلم انڈسٹری کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’کشمیر فائلز‘، '’۷۲ حُوریں‘ اور ’دی کیرالہ سٹوری‘ جیسی کئی زہرآلود پراپیگنڈا فلمیں حقائق اور تاریخی واقعات میں غلط بیانی کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو دہشت گردی کے ماخذ کے طور پر پیش کرتی ہیں اور مسلمانوں کو امن و ترقی کے لیے بڑا خطرہ بنا کر دکھاتی ہیں۔
۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۴ء تک کے پانچ سال آئینی اکھاڑ پچھاڑ سے عبارت ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ قلم زد کرکے خطے کو ریاستی حیثیت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اس سے مقبوضہ وادی پر انڈیا کا قبضہ مزید سخت کرنے، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف مقامی آبادی کا توازن بگاڑنے اور معاشی و ابلاغی ناکہ بندی کے ذریعے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو دبانے میں مدد ملی۔ ۲۰۱۹ء ہی میں انڈین سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے دیرینہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کے انہدام کو عملاً قانونی چھتری فراہم کر دی جس سے رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہوئی۔
اسی عرصے میں شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر فار سٹیزن شپ جیسی آئینی ترامیم کے ذریعے مقامی مسلم آبادی کو وجودی عدم تحفظ کا شکار کرنے کی کوشش کی گئی ۔ شہریت ترمیمی قانون کی مدد سے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے مسلم اکثریتی پڑوسی ممالک کی اقلیتوں کو ان ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی چال بھی چلی گئی۔ان آئینی ترامیم کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلم اور غیرمسلم حلقوں کے ساتھ سختی سے نمٹا گیا۔ شرجیل امام، عمر خالد ، گلفشاں فاطمہ جیسے کئی نوجوان طالب علم رہنما اسی اختلافی آواز کی بنا پر پانچ سال سے پابندِ سلاسل ہیں اور ان کے مقدمات کی شنوائی تو ایک طرف، ریاست ان کی ضمانت کی درخواستوں پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہونے دے رہی۔ ملکی سطح پر ان آئینی ترامیم کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے زیر انتظام بہت سی ریاستوں نے بھی اقلیت دشمن اور ہندو قوم پرستی پر مبنی قوانین منظور اور نافذ کیے۔ ان میں تبدیلیٔ مذہب اور گائے کے ذبیحے کی روک تھام کے قوانین خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ درج بالا تمام اقدامات فی الاصل راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کے دیرینہ ایجنڈے کا حصہ تھے جنھیں ریاستی مشینری کی مدد سے تیزی سے پورا کیا گیا۔
مودی حکومت کی تیسری مدت عددی اکثریت کے لحاظ سے بی جے پی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کے لیے قدرے مشکل ثابت ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو ان کی سیاسی ، سماجی اور معاشی بنیادوں سے محروم کرنے کا عمل جاری ہے۔ تیسری مدت کے آغاز ہی میں وقف ترمیمی قانون کے ذریعے مسلمانوں کی اربوں روپے مالیت کی پراپرٹی پر ریاستی عمل داری بڑھانے کا آغاز کر دیا گیا۔ مسلم اوقاف یعنی تاریخی مساجد ، فلاحی مراکز، عیدگاہیں، دربار، قبرستان، ہسپتال، اور تعلیمی ادارے بتدریج ریاستی نگرانی میں دیئے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں بنیادی فیصلہ سازی میں مسلمان تنظیموں، اداروں اور افراد کا کردار محدود ہو رہا ہے۔
انڈین سیاست اور معاشرے میں جاری موجودہ رسہ کشی کا تجزیہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ اپنے ایجنڈے کے بہت سے مقاصد حاصل کرلینے کے بعد ’ہندوتوا‘ کی تحریک نئے اہداف کا تعین کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس تحریک کی اصل منزل ملک کو 'ہندوراشٹرا ' یعنی ہندو ریاست میں ڈھالنا اور کلاسیکی ہندو متون(مذہبی تحریروں) میں درج شدہ یوٹوپیائی خطوط پر ’اکھنڈ بھارت‘ ' کا قیام ہے۔ مذکورہ ’اکھنڈ بھارت‘ کی سرحدیں جنوبی ایشیا سے کہیں زیادہ وسعت کی حامل ہوں گی۔ تاہم، اس طویل مدتی منصوبے سے قطع نظر، اگلے کچھ عرصے میں آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیمیں بہت سے قلیل مدتی مقاصد کے حصول کی جانب سفر کرتی نظر آتی ہیں۔
گذشتہ برس کے انتخابی نتائج نے اس سفر میں وقتی رخنہ ضرور ڈالا ہے۔ ’ہندوتوا‘ تحریک میں موجود اندرونی دراڑیں بھی اُبھر کر سامنے آئی ہیں۔ تاہم، اس سے مجموعی سفر کی سمت تبدیل ہونے کا امکان کم ہے۔ مودی حکومت کے پاس اب بھی تین برس سے زائد کا عرصہ باقی ہے۔ اس عرصے میں مسلم پرسنل لا کا خاتمہ اور یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہندو قوم پرستوں کا ایک ممکنہ ہدف ہوگا۔ تاریخ کی تدوینِ نو اور مسلم تشخص کھرچنے کی مہم میں کمی آنے کا امکان بھی کم ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہنما ایک عرصے سے ملکی آئین کے دیباچے میں موجود 'سیکولر اور 'سوشلسٹ 'کی اصطلاحات پر انگشت نمائی کرتے آئے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں یہ مہم تیز ہوئی ہے۔آئین کی سیکولر شناخت کا خاتمہ ہندو راشٹرا کے قیام کی راہ میں ایک اہم سنگِ میل ہوگا۔ اگرچہ موجودہ دورِحکومت میں ایسی کوئی آئینی تبدیلی بعید از قیاس ہے، تاہم عین ممکن ہے کہ موجودہ عرصہ عوامی رائے سازی کے لیے استعمال کیا جائے اور آیندہ انتخابات میں زیادہ بڑی اکثریت حاصل کرکے آئین کی سیکولر شناخت منہدم کر دی جائے۔
آر ایس ایس نے انڈین معاشرے پر جو ہمہ جہت اور وسیع اثرات مرتب کیے ہیں، ان کا احاطہ کرنے کے لیے یہ چند صفحات قطعاً ناکافی ہیں۔ تاہم، یہ چیدہ چیدہ نکات اس چیلنج کی جانب اشارہ کرنے کے لیے کافی ہیں جن کا سامنا اس وقت انڈین معاشرہ بالخصوص اس کی مسلم شناخت کررہی ہے۔ اسلام کو ہندوستان میں اجنبی مذہب اور مسلمانوں کو 'گھس بیٹھیے ' قرار دے کر آر ایس ایس نے جو نظریہ سازی کی ہے، یہ اسی کے مظاہر ہیں کہ نہ صرف ہندونسل پرست بی جے پی مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی سے محروم کرنے میں کامیاب رہی ہے، بلکہ کانگریس جیسی بظاہر سیکولر جماعتوں کے لیے بھی ہندو ووٹر کو لبھانے کا آسان راستہ بھی ہندو قوم پرستی ہی باقی بچا ہے۔
سوال: نمونے کی اسلامی گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا ہمارے ہاں موجودہ گھریلو زندگی اسلامی ہے؟ کیا شہر اور گائوں میں ایک ہی طرز کی گھریلو زندگی ممکن ہوگی؟
جواب: ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رُو سے چار ہیں: lایک ’تحفظ نسب‘، جس کی خاطر ’زنا‘ کو حرام اور جرم قابلِ تعزیر قرار دیا گیاہے، پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں اور زن و مرد کے تعلق کو صرف جائز قانونی صورتوں تک محدود کر دیا گیا ہے، جن سے تجاوز کا اسلام کسی حال میں بھی روادار نہیں ہے۔l دوسرے تحفظ ’نظام عائلہ‘ جس کے لیے مرد کو گھر کا قوام بنایا گیا ہے، بیوی اور اولاد کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اولاد پر خداکے بعدوالدین کا حق سب سے زیادہ رکھا گیا ہے۔ lتیسرے ’حُسن معاشرت‘ جس کی خاطر زن و مرد کے حقوق معین کر دیے گئے ہیں، مرد کو طلاق کے اور عورت کو خلع کے اور عدالتوں کو تفریق کے اختیارات دیے گئے ہیں، اور الگ ہونے والے مرد و زن کے نکاح ثانی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، تاکہ زوجین یا تو حُسنِ سلوک کے ساتھ رہیں، یا اگر باہم نہ نباہ سکتے ہوں تو بغیر کسی خرابی کے الگ ہوکر دوسرا بہتر خاندان بناسکیں۔ lچوتھے ’صلۂ رحمی‘ جس سے مقصود رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا معاون و مددگار بنانا ہے، اور اس غرض کے لیے ہرانسان پر اجنبیوں کی بہ نسبت اس کے رشتہ داروں کے حقوق مقدم رکھے گئے ہیں۔ اس ’نظامِ عائلہ‘ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔ رہے طرزِ زندگی کے مظاہر، تو وہ ظاہر ہے کہ شہروں میں بھی یکساں نہیں ہوسکتے، کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسانی ہوسکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو، وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے، بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں رَد و بدل نہ ہو۔ (ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۵۹ء)
سوال : آپ نے لکھا ہے کہ انسانی جسم روح کا قیدخانہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ سازوسامان ہے، جس سے ’روح‘ کام لیتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عملی زندگی میں انسان کی جس شخصیت کا ظہور ہوتا ہے، کیا وہ روح کا مظہر ہوتی ہے یا جسمانی قوتوں کا؟
جواب :انسان کی شخصیت دراصل ان دونوں چیزوں کے اظہار سے عبارت ہے، دونوں میں سے کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جسم ’روح‘ کے بغیر بے کار ہے۔ لیکن ’روح‘ بھی ’جسم‘ کے بغیر اپنی قوتوں کا اظہار نہیں کرسکتی۔ فرض کیجیے کہ ایک آدمی کا جسم کسی وجہ سے بالکل مضمحل ہوچکا ہے اور اس کے قویٰ جواب دے چکے ہیں، تو اس صورت میں ’روح‘ اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے بالکل عاجز ہوگی۔
سوال: کیا اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ ’روح‘ اور ’جسم‘ میں سے انسانی شخصیت کی تشکیل میں زیادہ اہمیت کس کو حاصل ہے؟
جواب: خالق نے ’روح‘ اور ’جسم‘ کی صلاحیتوں اور قوتوں کے درمیان ایک ایسا بے نظیر توازن اور حسین امتزاج پیدا کردیا ہے کہ کوئی شخص ناپ کر یہ نہیں بتا سکتا کہ انسان کی شخصیت کی تشکیل میں روح کا حصہ کتنا ہے اور جسم کا کتنا؟ اور ان میں سے کون سی چیز زیادہ اہم ہے اور کون سی کم اہم؟ دراصل انسان کی تخلیق، اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ایک بے مثال کرشمہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک بچّے کے اندر اخذ کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ مثلاً بچپن میں وہ جس طرح اپنی مادری زبان سیکھتا ہے اور اس پر عبور حاصل کرلیتا ہے، بڑی عمر کا آدمی ہزار کوشش کے باوجود کسی زبان میں وہ مہارت پیدا نہیں کرسکتا۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آدمی کے اندر وہ صلاحیت اس درجے میں باقی نہیں رہتی، جس درجے میں ایک بچّے کے اندر اپنی ابتدائی عمر میں موجود ہوتی ہے۔(آئین، ۲۹ مئی ۱۹۷۰ء)
ایک عمل اگر دُنیا والوں کے نزدیک بڑا اچھا ہو، مگر خدا کے قانون کی پیروی اس میں نہ کی گئی ہو، تو دُنیا کے لوگ چاہے اس پر کتنی ہی داد دیں، خدا کے ہاں وہ کسی داد کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف ایک عمل ٹھیک ٹھیک شریعت کے مطابق ہوتا ہے اور بظاہر اس کی شکل میں کوئی کسر نہیں ہوتی، مگر نیت کی خرابی، ریا، خودپسندی، فخروغرور اور دُنیا طلبی اس کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے اور وہ اس قابل نہیں رہتاکہ اللہ کے ہاں مقبول ہو۔
جو لوگ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ سے ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق طلب کرتے رہتے ہیں کہ جو اپنی ظاہری صورت میں بھی ٹھیک ٹھیک اللہ کے قانون کے مطابق ہوں اور حقیقت میں بھی اللہ سبحانہٗ کے ہاں مقبول ہونے کے لائق ہوں تو دُنیا میں [انھوں] نے جو بہتر سے بہتر عمل کیا ہے، آخرت میں ان کا درجہ اُسی کے لحاظ سے مقرر کیا جائے گا، اور ان کی لغزشوں، کمزوریوں اور خطائوں پر گرفت نہیں کی جائے گی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک کریم النفس اور قدر شناس آقا اپنے خدمت گزار اور وفادار ملازم کی قدر اس کی چھوٹی چھوٹی خدمات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس کی کسی ایسی خدمت کے لحاظ سے کرتا ہے جس میں اس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو، یا جاں نثاری و وفاشعاری کا کمال کر دکھایا ہو۔ اور ایسے خادم کے ساتھ وہ یہ معاملہ نہیں کیا کرتا کہ اس کی ذرا ذرا سی کوتاہیوں پر گرفت کر کے اس کی ساری خدمات پر پانی پھیر دے۔
یعنی نہ اچھے لوگوں کی نیکیاں اور قربانیاں ضائع ہوں گی، نہ بُرے لوگوں کو ان کی واقعی بُرائی سے بڑھ کر سزا دی جائے گی۔ نیک آدمی اگر اپنے اجر سے محروم رہ جائے، یا اپنے حقیقی استحقاق سے کم اجر پائے تو یہ بھی ظلم ہے، اور بُرا آدمی اپنے کیے کی سزا نہ پائے، یا جتنا کچھ قصور اس نے کیا ہے اس سے زیادہ سزا پاجائے تو یہ بھی ظلم ہے۔( سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، اکتوبر ۱۹۶۵ء، جلد۶۴، عدد۲، ص۲۶-۲۷)