سائنس کے نظریے ہوں یا دوائوں کے خواص، اِن میں سے بعض انسان کی اپنی تحقیقی کوشش اور تجربے کا نتیجہ اور ماحصل ہیں۔ لیکن بعض نظریے اور خواص ایسے بھی ہیں جن کی طرف انسان کا ذہن کسی کوشش کے بغیر ایکا ایکی منتقل ہوگیا۔ اسی چیز کا نام ’القا‘ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ بعض اوقات انسان کے دل میں ایک بات ڈال دیتا ہے۔ دُنیوی معاملات میں کتنی بہت سی تدبیریں ہیں ، جو ذہنوں میں القاء کی جاتی ہیں اور آدمی خود حیران رہ جاتا ہے کہ یہ تدبیر یا فلاں بات تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا،یہ تو اُسے سمجھائی گئی ہے۔ کتنے بہت سے علوم ہیں جن کی ابتدا ’القا‘ اور ’الہام‘ سے ہوئی ہے۔ قرآن کریم اس پر شاہد ہے کہ کرئہ ارضی کے پہلے انسان کو اشیاء کے نام کا الہام ہوا۔ اِس حقیقت کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ انسانی علم کی اوّلین بنیاد وحی، الہام اور القاء ہے۔ جس اللہ نے کائنات کو خلق فرمایا، اُسی نے اپنے فضل سے انسان کو کائنات کی اشیاء کا علم بھی عطا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے انسانوں ہی میں سے ایسے مقدس نفوس کو منتخب فرمایا جو ہراعتبار سے مکمل انسان تھے، جن کی دیانت و صداقت اور سیرت پر معاشرہ اعتماد رکھتا تھا۔ اِن مقدس نفوس کو اسلامی اصطلاح میں نبیؑ اور رسولؑ کہتے ہیں اور ان کو خالق کائنات کی طرف سے جو رہنمائی اور ہدایت فراہم کی گئی اُس کا نام ’وحی‘ ہے۔ وحی میں نبیؑ اور رسولؑ کی اپنی کوشش اور تجربے کا ذرّہ برابر دخل نہیں ہوتا۔ وہ مہبط ِ وحی ہوتا ہے یعنی وحی اُس پر نازل ہوتی ہے، وہ خود ’وحی ساز‘ نہیں ہوتا۔
ہردور میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ِ بالغہ اور مشیت کامل کے تحت انبیا و رُسل آتےرہے۔ اُن میں سے بعض پر صحیفے اور کتابیں بھی نازل ہوئیں یہاں تک کہ:
جب اپنی پوری جوانی پہ آگئی دُنیا
جہاں کے واسطے اِک آخری نظام آیا
اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کئی سو سال بعد اُس ’انسانِ کامل‘ کو مبعوث فرمایا جس پر دین اسلام کا اتمام و اَکمال کردیا گیا اور نبوت اور رسالت کے عہدے کو ختم کرکے اعلان فرما دیا گیا کہ یہ نبی ___ احمد، محمد،مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم___ خاتم النبیین ہے، یعنی اب کسی قسم اور کسی نوع کا کوئی نبی، ظلی یا بروزی قیامت تک مبعوث نہیں ہوگا۔ نبوت اور رسالت کا منصب اب کسی اور کے لیے باقی نہیں رہا۔ قیامت تک کے لیے اس نبی ٔ آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کی ہوئی ہدایت و شریعت ہر اعتبار سے کافی و وافی ہے۔ اس میں نہ کوئی اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ ترمیم۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اُس کا نام ’قرآن‘ ہے۔
سب سے پہلی بات غور کرنے کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی جن حروف و الفاظ کے ساتھ نازل ہوئی، آپؐ نے حرفاً حرفاً اور لفظاً لفظاً ہوبہو اسی طرح اُس کی تلاوت فرمائی۔ ساتھ ہی اس کو لکھوا بھی دیا اور بہت سے صحابہ نے اُسے زبانی یاد بھی کرلیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو پورے کا پورا قرآن سفینوں اور سینوں میں محفوظ تھا۔ قرآن کریم میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن میں کسی ترکِ اولیٰ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی ہے۔ حضورؐ نے اس قسم کی آیتوں کو بھی لفظ بہ لفظ تلاوت فرمایا۔ وہ انسانِ کامل، جسے اُس کے دشمن ’الامین‘ کہتے تھے۔ اُس نے کمالِ امانت کے ساتھ خالق کا کلام مخلوق تک پہنچادیا۔
قرآن کریم سورتوں کی جس ترتیب کے ساتھ آج دُنیا میں پایا جاتا ہے، یہ ترتیب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے ہی بتائی گئی تھی۔
اُمت نے نہ صرف قرآن کو سفینوں اور سینوں میں محفوظ رکھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس لب و لہجہ میں قرآنی آیات تلاوت فرماتے تھے اُس لب و لہجہ کو بھی محفوظ کیا گیا۔
دُنیا میں کوئی کتاب، صحیفہ، بیاض اور مخطوطہ قرآن کریم کے برابر تو کیا اس سے سیکڑوں درجہ کم تعداد میں بھی نہیں پڑھا جاتا۔ تنہا یہی وہ کتاب ہے جو دن رات میں پانچوں وقت کی نمازوں کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کی جاتی ہے، جس کی معنوی تعلیم کے علاوہ اس کی قرأت و تجوید بھی تعلیم کی جاتی ہے، جس کی معنوی تعلیم کے علاوہ اس کی قرأت و تجوید کی تعلیم کے لیے ہزاروں مدرسے دُنیا میں پائے جاتے ہیں۔ تنہا یہی وہ کتاب ہے جو سب سے زیادہ مضامین، تحریروں، تقریروں میں نقل و بیان کی جاتی ہے اور سال کے سال رمضان کے مہینے میں کروڑوں مسلمان پورے قرآن کو حفاظ کی زبان سے سنتے بھی ہیں۔
دُنیا میں نظم و نثر کی کوئی ایسی قدیم و جدید کتاب نہیں ملتی جس کے کچھ محاورے، اصطلاحیں اور الفاظ متروک نہ ہوگئے ہوں، اور اُن میں فرسودگی اور اجنبیت پیدا نہ ہوگئی ہو۔ ہاں، صرف قرآن کریم ہی وہ تنہا مقدس کتاب ہے، جس کا ایک لفظ بھی چودہ سو سال کی طویل مدت میں متروک نہیں ہوا۔ عربی زبان و ادب کا یہ وہ بلند ترین معیار ہے جس کے سامنے عربی ادب کی تمام شاہکار اور شہرئہ آفاق کتابیں کم درجہ اور فروتر نظر آتی ہیں۔ قرآن کریم جس طرح اب سے چودہ سو سال پہلے لغت، الفاظ، طرزِبیان اور مفہوم و معنی کے اعتبار سے تروتازہ تھا، آج بھی وہ اسی طرح تروتازہ اور سدابہار ہے۔ اس گُل کدہ کا ایک پتّہ بھی خزاں رسیدہ نہیں ہوا، اور اس کی ایک آیت اور ایک لفظ کو کروڑوں بار دُہرانے کے بعد بھی وجدان ذرا سی اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
تقریر و تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں شعریت پیدا ہوجائے۔ شاعری کا زبان و ادب میں بہت بلند مقام ہے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نبیؐ کو نہ تو ہم نے شاعری سکھائی ہے اور نہ شاعری اُس کے شان کے شایان ہی ہے (یٰٓس۳۶:۴۹)۔ یہ بھی قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ وہ شاعری نہ ہونے کے باوجود کمال درجے کا حسین و دلکش ، فصیح و سادہ، بلکہ سہلِ ممتنع کلام ہے۔
علامہ اقبال نے اس مصرع ’آہنگ میں یکتا صفت ِ سورۃرحمٰن‘ میں مردِ مومن کی تعریف کرتے ہوئے قرآن کریم کی معجزانہ نغمگی کی طرف بھی لطیف اشارہ کر دیا ہے۔ قرآن کریم میں وہ مقدس نغمگی اور ایسا پاکیزہ آہنگ پایا جاتا ہے، جو شریفانہ جذبات کو حرکت میں لاتا ہے۔ قرآن کی نغمگی کے سامنے وہ راگ راگنیاں کوئی وزن نہیں رکھتیں جنھیں سن کر آدمی کے اندر سفلی جذبات اور ہولناک خیالات حرکت میں آتے ہیں۔
قرآن کریم کوئی خیالی کتاب نہیں ہے جس کے الفاظ کاغذ پر تو بھلے معلوم ہوتے ہیں مگر عملی دُنیا میں ان الفاظ کی معنویت ساتھ نہیں دیتی۔ قرآن کریم مکمل ترین دستورِ حیات اور اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا آخری اور قطعی منشورِ زندگی ہے۔ یہ زندگی کے تجربوں کے مرحلوں سے گزرا ہے اور زندگی کے سفر میں قدم قدم پر قرآن زندگی اور فطرت سے انتہائی مربوط ثابت ہوا ہے۔ قرآن کریم میں زندگی سے گریز و فرار کا کوئی چور دروازہ یا پوشیدہ سرنگ نہیں ملتا۔ ترکِ دُنیا اور رہبانیت کے علی الرغم قرآن کریم نے تو اس دُعا کی تعلیم دی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے اس مادی دُنیا کو حسین و خوب صورت، یعنی صالح بنانے کی تمنا کی گئی ہے (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً)۔ اللہ تعالیٰ نے دُنیا کا کارخانہ بچوں کے گھروندوں کی مانند کھیل کے لیے نہیں بنایا۔ یہ تو شعور و بصیرت کی تمام قوتوں اور توانائیوں کے ساتھ برتنے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مقدس میں قرآنی اخلاق کی بنیادوں پر معاشرہ استوار کیا گیا اور اس طرح قرآنی تعلیمات کو متشکل کردیا گیا۔ اسلامی معاشرہ راہبوں اور جوگیوں کا معاشرہ نہیں، فاتحوں اور کشور کشائوں کا معاشرہ تھا۔اس معاشرے میں صفّہ کے فقرا اور مسکینوں سے زیادہ فاتحین بدر و حُنین پائے جاتے تھے۔ قرآن کریم نے ان نفوسِ قدسیہ میں اس قدر جوش اور ولولہ پیدا کر دیا تھا کہ مٹھی بھر انسان قریش کے لشکر سے ٹکرا گئے اور چشمِ فلک نے دیکھ لیا کہ فتح اُن بے سروسامان اور بوریا نشینوں ہی کی ہوئی۔
اس کے بعد خلافت ِ راشدہ کے مبارک دور میں حاملین قرآن نے روم و مدائن کی پُرشکوہ سلطنتوں کے دھوئیں اُڑا دیئے۔ فتح مندی قرآن کریم کے اُن عملی مفسرین کے قدم چُومتی تھی اور شوکت و اقبال اُن کے گھوڑوں کی رُکابیں تھام کر چلتے تھے۔ دُنیا میں صداقت و امانت اُن کےنام اور کام سے پہچانی جاتی تھی۔ صحابہ کرامؓ کو تمدن و معیشت کے کیسے کیسے نئے نئے اور پیچیدہ مسائل سے سابقہ پڑا مگر کتاب و سنت کی رہنمائی میں انھوں نے ہرمسئلے کا حل تلاش کرلیا اور جنگ کے میدانوں ہی میں نہیں تمدن و تہذیب اور سیاست و معیشت کے محاذوں پر بھی غالب اور فتح مند رہے۔
قرآن کریم میں جہاں بُت تراشی کا ذکر آتا ہے یا اُن لوگوں کا ذکر ہے جو پہاڑ کو تراش کر مکانات بنایا کرتے تھے، تو اس اجمال سے یہ نکتہ پیدا کرنا کہ قرآن کریم کی ان آیتوں میں فن تعمیر سمویا ہوا ہے۔ قرآن فہمی کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہے۔ قرآن کریم کو تمام علوم و فنون کی انسائیکلوپیڈیا ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے قرآن کو سخت امتحان میں ڈال رہے ہیں اور نکتہ چینوں کے لیے زمین ہموار کر رہے ہیں۔
قرآن کریم کی جامعیت اس اعتبار سے مسلّم ہے کہ زندگی کے تمام دائروں کے بارے میں قرآن کریم میں ہدایت کا ہر جامع عنوان پایا جاتا ہے اور جو اُمہات و اُصول ہدایت کے ہوسکتے ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہیں جو انسانوں کے پیش کردہ تمام نظریات و کلیات کو پرکھنے کی کسوٹی ہیں۔ اخلاق و تقویٰ اور حقائق کائنات کی مکمل ترین تعلیم اس مقدس صحیفہ میں ملتی ہے۔ اس لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ حَسْبُنَا کِتٰبَ اللہِ ___’’ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘۔
یہ ہے قرآن کے منشورِ حکومت و سیاست کی وہ پہلی دفعہ جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اصل حاکمیت اور حکومت اللہ تعالیٰ کی ہے اور انسانوں کی حکمرانی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تابع ہونی چاہیے۔ پھر قرآن کریم نے’مشاورت‘ کی ہدایت دے کر دُنیا کو ’شورائیت‘ کا رہنما اُصول دیا۔ پھر مسلمان حکمرانوں کی یہ صفت بتائی کہ:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔
جس ملک میں بھی مسلمانوں کو غلبہ، اقتدار اور حاکمیت حاصل ہو اور وہاں کا حکمران طبقہ اقامت ِ صلوٰۃ اور تنظیمِ زکوٰۃ سے غافل ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دیا جارہا ہو، اس جگہ حکومت صحیح ہاتھوں میں نہیں ہے۔ وہ جوہر عہدہ اور منصب کے لیے کچھ صفات ضروری ہوتی ہیں، مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلم حکمرانوں کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ کی زمین صالحین کا ورثہ ہے (انبیاء۲۱:۱۰۵)۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دُنیا کے جن خطّوں پر بھی غیرصالحین یعنی فساق و فجار کا قبضہ اور عمل دخل ہے، وہ لوگ دراصل غاصب ہیں۔ اس لیے اِس بات کی مسلسل جدوجہد ہوتی رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین غاصبوں کے قبضہ سے نکل کر زمین کے جائز وارثوں یعنی صالحین کے قبضہ میں آجائے۔
قرآن کریم نے سود اور قمار کو حرام قرار دے کر سرمایہ داری اور ہوسِ زر کا مٹھ مار دیا۔ ’شراب‘ جو ’اُم الخبائث‘ ہے، قرآن نے اُسے رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ کہا (المائدہ ۵:۹۰)۔ عورت جو معاشرے میں آزادانہ اختلاط کے سبب بہت بڑے فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کی عصمت و عفت کے لیے جلباب و خمار کے حصار قائم کیے۔ اس کو مقامِ زینت کی نمود و نمائش اور تبرجِ جاہلیت سے روکا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواج یعنی اُمہات المومنینؓ کو براہِ راست اور تمام مسلم خواتین کو تبعاً حکم دیا کہ وقار کے ساتھ گھروں میں بیٹھیں اور کسی نامحرم سے گفتگو کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو دوبدو اور رُوبرو، نہیں، پردے کی آڑ میں گفتگو کریں اور بات کرنے میں ایسا لہجہ پیدا نہ ہونے دیں جس سے سننے والا غلط قسم کی کوئی اُمید اپنے دل میں قائم کرلے۔(احزاب ۳۳:۳۳)
قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ملتی ہیں: ایک وہ جن کو ’محکمات‘ فرمایا گیا ہے اور یہی ’اُم الکتاب‘ یعنی کتاب اللہ کی اصل بنیاد ہیں۔ دوسری آیات ’متشابہات‘ ہیں۔ اُن کے بارے میں خود قرآن کہتا ہے:
فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ زَيْـغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِہٖ۰ۚ۬ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ۰ۘؔ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ۰ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا۰ۚ (اٰل عمرٰن ۳:۷) جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے سدا پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اُن کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلاف اِس کے جو لوگ علم (دین) میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے ربّ ہی کی طرف سے ہیں‘‘۔
کائنات کا آغاز کس طرح ہوا؟ اس کا اختتام کس طرح ہوگا؟اللہ تعالیٰ کی کیا صفات ہیں؟ اُن کے بارے میں قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں اُن پر ایمان لانا اور اُن کا سادہ تصور کافی ہے۔ اُن کی ماہیت جاننے کی کوشش سے روکا گیا ہے۔ دُنیا سائنس میں کہاں تک ترقی کرگئی ہے مگر آج تک اس کو پتہ نہیں لگ سکا کہ دُنیا میں سب سے پہلے مرغی پیدا ہوئی تھی یا انڈا۔ اسی طرح یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ گندم کا پودا سب سے پہلے خلق ہوا تھا یا اُس کا بیج، یعنی دانۂ گندم، لیکن اِن حقائق اور ماہیتوں کے نہ جاننے سے انسانی معیشت کا کوئی کام رُکا ہوا نہیں ہے۔ اسی طرح متشابہات پر ایمان رکھتے ہوئے اُن کا مکمل اور واقعی علم نہ ہونے سے دین و شریعت اور اخلاق و ایمان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوجاتی۔
قرآن کریم مصنّفوں کی لکھی ہوئی کتابوں اور اہل قلم کے مرتب کیے ہوئے مجموعوں کی طرح کوئی کتاب نہیں ہے، جن میں عنوانات ہوں اور ہرعنوان کے تحت ذیلی ابواب اور حواشی ہوں اور جب ایک مضمون ختم ہوجائے تو پھر دوسرا شروع کیا جائے۔ قرآن کا اندازِ بیان تحریری و تصنیفی نہیں، تقریری ہے۔ جو لوگ عام تصانیف و تالیف پر قرآن کریم کا قیاس کر کے اُس کا مطالعہ کرتے ہیں، اُنھیں قرآن کریم کی آیتوں اور مضامین میں بے ربطی محسوس ہوتی ہے۔ قرآن کریم اس قسم کی تصنیف سرے سے ہے ہی نہیں۔
نظم قرآن کا محور یہ ہے کہ اس کتابِ بے مثال میں بار بار اور جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور شانِ خلاقیت کا ذکر ہے۔ قرآن بار بار آخرت کے محاسبہ کی یاد دلاتا ہے۔ وہ اُن لوگوں کا بھی ذکر کرتا ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا ہے اور اُن کا بھی جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا۔ کسی فرد یا قوم کا ذکر ہو، آثار و مشاہدات کی تفصیل ہو، معاشرے کے لیے کسی قانون و حکم کی تنفیذ کا اعلان ہو، ہرموقع پر قرآن کریم ذہنِ انسانی کو یاد دلاتا اور چونکاتا رہتا ہے کہ:
قرآن کریم کا ہر مضمون اسی دعوت کے اردگردگردش کرتا ہے، اسی کی جگہ جگہ تکرار کی گئی ہے اور یہی ’تذکیر‘ اس دعوت کا عمود اور مرکزی نکتہ ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۚ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انھی میں سے ایسا پیغمبرؐ اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
دُنیا کے قدیم و جدید طریقۂ تعلیم میں ہرمعلّم جس کسی کتاب کی تعلیم دیتا ہے تو وہ یہ نہیں کرتا کہ اپنی طرف سے کتاب کی شرح و تفصیل میں کچھ نہ کہے ، بلکہ کتاب کی اصل عبارت کو دُہراتا رہے۔ کتاب کی تعلیم کے معنٰی ہی یہ ہیں اور یہی تعلیم کی غرض و غایت ہے کہ معلّم جن مقامات کی مناسب سمجھتا ہے شرح کرتا جاتا ہے اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ طلبہ اور شاگرد بھی کتاب کے بارے میں اُستاد سے سوال کرتے ہیں۔ وہ اُ ن کے جواب دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’کتاب و حکمت‘ کی تعلیم کے منصب پر مامور فرمایا تھا۔ اس منصب کی ذمہ داریوں کو رسولؐ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی ؑ کی حیثیت سے انجام دیا۔ رسول ؐاللہ کے اس منصب کو ذہن میں رکھ کرنطقِ رسولؐ کے بارے میں قرآن کریم کا فیصلہ سنیے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۳ۭ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۴ۙ (النجم۵۳:۳-۴) (یہ نبیؐ) اپنے (نفس کی) خواہش سے کلام نہیں کرتا۔ اس کا کلام تو وحی ہوتا ہے۔
(۱) تلاوتِ قرآن (۲) تزکیۂ نفس اور (۳) کتاب و حکمت کی تعلیم___ وہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کی گئی تھیں اور قرآن کریم نطقِ رسولؐ کو وحی کہتا ہے، یعنی جو زبان کتاب اللہ کی تلاوت کرتی تھی وہی زبان کتاب اللہ کی تعلیم بھی دیتی تھی، اور قدیم اور جدید طریق تعلیم میں کتاب کی تعلیم سے مراد کتاب کے مضامین کی شرح و تفصیل ہی ہوتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب و حکمت کی جو تعلیم دی وہ بھی وحی الٰہی ہے اور چونکہ کتاب و حکمت کی تعلیم کا فریضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی ہونے کی حیثیت سے انجام دیا ہے، اس لیے وہ منصوص ہے اور اس کی اطاعت اُمت پر فرض ہے۔
اس صورتِ حال کو سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم جن لفظوں میں نازل ہوا ہے، یہ الفاظ اگرچہ نطقِ رسولؐ سے ادا ہوئے ہیں مگر اس میں حضوؐر کی کوشش اور ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایک ایک لفظ وحی (متلّو) ہے مگر احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ معانی اللہ کی طرف سے وحی ہوئے ہیں لیکن ان وحی شدہ معانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لفظوں میں یا عمل سے ادا فرمایا ہے۔ اس لیے احادیث کو’وحی غیرمتلّو‘ کہا جاتا ہے مگر وحی متلّو اور وحی غیر متلّو دونوں دین میں حجت ہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کے کلام کی تقدیس کا تصور ذہن وفکر میں جمانا چاہیے۔ قرآن مجید کی آیتیں ٹھیر ٹھیر کر پڑھنی چاہییں۔ پورے قرآن کو ایک دن میں بغیر سمجھے ختم کر دینے کے مقابلے میں ایک رکوع سمجھ کر اور عمل کرنے کی نیت سے پڑھنا زیادہ فائدہ مند ہے۔ جن آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مغفرت کی اور جنّت کی بشارت دی ہے، اُن کو تلاوت کرتے ہوئے زبان سے یا دل ہی دل میں اللہ سے دُعا مانگنی اور تمنا کرنی چاہیے کہ اس بشارت کی سعادت ہمیں بھی میسر آجائے۔ جن آیتوں میں عذابِ آخرت سے ڈرایا گیا ہے اور عذابِ جہنم کا ذکر آیا ہے، اُن کو پڑھتے وقت، خوف و اندیشہ کی کیفیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے۔ دل میں تڑپ، گداز، خلوص، لگن، سوز و درد اور خشیت الٰہی ہو تو قرآن کی تلاوت کے دوران آنکھیں ضرور اَشک بار ہوجاتی ہیں ؎
سرا بے کہ رخشد بہ ویرانہ خوشتر
ز چشمے کہ پیرایۂ نم نہ دارد
اللہ تعالیٰ نے جن آیتوں میں اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے، اُن کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ رات کو سوتے وقت اپنی زندگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ قرآن کریم نے اخلاق و نیکوکاری کا جو معیار پیش کیا ہے، اُس معیار سے اپنی زندگی کس کس جز اور مرحلہ میں مطابقت نہیں کرتی۔ اس جائزے اور احتساب کے بعد اس کی پوری پوری جدوجہد کرنی چاہیے کہ ہماری زندگی میں قرآنی اخلاق زیادہ سے زیادہ جھلکنے لگیں۔ یہاں تک کہ یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ ’مومن قاری نظر آتاہے، حقیقت میں ہے قرآن ‘کا مصداق بن جائیں۔