یہ بات سچ ہے کہ کبھی قوم تو درست راہ پر ہوتی ہے مگر کمزوری قیادت کے اندر ہوتی ہے۔ یہی حال مملکت ِ خداداد کے مسلمانوں کا ہے۔ مگر اس کے ساتھ حادثہ یہ ہوا ہے کہ اُسے ایک ایسے چھوٹے سے گروہ کا سامنا ہے جس نے برطانوی عہد ِ حکومت میں لیڈرشپ پر قبضہ جما لیا تھا۔ ان لوگوں نے اپنے انگریز اساتذہ سے سند ِ قیادت حاصل کررکھی تھی، انھی کے عادات و خصائل کے طرز پر پرورش پائی تھی اور دینِ اسلام کسی معاملے میں ان کے نزدیک اہم نہ تھا۔ ان لوگوں کی بڑی دلچسپی لہوولعب، ناچ گانے اور فحاشی و عریانی کے پروگراموں میں شرکت تھی۔ اسلامی اخلاقیات سے بے زاری پھیلانا، انگریزی طرزِ معاشرت اور بداخلاقیوں کو عام کرنا اُن کا مطمح نظر تھا۔یہ کلچر انھیں ایسی فضا مہیا کرتا ہے جس میں وہ جو چاہیں کریں اور کوئی انھیں اُن کی غلط کاریوں پر روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ جب مارچ ۱۹۴۹ء میں تاریخی ’قرارداد مقاصد‘ منظور ہوگئی تو اہل وطن نے بجا طور پر یہ اُمید باندھی کہ اب ان کے حالات تبدیل ہوں گے۔ قوم اپنے انفرادی و عائلی حالات کی اصلاح کا آغاز کرے گی تاکہ ان کی عملی زندگی اس قرارداد کے مطابق ڈھل سکے کیونکہ یہ قرارداد اُن پر لازم کرتی ہے کہ وہ اصولِ حکومت و سلطنت کتاب و سنت کے چشمۂ صافی سے اخذ کریں اور اپنے معاملاتِ حکمرانی کو شریعت اسلامیہ کے مطابق چلائیں۔
اہل وطن نے حکمرانوں سے یہ اُمید باندھی تھی کہ وہ اُسی راستے اور طریقے پر چلنا شروع کر دیں جو انھوں نے قوم و ملک کے لیے اختیار اور پسند کیا ہے۔ اسی طرح ہم نے بھی یہ اُمید رکھی کہ وہ نئے دستور کی تدوین کے لیے لازمی ابتدائی اُمور کی تیاری اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کا آغاز کریں۔ کم سے کم جو مطالبہ ان لوگوں سے کیا گیا وہ یہ تھاکہ کوئی نیا قانون ایسا نہ بنایا جائے جو شریعت اسلامیہ سے متصادم اور خلاف ہو۔ اگرچہ اہل وطن نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ حکومت اُن فاسد اور بے کار قوانین کو ختم کرنے میں تاخیر سے کام نہ لے جو ملک کو برطانوی عہد سے وراثت میں ملے ہیں۔ مگر حکومت نے کوئی معمولی قدم بھی ایسا نہ اُٹھایا، جس سے یہ پتا چلتا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہے اور وہ قوم کے ساتھ مذاق نہیں کر رہی ہے۔
اس کے برعکس واقعات بتا رہے تھے کہ یہ لوگ اپنی باتوں میں سچّے نہیں ہیں بلکہ وہ مطالبہ نفاذِ اسلام کی قومی تحریک کے زور کو توڑنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے قراردادِ مقاصد جاری کر کے اور مجلس قانون ساز کی طرف سے قواعد ِ شریعت کے مطابق نئے دستور کی تیاری کے عزم کا اعلان کرکے وقت کو ٹال دیا تھا۔ جب بھی انھیں یاد دلایا گیا کہ یہ تاریخی قرارداد اس ضمن میں کس طرح کی سنجیدہ، عملی اور فیصلہ کن پلاننگ کا مطالبہ کرتی ہے تو وہ سُنی اَن سنی کردیتے۔
ہر تقریب اور جلسے اور بین الاقوامی کانفرنس اور پروگرام میں تو بآواز بلند اس بات کا اظہار کرنے لگے کہ ہم تو مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ہمارا یہ عزم ہے کہ ہم اپنی اس مملکت کو شریعت کے اصولوں اور اسلام کے دائمی قوانین کی بنیاد پر استوار کریں گے۔ حکومت کا سب سے بڑا ذمہ دار بھی یہی بات کہتا تھا اور معمولی منصب رکھنے والا وزیر بھی اسی کا اظہار کرتا تھا۔ عالمی سطح پر منعقد ہونے والی ہرمعاشی کانفرنس اور ہر سوسائٹی میں بھی یہ لوگ اسلام کا نام لیتے تھے لیکن عملاً اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی مصنوعات کی نمائشوں تک کو بے حیائی کی تقریبات بنادیتے۔
وہ اس حد تک اخلاق باختہ ہوچکے تھے کہ تھیٹر اور سینما اور کلبوں کا افتتاح قرآنِ مجید کی تلاوت سے کرنے لگے۔گویا انھیں اپنی سرکشی و نافرمانی پر ابھی تسلی نہیں ہوئی تھی کہ مزید اس عمل کے ذریعے اللہ کی ناراضی کو دعوت دینے لگتے۔ اب بس اسی بات کی کسر رہ گئی تھی کہ وہ شراب خانوں کا افتتاح بھی قرآنِ مجید کی اس آیت سے کرتے:
اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۹۰(المائدہ ۵:۹۰) یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی۔
یہ تو اُن کی بے شمار منکرات اور قول و فعل کے تضاد کی معمولی سی جھلک ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسی قومیں اور قبیلے گزر چکے ہیں جو زبانی اظہار تو اسلام کا کرتے تھے لیکن عملاً بُرائیوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ وہ گناہوں اور معصیت کاریوں کے ارتکاب میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ مگر ان میں سے کسی نے اپنے فسق و فجور اور نافرمانی و سرکشی کو اللہ کی پیروی کا نام نہیں دیا تھا۔ آج بھی ہمارے اسلامی ممالک ایسے افراد، جماعتوں اور حکومتوں سے خالی نہیں ہیں جو صرف نام کے مسلمان ہیں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں شریعت کے احکام کی پیروی اور اُس نظام و قانون پر عمل پیرا نہیں ہوتے جو اسلام نے دیے ہیں، مگر ہمارے کانوں نے آج تک یہ نہیں سنا کہ اُن میں سے کسی نے یہ جرأت کی ہو کہ وہ حکومتی ایوانوں میں اسلام کا بھی اعلان کرے۔ دین حق کو مضبوطی سے تھامنے کی بات بھی کرے، ملک کے نظامِ حکومت کو قواعد ِ شریعت کے مطابق قائم کرنے کا اظہار بھی کرے، اور پھر اپنی گھریلو اور نجی زندگی میں اور حکومت و عدالت کی مسندوں پر بیٹھ کر اسلام کی مخالفت بھی کرے اور اس کی بنیادوں کو ایک ایک کرکے گرانے کی کوشش بھی کرے۔ ایسا کبھی نہیں سنا تھا، نہ ماضی میں نہ موجودہ زمانے میں۔ اس بدترین جرم کا ارتکاب مسلمانوں کے اسی خطۂ زمین کے حکمران کرسکتے ہیں۔ یہ ایسا جرم ہے جو اللہ کے غضب اور اُس کے عذاب کو جلد سے جلد آنے کی دعوت دیتا ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اُوپر رحم فرمائے، اپنی خاص مہربانی اور فضل فرمائے اور بُرائی کرنے والوں کے مواخذے کی لپیٹ سے ہمیں بچائے۔
اس صورتِ حال کی وجہ سے اہل وطن اور دعوتِ اسلامی اور اقامت دین کے لیے کوشاں تحریک کے لوگ بھی سرزمین پاکستان کی حکومت پر قابض لیڈروں سے مایوس اور نااُمید ہوتے گئے۔ اُمید کی کوئی کرن باقی نہ رہی کہ یہ لوگ اپنے وعدوں کو کبھی پورا کریں گے اور انھی خطوط پر چلیں گے جو اسلام نے اپنے پیروکاروں کے لیے طے کیے ہیں؟ جب پوری قوم ان لوگوں سے مایوس ہوگئی تو جماعت اسلامی نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی، اور قوم کی اُمنگوں کی ترجمانی کے لیے ایک اور تحریک شروع کر دی۔ یہ قیادت میں تغیر اور اُمورِ مملکت چلانے والے ہاتھوں کی تبدیلی کی تحریک تھی۔ جو ہاتھ آج بھی اقامت ِ دین اور اسلامی قانون کے نفاذ کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں،پہلے بھی یہی لوگ اس راہ میں رکاوٹ رہے اور اُس وقت سے مسلسل یہی لوگ اس کام اور مطلوب اصلاح کے راستے پر آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا قوم کے پاس تبدیلی ٔ قیادت کا مطالبہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ یہ قیادت اور مناصب پر مسلط اور قابض لوگوں کو ہٹا کران کی جگہ ایسے دیانت دار لوگوں کو لانے کا مطالبہ تھا جو واقعتاً اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوں، شریعت کا اتباع اور احکام کی فرماں برداری کرنے والے ہوں۔ ربّ کی نافرمانی جن کا وتیرہ نہ ہو، وہ اللہ کے نظامِ جزا و سزا پر کامل یقین رکھتے ہوں۔ جو اُمورِ حکومت کی ادائیگی اور کارِ سرکار کی انجام دہی کو بھی ایسی ایمانی حرارت اور ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں۔
مگر مناصب ِ حکومت پر براجمان اور اختیارات کی کنجیوں پر قابض کہاں اس مطالبے کو صبروتحمل اور خوش دلی سے قبول کرنے کے روادار ہوسکتے تھے۔ یہ انسانی کمزوری ہے کہ نفوسِ انسانی کی سرشت و طبیعت ہی میں اپنی ذات کی محبت، ترجیح، فوقیت اور انانیت موجود ہے۔ خاص طور پر اس قسم کے لوگوں سے کیسے توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اس مطالبے کو کشادہ دلی اور خندہ روئی کے ساتھ قبول کرلیں گے جنھوں نے خالص مادیت کے تحت پرورش پائی اور خواہشات و مرغوباتِ نفس ہی کو دل و دماغ میں بٹھائے پروان چڑھے ہوں۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ لوگ بغیر کسی کش مکش اور مزاحمت کے مناصب ِ حکومت سے الگ ہوجائیں گے۔
لہٰذا، یہاں سے ایک بھرپور اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے والی تحریک شروع ہوئی جو واقعی تسلسل کے ساتھ قائم رہی اور مناصب ِ حکومت پر براجمان لوگوں کو اپنے مطالبے کا احساس دلاتی رہی۔ اس تحریک نے مطالبہ کیا کہ حکومت نئی مجلس قانون ساز کے لیے قوم کی رائے اور ووٹنگ سے انتخاب کرائے، اور پھر یہ مجلس یا اسمبلی نئے دستور کی تشکیل کی ذمہ داری سرانجام دے۔ کیونکہ یہ مجلس تاسیسی اپنی سُست روی اور درست راستے سے ہٹ جانے کی وجہ سے ثابت کرچکی ہے کہ اس کے ارکان اس نہایت اہم کام کی انجام دہی کے اہل نہیں۔ وہ اپنے معاملات تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے اندر دیانت، رائے کی پختگی اور سچ کی جستجو جیسی صفات موجود نہیں ہیں جو انھیں اس قرارداد مقاصد پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی صلاحیت عطا کرسکیں ۔وہ قرارداد جو دستور کی تشکیل اور اس کی دفعات کی تدوین و تشریح کے لیے بطور راہنما جاری کی گئی تھی۔
اسی طرح مجلس قانون ساز کی بعض کمیٹیوں کی رپورٹوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا اور دستور کے بعض پہلوئوں کے بارے میں اجمالی اور تفصیلی سفارشات (Recommondations) میں بھی یہی چیز موجود تھی کہ یہ لوگ امریکا و برطانیہ کے دستاتیر پر چل رہے ہیں اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکا و برطانیہ کے دساتیر اور اسلام کے عادلانہ و حکیمانہ جامع اصولوں کے مابین زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ارکان و اعیان حکومت کی کارگزاریوں سے یہ بھی واضح ہوچکا تھا کہ یہ لوگ ایسی آمریت کی بنیاد رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں جس میں یہ خود تمام قانونی اور غیرقانونی اختیارات پر قابض ہوسکیں۔ اور یہ ارادے بھی دکھائی دے رہے تھے کہ یہ حکومت کے کسی منصب اور اختیار سے کسی بھی حالت میں دستبردار نہیں ہوں گے۔ تبدیلی ٔ قیادت کی اس تحریک کو سال ڈیڑھ ہوچکا تھا۔ قوم اس دوران امیرجماعت اسلامی پاکستان سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی تھی، جنھوں نے اسلام کی دعوت کا علَم بلند کیا تھا اور مطالبہ نفاذِ اسلام کی اس قومی تحریک کو شروع کیا تھا۔
قوم ہر جلسے جلوس میں یہ دونوں مطالبات مسلسل دُہراتی رہی۔ بالآخر حکومت شعبان ۱۳۶۹ھ/ مئی ۱۹۵۰ء کے آخر میں مولانا مودودیؒ اور اُن کے ساتھیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ مولانا مودودیؒ کی رہائی سے تبدیلی ٔ قیادت کی تحریک کو طاقت ملی اور انھوں نے پوری استقامت اور غیرمعمولی تسلسل کے ساتھ اپنا کام جاری رکھا۔ پھر مجلس دستور ساز کی بعض کمیٹیوں کی سفارشات کا پلندہ آگیا۔ اس پلندے نے اس شک کی گنجائش ہی نہ رہنے دی کہ موجودہ مجلس دستورساز اس عظیم ذمہ داری کی اہل نہیں اور ارکانِ مجلس کو اسلام کے معاملے سے ذرا بھی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تو امریکا و برطانیہ کے دساتیر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ انھی کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں، انھی کے خطوطِ کار کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ تبدیلی ٔ قیادت اور موجودہ مجلس دستورساز کی تحلیل اور نئی مجلس دستور ساز کے انتخاب کا مطالبہ کرے۔
اِدھر یہ تحریک زوروں پر تھی اور اُدھر حکومت اپنی طاقت کے نشے میں مست تھی۔ جماعت اسلامی اس عام قومی تحریک کی تنظیم میں پوری تندہی سے مصروف تھی تاکہ حکومت کو اس مطالبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرسکے اور قوم نئے دستور کی تدوین کے لیے اہل نمائندوں کا انتخاب کرسکے۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ انگریز کے چھوڑے ہوئے ان قائدین کے گروۂ قلیل کی کارستانیوں کا شکار اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس دُنیا میں اپنی معمولی نفسانی خواہشات اور پست شہوات کی تکمیل کے علاوہ کوئی غم و پریشانی ہی نہیں ہے۔
اسلام کی دعوت ، فریضہ اقامت ِ دین کی انجام دہی اور شہادتِ حق کے جواب میں یہ ملک کو درپیش حالات کا تذکرہ ہے۔ اس میں جس بات پر ہم دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں وہ جماعت اسلامی کی تشکیل ہے، جو اللہ و رسولؐ کی طرف بلاتی ہے جس کا نصب العین شہادتِ حق کی ادائیگی، کامل دین کے نفاذ اور اَزسرنو اسلامی شریعت کی بنیادوں پر نظامِ زندگی کو استوار کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلے سے اچھی طرح تیاری کی گئی۔ اوّل روز سے ہی اپنے ارکان کی پاکیزہ اسلامی، اخلاقی اور اعلیٰ انسانی آداب کے مطابق تربیت پر خاص توجہ دی گئی تاکہ وہ دعوتِ حق کے میدانِ جہدوسعی میں نہ صرف گفتار کی حد تک نمونہ ہوں بلکہ عمل و کردار میں بھی ایک جاندار نمونہ پیش کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی جماعت عملی جدوجہد کے میدان میں داخل ہوئی تو اُس کے ارکان کو تکالیف سے دوچار کیے جانے کا عمل شروع ہوگیا اور پھر وہ مسلسل ظلم کا نشانہ بنتے رہے۔ وہ طرح طرح کے آلام و مصائب میں مبتلا کیے گئے۔ انھیں ان کے موقف سے دستبردار کرنے اور اس راہ سے ہٹانے کے لیے ہرطرح کے خطرات اور مظالم سے دوچار کیا گیا، مگر وہ اللہ کی توفیق اور مدد سے اپنے عملی پروگرام اور لائحہ عمل سے ذرہ بھر پیچھے ہٹے نہ اُس سے دستبرار ہوئے۔
اسی طرح یہ ارکانِ جماعت ان نہایت مشکل حالات میں اپنی اساسی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کرنے اور اُسے عوام کے لیے مقبول بنانے کی مساعی سے غافل نہ ہوئے۔ وہ لوگوں کو اس دعوت کے سایۂ رحمت میں پناہ لینے اور اس کے محفوظ حصار میں داخل ہونے پر مسلسل متوجہ کرتے رہے۔ آج وہ ایک ساتھ دو اُمور کو انجام دینے والے اوردُہری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے والے ہیں: اوّل،حکومت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ یا حکومتی مناصب چھوڑ دینے کا راستہ، دوم: قوم کی اخلاقی تربیت اور دینی محاسن کی نشرواشاعت اور اسلام کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات اور مکارمِ اخلاق کو پھیلانے کا کام۔ بلاشبہ کش مکش کٹھن ہے، مگر جدوجہد جاری ہے، حالات بدل رہے ہیں، نفس باغی ہیں اور طبیعتیں شر اور بُرائی کی طرف مائل ہیں۔ ہماری دُعاہے کہ اللہ ہماری سعی و جہد کو اپنے لیے خالص کرلے۔ ہم اس کے سوا کسی پر توکّل نہیں کرتے۔ اس کے سوا کسی سے مدد اور توفیق نہیں مانگتے ، وہی توفیق عطا کرنے والا اور وہی قریب سے سن کر ہماری دُعائوں کوقبول کرنے والا ہے۔
جہاں تک مستقبل کی بات ہے تو یہ ان سطور کو تحریر کرنے والے کی طرح کسی کے لیے بھی ممکن اور آسان نہیں کہ اس کے بارے میں یقینی اور حتمی طور پر کسی چیز سے آگاہ ہو۔ البتہ ہم یہ یقین اور اعتقاد ضرور رکھتے ہیں کہ اسلام ہی عالم گیر جامع دین ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط ہے اور تمام انسانیت کی ضروریات کو پورا کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں اور نہ کوئی امر اس کے دائرئہ نفوذ سے متصادم ہے۔ یہ دُنیا کو لاحق امراض اور اس کے زخموں کی نہایت کارگر دوا اور شفابخش مرہم ہے۔ اگر ہم نے آج قولی اور عملی طور پر شہادتِ حق کو ادا نہ کیا، اور دین اسلام کے کامل ہونے اور اجتماعی و سیاسی اور اقتصادی امراضِ عالم کی شفابخش دوا ہونے کی دلیل کو لوگوں کے سامنے ثابت نہ کیا تو قیامت کے روز اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں، یہ ہمارا عقیدہ ہے اور ہمارا دین ہے۔ اسلام کی اہمیت اور اس کے دائمی پیغام پر یہ پختہ یقین، یہ ایمان اور عقیدہ ہی وہ محرک اور داعیہ ہے جو ہمیں عمل پر اُبھارتا، جہاد کے لیے اُٹھاتا اور عالم اسلام کے اس قطعۂ ارض پر شریعت اسلامیہ کی تنفیذ اور اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے سرگرمِ عمل رکھتا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ہم شہادتِ حق کے فریضے کی ادائیگی سے پوری طرح سبکدوش ہوسکیں اور اللہ و رسولؐ کے حضور بری الذمہ ہوسکیں۔
ہم عین اس صورتِ حال میں یہ بھی جانتے اور یقینی طور پر علم رکھتے ہیں کہ داعیانِ حق اور حکومتی مناصب پر قابض گروہ کے درمیان اس کش مکش کا یہ مزاج اور طبیعت ہی نہیں کہ وہ مسلمانوں کے صرف اسی قطعۂ زمین تک ہی محدود رہے گی بلکہ ہمارا یہ گمان ہے کہ حق و باطل کے درمیان شروع ہونے والی یہ کش مکش عالمِ اسلام کے مختلف اَطراف میں پھیلے گی اور دُور تک اس کے اثرات پہنچیں گے۔ اس لیے کہ مسلسل اور پے درپے حادثات، قومی تحریکوں کے بدترین نتائج ، وطنی و نسلی نعروں کے تباہ کن عواقب اور روس و امریکا سے اُمڈتے ہوئے الحاد و عصیان کے سیلاب نے ہرمسلمان اور معاشرتی اور قومی اصلاح کی جدوجہد میں مصروف شخصیات کو چونکا دیا ہے۔ ان حالات نے ان تباہ کن یلغاروں کے شدید خطرات اور ان باطل دعوئوں کے بڑے بڑے نقصانات کے بارے میں خبردار کردیا ہے۔
ایک طرف یہ حالات ہیں اور دوسری طرف ہم مغرب کے پیروکاروں ، مقلدوں اور ’وفادار‘ شاگردوں کومسلمانوں کے ہر ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کے مقابلے میں باطل مغربی نظریات کو حق ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ روحِ اسلام کے خلاف اور برعکس مغربی افکار و نظریات اور سیاسی و اقتصادی طور طریقوں کو شدت سے اختیار کرتے ہیں جو طریقے اور نظریات نہ صرف تعلیماتِ شریعت اسلامیہ سے ٹکراتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے بچے کھچے اُن پاکیزہ اخلاق و عادات کا بھی خاتمہ کردیتے ہیں جو انھیں اپنے نیک وصالح آبا و اجداد سے وراثت میں ملے تھے۔
یہیں سے حق و باطل کے درمیان کش مکش شروع ہوجاتی ہے اُن لوگوں کے درمیان جو فرزندانِ اسلام کو دینِ اسلام کے دائرے میں واپس لانا چاہتے، نظامِ حکومت و سلطنت کو اسلام کے محکم اصولوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں، اور اُن کے درمیان جو انگریز کی تقلید، اُن کے طاغوتوں کی پیروی اور گمراہی و سرکشی میں انھی کے نقش قدم پر چلنا اور باقی رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان باطل پسندوں میں سے اگر کچھ لوگ اپنے اندر دین داری، اسلامی اُصولوں اور تعلیمات پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو اس کو عقائد و عبادات اور اجتماعی زندگی کے اُن چند مسائل تک محدود رکھتے ہیں جنھیں ’شخصی احوال کے قوانین‘ کا نام دیا جاتا ہے۔نظمِ حکومت، نظامِ معیشت، سیاست کے حالات اور امن و جنگ میں تو ان کے نزدیک اسلام کے دائمی قوانین اس ’عصرنو‘ اور ’جدید تہذیب‘ میں موزوں نہیں ہیں:
كَبُرَتْ كَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ۰ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا۵ (الکہف ۱۸: ۵) یہ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔
حق و باطل کے درمیان، داعیانِ حق اور مغرب کے اہل کاروں کے درمیان، اسلام کے دائمی پیغام پر یقین رکھنے والوں اور مغرب کے طاغوتوں کا کلمہ پڑھنے والوں کے درمیان کش مکش، مزاحمت، تنازع اور تصادم ایک واقعی حقیقت ہے۔یہ ہر صورت میں ہوتا رہے گا۔ یہ دراصل دو قوتوں کے مابین کش مکش ہے۔ فرزندانِ اسلام کو اس کش مکش اور مقابلے سے قطعاً گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ دراصل دو اُصولوں اور قاعدوں کے درمیان نزاع ہے۔ دو متضاد اور مخالف راستوں کے درمیان کش مکش ہے، اس سے فرار ممکن نہیں۔ لہٰذا کسی کو اس سے خوفزدہ ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک طبعی صورتِ حال ہے جس سے گزرنا ہمارے لیے اُس وقت تو اور زیادہ لازمی ہوجاتا ہے جب ہم زمین پر اسلامی نظام قائم کرنا اور شریعت ِ الٰہیہ کو نافذ کرنا چاہیں گے۔
جیساکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے ہمارے ملک میں دعوتِ اسلام کا مستقبل اور اس جدوجہد اور نزاع کا مستقبل حتمی اور متعین طور پر بیان کرنا آسان نہیں۔ اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جن داعیانِ حق نے اس معاملے پر اللہ سے عہد باندھا ہے وہ اپنے لائحۂ عمل کی تکمیل میں پُرعزم ہیں، اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں پوری جان لڑا رہے ہیں۔ وہ دو نتائج میں سے کسی ایک کے حصول میں ہرصورت کامیاب ہوں گے، یعنی: یا تو اللہ تعالیٰ انھیں اس مقصد میں کامیابی عطا کرکے سرفراز فرمائے گا، اور وہ سعادت دارین سے بہرہ اندوز ہوں گے، یا پھر اس جدوجہد میں اپنی زندگی لگا کر بالآخر مخلوقِ خدا پر حجت تمام کردیں گے اور اللہ و رسولؐ کے حضور سرخرو ٹھیریں گے۔ اللہ تعالیٰ انھی لوگوں کا ولی و مددگار ہوتاہے جواس کی راہ میں جدوجہد کرتے اور اس کے دین کے مددگار ہوتے ہیں اور اللہ اُس شخص کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اللہ کی مدد میں مصروف ہے اور اللہ ہی قوت و طاقت اور حکومت و اختیار کا اصل مالک ہے!
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ وَعَلٰی رَسُوْلِہٖ أَلفُ تَحِیَّۃ وَسَلَام!
۱۵ ربیع الآخر ۱۳۷۰ھ/ ۲۲جنوری ۱۹۵۱ء