نام نہاد جدید تہذیب، بدترین بے عملی کا مظہر اقوام متحدہ اور شرمناک غلامی کی منہ بولتی تصویر ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کے سامنے غزہ دم توڑ رہا ہے، مگر جدید تہذیب اور ان اداروں کی طرف سے چند قراردادیں اور منافقت پر مبنی تقریروں کے سوا کچھ سامنے نہ آسکا۔ امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل قتل عام اور نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔ استاد وصفی عاشور ابوزید قرآن و سنت کی روشنی میں اس صورتِ حال کے تناظر میں لکھتے ہیں:
زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں کہ جن سے گزرتے ہوئے انسان محسوس کرتا ہے کہ زمین اس کے قدموں کے نیچے سے نکل گئی ہو۔ ایسی صورتِ حال میں انسان آرزو کرتا ہے کہ کاش! زمین اس کو نگل لیتی، یا اس کی ماں نے اس کو جنم ہی نہ دیا ہوتا۔ قرآن مجید حضرت مریم ؑ پر طاری ہونے والی ایسی ہی کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے:
يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَكُنْتُ نَسْـيًا مَّنْسِـيًّا۲۳ (مریم ۱۹:۲۳) کاش! میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا۔
اس حالت میں زبان پر جاری الفاظ میں کوئی ترتیب ہوتی ہے نہ ذہن میں معانی و مفاہیم کا احساس باقی رہتا ہے۔ سینہ تنگ اور زبان گنگ ہوجاتی ہے۔قرآنِ مجید نے اس حالت کو ایک جامع لفظ’زلزلہ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ زلزلہ محض زمین کی تھرتھراہٹ اور ہلچل کا نام نہیں بلکہ یہ پورے وجدان و شعور کی اُس سنسناہٹ کا نام بھی ہے، جو ابتلا و تعذیب کی شدت سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۰ۭ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۲۱۴ (البقرہ ۲:۲۱۴) پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنّت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، وہ ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اُس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت اُنھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں، اللہ کی مدد قریب ہے۔
یہ آیت دو افق ہمارے سامنے لاتی ہے:
۱- حقیقت:یہ حقیقت کہ ’ایمان‘ ایک آسمانی عطیہ ہے مگر اس کی جانچ اور پرکھ زمین پر ہوتی ہے۔ یہ ’لفظ‘ بہت بڑی قیمت ادا کر کے اور بہترین قربانیاں پیش کر کے اپنی تکمیل کوپہنچتا ہے۔
۲- عزیمت: عزیمت کا یہ درس کہ ابتلا و آزمائش اور تعذیب و تشدد کسی شخص یا فرد کی انفرادی حالت نہیں ہوتی جو صرف اسی کے ساتھ مخصوص ہو بلکہ یہ ہراُس فرد کی قسمت اور تقدیر ہے جو بھی اس راہِ نبوت پر گامزن ہوگا۔ یہ ’زلزلہ‘ امتحان کی چوٹی ہے۔ وہ دروازہ ہے جس پر فتح و نصرت کے دروازے کھلنے سے پہلے دستک دینا پڑتی ہے۔ کوئی فتح اور کوئی نصرت اس تجربے کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
اس آیت میں کوئی سختی نہیں ہے، بلکہ اللہ کی رحمت ہے اور اس کی طرف سے خبردار کیا گیا ہے جو مومن کو اپنی کمزوری و عاجزی کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اُسے یہ معلوم رہے کہ اللہ کے سوا اُس کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے اور مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ؟ ’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘یہ سوال بیزاری و اُکتاہٹ سے تنگ آچکے دل سے نہیں بلکہ تعذیب کی شدت سے پھٹ جانے کے قریب دل سے نکلنے والا سوال ہے۔ ایسا دل اپنے سوال کو اُس ذاتِ باری کے حضور میں دُعا بنالیتا ہے، زمین و آسمان کی کنجیاں جس کے دست ِ قدرت میں ہیں اور وہی ذات ہے جو کسی کام کے ہوجانے کے لیے ’کُن‘ کہتا ہے تو وہ کام ہوجاتا ہے۔
زلزلہ، فرد کے ساتھ ساتھ معاشرے اور جماعت کے شعور کی بھی تربیت کرتا ہے کہ آپ نے کب تک صبر کرنا ہے؟ کن لوگوں کی صف میں کھڑے ہونا ہے؟ کتنی بڑی قیمت ادا کرنے کی تیاری کرنی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ قرآنی مفاہیم، فرد کی حد تک محدود نہیں ہوتے بلکہ تاریخ اور اُمت کے شعور تک ان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ ’زلزلہ‘ زبانوں پر جاری ہونے والا محض ایک لفظ نہیں، بلکہ ایک مدرسہ ہے، تربیت گاہ ہے، جو صبر کرنے والوں، شہادتِ حق کا اظہار کرنے والوں، اور استقامت و عزیمت کی راہ اختیار کرنے والوں کی ایک نسل کی تیاری ہے۔ اس تربیت گاہ میں صبر کی آزمائش ہوتی ہے، شہادت کی بنیاد استوار کی جاتی ہے، عزیمت کی بلندوبالادیواروں کی تعمیر کی جاتی ہے۔اسی لیے آیت کا اختتام اس وعدے پر ہوا ہے: اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ! یہ زمانی فاصلے سے قریب نصرت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ موقف کی سچائی اور راستے کی استقامت کے اعتبار سے نصرت کی بات ہے۔ اس معنی میں قریب ہے کہ مظلوم کی دُعا کبھی رَد نہیں ہوتی۔ اس مفہوم میں قریب ہے کہ باطل کی عمر بہت محدود ہے اور حق کو ایک لامحدود مدت حاصل ہے۔
زلزلے کے مفہوم کا یہ ادراک کوئی تفسیری خیال آرائی نہیں ہے بلکہ یہ اُس امتحان کا شعور اور احساس ہے جو نسلوںسے دُہراتا چلا آرہا ہے اور آیندہ بھی چلتا رہے گا۔ جو شخص اس مفہوم کو سمجھ لے گا وہ تھرتھراہٹ کی رفتار کا معائنہ کرتے رہنے پر بس نہیں کرے گا بلکہ وہ ملبے کے درمیان سے نکل کر راستے پر آکھڑا ہوگا اور اندھیروں میں روشنی کی شمع جلائے گا۔
غزہ صرف ایک شہر کا نام نہیں، بلکہ وہ خونیں آئینہ ہے جو انسان کے وجدان کو ہلا کر رکھ دینے والے الٰہی امتحان کا عکس پیش کر رہا ہے۔ غزہ میں جو کچھ پیش آیا ہے یہ قرآنی لفظ ’زلزلہ‘ کی ایک مکمل جھلک ہے۔جہاں لفظ و آتش کا ملاپ ہوتا ہے، جہاں معنی خون سے بغل گیر ہوتا ہے، اور جہاں تفسیر کی حقیقی صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ اہل غزہ قحط اور بھوک کی اُس آخری حد تک پہنچ گئے ہیں، جس کی جدید فلسطین، بلکہ انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسیف‘ کی غذائی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ غزہ کے ۹۰ فی صد باشندے اتنی سی غذا سے بھی محروم ہیں جو زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچّے ضروری غذا کی کمی کا بُری طرح شکار ہیں۔ بھوک یہاں شماریات کے گراف میں بیان نہیں ہوسکتی بلکہ اسے بھوک سے بلکتے بچّے کی اُس نحیف آواز کا نام دیا جاسکتا ہے جس کی ماں کے سینے میں بچّے کے لیے ایک گھونٹ دودھ بھی موجود نہیں ہے۔ اسے اُس باپ کی چیخ کہا جاسکتا ہے، جو اپنے بچّے کو روٹی کے ایک ٹکڑے کی کمی کے سبب موت کا شکار ہوتے دیکھتا ہے۔
پانی زندگی کی بنیاد و بقا کا مدار ہے، غزہ میں سونے سے بھی زیادہ مہنگا ہوگیا ہے۔ عالمی ادارئہ صحت بیان کرتا ہے کہ روزانہ ایک آدمی کو بمشکل ہی کچھ پانی میسر آتا ہے۔ یہ محض شماریاتی حد تک بیان کردہ کمی نہیں ہے بلکہ اُس ماں کی کیفیت کا حقیقی منظر ہے، جو پیاس سے لرزتے بچّے کا ہاتھ تھامے کھڑی ہو اور اسے ایک گھونٹ پانی نہ مل سکے، جو اس کے بچّے کی زندگی بچا سکے۔
جب بھوک اور پیاس جسم ہی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے تو پھر محاصرہ جسموں کا نہیں روحوں کا ہونے لگتا ہے۔ ۲۳ لاکھ انسان دُنیا کے تنگ ترین خطۂ زمین میں بستے ہیں۔ ایک طرف سے انھیں سمندر نے گھیر رکھا ہے اور دوسری طرف سے اسرائیلی دیوار نے، آسمان ہی رہ جاتا ہے وہاں سے بھی اُن کے اُوپر ڈرون اور بم برسائے جاتے ہیں۔ ہسپتال تباہ کر دیے گئے ہیں، مساجد منہدم کردی گئیں، یونی ورسٹیاں برباد کردی گئیں، اسکول بچوں کی تعلیم کے بجائے قبرستان بنادیے گئے۔ اقوام متحدہ نے توثیق کی ہے کہ ۵۰۰ سے زائد اسکول اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے، یا انھیں استعمال کے قابل ہی نہیں چھوڑا گیا۔
جبری بے دخلی اس سانحے کا ایک دوسرا سنگین پہلو ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی اُمور کے رابطہ دفتر نے یقینی طور پر بتایا ہے کہ ۱ء۷ ملین سے زائد انسان ان کےگھروں سے نکال دیے گئے۔ ایک بچّہ صبح اپنی ماں کے ساتھ نکلتا ہے تو پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے واپس نہیں آتا۔ بوڑھے ضعیف نے پچاس برس جس مسجد میں نماز ادا کی اُس کی آنکھوں کے سامنے اُسے شہید کر دیا جاتا ہے۔ یہ محض جسمانی انخلا اور بے دخلی نہیں ہے جو مکانوں اور گھروں سے کی جارہی ہے بلکہ اپنی یادداشت، شناخت اور مستقبل سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا جبری عمل ہے جو اہل غزہ پر مسلط کیا گیا ہے۔
اسی پر بس نہیں، اس کے بعد اس سے بھی بڑی آفت ٹوٹتی ہے۔ اجتماعی طور پر نیست و نابود کرنے کا وحشیانہ مظاہرہ ہوتا ہے۔ غزہ میں وزارتِ صحت نے ۷۰ ہزار سے زائد شہداء کی تعداد رپورٹ کی ہے، جن میں آدھی عورتیں اور بچّے ہیں۔ انٹرنیشنل جرنلٹس یونین نے اعلان کیا ہے کہ ایک سو سے زیادہ صحافی قتل کیے گئے ہیں، جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ عالمی قانون کی رُو سے محفوظ ہیں۔ غزہ، جنگ کا میدان نہیں رہا بلکہ مسلّمہ رپورٹوں کے مطابق اجتماعی نسل کشی کا تھیٹر بن گیا ہے۔
مگر اس تمام تر اسرائیلی ظلم وتعدی اور سفاکی و درندگی کے باوجود غزہ کا شہری پہاڑ جیسی استقامت سے کھڑا ہے۔ چھوٹا بچہ انگلی اُٹھاتاہے اور اس کے ہونٹوں پر ’اللہ اکبر‘ کی مدہم آواز اُبھرتی ہے۔ عورت ملبے کے ڈھیر میں سے پتھر اُٹھاتی ہے اور دُنیا سے کہتی ہے کہ ’ہم ہمت نہیں ہاریں گے‘۔ بوڑھا شخص شہید مسجد کے دروازے پر بیٹھا لرزتی آواز میں قرآنِ مجید پڑھتا ہے مگر ثابت قدم ہے۔ یہ لوگ زلزلۂ آزمائش کے آخری درجے پر پہنچ چکے ہیں مگر انھوں نے اپنے دلوں کی ’لرزش‘ کو اپنے موقف کی ’ثابت قدمی‘ میں بدل لینے کا راستہ اختیار کیا ہے۔
آج غزہ محض جغرافیہ نہیں ہے بلکہ مذکورہ آیت کی زندہ تفسیر ہے۔ ان کی بھوک ہماری سیرشکمی کا محاسبہ کرے گی، ان کی پیاس ہماری خاموشی کی مذمت کرے گی، ان کی جبری بے دخلی ہماری نرم روی کا پردہ چاک کردے گی، ان کی شہادتیں ہمیں تاریخ و ضمیر کے سوال کے سامنے لاکھڑا کریں گی کہ کب؟ تم کب اُٹھو گے؟ تم کب ظلم سے کہو گے: بہت ہوگیا، اب بس؟ تم کب یہ ثابت کرو گے کہ انسانیت ہمیشہ زندہ رہتی ہے؟
عین اس دوران جب غزہ میں بچوں کے چیتھڑے اُڑ رہے ہیں، گلیوں، بازاروں میں خون بہہ رہا ہے، دُنیا پر گہری خاموشی طاری ہے۔ کالے دھوئیں سے زیادہ گہری اور محاصرے کی شدت سے بھی زیادہ سخت خاموشی! اس دور میں صرف بموں کے دھماکے عظیم ترین زلزلہ نہیں ہیں بلکہ عالمی خاموشی کی وہ سنسناہٹ بھی زلزلہ ہے جس نے قاتلوں کو بھی دبا رکھا ہے اور مظلوم کو بھی بے یارومددگار بنادیا ہے۔
یورپ، جو یوکرین کے دفاع کے لیے چھلانگیں لگاتا ہوا آیا تھا، غزہ کے مسئلے پر اسے سانپ سونگھ گیا ہے اور وہ خاموش ہے،یا امن وسلامتی کے ذاتی دفاع کے دلائل دے رہا ہے۔ برلن، پیرس اور لندن میں فلسطین کی حمایت و تائید میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو روکا گیا، جب کہ اُدھر اسرائیل کی جنگی مشین بے گناہوں کے سروں کی فصل کاٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ یوں مغرب کے اُن دُہرے معیارات کی حقیقت کھل گئی ہے جس کو فلسطینی خون کے اندر وہ چیز نظر نہیں آتی جو دوسرے انسانی خون میں نظر آتی ہے۔
آج غزہ صرف اسرائیل کے راکٹوں میں محصور نہیں ہے بلکہ قریب والوں کی غداری، مسلم ممالک کی خاموشی اور متمدن دُنیا کی ریاکاری میں گھرا ہوا ہے۔یہ امتحانِ اکبر ہے: اُس اُمت کا امتحان، جس کو وحی الٰہی نے بہت پہلے اخوت کی طرف بلایا تھا، اور مغرب کا امتحان ہے جس کو حقوقِ انسانی میں عالم گیریت کا دعویٰ ہے۔ دونوں اس امتحان میں ناکام ہیں، مگر تاریخ حقیقت نگاری میں کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ تاریخ عنقریب لکھے گی کہ غزہ پر زلزلہ آیا تو اہل غزہ نے صبر کیا، جب کہ اس کے اردگرد کے انسانوں کے دلوں میں خون جم گیا اور وہ اخوت و نصرت کے امتحان میں کامیاب نہ ہوسکے۔
غزہ کی چیخ پکار اب مقامی صورتِ حال اور علاقائی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ پوری انسانیت کو جانچنے کی آواز اور پکار بن گئی ہے۔ یہ ملبے کے ڈھیروں تلے سے اُٹھتی اور کہتی ہے: عالمی ضمیر کہاں ہے؟ اخوت اسلامی کہاں ہے؟ عدل و انصاف کہاں ہے؟ اس کا جواب ٹھنڈے ٹھار ڈپلومیٹک بیانات نہیں ہیں بلکہ اس کا جواب ایسا اجتماعی رَدعمل ہے، جو ظلم و جَور کے پیمانوں کو بدل دے اور بغاوت و سرکشی کی غاصب قوت کو توڑ کر رکھ دے۔
۱- محفوظ انسانی گزرگاہوں کو کھلوایا جائے۔
۲- اسرائیلی جرائم کو ریکارڈ پر لاکر عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا جائے۔
۳- مشترکہ مالی اور امدادی بنک قائم کیے جائیں۔
۴- آزاد عالمی میڈیا کو بلا کر جنگی مجرم اسرائیل کے جرائم بے نقاب کیے جائیں۔
یہ اقدامات محض سیاسی کارروائیاں نہیں ہیں بلکہ یہ انسانی اور شرعی فریضہ بن گیا ہے۔ اس لیے جو بھی ظلم پر خاموش رہے گا وہ اس ظلم میں برابر کا شریک ہوگا، اور جس نے ایک لفظ کے ذریعے بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف مزاحمت کی آواز بلند کی گویا اس نے گواہی کی امانت ادا کردی۔
تاریخ ایک عظیم کتاب ہے۔ یہ نہ سرکشوں پر ترس کھاتی ہے نہ جابروں کو بخشتی ہے۔ یہ ان کے انجام کو پوری دیانت کے ساتھ ریکارڈ اور قوموں کے لیے بطورِ عبرت محفوظ کردیتی ہے۔ کتنی ہی تہذیبیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں، اور کتنی ہی شہنشاہتیں خاک میں مل گئیں۔آج اسرائیل بھی طاقت کے نشے میں بدمست ہوکر ظلم و جبر کے اسی راستے پر چل رہا ہے۔ اس نے ظالموں پر جاری ہونے والے قوانین الٰہی سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
آج غزہ پر جو بیتی ہے، یہ اکیلے اہل فلسطین کا امتحان نہیں ہے، یہ ساری انسانیت کا امتحان ہے۔ یہ ایک بہت بڑا آئینہ ہے جس میں ہرفرد کا چہرہ سامنے آجائے گا۔ ہر رہنما کا ضمیر بے نقاب ہوجائے گا۔ ہر قوم کی فطرت اور سرشت کا پول کھل جائے گا۔ وہاں غزہ کے کھنڈرات تلے سوال لکھا جاتا ہے اوریہاں ہمارے ضمیروں پر اس کا جواب تحریر ہوتا ہے کہ تم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوگے اور ان کی مدد کرو گے، یا ظالم کے کندھے سے کندھا ملائو گے اور خاموشی اختیار کرتے ہوئے اس کی تائید و حمایت کرو گے؟
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا۷۲ۙ (احزاب ۳۳:۷۲) ہم نے اِس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اُس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اُسے اُٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔
غزہ کے یتیم بچّوں کے آنسو ہم سے پوچھتے ہیں: تمھاری نصرت و مدد کہاں ہے؟ اپنے بچّے کو کھودینے والی ماں کی سسکی ہمارا پیچھا کرتی ہوئی کہتی ہے: کیا تمھارے اندر رحم دلی کی رمق باقی نہیں ہے؟ شہداء کا خون ہمارے نامۂ اعمال میں یہ سوال ثبت کر رہا ہے: تم کس جگہ کھڑے ہو، حق و صداقت کی حمایت میں یا ظلم و جَور کی تائید میں؟
ہرانسان خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم، مومن ہو یا غیرمومن، اس کی انسانیت کا امتحان ہورہا ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کرتا ہے، خواہ دُعا اور ان کی حمایت کا موقف اختیار کرنے کی صورت میں ہو، یا پھر وہ ضمیر کے امتحان میں فیل ہوجاتا ہے اور اسے غفلت کے شکار اور خاموشی کے مارے لوگوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ قیامت کے روز اس کا نام خسارہ پانے والوں میں پکارا جائے گا جنھوں نے دُنیا بھی گنوائی اور آخرت بھی برباد کی،اور یہی سب سے بڑا اور کھلا کھلا خسارہ ہے۔
انسانیت کو نعروں سے نہیں ناپا جاتا، بلکہ اُس مقدار سے ناپا جائے گا جتنی ہم مظلوم کی مدد کرتے ہیں اور ظالم کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور انسان ہونے کے ہردعویدار پر یہ فرض ہے کہ وہ غزہ کے امتحان میں اپنی صداقت کو ثابت کرے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پوچھے گا اور اُس روز کوئی تنہا نہیں آئے گا۔ پوچھا جائے گا: جب اہل غزہ ہلا مارے جارہے تھے (زُلزِلُوا) تو تم نے اس موقع پر کیا کردار ادا کیا؟ کیا تم نے مدد و نصرت کا حق ادا کیا یا عدم نصرت کا رویہ اپنایا؟ کیا تم نے خون ریزی اور قتل و غارت کو روکا یا صرف خاموشی اختیار کیے رکھی؟ یاد رکھیے وہاں کوئی عُذر کام نہیں آئے گا، اور یہ ساعت ِندامت آیا ہی چاہتی ہے۔
اپنا مقام منتخب کر لیجیے۔ اے انسان، اے رہنما، اے مسلم! اے دنیا بھر کے آزادی پسندو! تاریخ میں اپنے لیے ، اپنے نام کے اندراج کے لیے اپنا مقام منتخب کر لیجیے اور یہی اللہ کے حضور تمھارے مقام کا تعین ہوگا۔ گویا وہاں بھی تمھارا مقام تمھارے اپنے ہی ہاتھوں متعین ہوگا ۔ اس لیے یا تو آپ کا تذکرہ نُورانی حروف میں اُن شرفاء کے اندر ہوگا جنھوں نے مظلوم کی حمایت و نصرت کا فریضہ ادا کیا، یا پھر خفت و ذلت کے اُس خانے میں آپ کا اندراج ہوگا جو غداروں اور گونگے شیطانوں کے لیے مخصوص ہوگا۔
غزہ، چھوٹا سا محصور، محدود اور بدترین تباہی پر مشتمل زمینی قطعہ نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑا کینوس ہے جس نے ہم سب کے موقف و آراء کو اپنی حدود میں سمو رکھا ہے کہ کیا ہم ضمیر کے ساتھ زندہ ہیں، یا خاموشی کے ساتھ مُردہ جسم بن کے رہ گئے ہیں؟ کیا ہم اللہ کے کسی سوال سے قیامت کے روز جان چھڑا پائیں گے، یا ہم شرم و ندامت اور بہت بڑی رُسوائی کے ساتھ ناکام و نامراد لوگوں میں شامل کیے جائیں گے؟ (ادارہ)