اکتوبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

فاطمہ عبدالہادی کی داستانِ عزیمت

تسنیم الریدی | اکتوبر ۲۰۲۵ | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

مصر کے ، شہید محمد یوسف ھواشؒ امام حسن البنا ؒکے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے اور انھیں سیّدقطب شہید ؒکے ساتھ پھانسی دی گئی۔ یوسف ھواش ۱۹۲۳ء میں ڈیلٹا کے ضلع الغربیہ کے گائوں کفرالحمام میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں قرآنِ مجید حفظ کرلیا۔ طنطا کے ٹیکنیکل اسکول سے ڈپلومہ حاصل کیا۔ عملی زندگی کا آغاز پٹرولیم کوآپریٹو سوسائٹی میں پمپس کے نگران کے طور پر کیا۔ بعدازاں  شبراویشی کمپنی میں کام کیا۔ محمد یوسف ھواش۱۹۴۵ء میں ٹیکنیکل اسکول طنطا کی تعلیم کے دوران ہی اخوان کی دعوت سے روشناس ہوگئے کیونکہ طنطا اس وقت بہی الخولی کی وجہ سے اخوان کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔  

یوسف ھواش قاہرہ منتقل ہوئے تو اخوان کی تنظیم میں شامل ہوگئے اور خاص افراد میں شمار کیے جانے لگے۔ ان کی شادی فاطمہ عبدالہادی سے ہوئی جو شہید امام حسن البنا کا جنازہ اُٹھانے والی خواتین میں سے ایک ہیں۔ المنشیہ کے حادثے کے بعد یوسف ھواش کا نام بھی گرفتاری کے لیے شامل کرلیا گیا مگر وہ روپوش ہوگئے۔ بالآخر ۴؍اگست ۱۹۵۵ء کو گرفتار کرلیے گئے، جب کہ وہ گرفتار شدگان کے خاندانوں کے اُمور کی دیکھ بھال کے لیے نوجوانوں کو منظم کرچکے تھے۔ یوسف ھواش کو تنظیم کے لیےمالی وسائل فراہم کرنے کے جرم میں ۱۵ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران وہ بیمار پڑگئے اور انھوں نے بیماری کے ایام سیّد قطب کے ساتھ طرہ ہسپتال میں گزارے ۔ ۱۹۶۴ء کے آخر میں انھیں رہا کردیا گیا مگر ۱۹۶۵ء کی اخوانی قیادت میں ان کا نام بھی ڈال دیا گیا حالانکہ وہ قائد نہیں تھے۔ پھر بدترین تعذیب و تشدد کے بعد محمد دجوی کی سربراہی میں یوسف ھواش اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جس پر ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو عمل درآمد کردیا گیا۔ اس روز پھانسی پانے والے تینوں شہدا سیّد قطب، محمدیوسف ھواش اور عبدالفتاح اسماعیل نے اپنے قاتل سے معافی مانگنے سے انکار کیا مگر پھانسی کو قبول کرلیا۔ 

یوسف ھواش کی رُودادِ زندگی میں، یہ منظر بڑا واضح اور نمایاں نظر آتا ہے جب ان کی باہمت بیوہ ، محترمہ فاطمہ بنت عبدالہادی ا پنی ثابت قدمی کی ایمان افروز داستان سناتے ہوئے،ہمت اور استقامت کی ایک مضبوط چٹان اور صبر و استقامت کا پہاڑ نظر آتی ہیں۔ فاطمہ بنت محمد عبدالہادی نے ۱۹۶۶ء میں، صدر جمال عبد الناصر کے زمانے میں ،اپنے خاوند کی قید سے لے کر،سزائے موت تک کے حالات و واقعات اورحوادث کا تذکرہ، اپنی آنکھوں سے کوئی آ نسو بہائے بغیر،بڑی بہادری سے کیا۔  


 اس عظیم خاتون سے ہماری ملاقات ان کے ایک عام اور سادہ سے گھر میں ہوئی۔ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود انھوں نے ہمارا استقبال روشن چہرے کے ساتھ کیا۔ ان کانورانی چہرہ جھریوں کے باوجود ان کی عظمت، عزیمت اور بے نیازی کو ظاہر کر رہا تھا۔ اپنی گفتگو میں وہ ہمیں پچاس برسوں پر پھیلے اپنے ماضی کے ایسے دور میں لے گئیں جس میں خوش گوار یادوں کے پھول اور کلیاں بھی تھیں اورسخت آزمائشوں ،امتحانوں کے تلخ اور ناخوشگوار کانٹے بھی تھے ۔  

انھوں نے بتایا: ’’شہید محمد یوسف ھواش بڑے پُرعزم اور عالی ہمت شخص تھے۔اخوان المسلمون کے کارکن ہونے کے جرم میں ان پر قید و بند کی مصیبتیں آئیں اور ان پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑے گئے، آخرکار ان کو اور ان کے ایک ساتھی عبدالفتاح اسماعیل کو عالم اسلام کے عظیم رہنما سیدقطب کے ہمراہ سزائے موت دے دی گئی ۔ انھوں نےتختۂ دار کو چوما اوراپنی جان ، جاں آفریں کے سپرد کرتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوگئے‘‘۔  

شہید محمد یوسف ھواش کی بیوہ فاطمہ بنت محمدعبدالہادی ایک عظیم خاتون ہیں کہ جنھوں نے دعوتِ دین کے کام کو، صدر جمال عبدالناصر کی حکومت کے زمانے سے ہی، اپنے شہید خاوند کی سزائے موت کے بعد اپنے خاوند کےمشن کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔اپنے خاوند کی جدائی پر ، اپنی آنکھوں سے آنسو بہائے بغیر، اپنے سینے میں ایک دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ دعوت و تربیت کے عظیم کا م کو جاری رکھا۔ اس عظیم خاتون نے اپنے شہید خاوند کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ ، نہ صرف صدر ناصر کے ظالمانہ نظامِ حکومت کی وحشیانہ کارروائیوں کو بے نقاب کیا، بلکہ مصائب، آلام، تکلیفوں اور اذیتوں کے باوجود،بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھا اور بڑے بے مثال طریقے سے ان کی پرورش اور تربیت کی۔ ان سے کی گئی گفتگو پیش ہے:   

سوال:آپ کا تعارف، اپنے شہید خاوند کے ساتھ کیسے ہوا اور بد ترین حالات میں آپ دونوں کی زندگی کیسے گزری؟  

جواب میرا ایک بھائی، شیخ حسن البنا ؒکے ایک دینی درس میں شریک ہوتا تھا۔ یوسف ھواش ؒبھی ان کے ساتھ اس درس میں شریک ہوتے تھے۔میرا بھائی جب بھی یوسف ھواشؒ کو دیکھتا تو دل ہی دل میں کہتاکہ ’’اے فاطمہ! میری دلی تمنا ہے کہ تیری شادی اس جیسے نوجوان سے ہو۔ ادھر محمد یوسف ھواش ؒبھی، مرشدعام سیّدحسن البناؒ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ میری شادی کے لیے ایسی لڑکی تلاش کریں، جو میری مشکلات میں میرا سہارا بنے، تو امام حسن البنا ؒنے میری طرف اشارہ کر دیا۔پہلے تو میں نے انکار کردیا کیونکہ محمدیوسف ؒکی تعلیمی اہلیت صرف ایک ’ڈپلومہ‘ تھی، لیکن جب میرے بھائی نے مجھے یقین دلایا کہ یہ نوجوان میرا بہت خیال رکھے گا، تو میں نے اس رشتے کو قبول کرلیا۔ 

پھر ہماری شادی ۱۹۵۳ء میں اسی روز ہوئی جس دن انوارالسادات کی شادی ہوئی، جو بعد میں مصر کے صدر بنے۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہماری شادی کےبعد شروع کے دنوں میں بہت سی مشکلات اور پریشانیاں آئیں لیکن یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ میرے شہید خاوند نے مجھے مشکل اور سخت ترین حالات میں صبر کرنا سکھادیا تھا۔شادی سے پہلے منگنی کی تقریب میں یوسف کسی اخوانی بھائی سے باتیں کر رہے تھے توجذبات کی شدت سے ان پر غشی طاری ہوگئی اور ان کے منہ سے خون بہنے لگا۔ مجھے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ یوسف تو پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہے۔ پھر اس کو چھوڑ دینے کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالا جانے لگا یہاں تک کہ کچھ اخوانی بھائی بھی ہمارے گھر آئے اور میرے بھائی سے اس بارے میں بات کی۔ بھائی میرے پاس آیا اور اس نے اخوانی بھائیوں کا نقطۂ نظر میرے سامنے رکھا۔لیکن اب میں ،اپنا اور یوسف کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کرچکی تھی اور اسےاپنے شوہر کے طور پر منتخب کرچکی تھی ،اس لیے میں نے اپنے عزیزوں کو یہ فیصلہ سنا دیا کہ میرے لیے اب واپسی نا ممکن ہے۔ یہاں تک کہ اگر مجھے اپنی پوری زندگی اس کی خدمت کرنا اور نگہداشت کرنا پڑے تو میں کروں گی۔ 

 ہماری شادی کے بعدمیرے شہید خاوند نے مجھے اس مرض کا سبب یہ بتایا کہ ہماری قید کے دوران جیل خانہ کو پانی سے بھر دیا جاتا تھا اور اس میں ’اخوان‘قیدیوں کو رکھا جاتا تھا، جس کے نتیجے میں ان کے پھیپھڑوں میں یہ مرض پیدا ہو گیا۔ہماری شادی کے بعد جلد ہی میرے خاوند کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ہمیں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 

  • س : انوار السادات (بعد میں مصر کے صدر) ایک عمارت میں آپ کے ہمسایہ تھے، آپ کے خاوند کی گرفتاری کے وقت ان کا کیا رد عمل تھا؟ 
    • ج : ہم قاہرہ میں اسی عمارت کے ایک حصہ میں رہتے تھے، جس میں اس وقت انوار السادات رہتے تھے۔۱۹۵۴ء میں ایک بار جب انٹیلی جنس اداروں کےافراد میرے خاوند یوسف ھواش ؒکی گرفتاری کے لیے آئے تو یوسف گھر میں موجود نہ تھے، اور باہر کہیں سے واپسی پر جب وہ گھر کے قریب پہنچے تو مکان سے باہر موجود،انوارالسادات کے حفاظتی گارڈز میں سے کسی نے ان کو اشارہ کیا کہ وہ اپنے گھر سے دُور رہیں۔ میرے خاوند وہاں سے روپوش ہوگئےاور پھر کافی عرصہ تک وہ اسی حال میں رہے یہاں تک کہ اسی سال کے دوران ایک دن ، ان کو ایک مسجد سے گرفتار کر لیا گیا۔کچھ عرصہ بعد ، میں جب جیل کے قیدیوں کو کھانا پہنچانے کے لیے جا رہی تھی جو میں نے قیدی اخوان بھائیوں کے لیے بنایا تھا تو حکومتی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کاروں نے میرے گھر سے مجھے گرفتار کرنے کے لیے کارروائی کی۔میں نے اس موقع پر اسی عمارت میں موجود انوارالسادات کو مدد کے لیے بلایا۔ اس نے [۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کی کامیابی کے بعد] اپنے گھر کے باہر ایک اشتہار لگا رکھا تھا: ’’ارے بھائی! سر اٹھا کے چلو کہ ظلم و ستم کا دور گزر گیا ہے‘‘۔ مگر اَنوار نے اپنی گاڑی لی اوروہاں سے چلاگیا۔پھر انٹیلی جنس کے افراد نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور واپس چلے گئے اور کسی مخبر کو میرے گھر کی نگرانی کے لیے مقرر کر دیا تاکہ وہ ہر وقت میری سرگرمیوں پر نظر رکھے۔  

اس کے بعد جب میں ایک مرتبہ بہن نعیمہ الہضیبی ؒ سے ملنے ان کے گھر گئی تو میں نے ان کے ہاں تقریباً ایک مہینہ گزارا۔وہاں سے میں جب واپس آئی تو میرے آنے کے فوراً بعد حکومتی ایجنسیوں کے لوگ میرے گھر آ گئے۔ان کے ساتھ شراب کے نشے میں مد ہوش کچھ افراد بھی تھے جو میرے گھر کا دروازہ توڑنے میں مصروف ہو گئے۔یہ لوگ حملہ آوروں کی طرح میرے گھر میں داخل ہوئے۔ میری بیٹی سمیہ کی عمر اس وقت صرف دو سال تھی۔ وہ یہ صورت حال دیکھ کر ڈر گئی۔ ایک سرکاری افسر نے بڑی بے دردی کے ساتھ ،اس حال میں کہ میں حاملہ تھی ،مجھے بڑے زور سے دھکا دیا اور میں ایک دیوار سے جاٹکرائی۔پھر انھوں نے میرے گھر کی الماریوں کی تلاشی لینا شروع کردی۔  الماری میں کچھ اخوانی بھائیوں کی تصویریں تھیں، لیکن ان پر ان لوگوں کی نظر نہیں پڑی، اللہ نے ان کی نظروں پر پردہ ڈال دیا اور ان کو جیسے اندھا کر دیا۔ان کو ان تصویروں کا کچھ پتا نہ چلا۔ ان لوگوں نے اس موقع پر جو کچھ چاہا گھر سےچوری کر لیا۔ 

میرے شہید خاوند نے ۱۹۵۷ء میں معرکہ ’لیمان طرہ‘ میں اخوانی بھائیوں کے قتل عام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔یہ معرکہ اخوان کے جوانوں اور حکومتی ایجنسیوں کے اہل کاروں کے درمیان ہوا تھا۔ یہ خوں ریزی اور قتل و غارت گری کی ایک وحشت ناک کارروائی تھی۔اس واقعہ میں اخوان کے اکیس جوان شہید ہوئے اوراتنے ہی شدید زخمی ہوئے، اور معرکے کی ہولناک اور وحشت ناک کارروائی کی وجہ سے زخمیوں میں سے چھ افراد اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے تھے۔ شہید محمدیوسف ؒاس واقعے کی یادوں کو روزانہ ایک کاغذ پر لکھتے ،اور پھر اس کاغذ کو انتہائی خفیہ طریقے سے جیل سے باہر بھیج دیا جاتا۔بعد میں یہ یاد داشتیں شہید محمد یوسف کی ڈائری  کے عنوان سے شائع ہوئیں۔ 

  • س : اپنے شہید خاوند کی رو پوشی کے عرصہ میں آپ ان سے کیسے ملاقات کرتی تھیں؟  
    • ج : شہیدؒ کبھی کبھی ، مرمت وغیرہ کا کام کرنے والے ایک مزدور کے رُوپ میں چھپ چھپا کر گھر آ جاتے، ملاقات کے یہ لمحے بڑے مختصر ہوتے۔اس دوران وہ اپنے محبت بھرے الفاظ سے میرے دل میں امید کی ایک شمع روشن کرتے،اور جنّت کی طلب اور اس کے شوق کی یاد دہانی کراتے۔اور یہ بات کہتے کہ ہمارا یہ راستہ دعوت کا راستہ ہے، جس پہ چلنے کے لیے ہم آپس میں راضی ہیں۔اسی طرح میں اپنے کام پر جانے کے دوران ان سے اکثر ملتی تھی، اور سرکاری مخبر بھی اس وقت میرے ساتھ ہی ہوتا تھا لیکن اسے اس بات کا پتا بھی نہیں چلتا تھا۔(شاید) اللہ اس وقت اسے اندھا کر دیتا تھا: فَاَغْشَيْنٰہُمْ فَہُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ۝۹  (یٰسٓ ۳۶:۹)۔ اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک بار میں انھیں ’ریل گاڑی‘میں ملی، جب کہ سرکاری مخبر اس وقت بھی میرے ساتھ ہی تھا۔اس کے باوجود میں نے ان سے باتیں بھی کیں اور انھوں نے مجھے ایک خط بھی دیا۔ ان کی روپوشی کے عرصہ میں مَیں اپنی راتیں اپنے بچوں کے ساتھ تنہا گزارتی تھی۔ اس سب کے باوجود میں ان کو کبھی ڈانواں ڈول نظر نہ آتی لیکن بعض اوقات وہ میری آنکھوں میں لمحہ بھر کے لیے چمک اٹھتے، خاص طور پر جب ، ان سے ملاقات کے لیے میرا شوق بہت بڑھ جاتا۔ اس وقت میرے غم میں شدت آجاتی تو میں ان کی یہ بات یاد کرلیتی کہ آخر کار ہماری ملاقات جنت میں ہوگی(ان شاء اللہ)۔ 

مجھے یہ بات بھی یاد آتی ہے کہ ایک مرتبہ جب بہن زینب الغزالی ؒ نے مجھے یہ بتایا کہ انھوں نے شہید محمد یوسفؒ کو تفتیشی ادارے کے ایک دفتر میں، اپنی کہنیوں اور گھٹنوں کے بل چل کر جاتے ہوئے دیکھا ہے، تو مجھے یوں لگا کہ میرا دل بس اب پھٹ جانے کو ہے۔شہید محمد یوسف کی دونوں ٹانگیں فوج کے تربیت یافتہ کتوں کی چیر پھاڑ کی وجہ سے بہت بُری طرح زخمی  تھیں، جب کہ تشدد،اذیت اور تعذیب کی اس حالت میں ان پر پانچ ماہ گزر چکے تھے۔ 

  • س : صدر ناصر کی حکومتی مشینری آپ کو بھی گرفتار کرنے کی کوششیں کر رہی تھی؟ 
    • ج : میری گرفتاری کے لیے بہت سی کوششیں کی گئیں۔ایک بار جب میں بہن حمیدہ قطب کے ہمراہ یہ دیکھنے کے لیے گئی کہ ’لیمان طرہ‘ کے معرکہ میں کیا کچھ ہوا، تو ہم نے وہاں دیکھا کہ ٹینک موجود ہیں اورہلکی توپیں نصب کی گئی ہیں۔ ان ٹینکوں اور توپوں کا رخ ' ’لیمان طرہ‘ جیل کی طرف ہے۔اس معرکہ میں ہونے والے قتل عام میں اکیس اخوانی جوان شہید ہوئے اور تقریباً اتنے ہی شدید زخمی ہوئے۔لیکن اس سنگین صورت حال میں بھی ہم دونوں، جاسوسوں کی نگاہوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ جہاں تک میری گرفتاری کا تعلق ہے تو وہ میرے گھر سے ہوئی۔ سردی بہت زیادہ تھی اور مجھے شدید نزلہ کی شکایت تھی۔اس وقت پولیس کے افراد آئے اور انھوں نے مجھے ساتھ جانے کو کہا۔میں نے گھر کے اندر سے اپنے کپڑے لانے کی ان سے اجازت مانگی لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔مجھے چند اخوانی بہنو ں کے ساتھ جیل منتقل کردیا گیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک پولیس افسر نے ہماری ایک بہن کو بہت زور سے دھکا دیا، وہ حاملہ تھیں اوروہیں پر گر گئیں اور اسی حالت میں وفات پا گئیں۔ 

 جیل میں میری صحت بُری طرح سے بگڑگئی یہاں تک کہ وہ مجھے سخت فوجی پہرے میں ہسپتال منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے،اور اسی دوران ہماری رہائی کا حکم آ گیا۔اس دوران میری والدہ محترمہ وفات پا گئیں۔ ان کی وفات کی خبر مجھ سےاب تک چھپائی گئی تھی۔ مجھ پر اس سے پہلے جو گزر چکی تھی، میرے لیے یہ اس سے بھی بڑا صدمہ تھا۔مگر چونکہ اس معاملے میں اللہ کی مشیت اور اس کی رضا کام کر رہی تھی اور اللہ نےپچھلے سات مہینوں میں مجھے سخت مشکلات میں صبر کرنا سکھادیا تھا، اس لیے میں نے صبر کیا۔ایک بات مجھے یہ بھی یاد آتی ہے کہ ہماری قید کے دوران ایک بہن نے مجھ سے میرے بیٹے کا نام پوچھا تا کہ وہ بھی اپنے بیٹے کا وہی نام رکھ سکیں۔اسی دوران ایک افسر اس کے پاس آیا اوراس سے پوچھا کہ ’’تو اپنے بیٹے کا کیا نام رکھے گی؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’احمد جہاد‘ ، تو اس افسر نے اسے دھکا دیا اور گالیاں بھی دیں۔پھر ہماری اس بہن نے اپنے بیٹے کا نام ’عادل‘ رکھا۔  

  • س : آپ کے شہید خاوندؒ اورشہید سیّد قطبؒ کے آپس میں کیسے قریبی تعلقات تھے؟  
    • ج : شہید محمد یوسفؒ، شہید سید قطبؒ سے اخوان المسلمون کے تعلیمی مرکز میں ملا کرتے تھے جہاں سیّد قطب لیکچر دیا کرتے تھے۔لیکن ان کا آپس میں زیادہ گہرا تعارف جیل میں ہوا، جہاں ان دونوں نے اپنی قید کی پہلی مدت تقریبا دس سال اکٹھے گزاری۔اس طرح ان کے درمیان اخوت اور گہری محبت کا رشتہ قائم ہوا۔ان کی محبت اور دوستی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ ’’وہ دو شخص جنھوں نے اللہ کی خاطر آپس میں محبت کی،اللہ کی خاطر ہی آپس میں ملے، اور اس کی خاطر ہی ایک دوسرے سے جدا ہوئے‘‘۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان میں سوچ اور فکر، اسلامی تصورات اور خیالات اوردعوت و تحریک کی فکری ہم آہنگی بھی جمع ہوگئیں۔اور پھر آخر کار وہ دونوں اللہ کے راستے میں شہادت کے معاملے میں بھی اکٹھے ہوگئے۔ ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں ان کی شہادت ہوئی۔یہاں تک کہ جب شہید محمد یوسف کی سزائے موت کا حکم جاری ہوا تو ان اخوانی بھائیوں نے جو شہید ھواشؒ اور سید قطبؒ کے ساتھ قیدتھے کہا کہ: ’’ھواش بھائی! آپ کی شہادت کا وقت بھی آ گیا ہے۔ اللہ آپ کے ساتھ رحم کا معاملہ فرمائے، آمین!‘‘کیونکہ یہ سب بھائی اس بات کا تصور بھی نہیں کرتے تھےکہ یوسف ھواش ، سید قطب کی شہادت کے بعد زندہ رہ سکیں گے۔ 
  • س : آپ کی اپنے خاوند کے ساتھ ، ان کی شہادت سے پہلے، آخری ملاقات کیسی تھی؟  
    • ج : محمد یوسفؒ ہر وقت میری یادوں میں رہتے تھے اور کسی بھی لمحے مجھے بھولتے نہیں تھے۔ان کی زندگی میں ، ان سے میری آخری ملاقات، جیل سے میری رہائی کے کچھ عرصہ بعد ہوئی۔ اس وقت میرے دل میں یہ بات آئی کہ اس بار شاید، زندگی میں آخری مرتبہ ان کو دیکھوں گی، اس لیے میں ان سے ملنے کے لیے چلی گئی اور میرے بچے بھی میرے ساتھ تھے۔ ایک افسر آیا، اس نے محمد یوسفؒ کو ان کے گریبان سے پکڑا ہوا تھا اوراس نے ان کو ملاقات کے خیمہ میں بڑے زور سے دھکا دیا، جس کے نتیجے میں وہ میرے بچوں کے سامنے زمین پر گرگئے۔ ان کے کپڑے پولیس کےکتوں کی چیر پھاڑ کی وجہ سے پھٹے ہوئے تھے اور ان کے جسم پر تشدد اور مارپیٹ کے نشانات واضح نظر آرہے تھے۔ میں محمدیوسف ؒکے لیے جو کھانا لائی تھی اس اہل کار نے وہ کھانے نہ دیا۔ اس پر جب میں نے اس افسر کے سامنے چیخنا چلانا شروع کیا تو محمدیوسف ؒ نے مجھے بتایا کے جب سے میں اس جیل میں آیا ہوں روزے سے ہوں۔سبحان اللہ! 

 مجھے یاد ہے کہ اس موقعے پر میرا بیٹا احمد ، اپنے باپ کی ٹانگ پر بیٹھا ہوا ان سے یہ پوچھ رہا تھا:’’ ابا جان، کیا صدر ناصر آپ کو قتل کرنا چاہتا ہے؟‘‘ تو محمدیوسف نے اس کو جوا ب دیا:  الموازین مقلوبۃ و ستظل مقلوبۃ حتٰی یوم القیامۃ [عدل و انصاف کے ترازو اُلٹ دیے گئے ہیں اور قیامت تک اُلٹے ہی رہیں گے]۔ جب محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ سیّدقطبؒ اور عبدالفتاح اسماعیلؒ کے ساتھ ہی اُن کو ’سزائے موت‘ دے دی جائے گی تو ہم نے ان کو ’الوداع‘ کہا۔ 

اس سے اگلے روز ۲۹؍ اگست ۱۹۶۶ءکی صبح ، اخبارات نے سیّد قطبؒ کی سزائے موت کی خبر شا ئع کی۔اس موقع پر میں نہیں روئی، بالکل نہیں روئی اور اپنے اللہ سے اجر اور صبر کی دُعا کی۔ شہید کا ایک بھائی ’طوسون‘ہمارے پاس آیا تو وہ رو رہا تھا۔میں نے اس سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ ہی رہے اور انتظار کرے،کیونکہ سرکاری حکام شہید کا جسد خاکی ہمارے حوالے کریں گے اور میرے گھر میں کوئی مرد موجود نہیں ہے۔میرے پاس اس وقت سب اخوانی بہنیں جمع تھیں۔ جب میں تحقیقاتی ادارے کے مرکزی دفتر گئی تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے خاوندکی سزائے موت کی خبر اپنے ہاتھوں سے لکھوں، تو اس وقت میں بہت روئی۔ یوسف کی سزائے موت کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ میں بہت روئی،یہاں تک کہ وہاں موجود افسر بھی رو پڑا اور اس نے کہا کہ’’ بہن! مت رو، سچی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ آج کے دن زمین کے اندر جانے والے ہیں، وہ ان لوگوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں جو اس زمین کی پشت پر چل پھر رہے ہیں‘‘۔ اس موقع پر تعزیت کی کوئی مجلس نہ ہوئی اور نہ شہید کا جسد خاکی ہمارے حوالے کیا گیا،اور آج تک ہمیں یہ بھی پتا نہیں چلا کہ شہید محمدیوسفؒ کو کہاں دفن کیا گیا؟  

  • س :آپ کے خاوند کی شہادت کے بعد آپ کے بچوں کا کیا حال تھا؟ 
    • ج :  جو کچھ ہوا، اس کے باعث میری بیٹی سمیہ گم سُم ہوکر رہ گئی تھی۔ یہاں تک کہ بڑی ہوکر بھی اس صورت حال سے نہیں نکلی۔وہ زیادہ بات چیت نہیں کرتی بلکہ اس نے اپنا دُکھ اپنے اندر چھپارکھا ہے،جب کہ میرا بیٹااحمد اپنے دکھ اور غم کا اور اپنے جذبات کا بڑی شدت سے اظہار کرتا ہے۔یہاں تک کہ کبھی کبھی وہ جمال عبد الناصر پر لعنت بھیجتا ہے اور اس وقت بھی، جب کہ ہم جیل میں تھے وہ اس کے لیے اپنے رب سے رو رو کر،بد دُعائیں کرتا تھا۔اور اس کے رونے اور چیخنے چلانے کی وجہ سے وہاں موجود حفاظتی عملے کے لوگ بھی رونے لگتے۔وہ اس وقت اپنے اباجان سے کہتا :ابا جان! آپ اس جیل کی دیواروں کو توڑ کر باہر نکل آئیں۔وہ اپنی طبیعت اور مزاج کے لحاظ سے بہت جذباتی اورانقلابی ہے۔اس دوران اس نے، میری اماں جان کی وفات کی خبر بھی سنی لیکن جیل سے میری واپسی کے بعد بھی اس بات کومجھ سے چھپا کر رکھا۔اور مجھے دوسری باتوں میں مصروف رکھا یہاں تک کہ مجھے ماں کی یاد بالکل نہیں آئی۔اس وقت اس کی عمر صرف دس سال تھی۔اس نے اپنے باپ کی شہادت کی خبر بڑی ہمت اور حوصلے سے سنی اور ثابت قدم رہا۔اس نے اپنی کم عمری کےباوجود میرا اور اپنی بہن کا بہت خیال رکھا اور ہمارا حوصلہ بڑھایا، خاص طور پر میری قید کے دنوں میں جب بیٹی سمیہ بیمار پڑ گئی تھی۔