کراچی کے ایوانِ صدر میں دستخطوں کی تقریب میں ساگوان کی چمکتی میز کے گرد صدر پاکستان ایوب خان اور ان کے دائیں پہلو میں بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور بائیں طرف ورلڈ بینک کے ولیم الیف بیٹھے ہوئے تھے۔
’اس معاہدے نے شاید ’ایک اور کوریا‘ بننے کے امکانات کو ختم کر دیا۔‘ آج سے ٹھیک ۶۵ برس قبل ۱۹ ستمبر ۱۹۶۵ء کو سندھ طاس معاہدے پر دستخط کی تقریب کے بارے میں یہ الفاظ انڈین محقق اور مصنف اتم کمار سہنا نے اپنی کتاب Indus Basin: Uninterrupted میں لکھے ہیں۔
۱۹۵۰ء کے عشرے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر جاری تناؤ اور کش مکش کے بارے میں معروف امریکی تکنیکی ماہر ڈیوڈ للی نتھیل نے دونوں ملکوں کے دورے کے بعد ’Collier‘ نامی میگزین کے لیے اپنے مضامین میں کشمیر کے مسئلے کو امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے دوسرا ’کوریا‘ کہا تھا اور دونوں ملکوں کے مابین آبی تنازعات کے حل کا نظریہ پیش کیا۔
للی نتھیل امریکی ٹینیسی ویلی ڈیویلپمنٹ پلان کے ذریعے امریکا کے جنوب مشرقی حصے میں ڈیموں اور آبی ذخائر کے انتظام کے ذریعے سیلابوں پر قابو پانے اور زراعت کی بہتری کے منصوبے کے سربراہ رہ چکے تھے۔
انھیں سندھ طاس معاہدے کے اتفاق رائے تک پہنچانے والے ابتدائی معاہدوں کا معمار کہا جاتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے پانیوں کو غیر سیاسی اور تکنیکی بنیادوں پر ترقی دینے اور ان کے استعمال کے بارے میں ان کے فارمولے نے ورلڈ بینک کی ثالثی اور سہولت کاری میں دونوں ملکوں کے درمیان آبی تنازع کو حل کرنے کی طویل سفارتی کوششوں کو بنیاد فراہم کی تھی۔
اپریل ۲۰۲۵ءمیں انڈیا نے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے فالس فلیگ واقعے کے اگلے روز انڈین وزیراعظم مودی نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان آبی ذخائر اور پانی کی ملکیت کے حوالے سے ایک زبانی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ان کے اس بیان پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور اپنے پانیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جانے کا عندیہ ظاہر کیا۔ پھر بہت جلد یہ تنائو ایک محدود نوعیت کی حقیقی جنگ میں بدل گیا۔
پاکستان کے سکیورٹی اور سفارتی منظر نامے پر انڈیا کی ’آبی جارحیت‘ اور ’پانی کو ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کرنے جیسی اصطلاحات کے استعمال سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد بڑھتی ہوئی سفارتی کشیدگی اور تناؤ کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
مگر اگست ۲۰۲۵ء کے وسط میں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی مقدار اور ملکیت پر ایک دوسرے سے نبرد آزما دونوں ہمسایوں کے سرحدی علاقوں میں شدید بارشوں نے بدترین سیلابوں کو جنم دیا۔سرحد کی دونوں جانب بپھرے پانیوں نے ’سندھ طاس معاہدے‘ کے بارے میں روایتی موقف اور تکنیکی دعوؤں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نئے سوالات اُٹھا دیئے۔ یہ سوالات کروڑوں انسانوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے موسمی اثرات اور تبدیلیوں کے بارے میں ہیں۔
اس معاہدے کی رو سے مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا، جب کہ راوی، ستلج اور بیاس کے مشرقی دریاؤں کا انتظام اور استعمال انڈیا کے حوالے کیا گیا۔
جغرافیائی طور پر پاکستان دریاؤں کے بہاؤ کے زیریں حصے میں اور انڈیا اس کے اوپری حصے میں واقع ہے۔سندھ طاس کے سارے دریا انڈیا کے علاقوں سے بہہ کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ ستلج ،جہلم ،چناب اور راوی پاکستان اور انڈین پنجاب کے بڑے حصے کو آب پاشی کا پانی مہیا کرتے ہیں۔ ان کا منبع ہمالیائی پہاڑی سلسلوں کے دامن میں ہے۔
اس سال غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے ان دریاؤں سے منسلک نالوں اور معاون دریاؤں میں پانی کی مقدار حد سے بڑھ گئی۔ جس سے مشرقی اور مغربی پنجاب کی لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی زیر آب آگئی۔ مقبوضہ کشمیر سمیت پنجاب کے دونوں حصوں میں درجنوں شہر پانی میں ڈوب گئے۔
پاکستان اور انڈیا اس معاہدے کے بارہ ابواب اور آٹھ ضمیموں میں درج عبارتوں اور اصطلاحات کی تشریح اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق کرتے ہیں۔ اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔البتہ اس کی شرائط اور ترامیم کے لیے آرٹیکل ۱۰ موجود ہے، جو دونوں ملکوں کی رضامندی سے معاہدے کی نئی شکل کے خد و خال واضح کرتا ہے۔
جب سندھ طاس معاہدے پر اتفاق ہوا تو اس وقت سندھ طاس کے علاقے میں سرحد کے دونوں طرف پانچ کروڑ لوگ آباد تھے لیکن اب اسی علاقے میں ۳۰ کروڑ کے قریب افراد بستے ہیں۔ اس نظام میں سے ۹۳ فی صد پانی آب پاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے خوراک، پینے کا پانی اور توانائی کا حصول اور سب سے بڑھ کر آبادی میں اضافے سے ’سندھ طاس‘ کا علاقہ ماحولیاتی اور معاشی مسائل کے گرداب میں ہے۔
جنوبی ایشیا میں پانی کے ذخائر پر جنم لینے والی کش مکش کے جائزے پر مبنی کتاب Hydro Politics and Water Wars in South Asia کے مصنف اقتدار حسین صدیقی کے مطابق انڈیا کے لیے اس معاہدے کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اسے ۱۹۴۷ء میں ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے ملنے والے آبی ذخائر کے ہیڈورکس کے علاوہ مشرقی دریاؤں کا اضافی پانی بھی مل گیا۔ جس کی وجہ سے وہ بھاکرا اور نانگل ڈیمز مکمل کر سکا اور راجستھان نہر اور راوی بیاس نہر جیسے منصوبے شروع ہو سکے ۔مگر اس دوران انڈیا میں یہ احساس جڑ پکڑنے لگا کہ تمام دریاؤں کے ہیڈورکس ان کی ملکیت میں واقع ہیں مگر انڈس سسٹم کا صرف۲۱ فیصد پانی اسے ملتا ہے۔
مصنف کے خیال میں دوسری جانب پاکستان میں شروع سے ہی اس معاہدے کے حوالے سے منقسم رائے موجود رہی ہے۔ ایک طبقے کے خیال میں پاکستان نے اس معاہدے سے دو دریاؤں کا پانی کھو دیا،جب کہ دوسرے کے خیال میں دو دریاؤں کے پانی سے محرومی کے باوجود پاکستان نے متبادل نہری نظام اور پانی ذخیرہ کرنے میں خاطرخواہ کامیابیاں حاصل کیں۔ دو بڑے ڈیموں، چھ بیراجوں، آٹھ رابطہ نہریں اور ۲۵۰۰ ٹیوب ویلوں کی تنصیب اس معاہدے کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
۱۹۶۰ء میں جب اس معاہدے کی شرائط و تفصیلات طے کی گئیں تو ماحولیاتی تبدیلیوں کا موجودہ تصور اس وقت موجود نہ تھا۔ ڈینیل ہاینز برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی تاریخ دان کی تحقیق کے موضوعات میں پاکستان اور انڈیا کے آبی ذخائر کی تقسیم بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتاب Rivers Divided: Indus Basin Waters ’سندھ طاس معاہدے‘ کی تاریخ اور مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔
ان کے مطابق امریکی ماہر للی نتھیل کی تجاویز کو ورلڈ بینک نے دونوں ملکوں کے درمیان پانی پر مذاکرات کے آغاز کی شرائط کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ تجاویز اس مفروضے پر مبنی تھیں کہ انڈس کے آبی وسائل دونوں ملکوں کی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ اس کے علاوہ دریاؤں کو مشترکہ طور پر اس طرح منظم کیا جائے گا کہ پورے انڈس سسٹم کی ترقی ہوگی۔لیکن معاہدے کی چھ سے زیادہ دہائیاں گزرنے کے بعد یہ خطہ پانی کی بدترین قلت کا شکار ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر تیزی سے پگھلتے گلیشیئروں، برفانی تودوں کی ٹوٹ پھوٹ، بارشوں کے اوقات اور کمیت میں تبدیلی، کلاؤڈ برسٹ کی صورت میں ناگہانی آفات سندھ طاس میں پانی کے بہاؤ پر اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس تناظر میں کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ معاہدہ دوبارہ تحریر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں یہ معاہدہ اس مفروضے پر قائم تھا کہ ایک مخصوص مقدار میں پانی دریائے سندھ کے نظام سے بہتا رہے گا۔ لیکن ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے اس میں تغیر آچکا ہے جو کہ معاہدے پر نظرثانی کا جواز بن سکتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات اور عالمی قوانین کے پاکستانی ماہر اعجاز حسین نے معاہدے میں تبدیلی یا اسے ختم کرنے کے دلائل پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کی کتاب Political and Legal Dimensions: Indus Water Treaty موسمیاتی تبدیلیوں کی مروجہ تعریف اور بین الاقوامی اداروں کی تحقیق اور سائنسی امور پر اختلافات کا جائزہ لیتی ہے۔وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل کے حل کے طور پر اس معاہدے کو ختم کرنے کے مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں دونوں ملکوں میں پائے جانے والے سیاسی اختلافات اور سرحدی تنازعات اس نوعیت کے ہیں کہ ان کی موجودگی میں اگلی بار کسی اور معاہدے کا ہونا مشکل ہوگا۔تاہم وہ موسمیاتی مسائل کا حل انڈس ٹو کی صورت میں تجویز کرتے ہیں۔
پالیسی سازی کے انڈین ماہر اتم کمار سہنا کے مطابق: ’’موجودہ چیلنجوںسے نمٹنے کے لیے اس معاہدے کو کسی دوسرے معاہدے سے بدلنے یا منسوخ کرنے کا سوال ہی غیر منطقی ہے۔ مسائل کا حل خود سندھ طاس معاہدے میں موجود ہے۔معاہدے کی شک نمبر سات مستقبل میں تعاون کے وسیع امکانات کو سامنے لاتی ہے، جو کہ ’دریاؤں کی بہتر ترقی میں باہمی دلچسپی‘ اور ’دریاؤں پر انجینئرنگ کے کام کو سرانجام دینے‘ کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کام کے لیے سندھ طاس کا درست اور نیا سروے درکار ہوگا ‘‘۔
پانی کے ذخائر پر ماحولیاتی اثرات کے ماہر ڈاکٹر پرویز عامر کے مطابق: ’’دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ تین سے پانچ سال تک سندھ طاس معاہدے کو ایک طرف رکھ کر اپنے آبی تنازعات کا جائزہ لیں۔ متنازع اُمور پر اَزسر نو غور کریں۔یہ معاہدہ زمین کی سطح پر موجود پانی کے متعلقہ امور کے بارے میں ہے، جب کہ زیر زمین پانی کی کیفیت اور مسائل کے بارے میں اس میں کوئی ذکر موجود نہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں کے زیر زمین پانی کے مسائل ماحولیاتی تبدیلیوں میں اضافے کا شاخسانہ ہیں۔ جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق انڈس بیسن کے دریاؤں سے ہے۔ اس لیے پاکستان اور انڈیا کو اپنے سیاسی مسائل سے ہٹ کر تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر پانی کے معاملات کا جائزہ لے کر اس کے حل کی تخلیقی بنیادیں فراہم کرنی ہوں گی ‘‘۔
۶۵ برس قبل اس کا بنیادی تصور اس اصول پر قائم تھا کہ سندھ طاس کے پانیوں کے بہتر استعمال کو نہ تو مذہبی اور نہ سیاسی مسئلہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک قابلِ عمل انجینئرنگ اور کاروباری مسئلہ ہے۔
بدقسمتی سے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد اس مسئلے کو سیاسی مسائل سے ہٹ کر خالصتاً تکنیکی معاملے کے طور پر دیکھنے کی سوچ میں کمی آئی۔ دونوں ملکوں کے سیاسی معاملات، اندرونی قوم پرستی کے تصورات اور علاقائی بالادستی سے جڑے شکوک و شبہات اس سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔
انڈیا میں اس معاہدے کے دو ماہ بعد لوک سبھا میں اس پر تندو تیز سوالات اور تلخ بحث و مباحثہ ہوا۔ اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو ایوان میں تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان پر تنقید کرنے والوں میں دھیمے لہجے اور منطقی انداز میں گفتگو کرنے والے ایک نوجوان پارلیمنٹیرین پیش پیش تھے جو بعد میں انڈیا کے وزیراعظم بنے۔ یہ اٹل بہاری واجپائی تھے جن کی جماعت بی جے پی نے ۲۰۱۵ءکے بعد انڈس واٹر ٹریٹی کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دے کر اپنے سیاسی اور انتخابی مفاد کے لیے استعمال کیا۔
یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ پاکستان میں بھی اس معاہدے پر تنقید اور اس کے مضمرات کا ذکر پہلی بار ۱۹۶۵ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر ہوا۔ اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان کو محترمہ فاطمہ جناح کے حامیوں نے انھیں پاکستان کے دریا انڈیا کے ہاتھ بیچنے والا قرار دیا۔
پالیسی سازی کے برطانوی ماہر ڈینیل ہینز معاہدے کی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا تعلق معاہدے کے وقت چین اور افغانستان کو نظرانداز کرنے کے حوالے سے ہے اور جو پاکستان اور انڈیا کے پڑوسی ممالک ہیں۔
دریائے سندھ اور ستلج کے پانیوں کا ماخذ اور منبع تِبت کا سطح مرتفع ہے، جو چین کا حصہ ہے۔ یہ علاقہ جسے دنیا کی چھت کہا جاتا ہے سب سے زیادہ برفانی تودوں اور منجمد زمین کے ٹکڑوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ علاقہ سندھ طاس کے کُل کیچمنٹ ایریا کا ۱۴ فی صد مہیا کرتا ہے۔
دو ماہ قبل چین نے ارونا چل میں انڈین سرحد کے ساتھ دریائے برہماپترا پر دنیا کا سب سے بڑا پن بجلی کا منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دریا چین سے انڈیا میں بہتے ہوئے بنگلہ دیش کا رُخ کرتا ہے۔ پانی کے زیریں بہاؤ پر ہونے کی وجہ سے انڈیا نے اپنی آبادی کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔یہ اسی طرح کے خدشات ہیں جو پاکستان کی جانب سے دریائے چناب پر انڈین پن بجلی کے منصوبوں کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں کمی کے بارے میں ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔
پانی کے تنازعات کے حل کے بارے میں عالمی طاقتوں کے کردار کے بارے میں ڈاکٹر پرویز عامر کا کہنا ہے: ’’ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمالیائی خطے سے منسلک چینی علاقوں کے گلیشیئرز بھی خطرے کی زد میں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ پاکستان انڈیا اور چین کو یکساں طور پر درپیش ہے۔ اس سے نمٹنے کی تدابیر اس خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مشترکہ اقدامات کا پلیٹ فارم بھی مہیا کر سکتی ہیں۔یہ تینوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ اور جدید ٹکنالوجی سے آبی وسائل کے سروے جیسے اقدامات کر کے کلائمیٹ چینج کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔
اس معاہدے کی تشکیل کے دوران پاکستان انڈیا اور عالمی بینک کے درمیان مذاکرات کے طویل دور ہوتے رہے۔ اس دور کے ورلڈ بینک کے صدر یوجین بلیک نے دونوں ہمسایوں کو معاہدہ نہ ہونے کے نتائج سے خبردار کرنے کے لیے پانی کے تنازع کو بارود کا ڈھیر قرار دیا تھا۔
معاہدے پر دستخطوں نے بہت سارے خطرات کو کم کر دیا، مگر انسانی سرگرمیوں اور قدرتی موسمی عوامل نے مل کر ۶۵برسوں بعد ہمالیہ کے خطے کے برفانی گلیشیئروں میں بارود کا ایک نیا ڈھیر جمع کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی چنگاریاں روز بہ روز اس ڈھیر کے قریب بڑھتی جا رہی ہیں۔