سوال: نمونے کی اسلامی گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا ہمارے ہاں موجودہ گھریلو زندگی اسلامی ہے؟ کیا شہر اور گائوں میں ایک ہی طرز کی گھریلو زندگی ممکن ہوگی؟
جواب: ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رُو سے چار ہیں: lایک ’تحفظ نسب‘، جس کی خاطر ’زنا‘ کو حرام اور جرم قابلِ تعزیر قرار دیا گیاہے، پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں اور زن و مرد کے تعلق کو صرف جائز قانونی صورتوں تک محدود کر دیا گیا ہے، جن سے تجاوز کا اسلام کسی حال میں بھی روادار نہیں ہے۔l دوسرے تحفظ ’نظام عائلہ‘ جس کے لیے مرد کو گھر کا قوام بنایا گیا ہے، بیوی اور اولاد کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اولاد پر خداکے بعدوالدین کا حق سب سے زیادہ رکھا گیا ہے۔ lتیسرے ’حُسن معاشرت‘ جس کی خاطر زن و مرد کے حقوق معین کر دیے گئے ہیں، مرد کو طلاق کے اور عورت کو خلع کے اور عدالتوں کو تفریق کے اختیارات دیے گئے ہیں، اور الگ ہونے والے مرد و زن کے نکاح ثانی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، تاکہ زوجین یا تو حُسنِ سلوک کے ساتھ رہیں، یا اگر باہم نہ نباہ سکتے ہوں تو بغیر کسی خرابی کے الگ ہوکر دوسرا بہتر خاندان بناسکیں۔ lچوتھے ’صلۂ رحمی‘ جس سے مقصود رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا معاون و مددگار بنانا ہے، اور اس غرض کے لیے ہرانسان پر اجنبیوں کی بہ نسبت اس کے رشتہ داروں کے حقوق مقدم رکھے گئے ہیں۔ اس ’نظامِ عائلہ‘ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔ رہے طرزِ زندگی کے مظاہر، تو وہ ظاہر ہے کہ شہروں میں بھی یکساں نہیں ہوسکتے، کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسانی ہوسکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو، وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے، بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں رَد و بدل نہ ہو۔ (ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۵۹ء)
سوال : آپ نے لکھا ہے کہ انسانی جسم روح کا قیدخانہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ سازوسامان ہے، جس سے ’روح‘ کام لیتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عملی زندگی میں انسان کی جس شخصیت کا ظہور ہوتا ہے، کیا وہ روح کا مظہر ہوتی ہے یا جسمانی قوتوں کا؟
جواب :انسان کی شخصیت دراصل ان دونوں چیزوں کے اظہار سے عبارت ہے، دونوں میں سے کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جسم ’روح‘ کے بغیر بے کار ہے۔ لیکن ’روح‘ بھی ’جسم‘ کے بغیر اپنی قوتوں کا اظہار نہیں کرسکتی۔ فرض کیجیے کہ ایک آدمی کا جسم کسی وجہ سے بالکل مضمحل ہوچکا ہے اور اس کے قویٰ جواب دے چکے ہیں، تو اس صورت میں ’روح‘ اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے بالکل عاجز ہوگی۔
سوال: کیا اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ ’روح‘ اور ’جسم‘ میں سے انسانی شخصیت کی تشکیل میں زیادہ اہمیت کس کو حاصل ہے؟
جواب: خالق نے ’روح‘ اور ’جسم‘ کی صلاحیتوں اور قوتوں کے درمیان ایک ایسا بے نظیر توازن اور حسین امتزاج پیدا کردیا ہے کہ کوئی شخص ناپ کر یہ نہیں بتا سکتا کہ انسان کی شخصیت کی تشکیل میں روح کا حصہ کتنا ہے اور جسم کا کتنا؟ اور ان میں سے کون سی چیز زیادہ اہم ہے اور کون سی کم اہم؟ دراصل انسان کی تخلیق، اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ایک بے مثال کرشمہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک بچّے کے اندر اخذ کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ مثلاً بچپن میں وہ جس طرح اپنی مادری زبان سیکھتا ہے اور اس پر عبور حاصل کرلیتا ہے، بڑی عمر کا آدمی ہزار کوشش کے باوجود کسی زبان میں وہ مہارت پیدا نہیں کرسکتا۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آدمی کے اندر وہ صلاحیت اس درجے میں باقی نہیں رہتی، جس درجے میں ایک بچّے کے اندر اپنی ابتدائی عمر میں موجود ہوتی ہے۔(آئین، ۲۹ مئی ۱۹۷۰ء)