اکتوبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

اسلامی تعاون تنظیم، بے بسی کی علامت

مسعود ابدالی | اکتوبر ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس ۱۵ ستمبر ۲۰۲۵ء کو دوحہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد ۹ ستمبر کو قطر کے دارالحکومت پر اسرائیلی حملے کے بعد کی صورتِ حال پر غور اور جارحیت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا تھا۔اجلاس میں پاکستان، ترکیہ، ملائیشیا اور ایران کی جانب سے تجاویز تو پیش کی گئیں، مگر کوئی ٹھوس عملی منصوبہ سامنے نہ آیا۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اقوام متحدہ سے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے اور ’عرب اسلامی ٹاسک فورس‘ کی تشکیل کی تجویز دی، مگراسرائیل کے خلاف سفارتی مہم کی کوئی حکمت عملی بیان ہوئی نہ ٹاسک فورس کے خدوخال واضح کیے گئے۔ 

  • ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اسرائیل پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کی بات کی، لیکن ان کی تقریر میں آذربائیجان سے اسرائیل کو تیل کی ترسیل روکنے جیسے کسی عملی اقدام کا ذکر نہ تھا۔ واضح رہے کہ یہ تیل ترک بندرگاہ جیحان (Ceyhan) سے اسرائیلی ٹینکروں پر لادا جاتا ہے۔  ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزیشکیان اور ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے مسلم ممالک سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی اپیل کی، مگر مصر، اردن، بحرین، مراکش، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات نے اس پر کوئی آمادگی ظاہر نہ کی۔ 

قطری امیر کا خطاب: جوش، حقیقت اور بے بسی 

اجلاس سے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کا خطاب سخت اور جوشیلا تھا۔ انھوں نے اسرائیلی حکومت کو ’’اقتدار کی جنونیت، تکبر اور خون کی پیاس میں مبتلا‘‘ قرار دیا اور کہا کہ ثالثوں پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کو امن میں کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ وہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔قطری امیر نے غزہ میں جاری جنگ میں ۶۵ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کا ذکر کیا اور نیتن یاہو کی توسیع پسندانہ سوچ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے شامی زمین پر قبضہ کیا اور اب جنوبی لبنان سے انخلاء پر تیار نہیں۔تاہم، قطری قیادت کی گفتگو عملی بے بسی کا شکار رہی۔ اربوں ڈالر کے امریکی و برطانوی دفاعی نظام کی موجودگی میں اسرائیلی طیارے حملہ کر کے چلے گئے اور قطر کو ان کی آمد کی آہٹ تک محسوس نہ ہوئی۔ 

ایران پر اسرائیلی حملوں اور یمن میں اسرائیلی مداخلت یا تباہی کا براہِ راست ذکر قطری امیر کی تقریر میں نہیں آیا۔حالانکہ اسرائیل اور امریکا نے ایران اور یمن میں وحشیانہ کارروائیاں کی ہیں۔خطے میں ان حملوں پر شدید ردِعمل بھی موجود ہے۔قطر، ایران اور امریکا کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایران کا ذکر نہ کرنا شاید سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش ہو، جب کہ یمن کے معاملے پر خلیج یکسو نہیں اور ان ممالک کی سفارتی کشیدگی سے خود کو باہر رکھنے کے لیے امیرقطر نے گفتگو میں احتیاط برتی۔ 

خلیج تعاونی کونسل کا اعلان ۔۔ دفاعی اتحاد یا علامتی بیانیہ؟ 

خلیجی تعاون کونسل (GCC) نے اپنےاجلاس میں مشترکہ دفاعی نظام کو فعال کرنے اور فوجی کمان کا اجلاس دوحہ میں بلانے کا اعلان کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ خلیج کونسل کے کسی ایک رکن پر حملہ، تمام پر حملہ تصور کیا جائے گا۔اجلاس کے بعد جی سی سی کے ترجمان ماجد محمد الانصاری نے بتایا کہ خلیجی ممالک کی فوجی قیادت کے درمیان مشاورت جاری ہے تاکہ علاقائی دفاعی صلاحیت کو مضبوط کیا جاسکے۔ 

اوآئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اعلامیے میں اسرائیلی حملے کی شدید مذمت اور قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔بیان میں اسرائیل کی جانب سے قطر کو دوبارہ نشانہ بنانے کی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار بھی ہوا،لیکن اس سلسلہ میں کسی تزویراتی حکمت عملی کا ذکر سامنے نہ آیا۔ جی سی سی کے سیکرٹری جنرل جاسم محمد البدیوی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ 

OIC کی تاریخ، زوال اور متبادل کی تلاش 

اسلامی تعاون تنظیم (OIC)کا قیام ۱۹۶۹ء میں مسجد اقصٰی کی آتشزدگی کا ردعمل تھا۔ تاسیس کے وقت اس کا مقصد مسلم ممالک کا اتحاد، مظلوموں کی آواز بننا اور عالمی سطح پر اسلامی دنیا کے مفادات کا تحفظ طے پایا تھا لیکن نصف صدی بعد OIC عملاً مفلوج ہو چکی ہے۔اس کی قراردادیں صرف کاغذی بیانات، اجلاس صرف رسمی تصاویر اور قیادت خلیجی طاقتوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ 

کوالالمپور کانفرنس بطور متبادل؟ 

تنظیم کو فعال بنانے کے لیے ۱۸ سے ۲۰ دسمبر ۲۰۱۹ء کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک چوٹی کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں ترکی، ایران، قطر اور دیگر مسلم ممالک کے رہنماؤں، دانش وروں اور اسکالرز نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس کا مقصد مسلم دنیا کو درپیش مسائل، اسلاموفوبیا، معاشی پس ماندگی، اور سیاسی انتشار کا حل اور اسلامی تنظیم کی غیر مؤثر حیثیت کے متبادل پر غور کرناتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیٹھک کے تجویز کنندگان میں سب سے اہم کردار پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا تھا، لیکن سعودی دباؤ کے باعث عین وقت پر پاکستان نے شرکت سے معذرت کر لی، جس نے مسلم دنیا میں نئی سفارتی صف بندی اور قیادت کے بحران کو مزید واضح کر دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان کو امت کی قیادت کا موقع ملا، مگر خان صاحب نے ریال کی سفارت کاری کو ترجیح دی۔ 

یہ اسلامی تعاون تنظیم کو فعال کرنے کا آخری موقع تھا جو ضائع کردیا گیا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی پر امت کی قیادت کا عزم لے کر بننے والی تنظیم، غزہ کی نسل کشی، قطرپر حملے اور فلسطینی قیادت کے قتل پر صرف بیانات جاری کر رہی ہے۔ تنظیم کی قیادت ان ممالک کے زیرِ اثر ہے جنھوں نےاسرائیل سے تعلقات بڑھائے اور اب تنظیم کو اپنے مفادات کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔حالیہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے ’بزدلانہ‘ حملے کی مذمت تو کی گئی، مگر کوئی ٹھوس سیاسی یا اقتصادی منصوبہ سامنے نہ آیا۔ خلیج تعاون کونسل نے مشترکہ دفاعی نظام کی بات تو کی، مگر عملی مزاحمت کا کوئی نقشہ پیش نہیں کیا گیا۔ 

کیا اُمتِ مسلمہ نئی قیادت، نئی صف بندی اور نئی مزاحمت کے لیے تیار ہے؟ یا تنظیم کو تاریخ کا ایک ناکام تجربہ مان کر اسرائیل اور امریکا کے سامنے ہتھیار رکھ دینے ہی میں عافیت سمجھی جائے گی؟