ایک زمانے کی بات ہے، ایک گاؤں میں مختلف قبیلوں کے لوگ آباد تھے۔ ان میں ایک قبیلے کی آبادی سب سے زیادہ تھی، جب کہ باقی قبیلے اقلیت میں شمار ہوتے تھے۔اچانک اکثریتی قبیلے کے چند افراد کی نظر اقلیت کی زمینوں اور جائیدادوں پر پڑی، جو انھیں اپنے آبا و اجداد سے ورثے میں ملی تھیں اور جنھیں وہ ’وقف ‘ کہا کرتے تھے۔ بس پھر کیا تھا، ان لوگوں نے گاؤں میں ایک جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا دیا کہ ’’یہ لوگ ’لینڈ جہاد‘ کر رہے ہیں‘‘۔ کیونکہ گاؤں کا سردار انھی چند افراد کا سرپرست تھا اور انھی کا ہم نوا تھا، اس لیے اس پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر اس نے وقف کی زمینوں سے متعلق موجودہ قانون میں ترمیم کر ڈالی۔ وہ ان اقلیت والوں کو کہتا تھا، ’’یہ سب تمھاری بھلائی کے لیے ہے۔ میں تمھیں نئے قوانین دے رہا ہوں تاکہ تم بہتر زندگی گزار سکو‘‘۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ ترمیمیں صرف ان کی وقف زمینیں چھیننے اور انھیں مزید کمزور کرنے کا آلہ تھیں۔
گاؤں کے اقلیتی طبقے نے آواز اٹھائی، احتجاج کیا، ہر گلی کوچے میں اپنی فریاد سنائی، مگر سردار کے پاس طاقت بھی زیادہ تھی اور اثر و رسوخ بھی۔ آخرکار اقلیتی لوگ گاؤں کے چند انصاف پسند افراد کے سہارے عدالت پہنچے۔ عدالت میں طویل سماعتیں ہوئیں: دلائل دیے گئے، اعتراضات اور وضاحتیں سامنے آئیں۔ ایک طویل انتظار کے بعد عدالت نے اپنا عبوری فیصلہ سنایا، ’’پورے قانون کو ختم کرنے کی فی الحال کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ تاہم کچھ شقوں کو عارضی طور پر معطل کیا جاتا ہے‘‘۔ اس پر اقلیت کے لوگ سوچ میں پڑ گئے کہ کیا وہ اس فیصلے پر خوشی منائیں یا احتجاج کریں؟ ان کی آنکھوں میں سوال تھا: کیا یہ انصاف ہے یا محض وقتی دلاسا؟ کیا یہ جیت ہے یا صرف ہار کو خوشنما بنانے کی کوشش؟ وہ لوگ گاؤں کے کھنڈرات کے سامنے کھڑے اپنے حالات پر افسوس کرتے رہے، شاید خود سے یہ پوچھتے ہوئے: ’’جب سب کچھ لٹ چکا ہو تو انصاف کا ایک کاغذ آخر ہمیں کیا دے سکتا ہے؟ ایک دن یہ وقف بھی مٹ ہی جائے گا‘‘۔
اب تک آپ اس کہانی کے ذریعے انڈین مسلمانوں کے دلوں کی کیفیت کو بخوبی محسوس کر چکے ہوں گے۔ میرا اشارہ وقف ایکٹ ۲۰۲۵ء پر سپریم کورٹ کے حالیہ عبوری فیصلے کی طرف ہے۔ اس فیصلے میں اگرچہ چند دفعات کو عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے، لیکن متعدد دیگر دفعات کے حق میں بات کی گئی ہے، جو یکساں طور پر غیر منصفانہ معلوم ہوتی ہیں۔ — گویا ان کے جواز کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ایسے میں یہ فیصلہ مسلمانوں کے اندر بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کو کم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ رویہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب مسلمانوں کو ریاستی طاقت کے بے جا استعمال پر شدید تشویش ہے۔ مجموعی طور پر یہ فیصلہ اطمینان بخش نہیں ، تاہم دفعہ 3C کے تحت کلیکٹر کو دیئے گئے غیر معمولی اختیارات پر روک لگایا جانا ایک مثبت پیش رفت ہے۔ جس کا مطلب ہے، باقی تمام وقف جائیدادوں کے سلسلے میں مسلمانوں کو طویل اور مشکل عدالتی جنگ لڑنی ہوگی۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا ہے: ہم یہ نہیں پاتے کہ پورے قانون کو معطل کرنے کی کوئی معقول بنیاد موجود ہے۔ لہٰذا، متنازعہ قانون کو معطل کرنے کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ البتہ، ایسا کرتے ہوئے، تمام فریقین کے مفادات کے تحفظ اور انصاف کے تقاضوں میں توازن برقرار رکھنے کے لیے، جب تک ان مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، ہم درج ذیل احکامات جاری کرتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد کہا گیا ہے: ’’ترمیم شدہ وقف ایکٹ کی دفعہ ۳کی شق (R) میں موجود یہ عبارت: ’’کوئی بھی شخص جو یہ ظاہر کرے یا ثابت کرے کہ وہ کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہے‘‘، کو اس وقت تک معطل رکھا جائے گا، جب تک ریاستی حکومت اس بات کا تعین کرنے کے لیے کوئی ضابطہ (Rule) وضع نہ کر دے کہ آیا کوئی شخص واقعی کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل کررہا ہے یا نہیں؟‘‘۔ عدالت نے اس شق کو عارضی طور پر معطل تو کیا ہے، مگر اس کو سرے سے کالعدم قرار دینے سے گریز کیا۔ یہ دفعہ دراصل مذہبی شناخت کی ریاستی نگرانی کو جنم دیتی ہے، جو آئین کے آرٹیکل ۲۵ (مذہبی آزادی) کے منافی ہے۔ کیا کوئی ریاست یہ طے کرے گی کہ ایک شخص کتنا ’مسلمان ‘ہے؟ یہ اپنی جگہ خود ایک خطرناک نظریاتی سوال ہے جو مذہب میں ریاستی مداخلت کے دروازے کھولتا ہے۔
اس کے بعد اس فیصلے میں ترمیم شدہ وقف ایکٹ کی دفعہ ۳ سی کی ذیلی دفعات (۲)، (۳) اور (۴) کو بھی عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے۔ ان دفعات کے تحت، ایک افسر کسی جائیداد کو سرکاری زمین قرار دے کر وقف ریکارڈ سے نکال سکتا تھا۔ عدالت نے کہا ہے کہ جب تک ٹریبونل فیصلہ نہ دے اور ہائی کورٹ کوئی اور حکم نہ دے، وقف املاک سے کسی کو بے دخل نہیں کیا جائے گا اور نہ وقف بورڈ یا ریونیو ریکارڈ میں کوئی تبدیلی کی جائے گی۔ اور جب تک فیصلہ نہ ہو، اس دوران ایسی املاک پر کسی تیسرے فریق کا حق نہیں پیدا کیا جا سکتا۔
یہ اقدام وقتی طور پر وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے سودمند ہے، مگر عدالت نے اس پورے عمل کو غیر آئینی قرار دینے سے گریز کیا۔ یہ بھی کافی حد تک واضح نہیں ہے کہ وقف ایکٹ ۲۰۲۵ء کے نافذ ہونے سے لے کر اس فیصلے کے آنے تک کے درمیان کئی ریاستوں میں کئی وقف جائیدادوں کو وقف کی تعریف سے باہر کردیا گیا، اب ان کا کیا ہوگا؟ مثال کے طور پر مہاراشٹرا میں تقریباً ۱۵۰ سال پرانا حاجی اسماعیل حاجی حبیب مسافر خانہ کو مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ کے ذریعے ۸؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو ’غیر وقف ادارہ‘ قرار د دیا جانا، جب کہ ۹؍ اپریل ۲۰۱۹ء کو اسی وقف بورڈ نے اس مسافر خانے کو وقف جائیداد کے طور پر رجسٹر کیا تھا۔
یہاں یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ انڈیا کی موجودہ مرکزی حکومت اس وقف ایکٹ میں ترمیم کرتے وقت یہ کہتی رہی ہے: ’’وہ مسلمانوں کی بھلائی چاہتی ہے اور وقف املاک کو غیر قانونی قبضوں سے بچانا چاہتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈیا میں وقف کی جائیدادوں پر غیر قانونی قبضوں کے معاملے میں حکومت کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی ہے اور آج بھی نہیں ہے۔ اگر واقعی حکومت اپنے دعوے میں مخلص ہے اور مسلمانوں کی بھلائی چاہتی ہے تو سب سے پہلے ان وقف املاک کو مسلمانوں کو واپس کرنا چاہیے، جن پر حکومت نے خود ہی غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ ۲۰ جولائی ۲۰۲۰ءکو انڈین مرکزی وقف کونسل سے آر ٹی آئی کے تحت معلومات کے مطابق ملک میں۱۸۲۵۹ وقف جائیدادوں کے ساتھ ساتھ ۳۱۵۹۴ ؍ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ اسی مرکزی وقف کونسل کے مطابق جولائی ۲۰۲۰ء تک ۱۳۴۲ جائیدادیں اور ۳۱۵۹۴ ایکڑ زمین مختلف سرکاری محکموں یا ایجنسیوں کے قبضے میں ہے۔ یاد رہے ان اعداد و شمار میں گجرات، تلنگانہ اور اتر پردیش کے شیعہ مرکزی وقف بورڈ کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ ان جائیدادوں سے کیا مسلمانوں کو ہاتھ دھونا پڑے گا یا یہ وقف بورڈ اس پر کچھ کر سکے گا؟ اس پر عدالت کی طرف سے پوری طرح خاموشی ہے۔
اس فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ’’مرکزی وقف کونسل (۲۲؍ ارکان) میں غیرمسلم ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار ہوگی، وہیں ریاستی وقف بورڈ (۱۱؍ ارکان) میں غیرمسلم ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ تین ہوگی‘‘۔ ظاہری طور پر دیکھنے میں یہ فیصلہ خوش کن ہو سکتا ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسی بہانے ہمارے کچھ ہندو بھائی وقف سے جڑی چیزوں کو جانیں اور سمجھیں گے۔ اچھے لوگ اگر وقف بورڈ میں ہوں گے تو وہ بورڈ کے دیگر ممبران کو چیک بیلنس رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ قدم وقف بورڈ کو برباد کرنے والا بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اچھے لوگوں کے آنے کے امکانات موجودہ حالات میں کم ہی نظر آتے ہیں، کیونکہ ہم نے دیکھا کہ جس ریاست میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے، اسی پارٹی یا آئیڈیولوجی کے لوگوں کا وقف بورڈ میں دبدبہ ہوتا ہے۔یہی چیز مسلمانوں کے وقف کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس طرح وقف بورڈ نے ہی سب سے زیادہ وقف کو نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ مسلمان نمائندوں نے کبھی وقف کے تحفظ کی خاطر آواز نہیں اٹھائی، یہاں تک کہ قبرستان کے معاملے میں بھی خاموش رہے، جب کہ دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کے کئی قبرستان غائب ہوگئے ہیں، یہاں تک جس گڑگاؤں میں مسلمان سڑک پر نماز پڑھنے کے لیے مارےپیٹے جارہے تھے، اسی گڑگاؤں میں ہریانہ وقف بورڈ مسجد تک کو ہندوؤں کو لیز پر دے رکھا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم اقلیتی اداروں میں غیر مسلموں کی موجودگی خود ان اداروں کی خودمختاری کے خلاف نہیں؟ کیا اکثریتی مذہب کے ماننے والے (خاص طور پر ہندتوا آئیڈیالوجی سے جڑے افراد) کسی اقلیتی مذہبی ادارے میں فیصلہ سازی کا حصہ بن سکتے ہیں؟ یہ نہ صرف اقلیتوں کے انتظامی حقوق (Article 26) کی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی آزادی کے اصول کو بھی مجروح کرتی ہے۔ اس عبوری حکم کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مودی حکومت کی اس شق کو آئینی تسلیم کر لیا ہے، جب کہ انڈین آئین کا آرٹیکل ۲۶مذہبی برادریوں کو اپنے ادارے خود چلانے کا حق دیتا ہے۔ کوئی بھی قانون جو اس حق سے محروم کرے، غیر آئینی ہے، اور افسوس کہ سپریم کورٹ نے اس غیر آئینی شق کو مسترد کرنے کے بجائے، صرف اس کی حد مقرر کی۔
ساتھ ہی عدالت نے دفعہ ۲۳ کو معطل نہیں کیا، مگر ہدایت دی: ’’ممکنہ حد تک وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر، جو بورڈ کا سیکریٹری بھی ہوتا ہے ، مسلمان ہونا چاہیے‘‘۔ دراصل، عدالت کا یہ کمزور موقف اس خدشے کو برقرار رکھتا ہے کہ غیر مسلم افسر کو بھی وقف بورڈ کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے، جو نہ صرف مذہبی جذبات کے خلاف ہو گا بلکہ مسلم ادارے کی نمائندگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے: ’’ہم واضح کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا مشاہدات صرف ابتدائی غور کے لیے ہیں تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ متنازعہ قانون یا اس کی کسی مخصوص دفعہ کو عارضی طور پر معطل کیا جائے یا نہیں؟ ان مشاہدات کی بنیاد پر فریقین کو ترمیم شدہ وقف ایکٹ یا اس کی کسی بھی دفعہ کی آئینی حیثیت پر دلائل دینے سے نہیں روکا جائے گا‘‘۔
عدالت نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس کے یہ مشاہدات محض عبوری نوعیت کے ہیں اور حتمی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ لیکن تاثر یہی ملتا ہے کہ عدالت شاید سیاسی دباؤ یا معاملے کی حساسیت کے سبب آئینی اور قانونی نکات پر کھل کر رائے دینے سے گریزاں ہے۔ یہ طرزِ عمل آزاد عدلیہ کے اصول کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، خاص طور پر اس وقت جب بنیادی حقوق اور اقلیتی مفادات داؤ پر لگے ہوں۔ فیصلے کا یہ پہلو انڈین مسلمانوں میں مزید بےچینی اور اضطراب پیدا کرتا ہے۔ وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر عدلیہ بھی واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار نہ کرے، تو انصاف کی امید کہاں سے رکھی جائے؟ آخر کار، تاریخ یہ سوال ضرور اٹھائے گی کہ کیا انصاف محض کاغذی الفاظ میں قید رہ گیا، یا واقعی کمزوروں کی ڈھال بن سکا؟