اکتوبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

اُمت مسلمہ: تقدیر کے انتظار میں؟

اسماعیل صدیق عثمان | اکتوبر ۲۰۲۵ | احوال اُمت

Responsive image Responsive image

اہل غزہ کو بھوک پیاس، آتش و آہن اور سخت حصار و محاصرے کے ذریعے موت کے منہ میں پہنچانے کی خبریں اور رپورٹیں اس وقت ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر ہم دیکھ رہے ہیں۔ ان مناظر کی المناکی بتاتی ہے کہ اہل غزہ کن سخت حالات سے دوچار ہیں۔ ان کی اجتماعی نسل کشی کا جو بھیانک مظاہرہ اسرائیل نے ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے شروع کر رکھا ہے، اس پر اُمت مسلمہ کی خاموشی مسلمانوں کی بے بسی اور کمزو ری کو ظاہر کرتی ہے یا ان کی بے حسی کا شرمناک مظاہرہ ہے۔ اس ناگفتہ بہ حالت کو جو نام بھی دیا جائے بہرحال یہ حالت آج سے پہلے کبھی اُمت پر نہیں گزری۔ نہایت تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اہل غزہ پر ظلم و ستم اور تباہی و بربادی کا یہ سلسلہ اُمت مسلمہ کے وافر مادی اور افرادی وسائل و امکانات کے باوجود جاری ہے۔ اُمت کے پاس ایسی طاقت موجود ہے جو عالمی سطح پر ایک وزن رکھتی ہے اور اس وزن کو محسوس بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے پاس کئی ملین پر مشتمل افواج موجود ہیں۔ قدرتی وسائل کی بے حد و حساب دولت سے اُمت مالامال ہے، سب سے بڑی دولت تیل ہے جس کو بطور دبائواستعمال کرکے اُمت عالمی معیشت کو ہلاسکتی ہے۔ 

قوت و طاقت کا توازن قائم کرنے کے لیے اُمت کے پاس وسائل کی کمی نہیں، تاہم اس کو ایسی فکر اور ایسے مفکرین کی ضرورت ہے جو ان حالات کے اسباب کو جان کر اس کا حل وضع کرسکیں۔ خاص طور پر مغربی دُنیا کے اسرائیل کے صہیونی نظام کے تابع فرمان ہونے کی صورت میں اُمت کے لیے کوئی لائحہ عمل وضع کرنا۔  

یہ مسلمانوں کی کمزوری اور قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد و نصرت سے ہاتھ کھینچ لینا ہی تھا جس نے مغرب کو اسرائیل کی حمایت کا حوصلہ دیا۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم اُن اسباب کو جاننے کی کوشش کریں جنھوں نے ہمیں بے بسی و بے چارگی کی اس حالت تک پہنچایا ہے اور معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ محاصرین نے غزہ میں انسانی امداد کی رسائی تک کو روک رکھا ہے۔ 

ان حالات سے نبٹنے کے لیے، موجودہ نہیں تو آئندہ کے لیے یا آئندہ نسلوں کی خاطر ہی سہی ہمیں کوئی لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ زیادہ نہیں تو دشمن ہی سے سبق حاصل کرلیا جائے کہ ۱۸۹۷ء میں مٹھی بھر یہودیوں نے ریاست ’اسرائیل‘ کے قیام کا منصوبہ ایک کانفرنس میں بنایا اور پچاس سال بعد عملاً اس مقصد کو حاصل کرلیا۔ اگرچہ بزدلی و کم ہمتی اور باہمی چپقلش ان میں بھی موجود ہے لیکن پھر بھی وہ سوچتے ہیں، غوروفکر کرتے ہیں، منصوبے بناتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لیے عملی طور پر مصروف ہو جاتے ہیں۔ اور ہمارا کیا حال ہے؟ ہمارے اُوپر بے کاری و بے فکری اور اسباب و وسائل کے ضیاع کی قابلِ رحم حالت طاری ہے۔ یہ ایسا خطرناک اور مہلک مرض ہے جو قوموں کو لاحق ہوجائے تو زمین سے اُن کا وجود اور تاریخ سے اُن کا تذکرہ مٹادیتا ہے ، جب کہ اُدھر ہم نیتن یاہو کے بیانات کی صورت میں باطل کو روز بروز سر اُٹھاتا دیکھ رہے ہیں۔امریکی صدرٹرمپ کی گفتگو میں اس کی حکمرانی کو اُونچی سطح پر دیکھتے ہیں اور لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں بوڑھوں کا قتل عام بڑھتا ہوا پاتے ہیں۔  

ہم روزانہ کی بنیاد پر دشمنانِ خدا کو دن رات سازشیں کرتے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے تباہ کن مادی اور تکنیکی و انسانی وسائل سے کام لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے مقابل ہماری بے فکری میں اسی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے۔ گویا ہم کوئی کھلونا ہیں جن کو یہود اور ان کے پیروکار کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ یا یوں کہیے کہ ہم اُن کے نزدیک شطرنج کے وہ مہرے ہیں جن کو کچھ سمجھے بغیر دائیں بائیں بڑی بے دردی سے پھینکا جاتا ہے۔ 

آزمائش پر آزمائش اُمت مسلمہ کا مقدر ہے۔ اس کا دائرئہ حیات روز بروز تنگ سے تنگ کیا جارہا ہے۔ اس کی ہمت کمزوری کے آخری درجے پر پہنچی ہوئی ہے۔ اس وقت ہم پسپائی و نااُمیدی کے سمندر میں غرق ہیں۔ ہرکوئی صرف اپنے آپ کو محفوظ و مامون بنانے کی فکر میں ہے ۔اس لیے گوشہ نشین اور غیرجانب دار ہوکر دبکا بیٹھا ہے۔ ہر کوئی تقدیر الٰہی کے فیصلے کا منتظر ہے کہ وہ آئے اور ہماری کسی حرکت و عمل کے بغیر ہمیں اس حالت سے باہر نکال دے۔ کیا یہ سقوط و خاتمے کی علامات نہیں؟ کیا یہ ضُعف ایمان کی نشانیاں نہیں؟ کیا یہ قادرِ مطلق اور اس کی رہنما کتاب پر عدم یقین نہیں؟ 

مسئلۂ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ یہ تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ یہ ہرمسلمان کی نسبت سے اسلامی عقیدے کا مسئلہ ہے۔ یعنی اُن لوگوں کا مسئلہ ہے جو ایمانی اخوت کے ذریعے ہمارے ساتھ مربوط اور جڑے ہوئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔  

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے: 

مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی تَوَادِّھِمْ وَتَرَاحُمِھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ  الجَسَدِ ، اِذَا  اشْتَکٰی مِنْہُ  عُضْوٌ تَدَاعَی لَہُ  سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّھَرِ وَالْحُمَّی  (بخاری، حدیث: ۵۶۷۱) مومنوں کی مثال باہمی مودت و رحمدلی اور محبت و مہربانی میں جسم کی مانند ہے کہ جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو بے خوابی اور بخار سے سارا جسم بلبلا اُٹھتا ہے۔ 

اہل ایمان میں سے مضبوط اور حقیقی مسلمان وہ ہوتا ہے جس کا اپنے اللہ پر پختہ یقین ہو، اس کے اُوپر بے حد توکّل ہو۔ وہ اسباب و ذرائع سے کام لیتا اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامتا ہے۔ مددو نصرت کے موقع پر اُسے بے یارومددگار چھوڑ جانے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور نہ کوئی مخالف اُسے کوئی تکلیف دے سکتا ہے جب تک اللہ کی طرف سے منظور نہ ہو۔ اسے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ اللہ اُس کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ساتھ قوت و طاقت کے عناصر میں سب سے بڑا عنصر ہے۔ مسلمان نااُمیدی سے آشنا نہیں ہوتا۔ وہ باطل کی طاقت سے نہ مرعوب ہوتا ہے اور نہ اس کے سامنے ہتھیار ڈالتا ہے بلکہ وہ باطل کے مقابلے کے لیے اپنے اندر ہمت پیدا کرتااور اپنے دفاع میں صبروبرداشت سے کام لیتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۝۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۝۱۷۳  (اٰل عمرٰن ۳:۱۷۳)  جن سے لوگوں نے کہا کہ: ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سن کر اُن کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ: ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ 

غزوئہ اُحد کے موقع پر صحابہ کرامؓ کی ثابت قدمی اور جانبازی ہمارے لیے اُسوہ و نمونہ ہے۔ اس وقت جب کبار صحابہ کرامؓ شہید ہوگئے اور مسلمانوں کی قوت ٹوٹ گئی تو نہایت اہمیت کی حامل اس حقیقت کو یقینی طور پر بیان کرنے کے لیے قرآنِ مجید نازل ہوا۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ مومن ہمیشہ عزّت و رفعت اور بلندی و سرفرازی کا سوچتا ہے۔ موت کا خوف اوریاس و نااُمیدی کا گزر اس کے دل میں نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ عجز و انکساری کی حالت میں بھی یہ چیز اس کے دل میں داخل نہیں ہوسکتی۔ قرآن مجید نے اس صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: 

وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳۹ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔  

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان بلندوبالا مقام پر ہوتا ہے، انھیں اپنے دین پر فخر ہوتا ہے۔ دُنیا کی طاقت ور قوموں کا بھی ان کو مقابلہ کرنا پڑے تووہ اپنے اندراس کی ہمت اور جرأت رکھتے ہیں۔ 

ہمیں اپنے پیش رو ملکوں اور قوموں سے سبق سیکھتے ہوئے اس امریکی صہیونی منصوبے کو روکنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے جس کے مطابق وہ خطّے میں اپنا تسلط مضبوط کرنا اور اہل خطّہ کو ان کی شناخت، ورثے اور امتیاز سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ وہ اُمت کو نرگسیت کی طرف لے جاکر روحِ جہاد کو ان کے دلوں سے کھینچ لینا چاہتا ہے۔ 

آج اُمت عملی طور پر مایوسی و بے بسی اور اپنے بھائیوں کی مدد و نصرت سے کنارہ کشی کے جس فتنے سے گزر رہی ہے معاذاللہ وہ اسے دین میں نقص اور کمزوری کی طرف لے جارہا ہے۔ دشمن اُمت پر طاری مایوسی و نااُمیدی کو حقیقت بنانے کی جدوجہد کر رہا ہے اور اُمت کے اپنے معزز و سچے دین اسلام کے ساتھ وابستگی اور تعلق میں ضُعف اور انحطاط کو گہرا کر رہا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عقیدے کی چنگاری کو زندہ کیا جائے تاکہ وہ اُن دلوں میں شعلہ بن جائے جن دلوں پر پستی و پسپائی کا غلبہ ہوچکا ہے۔ وہ قوت و طاقت کے حصول کی اس تیاری سے منہ موڑے کھڑے ہیں جس کا اہتمام و التزام کرنے کا ان کو خاص طور پر حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ ان حالات سے نکل سکیں جن سے آج اسلام دوچار ہے۔ ضروری ہے کہ مسلمانوں کا ایک ایک فرد اس خطرے کو ٹالنے اور روکنے میں اپنا حصہ ادا کرے۔ وہ خطرہ جو اسلامی مفاہیم و معانی کو تلپٹ کر رہا ہے۔ اُمت کی شناخت کے ساتھ مربوط مفاہیم کو مسخ کر رہا ہے۔ ترجیحات کو سمجھنے سے بیگانہ کر رہا ہے، مصلحت کے فہم میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے، حادثاتی طور پر پیدا ہوجانے والے حالات کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے کی فکر سلب کر رہا ہے۔ لہٰذا، اسلام کا جوہر اُس وقت تک باقی ہے جب تک یہ مسلمانوں کے دلوں اور اُن کے مظاہر حیات میں موجود ہے۔ 

ہمیں اسلامی سوسائٹی کے بعض روشن پہلوئوں کے وجود سے انکار نہیں۔یہ اُسی طرح متحرک و سرگرمِ عمل ہیں جس طرح عموماً انسانی معاشرہ باہم متحرک ہوتا ہے۔ یعنی غزہ میں جاری قتل و غارت اور ظلم و ستم کے خلاف دُنیا بھر کے دارالحکومتوں میں ہونے والا احتجاج۔ بعید نہیں کہ آج کے یہ احتجاجی مظاہرے کسی بھی لمحے آتش فشاں بن جائیں اور جس قدر تبدیلی لاسکتے ہوں لے آئیں، کم سے کم غزہ کے محاصرے کو توڑ کر غذا و دوا اور بچوں کے لیے دودھ کی فراہمی کو ممکن بناسکیں۔ اُمیدکا ایک پہلو یہ ہے کہ بے بسی و لاچاری نے اسلامی معاشروں کو ابھی مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں نہیں لیا ہے۔ ان کے اندر جہاد کی روح نے جاگنا اور پنپنا ابھی بند نہیں کیا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے کہ  جس سے پوری اُمت کو خیرکثیر کا پھل ملنے کی اُمید ہے۔ یہ پہلو اُمت کے بعض دلوں میں جاگزیں، مایوسی و شکست خوردگی کا خاتمہ کرسکتا ہے۔  

اُمت کو صرف رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اس کے سامنے ایسا عملی پروگرام پیش کرسکے جو دلوں میں بیٹھی صورتِ حال اور معاشروں میں پھیلی بے راہ روی اور بے مقصدیت کو درست کرسکے۔ اس کے مسائل کے حل کے لیے اس کی کمزوری کے نکات کوواضح کرسکے اور اَزسرنو اس کے اندر اعتماد کا بیج بوسکے۔ یہ ہمارے اُوپر فرض ہے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں، شہدا اور ان کے بہنے والے خون کو ، ان کے زخمیوں کے درد کو، اور ان کی بھوک پیاس اور دیگر آلام کو محسوس کریں۔ اس کے ساتھ ہی ہم اُن کے دفاع میں جس قدر ہوسکتا ہے مال و جان کے ذریعے شاملِ جہاد ہوجائیں۔ یہ ہمارا انسانی سے پہلے دینی فریضہ ہے۔ جی ہاں! یہ ہمارے اُوپر فرض ہے کہ ہم اپنی طاقت و قدرت کے مطابق جہاد کے لیے نکلیں جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ (التوبۃ ۹:۴۱) نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ۔ 

کل کے بجائے اگر آج اُمت مسلمہ متحرک نہ ہوئی ،اور وہ بھی اس فیصلہ کن موقع پر، اور تاریخ کے ایسے غیرمعمولی حالات اور باضابطہ جرائم اور مظالم میں، تو پھر کب متحرک ہوگی؟ اور پھرکس بنیاد پر متحرک ہوگی؟ اور اپنے دینی بھائیوں کے خلاف غیرجانب داری اور مدد و نصرت سے پہلو بچانے کی حالت کب ختم ہوگی؟اور یہ غیر جانب داری کا اسلامی ہونا تو جائز ہی نہیں ہے بلکہ غیرجانب داری کو عسکری یا سیاسی یا اقتصادی کسی قسم کی کمزوری بھی جائز نہیں ٹھیراتی۔ اس لیے کہ اربوں کی تعداد پر مشتمل امت کے پاس ان تمام پہلوئوں کے اعتبار سے وافر وسائل اور دولت موجود ہے۔ وسائل و افراد سے مالامال اس اُمت کے لیے دشمن یہی چاہتا ہے کہ اُمت نام نہاد انسانیت کے نام پر بے حسی کا مظاہرہ جاری رکھے جو خاموشی کے علاوہ کسی شے سے واقف نہ ہو۔ جسے نرگسیت اور چت ہونے کے علاوہ کوئی تجربہ نہ ہو۔ لہٰذا آج اُمت مسلمہ ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے، جو تفسیروعمل کے صحیح قرآنی منہج کی طرف رجوع کو اس کے اُوپر لازم کرتا ہے___  وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ !