رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے قبل مبعوث ہونے والے تمام انبیاؑ اور رسولوںؑ کی بعثت کا حتمی مقصد اگرچہ تمام انسانیت کو عدل پر مبنی معاشرہ میں منظم و قائم کرنا ہی ہے جیساکہ سورئہ حدید کی آیت ۲۵ میں ارشاد ربانی ہے: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ (۵۷: ۲۵) ’’ہم نے اپنے رسولوںؑ کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔مگر کارِ رسالت کی ابتدا ہر نبیؑ و رسولؑ کی طرح آپؐ نے تعلیم کتاب و حکمت سے ہی فرمائی۔ قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے: وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۤ ’’اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۱۲۹، اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴، الجمعۃ ۶۲:۲)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنیادی حقیقت کو یوں بیان فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا (ابن ماجہ، ۱/۱۵۰)، ’’مجھے معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے‘‘۔
مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا یہ فریضہ آپؐ کے دمِ وصال تک جاری رہا۔ اس لیے اسلام میں معلم ہونا بہت عزّت و شرف کا مقام ہے۔ معلم، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر قوم کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ معلّمین کا شمار قوم کے باشعور طبقے میں ہوتا ہے۔ان کے فرائض منصبی میں اپنے تلامذہ کو عقلی، تجرباتی اور وحی کے علوم سے متصف کرکے قوم کی کردارسازی، تزکیۂ نفس اور قیادت کی تیاری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی مسلمانوں کی براہِ راست تعلیم و تربیت کو اوّلین ترجیح دی اور سرزمین مکہ و مدینہ سے باہر بھی لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے چیدہ چیدہ اصحابؓ کو معلم بنا کر بھیجا۔ اسی طرح وفود کی شکل میں عرب کے مختلف گوشوں سے آنے والوں کی تعلیم و تربیت کا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصی اہتمام فرماتے تھے کیونکہ اسلامی عقیدہ کے درست ہونے کے لیے ’علم‘ بنیادی شرط ہے اور علم کے بغیر ارکانِ اسلام اور زندگی کے باقی معاملات عبادت بن ہی نہیں سکتے۔ اس لیے علم کے بغیر اسلامی زندگی کا تصور ہی محال ہے۔
یثرب جو کہ مدینۃ الرسول، اور اسلامی ریاست کا مرکز بننے جارہا تھا، وہاں کے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اسی حقیقت کے تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیرؓ کو معلّم بناکر بھیجا۔ تاریخ اسلام میں وہ پہلے معلّم ہیں جنھوں نے مکہ سے باہر دوسرے شہر میں یہ ذمہ داری نبھائی۔(اسدالغابہ،ج۳، ص ۱۹۶؛ الاصابہ، ج۳ ، طبقات ابن سعد،ج۳، ص ۲۷۶-۲۸۰)
ہجرتِ نبویؐ کے بعد اسلام تیزی سے پھیلا تو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی مختلف مساجد میں باقاعدہ درس و تدریس کا انتظام فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی مختلف قبائل میں تشریف لے جا کر انھیں اسلام کی طرف راغب فرماتے تھے۔ دوسری طرف دُور دراز کے وہ قبائل جو ایمان کی تڑپ لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپؐ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے اور اس کے بعد ان کو انھی کے قبیلوں میں دعوتِ اسلام اور تعلیم و تربیت کے لیے مقرر فرما دیتے تھے۔
احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عموماً ہم عمر نوجوان ہوتے جو ٹولیوں کی شکل میں حاضر خدمت ہوا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں صحیح بخاری میں ابوسلیمان مالک بن حویرثؓ سے مروی ہے کہ ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیس دن تک رہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آرہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ان کی بابت پوچھا جنھیں ہم اپنے گھروں پر چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمخود بھی بڑے نرم خُو اور رحم دل تھے، اس لیے آپؐ نے ہمیں اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دے دی اور تاکید فرمائی کہ جو کچھ تم نے یہاں سیکھا ہے وہ اپنے گھر والوں کو بتائو اور سکھائو۔ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک شخص تمھارے لیے اذان دے اور پھر جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرے (صحیح بخاری ،حدیث: ۹۴۸)۔ اسی طرح آپؐ نے ابوذرغفاریؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ، طفیل بن عمردوسیؓ اور دوسرے متعدد اصحاب کو انفرادی طور پر اپنے اپنے قبیلوں میں دعوتِ دین اور تعلیم و تربیت کے لیے تعینات فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے گئے معلّمین کو جہاں لوگوں نے عموماً خوش آمدید کہا اور ان سے علمی، دینی اور فقہی استفادہ کیا، وہیں ابتدا میں بعض معلّمین کو نامساعد حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں بئرمعونہ کا واقعہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ جب ابوبراء بن مالک کلابی نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے قبیلے کی تعلیم و تربیت کے لیے معلّمین بھیجنے کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرما کر ۴۰؍ اور بعض کے نزدیک ۷۰ معلّمین کو نجد روانہ فرمایا، جنھیں بئرمعونہ کے مقام پر بدعہدی کرکے شہید کردیا گیا۔ بدعہدی کرنے والوں کو درپردہ مدینہ کے یہود بنی نضیر کی حمایت حاصل تھی۔ اس بدعہدی اور المناک واقعہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید صدمہ پہنچا اور آپؐ نے مہینہ بھر فجر کی نماز میں ان ظالموں کے حق میں بددُعا کی۔ یہ دل خراش واقعہ ۶ہجری کو پیش آیا تھا۔ (صحیح بخاری،کتاب المغازی)
دراصل بنیادی اور اہم بات یہ تھی کہ محض اسلام کی تبلیغ سے نہ تو سرزمین عرب پر اسلامی ریاست کی توسیع و استحکام کا مقصد حاصل کیا جاسکتا تھا اور نہ دین کے قیام و بقا کی ضمانت مل سکتی تھی، جب تک کہ اسلامی تعلیمات کو ہرمسلمان کے رگ و ریشے میں اُتار نہ دیا جاتا۔ اس بناپر قرآن حکیم کا حکم ہے کہ ہرطبقہ میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو دین میں تفقہ کا درجہ حاصل کرے تاکہ وہ عام مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
ارشادِ ربانی ہے: فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۱۲۲ (التوبہ۹:۱۲۲) ’’پس ایساکیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہرحصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے‘‘۔
چنانچہ دین اسلام کی تعلیم و تدریس اور اصول اسلام کی تفہیم و تشریح کارِ نبویؐ کا اہم ترین حصہ تھا جس کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا ہی سے پوری توجہ دی تھی۔
اس میدان میں سب سے اہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات گرامی تھی جو معلّم اوّل اور مرجع اساسی کا درجہ رکھتی تھی۔ تمام صحابہ کرامؓ دین اسلام کے اصول و فروعات کی تفہیم و تعلیم کے لیے آپؐ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے فقہاء اور اصحابِ علم تھے جو تعلیم و تدریس کے نقش اوّل کے ہوبہو عکس بن کر اُبھرے۔(عہدنبویؐ کا نظامِ حکومت ،ص ۹۶)
ان صحابہ کرامؓ میں معاذ بن جبلؓ، اسعد بن زرارہ خزرجیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، سالم مولیٰ حذیفہؓ اور ابی بن کعبؓ اور چند دیگر کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ فتح مکہ کے بعد اہل مکہ کی تعلیم و تربیت کے لیے معاذ بن جبلؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ کو مقرر کیا گیا تھا، جب کہ اپنی رحلت سے قبل رسولؐ اللہ نے ان دونوں اصحاب کو عامل اور معلّم بناکر یمن بھیجا اور وہ دورِفاروقیؓ تک امارت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے فرائض بھی نبھاتے رہے۔
عمر بن الخطابؓ جب خلیفہ بنے تو اس وقت حالات سازگار ہوچکے تھے۔ شورشوں اور فتنوں کی سرکوبی ہوچکی تھی۔ اس لیے انھیں ابوبکر صدیقؓ کی بہ نسبت فلاحی، سماجی اور کاروبار مملکت چلانے اور منظم کرنے کے لیے زیادہ وقت ملا۔ انھوں نے ریاست کے تمام شعبوں کو منظم کیا اور ان میں اصلاحات کیں۔ مملکت کے دیگر شعبوں کی طرح عمر بن الخطابؓ نے شعبۂ تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ دی اور اس میں انقلابی اصلاحات کیں۔ انھوں نے عاملین کو انتظامی اُمور اور معلّمین کو درس و تدریس کی ذمہ داری سونپ دیں اور تعلیم کو انتظامیہ سے جدا ایک علیحدہ شعبہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے کبار صحابہ کرامؓ میں سے انتہائی جلیل القدر فقیہ صحابہؓ کو شام،مصر، حمص، کوفہ، بصرہ وغیرہ میں تعینات کیا اور ان کے لیے وظائف مقرر کیے۔ یہ معلّمین عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد بھی طویل عرصہ تک مقررہ شہروں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔
عمر فاروقؓ نے تمام مسلمانوں کے لیے قرآن مجید کی تعلیم لازمی قرار دی۔ انھوں نے خصوصاً خانہ بدوش لوگوں کے لیے جو شہروں سے دُور رہتے تھے اور تعلیم وتربیت سے زیادہ رغبت نہیں رکھتے تھے اسلامی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام فرمایا۔ انھوں نے ابوسفیانؓ بن حرب اور چند دیگر افراد کو ایسے معلّمین کے طور پر مقرر کیا جو مختلف جگہوں پر خانہ بدوش عربوں کو قرآن، نماز اور دیگر اُمورِ ضروریہ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔اس کے ساتھ بچوں کو تیراکی، شہسواری، منقولات، الانساب اور شاعری کی تعلیم کا بھی حکم تھا (کنزالعمال، جلداوّل، فی سنن الاقوال والافعال، ص ۲۱۷؛ الفاروق،ص۲۶۴)۔انھوں نے قرآن مجید کے صحیح تلفظ کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم دیا اور تاکید کی کہ قرآن مجید کی صحتِ اعراب کے ساتھ تعلیم دی جائے اور جو شخص لغت کا ماہر نہ ہو وہ قرآن مجید نہ پڑھائے۔(کنز العمال،جلداوّل، ص ۲۲۸ ، بحوالہ اسوۂ صحابہؓ، جلددوم،ص ۴۶۰)
بلاشبہ ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، عثمان غنیؓ اور علیؓ بن ابی طالب بذاتِ خود قرآن، احادیث، فقہ اور اجتہاد میں بے نظیر صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر وہ ریاست کے انتظامی اُمور میں اس قدر مصروف رہا کرتے تھے کہ ان کے لیے باقاعدگی سے تدریسی فرائض سرانجام دینا ممکن نہ تھا، اس کے باوجود ان سے کافی احادیث روایت کی گئی ہیں۔ ایک دفعہ ابوعبدالرحمٰن سلمیؓ نے اپنی تلاوت عثمان غنیؓ کو سنائی اور اصلاح چاہی تو انھوں نے فرمایا کہ میں کاروبارِ حکومت میں مصروف ہوں۔ تم پر توجہ دینے سے میں رعایا اور عام سائلین کو پورا وقت نہیں دے سکوں گا۔ لہٰذا تم جا کر زید بن ثابتؓ کو اپنی تلاوت سنائو اور ان سے اصلاح لو۔ ہمارا منبع فیض یکساں ہے۔(حیات الصحابہؓ، جلدسوم، ص ۳۰۵)
اس طرح دیگر کبار صحابہؓ میں بھی بہت سے افراد علم و فضل میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے مگر وہ باقاعدہ معلّم نہ تھے۔ ان کی عسکری، انتظامی اور دیگر اُمورمیں مصروفیت آڑے آتی تھی اس لیے مخصوص تدریسی ذہن اورمیلان رکھنے والے صحابہ کرامؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں خلفائے راشدینؓ نے بھی تدریسی ذمہ داریاں سونپیں۔
اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مدینہ ہی وہ شہر ہے جہاں پہلے پہل سارے اسلامی علوم پروان چڑھے۔ رحلت ِ نبویؐ کے بعد یہاں صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد تابعین کی بہت بڑی تعداد آباد تھی جنھوں نے علوم القرآن اور حدیث و مغازی پر بہت کام کیا کیونکہ ہجرتِ نبویؐ کے بعد دعوتِ اسلامی کا مرکز مدینہ منورہ ہی رہا اور یہاں سے ہی اسلام پھیلا۔ مدینہ میں رحلت ِ نبویؐ کے وقت موجود صحابہ کرامؓ کی تعداد ۳۰ ہزار بتائی جاتی ہے، جب کہ اسلامی مملکت کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے صحابہ کرامؓ کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ ۲۴ہزار تھی۔(تدوین سیر و مغازی، ص ۱۶۷، سیرت نگاران مصطفٰی ،ص ۱۷)
مدینہ منورہ میں ان تیس ہزار صحابہ کرامؓ میں سے وہ کبار صحابہؓ جو علم و فضل میں یکتا تھے، جن کی علمی بصیرت بے نظیر تھی، جن میں سے ہرایک اپنی ذات میں ایک علمی دبستان تھا۔ انھوں نے مسجدنبویؐ میں ترویج علم کی مسند سنبھالی۔ قرآن، حدیث، فقہ ، مغازی اور علم سَیر کے دروس شروع ہوئے۔ ان صحابہ کرامؓ کی علمی نشستوں کو متلاشیانِ علم نے ’حلقہ‘ کا نام دیا۔ ’حلقہ‘ کی یہ روایت بعد میں تمام اسلامی دُنیا نے اپنائی اور آج بھی مسجد حرام اور مسجدنبویؐ میں نمازِ ظہر اور عصر کے بعد مختلف مقامات پر یہ علمی حلقے قائم ہیں جہاں جید علمائے کرام تعلیم و تدریس کا کام کرتے ہیں۔ کثیر تعداد میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ حلقہ بنا کر بیٹھتے ہیں اور تدریس سے مستفید ہوتے ہیں۔مسجد نبویؐ میں جن اکابر علماء صحابہ ؓ کے ’حلقے‘ قائم ہوا کرتے تھے ، اُن میں ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ اور عبداللہ بن عمرؓ کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
عہد فاروقی میں مسجد نبویؐ کے تعلیمی حلقوں میں صرف اہل مدینہ ہی نہیں بلکہ دُور دراز علاقوں سے متلاشیانِ علم سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرکے آیا کرتے تھے۔ خاص کر ابی بن کعبؓ کے حلقے میں بیرونِ مدینہ کے طلبہ زیادہ شریک ہوتے تھے۔ یہ حلقے مسجد نبویؐ کے مختلف ستونوں کے پاس قائم ہوتے تھے۔ طلبہ معلم صحابیؓ کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے تھے۔ عمر فاروقؓ نے مختلف علاقوں میں بھی معلّمین تعینات کیے تاکہ لوگوں کو علم حاصل کرنے کے مواقع بہ آسانی میسر ہوں۔ عثمان غنیؓ نے مسجد نبویؐ میں توسیع کی تاکہ حلقوں کے شرکا کے لیے مزید گنجائش اور کشادگی ہو۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی یاد رکھنے کا ہے کہ عہد صحابہؓ تک کتاب و سنت اور فقہ و فتاویٰ میں تبخر اور مرجعیت رکھنے والے علما کو قراء کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اور ان کے تلامذہ کے لیے فقہا کا لقب مشہور ہوا جس سے مراد کتاب و سنت اور فقہ و فتویٰ کے جامع حضرات تھے۔ (خیر القرون کے مدارس،ص ۱۸۲)
معلم صحابہ کرامؓ کے طریقۂ تدریس کی جو تصویر صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کے مطالعے سے سامنے آتی ہے، وہ زیادہ تر انفرادی نوعیت اور مزاج کے مطابق ہے۔ ہر ایک کا طریقۂ تدریس جداگانہ رنگ رکھتا تھا۔ تاہم ان کو بحیثیت مجموعی مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
۱- صحابہ کرامؓ حدیث کے علمی مذاکرہ پر بہت زیادہ زور دیا کرتے تھے کیونکہ آپس میں علمی مذاکرہ سے علم حدیث کو بہتر انداز میں محفوظ کیا جاسکتا تھا۔ صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین میں یہ طریقہ زیادہ معروف، پسندیدہ اور مروج تھا۔ بعد میں آنے والے اکابر علماء اور فضلاء نے بھی اس طریقے کو اپنایا۔(علم جرح و تعدیل،ص ۳۶)
۲- معلّم صحابہ کرامؓ شاگردوں کے سامنے حدیث بیان کرتے اور شاگرد اسے زبانی یاد کرتے یا قلم بند کرتے تھے۔ احادیث بیان کرنے کا یہ بہت عمدہ اور اعلیٰ طریقہ تھا۔ بالعموم تمام حلقوں میں یہ طریقہ رائج تھا اور شاگرد اس طریق تعلیم سے حاصل کردہ علم کو سمعنا یا حدثنا کے کلمات سے اپنے شاگردوں تک پہنچاتے۔
۳- تاہم بعض صحابہ کرامؓ احادیث کے تحریر کرنے کے حق میں نہ تھے۔ وہ حدیث کو قلمبند کرنا اچھا نہیں سمجھتے تھے اور طلبہ کو احادیث حفظ کرنے پر زور دیتے تھے۔
۴- تابعین اور تبع تابعین کے دور میں تعلیم و تربیت کا ایک دوسرا طریقہ مروج ہوا کہ جس میں شاگرد اپنے شیوخ کے سامنے ان کا تحریر کردہ نسخہ حدیث پڑھتے اور شیوخ ان کی تصحیح و تصدیق فرماتے۔ اس طریقۂ تدریس کو عرض یا عرض القراء کہا جاتا تھا اورشاگرد اس طریقہ سے حاصل کردہ علم اپنے شاگردوں کو سکھاتے ہوئے أخبرنا کا کلمہ استعمال کرتے۔
۵- بعض شیوخ اپنی احادیث کا نسخہ تیار کرتے اور اسے علم میں پختگی حاصل کرچکنے والے طلبہ کو دے کر اس کو روایت کرنے کی اجازت دے دیتے تھے۔ اس طریقہ کو مناولہ یا عرضِ مناولہ کہا جاتا تھا۔
۶- درس کے دوران توضیح وتشریح کے لیے سوال و جواب کے مواقع بھی میسر ہوتے۔
۷- درس کے اختتام پر شیوخ صحابہؓ اور بعد کے معلّمین اپنے لیے اور شرکاء مجلس کے لیے دُعائے خیر فرما کر حلقہ برخاست کیا کرتے تھے۔
صحابہ کرامؓ کے ساتھ ساتھ صحابیاتؓکا بھی اشاعت ِ علم میں بڑا کردار رہا۔ انھوں نے مسلم خواتین کو قرآن خواندگی اور دیگر فرائض کی تعلیم دی۔ معلمات صحابیاتؓ میں سے اُم المومنین عائشہ صدیقہؓ کا تذکرہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ان کی ذات بابرکت سے مردوں اور عورتوں نے یکساں علمی استفادہ کیا۔ وہ پردے میں بیٹھ کر تعلیم دیا کرتی تھیں۔
اسلامی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ خلفائے راشدینؓ کے بعد ان صحابہ کرامؓ کے حالاتِ زندگی زیادہ تر محفوظ ہیں جنھوں نے بطورِ معلّم فرائض سرانجام دیئے۔ ان معلّمین میں سے بیش تر صحابہ کرامؓ نے باوجود ترغیبات، سرکاری عہدوں اور انتظامی اُمور میں حصہ نہیں لیا اور خود کو درس و تدریس تک محدود رکھا۔ معاش کے لیے اگرچہ سرکاری وظائف کے علاوہ ان کے اپنے ذاتی ذرائع آمدن، جیسے تجارت، زراعت وغیرہ تھے، مگر ان کی اوّلین ترجیح اشاعت علم ہی تھی۔
یہ ان صحابہ کرامؓ کی اَن تھک محنت اور جدوجہد کا ثمرہ ہے کہ اسلامی تعلیمات نہ صرف محفوظ رہیں بلکہ دُنیا بھر میں اُن کی اشاعت بھی ہوئی۔ ان صحابہ کرامؓ نے ایک علمی تہذیب تشکیل دی اور اس اسلامی علمی عربی تہذیب نے موجودہ دُنیا کو جو میراث سپرد کی ان میں سیّدقطب شہیدؒ کے مطابق اہم ترین چیز علم ہے۔(اسلام اور مغرب کے تہذیبی مسائل،ص ۴۳)