مضامین کی فہرست


۲۰۲۵ اگست

ملک عزیز بڑی اُمنگوں اور کاوشوں سے وجود میں آیا۔ بڑی محنتوں اور بڑی قربانیوں سے آزادی کی منزل اور الگ وطن نصیب ہوا۔ خوش قسمتی سے ہمیں اُس نسل سے براہِ راست حالِ دل سننے اور پڑھنے کاموقع بھی ملا، جس نسل نے آزادی کا معرکہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، جس کے افراد خون اور آگ کا دریا پار کر کے اپنی منزلِ پاکستان پر پہنچے تھے۔ بے بہا جذبوں سے لبریز اور ٹوٹے ہوئے خوابوں سے چُور، ان گواہوں میں کچھ کو دل برداشتہ پایا، کچھ کو حالات کا دھارا موڑنے کے لیے پُرعزم دیکھا۔ کچھ ایسے بھی تھے اور شاید ان کی تعداد زیادہ تھی، جنھوں نے سب کچھ بھلا کر آسائش و مال کی دوڑ کو اپنا مقصد ِ زندگی بنالیا۔ تحریک آزادی کے گواہوں پر مشتمل یہ تینوں طبقے اسی معاشرے میں متحرک اور فعال کردار ادا کرکے، ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تعداد میں ربّ العالمین کی عدالت میں پہنچ گئے اور ہم انھیں سننے، دیکھنے والے بھی منزلِ وداع کے قریب آن لگے ہیں۔  

بنیادی سوال اپنی جگہ ہے کہ وطن عزیز کا کیا بنا؟ کیسے بنا؟ اور کون کس درجے میں ذمہ دار ٹھیرا؟ 

امرواقعہ ہے کہ بڑی جاں گسل جدوجہد کے بعد ملک کو آزادی نصیب ہوئی، اور پہلی نسل کے ایک حصے نے بے پناہ محنت کرکے ٹوٹتے خوابوں کو سنبھالا، بکھری اینٹوں کو اکٹھا کیا، قربانیاں دے کر دوسروں کو جینے کا درس بھی دیا اور عمل کرکے قوم کو سنبھالنے کا فریضہ بھی انجام دیا۔ اس چھوٹی سی اقلیت کے احسانات کا پھل یہ ہے کہ وہ پاکستان جسے تحریک ِ پاکستان کے دوران دیوانے کا خواب کہا جاتا تھا، خواب سے حقیقت میں ڈھلتا ڈھلتا اقوامِ عالم کے نقشے پر ایک باوقار ملک کی صورت میں اُبھرا۔ 

محنت، دانش اور عزم سے سرشار اس اقلیت کے کارنامے برگ و بار لا رہے تھے کہ ان کے پیچھے تعاقب کرتے ٹڈی دَل فصل کو چاٹنے لگے۔ قربانیوں کے ہیکل اور ابتدائی تعمیری کاوشوں کی قوت نے گاہے ان حشرات کا منہ موڑا، اور ان کی تباہ کن رفتار کو روکا، مگر پھر بھی کئی بار یہ غالب آگئے۔ آج تک قوم، ملک اور سلطنت پاکستان اسی داخلی کش مکش سے گزر رہے ہیں، جب کہ بیرونی قوتیں مثل گدھ (Vulture) کوئی نہ کوئی حصہ اُڑانے کے لیے تاک لگائے بیٹھی ہیں۔ کچھ کامیاب رہی ہیں اور کچھ منتظر ہیں۔ 

ہمارے مشاہدے و تجزیے کے مطابق اس المیے کو جنم دینے اور مسلسل تقویت فراہم کرنے والوں میں سیاسی، انتظامی، سول، عسکری، عدالتی، صحافتی اور تعلیمی قیادتوں نے غیرذمہ داری کا راستہ اختیار ہی نہیں کیا بلکہ غیرذمہ داری کی بیماری کو چھوت کی طرح پورے معاشرے میں پھیلا دیا اور چھوت کی طرح پھلنے والی یہ بیماری اُس جاں باز اقلیت کی کاوشوں کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ 

ملک ِ عزیز بنا تو واضح چیلنج کے طور پر معاشی بحران سے بچنا ممکن دکھائی نہ دیتا تھا، لیکن قائداعظم محمدعلی جناحؒ اور لیاقت علی خانؒ کی قیادت میں بننے والی پہلی حکومت نے بے پناہ محنت سے ملکی اقتصادی گاڑی چلانے کے لیے حیران کن کرشمے دکھا کر ثابت کیا کہ وہ اخلاص اور وژن کی دولت سے سرشار ہیں۔ تاہم، اسی قیادت کے دائیں اور بائیں، آگے اور پیچھے، خود انھی سے تعلق رکھنے والے مفاد پرست افراد اور گروہوں نے وہ دھماچوکڑی مچائی کہ تباہی کے آثار اور تھور کے زہریلے پودے اُگنے شروع ہوگئے۔ 

قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے پہلی دستور ساز اسمبلی میں ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو تقریر میں بڑے دردِ دل سے اور واضح الفاظ میں چند بنیادی اُمور پر زور دیتے ہوئے فرمایا: 

دو چیزیں میرے ذہن میں ہیں، وہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں: پہلی اور سب سے اہم بات جو زور دے کر کہوں گا،وہ یہ ہے کہ آپ خودمختار قانون ساز ادارہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ کس طرح فیصلے کرتے ہیں۔ ایک حکومت کا پہلافریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے، تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور اُن کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت ہندستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ دُنیا کے دوسرے ممالک اس سے پاک ہیں، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت ہی خراب ہے، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے، اور ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے۔ 

چور بازاری دوسری لعنت ہے۔مجھے علم ہے کہ چور بازاری کرنے والے اکثر پکڑے جاتے ہیں اور سزا بھی پاتے ہیں۔ آپ کو اس لعنت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ چور بازاری معاشرے کے خلاف ایک بہت بڑاجرم ہے۔ جب کوئی شہری چور بازاری کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ گھنائونے جرم کا ارتکاب کرتاہے۔ یہ چور بازاری کرنے والے افراد باخبر، ذہین اور عام طور پر ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں، اور جب یہ چور بازاری کرتے ہیں تو میرے خیال میں انھیں بہت کڑی سزا ملنی چاہیے۔ اس بُرائی کو سختی سے کچل دینا ہوگا۔ یہ واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربا پروری کو برداشت کروں گا، اور نہ کسی اثرورسوخ کو قبول کروں گا، جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی، خواہ یہ اعلیٰ سطح پر ہو یا ادنیٰ پر، ہرگز ہرگز اسے گوارا نہیں کروں گا۔ 

اگر ہم مملکت پاکستان کو خوش و خرم اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود پر مرکوز کردینی چاہیے، بالخصوص عوام الناس اور غریبوں کی جانب۔ اگر آپ باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں گے تو کامیابی یقینا آپ کے قدم چُومے گی۔ 

اسی خطاب میں آگے چل کر قائداعظمؒ نے ملک میں بڑے پیمانے پر پھیلے ہندو مسلم خونیں فسادات کے ہولناک منظرکو پیش نظر رکھتے ہوئے، یہ فرمایا:  

اب اس مملکتِ پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ آپ مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب ، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ 

یہ خطبہ پاکستان کے قیام سے تین روز قبل دیا گیا ، اور اپنے پیغام و تصور کے اعتبار سے یہ ایک بہترین خطبہ تھا۔ لیکن ایک آنکھ سے دیکھنے والی ’دانش‘ نے اس کے ایک حصے پر اپنی توجہ مرکوز کرکے اسے من مانے معانی پہنانے کا کاروبار شروع کر دیا، اور قائد ِ محترم کی ۱۱؍اگست کی اس تقریر کے مجموعی پیغام کو نظرانداز کرکے اور اس کے آخری حصے کو سیاق وسباق سے کاٹ کر من مانا مطلب اخذ کرکے پیش کرنے کا کاروبار مسلسل چلایا جارہا ہے۔  

قائد نے ۱۱؍اگست کی اس تقریر میں کرپشن، بدعنوانی، امن و امان، چور بازاری اور اقربا پروری کے ناسوروں پر جس شدت سے نشتر چلایا، وہ اس مخصوص ’دانش‘ کو بالکل یاد نہ رہا یا اچھا نہیں لگا۔ حالانکہ اسی چیز نے ملک کے سیاسی،سماجی، معاشی اور آخرکار جغرافیائی منظرنامے کو بدنُما اور داغ دار بناکر رکھ دیا ہے۔ قائد نے قیامِ وطن سے پہلے ہی انگلی رکھ کر اُن امراض کی نشاندہی کی اور انھیں مٹانے کے لیے سخت ایکشن اور کچل دینے کا پیغام دیا۔ لیکن حیران کن حد تک ہماری سیاسی، فکری، عسکری، سول، عدالتی، انتظامی اور صحافتی قیادت کو ان میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی، اور کبھی کسی کو قائد کے یہ الفاظ دُہراتے نہ دیکھا گیا اور نہ سنا گیا۔ 

البتہ اس خطبے کے آخر میں ’مسلم، ہندو رواداری‘ پر جو فرمایا، اس کے بارے میں یہ مقتدر طبقے بلائیں لیتے اور نہال ہوتے ضرور نظر آتے ہیں۔ جو غنیمت ہے کہ چلیے کسی حوالے سے قائد کے لیے کچھ توجہ اور کچھ تحسین کی گنجائش پیدا ہوئی۔  

قائد محترم کی اسی ۱۱؍اگست کی تقریر میں اسمبلیوں کے کردار اور ذمہ داریوں کے بارے میںدی گئی ہدایات کی نسبت سے، ہمارے مخصوص دانش وَر طبقے میں مکمل خاموشی اور تغافل پایا جاتا ہے۔ آج ان اسمبلیوں کی جو حالت ِ زار ہے، اُن کے بارے میں سقراط کی معاصر یونانی اسمبلیوں جیسی کیفیت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، جو بقول سقراط: عوام کے مفاد میں سوچنے کے بجائے، ارکانِ اسمبلی کے مفادات کی نگہبان، اور ایسی ایسی تدابیر سوچنے کے اڈے ہیں کہ کس طرح اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنائیں۔  

ان اسمبلیوں کو قائد کے وہ جملے اپنی دیوار پر کندہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، جس میں اُنھوں نے بدعنوانی کے ان محافظوں کی سرزنش کی تھی۔ اَدھورے پن کا یہی تضاد ہماری قومی و سماجی زندگی کا گہرا ناسور ہے، جو رِستے رِستے سرطان بن چکا ہے۔ 

اسی تسلسل میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہمارے ہاں پائے جانے والے مخصوص سیکولر دانش وروں کو پاکستان کے بانیان پر مشتمل اسی پہلی دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ ’قرارداد مقاصد‘ بھی سخت ناپسند ہے، جو اپنی جگہ جمہوریت، انصاف، رواداری اور تحفظ کی ضامن تاریخی دستاویز ہے۔ اس قراردادِ مقاصد کی بنیاد پر نہ تو کسی ظالم، غاصب اور بدعنوان فرد یا طبقے کو تحفظ ملا اور نہ اس قرارداد نے انھیں تحفظ دینے کا جھنڈا اُٹھایا۔ اس کے برعکس ان ’کرم فرمائوں‘ کو ۱۱؍اگست کو قائد کا وہ ہوشیار باش پیغام نظر نہیں آیا جس میں انھوں نے ’کرپشن‘ اور ’بدعنوانی‘ پر خبردار کیا تھا۔ 

آج پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ یہی بدعنوانی ہے۔ بدعنوانی ایک کثیرالجہتی شیطانی وجود کا نام ہے۔ بدعنوانی کے جسم سے: مالی بدعنوانی، میرٹ تباہ کرنے کی بدعنوانی، اپنی ذمہ داری ادا نہ کرنے کی بدعنوانی، اپنی منصبی ذمہ داری کو محنت و دیانت سے ادا کرنے کے بجائے دوسری ذمہ داریوں میں ٹانگ اُڑانے کی بدعنوانی، حق کی گواہی نہ دینے کی بدعنوانی، سچائی پر قائم نہ رہنے کی بدعنوانی اور مالی و مادی خوف میں مبتلاہونے کی بدعنوانی شامل ہے۔  

ذرا چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھیے کہ قائد کے اس فرمان کی دھجیاں کون کون اور کس کس حیلے سے اُڑا رہا ہے؟ شاید ہی کوئی چہرہ اس میزان پہ سرخرو نظر آئے۔ اگر رویہ یہی ہے اور یقینا ایسا ہی ہے، تو پھر ’یومِ آزادی‘ کو بطور ’یومِ تجدید ِ عہدو احتساب‘ منانا چاہیے۔  

دلچسپ بات یہ کہ پاکستان کی ’نظریہ ساز‘ سیکولر اقلیت کے نزدیک قائداعظمؒ کی ذات، کلام، فکر میں کوئی اور بات قابلِ ذکر نہیں۔ ظاہر ہے کہ قائداعظمؒ ۱۱؍اگست سے پہلے بھی زندہ، پوری تحریکِ آزادی چلا رہے تھے اور اس کے بعد بھی ایک برس زندہ رہے۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بہت کچھ کہا اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی فکری راہ نمائی دی۔ ایک سوچار مرتبہ ’اسلامی شریعت‘ سے وابستگی کو بطورِ دلیل اور بطورِ عہد دُہرایا۔ ان کی وہ تمام تقاریر ہر خاص و عام کی دسترس میں ہیں مگر مجال ہے کہ ہماری یہ ’فکری مقتدرہ‘ ان باتوں کو کچھ وزن دے۔ 

قائد نے مذکورہ تقریر قیامِ پاکستان سے تین روز پہلے کی تھی اور اسی قائد کی آخری تقریر یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو ہوئی، جس میں انھوں نے کراچی میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا: 

معاشرتی اور معاشی زندگی کے اسلامی تصورات سے بنکاری کے نظام کو ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں آپ جو کام کریں گے، میں دلچسپی سے اس کا انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی معاشی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کر دیئے ہیں، اور شاید کوئی کرشمہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچاسکے، جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ نظام افراد کے اور قوموں کے درمیان ناچاقی دُور کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ مغربی دُنیا اس وقت میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بدترین ابتری کا شکار ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔مغربی اقدار، نظریئے اور طریقے، خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دُنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس و بنیاد انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصور پر کھڑی ہو۔ اس طرح ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے، اور بنی نوع انسان تک امن کا پیغام پہنچا سکیں گے۔ صرف یہی راستہ انسانیت کو فلاح و بہبود اور مسرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ 

یہ تقریر درحقیقت قوم کے نام قائد کی آخری وصیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر گواہی دیجیے کہ قائد کا ایک ایک لفظ کیا پیغام دے رہا ہے؟ کیا یہ تقریر کوئی انتخابی خطبہ ہے؟ یا پھر یہ تقریر ایک معاشی لائحہ عمل پر چلنے کی پکار، دعوت اور حکم ہے؟ اور یہ بھی گواہی دیجیے کہ کیا اس تقریر کا منشا پاکستانی معیشت کو سود اور معاشی استحصال سے پاک اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کا پیغام نہیں؟ 

درحقیقت قائد کی ۱۱؍اگست کی تقریراسلامی ریاست کے ذمہ دار کی حیثیت سے بیان کی گئی ریاستی پالیسی تھی، جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تھی اور اس کا آخری حصہ اسلامی ریاست کے غیرمسلم شہریوں کے تحفظ اور مذہبی اور سماجی حقوق  کے بارے میں اسلامی تعلیمات ہی کا اعادہ ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضع کردہ ’میثاقِ مدینہ‘ میں موجود ہیں۔  

۱۱؍اگست کو دستور ساز اسمبلی میں قائد کی صدارتی تقریر تھی، جب کہ تین روز بعد ۱۴؍اگست کودستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائدمحترم نے اپنے موقف کی مزید وضاحت فرما دی، جس میں وائسرائے ہند ماؤنٹ بیٹن نے قائد کو مغل بادشاہ اکبر کی مثال دے کر ’رواداری کا درس‘ دینے کی کوشش کی۔  

قائداعظم نے دستور ساز اسمبلی کے اس باقاعدہ افتتاحی اجلاس میں ماؤنٹ بیٹن کی تقریرکا جواب دیتے ہوئے فرمایا:  

شہنشاہ اکبر نے تمام غیرمسلموں کے ساتھ رواداری اور حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کی ابتدا آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کردی تھی۔ آپؐ نے زبان سے ہی نہیں، بلکہ عمل سے یہودیوں اور مسیحیوں پرفتح پانے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمان جہاں بھی حکمران رہے، ایسے ہی رہے۔ ان کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ ایسی انسانیت نواز اور عظیم المرتبت اصولوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جن کی ہم سب کو تقلید کرنا چاہیے۔ (بحوالہ اسٹار آف انڈیا، ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء، قائداعظم: تقریر و بیانات، چہارم، مرتبہ: اقبال احمد صدیقی، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۹۸ء، ص ۳۶۳، ۳۶۴) 

 قائداعظم نے اس خطاب میں اپنا موقف بالکل واضح فرما دیاکہ یہ بات مَیں کوئی آج نہیں کہہ رہا، اور نہ وائسرائے کی مثال کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں، بلکہ یہ بات میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی براہِ راست سنت سے اخذ کرکے کہہ رہا ہوں۔ قائد محترم کا یہ خطاب نوآموز سیکولر ’دانش‘ کی طرف سے ۱۱؍اگست کی تقریر کے اس حصے کو بنیاد بناکر پھیلائے جانے والے ابہام کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ 

قائدمحترم نے زندگی بھر فتوے کی زبان استعمال نہیں کی۔ وہ مشورے، راہ نمائی اور دعوتِ فکر دیتے تھے، ان سب چیزوں کا مرکز اپنی ذات کے بجائے ہمیشہ اسلام، قرآن، سیرتِ پاکؐ، اسلامی تہذیب، اسلامی شریعت اور قانون کو ہی قرار دیتے تھے۔  

بلاشبہ اسلام اور اسلامی شریعت کی تعبیر و تشریح کے لیے، شریعت کے مآخذ قرآن و سنت ہی ہمارے عمل کی بنیاد ہوں گے۔ علّامہ محمد اقبال ؒ ہوں یا قائداعظم محمد علی جناح ؒ، دونوں میں سے کسی نے اپنے آپ کو کبھی دین و شریعت سے بالاتر نہیں قرار دیا۔ ہمیں بھی یہی راستہ اختیار کرتے ہوئے اسلام اور تعمیرِ پاکستان کی منزل کے حصول کے لیے انھی مآخذ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔(س م خ( 

اسلام اپنی صداقت پر ایمان لانے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کرتا، بلکہ دلائل و براہین کی روشنی میں ہدایت کی راہ کو ضلالت کی راہ سے ممتاز کر کے دکھا دینے کے بعد، ہرشخص کو اختیار دیتا ہے کہ چاہے غلط راستے پر چل کر نامرادی کے گڑھے میں جاگرے، اور چاہے سیدھے راستے پر لگ کر حقیقی اور دائمی فلاح و کامرانی سے بہرہ اندوز ہو۔ لیکن… ہم یہ بتادینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کو تلوار سے ایک گونہ تعلق ضرور ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ جہاں تک تبلیغِ دینِ الٰہی کی حد ہے ، اس میں تلوار کا کوئی کام نہیں ہے۔ لیکن اس تبلیغ کے ساتھ کچھ چیزیں اور بھی ہیں جن کے تعاون سے دنیا میں اسلام کی اشاعت ہوئی ہے۔ 

عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان بے قیدی کی زندگی بسر کرتا ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی میں کسی اخلاقی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا، تو اسے اپنی اِس پُرالم، مگر بظاہر پُرلطف زندگی میں ایک مزا آنے لگتا ہے، اور اس مزے کو چھوڑنے کے لیے وہ برضاورغبت آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔ وعظ و نصیحت اور دلیل و بُرہان کی قوت سے اس کو اخلاقی حدود کی پابندی، حلال و حرام کی تمیز، اور نیک و بد کے امتیاز کی خواہ کتنی ہی تلقین کی جائے، وہ بہرحال سیدھا ہونے پر راضی نہیں ہوتا۔  

اوّل تو اس کی عقل و وجدان پر مسلسل بدکاریاں کرتے رہنے کے باعث ایسا پردہ پڑجاتاہے کہ اس قسم کی اخلاقی تعلیم کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اور اگر اس کے ضمیر میں کچھ زندگی باقی ہوتی بھی ہے تو وہ اس کے نفس پر اتنی حاوی نہیں ہوتی کہ اس کے اثر سے وہ حق کو محض اس بنا پر کہ وہ حق ہے، بطَوع و رغبت قبول کرلے، اور ان لذتوں سے دست بردار ہوجائے جو بے قیدی کی زندگی میں اسے حاصل ہوتی ہیں۔ 

 بخلاف اس کے جب کسی اخلاقی تعلیم کی پشت پر وعظ و تذکیر کے ساتھ سیاست و تعزیر بھی ہوتی ہے اور بد کو بدکرکے دکھا دینے کے ساتھ بدی کو روک دینے والی قوت سے بھی کام لیا جاتا ہے، تو رفتہ رفتہ طبیعت میں نیک بننے کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ حدودکی پابندی اور بُرے بھلے کی تمیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے ، اور آخرکار وہی انسان اس نیکی کی تعلیم کو دل میں جگہ دینے لگتا ہے جو بے قیدی کی زندگی میں اس کو سننے کا بھی روادار نہ تھا۔ 

تھوڑی دیر کے لیے کسی ایسی سوسائٹی کا تصور کیجیے، جس میں کوئی قانون نافذالعمل نہیں ہے، اس کا ہرفرد اخلاقی حدود کی پابندی سے مبرا ہے، جس پر بس چلتا ہے اسے لوٹ لیتا ہے، جس سے عداوت ہوتی ہے اسے مار ڈالتا ہے، جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے چُرا کر یا چھین کر حاصل کرلیتا ہے، جو خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے اسے جس طریقے سے چاہتا ہے پورا کرلیتا ہے، حلت و حُرمت کی اسے تمیز نہیں ہوتی، جائز و ناجائز کے فرق سے وہ ناواقف ہوتا ہے، حقوق و فرائض کے تخیل سے اس کا دماغ خالی ہوتا ہے، اس کے سامنے بس اپنی خواہشات ہوتی ہیں اور انھیں پورا کرنے کے امکانی وسائل ہوتے ہیں۔  

ایسی حالت میں اگر کوئی اخلاقی مصلح کھڑا ہو اور لوگوں کو حلال و حرام کی تمیز سکھائے، جائز و ناجائز کی حدبندی کرے، مقاصد میں حُسن و قبح اور طریقوں میں نیک و بدکا فرق قائم کرے، چوری سے، حرام خوری سے، خونِ ناحق سے، زنا اور فواحش سے روکے، افراد کے لیے حقوق اور فرائض متعین کرے، اور ایک مکمل ضابطۂ قوانینِ اخلاق مرتب کر کے رکھ دے، مگر اس قانون کی تنفیذ کے لیے اس کے پاس وعظ و پند اور دلیل و حجت کے سوا کوئی قوت نہ ہو، تو: 

  • کیا یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ جماعت اپنی آزادی پر ان قیود کو بخوشی قبول کرلے گی؟  
  • کیا وہ اس کے مُسکِت دلائل سے مغلوب ہوکر برضا و رغبت قانون کی پابند بن جائے گی؟  
  • کیا وہ اس کی پُردرد نصیحتوں سے اتنی متاثر ہوگی کہ خود بخود اُن لذتوں سے کنارہ کش ہوجائے، جو اس کو بے قیدی کی زندگی میں حاصل ہیں؟  

ہرشخص جو انسانی فطرت کا رازداں ہے، اس سوال کا جواب صرف نفی میں دے گا۔ کیوںکہ دنیا میں ایسے پاک نفسوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے جو نیکی کو محض نیکی سمجھ کر اختیار کرتے ہیں، اور بدی کو صرف اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کا بد ہونا انھیں معلوم ہوچکا ہے۔ 

لیکن اگر یہی سوال اس صورت میں کیا جائے، جب کہ وہ معلّم محض اخلاقی واعظ ہی نہیں بلکہ حاکم اور صاحب ِ امر بھی ہو اور ملک میں ایک باضابطہ حکومت قائم کردے، جس کی قوت سے وہ تمام بُرائیاں یک لخت دُور ہوجائیں جو حیوانی آزادی سے پیدا ہوتی ہیں، تو یقینا یہ نفی، اثبات سے بدل جائے گی اور ہرشخص اس اصلاحی تعلیم کی کامیابی کا فتویٰ لگا دے گا۔ 

اسلام کی اشاعت کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔  

اگر اسلام صرف چند عقائد کا مجموعہ ہوتا اور اللہ کو ایک کہنے، رسالت کو برحق ماننے، یومِ آخر اور ملائکہ پر ایمان کے سوا انسان سے وہ کوئی اور مطالبہ نہ کرتا، تو شاید شیطانی طاقتوں سے اس کو کچھ زیادہ جھگڑنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون بھی ہے۔ ایسا قانون جو انسان کی عملی زندگی کو اوامرونواہی کی بندشوں میں کسنا چاہتا ہے، اس لیے اس کا کام صرف پندوموعظت ہی سے نہیں چل سکتا بلکہ اسے نوکِ زبان کے ساتھ نوکِ سنان [نیزہ]سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ 

اس کے عقائد سے، سرکش انسان کو اتنا بُعد نہیں ہے جتنا اس کے قوانین کی پابندی سے انکار ہے۔ وہ چوری کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دیتا ہے۔ وہ زنا کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے کوڑوں کی مار کا حکم سناتا ہے۔ وہ سود کھانا چاہتا ہے اور اسلام اس کو فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ (البقرہ ۲:۲۷۹،’’آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے‘‘) کا چیلنج دیتا ہے۔ وہ حرام و حلال کی قیود سے نکل کر نفس کے مطالبات پورے کرنا چاہتا ہے اور اسلام ان قیود سے باہر نفس کے کسی حکم کی پیروی نہیں کرنے دیتا۔ اس لیے نفس پرست انسان کی طبیعت اس سے متنفر ہوتی ہے اور اس کے آئینۂ قلب پر گناہ گاری کا ایسا زنگ چڑھ جاتا ہے کہ اس میں صداقت ِاسلام کے نُور کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی۔  

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ وعظ و تلقین کا جو مؤثر سے مؤثر انداز ہوسکتا تھا اسے اختیار کیا۔ مضبوط دلائل دیے، واضح حجتیں پیش کیں، فصاحت و بلاغت اور زورِ خطابت سے دلوں کو گرمایا۔ اللہ کی جانب سے محیرالعقول معجزے دکھائے۔ اپنے اخلاق اور اپنی پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا، اور کوئی ذریعہ ایسا نہ چھوڑا جو حق کے اظہارواثبات کے لیے مفید ہوسکتا تھا۔ 

 لیکن آپؐ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپؐ کی صداقت کے روشن ہوجانے کے باوجود آپؐ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حق ان کے سامنے خوب ظاہر ہوچکا تھا۔ انھوں نے برأي العین دیکھ لیا تھا کہ جس راہ کی طرف ان کا ہادی انھیں بلا رہا ہے، وہ سیدھی راہ ہے۔ اس کے باوجود صرف یہ چیز انھیں اس راہ کو اختیار کرنے سے روک رہی تھی کہ اُن لذتوں کو چھوڑنا انھیں ناگوار تھا جو کافرانہ بے قیدی کی زندگی میں انھیں حاصل تھیں۔ 

جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعیِ اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی اور اَلَا  کُلَّ  مَأْثُرَۃٍ  أَوْ  دَمٍ  أَوْ مَالٍ یُدْعٰی فَھُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ ھَاتَیْنِ{ FR 644 } [السیرۃ النبویۃ،  ابن ہشام، ۳/۴۱۳] کا اعلان کرکے تمام موروثی امتیازات کا خاتمہ کر دیا، عزت و اقتدار کے تمام رسمی بتوں کو توڑ دیا، ملک میں ایک منظم اور منضبط حکومت قائم کردی، اخلاقی قوانین کو بزور نافذ کرکے اُس بدکاری و گناہ گاری کی آزادی کو سلب کرلیا جس کی لذتیں ان کو مدہوش کیے ہوئے تھیں، اور وہ پُرامن فضا پیدا کردی جو اخلاقی فضائل اور انسانی محاسن کے نشوونما کے لیے ہمیشہ ضروری ہوا کرتی ہے، تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا، طبیعتوں سے فاسد مادے خودبخود نکل گئے، روحوں کی کثافتیں دُور ہوگئیں اور یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نور صاف عیاں ہوگیا، بلکہ گردنوں میں وہ سختی اور سروں میں وہ نخوت باقی نہیں رہی، جو ظہورِ حق کے بعد انسان کو اس کے آگے جھکنے سے باز رکھتی ہے۔ 

عرب کی طرح دوسرے ممالک نے بھی جو اسلام کو اس سُرعت سے قبول کیا کہ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہوگئی، تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے، اُس فضا کو صاف کر دیا جس کے اندر کوئی اخلاقی تعلیم پنپ نہیں سکتی، اِن حکومتوں کے تخت اُلٹ دیے جو حق کی دشمن اور باطل کی پشت پناہ تھیں، ان بدکاریوں کا استیصال کردیا جو دلوں کو نیکی و پرہیزگاری سے دُور رکھتی ہیں، ان عادلانہ اخلاقی قوانین کو نافذ کیا جو آدمی کو حیوانیت کے درجے سے نکال کر انسان بنا دیتے ہیں، اور پھر اسلام کو عملی پیکر میں پیش کرکے دنیا پر ثابت کردیا کہ انسان کی اخلاقی و مادی اور روحانی ترقی کے لیے اس سے بہتر کوئی اور دستورِ عمل نہیں ہوسکتا۔ 

[لہٰذا] جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلا م کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے، جس طرح ہرتہذیب کے قیام میں ہوتا ہے۔ تبلیغ کا کام تخم ریزی ہےاور تلوار کا کام قلبہ رانی [ہل چلانے کا کام]۔ پہلے تلوار زمین کو نرم کرتی ہے تاکہ اس میں بیج کو پرورش کرنے کی قابلیت پیدا ہوجائے، پھر تبلیغ بیج ڈال کر آبپاشی کرتی ہے تاکہ وہ پھل حاصل ہو جو اس باغبانی کا مقصودِ حقیقی ہے۔  

ہم کو دنیا کی پوری تاریخ میں کسی ایسی تہذیب کا نشان نہیں ملتا، جس کے قیام میں ان دونوں عناصر کا حصہ نہ ہو۔ تہذیب کی کسی خاص شکل کا کیا ذکر ہے، خود تہذیب کا قیام ہی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک قلبہ رانی اور تخم پاشی کے یہ دونوں عمل اپنا اپنا حصہ ادا نہ کریں۔ کوئی شخص جو انسانی فطرت کا رمزشناس ہے، اس حقیقت سے ناآشنا نہیں ہے کہ جماعتوں کی ذہنی و اخلاقی اصلاح کے سلسلے میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے، جب کہ قلب و روح کو خطاب کرنے سے پہلے جسم و جان کو خطاب کرنا پڑتا ہے۔(الجہاد فی الاسلام، ص ۱۷۰-۱۷۵) 

جماعت اسلامی کی دعوت کے تین بنیادی نکات میں سے تیسرا نکتہ قیادت کی تبدیلی ہے۔  

قیادت میں تبدیلی 

ہماری دعو ت تمام اہل ارض (تمام انسانیت) کو یہ ہے کہ وہ عصر حاضر کے اصولِ حکمرانی میں ایک عمومی انقلاب برپا کریں، جس کی بنیاد پر اللہ کے باغیوں اور سرکشوں نے حکومتوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور زمین کو فساد سے بھر رکھا ہے۔ لازم ہے کہ حکومت و سلطنت کی اس عملی و فکری قیادت کو اللہ سے پھرے ہوئے ان ظالموں کے ہاتھوں سے لے کر اللہ ورسولؐ پر حقیقی ایمان رکھنے اور ان کی حقیقی فرماںبرداری کرنے والے اُن لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل کردی جائے جو غلط اور باطل نظریات و افکار کو اپنا دین نہیں مانتے، بلکہ اللہ کے نازل کردہ دین حق کو اپنا طریق زندگی قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ زمین پرظلم و ستم اور فتنہ و فساد نہیں چاہتے بلکہ اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ 

کامل بندگی، دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے اور اپنی زندگی کو نفاق اور عمل کو تضاد سے پاک کرنے کے مفہوم کا فطری تقاضا یہی ہے۔ یہ بات کسی سمجھ دار سے مخفی نہیں کہ یہ کام موجودہ نظامِ حیات میں تغیر اور انقلاب کے بغیر ممکن نہیں جو کفر و الحاد، فسق و فجور اور ظلم وستم پرمبنی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اللہ ورسولؐ سے برگشتہ، اللہ کی بندگی سے بے نیاز اور اللہ کی زمین میں ناحق غرور و تکبر میں مبتلا ہیں۔ 

دنیا کی قیادت و سیادت اور حکومت و سلطنت کی باگیں، علوم و آداب، سائنس اور آرٹ، قانون سازی اور نفاذ قانون، ملی و بین الاقوامی تعلقات اور تجارت و صنعت کے مسائل جب تک ان لوگوں کے اشاروں اور ہدایات سے چلتے رہیں گے، کسی مسلمان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک سچے مسلمان کی طرح ،اسلام کے اصولوں کو اختیار کر کے، شریعت الٰہیہ کے قوانین کے مطابق اپنی عملی زندگی گزار سکے۔ ناممکن ہے کہ  کوئی مسلمان ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں شریعت کے برعکس قانون رائج ہو، اللہ کا پسندیدہ طریقہ رائج نہ ہو، تو وہ مسلمان کامل دین الٰہی کی کماحقہٗ پیروی کر سکے، جو اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ بلکہ یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ اپنی اولاد کو دینِ الٰہی کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق تعلیم وتربیت دے سکے اور اسلامی آدابِ زندگی اور اخلاقِ حسنہ کے مطابق اُن کی پرورش کر سکے ___ اس لیے کہ کفر والحاد کے جس نظام اور ماحول میں وہ جی رہا ہے، وہ اس پر اسلامی تربیت کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ یہ نظام تو یہی چاہتا اور اسی کی اجازت دیتا اور ماحول فراہم کرتا ہے کہ مسلمان بھی وہی باطل اخلاق اپنالے اور اپنے دین واخلاق کے تمام اصولوں اور تعلیمات سے رفتہ رفتہ لاتعلق اور بیگانہ ہوجائے۔ 

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک مسلمان جو اپنے دین (پورے طریق زندگی) کو اللہ کے لیے خالص رکھنا چاہتا ہے، اس کی ذمہ داری اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ صرف عبادت کی چند رسوم ادا کرلے، بلکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری اور فرض یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی زمین کو فتنہ و فساد اور بغاوت و سرکشی سے پاک کرے، اور اس کی جگہ اصلاح و فلاح پر مبنی عادلانہ نظام قائم کرے___ظاہر ہے کہ یہ اعلیٰ مقصد اور بلند ہدف سرکشوں، باغیوں اور مفسدین کے برسرِاقتدار رہتے حاصل نہیں ہو سکتا۔ 

تجربے اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ زمین پر تکبر کا ناحق مظاہرہ کرنے والے اور اپنے قول و فعل میں ظلم و سرکشی دکھانے والے ہی نظام عدل و صلاح کے قیام کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔ پھر یقین، دلیل اور مشاہدے سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب تک اللہ کے یہ باغی اور سرکش اُمورِ مملکت اپنے ہاتھوں میں لیے رہیں گے، چھوٹے بڑے معاملات حکمرانی پر انھی کا حکم چلتا رہے گا، تو ایسی حکمرانی میں دنیا کی صلاح وفلاح کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا، اسلام اور اللہ کی خالص بندگی کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ ہم ائمہ کفر و ضلال کی سیادت و قیادت اور امامت و حکمرانی اور باطل نظام کو جڑوں سے اکھاڑ دینے کے لیے اپنی صلاحیت کی آخری حد تک مسلسل اور بھرپور جدوجہد کریں۔ 

حکومت و امامت کی یہ تبدیلی کس طرح ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی اور انقلاب محض چاہنے، خواہش کرنے اور خواب دیکھنے سے نہیں آئے گی۔ انسانوں پر حکمرانی کے لیے کچھ بنیادی قوانینِ قدرت ہیں، جن میں ایک یہ بھی ہے کہ زندگی کا نظام چلانے کے لیے بہرحال کچھ مردانِ سیاست ضروری ہیںاور اس سیاست و تدبیر کے لیے کچھ صفات و اخلاق درکار ہیں۔ ان اوصاف سے آراستہ ہونا ہر اس فرد اور گروہ کے لیے ناگزیر ہے جو دنیا کے امور کا نظم و انتظام سنبھالنا چاہے۔ یہ بات بھی قوانینِ فطرت میں شامل ہے کہ اگر زمین پر ان صفات و اخلاق سے آراستہ کوئی مومن و صالح گروہ موجود نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی زمین کا انتظام غیر مومن و غیر صالح لوگوں میں سے جن کو چاہے سپرد کردے لیکن جب امور مملکت اور مسائل حیات کو چلانے کے لیے ان لازمی اوصاف و اخلاق سے آراستہ کوئی مومن و صالح گروہ نہ صرف موجود ہو، بلکہ ان ظالموں اور متکبروں سے فائق تر ہو تومشیت ربانی اور قانونِ الٰہی ایسا ظلم پسند نہیں کرتا کہ پھر بھی امور حکمرانی ظالموں اور مفسدوں کے ہاتھ میں رہیں، اور وہ جیسے چاہیں اس کو چلاتے رہیں۔ 

ہماری یہ دعوت صرف امید، تمنا اور دعا تک محدود نہیں ہے کہ ہم اللہ سے گریہ و زاری  کرتے رہیں کہ اللہ ظلم وجور اور فتنہ و فساد کو جڑ بنیاد سے ختم کر کے امور دنیا صالح مومنوں کے ہاتھوں میں دے دے۔ بلکہ ہماری دعوت پوری دنیا اور انسانیت کے لیے ہے کہ ایک اجتماعیت کو منظم کریں جو اللہ ورسولؐ پر ایمان رکھنے والے، اخلاق فاضلہ سے آراستہ ہوں۔ بلند عادات و خصائل سے متصف اوران قابلیتوں اور اہلیتوں سے نہ صرف آراستہ ہوں، بلکہ کفر و ضلال اور اُن کے حمایتیوں اور مددگاروں سے کہیں بڑھ کر اپنے اندر یہ صفات رکھتے ہوں، جو اُمورِ دنیا کو چلانے والوں کے اندر لازمی موجود ہونی چاہییں اور حکومت و سلطنت کی بھاری ذمہ داری کواٹھانے اور ادا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ 

یہ ہے وہ خالص دینی دعوت جو مائل بہ انحراف و انتہا پسند مسلح قومی تحریک اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان میں ظہور پذیر ہوئی۔ 

ظہور دعوت 

اس دینی دعوت کا ظہور چودھویں صدی ہجری کے چھٹے عشرے (۱۳۶۰ھ) کے پہلے دوبرس میں ہوا۔ یعنی بیسویں صدی عیسوی کے چوتھے عشرے (۱۹۴۱ء )میں۔ اس کی ابتدا ماہنامہ ترجمان القرآن کے اجرا سے ہوئی، جس کے مدیر ه سیّد ابوالا علیٰ مودودی تھے۔ وہ ایک نوخیز نوجوان تھے جن کی عمر ۳۰ برس سے زیادہ نہ تھی۔ انھوں نے یہ ماہ نامہ اس مقصد کے حصول اور اسلام کے نظریہ و فکر کو میدان عمل میں لانے اور لوگوں کے سامنے واضح اور مستند شکل میں پیش کرنے کی غرض سے جاری کیا۔ افکار و آراء کو تقلید وجمود کی گرد سے صاف کرنا اور الحادواباحیت کی آلائشوں سے پاک صاف کرنا بھی اُن کے پیش نظر تھا۔ 

اپنی تحریروں اور کتابوں میں صاحبِ ترجمان القرآن نے سب سے پہلے جس چیزپر توجہ مرکوز کی وہ افکار و نظریات کی تنقیح اور پختہ و صحیح آراء کی غذا فراہم کرنا تھا۔ وہ کئی برس تک پوری یکسوئی کے ساتھ اسی طرز پر کام کرتے رہے۔ وہ افکار و نظریات اور حالات و واقعات کے بھرپور مطالعے کے بعد اپنی رائے قائم کرتے اور پھر اپنی معروضات کو شائع کرتے۔ 

اس مدت میں انھوں نے اپنی پوری توجہ اسلام کے اصلی و صافی مصادر کے مطالعے پر مرکوز رکھی۔ وہ اسلام کی تعلیمات کو ایسے عصری اسلوب میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے جو اہل زمانہ کے ذوق اور طبائع سے ہم آہنگ تھا۔ اسی طرح انھوں نے خاص طور پر اُن زندیقوں اور ملحدوں کو بے نقاب کیا،جن کو مغرب کی محبت گھٹی میں ملی تھی اور وہ اسی کے عشق میں پلے بڑھے تھے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا متحرک قلم، منکرین حدیث و منحرفین سنت عناصر کے محاکمے کے لیے بھی وقف رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی تحریروں میں جمود کے خوگر علماء، فروع میں اُلجھے فقہاء اور بے سروپا مسائل میں پھنسے جہلاء کی لغزشوں اور کج فہمیوں کے محاکمے سے بھی صرفِ نظر نہ کیا گیا۔ 

مختصر یہ کہ ماہ نامہ ترجمان القرآن کے ابتدائی چند برس تصورِ دین کی اشاعت اور دعوت کے اصول و مبادی کو ذہن نشین کرانے کا دور تھا۔ صاحبِ تحریر نے اس کے لیے زمین اور راستہ ہموار کیا اور اُس کامل دینی تحریک کے لیے اسباب مہیا کیے جس کو وہ شروع کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان برسوں میں اُن کی تمام تر جدوجہد اس خالص اسلامی تحریک کا بیج بونے کے مترادف تھیں، جو تحریک ماہ نامہ ترجمان القرآن کے اجرا کے نوبرس بعد ظہور میں آئی۔  

عین اسی دوران جب صاحبِ ترجمان القرآن  اپنے اصول وافکار کی نشرو اشاعت میں مصروف تھے، اور قرآن و سنت سے ما خوذ ومستنبط آدابِ معاشرت، اصولِ مملکت اور مبادیاتِ معیشت کو کھول کھول کر اور نکھار نکھار کر پیش کررہے تھے، قریب تھا کہ لوگ ان کے گرد جمع ہونے لگتے، اُن کی تحریروں سے متاثر ہو کر ان کی آراء و افکار سے فیض یاب ہوتے کہ، اچانک ۱۹۳۷ء/۱۳۵۶ھ کے سال ہندستان کی سیاست میں ایک نہایت اہم انقلاب رُونما ہو گیا۔ اور صوبوں میں حکومت چلانے کا جزوی اختیار مقامی باشندوں کے پاس چلاگیا اور سات صوبوں میں وزارت و حکومت کے مناصب پر مقامی نمایندے مسند نشین ہوگئے۔ میں اس واقعے کو آتش فشانی کے واقعے کا نام دیتا ہوں، کیونکہ صوبوں میں مقامی باشندوں کو انتقالِ اقتداراور اُن کے نمائندوں اور لیڈروں کا حکومتی مناصب پر فائز ہو جانا حقیقتاً ایک لاوے کا پھٹ جانا تھا۔ یہی چیز قوم پرست اور وطنیت پسند ہندوئوں کے چہروں سے نقاب ہٹانے اور ان کا اصلی چہرہ دکھانے کا باعث بنی۔ اُن کے ناپاک عزائم سامنے آگئے، اور وہ سب طشت اَزبام ہو گیا، جو مسلمانوں کے خلاف وہ اپنے دلوں میں چھپائے پھرتے تھے۔ 

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اسی لمحے اس لاوے کے خطرناک نتائج اور خوں ریز حادثات سے خبردار کیا۔ مسلمانوں کو ان کی تباہ کن غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنے قلم کو متحرک کیا اور تسلسل کے ساتھ اُس درست راستے کی طرف مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا، جوانھیں اس دنیا میں مہلک حالات سے بچا سکتا تھا اور روزِ قیامت اللہ کے سامنے سرخرو کر سکتا ہے۔ 

مولانا مودودی نے ایک کے بعد دوسرا مضمون اس موضوع پر لکھا اور مضامین کا ایک طویل سلسلہ اس ضمن میں قلم بند کیا۔ ان مضامین میں ہندستان میں مسلمانوں کے ماضی و حال پر گفتگو کی گئی۔ خالص دین کی دعوت کے لیے جدوجہد اور شہادتِ حق کے فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ مسلمانوں کو وطنیت و قومیت دونوں طرح کی غلط سیاست سے بچنے کی تاکید کی گئی۔ ان مضامین کی تحریرواشاعت میں مسلسل تین برس صرف ہوئے۔ اس دوران کوئی دوسری شے انھیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی، نہ کسی کی مخالفت اور دشمنی اس کام سے روک سکی۔ 

 مولانا مودودی کا یہ علمی کام تین اَدوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 

  • پہلا دور: اس میں انھوں نے مسلمانوں کو فریضۂ دعوت اور شہادت حق کی ادائیگی میں کوتاہی کے بارے میں خبردار کیا۔ اس کے نتیجے میں آنے والے وبال اور زوال کو بیان کیا۔  ان کے سامنے ایک مثالی طریقۂ کار پیش کیا، جس کو اختیار کرنا اور اس پر چلنا بہرحال اُن پر فرض تھا۔ 

یوں انھوں نے مسلمانوں کو غلط راستے اور بُرے انجام سے بچانے کی سعی کی، جس سے وہ انڈین نیشنل کانگرس کی ٹیڑھی سیاست کو قبول کرنے کی صورت میں دو چار ہو سکتے تھے۔ 

  • دوسرا دور: اس دور میں مولانا مودودی نے انڈین نیشنل کانگرس، ہندی قومیت پرمبنی اس کی سیاست اور مغربی قومیت اور متحدہ ہندی قومیت کے نظریات کا محاکمہ کیا۔ ان نظریات اور سیاسیات کے خلاف کھل کر لکھا اور ان کی نا معقولیت کو کھول کر بیان کیا۔ ان ہندو عزائم کو بے نقاب کیا، جو انھوں نے آزادی و واحد قومیت کے فریب کن پردوں میں چھپا رکھے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا مودودی نے نسلی قومیت اور جغرافیائی قومیت کی غلطیوں کو واضح کرنے کے لیے دلائل و شواہد سے مالامال سلسلۂ مضامین شروع کیا۔ مولانا مودودی کی بات کو جس چیز نے سب سے زیادہ تاثیر و طاقت بخشی، و ہ قدیم و جدید دونوں ماخذوں سے استفادہ، عصری و اسلامی دونوں تہذیبوں پر گہری نظر اور فلسفہ و علوم اور معیشت و سیاست حاضرہ کا وسیع مطالعہ تھا۔ اس طرزِ تحریر نے ان کے دلائل اور موقف میں بلا کی قوت پیدا کر دی تھی۔ اس کے علاوہ انھیں قرآن و سنت پر گہری نظر، اسرارِ شریعت میں گہری بصیرت اور مزاجِ دین کے کامل فہم کی صلاحیت بھی قدرتِ حق سے عطا ہوئی تھی۔ 

اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس معاملے میں کیوں لوگ نے اُن کے افکار و نظریات کا رَد نہ کرسکے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ خاموشی گویا اُن کا مولانا مودودی کے لہجے کی صداقت، دلیل کی قوت اور منہج کی وضاحت کا کھلا اعتراف تھا۔ اس بات کی شہادت افکارِ مودودی کے معتقدین اور ناقدین سب دیتے ہیں کہ مولانا کے یہ مضامین ہی تھے، جنھوں نے ہندی قومیت کے تصور کی کمرتوڑی اور اُس کے اوپر تمام دروازے اور راستے بند کر دیے، جہاں سے وہ لوگوں کے دل و دماغ میں داخل ہو سکتا تھا۔ اگر مولانا کا یہ قلمی و فکری جہاد نہ ہوتا تو مسلم قومی تنظیموں کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ ہندی قومیت کے اس سیلاب کو روک سکتے یا اس دیو کو قابو کر سکتے۔ تحریرِ مضامین کے اس دورثانی میں انڈین نیشنل کانگرس کے فریب میں آنے والے وطنیت پرست مسلمانوں اور مولانا مودودی کے درمیان معرکہ جاری تھا کہ دوسری طرف مسلم رابطہ عوام تحریک نے مسلم قومیت اور جغرافیائی اسلام کے پرچار کا راستہ اپنا لیا۔  

مولانا مودودی نے جب دیکھا کہ دین کے نام پر نسلی قومیت کو بطورِ متبادل پیش کیا جارہا ہے تو ان کا محاکمہ کرتے ہوئے خبردار کیا اور محض نعروں سے حصولِ منزل کے دھندلے نقوش واضح کیے۔ 

  •  تیسرا دور: ان کے سلسلۂ مضامین کے تیسرے دور نے قیام پاکستان میں کردار ادا کیا۔ اس موقعے پر مسلمانوں کے اندر ایک فکری انقلاب پیدا ہوا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ ان مضامین نے مسلم لیڈر شپ کو اپنے طریق کار اور مستقبل کے لائحہ عمل پر سوچنے کے لیے مجبور کر دیا۔ 

یہ سلسلۂ مضامین تین برسوں (۱۳۵۶ھ- ۱۳۵۹ھ) میں لکھا گیا اور ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ بعد ازاں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش  اور مسئلہ قومیت  کے عنوان سے چار جلدوں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلسل شائع ہوتا رہا۔ اس کتاب کے مشمولات روزنامہ اخبارات اور ہفت روزہ رسائل میں بھی طبع مکرر کی صورت میں شائع ہوتے رہے۔ ہندستان میں کوئی پڑھا لکھا گھرانہ ایسا نہ تھا، جہاں اس سلسلۂ مضامین کا کوئی نہ کوئی حصہ پہنچا اور پڑھا نہ گیا ہو۔ 

جماعت اسلامی کا قیام 

ان مضامین اور اس فکری انقلاب کا جو بیج نوجوان طلبہ اور تعلیم یافتہ لوگوں کے دل ودماغ میں ڈال دیا گیا تھا، اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا تھا کہ لوگ اس مصنف کے گرد جمع ہونے لگتے اوراس کی فکر سے مستفید ہوتے۔ لہٰذا انھوں نے مصنف سے کہنا شروع کر دیا اور اصرار کرنے لگے کہ وہ اس دعوت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر لیں اور اس راستے کی جدوجہد میں ان کی قیادت کریں۔  

تاہم، مولانا مودودی نے کسی جلد بازی سے کام نہ لیا بلکہ پہلے تو مسلمان جماعتوں اور تنظیموں کو دعوت دی کہ وہ اس دعوت پر لبیک کہیں، اس کو قبول کریں اور باطل نظریات کے مقابل اس کو پیش کریں۔ نسلی و علاقائی نعروں کے بجائے اقامت دین اور شہادت حق کی جدوجہد اور کوشش میں اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو صرف کریں۔ سید مودودی نے ملک کے طول و عرض میں ایسے تمام لوگوں کو اس طرف بلایا اور انھیں دعوت دی کہ وہ ہر قسم کی عصبیت کو چھوڑ کر اللہ بزرگ وبرتر کے سامنے جھک جائیں اور اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو اسلام کی دعوت اور اس کو اَزسرنو زندہ کرنےمیں صرف کردیں۔ 

اس طرح سیّد مودودی نے مسلمان زعماء، تنظیموں اور جماعتوں کے سربراہوں اور سیاسی تحریکوں کے لیڈروں کو اس دعوت سے صرفِ نظر کرتے اور فریضہ اقامت دین اور شہادتِ حق کی ادائیگی سے غافل دیکھا، تو اس ذمہ داری کو نبھانے کا عزم کیا۔ اس دعوت کو قائم کرنے کی ٹھان لی اور اس کی راہ میں جان لڑا دینے کا عہد کر لیا۔ 

پھر سیّد مودودی نے اس بنیادی نکتے سے اتفاق کرنے والوں اور اپنے دل و دماغ میں اس کی استعداد وقدرت رکھنے والوں کو اس اہم ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے اور اس کی راہ میں جدوجہد کرنے کی دعوت دی۔ انھیں اس راہ میں پیش آنے والے خطرات اور تکلیفوں سے آگاہ کیا۔ اس طرح کی دعوتی تحریکیں شخصیت پرستی سے انکار اور طاغوت و سرکش لوگوں کو نہ ماننے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، لہٰذا تکلیفوں، مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا ناگزیر ہے۔ ایسی تحریکیں طاقت و اختیار اور جبروجبروت کے حقیقی حق دار خدائے واحد اور معبودِ مطلق اللہ کی کامل اطاعت و بندگی اور اس کے احکام و قوانین کے سامنے سر جھکانے کی بنیاد پر وجود میں آتی اور قائم ہوتی ہیں۔  

سیّد مودودی کی اس دعوت پر یکم شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۵؍اگست۱۹۴۱ء کو ۴۲کروڑ آبادی پر مشتمل ہندستان کے طول و عرض سے صرف ۷۵آدمی لاہور میں جمع ہوئے، جنھوں نے اس معاملے پر باہمی غوروخوض اور صلاح مشورہ کیا۔ گہرے غوروخوض اور ہر پہلو سے بحث و تمحیص کے بعد شرکاء اس رائے پر متفق ہوئے کہ ایک جماعت قائم کی جائے، جو اس دعوت کی انجام دہی کا فریضہ ادا کرے ___ یعنی اقامتِ دین کی دعوت اور اس کے لوازمات و تقاضوں میں سے زمین پر قانونِ الٰہی کی تنفیذ، حکومت و معاشرت اور اقتصادیات و اجتماعیت کا نظام، عدلِ اجتماعی اور خوفِ خدا کی بنیادوں پر استوار کرنے کی جدوجہد اور اس کی دعوت ___یعنی وہ نظام جو اسلام نے پیش کیا اور پوری دنیا کو اس کی پیروی کی دعوت دی۔ یوں ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا اور اس روز تک اس دعوت کے تنہا داعی سیّدمودودی اس جماعت کے متفقہ طور پر امیر منتخب کیے گئے۔  

حاضرین نے دستور جماعت کی منظوری دی، جس میں یہ بنیادی شرائط درج کیں کہ جماعت اپنا پروگرام، قواعد و ضوابط، اپنا طریق کار اور سرگرمیاں خالص اسلام کی بنیادوں کے مطابق تشکیل دے گی اور اسی کے مطابق چلائے گی۔ موجودہ جمہوریت یا آمریت، یا موروثی و شخصی مسلمان بادشاہتوں کا شائبہ تک اس میں نہ تھا۔ جماعت کے تاسیسی حاضرین اجتماع کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی نظام کے قیام اور خالص اسلامی قانون کے نفاذ کی داعی جماعت اپنے داخلی ڈھانچے اور سرگرمیوں میں پہلے ہی دن سے خالص اسلامی طریق کار پر چل پڑے۔ 

ارکان کی تربیت اور دعوت کی اشاعت 

جماعت نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز شعبان ۱۳۶۰ھ ہی میں کر دیا اور اسلام کی دعوت اور اس کے خالص اور شفاف اصولوں کی نشرو تبلیغ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں شروع کر دی۔ جماعت دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے اور حق کی شہادت قولی و فعلی طور پر ادا کرنے کی عام لوگوں کو دعوت دیتی۔ دین کے احکام کو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنانے اور لازم کرنے کی تلقین کرتی۔ اس دعوت کولے کر غیرت و حمیت سے سرشار مخلص مسلمانوں کی جو جماعت اٹھی تھی، ان لوگوں نے اپنے ضمیروں کو نفاق اور اعمال و افعال کو تناقض سے پاک صاف کر لیا۔ انھوں نے مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونے اور رہنے کے عزم کا اعلان کیا۔ جونہی یہ دعوت، دین کے ساتھ مخلص نوجوانوں میں  پھیلی تو وہ کافر حکومت کے مناصب و ملازمتوں سے مستعفی ہونے لگے۔ انھوں نے ظلم و زیادتی کی بنیادوں پر قائم عدالتوں میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے غلط اور ظالمانہ کاروباری معاہدوں کو ختم کر دیا۔ سودی معاملات سے ہاتھ کھینچ لیے۔ 

اس میں سب سے بڑا فیصلہ تو اقامت دین کی راہ میں پیش آنے والے خطرات اور سختیوں کو خوش دلی سے برداشت کرنے کا عزم تھا۔ اس دعوت کے ظہور پذیر ہوتے ہی ان لوگوں نے اپنے قیمتی کاروباروں، مناصب و ملازمتوں اور مالی مفادات کی عظیم قربانی پیش کی۔ پھر ہر جگہ دعوت کا بول بالا ہونے لگا، تو وطنیت و قومیت پسند مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اپنے حجروں اور گوشوں میں بیٹھے مشائخ بھڑک اٹھے۔ دینی مدارس اور عصری جامعات میں تدریس و تصنیف پر اکتفا کرنے والے علماء کے اندر ایک بھونچال آگیا۔ انھوں نے اس دعوت کو لے کر اٹھنے والوں اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں پر ہلاکت و نفرت سے لتھڑے فتوے لگانے شروع کر دیے اور بعض نے ان کو خارجی تک کہنے سے بھی گریز نہ کیا۔ 

اُن ناقدین کے خیال میں اسلام بہت نرم اور سادہ ہے۔ وہ اپنے پیروکاروں کو بے دین اور ظالم حکمرانوں کے سامنے سرجھکانے سے منع نہیں کرتا۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سیدنا یوسفؑ نے بھی تو کافر حکومت کا منصبِ وزارت قبول کیا تھا___ تاہم ادھر کچھ ایسے بھی تھے، جنھوں نے اس دعوت کی صداقت کا اعتراف کیا۔ البتہ اُن کا یہ کہنا تھا کہ اب وقت بدل چکا ہے، لہٰذا اس بات کا امکان و اُمید نہیں ہے کہ خلافتِ راشدہ کی روح کا حامل دور واپس آ سکے۔کچھ ایسے بھی تھے جو کافرانہ عدالتوں، سرکاری ملازمتوں، اور نظام باطل میں بڑے بڑے عہدوں سے استعفا دینے والے مخلص نوجوانوں کے معاشی مستقبل پر رو رہے تھے کہ فقروفاقہ اور تنگ دستی سے ان کا بُرا حال ہو جائے گا۔ 

یہاں تک کہ ایسے بعض نوجوانوں کے والدین نے بیٹوں پر سختی شروع کر دی کہ انھوں نے اللہ و رسولؐ کی اس دعوت پر لبیک کیوں کہا ہے اور جماعت میں شامل کیوں ہو گئے ہیں؟ ان کو گھروں سے نکال دیا گیا، تاکہ وہ کلمۂ حق کہنے اور اس کی دعوت دینے سے باز آجائیں اور اسی جاہلانہ اور غفلت بھری زندگی کی طرف واپس لوٹ جائیں جو وہ پہلے گزار رہے تھے۔ 

کئی سال تک صورت حال اسی طرح رہی، لیکن دعوت روز بروز نشوونما پاتی رہی۔ ارکانِ جماعت اپنے دین کے باعث آزمائے جاتے رہے۔ اس دعوت سے وابستہ افراد کو ابتلا و آزمائش سے گزارا جاتا رہا۔ انھیں مختلف طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے دوچار کیا جاتا رہا___ لیکن یہ آزمائش و ابتلا اور آلام و مصائب توان کارکنانِ دعوت کے لیے اللہ کی رحمت تھے۔ اس کے ذریعے ان کے دلوں کا آئینہ شفاف تر ہوتا جا رہا تھا اور ان کے قلب و ضمیر میں ایمان کی چنگاری شعلہ بنتی جا رہی تھی۔ 

مختصر یہ کہ جماعت نے اپنی تاریخ کے ابتدائی برسوں میں دعوت کی نشرواشاعت اور اپنی آواز کوملک کے کونے کونے میں پھیلایا اور شہادت حق کو قولی طور پر احسن طریقے سے انجام دیا۔ اسی طرح جماعت نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا کہ شہادتِ حق عملی طور پر بھی ادا ہو۔ جماعت نے اپنے ارکان کے لیے لازم کیا کہ وہ اپنے اخلاق و معاملات اور تمام اعمال وافعال میں باوقار اور روشن کردار کا مظاہرہ کریں، جو لوگوں کے سامنے اسلام کی بولتی دلیل قرار پائے۔ انھیں جب ان کی دکانوںاور بازاروں میں دیکھا جائے، ان سے کوئی معاملہ کیا جائے، یا مدارس و مجالس میں ان کو آزمایا اور پرکھا جائے، تو ان کا کردار نکھر کر سامنے آجائے۔ انھیں دیکھنے والے کہہ اٹھیں کہ دین جب اپنا پھل دیتا ہے تو اپنے معاملات میں ان جیسے صادقین و صالحین وجود میں آتے ہیں۔ یقینا اس طرح کے کردار پیدا کرنے والا اور ہر دور میں اس طرح کا معاشرہ قائم کرنے والا اللہ کا دین ہی ہو سکتا ہے۔  

اسی لیے جماعت نے اپنے ارکان کی تربیت اور اسلامی آداب و اخلاق فاضلہ پر ان کو تیار کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا۔ اس کے لیے مختلف اور مفید طریقے اور سرگرمیاں اختیار کی گئیں۔ ان میں سے ایک سرگرمی یہ تھی کہ جماعت نے انسانی آبادی اور شہری ہنگامے سے دُور ایک مقام پٹھان کوٹ، مشرقی پنجاب میں اپنا مرکز قائم کیا۔ جماعت نے یہاں ایک چھوٹی سی بستی بھی بسائی جہاں اس کے دفتری ارکان و کارکنان اور قائدین و ذمہ داران قیام پذیر تھے۔ اس بستی کا نام ’دارالاسلام‘ رکھا گیا۔ 

ارکان جماعت، اس کے معاونین اور اس دعوت کے متاثرین ملک کے ہر کونے گوشے سے آتے اور ایک عرصہ یہاں گزارتے۔ وہ یہاں امیر جماعت اوران کے دیگر ساتھیوں سے علم و عمل کا درس لیتے، دعوت و ارشاد کے طریقوں کی تربیت پاتے۔ یہاں تک کہ جب اپنے اپنے علاقوں میں واپس جاتے تو علم و تقویٰ کی دولت سے لیس ہوتے، علم و فکر سے سرشار ہوتے اور اللہ کی راہ میں دعوت و جہاد کی راہوں کے متلاشی رہتے۔ 

یوں جماعت اپنے اس طریق کار پر گامزن رہی، جو اس نے اپنے لیے طے کیا تھا۔ تسلسل کے ساتھ اس پر قائم رہی، نہایت وقار کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھی کہ کوئی روکنے والا اس کو روک سکتا تھا، اور نہ یہ اظہارِ حق میں کسی ملامت کی پروا کرتے تھے ___ دعوت و تحریک کے اُمور ومسائل اسی طرح جاری و ساری تھے کہ اگست ۱۹۴۷ء میں ملک تقسیم ہو گیا اور مشرقی پنجاب میں مذہبی تقسیم کی بنیاد پر بڑا قتل عام شروع ہو گیا۔ جماعت کا مرکز چونکہ مشرقی پنجاب میں تھا،لہٰذا اس کے ارکان بھی یہاں بُری طرح اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ہر جگہ سے آکر لوگ ان کے پاس پناہ لے رہے تھے۔ لیکن یہاں کے ارکان جماعت سچے مجاہدین کی طرح کھڑے رہے۔ انھوں نے کوئی کمزوری دکھائی اور نہ اپنی جگہ سے ہلے۔ اللہ تعالیٰ نے حالات کو پلٹا اور امن وسلامتی کے ساتھ لاہور پہنچنے کے لیے سبیل پیدا کی۔ 

یہ تھی قیامِ پاکستان تک جماعت اسلامی کی مختصر تاریخ ___ اسلام کی خالص، کامل اور جامع دعوت لے کر اُٹھنے والی جماعت کی تاریخ۔ (جاری( 

مولانا مودودیؒ سے تعارف ان کی تحریروں کے ذریعے ۱۹۳۴ء میںحاصل ہوا، تب میں  مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر (۱۹۲۹ء تا ۱۹۳۷ء) میں تھا۔ ان دنوں مجھے اپینڈکس کا مرض ہوا، اور دورانِ علالت پہلی مرتبہ ماہنامہ ترجمان القرآن دیکھنے کا موقع ملا۔یہ اس زمانے میں حیدرآباد، دکن سے شائع ہوتا تھا۔ مجھے یہ رسالہ بے حد پسند آیا۔ اس سے قبل مجھے لکھنے کا ذوق تھا۔ مدرسۃ الاصلاح کا قلمی پرچہ مَیں لکھا کرتا تھا۔ چنانچہ میں نے ’نکاح کے اسلامی قوانین‘ پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھ کر مدیر ترجمان القرآن مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو بھیج دیا۔ انھوں نے یہ مضمون شائع کردیا۔ اس کے بعد میرا ایک طویل مضمون ’مسلمان اور امامت کبریٰ‘ تین قسطوں میں ۱۹۳۷ء کے پرچوں میں چھپ گیا۔ دراصل یہی مضمون میری تحریکی زندگی کا نقطۂ آغاز تھا۔  

ماہنامہ ترجمان القرآن سے قلمی معاونت قائم ہونے کے بعد ۱۹۳۷ء میں مولانامودودی نے دعوت دی کہ ترجمان القرآن  کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے ادارہ ترجمان القرآن پہنچ جائوں۔ ساتھ ہی انھوں نے مجھے یہ اطلاع دی کہ ترجمان القرآن  حیدرآباد، دکن سے پنجاب کی بستی جمال پور، ضلع گورداسپور منتقل ہورہا ہے اور یہ علامہ اقبال کی تحریک اور خواہش پر ہورہاہے اور طے پاچکا ہے کہ مارچ ۱۹۳۸ء میں وہاں ایک ’ادارہ‘ قائم کیا جائے، جس کے ذریعے دُنیا میںاسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ دراصل وہاں پر ایک زمیندار بزرگ چودھری نیاز علی صاحب نے ایک قطعۂ زمین (۶۰؍ایکڑ) دینی کاموں کے لیے وقف کیا تھا اور وہ اپنی وقف املاک میں ایسا ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے، جو مسلمانوں کی علمی،فکری اور عملی اصلاح کے کام میں ممدومعاون ہو۔ چودھری نیاز علی خاں صاحب، علّامہ محمد اقبال سے مشورے حاصل کرتے رہے اور انھی کے مشورے سے ہی ادارے کی تشکیل کا خاکہ حاصل کرنے کے لیے مختلف حضرات سے خط کتابت بھی کرتے رہے۔ مولانا مودودی سے بھی ۳۷- ۱۹۳۶ء کے دوران ان کی مراسلت ہوئی۔  

بلاشبہ مولانا مودودی کی تحریروں سے مجھے تحریک ملی، لیکن یہ فکر دراصل میرے اندر بحمدللہ پہلے ہی سے موجود تھی اور یہ سب علامہ حمیدالدین فراہیؒ کا فیض تھا۔ علامہ مرحوم کی مطبوعہ اور غیرمطبوعہ تمام تحریروں کو پڑھا کرتا تھا، جو سرائے میر کی الماریوں میں محفوظ تھیں۔ ان تحریروں نے میرے ذہن کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں بڑا اہم کردارادا کیا۔ مولانا مودودی کہا کرتے تھے کہ ’’علامہ فراہیؒ نے اپنے افکار و خیالات کے ذریعے لوگوں کو انقلاب کے دروازے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ اگر ان کو پڑھا جائے تو یقینی طور پر ایک انسان وہی سب کچھ کرتا چلا جائے گا جو جماعت اسلامی کررہی ہے‘‘۔ 

میری رکنیت کہیے یا پھر تحریک سے عملی وابستگی، فی الواقع ’قبل اَز تاریخ‘ تاسیسِ جماعت اسلامی سے شروع ہوتی ہے، یعنی ۱۹۳۹ء کے اوائل میں۔جماعت اسلامی کے قیام سے دو اڑھائی برس پہلے اسی کام کے لیے، جس کی خاطر جماعت اسلامی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء میں قائم کی گئی، دارالاسلام کے نام سے تحریک کا قیام بمقام جمال پور نزد پٹھان کوٹ پانچ افراد کی تجدیدِ شہادت کے ساتھ عمل میں آیا تھا۔ ان پانچ ارکان میں سے ایک یہ عاجز بھی تھا۔ بعد میں جب اسی تحریک کا نقش ثانی ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے قائم ہوا، تو ان دنوں میں رنگون میں تھا، جس کے باعث میں جماعت کے تاسیسی اجتماع میں شرکت نہیں کرسکا تھا۔ لیکن مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے مجھے اس کی اطلاع دیتے ہوئے میری اسی رکنیت ِ تحریک دارالاسلام کو جماعت اسلامی کی رکنیت قرار دے دیا۔ 

میں اپنی سوچ پراثرانداز ہونے والی جس واحد چیز کا نام لے سکتا ہوں وہ صرف قرآن کریم ہے۔ دوسری چیزوں کا اگر ذکر کروں تو وہ بالکل ضمنی اور ثانوی درجے ہی میں کرسکتا ہوں۔ ان دوسری چیزوں میں سیّدقطب کا واقعۂ شہادت سرفہرست ہے۔ اس سانحے نے مجھ پر بہت اثر ڈالا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کہیں عرشِ الٰہی نہ تھرا اُٹھا ہو۔ 

ساری زندگی یہی آرزو رہی ہے کہ وہ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے، ساتھیوں کو نیتوں کا اخلاص، ارادوں کی مضبوطی، اپنے کیے ہوئے عہد کا پاس اور نصب العین سے گہری شعوری اور عملی وابستگی عطا کرے۔ تحریک کے ساتھیوں کو دُنیا کی شادابی اور شیرینی اپنا گرویدہ نہ بنانے پائے۔ راہ کے کانٹے اور پتھر انھیں سُست گام نہ بناسکیں، مخالفت کی بے معنی غوغاآرائیاں انھیں اُلجھائو میں نہ ڈال سکیں۔ ایک فکر ، فکر ِ آخرت کے سوا اور کوئی چیز ان کی اصل فکر نہ بننے پائے۔ ایک رضائے مولیٰ کی طلب کے سوا اور کسی رضا کی انھیں حقیقی طلب نہ ہونے پائے۔ ان کے ذہنوں کو فہم اور حکمت، ان کی عقلوں کو دُوربینی اور تدبر، ان کے دلوں کو صبر اور استقامت، ان کے بازوئوں کو قوت اور ان کے قدموں کو برابر صراطِ مستقیم پر حرکت عطا ہوتی رہے۔ یہاں تک کہ اس حسین خواب کی تعبیر نظر آجائے۔ وَاللہُ  يُـؤَيِّدُ  بِنَصْرِہٖ  مَنْ   يَّشَاۗءُ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳) 

آپ کے سامنے اس زمانے کی بات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا مودودیؒ کی پکار پر جب جماعت کے ساتھ ہم منسلک ہوئے تو کیا پایا؟ مولانا محترم تحریک کے لیے کس قسم کے کارکن تیار کرنا چاہتے تھے؟ جو لوگ تحریک کے دورِ اوّل سے وابستہ ہوئے تھے، وہ گزر گئے۔ اب نئی پود کا زمانہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ان دونوں کے درمیان ربط رہے، کوئی خلا نہ پیدا ہو۔ تحریک کی عمارت بلند ہورہی ہے تو اُوپر لگنے والی اینٹیں پہلی اینٹوں کے مطابق رہیں۔ 

اب میں پہلی اینٹ اور پہلے ردّے کی داستان سنانا چاہتا ہوں: 

  • رکنیت:  سب سے پہلی چیز رکنیت ہے اور یہ قدمِ اوّل ہے، جماعت کے ساتھ وابستگی کا۔ اُس زمانے میں جو لوگ بھی جماعت کے قریب آتے تھے، وہ سب سے پہلے جماعت کی دعوت کو سمجھتے تھے، پھر ان کا ایمان ان کو دل جمعی کے ساتھ جماعت میں شامل ہونے پر اُکساتا تو وہ رکنیت کی درخواست دیتے تھے۔ جماعت کا طریقہ یہ تھا کہ جو آدمی رکنیت کا اُمیدوار ہوتا، اس کو انتظار کرنے کے لیے کہا جاتا۔ یہ انتظار ٹالنے کے لیے نہیں، بلکہ جائزہ لینے کے لیے ہوتا تھا کہ وہ صاحب کہیں شدتِ جذبات سے مغلوب ہوکرتو نہیں اس فیصلے پر پہنچے، یا انھوں نے واقعی پورے ہوش اور ٹھنڈے دل کے ساتھ شرکت ِ جماعت کے تقاضوں کو سمجھ لیا ہے؟ ان کے کردار کو دیکھا جاتا، ان کے مزاج کو جانچا جاتا اور یہ جائزہ مہینوں جاری رہتا۔اس دوران میں ان سے جماعت کے ساتھ کام کرنے کے لیے کہا جاتا، جس سے اندازہ کیا جاتا کہ جماعت کے نصب العین کے ساتھ ان کی شیفتگی اور وابستگی کتنی ہے۔ 
  • حلف: اس کے بعد حلف لینے کا وقت آتا۔ موجودہ دور کی کیفیت کو تو نہیں جانتا، لیکن اُس وقت حلف ِ رکنیت ایک اُمیدوار رکنیت کے لیے گویا محشر کا وقت ہوتا تھا۔ وہ دیدہ و دانستہ دین کی ذمہ اریوں کو اُٹھانے اور نبھانے کا عہد کرتا۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ جس شخص نے ان ذمہ داریوں کی گراں باری اور نزاکت کو سمجھ لیا ہو، حلف لیتے وقت اس کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی۔ ذمہ د اری کے احساس سے اس پر پہلا اثر یہ ہوتا تھا کہ حلف پڑھتے ہوئے وہ کانپتا اور لرزتا تھا۔ بعض اوقات ہم نے دیکھا کہ ایک شخص کی آواز منہ سے نہیں نکل رہی۔ وہ چند الفاظ بولتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی۔ اس کو یوں محسوس ہوتا گویا وہ اجتماع ارکان میں نہیں، بلکہ عرصۂ محشر میں کھڑاہے اور اپنی کارکردگی کی جواب دہی کر رہا ہے۔ یہ ایک خاص کیفیت ایک مدت تک جماعت میں رہی اور جماعت کی پہلی صف انھی لوگوں سے بنی۔ 
  • احتساب: تیسرا مرحلہ احتساب کا ہوتا تھا۔ یہ دیکھا جاتا تھا کہ جو صاحب جماعت  میں آئے ہیں وہ مقررہ معیار پر قائم ہیں یا نہیں۔ اگر وہ ذرا بھی نیچے گرتے تو سب کی نگاہیں ہمدردی اور دردمندانہ اپنائیت کےساتھ ان کی جانب اُٹھ جاتیں اور ان کو سنبھالا دینے کے لیے ہاتھ بڑھ جاتے۔ ان کی اصلاح کے لیے سب فکرمند ہوجاتے۔لیکن اگر وہ تمام سہاروں اور تعاون کے باوجود سنبھل نہ پاتے تو پھر اس بات کی پروا نہ کی جاتی کہ ہماری تعداد کم ہوجائے گی، بلکہ صرف اصول اور معیار پر نگاہ رہتی۔ اب اگر بگاڑ جاری رہے اور کوئی پُرسش نہ ہو تو اس مداہنت سے نظم تباہ ہوتا ہے۔ اس لیے اُس وقت جو بھی نظم اور اصول کو توڑتا، اس کا فوری محاسبہ ہوتا۔ ہماری اصل فکر جماعت کو بچانے کی ہوتی تھی۔ 
  • فہم دین: چوتھی چیز یہ کہ جو کوئی جماعت میں داخل ہوتا تھا، اس کو سب سے پہلے حصولِ فہم دین کی فکر ہوتی تھی۔ ایک جذبہ اُبھرتا تھا کہ دین کا صحیح علم حاصل کیا جائے، کیونکہ دین کے درست علم کے بغیر صحیح عمل ممکن نہیں۔ ہم لٹریچر کا خود بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کرتے اور دوسروں کو بھی اسی ذوق و شوق سے مطالعے کی ترغیب دیتے۔ کسی مجلس میں بیٹھتے تو ہماری خواہش ہوتی کہ دوسری باتوں کے علاوہ دین کی بات بھی ہوجائے۔ہمیں اہلِ قلم کی صحبت کا شوق ہوگیا تاکہ دعوتِ دین ہمارے دل و دماغ میں راسخ ہو، فہم اور تفقہ میں اضافہ ہو، اوریہ معلوم ہو کہ دعوتِ دین کے کیا تقاضے ہیں؟ وہ کون سی چیزیں ہیں جو ہماری زندگی کو اسلامی بناتی ہیں اور کن چیزوں سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے کہ اُن سے ایک جاہلی زندگی بنتی ہے؟ 

ہم لٹریچر کا اس شغف و انہماک سے مطالعہ کرتے اور دوسروں کو سناتے تھے کہ اس کے بعض پورے کے پورے حصے اَزبرہوجاتے۔ ہروقت یہ احساس دامن گیر رہتا کہ لٹریچر ہماری تحریک کی روح ہے، اس کا دامن اگر چھوڑ دیا تو ہم اپنی روح سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ پھر ماضی اور حال میں کوئی ربط باقی نہ رہے گا۔ آج مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم نے لٹریچر کے مطالعے میں کوتاہی برتی تو وہ وقت آئے گا کہ ہمارے ذمہ دارانہ مناصب پر ایسے لوگ آجائیں گے، جو ہماری دعوت اور ہمارے لٹریچر سے بے بہرہ ہوں۔ 

  • دو رنگی کا خاتمہ:پانچویں چیز یہ کہ تب اپنی زندگی کا بار بار جائزہ لیا جاتا تھا۔ اس کی فکرمندی ہوتی کہ ہماری زندگی میں کوئی غلط اور ناجائز چیز تو داخل نہیں ہوگئی۔ اگر معلوم ہوتا کہ فلاں چیز ہماری زندگی میں غلط ہے تو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک اس کو اپنے اندر سے نکال نہ پھینکتے۔ میاں طفیل محمدصاحب نے وکالت ترک کی، چودھری علی احمد خاں مرحوم نے پولیس کی ملازمت چھوڑی، غرض جو بھی جماعت کے قریب آتا، یااس کی رکنیت لیتا، سب سے پہلے اپنی زندگی کا جائزہ لے کر غلط، ناجائز اور اللہ کے نزدیک ناپسند چیزوں کو اپنی زندگی سے خارج کرتا۔ میں نے خود اپنی زندگی کا جائزہ لیا اور اپنی ان چیزوں سے چھٹکارا حاصل کیا جو مجھے بے حد پسند لیکن دین میں ناپسندیدہ تھیں۔ ہم نے گنجائش اور رخصت کو کبھی نہیں ڈھونڈا تھا۔جو چیز کتاب و سنت سے ثابت ہوجاتی تو پھر اس کو قبول نہ کرنا ہمارے لیے مشکل ہوجاتا تھا۔ یہ سلف کا جذبہ تھا، جو بعد میں آنے والوں میں منتقل ہونا چاہیے۔ تحریک کا تسلسل اسی سے قائم رہے گا۔ 
  • اخوت و محبت: چھٹی چیز رفقا کے لیے گہری محبت اور خیرخواہی کا جذبہ تھا۔ دارالاسلام میں چند رفقا مقیم تھے، لیکن ان کی حالت ایک دردمند گروہ کی سی تھی، جو اپنے سے زیادہ دوسروں کے لیے سوچتے تھے۔ہم اللہ کے لیے ملتے اور اللہ کے لیے بیٹھتے، اور کوئی غرض سوائے دین کے ہمارے درمیان نہ تھی۔ یہی چیز جماعت کے استحکام کا باعث بنی۔ اس جذبۂ باہمی محبت نےجماعت اسلامی کو سیسہ پلائی دیوار بنادیا۔ کسی کو تکلیف ہوتی تو سب تڑپ اُٹھتے، جماعت اسی جذبے سے پروان چڑھی۔ 
  • بزرگوں کا احترام:ساتویں چیز بزرگوں کا احترام تھا۔ جماعت میں جب ہم شامل ہوئے تھے تو ہمارا بھی عہد ِشباب تھا، لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بزرگوں کے سامنے آواز کو بلند کیا جائے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں جو کچھ ملے گا، بزرگوں کے ادب اور ان کے احترام سے ملے گا۔ چنانچہ ہم نے اس عمل سے فیض پایا۔ بڑوں کے لیے احترام کا جذبہ، جماعت کو استحکام دیتا ہے۔ جن لوگوں نے جماعت کے لیے قربانیاں دی تھیں، ان کے سامنے ہمارے سر ہی نہیں، ہمارے دل بھی جھکتے تھے۔ اگر اگلوں نے پچھلوں کی قدر نہ کی، تو زنجیر ٹوٹ جائے گی۔ 
  • داعیانہ تڑپ:آٹھویں چیز ہمارے اندر توسیع دعوت کے جنون کی صورت میں موجزن تھی۔ یہ جذبہ تھا کہ جو حق ہمیں ملا ہے، وہ دوسروں تک بھی پہنچ جائے۔ چلتے پھرتے، دفتر، دکان، سفر، مجلس، ہر جگہ ہم کو حکمت کے ساتھ دعوت پھیلانے کی لگن رہتی تھی۔ گھر میں بیٹھتے تو بچوں کو دین کی تعلیم دیتے۔ اس کی فکر کرتے کہ ہمارا کوئی فعل ایسا نہ ہو کہ جس سے بچوںکو غلط سبق ملے۔ ایک مرتبہ میں نے اور میری بیوی نے عہد کیا کہ ہم گھر میں جھوٹ موٹ کا جھوٹ بھی نہیں بولیں گے، تاکہ بچوں پر نقش ہوجائے کہ زندگی صرف سچ بولنے کا نام ہے۔ ہمارا وتیرہ تھا کہ اجتماع سے گھر آتے تو اجتماع کی رُوداد سب سے پہلے اپنے گھر میں بچوں کے سامنے بیان کرتے۔ اس طرح ہمارا گھریلو ماحول ہمارے لیے سد ِ ّراہ بننے کے بجائے سازگار ہوتا چلاگیا۔ 

پھر گھر سے باہر نکلتے تو دعوت کی کوئی نہ کوئی چیز ہمارے پاس ضرور ہوتی۔ ہم لوگوں کے پاس چل کر جاتے اور یہ توقع نہ رکھتے کہ وہ چل کر ہمارے پاس آئیں گے۔ جماعت اور اجتماعیت کا ہر کام خود کرتے، اس سے ہمارے تحریکی جذبے کو تقویت ملتی۔ اپنے ہاتھوں سے گلیوں میں اور دیواروں پہ پوسٹر لگانے سے جو جذبہ اُبھرتا ہے، وہ کرائےپر لگوانے سے نہیں اُبھرسکتا۔ دارالاسلام کے قریبی دیہات میں ہم دعوت لے کر گھومے پھرے، خود میاں طفیل محمد صاحب دعوتی گشت کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح پاکستان پہنچے تو اچھرہ کی ایک ایک گلی چھان ماری۔ ہم کو اس کی پروا نہ تھی کہ کوئی ہماری دعوت قبول کرے گا یا نہیں، ہمارے ذہن میں فقط ایک بات بیٹھی ہوئی تھی کہ ان لوگوں تک ہمیں اپنی بات پہنچانا ہے۔ 

  • نظم کا احترام:نویں چیز یہ کہ ہمارے دلوں میں نظم کا بے حد احترام تھا۔ اُوپر سے کوئی ہدایت آتی تو اس کی بجاآوری کے لیے ہرممکن سعی کرتے۔ سمع و طاعت کی روح کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے۔ اجتماعات میں لازماً شریک ہوتے، اِلا یہ کہ کوئی حقیقی اور واقعی شرعی عُذر ہوتا۔ وقت ِ مقررہ پر اجتماع گاہ میں پہنچتے۔ کوئی لیٹ ہوجاتا تو عُذر تراشنے کے بجائے نہایت ندامت کے ساتھ وجہ بیان کرتا۔ سب شرکاء اجتماع میںخاموشی اور احترام سے بیٹھتے۔ 
  • عہدوں سے گریز:دسویں چیز یہ ہے کہ مناصب اورعہدوں کی طلب کا کوئی تصور تک نہ تھا۔ کوئی ذمہ داری کسی پر ڈالی جاتی تو وہ اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا، ہزار معذرتیں کرتا کیونکہ نگاہ ذمہ داری کی ادائیگی اور جواب دہی پر ہوتی، منصب اور منصب کے کروفر پر نہ ہوتی تھی۔ عہدوں کے معاملے میں بڑی احتیاط پائی جاتی تھی۔ عہدوں سے گریز کا رجحان عام تھا۔ ذمہ داری کا نام لیا جاتا تو ہرفردکے سامنے اپنی کوتاہیاں اور خامیاں صف در صف کھڑی ہوجاتیں۔ 
  • بیت المال:گیارھویں چیز یہ ہے کہ بیت المال کے بارے میں بڑی احتیاط کی جاتی تھی۔ یہ احساس ہروقت مسلط رہتا کہ بیت المال کا کوئی ایک پیسہ بھی ہمارے ہاتھوں سے ضائع نہ ہونے پائے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول گویا مجسّم سامنے رہتا کہ ’’بیت المال، مالِ یتیم ہے‘‘۔ اعانتوں کی وصولی میں مستعدی سے کام لیتے۔ اعانت لینے کا مطلب صرف اعانت لینا نہیں ہوتا تھا، بلکہ اعانت دینے والے کو دعوتِ دین سے قریب تر کرنا ہوتا تھا۔ اس لیے اعانت کی وصولی کو معمولی کام نہ سمجھا جائے، یہ افراد کو قریب لاتی ہے۔ اس کے ساتھ دعوت پھیلتی ہے اور اس سے عدم توجہی گویا دعوت سے عدم توجہی ہے۔ 
  • غیبت و نجویٰ:بارھواں پہلو یہ تھا کہ اس زمانے میں غیبت و نجویٰ کی کوئی بات نہ تھی۔ کسی کے بارے میں حتیٰ کہ مخالفین کے بارے میں بھی زبان سے کوئی ناشائستہ بات نہیں نکالی جاتی تھی۔ کنویسنگ سے یوں بچا جاتا تھا جیسے آگ سے بچاجاتا ہے۔ یہ یاد رکھیے کہ جس نظم میں کنویسنگ، غیبت اور نجویٰ داخل ہوجائیں تو یہ اس کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔ یہ گھن کی طرح ہوتے ہیں کہ بظاہر لکڑی صحیح وسالم معلوم ہوتی ہے لیکن ایک دن اچانک دھڑام سے نیچے آرہتی ہے۔ 
  • رضاکار کارکن:تیرھویں چیز یہ ہے کہ وہ رضاکار کارکن کا دور تھا جو ہمہ وقتی کارکن کے مقابلے میں زیادہ مؤثر تھا۔ اب تو گویا تمام بار ہمہ وقتی کارکنوں پر ڈالنے کا عمومی رجحان پیدا ہوگیا ہے، لیکن یہ رجحان کام کے جذبے اور لگن کو ختم کر دیتاہے۔ 
  • مشاورت:چودھویں چیز یہ تھی کہ ہراہم مسئلے میں مشورہ کیا جاتا تھا۔ مشورہ گویا نظم کی جان تھی۔ مشورہ طلب کیا جاتا تھا تو پورے اخلاص اور دیانت سے اپنی رائے دی جاتی تھی۔ اس میں مداہنت نہیں ہوتی تھی، لیکن شائستگی ضرور ہوتی تھی۔ پھر جب فیصلہ ہوجاتا تو وہ لوگ بھی اس کو بخوشی قبول کرلیتے، جو بحث کے دوران ہونے والے فیصلے سے مختلف پہلو پر اپنی رائے کا پُرجوش  اظہار کرتے تھے۔ 
  • تنقید واحتساب: پندرھویں چیز یہ ہے کہ تنقید واحتساب میں کمی آجائے تو نظم اپنی خامیوں سے کبھی آگاہی نہیں پاسکتا۔ تنقید کرنے والے اخلاص سے تنقید کرتے تھے اور جن پر تنقید ہوتی ، وہ خندہ پیشانی سے سنتے تھے۔ مولانا مودودی مرحوم نے اس سلسلے میں بہترین نمونہ پیش فرمایا تھا۔ انھوں نے اپنے اُوپر سخت سے سخت تنقید برداشت کی، لیکن کسی کو ٹوکا نہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھیے کہ تنقید اخلاص سے ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی ذاتی عنصرشامل نہیں ہونا چاہیے۔ اپنی حقیقی رائے کا صاف صاف اظہار اجتماع میں کیجیے، لیکن اسے اِدھر اُدھر بیان نہ کیجیے۔ پھر تنقید سننے والوں کو بھی وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تنقید کو وہ معنی نہیں پہنانے چاہئیں جو دوراز مطلب ہوں۔ 
  • ذہنی ہم آہنگی:سولھویں چیز یہ ہے کہ ہماری رائے میں مکمل ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ اُس زمانے میں ذہن اس طرح ڈھل چکے تھے کہ خیبر سے کراچی تک ہر کارکن کی سوچ الفاظ سمیت ایک ہوتی تھی۔ اجتماعیت کی ذہنی ہم آہنگی، ان کے درخشاں مستقبل کی نشانی ہوتی ہے۔ 
  • ہرلمحہ ڈیوٹی پر! :سترھویں چیز یہ ہے کہ تب چھٹی کا کوئی تصور نہ تھا۔ ہم ہروقت اور ہرلمحہ ڈیوٹی پر ہوتے تھے۔ کام کی کشش ہمیں باندھے رکھتی تھی۔ جہاں بھی جاتے تھے گویا ڈیوٹی پر جاتے تھے۔ داعی کے لیے حقیقت میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی، ہم اس کے مصداق تھے   ع 

اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا 

  •  دُنیا کی حقیقت:اٹھارھویں چیز یہ ہے کہ ہم دُنیا کی چمک دمک سے مرعوب نہ ہوتے تھے۔ دُنیا ہمیں قوتِ ایمانی کے سامنے ہیچ معلوم ہوتی تھی۔ یہ حقیقت ہروقت مستحضر رہتی تھی کہ دُنیا ایک بے حقیقت اور فانی چیز ہے۔ اس لیے اس سے کبھی مرعوب نہ ہوتے تھے، نہ اس کے جلال سے اور نہ اس کے جمال سے۔ دُنیا کو ہیچ سمجھنے کا جذبہ توانا رہنا چاہیے۔ یہ چیز ہمیں دعوت کے لیے باہمت بناتی تھی۔ کسی سے خوف نہیں آتا تھا اور نہ کوئی پریشانی ہوتی تھی۔ یہ سوال بھی کبھی نہیں ستاتا تھا کہ مدت گزر گئی ہے، منزل ابھی تک قریب کیوں نہیں آئی؟ ہم نے سمجھ لیا تھا کہ شہداء علی الناس ہونا بجائے خود ایک بلندمقام ہے۔ 

اس بیان سے مقصود یہ ہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے بناکردہ کام اور تیارکردہ کارکن کا معیار ہمارے سامنے رہے۔ اس سے ایسا آئینہ تیار ہوجائے جس سے ہم اپنے داغ دھبے وقتاًفوقتاً دیکھ لیا کریں۔ ہمیں ہروقت اپنا موازنہ پہلی اینٹ اور پہلے ردّے سے کرتے رہنا چاہیے۔ 

یاد رکھیے انحطاط کبھی اعلان کرکے نہیں آتا، یہ دبے پائوں آتا ہے۔ ایک ایک ذرہ سرکتا ہے اور پھر دیوار گرتی ہے۔ اس کی پہلے خبر نہیں ہوتی، پھر اچانک وقت آتا ہے کہ عملِ انحطاط اپنی خوفناک تصویر پیش کرتا ہے۔ ہم لوگ جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اور ان کا دامن تھامے ہوئے ہیں، ہمیں ہروقت اپنا احتساب کرتے رہنا چاہیے۔ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ ہم میں جذبۂ اصلاح ہو، اخلاصِ نیت ہو، اپنا اخلاقی معیار اور داعیانہ کردار ہرحال میں برقرار رہے۔آمین! 

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہےّ 
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات 

ایمان باللہ، انسان کو پستی و ذلّت سے اُٹھا کر خودداری وعزّتِ نفس کے بلند ترین مدارج پر پہنچا دیتا ہے۔ جب تک اس نے خدا کو نہ پہچانا تھا، دُنیا کی ہرطاقت ور چیز، ہرنفع یا ضرر پہنچانے والی چیز ، ہر شان دار اور بزرگ چیز کے سامنے جھکتا تھا، اس سے خوف کھاتا تھا، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا تھا، اس سے اُمیدیں وابستہ کرتا تھا۔ مگر جب اس نے خدا کو پہچانا تو معلوم ہوا کہ جن کے آگے وہ ہاتھ پھیلا رہا تھا وہ خود محتاج ہیں۔ یہ علم حاصل ہونے کے بعد وہ تمام دُنیا کی قوتوں سے بے نیاز اور بے خوف ہوجاتا ہے۔ خدا کے سوا اس کی گردن کسی کے آگے نہیں جھکتی۔ خدا کے سوا اس کا ہاتھ کسی کے آگے نہیں پھیلتا۔ خدا کے سوا کسی کی عظمت اس کے دل میں نہیں رہتی۔ خدا کو چھوڑ کر وہ کسی دوسرے سے اُمیدیں وابستہ نہیں کرتا۔ (اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی، ص ۱۲۶،۱۲۸( 


یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید 
کہ آرہی ہے دما دم صدائے ’کُن فَیَکُون‘ 

قدرتِ الٰہی کم تر درجے کی چیزوں سے تخلیق کی ابتدا کر کے بتدریج بلند تر درجے کی چیزیں پیدا کرتی رہی ہے۔ مثلاً جمادات پہلے پیدا کیے گئے۔ اس کے بعد نباتات، پھر حیوانات اور حیوانات میں بھی کم تر درجے کے حیوانات پہلے پیدا کیے گئے اور پھر بتدریج اعلیٰ قسم کے حیوانات پیدا کیے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ بلند ترین نوع یعنی انسان کو پیدا کیا گیا۔ قدرت کا یہی قاعدہ اس عالم پر بہ حیثیت مجموعی بھی جاری ہونا چاہیے، یعنی موجودہ نظامِ عالم بہ حیثیت مجموعی ناقص ہے۔ لہٰذا، اس کے بعد ایک دوسرا نظامِ عالم ہونا چاہیے، جو اس سے کامل تر ہو، اور اسی نظام کا نام عالمِ آخرت ہے۔ گویا موجودہ نظامِ عالم کے بعد عالمِ آخرت کا آنا قدرت کے قانون ارتقا کا ایک لازمی تقاضا ہے۔(رسائل و مسائل، اوّل، ص ۲۹۱، ۲۹۲( 


یہی مقصودِ فطرت ہے ، یہی رمزِ مسلمانی 
اُخوت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی 

خدا کی راہ میں کام کرنے والے لوگوں کو عالی ظرف اور فراخ حوصلہ ہونا چاہیے، ہمدردِ خلائق اور خیرخواہِ انسانیت ہونا چاہیے۔ کریم النفس اور شریف الطبع ہونا چاہیے۔ خوددار اور خُوگر قناعت ہونا چاہیے۔ متواضع اور منکسرمزاج ہونا چاہیے۔ شیریں کلام اور نرم خُو ہونا چاہیے۔ وہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں، جن سے کسی کو شر کا اندیشہ نہ ہو اور ہر ایک ان سے خیرخواہی کا متوقع ہو۔ جو اپنے حق سے کم پر راضی ہوں اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے پر تیار رہیں۔ بُرائی کا جواب بھلائی سے دیں، یا کم از کم بُرائی سے نہ دیں۔ جو اپنے محبوب کے معترف اور دوسروں کی بھلائیوں کے قدردان ہوں، جو اتنا بڑا دل رکھتے ہوں کہ لوگوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرسکیں، قصوروں کو معاف کرسکیں، زیادتیوں سے درگزر کرسکیں اور اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیں، جو خدمت لے کر نہیں، خدمت کرکے خوش ہوتے ہوں۔ اپنی غرض کے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ ہرتعریف سے بے نیاز اور ہرخدمت سے بے پروا ہوکر اپنا فرض انجام دیں اور خدا کے سوا کسی کے اجر پر نگاہ نہ رکھیں۔ جوطاقت سے دبائے نہ جاسکیں، دولت سے خریدے نہ جاسکیں، مگر حق اور راستی کے آگے بے تامّل سر جھکا دیں۔ جن کے دشمن بھی ان پر بھروسا رکھتے ہوں کہ کسی حال میں ان سے شرافت و دیانت اور انصاف کے خلاف کوئی حرکت سرزد نہیں ہوسکتی۔  

یہ دلوں کو موہ لینے والے اخلاق ہیں۔ ان کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے بڑھ کر اور ان کا سرمایہ، سیم و زر کی دولت سے گراں تر ہے۔ کسی فرد کو یہ اخلاق میسر ہوں تو وہ اپنے گردوپیش کی آبادی کو مسخرکرلیتا ہے،لیکن اگر کوئی جماعت کی جماعت ان اوصاف سے متصف ہوجائے، تو پھر دُنیا کی کوئی طاقت اُسے شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ (اسلامی تزکیۂ نفس، ص ۲۸-۲۹( 


یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں 
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری 

دورِ ملوکیت کے تغیرات میں سے ایک اہم تغیر یہ تھا کہ مسلمانوں سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی آزادی سلب کرلی گئی۔ حالانکہ اسلام نے اُسے مسلمانوں کا صرف حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا ہے۔ اسلامی معاشرہ و ریاست کا صحیح راستے پر چلنا اس پر منحصر تھا کہ قوم کا ضمیر زندہ اور اس کے افراد کی زبانیں آزاد ہوں۔ ہرغلط کام پر وہ بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں۔ خلافت راشدہؓ میں لوگوں کی یہ آزادی پوری طرح محفوظ تھی۔  

خلفائے راشدینؓ اس کی نہ صرف اجازت دیتے تھے بلکہ اس پر لوگوں کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کے زمانے میں حق بات کہنے والے ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں، تعریف اور تحسین سے نوازے جاتے تھے۔ اور تنقید کرنے والوں کو دبایا نہیں جاتا تھا بلکہ ان کو معقول جواب دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ لیکن دورِملوکیت میں ضمیروں پر قفل چڑھا دیئے گئے اور زبانیں بندکردی گئیں۔ اب قاعدہ یہ ہوگیا کہ منہ کھولو تو تعریف کے لیے کھولو، ورنہ چپ رہو، اور اگر تمھارا ضمیر ایسا ہی زوردار ہے کہ تم حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتے، تو قید اور قتل اور کوڑوں کی مار کے لیے تیار ہوجائو۔ چنانچہ جو لوگ بھی اس دور میں حق بولنے اور غلط کاریوں پر ٹوکنے سے باز نہ آئے، ان کو بدترین سزائیں دی گئیں، تاکہ پوری قوم دہشت زدہ ہوجائے۔(خلافت و ملوکیت، ص ۱۶۳-۱۶۴( 


یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج 
صوفی و مُلّا ملوکیت کے ہیں بندے تمام 

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام کی اکثریت یا تو قلّت ِفہم کے باعث یا کم ہمتی کے سبب سے، یا پھر اپنی نااہلی کے اندرونی احساس کی وجہ سے دین و دُنیا کی اس تقسیم پر راضی ہوچکی ہے، جس کا تخیل اب سے مدتوں پہلے عیسائیوں سے مسلمانوں کے ہاں درآمد ہوا تھا۔ انھوں نے چاہے نظری طور پر اُسے پوری طرح نہ مانا ہو، مگر عملاً وہ اُسے تسلیم کرچکے ہیں کہ سیاسی اقتدار اور دُنیوی ریاست و قیادت غیراہل دین کے ہاتھ میں رہے، چاہے یہ محدود دُنیا بے دین سیاست و قیادت کی مسلسل تاخت سے روز بروز سکڑ کر کتنی ہی محدود ہوتی چلی جائے۔ اس تقسیم کو قبول کرلینے کے بعد یہ حضرات اپنی تمام تر قوت دو باتوں پر صرف کر رہے ہیں: 

  • ایک اپنی محدود مذہبی ریاست کی حفاظت، جس کے مسائل اور معاملات میں کسی کی مداخلت انھیں گوارا نہیں ہے۔ 
  • دوسرے کسی ایسی بے دین قیادت سے گٹھ جوڑ، جو مذہب کے محدود دائرے میں ان کی اجارہ داری کے بقا کی ضمانت دے دے، اور اس دائرے سے باہر کی دُنیا پر جس فسق اور ضلالت کو چاہے فروغ دیتی رہے۔ اس طرح کی ضمانت اگر کسی قیادت سے انھیں مل جائے تو یہ دل کھول کر اس کا ساتھ دیتے ہیں اور خود جان لڑا کر اُسے قائم کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے، خواہ اس کا نتیجہ یہی کیوں نہ ہو کہ کفروالحاد اور فسق و ضلالت تمام سیاسی و معاشی اور تہذیبی قوتوں پر قابض ہوکر پورے دین کی جڑیں ہلا دے اور اس محدود مذہبیت کے پنپنے کے امکانات بھی باقی نہ رہنے دے، جس کی ریاست اپنے لیے محفوظ رکھنے کی خاطر یہ لوگ اس قدر پاپڑ بیل رہے ہیں۔(رسائل و مسائل، دوم، ص ۴۹۹-۵۰۰( 

سادگی اس فطری ذوق کا عنوان ہے، جس کے نتیجے میں انسان کسی قدر اطمینان اور اعتماد کے ساتھ وہ دکھائی دیتا ہے جو وہ واقعتاً ہوتا ہے۔ سادگی کسی انسان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو کبر، حرص اور نمائش سے خود کو بچانے کی جدوجہد سے حاصل ہوتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ’سادگی ایمان کی دلیل ہے‘۔ اس کی برکت سے انسان تصنع، بناوٹ اور تکلفات سے خود کو پاک رکھتے ہوئے اپنے احساسِ جمال کی بہ آسانی تسکین کرتا ہے۔ 

سادگی بامعنی زندگی کی بہت اہم قدر ہے، جس کا مقصد اس مستقل ذمہ داری کو نبھاتے رہنا ہے کہ اپنی ضروریات کو مختصر اور محدود رکھا جائے اور خواہشات کی اندھی تقلید کے بجائے ان کو پرکھتے رہا جائے۔ سادگی کا تعلق انسان کے مزاج سے بھی ہے اور اس کے طرزِ زندگی سے بھی۔ جب انسان سادگی اختیار کرتا ہے تو وہ نہ تو اپنے نام کے ساتھ القابات سننا چاہتا ہے، اور نہ اپنی تعریف ہی قبول کرتا ہے۔ ایسا انسان نہ تو کسی سے مرعوب ہوتا ہے اور نہ کسی کو مرعوب کرنا چاہتا ہے۔ کسی انسان کی نفاست اور وقار جب مادی سہاروں کے محتاج نہ رہیں تو سادگی جنم لیتی ہے۔ سادگی زندگی کا ایک ایسا خوب صورت رکھائو اور رچائو ہے، جو انسان میں انکسار اور وضع داری کو فروغ دیتا ہے۔ 

سادگی کے راستے کی دیواریں 

سادگی کے راستے کی دیواریں اسراف، نمود، تصنع اور تکلّف ہیں: 

  • ’اسراف‘ کا مطلب ہے اعتدال یا میانہ روی چھوڑنا اور حد سے بڑھ جانا۔ اسراف بولنے، کھانے، سونے سے لے کر اپنے اُوپر خرچ کرنے تک، درحقیقت طرزِ زندگی کے بے شمار معاملات میں ہورہا ہے، یعنی لوگ کسی بھی معاملے میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں، جس کا نہ تو کوئی جواز بنتا ہے اور نہ کوئی اجر۔  
  • ’نمود‘ سے مراد اپنی مالی حیثیت اور اپنی شان و شوکت کا غیر ضروری دکھاوا یا نمائش ہے۔ 
  • ’تصنّع‘ کسی بھی غیر ضروری اور غیرفطری طریقۂ کار یا بناوٹی انداز اختیار کرنے کا نام ہے۔ 
  • ’تکلّف‘ ایک خوب صورت اور معصوم جذبے کے تحت اس بلاجواز اہتمام اور معاملے کا نام ہے، جو غیرضروری مشکل کا باعث بنے۔ 

اس وقت مسلم معاشرے میں اسراف، نمود، تصنع اور تکلف سے مساجد اور مذہبی اداروں سے لے کر تعلیم یافتہ گھرانوں تک کوئی محفوظ نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان میں سے کسی ایک بھی خرابی کا شکار ہوجائے تو وہ آہستہ آہستہ باقی خرابیوں میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آجاتا ہے کہ اسے اپنا یہ خراب عمل بھی اچھا لگنے لگتا ہے اور وہ اس کے حق میں جواز بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔ اسراف میں مبتلا لوگوں کے بارے میں قرآن نے خبردار کر دیا کہ جو لوگ حد سے گزر جاتے ہیں، انھیں اپنے کرتُوت اسی طرح خوش نما معلوم ہوتے ہیں۔(یونس۱۰:۱۲) 

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مال کے حوالے سے مسلمان کی ذمہ داری صرف جائز کمانا ہی نہیں بلکہ اسے جائز خرچ کرنا بھی ہے۔ غور کیجیے کہ ربّ کریم نے اپنے کلامِ پاک میں انسانوں کو ان کا حق دینے اور فضول خرچی سے بچنے کا حکم ایک ساتھ دیا ہے۔ ان قرآنی آیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم اپنا مال درست جگہ اور درست مقصد میں خرچ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو معاشرے میں دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے: 

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۝۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًا۝۲۷ (بنی اسرائیل  ۱۷: ۲۶-۲۷) رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین او ر مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے۔ 

’اسراف‘ کی ایک شکل یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں آرام اور سہولت اپنی جائز حد سے تجاوز کرجائے اور زندگی پُرتعیش ہوجائے۔ قرآن نے اس حوالے سے واضح احکام دیے ہیں کہ حرام کیا ہے اور اس کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن ’اسراف‘ سے بچنے کا معاملہ انسان کے شعور پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ سیرتِ رسولؐ سے اصول اخذ کرتا رہے اور اپنے معاملات کا خود ہی جائزہ لیتے ہوئے خود کو حد کے اندر رکھنے کے لیے ان اصولوں کا انطباق کرے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ’نازونعم کی زندگی سے بچنا، کیونکہ اللہ کے بندے نازونعم کی زندگی نہیں گزارا کرتے‘ (مسنداحمد، رقم:۲۲۱۰۵)۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت معاذؓ، رسول ؐ اللہ کے تربیت یافتہ اور قریبی صحابی تھے اور ایک اہم سرکاری منصب پروہاں تعینات کیے گئے تھے۔ تعیشات جس طرح کسی عام انسان کو بگاڑنے کا باعث بن سکتی ہیں، توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسے جلیل القدر صحابی پراثرانداز نہیں ہوسکتی تھیں۔ پھر اعلیٰ منصب کے شایانِ شان وسائلِ تعیش کا مہیا ہوجانا اور ان سے تمتع معاشرے کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ بلکہ بہت سے عام لوگوں کے لیے بلاشبہ توقع کے عین مطابق ہوتی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ تعیش اگر حرام نہ بھی ہو تو بھی روحِ بندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سے خود کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ اس حدیث کی شرح میں مُلّا علی قاریؒ فرماتے ہیں: خواہشات کی تکمیل میں حد سے بڑھ کر کوشش کرنے اور لذتوں کا حریص و مشتاق رہنے سے منع کیا گیا ہے‘۔(مرقاۃ المفاتیح، ج۸، ص ۳۲۹۵) 

شیخ زین الدین مناویؒ فرماتے ہیں: ’’عیش و عشرت اگرچہ مباح چیزوں میں جائز ہے، لیکن یہ صفت، تعیش کے ساتھ انسان میں انسیت پیدا کرتی اور غفلت کی طرف مائل کردیتی ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ رسولؐ اللہ کو ایک قیمتی لباس تحفے میں پیش کیا گیا، جو ۳۳؍اُونٹ اور ایک اُونٹنی کے عوض خریدا گیا تھا، اور آپؐ نے اسے ایک بار پہنا۔ لیکن رسول ؐ اللہ چونکہ معصوم ہیں اور مباح کی حدود سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے آپؐ پر ایسی چیزیں اثرانداز نہ ہوتی تھیں جن کے نتیجے میں غرور، تکبر، خوشامد یا ناپسندیدہ چیزوں کی طرف تجاوز کا احتمال ہو، جب کہ عام انسان اس قسم کے خطرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا‘‘۔ 

اس واقعے میں غور کرنے کے کئی پہلو ہیں: پہلا یہ کہ اتنا بیش قیمت لباس آپؐ نے خود نہیں خریدا تھا بلکہ آپؐ کو تحفے میں پیش کیا گیا تھا۔ دوسرا یہ کہ رسول ؐ اللہ لوگوں کی دل جوئی کی خاطر تحفہ قبول فرما لیا کرتے تھے، لہٰذا ایسا قیمتی لباس بھی قبول کرلیا۔ تیسرا یہ کہ رسولؐ اللہ نے اپنے عمل سے یہ واضح کردیا کہ قیمتی لباس پہننا حرام نہیں ہے۔ چوتھا یہ کہ آپؐ نے اس لباس کو دوبارہ پہننا گوارا نہیں کیا۔ 

جب انسان دوسروں سے اپنے تعلق کو خوب صورت بنانے کے بجائے ان پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے بے چین رہے، تو اسراف اور نمود کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ اسی طرح جب انسان اپنے اندر اخلاص کو زندہ رکھنے کے بجائے دوسروں پر اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے متفکر ہوجائے تو تصنع اور تکلف پیدا ہوتا ہے۔ ساکھ بہت اہم اور قیمتی چیز ہے، لیکن اسے ہمارے طرزِزندگی کا مقصود نہیں بننا چاہیے۔ حقیقی ساکھ ظاہری اور مادی سازوسامان سے نہیں بلکہ انسان کے ایمان، اخلاق اور کھرے معاملات کے نتیجے میں خود بخود قائم ہوتی ہے۔ 

خود کو حد سے اندر رکھنے یعنی ’اسراف‘ سے بچنے اور سادگی اختیار کرنے کی ذمہ داری مسلمان پر زندگی کے ہرمعاملے میں ہے۔ ’اسراف‘ صرف خرچ کرنے کے معاملے میں نہیں ہوتا بلکہ کھانے، سونے اور بولنے کے معاملے میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی انسان کھانے کے معاملے میں اس سے زیادہ کھاتا (یا بناتا) رہے جتنی کہ اس کی ضرورت ہے۔ سونے کے معاملے میں اپنی نیند کی جائز ضرورت سے تجاوز کرے۔ بولنے میں غیرضروری طور پر اپنی بات کو طول دے یا ہرمسئلے پر ہرگھڑی کچھ نہ کچھ بولنے کی ضرور کوشش میں رہے، اور کسی مجلس میں بلاوجہ بولنے اور ہربات پر رائے زنی کی کوشش کرے تو یہ سب اسراف ہی کی صورتیں ہیں۔ 

مسلم معاشرے میں پائے جانے والے ’اسراف‘ کے دو عمومی اسباب ہیں: 

  • پہلا، اپنے نفس کے مرغوبات کو نہ پہچان سکنا اور بلاسوچے سمجھے اس کی پیروی کرنا ہے۔ یعنی اس کی خوش نودی کے لیے کسی کام کو اس کی اصولی حد سے اس طرح بڑھ کر کرنا کہ اس کے نتیجے میں کسی اور چیز کا اصولی مقام زندگی میں کم ہونے لگے۔ 
  • دوسرا، علم نافع اور شعور کی کمی، یعنی اس بات کا تعین ہی نہ کرپانا کہ کسی جائز کام کی انجام دہی کی بھی جائز حد کیا ہوسکتی ہے اور اس حد سے آگے نکل جانے کے کیا نقصانات نفس، معاشرے اور ماحولیات پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ 

صحابہ کرامؓ ’اسراف‘ کے حوالے سے کس قدر حساس اور محتاط تھے، اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ ایک دفعہ اپنے بیٹے کے پاس آئے۔ ان کے سامنے پکا ہوا گوشت سجا ہوا تھا۔ انھوں نے یہ دیکھ کر سوال کیا: ’یہ کیا ہے؟‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’مجھے گوشت کھانے کی خواہش تھی تو میں نے خرید لیا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’تمھارا جس چیز کو دل چاہے گا تو کیا تم اسے ضرور کھائو گے؟ انسان کے اسراف کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہروہ چیز کھائے جس کی اس کو چاہت ہو‘‘۔(کنزالعمال، رقم: ۳۵۹۱۹) 

’اسراف‘ نمود، تصنع اور تکلف کا شکار ہونے کے باعث سادگی لوگوں کے لیے ایک ناگوار معاملہ بن گیا ہے۔ ’انفاق فی سبیل اللہ‘ کا جذبہ اور روح پامال ہورہی ہے۔ انسانی تعلق کی پاکیزگی متاثر ہورہی ہے اور اپنائیت کا احساس دشوار تر ہوتاجارہا ہے۔ مسلمانوں کی توانائیاں، وقت، مال اور صلاحیتیں، اسراف، نمود، تصنع اور تکلف میں ضائع ہورہی ہیں اور زندگی پیچیدہ اور بے معنی بنتی چلی جارہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ معاملات ریاکاری، حرص، طمع اور حسد کو فروغ دینے کا باعث بنے ہیں اور جس کا نتیجہ مسلمانوں کی اخلاقی، نفسیاتی اور ایمانی صحت کی خرابی کی شکل میں قدم قدم پر ظاہر ہورہا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اس حوالے سے مسلمانوں کو بہت واضح تنبیہ کی گئی ہے: 

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝۰ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَـوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَكَہٗ صَلْدًا۝۰ۭ لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّـمَّاكَسَبُوْا۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۶۴  (البقرہ ۲:۲۶۴)اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور دُکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر۔ اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کرکے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔ 

’اسراف‘ کا شکار ہونے والے انسان کو حُب ِ مال ، حُب ِ جاہ ، ریاکاری میں مبتلا ہونے اور اخلاص سے محروم ہوجانے کا بھی خطرہ لاحق رہتا ہے اور پھر اسے اپنے ’اَسراف‘ پر دوسروں سے تعریفیں سننے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔ ریاکاری سے مراد وہ نیکی ہے، جو لوگوں کو دکھانے کے لیے کی جائے۔ حُب ِ مال اور ریاکاری کوئی چھوٹے مسئلے نہیں ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق:’’مومن کے ایمان کو برباد کرنے اور اس کی تمام نیکیوں کو کھا جانے والے مسائل ہیں‘‘۔ (سنن ترمذی، رقم: ۲۳۷۶، صحیح مسلم، رقم: ۴۹۷۲) 

’اسراف‘ کے نتیجے میں اخلاص سے محرومی کیا نقصان کرسکتی ہے، اس کا اندازہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ مبارک سے ہوتا ہے جس کا مفہوم ہے: جو شخص اس علم کو، جس کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کی جاتی ہے، اس لیے سیکھتا ہے کہ اس سے دُنیا کا سازوسامان حاصل کرے، تو وہ قیامت کے دن جنّت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا (سنن ابی داؤد، رقم: ۳۶۶۴، صحیح بخاری، رقم: ۶۴۹۹) 

ایک اور موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دکھلاوے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے، تو اللہ قیامت کے دن اسے رُسوا کر دے گا اور جو کوئی نیک عمل لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے کرتا ہے تو اللہ اس کے چھپے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردے گا‘‘۔ 

وَالَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَـوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَہٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا۝۳۸ (النساء۴:۳۸) اور (وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں) جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روزِ آخر پر۔ سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بُری رفاقت میسر آئی۔ 

سادگی بے بسی اور مجبوری کا سودا یا سمجھوتہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی رضا اور شعور کے ساتھ اختیار کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی اصحابؓ ایسے تھے، جنھیں اللہ نے بہت مال و دولت سے نوازا تھا، لیکن مال دار ہونے کے باوجود ان کا طرزِ زندگی پُرتعیش نہیں تھا۔ ان کا رہن سہن، خوراک اور لباس وغیرہ بہت سادہ تھے۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے مال کے ذریعے آسائشوں کا حصول نہیں کیا بلکہ اس کے ذریعے اپنی زندگی میں انفاق فی سبیل اللہ کو بڑھایا۔ ان کے مال کا ایک قلیل حصہ ان کی جائز ضروریات پر صرف ہوا،اور بڑا حصہ خیر کے کاموں میں لگا۔ 

سادگی چونکہ انسان کا ایک فطری وصف ہے، لہٰذا اس کو اختیار کرنے کی صلاحیت صرف اللہ کے ماننے والوں تک موقوف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سادگی کی یہ جھلک ہمیں بعض فطرت پسند غیرمسلموں میں نظر آتی ہے۔ البتہ ایمان کے نتیجے میں جو سادگی کا حُسن و معیار قائم ہوسکتا ہے، وہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ عہد ِ حاضر کے معاشرے اس وقت اپنے طرزِ زندگی سے سادگی کا مظاہرہ کرنے سے نہ صرف قاصر ہیں بلکہ اختیاری سادگی کا کوئی تصور بھی نہیں رکھتے۔ 

ایک مسلمان جو کچھ بھی اپناتا اور اپنے لیے پسند کرتا ہے، اس کے لیے اس کے پاس کوئی ایسی توجیہ ہونی چاہیے کہ وہ خدا کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اگر مسلمانوں میں اپنے عمل کی جواب دہی کا یہ احساس پیدا ہوجائے تو سادگی اس کے فطری نتیجے کے طور پر رواج پائے گی۔ جواب دہی کے احساس سے عاری ہوجانے کا نتیجہ نفاق کی صورت میں نکلتا ہے اور انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتا ہے۔ اس کے طرزِ زندگی سے لے کر مراسمِ عبودیت تک سب کچھ دکھاوے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں: 

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَھُوَخَادِعُھُمْ۝۰ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۱۴۲ۡۙ (النساء۴:۱۴۲) یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انھیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے۔ جب نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ نمائی پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین! 

گزرے زمانے میں معلومات کے تبادلے اور پیغام رسانی کےلیے قاصد روانہ کیے جاتے تھے جو پیدل سفر کرتے تھے۔ اس کے بعد یہی قاصد خچروں اور گھوڑوں پر سفر کرکے پہنچنے لگے۔ بعدازاں پھرکبوتروں کو تربیت دے کر اُن سے یہ کام لیا جانے لگا (بھارت میں یہ کام ۲۰۰۲ء تک لیا جاتا رہا ہے جہاں باقاعدہ ایک کبوتر کورئیر کمپنی موجود تھی جس کے پاس تقریباً ۸۰۰ تربیت یافتہ کبوتر موجود تھے)۔ اس کے بعد کچھ ترقی ہوئی اور ان کاموں کےلیے ڈاک کا باقاعدہ نظام متعارف ہوا۔ پھر اخبارات، ٹیلی فون، ٹیلی گرام، ٹیلیکس، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، ٹیلی ویژن، وی سی آر، موبائل فون، برقی ڈاک (Email)، سے ہوتے ہوئے ہم واٹس ایپ، انسٹا گرام، فیس بک، ایکس (ٹوئٹر)، اسنیپ چاٹ، ٹک ٹاک اور نہ جانے کہاں کہاں تک پہنچ گئے جسے عصر حاضر میں سوشل میڈیا کا نام دیا گیا ہے۔  

دُنیا واقعی ایک بین الاقوامی گاؤں (Globel Village) بن گئی ہے۔  دُنیا کے کسی کونے میں پیش آنے والا واقعہ لمحے بھر میں پوری دُنیا میں رپورٹ ہوجاتا ہے۔ یہاں تک تو بات درست ہے کہ صحیح خبریں اور معلومات فوری طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی ہیں ، لیکن ہر نئے مواصلاتی رابطے کی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر سوشل میڈیا پر حقائق سے ہٹ کر جھوٹ پر مبنی مواد، ویڈیوز، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)کی کارگزاریاں اور افواہیں تیزی سے گردش کررہی ہیں ۔ گزرے وقتوں میں انھیں پھیلانے میں وقت لگتا تھا،جب کہ آج من گھڑت اطلاعات چند ہی لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلانا بہت آسان ہے۔ اُردو میں ضرب المثل مشہور ہے کہ’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘ مگر اب سوشل میڈیا کے ذریعے تو اس جھوٹ کے نہ صرف پاؤں ہیں بلکہ جھوٹ کے ایسے ’پَر‘ نکل آئے ہیں، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گویا جھوٹ کا سیلِ رواں (سیلاب) ہے جو سب کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ 

بچّے، بوڑھے، جوان، مزدور، کسان، افسر، سیاستدان، سماجی کارکن، فوجی ادارے، غرض ہرکوئی سوشل میڈیا کے سحر میں گرفتار ہے۔ جو ویڈیو یا پوسٹ بھی نظر سے گزرے اور وہ من بھاتی ہو تو اسے بغیر کسی تحقیق کے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا بے لگام ہے، جہاں خبروں کے نام پر بعض معلومات تو عمومی اخلاقیات کی حدود و قیود سے بھی آزاد ہوتی ہیں۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ایک من مانی خبر گھڑی جاتی ہے، اور پہلے اسے ایک اکاؤنٹ سے شیئر کیا جاتا ہے، جس کے بعد بہت سے مخصوص اکاؤنٹس اسے مزید شیئر کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے یہ خبر عام صارفین تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ تب وہ اسے محض اپنی انگلی کی کھجلی مٹانے کے لیے بغیر کسی تصدیق کے شیئر کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ایس ایم ایس، واٹس ایپ، فیس بک، ایکس (ٹوئٹر) ، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور میٹا میسنجر کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ کچھ جھوٹی خبریں  خوش کن ہوتی ہیں لیکن جب ان کا بھانڈا پھوٹتا ہےتو خوش ہونے والوں کے سارے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں۔ گویا اُسے ایک دھوکے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، جب کہ کچھ خبریں تجسس پیدا کرنے کے لیے تخلیق کی جاتی ہیں۔ ان خبروں سے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ۔ شوگر و بلڈپریشر، دماغی خلفشار، نفسیاتی مسائل اور نہ جانے کون کون سے مرض بڑھ جاتے ہیں۔ بعض جھوٹی خبریں جذباتیت کو ہوا دینے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں جن میں مذہبی بھی ہوتی ہیں اور سیاسی بھی۔ بعض اوقات کسی مخصوص ادارے کو یا شخصیت کو نشانہ بنایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔  

بلاتحقیق بات آگے بڑھانـے سے اجتناب 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشادموجود ہے:کَفٰی بِالمرءِ کَذِبًا    أَنْ یُحدِّثَ بِکُلّ مَا سَمِعَ، ’’انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ ہر ایسی بات دوسروں کو سنانے لگے جو اس نے کہیں سے بھی سن لی ہو۔ ‘‘(ابوداؤد: ۴۹۹۲) 

بلا تحقیق افواہوں کی بنیاد پر کسی انسان کی عزت کو مجروح کرنا صرف جھوٹ ہی نہیں، بہتان بھی ہے، اور حقوق العباد میں سے ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک اور سنگین جرم ہے، لیکن ہمارے موجودہ ماحول میں کسی شخص پر کوئی الزام عائد کرنا ایک کھیل بن گیا ہے، جس میں کسی تحقیق اور ذمہ داری کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ بالخصوص اگر کسی شخص سے ذاتی، جماعتی، مذہبی، مسلکی یا سیاسی اختلاف ہو تو اس کی غیبت کرنا، اس پر بہتان باندھنا اور اسے طرح طرح سے بے آبرو کرنا بالکل جائز اور حلال سمجھ لیا جاتا ہے۔  

بہتان لگانے والے کے بارے میں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد موجود ہے کہ ’’جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا ، تہمت ، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو درحقیقت اس میں تھی ہی نہیں ، تو اللہ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے ، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا۔ (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آجائے (رک جائے ، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے)‘‘ ۔ (مسند أحمد : ۷/۴، سنن أبي داؤد : ۳۵۹۷ ، تخريج مشكوٰة المصابيح :۳ /۴۳۶، ۳۵۴۲) 

ایک اور بات قابلِ تشویش ہے کہ احادیث، صحابہؓ و اسلاف کے اقوال اور تاریخی واقعات کی تصدیق کیے بغیراُنھیں آگے بڑھانے سے بھی دریغ نہیں کیا جارہا ، جب کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مسلمان، معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بن کر زندگی گزارے۔ اس کے منہ سے جو بات نکلے، وہ کھری اور سچی ہو اور وہ اپنے کسی قول و فعل سے غیر ذمہ داری کا ثبوت نہ دے۔  

جواب دہی کا احساس 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ ۝۱۸ (قٓ ۵۰:۱۸) ’’انسان جو بات بھی زبان سے نکالتا ہے، اسے محفوظ رکھنے کے لیے ایک نگہبان ہر وقت تیار ہے‘‘ ۔ 

اس آیت کی تشریح میں صاحبِ تفہیم القرآن سیّد موودی لکھتے ہیں:  

 ایک طرف تو اللہ خود براہِ راست انسان کی حرکات و سکنات اور اس کے خیالات کو جانتا ہے، تو دوسری طرف ہرانسان پر دو فرشتے مامور ہیں جو اس کی ایک ایک بات کو نوٹ کررہے ہیں اور اس کا کوئی قول و فعل ان کے ریکارڈ سے نہیں چھوٹتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں انسان کی پیشی ہوگی اس وقت اللہ کو خود بھی معلوم ہوگا کہ کون کیا کر کے آیا ہے، اور اس پر شہادت دینے کے لیے دو گواہ بھی موجود ہوں گے جو اس کے اعمال کا دستاویزی ثبوت لاکر سامنے رکھ دیں گے۔ یہ دستاویزی ثبوت کس نوعیت کا ہوگا، اس کا ٹھیک ٹھیک تصور کرنا تو ہمارے لیے مشکل ہے۔مگر جو حقائق آج ہمارے سامنے آ رہے ہیں انھیں دیکھ کر یہ بات بالکل یقینی معلوم ہوتی ہے کہ جس فضا میں انسان رہتا اور کام کرتا ہے، اس میں ہر طرف اس کی آوازیں، اس کی تصویریں اور اس کی حرکات و سکنات کے نقوش ذرّے ذرّے پر ثبت ہو رہے ہیں اور ان میں سے ہر چیز کو بعینہٖ انھی شکلوں اور آوازوں میں دوبارہ اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ اصل اور نقل میں ذرّہ برابر فرق نہ ہو۔ انسان یہ کام نہایت ہی محدود پیمانے پر آلات کی مدد سے کر رہا ہے۔ لیکن خدا کے فرشتے نہ ان آلات کے محتاج ہیں نہ ان قیود سے مقیّد۔ انسان کا اپنا جسم اور اس کے گردو پیش کی ہر چیز ان کی ٹیپ اور ان کی فلم ہے جس پر وہ ہر آواز اور ہر تصویر کو اس کی نازک ترین تفصیلات کے ساتھ جوں کی توں ثبت کرسکتے ہیں اور قیامت کے روز آدمی کو اس کے اپنے کانوں سے اس کی اپنی آواز میں اس کی وہ باتیں سنوا سکتے ہیں جو وہ دنیا میں کرتا تھا، اور اس کی اپنی آنکھوں سے اس کے اپنے تمام کرتوتوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھا سکتے ہیں جن کی صحت سے انکار کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہے۔  

اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی عدالت میں کسی شخص کو محض اپنے ذاتی علم کی بنا پر سزا نہ دے گا بلکہ عدل کی تمام شرائط پوری کر کے اس کو سزا دے گا۔ اسی لیے دنیا میں ہر شخص کے اقوال و افعال کا مکمل ریکارڈ تیار کرایا جا رہا ہے تاکہ اس کی کار گزاریوں کا پورا ثبوت ناقابلِ انکار شہادتوں سے فراہم ہوجائے۔(تفہیم القرآن، پنجم،سورۃ قٓ، حاشیہ ۲۱) 

گویا یہ ایسی شہادت ہوگی جس پر انسان پکار اُٹھے گا: مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَا۝۰ۚ (الکہف۱۸:۴۹) ’’یہ کیسی کتاب (ریکارڈ) ہے کہ کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں جو اس میں درج (موجود) نہ ہو‘‘۔ 

سوشل میڈیا پر پھیلتے جھوٹ کی صورت حال میں ایک انتہائی خطرناک بات یہ بھی ہے کہ غلط الزامات کے سیلاب میں حقیقی مجرموں کو پناہ مل گئی ہے، یعنی جو لوگ واقعی خطا کار اور بد عنوان ہیں، انھیں بدنامی کا زیادہ خطرہ نہیں رہا۔ اس لیے وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر کوئی خبر ہماری بد عنوانی کے حوالے سے عام ہوئی بھی تو وہ اسی طرح مشکوک سمجھی جائے گی، جیسے اور بہت سی بلا تحقیق باتوں کو سنجیدہ افراد مشکوک سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، چنانچہ بد عنوان افراد آرام سے بد عنوانیوں میں ملوث رہتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ عام ہوتا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ غیر محرم لڑکے لڑکیوں کا آوارہ پن، ان کے پوشیدہ رابطے، چوری، ڈاکے، دوسروں کا تمسخر اُڑانا وغیرہ عام ہوگیا ہے۔ 

سوشل میڈیا کے استعمال میں محتاط رویہ 

لہٰذا مسئلے کی حقیقت معلوم ہوجانے کے بعد محض اس کو بُرا جان لینا یا اس کی مذمت کردینا مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر اسے تبدیل کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اس بات کا عہد کرے کہ آج کے بعد وہ جھوٹ اور مکرو فریب کے سیلاب میں نہ خود بہے گا اور نہ اپنے گھر، محلے ،دفتر، کاروبار اور سماجی رابطے کے لوگوں کو اس غلط کام کا مرتکب ہونے دے گا۔ وہ یہ کام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سمجھتے ہوئے کرے گا۔ بہتر ہوگا کہ اب تک جس جھوٹ، بہتان وغیرہ جیسی پوسٹوں کے بنانے میں، انھیں شیئر کرنے میں جہاں تک ہم ملوث تھے، اُس پر اپنے ربّ سے سچی توبہ کرلیں اور آئندہ ذیل میں دیے گئے نکات پر عمل کی کوشش کریں، تو اُمید ہے کہ بہت سے گناہوں سے بچا جاسکتا ہے: 

  • سماجی رابطے (Social Media) کے کسی بھی ذریعے سے ہمیشہ چمٹے رہنا مناسب نہیں ۔ مہمان ہو تو ان کا خیال کریں، کلاس روم میں ہوں ، والدین کے پاس ہوں، یا احباب کے ساتھ ہوں تو اس وقت موبائل ، ٹیب یا دوسرے آلات بند کردیں۔گویاصرف مناسب اوقات ہی میں اور ضرورت کے تحت ہی ان کا استعمال کریں ۔ یہ بہت سی فضولیات، جھوٹ اور بہتان جیسے قبیح عمل سے بچنے کے لیے معاون ثابت ہوگا۔ 
  • یہ بات ہروقت ہمارے ذہن میں تازہ رہنی چاہیے کہ ہم جو بھی چیزیں دوسروں کو بھیجتے رہیں گے، اُن سب کا ہمارے نامۂ اعمال میں اندراج ہوتا رہے گا ۔ اس لیے ہماری ہمیشہ یہ کوشش ہو کہ ہمارے نامۂ اعمال میں صدقۂ جاریہ بننے والے اعمال لکھے جائیں اور گناہِ جاریہ بننے والے تمام باعث ِعذاب کاموں سے پرہیز کریں۔ ہماری فارورڈنگ پوسٹوں میں جھوٹ، بہتان اور لغویات کا قطعی کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ 
  • کوئی بھی لنک شیئر کرنے سے پہلے یہ ضرور چیک کرلیں کہ کہیں انجانے میں خلافِ شرع بات تو آگے نہیں بڑھا رہے۔ کیونکہ یہ کہیں نہ کہیں اپنے اثرات چھوڑے گا اور اگر درست ہوا تو صدقۂ جاریہ بنے گا ورنہ گناہِ جاریہ بن جائے گا۔ 
  • سیاسی جماعتیں، افراد اور تنظیمیں بھی بعض اوقات سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر یا غلط معلومات پھیلاتی نظر آتی ہیں۔ انتخابات، احتجاج یا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو اس دوران Rating، Viewsاور Likes لینے کی تگ و دو میں انتہائی غلط معلومات ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں ۔ آپ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور ریٹنگ اور ویوز کے چکّر سے باہر نکلیں۔ ربّ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے احساس کے تحت بغیر تصدیق کے کوئی بھی چیز آگے ہرگز شیئر نہ کریں۔ 
  • بعض اوقات ہم سنسنی خیزی اور پسندیدگی (Likes) حاصل کرنے کے لیے جھوٹی خبر اور حقیقت میں فرق نہیں کر پاتے اور فوری طور پر تصدیق کرنے کے ذرائع بھی مفقود پاتے ہیں، ایسی صورت میں اگر ہمیں وہ چیز یا خبر پسند ہے تو ہم فوراً شیئر کردیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے سختی سے پرہیز کریں۔ 
  • معلومات کے اس طوفان میں انتشار پھیلانا یا کسی کی عزت اُچھالنا اب نہایت آسان کام ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ غلط افواہ پھیلانا جتنا آسان ہے، اس کی تصدیق، تردید یا اس پر قابو پانا اتنا ہی مشکل کام ہے۔ Generative Eye اور Deepfake جیسی ٹکنالوجی کے بعد تو جعلی ویڈیوز اور تصاویر بننا عام سی بات ہو گئی ہے۔ ان میں کچھ تو اتنی مہارت سے تخلیق کی گئی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات ماہرافراد بھی اسے AI Generated ثابت کرنے میں تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا شیئرنگ کے غیرمحتاط عمل سے پرہیز کریں گے تو اس فتنے سے کافی حد تک محفوظ رہ سکیں گے۔ 
  • کسی بھی خبر کو شیئر کرنے یا اس پر یقین کرنے سے پہلے یہ دیکھیں کہ وہ آئی کہاں سے ہے؟ معتبر ذرائع اور مستند اداروں کی خبروں پر زیادہ اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی نے شیئر کی ہے تو ادب کے دائرے میں اس کا حوالہ طلب کریں، نہ مل سکے تو آگے قطعی نہ بڑھائیں۔ 
  • بعض اوقات پرانی خبریں دوبارہ شیئر کر دی جاتی ہیں یا سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کی جاتی ہیں۔ خبر کی تاریخ اور اس کی اصل کہانی کو جانچنا ضروری ہے۔ اس کا خاص خیال رکھیں۔ 
  • ڈیجیٹل ٹکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے جعلی تصویریں بلکہ ویڈیوز بنانا بھی بہت آسان ہو گیا ہے۔ بعض اوقات تصاویر یا ویڈیوز کو سیاق و سباق سے کاٹ کر یا تبدیلی کر کے بھی پیش کیا جاتا ہے۔ آپ تصاویر کو Google Reverse Image Search کے ذریعے اور ویڈیوز کو Fake Checking Tools سے جانچ سکتے ہیں۔ ایسا کرنا مشکل یا ناممکن ہو تو شیئر کرنے سے پرہیز کریں۔ 
  • ضروری نہیں کہ ہر بڑے صحافتی ادارے کی ہر خبر سچی ہو، لیکن عام طور پر یہ ادارے اپنی ساکھ بچانے اور قانون کے شکنجے سے بچنے کے لیے کوشش کرتے ہیں کہ صرف حقیقی اور مستند خبر ہی دیں۔ اس لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مشہور اداروں کی خبریں عام طور پر درست اور قابلِ اعتماد ہوتی ہیں، تاہم ان پر بھی اندھا دھند اعتماد مناسب نہیں، اور اگر آپ کو شک ہے تو شیئر کرنے سے پہلے یہ خبر دوسرے ذرائع سے بھی چیک کر لیں۔ 
  • اگر کوئی خبر مصدقہ نہیں ہے تو اسے شیئر کرنے سے لازماً پرہیز کریں، کیونکہ آپ کی طرف سے غیر مصدقہ خبروں کا پھیلانا نہ صرف دوسروں کو گمراہ کر سکتا ہے، بلکہ انھیں کوئی بڑا نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔  
  • جو بھی قرآنی آیت یا حدیث آپ کے پاس آئے اسے آگے بھیجنے سے پہلے معروف ویب سائٹس پر چیک کرلیں، مستند کتب میں دیکھ لیں، یا کسی مستند عالِم دین سے پوچھ لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے اوپر جھوٹی حدیث کو پھیلانے کا وبال اور گناہ آجائے اور آپ جہنم کا ایندھن قرار پائیں۔ ابونعیم، سعید بن عبیدہ، علی بن ربیعہ، مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ :وہ جھوٹ جو مجھ پر لگایا جائے اس طرح کا نہیں ہے جو کسی اور پر لگایا جائے۔ مجھ پر جو شخص جھوٹ لگائے یا میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘۔ (بخاری: ۱۲۳۴) 
  • آج کل ایک فتنہ بہت عام ہوتا جارہا ہے کہ کچھ قرآنی یا مسنون دعائیں اس پیغام کے ساتھ ارسال کردی جاتی ہیں کہ یہ فلاں فلاں کام کےلیے معاون ہیں۔ یقیناً قرآنی اور مسنون دعاؤں کی اپنی اہمیت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرامؓ کے قول و فعل سے ایسا ثابت نہیں تو جان رکھیے کہ یہ دین میں بدعت پھیلانے کا سبب بنے گا۔ جس کا وبال آپ کی گردن پر ہوگا۔(سنن ابو داؤد: ۱۲۱۹) 
  • اپنے فیس بک اورواٹس ایپ کو لوگوں کی برائی اور غیبت کا ذریعہ نہ بنائیں۔ یاد رکھیں کہ صرف ایک غیبت والی بات شیئر کرنے کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کا گناہ آپ پر آجائے گا اور آپ کو معلوم بھی نہیں ہوگا۔ اس کے لیے سورۃ الحجرات کا مطالعہ ضرور کریں۔ 
  • شہد کی مکھی کی مثال بنیں جو خوشبودار چیزوں پر ہی بیٹھتی ہے اور لوگوں کو فائدے کی چیز’شہد‘ دیتی ہے ۔ ایسے حادثات و واقعات کو شیئر نہ کریں جن سے کوئی فائدہ نہ ہو، لوگوں کو خوش کریں نہ کہ مایوس۔عام مکھی کی مثال نہ بنیں جو گندگی پر بیٹھتی ہے۔ 
  • دوسروں کا عیب تلاش کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کی زیادہ فکر کریں ، اس لیے کہ عیب تلاش کرنے کے لیے زبان، قلم اور موبائل /ٹیب، سب کے پاس ہے ۔ 
  • ضروری نہیں کہ ہر وہ چیز جوآپ کے پاس آئے اسے لامحالہ شیئرکریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق کے) بیان کر دے‘‘ (صحیح مسلم) ۔ اس لیےصرف تحقیق شدہ چیزوں کو ہی شیئر کریں ۔ 
  • الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں مومن بنایا ہے اور مومن کو حکم ہے کہ وہ ’نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے‘۔ اس لیے سوشل میڈیا کو دعوت پھیلانے کا ذریعہ بنائیں اور اپنے رابطے کے لوگوں کی ذہن سازی کریں، تاکہ ہر فرد اصلاحِ معاشرہ اور انقلابِ امامت میں اپنا کردار ادا کرسکے اور دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکے۔ 

تخلیقِ کائنات کے بارے میں قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے:’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا‘‘(السجدہ۳۲:۴)۔ ربِّ کائنات کی صفتِ خلاقی بیان کرنے کے بعد بنی نوعِ انسان کو آگاہ کیا گیا کہ :’’ اُس کے سوا کوئی تمھارا حامی و مدد گارنہیں ہے ‘‘۔ یعنی اپنی ہرروحانی و مادی ضرورت کے لیے اسی خالقِ کائنات سے رجوع کرو کیونکہ وہی ان کو پورا کرتا ہے ۔ کسی اور کے آگے دستِ تعاون دراز نہ کرو کیونکہ وہی مشکل کشا ہے ۔  

سورئہ سجدہ کی ابتدائی آیت کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے دنیا سے اُخروی فلاح تک پھیلا دیا گیا۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’اور کوئی(اپنی مرضی سے) اُس کے آگے سفارش کرنے والا نہیں ہے ‘‘(السجدہ۳۲:۴)۔ اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے بعد حضرتِ انسان کو غورو فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: ’’پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟‘‘  

اس تمہید کے بعد تخلیقِ انسانی کی بابت فرمایا ہے:’’جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی۔ اُس نے انسانی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے، پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی‘‘ (السجدہ۳۲:۷-۹)۔ یہاں نسلِ آدم کی مادی و روحانی تخلیق کی بابت فرمایا کہ اس کی ابتدا گارے سے کی گئی جو تمام انسانوں کی اجزائے ترکیبی ہے اور پھر اس جسدِ خاکی میں خالقِ کائنات نے اپنی روح پھونک کر اسے زندہ کردیا ۔ اس لحاظ سے تمام بندوں کے تخلیقی عمل میں کوئی تفریق و امتیاز نہیں رکھا گیا ۔ تمام انسانوں کا ہارڈ وئیر اور سافٹ ویئر (روح) کا مرجع اور منبع یکساں ہے۔ 

اللہ تبارک و تعالیٰ بندوں پر اپنے احسانات کا ذکرکرتے ہوئے آگے انھیں خطاب کرکے فرماتے ہیں :’’ اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے ‘‘ (السجدہ۳۲:۹)۔ ان بیش بہا نعمتوں سےبھی خالق ِ کائنات نے بلا امتیاز تما م لوگوں کو یکساں طور پر نواز دیا۔ اس بابت گورے یا کالے ، عربی یا عجمی، ملک ، علاقہ اور زبان وغیرہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں رکھا گیا لیکن ’’تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو‘‘۔ پھر بندوں نے اَز خود اپنے درمیان اونچ نیچ بنالی۔انسان دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک تو شکرگزار ہوکر مطیع و فرماںبردار بن جانے والے اور دوسرے کفر و انکار کی روش اختیار کرکےربّ کی نافرمانی کرنے والے یا شیطان لعین کی گمراہی کا شکار ہوجانے والے۔ ابتدائے آفرینش میں تخلیقِ انسانی کااعلان ہوا تو اس وقت فرشتوں کے ساتھ جنوں کا سردار ابلیس بھی موجود تھا ۔ارشادِ ربانی ہے :’’ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے‘‘۔ (الحجر ۱۵: ۲۶-۲۷) 

 کتابِ ہدایت میں اس منظرکو یوں بیان کیا گیاہے کہ:’’ پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ’’میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا‘‘ (الحجر۱۵:۲۸-۳۱)۔قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ انکارِ ابلیس کا سبب خود اسی کی زبانی بیان کر دیا گیا۔ فرمایا:’’رب نے پوچھا:’’اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟‘‘ اس نے کہا:’’میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اِس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے‘‘۔ (الحجر ۱۵:۳۲-۳۳) 

ابلیس کے تکبراور آدم کی تحقیر کاسبب تقویٰ ، عبودیت یا صلاحیت نہیں بلکہ تخلیق کے اجزائے ترکیبی کا فرق تھا ۔ آگ کےگھمنڈ میں مبتلا ہو کر مٹی سے بنے آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکار کرنے والا ابلیس بھول گیا کہ وہ اس خالقِ کائنات کی نافرمانی کررہا ہے جس نے اپنی مرضی سے ان کے اجزائے ترکیبی طے کیے۔ اس میں دونوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا،لہٰذا فخروتحقیر بے معنٰی تھی مگر کبرو استکبار سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کردیتا ہے ۔ اس لیے وہ اپنے خالق و مالک سے بغاوت کرکے یوں راندۂ درگاہ ہوگیا۔ ربّ تعالیٰ نے فرمایا:’’اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تُو مردود ہے، اور اب روزِ جزا تک تجھ پر لعنت ہے‘‘ (الحجر۱۵:۳۴)۔ اس وعید کے بعد بھی اپنی غلطی سے رجوع کرنے کے بجائے وہ اڑ گیا اورپلٹنے کے بجائے بغاوت کی مہلت طلب کرتے ہوئےعرض کیا :’’میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کے لیے مہلت دے، جب کہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے‘‘ ۔(الحجر۱۵:۳۶) 

ربِّ کائنات نے جواب دیا:’’اچھا، تجھے اُس دن تک مہلت ہے جو ہمیں معلوم ہے‘‘ (الحجر۱۵:۳۷-۳۸)۔ ابلیس اپنی اس کامیابی پر ربِّ کائنات کو الزام دیتے ہوئے بولا:’’اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا، سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں‘‘ (الحجر۱۵:۳۹-۴۰)۔ خود پسند شیطانِ لعین کو جہاں یہ گمان تھا کہ وہ بنی نوع آدم کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ جہنم کا ایندھن بنانے میں کامیاب ہوجائے گا وہیں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ اللہ کی بندگی کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے والے مخلص بندے اس سے محفوظ و مامون رہیں گے۔  

اس کی تصدیق میں ارشاد ربانی ہے:’’ (اخلاص ہی) وہ راستہ ہے جو سیدھا میرے دَر پر آتا ہے، بے شک میرے (مخلص) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا سوائے ان بھٹکے ہوؤں کے جنھوں نے تیری راہ اختیار کی، اور بے شک ان سب کے لیے جہنم کی وعید ہے ‘‘۔(الحجر۱۵:۴۱-۴۳) 

  • نسلی تفاخر اور امتیاز کا فریب : انسانوں کو بہکانے کے لیے تراشے گئے شیطانی نظریات میں نسلی تفاخر کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال قوموں کو وہ گھمنڈ میں مبتلا کرکے کمزوروں پر ظلم اور استحصال کے لیے اُکساتا ہے۔ کسی کو رنگ و نسل کی بڑائی کا شکار کردیتا ہے تو کسی کو مال و دولت کے نشے میں دھُت کرکے اپنے جھانسے میں لے آتا ہے۔ مغرب و مشرق میں یہی کھیل چل رہا ہے۔ہٹلر نے جرمن نسل کی برتری کے نام پر جنگ عظیم چھیڑ کر کروڑوں لوگوں کو ہلاک کرا دیا۔ آج بھی عظیم ترین جمہوریت کے دعوے دار ترقی یافتہ ملک امریکا میں ’بلیک لائف میٹر‘ کے عنوان سے تحریک چلائی جاتی ہے۔ ظہران ممدانی کے میئر کی دوڑ میں شامل ہونے کو سفید فام صدر سمیت اس کے نسل پرست حامی اپنی توہین گردانتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں صدیوں سے جاری سماجی و سیاسی اصلاحات اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام ہوگئیں اور ایران و فلسطین کے معاملے میں کئی بار ان کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوچکا۔ 

یقینا یہ شیطان ساختہ عقیدہ ہی ہے کہ مختلف ذات و نسل کی تخلیق معبود حقیقی نے اپنے مختلف اعضا سے کی ہے نعوذ باللہ ۔ برہمن سر سے بنائے گئے اس لیے رُشدو ہدایت اور پوجا پاٹ کی ذمہ داری پر مامور ہیں ۔اس منصب میں کوئی اور ذات کا فرد داخل نہیں ہوسکتا۔ وہ مذہبی اشلوک نہ پڑھ سکتا ہے اور نہ اسے سنانے کا حقدار ہے ۔ کشتریوں کو بازوؤں سے بنایا گیا تاکہ اقتدار کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ر ہے ا ور جنگ و جدل بھی وہی کریں۔ کھیتی باڑی اور تجارت کے لیے ویش سماج کو پیٹ سے پیدا کیا گیا۔ اس لیے وہ پیٹ پوجا کی سہولت فراہم کرتے ہیں اور بیچارے شودر چونکہ پیروں سے بنائے گئے، اس لیے ان کا کام مذکورہ بالا تینوں ذات کے لوگوں کی بلا چوں چرا غلاموں کی مانند خدمت بجالانا ہے۔ وہ خود ساختہ اونچی ذاتوں کی خدمت کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرسکتے۔ ان میں سے کوئی اگر ایسا کرتا ہے توگویا وہ مذہبی تعلیمات کے انحراف کی سزا کا مستحق ہے۔  

انڈیا کی آزادی کے ۷۸ برس بعد بھی وہاں چھوت چھات عقیدے کے سبب صدرِ مملکت دروپدی مرمو کو جگن ناتھ مندر کےگربھ گرہ میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، بلکہ ان کے پیش رو رام ناتھ کوند کی واپسی کے بعد مندر کو پاک بھی کیا جاتا ہے۔ ’سناتن دھرم‘ کا یہ بنیادی عقیدہ ہندو عوام کے قلب و ذہن میں اس قدر راسخ ہے کہ جب یادو سماج کا مکٹ منی بھاگوت کتھا سناتا ہے تو اس کو رُسوا کرنے کی خاطر اس کی چوٹی کاٹنے کے بعد سر بھی منڈوا دیا جاتا ہے۔ ۲۵ہزار روپے ہرجانہ وصول کرکے اسے پیشاب سے پاک کیا جاتا ہے۔ اس اہانت آمیز سلوک پر شرم کرنے کے بجائے بیش تر دھرم گرو اسے مذہبی صحیفوں کی بنیاد پرجائز ٹھیراتے ہیں ۔ ہندوستانی سماج کی اس برائی کو دُور کرنے میں دس سال کے لیے نافذ کیا جانے والا ریزرویشن ۷۰برس بعد بھی ناکام رہا۔  

انڈیا میں ذات پات کے مسئلہ کو عملی اصلاحات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ظاہری طور پر کچھ نمائشی تبدیلیاں تو ہوجاتی ہیں مگر اندر کی خرابی باقی رہتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد میں کارفرما عقائد کو نہیں چھیڑا جاتا۔ یہی معاملہ دوسری شکلوں میں خود بہت سے مسلم معاشروں میں بھی کسی نہ کسی بدنُما صورت میں سر اُٹھاتا دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صلاحیت ، مواقع، معاشی لحاظ سے لوگوں کے درمیان فرق ہے اور مصنوعی طور پر اسے مٹانے کی کوشش میں سوویت یونین خود ختم ہوگیا مگر خودروس کے اندر بھی وہ خلیج مزید وسیع ہوگئی ہے۔ وہاں اس فرق کا بنیادی سبب جاننے کی زحمت کرنے کے بجائے ریاست کی طاقت کے زور سے مصنوعی طور پر مساوات قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اشتراکی نظریے کی ناکامی کا بنیادی سبب ایک غیر حقیقی ہدف تھا جو اسے لے ڈوبا ۔  

اس بارے میں قرآنِ مجید یہ کہتا ہے: ’’دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور تیرے ربّ کی رحمت (یعنی نبوت)اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو وہ (اِن کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں‘‘ (الزخرف ۴۳:۳۲)۔ اس آیت میں معاشی فرق کی حکمت اور دیگر نعمتوں کی اہمیت کا احساس دلایا گیا ہے۔ یہاں یہ حقیقت اُجاگر کی گئی ہے کہ ان مادی نعمتوں سے افضل رحمت ِالٰہی اس دنیا میں عزت و وقار کے ساتھ اطمینان و سکون کی زندگی اور آخرت کی ابدی کامیابی ہے ۔ اسی آیت میں معاشی فرق کی یہ حکمت بھی بتائی گئی ہے کہ اس کے سبب لوگ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ خدمت کرنے والا ہی نہیں بلکہ خدمت لینے والا بھی اپنے خادم کا محتاج ہوتا ہے، بلکہ روزمرہ کے کاموں میں خدمت کرنے والے کی دوسروں پر احتیاج نسبتاً کم ہوتی ہے۔ 

معاشی ناہمواری کو کم سے کم کرنے کی خاطر دین اسلام نہ صرف زکٰوۃ و انفاق کو رواج دیتا ہے بلکہ یہ اہلِ ثروت کی فکر میں وہ انقلاب برپا کرتا ہے جو ازخود انھیں انفاق فی سبیل اللہ پر آمادہ کردیتا ہے۔ دنیوی وسائل کے حامل لوگوں کو قرآن حکیم میں اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ: ’’وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا، تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمھیں آزمائے جو اس نے تمھیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں‘‘ (الانعام۶:۱۶۵)۔ اسلامی عقیدے کے مطابق یہ مادی وسائل امانت و آزمائش ہیں اور اس میں خیانت کرنے والوں کو خبردار کیا گیا کہ : ’’بے شک آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے ‘‘، نیز فرماں برداروں کو بشارت دی گئی ہے کہ :’’ بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا بھی ہے‘‘ (الانعام۶:۱۶۵)۔ انسانی معاشرے میں معاشی تفاوت کے مقابلے میں سماجی تفریق و امتیاز زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ اس بارے میں قرآن کی رہنمائی یہ ہے کہ :’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا، پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔ اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقویٰ اختیار کرو)، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے‘‘۔(النساء۴:۱) 

انسانی مساوات کے اس عالمی پیغام نے دنیا کے سارے انسانوں کو اولادِ آدم کی حیثیت سے ایک خاندان کا فرد بنا دیا ۔ ان کے درمیان پائے جانے والے ظاہری فرق کی بابت بتایا گیا: ’’اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمھیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم)کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۳)۔ گویا یہ فرق تذلیل و تحقیر کے لیے نہیں بلکہ شناخت کے لیے ہے۔ اس کے لیے فضیلت کی یہ کسوٹی فراہم کی گئی کہ :’’ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک اللہ خوب جاننے والااور خبر رکھنے والا ہے‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۳)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے بھی حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبے میں فرمایا:’’اے لوگو! تمھارا رب ایک ہے، تمھارا باپ ایک ہے۔ سنو کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر سوائے تقویٰ کے‘‘(مسنداحمد:حدیث ۲۳۵۳۶)۔ پرہیزگاری و خداخوفی دل کی ایسی کیفیت ہے کہ جسے ناپا اور تولا نہیں جاسکتا ۔ اس کا علم صرف خدا کو ہے کہ کون کتنا متقی ہے؟اس لیے پرہیزگاری کے معاملے میں مسابقت کی سعی تو ہونی چاہیے مگر تقویٰ میں تکبر کی کوئی گنجائش نہیں۔  

معاشرے میں تفریق و امتیاز کا سبب ایک دوسرے کی تذلیل ہے مگر دین اسلام میں تضحیک و تذلیل تو کیا، معمولی تمسخر کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’اے ایمان والو! نہ تو مرد دُوسرے مردوں کامذاق اُڑائیں، کیا عجب ہے کہ جو لوگ مذاق اُڑارہے ہیں اُن سے وہ لوگ بہتر ہوں جن کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، ممکن ہے کہ جو عورتیں ہنسی اُڑانے والی ہیں، اُن سے وہ عورتیں بہتر ہوں جن کی ہنسی اُڑائی جارہی ہے۔آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُرا ہے اور جو توبہ نہ کریں گے تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہوں گے‘‘(الحجرات ۴۹:۱۱)۔ اس طرح دیگر قوموں کی تذلیل و تحقیر کا سدّباب کردیا گیا ہے۔  

آج کے ہندوستان میں ذات پات کی لڑائی کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دین اسلام میں اس کی سخت ممانعت ہے بلکہ افراد یا گروہوں کے درمیان اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں دونوں فریقوں کے درمیان صلح کرانے کاحکم دیا گیاہے۔ ارشادِ خداوندی ہے : ’’ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، تم اپنے بھائیوں میں صلح کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘ (الحجرات ۴۹:۹)۔ یہ معاملہ صرف اہل ایمان تک محدود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل ’حلف الفضول‘ نامی معاہدے میں شرکت کرکے غیر مسلم قبائل کے درمیان صلح صفائی کرائی، تاکہ قبائلی دشمنی کا خاتمہ کرکے قتل و غارتگری پر روک لگائی جاسکے۔ مدینہ منورہ کے اندر بھی آپؐ نے مختلف قبائل کے ساتھ امن و آشتی کا معاہدہ کیا ۔ اس سے مختلف قبائل کے بیچ بھائی چارہ بڑھا اور باہمی اعتماد پیدا ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح صفائی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :کیامیں تمھیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: یا رسولؐ اللہ! ضرور بتائیے۔ارشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں ناراض لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد صفائی کرکے رکھ دینے والا ہے۔ بالوں کی صفائی نہیں، بلکہ دین کی صفائی۔ (ابوداؤد: ۴۹۱۹، ترمذی: ۲۵۰۹) 

ذات پات کی تفریق کے علاوہ سماج میں جنس کی بنیاد پر بھی معاملات ہوتے ہیں۔ اس کو ختم کرنے کی خاطر قرآن مجید کی ایک بنیادی تعلیم یہ ہے کہ : ’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت،جب کہ وہ مومن ہو، تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انھیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے‘‘ (النحل۱۶:۹۷)، یعنی اُخروی فلاح کے معاملے میں مردو عورت کے اجر و ثواب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نہایت تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا کہ:’’ بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، اور راست باز مرد اور عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لیے بخشش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے‘‘۔ (الاحزاب  ۳۳:۳۵) 

 ذات پات کی بنیاد پرغیر انسانی اعمال کا جواز فراہم کرنے کی خاطر توحید کے بجائے شرک کو فروغ دے کر برہمنوں کو پرستش کے قابل بنادیا گیا ۔ اس باطل عقیدے کو مضبوط تر کرنے کی خاطر تناسخ کا عقیدہ گھڑا گیا جس کے مطابق اس جنم میں شودر اپنے پچھلے جنم کے گناہوں کی سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اس کی مدد کرنا تو دُور ہمدردی کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق ایک مظلوم کے لیے سماج میں اپنی حیثیت بحال کرنے کی خاطر اس جنم میں نام نہاد اعلیٰ ذات کےلوگوں کی خدمت کرکے اسے اپنا اگلا جنم سنوارنے کے سوا کوئی اور سبیل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مرنے سے قبل کوئی ذات پات کے جنجال سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے یہ محاورہ بن گیا کہ ’ذات نہیں جاتی‘ یہاں تک کہ انسان اس جہانِ فانی سے رخصت ہوجاتا ہے۔ عقیدۂ آخرت ہی اس بیماری کا علاج ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:’’اور یہ لوگ کہتے ہیں: ’’جب ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟‘‘۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔ اِن سے کہو:’’موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے‘‘ (السجدہ ۳۲:۱۰-۱۱)۔ یہ حقیقت ہے کہ توحید و رسالت کے ساتھ آخرت کا عقیدہ اپنائے بغیرکوئی بھی معاشرہ تفریق و امتیاز کے ناسور سے چھٹکارا نہیں پاسکتا  ؎  

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

مقام:مصر کے شہر قاہرہ میں، ’بابِ خُلق‘ کے قریب واقع سب سے قدیم جیل۔ اس جیل سےسزائے موت کے قیدیوں کے لیے سزا کے عمل درآمد تک انتظار گاہ کا کام لیا جاتا تھا۔ 

دن: اتوار، تاریخ : ۲۸؍اگست ۱۹۶۶ء، وقت: صبح صادق۔ 

 منظر:مصر کے شہر قاہرہ کی ایک قدیم مشہور جیل کی عمارت کے اوپر لگے ہوئے ایک بہت بڑے پول پر ایک سیاہ پرچم لہرا رہا ہے۔ 

ہر شخص اس بات کو جانتا اور سمجھتا تھا کہ اس کالے جھنڈے کو اِس وقت لہرانےکا صرف اور صرف ایک ہی مطلب ہےاور وہ یہ ہےکہ اس صبح کو،تھوڑی ہی دیر بعد ،کسی شخص کی سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد ہونے والا ہے۔مگر شاید کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس مرتبہ پھانسی کایہ حکم مصر کی تاریخ کاایک اہم حصہ بن جائے گا، بلکہ وہ اِس دور کے رازوں میں سے ایک اہم ترین راز ہو گا اور اس کے اثرات آنے والے دور کے ہر ماہ و سال پر پڑیں گے۔ 

سزائے موت کےاس حکم پر عمل درآمدکے نتائج اوراثرات کا چونکہ مصر کے امن و امان کی صورتِ حال پر اثرانداز ہونے کا خدشہ تھا، اِس لیے حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ سزائے موت کے اِس فیصلے پر عمل درآمد بڑی رازداری سے کیا جائے،تاکہ مصر کی گلیوں، بازاروںاور سڑکوں پر خاص طور پر اور عالمِ عرب کی شاہراہوں پر عام طور پر،ہر جگہ عوامی جذبات نہ بھڑک اُٹھیں۔ اس لیے بھی کہ اس کی خبر ملکی اور بین الاقوامی خبررساں ایجنسیوں اور اداروں تک نہ پہنچنے پائے،جو ہر وقت اس طرح کی خبروں کی تلاش اور ٹوہ میں لگی رہتی ہیں، اور ان خبروں کو تفصیل کے ساتھ دوسرے اداروں تک منتقل کرتی رہتی ہیں۔ 

اس کے علاوہ ایک اور اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت میں موجود بعض بااثر اوربااختیار لوگ ایسے بھی تھے،جو پھانسی کے حکم پر عمل درآمد نہیں چاہتے تھے اور ہر صورت میں اور ہر قیمت پر اس کو رُکوانا چاہتے تھے۔ وہ اس معاملے میں مداخلت کرنے کی کوشش کررہے تھے، تاکہ ان کو بھی اس بات کا پتہ نہ چلے۔ 

حکومت کی طرف سے اس خبر کوباہر نکلنے سے روکنے کےلیے ذرائع ابلاغ کو بڑے سخت اور دو ٹوک احکام جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ صحافیوں کو اس حکم پر عمل درآمد ہوجانے کے کئی گھنٹے بعد بھی اس بات کا پتہ نہ چل سکا۔ 

اس سب کے باوجود بعض ’خوش نصیب‘حضرات اس شرط پر اس موقع پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ جیل کی عمارت سے اس طرح باہر آئیں گے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیں گے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں یا جیسے ان کو کسی بات کا کچھ پتہ نہیں، اورنہ کسی سے کوئی بات کریں گے۔ 

ان میں سے کوئی تو اس بات سے ڈر رہا تھا کہ ’جلاد‘ اس کے عزیزواقارب کو نہ بتا دے کہ وہاں کیا ہوا،اور کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت ِ وقت کو،اس خبر کو اِفشا کرنے کا جرم کرنے والا ، مجھ صحافی کے علاوہ کوئی اور نہ ملے اور پھر زندگی بھر اسے اِس کی قیمت ادا کرنا پڑے اور اپنے کیے کی سزا بھگتنا پڑے۔ اس لیے وہ اور اس کے علاوہ ہر صحافی یہ چاہتا تھا کہ وہ اس’جلاد‘ کے ساتھ دوستانہ تعلق بنائے،اس کے قریب تر ہو اور وہ’جلاد‘کی رضا اور خوشنودی کا طالب اور خواہش مند تھا۔اس کے ساتھ ہر ملاقات میں وہ اس کو اس بات کی نصیحت کرتا کہ وہ کسی کو اس کے صحافتی پیشہ کے بارے میں کچھ نہ بتائے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت اس کو بھی پھانسی پر لٹکا دے۔ 

 ہر وہ بات جس سے کہ ہر صحافی ڈرتا تھا ، با لکل اسی بات سے ’جلاد‘ بھی ڈرتا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ صحافی جب بھی اپنے کسی دوست یا عزیز سے ملے گا اور وہ ان کو اس بارے میںکچھ نہیں بتائے گا خواہ وہ اسے کچھ بھی کہتےرہیں۔ 

 حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کردی تھی کہ ہر کوئی دوسرے شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ بھائی اپنے بھائی کومشکوک نظروں سے دیکھتا تھا اور دوست اپنے دوست پر بھروسا نہیں کرتا تھا۔  

  • آخری لمحات: اب پھانسی کی کوٹھری کے سامنے با لکل آخری لمحات تھے،اور پھر ’ملزم‘ کا نام پکارا گیا:  

نام: سیّد قطب ابراہیم۔ عمر: ۶۰ سال۔ پیشہ: سابق استاداوربہترین اسلامی اسکالروں میں سے ایک ۔ جرم: حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا الزام۔ 

ایسا لگ رہا تھا جیسے گھڑی کی سُوئیاں بڑی سُست رفتار سے چل رہی ہوں۔وہ شخص، جس کی سزائے موت کا حکم تھا، خوف اور وحشت کے اس ماحول میں بھی ،سب سے زیادہ بہادر، دلیر اور شجاع دکھائی دے رہا تھا اور اس کی شخصیت کے رُعب اور دبدبےکی وجہ سے، یوں لگ رہاتھا کہ موت، اس سےدُور بھاگ رہی تھی، جب کہ وہ شخص ،شہادت کی آرزو میں، اور اپنے ربّ سے ملاقات کے شوق میں ،اُسی موت کی تلاش اور جستجو میں اس کے پیچھے پیچھے تھا اوراس کو گلے لگانے کے لیے ہر لمحہ آمادہ اورتیار تھا۔ 

سزائے موت پر عمل درآمد کی تاریخ میں ایسا پہلی بار___ اور شاید آخری بار ہو رہا تھا،کیونکہ ’جلاد‘ جیسا کہ نظر آرہا تھا، اور اس کے سینے میں بھی ایک دھڑکتا ہوا دل تھا، ایسالگ رہا تھا کہ آج اس کو ’پھانسی‘ دینے کے فن اور ہنر کا کچھ پتہ نہیں اور وہ اس پیشے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، حالانکہ یہ کام وہ اس سے پہلے کئی بار کر چکا تھا۔یُوں لگتا تھا کےآج اس کادِل اس کام کے کرنے کو،یعنی سزائے موت کے اس حکم پر عمل کرنے کو،نہیں چاہ رہاتھا۔ 

ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ وہ جس شخص کی سزائے موت پر عمل درآمدکرنے والا تھا، اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ اس کو پہلے سے جانتا ہے اوربہت قریب سے جانتا ہے،حالانکہ وہ آج سے پہلے اس سےکبھی نہیں ملا تھا۔البتہ اس نےاپنے قریبی لوگوں سے،اپنے جاننے والوں سے،اور دوستوں سے اس کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا تھاجو اس کی یادوں میں محفوظ تھا۔اس کے لیے اب یہ بڑی مشکل اور نا مناسب بات تھی کے وہ اُس شخص کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے جو اس کے نزدیک انتہائی قابلِ اِحترام ہے۔اِس سے بھی زیادہ نا ممکن اور حیرت ناک بات یہ تھی کہ ’جلاد‘ اس کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالے اور وہ سزائے موت پانے والا شخص اس کو مُسکراتے ہوئے، خندہ پیشانی سے دیکھے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ سید قُطبؒ عین ان لمحات میں بھی ’جلاد‘ کو انھی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ 

سزائے موت کے حکم، اس کے اسباب اور وجوہ کو پڑھے جانے کے بعد اب ایک اور ’اہم بات‘اور ’کارروائی‘بھی بہت ضروری تھی جو کہ وزارتِ اوقاف نے اپنےایک ’واعظ‘ یعنی ایک سرکاری مولوی صاحب کے ذِمہ لگائی ہوتی ہے کہ سزائے موت سے پہلے وہ ملزم کو ’کلمۂ شہادت‘ پڑھائے،لہٰذا’واعظ‘نے سیّد قطب ؒسے کہا کے وہ کلمۂ شہادت پڑھیں:اشھد ان لا الٰہ اِلَّا اللہ واشہد ان محمد رسول اللہ۔ 

یہ سن کر،سیّد قطبؒ بڑے خوشگوار انداز میں مسکرائے اور’واعظ‘کے کاندھے پر بڑے شفیقانہ انداز میں تھپکی دےکر فرمانےلگے کہ: تیرا کیا خیال ہے کہ میں اس مقام تک اس ’کلمۂ شہادت‘ کے بجائے کسی اور وجہ سے پہنچاہوں؟اس حکمت اور دانائی کی بات سے،اس انتہائی نازک وقت میں بھی سیّد قطبؒ نے ’کلمۂ شہادت‘ کے اصل پیغام اور تقاضے کو اس ’واعظ‘کے ذریعے دوسرے لوگوں تک پہنچا دیا۔ 

 سیّد قطب ؒکے یہ الفاظ سننا تھے کہ ’واعظ‘ان کی شخصیت کے رُعب اوردبدبے کی وجہ سے سہم سا گیا۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ ندامت اور شرمندگی اس کے چہرے پہ نمایاں تھی اور اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی،لیکن سیّد قطبؒ جیسے عظیم اورشفیق انسان کی محبت اور شفقت بھری نگاہوں نے ’وَاعِظ‘ کواس صورتِ حال میں سہارا دیا۔اس ذمہ داری پر مامور ’واعظ‘ صرف ایک اور روایتی جملہ دُہراتا ہے: ’’کیاآپ کے دل میں کوئی خواہش ہے؟‘‘ یعنی آپ کی کوئی آخری خواہش؟۔  

لیکن اس کے جواب میں ،اس عظیم انسان نے اپنی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا،کیونکہ ان لمحات میں سیّد قطب ؒ جیسی شخصیت کے لیے،اپنے خالق حقیقی، مالِک اور رَب سے ملاقات کی تمنا اور خواہش سے زیادہ قیمتی اور بڑی کوئی اورشے کیا ہوسکتی تھی کہ اس کی تمنا اور آرزوکی جائے ؟ 

اس لیے بھی کہ سیّد قطبؒ ، سورۂ فجر کی آخری چار آیات کی روشنی میں، جلد سے جلد،اپنے ربّ کی اس پکار پر لبیک کہنے کے لیے بے تا ب،آمادہ و تیار تھے کہ ’’اے نفس مطمئنہ، تُو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تواس سے راضی ہواور وہ تجھ سے راضی ہو، لہٰذا اب تُومیرے پسندیدہ اور محبوب بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہو جا‘‘۔اور اس موقع پر وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اور بات، کوئی اور تمنا یا خواہش ان کے اس نصب العین کے راستے میں رکاوٹ بن جائے، اور اس طرح کی کوئی ’سرکاری‘ قسم کی کارروائی ،ان کے لیے تنگ دِلی کا باعث بن رہی تھی۔کیونکہ ایسی کوئی بات ان کے نزدیک،ان کے عظیم ربّ اور سب بادشاہوں کے بادشاہ سے ملاقات کی راہ میں تاخیر کا سبب بن سکتی تھی۔ 

سیّد قطب ؒ پھراس جگہ کی طرف آگےبڑھے،جہاں پر ان کی موجود ہ عارضی دُنیوی زندگی کی مہلت ختم ہونے والی تھی اوروہ یہ بات اچھی طرح سےجانتے اور سمجھتے تھے کہ جس کوٹھری میں اب وہ جا رہے ہیں، یہ وہ آخری جگہ ہے ،جس کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور پھر اسی کمرے میں سے ان کی رُوح اُن کےاس مادی جِسم سےنکل کر آسمان کی طرف پرواز کر جائے گی اور اس کے بعد اس کمرے سے صرف ان کا بے جان جسم ہی نکلے گا جس میں دِل کی دھڑکن اور سانس نام کی کوئی چیز نہ ہو گی۔ 

لیکن سیّد قطب ؒ اپنے مقصد کی لگن میں ،بڑےپختہ عزم اورارادے کے حامل تھےاور مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ان کا نصب العین بڑا اعلی اورارفع تھا۔ سب سے پہلےاگرچہ ان کی نظر اُس رسّہ پر پڑی جو پھانسی گھاٹ کی چھت سے نیچے لٹک رہاتھا،لیکن ان کی نظروں کا اصل ہدف یہ رسہ نہ تھا، بلکہ ’کلمۂ شہادت‘کی دھیمی آواز سےادائیگی نےان کوذہنی طور پرکسی اور ہی جہان میں پہنچا دیا تھا جواِس جہان سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ 

  • مصری قوم کی بـے خبری:مصر اور اہلِ مصر کو کسی بات کی کچھ خبر نہ تھی۔ اس صبح (۲۹؍ اگست۱۹۶۶ء) کو چھپنے والے اخبارات بین الاقوامی تیراکی کے مقابلوں کی خبروں اور اس دور کی سیاسی قیادت ، یعنی صدر جمال عبد الناصر کی ملاقاتوں اور میٹنگوں کی خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ سب سے بڑی عجیب بات ایک خبر تھی جس کو مصر کے تمام روزناموں اور مجلوں نے اس صبح کو شائع کیا تھا، جب کہ اس خبر کا مصر کی صحافت کی حقیقی تاریخ اور ریکارڈ سے قریب تو کیا دُور کا بھی کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں سیّد قطبؒ کی شہادت کی خبر ہر لحاظ سے اپنی تاریخی حیثیت اور اہمیت رکھتی تھی۔اس سب کے باوجود مصر کے اخبارات اور روزنامے اس خبر سے بے خبر تھے۔ 

یہ سب اخبارات اس صبح کو اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکے کہ قاہرہ میں موجود فرانسیسی سفارت خانے پر ہونے والے صومالی طلبہ کے ایک حملے کے جواب میں مزاحمت کے نتیجے میں وفات پانے والے ایک سپاہی کی موت کی خبر اپنے اخبار کے پہلے صفحے پر نمایاں طور پر شائع کرسکیں۔ یوں لگتا تھا کہ سپاہی عبدالمنعم کی موت کی خبر،مصری اخبارات پڑھنے والوں کے لیے ،اس دور کےاسلام کے داعی کی پھانسی کے ذریعے شہادت کی خبر سے زیادہ اہم اور ضروری تھی___ یا شاید یہ بات تھی کہ صومالی طلبہ کے حملے کے جواب میں عسکری عبدالمنعم کی مزاحمتی جدوجہد ، افضلیت اور مرتبے کے لحاظ سےاس دورکےعظیم اور مشہور مفکرِ اسلام کی،اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد اور ان کی دینِ حنیف کے لیے دعوت سے زیادہ اہم تھی۔ 

  • اور سیّد قطبؒ کی شہادت کی خبر…! : ۲۹؍اگست ، ۱۹۶۶ء کی صبح کو چھپنے والے روزنامہ الاخبار کی بڑی بڑی خبریں اسی طرح سے شائع ہوئی تھیں ،جب کہ سیّد قطبؒ کی شہادت کی خبر چھٹے صفحے کے انتہائی بائیں جانب ، ایک کالمی خبر بالکل غیر نمایاں جگہ پر لگائی گئی ،اور صرف چار سطروں میں۔خبر کا عنوان اس طرح سے باندھا گیا کہ :’’سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد ہوگیا‘‘ اور پھرخبر کی بڑے مبہم انداز میں تفصیل کے لیے صرف تین سطروں پر اکتفا کیاگیا، اور بقایا خبر اس طریقے سے لگائی گئی : ’’آج صبح فجر کے وقت، سیدقطب ،محمد یوسف ھواش اور عبدالفتاح اسماعیل، تینوں افراد کی سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد ہو گیا‘‘۔ 

ذرا غور فرمایئے اس بات پر کہ روزنامہ کہتا ہے کہ ’’ سزائے موت ۲۹؍ اگست کےدن فجر کے وقت دی گئی، جب کہ یہ کام اس دن کی فجر سے چوبیس گھنٹے پہلے ہو چکا تھااور اس سے بھی زیادہ حیران کن اور عجیب بات یہ تھی کہ اس روزنامہ نے سیدقطب ؒ کی سزائے موت کی خبر کے سامنے والے کالم میں ایک فلم امراۃ من النار کی خبر شائع کی اور سیّد قطب ؒ شہید اور ان کے دونوں ساتھیوں کی شہادت کی خبر کے نیچے ایک فلم الاصدقاء الثلاثہ یعنی تین دوست ، کے بارے میں ایک خبر لگادی ۔خبروں کی اس طرح کی ترتیب سے روزنامے کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا کہ قارئین کی توجہ کو سیّدقطب ؒ اور ان کے دو ساتھیوں کی شہادت کی طرف مبذول کیا جائے۔ 

 روزنامہ الاخبارکے آخری صفحہ پر ایک کالم ’فکرۃ‘ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا ،اس روز یہ اخباراس کالم کے بغیر شائع ہوا ۔ یہ کالم اب ایک بڑے صحافی علی امین ؒ لکھتے تھے کیونکہ حکومت نے فکرۃ کے کالم نگار،عظیم صحافی، مصطفےٰ امین کی اس دن سے کچھ ہی دن پہلے گرفتاری کا حکم دے دیا تھا۔اس وجہ سے علی امین اس بات پرمجبور ہو گئے کہ اپنے لندن کے سفر سے واپس نہ آسکیں۔ 

  • مصری صحافت کی حالتِ زار: یہ حال صرف ایک روزنامہ الاخبار  کا نہیں تھا،بلکہ دوسرے اخبارات بہت زیادہ برے حالات میں تھے، جب کہ روزنامہ الاخبار ان کے مقابلے میں کہیں بہتر حال میں تھا۔ ذرائع ابلاغ کی بے خبری کی یہ حالت یونہی نہ تھی۔اصل بات یہ تھی کہ سیاسی قیادت نے اس بات کا فیصلہ کررکھا تھا کہ ذرائع ابلاغ کو بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ 
  • مصری قوم بـے خبر رہی : لوگ اپنی معمول کی زندگی گزار رہے تھے۔مصر کے لوگوں میں آپس میں بات کرتے ہوئے،احتیاط کا پہلو بہت غالب تھا، خوف وہراس کی فضا تھی، کوئی بھی سیاست کے کسی موضوع پر ڈرتا ،بات نہ کرتا تھا۔ بھائی کو بھائی پر بھروسا نہ تھا۔ دوست اپنے دوست کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔اس وقت مصر کی کسی شاہراہ پر، اور کسی گلی میں دو افراد کے درمیان کوئی بات کرنا ایک سیاسی مذاق تھا۔ یہ سیاسی مذاق اس وقت کے صدر جمہوریہ مصر کے سیاسی نکتوں میں سے ایک اہم نکتہ تھا۔ اور اس کے انتہائی قابلِ اعتماد لوگوں کا بھی پسندیدہ یہی ایک نکتہ تھا، جو صدر جمال ناصر کوذاتی طور پر بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ یہ تھا کہ’’ ساری مصری قوم ،یہ نعرہ لگاتے ہوئے صبح کرتی ہے کہ ’’اے بھائی،تو جب تک چاہے، اپنی آواز کو اونچا رکھ،اپنی صدا کو بلند کر، لیکن یہ کام تجھےبڑی رازداری سے کرنا ہے___  ( کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت کو پتہ چل جائے)___  اگر مصری قوم کو اس دن یہ پتا چل جاتا کہ سیّد قطبؒ کی سزائے موت کے حکم پرعمل درآمد ہو چکا ہے،تو وہ اپنے پورے جوش و جذبہ کے ساتھ صحافیوں کے ان مضامین اور مقالوں سے زیادہ ،اپنے شدیدغم و غصے کا اظہارکرتی۔ 
  • اخلاص کے پیکر: سیّد قطبؒ ہرگز نہیں چاہتے تھے کی ان کی ’سزائے موت‘ کی کسی کو خبر ہو۔اُن کا اِس بات پر پختہ ایمان تھا کہ ان کی زندگی اور موت صرف اُس ایک مالک کے ہاتھ اور قبضۂ قُدرت میں ہے جو ساری دُنیا کے حالات اور واقعات کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔ سیّد قطبؒ کی صرف اور صرف ایک تمنّا تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ جلد سے جلد ،اپنے عظمتوں والے ربّ سے ملاقات کریں___ اور ان کا اس بات پر پختہ اور راسخ ایمان تھا کہ وہ بڑی بلند اور عظمت والی ملاقات ہے،اس لیے کہ یہ ملاقات ’عظیم‘ صرف اسی صورت میں بن سکتی کہ اللہ کی زمین سے آنے والے مہمان کاحشر ،انبیا ورُسُل، صدیقین،شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو۔(النساء۴:۶۹) 
  • اور پھر وہ لمحہ قریب آگیا …! : اور پھر___ سزائے موت کا لمحہ قریب آگیا، سب تیاریاں مکمل تھیں اور ہر چیز تیار تھی۔ایک وحشت ناک خاموشی پھانسی گھاٹ کی کوٹھری پہ چھائی ہوئی تھی اور لمحہ بہ لمحہ اس وحشت اور سناٹے میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔یہ کوٹھری اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہی تھی کہ رعب اور ہیبت کے لحاظ سے کوئی تاریخی لمحہ آنے والا ہے۔ 

 پھانسی گھاٹ کی چھت کے ساتھ مضبوطی سے بندھا ہوا ایک رسہ نیچے لٹک رہا تھا،اس کا نچلا حصہ گردن کے گرد ڈالنے کے لیے دائرے کی شکل میں ایک گولائی لیے ہوئے تھا اور اس کے ساتھ وہ رسی بھی تھی جس کو کھینچ کر ’جلاد‘ ایک زندہ انسان کی زندگی کی مہلت کو ختم کر دیتا ہے۔ 

  •  صبر و استقامت کا پہاڑ: سیّد قطبؒ، اپنا سر بلند کیے، عزم اور ہمت کی ایک چٹان کی طرح، پورے اعتماد کے ساتھ، گردن اونچی کیےاس کمرے میں داخل ہوئے۔اس وقت وہ جلاد کےہر حکم اور اس کی ہرہدایت پر عمل کرنے کے لیے بالکل آمادہ اور تیار تھے۔وہ اُس ٹوپی نُما ’نقاب‘کو اپنے چہرے پر ڈالنے کے لیے آگے بڑھے جو پھانسی دیئے جانے والے شخص کے چہرے کو ،اس کی جان کےنکل جانے تک ڈھانپ کر اورچھپا کررکھتا ہے۔سزائے موت کی کاروائی کی نگرانی کرنے والے لوگوں کا یہی خیال ہے۔ اس لیے انھوں نے تختۂ دار کو بنانے میں اس بات کا خیال رکھا تھا۔         
  • آخری لمحات ___ آخری کلمات: سیّد قطبؒ شہید نے اس ٹوپی کو پہننے سے پہلے سر گوشی کے انداز میں دُعائیہ کلمات سے ملتے جلتے کچھ الفاظ ادا کیے۔قریب تھا کہ ’جلاد‘ سیّد قطب شہیدؒ کی زبان سے یکے بعد دیگرے نکلنے والے ان الفاظ کی ہیبت سے ڈر جاتا،حالانکہ وہ اس طرح کے الفاظ اس سے پہلےبھی کئی مرتبہ سن چکا تھا لیکن اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ یہ الفاظ پہلی بار سن رہا ہے  اور اس بار اس کا معنٰی اور مفہوم بھی پہلے سے بہت مختلف ہے۔ایک بہت بڑے صحافی نے اس بارے میں ’جلاد‘سے بڑا زور دے کر پوچھا کہ وہ کیاالفاظ تھے جو سیّد قطبؒ شہید نے اپنی زندگی کے ان آخری لمحوں میں کہے تھے؟ اس صحافی نے اس پر خوامخواہ یہ بھی زور دیا کہ وہ یہاں سےواپس نہیں جائے گا ،جب تک وہ یہ معلوم نہ کر لے کہ سیّد قطبؒ شہید نے پھانسی کی رسی اپنے گلے میں ڈالنے کے بعدآخری الفاظ کیا کہے تھے؟___ اور بڑی تگ ودو کے بعد اس بڑے صحافی نے وہ سات آخری الفاظ معلوم کیے جواسلام کے اس عظیم داعی نے آخری وقت میں کہے، اوروہ الفاظ یہ تھےکہ اللہم اجعل دمی لعنۃ فی عنق عبدالناصر۔ جس کا مطلب یہ تھاکہ: ’’اے اللہ!میرے اس خون کو صدر جمال عبدالناصر کے لیے ہلاکت بنا دے‘‘، لیکن وہ بڑا صحافی اگرچہ سیدقطب شہیدؒ کے ان الفاظ کو اب تک ہمیشہ بار بار دُہراتا رہا ،لیکن صحافت پر پابندیوں کے اس سیاہ دور میں ،وہ ان لفظوں میں سے ایک لفظ بھی اپنے اخبار میں چھاپ نہ سکا۔وہ بڑا صحافی ،سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد کےدو گھنٹے بعد اپنے ایک دوست، ایک معروف صحافی کے ساتھ ایک ملاقات کرتا ہے اور یہ ملاقات ایک صحافتی کلب میں ہوئی۔جب اس بڑے صحافی نے اپنے دوست صحافی کو سیّدقطب شہیدؒ کی طاقت ور اور رُعب دارشخصیت،اور ایمانی عظمت اور وقارکے بارے میں بتایا کہ جب ان کو تختۂ دار پر لٹکا یا جا رہا تھا تو ان کے صبرو استقامت اور ایمان کی کیفیت مثالی تھی، تو ان کے دوست صحافی نے کہا کہ ’’ سیّد قطب ؒ جیسی شخصیت کے بارے میں یہی توقع کی جا سکتی ہے‘‘۔ جب اس بڑے صحافی نے ان آخری الفاظ کےبارے میں بتایا جو انھوں نے کلمۂ شہادت کی زبان سے ادائیگی سے پہلے کہےتھے:سترک یارب …… اللہم الطف بعبادک ،’’اے اللہ، حفاظت صرف تیری طرف سے ہے،تُو اپنے بندوں پر رحم فرما‘‘۔ 

lتب جان بچانا ممکن تھا، لیکن ___: سیّد قطب ، اگر صدر جمال عبد الناصر سے رحم کی اپیل کرتے تو ان کے لیے اپنی جان بچانا ممکن تھا۔ سیّد قطبؒ کے لیےاس طرح کی درخواست اَخوان کے بہت سے احباب نے پیش بھی کی، اور بعض حضرات نے تو اس سزا کوقید بامشقت میں تبدیل کرنے کی درخواست بھی کی، لیکن سیدقطب نے اپنی زندگی کی بھیک ،صدر جمال عبدالناصر سے مانگنے سے انکار کر دیا ،کیونکہ ان کے نزدیک زندگی کا معنی اور مفہوم اس سے بہت مختلف تھا، زندگی کا جو مفہوم جمال عبدالناصر کے نزدیک تھا۔ سیّد قطب ؒکے ان دو اخوانی بھائیوں نے بھی رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا،جن کو سیّد قطب ؒ کی شہادت کے صرف پانچ منٹ بعدپھانسی دے دی گئی۔ یہ دونوں حضرات محمد یوسف ھواشؒ اور عبدالفتاح اسما عیلؒ تھے۔ 

  • مصری تاریخ کی ظالم اور بدترین عدالت: سیّد قطب ؒ سمیت ،ان تینوں حضرات نے اس بات سے انکار کردیا کہ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی کو بچانےکی خاطر ظالموں کے آگے ذلیل اور شرمندہ ہوں، جس دنیا کی حیثیت اس کے خالِق اور مالک، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہے۔ 

 یہ تینوںحضرات یہ بھی جانتے تھے کہ جس عدالت نے ایک شخص ’الدّجوی‘ کی سربراہی میں سزائے موت کا یہ فیصلہ سنایا ہے، وہ مصری تاریخ کی ظالم ترین اور بد ترین عدالت ہے۔ یہ عدالت محض ٹیلی فون کالوں کے ذریعے اپنے آمرانہ اورظالمانہ فیصلے سناتی تھی اور عام اجلاسوں میں ان کا اعلان کر دیتی تھی۔ 

  اخوان کے یہ تینوں رہنما ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی جانتے تھے کہ ’ظلم ،قیامت کے اندھیرے ہیں‘۔ یہ تینوں رہنما،یہ بھی جانتے تھے کہ مصری قوم ان ظالمانہ فیصلوں کی کبھی بھی تائید اور توثیق نہیں کرےگی۔ بلکہ مصری قوم کو اس بات کا احساس اور شعور بھی اچھی طرح سے ہوتا جارہا تھا کہ جن لوگوں کے مقدمات فوجی عدالت میں چلائے گئے ہیں اور ان کو موت جیسی سزا دی جارہی ہے، وہ بالکل بے گناہ ہیں اور مصری معاشرہ کے نیک اور صالح افراد ہیں۔ خاص طور پہ یہ بات کہ یہ وہ فوجی عدالت ہے جس کاسربراہ ’الدّجوی‘ نام کا ایسا شخص ہے کہ جس کے فیصلے اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے ہی لوگوں کی زبانوں پر ہوتے تھے، یعنی عوام کو فیصلوں سے پہلے ہی پتہ ہوتا تھا کہ کیا فیصلہ آنے والاہے؟ 

  مصر کے عوام کو کچھ پتہ نہ چلا کہ کیا ہوا ہے؟،اتنا بڑا حادثہ اورایک خوف ناک سانحہ رُو نما ہوا تھا،مگر کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ 

 ’سزائے موت‘ کے بعد ، سیّد قطب شہیدؒ کا کمزور،نحیف وضعیف اوربے جان جسم اسی جگہ پر لٹک رہا تھا،اورمصر کی حاکم سیاسی قیادت یہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے ایک اسلامی فکر کو ’سزائے موت‘ دے دی ہے اوراسے مزید پھیلنے سے روک دیا ہے یا انھوں نے ’اخوان‘ کی فکر کا گلا دبا دیا ہے، یا ان کی عقل و فہم اورغور و فکر کی صلاحیت کا گلا گھونٹ دیا ہے، جب کہ اصل بات ،صرف اور صرف یہ تھی کہ انھوں نے صرف ’سیّد قطب ؒ، اور ان کے دو ’اخوانی‘ بھائیوں کے جسموں کو پھانسی دی تھی اور صرف ان کا گلا گھونٹا تھا۔ وہ اخوان کی اسلامی فکر ، اسلامی سوچ اوران کی عقل و فہم اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت کو سلب نہیں کر سکتے تھے، اس لیے نہ کرسکے ۔ 

  • ان الباطل کان زھوقا : ایک آمرِ مطلق ،ظالم اورجابر حاکم ، جب چاہے اور جہاں چاہے ،انسانوں کے جسموں کواذِیّت تودے سکتا ہےاور تکلیف پہنچاسکتا ہے، لیکن وہ ایک ’فکر‘ اور ’نظریہ‘ کا مقابلہ کرنے اور اس کا راستہ روکنے کی طاقت اور صلاحیت نہیں رکھتا۔ فکر اور نظریہ، ایک ڈکٹیٹر حاکم کے مقابلے میں طاقت ور اور مضبوط ہوتا ہےاور ہمیشہ غالب اور کامیاب رہتا ہے، جب کہ حکمران ہمیشہ زوال کا شکار ہوتے ہیں اور ایک ’صحیح فکر‘ اور ایک ’صحیح عقیدہ‘ وقت اور زمانے کے بدلنے کے ساتھ بھی، ترقی کرتا رہتا ہے اورزندہ و جاوداں رہتا ہے۔ 

اِنّ بطش ربک لشدید، یعنی تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ 
۔۔۔اور پھر ایک آسمانی آفت اور مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے۔ 

 اب ’مکافات عمل‘ یعنی اس کا قدرتی اور فطری ردِّ عمل شروع ہوتا ہے،اورایک آسمانی آفت اور ایک مصیبت،مصر اوراہلِ مصر پر ٹوٹ پڑی۔ اس کائنات ارض و سما وات کا خالق، مالک اور حاکم جواپنے تین نیک ، صالح اور بے گناہ بندوں کی ناحق سزا کا منظر دیکھ رہا تھا، اوروہ یہ جانتا تھا کہ میرے یہ بندے ،ظالموں کے سامنے بے بس اور لاچار ہیں اور ظالموں کو تنبیہ کرنے اور خبردار کرنے کے سارےسامان اور طریقے اس کے پاس ہیں۔ لہٰذا اس نے اپنے غضب اور ناراضگی کے کچھ آثار فوری طور پر نازل فرما دیئے۔آسمان والا زمین والوں کے اس ظلم پر کس قدر غضب ناک تھا، اس کے غیظ و غضب کااظہار کس طرح سےہوا؟ 

  • اور پھر مصر پر آفت ٹوٹ پڑتی ہـے:  ہوا یوں کہ،اِن تینوں شہداء کی ’سزائے موت‘کے حکم پہ عمل درآمد پرابھی چند گھڑیاں بھی نہ گزری تھیں کہ آسمان والے کی طرف سے اس کا رد عمل ظاہر ہونا شروع ہوا۔ آسمان پھٹ پڑا، شدید بارشیں برسنے لگیں،اور انتہائی گرم موسم میں بھی ژالہ باری ہونے لگی۔ حالانکہ موسم اور فضا ایسی تھی کی اگست کے مہینے کی پہلی تاریخ سے لے کر سیّد قطب ؒ کی شہادت تک مصر ایک جہنم کا منظر پیش کر رہا تھا۔ آسمان سے بھی آگ برس رہی تھی اور زمین بھی اپنی بھڑاس نکال رہی تھی اور اپنے اندر سےجیسے آگ اُگل رہی تھی۔ لوگوں کے چہرے اپنےپسینےمیں شرابور اور ڈوبے ہوئے تھے، جسموں میں گویا آگ بھڑک رہی تھی۔ اچانک برف کے ٹکڑے آسمان سے برسنے لگے۔ یوں لگتا تھا کہ برف کے ان ٹکڑوں کے ذریعے انھیں ’رجم‘اور’سنگسار‘ کیا جا رہاہے، اور سیّد قطب شہیدؒ سے محبت،ان کی ثقاہت،اور ان کی بے گناہی کی وجہ سے ان کی حمایت اور ان کے دفاع میں ،اہل مصر پرپتھروں کی بجائے برف کے ٹکڑوں کی بارش کی جا رہی ہے۔ وہ بڑے صحافی اپنے اندر بہت زیادہ گھبراہٹ محسوس کررہے تھے۔سات لفظوں کی وہ دعا جو سید شہید ؒ نے اپنی شہادت سے چند لمحے پہلے کی تھی کہ: اللہم اجعل دمی لعنتہ علی عنق عبد الناصر، یعنی ’’اے میرے اللہ! میرے اس خون کو جمال عبد الناصر کی گردن پہ ڈال دے اور اس کی ہلاکت اور بربادی کا ذریعہ بنا دے‘‘۔ 

 سیّد قطبؒ کی شہادت کے اگلے روز ، سوموار کے دن ،تمام عالم عرب میں سیّد قطب شہیدؒ اور ان کے دونوں ’اخوانی‘ ساتھیوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔اس موقع پر تیونس کے ایک بڑے سیاسی رہنما نے کہا کہ ’’ اللہ تعالیٰ ، اس عظیم عالمِ دین کے خون کا بدلہ مصر کے اس حاکم سے ضرور لے گا‘‘۔ 

اور پھر ظالم کی ذلّت، رسوائی اور پسپائی کا دور شروع ہوتا ہے۔ سیّد قطبؒ اور ان دونوں ’اخوانی‘ بھائیوں کی شہادت کو ابھی چند ہفتے نہیں گزرے تھے کہ صدر جمال عبد الناصر بیمار پڑ گیا، اس کو کوئی بہت بڑی بیماری لاحق ہو گئی تھی۔اب مصر پر یکے بعد دیگرے بحرانوں اور مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ادھر مصر کے سیاسی رہنما اور قائدین مصر کے تخت کو ہلارہے تھے، اور لوگوں کو انقلاب اور تبدیلی پر اُکسا رہے تھے، اور گرتی ہوئی دیواروں کو آخری دھکا دے رہے تھے۔وہ عالمی سامراجی قوتوں کو چیلنج کر رہے تھے اور للکار رہے تھے اور اسرائیل کو سمندر میں غرق کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔صدر ناصر علاج کے لیے بڑی خاموشی سے اور خفیہ طور پرروس کی ایک ریاست جارجیامیں واقع، ایک شہر’ تسخالطبو‘چلا گیا۔ 

 مصر کے ذرائع ابلاغ نے صدر ناصر کی بیماری کی حقیقت اور اصلیت کو چھپا کر رکھااور اس بات کو پھیلانےپر زور دیا گیا کہ صدر ناصر کی صحت روز بروز پہلےسے بہتر ہورہی ہے، تاکہ تنقید کرنے والوں کوطعنہ زنی کرنےکا موقع نہ ملے۔قدرتِ خداوندی نے صدر ناصر کو صرف بیماری کا عذاب اور اذیت دینے پر اکتفا نہ کیا بلکہ ۱۹۶۷ءمیں اس کو ایک اورشدید دھچکا لگا۔اسے اقتدار سے الگ ہونے اور روسیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور سر تسلیم خم کرنےکا اشارہ ملا۔اُسی روز ’علال الفاسی‘ نے،جو کہ مراکش کے ایک مشہور سیاسی راہنما تھے،اپنے ایک پر جوش اورمشہور خطاب میں کہا کہ ’’اللہ سے اس بات کی ہر گز امید نہیں کہ وہ سیّد قطب کے قاتلوں کی مدد کرے گا‘‘۔ 

مظلوموں کی آہوں اور دعاؤں نے عرشِ الٰہی کو ہلا کےرکھ دیا۔ 

--- اے اللہ! ان ظالموں کی جمعیت کو پارہ پارہ کردے،اور پھراللہ نے ان کےاس اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ 

 صدر ناصر اپنی ایک بہت بڑی سیاسی رسوائی سے ا بھی نکل نہیں پائے تھے کہ ان پر ایک نئی مصیبت آن پڑی اور ایک نیا بحران آگیا۔اور یہ بحران ان کے عمر بھر کے ایک گہرے دوست عبد الحکیم عامرکے ساتھ ان کے آپس کے تعلقات خراب ہونے سے پیدا ہوا۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر غداری کے الزامات لگائے گئے یہاں تک کے ان کا دوست قتل ہو گیا یا اس نے خودکشی کر لی۔اب عبد الناصر ان سب ناگوار حالات کا سامنا کرنے کے لیے تنہا اور اکیلا رہ گیا۔ اس کی تنہائی بھی زیادہ طویل عرصہ تک نہ رہ سکی اور سیّد قطب کی شہادت کے صرف تین سال بعد اس کا انتقال ہو گیا اور تنہائی کے اس عرصے میں اس نے بیماری کے درد،ناکامیوں کی ذلت و رُسوائی ، اپنےایک جگری دوست کی جدائی اور زندگی سے مایوسی کے غم کا سامنا کیا۔اس تمام عرصے میں اس نے ایک دن کے لیے بھی کسی خوشی کا مزہ،کسی خوش بختی اور خوش نصیبی کا ذائقہ نہیں چکھا۔ 

  • شہید زندہ ہیں ، تم انھیں مُردہ نہ کہو: اللہ کے فرمان کی رُو سے شہید زندہ ہوتے ہیں اور اس کے ہاں اُن کو رزق دیا جاتا ہے۔ اس لیے سیّد قطبؒ کو موت نہیں آئی ، اوراس لیے بھی کہ مصر ہی نہیں ،عالم عرب اور عالم اسلام کے مکتبے اور لائبریریاں ان کی شہرہ آفاق ،تفسیر قرآن فی ظلال القرآن کے نسخوں اوردوسری بہت سی دینی کتابوں سے بھری پڑی ہیں اورعلم کے پیاسوں کی پیاس بجھا رہی ہیں،جب کہ جمال عبدالناصرکی صورت اور شخصیت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔اس کی تقریریں اور تصویریں ،ذہنوں سے محو ہو چکی ہیں۔یہاں تک کہ ،جن لوگوں نے سیّد قطب کی سزائے موت پر خوشی کا اظہارکیا تھااوراس کا خیر مقدم کیا تھا، وہی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ عبدالناصر شراب سے بھی زیادہ گندا اور بدتر ہے۔ 

غزہ میں انسانی تاریخ کے ایک المیہ، بدترین صورتِ حال میں ڈھل چکا ہے۔ ہم یہاں برطانیہ کے اخبارات کی رپورٹنگ سے کچھ حصے پیش کر رہے ہیں۔ 

غزہ میں اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی کے سربراہ نے گذشتہ دنوں کہا: ’’ہمارے فرنٹ لائن عملے کے ارکان بھوک سے بے ہوش ہو رہے ہیں، کیونکہ غزہ میں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘‘۔ 

اقوام متحدہ کی ’ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘ (UNRWA: ’انروا‘) کے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا: ’’یہ سنگین ہوتی صورت حال ہر کسی کو متاثر کر رہی ہے، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جو جنگ زدہ علاقے میں زندگیاں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب دیکھ بھال کرنے والے خود کھانے کو ترس رہے ہوں تو پورا انسانی امدادی نظام تباہ ہو جاتا ہے‘‘۔ 

لازارینی کے بقول: ’’میرے ایک ساتھی نے بتایا ہے کہ ’’غزہ کے لوگ نہ زندہ ہیں، نہ مُردہ، وہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں‘‘۔ 

مزید یہ کہ: ’انروا‘ کے پاس اردن اور مصر میں خوراک اور طبی امداد سے لدے تقریباً ۶ہزار ٹرک موجود ہیں، مگر اسرائیلی حکام امداد غزہ پہنچنے نہیں دے رہے!‘‘ 

صحافیوں اور خدمتی سرگرمیوں سے وابستہ افراد کے ذریعے ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ لوگ بھوک سے زمین پر گر کر مر رہے ہیں۔ سول ڈیفنس کے کارکنوں نے ایسے کمزور جسموں کی تصاویر بنائی ہیں، جن پر محض کھال باقی ہے۔ طبّی ذرائع کے مطابق گذشتہ روز دو اور افراد بھوک سے مر گئے۔ دونوں بیمار تھے اور کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا‘‘۔ 

بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کیونکہ بھوک سے مرنے والے فلسطینیوں کی تصاویر اسرائیلی ناکہ بندی پر عالمی سطح پر مذمت کا باعث بن رہی ہیں۔۲۳جولائی کو فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلے گا‘‘۔ 

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ دہشت گردی کو انعام دینا ہے‘‘۔ اس سے قبل، برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے ایک بیان میں کہا: ’’غزہ میں جو تکلیف اور بھوک کا عالم ہے، وہ ناقابلِ بیان اور ناقابلِ دفاع ہے۔ اگرچہ یہ صورتِ حال کافی عرصے سے سنگین ہے، لیکن اب اس نے ایک نیا اندوہناک موڑ لیا ہے اور بدستور بگڑتی جا رہی ہے۔ ہم ایک انسانی المیے کا مشاہدہ کر رہے ہیں‘‘۔ 

—— سی کے مطابق: ’’غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ قحط اب بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ عالمی ادارے ہر روز غزہ کی صورتِ حال پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ اب اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس صورتِ حال پر عالمی ضمیر سے اپیل کی ہے‘‘۔ 

اخبار گارڈین، لندن (۲۵ جولائی) کے مطابق: ایک طبی امدادی ادارے کا کہنا ہے: ’’غزہ شہر میں ہمارے کلینک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح پچھلے دو ہفتوں میں تین گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ اسرائیلی محاصرے کے باعث فاقہ کشی کی صورتِ حال مزید بگڑ رہی ہے‘‘۔ 

عالمی امدادی ادارے برابر خبردار کر رہے ہیں: غزہ بڑے پیمانے پر قحط کی جانب بڑھ رہا ہے، جہاں روزانہ فاقہ کشی سے اموات ہو رہی ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل صرف معمولی مقدار میں امداد داخل ہونے دے رہا ہے۔ 

مئی سے اب تک غزہ شہر کے مرکز میں غذائی قلت کے مریضوں کی تعداد چار گنا بڑھ چکی ہے۔موجودہ فاقہ کشی کی صورتِ حال کی ذمہ داری اسرائیل کی ’قحط میں مبتلاء کرنے کی پالیسی‘ پر عائد ہوتی ہے، جب کہ ۱۰۰ سے زائد امدادی اداروں کو اسرائیل نے غزہ میں امداد کی فراہمی سے روک رکھا ہے۔اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے، بلکہ اب تو طبی عملہ خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ 

عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے مطابق: ’’غزہ کی ایک تہائی آبادی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھا سکی، اور بحران ناقابلِ یقین سطح تک پہنچ چکا ہے۔’’ہر تین میں سے تقریباً ایک شخص کئی دنوں سے بھوکا ہے۔ غذائی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے،۹۰ہزار خواتین اور بچے فوری علاج کے محتاج ہیں‘‘۔ 

غزہ میں ایک ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر ناجی القراشلی نے بتایا ہے: ’’دستیاب اعداد و شمار مسئلے کی اصل شدت کو کم ظاہر کر رہے ہیں۔یہ صورتِ حال ناقابل تصور ہے۔ میرے پورے طبی کیریئر میں، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انسان ظلم اور حیوانیت کی اس حد تک گر جائے گا۔ مریضوں میں اسقاط حمل کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ مائیں اپنے لیے خوراک تلاش نہیں کر پاتیں۔ جو بچے زندہ پیدا ہوتے ہیں، وہ انتہائی کم وزن کے حامل، قبل از وقت یا بگڑے ہوئے اعضا کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں‘‘۔ 

ڈاکٹر القراشلی نے بڑے دُکھ اور کرب میں بتایا: ’’ہمارے پاس غذائی قلت کی شکار خواتین کے علاج کے لیے درکار طبی سامان نہیں ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ دیگر ڈاکٹروں کے استعمال شدہ گندے دستانے استعمال کریں اور تاریخِ استعمال ختم ہونے والی دوائیں تجویز کرنا ہماری مجبوری ہے۔ بطور ایک بےبس ڈاکٹر یہ انتہائی تکلیف دہ احساس ہے۔ کئی بار میں ہسپتال سے بھاگ کر نکل جاتی ہوں کیونکہ میں یہ حقیقت برداشت نہیں کر سکتی کہ میں ان خواتین کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتی‘‘۔(گارڈین، ۲۶ جولائی ۲۰۲۵ء) 

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی پابندیوں کے تحت جہاں ممکن ہو رہا ہے کام کر رہا ہے۔ ان پابندیوں نے امدادی نظام کو پہلے سے موجود ۴۰۰ مراکز کے استعمال سے روک دیا ہے۔ 

اسی دوران برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے: ’’غزہ میں انسانی تباہی کا خاتمہ اب ہونا چاہیے اور اسرائیلی حکومت کو امدادی پابندیاں ختم کرنی چاہئیں‘‘۔ 

اسرائیلی فوج نے ۲۵؍جولائی کو اعلان کیا: ’’ہم نے اردن اور متحدہ عرب امارات کو فضائی طور پر غزہ میں امداد پہنچانے کی اجازت دے دی ہے‘‘۔ یاد رہے ایک پرواز مہنگی پڑتی ہے اور امدادی سامان کی مقدار ٹرکوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ حماس نے اس اقدام کو ایک ’سیاسی ڈراما‘ قرار دیا۔ 

حماس حکومت کے میڈیا دفتر کے ڈائریکٹر، اسماعیل الثوابتہ نے رائٹرز کو بتایا: ’’غزہ کو فضائی امداد کے کرتب نہیں، بلکہ ایک کھلی انسانی راہداری اور روزانہ امدادی ٹرکوں کی مسلسل آمد درکار ہے، تاکہ باقی ماندہ محصور اور بھوکے شہریوں کی زندگی بچائی جا سکے‘‘۔ 

کتنے ہی فلسطینی افراد نے بتایا ہے کہ ’’امدادی مراکز سے نہایت معمولی امداد کے حصول کے لیے ہم گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں، مگر امداد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، یا پھر اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں‘‘۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ان مراکز سے امداد کے حصول کے لیے کھڑے افراد میں سے ایک ہزار سے زیادہ مستحقین کو اسرائیلیوں نے گولی مار کر شہید کر دیا ہے۔ 

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے عالمی برادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’وہ غزہ میں سسک سسک کر مرنے والے فلسطینیوں کی بھوک پر ریت میں سر چھپائے ہوئے ہے۔ یہ المیہ صرف ایک انسانی بحران نہیں ہے، بلکہ عصرحاضر میں ایک خوفناک اخلاقی بحران بھی ہے، جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے، مگر صدافسوس کہ بڑی طاقتیں ٹس سے مَس نہیں ہورہی ہیں‘‘۔ 

عالمی منظرنامے پر امریکا کی جانب سے ایک بار پھر نام نہاد جنگ بندی ایک بے فیض سرگرمی دکھائی جارہی ہے۔ یاد رہے پہلی جنگ بندی بھی دراصل اسرائیل کے قیدی رہا کرانے کے لیے تھی اور موجودہ نام نہاد جنگ بندی کا بھی یہی مقصد ہے۔اسرائیلی قیادت کھلے عام کہہ رہی ہے کہ مزاحمت کے مکمل خاتمے تک وہ غزہ پر حملے جاری رکھیں گے۔ گویا عارضی جنگ بندی کا اب بھی مقصد صرف اپنے قیدیوں کی رہائی ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا پر امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم میں مکمل اتفاق ہے۔ دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ 'معقولیت ' کی بنیاد پر ہوگا۔ 

اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین کے سخت دباؤ کے باعث نیتن یاہو کچھ لچک دکھا رہے ہیں، لیکن یہ بھی محض وقت گزاری نظر آتی ہے۔ قطر میں جاری مذاکرات کے دوران ۱۰ جولائی کو اسرائیل نے جو نقشہ پیش کیا اس کے مطابق مصر کی سرحد پر واقع رفح اسرائیل کے قبضے میں دکھایا گیا ہے۔ علاقے پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے رفح سے خان یونس کو علیحدہ کرنے والے موراغ راستے (Morag Corridor) تک اسرائیلی فوج تعینات رہے گی۔ اسی نقشے میں غزہ کی تمام جانب تین سے چارکلومیٹر کی پٹی پر بفر زون دکھایا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ شمالی غزہ کے شہر بیت لاہیا اور بیت حانون میں بھی اسرائیلی فوج موجود رہے گی۔ غزہ شہر کے محلوں التفاح، الشجاعیہ، الزیتون، دیر البلح اور القرارۃ سمیت ۶۰ فی صد غزہ اسرائیلی عسکری شکنجے میں رہے گا اور یہاں کے بے گھر فلسطینیوں کو رفح میں قائم کیے گئے عارضی کیمپوں میں ٹھونس دیا جائے گا تاکہ موقع ملتے ہی انھیں رفح پھاٹک کے ذریعے مصر کی جانب دھکیل دیا جائے۔ 

امدادی مراکز میں موت کا کھیل 

 امن بات چیت کے ساتھ غزہ میں امدادی مراکز پر موت کی تقسیم جاری ہے۔ بہت سے فلسطینی امداد تک رسائی کی کوشش میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ فلسطینی انھی امدادی قافلوں کے راستے میں اسرائیلی فائرنگ اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنے جنھیں اقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے چلا رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ایک اسرائیلی ریزرو فوجی نے بتایا کہ غزہ میں تعینات فوجیوں کو حکم ہے کہ جو بھی ’نو-گو زون‘ میں داخل ہو، چاہے وہ نہتا شہری ہی کیوں نہ ہو، اسے فوراً گولی مار دی جائے۔ ’جو بھی ہمارے علاقے میں داخل ہو، اسے مرنا چاہیے، چاہے وہ سائیکل چلاتا کوئی نوجوان ہی کیوں نہ ہو‘۔ اس سے پہلے اسرائیلی جریدے ھآریٹز  کو دسمبر اور جنوری میں کئی سپاہیوں نے بتایا تھا کہ سویلین فلسطینیوں پر بلاجواز فائرنگ کے احکامات ڈویژن کمانڈر بریگیڈیئر جنرل یہودا واش نے خود دئیے تھے۔ 

اقوامِ متحدہ کی نمائندہ پر امریکا کی تادیبی پابندیاں 

نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیے امریکا بدستور پُرعزم ہے۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کو ’نسل کشی‘ کہنے اور بڑی امریکی کمپنیوں کو اس میں شریک ٹھیرانے کے 'جرم میں اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانچیسکا البانیز پر امریکی حکومت نے پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ 'اسرائیل اور امریکا، دونوں، البانیز کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ' البانیز نے عالمی عدالتِ انصاف (ICC)کے اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کی حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 

البانیز کی رپورٹ میں گوگل، مائیکروسوفٹ اور ایمیزون پر اسرائیل کے غزہ آپریشن کو کلاؤڈ اور مصنوعی ذہانت کی خدمات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں گوگل کے شریک بانی، سرگئی برن (Sergey Brin) نے رپورٹ کو ’کھلی اور فاش یہود دشمنی‘ قرار دے کر سخت تنقید کی۔  

ہسپانوی موسیقی میلے میں فری فلسطین کی دُھن 

دوسری طرف نسل کشی کےخلاف عوامی جذبات میں بھی شدت آرہی ہے۔ جون کے آخری ہفتے میں ہونے والا انگلستان کا کلاسٹونبری موسیقی میلہ، ’اسرائیلی فوج مُردہ باد‘ کے نعروں سے گونج اُٹھا تھا۔ اسی طرح گذشتہ ہفتے ہسپانوی شہر فالنسیا کے موسیقی میلے میں اس وقت ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوئی جب لاطینی گلوکار ریزیڈینتے فلسطین کا پرچم تھامےاسٹیج پر آئے۔ میلے کے ہزاروں شائقین نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے ’فری فری فلسطین‘ کی دُھن پر ناچنا شروع کردیا بلکہ یوں کہیے کہ سازوں کی دُھن کو اہل غزہ کے حق میں تبدیل کر دیا۔ 

حنظلہ نامی امدادی کشتی کی روانگی 

دنیا کے انصاف پسند لوگ اہل غزہ کو تنہا چھوڑنے پر راضی نہیں اور ۱۳ جولائی کو اٹلی کے شہر سیراکوس کی بندرگاہ سے انسانی امداد سے لدی ایک اور کشتی غزہ کے لیے روانہ ہوگئی۔ اس مشن کا مقصد اسرائیلی ناکہ بندی کو چیلنج کرنا اور محصور فلسطینیوں تک امداد پہنچانا ہے۔’حنظلہ‘ نامی یہ کشتی، ماضی میں روانہ کی جانے والی ’فریڈم فلوٹیلا‘ جیسی عالمی کاوشوں کی طرز پر نکالی گئی ہے، جس کا مقصد دنیا کی توجہ غزہ کی ظالمانہ ناکہ بندی کی طرف مبذول کروانا اور اسرائیلی پابندیوں کو توڑنا ہے۔ 

غربِ اُردن لہو لہو 

غرب اُردن میں اسرائیلی قبضہ گردوں کی وحشیانہ کارروائی جاری ہے۔ ۱۱ جولائی کو رام اللہ کے شمال میں امریکی شہریت کے حامل ۲۳ سالہ فلسطینی نوجوان سیف الدین مسلت کو درجنوں اسرائیلی آبادکاروں نے بہیمانہ تشدد کرکے شہید کر دیا۔ فلسطینی شہری غرب اردن میں خربت التل کی طرف پُرامن احتجاج کے لیے جا رہے تھے، جہاں ایک نئی غیرقانونی اسرائیلی چوکی تعمیر کی گئی ہے۔ راستے میں یہودی دہشت گردوں نے انھیں روک کر حملہ کر دیا۔ کم از کم ۱۰ فلسطینیوں کو گاڑیوں تلے کچل دیا اور دہشت گردوں نے زیتون کے باغ کو بھی آگ لگا دی۔ جب اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے CNNکے سینئر صحافی جیرمی ڈائمنڈ وہاں پہنچے تو یہودی قبضہ گردوں نے ان پر حملہ کردیا۔ان کی گاڑی کے شیشے توڑ دیئے گئے۔ اسرائیل کے پرجوش حامی ڈائمنڈ نے بلبلاتے ہوئے کہا: ’’یہ صرف ایک جھلک ہے اس حقیقت، یعنی قبضہ گردوں کی جارحیت کی، جس کا سامنا مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو ہر روز کرنا پڑتا ہے‘‘۔ 

غرب اُردن میں قابضین نے جہاں فلسطینیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، وہیں اب مسلمانوں کی قبریں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ یروشلم کے یوسفیہ قبرستان میں کئی قبروں کی لوحِ مزار اکھاڑ دی گئی ہیں۔معاملہ مسلمانوں تک محدود نہیں۔ دہشت گردوں نے اسی دن یروشلم کے مضافاتی علاقے طیبہ کے قدیم کلیسائے سینٹ جارج قبرستان کے ایک حصے کو آگ لگادی۔پانچویں صدی کا یہ کلیسا ایک تاریخی ورثہ ہے، اس قبرستان میں حضرت مسیح کے خلفا اور بہت سے بزرگ مدفون ہیں۔ 

اس صورتِ حال پر فیلیپ لازارینی کا ٹویٹ پڑھیے:’’غزہ فاقہ کشی کا قبرستان بن چکا ہے۔ خاموشی اور بے عملی درحقیقت شراکتِ جرم ہے۔ اہلِ غزہ کے پاس یا تو بھوک سے مرنے یا گولی کھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ بے رحم اور شیطانی منصوبہ ہے، قتل کا ایک ایسا نظام جس پر کوئی گرفت نہیں۔ اصول، اقدار اور انسانیت کو دفن کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ خاموش ہیں، وہ مزید تباہی کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ عمل کا وقت گزر چکا، اب بھی نہ جاگے تو ہم سب اس المیے کے شریکِ جرم ہوں گے!‘‘ 

غزہ میں نسل کشی اور اسرائیل کی بے لگام نوآبادیاتی اور سامراجی تکبر اس مقام تک پہنچ گئے ہیں، جہاں سے بظاہر نجات ممکن نہیں۔ نیتن یاہو کی لامتناہی جنگیں اب ملک ِشام تک پھیل گئی ہیں، جو دمشق کے مرکزی حصے پر مکمل بے خوفی سے حملے کی صورت میں سامنے آرہی ہیں۔دریں اثنا، امریکا، جو مبینہ طور پر دنیا کی ایک بڑی سپر پاور کہلاتا ہے، بدقسمتی سے لگاتار اسرائیلی حکومتوں کی غلامی میں ڈوبا ہوا ہے، جو اکثر بنیادی انسانی اقدار اور بین الاقوامی قانون کو قربان کر دیتا ہے۔ 

اس صورتِ حال کا سب سے واضح مظہر گذشتہ ۲۱ ماہ سے غزہ میں دیکھا گیا ہے۔ سابق امریکی صدر جوبائیڈن اور ان کے اسرائیل کو ترجیح دینے والے وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن نے بارہا نیتن یاہو کے بدترین شدت پسندانہ اور نسل پرستانہ رجحانات کا دفاع کیا۔ اس مضحکہ خیزی کا ایک نمایاں مظہر وہ امریکی اسرائیلی تعلقات ہیں، جن کا ہدف غزہ ہے، ایسا ہدف کہ جس میں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ دُنیا کی نام نہاد مہذب ریاست امریکا نے اہل غزہ کو بھوک سے مارنے کے لیے ناکہ بندی کو مضبوط تر کیا۔ 

بائیڈن حکومت نے نیتن یاہو کی مدد کرتے ہوئے امریکی ٹیکس دہندگان کے سیکڑوں ملین ڈالر خرچ کیے۔ یہ انسانیت دشمنی پر مبنی منصوبہ تھا: ایک ۳۲۰ ملین ڈالر کا منصوبہ جو امریکی اسرائیلی گٹھ جوڑ سے فوجی ہم آہنگی کے لیے بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور مذاق ’غزہ ہیومنٹیرین فائونڈیشن‘ (GHF) کے نام سے کھیلا گیا جو انسانی قدروں کو بحیرئہ روم میں غرق کرنے کے مترادف ہے۔ 

امریکا کی بائیڈن حکومت ہو یا ٹرمپ کا راج، انھوں نے اسرائیل کو پورا حق دیا کہ وہ بے بس اہل غزہ کو بھوک سے مارنے کے لیے ناکہ بندی جاری رکھیں، اور دوسری جانب عالمی ضمیر کو گونگا ، بہرہ اور اندھا بنا کر رکھ دیا کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی، کوئی بڑی طاقت بامعنی رکاوٹ پیدا کرتی نظرنہیں آرہی۔ یہ ایک خونیں تھیٹر ہے، جس میں مظلوم بچوں کی لاشیں اور بے بس مائوں کی چیخیں شامل ہیں۔ 

موت کے اس کھیل میں اردن کے بادشاہ نے ایک نمائشی ایئر ڈراپ کا مظاہرہ کیا۔ تباہ کن قیامت کے ساتھ یہ خوراک ایئر ڈراپ کا تماشا، اسرائیل اور بے ہمت عرب شراکت داروں کے درمیان بات چیت بحال کرنے کا پُل بنایا جا رہا ہے، جو اسرائیل کو شیطانی زمینی ناکہ بندی ہٹانے سے بچنے کے لیے ایک اور بہانہ فراہم کرتا ہے۔ دریں اثنا، روزانہ سیکڑوں افراد کی بھوک سے اموات کی تصدیق ہورہی ہے، مگر UNRWA رپورٹ کرتا ہے کہ اس کے پاس غزہ کی پوری آبادی کو تین ماہ تک کھانا کھلانے کے لیے کافی خوراک موجود ہے۔ پھر بھی، امداد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اسرائیل بھوک سے مرنے والے بچوں تک کوئی امداد نہیں پہنچنے دیتا۔ 

قاتلوں کے غیرمقدس اتحاد نے اسرائیلی قیادت میں ’غزہ انسانی امداد فائونڈیشن‘ کا چالاک منصوبہ محض دُنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بنایا اور اس کے لیے ایک بار پھر امریکا نے ادائیگی کی، جس کا مقصد بھوک ختم کرنا نہیں، بلکہ بین الاقوامی دباؤ کو غیر مؤثر کرنا تھا۔ ٹرمپ نے بھی، بائیڈن کی طرح اس ڈرامے کے ساتھ، اسرائیل کی اسی غلامی کے سامنے سر جھکایا۔ 

یہ امداد فراہم کرنے کا بہانہ ایک اور اسرائیلی مہلک دھوکا ثابت ہوا۔ زندگی کی ڈور کے بجائے، موت کے کھیل میں تبدیل ہوگیا۔ بھوک ان کا انتظار کر رہی ہے، اسرائیلی قاتل گولیاں انھیں تقسیم کے مراکز سے ملتی ہیں۔ وہی فوج جو قحط کی انجینئر ہے، وہی بظاہر نام نہاد نجات دہندہ بن کر دروازوں پر متاثرین کو گولی مار دیتی ہے۔ 

امریکی امداد سے ’غزہ فائونڈیشن‘ (GHF) نے اسرائیل کو خوراک کی امداد پر کنٹرول دے دیا —اور اب، پانی کے جمع کرنے کے مقامات پر چھوٹی چھوٹی بچیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہربنیادی ضرورت، —خوراک، پانی، دوائی —ان مظلوموں کا حق نہیں، بلکہ ایک اسرائیلی ہتھیار ہے۔ بھوک دینے، پانی سے محروم کرنے، اور دوا روکنے کا ہتھیار —جو فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کے لیے بنایا گیا ہے۔ 

’غزہ فائونڈیشن‘ کے متضاد نام کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، اسرائیل نے ایک ’انسانی امدادی شہر ‘ (Humanitarian City)کے نام سے پیش کیا ہے، جہاں شمالی غزہ سے۶ لاکھ فلسطینیوں کو جنوب میں محصور رکھا جائے گا، —جہاں لوگ داخل تو ہو سکتے ہیں، لیکن باہر نہیں نکل سکتے۔ اسرائیلی نیا حراستی کیمپ، جو غزہ کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی کو محدود کرنے کا تصور پیش کرتا ہے، دوسری عالمی جنگ کے بہت سے نازی کیمپوں سے بڑا ہے۔ 

حراستی کیمپ کو ’انسانی امدادی شہر‘ کہنا اسرائیل کی شیطانی اور دھوکے باز جنگ کا حصہ ہے۔ اس تناظر میں، اسرائیل نے پراپیگنڈے کو ہتھیار بنانے میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ اسرائیل، فلسطینیوں کو بھوکا نہیں مارتا، یہ ’کیلوری پابندیاں‘ عائد کرتا ہے۔ یہ نسلی تطہیر ہی نہیں کرتا بلکہ جبری ہجرت کا شکار کرتا ہے۔ اور اب، یہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی نہیں کرتا، یہ ایک ’انسانی امدادی شہر‘ تجویز کرتا ہے۔ 

اسرائیل اس قسم کے ہتھکنڈوں سے صرف اس لیے بچ نکلتا ہے کیونکہ عالمی طاقتیں نسل کشی کا محض ڈھونگ رچاتی ہیں۔ یورپی یونین سیاسی نتائج کی ہلکی پھلکی وارننگ جاری کرتی ہے۔ برطانیہ، ہمیشہ کی طرح دوغلے پن کی منافقانہ روش کا ماہر، صرف اسرائیل کو اپنے ’انسانی حق‘ کے لیے لڑنے اور مغربی کنارے میں آباد ہجوم کو’لگام‘ دینے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ سارے ڈھونگ اسرائیل کو احتساب سے بچاتے ہیں۔ 

عرب دنیا عجیب طور پر خاموش___  شریکِ جرم ہی نہیں، شرمناک طور پر تین غلام کیمپوں میں تقسیم دُنیا۔ مغرب میں مصر، عملاً غزہ کی ناکہ بندی میں فعال شریکِ کار ہے۔ مشرق میں، اردن اور خلیجی ریاستیں کھلے عام تجارت کرتی ہیں اور اسرائیل کی حفاظت کے لیے فوجی ڈھال کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اور پھر وہ ہیں جنھوں نے ٹرمپ پر اپنی دولت لٹائی، جب کہ غزہ جل رہا ہے اور مغربی کنارہ یہودیوں کے لیے مخصوص کالونیوں کی زد میں ہے۔ 

یہ اجتماعی خاموشی سفاکانہ ملی بھگت ہے۔ یہ نازی نظریے کی بحالی ہے، جو مختلف جھنڈے اور وردی میں ملبوس ہے۔ ایک فلسطینی کے طور پر، میں غصے میں ہوں۔ لیکن اس سے زیادہ، ایک امریکی شہری اور ایک انسان کے طور پر مجھے حددرجہ صدمہ ہے۔ دنیا میں محض اعتراض کا ڈرامہ پیش کرنا نہایت توہین آمیز فعل ہے، جب کہ ایک حراستی کیمپ کو ’انسانی امدادی شہر‘ کے خوش نما نام کے تحت بنتے دیکھا جا رہا ہے۔ میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ دنیا —خاص طور پر یہودی —کیا ردعمل ظاہر کرتے اگر کوئی نازی اپنے ہاں قائم کردہ یہودی باڑے کو ’یہودی تفریح گاہ‘ کہتا! 

یہ معاہدات کا ایک سلسلہ ہے ، جس کا مقصد اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان تعلقات کو امریکا و اسرائیل کے تصور کے تحت ’معمول پر لانا‘ اور عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرانا ہے۔ جن عرب ملکوں نے یہ معاہدے کیے ہیں ان میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان شامل ہیں۔ ابراہیمی معاہدے ۲۰۲۰ء کے دوسرے نصف میں طے پائے۔ انھیں ۲۱ویں صدی میں عرب-اسرائیل تعلقات کی بحالی کی طرف پہلا علانیہ قدم مانا جاتا ہے۔ 

ان معاہدات کو’ابراہیمی معاہدات‘ کا نام دینے سے یہ تاثر دینا پیش نظر ہے کہ یہودیوں اور عربوں کے درمیان تاریخی و مذہبی طور پر گہرا تعلق ہے کیونکہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا جدِ امجد مانتے ہیں۔نیز تینوں الہامی مذاہب: —اسلام، عیسائیت اور یہودیت — حضرت ابراہیمؑ کو اپنا روحانی پیشوا بھی مانتے ہیں۔ 

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت کا آغاز کیا اور ۱۳؍ اگست ۲۰۲۰ء کو دونوں ملکوں کے مابین معاہدہ طے پانے کا اعلان ہوگیا۔ اس کے بعد ۱۱ ستمبر ۲۰۲۰ء کو بحرین نے بھی اسی نوعیت کے معاہدے پر رضامندی ظاہر کی اور ۱۵ستمبر ۲۰۲۰ء کو وائٹ ہاؤس میں، امریکی پشت پناہی سے امارات، اسرائیل اور امریکا کے نمائندوں کی موجودگی میں ابراہیمی معاہدے پر دستخط کردیے۔ 

عرب اسرائیل تعلقات کا تاریخی پس منظر 

اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کی تقسیم کے فیصلے اور ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد،احتجاجاً عرب حکومتوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھااور اگلے چند عشروں میں عرب،اسرائیل جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۱۹۶۷ء کی ’چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ‘ اور۱۹۷۳ء کی اکتوبر کی جنگیں مشہور ہیں۔ تاہم، ۱۹۷۹ء میں انور سادات کی صدارت میں مصرنے اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرلیا، جسے ’کیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوں مصر وہ پہلا عرب ملک بن گیا جس نے اسرائیل کے وجود کوباقاعدہ تسلیم کرلیا۔ 

۱۹۹۴ء میں اردن نے بھی ’وادی عربہ معاہدہ‘ کے نام سے اسرائیل کےساتھ امن کی پینگ بڑھالی۔اردن نے یہ اقدام ۱۹۹۳ء میں اسرائیل اور تنظیم آزادیِ فلسطین (PLO) کے درمیان ’دوریاستی حل معاہدہ‘ کی منظوری کے بعد اٹھایا تھا ۔حالیہ ابراہیمی معاہدے بھی گویا مصر اور اُردن کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے والے معاہدوں ہی کے سلسلے کی کڑی ہیں ۔ 

اس معاہدے پر دستخط کرنے والا پہلا خلیجی ملک ،متحدہ عرب امارات ہے۔امریکا نے معاہدے پر دستخط کے اعلان سے پہلے ایف-۳۵ طرز کے ۵۰ جدید ترین جنگی طیارے امارات کو فروخت کرنے کی پیش کش کی۔ حالانکہ امریکا اپنے نیٹو حلیف ترکی کو یہ طیارے دینے سے ابھی تک انکاری ہے ، جب کہ اسرائیل کے لیے وہ پہلے سے میسر ہیں۔ 

سوڈان - اسرائیل تعلقات کی بحالی 

۲۳؍اکتوبر ۲۰۲۰ءکو وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے اورمعمول پر لانے پر اتفاق کرلیا ہے۔ اس اعلان سے کچھ دن قبل، امریکی صدر ٹرمپ نے سوڈان کا نام دہشت گردی کے حامی ممالک کی فہرست سے نکالنے کا اعلان کیا تھا ۔ انھی دنوں فروری ۲۰۲۰ء کے آغاز میں یوگنڈا میں ہونے والی ایک ملاقات بہت اہم تھی،جو اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والے سوڈانی مقتدرہ کونسل کے سربراہ برہان نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ کی۔ اس ملاقات کے بعد ہی سوڈان کی غیر منتخب اور کمزور ترین حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ابراہیمی معاہدات کی گاڑی پر سوار ہونےکا اعلان کیا۔ 

مراکش -اسرائیل معاہدہ اور امریکی کردار 

۱۰ دسمبر ۲۰۲۰ء کو امریکی تائید و حمایت سے مراکش اور اسرائیل کے درمیان بھی ایک ابراہیمی معاہدہ طے پایا۔مراکش کی طرف سے یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب واشنگٹن نے باضابطہ طور پر مغربی صحارا پر مراکش کی سیادت کو تسلیم کر لیا۔ مراکش کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کا اعلان ہوتے ہی امریکا نے اسے بڑے پیمانے پر اسلحے کی فروخت اور بھاری سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی۔  

ابراہیمی معاہدوں کے نتائج اور اثرات 

• اسرائیل نے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان میں اپنے سفارت خانے قائم کرلیے ہیں ۔ 

• تل ابیب کو ابوظبی، دبئی، منامہ، دارالبیضاء مراکش سے براہِ راست پروازوں کے ذریعے جوڑ دیا گیا ہے۔ 

• معاہدے کے شریک ملکوں اور اسرائیل کے مابین سیاست، معیشت، دفاع اور انتظامی اُمور میں باہمی تعاون کے اُمور طے پائے ہیں اور ان ملکوں کے وزرا، افسران، اور کاروباری شخصیات کے باہم دورے جاری ہیں ۔ 

• ان معاہدوں پر دستخط کرنے والے ملکوں نے عبرانی زبان سیکھنی اور سکھانی شروع کردی ہے ۔کئی اماراتی و مراکشی طلبہ نے اسرائیل کی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں داخلہ لے لیا ہے اور تعلیمی و تربیتی کورسز کا آغاز کیاہے۔ثقافتی تبادلے کے طور پر اسرائیلی سیاح بڑی تعداد میں امارات اور مراکش کا رُخ کر رہے ہیں۔ 

• اسرائیل اور امارات کے درمیان تجارتی تبادلے کی مالیت پہلے ہی سال ۵۰۰ ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ 

• دونوں ملکوں کے مابین سکیورٹی اور دفاع کے شعبے میں تعاون شروع ہوگیا ہے، خصوصاً سائبر سکیورٹی، انٹیلی جنس، اور تکنیکی شراکت داری کے شعبوں میں تعاون روزافزوں ہے۔ 

• دو سال کے اندر، اماراتی وفد نے پہلی مرتبہ اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا، اور معیشت، سرمایہ کاری، ہوا بازی، ویزا سے استثنا جیسے شعبہ جات میں کئی معاہدے طے پائے۔ 

• دسمبر ۲۰۲۱ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ابو ظبی کا علانیہ سرکاری دورہ کیا تھا،  یہ کسی اسرائیلی وزیرِ اعظم کی طرف سےامارات کا پہلا دورہ تھا۔ 

• فروری ۲۰۲۲ء میں اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گینٹز نے بحرین کا غیر علانیہ دورہ کیا۔ اسی وقت دونوں ملکوں کے مابین  ایک اہم دفاعی معاہدے پر دستخط کی خبر بھی سامنے آئی۔ 

۹ فروری ۲۰۲۲ء کو’اسرائیل ڈیفنس‘ ویب سائٹ نے انکشاف کیا کہ بحرین نے اسرائیلی کمپنی سے ڈرون مخالف ریڈار نظام خریداہے۔ 

یہ تمام پیش رفت نہ صرف سیاسی بلکہ دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں بھی دونوں جانب گہرے روابط کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ 

•  ۲۲ مارچ ۲۰۲۲ء کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں اسرائیل، مصر، اور متحدہ عرب امارات کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ایران کے اثر و نفوذ پر قدغن لگانے پرغور کیا گیا۔ 

• l ۲۸مارچ ۲۰۲۲ء کو جنوبی اسرائیل میں واقع صحرائے نقب میں ہونے والے اجلاس میں مصر، امارات، مراکش، بحرین، اور امریکا کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔ یہ اجلاس مذکورہ معاہدات کے تناظر میں مشترکہ علاقائی تعاون کا گویامظہر تھا۔ 

•  مراکش نے اسرائیل کے ساتھ متعدد شعبوں میں معاہدے کیے جس میں معیشت، تعلیم، سیاحت، اور دفاع کے شعبے شامل ہیں۔ 

•  اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گینٹز اور وزیر صنعت اورنا باربیفائی نے مراکش کے شہر رباط کا دورہ کیا۔ 

•  مراکش کے وزیر صنعت حفیظ علمی اور اسرائیلی ہم منصب عمیر پیریٹس کے درمیان صنعتی تعاون پر مذاکرات ہوئے۔ 

•  وزرائے تعلیم —سعید امزازی (مراکش) اور یوآف گالانت (اسرائیل)نے طلبہ کے تبادلے اور دونوں ملکوں کے ثانوی اسکولوں کی یکجہتی کے ’باہم تعاون منصوبے‘ پر پیش رفت کی۔ 

•  مراکش اور اسرائیل نے سکیورٹی اور دفاعی شعبے میں تعاون کے لیے ایک مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے، جو وزیر دفاع گینٹز کی سرکاری طور پر رباط آمد کے موقع پر ہوئے۔ 

اسرائیلی آبادکاری منصوبوں میں تیزی 

عرب ملکوں کی طرف سے اپنے عوام کے سامنے شرمندگی سے بچنےکے لیے ابراہیمی معاہدات پر دستخط کرتے ہوئے یہ دلیل دی گئی تھی کہ ہم اسرائیل سے ابراہیمی معاہدے اس شرط پر کررہے ہیں کہ اسرائیل فلسطین کے مغربی کنارے میں نوآبادکاری کی اپنی سرگرمیاں یکسر ترک کردے گا ۔  

 ان معاہدوں پر دستخطوں کے بعد، اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے باضابطہ طور پر اسرائیلی آباد کاروں کی کونسل کی قیادت کو ایک پیغام بھیجا، جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ’’اعلیٰ منصوبہ بندی کونسل برائے مغربی کنارے کی تعمیرات‘،۱۱؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء، یعنی(یہود کی ) ’عید العرش‘ کی تعطیلات کے بعد، ایک اجلاس منعقد کرے گی تاکہ مغربی کنارے میں ۵۴۰۰ نئے رہائشی یونٹوں کی تعمیر کی منظوری دی جا سکے۔اس کے علاوہ، اسرائیل نے’بیتر علیت‘ نامی پہلے سے قائم یہودیوں کی نوآباد بڑی بستی کو وسعت دینے اور وہاں ۳ہزار نئے رہائشی یونٹس بنانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ اب یہ توسیعی منصوبہ مغربی کنارے میں اور گرین لائن کے قرب و جوار میں واقع کئی متنازع بستیوں تک پھیل چکا ہے اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں غیرقانونی تعمیرات کا یہ سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔ 

تحریک ِ آزادیٔ کشمیر کا ’بیس کیمپ‘ یا اقتدار کا ’ریس کیمپ‘؟ 

تحریکِ آزادی کشمیر کی لہو میں ڈوبی زخم زخم داستان اور اقوامِ متحدہ کے قبرستان میں دفن قراردادوں کے ساتھ، کیا عالمی ضمیر بھی انڈین سفارتکاری خرید چکی ہے؟ انڈیا کی فلمی مکاری اور عالمی میڈیا کی مجرمانہ خاموشی کے پردے میں کشمیر کی سچائی کو کیسے دفن کیا گیا؟ تہاڑ جیل کی زنجیروں سے بلند حریت کی صدائیں، شہیدسیّد علی گیلانیؒ، یاسین ملک اور قافلۂ قربانی کی داستان کشمیر سے جڑی نسل کُشی جسے دنیا تماشا سمجھ بیٹھی۔مگر یہ صرف زمینی تنازعہ نہیں، انسانیت کا جنازہ ہے۔ ہماری خاموشی اور کشمیریوں کا ماتم ہے۔ یوم آزادی پر ہر مظلوم کشمیری پوچھتا ہے: میرا جشن کب ہو گا؟  

رات کے پچھلے پہر کا سناٹا ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ برف کی تہہ سے ڈھکی وادی میں کہیں دور اذان کی صدا کسی مقفل مسجد کی ٹوٹی ہوئی چھت سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے صدیوں سے اذان ہو رہی ہو، مگر کوئی دروازہ کھلنے کا نام نہ لے۔ دریائے جہلم کا پانی خاموشی سے بہہ رہا تھا، جیسے اس کے سینے میں ہزاروں لاشیں دفن ہوں، اور ہر موج کوئی بے نشان جنازہ ہو۔  

ایسے جان لیوا سناٹے میں ایک بوڑھی ماں، اپنی چادر میں لپٹا ہوا خون میں لت پت قرآن تھامے بیٹھی تھی۔ کبھی اس پر بوسہ دیتی، کبھی روتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھتی اور پھر وہی سوال دُہراتی، جو برسوں سے ہر کشمیری کے لبوں پر ہے: ’’کیا ہمارے سجدے ادھورے ہی رہیں گے؟ اور کیا پاکستان صرف ایک نعرہ تھا؟‘‘ 

چند قدم دُور، ایک چھوٹا بچہ ملبے میں وہ گڑیا تلاش کر رہا تھا، جو اُس کی بہن کی آخری نشانی تھی، جو پچھلے ہفتے ایک بھارتی فوجی کی فائرنگ سے شہید ہو گئی تھی۔ بچہ بار بار مٹی ہٹاتا، آنکھیں مَلتا۔ اس کی بے زبانی میں یہ سوال کلبلا رہا تھا: ’’جب پاکستان آزاد ہوا تھا، تو کیا کشمیر کا بھی وعدہ کیا گیا تھا؟‘‘ 

یہ سوال محض معصوم بچوں کے نہیں رہے۔ یہ سوال اب قبریں بھی پوچھتی ہیں، پتّے اور ہوائیں بھی۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ’بیس کیمپ‘ کے ایوانوں تک تو پہنچتے ہیں، مگر وہاں ان کی گونج نعروں، حکومت کے حامی اور حکومت کے مخالف لوگوں کی تقریروں اور ہوٹلوں کی میزوں کے نیچے دفن ہو جاتی ہے۔ یہاں وادی میں آزادی کے چراغ خون سے جلتے ہیں، مگر وہاں کرسی کے چراغ سیاست سے۔ یہاں کشمیر لہو میں نہا رہا ہے، اور وہاں ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ اگلے الیکشن کے پوسٹر پر چھپ رہا ہے۔ اور اس المیے کا سب سے کربناک پہلو یہ ہے کہ یہ افسانہ نہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس نے ہزاروں زندگیاں نگل لی ہیں، سیکڑوں خواب روند ڈالے ہیں، لاکھوں بین، صدائیں، اذیتیں، صبر، اور سوالات پیدا کیے ہیں ، مگر جن کے جواب ابھی تک نہ اقوامِ متحدہ نے دیے، نہ مسلم دُنیا کی قیادتوں نے، اور نہ ’بیس کیمپ‘ نے۔  

وادی کی گلیوں میں قدم رکھتے ہوئے تہاڑ جیل کی کوٹھریوں سے آتی سسکیاں سناؤں گا، اُن کانفرنس ہالوں کا حساب لوں گا جہاں کشمیر صرف ایک سائیڈ ایشو سمجھا گیا، اور اُن چہروں سے پردہ اُٹھاؤں گا جنھوں نے ’بیس کیمپ‘ کو اقتدار اور کرسی نشینی کے ’ریس کیمپ‘ میں بدل دیا۔ اس تحریر میں روشنائی کی جگہ وہ سرخ خون بہتا ہے جو عشروں سے وادیٔ کشمیر کے چشموں، دریاؤں، گلیوں، گھاٹیوں اور ماؤں کی آنکھوں سے بہتا چلا آیا ہے۔ یہ ایک تاریخی فردِ جرم ہے، جو نہ صرف انڈیا کے ظالم نظام پر عائد ہوتی ہے، بلکہ ان سب پر بھی جو اس ظلم کو صرف بیانات میں لپیٹ کر، تعزیتوں میں چھپا کر، اور سفارتی ملفوظات میں گم کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے۔ وادیٔ کشمیر اس وقت بھی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ بھارتی قابض افواج کے بوٹوں تلے نہ صرف آزادی کچلی جا رہی ہے بلکہ انسانیت کا منہ چڑایا جا رہا ہے۔ ہر صبح بندوقوں کی آواز سے آنکھ کھلتی ہے اور ہررات کسی جنازے کی آہ و بکا کے بعد چپ ہوتی ہے۔  

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو انڈیا نے وہ گھنائونا جرم کیا جس نے کشمیریوں سے ان کی شناخت، ان کی حیثیت، ان کا جغرافیہ اور ان کی آئینی پہچان چھین لی۔ وہ خطہ جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع ہے، یک طرفہ طور پر انڈیا میں ضم کرنے کی جسارت کی گئی۔ مگر یہ محض آئینی یا قانونی حملہ نہ تھا، یہ کشمیریوں کے وجود پر وار تھا، ان کے خوابوں، تاریخ، عقیدے اور تشخص پر خنجر کاوار۔ قابض انڈین افواج کی موجودگی صرف فوجی چوکیوں تک محدود نہیں، اب وہ کشمیریوں کی سوچ، سانس، نیند، اور حتیٰ کہ ان کے سجدوں میں بھی گھس چکی ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کردیا گیا، اجتماعی قبریں اب کسی افسانے کا حصہ نہیں بلکہ زمین کے کربناک سچ بن چکی ہیں۔ پیلٹ گنز کے ذریعے آنکھوں سے بینائی چھینی گئی، مگر انڈیا یہ نہیں جانتا کہ جس قوم کے دل میں بینائی ہو، اس کی آنکھیں چھین لینے سے آزادی کا خواب ختم نہیں ہوتا۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کی لاشیں دفناتی ہیں، ان کے ہاتھ میں صرف کفن نہیں بلکہ ایک سوال ہوتا ہے: ’ہم کب آزاد ہوں گے؟‘ حُریت قائدین کی جدوجہد انسانی تاریخ کے ان ابواب میں لکھی جائے گی، جہاں قربانی کو روشن حرف مانا جاتا ہے۔  

سیّد علی گیلانیؒ کی نصف صدی پر محیط جدوجہد، ان کی تنہائی میں گزری جوانی، جیلوں میں گزاری عمر، اور سب کچھ کھو دینے کے باوجود آزادی کے بیانیے سے وابستگی، ان کی زندگی کا ہر لمحہ کشمیری غیرت کا استعارہ ہے۔ ان کی موت بھی انڈیا کے ظلم کی نشان دہی ہے، ان کا جنازہ بھی قید میں ہوا، ان کی قبر بھی پہرہ داروں کی نگرانی میں بنی۔ یاسین ملک، جس نے اس تحریک کے لیے سب کچھ قربان کیا، آج تہاڑ جیل کی دیواروں کے پیچھے عمر قید کاٹ رہا ہے۔ اس کی خاموش چیخیں سننے والاکوئی نہیں، اور نہ ’بیس کیمپ‘ کے ایوانوں میں اس کے حق میں کوئی آواز بلند ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔  

’بیس کیمپ‘، یعنی آزاد کشمیر، وہ خطہ جو تحریک آزادیٔ کشمیر کا مرکز ہونا چاہیے تھا، آج محض اقتدار کے کھیل کا میدان بن چکا ہے۔ حکمران طبقات نے اس خطے کو ’ریس کیمپ‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر میں وہ قیادت ہونی چاہیے تھی، جو یہاں سے عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑتی، مگر وہ اقتدار کے ایوانوں میں ذاتی مفادات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جلسے، جلوس، بیانات، تعزیتی قراردادیں، بس اتنا ہی کردار ہے اس ’بیس کیمپ‘ کا۔ نہ کوئی طویل مدتی پالیسی، نہ کوئی انسٹی ٹیوشنل فریم ورک، نہ میڈیا پر تسلسل سے کشمیر کا مقدمہ، اور نہ عالمی اداروں میں مربوط سفارتی جدوجہد۔ یہ تلخ حقیقت تاریخ کے اوراق پر سیاہ ترین لفظوں میں لکھی جائے گی کہ جس خطے کو اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ ’تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا بیس کیمپ‘ قرار دیا، وہ خطہ وقت کے ساتھ محض اقتدار کا ’ریس کیمپ‘ بن کر رہ گیا۔ وہ خطہ جہاں سے مظلوم کشمیریوں کے حق میں ناقوس بجنا تھا، وہاں صرف اقتدار کی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ جس چبوترے پر شہیدوں کے نام کندہ ہونے تھے، وہاں رنگ برنگے پارٹی جھنڈوں اور گمراہ کن چہروں کی تصویروں سے لتھڑے بینروں نے ڈیرے ڈال لیے۔ آزاد کشمیر کی قیادت، چاہے وہ وزیراعظم ہو، اپوزیشن لیڈر ہو، وزرا یا ممبران اسمبلی ہوں، سب کے سب ایک مشترکہ ناکامی کا استعارہ بن چکے ہیں۔ 

وہ ناکامیاں کیا ہیں؟ ان کی انتخابی دوڑ اور سیاسی ترجیحات میں آزادی کا نام تک نہیں ہوتا۔ ان کے انتخابی منشور میں آزادی کشمیر ایک رسمی سطر کے طور پر شامل کی جاتی ہے، جس کے پیچھے کوئی حکمتِ عملی، کوئی سفارتی ڈھانچا، کوئی روڈ میپ نہیں ہوتا۔ یہاں امیدوار کشمیر کا نام لے کر ووٹ لیتے ہیں، اور جیت کر صرف مظفرآباد یا اسلام آباد تک محدود ہو جاتے ہیں۔ سفارتی سطح پر مکمل نالائقی کس سے ڈھکی چھپی ہے؟ ۷۸ سال گزر گئے، ’بیس کیمپ‘ کی قیادت عالمی سطح پر ایک بھی مستقل لابنگ گروپ قائم نہ کر سکی، جو انڈیا کے مظالم کو اقوامِ عالم کے سامنے رکھ سکے۔ کوئی کشمیر ڈیسک، کوئی تھنک ٹینک، کوئی ریسرچ ادارہ، کوئی مضبوط میڈیا سیل تک نہ بنایا جا سکا۔ اس خاموشی نے قاتل انڈیا کو بولنے کا موقع دیا اور ہمیں دنیا بھر میں تماشائی بنا دیا۔  

اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر خاموشی سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ قراردادیں موجود ہیں، لیکن آج تک آزاد کشمیر کا کوئی رہنما اقوامِ متحدہ کے دروازے پر مستقل موجودگی کے لیے مقام نہ بنا سکا۔ وہ ریاست جو حقِ خودارادیت کے لیے علامتی قیادت بن سکتی تھی، ایک ضلعی طرز کی بلدیاتی حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ بے مقصد اور نام نہاد پُرتعیش کشمیر کانفرنسیں تو عروج پر ہیں، ہر سال مختلف ہوٹلوں اور کانفرنس ہالوں میں کشمیر کانفرنسوں کے نام پر فوٹو سیشن ہوتے ہیں۔ اسٹیج پر نعرے، لنچ پر دعوے، مگر عملی نتیجہ صفر۔ وہی مقبوضہ کشمیر، وہی شہادتیں، وہی آہیں! آج تک آزاد کشمیر کے قائدین مکمل طور پر ، پوری دُنیا کے سامنے انڈین شاطرانہ بیانیے کا توڑ نہیں کر سکے۔ 

انڈیا، سوشل میڈیا، قومی و عالمی میڈیا، فلم، تھنک ٹینک اور سفارت کاری کے ذریعے کشمیر پر اپنے بیانیے کو مضبوط کرتا رہا، اور ’بیس کیمپ‘ میں ایک بھی ایسا ادارہ نہ بن سکا جو اس زہریلے پراپیگنڈے کا مؤثر جواب دے سکتا ہو۔ اکثر تاریخی موقعوں پر مجرمانہ خاموشی تو روایت بنتی جارہی ہے۔ جب ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو انڈیا نے انڈین آئین کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے میں ترمیم کرکے کشمیر کی نام نہاد آئینی طور پر خصوصی حیثیت (Special Status) کو ختم کیا، تو ’بیس کیمپ‘ نے صرف ایک دن کا احتجاج کیا ، وہ بھی سیاسی تقاریر، کالی پٹیاں اور مشروط غصے کے ساتھ۔ اس کے بعد وہی اقتدار کی رسہ کشی، وہی وزارتوں کی تقسیم، وہی مفادات کی سیاست۔ تحریکِ حُریت کے نام کا صرف جذباتی استعمال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان قربانیوں کو پالیسی میں نہیں ڈھالاگیا، بلکہ جذباتی استحصال کے ذریعے انھیں ووٹ بینک بنایا گیا۔ جو قیادت اقوامِ متحدہ کی قراردادیں پڑھنے کی زحمت تک نہ کرے، وہ کس حق سے کشمیر کا نام لے سکتی ہے؟ جو حکمران اپنی وزارت کی کرسی بچانے کے لیے ’بیس کیمپ‘ کو خاموش رکھیں، وہ کیونکر کشمیریوں کے خون کے وارث ہو سکتے ہیں؟ جن کے پاس سفارتی، میڈیا، تھنک ٹینک، قانونی، انسانی حقوق کا کوئی عملی ادارہ نہ ہو، وہ کشمیر کو آزاد کرانے کا سفارتی خواب کس منہ سے دیکھتے ہیں؟  

حکمرانوں کے ضمیر زندہ ہوں تو یقینا شہیدوں کی لاشوں سے بہنے والا خون اُن کے خوابوں میں آئے گا، مگر یہ توقع ہی غلط ہے ان ’بندگانِ وزارت‘ سے۔ 

دوسری طرف انڈیا نے اپنی چالاکی اور سفارت کاری کو بخوبی استعمال کیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا۔ انڈیا نے امریکا، اسرائیل، فرانس اور کئی مغربی ممالک سے دفاعی اور معاشی تعلقات کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ان کے لیے محض ایک اخباری بیان کا معاملہ بن کر رہ گیا ہے۔ پھر مغرب کو تجارت کا لالچ دیا، میڈیا کو کنٹرول کیا، اور عالمی بیانیے کو اپنی مرضی سے موڑنے میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کی طرف سے کوششیں ضرور ہوئیں مگر غیر منظم، وقتی اور ردعمل پر مبنی۔ اقوام متحدہ میں تقریریں کی گئیں، مگر پالیسی سازی اور عالمی سطح پر مقدمہ لڑنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئیں۔ مسئلہ کشمیر پر کوئی ایسا تھنک ٹینک فعال نہیں ہو سکا جو جدید سفارت کاری، ڈیجیٹل میڈیا، اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی روشنی میں یہ مقدمہ تیار کرتا۔ ہمارا میڈیا بھی وقتی جوش دکھاتا ہے، مگر مسلسل بیانیہ نہیں اپناتا۔  

ہم نے مظلوم مقبوضہ وادی کے کشمیریوں کے ساتھ جذباتی وابستگی ضرور رکھی، مگر عملی میدان میں ہم بار بار پیچھے ہٹے۔ ہماری اپنی بے عملی نے عالمی ضمیر کو بے حس اور کشمیر کو تنہا کر دیا۔ کشمیر کا المیہ صرف انڈیا کے ہاتھوں لہو لہان نہیں ہوا، بلکہ ہماری غفلت کی وجہ سے پیداہونے والی عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی نے بھی اس سرزمین پر خون کی ندیاں بہانے میں برابر کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہی دنیا ہے جو یوکرین میں انسانی حقوق کے خلاف چیخ اٹھتی ہے، لیکن کشمیر میں جب پوری بستی کو جلایا جاتا ہے، لڑکیوں کی چوٹیاں کاٹ دی جاتی ہیں، عصمت دری کی جاتی ہے اور بچوں کی آنکھوں میں چھرّے مارے جاتے ہیں، تو دنیا کی زبانیں گنگ، آنکھیں اندھی اور دل مُردہ رہتے ہیں۔  

اقوامِ متحدہ، جیسا ادارہ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد انسانیت کی فلاح کے لیے بنایا گیا تھا، آج کشمیر کے معاملے میں بس قراردادوں کا قبرستان بن چکا ہے۔۱۹۴۸ء کی قراردادیں، ۱۹۵۱ء، ۱۹۵۷ء اور ۱۹۶۵ء کی قرار دادیں، سب اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ کشمیریوں کو استصوابِ رائے (Plebiscite) کا حق حاصل ہے، اور انڈیا کو یہ حق دینا ہوگا۔ مگر کیا کبھی اقوامِ متحدہ اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے تیار ہوگی؟ نہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف ایک ہے: انڈین معاشی قوت، سفارتی لابنگ اور بڑی طاقتوں کی مفاداتی مجبوری۔  

انڈیا نے ۱۹۹۰ء کے عشرے سے ایک ہمہ جہت پالیسی اپنائی۔ اس نے سب سے پہلے اسلامی تحریک کو نام نہاد ’دہشت گردی‘ سے جوڑنے کی کوشش کی اور حُریت کی خالص اور عوامی تحریک کو ’دہشت گردی‘ کا لبادہ پہنا دیا۔ دنیا کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا کہ ’کشمیر میں جاری مزاحمت پاکستان کی سرحد سے پار مداخلت کا نتیجہ ہے، حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔ اس کے بعد انڈیا نے سفارتی لابنگ میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں مستقل لابنگ گروپ بنائے۔ صحافیوں، تجزیہ کاروں، تھنک ٹینک اسکالرز کو خرید کر انڈین موقف دنیا کے ہر فورم پر پیش کیا۔ یوں ایک زہریلے بیانیے کو مہذب الفاظ میں لپیٹ کر دنیا کے سامنے رکھ دیا گیا۔  

اس کے بعد انڈیا نے فلموں، میڈیا اور ثقافت کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا۔ بالی وُڈ کے ذریعے کشمیر کو ایک حساس مگر ’داخلی معاملہ‘ ثابت کیا گیا۔حیدر، شنکارا، ہمّت والا، اوڑی دی سرجیکل سٹرائیک ، فنا ، مشن کشمیر سمیت درجنوں بالی وڈ فلموں کے ذریعے انڈین فوج کو ’ہیرو‘ اور کشمیری مزاحمت کو ’دہشت گردی‘ کے طور پر پیش کیا اور ایک پوری نسل کو ذہنی طور پر کنفیوز اور گمراہ کر دیا۔  

۵۷ مسلم ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)نے کشمیر پر درجنوں قراردادیں اور بیانات تو جاری کیے، لیکن کیا کبھی کسی عرب ریاست نے انڈیا سے سفارتی تعلقات منقطع کیے؟ کیا کسی مسلم ریاست نے انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدے ختم کیے؟ ہرگز نہیں۔ تیل، تجارت اور بھارت کی مارکیٹ نے ان کے مفادات کو خرید کر مسلم احساس کو ختم کردیا۔  

یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور دیگر ادارے متعدد بار رپورٹس جاری کر چکے ہیں۔ ان رپورٹس میں پیلٹ گنز، اجتماعی قبروں، ماورائے عدالت قتل، اور آزادیٔ اظہار کی بندش پر تشویش ظاہر کی گئی، لیکن کیا کسی یورپی ملک نے انڈیا پر سفارتی یا تجارتی پابندی لگائی؟ کیا انڈیا کو کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سزا ملی؟ نہیں۔ یہ سب ادارے صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں نوجوان شہید ہو گئے، سیکڑوں معصوم لڑکیوں کی عصمت دری ہوئی، پیلٹ گنز سے بچوں کی آنکھیں ضائع ہوئیں، اجتماعی قبریں بنیں، آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی ہر گلی، ہر چوک، ہر مسجد میں زہر اگلتے رہے، تہاڑ جیل میں کشمیری قیادت قید رہی، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کتابوں میں دفن ہوتی رہیں۔ نمازِ جمعہ پر پابندی لگ گئی، مساجد پر قفل ڈال دیے گئے، قرآن مجید کے نسخے نذر آتش کیے گئے، اور اب سب سے بڑھ کر، کشمیریوں کی نسل کشی (Genocide) کی ایک منظم مہم شروع ہو چکی ہے، جسے اگر دنیا نے نہ روکا تو وہ دن دُور نہیں جب کشمیر دوسرا روانڈا، دوسرا بوسنیا اور دوسرا غزہ بن جائے گا۔  

اب وقت آ چکا ہے کہ محض تقاریر اور قراردادوں سے آگے بڑھا جائے۔ ’بیس کیمپ‘ کو حقیقی معنوں میں ’بیس کیمپ‘ بنایا جائے۔ حقائق پر مبنی ایک مضبوط بیانیہ تشکیل دیا جائے اور کشمیر پر اس بیانیے کو ماڈیولز کی صورت میں ہر ادارے میں پیش کیا جائے۔ نوجوانوں کو عالمی میڈیا پر اس کشمیری بیانیے کو بیان کرنے کی تربیت دی جائے۔ سفارت خانوں کو مخصوص اہداف دیے جائیں، اور عالمی عدالتوں میں مقدمات داخل کیے جائیں۔  

یوم آزادی کشمیریوں کے لیے ہر سال مزید زخم لے کر آتا ہے۔ ۷۸ سال سے وہ ایک ایسے وعدے کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے ساتھ پاکستان نے کیا تھا ، کہ ہم تمھیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیری شہید ہو رہے ہیں، اور ’بیس کیمپ‘ میں جشن ہو رہے ہیں۔ یہ تحریر سوال ہے ان تمام ذمہ داروں سے جنھوں نے ’بیس کیمپ‘ کو ایک مضبوط ادارہ بنانے کے بجائے اسے سیاست کی شکار گاہ بنا دیا۔ کشمیر پکار رہا ہے: ’’ہم نے لہو دیا، تم نے کیا کیا؟‘‘اب بھی وقت ہے، ’بیس کیمپ‘ کو ’ریس کیمپ‘ سے آزاد کیا جائے۔ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ہمیں کشمیر کے ۷۸ سالہ دکھ، قربانیاں، آنسو، جنازے، اجتماعی قبریں، بند گلیاں، تہاڑ کی سلاخیں، اور جلتی بستیوں کے حقائق پر مبنی مضبوط بیانیہ تشکیل دینے، عزم، حکمت، اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ یہی تحریک کی بقا ہے، یہی کشمیریوں کے خون کا کفّارہ بھی ہے۔  

آزاد فضاؤں میں آزادی کا جشن منانے والو! ذرا سوچو! یومِ آزادی جب ہر سال پاکستان اور ’بیس کیمپ‘ میں ملّی نغموں، سبز پرچموں، آتش بازیوں، ترانوں اور جشن کی صورت میں آتا ہے، تو کشمیر کی وادی میں یہ دن ایک کرب میں ڈوبی شام کی مانند گزر جاتا ہے۔ وہاں نہ چراغ جلتے ہیں، نہ پرچم لہراتے ہیں، نہ نغمے گونجتے ہیں، بلکہ ہر گھر میں ایک شہید کی تصویر، ہر گلی میں ایک ماں کی چیخ، اور ہر بچی کے آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں، جن کی بینائی چھرّوں نے چھین لی۔  

ذرا سوچو! کشمیر کی لہو رنگ وادی کو کب وہی آزادی نصیب ہوگی جو تمھیں نصیب ہے؟  

۸ جولائی ۲۰۲۵ءکو، انڈین چیف آف ڈیفنس اسٹاف انیل چوہان نے نئی دہلی میں ’آبزرور ریسرچ فاونڈیشن‘ میں تقریر کرتے ہوئے چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تزویراتی مفادات کے بڑھتے ہوئے اتحاد پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر یہ سہ فریقی اتحاد زور پکڑتا ہے تو انڈیا کی سلامتی کے لیے اس میں سنگین نتائج ہو سکتے ہیں اور یہ علاقائی طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے‘‘۔ 

اس تبصرے کے تناظر میں چین کے صوبے یونان کے دارالحکومت کنمنگ سے گردش کرنے والی ایک تصویر سامنے آئی، جس میں تینوں ممالک کے سفارت کاروں کو علاقائی اقتصادی تعاون کی غرض سے منعقدہ پہلی سہ فریقی بات چیت کے دوران ملاقات کرتے دکھایا گیا۔ اگرچہ اس ملاقات کو باضابطہ طور پر محض سفارتی مصروفیت کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس تصویر نے انڈیا کی تزویراتی صورتِ حال میں ہلچل مچا دی۔ 

بنگلہ دیش، جو اس معاملے کی حساسیت سے واضح طور پر آگاہ ہے، اس نے بیانیہ کو قابو کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے۔ ڈھاکہ کی عبوری حکومت کے مشیر اُمورِخارجہ توحید حسین نے کسی بلاک میں یا کسی مخالفانہ اتحاد میں شامل ہونے کے کسی بھی ارادے سے انکار کیا۔ ڈھاکہ نے دُہرایا کہ اس کی خارجہ پالیسی غیر جانبدار اور خودمختاری پر مبنی ہے۔ 

ان یقین دہانیوں کے باوجود، انڈیا کی تزویراتی ترجیحات تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ نئی دہلی میں اب یہ خیال گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری قیادت میں بنگلہ دیش اپنی خارجہ پالیسی کو نئی بنیادوں پر ترتیب دے رہا ہے، جو سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے دور میں اختیار کردہ خارجہ پالیسی سے واضح طور پر مختلف ہے۔ حسینہ واجد کے دور میں، انڈیا اور بنگلہ دیش نے غیرمعمولی گرم جوش تعلقات استوار کیے تھے، جن کی خصوصیات گہرے سکیورٹی تعاون، سرحد پار رابطہ منصوبوں اور مشترکہ علاقائی مقاصد تھے۔ ڈھاکہ نے انڈیا مخالف باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کی۔ انڈیا کو بنگلہ دیشی سرزمین کے ذریعے سات مشرقی انڈین ریاستوں تک ٹرانزٹ کے ذریعے رسائی دی گئی، اور عمومی طور پر نئی دہلی کی تزویراتی ترجیحات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کیا۔ 

جنرل چوہان نے ایک وسیع اور پریشان کن رجحان کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی: بیرونی طاقتیں – خاص طور پر چین – بحر ہند کے خطے میں اقتصادی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ سری لنکا اور پاکستان جیسے ممالک کے چینی سرمایہ کاری اور امداد کے تابع ہونے سے یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ بیجنگ نرم طاقت کے ذریعے انڈیا کو منظم طریقے سے گھیر رہا ہے۔ 

تاہم، بنگلہ دیش کا معاملہ کچھ منفرد ہے۔ اس کی معیشت، اگرچہ دباؤ میں ہے، مگر نسبتاً مستحکم ہے، اور ڈھاکہ نظریاتی ہم آہنگی کے بجائے عملی، مفاد پر مبنی سفارت کاری پر زور دیتا ہے۔ کنمنگ اجلاس، علامتی طور پر اہم اجلاس اور سہ فریقی ڈھانچے کی تشکیل کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ شکل رابطہ کاری کا ایک نیا پہلو متعارف کراتی ہے جو غیر متوقع طریقوں سے ترقی کر سکتی ہے۔ 

تاریخ کی گونج کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں، چین اور پاکستان نے ایک مضبوط تزویراتی محور برقرار رکھا تھا جو مشرقی پاکستان – جو اَب بنگلہ دیش ہے – کو خاموشی سے شامل کرتا تھا۔ یہ ترتیب ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کے ساتھ ختم ہوئی۔ تاہم، آج کل، لطیف اشارے بتاتے ہیں کہ اس تزویراتی سہ فریقی اتحاد کا کچھ حصہ دوبارہ اُبھر رہا ہے، اور وہ بھی ایک زیادہ پیچیدہ جیو پولیٹیکل میدان میں۔ 

بیجنگ کے لیے، پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنا جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ مستحکم کرنے کے وسیع تر مقصد کے لیے اہم ترین قدم ہے۔ اسلام آباد کے لیے، یہ پیش قدمی سفارتی تحفظ اور تزویراتی فائدہ فراہم کرتی ہے۔ ڈھاکہ کے لیے، یہ تعلق ایک مؤثر حکمت عملی پر مبنی ہے۔ خاص طور پر اُس وقت، جب کہ نئی دہلی کے ساتھ اس کے مستحکم تعلقات میں تیزی سے اُبھرتی ہوئی غیریقینی صورتِ حال دکھائی دیتی ہے۔ 

بنگلہ دیش کا محتاط رویہ بھی غیر مستحکم ملکی سیاست سے متاثر ہے۔ جولائی ۲۰۲۴ء کے احتجاج اور ۵؍اگست ۲۰۲۴ء کو عبوری انتظامیہ کے قیام کے بعد سے، اندرونی یکجہتی میں ایک انداز سے رخنہ پڑا ہے۔ پولرائزیشن دوبارہ ابھر رہی ہے، اور ۲۰۲۶ء کے اوائل میں قومی انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ، حکومت کی ترجیح استحکام ہے، نہ کہ کوئی دُور رس حکمت عملی۔ اس ماحول میں خارجہ پالیسی ردعمل پر مبنی ہے – نہ کہ تبدیلی پر۔ 

ڈھاکہ کسی بھی سمت میں زیادہ جھکاؤ کے خطرات کو سمجھتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تاریخی ناراضیاں سیاسی طور پر حساس ہیں، جب کہ چین پر زیادہ انحصار مغرب، خاص طور پر امریکا کے ساتھ اہم تجارتی اور سفارتی تعلقات کو دباؤ میں ڈال سکتا ہے، جہاں جمہوری پسپائی اور انسانی حقوق پر تشویش بڑھ گئی ہے۔ 

اس تناظر میں، کوئی واضح تزویراتی قدم کسی شدید ردعمل کو دعوت دے سکتا ہے۔ کنمنگ اجلاس بنیادی طور پر اقتصادی نوعیت کا تھا – جس میں تجارت، رابطہ کاری، بنیادی ڈھانچے اور ثقافتی تعاون پر بات ہوئی۔ تاہم، جب چین اور پاکستان نے مشترکہ ورکنگ گروپ کے ذریعے سہ فریقی تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کی تجویز پیش کی، تو بنگلہ دیش نے اس سے سفارتی تناظر میں گریز کیا۔ 

ڈھاکہ کی خارجہ پالیسی طویل عرصے سے اس اصول پر مبنی رہی ہے کہ تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ کھلے رابطوں کو برقرار رکھا جائے اور بلاک سیاست کے جال سے بچاجائے۔ تاہم، اس کے باوجود گذشتہ پندرہ برسوں میں بنگلہ دیش خاصا انڈیا کے زیراثر ہی رہا ہے۔ 

انڈیا کے حوالے سے بنگلہ دیش کے اقدامات کی تشریح کے لیے باریک بینی کی ضرورت ہے، جب کہ ڈھاکہ اپنے بین الاقوامی شراکت داریوں کو وسعت دے رہا ہے۔۲۰۰۰ء اور ۲۰۱۰ء کے عشروں کے دوران، شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے بھارتی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ قریبی رابطہ کاری کے ساتھ، باغی خطرات کو دبانے میں اہم کردار ادا کیا۔تاہم، مجوزہ سہ فریقی ورکنگ گروپ سے بنگلہ دیش کے پیچھے ہٹنے کے باوجود انڈیا چین اور پاکستان دونوں کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔  

مختلف حلقوں میں یہ بحث سننے کو ملتی ہے کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا ،اس ملک سے نکل جاؤ، یہاں تباہی مقدر ہے ، روزگار نہیں ہے، اس ملک میں حلال کمائی کا کوئی امکان نہیں ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دوسری طرف بھی بہت مضبوط دلائل اور ٹھوس وجوہات ہیں کہ اس ملک میں بہت کچھ ہی نہیں سب کچھ ہے۔یہاں قدرت بھی مہربان ہے اور جغرافیہ بھی محفوظ ہے ،آبادی کی قوت بھی ہے اور جوانوں کی طاقت بھی،غرض ہر طرح کا ٹیلنٹ موجود ہے!! 

گویا یہاں سب کچھ ہے اور سب کے لیے ہے، حتیٰ کہ ’یہاں کچھ نہیں‘ ہے کہنے والے جب بیرون ملک کی پرتعیش زندگی میں شادیاں کرتے ہیں، تو سامان خریدنے پاکستان آتے ہیں ، دانت نکلوانے یا بنوانے ہوں تو پاکستان آتے ہیں ، کوئی آپریشن کرانا ہوتو پاکستان کا رخ کرتے ہیں ،بلکہ مرکر دفن بھی پاکستان میں ہونا چاہتے ہیں، لیکن کہتے یہ ہیں کہ یہاں کچھ نہیں رکھا!! 

ہاں!! ناانصافیاں، ناہمواریاں، نااہلیاں ،کرپشن،طاقت ور کی حکمرانی اور کمزور کے نصیب میں محرومیاں، مصیبتیں اور تکلیفیں ضرور ہیں۔اور یہ سارے ظلم کرنے والے بھی لوٹ مار کے لیے اسی ملک کو منتخب کرتے ہیں ، ذرا امریکا ، کینیڈا ، برطانیہ یا کسی یورپی، حتیٰ کہ عرب ملک میں پاکستان جیسے فراڈ کرکے تو دیکھیں۔ نہ سفارش چلے گی نہ دھونس ، جو قانون کی گرفت میں آیا وہ سزا پاکر رہے گا۔ 

ان دونوں پہلوؤں کے علاوہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتی اداروں میں صرف نااہلی نہیں ہے، ان کے اہلکار، افسر اور کل پُرزے سب اپنے کام میں بڑے ماہر ہیں ۔بس ان کا رُخ اس جانب نہیں جس طرف ان کو متعین کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری اداروں میں سب سے نچلی سطح پر بلدیات ہیں۔بلدیات کا بنیادی کام بنیادی سہولیات پانی وغیرہ کی فراہمی،صفائی ستھرائی وغیرہ ہے لیکن اس کے اہلکار سڑکوں پر تجاوزات کی اجازت دے کر لوگوں سے اس کے عوض رقم اینٹھ لیتے ہیں۔اگر وہ تجاوزات کا موقع ہی نہ دیں اور رشوت نہ لیں تو راستے کشادہ رہ سکتے ہیں۔ یہاں صرف ان کی صلاحیت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ پوری مشینری بہت باصلاحیت ہے بس رُخ اُلٹ ہے۔ان کا کام یہ ہے کہ تلاش کریں کہ کہاں کہاں رکاوٹ ،تجاوزات اور خرابیاں ہیں ،لیکن وہ اتنی ہی محنت سے بلکہ اس سے زیادہ صلاحیت لگا کر وہ مقامات تلاش کرتے ہیں جہاں تجاوزات قائم کی جاسکتی ہیں۔اسی طرح ٹیکس وصولی کی صلاحیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ناجائز بھتا باقاعدگی سے بروقت وصول کرکے اس کےتمام ’حق داروں‘تک پہنچاتے ہیں۔ 

پھر ان اداروں کی نگرانی پر مامور ادارے ہیں جو اتنی ہی محنت کرتے ہیں جتنی کرنی چاہیے لیکن اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے اور کامیابی سے حصہ وصول کرتے ہیں۔ پھر منتخب نمائندے ہیں: کونسلرز، چیئرمین وغیرہ اور مزید اوپر مئیر، ڈپٹی مئیر وغیرہ ہیں ، اور پھر سرکاری مشینری اشرافیہ، وزرا وغیرہ جتنے بھی نچلے اہلکار ہیں وہ سب بتاتے ہیں کہ ہم تو کارندے ہیں جو کچھ ملتا ہے، یعنی لوگوں سے جو بھتے لیتے ہیں وہ سب اوپر پہنچاتے ہیں۔ بہر حال یہ اہلکار اتنے بھی ایماندار نہیں ہیں کہ سارے پیسے ایمانداری سے اوپر پہنچادیں۔ اتنی محنت کرتے ہیں، کچھ تو ’محنتانہ‘ وصول کرتے ہوںگے۔یقین نہ آئے تو ایم کیو ایم کا چالیس سالہ دور سامنے رکھیں ،پیدل، کروڑ پتی بن گئے، ٹیلی فون آپریٹر، مال دار اور جائیدادوں کے مالک بن گئے۔شادی ہال کا مینیجر بھی مالا مال ہوگیا۔ 

پہلے کہا جاتا تھا کہ مافیا ہرملک میں ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں مافیا حکومت میں آجاتی ہے، پارلیمان میں آجاتی ہے اور پھر سارے کام ریاستی سطح پر ہوتے ہیں۔ 

پاکستان محض بلدیات کا نام تو ہے نہیں۔ ملک میں امن و امان کی ذمہ دار پولیس ہے۔ لوگ پولیس سے شاکی ہیں لیکن کیا پولیس کام نہیں کرتی ؟ نااہل اور ناکارہ ہے، اسے کچھ معلوم نہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ اب تو ہر آنے والے دن یہ لطیفہ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے۔ ہم سے چوبیس گھنٹے قبل معلوم کرلیں کہ کہاں کیا واردات ہونے والی ہے؟کئی جرائم میں پولیس ہی ملوث نکلی اور اب تو کئی پولیس والے سزائیں بھی پاچکے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری پولیس بھی نااہل اور نالائق نہیں۔ گذشتہ برسوں میں سندھ پولیس اور خصوصاً کراچی پولیس، رینجرز اور فوج کی رہنمائی کرتی رہی ہے، اور من پسند مجرموں کو بچانے کے لیے ان اداروں کو غلط معلومات بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ یہی پولیس بھتوں کے معاملے میں دونمبری میں بھی ید طولیٰ رکھتی ہے۔ پورے ملک میں رشوت اور ناجائز آمدنی کا سارا کاروبار اسی پولیس کے بل پر چل رہا ہے۔ بڑے بڑے افسروں اور اہم اداروں کو بھی یہی ادارہ معاونت فراہم کرتا ہے۔ دنیا بھر میں پولیس کو دیکھ کر اطمینان اور پاکستان میں خوف محسوس ہوتا ہے، کیوں ؟ اس کا جواب سب جانتے ہیں ۔ جھوٹے مقدمے ، مظلوم کو ظالم ،مقتول کے ورثا کو مجرم بنانا، اس پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ پولیس نااہل یا ناکارہ ہے ؟ اور فوج کے تو کیا کہنے! سرحدوں پر بھی نظر ہے اور سیاست پر بھی، کاروبار پر بھی نظر ہے اور حکومت سازی اور حکومت گرانے پر بھی، ایک ایک ایم این اے اور ایم پی اے پر بھی، سیاسی کارکنوں پربھی۔ اگر اس کثیر الجہتی مصروفیت کی وجہ سے دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو اس میں اس کی نالائقی کو دخل نہیں، بلکہ اتنے سارے کام تنہا ایک ادارے کو کرنے پڑتے ہیں۔ بس یہی سوال ادارہ بھی اپنے آپ سے، اپنے ذمہ داران سے پوچھے اور پارلیمنٹ ہر ادارے سے پوچھے کہ اپنے دائرے سے باہر نکلنے کی وجہ کیا ہے؟ علیٰ ہذا القیاس ہر ادارہ، ریاستی مشینری کا ہرکل پُرزہ بہت باصلاحیت اور جو کرنا چاہتا ہے کررہا ہے۔ ہر ایک کا اور خصوصاً چند ایک کے کارناموں کے ساتھ ان کا تو نام بھی لکھنا پیکا ایکٹ کی لپیٹ میں لے آئے گا۔بس اس مشینری کا رُخ غلط ہے، اسے درست کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے لیکن بہت آسان اور ممکن بھی ہے۔ 

آسان یوں کہ آئین اور قانون پر عمل شروع کردیا جائے ،جو رکاوٹ ڈالے اس کا احتساب کیا جائے، اور جو قانون کی پابندی نہ کرے اسے منصب سے ہٹا دیا جائے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ نظریے، قدرتی وسائل،افرادی قوت، نوجوانوں، ایٹمی قوت ، مضبوط فوج، ان سب چیزوں کی موجودگی میں پاکستان ایک کامیاب ریاست ہے۔ اسے کامیابی سے چلانا اور ترقی دینا ہمارا کام ہے۔ اگر ہم یہ نہ کرسکیں تو ناکام کون ہوا ،ہم یا پاکستان ؟ 

سوال:  کیا آپ کے نزدیک کم سنی کی شادیوں کو روکنے کے لیے یہ قانون بنانا ضروری ہے کہ شادی کے وقت مرد کی عمر ۱۸ سال سے کم اور عورت کی ۱۵ سال سے کم نہ ہو؟  

جواب: کم سنی کی شادیاں روکنے کے لیے کسی قانون کی حاجت نہیں اور اس کے لیے ۱۸سال اور ۱۵سال کی عمر مقرر کر دینا بالکل غلط ہے۔ ہمارے ملک میں ۱۸سال کی عمر سے بہت پہلے ایک لڑکا جسمانی طور پر بالغ ہوجاتا ہے، اور لڑکیاں بھی ۱۵سال سے پہلے جسمانی بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں۔ ان عمروں کو ازروئے قانون نکاح کی کم سے کم عمر قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اس سے کم عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کی صرف شادی پر اعتراض ہے، کسی دوسرے طریقے سے جنسی تعلقات پیدا کرلینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ 

 شریعت ِ اسلام نے اس طرح کی مصنوعی حدبندیوں سے اسی لیے احتراز کیا ہے کہ یہ درحقیقت بالکل غیرمعقول ہیں۔ اس کے بجائے یہ بات لوگوں کے اپنے ہی اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ کب نکاح کریں اور کب نہ کریں۔ لوگوں میں تعلیم اور عقلی نشوونما کے ذریعے سے جتنا زیادہ شعور پیدا ہوگا، اسی قدر زیادہ صحیح طریقے سے وہ اپنے اس اختیارِ تمیزی کو استعمال کریں گے، اور کم سنی کے نامناسب نکاحوں کا وقوع، جواَب بھی ہمارے معاشرے میں کچھ بہت زیادہ نہیں ہے، روز بروز کم تر ہوتا چلا جائے گا۔شرعاً ایسے نکاحوں کو جائز صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ بسااوقات کسی خاندان کی حقیقی مصلحتیں اس کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اس ضرورت کی خاطر قانوناً اسے جائز ہی رہنا چاہیے، اور اس کے نامناسب رواج کی روک تھام کے لیے قانون کے بجائے تعلیم اور عام بیداری کے وسائل پر اعتماد کرنا چاہیے۔ معاشرے کی ہرخرابی کا علاج قانون کا لٹھ ہی نہیں ہے۔ 

سوال: کیا آپ کے نزدیک نکاح کے لیے عمروں کا یہ تعین اَزروئے قرآن کریم یا اَزروئے حدیثِ صحیح ممنوع ہے؟ 

جواب: نکاح کے لیے عمروں کے تعین کی کوئی صریح ممانعت تو قرآن و حدیث میں نہیں ہے، مگر کم سنی کے نکاح کا جواز سنت سے ثابت ہے اور احادیث ِ صحیحہ میں اس کے عملی نظائر موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز شرعاً جائز ہے اس کو آپ قانوناً حرام کس دلیل سے کرتے ہیں؟ آپ کا ایک عمراَزروئے قانون مقرر کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس عمر سے کم میں اگر کوئی نکاح کیا جائے تو آپ اسے باطل قرار دیں گے اور ملکی عدالتیں اس کو تسلیم نہ کریں گے۔ کیا اسے ناجائز اور باطل ٹھیرانے کے لیے کوئی اجازت قرآن یا حدیث ِ صحیح میں موجود ہے؟  

دراصل یہ طرزِ سوال بہت ہی مغالطہ آمیز ہے۔ تعیینِ عمر صرف ایک ایجابی پہلو ہی نہیں رکھتی بلکہ ساتھ ساتھ ایک سلبی پہلو بھی رکھتی ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ نکاح کے لیے محض ایک عمر مقرر کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس عمر سے پہلے نکاح کرنے کو آپ حرام بھی کرنا چاہتے ہیں۔اس منفی پہلو کو نظرانداز کرکے صرف یہ پوچھنا کہ کیا اس کا مثبت پہلو ممنوع ہے؟ سوال کو ادھوری شکل میں پیش کرنا ہے۔ سوال کی تکمیل اس وقت ہوگی جب آپ ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھیں کہ کیا ایک عمرِ خاص سے پہلے نکاح کو ناجائز ٹھیرانے کے حق میں کوئی دلیل قرآن یا کسی حدیثِ صحیح میں ملتی ہے؟ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، دسمبر ۱۹۵۵ء(

یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ [آخرت میں] نیک اور بد، فرماں بردار اور نافرمان، ظالم اور مظلوم، آخرکار سب یکساں کر دیئے جائیں، کسی بھلائی کا کوئی اچھا نتیجہ اور کسی بُرائی کا کوئی بُرا نتیجہ نہ نکلے، نہ کسی مظلوم کی داد رسی ہو اور نہ کوئی ظالم اپنے کیے کی سزا پائے، بلکہ سب ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ 

خدا کی اس کائنات کے متعلق جس نے یہ تصور قائم کیا ہے، اُس نے بڑا ہی غلط تصور قائم کیا ہے۔ اس تصور کو ظالم اور بدکار لوگ تو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کا بُرا نتیجہ نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن خدا کی یہ خدائی اندھیر نگری نہیں ہے، بلکہ یہ ایک برحق نظام ہے جس میں نیک و بد کو بالآخر یکساں کر دینے کا ظلم ہرگز نہیں ہوسکتا۔ 

[اسی طرح] انکارِ آخرت کا عقیدہ اخلاق کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ اس کو اختیار وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے ہیں، اور اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں بندگی ٔ نفس کی کھلی چھوٹ مل جائے۔پھر جب وہ اس عقیدے کو اختیار کرلیتے ہیں تو یہ انھیں گمراہ سے گمراہ تر کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُن کی اخلاقی حس بالکل مُردہ ہوجاتی ہے اور ہدایت کے تمام دروازے اُن کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ 

یہ دلائل دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح تم آپ سے آپ زندہ نہیں ہوگئے ہو، بلکہ ہمارے زندہ کرنے سے زندہ ہوئے ہو، اسی طرح تم آپ سے آپ نہیں مرجاتے، بلکہ ہمارے موت دینے سے مرتے ہو، اور ایک وقت یقینا ایسا آنا ہے جب تم سب بیک وقت جمع کیے جائو گے۔ اس بات کو اگر آج تم اپنی جہالت و نادانی سے نہیں ما نتے تو نہ مانو، جب وہ وقت آجائے گا تو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اپنے خدا کے حضور پیش ہو اور تمھارا پورا نامۂ اعمال بے کم و کاست تیار ہے، جو تمھارے ایک ایک کرتوت کی شہادت دے رہا ہے۔ اُس وقت تم کو معلوم ہوجائے گا کہ عقیدئہ آخرت کا یہ انکار، اور اس کا یہ مذاق جو تم اُڑا رہے ہو، تمھیں کس قدر مہنگا پڑا ہے۔ 

(’تفہیم القرآن‘ پس منظر سورۃ الجاثیہ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۵ء، ص ۱۹-۲۱)