قاہرہ سے فلسطین کی سرحد یعنی رفح کراسنگ تک کا فاصلہ چار سو کلومیٹر ہے۔ پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت، لیکن یوں لگتا ہے جیسے یہ دو مختلف دنیاؤں کا سفر ہو۔ قاہرہ، دریائے نیل ، اس کے پلُوں اور اہرام کی جھلکیوں کے ساتھ ایسی تہذیب کی یاد دلاتا ہے، جو ہزاروں برسوں سے قائم ہے۔ جوں جوں سفر کرتے ہوئے مسافر مشرق کی طرف بڑھتا ہے اور گاڑی سینائی کے صحرا میں داخل ہوتی ہے، منظرنامہ بے آباد، ویران اورسنگلاخ ہوجاتا ہے۔ چار گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد العریش شہر کی فلک نما عمارتیں نظر آتی ہیں، جو سینائی کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں سڑک بحیرۂ روم کی طرف مڑتے ہی غزہ کے بحران کا ابتدائی چہرہ سامنے آتا ہے۔یہاں اُفق کو پہاڑ ، سمندر یا ویرانے نہیں، بلکہ امدادی ٹرکوں کی قطاریں روک لیتی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میںحد نگاہ تک تقریباً ۴۴ کلومیٹر لمبی ٹرکوں کی قطار، جن میں آٹا، چاول، دالیں، پھلیاں، بوتلوں میں پانی، دوائیں یعنی وہ سب کچھ موجود ہے جو بھوک سے تڑپتی قوم کو درکار ہے۔ ڈرائیور مٹی کے تیل کے چولھوں پر تلخ قہوہ بنارہے ہیں۔ کچھ ڈرائیور اپنے ٹرکوں کے نیچے لٹکے جھولوں میں سورہے ہیں۔ ان کے ٹرکوں میں زندگی کی بقا کا سامان ہے مگر وہ بے حال زندہ لوگوں کی طرف نہیں بڑھ پار ہے، ساکت اور جامد ہیں۔
حالات کی ستم ظریفی ایک ایک پہلو سے ظاہر ہے۔ رفح کراسنگ کے ایک طرف وافر غذائی اجناس ہیں، دوسری طرف بس چند میٹر کے فاصلے پر بھوک کے ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی ٹینک صاف نظر آرہے ہیں۔دور غزہ کے رفح قصبہ کی کھڑکیوں اور چھتوں پر کھڑے بچوں اور بڑوں کے سوکھے ہوئے ڈھانچے نظر آرہے ہیں جنھوں نے شاید کئی ہفتوں سے روٹی کے نوالے اور چاول کے دانے کی صورت تک نہیں دیکھی ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ پکی ہوئی خوراک کی خوشبو سرحد پار پہنچ رہی ہے، مگرمحصور لوگوں کے لیے اس کی اشتہا انگیز خوشبو اذیت سے کم نہیں ہے ۔ ان کی بقا کا دارومدار خوراک کی خوشبوؤں کو سونگھنے پر رہ گیا ہے، جس کو وہ چھو نہیں سکتے ہیں، بس سونگھ سکتے ہیں۔
دُنیا بھر سے شخصیات غزہ کے محصور باسیوں کے ساتھ یکجہتی کےلیے آرہی ہیں، لیکن رفح کراسنگ سے واپس چلی جاتی ہیں۔ ترکیہ کی حکمراں جماعت آق پارٹی کے حقوق انسانی شعبہ کے نائب چیئرمین حسن بصری یالچن کی قیادت میں ۳۰ رکنی پارلیمانی وفد رفح کراسنگ پر اظہار یک جہتی کے لیے آیا ہے۔ وہ وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ واپس آئیں گے اور رکاوٹیں پھلانگ کر غزہ کے اندر جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ قطر پر حالیہ حملہ کرنے سے اسرائیل نے ساتویں ملک پر ہلہ بول دیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے ’’ اسرائیل کا سانپ ایک ایک کرکے ہم سب کو ڈس رہا ہے اور ہم بس اپنی باریوں کا انتظار کر رہے ہیں‘‘ ۔
غزہ کے اندر قحط جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ ۲۳ لاکھ کی آبادی کا ایک تہائی حصہ بھوک سے مرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ بچے بھوکے پیٹ سوتے ہیں۔ والدین کئی کئی دن کچھ نہیں کھاتے تاکہ بچے آدھی روٹی کھا سکیں۔ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ فلپ لزارینی کہتے ہیں کہ ان کی ٹیموں نے جن بچوں کو دیکھا وہ سب لاغر، کمزور اور موت کی دہلیز پر ہیں اور فوری علاج کے منتظر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز بھی فاقوں کا شکار ہیں۔ وہ بسااوقات کام کے دوران بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق فی الوقت ۶ہزار امدادی ٹرک اردن اور مصر میں کھڑے ہیں،مگر اسرائیل کی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ ایتھوپیا اور یمن کی طرح یہ قحط خشک سالی یا فصل کی ناکامی کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسانی ہاتھوں کا مسلط کیا ہوا قحط ہے۔ مصر کے وزیرِ خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا: ’یہ انجینئرڈ بھوک ہے‘۔
غزہ کے اندر النصر شہر کے رہائشی ابو رمضان بتا تے ہیں: ’’بھوک ایسی ہے جیسے ہاتھ بندھے ہوں اور دل میں خنجر گھونپ دیا جائے۔ آپ اپنے بچوں کو روتا دیکھتے ہیں اور ان سے کچھ وعدہ بھی نہیں کر سکتے۔ امداد کی جگہیں موت کے پھندے ہیں۔ آپ یا تو آٹا لے کر لوٹتے ہیں یا کفن میں لپٹے ہوئے گھرآتے ہیں‘‘۔ چار بچوں کی ماں ۴۲ برس کی خدیجہ خضیر ، کہتی ہیں: ’’تین دن میں صرف ایک روٹی ملتی ہے۔ اکثر چولھے پر پانی چڑھا دیتی ہوں تاکہ بچے سمجھیں کھانا پک رہا ہے۔ گھنٹوں کے انتظار کے بعد یہ معصوم بھوکے ہی سوجاتے ہیں۔کبھی کبھار فوجی جہاز امدادی غبارے گراتے ہیں۔ ہزاروں لوگ ان پر جھپٹتے ہیں مگر یہ سامان چند درجن خاندانوں کے لیے ہوتا ہے۔ غزہ کے صحافی کہتے ہیں: ’’یہ امداد نہیں بلکہ ذلّت ہے‘‘۔
غزہ کو روزانہ کم از کم ۸۰۰ ٹرکوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیل ۵۰ سے ۱۵۰ ٹرک داخل ہونے دیتا ہے۔ یہ سرحد پر تعینات سپاہیوں کے موڈ پر منحصر ہے۔العریش شہر اور رفح کراسنگ کے درمیان ایک ٹرک ڈرائیور مدحت محمد(جن کے ٹرک میں جام اور دالیںبھری ہوئی تھیں) نے بتایا: ’’میں نے دو ہفتے انتظار کیا اور پھر کہا گیا واپس چلے جاؤ۔اسرائیلی فوجی سوال کر رہے تھے کہ اتنا زیادہ کھانا کس کےلیے لے جا رہے ہو؟ بعض اوقات اسرائیلی فوجیوں کا جواب ہوتا ہے: وقت ختم ہو گیا‘‘۔ اسی طرح محمود الشیخ، جو آٹا لے کر ۱۳ دن سے کراسنگ کے باہر انتظار کر رہے ہیں کا کہنا تھا : ’’کل ہی ایک دن میں ۳۰۰ ٹرک واپس کر دیے گئے اور صرف ۳۵ کو اندر جانے دیا گیا۔ ’’سب کچھ ان اسرائیلی فوجیوں کی مرضی پر منحصر ہے‘‘۔ ہر رات ۱۵۰ ٹرک لائن میں لگائے جاتے ہیں مگر صبح صرف ۱۵ یا ۲۰کو جانچ کے لیے بلایا جاتا ہے اور باقی سب کو لوٹا یاجاتا ہے‘‘۔
جب ٹرک اندر پہنچ بھی جائیں تو ڈرائیور کی اذیت اس کے باوجود بھی ختم نہیں ہوتی۔ ٹرک اکثر لوٹ لیے جاتے ہیں ۔ بھوک، تشدد میں بدل جاتی ہے۔اسرائیلی اس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ان کو فائرنگ کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ مئی سے اب تک۲۵۰۰؍ افراد غذائی اجناس تقسیم کرنے والی جگہوں پر مارے گئے اور ۱۵ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ۔اسی پس منظر میں ’میڈیسن سان فرنٹیئر‘ نے امریکا –اسرائیل کی پشت پناہی والے غزہ ’ہیومینی ٹیرین فاؤنڈیشن‘ پر الزام لگایا کہ یہ ریلیف کا نظام کم اور’ظلم کی تجربہ گاہ‘ زیادہ ہے۔ایک نرس نے بتایا: ’’میں نے پانچ سالہ بچے کا علاج کیا جو بھگدڑ میں کچلا گیا تھا۔ ایک اور آٹھ سالہ بچے کے سینے میں گولی کا زخم تھا‘‘۔
عام فلسطینیوں کے لیے کھانے کی تقسیم بھوک اور موت کے درمیان ایک جُوا بن چکی ہے۔ فلسطینی اسے ’موت کا سفر ‘ کہتے ہیں۔صبح ہوتے ہی مرد، عورتیں اور بچے کئی کلومیٹر ’محفوظ راستوں‘ کی طرف پیدل چلتے ہیں، جو امداد کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اور ان میں سے بہت سارے واپس نہیں آتے۔ سنائپر فائر اور ڈرون حملے قطاروں میں لگے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔اُمِ سعید الرفاعی، جو رفح کے قریب ایک غذائی تقسم کے مقام پر گئیں، خالی ہاتھ اور آنسو گیس کے زخموں کے ساتھ واپس گھر پہنچ گئیں:’’میں صرف اپنی بیٹی کو کچھ کھلانا چاہتی تھی، مگر ہم پر حملہ ہوا، مرچ اسپرے، گولیاں، گیس۔ میں سانس نہیں لے پائی۔ جان بچا کر بھاگی اور خالی ہاتھ لوٹی‘‘۔ ان کے الفاظ غزہ کی نئی حقیقت ہیں: ’’اب زندہ واپس آ جانا ہی کامیابی ہے، چاہے کھانا نہ ملا ہو‘‘۔
اقوام متحدہ پہلے ہی غزہ کو قحط زدہ قرار دے چکا ہے۔ عالمی قانون کے تحت جان بوجھ کر بھوکا رکھنا جنگی جرم ہے۔ ۲۰۲۴ء میں تین بار عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو ہدایت دی کہ انسانی امداد بلا رکاوٹ داخل ہونے دے۔ مگر ہر فیصلے کو نظر انداز کیا گیا۔استنبول یونی ورسٹی کے وکیل دنیز باران کہتے ہیں: ’’اسرائیل کی ناکہ بندی اور امداد روکنا شہریوں کو جنگی ہتھیار کے طور پر بھوکا رکھنے کے مترادف ہے، جو جنیوا کنونشن کے تحت ممنوع ہے‘‘۔یہ منظم، دانستہ اور بے مثال ہے۔ ایک ایسا قحط جو براہِ راست نشر ہو رہا ہے۔‘‘جب رفح پر ٹرک رکے پڑے ہیں تو بحیرۂ روم کی طرف مزاحمت کی ایک اور شکل گلوبل صمود فلوٹیلا کی صور ت میں ساحل کی طرف رواں ہے۔ ۴۴ممالک کے ۵۰ سے زائد جہازوں کا غزہ کی طرف سفر۔ یہ جدید تاریخ کا سب سے بڑا شہری امدادی قافلہ ہے۔ اس فلوٹیلا میں ڈاکٹر، پارلیمانی اراکین، فنکار اور سماجی کارکن شامل ہیں، جن میں گریٹا تھنبرگ بھی ہیں۔یہ جہاز خوراک، دوا اور امید سے لدے ہوئے ہیں۔ لیکن ممکن ہے کہ یہ بھی رفح کے ٹرکوں کی طرح غزہ سے چند کلومیٹر دُور ہی رُک جائیں۔ بھوکوں کے لیے یہ ایک اور ستم ظریفی ہے ۔ خورا ک سامنے ہے مگر سفاک ناکہ بندی اس کو روک لیتی ہے۔
رفح کراسنگ ہمیشہ سے کش مکش کا مقام رہی ہے۔ ۱۹۷۹ء کے مصر –اسرائیل امن معاہدے کے تحت ’فلاڈیلفی روٹ بفر زون‘ قائم کیا گیا۔ دوسری انتفاضہ (۲۰۰۰) کے دوران اسرائیل نے اسے وسیع کیا، گھر گرائے اور رکاوٹیں بنائیں۔۲۰۰۸ء میں جنگجوؤں نے دیوار میں سوراخ کیے اور ہزاروں فلسطینی مصر میں داخل ہو کر سامان لائے۔ مصر نے بعد میں سرحد کو مزید مضبوط کیا اور ۲۰۲۱ءتک تین ہزار سے زائد سرنگیں تباہ کر دیں۔ کچھ میں پانی بھرا گیا، کچھ میں زہریلی گیس بھری گئی، اور اندر موجود اکثر لوگ مارے گئے۔۲۰۰۷ء سے حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد مصر نے غزہ کو ہمسایہ بھی سمجھا اور خطرہ بھی۔ نتیجہ ایک ایسی سرحد ہے جو کنکریٹ اور بدگمانی سے بنی ہوئی ہے اور آج بھوک سے۔میں نے کشمیر، افغانستان اور حال ہی میں شام کی رپورٹنگ کی ہے۔ لیکن غزہ ایک جہاندیدہ رپورٹر کو بھی توڑ دیتا ہے۔ مجھے یاد آرہا تھا کہ جب میں غزہ کے ایک صحافی کو فون کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو کئی بار کال کرنے کے بعد جب اس نے فون اٹھایا، تو لرزتی آواز میں کہا: ’’بھائی، تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ جب روٹی ملے گی تو کال کروں گا۔‘‘وہ کبھی کال نہیں کرپایا اور میں نے بھی دوبارہ فون نہیں کیا۔غزہ اب صرف جنگ کا نہیں بلکہ بھوک کو ہتھیار بنانے کا معاملہ ہے۔ یہ قحط چھپایا نہیں گیا بلکہ براہِ راست دکھایا جا رہا ہے۔ آنے والی نسلیں یہ نہیں پوچھیں گی کہ فلسطینیوں نے مزاحمت کیوں کی؟ وہ یہ پوچھیں گی: دنیا کیسے کھاتی رہی، جب کہ غزہ بھوکا سسک رہا تھا؟ ایک بوجھ کے ساتھ میں قاہر ہ اور پھر انقرہ واپس روانہ ہو رہا ہوں۔
رفح سے قاہر ہ تک کا یہ سفر اب صرف جغرافیائی فاصلہ نہیں بلکہ انسانی ضمیر اور عالمی سیاست کے درمیان حائل اس دیوار کا استعارہ ہے، جو محصور غزہ کے عوام کے گرد کھڑی کر دی گئی ہے۔ سینائی کے سنسان ریگستان میں سفر کرتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ صحرا اپنی خاموشی میں لاکھوں دبی ہوئی صداؤں کا نوحہ پڑھ رہا ہے۔ ریت کے ذرّے بھی جیسے سوال کر رہے ہوں کہ آخر انسان نے انسان کو بھوک اور پیاس کا شکار کیوں بنایا؟غزہ کی کہانی محض ایک خطے کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزمائش ہے۔ یہ ایک ایسا امتحان ہے جس میں صرف فلسطینی نہیں، بلکہ ہم سب شریک ہیں۔ رفح کے گیٹ پر موجود خوراک کے ٹرک انسانیت کے مُردہ ضمیر پر ماتم کر رہے ہیں ۔ دنیا بھر کی طاقتیں، اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی عدالتوں کے فیصلے اس بھوک کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
میں جب قاہرہ لوٹ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ تاریخ آنے والی نسلوں سے یہی سوال پوچھے گی: ’’کیا تم نے کھاتے ہوئے غزہ کے بچوں کو بھوکا مرنے دیا؟‘‘ یہ سوال ہمارے عہد کی سب سے بڑی گواہی بن جائے گا۔فلسطینی مائیں جب بھوکے بچوں کو گود میں لے کر سلاتی ہیں، تو ان کی لوریاں دراصل دنیا کے کانوں پر دستک ہیں۔ اگر یہ دستک ہم نے نہ سنی تو شاید کل ہماری اپنی اولاد بھی اسی اندھی بھوک کی زد میں آ جائے۔غزہ آج صرف ایک جغرافیہ نہیں، ایک چیخ ہے۔ یہ چیخ وقت کی دیواروں کو چیر کر ہماری روحوں کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ہم جاگیں گے، یا یہ چیخ تاریخ کے قبرستان میں دب جائے گی؟