اکتوبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

نیکی کا معیار اور نیکی کا اجر

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | اکتوبر ۲۰۲۵ | ۰۶سال پہلے

Responsive image Responsive image

ایک عمل اگر دُنیا والوں کے نزدیک بڑا اچھا ہو، مگر خدا کے قانون کی پیروی اس میں نہ کی گئی ہو، تو دُنیا کے لوگ چاہے اس پر کتنی ہی داد دیں، خدا کے ہاں وہ کسی داد کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف ایک عمل ٹھیک ٹھیک شریعت کے مطابق ہوتا ہے اور بظاہر اس کی شکل میں کوئی کسر نہیں ہوتی، مگر نیت کی خرابی، ریا، خودپسندی، فخروغرور اور دُنیا طلبی اس کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے اور وہ اس قابل نہیں رہتاکہ اللہ کے ہاں مقبول ہو۔ 

جو لوگ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ سے ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق طلب کرتے رہتے ہیں کہ جو اپنی ظاہری صورت میں بھی ٹھیک ٹھیک اللہ کے قانون کے مطابق ہوں اور حقیقت میں بھی اللہ سبحانہٗ کے ہاں مقبول ہونے کے لائق ہوں تو دُنیا میں [انھوں] نے جو بہتر سے بہتر عمل کیا ہے، آخرت میں ان کا درجہ اُسی کے لحاظ سے مقرر کیا جائے گا، اور ان کی لغزشوں، کمزوریوں اور خطائوں پر گرفت نہیں کی جائے گی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک کریم النفس اور قدر شناس آقا اپنے خدمت گزار اور وفادار ملازم کی قدر اس کی چھوٹی چھوٹی خدمات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس کی کسی ایسی خدمت کے لحاظ سے کرتا ہے جس میں اس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو، یا جاں نثاری و وفاشعاری کا کمال کر دکھایا ہو۔ اور ایسے خادم کے ساتھ وہ یہ معاملہ نہیں کیا کرتا کہ اس کی ذرا ذرا سی کوتاہیوں پر گرفت کر کے اس کی ساری خدمات پر پانی پھیر دے۔ 

یعنی نہ اچھے لوگوں کی نیکیاں اور قربانیاں ضائع ہوں گی، نہ بُرے لوگوں کو ان کی واقعی بُرائی سے بڑھ کر سزا دی جائے گی۔ نیک آدمی اگر اپنے اجر سے محروم رہ جائے، یا اپنے حقیقی استحقاق سے کم اجر پائے تو یہ بھی ظلم ہے، اور بُرا آدمی اپنے کیے کی سزا نہ پائے، یا جتنا کچھ قصور اس نے کیا ہے اس سے زیادہ سزا پاجائے تو یہ بھی ظلم ہے۔( سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، اکتوبر ۱۹۶۵ء،  جلد۶۴، عدد۲، ص۲۶-۲۷)