سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’شریعت‘ سے مراد کیا ہے؟ بعد میں یہ عرض کروں گا کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے، اور آخر میں یہ بتائوں گا کہ پاکستان میں اس کے نفاذ کے امکانات کیا ہیں اور کیا ضروری شرائط ہیں؟

شریعت کا مفہوم

’شریعت‘ سے مراد محض قانون نہیں ہے، جس کو عدالتوں کے ذریعے نافذ کیا جائے۔ ’شریعت‘ قانون کے ہم معنی نہیں۔ ’شریعت‘ سے مراد زندگی کا پورا نظام ہے، جو عقائد و ایمانیات سے شروع ہوتا ہے ، اور عبادات واخلاقیات پر منتج ہوتا ہے۔یہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔

شریعت کے تقاضے

  • پختہ ایمان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت ہی کو نافذ کرنے کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس مکہ معظمہ میں، اس کے بعد مدینہ منورہ میں اپنی ساری طاقت صرف فرمائی کہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں ایمان کی طاقت بٹھا دیں۔ کیوں کہ یہ شریعت اس وقت تک نافذ ہی نہیں ہوسکتی، جب تک اس کے چلانے والوں میں ایمان موجود نہ ہو، اور جن پر وہ چلائی جائے ان کے اندر بھی ایمان نہ ہو۔ اگر ایمان موجود نہ ہو تو یہ ممکن نہیں ہے کہ شریعت کو نافذ کیا جاسکے، اور ممکن نہیں ہے کہ جس آبادی پر اس کو نافذ کیا جارہا ہے وہ اس کو برداشت کرلے۔

مثال کے طور پر آپ سے عرض کرتا ہوں کہ حدودِ شریعہ میں سے ایک شرعی حد یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو۔ اس کے اُوپر عمل وہی لوگ کرسکتے ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہو۔ وہ سچّے دل سے یہ سمجھتے ہوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی اور کلام نازل ہوا ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے، جو رسولؐ کی زبان سے جاری ہورہا ہے، اور سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ اگر ہم نے اس کے نافذ کرنے میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی کی تو آخرت میں ہمیں اللہ کے رُوبرو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اگر یہ چیزیں موجود نہیں ہیں تو حدودِ شرعیہ کا اجراہو نہیں سکتا، ممکن ہی نہیں۔

کوئی ایسا فرد جس کو قانون کی شکل میں حد ِ شرعی ملے، لیکن وہ اس پر ایمان نہ رکھتا ہو، تو وہ پہلی فرصت تلاش کرے گا جس میں اس قانون کو منسوخ کرے اور اپنے لیے نیا قانون بنائے۔ اسی طرح جن لوگوں پر یہ قانون نافذ کیا جاتا ہے، اگر ان کے اندر ایمان نہ ہو، وہ یہ نہ مانتے ہوں کہ قرآن برحق ہے اور اسلام کے قانون میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہی ہے۔ اگر وہ اس کے اُوپر یقین نہ رکھتے ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ کسی غریب، چھوٹے اور بے اثر آدمی کے ہاتھ تو کاٹ دیئے جائیں، لیکن اگر کسی بااثر آدمی کا ہاتھ کاٹنے کی نوبت آجائے تو بغاوت برپا ہوجائے۔ وہ آبادی اس چیز کو برداشت ہی نہیں کرے گی کہ یہ قانون نافذ ہو ۔ اس لیے شریعت سب سے پہلے جس چیز کا تقاضا کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کو نافذ کرنے والے اور جن لوگوں پر اس کا نفاذ کیا جائے ان کے اندر ایمان ہو، ان کے دلوں میں ایمان ہو۔

  • اسلامی اخلاق: اس کے بعد دوسری چیز کا شریعت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام جو اخلاقیات دیتا ہے، بھلے اور بُرے کا جو امتیاز دیتا ہے، خیروشر کا جو فرق بتاتا ہے اور جو اقدار انسان کو دیتا ہے کہ یہ چیز قیمتی ہے اور یہ چیز بے قیمت ہے، اس کو ٹھیک ٹھیک مان کر سمجھ لیا جائے۔ اگر یہ چیز موجود نہ ہوگی تو مانتے ہوئے بھی وہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے، کیونکہ ان میں اخلاق موجود نہ ہوگا۔ اخلاقی حیثیت سے دیوالیہ لوگ، جن کے اخلاق کو گھن کھا چکا ہو، ان کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ شریعت کو نافذ کریں۔ اس لیے کہ شریعت اسلامیہ اخلاقیات بھی دیتی ہے، اور اخلاقیات کا نہایت وسیع تصوّر دیتی ہے، جو زندگی کے ہرمعاملے سے تعلق رکھتا ہے۔
  • شریعت کا پوری زندگی پر نفاذ : اس کے بعد تیسری چیز یہ ہے کہ شریعت کا نظام انسانی زندگی کے پورے دائرے پر پھیلتا ہے۔ وہ اس بات سے بھی بحث کرتا ہے کہ پانی میں پاک کیا ہے اور ناپاک کیا ہے؟ اس شے سے بھی بحث کرتا ہے کہ انسان نجس کس حالت میں ہوتا ہے اور کس حالت میں کس طرح وہ پاک ہوسکتا ہے؟ یعنی شریعت کوئی محدود سا قانونی تصور نہیں رکھتی۔

آپ دیکھیے کہ فقہ کی کتابیں بابِ عبادت سے شروع ہوتی ہیں۔ دُنیا کا کوئی قانون آپ کو ایسا نہیں ملے گا، جس کے اندر طہارت کے مسئلے سے بحث کی گئی ہو، بلکہ حقیقت میں دُنیا کی کسی زبان میں طہارت کا ہم معنی لفظ موجود نہیں۔ مغربی ممالک جانتے ہی نہیں کہ طہارت کس چیز کو کہتے ہیں؟ ان کی زبان میں اس کا ہم معنی لفظ موجود نہیں، لیکن اسلامی شریعت، طہارت سے بحث کرتی ہے جو کہ ایک فرد کا معاملہ ہے، اور پھر افراد کے اندر طہارت پیدا کرتی ہے۔ افراد کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرتی ہے۔ افراد کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے آمادہ کرنا، ان کو بندگی کے طریقے سکھانا، یہ شریعت کا کام ہے۔ پھر افراد کو جوڑ کر ایک جماعت بنانا اور اس جماعت کے اندر اسلامی طریقے رائج کرنا۔ عبادات سے لے کر نکاح کے معاملات تک اور تجارت سے لے کر سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات تک، جنگ سے لے کر صلح تک اور ملک کی مالیات سے لے کر ملک کی صنعت و حرفت تک، ہرچیز کے بارے میں قانون موجود ہے۔

اس چیز کو اگر نافذ کرنا ہے تو آدمی یہ سمجھ لے کہ انسانوں کی پوری زندگی کو بدل ڈالنا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ صرف ایک پہلو سے ان کی زندگی کو بدلا جائے، بلکہ ان کی پوری زندگی کو ہرپہلو سے، افراد سے لے کر جماعت تک، پوری آبادی کو بدلنا ہے۔ ان کے اندر ایمان اُتارنا ہے۔ ان کے اندر اخلاقیات پیدا کرنی ہیں۔ ان کے اندر آمادگی پیدا کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی پابندی کریں اور اس کے بعد تمام معاملات کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے۔ مارکیٹ میں جو لین دین ہورہا ہے، اس کے اُوپر بھی شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ بنکوں میں جو مالیاتی لین دین ہورہا ہے ، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ یہ انشورنس کمپنیاں جو چل رہی ہیں، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ حکومت جو ٹیکس لگاتی ہے اور ٹیکس لگا کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان دونوں چیزوں میں، پھر جو قرض دیتی ہے اور جو قرض لیتی ہے، اور قرض لے کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان سب پر بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔ عدالتوں میں بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔

حکومت کے انتظامی شعبوں کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پولیس کے محکمے میں کثیرتعداد بے ایمان ملازمین کی ہے تو اسلامی شریعت کا نفاذ نہیں ہوسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ایک بے ایمان پولیس کے ہاتھ میں اسلامی شریعت دے دی جائے تو وہ پوری آبادی کو نچوا دے گی۔ اس لیے پوری انتظامی پالیسی کو بدلنا ضروری ہے۔ رشوت خور لوگ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

اس طرح سے شریعت کی اس حیثیت کو نگاہ میں رکھیے کہ یہ پوری زندگی کا قانون ہے، کسی ایک پہلو کا ضابطہ نہیں۔ یہ ایمان سے لے کر معاملات کے چھوٹے سے چھوٹے اجزا تک، حتیٰ کہ سڑکوں کی صفائی تک سے بھی بحث کرتی ہے۔ سڑک پر کوئی شخص کانٹے بچھاتا ہے، یا لوگوں کو تکلیف دینے والی چیز ڈالتا ہے، کوئی نجاست پھینکتا ہے تو وہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ان سارے معاملات پر شریعت حاوی ہے اور رہنمائی دیتی ہے۔

شریعت کے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہونے کے پہلو کو نگاہ میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟

نفاذِ شریعت کا حقیقی تقاضا

اس کے نفاذ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے مدرسوں میں بیٹھ کر صرف شریعت کی کتابیں پڑھیں۔ اس کے نفاذ کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ وعظوں میں، تقریروں میں اور اپنے خطبوں میں اس کو محض بیان کریں۔ اس کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ احکامِ شریعت کو پوری طاقت، شعور، عقل اور عدل سے نافذ کیا جائے۔ جو کام صدرِ مملکت کا ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو وزیراعظم کے کرنے کا کام ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو گورنروں اور صوبے کے وزراء کا کام ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کریں۔ جو مالیات کے محکمے کا کام ہے، جو عدالت کے محکمہ کا کام ہے، جو اقتصادیات کے محکموں کا کام ہے، جو صحت و تندرستی کے محکموں کا کام ہے، وہ سارے کے سارے شریعت کے مطابق چلیں۔ یعنی صرف کوئی ایک چیز نہیں ہے جو درکار ہو، بلکہ پوری کی پوری حکومت کا نظام، پورے کا پورا تجارت و صنعت و حرفت و اقتصادیات کا نظام، پورے کا پورا عدالتی اور معاشرتی نظام، سب کچھ اس کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہرچیز میں اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ جو چیز محلّے کے لوگوں کے نافذ کرنے کی ہے، اسے وہ نافذ کریں۔ جو میونسپلٹیوں کے نافذ کرنے کی ہیں، انھیں وہ نافذ کریں۔ جو چیز لیجسلیٹو اسمبلی کے کرنے کی ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ پوری کی پوری گورنمنٹ اس کے مطابق ہونی اور چلنی چاہیے۔ نہ یہ کہ کسی فرد کو ’شیخ الاسلام‘ بناکر بٹھا دیا جائے، یا وزارتِ مذہبی اُمور بنا دی جائے اور سمجھ لیا جائے کہ شریعت کا نفاذ ہوگیا۔یہ بات نہیں ہے، بلکہ پورے کے پورے نظامِ حکومت کو تبدیل کرنا اور اسلام کے مطابق چلانے کا نام ہے نفاذِ شریعت۔ یہ پہلو مختصراً عرض کررہا ہوں، ورنہ اس کی تفصیل زیادہ ہے۔

اب دیکھیے کہ پاکستان میں اس کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے؟

پاکستان میں نفاذِ شریعت کیوں نہیں ہوا؟

پاکستان میں اس کے نفاذ میں اختلاف کیوں پیدا ہوا؟ ویسے تو ہم ایک مسلمان قوم ہیں، اور پاکستان اسلام کا نام لے کر بنایا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اور فطرتاً آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ آپ سے آپ ہونا چاہیے تھا کہ جس روز پاکستان بنا تھا، شریعت ِاسلامی اسی روز نافذ ہوجاتی۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی کچھ وجوہ ہیں:

کافرانہ حکومت کے اثرات

ایک وجہ یہ ہے کہ ایک مدتِ دراز تک یہاں کفر کی حکومت مسلط رہی ہے۔ اس نے تعلیم کا نظام ایسا بنایا کہ جس نے لوگوں کے ذہن بدل کر رکھ دیئے، سوچنے کے انداز بدل دیئے۔ اُس نظامِ حکومت نے اپنی تعلیم کے اثر سے لوگوں کو اس حد تک بہکایا کہ قلیل تعداد تعلیم یافتہ لوگوں کی ایسی رہ گئی، جو واقعی دل میں ایمان رکھتی ہو اور سچّے دل سے مانتی ہو کہ اللہ کے رسولؐ جو کچھ لائے وہ برحق ہے، ورنہ ایک کثیر تعداد ایسی تیار ہوگئی، جو اس بات کی قائل ہی نہیں تھی کہ وحی آسکتی ہے۔ جو اس بات کی قائل ہی نہیں رہی تھی کہ نبوت بھی کسی چیز کا نام ہے، جو سمجھتے تھے کہ نبوت اور وحی افسانے ہیں۔ ان کے نزدیک جو کچھ یورپ اور امریکا سے آتا ہے، بس وہی برحق ہے۔ اس کے بارے میں کوئی سوال کرنے کی حاجت نہیں، جیساکہ وہ آرہا ہے جوں کا توں مان لیں گے۔ اس میں کوئی چیز شک کی اور دریافت طلب بات نہیں ہے۔ مگر وہ کتاب جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ لاریب فیہ، ان کے نزدیک اس میں ہرریب اور شک کی گنجایش ہے۔ تو یہ اُس تعلیم کے اثرات تھے۔

ان میں جن لوگوں نے اپنا ایمان کچھ بچایا، ان کی فکر اسلامی نہیں تھی اور سوچنے کا انداز اسلامی نہیں تھا۔ جنھوں نے سوچنے کا انداز اسلامی بنانے کی کوشش کی، ان کے پاس علم اسلامی نہیں تھا۔ وہ یہ بات جانتے ہی نہیں تھے کہ اسلام کیا ہے،اس کے احکام کیا ہیں اور کس قسم کا نظام وہ چاہتا ہے؟

جس وقت ہم نے یہ نام لینا شروع کیا کہ ’اسلامی نظامِ حکومت قائم ہونا چاہیے‘ تو لوگ پوچھتے تھے کہ ’اسلامی نظامِ حکومت سے کیا مراد ہے؟‘ عام لوگ ہی نہیں، بلکہ بعض دفعہ خود علما کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوتا تھا۔ بعض لوگوں نے ہم سے یہاں تک کہا کہ ’یہ تم کس چیز کی باتیں کر رہے ہو۔ یہ اس زمانے میں چلنے والی چیز نہیں‘ اور میں نے ان سے یہ عرض کیا کہ ’حضور اگر یہ چلنے والی چیز نہیں تو اس پر ایمان کیوں رکھتے ہیں؟ پھر جو چلنے والی چیز ہے اس پر ایمان لایئے‘۔ بعض علما سے میری بات چیت ہوئی، جس میں انھوں نے مجھ سے یہ بات کہی اور میں نے ان سے یہی عرض کیا۔

ایک اچھا خاصا گروہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر ’شیخ الاسلامی‘ قائم ہوجائے اور قضائے شرعی کا انتظام ہوجائے تو بس اسلام کا نفاذ ہوجائے گا، سمجھ لیجیے اسلامی نظام نافذ ہوگیا۔ جب ہمارے دینی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کے یہ خیالات تھے، تو آپ اندازہ لگایئے کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ ان کے اندر ایسے لوگ بھی موجود تھے، جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہم اسلامی نظام یہاں نافذ کریں گے تو ہم دُنیا کو کیا منہ دکھائیں گے کہ یہ چودہ سو برس پہلے کا قانون یہاں نافذ کر رہے ہیں۔ یہ باتیں ہم نے خود سنی ہیں، جب ہم نے یہ سوال اُٹھایا کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔ اس بات کا اس وجہ سے ذکر کر رہا ہوں کہ آپ کو وہ رکاوٹیں سمجھ میں آجائیں۔

اسلام ناآشنا قیادت

باوجود اس کے کہ یہ ایک مسلمان قوم تھی اور اس نے اسلام کا نام لے کر پاکستان قائم کیا تھا، لیکن وہ اسلام کا نظام نافذ نہیں کرسکی۔ کیوں نہیں کرسکی؟ اس کے جو کارفرما لوگ تھے، جن کے ہاتھ میں اقتدار اور نظام تھا، ان کی تعلیم و تربیت کسی اور طرز پر ہوئی تھی۔ وہ جانتے بھی نہ تھے کہ اسلام کیا ہے؟ ان کے سوچنے کا انداز بھی اسلامی نہ تھا اور ان کے اندر خواہش بھی اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی نہیں تھی۔ نہ اس کو وہ جانتے تھے کہ اسلامی نظام کیا چیز ہے، نہ اس کو مانتے تھے کہ وہ برحق ہے اور نہ وہ یہ ارادہ رکھتے تھے کہ اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ ظاہر بات ہے یہ پھر کیسے نافذ ہوسکتا تھا؟

جہاں تک عام آبادی کا تعلق تھا اور ہے، اس کے اندر اسلام کے ساتھ عقیدت موجود ہے۔ بلاشبہہ یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس کے اندر ایمان بھی مجمل طور پر موجود ہے۔ چاہے وہ ایمان کی تفصیلات نہ جانتے ہوں، لیکن مجمل طور پر ایمان ان میں ہے۔ وہ خدا کو مانتے ہیں، رسولؐ کو مانتے ہیں بلکہ رسولؐ کے نام پر جان دینے کو تیار ہیں۔ قرآن کو برحق مانتے ہیں، اس کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ آخرت کے بھی منکر نہیں ہیں۔ یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن کفّار کی ایک طویل مدت کی حکومت اور کافرانہ قوانین کے اجرا نے اور ان کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردینے نے، اس مدتِ دراز کے اندر لوگوں کے عادات و خصائل بدل ڈالے ہیں۔

مسلمان جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے لیکن اس میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہی چیز اس پر مسلط ہے۔ ہر طرف سے وہ اس پر محیط ہے، مثلاً سود کو کون مسلمان نہیں جانتا کہ سود حرام ہے، مگر جب سود ہی پر سارا نظام قائم ہوجائے، تجارت کا، صنعت و حرفت کا، مالیات کا، تو کون آدمی اس سے بچے؟ اس میں مبتلا ہوتے وقت مسلمان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح اسے بھی حلال کر دیا جائے کیونکہ حرام کو حرام جانتے ہوئے اس کو کرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ تو وہ کرنہیں سکتا کہ حرام سے اجتناب کرے، مگر چاہتا یہ ہے کہ کسی طرح حرام کو حلال کردیا جائے۔ اب تک میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں، جو اسی طرح کے سوالات کرتے ہیں اور میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی حرام کو حلال کرنے کے اختیارات مجھے حاصل نہیں۔  پھر کیسے آپ کے لیے حلال قرار دوں؟

اسلام ناآشنا قیادت نے قوم کو بدلنا چاہا

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک کافرانہ نظام کے تسلط کی بدولت لوگوں کے سوچنے کے انداز ہی نہیں بدلتے، عادات بھی بدل جاتی ہیں اور ان کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ نظام اسلامی کو برحق ماننے کے باوجود اس کے برعکس چیز سے پرہیز کریں۔ اب اس کے بعد جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی حکومت آئی جو نہ اسلام کو جانتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کی قابلیت رکھتے تھے، تو ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر ہم اس بات کو پھیلنے دیں کہ ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو اور عام لوگوں کے اندر اس بات کی طلب پیدا ہوجائے، تو پھر ہمارا چراغ کہاں جلے گا؟ لوگ ہماری طرف کیسے توجہ کریں گے؟ پھر لازماً اس کی تلاش ہوگی جو اسے نافذ کرسکے۔

اس لیے انھوں نے گذشتہ برس اس کام پر صرف کیے کہ قوم کے مزاج کو بدلا جائے۔ ان کے اخلاق کو بدلا جائے۔ ان کے اندر بُرائیوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ اخلاق باختگی کا رسیا بنایا جائے۔ اس کے اندر جہاں تک ہوسکے شراب خوری پھیلائی جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ سود میں مبتلا کیا جائے، اتنے سود میں جتنا انگریز کے زمانے میں بھی نہیں تھا۔ اس میں مخلوط تعلیم رائج کی جائے تاکہ عورتوں اور مردوں کے میل جول سے جو کچھ تہذیب و تمدن کا ستیاناس ہوتا ہے اور ہورہا ہے، وہ اور زیادہ ہو۔ غرض یہ کہ انھوں نے ہرممکن طریقے سے پوری قوم کو بگاڑ دینے کا پروگرام بنایا، جس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ نفاذِ شریعت کے لیے جس قسم کا ماحول چاہیے اس نوعیت کا ماحول بنانے کے بجائے، اس کے برعکس نوعیت کا ماحول بنایا گیا۔

نفاذِ شریعت کیسے ؟

اب جب ہم یہ سوچنے کے لیے بیٹھیں گے کہ ہم یہاں نفاذِ شریعت کیسے کریں؟ تو اس کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔

  • دلوں میں ایمان کی آبیاری: ایمان کے بغیر وہ بنیاد قائم نہیں ہوسکتی جس پر نظامِ شریعت کا نفاذ ہوسکے۔ اس کے بغیر وہ عمارت ہی نہیں کھڑی ہوسکتی۔ اس لیے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔ تمام شکوک و شبہات کے کانٹے جو ان کے اندر چبھے ہوئے ہیں وہ نکالنے پڑیں گے۔ ان کو مطمئن کرنا پڑے گا، پڑھے لکھوں کو بھی اور عوام کو بھی۔ جتنا کچھ عوام کے لیے درکار ہے، اتنا کچھ عوام کے لیے اور جتنا کچھ پڑھے لکھوں کے لیے درکار ہے، اتنا کچھ پڑھے لکھوں کے لیے کرنا پڑے گا۔
  • اصلاحِ اخلاق کی طرف توجہ:پھر آپ کو ان کے اخلاق کی طرف توجہ کرنی پڑے گی، کیونکہ ایک بداخلاق قوم کبھی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اسلامی نظام نافذ کرسکے۔ اس لیے اخلاق کی بہتری کی فکر کرنی پڑے گی۔
  • اسلامی نظام کے لیے تڑپ : اس کے بعد آپ کو عام لوگوں کے اندر یہ تڑپ پیدا کرنی پڑے گی کہ وہ یہ سمجھیں کہ جب تک اسلام کا نظام جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں، نافذ نہیں ہوتا، اس وقت تک ہمارے لیے کوئی زندگی نہیں۔ اس کے بغیر آپ اس کو نافذ نہیں کرسکتے۔ اگر لوگ قائل ہوں کہ فی الواقع اسلام کا نظام آنا چاہیے اور اس بات کے وہ خواہش مند بھی ہوں کہ یہ نافذ ہو، لیکن اس کے لیے کوئی تڑپ موجود نہ ہو، اس کے لیے کوئی لگن موجود نہ ہو اور یہ ارادہ موجود نہ ہو کہ دوسرے نظام کو ہم نہیں چلنے دیں گے اگر وہ ہمارے اُوپر نافذ ہوگا۔ اس وقت تک قوم اس کے لیے تیار نہیں ہوسکتی کہ ایک غلط اور غیر اسلامی نظام جو چل رہا ہے، وہ جگہ چھوڑنے کے لیے مجبور ہوجائے اور اس کی جگہ اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔
  • نفاذِ شریعت کا کام پھولوں کی سیج نہیں:اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش اور اسلامی نظام کا نفاذ کھیل نہیں ہے۔ یہ زبان سے کہنے کے لیے بہت آسان کام ہے، لیکن یہ ایسا کام ہے کہ اس راہ میں ہرقدم انسان کے لیے مصیبتوں، اذیتوں، تکلیفوں اور نقصانات سے اَٹا پڑا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نظام کو نافذ کرنے کے لیے آئے تھے تو جن لوگوں نے اس کو قبول کیا تھا ان پر کیا گزری تھی؟ اور جس شخص نے اسے پیش کیا تھا اس کے ساتھ کیا کچھ نہ ہوا؟اگر وہ اس بھٹی سے نہ گزرتے تو اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکتا تھا۔ اُس وقت بھی لوگ اس بھٹی سے گزرے تھے اور گزرنے کے بعد جن لوگوں نے قدم قدم پر چوٹیں کھائی تھیں اور قدم قدم پر تکلیفیں اُٹھائی تھیں۔ قدم قدم پر نقصانات اُٹھائے تھے، گھربار چھوڑے تھے، آگ کے انگاروں پر لٹائے گئے تھے۔ تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر پتھر ان پر رکھ دیئے گئے تھے، اور اُلٹا لٹکا کر ان کو بوری میں لپیٹ کر آگ کی دھونی دی گئی تھی۔ جب تک ان سارے راستوں سے گزر نہ گئے، اُس وقت تک اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اقتدار نہیں دیا۔

ان راستوں سے گزرنے کے بعد بھی بدر و اُحد کے دنوں کو یاد کیجیے اور حُنین کا معرکہ بھی یاد کرلیجیے۔ ایسے تمام حالات میں اپنے سے کئی کئی گنا زبردست طاقتوں کے مقابلے میں آدمی کھڑا ہو اور ہرمصیبت اور ہرمشکل و تکلیف کو یاد کرلے اور کوئی پروا نہ کرے کہ مقابلے میں کتنی بڑی طاقت ہے۔ کوئی پروا نہ کرے کہ کتنی زیادہ چوٹ مجھے لگتی ہے۔ کتنا میں قید کیا جاتا ہوں اور کتنی مجھے اذیت دی جاتی ہے، اور کیسے کیسے زبردست دشمنوں سے مجھے سابقہ پیش آرہا ہے۔ کس آگ کے گڑھے کی طرف لے جایا جارہا ہوں۔ اس سب کچھ کی پروا کیے بغیر جو لوگ آگے بڑھیں گے، وہ یہاں نظامِ شریعت نافذ کرسکتے ہیں اور باطل پر قابو پاسکتے ہیں۔

  • محنت کے اثرات ظاہر ہوکر رہیں گے: یہ چیز جب آپ کریں گے تو اس کے اثرات آہستہ آہستہ پھیلیں گے۔ اس کے اثرات کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی جائیں گے، اور انھی درس گاہوں میں جو کافر بنانے والی ہیں، وہاں اسلامی ذہن کی نسل تیار ہوگی۔ انھی میں وہ نوجوان تیار ہوں گے جو اسلامی نظام چاہتے بھی ہوں گے اور وہ علم بھی حاصل کریں گے کہ اسلامی نظام کیسے نافذ ہو؟ اور اس کے لیے جب وہ منظم ہوکر کام کریں گے تو ان کے مقابلے پر ہرحربہ استعمال کیا جائے گا کہ یہ کسی طرح دب جائیں۔ ان کے اُوپر گولیوں کی بھی بوچھاڑ ہوگی۔ ان کے اُوپر لاٹھیوں کی بھی بوچھاڑ ہوگی۔ ان کو جیلوں میں بھی ٹھونسا جائے گا۔ ان کو اذیتیں بھی دی جائیں گی۔ مگر جب تک وہ اس بھٹی سے نہیں گزریں گے، وہ کھرا سونا نہیں بن سکتے جو اس بھٹی سے گزر کر بنتا ہے۔
  • ملازمین میں اسلامی ذہنیت کا فروغ: اسی طرح سرکاری ملازمین کے اندر بھی ان خیالات کو بڑے پیمانے پر پھیلنا چاہیے کہ وہ کسی ظالم کے آلۂ کار بننے کے لیے تیار نہ ہوں۔ ان کے ہاتھوں سے غلط کام نہ کروایا جاسکے۔ وہ اس بات کے لیے تیار ہوجائیں کہ نوکری چھوٹ جائے، وہ تیار ہوجائیں کہ ان کے بیوی بچّے فاقے کریں گے، لیکن اس کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ غلط کام اپنے ہاتھوں سے کریں۔ یہ ذہنیت سرکاری ملازمین میں بھی پیدا ہونی ضروری ہے۔ جب حکومت محسوس کرے گی کہ اب ہمارا کام نہیں چل سکتا، جب تک ہم اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے تیار نہ ہوں ۔ اور اگر ہم تیار نہ ہوں تو پھر اُن لوگوں کے لیے جگہ خالی کردیں جو اس کو نافذ کرسکیں۔
  • رائـے عامہ کو اسلام کے حق  میں بدلنے کی ضرورت: اسی طرح جیسا جمہوری نظام یہاں چل رہا ہے اور انتخابات میں کوشش کی جاتی ہے کہ عوام کو جس طرح بھی ہوسکے دھوکا اور   فریب دے کر، طرح طرح کے وعدے کرکے ان کی تائید حاصل کرلی جائے اور دُنیا کو یہ دکھایا جائے کہ ہم عوام کی رائے سے آئے ہیں۔ آپ کو عوام کی رائے اس قدر بڑے پیمانے پر بدلنی پڑے گی کہ اس طرح کے لوگ عوام کا ووٹ حاصل نہ کرسکیں۔ عوام کے اندر یہ خیال پیدا ہوجائے کہ ہمارا جینا حرام ہے، اگر ہم یہاں اسلامی نظام نافذ نہ کریں۔ عوام یہ سوچ ہی نہ سکیں کہ ہم کسی ایسے شخص کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں، جس کی اپنی زندگی میں اسلامی نظام کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی ہے اور جس کا عمل اسلامی نہیں ہے۔ جس کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ شاید باقی سب کچھ جانتا ہے مگر بہرحال اسلام نہیں جانتا ، تو ایسے کسی شخص کے لیے کوئی ووٹ نہ ہو۔ یہ حالت آپ کو پیدا کرنی ہوگی۔
  • عزم کے مقابلے میں دھاندلی کامیاب نہیں ہوسکتی: اگر منصفانہ انتخابات ہوں تو بہت اچھا ہے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالا جائے۔ اگر گھی ٹیڑھی انگلی کیے بغیر نکل سکتا ہے تو کوئی احمق ہی ہوگا، جو خواہ مخواہ انگلی ٹیڑھی کرے۔ لیکن اگر قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے کہ ہمیں اس نظام کو یہاں نافذ کرنا ہے، تو پھر کوئی دھن، دھونس اور دھاندلی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔

آپ یہ بات ضرور یاد رکھیے کہ آپ کو جان مار کر ایک مدت دراز تک کام کرنا پڑے گا، یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجائے، جس میں ذرا سی عقل رکھنے والے لوگ بھی اَزخود جگہ خالی کردیتے ہیں، اور خود ہٹ جاتے ہیں۔ وہ مرحلہ جب آجاتا ہے تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اب ہمارا چراغ اس قوم میں نہیں جل سکتا، اس لیے بہتر ہے کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائیں۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وہ اگر نہ ہٹیں تو ان کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا، بشرطیکہ قوم کے اندر پورا عزم پایا جائے۔

میں نے ایک عام تصوّر آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کہ شریعت اسلامی کیا ہے؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے واضح ہوگیا ہے کہ اس کے نفاذ کے کیا معنی ہیں؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے آگیا ہے کہ اس کو نافذ کرنے کا راستہ کیا ہے؟ اب یہ ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا یہاں اس کا امکان ہے؟

پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات

 آپ سے عرض کرتا ہوں کہ امکان کے سوال کے دو جواب ہیں:

  • تدّبر و قربانی سے یہ کام ممکن ہـے: ایک جواب یہ ہے کہ انسان اگر پیہم اور مسلسل سعی کرے اور سوچ سمجھ کر سعی کرے ، بیوقوفوں کی طرح نہیں بلکہ سوچ کر عقل مندی کے ساتھ، تو وہ بڑے سے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ کھود سکتا ہے۔ وہ سمندروں کے نیچے سے سرنگ بناسکتا ہے۔ سمندروں کے اندر سے تیل نکال سکتا ہے۔ وہ چاند کے اُوپر پہنچ سکتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم طاقتیں دی ہیں۔ جب انسان یہ کچھ کرسکتا ہے تو پھر اگر وہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو تو اس کو بھی نافذ کرسکتا ہے، لیکن اس کے لیے جان لڑانی ہے، محنت کرنی ہے، عقل مندی کے ساتھ کام کرنا ہے اور مسلسل جان کھپانی ہے۔

اس کام کو وہی لوگ کرسکتے ہیں جو یہ شرط نہ لگائیں کہ ہم اس کو اپنے سامنے نافذ ہوتا ہوا دیکھیں۔ اس لیے کہ نامعلوم کتنوں کو اس کے نفاذ کی کوشش میں پہلے ہی جان دینی پڑے۔ ذرا سوچیے، بدر میں جن لوگوں نے شہادت پائی اگر وہ جان نہ دیتے اور یہ کہتے کہ ’ہمیں تو اس وقت کے لیے زندہ رہنا ہے جب اس نظام کو نافذ ہوتا دیکھیں گے ، دُنیا پر غالب ہوتا دیکھیں گے‘، تو دُنیا پر اسلام غالب نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر یہ غالب ہوا اس طرح کہ بکثرت لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ انھوں نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ نافذ ہوسکے گا یا نہیں۔ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ یہی ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہے، جس کے نتیجے میں شہادت آتی ہے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں۔ اس نظریئے کے ساتھ، اس سوچ کے ساتھ وہ آئے اور انھوں نے آکر کام کیا۔ ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے والا تھا، وہ قبول ہوگئیں۔ لیکن جو جان لڑانے والے تھے اور بچ رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے دین اس طرح سے غالب کیا کہ دُنیا کے بڑے حصے پر چھا گیا۔

  • اگر جدوجہد کے باوجود یہ نافذ نہیں ہوتا تو بدنصیبی ہے: اس امر کا بھی امکان ہے کہ آپ تمام عمر جدوجہد کریں اور پھر بھی یہ نظام نافذ نہ ہو۔ اس کی وجہ اس نظام کی کمزوری نہیں ہوگی۔ اگر آپ اس نظام کے لیے سعی کرنے کا حق ادا کریں تو یہ آپ کی کمزوری نہیں ہوگی، بلکہ یہ تو اُس قوم کی بدبختی ہوگی جو ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو وہ چیز نہیں دیتا، جس کا وہ اپنے آپ کو اہل ثابت نہیں کرتی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ قوم اپنے آپ کو فساق و فجار کے لیے تیار کرے اور انھی کی قیادت و سیادت قبول اور برداشت کرنے پر راضی ہوجائے اور یہ چاہے کہ فساق و فجار ہی ان کے اُوپر معاملات چلانے والے ہوں، تواللہ تعالیٰ زبردستی ان کو صالح، متقی اور امانت دار قیادت نہیں دے گا۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو وہ لوگ جنھوں نے ایسی قوموں میں کام کیا اور اپنی عمریں ان کے اندر کھپادیں اور ان کی قوم سیدھے راستے پر نہ آئی، تو وہ ناکام نہیں تھے بلکہ وہ قوم ناکام تھی۔

حضرت لوط علیہ السلام کے قصّے میں آتا ہے، جس وقت فرشتے قومِ لوطؑ پر عذاب دینے کے لیے بھیجے گئے تو انھوں نے کہا: فَمَا وَجَدْنَا فِيْہَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۶ۚ (الذاریات ۵۱:۳۶)، یعنی پوری قوم میں ایک مسلم گھر تھا اور کوئی نہیں۔اب اس کے بعد ہوتا کیا ہے؟ جو مسلم گھر تھا، اس کے لوگوں سے کہا گیا کہ نکل جائو اور حضرت لوطؑ سے کہا گیا کہ بیوی کو چھوڑ جائو، یہ عذاب میں پکڑی جائے گی، یعنی اس گھر میں بھی کافرہ موجود تھی اور وہ گھر پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ ان کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد جو عذاب لایا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح ہے۔ لہٰذا، اگر ایک قوم نہ چاہتی ہو کہ ان کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اس کے معاملات ایمان دار اور خداترس لوگ چلائیں، ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان لوگوں کو چاہتی ہو، تو اللہ تعالیٰ ان کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے، وہ ناکام نہیں ہیں۔ اگر ان کی بات نہ چلے تو وہ ناکام نہیں ہیں، ناکام تو وہ قوم ہے جس نے ان کا ساتھ نہ دیا۔

  • امکان کو نگاہ میں رکھ کر کام نہ کریں: اس پہلو کو نگاہ میں رکھ کر کام کیجیے اور یہ سمجھ کر نہ کیجیے کہ اس کا امکان ہو تو ہم کام کریں گے۔ یہ سوال جو لوگ کرتے ہیں کہ کامیابی کا کیا امکان ہے؟ تو ان سے مَیں پوچھتا ہوں کہ بھائی فرض کرو کہ اس کا امکان نہیں ہے، تو کیا آپ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس چیز کا امکان ہے اس کے لیے کام کریں؟ یہ تو پھر مومن کا کام نہیں ہے۔

مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو، تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے اُس کا جان دے دینا کامیابی ہے، اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم اور صدراعظم بن جانا کامیابی نہیں، بلکہ کھلی ناکامی ہے۔

  • آپ کا فرض کیا ہـے؟:اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ امکان کی شرط کے ساتھ آپ کو یہ کام نہیں کرنا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اور اس کے سوا ہمارے کرنے کا کوئی کام نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی کے سامنے یہ سوال آئے کہ پیشاب بھی پینے کی چیز ہے، تو جو آدمی طہارت کی ذرّہ برابر بھی حِس رکھتا ہو، تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ یہ بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ وہ برابر اسی تلاش میں رہے گا کہ اسے پینے کے لیے صاف پانی ملے، لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جائے گا کہ پیشاب بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔

بالکل اسی طرح وہ آدمی جو اسلام کا سچّے دل سے قائل ہے، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ دوسرے وہ راستے جن میں آسانیاں ہیں، سہولتیں ہیں، عیش ہے، فائدے ہیں، ان کی طرف جائے کہ انھی کا امکان ہے اور اسلام کا کوئی امکان نہیں۔ ایک مسلمان کے سوچنے کے قابل بھی وہ چیز نہیں ہے۔ وہ اُس طرف کبھی حسرت بھری نگاہ بھی نہیں ڈالے گا۔ ان کے محلات اور ان کی کوٹھیوں پر اور ان چیزوں کے بارے میں وہ کبھی نہیں سوچے گا کہ کاش یہ دولت میرے پاس آئے! اس وجہ سے صرف وہی لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں، جو کامیابی کے امکان کو چھوڑ کریہ دیکھیں کہ ہمارا فرض کیا ہے؟ اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہرتکلیف، ہرمصیبت اور ہرمشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی ان کے کرنے کا کام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کر دیئے اور انھوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس کے لیے کام کیا، تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ کون سی طاقت یہاں ایسی ہے، جو انھیں آگے بڑھنے سے روک سکے۔ اللہ نے چاہا تو اس میں کامیابی ہی ہوگی۔

میں نے دوسرا پہلو آپ کے سامنے پیش کیا، وہ اس لیے کہ کامیابی کی شرط کے ساتھ آپ کام نہ کریں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے اندر ایک مٹھی بھر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو، جو پوری تنظیم کے ساتھ، پورے ڈسپلن کے ساتھ، عقل و ہوش کے ساتھ اور دیوانگی کے ساتھ، کہ یہ دونوں چیزیں ساتھ چاہییں، یہ کام کریں، اس میں جان لڑائیں اور مسلسل جان لڑاتے چلے جائیں اور ہرتکلیف اور خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہوں، تو وہ لوگ جو اس وقت ایک غیر اسلامی نظام کو چلا رہے ہیں، وہ ایسی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے ٹھیرسکیں۔

  • نظام باطل کھوکھلا ہوتا ہـے: واقعہ یہ ہے کہ آپ اس بات کو دیکھیے کہ جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہیں، ان کی حالت کیا ہے؟ ان میں سے کوئی دو آدمی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں۔ ان کی دوستیاں بے غرضی اور بے لوثی پر مبنی نہیں، قلبی محبت پر مبنی نہیں، بلکہ مفاد پر مبنی ہیں۔ جس کے ساتھ ہیں، اس کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دل میں گالیاں بھی دے رہے ہیں، بلکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ بات نہیں پہنچے گی تو وہ اپنی نجی مجلسوں میں بھی کھلم کھلا کہتے ہیں۔

نظامِ باطل بظاہر بڑے زور کے ساتھ نافذ ہوتا ہے، لیکن اصل میں کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس میں قائم رہنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے، تو انھیں موقع ملتا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل مندی کرکے وہ تمام راستے بند کردیئے ہیں جن سے خطرہ آسکتا ہے، لیکن ایک راستہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھ چھوڑا ہے جدھر سے اس کو خطرہ لانا ہوتا ہے، اس راستے کو وہ بند نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے ایسے نظام جو قائم ہوتے ہیں، وہ بار بار جمتے اور اُکھڑتے ہیں۔ حالات اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ آئے، جو ایک مضبوط بنیاد پر ان کے لیے ایک نظامِ حق قائم کرے۔ جب تک ایسا گروہ سامنے نہیں آئے گا اور اس مرحلے تک نہیں پہنچ جائے گا کہ وہ نظامِ حق کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکے، اس وقت تک یہاں کھوکھلے نظام ہی قائم ہوتے اور بدلتے رہیں گے۔ انھیں چلانے والے اشخاص بدلتے چلے جائیں گے اور وہ کھوکھلا نظام جوں کا توں رہے گا۔

  • حالات اہلِ حق کے منتظر ہیں!آپ دیکھیے یہاں جو نظام آزادی کے بعد سے چلا آرہا ہے، اس میں صرف اشخاص بدلتے گئے، مگر قسم ایک ہی رہی ہے، نظام کی نوعیت ایک ہی رہی ہے، اس کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ یہی صورتِ حال جاری رہے گی اس انتظار میں کہ کب وہ لوگ آتے ہیں؟ اگر وہ لوگ نہ آئے تو نہیں معلوم اس قوم کا کیا حشر ہوگا کہ یہ مسلسل منفی انقلابات کو برداشت بھی کرسکے گی یا نہیں۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہی نظامِ حق ہے۔ وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو، قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔

سوال : بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام کا قانون موجودہ ترقی یافتہ زمانے کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ آپ کے نزدیک اس کا جواب کیا ہے؟

جواب :اس اعتراض کے جواب میں، مَیں دو چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں: یہ ’ترقی یافتہ‘ اور ’ضروریات‘ کے الفاظ ہیں۔

سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ’ترقی‘ کا مفہوم کیا ہے؟ لفظ ’ترقی‘ کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ کوئی خاص غایت (goal) ہمارے پیش نظر ہو، جس تک ہم پہنچنا چاہتے ہوں، تو اس گول کی طرف بڑھنے کا نام ’ترقی‘ ہے اور اس سے مخالفت سمت کو جانا ’رجعت‘ اور ترقی سے محرومی ہے۔ اب اگر ہم اپنے لیے کوئی ایسا گو ل مقرر کرلیں، جو باطل ہو تو اس کی طرف پیش قدمی کرنا ترقی نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں انسان کا جو گول مقرر کیا گیا ہے، کیا انسانی زندگی کا حقیقی مقصد اور غایت اُولیٰ وہی ہے جو جدید تہذیب نے قرار دی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی شخص اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ خود مغرب میں اس وقت کثیرتعداد ایسے مفکرین کی موجود ہے، جنھیں اب اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اس تہذیب نے انسان کا جو گول مقرر کیا تھا ، وہ صحیح ہے۔ اب وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اس غلط گول کی طرف پیش قدمی ہی اس دور کے سب مصائب اور مسائل کی اصل جڑ ہے۔

اس کے برعکس اسلام نے جو گول (goal) انسان کے لیے مقرر کیا ہے، ہم اسی کو برحق سمجھتے ہیں اور اسی کی طرف بڑھنا ہمارے نزدیک ’ترقی‘ ہے اور اس ’ترقی‘ کے لیے اسلامی قانون ہی برحق اور ضروریات کے مطابق ہے۔ اس دور میں جو ’ترقی‘ ہوئی ہے، مَیں اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں۔ مثلاً انسان کو شیر پر قیاس کیجیے اور دیکھیے کہ شیر پہلے اپنے پنجوں سے شکار مارتا تھا۔ پھر اس نے بندوق بنانا سیکھ لی تو وہ بندوق سے شکار کرنے لگا۔ اس کے بعد اسے توپ کا استعمال آگیا، اور آج اس نے ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار بنا لیے ہیں اور اسے بیک وقت ہزاروں لاکھوں جانوں کو ختم کرنے کی قدرت حاصل ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے انسانیت کی کیا ترقی ہوگی؟

اب اس اعتراض کے دوسرے پہلو کی طرف آیئے ۔ جب ہمارے نزدیک موجودہ زمانے کی ترقی کا گول ہی غلط ہے تو پھر اس کی ضروریات بھی اسی طرح غلط ہیں۔ اس صورت میں ہم اس زمانے کی ضروریات کو حقیقی ضروریات کیوں کر سمجھ سکتے ہیں۔ اس زمانے کی ’ضرورت‘ تو مثال کے طور پر بدکاری بھی ہے اور بدکاری بھی ایسی کہ عورت گناہ تو کرے، لیکن اسے حمل کا خطرہ نہ ہو۔ ظاہر ہے اسلام اس ’ضرورت‘ کو ضرورت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ پہلے آپ اس دور کی وہ حقیقی یعنی genuineضروریات بتایئے، جو واقعی ضروریات ہیں تو پھر مَیں آپ کو بتائوں گا کہ اسلام ان کے لیے کیا قانون دیتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اس وقت موجودہ تہذیب کی بدولت دُنیا کی تباہی اور خرابی کا واحد سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے لیے بہت سی ایسی چیزوں کو ’ضروریات‘ ٹھیرا لیا ہے، جو حقیقت میں اس کی ضروریات نہیں، اور یہ نتیجہ ہے انسان کے لیے ایک غلط گول مقرر کرنے اور ترقی کے نام پر اسے ہلاکت و تباہی کے جہنم کی طرف دھکیلنے کا۔(ہفت روزہ آئین، لاہور، ۲۲نومبر ۱۹۶۷ء)

جائز اور صحیح نوعیت کی ’خلافت‘ کا حامل کوئی ایک شخص یا خاندان یا طبقہ نہیں ہوتا بلکہ اہل ایمان کی جماعت کا ہرفرد ’خلافت‘ میں برابر کا حصہ دار ہے۔ کسی شخص یا طبقے کو عام مومنین کے اختیاراتِ خلافت سلب کرکے انھیں اپنے اندر مرکوز کرلینے کا حق نہیں ہے، نہ کوئی شخص یا طبقہ اپنے حق میں خدا کی خصوصی خلافت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔

یہی چیز ’اسلامی خلافت‘ کو ملوکیت ، طبقاتی حکومت اور تھیاکریسی (Theocracy)سے الگ کرکے اسے جمہوریت کے رُخ پر موڑتی ہے۔ لیکن اس میں اور مغربی تصورِ جمہوریت میں اصولی فرق یہ ہے کہ مغربی تصور کی جمہوریت عوامی حاکمیت (Popular Sovereignty) کے اصول پر قائم ہوتی ہے، اور اس کے برعکس اسلام کی جمہوری خلافت میں خود عوام، خدا کی حاکمیت تسلیم کرکے اپنے اختیارات کو برضا و رغبت، قانونِ خداو ندی کے حدود میں محدود کرلیتے ہیں۔

اس نظامِ خلافت کو چلانے کے لیے جو ریاست قائم ہوگی، عوام اس کی صرف اطاعت فی المعروف کے پابند ہوں گے، معصیت (قانون کی خلاف ورزی) میں نہ کوئی اطاعت ہے اور نہ تعاون۔

’منتظمہ‘ کے اختیارات لازماً حدود اللہ سے محدود اور خدا اور رسولؐ کے قانون سے محصور ہوں گے، جس سے تجاوز کرکے وہ نہ کوئی ایسی پالیسی اختیار کرسکتی ہے، نہ کوئی ایسا حکم دے سکتی ہے جو معصیت کی تعریف میں آتا ہو۔ کیونکہ اس آئینی دائرے سے باہر جاکر اسے اطاعت کے مطالبہ کا حق ہی نہیں پہنچتا۔ علاوہ بریں یہ منتظمہ لازماً شوریٰ، یعنی انتخاب کے ذریعے سے وجود میں آنی چاہیے اور اسے شوریٰ، یعنی باہمی مشاورت کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ لیکن انتخاب اور مشاورت، دونوں کے متعلق قرآن قطعی اور متعین صورتیں مقرر نہیں کرتا بلکہ ایک وسیع اصول قائم کرکے اس پر عمل درآمد کی صورتوں کو مختلف زمانوں میں معاشرے کے حالات اور ضروریات کے مطابق طے کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔

’مقننہ‘ لازماً ایک ’شورائی ہیئت‘ (Consultative Body) ہونی چاہیے، لیکن اس کے اختیاراتِ قانون سازی بہرحال ان حدود سے محدود ہوں گے۔ جہاں تک ان اُمور کا تعلق ہے جن میں خدا اور رسولؐ نے واضح احکام دیئے ہیں یا حدود اور اصول مقرر کیے ہیں۔ یہ مقننہ ان کی تعبیروتشریح کرسکتی ہے، ان پر عمل درآمد کے لیے ضمنی قواعد اور ضابطۂ کارروائی تجویز کرسکتی ہے، مگر ان میں رَدّوبدل نہیں کرسکتی۔ رہے وہ اُمور جن کے لیے بالاتر قانون ساز نے کوئی قطعی احکام نہیں دیئے ہیں، نہ حدود اور اصول معین کیے ہیں، ان میں اسلام کی اسپرٹ اور اس کے اصولِ عامہ کے مطابق مقننہ ہرضرورت کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے، کیونکہ ان کے بارے میں کوئی حکم نہ ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ شارع نے ان کو اہل ایمان کی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے۔

’عدلیہ‘ ہر طرح کی مداخلت اور دبائو سے آزاد ہونی چاہیے، تاکہ وہ عوام اور حکام سب کے مقابلے میں قانون کے مطابق بے لاگ فیصلہ دے سکے۔ اسے لازماً ان حدود کا پابند رہنا ہوگا۔ اس کا فرض ہوگا کہ اپنی اور دوسروں کی خواہشات سے متاثر ہوئے بغیر، ٹھیک ٹھیک حق اور انصاف کے مطابق معاملات کے فیصلے کرے۔(’قرآن کی سیاسی تعلیمات‘،سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۳-۴، نومبر، دسمبر ۱۹۶۴ء، ص۶۸، ۷۲-۷۴)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۝۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۝۱۶ (الواقعۃ ۵۶:۱۵-۱۶) وہ مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔

اہلِ جنّت ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جو جڑائو ہوں گے۔یعنی جو بادشاہوں کے تخت ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تخت ہر اس جنّتی کو جو وہاں بھیجا جائے گا اس کے لیے مہیا ہوگا۔

مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا ، ان پر وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ مُتَقٰبِلِيْنَ سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے منہ کیے ہوئے ہوں گے۔ یعنی کوئی کسی کی طرف پیٹھ کرنے والا نہیں ہوگا، بلکہ سب اگر ایک مجلس میں بیٹھیں گے تو ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔

جنّت کے خادم

يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۝۱۸ۙ (۵۶:۱۷-۱۸) ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے شراب چشمۂ جاری سے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے۔

ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھرتے ہوں گے جو مخلد ہوں گے۔ مخلد سے مراد دائمی ہے، یعنی وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ان کی عمر میں اضافہ ہو اور وہ بوڑھے ہوں، مثلاً اگر وہ بارہ برس کا لڑکا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بارہ برس ہی کا لڑکا رہے گا۔ ان کی خدمت کے لیے یہ خادم جو دائمی اور ابدی لڑکے ہوں گے، وہاں حاضر ہوں گے۔

انسانوں میں جو بچّے بلوغ کی عمر کو پہنچنے سے پہلے مرجائیں گے وہ چاہے کافر و مشرک کے ہوں، چاہے مسلمان کے، بہرحال وہ دوزخ میں جانے والے نہیں۔ اور جن کے والدین جنّت میں جائیں گے ان کے بچّے والدین کے ساتھ پہنچا دیئے جائیں گے (الطور، آیت۲۱)۔ قرآن مجید میں بھی صراحت ہے کہ ان کی اولاد کو ان کے ساتھ لا ملایا جائے گا لیکن جن کے والدین جنّت میں نہیں جائیں گے ان کے بچوں کو جہاں تک میرا اندازہ ہے اگرچہ قرآن مجید میں اس کی صراحت نہیں، البتہ بعض احادیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اُن بچوں کو اہل جنّت کا خدمت گار بنا دیا جائے گا، خواہ وہ کافر و مشرک کے بچّے ہوں یا ایسے مسلمانوں کے بچّے ہوں جو دو زخ میں جائیں گے۔ خدا ہرمسلمان کو اس سے بچائے۔ پس اگر کوئی مسلمان دوزخ میں جائے گا تو اس کی اولاد جو نابالغ ہے وہ دوزخ میں نہیں جائے گی۔ ان کو اہل جنّت کا خادم بنا دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جو عمر اُن کے لیے تجویز فرما دے گا کہ یہ اہل جنّت کی بہتر خدمت کرسکیں، بس وہی عمر ان کی ہمیشہ رہے گی۔

بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۝۰ۥۙ  (۵۶:۱۸)وہ پیالے لیے ہوئے اور ٹوپی دار صراحیاں لیے ہوئے پھرتے پھریں گے۔

اکواب ، کوب کی جمع ہے۔کوب وہی چیز ہے جس کو انگریزی میں ’کپ‘ کہتے ہیں اور یہ کپ لفظ کوب ہی سے نکلا ہے۔ انگریزی میں وہ عربی زبان سے آیا ہے۔ ان بے چاروں کے پاس کپ بھی نہیں تھے۔ یہ مسلمانوں سے ان کو حاصل ہوئے۔ ابریق کہتے ہیں لوٹے کی وضع کی ایک صراحی جس کے ساتھ ایک ٹوپی لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اباریق اس کی جمع ہے۔

اہل جنّت کے لیے شراب

وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۝۱۸ۙ  (۵۶:۱۸)اور ایسی شراب کہ جو چشموں سے نکلی ہو۔

جنّت کی شراب کسی چیز کو سڑاکر کشید کی ہوئی نہیں ہوگی بلکہ جنّت میں جو شراب ہوگی وہ چشمے کی شکل میں ہوگی۔ یہ قرآن مجید میں بھی وضاحت ہے اور یہاں تو بالکل صاف طور پر معین کالفظ استعمال کیا گیا ہے۔معین کہتے ہیں آبِ جاری کو۔ زمین میں سے جو چشمہ پھوٹ کر بہہ نکلے، وہ معین ہے۔ا حادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ وہ کسی چیز کو سڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ چشمے سے نکلے گی۔ ہر آدمی اس کو بالکل گوارا کرے گا اور یہ پاک اور صاف ہوگی۔ وہ کسی چیز کو سڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ چشمے کی شکل میں ہوگی، اور ہوسکتا ہے کہ مختلف اقسام کی شرابیں ہوں جو مختلف چشموں سے نکلتی ہوں۔

لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙ (۵۶:۱۹)  جسے پی کر نہ ان کا سر چکّرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔

 دُنیا کی شراب کا جو بڑے سے بڑا فائدہ ہے جس کی خاطر انسان شراب کی تکلیفیں اُٹھاتا ہے اس کے نقصانات بھگتتاہے، وہ صرف سُرور ہے اور اس سُرو ر کی خاطر انسان شراب کو استعمال کرتا ہے۔ لیکن دُنیا کی شراب کا یہ سُرور انسان کو اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ جیسے ہی وہ قریب آتی ہے اس وقت سے اس کی تکلیفیں شروع ہوجاتی ہیں۔

شراب جیسے ہی قریب آتی ہے پہلے تو اس کی سڑانڈ آتی ہے۔ کسی بھلا آدمی کیا، کسی بُرے آدمی کو بھی اس کی بُو پسند نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حلق سے گزرتی ہے تو معدے تک کاٹتی ہوئی جاتی ہے۔ پھر آدمی کو دورانِ سر لاحق ہوتا ہے، یعنی اس کا سر چکّرانے لگتا ہے۔ زیادہ پی جائے تو قے ہوتی ہے اور نامعلوم کیا کیا تکلیفیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہاں یہ بتا رہا ہے کہ وہ شراب ہوگی لیکن ایسی شراب نہیں ہوگی جس کے نقصانات اور اس کی تکلیفیں وہ ہوں جو اس دُنیا میں ہوتی ہیں کہ اس کو پی کر دورانِ سر لاحق ہواور آدمی اس کو پی کر بہکے، اُول فول بکے اور اپنے ہوش و حواس میں نہ رہے۔

طرح طرح کی نعمتیں

وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۝۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ (۵۶:۲۰-۲۱) اوروہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چُن لیں، اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔

ایک اور مقام پر قرآن مجید میں صرف گوشت کا ذکر ہے اور یہاں پرندوں کے گوشت کا ذکر ہے۔میرا اندازہ یہ ہے کہ جس طرح سے جنّت کی شراب مصنوعی نہیں ہوگی بلکہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور جس طرح سے جنّت کا شہد بھی مگس کی قے نہیں ہوگا بلکہ وہ بھی چشموں کی شکل میں نکلا ہوا ہوگا، اور جنّت کا دودھ بھی جانوروں کے تھنوں سے دوھا ہوا نہیں ہوگا بلکہ چشموں کی شکل میں نکلے گا اور نہر کی شکل میں بہہ رہا ہوگا اور یہ قرآن مجید میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔ اسی طرح سے میرا خیال یہ ہے اگرچہ اس کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی ہے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ وہاں کا گوشت بھی جانوروں کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا بلکہ وہ قدرتی طور پر پایا جائے گا۔ وہ جس چیز کے گوشت کی حیثیت سے بھی آدمی کے سامنے آئے گا، مزے میں بہترین ہوگا۔ اگر ہرن کے گوشت کی حیثیت سے آئے گا تو ہرن کا جو بہترین گوشت ممکن ہے وہ مزا ہوگا لیکن وہ کسی ہرن کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ کسی ہرن کو گولی مار کر حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے پرندوں کا گوشت ہے۔ یہ بھی گویا قدرتی طور پر پیدا ہوگا جانوروں کو ذبح کرکے اور اُن کے پَر نوچ کے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔

وَحُوْرٌ عِيْنٌ۝۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ (۵۶:۲۲-۲۳) اور ان کے لیے خوب صورت آنکھوں والی حُوریں ہوگی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

آدمی نفیس ترین چیز کو چھپا کر رکھتا ہے۔ حُوریں ایسے موتیوں کی طرح ہوں گی، جن کو چھپاکر رکھا جاتا ہے۔

جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۴ (۵۶: ۲۴) یہ سب کچھ ان اعمال کی جزا کے طور پر انھیں ملے گا جو وہ دُنیا میں کرتے رہے تھے۔

یعنی یہ بدلہ ہوگا ان کے ان اعمال کا جو وہ دُنیا میں کرکے آئے ہیں۔

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۝۲۵ۙ (۵۶: ۲۵) وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔

جنّت کی ساری نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں گویا یہ ایک عظیم ترین نعمت کا ذکر کیا ہے۔ جنّت کی بہت بڑی نعمت یہ ہوگی کہ آدمی کے کان میں کوئی بیہودہ بات نہیں پڑے گی۔ آدمی گناہ کی بات یا کوئی فحش بات نہیں سنے گا۔ اس دُنیا میں ایک نیک آدمی جس کے اندر فی الواقع ذوقِ سلیم موجود ہو اور جس کی روح میں طہارت اور پاکیزگی موجود ہو، اس کے لیے انتہائی اذیت کی چیز ہوتی ہے کہ انسانی بستی میں گزر رہا ہے تو اِدھر سے گالی کی آواز پڑرہی ہے اور اُدھر سے کسی کی غیبت کی گفتگو سن رہا ہے۔ اِدھر سے کوئی بیگم صاحبہ کوئی فحش گانا گارہی ہیں اور کہیں کسی اور طرح سے بیہودہ باتیں ہورہی ہیں۔ اس بھلے آدمی کے لیے یہ پریشانی ہوگی کہ ان بستیوں میں کہاں رہے؟ کہاں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد اور بال بچوں کو لے کر جائے کہ ان بلائوں سے محفوظ رہے۔ جنّت کی یہ نعمت ہوگی کہ وہاں آدمی کے کان بُرائیوں سے محفوظ رہیں گے۔ آگے چل کر الفاظ ہیں:

اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶  (۵۶:۲۶)جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔

’سلام‘ کا لفظ قریب قریب اسی معنی میں ہے جس کو انگریزی میں sane کہتے ہیں، یعنی جو کچھ بھی سنیں گے معقول اور صحیح بات سنیں گے۔ ایسی بات سنیں گے کہ جس کے اندر کسی قسم کی کوئی بُرائی نہیں ہوگی۔

دائیں بازو والوں کا تذکرہ

وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۲۷ۭ (۵۶:۲۷) اور دائیں بازو والے، اور دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔

یعنی دائیں ہاتھ والے لوگ یا اچھی اُمیدیں رکھنے والے لوگ تو ان کا کیا کہنا۔

فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ (۵۶:۲۸-۳۱) وہ ایسے باغوں میں ہوں گے جہاں بے خار بیریوں اور تہ بر تہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دُور تک پھیلی ہوئی چھائوں، اور ہر دم رواں پانی ہوگا۔

وہ ایسے باغوں میں ہوں گے کہ جن میں بے خار بیر ہوں گے۔ دُنیا میں عام طور پر جو بیر ہوتے ہیں وہ بہت گھٹیا قسم کے ہوتے ہیں لیکن اعلیٰ درجے کے بھاری بیر بعض اوقات سیب کے بچّے معلوم ہوتے ہیں۔ گویا ایسی بیریاں ہوں گی جن کے اندر کسی قسم کا کوئی خار یا کانٹا نہیں ہوگا۔

وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ  ، جن میں کیلے ہوں گے جن کی بیلیں تہ در تہ چڑھی ہوئی ہوں گی۔

وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ ،اور دراز سایہ ہوگا، یعنی بڑے گھنے باغ ہوں گے کہ جن کو آدمی دیکھے تو دُور دُور تک اس کا سایہ ہی سایہ ہو اور دھوپ نہ پڑتی ہو۔

وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ ،اور دائماً بہنے والا پانی۔

وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۝۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۝۳۳ۙ (۵۶: ۳۲-۳۳) اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھل۔

لَّا مَقْطُوْعَۃٍ  ، یعنی ان باغوں کے پھلوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ ان کے لیے کوئی موسم مقرر نہیں ہوگا کہ ہر پھل کسی خاص موسم میں پیدا ہو اور موسم گزرنے کے بعد ختم ہوجائے، بلکہ ان کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ ہرپھل جو ان کو پسند ہے وہ ہمیشہ ان کو ملے گا۔

وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۝۳۳ۙ ،اور نہ ان کے اُوپر کسی قسم کی پابندی ہوگی۔ یعنی دُنیا کے باغوں کی طرح کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی جہاں سے جتنا چاہیں کھائیں۔

وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۝۳۴ۭ  (۵۶: ۳۴) اور اُونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔

 اور ان کے لیے بلند بستر ہوں گے۔ وہ اس طرح کے باغوں میں ہوں گے۔

اہل ایمان کی بیویوں کا تذکرہ

اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۝۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙ (۵۶: ۳۵-۳۶)اور ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنادیں گے۔

وہاں جو حُوریں اور جو بیویاں ان کو ملیں گی ہم نے ان کو پیدا کیا ہے۔ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا،اور ان کو ہم نے باکرہ بنایا۔ ہم نے ان کو خاص طریقے سے پیدا کیا ہے۔ انسان کا خاص طریقے پر پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں جو عورت کسی کی بیوی تھی اگر وہ اس کے ساتھ جنّت میں جائے گی تو اللہ تعالیٰ گویا اس کو نئے سرے سے پیدا کرے گا چاہے دُنیا میں وہ بوڑھی ہوکر مری ہو اور اللہ تعالیٰ اسے نئے سرے سے جوان بنائے گا۔ اگر دُنیا میں وہ خوب صورت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ اس کو نہایت خوب صورت بنائے گا مگر اس طرح سے کہ معلوم یہ ہوگا کہ وہی عورت ہے جو دُنیا میں اس کی بیوی تھی، یعنی اس کے فیچرز محفوظ ہیں اور اس کو خوب صورت بنایا جارہا ہے۔ اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کو خاص طور پر بنایا ہے۔

فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۝۳۷ۙ (۵۶: ۳۶-۳۷) اور ان کو باکرہ بنادیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سِن۔

عربا کے معنی ہیں شوہر کو چاہنے والی اور اتراب سے مراد ہے ہم سِن، یعنی وہاں وہ ان کی ہم سِن بنا دی جائیں گی اور وہ اپنے شوہر سے نہایت محبت کرنے والی ہوں گی۔

اہل جنّت کے مناصب

لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۳۸ۭۧ (۵۶: ۳۸) یہ سب کچھ اصحاب ِ یمین کے لیے ہوگا۔

گویا دو قسم کے جنّتی ہوں گے۔ ایک جنّتی وہ ہیں جو سابقین ہیں اور دوسرے جنّتی وہ ہیں جو اصحابِ یمین ہیں۔ سابقین کے متعلق وہاں فرمایا گیا کہ وہ اُمت کے ابتدائی دور میں کثیر ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں وہ قلیل ہوں گے۔ قلیل کے متعلق پھر میں وضاحت کردوں کہ قلیل کا مطلب مجموعہ میں قلیل ہونا ہے ، تعداد میں قلیل ہونا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نبیؑ کی دعوت کے ابتدائی زمانے میں مثلاً دو ہزار اس طرح کے لوگ ہیں لیکن چونکہ اُمت کی تعداد ہی کم تھی اس لیے وہ اُمت میں عظیم اکثریت تھے۔ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر وہ دس لاکھ ہوں لیکن اُمت اگر کروڑوں کی ہے تو وہ اقلیت ہیں۔اس بات کو ملحوظ رکھیے۔ یہ مت سمجھیے کہ قلیل سے مراد ہے تعداد میں قلیل ہونا بلکہ اُس سے مراد ہے اقلیت میں ہونا۔یہاں اصحابِ یمین کے بارے میں فرمایا:

ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۴۰ۭ (۵۶:۳۹-۴۰)وہ اگلوں میں سے بھی بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے بھی بہت۔

یعنی کثیر تعداد اوّلین میں اور کثیر تعداد آخرین میں۔ گویا اُمت کے اندر ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی۔ ہر دور میں اصحابِ یمین ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت ساری کی ساری دوزخیوں پر مشتمل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت کے اندر اصحابِ یمین کی بہت ہی تھوڑی اقلیت باقی رہ جائے۔ نہیں، اُمت میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اصحابِ یمین قرار پائیں گے۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے اس بات کو بھی ملحوظ رکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ جو لوگ میرے زمانے میں موجود ہیں اگر انھوں نے جو اِن سے دین میں مطلوب ہے، انھوں نے اس کے دس حصوں میں سے نو حصوں پر عمل کیا ہو، تب بھی ان سے بازپُرس ہوگی کہ انھوں نے ایک حصہ بھی کیوں چھوڑا ہے؟ لیکن ایک ایسا دور آئے گا کہ ان دس حصوں میں سے اگر کسی آدمی نے ایک حصے پر عمل کیا تو اس پراجر پائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ یہ بتایا گیا ہے کہ بعد کے دور میں کثیرتعداد ہوگی آخرین کی۔ اگر ایک زمانہ ایسا آجائے کہ جس میں خدا کا نام لینا بھی شرمناک ہوجائے۔ ایک آدمی سے یہ توقع کی جائے کہ وہ خدا کا نام زبان پر نہ لائے۔ اگر وہ خدا کا نام زبان پر لاتا ہے تو گردوپیش کے لوگ اس کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیسا رجعت پسند آدمی ہے کہ جو اس زمانے میں خدا کی باتیں کر رہا ہے۔ جب ایسی حالت آجائے تو اس میں اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں، میں خدا کو مانتا ہوں اور ایک مانتا ہوں، تو یہ جہاد کر رہا ہے اور اجر کا مستحق ہے۔

ایک ایسا زمانہ خود ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب ایک آدمی کو کھلے میدان میں یا کسی پارک وغیرہ میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جائوں؟ اگر یہاں نماز پڑھوں گا تو سیکڑوں آدمی مجھے دیکھ رہے ہیں۔ وہ میرا مذاق اُڑائیں گے۔ اس حالت میں جن لوگوں نے نمازیں پڑھی ہیں ان کی نماز کا اجر، ظاہر بات ہے کہ اُس دور کی نمازوں سے بہت زیادہ ہے کہ جس دور میں اگر کوئی آدمی نماز نہ پڑھتا تھا تو نکو بن جاتا تھا۔ آج نماز پڑھنے والا نکو بن جاتا ہے۔ پس جو آدمی اُس دور میں نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز کے اجر کا کیا پوچھنا! یہ اس دور کی نماز کی بہ نسبت زیادہ ہوگا جب نماز نہ پڑھنے والا نکو بن جاتا تھا۔ جہاں حالت یہ تھی کہ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۱۴۲ (النساء ۴:۱۴۲) ’’جب نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔

یہ منافقین کی تعریف ہے۔ منافقین کے متعلق قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ وہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اُٹھتے ہیں۔یہ ہے علامت منافقین کی۔اب نماز نہ پڑھنے والا مسلمانوں کے اندر ہے۔ اُس وقت نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اُٹھنے والا منافق شمار ہوتا تھا۔

اس طرح مختلف حالات کے اعتبار سے اعمال کا وزن اللہ تعالیٰ کے ہاں قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا وزن صرف اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اُس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں اور اِس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں۔ رکعت اور رکعت میں اور حالات کے لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہوجاتا ہے جس میں ایک شخص نے نماز پڑھی ہے۔ اور نامعلوم کیا کیا چیزیں ہیں کہ جو مل جل کر اللہ کی نگاہ میں اعمال کی قدر بڑھاتی یا گھٹاتی ہیں۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ اصحابِ یمین، نبی ؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں بھی بہت ہوں گے اور آخری دور میں بھی کثیر ہوں گے، البتہ سابقون نبیؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں زیادہ ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں کم ہوں گے۔(جاری)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۝۱ۙ لَيْسَ لِوَقْعَتِہَا كَاذِبَۃٌ۝۲ۘ (الواقعہ ۵۶:۱-۲) جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا تو کوئی اُس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔

یہ سورئہ واقعہ کی آیات ہیں۔ سورئہ واقعہ کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بیان ہے کہ یہ سورئہ طٰہٰ کے بعد اور سورئہ شعرا سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ سورئہ طٰہٰ کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ ہجرتِ حبشہ کے زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ اس لیے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سورہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ تفصیل کے ساتھ عالمِ آخرت کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ نیز جنت اور اہلِ جنت کا حال اور دوزخ اور اہلِ دوزخ کا حال بیان کیا گیا ہے۔توحید اور قرآن کے متعلق کفارِ مکّہ کے شبہات کی تردید کی گئی ہے۔

فرمایا گیا: جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا تو اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا کوئی متنفس نہ ہوگا۔ ہونے والی بات سے مراد قیامت ہے۔ وہ تہ و بالا کردینے والی آفت ہوگی۔ زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔

آغازِ کلام خود اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ خاص حالات تھے، جن کے پیش نظر یکایک یہ بات اس طرح شروع کی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کے ماننے کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے ان میں ایک اللہ تعالیٰ کی توحید اور دوسری چیز تھی آخرت۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر بھی لوگ ناک بھوں چڑھاتے تھے، لیکن سب سے زیادہ جس چیز کو بڑے اچنبھے اور بہت حیرت سے وہ سنتے تھے اور جس چیز کا مذاق اُڑاتے تھے، اور جسے بالکل ناممکن اور مشتبہ سمجھتے تھے، وہ آخرت تھی۔

آغازِ کلام بتا رہا ہے کہ اس بات کے لوگوں میں چرچے ہو رہے ہیں اور آخرت کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ حیرت سے لوگ کہتے ہیں: بھلا یہ ایک عجیب بات سنائی جارہی ہے کہ زمین اور سورج اور چاند، یہ سب ختم کردیے جائیں گے اور سارے انسان ایک دم ختم ہوجائیں گے اور اس کے بعد دوبارہ وہ اُٹھائے جائیں گے اور یہ زمین و آسمان پھر بنیں گے۔ ان ساری چیزوں کے اُوپر لوگ حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔

آغازِ کلام اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ ہونے والی بات جب پیش آئے گی، اس وقت کوئی متنفس اس کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ یعنی آج اس کو تم جھٹلا رہے ہو، اس کو غلط قرار دے رہے ہو، اور یہ کہہ رہے ہو کہ یہ محض زبان کی جادوگری ہے، اور عجیب عجیب باتیں ہیں جو سنائی جارہی ہیں۔ لیکن جس وقت تمھاری آنکھوں کے سامنے وہ واقعہ پیش آجائے گا اوراپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ وہ واقعہ موجود ہے، اس وقت کسی کی یہ ہمت نہیں ہوگی اور کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ کوئی شخص اس کو جھٹلا سکے اور یہ کہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔

آج اس دنیا میں جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اتنا عظیم الشان سورج فضا میں معلّق ہے۔ یہ زمین اور چاند فضا میں معلّق ہیں۔ آدمی کو کیوں نہیں حیرت ہوتی؟ کیوں نہیں کوئی شخص ان چیزوں کو جھٹلاتا؟ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ سورج نکلا ہوا ہے تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ تم غلط بات کہتے ہو۔ ایک چیز جب آنکھوں کے سامنے موجود ہے، چاہے وہ پہلے کتنی ہی حیرت انگیز آدمی کو معلوم ہوتی ہو، لیکن جب آنکھوں کے سامنے موجود ہے تو پھر کوئی شخص اسے جھٹلا نہیں سکتا۔

قیامت کا تذکرہ

اب اس کے بعد قیامت کے متعلق مختصر الفاظ میں بتایا جاتا ہے:

 اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۝۱ۙ (الواقعہ ۵۶:۱) جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا۔

مراد ہے آخرت اور قیامت۔ قیامت کے لیے یہاں واقعہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور کہیں سعہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔  سعہ سےمراد گھڑی، یعنی وہ مقررہ وقت جو دنیا کے ختم کرنے کے لیے طے کردیا گیا ہے، اور واقعہ کے معنی ہیں ہونے والی بات، یعنی جس کا ہونا بالکل یقینی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب وہ ہونے والی بات پیش آجائے گی۔

لَيْسَ لِوَقْعَتِہَا كَاذِبَۃٌ۝۲ۘ (۵۶:۲)کوئی اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔

اس کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ اس کے واقع ہوجانے کے بعد کسی شخص کے بس میں نہیں ہوگا کہ اس کو جھٹلا سکے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تم اس کو جھٹلا رہے ہو، اس کا مذاق اُڑا تے ہو، لیکن جب وہ واقع ہوجائے گی تو کسی کے بس میں یہ نہیں رہے گا کہ اس کا انکار کرسکے اوراس کو جھٹلا سکے۔ وہ آنکھوں کے سامنے ہوگی اور لوگ خود اس کو بھگت رہے ہوں گے۔

دوسرے معنی یہ ہیں کہ کسی میں یہ طاقت نہیں ہوگی کہ اس واقعہ کو غیر واقعہ بنا دے، یعنی اس کے واقع ہوجانے کے بعد کوئی اس کا ٹالنے والا نہیں ہوگا۔ کوئی اس کا روکنے والا نہیں ہوگا۔ کسی میں اتنا زور نہیں ہوگا کہ قیامت جب واقع ہورہی ہو تو اس کو وہ تھام لے اور روک دے اور اس کو واقع نہ ہونے دے۔

اس میں خود بخود ایک چیلنج پوشیدہ ہے۔ یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ کچھ لوگ اس کو جھٹلا رہے تھے اوراس کو ماننے سے انکار کر رہے تھے۔ گویا ان کے لیے اس کے اندر ایک چیلنج ہے کہ آج تم اس کو جتنا جھٹلا سکتے ہو جھٹلا لو، لیکن جب وہ واقع ہوجائے گی تو تمھارے بس میں نہ رہے گا کہ تم یہ کہو کہ یہ اب واقع نہیں ہوئی، اور نہ یہ ہوسکے گا کہ اس کو واقعہ سے غیرواقعہ بنا دو۔

خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ۝۳ۙ  (۵۶:۳) وہ تہ و بالا کردینے والی آفت ہوگی۔

یہاں وہ کیفیت بیان کی جارہی ہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس کی کیفیت کیا ہوگی؟

پہلی بات تو یہ فرمائی گئی کہ وہ اُٹھانے والی اور گرانے والی ہوگی۔ ایک مطلب تو اس کا صاف ہے کہ وہ تہہ و بالا کردینے والی ہوگی۔ جیسے ہم اُردو زبان میں بھی بولتے ہیں تہہ و بالا کردینا۔

دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ وہ ایک ایسی چیز ہو گی کہ جو آج اس دُنیا میں بہت بڑے بنے ہوئے ہیں وہ چھوٹے بن کر رہ جائیں گے اور جو چھوٹے بنے ہوئے ہیں وہ بڑے بن جائیں گے۔

گویا دُنیا میں جو کچھ بھی لوگوںکے مراتب اور مناصب اور ان کی حیثیتیں قائم ہیں، یہ وہاں قائم رہنے والی نہیں۔ اس دُنیا میں لوگوں کی حیثیتیں نامعلوم کس کس طرح قائم ہوتی ہیں۔ کسی کے پاس دولت ہے، اس وجہ سے وہ بڑی شخصیت بنا ہوا ہے درآں حالیکہ وہ آدمی کی حیثیت سے نہایت ذلیل اور نہایت گھٹیا انسان ہے۔ کسی کو اللہ نے اقتدار دے دیا ہے اور وہ بڑی چیز بن گیا ہے درآں حالیکہ انسان ہونے کی حیثیت سے بہت گرا ہوا آدمی ہے۔ کوئی آدمی ذلیل و خوار بن کے رہ جاتا ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی جاتی حالانکہ اخلاقی حیثیت سے وہ بڑا گریٹ آدمی ہے۔ لہٰذا جب قیامت آئے گی تو اس وقت دُنیا کے یہ غلط اور مصنوعی مرتبے سب ختم ہوجائیں گے۔ حقیقت میں کسی انسان کا جو مرتبہ ہے، وہ اس کے مطابق reduce ہوکر رہ جائے گا۔ دُنیا میں اگر کوئی آدمی بہت بڑی چیز بنا ہوا ہے، تو وہاں اس کی ساری بڑائی ختم ہوکر رہ جائے گی اور اس کی اصل حیثیت باقی رہے گی۔ اگر کوئی آدمی اس دُنیا میں گراکر رکھا گیا ہے لیکن آخرت میں وہ اُٹھایا جائے گا اور اُس حیثیت پر پہنچایا جائے گا جو اُس کی اصل حیثیت ہے۔

اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙ فَكَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ (۵۶:۴-۶) جب زمین پھڑپھڑائے گی اور بُری طرح پھڑپھڑائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔

اب چند الفاظ میں قیامت کی کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ زمین ہلا ماری جائے گی، یعنی ایک شدید زلزلہ ہوگا۔ اس نوعیت کا زلزلہ نہیں ہوگا جیسے کہ اس دنیا میں ہوتے ہیں کہ کسی ایک حصے میں آگیا اور وہ بھی اس شدت کا نہیں ہوگا بلکہ ایک معمولی حرکت ہے کہ جس سے بستیاں کی بستیاں اُلٹ جاتی ہیں۔ اُس وقت پوری زمین ہلا ڈالی جائے گی۔ پورے کرئہ زمین کے اُوپر زلزلہ آئے گا اور یہ اس قدر زبردست زلزلہ ہوگا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اس طرح سے ریزہ ریزہ ہوں گے جیسے پراگندہ غبار ہوں۔ وہ اتنے باریک ذرات ہوں گے کہ ہوا اُنھیں اڑائے پھرے گی۔ ان بلندوبالا پہاڑوں کی حالت ایسی ہوگی جیسے گردوغبار۔

انسانوں کی تین گروہوں میں تقسیم

اب اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ انسانوں کا وہاں کیا انجام ہوگا؟

وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً۝۷ۭ  فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۸ۭ وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۝۰ۥۙ   مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۝۹ۭ (۵۶:۷-۹) تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہوجائو گے: دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔ اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔

اس روز تمام انسان تین حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔یہ تقسیم سراسر اخلاقی بنیادوں پر ہوگی۔ یہ تقسیم اس لحاظ سے نہیں ہوگی کہ کسی کا نسب کیا ہے اور کون کس کی اولاد ہے، نہ اس لحاظ سے ہوگی کہ اس کے پاس دولت کتنی ہے، نہ اس لحاظ سے ہوگی کہ اس کو خطابات کیا ملے ہوئے ہیں؟ یہ تقسیم ان حیثیتوں پر نہیں ہوگی بلکہ خالص اخلاقی بنیادوں پر انسان تین اقسام میں منقسم ہوں گے۔ اب وہ قسمیں بتائی جارہی ہیں:

دائیں بازو والے

فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۰ۥۙ   مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۸ۭ (۵۶:۸) دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔

ایک گروہ وہ ہوگا جو اصحابِ میمنہ ہے۔ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۸ۭ  اصحابِ میمنہ کے کیا کہنے۔ میمنہ کو اگر یُمن سے لیا جائے تو اس کے دو ہی روٹس ہوسکتے ہیں: یُـمْن اور یَمین۔میمنہ کا لفظ اگر یُـمْن  سے لیا جائے تو یَمین کے عربی زبان میں معنی ہیں سعادت اور خوش حالی اور نیک بختی۔ اس مفہوم میں یہ نیک فال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی وہ لوگ کہ جو دنیا میں اپنے نیک اعمال کی وجہ سے وہاں اُمیدوار ہیں کہ ہمارا انجام اچھا ہوگا۔ گویا اصحاب المیمنہ کے معنی یہ ہوئے کہ وہ لوگ کہ جو Optimist ہیں،یعنی اچھی توقعات رکھتے ہیں، اللہ کی رحمت کے اُمیدوار ہیں، مایوس نہیں ہیں۔ ایک معنی اصحاب میمنہ کے یہ ہیں۔

اگر اس لفظ کو یَمین سے لیا جائے تو عربی زبان میں یَمین  سیدھے ہاتھ کو کہتے ہیں۔ عربی زبان کے محاورے کی رُو سے سیدھے ہاتھ پر کسی شخص کو لینا یا بٹھایا جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ اس کو عزّت دے رہے ہیں، اور بائیں ہاتھ پر کسی شخص کو لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کا درجہ گرا رہے ہیں اور اس کی حیثیت کم کر رہے ہیں۔ یہ گویا عربوں کے ہاں دستور ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ کسی کو سیدھے ہاتھ والا کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ بلند درجے کا ہے اور کسی کو بائیں ہاتھ والا کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ پست درجے اور کم درجے کا ہے۔ یہ دونوں معنی اصحاب المیمنہ کے ہیں۔

اصحاب میمنہ کو اگر یَمین سے لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کواللہ تعالیٰ دائیں جانب جگہ دیں گے، اور اگر یُمن سے لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ کہ جو پہلے سے اعمال اور اپنے اخلاق اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کی بناپر اُمیدوار ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جائے جس کو انگریزی میں Pessimistic اور Optimistic کہتے ہیں، یعنی ایک وہ آدمی ہے کہ جو اچھی اُمید رکھتا ہے اور ایک وہ آدمی ہے جو پہلے ہی سے مایوس ہے۔ جس آدمی کو پہلے سے اپنا بُرا انجام نظر آرہا ہے وہ اصحاب مَشْـَٔــمَۃِ ہیں۔ شُؤْم کہتے ہیں نحوست اور بدبختی کو۔ اور جو شخص بُرے انجام کے خطرے میں مبتلا ہو، گویا وہ شُؤْم میں مبتلا ہے۔ اصحابِ میمنہ وہ لوگ ہیں جو اُمیدوا ر ہیں اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اچھا معاملہ کرے۔ جو اپنے اعمالِ نیک کی وجہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ میں نہیں بھیجے گا۔

گویا اصحاب المیمنہ کےیہ معنی بھی ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجے پر رکھے جائیں گے، جن کو عزت دی جائے گی، شرف دیا جائے گا۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ جو آخرت میں اپنے نیک انجام کے متوقع ہوں گے اور جن پر عالمِ یاس طاری نہیں ہوگا۔

بائیں بازو والے

وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۝۰ۥۙ   مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۝۹ۭ(۵۶:۹) بائیں بازو والے، تو بائیں بازوں والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔

مَشْـَٔـــمَہ کا لفظ شُؤْم سے نکلا ہے۔ شُؤْم  کے معنی بدفالی کے ہیں۔ اصحابِ مَشْـَٔـــمَہ سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو عالمِ آخرت میں جب اٹھائے جائیں گے تو ان پر یاس کی حالت طاری ہوگی اور کوئی نیک اُمید نہیں ہوگی جس کو pesimistic کہتے ہیں ۔ وہ کوئی اچھی اُمیدیں نہ رکھتے ہوں گے۔ ان کو یہ خیال ہوگا کہ ہم دنیا میں جو کچھ کر کے آئے ہیں اس وجہ سےہمارا انجام بُرا ہوگا۔

مرنے کے بعد ہی آدمی کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میں یہاں کس حیثیت میں آیا ہوں بلکہ عین مرنے کے وقت ہی آدمی کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں میں کس حیثیت سے آیا ہوں؟ یہ بالکل ایسا ہے کہ جیسے کوئی مجرم ہو اور جب پولیس اس کے دروازے پر اس کو پکڑنے کے لیے آتی ہے، تو وہ آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ پولیس والے ہتھکڑی لیے ہوئے آئے ہیں۔ اس وجہ سے اسی وقت اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میں آج مجرم کی حیثیت سے پکڑا جائوں گا۔ اگر کسی آدمی کو کسی بڑے دربار میں کوئی بڑا رُتبہ دینے کے لیے اس کو بلایا جاتا ہے، تو جو لوگ اس کو لینے کے لیے آتے ہیں ان کو دیکھتے ہی اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میں عزّت کے ساتھ لے جایا جارہا ہوں۔ اسی طرح مرنے کے وقت ہی آدمی کو پتہ چل جاتا ہے کہ کس قسم کے فرشتے، کس شکل و صورت میں آئے ہیں۔ اسی وقت معلوم ہوجاتا ہے کہ گویا میں مجرم کی حیثیت سے جارہا ہوں یا میں مہمان کی حیثیت سے جارہا ہوں۔ اس وجہ سے اصحابِ مشئمہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو اوّل روز سے یہ معلوم ہے کہ   ہم مجرم کی حیثیت سے آئے ہیں اور ہمارا انجام خراب ہے۔ اصحابِ میمنہ وہ ہیں جن کو اوّل روز سے اُمید ہے کہ ہمارے ساتھ اچھا ہی معاملہ کیا جائے گا۔ ہم مہمان کی حیثیت سے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ بُرا معاملہ نہیں کرے گا۔

فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۰ۥۙ   مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۸ۭ (۵۶:۸) دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔

اصحاب میمنہ کے کیا کہنے؟ جیسے ہم اُردو زبان میں بولتے ہیں کہ اس کے کیا کہنے۔ اس کاتو بڑا ہی مزہ ہے۔

وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۝۹ۭ (۵۶:۹) اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔

اصحاب المشئمہ ان کا کیا پوچھتے ہو؟جیسے ہم اُردو میں بولتے ہیں اس کا کیا پوچھتے ہو؟ مطلب یہ ہے کہ اس کا تو بُرا حال ہی ہوگا۔

سبقت لے جانے والے

وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝۱۰ۚۙ (۵۶:۱۰) اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔

سابقون سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو لوگ پہلے ایمان لائے، بلکہ سابقون سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو اللہ کے دین کے معاملے میں، نیکی اور بھلائی کے معاملے میں دوڑ کر اور لپک کر حصہ لیں۔سب سے پہلے وہ حصہ لینے والے ہوں جیسے ہم کہتے ہیں کہ وہ لوگ صف ِ اوّل کے لوگ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو ہر معاملے میں پیش پیش ہوں۔ نیکی اور بھلائی میں تو سابقون کا لفظ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، مثلاً لوگوں کے اُوپر اگر کوئی آناً فاناً مصیبت آئی ہو، تو سب سے پہلے جو لوگ نکل کر آئیں گے اور دوڑیں گے اس بات کے لیے کہ جاکر ان کو اس مصیبت سے بچائیں، وہ سابقون ہیں۔اسی طرح سے مثلاً دینِ اسلام کے اُوپر کوئی سخت وقت آگیا ہے، دشمنوں کا کوئی نرغہ ہے یا اعدا کا کوئی حملہ ہے۔ سب سے آگے بڑھ کر جو لوگ سینہ سپر ہوں گے وہ سابقون ہوں گے۔ غرض جو لوگ نیکی اور بھلائی کے ہرمعاملے میں سبقت کرنے والے ہیں اور خدا کے دین کے ہر کام میں سبقت کرنے والے ہیں، وہ سابقون ہیں۔

اللہ کے مقرب بندے

اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۱۱ۚ    فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۱۲  (۵۶:۱۱-۱۲) وہی تو مقرب لوگ ہیں جو نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔

وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب ہیں۔ ان کی حیثیت مقربین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نزدیک ان کو لے آئے گا۔

ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۳ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۱۴ۭ (۵۶:۱۳-۱۴) اگلوں میں سے بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے کم۔

ایک جم کثیر ہوں گے اوّلین میں سے اور ایک قلیل گروہ ہوگا آخرین میں سے۔ یہ اوّلین اور آخرین اس لحاظ سے نہیں ہے کہ تاریخ کے ابتدائی دور میں وہ بہت تھے اور تاریخ کے آخری دور میں وہ کم تھے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہرنبیؑ کی اُمت میں ابتدائی دور کے جو لوگ ہیں ان میں ایسے سابقون کی تعداد بہت ہوگی اور اس نبی کی اُمت کے آخری دور میں ان کی تعداد کم ہوگی۔

نبوت جب واقع ہوتی ہے اور کوئی نبی جب کھڑا ہوتا ہے تو اس کے اُوپر جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کے سامنے حقائق خوب ٹھوک بجاکر پوری طرح سے اس طرح سے واضح ہوجاتے ہیں کہ ان کی بہت بڑی کثیر تعداد سچّے دل سے ایمان لاتی ہے۔ نبی جن حالات میں مبعوث ہوتا ہے اور جن حالات میں کام کرتا ہے، ان میں کوئی کچا آدمی اس کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی کچا آدمی اس کے ساتھ چل سکے۔ نبی کی اُمت کے اُو پر آفتیں ٹوٹتی ہیں، سخت سے سخت مظالم اس کے اُوپر ہوتے ہیں، بلکہ احادیث میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کو آروں سے چیر دیا گیا۔ اب ان حالات میں کون نبی کا ساتھ دے گا؟ صرف وہ شخص ساتھ دے گا کہ جو یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ بندئہ خدا جو حقیقت لے کر آیا ہے بالکل سچی ہے، اور اس کے ساتھ جس کا دل یہ گواہی دیتا ہو کہ جب یہ سچائی ہے تو اس کے لیے دُنیا بھر سے لڑ جانا چاہیے۔ جب یہ سچائی ہے تو اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا چاہیے، ہرتکلیف کو برداشت کرجانا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی شخص نبی کا ان حالات میں ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس وجہ سے ان میں کثیر تعداد مخلصین و مومنین کی ہوتی ہے۔ اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو خدا اور اس کے دین اور اس کے رسول کی خاطر ہرخطرے، ہرنقصان اور ہرتکلیف کو اُٹھاتے ہیں۔

پھر نبی کی تربیت سے وہ لوگ براہِ راست فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ نبی سے خدا کے دین کو براہِ راست سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سےسے وہ علم کے اعتبار سے بھی دین کو زیادہ سمجھنے والے ہوتے ہیں، اخلاق کے اعتبار سے بھی وہ دین کے منشا کے مطابق جیسا انسان ہونا چاہیے ویسے انسان ہوتے ہیں، اور اس کے ساتھ یہ کہ اللہ کے دین کے لیے تکلیفیں اُٹھانے میں بھی سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ اس بناپر نبی کی اُمت کے ابتدائی گروہ میں سابقون کی اکثریت ہوتی ہے۔ بعد کے دور میں جب نبی کا مشن کامیاب ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو دُنیا میں فتح و نصرت عطا کرتا ہے، اس کے بعد ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی آجاتی ہے کہ جو چلتی ہوئی گاڑی میں سوار ہونے والے ہیں، گاڑی چلانے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ گاڑی چلانے میں جو خطرات ہیں وہ دوسرے بھگت چکے ہوتے ہیں۔ جب گاڑی چل چکی ہوتی ہے، خوب تیز رواں ہوتی ہے، اس وقت ہرایک سوار ہونے کو تیار ہوتا ہے۔

اس وجہ سے اس کے بعد پھر ان لوگوں کی تعداد جو سبقت کرنے والے ہیں، کم رہ جاتی ہے۔ اگرچہ خدا کا دین چلتا انھی سبقت کرنے والوں کی وجہ سے ہے۔ سبقت کرنے والے ہی اپنی جانیں لڑاتے ہیں اور سبقت کرنے والے ہی اس کا جھنڈا بلند کرتے ہیں اور سبقت کرنے والے ہی اس کی تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ یہ کام برابر جاری رہتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی ان کی اقلیت ہوتی ہے، اکثریت نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ ابتداً اُمت میں اکثریت سابقون کی ہوتی ہے اور بعد میں اُمت میں ان کی قلیل تعداد رہ جاتی ہے۔ اسی بات کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اُمت کے ابتدائی دور میں سابقون کثیر تعداد میں ہوں گے اور بعد کے دور میں قلیل تعداد میں(جاری)۔(ریکارڈنگ :حفیظ الرحمٰن احسن ،و تدوین: امجد عباسی)

 _______________

جنّت میں اہل ایمان کی شان و شوکت اور تواضع

عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۝۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۝۱۶ (۵۶:۱۵-۱۶) مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔وہ ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جو جڑائو ہوں گے۔

یعنی جو بادشاہوں کے تخت ہوتے ہیں، اس طرح کے تخت ہر اس جنّتی کو جو وہاں بھیجا جائے گا اس کے لیے مہیا ہوگا۔

مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا ، ان پر وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ مُتَقٰبِلِيْنَ سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے منہ کیے ہوئے ہوں گے۔ یعنی کوئی کسی کی طرف پیٹھ کرنے والا نہیں ہوگا، بلکہ سب اگر ایک مجلس میں بیٹھیں گے تو ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔

جنّت کے خادم

يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۝۱۸ۙ (۵۶:۱۷-۱۸) ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے شراب چشمۂ جاری سے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے۔ ان کی خدمت کے لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے ایسے لڑکے جو مخلد ہوں گے۔

مخلد سے مراد دائمی ہے، یعنی وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ان کی عمر میں اضافہ ہو اور وہ بوڑھے جن کے …؟؟ مثلاً اگر وہ بارہ برس کا لڑکا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بارہ برس ہی کا لڑکا رہے گا۔ ان کی خدمت کے لیے یہ خادم جو دائمی اور ابدی لڑکے ہوں گے، یہ ان کی خدمت کے لیے وہاں حاضر ہوں گے۔

کسانوں میں جو بچّے بلوغ کی عمر کو پہنچنے سے پہلے مرجائیں وہ چاہے کافر و مشرک کے ہوں، چاہے مسلمان کے، بہرحال وہ دوزخ میں جانے والے نہیں۔ اور جن کے والدین جنّت میں جائیں گے ان کے بچّے والدین کے ساتھ پہنچا دیئے جائیں گے۔ قرآن مجید میں بھی صراحت ہے کہ ان کی اولاد کو ان کے ساتھ لا ملایا جائے گا لیکن جن کے والدین جنّت میں نہیں جائیں گے ان کے بچوں کو جہاں تک میرا اندازہ ہے اگرچہ قرآن مجید میں اس کی صراحت نہیں، البتہ بعض احادیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ ان بچوں کو اہل جنّت کا خدمت گار بنا دیا جائے گا، خواہ وہ کافر و مشرک کے بچّے ہوں یا ایسے مسلمانوں کے بچّے ہوں جو دو زخ میں جائیں گے۔ خدا ہرمسلمان کو اس سے بچائے۔ پس اگر کوئی مسلمان دوزخ میں جائے گا تو اس کی اولاد جو نابالغ ہے وہ دوزخ میں نہیں جائے گی۔ ان کو اہل جنّت کا خادم بنا دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جو عمر اُن کے لیے تجویز فرما دے گا کہ یہ عمر ان کی ہونی چاہیے تاکہ یہ اہل جنّت کی بہتر خدمت کرسکیں، بس وہی عمر ان کی ہمیشہ رہے گی۔

بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۝۰ۥۙ ، وہ پیالے لیے ہوئے اور ٹوپی دار صراحیاں لیے ہوئے پھرتے پھریں گے۔

اکواب ، کوب کی جمع ہے۔کوب وہی چیز ہے جس کو انگریزی میں کپ کہتے ہیں اور یہ کپ لفظ کوب ہی سے نکلا ہے۔ انگریزی میں وہ عربی زبان سے آیا ہے۔ ان بے چاروں کے پاس کپ بھی نہیں تھے۔ یہ مسلمانوں سے ان کو حاصل ہوئے۔ ابریق کہتے ہیں لوٹے کی وضع کی ایک صراحی جس کے ساتھ ایک ٹوپی لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اباریق اس کی جمع ہے۔

اہل جنّت کے لیے شراب

وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۝۱۸ۙ  اور ایسی شراب کہ جو چشموں سے نکلی ہو۔

جنّت کی شراب کسی چیز کو سڑاکر کشید کی ہوئی نہیں ہوگی بلکہ جنّت میں جو شراب ہوگی وہ چشمے کی شکل میں ہوگی۔ یہ قرآن مجید میں بھی وضاحت ہے اور یہاں تو بالکل صاف طور پر معین کالفظ استعمال کیا گیا ہے۔معین کہتے ہیں ہر آدمی اس کو بالکل گوارا کرے گا اور یہ پاک اور صاف ہوگی۔ وہ کسی چیز کو سڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ چشمے کی شکل میں ہوگی، اور ہوسکتا ہے کہ مختلف اقسام کی شرابیں ہوں کہ جو مختلف چشموں سے نکلتی ہوں۔

لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙ (۵۶:۱۹) جسے پی کر نہ ان کا سر چکّرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔

اس سے نہ ان کو دردِ ِ سر لاحق ہوگا اور نہ وہ بہکیں گے۔

یعنی دُنیا کی شراب کا جو بڑے سے بڑا فائدہ ہے جس کی خاطر انسان شراب کی تکلیفیں اُٹھاتا ہے اس کے نقصانات برداشت کرتا ہے وہ صرف سُرور ہے اور اس سُرو ر کی خاطر انسان شراب کو استعمال کرتا ہے۔ لیکن دُنیا کی شراب کا یہ سُرور انسان کو اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ جیسے ہی وہ قریب آتی ہے اس وقت سے اس کی تکلیفیں شروع ہوجاتی ہیں۔

شراب جیسے ہی قریب آتی ہے پہلے تو اس کی سڑانڈ آتی ہے۔ اس کی بُو کسی بھلے آدمی کو دُور بھگا دیتی ہے کہ کسی بُرے آدمی کو بھی اس کی بُو پسند نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حلق سے گزرتی ہے تو معدے تک کاٹتی ہوئی جاتی ہے۔ پھر آدمی کو دردِ ِ سر لاحق ہوتا ہے۔ زیادہ پی جائے تو قے ہوتی ہے اور نامعلوم کیا کیا تکلیفیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہاں یہ بتا رہا ہے کہ وہ شراب ہوگی لیکن شراب ایسی نہیں ہوگی جس کے نقصانات اور اس کی تکلیفیں وہ ہوں جو اس دُنیا میں ہوتی ہیں کہ اس کو پی کر دردِ سر لاحق ہواور آدمی اس کو پی کر بہکے، اُول فول بکے اور اپنے ہوش و حواس میں نہ رہے۔

طرح طرح کی نصیحتیں

وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۝۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ (۵۶:۲۰-۲۱) اوروہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چُن لیں، اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔

ایک اور مقام پر قرآن مجید میں صرف گوشت کا ذکر ہے اور یہاں پرندوں کے گوشت کا ذکر ہے۔میرا اندازہ ہے کہ جس طرح سے جنّت کی شراب مصنوعی نہیں ہوگی بلکہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور جس طرح سے جنّت کا شہد وہ بھی مگس کی قے نہیں ہوگا بلکہ وہ بھی چشموں کی شکل میں نکلا ہوا ہوگا، اور جنّت کا دودھ بھی جانوروں کے تھنوں سے دوھا ہوا نہیں ہوگا بلکہ چشموں کی شکل میں نکلے گا اور نہر کی شکل میں بہہ رہا ہوگا اور یہ قرآن مجید میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔ اسی طرح سے میرا خیال یہ ہے کہ اگرچہ اس کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی ہے لیکن مَیں اندازہ کرتا ہوں کہ وہاں کا گوشت بھی جانوروں کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا بلکہ وہ قدرتی طور پر پایا جائے گا۔وہ جس چیز کے گوشت کی حیثیت سے بھی آدمی کے سامنے گا، مزے میں بہترین ہوگا۔ اگر ہرن کے گوشت کی حیثیت سے آئے گا تو ہرن کا جو بہترین گوشت ممکن ہے وہ مزا ہوگا لیکن وہ کسی ہرن کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ کسی ہرن کو گولی مار کر حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے پرندوں کا گوشت ہے۔ یہ بھی گویا قدرتی طور پر پیدا ہوگا جانوروں کو ذبح کرکے اور اس کے پَر نوچ کے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔

وَحُوْرٌ عِيْنٌ۝۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ (۵۶:۲۲-۲۳) اور ان کے لیے خوب صورت آنکھوں والی حُوریں ہوگی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

آدمی نفیس ترین چیز کو چھپا کر رکھتا ہے۔ حُوریں ایسے موتیوں کی طرح ہوں گی جن کو چھپاکر رکھا جاتا ہے۔

جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۴ (۵۶: ۲۴) یہ سب کچھ ان اعمال کی جزا کے طور پر انھیں ملے گا جو وہ دُنیا میں کرتے رہتے تھے۔

یعنی یہ بدلہ ہوگا ان کے ان اعمال کا جو وہ دُنیا میں کرکے آئے ہیں۔

جنّت کی ایک عظیم نعمت

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۝۲۵ۙ (۵۶: ۲۵) وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔

یعنی جنّت کی ساری نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں گویا یہ ایک عظیم ترین نعمت کا ذکر کیا ہے۔ جنّت کی بہت بڑی نعمت یہ ہوگی کہ آدمی کے کان میں کوئی بے ہودہ بات نہیں پڑے گی۔ آدمی کوئی گناہ کی بات نہیں سنے گا۔ کوئی فحش بات نہیں سنے گا۔ اس دُنیا میں ایک نیک آدمی جس کے اندر فی الواقع کوئی ذوقِ سلیم موجود ہو اور جس کی روح میں کوئی طہارت اور پاکیزگی موجود ہو، اس کے لیے انتہائی اذیت کی چیز ہوتی ہے کہ انسانی بستی میں گزر رہا ہے تو اِدھر سے گالی کی آواز پڑرہی ہے اور اُدھر سے کسی کی غیبت کی گفتگو سن رہا ہے۔ اِدھر سے کوئی بیگم صاحبہ کوئی فحاش گانا گارہی ہیں اور کہیں کسی اور طرح سے بیہودہ باتیں ہورہی ہیں۔ اس بھلے آدمی کے لیے یہ پریشانی ہوگی کہ ان بستیوں میں کہاں رہے؟ کہاں اپنے آپ کو لے کر جائے اور کہیں اپنی اولاد ضرور اپنے بال بچوں کو لے کر جائے کہ ان بلائوں سے محفوظ رہے۔ جنّت کی یہ نعمت ہوگی کہ وہاں آدمی کے کان بُرائیوں سے محفوظ رہیں گے۔ آگے چل کر الفاظ ہیں:

اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶  (۵۶:۲۶)جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔

سلام کا لفظ قریب قریب اسی معنی میں ہے جس کو انگریزی میں sane کہتے ہیں، یعنی جو کچھ بھی سنیں گے معقول اور صحیح بات سنیں گے۔ ایسی بات سنیں گے کہ جس کے اندر کسی قسم کی کوئی بُرائی نہیں ہوگی۔

دائیں بازو والوں کا تذکرہ

وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۲۷ۭ (۵۶:۲۷) اور دائیں بازو والے، اور بائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔

یعنی دائیں ہاتھ والے لوگ یا اچھی اُمیدیں رکھنے والے لوگ تو ان کا کیا کہنا۔

فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ (۵۶:۲۸-۳۱) وہ بے خار بیریوں اور تہ بر تہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دُور تک پھیلی ہوئی چھائوں، اور ہر دم رواں پانی۔

وہ ایسے باغوں میں ہوں گے کہ جن میں بے خار بیر ہوں گے۔ یعنی اس دُنیا میں عام طور پر جو بیر ہوتے ہیں وہ بہت گھٹیا قسم کے ہوتے ہیں لیکن اعلیٰ درجے کے بھاری بیر بعض اوقات سیب کے بچّے معلوم ہوتے ہیں۔ گویا ایسی بیریاں ہوں گی جن کے اندر خار نہیں ہوگا، کسی قسم کا کوئی کانٹا نہیں ہوگا۔

وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ  ، جن میں کیلے ہوں گے جن کی بیلیں تہ در تہ چڑھی ہوئی ہوں گی۔

وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ ،اور دراز سایہ ہوگا، یعنی بڑے گھنے باغ ہوں گے کہ جن کو آدمی دیکھے تو دُور دُور تک اس کا سایہ ہی سایہ ہو اور دھوپ نہ پڑتی ہو۔

وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ ،اور دائماً بہنے والا پانی۔

وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۝۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۝۳۳ۙ (۵۶: ۳۲-۳۳) اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھل۔

لَّا مَقْطُوْعَۃٍ  ، ان باغوں کے پھلوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ یعنی ان کے لیے کوئی موسم مقرر نہیں ہوگا کہ ہر پھل کسی خاص موسم میں پیدا ہو اور موسم گزرنے کے بعد ختم ہوجائے بلکہ ان کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ ہرپھل جو ان کو پسند ہے وہ ہمیشہ ان کو ملے گا۔

وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۝۳۳ۙ ،اور نہ ان کے اُوپر کسی قسم کی پابندی ہوگی یعنی دُنیا کے باغوں کی طرح کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی جہاں سے جتنا چاہیں کھائیں۔

وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۝۳۴ۭ  (۵۶: ۳۴) اور اُونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔

 اور ان کے لیے زمین سے اُٹھے ہوئے بلند بستر ہوں گے۔

اہل ایمان کی بیویوں کا تذکرہ

اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۝۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙ (۵۶: ۳۵-۳۶)اور ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنادیں گے۔

وہاں جو حُوریں اور جو بیویاں ان کو ملیں گی ہم نے ان کو پیدا کیا ہے۔

فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا،اور اس کو ہم نے باکرہ بنایا۔ ہم نے ان کو خاص طریقے سے پیدا کیا ہے۔ انسان کا خاص طریقے پر پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں جو عورت کسی کی بیوی تھی اگر وہ اس کے ساتھ جنّت میں جائے گی تو اللہ تعالیٰ گویا اس کو نئے سرے سے پیدا کرے گا چاہے دُنیا میں وہ بوڑھی ہوکر مری ہو اور اللہ تعالیٰ اسے نئے سرے سے جوان بنائے گا۔ اگر دُنیا میں وہ خوب صورت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ اس کو نہایت خوب صورت بنائے گا مگر اس طرح سے کہ معلوم یہ ہوگا کہ وہی عورت ہے جو دُنیا میں اس کی بیوی تھی، یعنی اس کے فیچرز محفوظ ہیں اور اس کو خوب صورت بنایا جارہا ہے۔ اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کو خاص طور پر بنایا ہے۔

فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۝۳۷ۙ (۵۶: ۳۶-۳۷) اور ان کو باکرہ بنادیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سن۔

عربا کے معنی ہیں شوہر کو چاہنے والی اور اتراب سے مراد ہے ہم سن، یعنی وہاں وہ ان کی ہم سن بنا دی جائیں گی اور وہ اپنے شوہر سے نہایت محبت کرنے والی ہوں گی۔

اہل جنّت کے مناصب

لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۳۸ۭۧ (۵۶: ۳۸) یہ سب کچھ اصحاب ِ یمین کے لیے ہوگا۔

گویا دو قسم کے جنّتی ہوں گے: ایک جنّتی وہ ہیں جو سابقین ہیں اور دوسرے جنّتی وہ ہیں جو اصحاب میں ہیں۔ سابقین کے متعلق وہاں فرمایا گیا کہ وہ اُمت کے ابتدائی دور میں کثیر ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں وہ قلیل ہوں گے۔ قلیل کے متعلق پھر میں وضاحت کردوں کہ قلیل کا مطلب مجموعہ میں قلیل ہونا ہے ، تعداد میں قلیل ہونا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نبیؑ کی دعوت کے ابتدائی زمانے میں مثلاً دو ہزار اس طرح کے لوگ ہیں لیکن چونکہ اُمت کی تعداد ہی کم تھی اس لیے وہ اُمت میں عظیم اکثریت تھے۔ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر وہ دس لاکھ ہوں لیکن اُمت اگر کروڑوں کی ہے تو وہ اقلیت ہیں۔اس بات کو ملحوظ رکھیے۔ یہ مت سمجھیے کہ قلیل سے مراد ہے تعداد میں قلیل سے مراد ہے اقلیت میں ہونا۔یہاں فرمایا:

ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۴۰ۭ (۵۶:۳۹-۴۰)وہ اگلوں میں سے بھی بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے بھی بہت۔

یعنی کثیر تعداد اوّلین میں اور کثیر تعداد آخرین میں۔اب یہاں یہ ہے کہ گویا اُمت کے اندر ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی۔ ہر دور میں اصحابِ یمین ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت ساری کی ساری دوزخیوں پر مشتمل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت کے اندر اصحابِ یمین کی بہت ہی تھوڑی اقلیت باقی رہ جائے۔ نہیں، اُمت میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اصحابِ یمین ہیں۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے اس بات کو بھی ملحوظ رکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ایک مرتبہ کہ جو لوگ میرے زمانے میں موجود ہیں اگر انھوں نے جو ان سے دین میں مطلوب ہے اگر انھوں نے اس کے دس حصوں میں سے نو حصے کیے ہوں تب بھی ان سے بازپُرس ہوگی کہ انھوں نے ایک حصہ بھی کیوں چھوڑا ہے؟ لیکن ایک ایسا دور آئے گا کہ ان دس حصوں میں سے اگر کسی آدمی نے ایک حصے پر عمل کیا ہے تو اس پراجر پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بتایا گیا ہے کہ بعد کے دور میں کثیرتعداد ہوگی آخرین کی۔ اگر ایک زمانہ ایسا آجائے کہ جس میں خدا کا نام لینا بھی شرمناک ہوجائے۔ ایک آدمی سےی ہ توقع کی جائے گی کہ وہ خدا کا نام زبان پر نہ لائے۔ اگر وہ خدا کا نام زبان پر لاتا ہے تو گردوپیش کے لوگ اس کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیسا رجعت پسند آدمی ہے کہ جو اس زمانے میں خدا کی باتیں کر رہا ہے۔ جب ایسی حالت آجائے تو اس میں اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں، میں خدا کو مانتا ہوں اور ایک مانتا ہوں تو یہ جہاد کر رہا ہے اور اجر کا مستحق ہے۔

ایک ایسا زمانہ خود ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب ایک آدمی کو کھلے میدان میں یا کسی پارک وغیرہ میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جائوں؟ اگر یہاں نماز پڑھوں گا تو سیکڑوں آدمی مجھے دیکھ رہے ہیں۔ وہ میرا مذاق اُڑائیں گے۔ اس حالت میں جن لوگوں نے نمازیں پڑھی ہیں ان کی نماز کا کیا اجر۔ ظاہر بات ہے کہ اس دور کی نمازوں سے بہت زیادہ ہے کہ جس دور میں اگر کوئی آدمی نماز نہ پڑھتا تھا تو نکو بن جاتا تھا۔ آج نماز پڑھنے والا نکو ہو جاتا ہے تو جو آدمی اُس دور میں نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز کے اجر کا کیا پوچھنا۔ یہ اس دور کی نماز کی بہ نسبت زیادہ ہوگا۔ جب نماز نہ پڑھنے والا نکو بن جاتا تھا جہاں حالت یہ تھی کہ واذا کان صلوٰۃ……یہ منافقین کی تعریف ہے۔ منافقین کے متعلق قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ وہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اُٹھتے ہیں۔یہ ہے علامت منافقین کی۔

اب نماز نہ پڑھنے والا مسلمانوں کے اندر ہے۔ اس وقت نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اُٹھنے والا منافق تو اس طرح کے مختلف حالات کے اعتبار سے اعمال کا وزن اللہ تعالیٰ کے ہاں قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا وزن صرف اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں اور اس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں۔ رکعت اور رکعت میں حالات کے لحاظ سے زمین آسمان کا فرق ہوجاتا ہے۔ جس میں اس نے پڑھی ہے اور نامعلوم کیا کیا چیزیں ہیں کہ جو مل جل کر اللہ کی نگاہ میں اعمال کی قدر بڑھاتی یا گھٹاتی ہیں۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ اصحاب الیمین، نبی ؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں بھی بہت ہوں گے اور آخری دور میں بھی، البتہ سابقون نبیؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں زیادہ ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں کم ہوں گے۔

ہم طبقاتی کش مکش کے قائل نہیں ہیں بلکہ دراصل ہم تو طبقاتی حِس اور طبقاتی اِمتیاز کو بھی ختم کردینا چاہتے ہیں۔ ایک معاشرے میں طبقے دراصل ایک غلط نظام سے پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاق کی خرابی ان میں امتیازات کو اُبھارتی ہے اور بے انصافی ان کے اندر طبقاتی حِس پیدا کردیتی ہے۔

ہم انسانی معاشرے کو ایک تنِ واحد کے اعضا کی طرح سمجھتے ہیں۔ جس طرح ایک جسم میں مختلف اعضا ہوتے ہیں اور جسم کے اندر ان کا مقام اور ان کا کام جدا جدا ہوتا ہے، مگر ہاتھ کی پائوں سے اور دماغ کی جگر سے کوئی لڑائی نہیں ہوتی، بلکہ جسم زندہ ہی اس طرح رہتا ہے کہ یہ سب اپنے اپنے مقام پر اپنا اپنا کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے کے مختلف اجزا بھی اپنی اپنی جگہ اپنی قابلیت و صلاحیت اور فطری استعداد کے مطابق کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہمدرد و مددگار اور مونس و غم خوار بنیں،اور ان کے اندر طبقاتی کش مکش تو درکنار طبقاتی حِس اور طبقاتی اِمتیاز ہی پیدا نہ ہونے پائے۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہرشخص خواہ وہ اجیر ہو یا مستاجر، اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو پہچانے اور انھیں ادا کرنے کی فکر کرے۔ افراد میں جتنا جتنا احساسِ فرض بڑھتا جائے گا، کش مکش ختم ہوتی جائے گی اور مشکلات کی پیدائش کم ہوتی چلی جائے گی۔

ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کی اخلاقی حِس بیدار کی جائے اور ’اخلاقی انسان‘ کو اس ’ظالم حیوان‘ کے ُچنگل سے چھڑایا جائے جو اس پر غالب آگیا ہے۔ اگر افراد کے اندر کا یہ ’اخلاقی انسان‘ اس غالب حیوانیت سے آزاد ہوکر ٹھیک کام کرنے لگے، تو خرابیوں کا سرچشمہ ہی سوکھتا چلا جائے گا۔ (’مزدوروں کے متعلق جماعت کی پالیسی‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۲، اکتوبر ۱۹۶۴ء، ص۴۰

سوال : (مجلس میں ایک صاحب کہنے لگے) مولانا! اسلام کے پاس بے شک ایک ’تھیوری‘ (نظریہ) تو موجود ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس پر Practice (عمل درآمد) بھی ہوسکتی ہے؟

جواب :جناب، آپ مطالعہ فرمایئے تو آپ کی نظر سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہے گی کہ اسلام کے پاس جو Theory(نظریۂ حیات) ہے، اس سے زیادہ قابلِ عمل نظریہ آج تک دنیا نے نہیں دیکھا۔ جو نظریہ Practicable (قابلِ عمل) نہ ہو وہ تو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ہوتا ہے۔ کروڑوں انسان اسے چودہ سو سال تک سینوں سے لگائے نہیں رکھ سکتے۔ اگر اسلام کو کوئی قابلِ عمل نہیں سمجھتا تو یہ اس کی آنکھوں کا قصور ہے، جو بصیرت کے نُور سے خالی ہیں۔ فرد کی اس کمزوری سے اس نظریئے کی ابدی صداقتوں پر کوئی حرف نہیں آتا۔

’قرآن و سنت کا مطالعہ ڈوب کر کیجیے۔ اس مطالعے اور غوروفکر سے آپ کو اسلام کی روح دکھائی دینے لگے گی۔ قرآن کی آیات پہ غور کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ فرمایئے اور اسلام کے اوّلین معاشرے میں صحابہ کرامؓ کی پاک باز زندگیوں کا مطالعہ کیجیے۔  آپ خود بخود اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اسلام کے پاس اس کا اپنا ضابطۂ اخلاق ہے، جو بے مثال ہے۔ ایک بے نظیر سیاسی نظام ہے اور ایک لاجواب معاشی نظام ہے۔ اس کے دامن میں ہرزمانے کے ہرمسئلے کا بہترین حل موجود ہے۔ اسلام نے جو کچھ پیش کیا، حضور علیہ السلام نے سب سے پہلے خود اس پر عمل فرمایا۔ پھر آپؐ نے ایک بہترین اور مثالی معاشرہ انھی نظریات پر تعمیر فرماکر اس بات کا عملی ثبوت مہیا فرما دیا کہ اسلام محض نظریاتی نہیں بلکہ انتہائی درجے کا عملی دین ہے۔

اسلام کی عالم گیر اور ابدی صداقتوں کی مثال سمجھنا چاہیں تو اس کے لیے جب باجماعت نماز ادا کی جارہی ہو، اسے دیکھیے۔ اخوت، اتحاد اور یگانگت کا کیسا شان دار مظاہرہ ہوتا ہے۔ خدا آپ کو حج پر جانے کی توفیق بخشے تو وہاں پہ دیکھیے، جہاں مسلمانوں کی ’کل عالمی برادری‘ کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ کتنے مختلف ملکوں کے انسان وہاں یکجا ہوتے ہیں۔ کتنے مختلف رنگ ہیں، کتنی مختلف زبانیں ہیں مگر نہ زبان و نسل کا کوئی تنازعہ ہے، نہ قامت و رنگ کا کوئی امتیاز…سب ایک ہی جذبۂ توحید سے سرشار ہیں۔ شاہ و گدا ایک ہی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ کیا نسلی امتیاز کے خلاف اس سے بہتر ضابطہ دُنیا کا کوئی اور نظام پیش کرسکتا ہے؟


لیڈرشپ کی تیاری

سوال : مسلم ممالک میں لیڈرشپ کو تیار کرنے کے لیے کس شعبے میں اصلاح درکار ہے؟

جواب :لیڈرشپ کسی ایک شعبے میں نہیں اُبھرا کرتی، اس کو زندگی کے ہرشعبے میں ظاہر اور نمایاں ہونا چاہیے۔ اگر مسلم ممالک میں جمہوری نظام کو نشوونما پانے کا موقع مل جائے تو اس طرح فطری ارتقا کے نتیجے میں مسلم ممالک میں اسلامی لیڈرشپ اُبھر آئے گی۔ مغرب زدہ طبقہ ہرمسلم ملک میں ایک بڑی ہی محدود اقلیت رکھتا ہے۔ لیکن مغربی استعماری قوتوں کی پشت پناہی اور مسلسل سرپرستی کی بدولت، یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے۔ یہ قابض طبقہ اس بات کو جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا تو آخرکار اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لیے یہ طبقہ سازشوں کے ذریعے ہرملک میں آمریت قائم کر رہا ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔ (ہفت روزہ آئین، اور ایشیا

اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دُعامانگنا بالکل ایسا ہے، جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوانِ حکومت کی طرف جائے، مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں،اُنھی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کردے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ ’’حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بَر لائیں گے تو بَر آئے گی‘‘۔

یہ حرکت اوّل تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے، لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے، جب کہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو، اور عین اس کی موجودگی میں اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جارہی ہوں۔

پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اُس وقت پہنچ جاتی ہے، جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جارہی ہو، خود بار بار اُس کو سمجھائے کہ مَیں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں، تو اُن کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجو د یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ ’’میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا‘‘۔

اس بات کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ’’مجھے پکارو، تمھاری دُعائوں کا جواب دینے والا میں ہوں، انھیں قبول کرنا میرا کام ہے‘‘۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۱، ستمبر ۱۹۶۴ء، ص۲۹، ۳۰)

سوال : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی کام میں جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو اس کا سارا کریڈٹ جماعت اسلامی کو ملتا ہے۔ جماعت کو چاہیے کہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی مطمئن رکھے؟

جواب :اگرکوئی شخص دین کا کام کرتا ہے اور خدا کی رضا کے حصول کے لیے کرتا ہے، تو اس کا ایسے سوالات اُٹھانا غلط ہے۔ نیکی، اللہ سے اجر پانے کی اُمید پر کرنی چاہیے نہ کہ کسی کریڈٹ کے لیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کوئی کام دُنیاوی اغراض کے لیے نہیں بلکہ اپنا دینی فریضہ سمجھ کے کرتی ہے۔جماعت کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں اگر کوئی شخص کریڈٹ کا سوال اُٹھاتا ہے تو وہ گویا ہماری پوزیشن یہ بناتا ہے کہ ایک فریق تو کریڈٹ دینے والا ہے اور دوسرا کریڈٹ پانے والا۔ حالانکہ جماعت ہرگز اس بات کی مدعی نہیں ہے کہ اس کے کسی کو کریڈٹ دینے سے اسے کریڈٹ حاصل ہوگا اور نہ دینے سے نہیں ہوگا۔

مزیدبرآں اگر کوئی شخص کسی دینی فریضے کی ادائیگی میں ملک کی کسی دوسری تنظیم کے ساتھ تعاون کرتا ہے، تو اسے بجا طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا اجر خدا کے ہاں محفوظ ہے۔ یہ خدا ہی ہے جو جانتا ہے کہ کون یہاں کس نیت سے کام کر رہا ہے اور وہی صحیح اجر دینے والا ہے۔ (آئین، ۲۹مئی ۱۹۷۰ء)

وہی ہے جو آسمان سے تمھارے لیے رزق نازل کرتا ہے۔

’رزق‘ سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دُنیا میں ملتے ہیں، اُن سب کا مدار آخرکار بارش پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کرکے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمھاری سمجھ میں آجائے کہ نظامِ کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جارہا ہے، وہی حقیقت ہے۔

یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتا تھا، جب کہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہوا اور سورج اور حرارت و بُرودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے، جب کہ وہی اَزلی و ابدی خدا اس کو جاری رکھے اور اس انتظام کو قائم کرنے والا لازماً ایک حکیم و رحیم پروردگار ہی ہوسکتا ہے، جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا، اور پھر اس پانی کو باقاعدگی کے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے۔

اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے، جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے، یا اُس کے ساتھ کچھ دوسری ہستیوں کو بھی خدائی کا شریک ٹھیرائے۔ (’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۶، اگست ۱۹۶۴ء، ص۲۱-۲۲)

سوال :  جب انسان کی تخلیق میں ہی چھچھورا پن ہے تو وہ سلیم الطبع کیسے ہوسکتا ہے؟

جواب :انسان کے اندر چھچھورا پن تو کم و بیش موجود ہوتا ہے۔ یہ منجملہ انھی اوصاف کے ہے جو اس کی فطرت میں ودیعت کیے گئے ہیں۔ انسان سے انھی عادات و خصائل کا اظہار ہوتا ہے، جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہیں۔

اب انسان کی آزمایش دراصل اس بات میں ہے کہ وہ اپنے فطری اوصاف میں سے کن اوصاف کو اُبھارے اور کن اوصاف کی حوصلہ شکنی کرے۔ اپنے اندر بھلائیاں پرورش کرنے کا جو طریقہ اللہ کی شریعت نے بتایا ہے، اگر اس کے مطابق انسان چلتا رہے تو اس کے نفس کی خرابیاں کم ہوتی جائیں گی اور اس کے اندر اعلیٰ صفات تقویت پکڑ لیں گی۔

انسان کو بنانے اور بگاڑنے میں ماحول مؤثر کردارادا کرتا ہے۔ اگر خدا شناس اور پاکیزہ ماحول اسے میسر آجائے تو ہلکی سی جدوجہد بھی اس کے اندر بہترین اوصاف کو پرورش دینے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لیکن اگر خدا نا شناس اور غیراخلاقی ماحول اسے ملے تو بُرے اوصاف کے پھلنے پھولنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور اعلیٰ صفات کو پرورش کرنے میں اسے سخت جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شرک اور دوسرے گناہ

سوال :  شرک بغیر توبہ کیے معاف نہیں ہوگا۔ کیا اس سے خودبخود یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ دوسرے جرم و گناہ بغیر توبہ کیے معاف ہوسکتے ہیں، جیسے چوری، ڈکیتی، زنا اور فساد فی الارض وغیرہ ؟

جواب :شرک سے اگر کوئی شخص باز نہ آئے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے___ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ بے بس ہے بلکہ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ ’میں سارے گناہوں کو بخش دوں گا، لیکن شرک کو نہیں بخشوں گا‘۔ یہ گناہ ایسا ہے جو خاص اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہے۔ رہے دوسرے گناہ تو ظاہر ہے کہ ان کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے کہ یہ یہ گناہ معاف کیے جائیں گے اور یہ یہ گناہ معاف نہ ہوسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بلاتخصیص یہ اعلان فرمایا ہے کہ سوائے شرک کے تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں، تو کسی کو کیا اختیار ہے کہ ان میں درجہ بندی کرتا پھرے۔

جاننا اور ماننا

سوال : آپ نے فرمایا ہے کہ ’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو جانتے ہیں، لیکن مانتے نہیں ہیں‘‘۔ کیا صورتِ حال یہ نہیں ہے کہ جو مانتے نہیں ہیں وہ دراصل جانتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ اگر وہ جان جاتے تو ضرور مان لیتے؟

جواب :دراصل جاننے اور ماننے میں ایک لطیف فرق ہے۔ مثلاً آپ دیکھیں گےکہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کا منکر ہے، لیکن جب آپ اس سے بات کریں گے، تو معلوم ہوگا کہ وہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منکر نہیں ہے، وہ ایک ایسی ہستی کو تسلیم کرتا ہے، جو اس کائنات کا خالق ہے۔ لیکن وہ اسے صاحب ِ ارادہ، صاحب ِ تدبیر و تنظیم اور صاحب ِ قانون و شریعت تسلیم نہیں کرتا۔ وہ خدا کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردیتا ہے، کہ وہی اس کی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا اور وہی اسے راہِ ہدایت دکھانے والا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ شخص یہ بات تو جانتا ہے کہ خدا ہی اس کائنات کا خالق ہے، لیکن حقیقت میں وہ اسے مانتا نہیں ہے۔ بس جاننے اور ماننے میں یہی بنیادی فرق ہے۔(۱۹۶۸ء، درس قرآن کے بعد)

لوگ اپنی جہالت و نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جسے کوئی نعمت مل رہی ہے وہ لازماً اس کی اہلیت و قابلیت کی بنا پر مل رہی ہے، اور اس نعمت کا ملنا اُس کے مقبو لِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی علامت یا دلیل ہے۔ حالانکہ یہاں جس کو جو کچھ بھی دیا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایش کے طور پر دیا جارہا ہے۔ یہ امتحان کا سامان ہے نہ کہ قابلیت کا انعام، ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سے قابل آدمی خستہ حال ہیں اور بہت سے ناقابل آدمی نعمتوں میں کھیل رہے ہیں۔

اسی طرح یہ دُنیوی نعمتیں مقبولِ بارگاہ ہونے کی علامت بھی نہیں ہیں۔ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ دُنیا میں بکثرت ایسے نیک آدمی مصائب میں مبتلا ہیں، جن کے نیک ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور بہت سے بُرے آدمی، جن کی قبیح حرکات سے ایک دُنیا واقف ہے، عیش کر رہے ہیں۔

اب کیا کوئی صاحب ِ عقل آدمی ایک کی مصیبت اور دوسرے کے عیش کو اس بات کی دلیل بناسکتا ہے کہ نیک انسان کو اللہ پسند نہیں کرتا اور بد انسان کو وہ پسند کرتا ہے؟(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۵، جولائی ۱۹۶۴ء، ص۱۷-۱۸)