سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں دُنیا کے حالات جس قسم کے تھے، اس کی نشان دہی قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے:

ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰:۴۱)  خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے کرتُوتوں کے سبب۔

یعنی خشکی اور تری میں فساد کی جو کیفیت پھیلی ہوئی تھی، وہ لوگوں کے اپنے اعمال اور کرتُوتوں کا   نتیجہ تھی۔ اِس زمانے کی دو بڑی طاقتیں فارس اور روم جیسی کہ آج کل روس اور امریکا ہیں، باہم دست و گریباں تھیں اور اس زمانے کی پوری مہذب دُنیا میں بدامنی، بے چینی اور فساد کی کیفیت رُونما ہوچکی تھی۔ اِس لپیٹ میں خود عرب بھی آچکا تھا اور اس کی حالت ایسی تھی گویا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ قرآن میں اسی حالت کا اِشارہ ان الفاظ میں ہے:

وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ( ٰالِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔

حضورؐ کی بعثت کے وقت دُنیا کا نقشہ

 تاریخ کا مطالعہ کرنے والا انسان جو عرب کی اس وقت کی حالت کو جانتا ہے، بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے کتنا صحیح نقشہ اس وقت کے عرب کے حالات کا کھینچا ہے۔ قبائل کے درمیان مختلف قسم کی گمراہیوں کے نتیجے میں اور جاہلی عصبیتوں کی وجہ سے اِس کثرت سے جنگیں ہوئی تھیں کہ ان میں سے بعض جنگیں سو سال تک طول کھینچ گئیں۔ اِس کیفیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عرب کتنا تباہ و برباد ہوا ہوگا۔

پھر عرب کی اپنی آزادی کی کیفیت یہ تھی کہ یمن پر حبش کا قبضہ تھا اور باقی عرب کا کچھ حصہ ایران کے تسلط میں تھا اور کچھ رُومی اثر کے زیرنگیں۔ پوری عرب دُنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس وقت کی دو بڑی طاقتوں ایران اور روم کی وہی اخلاقی اور سیاسی حالت تھی جو آج کل امریکا اور روس کی ہے۔

اِس حالت میں، جب کہ دُنیا قبائلی عصبیتوں اور مختلف قسم کی دھڑے بندیوں میں، جن کی سربراہی ایران اور روم کر رہے تھے، بٹی ہوئی تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ وہ دنیا کے لیڈروں کی طرح کسی قبیلے کا جھنڈا لے کر نہیں اُٹھے تھے، کسی قومی نعرے پر لوگوں کو اکٹھا نہیں کیا، کوئی اقتصادی نعرہ بلند نہیں کیا۔ ان تمام چیزوں میں سے کسی کی طرف آپؐ نے دعوت نہیں دی۔

جس چیز کی آپؐ نے دعوت دی، اس کا پہلا جزو یہ تھا کہ تمام انسانوں کو دوسری تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ایک خدا کی بندگی کرنی چاہیے۔

توحید کی دعوت ،  آخرت کی جواب دہی

آپؐ کی دعوت اللہ کی طرف تھی، یہ کہ عبادت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے اور اس کے  سوا آدمی کسی کو کارساز نہ سمجھے۔ آپؐ نے یہ دعوت کسی مخصوص طبقے یا قوم کو نہیں دی بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کو دی۔ آپؐ کی دعوتِ توحید تمام بنی آدم کے لیے تھی اور آپؐ نے کسی گورے کو، کسی کالے کو، کسی عرب کو، کسی عجمی کو اس کی قومی یا علاقائی حیثیت سے نہیں پکارا بلکہ صرف ابنِ آدم کی حیثیت سے یاایھا الناس کہہ کر پکارا۔ پھر جو دعوت آپؐ نے دی، وہ بھی کوئی قومی یا علاقائی نہ تھی بلکہ اصلاح کی اصل جڑ، یعنی توحید خالص کی دعوت تھی۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ: اصل خرابی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو چھوڑ کر مختلف قسم کے خدائوں کا دامن تھام لے، اور اصل اصلاح یہ ہےکہ وہ اللہ کا بندہ بن جائے۔ اگر یہ خرابی دُور ہوگئی تو اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی، ورنہ لاکھ جتن کے باوجود درستی اور اصلاح نہیں ہوگی۔

دوسری بات جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو توجہ دلائی، وہ آخرت کا تصور تھا۔ آپؐ نے فرد کو اس کی ذاتی حیثیت میں جواب دہ قرار دیا تاکہ ہرفرد محسوس کرے کہ اسے اپنے اعمال کی ذاتی حیثیت میں جواب دہی کرنی ہے۔ اگر اس کی قوم بگڑی ہوئی تھی تو وہ یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتا کہ میرا جس قوم سے تعلق تھا، وہ گمراہ تھی۔

اس سے پوچھا جائے گا کہ اگر قوم گمراہ تھی تو تم راہِ راست پر کیوں نہ رہے، تم کیوں شُتربے مہار بنے رہے؟

آپؐ نے پہلے لوگوں کے دلوں میں توحید اور آخرت کے دو بنیادی تصورات بٹھائے اور ان کو پختہ کرنے میں برسوں محنت کی، طرح طرح کے ظلم برداشت کیے۔ آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، لیکن آپؐ نے کسی پر ملامت نہ کی۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے پتھر اور گالیاں کھاکھا کر لوگوں کو سمجھایا کہ: اگر خدا اور آخرت کا تصور اِنسان میں نہیں ہے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ جب یہ دونوں چیزیں آپؐ نے اپنی قوم کے ذہن میں بٹھا دیں ، تو پھر ان کے سامنے زندگی کا عملی پروگرام پیش کیا۔

زندگی کا عملی پروگرام

  • نماز: عملی پروگرام میں سب سے پہلی چیز نماز ہے۔ اس کی سب سے اوّل تاکید کی گئی۔ نماز سے مقصودیہ تھا کہ انسان کے دل و دماغ میں یہ چیز رچ بس جائے کہ وہ اللہ کا مخلص بندہ ہے، اسے صرف اللہ ہی کے سامنے جھکنا اوراُس کی اطاعت کرنی ہے۔
  • زکوٰۃ :پھر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کی ہدایت کی گئی تاکہ آدمی کے دل میں انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا ہو۔ روزے کی ہدایت بعد میں آئی ہے۔ نماز کے بعد جس چیز پر زور دیا گیا ہے وہ زکوٰۃ ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر سب سے بڑا فتنہ مال کی محبت ہے۔ قرآن میں اِسی لیے آیا ہے:

اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ O حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ O (التکاثر۱۰۲:۱-۲) تم کو بہتات کی حرص نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں جا اُترو گے۔

یعنی آدمی کا دل دُنیا کی دولت اور کثرت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی کو دولت کی ایک وادی مل جائے تو وہ دوسری کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اِسی حرص کی اصلاح کے لیے زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جہاں زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے، وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آدمی حلال کمائی کی فکر کرے۔ اگرچوری کرنے والا زکوٰۃ کی فکر کرے گا تو اسے خود بخود کھٹکا ہوگا کہ اس کی کمائی بھی حلال ہونی چاہیے۔ اسے حلال کی کمائی اور حلال خرچ کی عادت پڑے گی۔ و ہ دوسروں کے حقوق پہچانے گا، کیوں کہ اسے ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی کمائی میں دوسروں کا بھی حق ہے:

وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِO(الذّٰریٰت۵۱:۱۹) اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔

یہ دونوں عملی پروگرام نماز اور زکوٰۃ اِنسان کی اصلاح کی بنیاد ہیں۔ یہ چودہ سو برس پہلے کا اصلاحی پروگرام جس طرح عرب کے لیے اصلاح کا پروگرام تھا اسی طرح دُنیا بھر کے لیے اصلاح کا پروگرام ہے اور اسی طرح آج بھی انسان کی اصلاح کا پروگرام ہے۔

اگر کوئی آدمی خدا کو نہیں جانتا، آخرت سے بے خوف ہے، اس کے سامنے کوئی معاشی پروگرام رکھ دینا بے معنی ہوگا۔ خدا اور آخرت کے خوف کے بغیر کوئی سیاسی اور معاشی اِصلاح ہونہیں سکتی اور دُنیا میں جو مختلف قسم کے ظلم ہو رہے ہیں ، اُن کو دُور نہیں کیا جاسکتا۔

اللہ اور آخرت پر یقین اور جواب دہی کے خوف کے بغیر جو بھی انسان یا جماعت اصلاح کے لیے اُٹھے گی وہ اصلاح کے بجاے فساد کا موجب ہوگی۔ وہ درستی کے بجاے اُلٹا ظلم میں اضافہ کرے گی۔ جو آدمی بااختیار ہو اور بے خوف ہو وہ رشوت سے کیسے بچے گا۔ آپ لاکھ قانون بنایئے لیکن اس کی تنفیذکے لیے جس قسم کے انسان درکار ہیں وہ کہاں سے آئیں گے۔

ایمان اور اخلاق کی طاقت

قانون کی پوزیشن بھی یہی ہے کہ جیسے کوئی شخص نماز پر اپنے ایمان کا اعلان کرتا ہے لیکن جب اذان ہو تو وہ نماز کے لیے اُٹھے نہیں۔ زکوٰۃ کا مُدعی ہو لیکن جب طلب کی جائے تو کہے:  ع

گر زر طلبی سخن دریں است

 ایسے شخص کے لیے کون سی تحریک ہوگی جو اس کو اصلاح پر آمادہ کرسکے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر اس کے دل میں کوئی خوف نہ ہوگا تو اس میں کبھی دین کے لیے حرکت نہ پیدا ہوسکے گی۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انھی نکات پر مکّی دور میں لوگو ں کی اصلاح کی۔ جب آپؐ نے مکّے سے ہجرت فرمائی تو ان اصلاح یافتہ لوگوں کی ایک مختصر سی جماعت آپؐ کے ساتھ تھی۔ ان لوگوں کی تعداد بدر کے معرکے کے وقت ۳۱۳ تھی اور جب یہ اُحد میں گئے تو ان کی کُل تعداد ۷۰۰ تھی۔ یہ تعداد مادی اعتبار سے کوئی اُمیدافزا نہ تھی لیکن چونکہ یہ گروہ اِصلاح یافتہ تھا، ان کو  اللہ کی وحدانیت اور آخرت پر یقینِ کامل تھا، اِس لیے وہ اپنے سے کئی گنا مخالفین پر غالب آئے اور نوسال کی مدت نہیں گزرنے پائی تھی کہ وہ پورے خطۂ عرب پر چھا گئے۔

یہ خیال نہ کیجیے کہ ان کی تلوار کی کاٹ بڑی سخت تھی کہ عرب اس کی مزاحمت نہ کرسکا اور مسخر ہوگیا۔ درحقیقت یہ ان کے ایمان و اخلاق کی طاقت تھی، جو سب کو مسخر کرگئی۔ جہاں تک جنگوں اور معرکوں کا تعلق ہے، ان میں کام آنے والوں کی کُل تعداد تاریخ سے صرف ۱۲۰۰ ملتی ہے۔ گویا تسخیر کا یہ عمل میدانِ کارزار میں نہیں ہوسکتا تھا بلکہ ساری تاثیر، ساری طاقت اور ساری قوت اس کیریکٹر کی تھی جو حضوؐر نے اپنے صحابہؓ کے اندر چار بنیادوں (توحید، آخرت، نماز اور زکوٰۃ) پر استوار کیا تھا۔ یہ اسی کیریکٹر کا نتیجہ تھا کہ عین لڑائی کے وقت بھی انھوں نے حق و انصاف کا دامن نہ چھوڑا۔ انھوں نے یہ لڑائیاں لُوٹ اور مالِ غنیمت کے لیے نہ کی تھیں بلکہ ہدایت کی روشنی پھیلانے کے لیے کیں۔ یہ سارے کرشمے اس سیرت کے تھے جو حضوؐر نے بڑی محنت سے تیار کی تھی۔ انھوں نے اگر کبھی کسی جگہ حکومت بھی کی تو لوگ ان کے اقتدار سے زیادہ ان کے کردار سے متاثر ہوئے۔

انسان کی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی بوریا نشین حاکم نہ دیکھے تھے جنھوں نے اپنے آرام اور ٹھاٹ باٹ کی بجاے خلقِ خدا کو آرام پہنچایا۔ وہ جاگتے تھے تو لوگ سکون سے سوتے تھے۔ ان کی حکومت جسموں سے زیادہ دلوں پر تھی۔

غلبۂ دین کی راہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعلیم آج بھی موجود ہے۔ مسلمان آج بھی اسے اپنالیں تو ان کی حکمرانی آج بھی اسی طرح کرئہ ارض پر قائم ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ O (الانبیا ۲۱:۱۰۷)اے رسولؐ، ہم نے تجھے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک انسان کے لیے کس طرح رحمت بنی تو اس بیان کے لیے ایک تقریر کیا، سیکڑوں تقریریں اور سیکڑوں کتابیں بھی ناکافی ہیں۔ انسان رحمت کے ان پہلوئوں کا شمار نہیں کرسکتا۔ اِس لیے میں آ پ کے سامنے اس رحمت کے صرف ایک پہلو کے بیان پر اِکتفا کروں گا۔ اِس زاویے سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک ہی ہستی ہے جو انسان کے لیے حقیقتاً رحمت ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سماج کے لیے وہ اصول پیش کیے ہیں جن کی بنیاد پر انسانوں کی ایک برادری بن سکتی ہے اور انھی اصولوں پر ایک عالمی حکومت (World State) بھی معرضِ وجود میں آسکتی ہے، اور انسانوں کے درمیان وہ تقسیم بھی ختم ہوسکتی ہے جو ہمیشہ سے ظلم کا باعث بنی رہی ہے۔

دنیا کی مختلف تہذیبوں کے اصول

اِس نکتے کی وضاحت کے لیے میں پہلے دنیا کی مختلف تہذیبوں کے اصول بتائوں گا تاکہ تقابلی مطالعے سے یہ معلوم ہوسکے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا اصول پیش کیے تھے۔ دُنیا میں جتنی بھی تہذیبیں گزری ہیں ، انھوں نے جو بھی اصول پیش کیے ہیں، وہ انسانوں کو جوڑنے والے نہیں ہیں بلکہ پھاڑنے والے اور انھیں درندہ بنانے والے ہیں۔

آریائی تہذیب

مثال کے طور پر آپ سب سے قدیم آریہ تہذیب کو لے لیجیے۔ وہ جہاں بھی گئے اپنے ساتھ نسلی برتری کا تصور لے کر گئے۔ وہ ایران میں رہے تب بھی اِسی تصور کے ساتھ رہے اور ہندستان میں آئے تب بھی ان کے ساتھ یہی تصور تھا۔ ان کے نزدیک برہمن سب ذاتوں سے بلندوبرتر تھا اور باقی جتنے بھی طبقات یا ذاتیں معاشرے میں پائی جاتی تھیں، سب ان سے فروتر اور کم حیثیت تھیں۔ آریہ تہذیب نے واضح طور پر انسان کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا اور یہ تقسیم انسانی صفات کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ پیدایش کی بنیاد پر تھی اور اس میں انسانی کوشش کو قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ کوشش سے کوئی شودربرہمن نہ بن سکتا تھا اور نہ کوئی ذات دُوسری ذات میں منتقل ہوسکتی تھی۔    ان کے نزدیک کچھ انسان پیدایشی طور پر برتر پیدا ہوئے تھے اور کچھ ازل ہی سے کم تر اور نیچ تھے۔

ہِٹلر کا دعویٰ

اسی اصول کو جرمنی کے قوم پرست ڈکٹیٹر ہٹلر نے اختیار کیا تھا۔ اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جرمن نسل سب سے برتر و فائق ہے۔ اور نسلی برتری کا یہی تصور یہودی ذہنیت میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ ان کے قانون کے مطابق جو پیدایشی اسرائیلی نہیں، وہ اسرائیلیوں کے برابر نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہودیوں کے لیے انصاف کا ترازو اور ہے اور غیر یہودیوں کے لیے اور۔ چنانچہ تالمود میں یہاں تک لکھا ہوا ہے کہ: ’اگر کسی اسرائیلی اور غیراسرائیلی کے درمیان تنازع ہوجائے تو اسرائیلی کی بہرصورت رعایت کی جائے‘۔اسی طرح یونانیوں کے اندر بھی ایک نسلی غرور پایا جاتا ہے۔ ان کی نگاہ میں :’تمام غیریونانی گھٹیا اور پست تھے‘۔

مغرب کی پست ذہنیت

 دوسری طرف آپ دیکھیے تو یہی چیز آپ کو مغربی ذہنیت میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ مغربی دُنیا سفید نسل کی برتری کے تصور میں مبتلا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ رنگ دار نسل سے برتر ہیں۔ اسی زعمِ باطل کا نتیجہ ہے کہ آج دُنیا ظلم و فساد میں سرتاپا ڈوبی ہوئی ہے اور صرف رنگ کی بنا پر   بے حدوحساب ظلم دنیا میں توڑا جارہا ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک اس تصور کا جائز ہونا تھا جس نے اُنھیں اُکسایا کہ وہ سیاہ فاموں کو افریقہ سے غلام بناکر لائیں اور بیچیں اور ان پر جس طرح چاہیں ظلم ڈھائیں، ان کے لیے حلال ہے۔ اندازہ ہے کہ پچھلی صدی میں کم از کم ۱۰کروڑ انسان غلام بنائے گئے اور ان کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا گیا کہ ان میں سے صرف ۴کروڑ جاں بر ہوسکے۔

یہی ظلم مختلف علاقوں میں آج بھی انسان، انسان کے ساتھ کر رہا ہے۔

علاقائی قومیّت کا نشّہ

اِسی قبیل سے علاقائی قومیّت (Territorial Nationalism) کا ایک نشّہ بھی ہے۔ دُنیا کی دو بڑی جنگیں اسی تعصّب کی بنیاد پر چھڑیں۔ لیکن جیساکہ اس عصبیت نے اپنے عملی مظاہرے سے دکھا دیا ہے کہ یہ آدمیوں کو جمع کرنے والی نہیں پھاڑنے والی اور ان کو درندہ بنانے والی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کالا گورا نہیں ہوسکتا اور کوئی غیرملکی ملکی نہیں ہوسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آدمی اپنی وطنیت کو تبدیل کرسکے۔ وہ جہاں پیدا ہوا ہے بہرحال اسی مقام کا باشندہ ہوگا۔

یہی کیفیت خود عرب میں بھی تھی۔ قبائلی عصبیت ان لوگوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ہرقبیلہ اپنے آپ کو دوسرے قبیلے کے مقابلے میں برتروفائق سمجھتا تھا۔ دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کتنا ہی نیک کیوں نہ ہوتا، وہ ایک قبیلے کے نزدیک اتنی قدر نہیں رکھتا تھا جتنا کہ ان کے نزدیک ان کا اپنا ایک بُرا آدمی رکھتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مسیلمہ کذّاب اُٹھا، تو اس کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ ہماری نگاہ میں ہمارا جھوٹا آدمی بھی قریش کے سچّے آدمی سے بہتر ہے۔

نبیؐ کی پکار

جس سرزمین میں اِنسانوں کے درمیان امتیاز نسل، قبیلے اور رنگ کی بنا پر ہوتا تھا وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پکارانسان کی حیثیت سے بلند کی۔ ایک عرب نیشنلسٹ کی حیثیت سے نہیں اور نہ عرب یا ایشیا کا جھنڈا بلندکرنے کے لیے کی تھی۔ آپؐ نے پکار کر فرمایا:

اے انسانو! میں تم سب کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔

اور جو بات پیش کی وہ یہ کہ:

اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور تم کو قبیلوں اور گروہوں میں اِس لیے بانٹا ہے کہ تم کو باہم تعارف ہو۔ اللہ کے نزدیک برتر اور عزت والا وہ ہے جو اُس سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔(الحجرات ۴۹:۱۳)

آپؐ نے فرمایا کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اِس حیثیت سے بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔

تم کو قبائل میں پیدا کیا تعارف کے لیے۔ یعنی یہاں جو کچھ بھی فرق ہے اس سے مقصو د تعارف ہے۔ اس کی حقیقت اس کے سواکچھ نہیں کہ خاندان جمع ہوتے ہیں توایک بستی بن جاتی ہے اور بستیاں جمع ہوتی ہیں تو ایک وطن وجود میں آجاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے ہے اور زبان میں بھی جو کچھ فرق ہے وہ صرف تعارف کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فطری فرق صرف تعارف کے لیے رکھا ہے اور یہ فرق باہمی تعاون کے لیے ہے نہ کہ بُغض، عداوت اور امتیاز کے لیے۔

اسلام میں برتری کا تصوّر

اب دُنیا میں برتری کا تصور ہے تو رنگ کی بناپر، کالے یا گورے ہونے کی بنا پر لیکن اِس بناپر برتری نہیں کہ کون بُرائیوں سے زیادہ بچنے والا ہے۔ کون نیکیوں کو زیادہ اختیار کرنے والا ہے، کون اللہ سے ڈرتا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون ایشیا میں پیدا ہوا ہے، اور کون یورپ میں۔    خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بتایا کہ دیکھنے کی اصل چیزیں یہ نہیں بلکہ انسان کے اخلاق ہیں۔ یہ دیکھیے کہ کون خدا سے ڈرتا ہے اور کون نہیں۔ اگر آپ کا حقیقی بھائی خدا کے خوف سے عاری ہے تو وہ قابلِ قدر نہیں ہے۔ لیکن د ُور کی قوم کا کوئی آدمی خواہ وہ کالے رنگ ہی کا کیوں نہ ہو، اگر  خدا کا خوف رکھتا ہے تو وہ آپ کی نگاہ میں زیادہ قابلِ قدر ہونا چاہیے۔

اُمت وسط کا قیام

حضوؐر فلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کردیا۔آپؐ نے اس بنیاد پر ایک اُمت بنائی اور اسے بتایا کہ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳)۔  اُمت ِ وسط سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو جانب داری کے لحاظ سے نہ کسی کی دشمن ہے نہ کسی کی دوست۔ اس کی حیثیت ایک جج کی سی ہے جو ہرلحاظ سے غیرجانب دار ہوتا ہے۔ وہ نہ کسی کا دوست ہوتا ہے کہ جانب دار بن جائے، نہ دشمن ہوتا ہے کہ مخالفت میں توازن کھو دے۔ اس کا مقام یہ ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی اگر کوئی جرم کردے تو وہ اسے بھی سزا دینے میں تامّل نہیں کرے گا۔ جج کی یہی حیثیت پوری اُمت کو دے دی گئی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ مسلمان قوم اُمتِ عادل ہے۔

اب یہ اُمتِ عادل بنتی کس چیز پر ہے؟ یہ کسی قبیلے پر نہیں بنتی، کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی۔ یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر، یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم تسلیم کرلو تو جہاں بھی پیدا ہوئے ہو، جو بھی رنگ ہے، بھائی بھائی ہو۔ اس برادری میں جو بھی شامل ہوجاتاہے اس کے حقوق سب کے ساتھ برابر ہیں۔ کسی سیّد اور شیخ میں کوئی فرق نہیں، اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے۔ اِس کلمے میں شریک ہوگئے تو سب برابر۔ حضوؐر نے اسی لیے فرمایا تھا:

کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو گورے پر فضیلت ہے نہ گورے کو کالے پر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت پانے والا وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے۔

اسلامی عدل کی ایک مثال

اِسی چیز کو میں ایک واقعے سے آپ کو سمجھاتا ہوں۔

غزوئہ بنی مصطلق میں مہاجرین اور انصار دونوں شریک تھے۔ اِتفاق سے پانی پر ایک مہاجر اور انصار کا جھگڑا ہوگیا۔ مہاجر نے مہاجروں کو پکارا اور انصار نے انصار کو۔ آپؐ نے یہ پکار سنی تو غضب ناک ہوکر فرمایا:

یہ کیسی جاہلیت کی پکار ہے؟ چھوڑ دو اس متعفن پکار کو۔(مسلم:۴۷۸۸)

اِس سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ اگر ایک شخص دوسرے شخص پر ظلم ڈھا رہا ہے تو مظلوم کا ساری اُمت ِ مسلمہ پر حق ہے کہ وہ اس کی مدد کو پہنچے، نہ کہ کسی ایک قبیلے اور برادری کا۔ لیکن صرف اپنی ہی برادری کو پکارنا یہ جاہلیت کا شیوہ ہے۔ مظلوم کی حمایت مہاجر اور انصاردونوں پر فرض تھی۔ اگر ظالم کسی کا حقیقی بھائی ہے تو اس کا فرض ہے کہ سب سے پہلے وہ اس کے خلاف خود اُٹھے۔ لیکن اپنے گروہ کو پکارنا یہ اسلام نہیں جاہلیت ہے۔ اسلام اسی لیے کہتا ہے: کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ (النساء۴:۱۳۵)’’عدل کو قائم کرنے والے بنو‘‘۔

تسخیرِ انسانیت کا وصف

اس اُمت میں بلال حبشیؓ بھی تھے، سلمان فارسیؓ بھی اور صہیب رومیؓ بھی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ساری دُنیا کو اسلام کے قدموں میں لاڈالا۔ خلافت ِ راشدہ کے عہدمبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چلا گیا۔ اِس لیے نہیں کہ مسلمان کی تلوار سخت تھی بلکہ اس لیے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکتی۔ ایران میں ویسا ہی اُونچ نیچ کا فرق تھا جیساکہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خودبخود مسخر ہوگئے۔ اسی طرح مسلمان مصر میں گئے تو وہاں بھی اسی اصول نے اپنا اعجاز دکھایا۔ غرض مسلمان جہاں جہاں بھی گئے لوگوں کے دل مسخر ہوتے گئے۔ اس تسخیر میں تلوار نے اگر ایک فی صد کام کیا ہے تو اس اصولِ عدل نے ۹۹فی صد کام کیا۔

آج دنیا کا کون سا خطّہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہے۔ حج کے موقعے پر ہرملک کا مسلمان جمع ہوجاتا ہے۔ امریکا کے مسلمان نیگرو رہنما میلکم ایکس نے حج کا یہ منظر دیکھ کر کہا تھا: ’’نسلی مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے‘‘۔ صرف یہی وہ چیز ہے جس پر دُنیا کے تمام اِنسان جمع ہوسکتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ انسان کہیں بھی پیدا ہو، وہ اپنی وطنیت تبدیل نہیں کرسکتا لیکن ایک اصول کا عامل ضرور بن سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو ایک ایسا کلمہ دے دیا جس پر وہ جمع ہوسکتے ہیں اور ایک عالمی ریاست بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔

مسلمانوں پر زوال کیوں آیا؟

مسلمان جب بھی اس اصول سے ہٹے مار کھائی۔ اسپین پر مسلمانوں کی ۸۰۰ برس حکومت رہی۔ جب مسلمان وہاں سے نکلے تو اس کی وجہ تھی، قبائلی عصبیت کی بنا پر باہمی چپقلش۔ ایک قبیلہ دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا اور باہم دگر لڑنے لگے۔ نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور وہ وہاں سے ایسے مٹے کہ آج وہاں ایک مسلمان بھی دکھائی نہیں دیتا۔

اِسی طرح ہندستان میں بھی مسلمانوں کی طاقت کیوں ٹوٹی؟ ان میں وہی جاہلیت کی عصبیتیں اُبھر آئی تھیں۔ کوئی اپنے مغل ہونے پر ناز کرتا تھا تو کوئی پٹھان ہونے پر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ  وہ پہلے مرہٹوں سے پِٹے، پھر سکھوں سے پِٹے، اور آخر میں چھے ہزار میل دُور سے ایک غیرقوم آکر  ان پر حاکم بن گئی۔

اسی صدی میں ترکی کی عظیم الشان سلطنت ختم ہوگئی۔ عرب ترکوں سے برسرِپیکار ہوگئے۔ عرب اپنے نزدیک اپنے لیے آزادی حاصل کر رہے تھے، لیکن ہو یہ رہا تھا کہ سلطنت ِ عثمانیہ کا جو بھی ٹکڑا ترکوں کے تسلط سے نکلتا تھا وہ یا تو انگریزوں کے قبضے میں پہنچ جاتا تھا یا فرانسیسیوں کی نذر ہوجاتا تھا۔

آج مسلمان مسلمان کو کھائے جا رہا ہـے!

اور یہی معاملہ آج بھی ہے۔ عرب عرب کو کھائے جارہا ہے۔ یمن میں اڑھائی لاکھ عرب خانہ جنگی میں مارے گئے۔ عرب اسرائیل جنگ میں بھی شکست کی یہی بڑی وجہ تھی۔ ایک زبان اور ایک نسل رکھتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے تھے۔ اُردن، شام اور لبنان پہلے ۱۹۴۸ء میں پِٹے، پھر ۱۹۵۶ء میں پِٹے اور پھر ۱۹۶۷ء میں پِٹے، حالانکہ یہ سب اورمصر جمع ہوجائیں تو اپنی تعداد اور رقبے کے لحاظ سے اسرائیل سے کئی گنا بڑے ہیں۔

میں نے آپ کو تاریخ سے بتادیا ہے کہ مسلمان جب اپنے کلمے پر جمع ہوئے تو غالب آئے لیکن جب وہ رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر جمع ہوئے تو کٹے اور مٹے۔ اسپین جیسی عظیم الشان سلطنت مسلمانوں سے اِسی وجہ سے چِھنی۔ ہندستان میں وہ اِسی وجہ سے مغلوب ہوئے، اور اسی وجہ سے انھیں شرق اوسط میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

حضوؐر کی سیرت کو اختیار کیجیے

آپ سیرت پر کانفرنسیں ضرور کریں، ذکرِ رسولؐ سے مبارک کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ محض ذکر اور lip service ہوکر نہ رہ جائے۔ اس پر عمل کریں گے تو اس رحمت سے آپ کو حصہ ملے گا جو صرف پیرویِ رسولؐ کے لیے مقدّر ہے۔ حدیث میں اِسی لیے آیا ہے: اَلْقُرْانُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ (مسلم:۳۵۴)’’قرآن تم پر حجت ہے، تمھارے حق میں یا تمھارے خلاف‘‘۔

کوئی قوم اس کی پیروی کرتی ہے تو یہ قرآن اس کے حق میں حجت ہے اور جو پیروی نہیں کرتی اور وہ جانتی ہے کہ یہ حق ہے تو یہ اس کے خلاف حجت بن کر کھڑا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی شخص قانون کو جاننے والا ہے اور دوسرا اس سے ناواقف ہے۔ قانون اس کے خلاف حجت ہے، جو قانون کو جانتا ہے پھر بھی اس کی خلاف وزری کرتا ہے۔ اِس کلمے کو لے کراُٹھیں گے تو نہ صرف اپنا ملک مضبوط و مستحکم ہوگا بلکہ مشرق و مغرب مفتوح ہوجائیں گے، لیکن کلمے کو چھوڑا اور قومیتوں کے پیچھے پڑے تو پرکاہ کی حیثیت باقی نہ رہے گی۔

میری دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا سچّا اُمتی بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

 

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ: ’’ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا‘‘، بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلّط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیامِ حق کے لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنھیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے:

  •  ایک طرف باطل کے اصلی علَم بردار ہوتے ہیں، جو پوری طاقت سے اِن داعیانِ حق کو کچل دینا چاہتے ہیں۔
  •  دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا [بھی] ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے، جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلے میں اقامت ِ حق کی سعی کو غیرواجب، لاحاصل، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے، کسی نہ کسی طرح درست ثابت کردے اور ان لوگوں کو اُلٹا برسرِ باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اُس خلش کو مٹائے، جو اُن کی دعوتِ اقامت ِ دینِ حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔
  •  تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں، جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخرکار اُسی طاقت کے حق میں پڑا کرتا ہے، جس کا پلّہ بھاری رہے، خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل۔

اس صورتِ حال میں ان داعیانِ حق کی ہر ناکامی، ہر مصیبت، ہرغلطی، ہر کمزوری اور ہرخامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو:

  •  پہلا گروہ کہتا ہے کہ: حق ہمارے ساتھ تھا، نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہوگئے۔
  •  دوسرا گروہ کہتا ہے کہ: دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہوگا، اور آخرکار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلّف ہی کب کیا تھا، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو اُن عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنۂ وقت نے دے رکھی تھی۔
  • تیسرا گروہ فیصلہ کردیتا ہے کہ: حق وہی ہے جو غالب رہا۔

اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کرجائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے ، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہوجائے، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں، اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہاے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔

پس یہ بڑی معنی خیز دُعا تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ:

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ O [یونس ۱۰:۸۵] خدایا، ہم پر ایسا فضل فرما کہ ظالم لوگوں کے لیے ہمیں فتنہ نہ بنا۔

 یعنی ہم کو غلطیوں سے، خامیوں سے، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بارآور کردے، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے، نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۳۰۶-۳۰۷)

جماعت اسلامی کو کیوں اصرار ہے کہ وہ جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے اور غیرجمہوری ذرائع کے استعمال کی مخالف ہے؟ اس کو چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں۔ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ یہ قطعاً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، اور ہمارے اُوپر یہ الزام نہ لگنے پائے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ لوگوں کے خیالات نہ تبدیل کر دیے جائیں، جب تک لوگوں کے اَخلاق، لوگوں کی عادات کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ساتھ، یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں کے ساتھ اور جھوٹ اور اسی طرح کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت بھی لیے جائیں، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے، یہ اسی طرح اُکھڑتا ہے، جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔ آپ نے [فیلڈمارشل] ایوب خاں صاحب کا دور دیکھا کہ کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اس شخص کو کوئی ہٹاسکے گا، لیکن جب وہ ہٹے تو یہ معلوم ہوا کہ ان کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔ اس طرح سے جن لوگوں نے ناجائز ذرائع سے انتخابات جیت کر بظاہر جمہوری طریقے سے اقتدار حاصل کیا ہے، ان کی بھی حقیقت میں کوئی جڑ نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی دو آدمی ایسے نہیں ہیں جو ایک دوسرے کے مخلص ہوں۔ ان کو اغراض نے ایک دوسرے کے ساتھ جمع کیا ہے اور اغراض ہی ان کو ایک دوسرے سے پھاڑتی ہیں۔

اب دوسرا کام جو آپ کے سامنے ہے اور بہت بڑا کام ہے، وہ یہ ہے کہ عام لوگوں کے خیالات کو تبدیل کیا جائے۔ عام لوگوں کے اندر اسلامی فکر اور اسلامی نظام کے بنیادی تصورات کو بٹھایا جائے، اور لوگوں کے اندر اخلاقی انقلاب برپا کیا جائے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔   اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ پچھلے [برسوں] میں جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کے اختیارات رہے ہیں، خواہ وہ سیاسی اختیارات ہوں، خواہ وہ معاشی اختیارات ہوں، خواہ وہ تعلیمی اختیارات ہوں، جن لوگوں کے ہاتھ میں بھی ملک کو چلانے کے اختیارات رہے ہیں، انھوں نے قوم کے ذہن کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے، اور اس کو اسلام سے دُور سے دُور تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخرکار مشرقی پاکستان، پاکستان سے الگ ہوگیا۔ وہاں یہ ذہن پیدا کیا گیا کہ بنگالی بولنے والا ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں اور جو بنگالی نہیں بولتا وہ دوسری قوم ہے۔ اور اب یہاں اس کفر کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں ملک کے اندر یہ ذہن پیدا کیا جارہا ہے، اور زبردستی پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ پٹھان ہے، یہ بلوچی ہے، یہ سندھی ہے اور یہ پنجابی ہے۔ کیا یہ پاکستان کی بنیاد تھی؟ سارے ہندستان کے مسلمان یہ بھول گئے تھے کہ وہ مسلمان ہونے کے سوا بھی کچھ ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے انھوں نے کوشش کی اور متحدہ مطالبہ کیا، تب پاکستان وجود میں آیا۔ اگر گجراتی، مدراسی، سندھی، پٹھان اور پنجابی الگ الگ قوم رہتے اور الگ الگ اپنی قومیتوں کا تصور رکھتے تو پاکستان کبھی نہیں بن سکتا تھا۔

اس موقعے پر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا اور جمہوری طریقے سے جب کبھی انتخابات ہوتے ہیں، وہ انتہائی بے ایمانی اور تشدد، اور انتہائی بددیانتی کے ذریعے سے ہوتے ہیں۔ ہمیں اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پوری جدوجہد کرنی ہوگی کہ جن لوگوں کے ہاتھوں سے یہ کام لیا جارہا ہے، ان کے ذہن کو تبدیل کیا جائے۔ ہمیں یہ کوشش کرنی ہے کہ انتخابات کے مراکز پر اگر کچھ لوگ بے ایمانیاں کرنا چاہیں بھی تو نہ کرسکیں۔

ایک وقت ایسا آتاہے جب یہ خیالات ملک کے اندر پوری طرح سے مضبوطی سے جم جاتے ہیں اور قوم کے اندر پورا ارادہ پیدا ہوجاتا ہے، تو پھر کوئی طاقت انقلاب آنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ ہر راستے سے آتا ہے۔ ایسے راستے سے آتا ہے کہ جس کے بند کرنے کا خیال کوئی سوچ تک نہیں سکتا۔ آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ انقلاب کس راستے سے آئے گا۔ آپ صرف کام کریں۔ اپنی سیرت کو درست کریں۔ جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے اُٹھیں گے تو لوگ یہ دیکھیں گے کہ یہ دعوت دینے والے کیسے لوگ ہیں۔ (ہفت روزہ، ایشیا، لاہور، اپریل ۱۹۷۴ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

[تعارفی نوٹ از مدیر] : پاکستان کا قیام، برطانوی سامراج کے خلاف برعظیم کے مسلمانوں کی دو سوسالہ جدوجہد کا حاصل اور ثمرہ ہے۔ جہاں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام خاص ہے، وہیں ایک تاریخی جدوجہد اور اس میں پیش کی جانے والی بیش بہا قربانیوں کا پھل بھی ہے۔

بظاہر سات سال پر محیط تحریکِ پاکستان کے نتیجے میں جو ملکِ عزیز قائم ہوا، الحمدللہ، اس نے سارے مصائب اور خطرات، دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتاہیوں اور بے وفائیوں کے باوجود اپنی آزادی کے ۷۰ سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ پاکستان ربِّ کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، رمضان المبارک کی ۲۷ویں شب ملنے والا یہ الٰہی تحفہ، ان شاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔ جن مقاصد کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی، وہ ضرور حاصل ہوں گے۔

اللہ کے شکر اور جو کچھ حاصل ہے، اس کی قدر کے پورے احساس کے ساتھ یہ تاریخی لمحہ اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ خلوص اور دیانت سے جائزہ لیں کہ ان ۷۰ برسوں میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ تحریک پاکستان کے اصل مقاصد کیا تھے؟ اور پاکستان کا وہ تصور اور وژن کیا تھا جس کے حصول کے لیے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی، اور آج ہم اس سے کتنا قریب ہیں اور کتنا  اس سے دُور ہو گئے ہیں؟ یہ جائزہ دیانت داری سے لیا جانا چاہیے کہ ہماری مثبت کامیابیاں کیا ہیں اور منفی پہلو کون کون سے ہیں اور ان سے کس طرح نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟ نیز ایک نئے عزم کے ساتھ اصل وژن کا ادراک اور تفہیم اور اس کے حصول کے لیے صحیح لائحہ عمل کا شعور، اور اس کے لیے مؤثر اور فیصلہ کن جدوجہد کا عزم اور تیاری وقت کی ضرورت ہے۔

عالمی ترجمان القرآن کے موجودہ شمارے سے اس مقصد کے لیے ایک قلمی مذاکرے کا اہتمام کیا جا رہا ہے،جو تحلیل و تجزیے اور تفہیم و تذکیر کے ایک سلسلے کا آغاز ہے، اور یہ ان شاء اللہ آیندہ بھی جاری رہے گا۔

راقم اپنی صحت کی خرابی کے باعث اس بحث میں بھرپورشرکت کی سعادت سے محروم ہے، لیکن اس کمی کی تلافی، عصرِحاضر میں تحریک اسلامی کے داعی، ہمارے محسن اور قائد مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے ایک بصیرت افروز خطبے کو ’اشارات‘ کی شکل میں پیش کر کے کی جا رہی ہے۔ یہ تقریر مولانا محترم نے نومبر۱۹۷۰ء میں کی تھی۔ پاکستان کے پہلے انتخابات کے موقعے پر قوم کو پاکستان کے اصل تصور، تحریک پاکستان کے حقیقی مقاصد اور ان مقاصد کے حصول اور اس منزل کی طرف پیش رفت کے لیے جس لائحۂ عمل کی ضرورت ہے، مولانا مرحوم و مغفور نے تب بڑے خوب صورت اور مؤثر انداز میں اس کی نشان دہی فرمائی تھی اور قوم کو اس کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کی دعوت دی تھی۔

اس تقریر میں مولانا مودودی lنے ان چھے چیزوں کو بڑے واضح الفاظ میں پیش کر دیا ہے، جو آج بھی پاکستان کی ویسی ہی ضرورت ہیں، جیسی کہ ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۰ء میں تھیں۔ اسلام کے تصورِ دین، حکمتِ انقلاب اور زندگی کو تبدیل کرنے کے لائحہ عمل کی اس سے واضح، جامع اور مؤثر ترجمانی مشکل ہے۔ یہ تقریر مولانا کی سیاسی بصیرت کا شاہکار ہے، اور آج ۴۷سال کے بعد بھی صبحِ نو کی طرح تروتازہ ہے۔ ہم یہ تقریر درج ذیل معروضات کے ساتھ ناظرین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ پاکستان کا قیام ،تحریک پاکستان کی حتمی سات سالہ جدوجہد کا حاصل نہیں بلکہ یہ ۲۰۰ سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی اس تحریکِ آزادی کا ثمرہ ہے، جو برطانوی سامراج کے برعظیم میں قدم جمانے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اور جس کے کم از کم تین بڑے واضح مرحلے دیکھے جا سکتے ہیں:

  •  اولاً، عسکری قوت سے سامراجی حکمرانوں کا مقابلہ اور مسلم اقتدار کی بحالی۔
  •  ثانیاً، سیاسی جدوجہد کا آغاز اور برعظیم کے تمام ہم وطنوں کے ساتھ مل کر سیاسی آزادی کی ایسی جدوجہد کہ جس میں مسلمان اپنا نظریاتی،دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص برقرار رکھ سکیں اور غیر مسلم اکثریت میں ضم نہ ہو جائیں۔ علاقائی قومیت کے مقابلے میں دو قومی نظریے کا ارتقا، اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایسا سیاسی انتظام، جو کثیر قومی (State of Nationalities)کا متبادل ’مثالیہ‘ (paradigm) پیش کر سکے۔ ۳۹-۱۹۳۸ء تک یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس جو دراصل ابتدا سے آج تک برہمنوں ہی کی گرفت میں رہی ہے، اس تصور کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھی، نہ ہے۔ اس کا مقصد عددی اکثریت کا غلبہ اور جمہوریت و سیکولرزم کے نام پر ہندو قوم پرستی کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ عملاً ۱۹۳۵ء کے قانون کے تحت انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔
  • اس پس منظر میں مسلمانوں کی تحریک کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا۔ علمی اور عملی دونوں میدانوں میں اور دو قومی نظریے کو سیاسی حقائق کی روشنی میں برعظیم کے مسلمانوں کی جس نئی سیاسی منزل کی شکل میں پیش کیا گیا، وہ تقسیم ہند اور پاکستان کا آزاد اسلامی ریاست کی حیثیت سے قیام تھا۔ تحریک پاکستان کے دو ناقابل تفریق و تنظیم (Indivisible and Inseperable) پہلو تھے۔ ایک سیاسی آزادی اور دوسرا اس آزادی کی بنیاد اور منزل اسلامی نظریہ اور تہذیب و ثقافت۔ یہی وجہ ہے کہ تصورِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد، مزاج اور شناخت کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل دستایزات کا مطالعہ ضروری ہے:   { FR 1004 }

                ۱-            علامہ اقبال کا ۱۹۳۰ء کا خطبۂ صدارت،

                ۲-            ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قراردادِ لاہور ،

                ۳-            قائداعظم کا خطبۂ صدارت، ۷؍اپریل ۱۹۴۷ء کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کے کنونشن کی قرار داد، حلف نامہ اور قائداعظم کی تقریر ،

                ۴-            ۱۳مارچ ۱۹۴۹ء کو پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قراردادِ مقاصد اور اس موقعے پر وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور تحریکِ پاکستان کے اکابر ارکانِ دستورساز اسمبلی کی تقاریر۔ (قراردادِ مقاصد تحریکِ پاکستان کی فکری جہت کا خلاصہ ہے، اور پاکستان کے دستور کی تمہید اور اس کا حصہ ہے۔)

اس پس منظر میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے چھے چیزیں ضروری ہیں:

۱-            پاکستان کے تصور اور اس کی اصل منزل کا صحیح اور مکمل شعور۔ یہ وژن اور اس کے باب میں مکمل شفافیت (clarity) اور یکسوئی اوّلین ضرورت ہے۔ اسی سے ہماری منزل اور اس تک پہنچنے کے راستے کا تعین ہو سکتا ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے اور اسی شناخت کے تحفظ اور ترقی کے لیے آزادی کی جدوجہد کی گئی اور پھر آزادی حاصل کی گئی۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف لاکھوں انسانوں کے جان و مال اور آبرو کی قربانی دی گئی، بلکہ بھارت میں  رہ جانے والے مسلمانوں نے اسلام اور اپنے مسلمان بھائیوں کی آزادی کی خاطر اپنے کو بھارت میں ہندوئوں کے غلبے میں رہ جانے کی عظیم ترین قربانی دی۔

                ۲-            آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے علاقے (Territory) کا حصول ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ آزاد قوم اور آزاد علاقہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ملکی حدود کی حفاظت اور دفاع قومی سلامتی کی پہلی ضرورت ہے۔ دفاعِ وطن اور دفاعِ نظریہ، شخصیت اور پہچان ساتھ ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عسکری قوت کے ساتھ سیاسی، معاشی، مادی اور اخلاقی قوت بھی مقابلے کی قوت کی حیثیت سے ضروری ہے۔ اس میں ضُعف ، ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بنتا ہے۔ یہ سیاسی و معاشی استحکام، اندرونی امن و امان ، بیرونی خطرات سے تحفظ اور آبادی کی ترقی اور خوش حالی کے لیے وسائل کے بھرپور استعمال کا راستہ دکھاتا ہے۔

                ۳-            تیسری ضرورت اس وژن اور قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ و ترقی ہے، زندگی کے تمام شعبوں کے لیے صحیح پالیسیوں کا تعین ، انتہادرجے کی شفافیت کے ساتھ پالیسی سازی اور ان پر عمل کرنے کا اہتمام۔

                ۴-            ان مقاصد کو حاصل کرنے اور پالیسیوں کی مؤثر تنفیذکے لیے تمام ضروری اداروں کا قیام، استحکام، اصلاح اور ترقی۔ دستور اور قانون کی حکمرانی ہی کے ذریعے اداروں کی بالادستی اور حقوق وفرائض کی بجاآوری ممکن ہے۔

                ۵-            ان مقاصد کے حصول کے لیے اساسی ضرورت ہر سطح پر اور ہرشعبے کے لیے مردانِ کار کی تیاری ہے۔ تعلیم اس کی کنجی ہے۔ پوری آبادی کی اخلاقی، علمی اور صلاحیت کار کی ترقی کے ذریعے ہی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے، پھر اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت اور استحکام کے ذریعے اس ترقی کو زیادہ ثمرآور بنایا جاسکتا ہے۔ ماحول، معاشرہ اور تہذیب و ثقافت ہر میدان کی صورت گری میں اس کا حصہ ہے۔

                ۶-            آخری فیصلہ کن ضرورت ہے: صحیح قیادت کا انتخاب، مشاورت کے مؤثر نظام کا قیام، احتساب اور جواب دہی کا ہر سطح پر اہتمام۔

یہ چھے چیزیں کسی بھی ملک اور قوم کی آزادی و خودمختاری اور ترقی و استحکام کی ضامن ہیں۔ ان سب کے بارے میں غفلت، کمزوری، فکری انتشار، تضادات اور عملی کوتاہیاں ہی پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ ہیں۔ جس حد تک ان کا پاس و لحاظ کیا جائے گا ہماری آزادی اور خودمختاری برقرار رہ سکے گی۔ بلاشبہہ ان میں سے بعض پہلوئوں پر توجہ کی گئی ہے، جس کی وجہ سے خطرات اور کمیوں، کوتاہیوں کے باوجود ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکے ہیں اور کسی حد تک ترقی بھی حاصل کر سکے ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے اپنی حسب ذیل تقریر میں ان چھے پہلوئوں کے بارے میں ایک واضح لائحہ عمل پیش کیا ہے، جو آج بھی ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ہم تخلیقِ پاکستان کے ۷۰سال کی تکمیل پر آیندہ اصلاحِ احوال اور تعمیر کے عزم کی تجدید کے ساتھ، رہنمائی کے ان زریں اصولوں کو قوم کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ ہمارا خطاب پوری قوم سے ہے  اور خصوصیت سے تحریک اسلامی اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں سے ہماری اپیل ہے کہ اس خطبے پر کھلے دل و دماغ سے غوروفکر کریں اور مستقبل کی تعمیر کے لیے ہر تعصب سے بالا ہو کر نئے عزم کے ساتھ سرگرم عمل ہوں۔

خورشید احمد

o

سیّدابوالاعلیٰ مودودیo

o

جماعت اسلامی، پاکستان میں اس مقصد کے لیے کام کررہی ہے کہ یہاں معاشرے اور ریاست کی تعمیر دیانت اور انصاف کے ان اصولوں پر کی جائے، جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے:

  •  جو خلافت ِ راشدہؓ کے نمونے پر کام کرے۔ ظلم، استحصال اور اخلاقی بے راہ روی کی ہرشکل کو مٹائے اور زندگی کے ہرپہلو میں عدل قائم کردے۔
  •  جو ایک خادم خلق ریاست ہو، ہر شہری کے لیے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کی ضمانت دے۔ تمام جائز ذرائع سے ملک کی دولت بڑھائے اور اس دولت کی منصفانہ تقسیم کا انتظام کرے۔
  •  جو صحیح معنوں میں ایک جمہوری ریاست ہو۔ عوام اپنی آزاد مرضی سے جن لوگوں کو اس کا اقتدار سونپنا چاہیں، وہی انتخابات کے ذریعے سے برسرِاقتدار آئیں اور جنھیں اقتدار سے ہٹانا چاہیں، ان کو انتخابات کے ذریعے سے بآسانی ہٹاسکیں۔

انھی مقاصد کے لیے جماعت عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔

oملک کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں ان کے بارے میں جماعت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی قربانیوں سے قائم ہوا ہے اور یہ قربانیاں انھوں نے اس غرض کے لیے دی تھیں کہ یہاں وہ اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اس لیے یہاں کسی نظریاتی کشمکش کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات ہمیشہ کے لیے طے شدہ سمجھی جانی چاہیے کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے۔

پاکستان کا قیام اس وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ مسلمانوں نے نسل، علاقے، زبان اور طبقات کے تمام تعصبات کو دل سے نکال کر ،محض مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کے قیام کے لیے متحدہ جدوجہد کی تھی۔ اسی اتحاد کی بدولت وہ علاقے مل کر ایک ملک بن گئے جن کے درمیان نہ زبان ایک تھی، نہ رہن سہن کا طریقہ ایک تھا اور نہ کوئی جغرافی اتصال پایا جاتا تھا۔ آج بھی یہی اتحاد کامل ملک کی وحدت و سالمیت کے لیے واحد ضمانت ہے۔

ملک کی آبادی کے مختلف عناصر میں یگانگت کے احساس کو برقرار رکھنے اور نشوونما دینے کے لیے یہ قطعی ناگزیر ہے کہ اس اسلام پر عمل کیا جائے، جس کے نام پر یہ ملک وجود میں آیا ہے، اور سیاسی، معاشرتی اور معاشی حیثیت سے مکمل انصاف قائم کیا جائے، جس سے ملک کے تمام علاقے اور باشندگانِ ملک کے تمام گروہ اور طبقے اپنے حقوق کے معاملے میں پوری طرح مطمئن ہوں۔

o  ملک کو جس آئینی بحران کاسامنا ہے، اس کام کو مکمل اور آسان بنانے کے لیے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی نئے سرے سے کوئی آئین بنانے کی کوشش نہ کرے، بلکہ ۱۹۵۶ء کے آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چار ضروری ترمیمات کرنے کے بعد اس کو ملک کا آئین قرار دے دے، تاکہ اقتدار جلدی عوام کے نمایندوں کو منتقل ہوجائے اور ایک جمہوری حکومت ملک میں کام کرنا شروع کر دے۔ باقی جو تغیر و تبدل بھی اس آئین میں کرنا مطلوب ہو، وہ بعد میں کیا جاسکتا ہے۔ وہ چار ترمیمیں جو ۱۹۵۶ءکے آئین میں ہم کرنا چاہتے ہیں: آبادی کی بنیاد پر نمایندگی، ون یونٹ کی تنسیخ، مغربی پاکستان کے سرحدی علاقوں کو پاکستان میں پوری طرح ضم کرلینے ،اور ملک کی سالمیت کو محفوظ رکھتے ہوئے صوبوں کو مکمل علاقائی خودمختاری دینے کے بارے میں ہیں۔{ FR 1000 }

o  ہم نے ملک کے قانونی نظا م کی اصلاح کے لیے بہت سی تجاویز پیش کی ہیں، جن میں خاص طور پر چار چیزوں کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے: lایک یہ کہ اسلام کے ان تمام احکام کو قانونی حیثیت دینا، جو ایک اسلامی مملکت میں رائج ہونے چاہییں اور خاص طور پر ان اخلاقی بُرائیوں کو ممنوع قرار دینا، جنھیں اسلام ازروے قانون روکنا چاہتا ہے۔ mدوسرے، عورتوں کو شریعت کے     عطا کردہ حقوق دلوانے کے لیے قانون بنانا۔ oتیسرے، شخصی آزادی اور اظہار راے کی آزادی پر ناراو پابندیوں کو ختم کرنا۔oچوتھے انصاف کو آسان اور سستا بنانا۔

  •  اسلامی تعلیمات کا فروغ:مسلمانوں کوا سلامی زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لیے ہمارا پروگرام یہ ہے کہ تمام ذرائع نشروابلاغ اور ذرائع تعلیم سے کام لے کر مسلم عوام میں اسلامی عقائد اور تعلیمات کا ضروری علم پھیلایا جائے۔ مساجد کو مسلم معاشرے میں مرکزی حیثیت دی جائے، اور ان کے لیے تربیت یافتہ امام اور خطیب تیار کیے جائیں۔’اوقاف‘ کا صحیح انتظام کیا جائے۔ مسلمانوں کو دینی فرائض کی ادایگی کے لیے ترغیب بھی دی جائے اور تمام ممکن سہولتیں بھی بہم پہنچائی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے بحیثیت مجموعی ملک کی اخلاقی اصلاح کے لیے بھی بڑے پیمانے پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ معاشرے کو بُرائیوں سے پاک کیا جائے۔ ان اسباب کو رفع کیا جائے جن سے جرائم اور بداخلاقیوں کو فروغ نصیب ہوتا ہے، اور عوام میں اتنا اخلاقی شعور پیدا کیا جائے کہ وہ شہریوں کی حیثیت سے خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو محسوس کرنے لگیں۔
  •  اسلامی نظامِ تعلیم :معاشرے کی تعمیر میں ہم تعلیم کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں اور اس کی اصلاح کے لیے [ہمارے] مفصل پروگرام کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں:
  • ملک میں اس وقت جو کئی کئی تعلیمی نظام رائج ہیں، ان کو بہ تدریج ختم کر کے ایک ہی نظامِ تعلیم رائج کیا جائے گا ، جس میں تعلیم صرف علوم و فنون پڑھانے تک محدود نہ ہوگی، بلکہ ہرشعبے میں لازمی طور پر اخلاقی تربیت بھی شامل ہوگی، تاکہ معاشرے اور ریاست کے لیے خداترس اور فرض شناس کارکن تیار ہوسکیں۔
  •   کم سے کم مدت میں ملک سے ناخواندگی کو دُور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ابتدائی تعلیم لازمی اور مفت اور ثانوی تعلیم مفت کر دی جائے گی، اور تعلیم کو سستا کیا جائے گا، تاکہ کوئی باصلاحیت نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائے۔
  •  استادوں کے لیے معقول معاوضے، بہتر شرائط کے ساتھ مقرر کیے جائیں گے۔ ان کی تربیت کے لیے بہتر انتظامات کیے جائیں گے، تاکہ وہ نہ صرف اچھے معلّم ہوں بلکہ شاگردوں کے لیے بھی اخلاق کا اچھا نمونہ بن سکیں۔ اور ان کے تقرر میں ان کی علمی اسناد ہی کا خیال نہیں رکھا جائے گا بلکہ یہ بھی دیکھا جائے گا، کہ وہ اپنے افکار اور سیرت و کردار کے لحاظ سے ہماری نئی نسلوں کو تعلیم دینے کے اہل ہیں۔
  •  تعلیمی اداروں میں آزاد فضا پیدا کی جائے گی اور یونی ورسٹیوں کو قومی تعلیمی پالیسی کے حدود کے اندر پوری طرح خودمختارانہ حیثیت دی جائے گی۔
  •   قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا جائے گا اور عربی زبان ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جائے گی۔
  •  تعلیمی اداروں میں فوجی تربیت کا اہتمام کیا جائے گا، تاکہ نوجوان ملک کے دفاع کے لیے تیار ہوسکیں۔
  •  انتظامیہ کی تربیت: [ہم نے] نظم و نسق کی اصلاح کو بھی خاص اہمیت دی ہے، کیوں کہ ملک کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی اچھے سے اچھا پروگرام بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو چلانے کے لیے ایک دیانت دار، فرض شناس اور عمدہ اہلیت رکھنے والی انتظامیہ موجود نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے جو تدابیر ہم نے تجویز کی ہیں ان میں سے چند نمایاں تدبیریں یہ ہیں:
  •     کوئی سرکاری ملازم جو اپنی جائز مالی حیثیت سے زیادہ بلند معیارِ زندگی اختیار کرے یا جایداد پیدا کرے، اس کا بلاتاخیر محاسبہ کیا جائے۔
  •        ایک ایسا اعلیٰ اختیارات رکھنے والا محکمہ قائم کیا جائے جو سرکاری افسروں کے ظلم اور اختیارات کے بے جا استعمال کی شکایات سنے اور ان کے فوری تدارک کا اہتمام کرے۔
  • جن اداروں میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کارکنو ں کی تربیت کی جاتی ہے، ان میں اخلاقی و دینی تربیت لازمی طور پر شامل کی جائے، تاکہ اہلیت کے ساتھ ساتھ حکومت کے افسروں میں دیانت داری اور فرض شناسی پیدا ہو۔
  • نظم و نسق پر کسی ایک سروس کی اجارہ داری قائم نہ رہنے دی جائے اور حکومت کے مخصوص فنی شعبوں کی سربراہی پر انھی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مقرر کیا جائے۔

ملک کے معاشی نظام کی اصلاح کے لیے ہمارا پروگرام چار بڑے بڑے عنوانات پر مشتمل ہے: زراعت، صنعت و تجارت، مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازموں کے حقوق اور عام معاشی اصلاحات۔

  •  زرعی اصلاحات: زراعت کے معاملے میں جو اہم اصلاح ہم نے تجویز کی ہے،   وہ یہ ہے کہ: جاگیرداریوں ، خواہ وہ نئی ہوں یا پرانی، ان کو قطعی ختم کر دیا جائے۔ اور جہاں تک ان زرعی املاک کا تعلق ہے جو [انگریزی اقتدار سے] پہلے سے لوگوں کی ملکیت میں چلی آرہی ہیں،  وہ اگر ایک خاص حد سے زائد ہوں تو زائد حصے کو منصفانہ شرح پر خرید لیا جائے۔ یہ حد مغربی پاکستان کے زرخیز علاقوں میں ۱۰۰ اور ۲۰۰؍ایکڑ کے درمیان ہوگی۔ کم پیداواری صلاحیت کی زمینوں کے لیے اسی معیار کے لیے مختلف حدیں مقرر کی جائیں گی۔ اس طریقے سے جو زمینیں حاصل ہوں گی، انھیں غیرمالک کاشت کاروں اور اقتصادی حد سے کم زمین کے مالکوں کے ہاتھ آسان اقساط پر فروخت کر دیا جائے گا اور یہی طریقہ سرکاری املاک اور نئے بیراجوں کے ذریعے سے قابلِ کاشت ہونے والی زمینوں کے معاملے میں بھی اختیار کیا جائے گا۔ ہرممکن کوشش کی جائے گی کہ زیادہ سے زیادہ کسانوں کو گزارے کے قابل زمین حاصل ہوجائے۔

پچھلی ناہمواریوں کو دُور کرنے کے بعد ہم کلیتہً شرعی قوانین پر ہی اعتماد کریں گے کہ ان کے نفاذ کی وجہ سے آیندہ کوئی زمین داری ناجائز یا مشتبہ طریقوں سے پیدا نہ ہوسکے گی۔ اسی طرح جب بٹائی اور ٹھیکے کے بارے میں شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی کرائی جائے گی اور تمام ناجائز طریقوں کو بند کر دیا جائے گا تو کوئی زمین داری ظلم کی شکل اختیار نہ کرسکے گی۔

۱۰؍ ایکڑ تک اراضی کے مالکوں کو مال گزاری سے مستثنیٰ کر دیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ انصاف نہیں ہے کہ انکم ٹیکس کے معاملے میں تو ایک حد مقرر کر دی جائے اور گزارہ سے زمین   کم رکھنے والوں پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ مال گزاری کی تشخیص کے معاملے میں بھی ہم انکم ٹیکس کا  یہ اصول نافذ کرنا چاہتے ہیں کہ کم آمدنی رکھنے والوں پر نسبتاً کم اور زیادہ آمدنی والوں پر نسبتاً زیادہ مالیہ عائد کیا جائے۔

اس امر کا پورا انتظام کیا جائے گا کہ کاشت کاروں کو ان کی پیدا کردہ اجناس کی معقول قیمت ملے اور ان کے حصے کا فائدہ بیچ کے لوگ نہ لے اُڑیں، خصوصاً تجارتی فصلوں کے معاملے میں ہربے جااستحصال کا سدباب کیا جائے گا۔

دیہی علاقوں میں ایسی صنعتوں کو رواج دینے کی کوشش کی جائے گی، جن سے بے روزگاری بھی دُور ہو اور زراعت پیشہ آبادی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوسکے۔

 صنعت  و تجارت کا فروغ: صنعت و تجارت کے معاملے میں دولت کا جو بے تحاشا ارتکاز ہوا ہے، اس کو توڑنے اور مرتکز شدہ دولت کو پھیلانے اور آیندہ ارتکاز کو روکنے [اور] معاشی زندگی [کو] اس بیماری سے پوری طرح نجات [دلانے کے لیے] چند اہم تجاویز یہ ہیں:

O سود، سٹہ، جوا اور دولت حاصل کرنے کے تمام ان طریقوں کو قانوناً ممنوع قرار دے دیا جائے، جن کو شریعت نے حرام کیا ہے۔ بینکنگ اور انشورنس کے پورے نظام کو اسلامی اداروں کے مطابق تبدیل کیا جائے۔ ناجائز اور حرام طریقوں سے جو دولت چند ہاتھوں میں سمٹ گئی ہے، اس کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا جائے اور اسے واپس لینے کے لیے مناسب قانونی اور انتظامی تدابیر کی جائیں۔ کمپنیوں کی ملکیت میں ایک شخص یا خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ حصوں کی ایک حد مقرر کر دی جائے اور اس سے زائد حصص کو عام فروخت کے لیے کھول دیا جائے۔

O مینیجنگ ایجنسی کا طریقہ بند کر دیا جائے۔ بنکوں ، انشورنس کمپنیوں، بازار حصص اور سرکاری مالیاتی اداروں پر سے سرمایہ داروں کا تسلط ختم کر دیا جائے۔ صنعتوں، اجارہ داریوں اور کاروباری جتھہ بندیوں کو توڑا جائے۔ قرض دینے کی پالیسی تبدیل کی جائے، تاکہ چھوٹے اور نئے سرمایہ کاروں کو بھی قرض مل سکیں۔ بونس اسکیم پر نظرثانی کی جائے اور درآمدی اور برآمدی تجارت کے لیے لائسنسوں کے اجرا کا طریقہ بھی بدلا جائے اور اس امر کا انتظام کیا جائے کہ صنعت کار اور بڑے تاجر ایک معقول حد سے زیادہ منافع نہ کما سکیں۔

Oہم قومی ملکیت کے نظام کو بطورِ اصول اختیار کرنا صحیح نہیں سمجھتے، البتہ جن صنعتوں کو حکومت کے انتظام میں قائم کرنا یا چلانا فی الواقع ضروری ہو، ان کے بارے میں عوام کی نمایندہ اسمبلی اس طریقے پر عمل کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے، اور ایسا کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یہ اطمینان کرلینا ضروری ہے کہ ان صنعتوں کا انتظام بیوروکریسی کی معروف خرابیوں کا شکار نہ ہونے پائے۔

O مزدوروں اور ملازمین کے حقوق:مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازمین [کی حالت دیکھیں تو] ملک میں معاوضوں کا فرق اس وقت ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔ اسے گھٹاکر ہم ایک اور بیس پر، پھر بتدریج کم کرکے ایک اور دس کی نسبت پر لانا چاہتے ہیں۔ کم سے کم معاوضہ ہمارے نزدیک [اِس وقت] مصارف زندگی کے لحاظ سے ۱۵۰ اور ۲۰۰ کے درمیان ہونا چاہیے اور قیمتوں کے اُتار چڑھائو کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر وقتاً فوقتاً نظرثانی ہوتی رہنی چاہیے۔ کم تنخواہ پانے والے ملازمین کو مکان، علاج اور بچوں کی تعلیم کے لیے مناسب سہولتیں ملنی چاہییں اور مزدوروں کو نقد بونس کے علاوہ بونس شیئرز کے ذریعے سے صنعتوں کی ملکیت میں حصہ دار بھی بنایا جانا چاہیے۔ [ہم نے] یہ مقصد بنیادی طور پر پیش نظر رکھا ہے کہ ہماری معیشت میں صنعت کار اور محنت کار کے درمیان طبقاتی نزاع برپا ہونے کے امکانات باقی نہ رہیں اور اس کی جگہ انصاف کے اصولوں پر تعاون کا خوش گوار تعلق قائم ہو۔

O نظامِ زکوٰۃ کا نفاذ: ملک کی عام معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے زکوٰۃ کی تنظیم کو ہم نے اپنے پروگرام میں سب سے مقدّم رکھا ہے۔ جس کے ذریعے سے یہ اہتمام کیا جائے گا کہ پورے ملک میں کوئی شخص اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہنے پائے۔ اس فنڈ میں   نہ صرف جمع شدہ رقوم، تجارتی اَموال، زرعی پیداوار اور مویشیوں وغیرہ پر فرض زکوٰۃ وصول کی جائے گی بلکہ عام خیراتی رقوم اور فی سبیل اللہ اعانتیں بھی جمع کی جائیں گی، اور ان سے بوڑھوں، اپاہجوں، معذوروں اور یتیم و غریب بچوں کی کفالت کی جائے گی۔ بے روزگاروں کو روزگار ملنے تک وظائف دیے جائیں گے، غریبوں کا علاج کیا جائے گا۔ ضرورت مند اور مستحق لوگوں کو قرضِ حسنہ دیا جائے گا اور ایسے لوگوں کی مدد کی جائے گی، جو تھوڑے سرمایے سے اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہوں۔

اس کے علاوہ [ہم نے] یہ بھی تجویز کیا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کو کم اور بلاواسطہ ٹیکسوں کو بڑھایا جائے گا تاکہ عوام پر سے ٹیکس کا بار کم ہوسکے۔ بیرونی قرضوں اور بیرونی سرمایے پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے اور سابق قرضوں سے نجات پانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ سرکاری خزانے کا مال بے جا مصارف پر صرف کرنے کا سدباب کیا جائے گا۔ اور رفاہِ عامہ کے کاموں اور ان تجارتی کاموں سے جو حکومت کے انتظام میں چل رہے ہیں ، بے جا نفع اندوزی کو روک دیا جائے گا۔

Oقومی صحت کے لیے ہمارا پروگرام آٹھ تجاویز پر مشتمل ہے، جن میں: سستی قیمت پر دوائوں کی فراہمی، علاج کے مصارف میں تخفیف، شفاخانوں اور دایہ گھروں کی توسیع، وبائی اور متعدی امراض کی روک تھام، شفاخانوں کے عملے کی اخلاقی اصلاح، غذا اور دوائوں میں آمیزش کا سدباب اور وسیع پیمانے پر حفظانِ صحت کے انتظامات شامل ہیں۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ملک میں علاج کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے یونانی طب اور ہومیوپیتھی کے شفاخانے سرکاری سطح پر قائم کیے جائیں۔

Oہم نے اسلامی فرقوں کو اس بات کی ضمانت دی ہے کہ انھیں حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا پورا حق حاصل ہوگا۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کی اپنی فقہ کے مطابق کیے جائیں گے، اور وہ اپنے خیالات کی اشاعت آزادی کے ساتھ کرسکیں گے۔

Oغیرمسلم اقلیتوں کو بھی ہم نے اسی طرح تمام شہری اور قانونی حقوق اور مذہب اور عبادت، تہذیب و ثقافت اور پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔

O[اپنی] خارجہ پالیسی کے اصول و مقاصد بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے ہیں: ہم ایک مسلمان قوم ہیں۔ دنیا میں ہمارا قومی وصف نمایاں ہونا چاہیے کہ ہم راست باز اور عہدوپیمان کے پابند ہیں۔ حق وانصاف کے حامی اور ظلم و زیادتی کے مخالف ہیں۔ ہم بین الاقوامی امن چاہتے ہیں، مگر بین الاقوامی عدل کے بغیر دنیا میں امن کا قیام ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے۔ سامراجیت اور استعمار خواہ مغربی ہو یا مشرقی، ہماری نگاہ میں یکساں قابلِ مذمت ہے اور ہماری ہمدردی ہمیشہ ان مظلوم قوموں کے ساتھ ہوگی جو اس کی شکار ہوں۔ خصوصاً مسلمان جہاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں ہم ان کی لازماً حمایت کریں گے، کیونکہ یہ ہماری انسانیت کا تقاضا بھی ہے اور ہمارے دین کا تقاضا بھی ہے۔

ہم دُنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں، مگر کسی ایسی دوستی کے قائل نہیں ہیں، جس سے ہمارے نظریۂ حیات یا ہماری آزادی پر آنچ آتی ہو۔ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوگی۔  دنیا کی بڑی قوموں کے بلاکوں کی کش مکش سے ہم اپنے ملک کو بالکل الگ رکھیں گے۔ کشمیر اور ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وہ بنیادی مسائل ہیں، جنھیں انصاف کے ساتھ حل کیے بغیر ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے تعلقات درست نہیں ہوسکتے۔ مسلم ممالک کے ساتھ ہم قریب ترین برادرانہ تعلقات رکھنا اور بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہماری پوری کوشش یہ ہوگی کہ اپنے مشترک مفادات کے لیے ان کے درمیان گہرا تعاون ہو۔

Oمرکز یا صوبوں میں جہاں بھی جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کو اکثریت حاصل ہوگی، وہ حکومت کی باگ ڈور سنبھال کر ایمان داری کے ساتھ اپنے منشور پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی، اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو حکومت چھوڑ دے گی۔ دوسری کسی پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت وہ صرف اس صورت میں بنائے گی، جب کہ اسے یہ توقع ہو کہ اس حکومت میں اپنے اصول اور مقاصد کے مطابق کام کرنا اس کے لیے ممکن ہوگا۔ بصورتِ دیگر وہ حزبِ اختلاف کی حیثیت سے کام کرے گی۔ لیکن، جماعت اسلامی کبھی اختلاف براے اختلاف کی قائل نہیں رہی ہے۔ حکومت خواہ کسی پارٹی کی ہو، جماعت اس کے صحیح کاموں میں اس کا ساتھ دے گی اور غلط کاموں کی بہرحال مخالفت کرے گی۔

یہ ہے جماعت اسلامی کے منشور کا خلاصہ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم قومی زندگی کے ہرپہلو کی اصلاح کا ایک جامع پروگرام [پیش کر رہے] ہیں۔ کسی ایک پہلو پر ہم نے اتنا زور نہیں دیا ہے کہ دوسرے پہلوئوں کو نظرانداز کر دیا ہو ___ پاکستان پائندہ باد!

(ہفت روزہ آئین، لاہور، اشاعت ِ خاص، نومبر ۱۹۷۰ء، ص ۱۶-۱۹)

کرئہ ارض جس پر ہم آپ رہتے ہیں خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں، ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی  سمجھ لیجیے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بھاری فرق ہے۔

دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وائسرائے محض انتظام ملکی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور سلطانِ کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لیے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب ، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم وعمل کے وہ اصول بتائیں جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں، مگر اس فرق کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی ہے۔ دنیا کی حکومتیں گورنری جیسی ذمہ داری کے منصب ان ہی لوگوں کو دیتی ہیں، جو ان کے سب سے زیادہ قابل اعتماد آدمی ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس عہدے پر مقرر کردیتی ہیں تو پھر انھیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کا پورا موقع دیتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح پالیسی پر چل رہا ہے اور ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کر دیتی ہیں، جو عام رعایا پر  ظاہر نہیں کیے جاتے۔

ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسی ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے، اور جب انھیں اس منصب پر مقرر کر دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور ان پر کائنات کے وہ اسرار ظاہر کر دیے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔

اسی نوعیت کے تجربات میں سے ایک وہ چیز ہے جس کو معراج کہتے ہیں۔ معراج صرف سیر اور مشاہدہ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایسے موقعے پر ہوتی ہے، جب کہ پیغمبر کو کسی کارِ خاص پر مقرر کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے، اور ایسا ہی ایک اہم موقع وہ تھا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا گیا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ صرف حجاز اور صرف عرب ہی نہیں بلکہ گردوپیش کی دوسری قوموں سے بھی سابقہ پیش آنا تھا اور اسلام کی تحریک ایک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کو تھی۔ اس لیے اس  اہم موقعے پر آپ کو ایک نیا پروانۂ تقرر اور نئی ہدایات دینے کے لیے باد شاہِ کائنات نے اپنے حضور میں طلب فرمایا ۔

اسی پیشی وحضوری کا نام معراج ہے۔ عالمِ بالا کا یہ حیرت انگیز سفر ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس سفر کے ضمنی واقعات احادیث میں آئے ہیں، مثلاً: بیت المقدس پہنچ کر نماز ادا کرنا ، آسمان کے مختلف طبقات سے گزرنا ، پچھلے زمانے کے پیغمبروں سے ملنا اور پھر آخری منزل پر پہنچنا ۔ لیکن قرآن ضمنی چیزوں کو چھوڑ کر ہمیشہ اصل مقصد تک اپنے بیان کو محدود رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے کیفیت ِ معراج کا کچھ ذکر نہیں کیا،بلکہ وہ چیز تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے جس  کے لیے آںحضرتؐ کو بلایا گیا تھا۔ قرآن کی ۱۷ویں سورت [بنی اسرائیل]میں آپ کو یہ تفصیل مل سکتی ہے۔

اس کے دوحصے ہیں۔ ایک حصے میں مکے کے لوگوں کو آخری نوٹس دیا گیا کہ اگر تمھاری سختیوں کی وجہ سے خدا کا پیغمبر جلاوطنی پر مجبور ہوا تو مکے میں تم کو چند سال سے زیادہ رہنے کا موقع نہ مل سکے گا، اور بنی اسرائیل کو جن سے عنقریب مدینے میں پیغمبر کو براہِ راست سابقہ پیش آنا تھا ، خبردار کیا گیا کہ تم اپنی تاریخ میں دو زبر دست ٹھوکریں کھا چکے ہواور دو قیمتی موقعے کھو چکے ہو۔ اب تم کو تیسرا موقع ملنے والا ہے اور یہ آخری موقع ہے۔

دوسرے حصے میں وہ بنیادی اصول بتائے گئے ہیں،جن پر انسانی تمدن و اخلاق کی تعمیر ہونی چاہیے ۔ یہ چودہ اصول ہیں :

                ۱-            صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اقتدارِ اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے۔

                ۲-            تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے، اولاد والدین کی فرماں بردار وخدمت گزار ہو اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مدد گارہوں۔

                ۳-            سوسائٹی میں جو لوگ غریب یا معذور ہوں یا اپنے وطن سے باہر مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑ دیے جائیں۔

                ۴-            دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے ۔ جو مال دار اپنے روپے کو برے طریقے سے خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔

                ۵-            لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں ، نہ بخل کر کے دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچی کر کے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کریں۔

                ۶-            رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام جو خدا نے کیا ہے، انسان اس میں اپنے مصنوعی طریقوں سے خلل نہ ڈالے ۔خدا اپنے انتظام کی مصلحتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔

                ۷-            معاشی مشکلات کے خوف سے لوگ اپنی نسل کی افزایش نہ روکیں، جس طرح موجودہ نسلوں کے رزق کا نتظام خدا نے کیا ہے آنے والی نسلوں کے لیے بھی وہی انتظام کرے گا۔

                ۸-            خواہشِ نفس کو پورا کرنے کے لیے زنا کا راستہ برا راستہ ہے۔ لہٰذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے۔

                ۹-            انسانی جان کی حرمت خدا نے قائم کی ہے۔ لہٰذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے، نہ کوئی اپنی جان دے ، نہ دوسرے کی جان لے۔

                ۱۰-         یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے جب تک وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں۔ ان کے حقوق کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔

                ۱۱-         عہدوپیمان کو پورا کیا جائے ۔ انسان اپنے معاہدات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

                ۱۲-         تجارتی معاملات میں ناپ تول ٹھیک ٹھیک راستی پر ہونا چاہیے۔ اوزان اور پیمانے صحیح رکھے جائیں۔

                ۱۳-         جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو۔ وہم اور گمان پر نہ چلو کیونکہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے کہ اس نے انھیں کس طرح استعمال کیا۔

                ۱۴-         نخوت اور تکبر کے ساتھ نہ چلو۔ غرور کی چال سے نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو،نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو۔

یہ چودہ اصول جو معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے تھے، ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی کی نہ تھی بلکہ یہ وہ پروگرام تھا جس پر آپ کو آیندہ سوسائٹی کی تعمیر کرنی تھی۔ یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب آپ کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلے سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کے مرحلے میں قدم رکھنے والی تھی ۔ لہٰذا یہ گویا ایک مینی فسٹو تھا جس میں   یہ بتایا گیا تھا کہ خدا کا پیغمبر ان اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کرے گا۔ اسی لیے معراج میں       یہ۱۴نکات مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام پیروان اسلام کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض کی تا کہ جو لوگ اس پروگرام کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھیں ان میں اخلاقی انضباط پیدا ہو اور وہ خدا سے غافل نہ ہونے پائیں۔ ہر روز پانچ مرتبہ ان کے ذہن میں یہ بات تازہ ہوتی رہے کہ وہ خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا حاکمِ اعلیٰ خدا ہے جس کو انھیں اپنے کام کا حساب دینا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُلْ اُوحِیَ اِلیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا o یَّھْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا o (الجن۷۲ :۱-۲) اے نبیؐ ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ   ِجنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: ’’ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو      راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور  اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘‘۔

سورۂ جِن کے متعلق جہاں تک مَیں تحقیق کرسکا ہوں یہ سورت غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِطائف کے بعد نازل ہوئی ہے۔ حضوؐر کا سفرِ طائف سنہ ۱۰ نبویؐ میں ہوا تھا، یعنی ہجرت سے تین سال پہلے۔ سورئہ قٓ میں یہ آتا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ جنوں نے نبی کریمؐ کی زبان سے کلامِ مجید سنا۔ اہلِ طائف کے ظلم و ستم کے رویے کی وجہ سے جب حضوؐر واپس ہوئے تو راستے میں ایک مقام پر جہاں نخلستان تھا ٹھیرے تھے۔وہاں آپؐ رات کی نماز اور فجر کی نماز میں تلاوتِ قرآن فرما رہے تھے تو جنوں کا ایک گروہ وہاں سے گزرا اور آپؐ کی آواز سن کر وہ ٹھیرا اور غور سے قرآنِ مجید کو سنتا رہا۔ تفاسیر اور احادیث کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ طائف کے سفر سے واپسی کے موقع پر پیش آیا تھا۔ انھی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے اور اس قصے میں ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ جنوں نے حضوؐر سے قرآنِ مجید سنا۔ بعد میں یہ واقعات بہ کثرت احادیث میں ملتے ہیں لیکن سفرِطائف سے پہلے کوئی روایت نہیں ملتی۔ اس لیے غالباً یہ سورہ سفرِطائف کے بعد نازل ہوئی ہے۔

یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح معلوم ہوئی؟ اس سفر میں آپؐ نے جنوں کو نہیں دیکھا نہ آپ کو یہ محسوس ہوا کہ جن سن رہے ہیں۔ بعد میں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جِن انسانی شکل میں بھی حضوؐر کے پاس آئے تھے۔ لیکن اس موقعے پر آپ نے جنوں کو نہیں دیکھا تھا بلکہ وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع دی گئی تھی کہ جنوں نے آپؐ کی زبان سے قرآنِ مجید سنا ہے۔

اس چیز کو بیان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہلِ عرب جنوں کے بہت زیادہ معتقد تھے۔ وہ جنوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک زمین کا ہرخطہ جنوں سے بسا ہوا تھا۔ ایک ایک خطے کا مالک گویا ایک جن تھا۔ سفر میں اگر کہیں جاتے تھے اور جس وادی میں ٹھیرتے تھے اور اگر وہاں رات گزارنی ہو تو وہ کہتے تھے کہ اعوذ بہ رب ھذا الوادی،میں پناہ مانگتا ہوں اس وادی کے مالک کی۔ یعنی ان کے نزدیک ہروادی کا مالک کوئی جن ہوتا ہے اور اس کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بیماری اور تندرستی اور بہت سی مصیبتیں جنوں کی وجہ سے حاوی ہوتی ہیں۔ ان کے خیال میں جن ہی ایمان کی خبریں پہنچاتے تھے، حتیٰ کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی شاعر اعلیٰ درجے کا کلام کہتا ہے تو گویا کہ اس کے قبضے میں ایک جِن ہے جو اس کو آکر یہ کلام سناتا ہے۔ اگر کوئی شاعر اعلیٰ درجے کا شاعر ہے اور بہترین کلام کہتا ہے اور اس کے بعد ایک مدت تک وہ شعر نہیں کہہ سکا، یا اس نے کوئی ایسا شعر کہہ دیا جو اس کے مرتبے سے گرا ہوا ہوتا تو کہتے تھے کہ اس کا جِن فرار ہوگیا ہے۔ اس نے اپنا جِن چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے اس پر شعر کا نزول نہیں ہوتا ہے، یا اس کی شعر کہنے کی قابلیت اس سے نکل گئی ہے۔ یہ ان کے تصورات تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے اپنے آپ کو اللہ کے آخری نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور قرآنِ مجید سنانا شروع کیا تو قرآنِ مجید کی بہترین بلاغت و فصاحت اور  اس کے اعلیٰ درجے کے مضامین کو سن کر قریش کے بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ بھی  جِن القا کرتے ہیں۔ وہ جنوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے۔ اس لیے حضوؐر کے بارے میں ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر یہ ہمارے خدائوں کی اسی طرح توہین کرتے رہے تو ہمارے دیوتا اور معبود اِن کا  تختہ اُلٹ دیں گے ۔ ان کی یہ بات کہ قرآنِ مجید کو جِن القا کرتے ہیں اگرچہ اس بات کی تردید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھل کر کرتے تھے، تاہم ایک طرف وہ جنوں کو خدائی میں شریک قرار دے رہے تھے اور انھیں خدا کی اولاد بھی قرار دیتے تھے ، اور دوسری طرف وہ شرک کی بھرپور تردید رسولؐ اللہ کی زبان سے سنتے تھے۔ اس پر ان کے معقول آدمی یہ کہتے تھے کہ اگر یہ کلام جِن لاتے ہیں تو وہ اپنی ہی تردید کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ جِن اپنے ہی خلاف تردید کرنا شروع کردیں؟ تاہم، عام لوگوں کے لیے یہ بہت بڑا دھوکا اور فریب تھا کہ جِن یہ کلام لے کر آتے ہیں۔

اس وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ جِن جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ قرآن بھی نازل کرتے ہیں، یہ جِن اس قرآن کو سن کر خود اس پر ایمان لے آئے۔ پھر آگے چل کر ان جنوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے آپس میں کیا گفتگو کی۔ اس سے خود بخود اس بات کی تردید ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جِن قرآن لے کر آتے ہیں۔ جِن خود اس کلام کو کیسے نازل کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں۔ پھر انھوں نے اس بات کا اقرار بھی کیا کہ ہم اس کے منکر نہیں ہیں اور ہم آخرت پر ایمان لے آئے ہیں۔

یہ ساری چیزیں اس وجہ سے سنائی گئی ہیں کہ کفارِ مکہ کے اس غلط عقیدے کی تردید ہوجائے اور انھیں یہ معلوم ہوجائے کہ جِن بھی اسی طرح سے مخلوق ہیں جیسے انسان ہیں۔ ان کے اندر بھی کافر اور مومن ہیں۔ ان کے اندر بھی راہِ راست پر چلنے والے اور گمراہ جِن ہیں اور یہ بھی اسی طرح سے قرآنِ مجید کے مخاطب ہیں جس طرح انسان ہیں اور قرآنِ مجید سن کر جس طرح انسان ایمان لائے ہیں اسی طرح سے بعض جِن بھی ایمان لاتے ہیں۔

اس لیے فرمایا گیا کہ:

قُلْ اُوحِیَ اِلَیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ (۷۲:۱) اے نبیؐ، ان لوگوں کو خبر دو کہ مجھے وحی کے ذریعے اطلاع دی گئی ہے کہ جنوں میں سے ایک گروہ نے اس قرآن کو کان لگا کر سنا۔

سمعنا کے معنی توجہ سے سننا ہے۔ ایک سننا ہوتا ہے اور ایک غور سے سننا، یا کان لگا کر سننا، یا یہ کہ سن گن لینا۔ اس کے لیے سمعنا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ جنوںمیں سے ایک گروہ نے قرآنِ مجید کو کان لگا کر سنا اور پھر اپنے گروہ میں واپس جاکر انھیں یہ خبر دی کہ اِنَّاسَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا، ہم ایک عجیب چیز سن کر آئے ہیں جو تم نہیں جانتے۔ یَّھْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ، یہ ایسی چیز ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ فَاٰمَنَّا بِہٖ ،اور ہم اس پر ایمان لے آئے۔ وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا،اور اب ہم اپنے رب کے ساتھ ہرگز کسی کو شریک نہیں کریں گے۔

’قرآن‘ کا لفظ یہاں پڑھی جانے والی کتاب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں  قرآنِ مجید کے معنی کے لحاظ سے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک ایسی چیز مراد ہے جو پڑھی جارہی ہو۔

معلوم ہوا کہ انسان تو جنوں کو خدا کی اولاد بنا رہے تھے لیکن جِن خود کسی اور کو خدا بنارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور مخلوق کو شریک نہ کرنا، اس سے خودبخود کفار اور تمام مشرکین مکہ کے عقیدۂ شرک کی تردید ہوگئی کہ جن کو تم معبود اور خدا کی خدائی میں شریک اور خدا کی اولاد قرار دے رہے تھے وہ خود کسی دوسری ہستی کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور اس پر ایمان لاچکے ہیں۔

وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلاَ وَلَدًاo  (۷۲:۳) اور یہ کہ ’’ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے‘‘۔

یہاں پھر کفارِ مکہ کے اس عقیدے کی تردید آگئی کہ جِن خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد۔ تم ان کا نسب خدا سے ملاتے ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

وَّاَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًاo  (۷۲:۴) اور یہ کہ ’’ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں‘‘۔

سَفِیْہُنَاکا لفظ اگر واحد کے طور پر آئے تو اس کا مطلب شیطان ہے۔ اگر یہ لفظ اسمِ جنس کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم میں سے جو جو بھی بے وقوف، احمق اور نادان ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف غلط باتوں کو منسوب کرتا ہے اور خلافِ حق بات کرتا ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔ اس لیے کہ جنوں کا وہ گروہ جو انھیں گمراہ کرتا ہے یا ابلیس جس نے انسانوں کو گمراہ کیا اور اس نے جنوں کو بھی گمراہ کیا ہے۔ وہ اللہ کی طرف غلط باتیں منسوب کرتا ہے،  ہم اس سے پناہ مانگتے ہیں۔

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا o  (۷۲:۵)اور یہ کہ ’’ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جِن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے‘‘۔

یعنی ایمان لانے کے واقعے سے پہلے جن گمراہیوں میں جِن مبتلا تھے اس کی توجیہہ وہ یہ کرتے ہیں کہ اب تک جن غلط فہمیوں میں جِن مبتلا ہوئے یا گمراہیوں میں پھنسے ہمارا یہ گمان تھا کہ انسان اور جِن اتنی جرأت نہیں کرسکتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط بات بیان کریں اور منسوب کریں۔ ہم نے یہ خیال کیا کہ ہمارا رب جواتنی بلند تر ہستی ہے، اور جس کی اتنی بلندشان ہے، اور اتنی زبردست اس کی سلطنت ہے اگر کوئی انسان یا جِن اس کی طرف غلط بات منسوب کرے یا جھوٹ بولے گا تو اللہ تعالیٰ کی مار اس پر پڑے گی اور اس کو عذاب ہوگا۔ اس وجہ سے ہم نے یہ خیال کیا کہ اگر یہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور پھر ان کی گرفت نہیں ہوتی تو ضرور یہ باتیں سچ ہوں گی۔ اس غلط فہمی میں آکر ہم نے یہ غلط باتیں مان لیں۔ اب ان کا یہ کہنا تھا کہ  قرآنِ مجید کو سن کر ہماری یہ غلط فہمیاں رفع ہوگئیں، اور یہ پتا چل گیا کہ یہ کس قسم کی غلط فہمیاں ہیں۔ اس لیے ہم اس قرآن پر ایمان لے آئے ورنہ پہلے ہم اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے تھے یا ہمارا یہ خیال تھا کہ انسان اور جِن یہ جرأت نہیں کرسکتے کہ خدا کی طرف غلط باتوں کو منسوب کریں۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے ایک قول پر اضافہ کرتا ہے۔ یہ گویا جملۂ معترضہ ہے جو ان کے کلام کے بیچ میں آگیا ہے۔

وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَہَقًا o وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۶-۷) اور یہ کہ ’’انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگو ں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اِس طرح انھوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔ اور یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس بات کو ادا کیا جا رہا ہے کہ میری طرف  یہ بات وحی کی گئی ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ کچھ جنوں کی پناہ لیا کرتے تھے جس وجہ سے جنوں کا تکبر کچھ اور بڑھ گیا، اور انھوں نے بھی یہ سمجھا اور جیساکہ تم لوگ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کو کبھی دوبارہ زندہ کرکے نہیں اُٹھائے گا۔

یہاں قرآنِ مجید نے جنوں کی غلط فہمی اور گمراہی کی ایک وجہ بیان کی ہے۔ ایک وجہ تو جنوں نے اپنی گمراہی کی یہ بیان کی ہے کہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ جِن اور انسان اتنی بڑی جسارت نہیں کرسکتے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط بات منسوب کریں۔ یہاں اللہ تعالیٰ جنوں کی گمراہی کی ایک اور وجہ مزید بیان کرتا ہے کہ انسان جنوں کی پناہ لیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے جنوں کا تکبر اور بڑھ گیا، یعنی جنوں کا دماغ اور خراب ہوگیا۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ ہم تو ایسی بڑی ہستی ہیں کہ وہ انسان جو زمین پر خلیفہ بنائے گئے تھے وہ ہماری پناہ مانگنے لگے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی سرکشی بھی بڑھی اور ان کے دماغ بھی خراب ہونے لگے۔

اس جگہ ایک اور بات کو بھی نگاہ میں رکھیے۔ ہمارے ہاں ایک مدت سے یہ کہا جاتا ہے کہ جِن کوئی الگ مخلوق نہیں ہیں بلکہ انسان ہی جِن ہیں۔ انسانوں میں سے جو لوگ پہاڑوں، صحرائوں اور غاروں میں رہنے والے ہیں، ان کا نام جِن ہے۔ پچھلی صدی کے آخر سے یہ خیال پیش کیا گیا تھا اور اب تک اسے مسلسل لکھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے اور اب یہ ایک تھیوری بنادی گئی ہے کہ پہاڑی، صحرائی اور دیہاتی مخلوق جِن تھی۔ یہاں صاف طور پر قرآن جِن اور انسان کو دو الگ مخلوق کہہ رہا ہے، اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ انسانوں نے جنوں کی پناہ مانگنا شروع کردی جس کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہوگیا اور وہ سمجھنے لگے کہ ہمارا بھی کوئی مقام ہے اور ہم کوئی بڑی ہستی ہیں۔ اب کوئی ان احمقوں سے پوچھے جو یہ باتیں کرتے ہیں کہ کب انسانوں نے دیہاتی اور کوہستانی لوگوں سے پناہ مانگی ہے اور کب ان کی عبادت کی ہے۔ کب انھیں خدائی میں شریک قرار دیا ہے۔ اس پوری سورت کو دیکھ لیجیے۔ جنوں کے متعلق قرآنِ مجید جو چیزیں بیان کر رہا ہے وہ کسی بھی طرح سے انسانوں پر چسپاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ ایک ایسی مخلوق پر چسپاں ہوتی ہیں جو انسانوں سے بالکل الگ ہے اور جس کے متعلق انسانوں کے اندر عجیب عجیب تصورات اور عقائد پائے جاتے ہیں۔

وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۷) اور یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔

یہاں ’تم‘ کا خطاب کفارِ مکہ اور تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے کہ تم نے جس طرح سے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کبھی مُردوں کو زندہ کرکے نہیں اُٹھائے گا، اسی طرح سے جِن بھی یہ سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد نہیں اُٹھنا ہے۔

اس سے پہلے بارہا میں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انسان کی گمراہی کی بنیادی وجوہ میں سے، بلکہ بہت بڑی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اُٹھنا ہے اور اپنے خدا کو کوئی جواب نہیں دینا ہے، تو وہ اور دنیادار ہوجاتا ہے اور اس کے نزدیک ہدایت اور ضلالت کے درمیان کوئی خاص فرق باقی نہیں رہتا۔ ہدایت اور ضلالت دونوں کا عقیدہ ہو کہ مرکر مٹی نہیں ہونا ہے تو کوئی نتیجہ نکلتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی نتیجہ نکلنا ممکن نہیں ہے۔   اس لیے آدمی اس معاملے میں serious ہی نہیں رہتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ چونکہ     وہ منکرین آخرت تھے اس لیے انکارِ آخرت نے انھیں بنیادی طور پر گمراہی میں ڈال دیا تھا۔ یہ اس بات سے بے پروا ہوگئے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اس وجہ سے غیرذمہ دارانہ طریقے سے انھوں نے غیرذمہ دارانہ اور بے بنیاد عقیدے گھڑ لیے تھے۔ وہ جس طرح اپنے متعلق یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم یہ کچھ ہیں، اسی طرح وہ حقیقت کے متعلق بھی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ یہ کچھ ہے۔

وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۷)، اس فقرے کے  دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔ دوسرے یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بناکر نہ بھیجے گا‘‘۔ چونکہ الفاظ جامع ہیں اس لیے ان کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی رسالت اور آخرت دونوں کا انکار پایا جاتا تھا۔ آگے کے مضمون کی مناسبت سے بعد والا مضمون زیادہ قابلِ ترجیح ہے۔ اسی لیے آسمان پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ اس کے بعد پھر جنوں کا کلام شروع ہوتا ہے۔ یہ چونکہ جملۂ معترضہ تھا اس لیے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔

وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآئَ فَوَجَدْنٰھَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُہُبًاo  (۷۲:۸) اور یہ کہ ’’ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹاپڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہورہی ہے‘‘۔

اب وہ یہ بتا رہے ہیں کہ جنوں میں یہ جستجو کیوں پیدا ہوئی تھی اور کیا واقعہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے ہم تلاش میں نکلے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جب عالمِ بالا کی طرف گئے اور وہاں ہم نے سن گن لینے اور حالات معلوم کرنے کی کوشش کی تو ہم نے دیکھا کہ عالمِ بالا تمام طرف سے نگرانی میں ہے۔ بہت زبردست پہرے دار لگے ہوئے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور کسی کو بھی آگے نہیں جانے دے رہے کہ کوئی سن گن ہی لے لے، اور بے تحاشا شہاب ثاقب ہیں جن کی بارش ہورہی ہے تاکہ کوئی چیز اُوپر نہ جاسکے۔

وَّاَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْھَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ط فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَہٗ شِھَابًا رَّصَدًاo  (۷۲:۹) اور یہ کہ ’’پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے ، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے‘‘۔

ہم عالمِ بالا میں سن گن لینے کے لیے پہلے گھات لگایا کرتے تھے اور کہیں چھپ چھپا کر عالمِ بالا کی خبریں لایا کرتے تھے ، مگر اب حالت یہ ہے کہ جو کوئی بھی اس کی کوشش کرتا ہے تو ایک شہابِ ثاقب اس کی گھات میں لگا ہوتا ہے تاکہ اسے ماربھگائے۔

وَّاَنَّا لَا نَدْرِیْٓ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِھِمْ رَبُّھُمْ رَشَدًاo (۷۲:۱۰)اور یہ کہ ’’ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیاگیا ہے یا اُن کا رب انھیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے‘‘۔

یہ چیز تھی جس کی وجہ سے جِن تلاش میں نکلے تھے۔ وہ اس تحقیق میں نکلے تھے کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔

یعنی وہ یہ بتا رہے ہیں کہ پہلے ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ ہم عالم بالا میں جاتے تھے وہاں پر   سُن گن لینے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر جب کوئی خبریں ہمارے ہاتھ لگتی تھیں تو ہم اپنے اولیا کو سنایا کرتے تھے اور پھر وہ ان سے اپنی فال گیری کا ڈھونگ رچاتے تھے، خبریں دیتے تھے اور سفلی اعمال کرنے والوں کو خبریں دیتے تھے۔ لیکن اب ہر طرف زبردست پہرے لگے ہوئے تھے اور کوئی کسی بھی قسم کی سُن گن لینے نہیں دے رہا تھا۔ اسی وجہ سے اب ہمیں پریشانی ہوئی کہ کیا واقعہ ہونے والا ہے؟ یہ زبردست تیاریاں آخر کس چیز کی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ پہلے اس طرح کا کوئی موقع نہ تھا کہ ہمیں مار مار کر بھگا دیا جاتا بلکہ اب قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جا رہا ہے؟ ہمیں یہ فکر ہوئی کہ زمین پر کوئی بڑی آفت آنے والی ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے کسی بھلائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے وہ یہ جاننے کے لیے نکلے کہ زمین میں کیا بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ جب وہ وہاں سے گزر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ مجید پڑھ رہے تھے اور قرآنِ مجید کو سن کر انھیں یہ معلوم ہوا کہ یہ کس قسم کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

آگے چل کر بھی اس بات کی تائید کی گئی ہے اور اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بات لوگوں کو سمجھائی ہے کہ اس قرآن کے متعلق تم یہ گمان کرتے ہو کہ شیاطین اس کو القا کرتے ہیں اور شیاطین کا اس میں دخل ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیاطین کو اس کے قریب پھٹکنے تک کی اجازت نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی ؑ تک اپنا کلام بھیجنے کا آغاز کرتا ہے تو اتنے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہ اس کے قریب تک نہیں پھٹک سکتے۔ انھیں مار مار کر بھگا دیا جاتا ہے تاکہ ان کے  کان میں بھی یہ آواز نہ پڑنے پائے کہ رسولؐ کی طرف کیا خبر بھیجی جارہی ہے۔ اگر وہ اس کو ذرہ برابر بھی سن لیں تو پہلے سے جاکر لوگوں کو خبردار کردیں کہ اب یہ آیت اُترنے والی ہے، اب یہ خبر تمھیں سنائی جانے والی ہے۔ اس طرح کی شرارت وہ تب کرتے جب اس کے لیے اتنے زبردست انتظامات نہ کیے جاتے۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نبی ؑ کو مقرر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اور نبی ؑ کے درمیان پیغام پہنچانے کے لیے اتنے زبردست انتظامات کیے جاتے ہیں کہ کسی قسم کی کہیں کوئی  خلل اندازی نہیں ہوسکتی۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام بھیجا ہے تاکہ یہ اپنی صحیح جگہ پر جائے۔ نہ کسی کو یہ پتا چلنے پائے کہ نبی کو کیا خبر آنے والی ہے، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کون وحی لارہا ہے، اور نہ کوئی اس میں کسی قسم کی دراندازی کرسکے اور کوئی لفظ بڑھا سکے یا گھٹا سکے یا کسی مضمون کا اضافہ یا کمی کرسکے۔    اس طرح اللہ تعالیٰ نہایت محفوظ طریقے سے نبی تک اپنا کلام پہنچاتا ہے۔

وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِکَ ط کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًاo   (۷۲:۱۱) اور یہ کہ ’’ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں‘‘۔

یہاں جنوں کی زبان سے یہ حقیقت لوگوں کو بتائی جارہی ہے کہ سارے کے سارے جِن باکمال ، اولیا یا نیک ہستیاں نہیں ہیں، بلکہ جن بھی اسی طرح سے مخلوق ہیں جیساکہ انسان ہیں۔ ان میں بھلے بھی ہیں اور بُرے بھی، نیک بھی ہیں اور بد بھی،ایمان دار بھی ہیں اور بے ایمان بھی۔ ہرطرح کی مخلوق ہے۔ جِن یہ خود بتا رہے ہیں کہ ہم میں سے کچھ صالح تھے اور کچھ بُرے تھے۔ اس طرح سے ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے تھے۔

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُعْجِزَ اللّٰہَ فِی الْاَرْضِ وَلَنْ نُّعْجِزَہٗ ہَرَبًاo  (۷۲:۱۲) اور یہ کہ ’’ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ ہمارے اسی خیال نے ہمیں نجات کی راہ دکھا دی۔ ہم چونکہ اللہ سے  بے خوف نہ تھے اور ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم نے اس کی نافرمانی کی تو اس کی گرفت سے کسی طرح بچ نہ سکیں گے، اس لیے جب وہ کلام ہم نے سنا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہِ راست بتانے آیا تھا تو ہم یہ جرأت نہ کرسکے کہ حق معلوم ہوجانے کے بعد بھی انھی عقائد پر جمے رہتے جو ہمارے نادان لوگوں نے ہم میں پھیلا رکھے تھے۔

(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: ارشاد  الرحمٰن ، امجد عباسی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے لیے جو دین بھیجا ، وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے۔ جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے، اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہےاتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے۔

اس دین کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کر دیا۔ اس وجہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک مزکیِ نفوس اور ایک معلّم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح بحیثیت ایک ماہرِ سیاست اور ایک مدبرِ کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔

آج کی اس صحبت میں، اس کانفرنس کے محترم داعیوں کے ارشاد کی تعمیل میں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اسی پہلو سے متعلق چند باتیں مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

نئی شیرازہ بندی

اس امرِواقعی سے آپ میں سے ہرشخص واقف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مؤرخ علّامہ ابن خلدون نے تو ان کو ان کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیرسیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس راے سے پورا پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اہلِ عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ہمیشہ ان پر نراج اور انارکی کا تسلّط رہا۔ پوری قوم جنگ جُو اور باہم نبردآزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لُوٹ مار میں برباد ہورہی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعور، قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں، جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں، ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج نراج پسندی کے لیے اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امرِمحال بن چکا تھا۔ خود قرآن نے ان کو قوما لُدا کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیںاور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا کہ: لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ (الانفال ۸:۶۲) ’’اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرڈالتے جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے تھے‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳برس کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیانِ مرصوص بن گئی۔ یہ صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسباب نزاع و اختلاف بھی  ایک ایک کر کے دُور ہوگئے۔ یہ صرف اپنے ظاہرہی میں متحد و مربوط نہیں ہوگئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ اور ہم رنگ ہوگئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہوگئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا اور اس کے اندر حکم اور اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں اُبھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دُنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا۔

اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد

اس تنظیم وتالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیدا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قومی، نسلی ، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اُٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دُنیوی مفادات کا کوئی لالچ دلایا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے یا بڑے مدبّر اور سیاست دان گزرے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انھی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر حضوؐر بھی ان چیزوں سے فائدہ اُٹھاتے تو یہ بات آپؐ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی لیکن آپؐ نے نہ صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا،بلکہ ان میں سے ہرچیز کو ایک فتنہ قرار دیا اور ہرفتنے کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔

آپؐ نے اپنی قوم کو صرف خدا کی بندگی اور اطاعت، عالم گیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف ، اعلاے کلمۃ اللہ اور خوفِ آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے۔ اس وجہ سے آپؐ کی مساعی سے دُنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ ایک بہترین اُمت ظہور میں آئی جس کی تعریف یہ بیان کی گئی: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ( ٰ الِ عمرٰن ۳:۱۱۰)’’تم دنیا کی بہترین اُمت ہو، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے اُٹھائے گئے ہو‘‘۔

ہرقیمت پر اصولوں کی پاس داری

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور حضوؐر کے تدبّر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ  جن اصولوں کے داعی بن کر اُٹھے، اگرچہ وہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا: فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہرگوشہ ان کے احاطے میں آتا تھا لیکن آپؐ نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں کی، نہ دشمن کے مقابل میں، نہ دوست کے مقابل میں۔ آپؐ کو سخت سے سخت حالات سے سابقہ پیش آیا، ایسے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو ان کے مقابل میں نرم پڑجاتا لیکن آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپؐ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملے میں کوئی سمجھوتا گوارا نہیں فرمایا۔ اسی طرح آپؐ کے سامنے پیش کش بھی کی گئی اور آپؐ کو مختلف قسم کے دینی و دنیوی مصلحتیں بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں بھی آپؐ کے کسی اصول کو بدلوانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپؐ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہربات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دنیا کے مدبّروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبّر اور سیاست دان کی نشان دہی آپ نہیں کر سکتے، جو اپنے دوچار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پورا نظامِ زندگی کھڑا کر دیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانے کے مذاق اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور ماہرینِ سیاست اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے حضوؐر کو دیوانہ کہتے تھے لیکن حضوؐ ر نے اس نظامِ زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کرکے ثابت کردیا کہ جو لوگ حضوؐر کو دیوانہ سمجھتے تھے، وہ خود دیوانے تھے۔

صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کے لیے بھی اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ اصولوں کے لیے جانی اور مالی اور دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کیے گئے اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کیے گئے لیکن اصولوں کی ہرحال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک کے لیے تھی تو اس کا معاملہ اور تھا، اس کی مدت ختم ہوجانے کے بعد وہ ختم ہوگئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہرحال اور ہرقیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپؐ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی فلاں اصول کی لیکن اب حکمت ِعملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ پر فلاںبات بالکل اس کے خلاف اختیار کرلی جائے۔

اصولی سیاست

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اس اعتبار سے بھی دُنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپؐ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہرقسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔

آپؐ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض حالات میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں جو شخصی زندگی کے کردار میںمکروہ اور حرام قرار دی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے جھوٹ بولے، چال بازیاں کرے، عہدشکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے تو اگرچہ اس زمانے میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں، تاہم اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھیراتا ہے اور قانون بھی ان باتوں کو جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک سیاست دان اور ایک مدبّر یہی سارے کام اپنی سیاسی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کے لیے کرے تو یہ سارے کام اس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی میں بھی اس کے اس طرح کے کارناموں پر اس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی انھی کمالات کی بناپر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کے لیے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ ان باتوں میں شاطر ہوتے تھے وہی لوگ اُبھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے، بلکہ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابل میں ایک صاحب ِ اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ آپؐ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپؐ کو پیش آئے ہیں ،جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جاسکتی ہے۔

آپؐ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور پھر کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپؐ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپؐ کو حریفوں اور حلیفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے، دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں، عہدشکنی کرنے والو ں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں اور سیاسی گفتگوئوں کے لیے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے، بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپؐ نے انجام دیے لیکن دوست اور دشمن ہرشخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ آپؐ نے کبھی کوئی وعدہ جھوٹا نہیں کیا، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا، کسی معاہدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ اگر آپ دُنیا کے مدبّرین اور اہلِ سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں تو مَیں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھرا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی سی دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضوؐر کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔ اب آپ اس چیز کو چاہے تدبّر کہیے یا حکمت ِ نبوت۔

خوں ریزی سے پاک انقلاب

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور حضوؐر کے تدبّر کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ آپؐ نے عرب جیسے ملک کے ایک ایک گوشے میں امن و عدل کی حکومت قائم کردی۔ کفّار و مشرکین کا زور آپؐ نے اس طرح توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقعے پر فی الواقع انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے، یہود کی سیاسی سازشوں کا بھی آپؐ نے خاتمہ کر دیا، رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھی آپؐ نے انتظامات فرمائے۔ یہ سارے کام آپؐ نے کرڈالے لیکن پھر بھی انسانی خون بہت کم بہا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ نہیں کیاجاسکتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود شاید ان نفوس کی تعداد چندسو سے زیادہ نہیں ہوگی جو اس جدوجہد کے دوران میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے شہید ہوئے یا مخالف گروہ کے آدمیوں میں سے قتل ہوئے۔

پھر یہ بات بھی غایت درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے معمولی معمولی انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں آبروئیں فاتح فوجوں کی ہوس کا شکارہوجاتی ہیں اور مفتوحہ ملک کی سڑکیں اور گلیاں حرام کی نسلوں سے بھرجاتی ہیں۔ اس تہذیب وتمدن کے عہد میں بھی اس صورتِ حال پر اربابِ سیاست شرمندگی اور ندامت کے اظہار کے بجاے اس کو ہرانقلاب کا ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دنیا میں جو انقلاب رُونما ہوا، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے کسی کے ناموس پر دست درازی کی ہو۔

دنیوی کرّوفر کے بجاے فقر و درویشی

اہلِ سیاست کے لیے طمطراق بھی سیاست کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ عوام کو ایک نظام میں پرونے اور ایک نظم قاہر کے تحت منظم کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں وہ بہت سی باتیں اپنوں اور بے گانوں پر اپنی سطوت جمانے اور اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ یہ ساری باتیں ان کی سیاسی زندگی کے لازمی تقاضوں میں سے ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں نہ اختیار کریں گے تو سیاست کے جو تقاضے ہیں وہ ان کے پورے کرنے سے قاصر رہ جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے جب وہ نکلتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کے جلو میں چلتے ہیں، جہاں وہ بیٹھتے ہیں ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں، جہاں وہ اُترتے ہیں ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں میں ان کے حضور میں ایڈریس پیش کیے جاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جب وہ مزید ترقی کرجاتے ہیں تو ان کے لیے قصرو ایوان آراستہ کیے جاتے ہیں، ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں، ان کے لیے بَری و بحری اور ہوائی خاص سواریوں کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جب وہ کبھی کسی سڑک پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو وہ سڑک دوسروں کے لیے بند کردی جاتی ہے۔

اُس زمانے میں ان چیزوں کے بغیر نہ کسی صاحب ِ سیاست کا تصور دوسرے لوگ کرتے اور نہ کوئی صاحب ِ سیاست ان لوازم سے الگ خود اپنا کوئی تصور کرتا لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اعتبار سے بھی دُنیا کے تمام اہلِ سیاست سے الگ رہے۔ جب آپؐ اپنے صحابہؓ میں چلتے تو کوشش فرماتے کہ سب کے پیچھے چلیں، مجلس میں تشریف رکھتے تو اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ محمدؐ رسول اللہ کون ہیں؟ کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو دوزانو ہوکر بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور جس طرح ایک غلام کھانا کھاتا ہے، اس طرح مَیں بھی کھانا کھاتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک بدو اپنے اس تصور کی بنا پر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کے ذہن میں رہا ہوگا، سامنے آیا تو حضوؐر کو دیکھ کر کانپ گیا۔ آپؐ نے اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، میری ماں بھی سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی، یعنی جس طرح تم نے اپنی ماں کو بدویانہ زندگی میں سوکھا گوشت کھاتے دیکھا ہوگا، اس طرح کا سوکھا گوشت کھانے والی ایک ماں کا بیٹا مَیں بھی ہوں۔ نہ آپؐ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اس میں شب میں استراحت فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی اور غیرملکی وفود اور سفرا سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی اُمور کے فیصلے فرماتے۔

یہ نہ خیال فرمایئے کہ اس زمانے کی بدویانہ زندگی میں سیاست اس طمطراق اور ٹھاٹ باٹ سے آشنا نہیں ہوئی تھی، جس طمطراق اور جس ٹھاٹ باٹ کی وہ اب عادی ہوگئی ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ سیاست اور اہلِ سیاست کی تو آشا ہی ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔ فرق اگر ہواہے تو محض بعض ظاہری باتوں میں ہوا ہے۔ البتہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا، جس میں دنیوی کرّوفر کے بجاے خلافت الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا لیکن اس سادگی اور اس فقرودرویشی کے باوجود اس کے دبدبے اور اس کے شکوے کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔

اہل اور تربیت یافتہ رفقا کی تیاری

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبّر کا ایک اور پہلو بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارک ہی میں ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت بھی تربیت کر کے تیار کر دی جو آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج کے مطابق آگے بڑھانے، اس کو مستحکم کرنے اور اجتماعی و سیاسی زندگی میں اس کے تمام مقتضیات کو بروے کار لانے کے لیے پوری طرح اہل تھے۔ چنانچہ تاریخی حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر آس پاس کے دوسرے ممالک میں قدم رکھ دیا اور دیکھتے دیکھتے اس کرئہ ارض کے تین براعظموں میں اس نے اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص و رجال کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ میں نے جن تین براعظموں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے متعلق یہ حقیقت بھی ہرشخص جانتا ہے کہ ان کے اندر وحشی قبائل آباد نہیں تھے بلکہ وقت کی جبار و قہار سلطنتیں نہایت ترقی یافتہ تھیں لیکن اسلامی انقلاب کی فوجوں نے جزیرئہ عرب سے اُٹھ کر ان کو ان کی جڑوں سے اس طرح اُکھاڑ پھینکا گویا زمین میں ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور ان کے ظلم و جَور کی جگہ ہرگوشے میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلا دیں جن سے دنیا صدیوں تک متمتع ہوتی رہی۔

دنیا کے تمام مدبّرین اور اہلِ سیاست کی پوری فہرست پر نگاہ ڈال کر غور کیجیے کہ ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر آتا ہے جس نے اپنے دوچار ساتھی بھی ایسے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہوجو اس کے فکروفلسفہ اور اس کی سیاست کے ان معنوں میں عالم اور عامل رہے ہوں، جن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے عالم و عامل ہزاروں صحابہؓ تھے۔

نبیِ خاتم    ؐ اور پیغمبر عالم    ؐ

آخر میں ایک بات بطور تنبیہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا   اصلی مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپؐ نبیِ خاتم  ؐ اور پیغمبرِعالمؐ ہیں۔ سیاست اور تدبّر اس مرتبۂ بلند کا ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔ جس طرح ایک حکمران کی زندگی پر ایک تحصیل دار کی زندگی کے زاویے سے غور کرنا ایک بالکل ناموزوں بات ہے، اس سے زیادہ ناموزوں بات شاید یہ ہے کہ ہم سیّدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک ماہرِ سیاست یا ایک مدبّر کی زندگی کی حیثیت سے غور کریں۔

نبوت و رسالت ایک عظیم عطیۂ الٰہی ہے۔ جب یہ عطیہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو بخشتا ہے تو وہ سب کچھ اس کو بخش دیتا ہے، جو اس دنیا میں بخشا جاسکتا ہے۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو صرف نبی ہی نہیں تھے بلکہ خاتم الانبیاؐ تھے۔ صرف رسول ہی نہیں تھے بلکہ سیّدالمرسلؐ تھے۔ صرف  اہلِ عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ کی تعلیم و ہدایت صرف کسی خاص مدت تک ہی کے لیے نہیں تھی بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والی تھی۔ اور یہ بھی ہرشخص جانتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کسی دینِ رہبانیت کے داعی بن کرنہیں آئے، بلکہ ایک ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا، جس میں عبادت کے ساتھ سیاست اور درویشی کے ساتھ حکمرانی کا جوڑ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہوگیا تھا بلکہ یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا تھا۔ جب صورتِ حال یہ ہے تو ظاہر ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سیاست دان اور مدبّر اور کون ہوسکتا ہے لیکن یہ چیز آپؐ کا اصلی کمال نہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا آپؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔

مُردار، خون، لحم خنزیراور جو کچھ اللہ کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اس کے حرام ہونے کے  احکام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ یَـئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْـنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط (المائدہ۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں، لہٰذا اب تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔

پہلے لفظ الیوم کا مفہوم سمجھ لیجیے۔

    کبھی الیوم کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ آج کے دن یہ بات ہوئی اور کبھی اس کے معنی ’اب‘ کے ہوتے ہیں، یعنی جس زمانے میں، یا یہ وہ وقت ہے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ آپ کہتے ہیں کہ آج حالات یہ ہیں۔ آج دنیا کا رنگ بگڑا ہوا ہے۔ آج لوگوں کی اخلاقی حالت خراب ہو رہی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آج کے روز یہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ زمانۂ ماضی کا ذکر نہیں بلکہ زمانۂ حال کا ذکر ہے۔ اب وہ حالات ہیں کہ جن میں یہ واقعات پیش آئے ہیں۔

کفار و مشرکین کی مایوسی

اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے کہ جب کفار مسلمانوں کے دین سے مایوس ہوگئے۔ دراصل یہ تاریخ کا ایک خاص دور ،مرحلہ اور stage تھا جس میں کفّار مسلمانوں سے مایوس ہوئے۔

کفّار کے مایوس ہونے کا مطلب کیا ہے؟

ایک وہ وقت تھا کہ کفّار یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ ہم لالچ سے، یا دھوکا دے کر، یا دبائو ڈال کر، یا دھمکیاں دے کر کسی نہ کسی طرح سے مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیر لیں گے۔     اس اُمید پر وہ لڑ رہے تھے۔اپنی چالیں چل رہے تھے اور اپنی ساری تدبیریں کر رہے تھے اور اسی اُمید پر وہ ظلم و ستم بھی ڈھا رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ بھی دے رہے تھے، فریب بھی دے رہے تھے۔ یہ سارے کام وہ کر رہے تھے۔

ایک مرحلہ وہ آیا جب کفار کو معلوم ہوگیا کہ یہ اب ہلائے ہلنے والے نہیں۔ یہ دین جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، یہ اب ٹلنے والا نہیں ہے۔ یہ اب قائم ہوگیا ہے اور یہ ہمارے مٹائے مٹ نہیں سکتا۔ مسلمان بھی اسلام پر ثابت قدم ہیں۔ اب ان کو ہٹایا نہیں جاسکتا، اور    دینِ اسلام کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہماری طاقت سے اب باہر ہوگیا ہے۔

 یہ بات کس وقت پیش آئی؟

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ مائدہ کا بڑا حصہ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے۔  صلح حدیبیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح میں صاف الفاظ میں فتح مبین کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ فتح مبین تھی جس سے یہ فیصلہ ہوگیا، پورے عرب کو یہ معلوم ہوگیا، کفار کو بھی معلوم ہوگیا اور مسلمانوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ اب کفار کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ اب مسلمانوں کی چڑھ بن آئی ہے۔ اب مسلمانوں کے چڑھائو کا وقت ہے اور کفار کے اُتار کا وقت۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو اب وہ وقت آگیا ہے کہ کفّار تمھارے دین سے متعلق اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اس کو مٹا سکیں۔ تمھارے دین کو اب یہ طاقت حاصل ہوچکی ہے کہ اب یہ کفار کے مٹائے نہیں مٹے گا۔ اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم ان سے خوف کھائو۔ پہلے توایک آدمی کے لیے اس بات کا خطرہ تھا کہ اگر وہ صاف صاف اور کھلم کھلا احکامِ الٰہی کی پابندی کرے گا تو اس کی پٹائی ہوگی۔ اس کو گھر سے نکال باہر کیا جائے گا۔اس کا مال چھین لیا جائے گا۔ اس کے اُوپر ظلم وستم ڈھائے جائیں گے۔ اس وجہ سے آدمی کے لیے یہ بھی مشکل تھا کہ وہ اسلام قبول کرلے اور کھلم کھلانماز پڑھ سکے۔ ایک وقت ہمارے ملک میں ایسا بھی آچکا ہے کہ ایک مسلمان کو پارکوں میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی کہ مذاق اُڑایا جائے گا کہ لیجیے مُلّاجی نماز پڑھ رہے ہیں۔ وہاں حالات اس سے زیادہ خراب تھے۔

جب اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہوگئی کہ کفار کو معلوم ہوگیا کہ اب یہ ہلائے نہیں ہلتے، اب ان کی ایک مضبوط ریاست قائم ہوگئی ہے۔ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو ہمیں یہ شکست دے ڈالیں گے۔ جنگ ِ اَحزاب میں جس وقت کفار اپنا پورا زور لگاکر ناکام ہوکر چلے گئے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ: اب وہ وقت گیا کہ یہ تم پر    چڑھ چڑھ کر آرہے تھے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے، اور ان کو دفاع کرنا پڑے گا۔

تکمیلِ دین کا تقاضا

جب مسلمانوں کو یہ مقام حاصل ہوگیا تو اللہ نے کہا کہ اب تمھارے لیے میرے احکام کی پوری پوری اور کھلم کھلا تعمیل کرنے کا کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ پہلے وقت تھا خطرے کا اور خوف کا، لیکن اب یہ حالت نہیں ہے۔ اب اگر تم پیچھے ہٹے، اب اگر تم نے میرے احکام کی پوری پوری تعمیل کرنے میں تامّل کیا، تو اس کے بعد تم پکڑے جائو گے۔ اب ان سے ڈرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔

اس سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر مسلمان کسی مقام پر ، کسی علاقے میں، دنیاکے کسی ملک میں محکوم ہوں، غلام ہوں، ان کے پاس طاقت نہ ہو، دوسرے کے احکام ان پر جاری ہو رہے ہوں اور ان کے احکام دوسروں پر جاری نہ ہو رہے ہوں، ان کے پاس خود اپنے احکام جاری کرنے کی طاقت نہ ہو، اس وقت مسلمانوں کے لیے اس بات کا عذر ہے اگر وہ کسی حکم کی تعمیل نہ کرسکیں کہ ہم بے بس ہیں، ہمیں کفّار کا خطرہ تھا۔ چنانچہ جن حالات میں مسلمان دبے ہوئے ہوں، مغلوب ہوں، کفار چیرہ دست ہوں اور اسلام کی دشمنی پر تلے ہوئے ہوں، ان حالات میں اگر کچھ احکام پر مسلمان عمل نہ کرسکیں، اپنی پوری کوشش کے باوجود کچھ احکام پر عمل کرنے میں ناکام رہ جائیں، تو ان کے لیے عذر ہے۔

ایک وہ حالت ہوتی ہے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کوئی بیرونی یا اندرونی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ آپ کے پاس وہ طاقتیں موجود ہیں جن سے آپ اپنے معاشرے میں پورے پورے اسلامی احکام نافذ کرسکیں۔ کفّارِ ہند یا کفّار انگریز جن سے آپ کل مغلوب تھے، وہ اب اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ پاکستان ختم ہوجائے گا۔ بیرونی دنیا بھی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ریاست قائم رہنے کے لیے بنی ہے، اب یہ ختم نہیں ہوسکتی۔ اب مسلمانوں کے پاس اپنی طاقت ہے۔ یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں یہاں یہ بات فرمائی گئی ہے:

فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط (۵:۳) اب تمھارے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ تم کسی سے ڈرو، اب مجھ سے ڈرو۔

’مجھ سے ڈرو‘ کا مطلب یہ ہے کہ میرے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تمھیں    مجھ سے ڈرنا چاہیے۔ اب تمھارے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے پاس وہ طاقت آجائے کہ خدا کے سوا کسی سے ڈرنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہے، اس صورت میں اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر یا ان سے متاثر ہوکر احکامِ الٰہی میں ترمیمات کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں، تو اس کے بعد دنیا میں بھی خدا کے عذاب کا خوف ہے اور آخرت میں بھی۔ اب کون سی معقول وجہ ہے کہ آپ یہ روش اپنائیں۔

یہودی تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی وہ رہتے ہیں، اپنی بستیاں الگ بساتے ہیں، اپنے محلے الگ بساتے ہیں، ان کی آبادیاں الگ ہوتی ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں، اپنے لیے ذبیحہ کا پورا انتظام کرتے ہیں جس طرح کہ آپ اس ملک میں کرتے ہیں۔ یورپ کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے، امریکا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جس جگہ انھوں نے اپنے ذبیحہ کے خود انتظامات نہ کیے ہوں۔butcher meat مشہور ہے، جسے چاہیے وہ حاصل کرسکتا ہے۔ گویا جس ذبیحہ کو وہ حلال نہیں سمجھتے اسے وہ استعمال نہیں کرتے۔ جس ذبیحہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں، ذبیحہ کے جو احکام ہیں اس کے مطابق دنیا کے ہر حصے میں انھوں نے اس کا انتظام کیا ہوا ہے۔

دوسری طرف مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ اس وقت انگلستان میں ۳ لاکھ مسلمان ہیں۔ بحیثیت مجموعی اس وقت فرانس میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔صرف پیرس شہر میں ۵ لاکھ مسلمان ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یورپین ممالک میں تو ہمارے حلال کھانے کا حصول بڑا مشکل ہے۔ ہم کیسے کھانا کھائیں؟ ہمارے لیے اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ ہم مشینوں کے کٹے ہوئے ذبیحہ کو کھائیں۔ حلال ذبیحہ ہمیں کہاں میسر ہے؟ نتیجہ کیا ہوا کہ علماے کرام بالخصوص مصر اور شام کے علماے کرام نے بے تکلف فتویٰ دے دیا کہ خدا کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے، مشینوں سے ذبح ہو یا ہاتھ سے ذبح ہو، مسلمان ذبح کرے یا غیرمسلم ذبح کرے، کھائو۔

یہ وہ صورتِ حال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے وارننگ دی تھی کہ اب تمھارے لیے خوف کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب اگر تم نے میرے احکام کی تعمیل میں تامّل کیا تو پھر ڈرو مجھ سے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں بھی میرے عذاب سے ڈرو اور آخر ت میں بھی میرے عذاب سے ڈرو۔

اس کے بعد فرمایا:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (۵:۳) آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

یہاں ’آج‘ بھی اسی معنی میں ہے جو میں نے پہلے بیان کیا تھا۔ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے بلکہ تاریخ کا خاص مرحلہ اور ایک خاص دور ہے۔

یہ بھی سمجھ لیجیے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ اس سورہ کے نزول کے وقت نازل ہوئی اور دوسرا اس موقعے پر جب ۱۰ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام مکمل ہوگیا تو یہ نازل ہوئی تھی۔ یہ وقت تھا جب آپؐ آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپس جارہے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد لوگوں کی سمجھ میں بات پوری طرح سے نہیں آئی تھی کہ کیا کہا جار ہا ہے۔ جب نبی اکرمؐ کا مشن پوری طرح سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا اور اندھوں کو بھی نظر آنے لگا کہ اب آپؐ کا مشن تکمیل کو پہنچ گیا ہے، اس وقت اس آیت کو پھر دہرایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا۔

دین کو مکمل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم کو دنیا میں جس جس چیز کی ہدایت کی ضرورت تھی وہ پوری کی پوری ہدایت دے دی گئی ہے۔ جہاں مفصل قوانین بتانے کی ضرورت تھی وہاں مفصل قوانین بتادیے گئے ہیں، جہاں اصول دینے کی ضرورت تھی وہاں اصول دے دیے گئے۔ بہرحال اب تمھارا دین مکمل ہوگیا ہے۔

وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(۵:۳) اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی۔

اتمامِ نعمت کے دونوں معنی ہیں، یعنی ہدایت کی نعمت بھی تمام کردی، اور تم کو وہ اقتدار بھی بخش دیا جس سے تم میرے احکام کی تعمیل خود کرسکو اور دنیا میں میرے احکام کو نافذ کرسکو۔ اس میں دونوں نعمتیں ہیں، یعنی نعمت ِ ہدایت کی تکمیل بھی، اور اس نعمت کی تکمیل بھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مغلوب نہیں رہنے دیا۔ مسلمانوں کو وہ طاقت عطا فرما دی جس سے ان کو اس حالت سے نکال دیا جس سے وہ اس کے احکام کی تعمیل کرنا چاہتے بھی تو نہیں کرسکتے تھے، اور اس حالت کو پہنچا دیا جس میں وہ اس کے احکام کی تعمیل پوری طرح سے کرسکتے تھے اور دنیا میں اس کے احکام کو نافذ کرنے اور اس کے احکام کو غالب کرنے کے لیے جہاد کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت عطا کردی۔ تب فرمایا کہ میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

اضطرار کی کیفیت

فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِّثْمٍ لا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ  o  (۵ :۳) پھر اگر کوئی شخص مضطر ہو، مخمصے کی حالت میں ہو، بغیر اس کے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہو، تو اللہ غفور و رحیم ہے۔

معلوم ہوا کہ جو چار چیزیں اُوپر بیان کی گئی ہیں، یعنی مُردار، خون، لحم خنزیر اور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، یا جو اللہ کے نام کے بغیر کسی استھان پر ذبح کیا گیا ہو، ان چاروں چیزوں کو حلال کرنے والی وہ حالت ہے جس میں اضطرار لاحق ہو، مخمصے کی حالت ہو، اور آدمی گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ اس صورت میں ان میں سے کوئی ایک چیز اگر آدمی استعمال کرے  تو پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور پر حرام ہیں، کسی حالت میں ان میں اباحت کی گنجایش نہیں نکلتی، جیسے زنا۔ کسی حالت میں اس کے جواز کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی۔ کسی حالت میں وہ مباح نہیں ہے۔

بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اضطرار کی حالت لاحق ہوجائے تو اس صورت میں ان کی حُرمت میں اباحت ہے۔ حُرمت کا حکم باقی رہے گا لیکن اضطرار کی وجہ سے عارضی طور پر وہ حُرمت ختم ہوجائے گی اور وہ مباح ہوجائے گی جب تک کہ وہ حالت باقی ہے۔ اضطرار اگر لاحق نہ ہو تو حرام چیز کی طرف جانے والا سخت گناہ گار ہے کیوں کہ اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہوا ہے۔

اضطرار کی حالت میں اگر وہ کوئی حرام چیز کھائے تو اس کے ساتھ شرط کیا ہے؟ فِیْ مَخْمَصَۃٍ ،یعنی ایسا سخت اضطرار ہے کہ جس میں آدمی کے لیے صبر کرنا اور برداشت کرنا ممکن نہ ہو۔ اس کی جان کو خطرہ ہو۔ کوئی ایسی شدید تکلیف ہو کہ وہ برداشت سے باہر ہو، اور اس تکلیف کو رفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ حرام شے کو استعمال کیا جائے۔ اس صورت میں آدمی جس قدر ضرورت ہو اس کو استعمال کرسکتا ہے۔

یہاں غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِّثْمٍ کی شرط لگائی گئی ہے، یعنی یہ کہ اس وقت بھی آدمی کا دل گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ آدمی یہ خیال نہ کرے کہ چلو اچھا ہوا پانی نہیں مل رہا ہے، سخت پیاس کی حالت ہے، اب اس وقت موقع تو ملا ہے ذرا شراب چکھنے کا۔ اگریہ جذبہ پیدا ہوگیا تو وہ چیز حرام ہوگئی کیوں کہ آدمی گناہ کی طرف مائل ہوگیا۔ اس سے نفرت باقی رہے، آدمی اس کو گناہ سمجھتا رہے کہ یہ حرام ہے، اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اجازت دی ہے مجبوراً اس اجازت سے فائدہ اُٹھا رہا ہوں ورنہ ہے تو حرام۔ اگر گناہ کی طرف مائل ہے تو پھر اجازت نہیں۔ مثلاً ایک آدمی کو شدید بھوک لاحق ہوگئی اور اس کو کوئی چیز کھانے کے لیے نہیں مل رہی سواے سور کے گوشت کے۔ اب اس صورت میں وہ اتنا کھائے گا جتنا اس کی جان بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہیں کرے گا کہ سیر دو سیر سور کا گوشت حاصل کیا۔ اس کے کچھ کباب بنائے، کچھ شامی کباب بنائے، اس کے ساتھ کچھ پراٹھے تیار کرنے کی فکر کرے اور یہ سوچے کہ ان کے ساتھ کھائوں۔ یہ جائز نہیں ہے۔ گناہ کی طرف اس کی ذرہ برابر رغبت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ یہ سمجھے کہ یہ حرام چیز ہے اور مجبوراً اسے کھا رہا ہوں۔

اب اگر ان میں سے کوئی چیز آدمی بغیر کسی اضطرار کے استعمال کرتا ہے، خود انتخاب کرتا ہے کہ میں اب ایسے طریقے سے ذبیحہ کروں گا جس میں تزکیہ نہ ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اضطرار لاحق نہیں ہے، کوئی مخمصہ لاحق نہیں ہے، صرف گناہ کی طرف جانے کا جذبہ باقی رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور جذبہ نہیں ہے۔ ورنہ ایک آدمی ہزار مرتبہ سوچے گا کہ میں اگر کوئی ایسا کام کررہا ہوں جس کے اندر حرام ہونے کا امکان ہو کجا کہ حرام ہونے کا یقین ہو، تو وہ کبھی نہ کرے گا۔

اگر کوئی شخص یا حکمران حلال و حرام کے اتنے واضح احکامات کے بعد بھی حرام کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے، تو یہ اس شخص کا کام ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندشوں سے نکل بھاگنے کی سوچ رہا ہو۔ اب تو ہم انگریز یا ہندو سے مغلوب نہیں ہیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبہ عطا کردیا ہے۔ اب  تو ہمیں وہ طاقت اور وسائل دے دیے ہیں کہ ہم اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ اب تو ہمیں دنیا میں اللہ کے احکامات کے نفاذ اور اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جہاد کرنا چاہیے   نہ کہ ہم حرام کو حلال کرنے کے لیے بہانے تلاش کرتے پھریں۔اب تمھیں کیا اضطرار لاحق ہے یا کون سی مجبوری اور پریشانی لاحق ہے کہ تم حرام کی طرف جارہے ہو۔ ایسی صورت میں کسی آدمی کا  یہ تلاش کرتے پھرنا کہ فلاں چیز کو کسی نہ کسی طرح حلال کرلیا جائے، یہ اس آدمی کا کام ہے جو   اللہ تعالیٰ کی بندشوں سے نکل بھاگنے کی سوچ رہا ہو۔ اس شخص کا کام نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا ہو۔

اب اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر اور ان سے متاثر ہوکر احکام الٰہی میں ترمیم کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے بعد وہ دنیا میں بھی خدا کے عذاب سے دوچار ہوں گے اور آخرت میں بھی خدا کے عذاب کا سامنا کریں گے۔ لہٰذا اب تمھارے پاس کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ دانش مندی اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ دنیاوالوں سے ڈرنے کے بجاے اللہ سے ڈرو۔ مسلمانوں کی عظمت و سربلندی اور غلبۂ دین کی راہ بھی یہی ہے۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن ،مرتبین:  ارشاد الرحمٰن ؍  امجد عباسی)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo(المائدہ ۵:۳) تم پر حرام کیا گیا ہے مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر ، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے  گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو___ سواے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا___اوروہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کردی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)۔ البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہوکر ان میں سے کوئی چیز کھالے، بغیر اس کے گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

آج کے درس کے لیے میں نے ان آیات کو اس لیے منتخب کیا ہے کہ قریب کے زمانے میں ایک نیا فتنہ ہمارے ملک میں اُٹھا ہے۔ ہمارے دیے ہوئے ٹیکسوں سے خزانۂ سرکار میں جو رقم جمع ہوتی ہے اُس سے وہ ادارہ قائم کیا گیا ہے جس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ملک کی مجالس قانون ساز کو اور ملک کی حکومتوں کو، اور حکومتوں سے مراد صوبائی اور مرکزی حکومتیں ہیں، دینی معاملات میں قانون سازی کے حوالے سے مشورہ دے گا کہ ان میں کوئی چیز خلافِ اسلام اور خلافِ قرآن و سنت تو نہیں ہے۔ اس کا نام مشاورتی کونسل رکھا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کو اسلامی معاملات میں مشورہ دینے والی کونسل۔ اس کے ساتھ ایک اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے نام سے قائم کیا گیا ہے، یعنی اسلامی مسائل پر وہ تحقیقات کرکے اس کونسل اور حکومت کو یہ بتائے گا کہ شریعت اسلامی کے واقعی احکام کیا ہیں۔

اس تحقیقاتی ادارے میں جو نرالی تحقیقات ہورہی ہیں، وقتاً فوقتاً اس کے کچھ مسائل ہمارے سامنے بھی آتے رہتے ہیں۔ مثلاً اس کے اندر یہ تحقیقات کی گئی ہیں کہ قرآنِ مجید کی عبارت اور  اس کے الفاظ اصل میں حجت نہیں ہیں، اور علمِ ہدایت نہیں ہیں، بلکہ قرآن کے مقاصد کو سمجھ کر ان کو  عملی جامہ پہنانے کا حکم ہے نہ کہ بجاے خود قرآن کے الفاظ میں جو حکم دیا گیاہے اس کی پابندی کی جائے۔

اس میں حدیث کے متعلق بھی نرالی نرالی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اس میں سنت کا بھی ایک عجیب مفہوم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں زکوٰۃ سے متعلق ہمیں یہ خبر سنائی جاتی ہے کہ جب چاہے ایک مجلس قانون ساز اس کی نئی شرح مقرر کردے۔ اس کے نصاب میں تبدیلی کرے، اس کی شرح تبدیل کرے، اس کے اختیارات اسے حاصل ہیں۔ اس میں زکوٰۃ کا تصور یہ پیش کیا گیا ہے کہ جس طرح حکومت کے اور ٹیکس ہیں ویسا ہی یہ ایک ٹیکس ہے۔

اسی سلسلے میں نئی تحقیقات ہمارے سامنے آئی ہیں کہ ایک ایسا جانور جس کو خواہ مسلمان ذبح کرے یا غیرمسلم، اور اس کو خواہ باقاعدہ اس طریقے سے ذبح کیا جائے جو اسلام میں مقرر ہے، یا کسی مشین، یا کسی آلے سے دفعتاً اس کی گردن اُڑا دی جائے، اور اس کے اُوپر اللہ کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے، بہرحال وہ حلال ہے۔

مسئلہ محض گوشت کی حلت و حُرمت کا نہیں ہے۔ معاملہ اس سے بہت آگے جارہا ہے۔  رفتہ رفتہ مسلمانوں کو دینی معاملات میں بے حس بنانے کی ایک اسکیم ہے کہ آہستہ آہستہ ایک ایک چیزلائی جائے اور ایک ایک چیز کے متعلق جو مسلمانوں کے صدیوں کے عقائد اور تصورات اور مسلّمات ہیں، ان کو ایک مرتبہ ہلا ڈالا جائے۔ جب ان کو ہلا ڈالا جائے گا تو اس کے بعد حرام و حلال کی قیود ختم ہوجائیں گی۔ پھر حلال وہ ہوگا جسے ہم حلال کہیں اور حرام وہ ہوگا جسے ہم حرام کہیں۔

اس وجہ سے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سارے مسئلے کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اگرچہ میں اپنے مضامین میں بھی ان کی وضاحت کرتا رہا ہوں مگر بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک مضمون لکھتے وقت آدمی کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ اس وجہ سے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ بار بار اس کی توضیح کی جائے تاکہ ایک ایک پہلو سامنے آجائے۔

یہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہیں ان میں ابتدائی بنیادی حکم صرف یہ ہے کہ مُردار، خون، لحم، خنزیر اور جو کچھ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو وہ حرام ہے۔ اس چیز کو قرآنِ مجید میں اس سورہ کے نزول سے پہلے سورۂ انعام میں بھی ان چاروں چیزوں کو حرام کیا گیا ہے۔ سورئہ نحل میں بھی ان کی حُرمت بیان کی گئی ہے اور سورئہ بقرہ میں بھی ان کی حُرمت بیان کی گئی ہے لیکن یہاں سورئہ مائدہ میں اس حکم کی زیادہ واضح تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور زیادہ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے میں نے اُن آیات کے بجاے اِن آیات کو لیا ہے کیونکہ ان میں زیادہ تفصیل دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس سلسلۂ بیان میں جو آیات آگے آرہی ہیں ان میں اس پورے مسئلے کو جو چھیڑا گیا ہے اس کا پورا پورا اور مکمل بیان ہے۔فرمایا گیا:

حلال و حرام کی بنیاد

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ (المائدہ ۵:۳) حرام کیا گیا تمھارے اُوپر مُردار، خون اور سُور کا گوشت اور جو کچھ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔

اس سلسلے میں اس بات کو بھی سمجھ لیجیے کہ قرآنِ مجید میں حرام کی کوئی مخصوص اصطلاح نہیں ہے۔ یہ اصطلاحیں بعد میں فقہا نے استنباط کر کے وضع کی ہیں۔ قرآنِ مجید کے متعلق یہ بات نہیں ہے کہ جس چیز کو وہ قطعی ممنوع ٹھیرائے اس کے لیے لازماً حرام کا لفظ استعمال کرے، اور اگر وہ حرام کا لفظ استعمال نہ کرے تو قطعی ممنوع ہونے کا حکم نہیں ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔

اس کی وضاحت میں نے اس لیے کر دی کہ آج کل کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ بتائو شراب کے لیے حرام کا لفظ قرآن میں کہاں ہے؟ حالانکہ ترکہ کے لیے بھی حرام کا لفظ قرآن میں نہیں آیا۔ جھوٹ کے لیے بھی حرام کا لفظ قرآن میں نہیں آیا، حتیٰ کہ عملِ قومِ لوطؑ کے لیے بھی حرام کا لفظ قرآن میں نہیں آیا، تو پھر اس کی حُرمت کا بھی انکار کرو۔ کہو کہ جس جس کے لیے حرام کا لفظ استعمال نہ ہوا ہو وہ سب حرام نہیں ہیں۔ حرام وہ ہے جس کے لیے لفظ حرام استعمال کیا گیا ہے۔ اس زمانے میں یہ نرالے انداز ہیں لوگوں کے اجتہاد کرنے کے!

اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے حُرمت و حلّت کے جو احکام کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں دیے ہیں ان کی بنیاد طبی نہیں ہے۔ اگر طبی بنیاد ہو تو اُس صورت میں جتنی چیزیں انسان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، ان سب کی حُرمت کے احکام قرآنِ مجید میں آتے یا حدیث میں آتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو جاننے کے ذرائع اس نے انسان کو عطا کردیے ہیں، جن چیزوں کا علم حاصل کرنے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے، ان کے بارے میں وہ براہِ راست ہدایت نہیں دیتا۔ ان کے بارے میں انسان کا کام ہے کہ خود تحقیقات کرے اور خود معلومات حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ اُن چیزوں کے متعلق ہدایت دیتا ہے جن کے جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں۔ انسان جن چیزوں کو نہیں جان سکتا ان کے بارے میں وہ ہدایت دیتا ہے۔ کیونکہ ان کے بارے میں اگر ہدایت نہ دی جائے تو انسان غلطی کربیٹھتا ہے۔ اگر حُرمت و حلّت کی بنیاد صحت کے لیے نقصان دن ہونا ہوتا تو میرے خیال میں ان چار چیزوں سے پہلے سنکھیا کا ذکر کیا جاتا کیونکہ وہ تو مہلک ہے۔ان چار چیزوں سے پہلے ان زہروں کی تفصیل بھی دی جاتی جو آدمی کو ہلاک کردینے والے ہیں۔

اس چیز پر آپ غور کریںگے تو آپ کی سمجھ میں خود یہ بات آجائے گی کہ ان چار چیزوں کی حُرمت کو واضح الفاظ میں قرآن میں چار چار مقامات پر بیان کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کی حُرمت کا سبب آدمی کی سمجھ میں پوری طرح نہیں آسکتا۔ وہ ان کے بارے میں خود تحقیقات نہیں کرسکتا ہے۔ حُرمت کا اصل سبب وہ نقصانات ہیں جو آدمی کے اخلاق اور اس کی روح کو پہنچتے ہیں۔ وہ نقصانات نہیں ہیں جو آدمی کے جسم کو پہنچتے ہیں، اگرچہ یہ آدمی کے جسم کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ لیکن حُرمت کی اصل بنیاد جسم کے لیے نقصان دہ ہونا نہیں ہے بلکہ حُرمت کی اصل بنیاد اخلاق کے لیے نقصان دہ ہونا ہے۔ آدمی کی روح کے لیے ان کا نقصان دہ ہونا ہے۔ ان کے اندر کچھ ایسے اسباب ہیں کہ ان سے وہ بُری صفات انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں جو انسان کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ قرآنِ مجید کا یہ حکم آنے کے بعد اگرچہ ہم اس کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کریں، ہم ٹٹولیں تو کچھ چیزیں ہماری سمجھ میں آتی ہیں لیکن ہم قطعیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ حلت ِحُرمت وہی ہے۔

مثال کے طور پر میں عرض کرتا ہوں کہ مُردار ہے۔ مُردار کے متعلق یہ بات بالکل واضح معلوم ہوتی ہے کہ سلیم الطبع انسان، پاکیزہ انسان کی فطرت اس سے نفرت کرتی ہے، ایبا کرتی ہے، انکار کرتی ہے۔ اس کے استعمال کرنے کے لیے انسان کی طبیعت نفرت کرتی ہے۔

مثال کے طور پر خون ہے۔ خون کا استعمال کرنا لازماً انسان کے اندر خون خواری پیدا کرے گا۔ ایسی وحشی قومیں جو خون کو استعمال کرتی ہیں، جانور کو ذبح کرتی ہیں یا ہلاک کرتے ہی جس جگہ سے اس کا خون بہہ رہا ہو اس کو فوراً منہ لگا لیتی ہیں اور خون پی لیتی ہیں۔ یہ بہت طاقت بخشنے والی چیز ہے۔ کیونکہ انسان ہو یا جانور ، جو بھی ہو اس کے اندر جو قوت آتی ہے وہ خون ہی کے ذریعے سے آتی ہے۔ غذا کی تمام خصوصیات اور اس کی جو قوت بخش چیزیں ہیں وہ خون کے ذریعے سے آتی ہیں۔ اس لیے آدمی یہ سمجھے گا کہ خون بڑی مقوی چیز ہے۔ حالانکہ خون میں جو چیزیں قوت بخشنے والی ہیں اور اس کے اندر سے غذا دینے والی ہیں وہ ساری وہ ہیں جو آگے جاکر گوشت میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ خون کا مواد گوشت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ خون کا جو حصہ گوشت میں تبدیل ہوجائے وہ اصل میں مقوی چیز ہے۔ وہ اصل میں انسان کی تقویت کا سبب ہے۔ بہت سے دوسرے اجزا جو خون میں شامل ہوتے ہیں، انھی میں سے گروہ ان کو چھان کر پیشاب کی صورت میں باہر نکال دیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خون میں کچھ ایسے اجزا تھے جب خون انسانی جسم کی ساخت تیار کرنے سے فارغ ہوگیا تو گردے نے انھیں چھانٹ کر پیشاب کی شکل میں باہر نکال دیا۔ نامعلوم اور کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جو کسی اور شکل میں نکل آتی ہیں، مثلاً: انسانی پسینے میں سے میل نکلتا ہے۔ وہ بھی خون ہی کے اندر وہ اجزا ہوتے ہیں جنھیں پسینے کی صورت میں جسم سے نکالا جاتا ہے اور وہ میل باہر نکلتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہماری سمجھ میں آتی ہیں لیکن جو بنیادی وجہ ہے وہ انسان کی روح اور اس کے اخلاق پر بُرے اثرات ڈالنے والی ہے۔

غذا کے انسانی تھذیب پر اثرات

مثال کے طور پر لحم خنزیر ہے۔ لحم خنزیر کے متعلق آج کل کی طبی تحقیقات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر بُرائیاں ہیں۔ اس کے اندر کچھ ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ لیکن جیساکہ ابھی مَیں نے عرض کیا کہ اگر بیماری پیدا کرنا ہی حُرمت کا اصل سبب ہوتا تو پہلے سنکھیا کی حُرمت بیان کی جاتی۔ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ سور کے گوشت کا انسان کے اخلاق اور روح پر کیا اثر پڑتا ہے۔ آج تک انسان کی علمی تحقیقات اس طرف مائل نہیں ہوئی ہیں کہ یہ معلوم کریں کہ غذائوں کے استعمال کا انسان کے اخلاق، اس کی روحانیات اور اس کی نفسیات پر کیا اثر پڑتا ہے۔ جسم پر اثرات پڑنے پر تو بہت سی تحقیقات ہوگئی ہیں لیکن اخلاق پر غذائوں کا کیا اثر پڑتا ہے، اس کی تحقیقات آج تک بالکل ابتدائی مراحل میں ہیں۔ انسان ان کے بارے میں نہیں جانتا۔

تاہم ایک بات ایسی ہے جو واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ سور ایک ایسا جانور ہے جو انتہائی  بے حیا واقع ہوا ہے۔وہ انتہائی بے غیرت اور بے شرم واقع ہوا ہے۔ وہ ایک ایسا جانور ہے کہ اس کے سامنے اس کی مادہ کے پاس اگر کوئی دوسرا نر جائے تو اس کے اندر غیرت کے نام پر کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اس سے لڑ جائے۔

یہی چیز سور کھانے والی قوموں میں پیدا ہوجاتی ہے۔ سور کھانے والی قومیں جہاں بھی پائی جاتی ہیں، ان کی تہذیب کے اندر یہ بے غیرتی شامل ہوگئی ہے۔ ہم جس چیز کو غیرت کہتے ہیں وہ اس کو حسد (jeliousy) کہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک غیرت ایک بہترین جذبہ ہے۔ ہم اس کے لیے غیرت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ وہ اس کے لیے حسد اور jeliousy کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جو آدمی کے اندر ایک عیب ہے۔ ہماری تہذیب تو یہ ہے کہ آدمی کی بیوی اس کے پاس بیٹھے اور دوسرے آدمی کی بیوی اس کے پاس بیٹھے۔ ان کی تہذیب یہ ہے کہ جب مل کر بیٹھیں گے تو ایک کی بیوی دوسرے کے پاس بیٹھے گی اور دوسرے کی بیوی پہلے کے پاس بیٹھے گی۔ اگر آدمی ایسا نہیں کرتا تو ان کی نظر میں وہ حاسد اور jelious واقع ہوا ہے۔ وہ کیو ں نہیں اپنی بیوی کے پاس دوسرے آدمی کو بیٹھنے دیتا؟ ان کے اندر اس بات کی کوئی شرم نہیں ہے کہ مجموعی ناچ میں ایک آدمی کی بیوی کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ناچے۔ ان کے اندر اس کے بارے میں کوئی شرم نہیں ہے بلکہ وہ اس کو براخوفتگی اور وسیع القلبی سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدک جو عین بے غیرتی ہے وہ ان کے ہاں وسیع القلبی ہے۔ یہ کس چیز کا نتیجہ ہے؟ اسی غذا کا کہ وہ ایک ایسا جانور استعمال کرتے ہیں، اور نہایت کثرت سے استعمال کرتے ہیں، جو نہایت بے غیرت واقع ہوا ہے۔

یہ چند چیزیں ہیں جو مَیں اس غرض سے بیان کر رہا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکام ہیں ان کی بعض حکمتیں ہماری سمجھ میں آتی ہیں، بعض سمجھ میں نہیں آتیں، اور بعض حکمتیں ایسی ہیں جو ہماری سمجھ میں آہی نہیں سکتیں۔ اگر انھیں بیان کیا جائے توو ہ ہمارے لیے اس وجہ سے بے کار ہیں کہ حکمت وہ بیان کرنی چاہیے جس کو دوسرا مخاطب جانچ کر دیکھ سکے کہ ہاں، واقعی یہ حکمت اس میں پائی جاتی ہے۔ اگر اس کے پاس جانچنے کے ذرائع نہیں ہیں تو اس کا بیان کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جاتا کہ میاں! یہ تمھاری روح کو خراب کرنے والی چیز ہے۔ اگر آپ کے پاس وہ ذرائع نہیں ہیں کہ آپ یہ ناپ سکیں کہ اس سے روح کے اندر کیا خرابی اور کتنی خرابی پیدا ہوگی ، تو آپ کا اس سے یہ کہنا کہ آپ کی روح میں اس سے خرابی پیدا ہوگی اور یہ نہ کہنا کہ تمھاری روح کے اندر خرابی پیدا ہوگی، یکساں ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس اس کے جانچنے کے ذرائع نہیں ہیں۔ آپ تحقیق نہیں کرسکتے کہ جو بات آپ کو کہی گئی ہے وہ واقعی ٹھیک ہے، کس حد تک ٹھیک ہے، اور کس طرح اس کے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت سے ایسے احکامات ہیں جن کی حکمتیں اور مصلحتیں نہیں بتائی ہیں بلکہ صاف صاف کہا ہے کہ فلاں چیز تمھارے لیے ممنوع ہے۔

ایمان کی آزمایش کی بنیاد

اس کے ساتھ اس میں انسان کے ایمان کی آزمایش ہے۔ اگر ایک آدمی ایمان رکھتا ہے تو اس کے رب نے جس چیز سے منع کردیا وہ رُک جائے گا قطع نظر اس کے کہ ممانعت کی وجہ اسے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اگر وہ ممانعت کے جواب میں پلٹ کر یہ کہتا ہے کہ جناب اس کی حکمت مجھے بتایئے اگر اس کی حکمت مجھے سمجھ میں آئے گی تو میں آپ کا حکم مانوں گا اور نہ آئے گی تو نہ مانوں گا۔ وہ دراصل اپنی سمجھ کی اطاعت کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کر رہا۔ مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ حکم کی دلیل مانگے۔ مومن کا کام یہ ہے کہ اس کا رب جب اسے حکم دے تو سر جھکا دے قطع نظر اس کے کہ اس کی وجہ اسے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اس کا پورا اعتماد اپنے رب پر ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے کہ وہی علیم ہے۔ ہر چیز کی حقیقت کو وہ جانتا ہے۔ وہی حکیم ہے جو حکم بھی دے رہا ہے دانائی کی بنا پر دے رہا ہے، اور وہ رب ہے اس کو حق پہنچتا ہے کہ جس چیز سے چاہے آپ کو منع کردے۔ کیونکہ دنیا کی تمام چیزیں اس کی ملکیت ہیں، آپ کی ملکیت نہیں ۔

مثال کے طور پر آپ اپنے گھر کے مالک ہوں اور کوئی دوسرا شخص باہر سے آئے۔ آپ کو حق پہنچتا ہے کہ آپ اس کو یہ کہیں کہ میری فلاں فلاں چیزیں تو آپ استعمال کرسکتے ہیں اور فلاں فلاں چیزیں آپ استعمال نہیں کرسکتے۔ آپ کو اس کا حق پہنچتا ہے۔ اس کو یہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا کہ آپ مجھے فلاں فلاں چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دیجیے اور آپ مجھے اجازت کیوں نہیں دیتے؟ اس لیے کہ مال آپ کا ہے، اس کا نہیں۔ آپ کو پورا حق پہنچتا ہے کہ اپنی چیزوں میں سے جس چیز کے استعمال کی چاہیں اجازت دیں اور جس چیز کی چاہیں اجازت نہ دیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جناب میرے گھر کے ہر حصے میں آپ جاسکتے ہیں لیکن فلاں کمرے میں آپ نہ جایئے گا۔  اس میں آپ قفل لگا دیں اور کہیں کہ اس میں جانے کا آپ حق نہیں رکھتے۔

وہ چونکہ رب ہے، تمام چیزیں اس کی ملکیت ہیں، آپ اس کے بندے ہیں۔ لہٰذا مالک کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے نوکر سے، اپنے غلام سے یہ کہے کہ میری فلاں فلاں چیزیں وہ استعمال کرسکتا ہے اور فلاں فلاں چیزیں استعمال کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔ میں تم کو منع کردیتا ہوں کہ میری ان چیزوں کو تم استعمال نہ کرو۔

اگر آپ اللہ کو رب مانتے ہیں تو رب کہتا ہے کہ سور کو تم نہ کھانا تو آپ کو رُ ک جانا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ جس جانور کو مَیں خود ماروں اسے نہ کھانا، تو آپ کو رُک جانا چاہیے۔ مُردار کے متعلق اس نے یہ حکم دے دیا کہ یہ میرا مارا ہوا ہے، لہٰذا جسے مَیں خود ماروں اس کو تم نہ کھائو۔ جس کو آپ خود ماریں اُس طریقے کے مطابق جیسے اس نے بتایا ہے، تو اسے آپ کھاسکتے ہیں۔

مُردار کی وضاحت

ان چار چیزوں کی حُرمت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے مُردار کی وضاحت فرمائی ہے۔ دوسری چیزیں تو واضح ہیں لیکن مُردار کی وضاحت فرمائی ہے۔

وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ(المائدہ۵:۳) وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گرکر، یا ٹکر کھاکر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو___ سواے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا۔

ایک تو مُردار وہ ہے جو طبعی موت لیٹ کر مر گیا۔ اس کے علاوہ مزید مُردار وہ ہیں، مثلاً جو گلاگھٹ کر مرا، یا چوٹ کھا کر مرا، یا کسی بلندی پر سے گر کر مرا، یا دو جانوروں میں ٹکر ہوئی اور ٹکر کھا کے ایک جانور مر گیا، یا جس کو درندے نے پھاڑا۔ ان سب کی ممانعت فرمائی۔بنیاد کیا ہے؟ وہی مُردار، یعنی یہ سارے کے سارے مُردار ہیں اگر ان میں سے کسی شکل میں مرجائیں۔ کیوں؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ خون جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، وہ خون ان شکلوں میں سے کسی شکل میں بھی نہیں نکلتا۔ چوٹ لگ گئی تو چوٹ کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جس جگہ چوٹ لگتی ہے اس کے آس پاس کا خون نکل جاتا ہے لیکن اس سے پورے جسم کا خون خارج نہیں ہوتا۔ ایسے ہی گر کر مرنے سے ہوتا ہے۔ اگر خون نکلے گا بھی، مثلاً سر پھٹ گیا ہے تو جس مقام پر چوٹ لگی ہے اس کے آس پاس کا نکل جائے گا۔ موت کسی صدمے سے واقع ہوگی یا کسی اور وجہ سے واقع ہوگی۔ اس وجہ سے واقع نہیں ہوگی کہ چونکہ جسم کا پورا خاندان نکل گیا ہے، اس لیے جان دار مر گیا ہے۔ یہ کسی صدمے سے واقع ہوگی۔ ایسے ہی دوسری شکلیں ہیں۔ ان ساری شکلوں میں چونکہ خون پوری طرح سے نہیں نکلتا ہے۔ موت کی وجہ کوئی اور ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مرتا ہے۔ خون آس پاس کا  نکل کر رہ جاتا ہے یا بالکل نہیں نکلتا۔ اس وجہ سے یہ سب بھی مُردار کی تعریف میں آتے ہیں قطع نظر اس کے کہ خون بہا ہو یا نہ بہا ہو۔ خون بہا بھی ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پورے کا پورا خون اس کے اندر سے نکل گیا ہے۔

ان چیزوں کو حرام قرار دینے کے بعد پھر فرمایا:

اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ(المائدہ۵:۳) بجز اس کے جس کو تم نے ذبح کر لیا۔

تزکیہ کا لفظ زکاۃ سے نکلا ہے۔ زکاۃ کہتے ہیں اس بات کو، مثلاً اگر آگ راکھ میں دبی ہوئی ہے تو آپ کرید کر انگارے اُوپر نکال لائیں۔ اس کو کہیں گے کہ آگ کا تزکیہ ہوگیا، یعنی آگ کی حرارت کو آپ اُبھار کر اُوپر لے آئے۔ اس کو آگ کا تزکیہ کہیں گے۔

عربی زبان میں جانور کو ذبح کرنے کے لیے تزکیہ کا لفظ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کا خون، اس کی روح، اس کے جسم کی حرارت، آپ ذبح کر کے اس کو اُبھار لاتے ہیں تاکہ وہ بالکل خارج ہوجائے۔ اس کے اندر کچھ باقی نہ رہے۔

یہاں اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات نکل آئی کہ جس کا تزکیہ نہیں کیا گیا وہ مُردار کی تعریف میں ہے۔ کسی مجموعے کے اندر سے جب استثنیٰ ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر یہ استثنیٰ موجود نہیں ہے تو وہ اس مجموعے میں شامل ہے۔ جب یہ کہا گیا کہ فلاں فلاں چیزیں حرام ہیں سواے ان کے جن کا تم نے تزکیہ کرلیا۔ مطلب یہ ہے کہ صرف یہی حلال ہے۔ اگر تزکیہ نہیں کیا گیا تو یہ حرام ہے۔

تزکیہ کا مفھوم

آیئے دیکھیں کہ تزکیہ کے کیا معنی ہیں؟

تزکیہ کی وضاحت چونکہ قرآنِ مجید میں نہیں کی گئی ہے، اس لیے اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کی وضاحت کرنے کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد تھا۔ یہ بات واضح ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے اور بار بار اس کی فرضیت کا حکم دیتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ کتنی رکعتیں پڑھو؟ اس کی کیا شکل ہو؟ کیا شرائط ہیں؟ کیا اس کے ارکان ہیں؟ کیا اس میں فرائض ہیں؟ یہ ساری چیزیں قرآنِ مجید میں بیان نہیں کی گئیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جس کو لوگوں کی رہنمائی کے لیے قرآن دے کر بھیجا گیا تھا اس کا یہ کام تھا کہ وہ لوگوں کو یہ بتائے کہ اس حکم پر عمل کیسے کیا جائے؟ ایسا ہی معاملہ تزکیہ کا ہے۔

جب یہ فرما دیا گیا اور اتنا اہم حکم ہے کہ آپ جو غذا استعمال کر رہے ہیں اس کی حُرمت اور حلّت کے درمیان فرق اس تزکیے سے واقع ہوگا۔ یہ بڑا اہم حکم ہے جس کا روزمرہ زندگی میں سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اس لیے احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل واضح طور پر یہ بتایا ہے کہ تزکیے کی جگہ ٹھوڑی اور لبلبے کے درمیان والی جگہ ہے جسے لبّہ کہتے ہیں۔ یہ تزکیے کا مقام ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حضوؐر نے اس بات کو اور زیادہ واضح کر دیا کہ جانور کو گردن کے پیچھے سے ذبح نہ کیا جائے۔ اس وجہ سے کہ اگر گردن کی پشت کی طرف سے ذبح کیا جائے گا تو سب سے پہلے حرام مغز جو دماغ سے جسم کا تعلق جوڑتا ہے، یہ پہلے کٹ جائے گا۔ جب یہ پہلے کٹ گیا تو اس صورت میں چونکہ جسم کے اندر جان ہی باقی نہیں رہے گی، موت فوراً واقع ہوجائے گی۔ اس لیے خون کھچ کر باہر نہیں آئے گا۔ یعنی مُنْخَنِقَۃُ (گلاگھٹ کر)، موقوذہ (چوٹ کھاکر)، متردیۃ (بلندی سے گرکر)اور نطیعۃ (ٹکر کھاکر) وغیرہ کی مُردار ہونے کی جو حلت بیان کی گئی ہے کہ تزکیے کے بغیر وہ سارے کے سارے حرام ہوجائیں گے کیونکہ وہ مُردار کے حکم میں ہیں۔

اس شکل میں بھی تزکیہ نہیں ہوتا جب پیچھے سے جانور کو ذبح کر دیا جائے۔ لکات جس کو حرام مغز کہتے ہیں جو جسم سے دماغ کا تعلق جوڑتا ہے۔ جب تک اس کے ذریعے سے جسم اور دماغ کا تعلق جڑا رہے تو اس صورت میں موت فوراً واقع نہیں ہوسکتی۔

دوسرا یہ کہ اس صورت میں جانور دیر تک تڑپے گا، حرکت کرے گا اور پھڑپھڑائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سامنے سے ذبح کرنے کی صورت میں جو دروازہ کھل گیا ہے، اس سے خون تیزی سے نکلے گا اور اس کے باربارحرکت کرنے یا پھڑپھڑانے سے ایک ایک قطرہ نکل کر باہر آجائے گا اور گوشت پوری طرح سے خون سے صاف ہوجائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ بتایا، احادیث میں تصریحات ہیں اور جن کی بنا پر فقہاے کرام نے نتائج اخذ کیے ہیں۔ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حلقوم (حلق) اور مری جس میں سے جانور اور انسان کی غذا گزرتی ہے، اور وہ دو رگیں جو حلقوم اور مری کو درمیان میں لیے ہوئے ہیں، جسے شہ رگ (jubler vain) کہتے ہیں، یہ چاروں کی چاروں کٹنی چاہییں۔ حرام مغز جڑا رہے اور یہ چاروں کی چار جب کٹ جائیں گی، تب پوری طرح سے خون کھچ کر باہر آئے گا۔ اگر یہ چاروں نہ کٹیں تو مری اور حلقوم کٹنے کے بعد ایک شہ رگ کٹ جائے، اگر دونوں نہ بھی کٹیں تو کم از کم ایک شہ رگ کٹ جائے۔ اس کے بغیر خون چونکہ باہر نہیں آسکتا اس لیے تزکیہ مکمل نہیں ہوسکتا۔

اب آپ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ کے الفاظ بیان فرما کر ان تمام جانوروں کو حرام قرار دے دیا جن کا باقاعدہ تزکیہ نہ کیا گیا ہو۔ اس لیے اگر کوئی ایسی چیز یا ایسا ذریعہ جانور کو ذبح کرنے کا اختیار کیا جائے جس سے تزکیہ نہیں ہوتا تو وہ مُردار کے حکم میں آئے گا۔ یک لخت اگر جانور کو ذبح کیا جائے گا، یعنی ایک ہی وار میں اس کی گردن کٹ کر الگ ہوجائے گی، تو وہ تزکیے کے بغیر چونکہ مرے گا اس وجہ سے وہ حرام ہے۔

ذبح کرتے ھوئے اللّٰہ کا نام لینے کی حکمت

اس کے بعد فرمایا:

وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ(المائدہ ۵:۳) اور جو ذبح کیا استھانوں پر۔

نُصب کسی ایسے پتھر، لکڑی یا کسی ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کسی جگہ اس غرض کے لیے نصب کر دی گئی ہو کہ غیراللہ کے نام پر ذبح کیا جائے۔ بتوں کے استھان، یعنی مشرکین اپنی مشرکانہ قربانیوں کے لیے جو قربان گاہیں بنا لیا کرتے تھے وہ سب نُصب تھیں، قطع نظر اس کے کہ وہاں کوئی قبر ہو، یا وہاں کوئی لکڑی یا پتھر گاڑ دیا جائے،یا وہاں کوئی بت ہو یا کوئی اور چیز ہو۔

یہ گویا تشریح ہے۔ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ  کی۔ اس سے آدمی یہ بات سمجھے گا کہ ذبح کرتے ہوئے اللہ کے نام کے سوا کسی اور کا نام لیا جائے، تب وہ حرام ہوگا۔ گویا غیراللہ کا نام نہ لیا جائے۔ یہاں واضح کردیا گیا ہے کہ اگر استھان پر لے جاکر ذبح کیا گیا ہے تو خواہ کسی دوسرے کا نام نہ بھی لیا گیا ہو، تب بھی یہ حرام ہوگا۔ یعنی ذبح کرنے کی ایک شکل یہ ہے کہ اللہ کا نام لیا اور   اس کے ساتھ کسی اور کا نام لیا۔ ایک شکل اس کی یہ ہے کہ اللہ کا نام بھی نہیں لیا اور کسی اور کا بھی نہیں لیا۔ ایک شکل یہ ہے کہ صرف غیراللہ کانام لیا۔ شریعت اس شکل کو بھی حرام کرتی ہے جس میں    اللہ کے ساتھ کسی اور کا نام لے لیا جائے جو کہ صریح شرک ہے۔ شریعت اس کو بھی حرام کرتی ہے جس میں اللہ کا نام نہ لیا جائے۔ اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔ شریعت اس کو بھی حرام کرتی ہے جس میں اللہ کا نام نہیں لیا گیا، غیراللہ کا نام بھی نہیں لیا گیا مگر اسے ایک آستانے پر لے جاکر ذبح کیا جائے۔آستانے پر لے جاکر ذبح کرنا خود اس بات کو واضح کردیتا ہے کہ نیت غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے کی ہے چاہے غیراللہ کا نام نہیں لیا گیا۔

اس چیز پر اللہ تعالیٰ نے اتنا زور کیوں دیا ہے؟ یہاں میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو کیوں اہمیت دیتا ہے کہ جانور کو ذبح کرتے ہوئے اسی کا نام لیا جائے، کسی اور کا نام نہ لیا جائے اور اس کا نام ضرور لیا جائے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام چیزوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جب ایک غلام اپنے مالک کے مال میں تصرف کرنے لگے اور کوئی اس سے پوچھے کہ میاں یہ تم کس اختیار کی بنا پر تصرف کر رہے ہو تو وہ کیا کہے گا؟ میرے مالک نے مجھے اس کی اجازت دی ہے۔ اس کے نام پر مَیں تصرف کر رہا ہوں اور اس کی طرف سے کر رہا ہوں۔ اس نے چونکہ اجازت دی ہے اس لیے کر رہا ہوں۔ گویا ملکیت ِ حق کو تسلیم کرنا ہے یہ کہنا کہ مَیں مالک کی اجازت سے یہ کر رہا ہوں۔ ورنہ اس کے بغیر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ خود مالک بنے ہوئے ہیں۔ آپ مالک کے حقِ مالکانہ کا اعتراف نہیں کرتے۔

جانوروں کے بارے میں خاص طور پر کیوں کہا گیا ہے کہ ان کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لو؟ اسی وجہ سے کہ اگر آپ تزکیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ آپ جیسی دوسری جان دار مخلوق کے اُوپر اس نے آپ کو تصرف کے اختیارات دیے ہیں۔ باقی جتنی چیزوں پر آپ تصرف کر رہے ہیں وہ بے جان ہیں لیکن آپ ہی کی طرح دوسری جان دار مخلوق موجود ہے جس کے اندر آپ ہی جیسی جان ہے، اس کے اُوپر تصرف کا اختیار اس نے دیا ہے۔   یہ اس کا احسانِ عظیم ہے۔

دنیا میں جو تہذیب پھیلی ہے اس میں اس کا کتنا بڑا عمل دخل ہے۔ وہ آپ کے لیے سواری کا ذریعہ بنے۔ وہ آپ کے لیے پوشش کا ذریعہ بنے۔ وہ آپ کے لیے غذا کا ذریعہ بنے۔ ان کا گوشت اور دودھ غذا کا ذریعہ ہے اور ان سے نامعلوم کتنی چیزیں آپ بناتے ہیں۔ وہ ساری کی ساری آپ کے لیے غذا کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان کے بال آپ کی ضروریات کا ذریعہ ہیں۔ ان کی ایک ایک چیز آپ کی غذا اور ضروریات کا ذریعہ بنائی گئی اور آپ کی ضروریات اس سے پوری کی گئیں، آپ کی پوشش کا ذریعہ اسے بنایا گیا۔ حالانکہ یہ وہ جانور ہیں جن کی ایک ٹکر آپ نہیں   سہہ سکتے۔ بیل، گائے، ہاتھی اور اُونٹ کو آپ دیکھیے، ان کی ایک ٹکر آپ نہیں سہہ سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اختیارات دیے اور طاقتیں عطا فرمائیں کہ آپ ان پر تصرف کر رہے ہیں۔ وہ آپ کے سامنے بے بس ہیں۔ جب چاہتے ہیں آپ ان کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے ہیں اور وہ ہل نہیں سکتے۔ جس طرح سے چاہیں ان کو پکڑ کر ان کا دودھ نکال لیتے ہیں۔ ذرا بھینس کو دیکھیے، اس کی طاقت کو ملاحظہ کیجیے، اور آپ کے آگے اس کے اس طرح سے بے بس ہوجانے کو دیکھیے کہ آپ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچے کو محروم کر کے اس کا دودھ نچوڑتے ہیں اور وہ نچوڑواتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا احسان جو کیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ جب آپ اسے ذبح کرنے لگیں تو اللہ کا نام لے کر، اس کی اجازت سے ذبح کریں کہ اس مالک کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ عطا کی ہے اور اس کی اجازت سے ہم اسے ذبح کر رہے ہیں۔

اگر آپ ذبح کرتے ہوئے اس کا نام نہیں لیں گے تو آپ کو یہ غفلت لاحق ہوگی اور رفتہ رفتہ آپ اس غلط فہمی میں پڑجائیں گے کہ آپ ہی مالک ہیں اور آپ ہی کو یہ اختیار ہے کہ جس کو چاہیں زندہ رکھیں اور جس کو چاہیں کاٹ دیں۔ جس کو چاہیں آپ قتل کریں اور جس کو چاہیں زندہ رہنے دیں۔ جیساکہ نمرود نے کہا تھا کہ انا ابی وامی۔اس کا خدشہ ہے کہ آپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اس وجہ سے آپ کے عقیدے کو بچانے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ذبح کرتے وقت آپ اللہ کا نام لیں۔ غیراللہ کا اگر آپ نام لیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے مالک کو بھول کر جو مالک نہیں ہے اس کا نام لے رہے ہیں۔ اگر آپ اس کا نام نہیں لے رہے تو آپ اپنے مالک سے غافل ہیں اور خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس کا نام آپ لیں گے تو آپ کا عقیدہ صحیح ہوگا اور صحیح طور پر ایک موحد انسان اور اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان اور مطیع انسان بن کر رہیں گے۔

اس کے ساتھ فرمایا: وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ (۵:۳) ’’تمھارے لیے یہ بات حرام کی گئی کہ تم پانسوں کے ذریعے سے قسمت معلوم کرو‘‘۔

پانسوں کے ذریعے قسمت معلوم کرنے کی مختلف شکلیں ہیں۔ عرب میں اس کی مختلف شکلیں رائج تھیں۔ ایک شکل یہ تھی کہ بت سے معلوم کیا جائے کہ ہم میں سے کس کا کیا حصہ ہونا چاہیے؟ ہماری قسمت کیا ہے؟ اور ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ کعبہ میں ہبل کے پاس تیر رکھے ہوئے تھے اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ یہ کام کرو اور یہ نہ کرو۔ اس طرح کی مختلف عبادتیں ان پر لکھی ہوئی تھیں۔ جو تیر نکل آتا تھا اس کے معنی یہ تھے کہ ہبل کا یہ فیصلہ ہے کہ آپ یہ کام کریں۔ہبل نے آپ کو اس کی اجازت دی ہے کہ آپ یہ کام کریں یا اس کی اجازت نہیں دی ہے کہ آپ یہ کام   نہ کریں۔

یہ تمام احکام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ(۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں، لہٰذا اب تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔

پہلے لفظ الیوم کا مفہوم سمجھ لیجیے۔

کبھیالیوم کے معنی واقعی یہ ہوتے ہیں کہ آج کے دن یہ بات ہوئی اور کبھی اس کے معنی ’اب‘ کے ہوتے ہیں، یعنی جس زمانے میں، یا یہ وہ وقت ہے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ آپ کہتے ہیں کہ آج حالات یہ ہیں۔ آج دنیا کا رنگ بگڑا ہوا ہے۔ آج لوگوں کی اخلاقی حالت خراب ہو رہی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آج کے روز یہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ زمانۂ ماضی کا ذکر نہیں ہے بلکہ زمانۂ حال کا ذکر ہے۔ اب وہ حالات ہیں کہ جن میں یہ واقعات پیش آئے ہیں۔

اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے کہ جب کفار مسلمانوں کے دین سے مایوس ہوگئے۔ دراصل یہ تاریخ کا ایک خاص اور مرحلہ اور stage تھا جس میں کفّار مسلمانوں سے مایوس ہوئے۔

کفّار کی طرف سے مایوس ہونے کا مطلب کیا ہے؟

ایک وہ وقت تھا کہ کفّار یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ ہم لالچ سے، یا دھوکا دے کر، یا دبائو ڈال کر، یا دھمکیاں دے کر کسی نہ کسی طرح سے مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیر لیں گے۔ اس اُمید کے اُوپر وہ لڑ رہے تھے۔اپنی چالیں چل رہے تھے اور اپنی ساری تدبیریں کر رہے تھے اس اُمید پر وہ ظلم و ستم بھی ڈھا رہے تھے۔ اس اُمید پر وہ مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ بھی دے رہے تھے، فریب بھی دے رہے تھے۔ یہ سارے کام وہ کر رہے تھے۔

ایک مرحلہ وہ آیا جب کفار کو معلوم ہوگیا کہ یہ اب ہلائے ہلنے والے نہیں۔ یہ دین جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، یہ اب ٹلنے والا نہیں ہے۔ یہ اب قائم ہوگیا ہے اور یہ ہمارے مٹائے مٹ نہیں سکتا۔ مسلمان بھی اسلام پر ثابت قدم ہیں۔ اب ان کو ہٹایا نہیں جاسکتا، اور دین اسلام کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہماری طاقت سے اب باہر ہوگیا ہے۔

 یہ بات کس وقت پیش آئی؟

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ مائدہ کا بڑا حصہ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے۔  صلح حدیبیہ وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح میں صاف الفاظ میں فتح مبین کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ فتح مبین تھی جس سے یہ فیصلہ ہوگیا، پورے عرب کو یہ معلوم ہوگیا، کفار کو بھی معلوم ہوگیا اور مسلمانوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ اب کفار کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ اب مسلمانوں کی چڑھ بن آئی ہے۔ اب مسلمانوں کے چڑھائو کا وقت ہے اور کفار کے اُتار کا وقت ہے۔ اس موقع کے اُوپر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو اب وہ وقت آگیا ہے کہ کفّار تمھارے دین سے متعلق اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اس کو مٹا سکیں۔ تمھارے دین کو اب یہ طاقت حاصل ہوچکی ہے کہ اب یہ کفار کے مٹائے نہیں مٹے گا۔ اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم ان سے خوف کھائو۔ پہلے توایک آدمی کے لیے اس بات کا خطرہ تھا کہ وہ صاف صاف اور کھلم کھلا اگر احکامِ الٰہی کی پابندی کرے گا تو اس کی پٹائی ہوگی۔ اس کو گھر سے نکال باہر کیا جائے گا۔اس کا مال چھین لیا جائے گا۔ اس کے اُوپر ظلم وستم ڈھائے جائیں گے۔ اس وجہ سے آدمی کے لیے یہ بھی مشکل تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلے اور  کھلم کھلانماز پڑھ سکے۔ ایک وقت ہمارے ملک میں ایسا آچکا ہے کہ ایک مسلمان کو پارکوں میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی کہ مذاق اُڑایا جائے گا کہ لیجیے مُلّاجی نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وہاں حالات خراب تھے۔

جب اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہوگئی کہ کفار کو معلوم ہوگیا کہ اب یہ ہلاے نہیں ہلتے۔ اب ان کی ایک مضبوط آیات قائم ہوگئی ہے۔ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو ہمیں یہ شکست دے ڈالیں گے۔ جنگ ِ اَحزاب میں جس وقت کفار اپنا پورا زور لگاکر ناکام ہوکر چلے گئے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ اب وہ وقت آگیا کہ یہ تم پر چڑھ چڑھ کر آرہے تھے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے۔ پہلے ہم defenceive تھے، اب یہ defencive پوزیشن میں ہیں۔ اب ان کو دفاع کرنا پڑے گا۔ ان کے چڑھائو کا وقت گزر گیا۔

یہ وہی چیز ہے جب مسلمانوں کو یہ مقام حاصل ہوگیا تو اللہ نے کہا کہ اب تمھارے لیے میرے احکام کی پوری پوری اور کھلم کھلا تعمیل کرنے کا کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ پہلے وقت تھا خطرے کا اور خوف کا، لیکن اب یہ حالت نہیں ہے۔ اب اگر تم پیچھے ہٹے، اب اگر تم نے میرے احکام کی پوری پوری تعمیل کرنے میں تامّل کیا، تو اس کے بعد تم پکڑے جائو گے۔ اب ان سے ڈرنے کی تمھاری کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔

اس سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر مسلمان کسی مقام پر ، کسی علاقے میں، دنیاکے کسی ملک میں محکوم ہوں، غلام ہوں، ان کے پاس طاقت نہ ہو۔ دوسرے کے احکام ان پر جاری ہو رہے ہوں، ان کے احکام دوسروں پر جاری نہ ہو رہے ہوں۔ ان کے پاس خود اپنے احکام جاری کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے لیے اس بات کا عذر ہے اگر وہ کسی حکم کی تعمیل نہ کرسکیں کہ ہم بے بس ہیں۔ ہمیں کفّار کا خطرہ تھا۔ اب بھی ہندستان میں مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ایک مقام پر اگر وہ اذان دیں تو اس بات کا خطرہ ہے کہ ان پر حملہ کردیا جائے گا۔ رانچی میں یہ واقعہ پیش آچکا ہے۔ چنانچہ جن حالات میں مسلمان دبے ہوئے ہوں، مغلوب ہوں، کفار چیرہ دست ہوں اور اسلام کی دشمنی پر تلے ہوئے ہوں، ان حالات میں اگر کچھ احکام پر مسلمان عمل نہ کرسکیں، اپنی پوری کوشش کے باوجود کچھ احکام پر عمل کرنے میں ناکام رہ جائیں تو ان کے لیے عذر ہے۔

لیکن ایک وہ حالت ہوتی ہے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کوئی بیرونی یا اندرونی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ آپ کے پاس وہ طاقتیں موجود ہیں جن سے آپ اپنے معاشرے میں پورے پورے اسلامی احکام نافذ کرسکیں۔ کفّارِ ہند یا کفّار انگریز جن سے آپ کل مغلوب تھے، وہ اب اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ پاکستان ختم ہوجائے گا۔ بیرونی دنیا بھی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ریاست قائم رہنے کے لیے بنی ہے، اب یہ ختم نہیں ہوسکتی۔ اب مسلمانوں کے پاس اپنی طات ہے۔ یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں یہاں یہ بات فرمائی گئی ہے۔

فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ(۵:۳) اب تمھارے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ تم کسی سے ڈرو، اب مجھ سے ڈرو۔

’مجھ سے ڈرو‘ کا مطلب یہ ہے کہ میرے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تمھیں    مجھ سے ڈرنا چاہیے۔ اب تمھارے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے پاس وہ طاقت آجائے کہ کسی سے خدا کے سوا ڈرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ اس صورت میں اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر یا ان سے متاثر ہوکر احکامِ الٰہی میں ترمیمات کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں، تو اس کے بعد دنیا میں بھی خدا کے عذاب کا خوف ہے اور آخرت میں بھی۔

اب کون سی معقول وجہ ہے کہ آپ یہ روش اپنائیں۔ میں آپ کو مثال دے کر بتاتا ہوں کہ یہیودی تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی وہ رہتے ہیں، اپنی بستیاں الگ بساتے ہیں، اپنے محلے الگ بساتے ہیں، ان کی آبادیاں الگ ہوتی ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں، اپنے لیے ذبیحہ کا پورا انتظام کرتے ہیں جس طرح کہ آپ اس ملک میں کرتے ہیں۔ یورپ کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے، امریکا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جس جگہ انھوں نے اپنے ذبیحہ کے خود انتظامات نہ کیے ہوں۔

butcher meat مشہور ہے، جسے چاہیے وہ حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی جس ذبیحہ کو وہ حلال نہیں سمجھتے اسے وہ استعمال نہیں کرتے۔ جس ذبیحہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں، ذبیحہ کے جو احکام ہیں اس کے مطابق دنیا کے ہر حصے میں انھوں نے ذبیحہ کا انتظام کیا ہوا ہے۔

مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اس وقت انگلستان میں تین لاکھ مسلمان ہیں۔ صرف پیرس میں پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ بحیثیت مجموعی اس وقت فرانس میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔صرف پیرس شہر میں پانچ لاکھ مسلمان ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یورپین ممالک میں تو ہمارے حلال کھانے کا حصول بڑا مشکل ہے۔ ہم کیسے کھانا کھائیں؟ ہمارے لیے اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ ہم مشینوں کے کٹے ہوئے ذبیحہ کو کھائیں۔ حلال ذبیحہ ہمیں کہاں میسر ہے۔ نتیجہ کیا ہوا کہ علماے کرام بالخصوص مصر اور شام کے علماے کرام نے بے تکلف فتویٰ دے دیا کہ خدا کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے، مشینوں سے ذبح ہو یا ہاتھ سے ذبح ہو، مسلمان ذبح کرے یا غیرمسلم ذبح کرے، کھائو۔

یہ وہ صورتِ حال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے وارننگ دی تھی کہ اب تمھارے لیے خوف کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب اگر تم نے میرے احکام کی تعمیل کرنے مین کوئی تعامل کیا تو پھر ڈرو مجھ سے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں بھی میرے عذاب سے ڈرو اور آخر ت میں بھی میرے عذاب سے ڈرو۔

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(۵:۳) آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

یہ ’آج‘ بھی اسی معنی میں ہے جو میں نے پہلے کیا تھا۔ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے بلکہ تاریخ کا خاص مرحلہ اور ایک خاص دور ہے۔

یہ بھی سمجھ لیجیے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ اس سورہ کے نزول کے وقت نازل ہوئی اور دوسرا اس موقع پر جب ۱۰ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام مکمل ہوگیا۔ تو اس موقع  پر یہ نازل ہوئی تھی۔ یہ وقت تھا جب آپؐ آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپس جارہے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد لوگوں کی سمجھ میں بات پوری طرح سے نہیں آئی تھی کہ کیا کہا جا ہا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن پوری طرح سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا اور اندھوں کو بھی نظر آنے لگا کہ اب آپؐ کا مشن تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ اس وقت اس آیت کو پھر دہرایا گیا کہ یہ وہ دور ہے جب اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا۔

دین کو مکمل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم کو دنیا میں جس جس چیز کی ہدایت کی ضرورت تھی وہ پوری کی پوری ہدایت دے دی گئی ہے۔ جہاں مفصل قوانین بتانے کی ضرورت تھی وہاں مفصل قوانین بتادیے گئے ہیں، جہاں اصول دینے کی ضرورت تھی وہاں اصول دے دیے گئے۔ بہرحال اب تمھارا دین مکمل ہوگیا ہے۔

وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(۵:۳) اور میں اپنی نعمت تم پر تمام کردی۔

اتمامِ نعمت کے دونوں معنی ہیں: ہدایت کی نعمت بھی تمام کردی، اور تم کو وہ اقتدار بھی بخش دیا جس سے تم میرے احکام کی تعمیل خود کرسکو اور دنیا میں میرے احکام کو نافذ کرسکو۔ اس میں دونوں نعمتیں ہیں، یعنی نعمت ِ ہدایت کی تکمیل بھی، اور اس نعمت کی تکمیل بھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مغلوب نہیں رہنے دیا۔ مسلمانوں کو وہ طاقت عطا فرما دی کہ جس سے ان کو اس حالت سے نکال دیا کہ جس سے وہ اس کے احکام کی تعمیل کرنا چاہتے بھی تو نہیں کرسکتے تھے، اور اس حالت کو پہنچا دیا جس میں وہ اس کے احکام کی تعمیل پوری طرح سے کرسکتے تھے اور دنیا میں اس کے احکام کو نافذ کرنے اور اس کے احکام کو غالب کرنے کے لیے جہاد کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت عطا کر دی تب فرمایا کہ میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (۵:۳) پھر اگر کوئی شخص مضطر ہو، مخصمے کی حالت میں ہو، بغیر اس کے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہو، تو اللہ غفور و رحیم ہے۔

معلوم ہوا کہ جو چار چیزیں اُوپر بیان کی گئی ہیں، یعنی مُردار، خون، لحم، خنزیر اور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، یا جو اللہ کے نام کے بغیر کسی استھان پر ذبح کیا گیا ہو۔ ان چاروں چیزوں کو جو چیز حلال کرنے والی ہے تو وہ وہ حالت ہے جس میں اضطرار لاحق ہو، مخمصے کی حالت ہو، اور آدمی گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ اس صورت میں ان میں سے کوئی ایک چیز اگر آدمی استعمال کرے تو پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور پر حرام ہیں، کسی حالت میں ان میں اباحت کی گنجایش نہیں نکلتی، جیسے زنا۔ کسی حالت میں اس کے جواز کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی۔ کسی حالت میں وہ مباح نہیں ہے۔

بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اضطرار کی حالت لاحق ہوجائے تو اس صورت میں ان کی حُرمت میں اباحت ہے۔ حُرمت کا حکم باقی رہے گا لیکن اضطرار کی وجہ سے عارضی طور پر وہ حُرمت ختم ہوجائے گی اور وہ مباح ہوجائے گی جب تک کہ وہ حالت باقی ہے۔ اضطرار اگر لاحق نہ ہو تو حرام چیز کی طرف جانے والا سخت گناہ گار ہے کیوں کہ اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہوا ہے۔

اضطرار کی حالت میں اگر وہ کوئی حرام چیز کھائے تو اس کے ساتھ شرط کیا ہے؟ فِیْ مَخْمَصَۃٍ ،یعنی ایسا سخت اضطرار ہے کہ جس میں آدمی کے لیے صبر کرنا اور برداشت کرنا ممکن نہ ہو۔ اس کی جان کو خطرہ ہو۔ کوئی ایسی شدید تکلیف ہو کہ وہ برداشت سے باہر ہے۔ اور اس تکلیف کو رفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ حرام شے کو استعمال کیا جائے۔ اس صورت میں آدمی جس قدر ضرورت ہو اس کو استعمال کرسکتا ہے۔

یہاں غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ کی شرط لگائی گئی، یعنی یہ کہ اس وقت بھی آدمی کا دل گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ آدمی یہ خیال نہ کرے کہ چلو اچھا ہوا پانی نہیں مل رہا ہے، سخت پیاس کی حالت ہے، اب اس وقت موقع تو ملا ہے ذرا شراب چکھنے کا۔ اگریہ جذبہ پیدا ہوگیا تو وہ چیز حرام ہوگئی کیونکہ آدمی گناہ کی طرف مائل ہوگیا۔ اس سے نفرت باقی رہے، آدمی اس کو گناہ سمجھتا رہے کہ یہ حرام ہے، اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اجازت دی ہے مجبوراً اس اجازت سے فائدہ اُٹھا رہا ہوں ورنہ ہے تو حرام۔ لیکن گناہ کی طرف اگر مائل ہے تو پھر اجازت نہیں۔ مثلاً ایک آدمی کو شدید بھوک لاحق ہوگئی اور اس کو کوئی چیز کھانے کے لیے نہیں مل رہی سواے سور کے گوشت کے۔ اب اس صورت میں وہ اتنا کھائے گا جتنا اس کی جان بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہیں کرے گا کہ ……… سور کا گوشت اچھی طرح سے حاصل کیا۔ اس کے کچھ کباب بنائے، کچھ شامی کباب بنائے، اس کے ساتھ کچھ پراٹھے تیار کرنے کی فکر کرے اور یہ سوچے کہ ان کے ساتھ کھائوں۔    یہ جائز نہیں ہے۔ گناہ کی طرف اس کی ذرہ برابر رغبت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ یہ سمجھے کہ یہ حرام چیز ہے اور مجبوراً اسے کھا رہا ہوں۔

اب اگر ان میں سے کوئی چیز آدمی بغیر کسی اضطرار کے استعمال کرتا ہے، خود انتخاب کرتا ہے کہ میں اب ایسے طریقے سے ذبیحہ کروں گا جس میں تزکیہ نہ ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اضطرار لاحق نہیں ہے، کوئی مخمصہ لاحق نہیں ہے، صرف گناہ کی طرف جانے کا جذبہ باقی رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور جذبہ نہیں ہے۔ ورنہ ایک آدمی ہزار مرتبہ سوچے گا کہ میں اگر کوئی ایسا کام کررہا ہوں جس کے اندر حرام ہونے کا امکان ہو کجا کہ حرام ہونے کا یقین ہو، تو وہ کبھی نہ کرے گا۔

اگر کوئی شخص یا حکمران حلال و حرام کے اتنے واضح احکامات کے بعد بھی حرام کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے۔ اب تو ہم انگریز یا ہندو سے مغلوب نہیں ہیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبہ  عطا کردیا ہے۔ اب تو ہمیں وہ طاقت اور وسائل دے دیے ہیں کہ ہم اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ اب تو ہمیں دنیا میں اللہ کے احکامات کے نفاذ اور اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جہاد کرنا چاہیے نہ کہ ہم حرام کو حلال کرنے کے لیے بہانے تلاش کرتے پھریں۔مضبوط دلائل تو موجود ہیں۔

ایسی صورت میں کسی آدمی کا یہ تلاش کرتے پھرنا کہ فلاں چیز کو کسی نہ کسی طرح حلال کرلیا جائے۔ یہ اس آدمی کا کام ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندشوں سے نکل بھاگنے کی سوچ رہا ہو۔ اس شخص کا کام نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا ہو۔

اب اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر اور ان سے متاثر ہوکر احکام الٰہی میں ترمیم کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے بعد وہ دنیا میں بھی خدا کے عذاب سے دوچار ہوں گے اور آخرت میں بھی خدا کے عذاب کا سامنا کریں گے۔ لہٰذا اب تمھارے پاس کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ دانش مندی اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ دنیاوالوں سے ڈرنے کے بجاے اللہ سے ڈرو۔ مسلمانوں کی عظمت و سربلندی اور غلبہ دین کی راہ بھی یہی ہے۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے بل پر جس بحث کا آغاز ہوا وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے مجوزہ بل سے ہوتی ہوئی ہمارے اخبارات کے کالموں اور برقی ذرائع ابلاغ کے چینلوں پر خواتین پر تشدد تک آگئی۔ کئی کالم نگار اور وزیرقانون پنجاب حدیں پار کرگئے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے خواتین کے حقوق پر مکمل کتاب حقوق الزوجین لکھی ہے جو آج بھی حسب ِ حال ہے۔ اس کا ایک مختصر حصہ جو خاص اس پہلو سے متعلق ہے جو کچھ زیادہ ہی موضوع بنا ہوا ہے، پیش کیا جارہا ہے۔ جو مسئلے کے ہرپہلو سے تفصیل سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں، اس کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔(ادارہ)

اگر عورت اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرے یا اس کے حقوق میں سے کسی حق کو تلف کرے تو ایسی صورت میں مرد پر لازم ہے کہ پہلے اس کو نصیحت کرے، نہ مانے تو اس کو اختیار ہے کہ اپنے برتائو میں حسب ِ ضرورت اس کے ساتھ سختی کرے،اور اگر اس پر بھی نہ مانے تو وہ اس کو مار سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی اطاعت کرنے لگے:

وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا ط(النساء ۴:۳۴)  اور جن عورتوں سے تم نشوز۱؎ دیکھو ان کو نصیحت کرو اور بستروں پر ان کو چھوڑ دو اور ان کو مارو۔ اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو پھر ان پر سختی کرنے کا کوئی طریقہ نہ ڈھونڈو۔

اس آیت میں وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ (یعنی بستروں پر ان کو چھوڑ دو) فرما کر  سزا کے طور پر ترکِ مباشرت کی اجازت دی گئی ہے۔ مگر آیت ِایلاء (البقرہ ۲:۲۲۷) نے اس کے لیے ایک فطری حدمقرر کر دی ہے کہ یہ بستر کی علیحدگی چار مہینے سے زیادہ نہ ہو۔ جو عورت اتنی نافرمان اور شوریدہ سر ہو کہ شوہر ناراض ہو کر اس کے ساتھ سونا چھوڑ دے اور وہ جانتی ہو کہ چار مہینے تک یہ حالت قائم رہنے کے بعد شوہر ازروے احکامِ الٰہی اس کو طلاق دے دے گا، اور پھر بھی وہ اپنے نشوز سے باز نہ آئے، وہ اسی قابل ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ چار مہینے کی مدت ادب سکھانے کے لیے کافی ہے۔ اس سے زیادہ مدت تک یہ سزا دینا غیرضروری ہوگا۔ کیوںکہ اتنے دن تک اس کا نشوز پر قائم رہنا، یہ جانتے ہوئے کہ اس کا نتیجہ طلاق ہے، اس بات کی دلیل کے کہ اس میں ادب سیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، یا وہ حُسنِ معاشرت کے ساتھ کم از کم اس شوہر سے نباہ نہیں کرسکتی۔ نیز اس سے وہ مقاصد بھی فوت ہونے کا اندیشہ ہے جن کے لیے ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ رشتۂ مناکحت میں باندھا جاتا ہے۔ ممکن ہے ایسی حالت میں شوہر اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرنے کے لیے کسی ناجائز طریقے کی طرف مائل ہوجائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عورت کسی اخلاقی فتنے میں مبتلا ہوجائے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ جہاں میاں بیوی میں سے ایک اس قدر ضدی اور شوریدہ سر ہو وہاں زوجین میں مؤدت و رحمت قائم نہ ہوسکے گی۔

امام سفیان ثوری سے وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ کے معنی میں ایک دوسرا قول منقول ہے۔ وہ کلام عرب سے استدلال کرکے کہتے ہیں کہ ھجر کے معنی، باندھنے کے ہیں۔ ھَجَرَ الْبَعیْرا اذا ربطہ صَاحِبْہٗ بِالْھِجَارِ۔ ہجار اُس رسّی کو کہتے ہیں جو اُونٹ کی پیٹھ اور ٹانگوں کو ملا کر باندھی جاتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ جب وہ نصیحت نہ قبول کریں تو گھر میں ان کو  باندھ کر ڈال دو۔ لیکن یہ معنی قرآنِ مجید کے منشاء سے بعید ہیں۔ فِی الْمَضَاجِعِ کے الفاظ میں قرآن نے اپنے منشا کی طرف صاف اشارہ کر دیا ہے۔ مضجع سونے کی جگہ کو کہتے ہیں اور سونے کی جگہ میں باندھنا بالکل بے معنی بات ہے۔

دوسری سزا جس کی اجازت زیادہ شدید حالات میں دی گئی ہے، مارنے کی سزا ہے۔ مگر اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قید لگادی ہے کہ ضربِ شدید نہ ہونی چاہیے:

اِضْرِبُوْھُنَّ اِذَا عَصَیْنَکُمْ فِی الْمَعْرُوْفِ ضَرْبًا غَیر مُبَرَّحٍ وَلَا بِضَرْبِ الْوَجْہِ وَلَا یقبح،اگر وہ تمھارے کسی جائز حکم کی نافرمانی کریں تو ان کو ایسی مارمارو جو زیادہ تکلیف دہ نہ ہو۔ منہ پر نہ مارے اور گالم گلوچ نہ کرے۔

یہ دو سزائیں دینے کا مرد کو اختیار دیا گیا ہے مگر جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، سزا اُس نافرمانی پر دی جاسکتی ہے جو مرد کے جائز حقوق سے متعلق ہو۔ نہ یہ کہ ہرجا و بے جا حکم کی اطاعت پر اصرار کیا جائے اور عورت نہ مانے تو اس کو سزا دی جائے۔ پھر قصور اور سزا کے درمیان بھی تناسب ہونا چاہیے۔ اسلامی قانون کے کلیات میں سے ایک کلیہ یہ بھی ہے کہ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (البقرہ ۲:۱۹۴) ’’جوکوئی تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے کی ہے‘‘۔ زیادتی کی نسبت سے زیادہ سزا دینا ظلم ہے۔ جس قصور پر نصیحت کافی ہے اس پر ترکِ کلام، اور جس پر ترکِ کلام کافی ہے اس پر ھجر فی المضاجع، اور جس پر ھجر فی المضاجع کافی ہے اس پر مارنا ظلم میں شمار ہوگا۔مار ایک آخری سزا ہے جو صرف شدید اور ناقابلِ برداشت قصور پر ہی دی جاسکتی ہے اور اس میں بھی وہ حد ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے۔ اس سے تجاوز کرنے کی صورت میں مرد کی زیادتی ہوگی اور عورت کو    حق ہوجائے گا کہ اس کے خلاف قانون سے امداد طلب کرے۔ (حقوق الزوجین، ص۴۵-۴۸)

یہ نماز، روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے اور اسلام کا رکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو جائے، بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں…

  •  اسلام کا مقصودِ حقیقی:مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹا کر خداے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سردھڑکی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃسب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں…
  •  اصلاح کی بنیاد: جو لوگ خدا کو اپنا بادشاہ (محض خیالی نہیں بلکہ واقعی بادشاہ) تسلیم کر لیں اور اُس قانون پر جو خدا نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے بھیجا ہے، ایمان لے آئیں، اُن سے اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اُس کا قانون جاری کرنے کے لیے اٹھیں، اُس کی رعیت میں سے جو لوگ باغی ہو گئے ہیں اور خود مالک الملک بن بیٹھے ہیں اُن کا زورتوڑدیں اور اللہ کی رعیت کو دوسروں کی رعیت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا۔ نہیں، اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں بھی تمھاری سکونت ہو وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اٹھو، حکومت کے غلط اصول کوصحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شترِبے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق، آخرت کی ذمہ داری وجواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور جدوجہد کا نام جہاد ہے۔
  •  حکومت ایک کٹہن راستہ:حکومت اور فرمانروائی جیسی بد بلا ہے ہر شخص اُس کو جانتا ہے۔ اس کے حاصل ہونے کا خیال آتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اُٹھنے لگتے ہیں۔ خواہشاتِ نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلقِ خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے۔ حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ان اختیارات کے ہاتھ آجانے کے بعد خدابننے سے بچنا اور بندۂ خدا بن کر کام کرنا مشکل ہے۔ پھر بھلا فائدہ ہی کیا ہوا اگر فرعون کو ہٹا کر تم خود فرعون بن گئے؟

لہٰذا اس شدید آزمایش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے اور دنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمھارے دل سے خود غرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔ جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہو جائے کہ تمھاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور  خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو۔ اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہو جائے کہ حکومت پاکر  تم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو بلکہ خدا کے قانون کی پیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔ محض یہ بات کہ  تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ہو، تمھیں اس کامستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمھیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے، اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے، اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔

  •  عبادات__ ایک تربیتی کورس:یہ نماز اور روزہ اور یہ زکوٰۃ اور حج دراصل اسی تیاری اور تربیت کے لیے ہیں۔ جس طرح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی فوج ، پولیس، اور سول سروس کے لیے آدمیوں کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں، پھر اُن سے کام لیتی ہیں، اُسی طرح اللہ کا دین (اسلام) بھی ان تمام آدمیوں کو، جو اس کی ملازمت میں بھرتی ہوں، پہلے خاص طریقے سے تربیت دیتا ہے، پھر اُن سے جہاد اور حکومت الٰہی کی خدمت لینا چاہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا کی سلطنتوں کو اپنے آدمیوں سے جو کام لینا ہوتا ہے اُس میں اخلاق اور نیک نفسی اور خدا ترسی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ انھیں صرف کارداں بنانے کی کوشش کرتی ہیں خواہ وہ کیسے ہی زانی، شرابی، بے ایمان اور بد نفس ہوں۔ مگر دینِ الٰہی کو جوکام اپنے آدمیوں سے لینا ہے وہ چوںکہ   سارا ہے ہی اخلاقی کام، اس لیے وہ انھیں کارداں بنانے سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھتا ہے کہ انھیں خدا ترس اور نیک نفس بنائے۔

وہ ان میںاتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کرکے دکھا سکیں۔ وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انھیں خود اپنے واسطے مال و دولت اور زمین درکار ہے، بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ ان کی لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ وہ فتح پائیں تو متکبر وسرکش نہ ہوں بلکہ ان کے سر خدا کے آگے جھکے ہوئے رہیں۔ وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کسی کا غلام نہ رہنے دیں۔ وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی یا اپنے خاندان والوں یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں، بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں اور ایک سچے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں بہر حال دیکھ رہی ہے اور اوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔ اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کر لیتا ہے ، تب وہ ان سے کہتا ہے کہ ہاں، اب تم روے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو، لہٰذا آگے بڑھو۔ لڑکر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دو اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اب یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ … دوسرے تمام دینوںکی طرح دین اللہ بھی محض اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتا کہ آپ بس اس کے حق ہونے کو مان لیں اور اپنے اس اعتقاد کی علامت کے طور پر محض رسمی پوجا پاٹ کر لیا کریں۔ کسی دوسرے دین کے ماتحت رہ کر آپ اس دین کی پیروی کر ہی نہیں سکتے۔ کسی دوسرے دین کی شرکت میں بھی اس کی پیروی ناممکن ہے۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین کو حق سمجھتے ہیں تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں اور یا تو اسے قائم کرکے چھوڑیں یا اسی کوشش میں جان دے دیں۔ یہی کسوٹی ہے جس پر آپ کے ایمان و اعتقاد کی صداقت پرکھی جا سکتی ہے۔ آپ کا اعتقاد سچا ہوگا تو آپ کو کسی دوسرے دین کے اندر رہتے ہوئے آرام کی نیند تک نہ آ سکے گی کُجا کہ آپ اُس کی خدمت کریں اور اس خدمت کی روٹی مزے سے کھائیں اور آرام سے پائوں پھیلا کر سوئیں۔ اس دین کو حق مانتے ہوئے تو جو لمحہ بھی آپ پر کسی دوسرے دین کی ماتحتی میں گزرے گا  اس طرح گزرے گا کہ بستر آپ کے لیے کانٹوں کا بستر ہوگا، کھانا زہر اور حنظل کا کھانا ہوگا اور دینِ حق کو قائم کرنے کی کوشش کیے بغیر آپ کو کسی کل چین نہ آسکے گا۔ لیکن اگر آپ کو دین اللہ کے سوا کسی دوسرے دین کے اندر رہنے میں چین آتا ہواور آپ اس حالت پر راضی ہوں تو آپ مومن ہی نہیں ہیں، خواہ آپ کتنی ہی دل لگا لگا کر نمازیں پڑھیں، کتنے ہی لمبے لمبے مراقبے کریں، کتنی ہی قرآن و حدیث کی شرح فرمائیں، اور کتنا ہی اسلام کا فلسفہ بگھاریں…

  •  مومن صادق کی پھچان: جب اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین زمین میں قائم ہو اور کوئی مسلمان اپنے آپ کو اس حالت میں مبتلا پائے، تو اس کے مومن صادق ہونے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اُس دینِ باطل کو مٹا کر اس کی جگہ دینِ حق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں۔ اگر کرتا ہے اور کوشش میں اپنا پورا زور صرف کر دیتا ہے، اپنی جان لڑا دیتا ہے اور ہر طرح کے نقصانات انگیز کیے جاتا ہے تو وہ سچا مومن ہے خواہ اس کی یہ کوششیں کامیاب ہوں یا ناکام۔ لیکن اگر وہ دینِ باطل کے غلبے پر راضی ہے یا اس کو غالب رکھنے میں خود حصہ لے رہا ہے تو وہ اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہے۔(خطبات،ص۲۵۹-۴۷۸) (مرتب: امجد عباسی)

ایمان محض ایک مابعد الطبیعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رُو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے اور اس کے معاوضے میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات [جزئیات] کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع [معاہدہ] کی حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔

معاھدے کی نوعیت

جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیوںکہ وہی اس کا اور ان ساری چیزوں کا خالق ہے جو اس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید وفروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے  خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیتاً اس کے حوالے کر دیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار، یعنی اس کا اپنے انتخاب و ارادے میں آزاد ہونا (free-will and freedom of choice)۔ اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہوجاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کردے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور ان اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں، مالک ہوگیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں کو جس طرح چاہے استعمال کرے، بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود ہی اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خدا کے حقوقِ مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہوکر اپنے حدود اختیار میں اپنے حسب ِ منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔

دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے، بلکہ اس معاملے کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جوچیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو برضا و رغبت (نہ کہ بہ مجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھر اس میں خودمختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کرلے، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خودبخود دست بردار ہوجا۔ اس طرح اگر دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو (جو تیری حاصل کردہ نہیں بلکہ میری عطا کردہ ہے) میرے ہاتھ فروخت کردے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادا کروںگا۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کرلے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے، اور جو شخص اس سے انکار کردے، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویّہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔

اللّٰہ سے معاھدے کے تقاضے

بیع کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضَمُّنات  کا تجزیہ کیجیے:

۱- اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمایشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمایش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمایش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر   اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہوجائے۔

۲- دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رُو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضی شرع کسی کے غیرمومن یا خارج از ملّت ہونے کا حکم نہیں لگاسکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اس کے حق میں اپنے ادعاے ملکیت سے کلیتاً دست بردار ہوجائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا، اپنے دل و دماغ اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو،اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہوسکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے مگر خدا کے ہاں یقینا وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا، کیوںکہ اس نے خدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ   سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رُو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو، وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا، یہ دونوں طرزِعمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کردیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے، یا بیع کا معاہدہ کرلینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔

۳- ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اور کافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہرشعبے میں خدا کی مرضی کے تابع بن کر کام کرتاہے اور اس کے رویے میں کسی جگہ بھی خودمختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ الا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہوجائے اور وہ خدا کے ساتھ اپنے معاہدۂ بیع کو بھول کر کوئی خودمختارانہ حرکت کربیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ، اہلِ ایمان سے مرکب ہو، وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب، کوئی طریق معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویہ خدا کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہوکر اختیار نہیں کرسکتا اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہوگا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہوکر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقاتِ نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا    نہ کریں، بہرحال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے، خواہ اس پر چلنے والے لوگ ’مسلمان‘ کے نام سے موسوم ہوں یا ’غیرمسلم‘ کے نام سے۔

۴- اس بیع کی رُو سے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرالینا، اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدۂ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدئہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا پورا رویۂ زندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبرؐ کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔

یہ اس بیع کے تضمنات ہیں، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خودبخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خریدوفروخت کے معاملے میں بھی قیمت (یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر کیوں مؤخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ’’بائع نے اپنا  نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا‘‘، بلکہ وہ اس عمل کا معاوضہ ہے کہ ’’بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے‘‘۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہوگی ، جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہوجائے اور   فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدئہ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحے تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۳۵-۲۳۷)