انکارِ سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے ’خوارج‘ اور ’معتزلہ‘ تھے:
’خوارج‘ کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت حائل تھی، جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا۔ اور اس کی راہ میں حضوؐر کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں’ خوارج‘ کے انتہاپسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔
’معتزلہ‘ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، انھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح انھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ انھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر ’عقل‘ کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کے عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے، جس سے وہ ان نام نہاد ’عقلی تقاضوں کے مطابق‘ ہوجائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے انھوں نے بھی ’خوارج‘ کی طرح ’حدیث‘ کو مشکوک ٹھیرایا اور ’سنت‘ کو حجت ماننے سے انکار کیا۔
ان دونوں فتنوں کی غرض اور ان کی تکنیک مشترک تھی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے، اور اُس نظام فکروعمل سے جو خدا کے پیغمبرؐ نے اپنی رہنمائی میں قائم کر دیا تھا۔ الگ کرکے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے اور پھر اس کی من مانی تاویلات کرکے ایک دوسرا نظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔ (منصب رسالت نمبر، ترجمان القرآن، جلد۵۶،عدد ۶،ستمبر ۱۹۶۱ء، ص ۹-۱۰)