يٰٓاَ يُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو جس کے ایندھن انسان اورپتّھر ہوں گے۔
اس آیت میں مومنین کو ایک انتہائی ا ہم ہدایت ( جس پر انسان کی حقیقی کامیابی کا دارو مدار ہے) دی گئی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کی فکر و کوشش کرنا۔ بلاشبہہ جہنم سے بچ جانا اور جنت نصیب ہونا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے ،جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے:
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۰ۭ (اٰل عمرٰن۳: ۱۸۵) جو جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی (حقیقی معنوں میں) کامیاب ہوا۔
ظاہر ہے کہ جنت نصیب ہونا منحصر ہے روز مرہ زندگی میں اللہ رب العزت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلصانہ اطاعت پر ۔ اہلِ ایمان کے لیے آیت کا پیغام بہت ہی واضح ہے کہ وہ حکمِ الٰہی و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے حالات سدھاریں ، زندگی کے ہر شعبے میں دین کے تقاضوں کو پورا کریں، اور اسی طور پر اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے پور ی کوشش کریں۔ اس آیت کے نزول پر حضرت عمر ابن خطابؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اپنے آپ کو کیسے جہنم سے بچائیں، یہ تو سمجھ میں آگیا ( کہ احکامِ الٰہی پر عمل کریں اور گناہوں سے دُور رہیں )، مگر ہم اپنے اہل و عیال کو کس طرح جہنم سے بچائیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ اس طر ح کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ، اہل وعیال کو ان کاموں سے منع کرو ،اور اللہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان کے کرنے کا انھیں حکم دو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچائے گا (روح المعانی، ج۲۸،ص ۱۵۶)
صاحبِ تفہیم القرآن نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ اپنی ذات کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے،بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ جس خاندان کا وہ سربراہ ہے اس کو بھی ممکن حد تک ایسی تعلیم و تربیت دے کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا بن جائے، تاکہ اللہ رب العزت اس سے راضی ہو جائے اور وہ جہنم سے بچ جائے (تفہیم القرآن، ج۶،ص ۲۹-۳۰، حاشیہ ۱۶ ) ۔
مولانا عبد الباری ندوی اس سورہ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’ انسان کو بحیثیت مجموعی خسران سے بچانے کے لیے صرف کچھ افراد کا اپنی اپنی جگہ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ کا حق ادا کر کے مومنِ صالح بن جانا کافی نہیں ، بلکہ ایمان و عمل صالح کی اس حقّانی زندگی کو پوری نوع انسانی میں پھیلانے اور پیدا کرنے کے لیے آپس میںایک دوسرے کو اس کی فہمایش و تاکید کرتے رہنا بھی لازم ہے ‘‘( قرآن کا دو آیاتی نظامِ صلاح و اصلاح، ۲۰۰۹ء، ص ۱۰۶)۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ زیرِ بحث آیت میں اپنے کو او ر اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچانے کے لیے ’ امر‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،یعنی تاکید کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس نے اس کام کو فرض کا درجہ دے دیا ہے۔ مقصود یہ کہ ا پنی اور گھر والوں کی اصلاح کے لیے کوشش محض مطلوب نہیں ، بلکہ ضروری ہے۔ آیت میں جہنم کی آگ کے بھڑکنے کے ذرائع ذکر کر کے اس کام ( نارِ جہنم سے بچانے) کی ضرورت و اہمیت کو اور بڑھا دیا گیا ہے۔ سچ پوچھئے تو اس سے بڑھ کر ضروری و اہم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے بجا تحریر فرما یا ہے : ’’ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے اسے اٹھائے نہ رکھے۔ جب بھی دیکھے کہ ان کے اندر اللہ کی شریعت سے بے پروائی راہ پارہی ہے،فوراً اس کے سدِّ باب کی فکر کرے‘‘(تدبر قرآن، ج۸، ص۴۶۹)۔
جب یہ آیت وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۲۱۴ (الشعراء :۲۶:۲۱۴) نازل ہوئی ( یعنی آپؐ کو اپنے قبیلہ و خاندان کے لوگوں کو علانیہ انذار کا حکم ہوا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ قریش کی تمام شا خو ں کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک ایک شاخ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میں ( روزِجزا) تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا۔آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ان الفاظ میں مخاطب ہوئے : وَ یَا فَاطِمَۃُ بِنْت مُحَمَّد! سَلِیْـنِیْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِیْ ،لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا (صحیح بخاری،کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء باب وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) ’’اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میرے پاس جو کچھ مال ہے اس میں جو چاہو لے سکتی ہو،لیکن( یاد رکھو کہ) میں قیامت کے دن اللہ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آسکوں گا‘‘۔ حقیقت یہ کہ گھر والوں کی تذکیر اور انھیں نارِ جہنم سے بچانے کی راہ میں کوشش کی نسبت سے اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم سب کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے اور ان مختصر جملوں میں انذار کے پہلو سے جو جامعیت ہے وہ اپنی جگہ مسلَّم ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے حالات درست کرنے یا انھیں راہِ راست پر لانے کی اصل ذمہ داری سرپرست یا نگراں کی ہی ہوتی ہے ،لیکن آیت میں اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم عمومی انداز میں دیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے،جوان ،بوڑھے ، مرد و عورت کی تفریق کے بغیر گھر کے تمام لوگوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موقع و محل کی رعایت کے ساتھ حسبِ استطاعت ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتا ئیں، نیک کاموں کی طرف متوجہ کریں اور برے کاموں پر متنبہ کرتے رہیں، یعنی یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
آج کل تقریباً ہر گھر میں اولاد یا زیرِ نگرانی بچوں کی نسبت سے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے، اس کے حصول میں محنت و مشقت و سنجیدگی کے لیے انھیں باربار نصیحت کی جاتی ہے، ان کی خوب سرزنش ہو تی ہے، ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔ ان سب میں کوئی حرج نہیں،اس لیے کیریئر بنانے اور دنیوی زندگی کی تعمیر و ترقی کے لیے تعلیم کا حصول، اس میں انہماک اور اچھی کارکردگی ضروری ہے، لیکن لمحۂ فکریہ ہے کہ والدین و سرپرستوں کی یہ نصیحت و یاددہانی، سختی وسرزنش،دینی معاملات میں کوتاہی و فرض عبادات کی ادائیگی میں غفلت، اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی اور بُری حرکتوں کے عا دی ہونے کی صورت میں کم ہی نظر آتی ہے، بلکہ بعض اوقات والدین یا سرپرست انھیں ایسی سہولیات مہیا کرتے ہیں، جو بے کار و لایعنی باتوں میں غیرمعمولی دل چسپی، وقت کے ضیاع اور بُری عادتوں کے جڑ پکڑنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
گھر کے لوگوں کی اصلاح کی خاطر ہر گھر میں وقتاًفوقتاً دینی یا تذکیری مجلس کے انعقاد کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور موجودہ حالات میں یہ وقت کا ایک اہم تقاضا بن چکا ہے۔ کرونا لاک ڈائون کے دوران محلّہ کی مساجد میں یا دوسرے کسی مقام پر اجتماعی طور پر دعوتی و تذکیری پروگرام موقوف ہونے کی وجہ سے اس ناچیز کو گھر میں درسِ قرآن کے توسط سے گھر والوں کے سامنے ہفتہ وار کچھ کہنے کا موقع ملا تو ان مجالس کے تجربات نے گھر میں دینی یا تذکیر ی مجالس کے انعقاد کی اہمیت و افادیت کو دل ودماغ میں نقش کردیا۔ یہ احساس غالب ہوگیا کہ اس سلسلے میں اب تک بڑی کوتاہی ہوئی ہے۔
گھر میں تذکیری مجلسیں منعقد کرنے کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں سامنے آیا کہ روزمرہ زندگی سے متعلق قرآن و حدیث کی عام ہدایات و تعلیمات کی طرٖف متوجہ کرنے کے علاوہ بعض اوقات گھر کے کسی فرد کو دین کی کسی خاص بات یا روز مرّہ زندگی کے کسی خاص پہلو کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یا گھر کے لوگوں یا کسی فرد میں خلافِ شریعت معاملات نظر آنے پر انھیں متنبہ کر نا ضروری ہوجا تاہے تو قرآن و حدیث کے حوالے سے جب تذکیری مجلس میں سب کے سامنے یہ باتیں واضح کی جاتی ہیں تو گھر کے تمام لوگوں کو ان سے واقفیت ہوجاتی ہے اور متعلقہ امر یا معاملہ سے متعلق قانونِ شریعت سے عمومی آگاہی ہوجاتی ہے۔ دوسرے اس طرح کی مجالس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غلطی یا کوتاہی پراجتماعی طور پر متنبہ کر دینے کی وجہ سے گھر کے کسی فرد کو انفرادی طور پر نکیر کرنے یا خطاکار /غلطی کرنے والے سے براہ راست کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ خود سمجھ جاتا ہے کہ اس تنبیہ کا اصل مخاطب کون ہے، اس طرح وہ شرم ساری سے بچ جاتا ہے اور متنبہ کرنے والا انفرادی نکیر کے کسی منفی ردِِّ عمل سے محفوظ رہتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی کوئی غلط بات یا برائی کی خبر ہوتی اور آ پؐ اس کی اصلاح کرنا چاہتے تو یہ نہ فرماتے کہ فلاں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا ،ایسا کہتا ہے، بلکہ یہ فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا،ایسا کہتے ہیں (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، بَابٌ فِیْ حُسْنِ العِشْرَۃِ)، یعنی آپؐ مجلس میں خطا کار کا نام لیے بغیریا اسے براہِ راست مخاطب کیے بغیر غلطی پر متنبہ کر تے اور اصلاح فرماتے۔
حضرت اسماعیلؑ کے امتیازی اوصاف میں یہ بیان کیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کے اہتمام ا ور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ ۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّا۵۵ (مریم۱۹: ۵۵) ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کی نگاہ میں پسندیدہ تھے‘‘۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو شرک سے اجتناب اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی نصیحت کے فوراً بعد اقامتِ صلوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہتمام کی تاکید کی تھی۔ ارشادِ ربّانی ہے: يٰبُنَيَّ اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْكَرِ (لقمان ۳۱:۱۷) ’’اے میرے بیٹے! نماز کا اہتمام کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصی حکم فرمایا: وَاْمُرْ اَہْلَكَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہَا۰ۭ (طٰہٰ۲۰:۱۳۲) ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور خود اس پر جمے رہیے‘‘۔
آیت کا آخری حصہ اس لحاظ سے بڑا اہم و سبق آموز ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ گھر والوں کو نماز کی تاکید کرتے رہنے کے ساتھ خود بھی اس پر کار بند رہیں۔ اس سے یہ قیمتی نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کی راہ میں سرگرم رہنے والوں اور انھیں نیک کاموں کی دعوت دینے والوں کو پہلے اپنے آپ کو ان کا خوگر بنا نا نہایت ضروری ہے،ورنہ دعوت و تذکیر بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔سچ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حکمِ الٰہی کی تعمیل میں سرگرم رہنے والا کون ہوسکتا ہے۔
یہاں نماز کے اہتمام کے باب میں اسوۂ مبارکہ سے متعلق صرف ایک حدیث کا حوالہ کافی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام کاج میں لگے رہتے تھے، جیسے ہی نماز کا وقت آجاتا (یا ایک دوسری روایت کے مطابق اذان ہوجاتی) تو آپؐ بلاکسی تاخیر کے اس کی تیاری میں مصروف ہوجاتے تھے (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب کَیْفَ یَکُوْنُ الرَّجُلُ فِیْ اَھْلِہٖ، صحیح بخاری، کتاب النفقات، باب خدمۃ الرجل فی اھلہ)۔
سچ بات یہ کہ ’ نہی عن المنکر‘ کے بغیر ’امربالمعروف‘ کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا، جیسا کہ قرآن کریم میں دونوں کام ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کے ساتھ ساتھ ذکر کے اہتمام سے واضح ہوتا ہے، اور اہلِ ایمان کے امتیازی اوصاف میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے رو کنے کا تذکرہ بار بار ملتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُس صورتِ حال میں جہاں ہر طرف برائیوں کا زور ہو اور لوگ گناہ کے کاموں کے عادی ہوگئے ہوں، وہاں نہی عن المنکر کی ضرورت و ا ہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں زندگی کے ہرپہلو سے متعلق گھر کے لوگوں کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر یا تذکیر و فہمایش کی ضرورت بڑھتی ہی جارہی ہے۔
یہ آیت اسی نکتہ پر غور وفکر کی دعوت دے رہی ہے:اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ (البقرہ۲:۴۴) ’’کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟۔ امام غزالیؒ نے دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی راہ میں قرآنی ترتیب کو اختیار کرنے پر اس انداز میں زور دیا ہے :’’دوسروں کی اصلاح اپنی اصلاح پر مرتب ہوتی ہے، لہٰذا چاہیے کہ انسان اصلاح کے عمل کا آغاز اپنی ذات سے کرے ،پھر اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے، جو خود درست نہیں ہے وہ دوسرے کو کیسے درست کرے گا؟‘‘ (احیاء علوم الدین)۔
مختصر یہ کہ قرآن و حدیث کا واضح پیغام یہ ہے کہ گھر اور خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتاتے رہیں ، نیک کاموں کی یاد دہانی کراتے رہیں اور بُرے کاموں سے باز رکھنے کی کوشش کریں ۔ بلاشبہہ موجود ہ بگڑی ہوئی صورتِ حال میں قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے حالات سدھارنے،انھیں نیک کاموں کی طرف راغب کرنے اور انھیں برائیوں سے دُور رہنے کی تاکید کرنے کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ گھر کے ہر شخص سے یہ مطلوب ہے کہ خود اپنی اصلاح کے ساتھ حسبِ صلاحیت و استعداد حکمت کے ساتھ د وسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کرے اور گھر کے لوگ ایک دوسرے کو اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، ملتے جُلتے اچھی باتیں بتاتے رہیں اور نیک کاموں کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔ گھر میں اگر کوئی علمِ قرآن و حدیث سے بہرہ ور ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ گھر کے لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے با خبر کرے،یا پھر دینی کتابوں کی مدد سے ان کی تذکیر کرے اور دینی احکام کے تعلق سے انھیںسمجھا ئے بجھا ئے۔
خلاصہ یہ کہ گھر میں ایک دوسرے کو انفرادی طور پر سمجھانے بجھانے ، تذکیر و فہمایش، تنبیہ و آگاہی کے ساتھ خاص گھر والوں کے لیے وقتاً فوقتاً اجتماعی پروگرام کا انعقاد بہت ضروری ہوگیا ہے۔ کم از کم ہفتہ میں ایک بار خاص طور سے گھر کے لوگوں کے لیے تذکیری پروگرام کا نظم جاری کیا جائے اور قرآن و حدیث کے حوالے سے انھیں سمجھانے بجھانے کا سلسلہ قائم رکھا جائے ۔ بس اصل مسئلہ ہے اس کام کی اہمیت و افادیت کو دل میں جاگزیں کرنے اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا۔ اس کے لیے ذہن سازی اور مسلسل جد و جہد درکا ر ہے ۔ بلا شبہہ قرآن کی ہربات بر حق ہے۔ا للہ کا کوئی حکم حکمت و نافعیت سے خالی نہیں، وہ بہر صورت موجبِ خیر و برکت ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی نہایت واضح ہدایت ہے کہ لوگوں کو اچھی یا نفع بخش باتیں (جس طریقے سے بھی ممکن ہو) بتاتے رہو، اس سے اہلِ ایمان کو ہر حال میں فائدہ پہنچتا ہے : وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵(الذاریٰت ۵۱:۵۵) ’’اور (ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی) یاددہانی کراتے رہو، بے شک یاد دہانی کرنا اہل ایمان کو نفع پہنچاتا ہے‘‘ ۔