یہ اُن دنوں کی بات ہے جب راقم سیّد مودودی ؒکی تصانیف و تالیفات کی وضاحتی فہرست تیار کر رہا تھا (یہ ’کتابیاتِ مودودی: ایک مطالعہ‘ کے عنوان سے تذکرۂ سیّد مودودی، سوم میں شامل ہے اور الگ سے بھی شائع ہوئی)۔ اسی سلسلے میں تفہیم القرآن کے مختلف ایڈیشنوں کی تلاش تھی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ملک غلام علی صاحب کے کمرے میں تفہیم القرآن کے چند پرانے ایڈیشن رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے اِن اشاعتوں کے سنین و دیگر کوائف نوٹ کرنے وہاں چلا گیا۔ ملک صاحب کام میں مصروف تھے۔ معذرت چاہی اور مدّعا بیان کیا۔ انھوں نے اجازت دی۔ میں نے الماری سے تفہیم کے نسخے نکالے اور دیکھنے لگا۔
اسی دوران تفہیم سے ملک صاحب کا ذہن محمد فواد عبدالباقی [فروری ۱۸۸۲ء- فروری ۱۹۶۸ء] کے مرتب کردہ اشاریۂ قرآن المعجم المفھرس کی طرف منتقل ہوگیا۔ فرمایا: ’’مولانا محترم، ارض القرآن کے سفر پر گئے تو مصر سے میرے لیے قرآنِ پاک کا انڈکس لائے۔ محمدفواد عبدالباقی کا یہ انڈکس یہاں دستیاب نہ تھا۔ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ بڑا قیمتی تحفہ تھا، میرے لیے‘‘۔ یہ ۱۳۷۸ھ کا مطبوعہ نسخہ تھا۔ مولانا نے اسے ملک صاحب کو ان الفاظ میں ہدیہ کیا تھا:
ہدیہ برائے غلام علی صاحب، جو بلادِ عرب کے سفر کے دوران میں اُن کے لیے مصر سے خرید کیا گیا۔
ابوالاعلیٰ
۱۱جولائی ۶۰ء
مولانا کی مندرجہ بالا تحریر کے نیچے، ملک صاحب نے حسب ذیل عبارت رقم کی تھی:
بسم اللہ ہو الباقی
آج ۲۹ شوال ۹۹ھ (۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) کو صاحب ِہدیہ بان، میرے مرشد مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی انتقال فرما گئے بوقت ِشام مغرب و عشاء کے درمیان۔
اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
تَغَمَّدَ اللہُ بِغُفْرَانٍ وَسَقٰی ضَرِیْحَہٗ بِصَیِّبِ الرِّضْوَانِ
وہ جو بیچتے دیتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔
غم زدہ عاجز
غلام علی
میں نے عرض کیا: ملک صاحب آپ کا خط ِتحریر مولانا کے خط سے خاصا مماثل ہے۔
ملک صاحب کہنے لگے: ’’جی ہاں، ابتدا میں، جب میں نے مولانا کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو میرا خط کچا تھا۔ میں جو کچھ لکھتا تھا، وہ بہت بدخط ہوتا تھا۔ میں نے کوشش سے اپنا خط بہتر بنایا ہے‘‘۔
قدرے توقّف سے فرمایا: ’’میرا خط بھی ٹھیک ہوگیا اور رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ میری تحریر اور عبارت پر لوگوں کو یہ گمان گزرتا کہ مولانا کی ہے‘‘۔پھر کہنے لگے: ’’ایک بار مولانا نے فرمایا تھا: ’’اب تمھاری تحریر ایسی ہوگئی ہے کہ میں پڑھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ میری تحریر ہے‘‘۔
بقول محترم میاں طفیل محمد: ’’مولانا غلام علی مرحوم و مغفور ہمارے مرشد و راہ نما سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا ہرپہلو سے عکس اور نمونہ تھے‘‘۔
نام وَر اخبار نویس مصطفےٰ صادق صاحب [۱۹۲۶ء-۲۱نومبر ۲۰۱۱ء]کو سفروحضر میں ملک صاحب کے ساتھ ایک عرصہ گزارنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ملک غلام علی کے کردار، ان کی سیرت اور ان کی شخصیت، حتیٰ کہ اُن کی علمیّت پر مولانا مودودی کی گہری چھاپ تھی‘‘ (روزنامہ جسارت ، کراچی، ۸؍اکتوبر ۱۹۹۴ء)۔ یقینا اس لیے کہ ملک صاحب، سیّد مودودی کے فیض یافتہ تھے، جنھوں نے ایک طویل عرصہ مولانا مودودی کی صحبت اُٹھائی تھی۔
خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا جائزہ کے حوالے سے مولانا نے فرمایا:’’تم نے بڑی محنت کی ہے۔ ایسے حوالے تلاش کیے ہیں کہ مَیں بھی نہیں کرسکتا تھا‘‘۔
ملک صاحب نے فرمایا: ’’ہمارے ایک کاتب تھے، محمد صدیق صاحب ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بعض اہلِ حدیث حضرات نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ مودودی صاحب خود لکھتے ہیں اور نام دوسروں کا دے دیتے ہیں___ تو میں نے کہا کہ میں ترجمان کا کاتب ہوں، اور مضامین خود لاتا ہوں، وہ مولانا کا نہیں بلکہ ملک غلام علی کا لکھا ہوا ہوتا ہے۔ خط ملتا جلتا ہے، اس لیے شبہہ پڑتا ہے‘‘۔
گفتگو جاری رکھتے ہوئے ملک صاحب نے بتایا: ’’بس جی، بات یہ ہے کہ یہ سب انھی کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ شیخ سعدی نے گلستان میں کہا ہے:
گلے خوشبوے در حمام روزے
رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یاعبیری
کہ از بوے دلآویزے تو مستم
بگفتا من گلِ ناچیز بودم
و لیکن مدّتے با گل نشستم
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
یہ مولانا مودودی کی صحبت کا فیضان ہے ___ یہ ’فیضان‘ والی بات اپنی جگہ بڑی اہم ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
کچھ رُک کر مولانا روم کا یہ شعر سنایا:
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے رُوم
تا غلامِ شمسِ تبریز نہ شُد
پھر ایک سرد آہ بھر کر کہا: ’’تو یہ فیضان والی بات اہم ہے___ مگر وہ بات اب کہاں‘‘۔
میں خاموشی سے سُن رہا تھا ___ ملک صاحب کو جیسے کچھ یاد آگیا۔ کہنے لگے:
’’مکہ معظمہ میں فقہ کانفرنس ہونے والی تھی۔ مولانا کو دعوت نامہ آیا مگر ان کی صحت اچھی نہیں تھی۔ انھوں نے شرکت کے لیے مجھے بھیجا۔ یہ کانفرنس حج کے دنوں میں ہورہی تھی۔ میں گیا تو اس طرح مجھے حج کا موقع بھی مل گیا___ ‘‘
وفاقی شرعی عدالت کی ججی کا موضوع چھڑ گیا۔
فرمایا: ’’یہ بھی مولانا کی وجہ سے ہے___ ایک روز صدرمحمد ضیاء الحق [م: ۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء] کا فون آیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے لیے تین ججوں کی ضرورت ہے۔ دو تو مَیں منتخب کرچکا ہوں اور تیسرا نام تمھارا دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کن لوگوں کا انتخاب کیا ہے توضیاء الحق صاحب نے بتایا کہ ایک تو مولانا محمدتقی عثمانی صاحب اور دوسرے ___ ‘‘ [راقم نام بھول گیا ہے] خیر، میں نے کہا: ’’یہ تو آپ نے بہت اچھا انتخاب کیا ہے___ مگر میرا تو قانون کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور میں عالم بھی نہیں ہوں، پھر مجھ سے کچھ زیادہ کام بھی نہیں ہوتا‘‘۔
ملک صاحب کے پاس بی اے کی ڈگری بھی نہ تھی۔ یہ بہت معروف قصّہ ہے، جو ملک صاحب کی زندگی میں سب سے اہم ڈرامائی تبدیلی تھی۔ ۱۹۳۹ء میں جب وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، لاہور میں بی اے کے آخری سال میں تھے۔ پرنسپل(غالباً ایم اے غنی) نے سیّدمودودی کو کالج میں اسلامیات کی تدریس کی دعوت دی۔ حبیبہ ہال میں سیّد صاحب کے لیکچروں نے متعدد طلبہ (بشیر آزری، جیلانی بی اے، شیخ فقیرحسین، بشیراحمد ساجد) کو متاثر کیا بلکہ چونکا دیا مگر ملک صاحب کہتے ہیں کہ مولانا کی ایک آدھ تقریر سن کر ہی میں تو دل دے بیٹھا۔ انھوں نے سیّد صاحب کی تحریریں پڑھ کر بی اے کو ادھورا چھوڑا۔ ان کے اساتذہ ڈاکٹر سعید اللہ اور پروفیسر حمیداحمد خاں مرحوم نے انھیں سمجھایا، مگر وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے، اور حینِ حیات مولانا اور جماعت سے وابستہ رہے۔
جملہ معترضہ قدرے طویل ہوگیا۔ ملک صاحب سے گفتگو کی طرف پلٹتے ہیں۔ ’’صدر ضیاء الحق صاحب اصرار کرنے لگے، تو مَیں نے کہا: اچھا، اس سلسلے میں مشورہ کرتا ہوں___ ساتھ ہی صدرصاحب سے یہ بھی کہا کہ آپ نے عائلی قوانین کی اصلاح نہیں کی___ وہ ہنس کرکہنے لگے: آہستہ آہستہ ہوجائے گا ___ یہ ’اپوا‘ والی عورتیں شور مچاتی ہیں___ اور آپ انکار کرتے ہیں‘‘۔
اب مولانا مرحوم کے آخری دور کا ذکر ہوا۔ ملک صاحب نے بتایا:
’’مولانا علاج کے سلسلے میں امریکا میں تھے۔ میں نے انھیں خط لکھا کہ مولانا، میں نے کافی عرصے تک آپ کے ساتھ کام کیا ہے۔ میرے کام میں جو کوتاہی ہوئی ہو یا کمی رہ گئی ہو، براہِ کرم درگزر فرمایئے اور مجھے بتا دیجیے کہ آپ مجھ سے خوش ہیں۔ مولانا کا جواب آیا، جس میں انھوں نے مجھ سے حُسنِ ظن کا اظہار کیا، حالانکہ میں اس کا مستحق تو نہیں تھا۔ بہرحال، مولانا نے لکھا: ’’مجھے تم سے جو محبت ہے، تم اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔ اور اس طرح کی باتیں تھیں‘‘___
’’وہ خط آپ کے پاس محفوظ ہے؟‘‘ میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
ملک صاحب نے فرمایا: ’’نہیں، وہ خط ملتے ہی میں نے ضائع کر دیا تھا‘‘۔
پھر فرمایا: ’’بس یہ اُن کا فیض ہے___ انھوں نے دین کی بڑی خدمت کی ، علمی اور عملی ہرلحاظ سے‘‘۔
اس نشست کے آخر میں عرض کیا: ’’ملک صاحب! میں نے آپ کا کافی وقت لیا ہے‘‘۔
ملک غلام علی صاحب نے جواب میں یہ شعر پڑھا اور گفتگو ختم ہوگئی :
غنیمت جان رَل مِل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
راقم نے ملک غلام علی صاحب کو سب سے پہلے ۱۹۶۲ء-۱۹۶۳ء میں دیکھا۔ اس زمانے میں ہم سرگودھا میں رہتے تھے۔ وہ اپنے گائوں کی سیاست کے حوالے سے ایک جھوٹے مقدمے میں ماخوذ ہوگئے تھے۔ مقدمہ سرگودھا کی عدالت میں چل رہا تھا۔ملک صاحب کو ہرپیشی پر لاہور سے سرگودھا آنا پڑتا۔ پیشی کے دن سے ایک روز پہلے شام کو وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سرگودھا آجاتے اور شب میں ہمارے ہاں، میرے والد صاحب کے کمرے میں قیام کرتے۔ صبح ناشتہ کرکے عدالت پہنچتے اور پیشی بھگتا کر اُسی روز واپس لاہور چلے جاتے۔کئی ماہ یا سال دو سال کی پیشیوں کے بعد، ایک روز وہ عدالت سے لوٹے تو یہ خوش خبری سنائی کہ مقدمہ خارج ہوگیا اور وہ بَری ہوگئے۔
عام طور پر لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ ملک صاحب کچھ عرصہ دعوتی اور تنظیمی فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ قیامِ پاکستان کے چند سال بعد وہ جماعت اسلامی حلقۂ لاہور کے قائم مقام امیر منتخب ہوئے اور مصطفیٰ صادق صاحب قیم تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حلقۂ لاہور صرف لاہور شہر تک محدود نہ تھا، بلکہ پتوکی، چونیاں، قصور، للیانی اور بعض دوسرے قصبات بھی اس میں شامل تھے۔ قصبات کے ساتھ ملحقہ گائوں بھی۔ ہم دعوتی کاموں کے سلسلے میں گلی گلی اور قریہ قریہ جاتے۔ ملک صاحب درسِ قرآن و حدیث دیتے۔ کسی طرح کی سواری ہمارے پاس نہیں تھی، اس لیے سفر ہم بسوں میں کیا کرتے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی دفاتر، ۱۹۷۵ء میں اچھرہ سے منصورہ منتقل ہوگئے۔ عملے کے لیے چند مکانات بھی تعمیر ہوچکے تھے۔ ملک صاحب بھی اچھرہ سے منصورہ کے ایک کوارٹر میں منتقل ہوگئے۔ ملک صاحب مولانا کے معاونِ خصوصی تھے، اس لیے چند برس تک اچھرہ جاتے رہے، لیکن جب طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو پھر منصورہ ہی سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔
۸۰ء کے عشرے میں ملک صاحب وفاقی شرعی عدالت کے جج بن کر اسلام آباد چلے گئے، اور تقریباً چار سال تک خدمات انجام دیں۔ اس دوران میں وقتاً فوقتاً لاہور آتے، ملاقات ہوجاتی۔ ۱۹۸۵ء میں ججی سے سبک دوش ہوکر لاہور آگئے۔ اور ادارہ معارف اسلامی، منصورہ کے ایک کمرے میں بیٹھ کر کام کرنے لگے۔
شوگرکے مرض نے ان کی صحت کو بُری طرح متاثر کر دیا تھا۔ چلنا بھی دشوار ہوگیا۔ اس کے باوجود حسب ِ توفیق کچھ نہ کچھ چل لیتے اور کسی نہ کسی طرح ادارے میں پہنچ جاتے۔ آخری زمانے میں نماز کے لیے مسجد نہ آسکتے تھے۔ ایک دوبار ان کے بیٹے ملک ابراہیم صاحب ، والدماجد کو ویل چیئر پر نمازِ جمعہ پڑھوانے کے لیے لائے۔ ۲۶ستمبر ۱۹۹۴ء کو اپنے ربّ سے جاملے___ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، آمین!