محبت کا جذبہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا ہے۔ اگر ماں اور باپ میں یہ محبت نہ ہوتی تو آپ اور مَیں، شاید اس دنیا میں آج اس جگہ نہ ہوتے جہاں ہیں۔ اس طرح بھائی بہن کے رشتے کو دیکھیں، قریبی رشتے داروں کی محبت اور استاد کی شاگرد سے شفقت دیکھیے تو محسوس ہوگا کہ محبت کےبغیر تو یہ دنیا ہی ادھوری ہے۔ جن معاشروں میں یہ رشتے ناطے مفقود ہوتے جارہے ہیں وہاں نہ چھوٹے کو بڑے کی خبر اور نہ بڑے کو چھوٹے کی فکر۔ زندگی ہے کہ بس حیوانوں کی طرح گزر رہی ہے۔
شاید اسی لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے محبت و احترام کو لازم قرار دے دیا ہے۔ کیونکہ صبر، تحمل، رواداری، ہمدردی، رحم دلی، ایثار، خیر خواہی، حِلم، بردباری اور بے شمار خوبیاں ایسی ہیں، جن کے سوتے ’سرچشمۂ محبت‘ ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اگر باہمی محبت کا جذبہ ختم ہو کر نفسانیت کی گدلاہٹ چشمۂ دل میں پیدا ہوجائے تو پھر مذکورہ بالا خوبیوں کے بجائے کِبر، حسرت، نفرت، انتقام، تصادم، اشتعال، غیبت، تشدد، جتھے بندیاں، سازشیں اور اس طرح کے دوسرے رذائل انسان کی زندگی پر چھا جاتے ہیں۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔
ہادیٔ برحق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا ایک تقاضا یہ بتایا کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی (یعنی) مسلمان کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (بخاری)،یعنی:
پس، جو جواب تم ان سوالوں سے اپنے لیے چاہتے ہو، وہی اپنے ہر بھائی بہن کےلیے چاہو۔ محبت ہو تو آدمی اپنے اقربا اور رفقا کی خوبیوں اور ان کے فضائل کی قدر کرتا ہے، ان کی کمزوریوں سے درگزر کرتا ہے۔ اور اگر کسی کمزوری کی اصلاح مطلوب ہو تو ایسے خیر خواہانہ انداز سے بات چیت کرتا ہے کہ اختلافات کے پہاڑ، رُوئی کے گالوں کی طرح اُڑ جاتے ہیں۔ محبت دوسروں کے دلوں کو نرم رکھتی ہے اور بند دروازے کھول دیتی ہے ۔ کسی کو بھائی کہہ کر بلانا، پاس بٹھانا، خود اس کے پاس چل کر جانا، اس کے شکوک و شبہات دُور کرنا، اس سے شکایت ہو تو خوب صورت طریقے سے بیان کرنا، یہ سب کچھ بہترین نتائج کا ذریعہ بن جاتا ہے۔محبت ہوتی ہے تو آدمی دوسرے بھائی کو معاف کرنے کےلیے بآسانی رضامند ہوجاتا ہے اور محبت ہی یہ ترغیب بھی دلاتی ہے کہ ایک شخص خود آگے بڑھ کر دوسرے سے اپنی کسی غلطی کی معافی مانگے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کن کاموں سے محبتوں کو ایک دوسرے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دُور کر دی، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ جس نے کسی تنگ دست آدمی کو سہولت بخشی، اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت بخشے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے راوی محمد بن عبداللہؓ بن نمیر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جانے میں اس کا سارا جسم شریک ہو جاتا ہے‘‘۔(مسلم)
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دُور کرتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ (ترمذی)
ایسے میں بالمشافہ ملاقات محبت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔محبت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ ملے، اس کے پاس بیٹھے۔یہ دلوں کو قریب لانے کے لیے مؤثر ترین چیز ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ملاقاتیں ہی تھیں جنھوں نے حضرت عثمان ؓابن عفان، حضرت عبدالرحمٰن ؓبن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت زبیرؓ بن عوام اور ان جیسے بہت سے صحابہ کرامؓ کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو دیکھنے اور ملاقات کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پیچھے ۷۰ ہزار فرشتے ہوتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یہ صرف تیرے لیے جڑا ہے تُو اسے جوڑ دے۔ اگر تم سے ممکن ہو تو اپنے جسم سے یہ (ملاقات کا) کام ضرور لو‘‘۔ (مشکوٰۃ)
ایک صاحب نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے کہا کہ ’’میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنائی کہ ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے، جو میرے لیے باہم مل کر بیٹھتے ہیں ، میرے لیے ایک دوسرے سے ملنے کو جاتے ہیں ، اور میرے لیے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ملاقات سے نہ صرف تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کا اجر بھی بڑا عظیم ہے۔ آئیے عہد کریں کہ محبتوں کو فروغ دینے اور اس کے صلے میں اللہ کی محبت اپنے لیے واجب کرنے کےلیے ہم ایک دوسرے سے ملاقات کو اپنا شعار بنائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت صبح کو کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ شام ہوجائے۔ اور شام کو عیادت کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔ عیادت کرنے والے کے لیے جنت میں میوؤں کے باغات ہیں‘‘۔ (ترمذی)
معروف حدیثِ قدسی کا حصہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، حالانکہ تُو تو رب العالمین ہے؟ اللہ فرمائے گا: کیا تُو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)
اللہ سے دُعا کریں کہ اللہ توفیق و ہمت عطا فرمائے کہ محبتوں کو فروغ دینے کے لیے جہاں کسی بیمار کی اطلاع ملے اُس کی عیادت کریں گے تاکہ اپنے ربّ سے وہاں شرفِ ملاقات حاصل کرسکیں۔
ویسے بھی محبت چمکتے سورج کی طرح ہے کہ اگر اس میں تصنع اور بناوٹ کی آمیزش نہ ہو اور اخلاص کا رنگ ہو تو افعال و کردار سے جھلکتی نظر آتی ہے۔
اخوت اور محبت، ایمان کی لازمی شرط ہے۔ جس کے سامنے اس کے دین کا نصب العین جتنا واضح ہوگا ، اسے اپنے بھائی سے تعلقات اتنے ہی عزیز ہوں گے۔ جب ایک کا دکھ درد دوسرے کا دکھ درد اور ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی بن جائے تو ایسے تعلقات وہ تعلقات کہلائیں گے جو تحریک کو زندگی اور حرارت بخشتے ہیں اور تحریک کی کامیابی کاضامن ہوتے ہیں۔
خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۱۹۹ (اعراف ۷ : ۱۹۹) ، اے نبیؐ! عفو و درگذر کا طریقہ اختیار کرو، نیکی کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ مسلمان جو لوگوں میں ملاجلا رہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے، اس مسلمان سے بہتر ہے جو ملنا جلنا چھوڑ دے اور ایذاؤں پر صبر نہ کرے‘‘(ترمذی)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے خاموش رہے ، تو اللہ ایسے بندے کی زبردست مدد فرماتا ہے‘‘۔
جو دنیا میں اپنے بھائیوں کی خطائیں معاف کریں گے، اللہ آخرت میں اجرعطا فرمائے گا:
وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۲۲ (النور ۲۴: ۲۲) اور چاہیے کہ وہ عفو و درگزر سے کام لیں۔ کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اللہ عزوجل تمھیں بخش دے ؟ اور اللہ تو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا ، اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑے رکھ اور ہمارے تعلقات کی اصلاح فرمادے۔
وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۶۳ (انفال ۸ :۶۳) وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے۔ مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔