محبت کا جذبہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا ہے۔ اگر ماں اور باپ میں یہ محبت نہ ہوتی تو آپ اور مَیں، شاید اس دنیا میں آج اس جگہ نہ ہوتے جہاں ہیں۔ اس طرح بھائی بہن کے رشتے کو دیکھیں، قریبی رشتے داروں کی محبت اور استاد کی شاگرد سے شفقت دیکھیے تو محسوس ہوگا کہ محبت کےبغیر تو یہ دنیا ہی ادھوری ہے۔ جن معاشروں میں یہ رشتے ناطے مفقود ہوتے جارہے ہیں وہاں نہ چھوٹے کو بڑے کی خبر اور نہ بڑے کو چھوٹے کی فکر۔ زندگی ہے کہ بس حیوانوں کی طرح گزر رہی ہے۔
شاید اسی لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے محبت و احترام کو لازم قرار دے دیا ہے۔ کیونکہ صبر، تحمل، رواداری، ہمدردی، رحم دلی، ایثار، خیر خواہی، حِلم، بردباری اور بے شمار خوبیاں ایسی ہیں، جن کے سوتے ’سرچشمۂ محبت‘ ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اگر باہمی محبت کا جذبہ ختم ہو کر نفسانیت کی گدلاہٹ چشمۂ دل میں پیدا ہوجائے تو پھر مذکورہ بالا خوبیوں کے بجائے کِبر، حسرت، نفرت، انتقام، تصادم، اشتعال، غیبت، تشدد، جتھے بندیاں، سازشیں اور اس طرح کے دوسرے رذائل انسان کی زندگی پر چھا جاتے ہیں۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔
ہادیٔ برحق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا ایک تقاضا یہ بتایا کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی (یعنی) مسلمان کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (بخاری)،یعنی:
پس، جو جواب تم ان سوالوں سے اپنے لیے چاہتے ہو، وہی اپنے ہر بھائی بہن کےلیے چاہو۔ محبت ہو تو آدمی اپنے اقربا اور رفقا کی خوبیوں اور ان کے فضائل کی قدر کرتا ہے، ان کی کمزوریوں سے درگزر کرتا ہے۔ اور اگر کسی کمزوری کی اصلاح مطلوب ہو تو ایسے خیر خواہانہ انداز سے بات چیت کرتا ہے کہ اختلافات کے پہاڑ، رُوئی کے گالوں کی طرح اُڑ جاتے ہیں۔ محبت دوسروں کے دلوں کو نرم رکھتی ہے اور بند دروازے کھول دیتی ہے ۔ کسی کو بھائی کہہ کر بلانا، پاس بٹھانا، خود اس کے پاس چل کر جانا، اس کے شکوک و شبہات دُور کرنا، اس سے شکایت ہو تو خوب صورت طریقے سے بیان کرنا، یہ سب کچھ بہترین نتائج کا ذریعہ بن جاتا ہے۔محبت ہوتی ہے تو آدمی دوسرے بھائی کو معاف کرنے کےلیے بآسانی رضامند ہوجاتا ہے اور محبت ہی یہ ترغیب بھی دلاتی ہے کہ ایک شخص خود آگے بڑھ کر دوسرے سے اپنی کسی غلطی کی معافی مانگے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کن کاموں سے محبتوں کو ایک دوسرے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دُور کر دی، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ جس نے کسی تنگ دست آدمی کو سہولت بخشی، اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت بخشے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے راوی محمد بن عبداللہؓ بن نمیر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جانے میں اس کا سارا جسم شریک ہو جاتا ہے‘‘۔(مسلم)
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دُور کرتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ (ترمذی)
ایسے میں بالمشافہ ملاقات محبت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔محبت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ ملے، اس کے پاس بیٹھے۔یہ دلوں کو قریب لانے کے لیے مؤثر ترین چیز ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ملاقاتیں ہی تھیں جنھوں نے حضرت عثمان ؓابن عفان، حضرت عبدالرحمٰن ؓبن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت زبیرؓ بن عوام اور ان جیسے بہت سے صحابہ کرامؓ کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو دیکھنے اور ملاقات کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پیچھے ۷۰ ہزار فرشتے ہوتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یہ صرف تیرے لیے جڑا ہے تُو اسے جوڑ دے۔ اگر تم سے ممکن ہو تو اپنے جسم سے یہ (ملاقات کا) کام ضرور لو‘‘۔ (مشکوٰۃ)
ایک صاحب نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے کہا کہ ’’میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنائی کہ ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے، جو میرے لیے باہم مل کر بیٹھتے ہیں ، میرے لیے ایک دوسرے سے ملنے کو جاتے ہیں ، اور میرے لیے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ملاقات سے نہ صرف تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کا اجر بھی بڑا عظیم ہے۔ آئیے عہد کریں کہ محبتوں کو فروغ دینے اور اس کے صلے میں اللہ کی محبت اپنے لیے واجب کرنے کےلیے ہم ایک دوسرے سے ملاقات کو اپنا شعار بنائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت صبح کو کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ شام ہوجائے۔ اور شام کو عیادت کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔ عیادت کرنے والے کے لیے جنت میں میوؤں کے باغات ہیں‘‘۔ (ترمذی)
معروف حدیثِ قدسی کا حصہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، حالانکہ تُو تو رب العالمین ہے؟ اللہ فرمائے گا: کیا تُو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)
اللہ سے دُعا کریں کہ اللہ توفیق و ہمت عطا فرمائے کہ محبتوں کو فروغ دینے کے لیے جہاں کسی بیمار کی اطلاع ملے اُس کی عیادت کریں گے تاکہ اپنے ربّ سے وہاں شرفِ ملاقات حاصل کرسکیں۔
ویسے بھی محبت چمکتے سورج کی طرح ہے کہ اگر اس میں تصنع اور بناوٹ کی آمیزش نہ ہو اور اخلاص کا رنگ ہو تو افعال و کردار سے جھلکتی نظر آتی ہے۔
اخوت اور محبت، ایمان کی لازمی شرط ہے۔ جس کے سامنے اس کے دین کا نصب العین جتنا واضح ہوگا ، اسے اپنے بھائی سے تعلقات اتنے ہی عزیز ہوں گے۔ جب ایک کا دکھ درد دوسرے کا دکھ درد اور ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی بن جائے تو ایسے تعلقات وہ تعلقات کہلائیں گے جو تحریک کو زندگی اور حرارت بخشتے ہیں اور تحریک کی کامیابی کاضامن ہوتے ہیں۔
خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۱۹۹ (اعراف ۷ : ۱۹۹) ، اے نبیؐ! عفو و درگذر کا طریقہ اختیار کرو، نیکی کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ مسلمان جو لوگوں میں ملاجلا رہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے، اس مسلمان سے بہتر ہے جو ملنا جلنا چھوڑ دے اور ایذاؤں پر صبر نہ کرے‘‘(ترمذی)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے خاموش رہے ، تو اللہ ایسے بندے کی زبردست مدد فرماتا ہے‘‘۔
جو دنیا میں اپنے بھائیوں کی خطائیں معاف کریں گے، اللہ آخرت میں اجرعطا فرمائے گا:
وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۲۲ (النور ۲۴: ۲۲) اور چاہیے کہ وہ عفو و درگزر سے کام لیں۔ کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اللہ عزوجل تمھیں بخش دے ؟ اور اللہ تو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا ، اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑے رکھ اور ہمارے تعلقات کی اصلاح فرمادے۔
وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۶۳ (انفال ۸ :۶۳) وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے۔ مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ مہذب انسانی تاریخ۔ انسانوں نے اپنے معبودوں کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیں یہاں تک کہ اپنی جان کی بھی۔ اس کی مثالیں تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ ایک مثال قدیم مصر میں دریائے نیل کے خشک ہونے پر کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر قربان کیے جانے کی ہے۔ جس کو حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں ان کے ایک خط نے ختم کیا۔
قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا حضرت آدمؑ ہی کے زمانے میں شروع ہوا۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے انبیا ؑکے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو سورۂ آل عمران کی آیت ۱۸۳میں بیان فرمایا کہ انھوں نے کہا: ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے‘‘،حالانکہ یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی۔
اُمت محمدیہؐ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت ان کے لیے حلال کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں بلکہ ایک حکمِ شرعی کی تعمیل اور سنتِ ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔ چنانچہ واضح الفاظ میں فرمایا کہلَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۰ۭ(الحج۲۲:۳۷)’’اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔
وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ۰ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۰ۭ (المائدہ ۵:۲۷)اور ذرا انھیں آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو ۔ جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی، اور دوسرے کی نہ کی گئی ۔
امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔ تاہم، عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے۔
سورئہ حج کی آیت ۳۴ میں ہے : ’’اور ہم نے ہر اُمت کےلیے قربانی اس غرض کےلیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ اُسی کی فرماں برداری کرو، اور خوش خبری سنادو اُن لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں‘‘۔
سورۂ حج کی آیت نمبر ۶۷ میں ہے کہ ’’ہم نے ہر اُمت کے لوگوں کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک نحر کے دن( یعنی ۱۰ذی الحجّہ) کو قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں۔ قیامت کے روز قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے نہیں پاتا کہ اللہ کے یہاں مقبول ہو جاتا ہے۔ لہٰذا قربانی دل کی خوشی اور پوری آمادگی سے کیا کرو۔ (ترمذی، ابنِ ماجہ)
ایک اور حدیث میں آتا ہے:صحابہ ؓ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول ؐ اللہ یہ قربانی کیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ اس میں ہمارے لیے کیا اجرو ثواب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ (ترمذی ، ابنِ ماجہ)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے آج کے دن، یعنی بقرعید کے دن ہماری پہلی عبادت نماز اور پھر ذبح کرنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہمارے ساتھ یہ نماز (یعنی بقرعید کی) پڑھے وہ نماز کے بعد ذبح کرے۔
حضرت انَسؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدؐ نے عید الاضحی کے دن فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا اس کو دوبارہ قربانی کرنی چاہیے اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوگئی اور اس نے ٹھیک مسلمانوں کے طریقے کو پالیا۔
یاد رکھیں! ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔ کچھ علمائے کرام نے اسے سنت مؤکدہ سے تعبیر کیا ہے۔ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر آپؐ نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے، حتیٰ کہ اس کا عید گاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔ قربانی درج ذیل چھے شرطوں سے واجب ہوتی ہےـ:’’ مسلمان ہونا، مقیم ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، صاحب نصاب ہوناــ‘‘۔ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ فرضیت ِزکوٰۃ اور وجوب ِقربانی کا نصاب ایک ہی ہے۔ حالانکہ دونوں کا نصاب الگ الگ ہے۔ زکوٰۃ کے لیے نصاب پر سال گزرجانا ضروری ہے لیکن قربانی کے لیے سال گزرجانے کی شرط نہیں ہے بلکہ عیدِ قرباں کے وقت صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے۔
عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجر ہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبۂ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مینارۂ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہوجانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا۔ اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرسکو گے۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورکشاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں۔
چنانچہ آپؐ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ ہرسال قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)
قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندۂ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ (الانعام۶:۱۶۲)۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ،معاشرتی، سماجی اور اُخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔
ہمارا یہ طرزِ عمل نہیں ہونا چاہیے کہ فقط جانور ذبح کردیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکیں۔ قربانی ہمیں درس دیتی ہے کہ
۱-اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعلیٰ منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہنچانے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔
۲- اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع نہیں دے سکتے تو اس کی حسرتوں کاخون بھی نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔
۳-قربانی کا حکم آنے پر ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنابھی گوارا نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ اپنی خواہشاتِ نفس کو اللہ کے حکم کے تابع کردیں۔
۴-ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کے لیے کوئی جانور خرید سکتے ہیں اور نہ کوئی صاحب ِثروت انسان انھیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا حصہ دینا گوارا کرتاہے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ مسلم اُمہ کے ناداروں کی بھوک و پیاس کا خیال رکھیں۔ انھیں اپنے جسم ہی کا ایک حصہ سمجھیں اور ان کی داد رسی پورے سال کرتے رہیں۔
۵-قربانی ہمیں درسِ اخوت دیتی ہے کہ خاندان اور محلوں میں کسی سے بھی کسی بات پر ناچاقی ہوجانے کی صورت میں اپنی انانیت کے بت کوپاش پاش کردیں اور اپنی ضد کی قربانی دیں اور ہر کسی کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں۔
۶- قربانی ہمیں درسِ اجتماعیت دیتی ہے کہ جیسے پوری مسلم اُمہ تین دن مل کر قربانی کے جانور ذبح کرتی ہے، اسی طرح زندگی کے ہر ہر عمل پر ایک ہونے کا مظاہرہ کرے تاکہ اسلام دشمنوں کو جرأت نہ ہوسکے کہ وہ شعائر اسلامی، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی بے حُرمتی تو دور کی بات اُن کا مذاق بھی نہ اُڑاسکیں۔
۷-قربانی ہمیں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کا سبق دیتی ہے کہ جس طرح اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے اس کی راہ میں اللہ اکبر کہہ کر جانور کو ذبح کیا، بالکل اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اُس ربّ کی کبریائی کو نمایاں کریں۔ اپنے رسم و رواج، اپنی ثقافت، وراثت، معاشرت، معیشت، عدالت، سیاست، داخلی معاملات، خارجی معاملات، خانگی معاملات، غرض ہرجگہ پر اللہ کی کبریائی نظر آئے۔
محبوب سے وصال کے لمحات جوں جوں قریب آتے ہیں، محب کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں۔ ہر نئی آنے والی صبح اسے یہ حسرت ہوتی ہے کہ یہ روز آنکھ بند کرتے ہی گزر جائے۔ خزاں کا موسم اُسے بہار سے بھی بھلا لگتا ہے۔ موسمِ گرما کی لب و رُخسار کو جھلسا دینے والی ہواؤں میں اُسے بادِ صبا کی تازگی محسوس ہوتی ہے۔ اندھیری رات کی رُتوں میں آسمان پر جلتے قمقمے رنگ و نور کی بارات کامنظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ فضا ایک مانوس سی خوشبو سے معطر ہوجاتی ہے۔ ہر شے میں گُل و بُلبل کی سرگوشیاں سُنائی دیتی ہیں اور لگتا ہے کہ اُسی کی باتیں ہورہی ہیں۔ گزرتے وقت کا ایک ایک لمحہ اُسے پہاڑ سے زیادہ بھاری لگتا ہے، اُس کا دل چاہتا ہے کہ اُس کے پرَ لگیں اور وہ اُڑ کر محبوب کے پاس پہنچ جائے۔
بس یہی حال تھا حبیبِ کبریا حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ محبوب سے ملاقات کے شوق میں رمضان کا انتظار کرتے رہتے تھے اور فرطِ محبت میں ماہِ شعبان ہی سے پُکارتے تھے: اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانْ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانْ ، اے اللہ! شعبان میں ہمارے لیے برکتیں رکھ دے اوررمضان نصیب فرمادے۔
رمضان کے بابرکت مہینہ کی آمد : مبارک ہو آپ کو کہ خوش نصیب ہیں آپ! رمضان آپ کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ بس اب تو دنوں اور گھنٹوں کی بات ہے اور ایک انوکھا مہمان اپنی ساری رعنائیوں، برکتوں، مغفرتوں اور رحمتوں کے ساتھ آپ پر سایہ فگن ہوگا۔l ایک ایسا مہمان جس کے ہوتے نیکی کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔l ایک ایسا مہمان جس کے ہوتے خیر ہی خیر، جی ہاں خیر ہی خیر ہوگی۔ lایک ایسا مہمان جس کے آتے ہی شیطان کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے گا تاکہ آپ کو نقصان نہ پہنچاسکے۔l ایک ایسا مہمان جس کے آتے ہی نفس پاکی کی راہ لے گا۔ lایک ایسا مہمان جس کے ہوتے محبتیں اور صرف محبتیں (اجتماعیت) پروان چڑھیں گی۔ lایک ایسا مہمان جس کے ہوتے نہ کوئی چھوٹا ہوگا اور نہ بڑا، نہ کوئی کالا ہوگا نہ گورا۔l ایک ایسا مہمان جس کی راتوں میں قرآن کی زبانی محبوب سے راز و نیاز ہوگا۔l ایک ایسا مہمان جس کی رُتوں میں اپنائیت کا احساس ہوگا۔
ذرا سوچیں، کتنے خوش نصیب ہیں ہم، جو ایک ایسے مہمان کو خوش آمدید کہنے جارہے ہیں جس کے انتظار میں کتنے ہی پیارے ملکِ عدم سدھار گئے۔ ہاں، کتنے ہی قصۂ پارینہ بن گئے، اور ہوسکتا ہے اگلے برس ہم بھی قصۂ پارینہ بن چکے ہوں۔
اس ماہ کی عظمت اور برکت بلاشبہہ عظیم ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کی رحمتیں و برکتیں ہراس شخص کے حصے میں آجائیں جو اس مہینے کو پائے۔ کسان کی طرح محنت کریںگے تو اچھی فصل تیار ہوگی اور اس کا پھل جنت کی شکل میں ملے گا۔ اگر غافل کسان کی طرح سوتے رہ جائیں تورمضان کی ساری بارش اس طرح بہہ جائے گی جیسے چکنے پتھر سے پانی۔ تو آئیے سوچیں کہ اس بارش سے کیسے سیراب ہوں اور کون سے ایسے کام کریں کہ اس کے لمحات امر ہوجائیں؟
نیت اور ارادہ: نبی کریمؐ نے فرمایا: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)۔ لہٰذا رمضان المبارک کے استقبال کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ابھی سے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی خالص نیت اور پختہ ارادہ کرلیں۔ رمضان کے پیغام اور عظمت کو اپنے اندر تازہ کرلیں۔ اس سے فائدہ اُٹھانے کی خالص نیت کریں اور ایسے کام کرنے کا عزم و ارادہ کریںکہ جس سے تقویٰ حاصل ہو۔ یہی دراصل روزہ کا اصل مقصود ہے۔
دُعا: رمضان سے پہلے ہی دُعا مانگنے کا عمل تیز کردیں۔ کیونکہ ہادیٔ برحقؐ کے بقول دُعا مومن کا ہتھیار ہے اور دُعا ہی ہر عبادت کا مغز ہے۔ اپنی نمازوں کے بعد، رات کی تنہائیوں میں، سفر کی حالت میں، بازاروں میں چلتے ہوئے اُمتِ مسلمہ کے پستی سے نکلنے کی، ملک کے استحکام و سالمیت کی، اُمتِ مسلمہ کے اتحاد اور کھوئے مقام کو واپس دلانے کی، بیماروں کے لیے شفا کی، گزرے ہوؤں کی مغفرت کی اور آنے والے رمضان سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی دُعا اس بات کو یاد رکھتے ہوئے کیجیے کہ جبریلِ ؑامین نے کہا کہ: ’’ـاس آدمی کے لیے ہلاکت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی نہ حاصل کرسکا، اور آپؐ نے اس کے جواب میں آمین کہا‘‘ (حاکم)۔
خریداری کی تکمیل: تیزی سے بدلتی ہوئے دنیا کے معیارات نے ہر طرف ایک افرا تفری کا سماں پیدا کردیا ہے اوراس کے اثرات سے دیگر اقوام کی طرح مسلم اُمہّ بھی نہ بچ سکی۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ رمضان المبارک کی ساعتوں کو اللہ کی عبادت کرکے اُس کی رضا حاصل کرنے کے بجاے بازار کے چکر لگانے میں صرف کردیتے ہیں۔ رمضان کی ساعتوں سے بہتر انداز میں مستفید ہونے کے لیے بہتر ہوگا کہ رمضان اور عید الفطر کی خریداری رمضان کی آمدسے پہلے ہی کرلیں تاکہ اس ماہِ مبارک کی قیمتی راتیں ، خصوصاً شبِ قدر اور عید کی چاند رات کے قیمتی لمحات ضائع نہ ہوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرے گا تو اس بندے کا دل مُردہ نہیں ہو گا، جس دن اوروں کے دل مُردہ ہوجائیں گے‘‘۔
رمضان کی چاند رات : رمضان کی چاند رات کو مغرب کی نماز کے فوراً بعد غسل کریں، صاف ستھرے کپڑے پہنیں، خوشبو لگائیں اور اپنے محلے،گاؤں، قصبے اور دسترس میں تمام لوگوں کو رمضان کی مبارکباد دینے نکل کھڑے ہوں۔ جو ملاقاتیں عشاء سے پہلے ہوسکتی ہوں کرلیں، باقی تراویح کے بعد کریں۔ اس ملاقات میں بس لوگوں کے پاس جائیں، سلام دُعا کے بعد رمضان کی مبارک باد دیں۔ اگر ممکن ہو تو رمضان کی برکتوں سے متعلق ایک دو حدیثیں بیان کرکے خوش خبریاں سنائیں۔ اگر کوئی تحفہ ساتھ لے جائیں تو بہت ہی بہتر ہے۔ تحفے میں مسواک، خوشبو، کتابچے وغیرہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ نہیں تو مسنون دُعاؤں کی فوٹو کاپی ہی ساتھ لے لیں۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد: حقوق اللہ میں اگر کسی قسم کی کوتاہی ہوگئی ہو تو کوشش کرکے اس کا ازالہ رمضان سے پہلے کرلیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو اللہ سے گڑگڑا کرمعافی مانگ لیں، وہ توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ خدانخواستہ اگر کسی بندے کے حق کی ادایگی میں کوتاہی ہوگئی ہے تو اس کو رمضان سے پہلے ادا کردیں یا اُس سے بالمشافہ ملاقات کرکے معاف کرالیں۔ اگر اپنے اندر اتنی ہمت نہ پائیں تو تحریر لکھ کر اس کے پاس بھیج دیںکہ رمضان کے مہینے سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کو معاف کردینا چاہیے۔ اگر کوئی آپ سے ناراض ہے یا آپ کسی سے ناراض ہیں تو ان ناراضیوں کو آپ آگے بڑھ کر دُور کرلیںکیونکہ مومن کی یہی شان ہے۔
نمازوں میں تکبیرِ اولٰی: الحمد للہ آپ نمازیں تو پڑھتے ہی ہیں بس اس بات کا اہتمام کریں کہ پورے رمضان اذان ہوتے ہی سارے کام چھوڑ کر گھر سے وضو کرکے مسجد چلے جائیں، کیونکہ نبی کریمؐ کی سنت یہی تھی کہ آپؐ اذان سنتے ہی پوری دنیا کے لیے اجنبی ہوجایا کرتے تھے اور سیدھے مسجد کا رُخ کرتے تھے۔ مسجد پہنچ کر دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کریں، پہلی صف میں بیٹھیں اور پورے رمضان کسی بھی نماز کی تکبیرِ اولیٰ فوت نہ ہونے دیں۔ یاد رہے امام کے سورۃ الفاتحہ شروع کرنے سے پہلے پہلے جماعت میں شامل ہونے پر تکبیرِ اولیٰ کا ثواب مل جاتا ہے۔ خواتین کوشش کریں کہ اپنے گھروں میں اوّل وقت میں نماز کی ادایگی کو ممکن بنائیں۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی تہیہ کرلیں کہ اگلے رمضان تک مذکورہ بالا عمل کو اپنی عادت بنالیں گے۔
رمضان چارٹ کی تیاری اور خود احتسابی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’روزہ (گناہوں سے بچنے کے لیے) ڈھال ہے، پس اس کو ڈھال بناؤ۔ روزہ دا ر بدکلامی کرے نہ چیخے چلّائے۔ اگر کوئی اس کو بُرا کہے یا اس سے لڑے تو یہ کہہ کر الگ ہوجائے کہ میں روزے سے ہوں، میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ ان بُرے کاموں میں مشغول ہوں‘‘۔
ایک رمضان چارٹ بنائیں جس میں اپنے کمزور پہلو لکھیں اور پورے رمضان انھیں دُور کرنے کے کی کوشش کریں اور ہر رات اس چارٹ کا جائزہ لیں اور کالم بناکران پر ٹِک لگاتے رہیں، مثلاً نمازیں، تلاوتِ قرآن، مطالعہ حدیث، مطالعہ دینی کتب، دین کے حوالے سے ملاقاتیں، انفاق فی سبیل اللہ، بیماروں کی عیادت وغیرہ۔ دوسری طرف غیبت، چغلی، لعن طعن، بدگمانی، تکبر، جھوٹ، وعدہ خلافی، بد نگاہی، حسد، بُغض وغیرہ جیسی اخلاقی بُرائیوں کا جائزہ لیں ۔ اس طرح آپ اپنے آپ کو خوداحتسابی کے عمل سے گزاریں گے اور ایک مسحور کن تبدیلی اپنے اندر پائیں گے۔
سحر و افطار: روزہ رکھنے کے لیے سحری لازماً کھائیں کیونکہ سحری کھانا سنت ہے۔ کچھ لوگ رات دیر سے کھانا کھاتے ہیں اور سو جاتے ہیں اور سحری کے بغیر روزہ رکھ لیتے ہیں۔ یہ درست فعل نہیں ہے۔ ’’سحری میں برکت ہے، اسے ہر گز نہ چھوڑو۔ اگر کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے، کیونکہ سحری میں کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دُعاے خیر کرتے ہیں‘‘ (مسند احمد)۔نبی مہربانؐ نے فرمایا: ’’میری اُمت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک افطار میں عجلت اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی‘‘ (مسند احمد)۔
تہجد کی ادایگی: سحری کے وقت سے کم از کم آدھا گھنٹہ پہلے اُٹھ جائیں۔ یہ تہجد کا وقت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سب سے زیادہ انھی گھڑیوں میں متوجہ ہوتی ہے۔ یہ محبوب سے ملاقات کا سب سے بہترین وقت ہے۔ ایسے وقت میں اُس سے کچھ راز و نیاز کی باتیں کرلیں اور رو رو کر دنیا اور آخرت کے لیے دُعائیں مانگیں۔ لیکن مانگنے کی ایک شرط ہے کہ پورے یقین کے ساتھ مانگیں کہ آپ کو ضرور ملے گا ۔ آپ کا یقین بالکل اس بچی کی طرح ہونا چاہیے جو اپنے باپ کے ساتھ نمازِ استسقا کے لیے جارہی تھی اور راستے میں رُک کر اپنے والد کو کہا: ابا جان ایک منٹ۔ میں گھر سے ہو کر ابھی آئی۔ والد نے پوچھا کیا کرنے جارہی ہو؟ بچی نے معصومیت سے جواب دیا: ابا جان ہم اللہ میاں سے بارش کی دُعا مانگنے جارہے ہیں اور چھتری تو بھول ہی گئے۔ واپسی پر بارش ہوگی تو ہم بھیگ جائیں گے، اس لیے میں چھتری لینے جارہی ہوں۔
کھانے میں اعتدال: روزہ ایک مکمل تربیت کا نام ہے اور اس میں سب سے بڑی تربیت اپنی خواہشات پر قابو ہے لیکن اکثر لوگ رمضان کو لذتوں اور چٹخاروں کا مہینہ بنالیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے پرہیز کریں۔ اس سے آپ کی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوںگے۔ صاحب ِ حیثیت خواتین و حضرات اپنے دسترخوانوں کو غریبوں و مسکینوںکے لیے دراز کریں۔
انفاق فی سبیل اللہ: مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط (البقرہ ۲:۲۴۵) ’’تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے تاکہ اللہ اُسے کئی گُنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اس کی حاجت پوری کرے گا۔جو شخص کسی مسلمان کی کسی پریشانی کو دُورکرے گا تواللہ قیامت کے دن اس کی پریشانی دُور کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘ (بخاری، مسلم، عن ابن عمرؓ)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھے اور آپؐ کی سخاوت تیز چلتی ہوئی ہوا سے زیادہ ہوتی تھی (مشکٰوۃ)۔ کوشش کریں رمضان کا ایک دن بھی انفاق فی سبیل اللہ کے بغیر نہ گزرے، چاہے اللہ کی راہ میں روزانہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ دیا جائے۔ روزہ داروں کی افطاری کا اہتمام کریں، یتیموں کی کفالت کریں، عزیز رشتہ داروں کی مدد کریں، زکوٰۃ کی ادایگی کریں۔
تاریخ سے رشتہ: یاد رکھیے! وہ قومیں کبھی تباہ نہیں ہوتیں جو اپنے روشن ماضی کو ہروقت یاد رکھتی ہیںاور اس سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ آج اُمّتِ مسلمہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ اپنی تاریخ کی جانب پلٹنا ہے اور اسی طرح جدوجہد کرنا ہے جس طرح ہمارے اسلاف نے ماضی میں اپنا تن من دھن قربان کرکے کی۔ رمضان المبارک اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں درجِ ذیل واقعات پیش آئے جو آج بھی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے ہوئے ہیں اور تاقیامت لکھے رہیں گے۔ ان ایام کو منانے کا بھرپور اہتمام کریں، تاکہ ۱۰رمضان المبارک کو’یومِ باب الاسلام‘ مناتے ہوئے ہمارے اندر بھی اُمتِ مسلمہ سے محبت کا جذبہ پروان چڑھے۔ ۱۷رمضان المبارک کو ’یومِ بدر‘ مناتے ہوئے اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت پر ایمان پختہ ہو۔ ۲۱ رمضان المبارک کو ’یومِ فتح مکہ‘ مناتے ہوئے اللہ ربّ العزت کا تمام طاقتوں کا منبع ہونے کا حقیقت کی نگاہ سے مشاہدہ ہوسکے۔ ۲۷ رمضان المبارک کو یومِ نزولِ قرآن مناتے ہوئے قرآن کے برحق ہونے کا یقین پختہ ہوسکے۔
قرآن سے تعلق: رمضان کا مہینہ دراصل قرآن کی سال گرہ کا مہینہ ہے اور اسی مہینے میں تورات و انجیل نازل ہوئیں۔ رمضان کی ساری شان و عظمت قرآن ہی کی وجہ سے ہے۔ یہ قرآن ایک چلتا پھرتا، جیتا جاگتا اور زندہ و جاوید معجزہ ہے۔ یہ جس سرزمین پر اُترا اُسے امن والا بنادیا، جس قوم پر اُترا اُسے اُمت ِ وسط بنادیا، جس مہینے میں اُترا اُسے سب مہینوں سے افضل بنادیا، جس رات اُترا اُسے ہزار مہینوں سے بہتر بنادیا اور جس نبیؐ پر اُترا اُسے امام الانبیا ؑ بنادیا۔ لہٰذا اس ماہِ مبارک میں قرآن سے خصوصی تعلق قائم کیجیے اور تلاوت کیجیے، ترتیل کے ساتھ پڑھیے، اسے یاد کرنے کی کوشش کیجیے اور پورے رمضان میں روزانہ کم از کم ایک آیت ضرور حفظ کرلیں۔ اس طرح رمضان کی تکمیل تک آپ کو ۳۰ آیات حفظ ہوجائیں گی۔
قرآن پڑھتے وقت اس کے ترجمے کو ضرور سامنے رکھیں، تب ہی آپ کو سمجھ آئے گا کہ یہ آپ سے کیا کہہ رہا ہے۔ اگر ترجمے کے ساتھ اس کی تفسیر بھی دیکھ لی جائے تو بہت سے ایسے راز آپ پر منکشف ہوںگے جن کی آپ کو جستجو تھی۔ اس رمضان سے قرآن کے حوالے سے ایک نئی چیز اپنے اندرپیدا کریںکہ اس کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے قرآن سے محبت رکھنے والوں کی بہت سی کاوشیں بازار میں دستیاب ہیں لیکن اگر آپ انفرادی طور پر ان سے مستفید ہونا چاہیں تو بہت آسان نہیں، سیکڑوں میں سے کوئی ایک آدھ کامیاب ہو تو ہو لیکن اگر اس کو چند دوست، محلے دار یا کم از کم گھر کے افراد اجتماعی طور پر فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو یہ کام بہت آسان ہوجائے گا اور اس کی پابندی بھی ہوسکے گی۔ پھر اس قرآن ہی کے حوالے سے ایک کام اور کریں کہ اس کے کہے پر عمل کرکے دیکھیں۔ آپ کو لگے گا کہ آپ نے ایک نئی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے، جہاں سرور، اطمینانِ قلب اور سکون ہی سکون ہے جس کی تلاش میں دنیا بھٹک رہی ہے۔ اس رمضان سے اس قرآن کی دعوت کو عام کرنے کی فکر اور جدوجہد کو بھی اپنا شعار بنالیں تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت بھی سکون اور اطمینانِ قلب کی طرف پلٹ آئے۔
آیئے عہد کریں :
۱- اس رمضان میں کسی بھی نماز میں تکبیرِ اولیٰ فوت نہیں ہونے دیں گے۔
۲- رمضان چارٹ بنا کر اپنی کمزوریوں کا ازالہ کریں گے۔
۳- ہر روز حسبِ توفیق کچھ نہ کچھ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ضرور خرچ کریں گے۔
۴- تہجد کی ادایگی کو اپنا شعار بنائیں گے۔
۵- کسی ایک فرد کو قرآن پڑھنا سکھانا شروع کریں گے۔
۶- قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پابندی سے پڑھنے کا آغاز کریں گے۔
۷- اہلِ خانہ کے ساتھ قرآن ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کریں گے۔
۸- امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ اسلامی روح کے ساتھ انجام دیں گے۔
۹- ہر کام میں اجتماعیت کو فروغ دیں گے۔
۱۰- دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیں گے۔
محبوب سے وصال کے لمحات جوں جوں قریب آتے ہیں، محب کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں۔ ہر نئی آنے والی صبح اسے یہ حسرت ہوتی ہے کہ یہ روز آنکھ بند کرتے ہی گزر جائے۔ خزاں کا موسم اُسے بہار سے بھی بھلا لگتا ہے، موسمِ گرما کی لب و رُخسار کو جھلسا دینے والی ہواؤں میں اُسے بادِ صبا کی تازگی محسوس ہوتی ہے، اندھیری رات کی رُتوں میں آسمان پر جلتے قمقمے رنگ و نور کی بارات کامنظر پیش کرتے نظر آتے ہیں، فضا ایک مانوس سی خوشبو سے معطر ہوجاتی ہے، ہر شے میں گُل و بُلبل کی سرگوشیاں سُنائی دیتی ہیں اور لگتا ہے کہ اُسی کی باتیں ہورہی ہیں۔ گزرتے وقت کا ایک ایک لمحہ اُسے پہاڑ سے زیادہ بھاری لگتا ہے، اُس کا دل چاہتا ہے کہ اُس کے پرَ لگیں اور وہ اُڑ کر محبوب کے پاس پہنچ جائے۔
بس یہی حال تھا حبیبِ کبریا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ محبوب سے ملاقات کے شوق میں رمضان کا انتظار کرتے رہتے تھے اور فرطِ محبت میں ماہِ شعبان ہی سے پُکارتے تھے: اے اللہ! شعبان میں ہمارے لیے برکتیں رکھ دے اوررمضان نصیب فرمادے۔
مبارک ہو آپ کو کہ خوش نصیب ہیں آپ! رمضان آپ کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ بس اب تو دنوں اور گھنٹوں کی بات ہے اور ایک انوکھا مہمان اپنی ساری رعنائیوں، برکتوں ، مغفرتوں اور رحمتوں کے ساتھ آپ پر سایہ فگن ہوگا۔ ایک ایسا مہمان جس کے ہوتے نیکی کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔
ذرا سوچیں، کتنے خوش نصیب ہیں آپ! ایک ایسے مہمان کو خوش آمدید کہنے جارہے ہیں جس کے انتظار میں کتنے ہی پیارے ملکِ عدم سدھار گئے۔ ہاں، کتنے ہی قصۂ پارینہ بن گئے، اور ہوسکتا ہے اگلے برس ہم بھی قصۂ پارینہ بن چکے ہوں۔
اس ماہ کی عظمت اور برکت بلاشبہہ عظیم ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کی رحمتیں و برکتیں ہراس شخص کے حصے میں آجائیں جو اس مہینے کو پائے۔ کسان کی طرح محنت کریںگے تو اچھی فصل تیار ہوگی اور اس کا پھل جنت کی شکل میں ملے گا۔ اگر غافل کسان کی طرح سوتے رہ جائیں تورمضان کی ساری بارش اس طرح بہہ جائے گی جیسے چکنے پتھر سے پانی۔ تو آئیے سوچیں کہ اس بارش سے کیسے سیراب ہوں اور کون سے ایسے کام کریں کہ اس کے لمحات امر ہوجائیں؟
ایک رمضان چارٹ بنائیں جس میں اپنے کمزور پہلو لکھیں اور پورے رمضان انھیں دُور کرنے کے کی کوشش کریں اور ہر رات اس چارٹ کا جائزہ لیں اور کالم بناکران پر ٹِک لگاتے رہیں، مثلاً نمازیں، تلاوتِ قرآن، مطالعہ حدیث، مطالعہ دینی کتب، دین کے حوالے سے ملاقاتیں، انفاق فی سبیل اللہ، بیماروں کی عیادت وغیرہ۔ دوسری طرف غیبت، چغلی، لعن طعن، بدگمانی، تکبر، جھوٹ، وعدہ خلافی، بد نگاہی، حسد، بُغض وغیرہ جیسی اخلاقی بُرائیوں کا جائزہ لیں ۔ اس طرح آپ اپنے آپ کو خوداحتسابی کے عمل سے گزاریں گے اور ایک مسحور کن تبدیلی اپنے اندر پائیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھے اور آپؐ کی سخاوت تیز چلتی ہوئی ہوا سے زیادہ ہوتی تھی (مشکٰوۃ)۔ کوشش کریں رمضان کا ایک دن بھی انفاق فی سبیل اللہ کے بغیر نہ گزرے، چاہے اللہ کی راہ میں روزانہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ دیا جائے۔ روزہ داروں کی افطاری کا اہتمام کریں، یتیموں کی کفالت کریں، عزیز رشتہ داروں کی مدد کریں، زکوٰۃ کی ادایگی کریں۔
قرآن پڑھتے وقت اس کے ترجمے کو ضرور سامنے رکھیں، تب ہی آپ کو سمجھ آئے گا کہ یہ آپ سے کیا کہہ رہا ہے۔ اگر ترجمے کے ساتھ اس کی تفسیر بھی دیکھ لی جائے تو بہت سے ایسے راز آپ پر منکشف ہوںگے جن کی آپ کو جستجو تھی۔ اس رمضان سے قرآن کے حوالے سے ایک نئی چیز اپنے اندرپیدا کریںکہ اس کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے قرآن سے محبت رکھنے والوں کی بہت سی کاوشیں بازار میں دستیاب ہیں لیکن اگر آپ انفرادی طور پر ان سے مستفید ہونا چاہیں تو بہت آسان نہیں، سیکڑوں میں سے کوئی ایک آدھ کامیاب ہو تو ہو لیکن اگر اس کو چند دوست، محلے دار یا کم از کم گھر کے افراد اجتماعی طور پر فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو یہ کام بہت آسان ہوجائے گا اور اس کی پابندی بھی ہوسکے گی۔ پھر اس قرآن ہی کے حوالے سے ایک کام اور کریں کہ اس کے کہے پر عمل کرکے دیکھیں۔ آپ کو لگے کا کہ آپ نے ایک نئی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے، جہاں سرور، اطمینانِ قلب اور سکون ہی سکون ہے جس کی تلاش میں دنیا بھٹک رہی ہے۔ اس رمضان سے اس قرآن کی دعوت کو عام کرنے کی فکر اور جدوجہد کو بھی اپنا شعار بنالیں تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت بھی سکون اور اطمینانِ قلب کی طرف پلٹ آئے۔
۱-اس رمضان میں کسی بھی نماز میں تکبیرِ اولیٰ فوت نہیں ہونے دیں گے۔
۲-رمضان چارٹ بنا کر اپنی کمزوریوں کا ازالہ کریں گے۔
۳-ہر روز حسبِ توفیق کچھ نہ کچھ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ضرور خرچ کریں گے۔
۴- تہجد کی ادایگی کو اپنا شعار بنائیں گے۔
۵- کسی ایک فرد کو قرآن پڑھنا سکھانا شروع کریں گے۔
۶- قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پابندی سے پڑھنے کا آغاز کریں گے۔
۷- اہلِ خانہ کے ساتھ قرآن ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کریں گے۔
۸- امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ اسلامی روح کے ساتھ انجام دیں گے۔
۹-ہر کام میں اجتماعیت کو فروغ دیں گے۔
۱۰-دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیں گے۔
موسمِ حج کی آمد آمد ہے‘ چمنستانِ مکہ میں کرۂ ارض کے ہر قریے‘ ہر بستی سے رنگ برنگے‘ خوشبوؤں سے معطر ‘رنگ و نسل کی تفریق سے عاری لاکھوں پھول کھلنے والے ہیں۔ ان پھولوں میں کالے بھی ہیں گورے بھی‘ عربی بھی ہیں‘ عجمی بھی‘ چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی‘ گویا کہ پھولوں کا ایک میلہ لگنے جارہا ہے۔ ایک ایسا میلہ جوہر دیکھنے والی آنکھ کو بھلا لگتا ہے اور محوِ حیرت کردیتا ہے۔ نہ جانے کتنے ہی اس میلے میں شرکت کے متمنی اپنی حسرتِ نا تمام کو سینے سے لگائے اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے‘ اور ان گنت ایسے ہیں جو آج بھی ماہیِ بے آب کی مانند تڑپ رہے ہیں ۔ ایسے میں یقینا خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں ربِّ کائنات نے اپنا مہمان ہونے کا شرف بخشا۔
اللہ کا یہ ہر مہمان جب رخت سفرباندھتا ہے تو بے ساختہ ‘فرطِ جذبات سے پکار اُٹھتا ہے کہ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ (حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں)۔ لوگ بڑے چاؤ سے اس در پر آتے ہیں‘ ساری توجہ مرکوز کرلینے کے لیے‘ زندگی کے چند لمحات کو انمول کرلینے کے لیے۔ یہاں کچھ بھی اہم نہیں اگر اہم ہے تو فقط ایک حاضری‘ حضوری کا احساس۔ لیکن ہم حاضر ہو کر بھی غیرحاضر رہتے ہیں۔ اُمت وسط کے شہسوارو! ذرا ٹھیرو …اور لمحے بھر کو سوچو کہ تم جو پکار رہے ہوکہ حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں!!! کیا اس کا ادراک رکھتے ہو؟ کیا تمھیں پتا ہے تم اپنے معبود کے حقیقی معبود ہونے کا اقرار کررہے ہو؟ کیا یہ بھی جانتے ہو کہ تم تمام باطل معبودوں کی نفی کررہے ہو؟
اگر تمھارا جواب نہیں میں ہے‘ تو سنو!
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ، حاضر ہوں اے اللہ‘ میں حاضر ہوں!
لفظ اللہ جس کی مالا جپتے جپتے تمھارے منہ نہیں تھک رہے‘ یہ لفظ اِلٰہ سے نکلا ہے۔ الٰہ کے معنی معبودِ کے ہوتے ہیں‘ وہ معبود جس کی پرستش کی جائے‘ جسے پوجا جائے۔ وہ خدا پوری کائنات کا مالک ہے۔ خالق وہ ہے‘ رزاق وہ ہے‘ موت اور زندگی اس کی طرف سے ہے‘ مصیبت اور راحت بھی اسی کی طرف سے ہے‘ جو کچھ کسی سے چھینا جاتا ہے اس کا چھیننے والا بھی حقیقت میں وہی ہے۔ ڈرنا چاہیے تو اس سے‘ مانگنا چاہیے تو اس سے ‘ سرجھکانا چاہیے تو اس کے سامنے‘ عبادت اور بندگی کی جائے تو اس کی۔ اس کے سوا ہم کسی کے بندے اور غلام نہیں اور اس کے سوا کوئی ہمارا آقا نہیں۔ ہمارا اصل فرض یہ ہے کہ اسی کا حکم مانیں اور اسی کے قانون کی پیروی کریں۔ یاد رکھو! اگر ہم اس کے قانون کی خلاف ورزی کریںگے توہماری زبان‘ ہمارے ہاتھ پاؤں‘ اور زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ‘ ہمارے خلاف اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا۔ ایسی بے بسی ہوگی کہ ایک گواہ بھی صفائی پیش کرنے کے لیے نہ ملے گا۔ کوئی وکیل پیروی کرنے والا نہیں ہوگا۔ وہ عدالت ایسی نہیں ہے جہاں جھوٹی گواہیاں اور جعلی دستاویزات پیش کردی جائیں اور فیصلہ اپنے حق میں کرالیں۔ وہاں رشوت بھی نہیں چلتی‘ اس لیے ناانصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اللہ سورۂ تین میں خود کہتا ہے: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنِ(التین ۹۵:۸)’’کیا اللہ سب حاکموں (انصاف کرنے والوں) سے بڑا حاکم (منصف) نہیں ہے‘‘۔
مگر تم نے تو کہیں اپنی نفسانی خواہشات کو معبود بنا رکھا ہے‘ کہیں مال و متاع کو‘ کہیں اپنے سے طاقت ورکو‘ کہیں اپنی مصلحتوں کو۔ خود غور کرو‘ کس معبود سے مخاطب ہو؟ اُس سے جو ہروقت تمھارے ساتھ ہے۔ اس سے جوتمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے‘ یا اس سے جس کا نبیؐ ہجرت کے موقع پر اپنے ساتھی (ابوبکرؓ) کی پریشانی دیکھ کر کہتا ہے: ابوبکرؓ! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے‘ جن کا تیسرا اللہ ہے۔
آج تک جس نے بھی اُس کی حاضری کا دم بھرا ہے اُس کے لیے یہ زمین کانٹوں کا بچھونا ثابت ہوئی ہے۔ وہ صرف اس سفرِ مقدس میں حاضر نہیں ہے بلکہ ہماری حاضری تو وہ روز بلکہ ہرلمحے لگواتا ہے ۔ دن میں پانچ بار مؤذن اس کے دربار میں حاضری کی یاد دلاتا ہے۔ جب وہ اپنی اذان میں پہلا لفظ کہتا ہے اللّٰہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے)‘ یعنی اس نے بلا یا ہے جو سب سے بڑا ہے۔ اُس سے بڑا اس کائنات میں کوئی نہیں ہے‘ لہٰذا سب کام کاج چھوڑ دو‘ سب کھیل کود چھوڑ دو‘ سب سے ملنا جلنا چھوڑ دو‘ بڑے نے بلایا ہے۔ بالکل اسی طرح جب کسی کمپنی میںکوئی شخص کام کررہا ہو اوربہت زیادہ مصروف ہو‘ ایسے میں کچھ دوست آجائیں تو کہتا ہے: یار! بعد میں آجانا مصروف ہوں‘ بہت ضروری کام ہے آج ہی ختم کرنا ہے۔ اگر گھر سے بیوی یا بچے فون کرلیں تو ان سے بھی وہی کہتا ہے جو دوست سے کہاتھا کہ بعد میں فون کرلینا کیونکہ ابھی بہت مصروف ہوں۔ لیکن ایسی مصروفیت میں اگر کوئی پیغام دے کہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو یا مینیجنگ ڈائرکٹر‘ یا جنرل مینیجر بلا رہا ہے‘ تو ایسے میں کام کرنے والا سب کچھ ویسے ہی چھوڑ دیتا ہے جیسا کہ رکھا ہوا ہے۔ وہ اتنا انتظار بھی نہیں کرتا کہ اپنی چیزوں کو تو سمیٹ کررکھ جاؤں ‘ اور بھاگ کر جاتا ہے۔ اور ایسے ہی نہیں جاتا بلکہ اپنا حلیہ درست کرتا ہے‘ بالوں میں جلدی سے کنگھی کرتا ہے‘ نہ ہو توہاتھوں سے درست کرتا ہے‘ کپڑوں کی سلوٹیں درست کرتا ہے اور فوراً حاضر ہوجاتا ہے۔
بالکل اسی طرح جب مؤذن اذان دیتاہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنا دربار سجا لیا ہے اور اب تمھاری حاضری کا وقت ہے۔ بڑے نے بلا لیا ہے۔ پھر جب تم اپنے کاروبار میں لین دین کررہے ہوتے ہو اور کبھی ناپ تول میں ڈنڈی مار رہے ہوتے ہو تو وہ اُس وقت بھی حاضر ہوتا ہے۔ جب تم کسی کا حق دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ حاضر ہوتا ہے۔ جب تم کسی کام کے عوض رشوت سے اپنے ہاتھوں کو ناپاک کررہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ حاضر ہوتا ہے۔ جب تم بات کرنے میں جھوٹ بول کر اپنی زبان کو گندا کررہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ حاضر ہوتا ہے۔ جب تم کسی سے وعدہ کرکے جان بوجھ کر پورا نہیں کررہے ہو تے ہو‘وہ تب بھی حاضر ہوتا ہے۔جب تم کسی قسم کی خیانت کررہے ہوتے ہو چاہے مال میںہو یا شہادت دینے میں‘ تب بھی وہ موجود ہوتا ہے۔ جب تم سود کو طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے جائز کررہے ہوتے ہو‘ تب بھی وہ دیکھ کر تمھاری عقل پر مسکرا رہا ہوتا ہے۔ جب تم کسی کو اپنے سے حقیر جان کرتکبر کے نشے میں مست ہوتے ہو اور اپنی اناکے بُت کو ٹوٹنے نہیں دیتے‘ اُسی طرح جس طرح ابلیس‘ فرعون‘ نمرود اور ان جیسے بہت سوں نے اپنی انا کو قائم رکھا تھا‘ وہ اُس وقت بھی تمھاری نادانی پر افسوس کررہا ہوتا ہے۔غرض زندگی کے ہر ہر قدم پر وہ تمھارے ساتھ سائے سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لہٰذا حاضری کے تصور کو آج کی طرح ہمیشہ تازہ رکھنا‘ تب ہی کامیاب رہوگے۔
لَبَّیْکَ لَا شَریِکَ لَکَ لَبَّیْکَ ،حاضر ہوں‘ نہیں کوئی شریک تیرا ‘میں حاضر ہوں!
رب کے لا شریک ہونے کا یہ اقرار صرف زبان سے نہ ہو بلکہ دل کی گہرائیوں سے ہو۔ اگر صرف زبان سے ہوا تو تمھیں منافقین کی صفوں میں لاکھڑا کرے گا‘ اور پھر ایک دن اسفل السافلین میں ٹھکانا پاؤ گے۔ وہ تو بلند ہے اور بلندی کے اس درجے پر ہے کہ کسی کو بھی ہم پلہ برداشت نہیں کرسکتا اور نہ اپنی ذات کے شرک کو برداشت کرتا ہے۔ وہ تو لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ (ہے)‘ نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ ہی وہ کسی سے جنا گیا (الاخلاص ۱۱۲ : ۳)۔ گویا نہ اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہی ہے۔ وہ اپنی صفات کے شرک کو بھی برداشت نہیں کرتا ہے۔ وہی اس کائنات کو تنہا تخلیق کرنے والا ہے بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ (الانعام ۶: ۱۰۱) ’’وہ تو آاسمانوں اور زمین کا موجد ہے‘ اُس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے‘ جب کہ کوئی اُس کی شریکِ زندگی ہی نہیں ہے‘ اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے‘‘۔ وہی رزق فراہم کرتا ہے‘ وہی غریب نواز ہے‘ وہی داتا ہے ‘ وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے‘ وہی دُعاؤں کا سننے والا ہے۔ وہ خود کہتا ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِـیْبُ دَعْوَۃَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِلا (البقرہ ۲: ۱۸۶)’’جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں تو کہہ دے کہ میں بہت ہی قریب ہوں‘ ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے میں قبول کرتا ہوں‘‘۔ لہٰذا یہ اُس کا حق ہے کہ اس کے احکامات میں کسی کو شریک نہیں کیا جائے۔ اس کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق انفرادی‘ خانگی اور اجتماعی زندگی گزاری جائے ۔ وہ جس چیزسے کہہ دے رُک جاؤ تو رک جایا جائے اور جس کام کے کرنے کا وہ حکم دے دے تو بے چوں و چرا کر گزرا جائے‘ چاہے اس کے لیے پوری دنیا کی مخالفت ہی مول لینی پڑے۔ اگر اس کے احکامات سے تم روگردانی کرو گے تو گویا تم نے اس کو لا شریک نہیں مانا۔ اگر مصلحتوں کے تحت اس کی حکم عدولی کی تو سمجھو اپنی مصلحتوں کو اللہ مانا‘ اپنی خواہشات کے آگے ہتھیار ڈال کر اس کی حکم سے رو گردانی کی تو گویا خواہشات کو شریک بنا یا ‘ کسی سے ڈر کے اس کے حکم کو پسِ پشت ڈالا تو جان لو تم اس کے سوا جس سے ڈرے‘ چاہے وہ کوئی شخص ہو یا اقوام‘ اسے اللہ کا شریک بنایا۔
وہ تو یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ اس کا بتایا ہوا کام دوسروں کو دکھانے کے لیے کرو کیونکہ بظاہر تو وضع قطع یا حرکات و سکنات سے نظر یہ آتا ہوکہ اس کے بتائے ہوئے حکم کی پابندی کررہے ہو‘ لیکن دراصل اس کے پیچھے مقصد یہ کارفرما ہو کہ فلاں دیکھ کر میری تعریف کرے‘ مجھے پارسا کہے‘ متقی کہے‘ شجاع کہے‘ سخی کہے یا بہادر کہے‘ تو یاد رکھو تم نے جس کو دکھانے کے لیے وہ کام کیا‘ مثلاً نماز پڑھی کہ لوگ مجھے نمازی کہیں‘ خیرات دی کہ لوگ مجھے سخی کہیں‘ حج اس لیے کیا کہ لوگ حاجی صاحب کہیں ‘ زکوٰۃ اس لیے دی کہ جس کو دی وہ مرعوب رہے‘ جہاد میں حصہ اس لیے لیا کہ فوج میں ترقی ہو یا محلہ‘ گاؤں‘ قصبہ یا شہر میں بہادری کا عنوان کہلاؤ یا حکومتِ وقت سے کوئی تمغہ ملنے کی امید تھی‘ کوئی درس و تدریس کا کام محض اس لیے کیا کہ لوگ عالم کہیں‘ مفتی کہیں‘ سادہ لباس اس لیے زیبِ تن کیا کہ لوگ متقی کہیں‘ اللہ والا کہیں‘ یا اسی طرح کا کوئی اور بظاہر نیک کام کیا تو فعلاً جسے دکھانے کے لیے وہ کام کیے انھیں اس کی خدائی میں شریک کیا ور ایسے لوگوں کے لیے اُس نے ایک حدیث کے مطابق فیصلہ کردیا ہے کہ منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں داخل کردوں گا۔
اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِّعْمَۃَ،بلا شبہہ تمام تعریفیںتیرے ہی لیے ہیں اور نعمتیں سب تیری ہیں!
اللہ کو وَحدہٗ لَاشَرِیْکَ ماننے کے اقرار کے بعداب تم اس بات کا اقرار کررہے ہو کہ تمام تعریفیں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں‘ یعنی ساری بڑائی اسی کے لیے ہے اور جو بھی نعمتیں اس کائنات میں پائی جاتی ہیں سب اس ہی کی جانب سے ہیں۔ تھوڑی دیر رک کر انسان خود اپنی ہی مثال لے لے۔ اس کو زندگی کے لیے ہوا‘ پانی‘ روشنی‘ آگ ‘ غذا‘ شفا‘ غرض اس طرح کی اور بے شمار چیزیں جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا‘ عطا کیں۔ پھر اس کے علاوہ انسان اپنے جسم کو دیکھے۔ اللہ نے اس کو کام کرنے لیے دو ہاتھ‘ چلنے کے لیے دو ٹانگیں‘ سونگھنے کے لیے ناک‘ دیکھنے کے لیے آنکھیں‘ چکھنے اور بولنے کے لیے زبان‘ جسم کی مضبوطی قائم رکھنے لیے ہڈیوں کا ایک مکمل ڈھانچا عطا کیا۔ اگر صرف ہڈیاں ہوتیں ‘ اور اس جسم پر گوشت اور کھال نہ ہوتی تو اس کے اندر جو مشینری لگی ہوئی ہے اس کی موسمی اثرات اور دھول مٹی سے حفاظت ممکن نہیں تھی۔ رگوں میں زندگی کی رمق قائم رکھنے والا خون‘ اور اس خون کی پمپنگ کے لیے دل‘ فاضل پانی جسم سے خارج کرنے کے لیے گردوں اور مثانے کا نظام‘ خون کی پیدایش کے لیے جگر‘ کھانے کو ہضم کرنے کے لیے معدہ اور آنتوں کا جال‘ غرض جس جس چیز کی بھی ضرورت ایک جان دار کو ہوسکتی تھی سب اس نے مہیا کردیں۔ وہ فرماتا ہے: الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَo فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَo (الانفطار ۸۲: ۷-۸) ’’(اے انسان) جس (اللہ) نے تجھے پیدا کیا‘ تجھے نِک سُک سے درست کیا‘ تجھے متناسب بنایا‘ اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(التین۹۵: ۴)’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔
اُس پروردگار نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ انسان کو بنادیا اور بس‘ بلکہ اُس کے لیے نباتات اُگائیں تاکہ ان سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرے‘ ان سے خارج ہونے والی آکسیجن سے روح کا رشتہ جسم کے ساتھ قائم رکھ سکے‘ اس سے حاصل ہونے والی لکڑی سے اپنی ضروریات اور آسایش کے لیے فرنیچر تیار کرسکے‘ اس کے تنے کی چھال سے کاغذ تیار کرسکے تاکہ علم کی پیاس بجھانے میں معاون و مدگار بنے‘ اس میں سے کچھ کو دوا بنادیا ۔ پھر حیوانات اس کی خدمت کے لیے بنادیے جن سے وہ اپنی غذا کے لیے گوشت میں شامل پروٹین اوروٹامن حاصل کر سکے‘ ان جانورں کی جلد سے اپنے لیے لباس تیار کرسکے ۔ آوارہ بادلوں کا ایک وسیع نظام قائم کیا جو ہر موسم میں اس انسان کے لیے سمندر سے پانی جمع کرکرکے لاتے اور برساتے ہیں۔ پھر سمندر ‘ دریا‘ پہاڑ ‘ آسمان‘ سورج‘ چاند ستارے‘ آسمان پر اوزون کی تہہ‘ غرض اسی طرح پوری کائنات میں بے شمار خزانے اس کے لیے جمع کردیے اور چیلنج کردیا کہ فبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّ بٰنِo(الرحمٰن ۵۵: ۱۳) ’’پس تم اپنے پرودگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے‘‘۔ اور ایک اور جگہ انسان کو اس کی حیثیت یاد دلادی کہ تو ایک انسان ہی ہے‘ میرا بندہ ہے‘ میرا محتاج ہے‘ میں نے علم بھی تجھ کو دیا لیکن اتنا ہی جتنا تو برداشت کرسکے۔ تو دعوے تو بڑ ے کرتا ہے لیکن ابھی تو تیرا حساب بھی اس قابل نہیں کہ اس کی نعمتوں کو گنتی کرلے۔ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط (ابراھیم۱۴:۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم اُن کا پورا شمار نہیں کرسکتے‘‘۔
اے ضیوف الرحمن! تمھارا فرض ہے اتنے اعلیٰ رب کا شکر اپنے قول وفعل سے خود بھی اداکرو اور اس کی تلقین دوسروں کو بھی کرو۔ اگر تم انے ایسا نہ کیا تو وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ (العصر : ۱-۲)’’زمانے کی قسم! یقینا انسان خسارے میں ہے ‘‘کی تفسیر بن جاؤ گے اور اللہ نہ کرے تم اس کی تفسیر بنو کیونکہ اس کی تفسیر بننے والوں کے بارے میں فیصلہ لکھ دیا گیا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَھُمْ وَلَا لِیَھْدِیَھُمْ طَرِیْقًا o اِلَّا طَرِیْقَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاط (النساء ۴: ۱۶۸-۱۶۹) ’’بے شک جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم و ستم پر اُتر آئے‘ اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور انھیں کوئی راستہ بجز جہنم کے دکھائی نہ دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
لہٰذا یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جس رب نے بے حساب نعمتوںسے نوازا وہی بالآخر تعریف کا مستحق ہے‘ وہی اس لائق ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور وہی بادشاہی کا اصل حق دار ہے۔ بادشاہ وہی ہوتا ہے جس کا قانون چلتا ہے‘ جو نظام کا بنانے والا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی کوئی نظام بنائے وہ سب اس کے نظام میں ترامیم و اضافے ہوتے ہیں۔ عقل کو دیکھیں کیا کہتی ہے؟ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جب بھی کوئی کمپنی نئی مصنوعات بناتی ہے‘ جیسے الیکٹرونکس‘ میکینکل مصنوعات وغیرہ تو اس کو فروخت کرتے وقت ہر خریدار کو ایک عدد کتابچہ فراہم کرتی ہے۔ اس میں اس کے استعمال کی تمام ہدایات درج ہوتی ہیں۔ جب تک ہم بنانے والے کی ہدایت پر عمل نہیں کریں گے کوئی بھی چیز ہمارے لیے بے کار ہے۔
اسی پر قیاس کریں کہ ایک انسان جس کو عقل بھی اللہ نے دی ‘ کام کرنے کی صلاحیت بھی اللہ نے دی‘ کار اور اس جیسی اربوں مصنوعات بنانے کا انداز اور وسائل بھی اسی نے فراہم کیے تو کیا وہ رب اتنی بڑی دنیا بناکر انسان کو اندھیرے میں چھوڑ دے گا‘ اور اس کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس دنیا کو کس طرح استعمال کرے‘ یہاں کس طرح رہے۔ یقینا ہمارا جواب نفی میں ہوگا ۔ اُس رب نے جو دانا ہے ‘ بینا ہے‘ سب جہانوں کابادشاہ ہے‘ اسی نے اتنی بڑی کائنات کو بنایا اور اس کائنات کے چھوٹے سے حصے دنیا میں انسان کو بسایا اور اس کو اس میں رہنے کے آداب سکھانے کے لیے‘ اس دنیا کو درست انداز میں استعمال کرنے کے لیے ‘ اس سے فائدے حاصل کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً انسانوں ہی میں سے اپنے نمایندے بھیجتارہا جس طرح دنیاوی حکمران اپنے سرکاری افسروں کو بھیجا کرتے ہیں۔ یہ نمایندے مختلف اوقات میں ضرورت اور حالات کے مطابق اس وقت تک مختلف شریعتیں لاتے رہے۔ بالآخر اس نے اپنا آخری ہدایت نامہ انسانوں کو عطا کیا جسے آج دنیا ’قرآن‘ کے نام سے جانتی ہے۔
یہ قرآن رہتی دنیا تک کے لیے ایک مکمل دستور قرار پایا۔ اس میں انسانوں کے لیے چھوٹی بڑی تمام ہدایات درج کردی گئیں۔وہ تمام قانون وضع کردیے گئے جن کی ضرورت انسان کو پڑ سکتی تھی‘ جیسے اخلاقی قوانین‘ معاشی قوانین‘ عائلی قوانین‘ جنگ کے قوانین‘قانونِ شہادت‘ قانونِ قصاص ودیت‘ قانونِ وراثت ‘ قانونِ عدل‘ غرض یہ کہ جس قسم کی ہدایت اور راہنمائی انسان کو درکار تھی اس نے اپنے اس آخری دستور میں تفصیلی وضاحت کردی اور زندگی کا ایک گوشہ بھی ایسا نہیں رہنے دیا جس میں تشنگی چھوڑی ہو۔ اسی لیے اسے قرآنِ مبین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے‘ یعنی ایک کھلی کتاب۔ جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوئی اس کے قانونی نمایندے نے ان دفعات یا شقوں کی وضاحت کر دی اور اس وضاحت کو اسلامی اصطلاح میں حدیثِ نبویؐ کہا گیا۔ پھر حدیث بھی دو طرح کی ہوئی۔ ایک تو قانونی نمایندے حضرت محمدؐ نے قولاً تشریح کردی اور انسان کو یہ بتانے کے لیے کہ ان قوانین پر عمل ناممکن نہیں‘ عملاً قرآن کی چلتی پھرتی تصویر بن کر دکھایا۔
یہ اس رب نے اس لیے کیا کہ وہ اس دنیا کا بنانے والا ہے‘ لہٰذا اس پر حکمرانی بھی اسی کی ہونی چاہیے‘ حاکمِ بالا وہی ہے ۔ اگر کوئی اور اس کی دنیا کے قانون کو بنانے کی کوشش کرے گا وہ فطرت سے ٹکرائے گا اور فساد کا سبب بنے گا کیونکہ وہ دنیا کے تمام پیچ و خم سے واقف نہیں ہوگا۔چاہے وہ دنیاکا کوئی بادشاہ ہو‘ پارلیمنٹ ہو‘ سینٹ ہو یا کچھ اور۔ اس لیے آج لَکَ وَالْمُلْک کی گردان کرنے والو! یہ بات اچھی طرح اپنے ذہنوں میں رکھو کہ تمھارا یہ کہنا کہ بادشاہی بھی تیری (اللہ کی) ہے‘ اسے عملی طور پر اپنے اوپر نافذ کرکے دکھاؤ اور جہاں جہاں خودساختہ ربّ اس کے قانونِ فطرت کی دھجیاں بکھیر رہے ہوں‘ تمھارا فرض ہے کہ ان کا راستہ آگے بڑھ کر روک دو۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو اپنے منہ اور قلم کی حد تک اس ہجت کو ضرور تمام کرو ‘اور تم ایسا بھی نہیں کرسکتے جو کہ آج کے دور میں مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں تو کم از کم ان کے ہم نوا نہ بن جاؤ اور دل سے برا جانو‘ تب ہی تم ایمان کا آخری درجہ پاسکو گے۔
اگر تم ایسا نہ کرسکے تو اللہ کو تمھارے دُور دراز سفر کرنے کی ‘ تمھاری مشقت برداشت کرنے کی‘ تمھارے مال خرچ کرنے کی ‘ بھاگ دوڑ کی کوئی حاجت نہیں وہ تو الصمد (بے نیاز) ہے۔ تمھارے اعمال کی قبولیت کی اولین شرط تمھاری نیتوں کاخالص ہونا ہے۔ جس کی نیتیں خالص نہ ہوں ان کا ابدی ٹھکانا جہنم کا بھی سب سے نچلا اوربھیانک درجہ قرار پاتاہے۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج وَلَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًاo (النساء ۴ :۱۴۵) ’’یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو اُن کا مددگار نہ پاؤگے‘‘۔ غور کرتے رہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم تو کہہ رہے ہو لَا شَرِیْکَ لَکَ ۔ تیرا کوئی شریک نہیں (اس بادشاہی میں) لیکن عملی دنیا میں اس کے دین کی دھجیاں بکھرتے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کررہے ہو___ خدارا لوٹ آؤ… لوٹ آؤ… لوٹ آؤ… موت کی آخری ہچکی سے پہلے لوٹ آؤ ‘اور یقین کر لو کہ وہ تَوَّابُ الرَّحِیْمْ ہے۔
تم کو اللہ کا مہمان بننا مبارک ہو‘ اللہ تمھارے حج کو قبولیت بخشے اور تم کو تمھارے گناہوں سے اس طرح پاک کردے جیسے ابھی ابھی تم نے اپنی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔
احرام باندھتے ہوئے‘ طوافِ کعبہ کرتے ہوئے‘ زم زم پیتے ہوئے‘ صفا مروہ کی سعی کرتے ہوئے‘ منیٰ میں قیام کرتے ہوئے‘ عرفات میں وقوف کرتے ہوئے‘ مزدلفہ میں رات گزارتے ہوئے‘ شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے‘ قربانی کرتے ہوئے‘ حلق کراتے ہوئے ‘ غرض ہر قدم پر اور ہر موقع پر اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے رہو‘ اپنا احتساب کرتے رہو اس دن سے پہلے جب سب سے بڑا حساب ہوگا۔ اور یاد رکھو خدا کی قسم وہ حساب ضرور ہوگا!
ہمارے باپ ابراہیم ؑ نے یہ امور کیوں انجام دیے تھے۔ ایسا کون سا جذبہ کارفرما تھا‘ ان اعمال کی کیا روح تھی ‘ اللہ کو یہ کام کیوں اتنے پسند آئے کہ اس نے انھیں رہتی دنیا تک امر کردیا۔ بس کوشش یہ کرنا کہ ہمارا کوئی بھی عمل روح سے خالی نہ ہو ۔ یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ کوئی بھی جان دار بغیر روح کے جان دار کہلانے کا مستحق نہیں رہتا۔ تمھارے اپنے پیاروںکے‘ اپنے چاہنے والو ںکے جسم جب روح سے خالی ہو جاتے ہیںتو تم ہی کو بہت جلدی ہوتی ہے کہ ان کو ان کے اصلی گھر پہنچا دیں۔
کیوں؟… کیا کبھی سوچا تم نے؟…
ان کا جسم اب تمھارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا‘
اس سے بات کرنا چاہتے ہو تو وہ بات نہیں کرتا‘
اس کو کچھ سنانا چاہتے ہو لیکن وہ تمھاری کچھ بھی سننے سے قاصر ہوتا ہے‘
تم اس کی پیاری سے پیاری چیز اس کو دکھانا چاہتے ہولیکن وہ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا‘
اگر زیادہ دیر اسے گھر میںرہنے دو تو اس کا وہ جسم جس کاہونا کل تک تمھارے گھر کی مہک تھا‘ تعفن بن جائے گا۔
غرض ثابت ہوا کہ اصل چیز اس کی روح تھی ۔ جو اس کے وجود کو باقی رکھے ہوئی تھی۔ جب وہ اس کے جسم سے پرواز کر گئی تو گویا اس کا جسم محض ایک کھلونے سے بھی گیا گزرا ہوگیا کیونکہ کھلونابھی کم از کم بچوں کے کھیلنے کے کام تو آتا ہی ہے۔
تمھارا یہ حج اپنی روح سے خالی نہ رہنے پائے‘ اگر یہ اپنی روح سے خالی ہوا تویقین جاننا اس بناوٹی حج کی بھی وہی وقعت ہوگی جو ایک مردہ جسم کی ہوتی ہے ۔ جو اپنے اندر نقصان تو رکھتا ہے لیکن فائدہ کوئی نہیں رکھتا۔
اگر تم نے حج کی اصل روح کو پالیااور اللہ کرے تم ضرور اس روح کو پاؤ ‘ تو یاد رکھنا تمھاری زندگی میں ایک انقلاب آنا چاہیے۔ جو گناہ پہلے کرتے تھے اب ان سے کنارہ کش ہوجانا اور اچھے کام کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا۔
ہر آنے والا دن تمھاری زندگی کی کتاب کا ورق اُلٹ رہا ہے ‘ اورتم خود ایک کتاب تصنیف کررہے ہو ۔ اس کتاب میں تم ہر وہ چیز لکھ رہے ہو جو سوچتے ہو‘ جو بولتے ہو‘ جو دیکھتے ہو‘ جو سنتے ہو‘ جوکرتے ہو اور جو کراتے ہو۔ اس کتاب میں کسی کو بھی ذرا سا بھی اختیار نہیں کہ کچھ گھٹا سکے یا بڑھا سکے۔ ایک دن اس کتاب کاآخری ورق اُلٹ جائے گا‘ اور یہ کتاب تمھارے ہاتھوں میں ہوگی۔ اگر اپنی زندگی میں تم وہ انقلاب لے آئے جو معبودِ حقیقی کو مطلوب ہے تو یہ کتاب تمھارے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی اور دائیں ہاتھ میں اس کتاب کا ملنا کامیابی کی علامت ہے:
اُس وقت جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ’’لو دیکھو‘ پڑھو میرا نامۂ اعمال ‘ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے‘‘۔ پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا‘ عالی مقام جنت میں‘ جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے۔ (ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھائو اور پیو اپنے اُن اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں۔ (الحاقہ ۶۹:۱۹-۲۴)
اگر خدانخواستہ اُس روز یہ کتاب بائیں ہاتھ میں ملی تو یہ اللہ کے دربار سے دُھتکارے جانے کی علامت ہوگا۔ اور جسے یہ کتاب بائیں ہاتھ میں دی جائے گی اُس کے لیے قرآن کا آئینہ دیکھ لو:
اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: کاش! میرا نامۂ اعمال مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش! میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کُن ہوتی۔ آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہوگیا‘‘۔ (حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو‘ پھر اسے جہنم میں جھونک دو‘ پھر اس کو سترہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یارِ غم خوار ہے اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا‘ جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔ (الحاقہ ۶۹: ۲۵-۳۷)
یہ کتاب کس ہاتھ میں لینی ہے--- دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں؟