مارچ ۲۰۲۵

فہرست مضامین

رمضان کے آزاد شیاطین

رضی محمد ولی | مارچ ۲۰۲۵ | استقبال رمضان

Responsive image Responsive image

وہ دیکھو وہ نظر آرہا ہے، وہ بادلوں کے پیچھے۔ کہاں ہے؟ مجھے تو کہیں نظر نہیں آرہا، ارے بھئی وہ سامنے دیکھو باریک سا نظر آرہا ہے۔ نہیں بھئی مجھے تو اب تک نظر نہیں آیا۔ میری انگلی کی سمت میں دیکھو ، وہ دیکھو، وہ دیکھو! یہی منظر ہوتے تھے کہیں چھتوں پر چڑھ کر، کہیں کھلے میدانوں میں جمع ہو کر۔

وہ سعید روحیں جو رجب اور شعبان ہی سے اللہ تبارک و تعالیٰ سے رات کی تنہائیوں میں اور دن کے اجالوں میں گڑگڑاکر ربّ سے برکت مانگا کرتی تھیں: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ ۔ اپنی دُعاؤں کی قبولیت پر مسحور ہوجاتی ہیں اور مومنین اپنے اندر ایک نئی قوت محسوس کرتے ہیں، نیا عزم پاتے ہیں، نیا ولولہ ہوتا ہے، عجیب سی خوشی ہوتی ہے۔ اپنے محبوب سے قرآن کی زبانی ہم کلام ہونے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ مسجد جاتے وقت کہیں سے امّاں کی آواز آتی ہے کہ فلاں فلاں چیزیں واپسی پر بازار سے لیتے آنا اور کہیں بیگم صاحبہ لسٹ پکڑا دیتی ہیں۔ یہ تو تھا وہ منظر نامہ جو کبھی ہمارے معاشروں میں نظر آتا تھا، لیکن اب اس کی جگہ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور موبائلوں نے لے لی ہے۔ اب چاند دیکھنے کے لیے کہیں لوگوں کا ہجوم نہیں لگتا، کوئی چھت پر نہیں چڑھتا، اب مبارکبادیں واٹس ایپ پر آتی ہیں، اور مبارکبادوں کا یہ کام فیس بک، انسٹا گرام اور اسی طرح کے دیگر سوشل میڈیا پر ایک فرض سمجھتے ہوئے پورا ہو رہا ہوتا ہے۔ اصل چیز جو ختم ہوگئی وہ مسلم اُمہ کا تعلق ہے، نہ یہ تعلق اب برادریوں میں رہا، نہ محلوں میں رہا، نہ گاؤں دیہات میں رہا، نہ شہروں میں ، نہ ملکوں میں اور نہ ایک جسم کی مانند ہوتے ہوئے مسلم اُمہ میں۔ رمضان کا مبارک مہینہ جہاں ہمیں تقویٰ کی تعلیم دینے آتاہے، وہیں مختلف انداز سے ہماری تربیت کا سامان ساتھ لاتا ہے جس میں ایک تربیت اجتماعیت کی بھی ہے۔

 بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ رمضان کے آتے ہی شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے‘‘۔ [صحيح البخاري : ۳۲۷۷ ، صحيح مسلم : ۱۰۷۹]۔ ظاہر ہے جب نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمادیا تو حق کے سوا یہ کچھ اور ہو نہیں سکتا۔ لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی زمین پر نافرمانی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہوتی ہے، چوریاں بھی ہوتی ہیں، ڈکیتیاں بھی، جوا بھی ہوتا ہےتو شراب بھی پی جاتی ہے، غرض ہمارے علم میں جتنے بھی گناہ کے کام ہیں سب ہورہے ہوتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے ہورہے ہوتے ہیں۔ پھر انسان کی سوچوں میں آتا ہے کہ جب شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے تو گناہ کیوں جاری رہتے ہیں؟ حد تو یہ ہے کہ مسلمان روزہ رکھنے کے باوجود بھی گناہوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو سوچنے اور سمجھنے کے لیے عقلِ سلیم عطا فرمائی ہے جس سے وہ کھرے کھوٹے کی تمیز بھی کرتا ہے، اور ذہن میں اُٹھنے والے مختلف سوالات کے جوابات بھی تلاش کرتا ہے۔ جب شیاطین کے جکڑے جانے سے متعلق سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو اسی عقل نے ایک مختلف انداز میں تجزیہ کرکے ہمیں دیا جو پیش ہے۔

سب سے پہلی بات جو ہمیں سمجھنا ہوگی وہ یہ ہے کہ انسان جو گناہ یعنی اللہ کی نافرمانی کے کام کرتا ہے وہ سب شیطان کے بہکاوا نہیں ہیں ، البتہ شیطان کی جانب سے ہمارے دلوں میں داخل کیا گیا وسوسہ ایک بڑا سبب ضرور ہے۔ اس کی وجوہ پر غور و فکر کرنے سے جو اسباب سمجھ میں آتے ہیں، ان میں سب سے پہلی وجہ انسان کی خواہشات اور اُس کا نفسِ اَمّارہ ہے۔ دوسری وجہ ایسی عادات کا بن جانا ہے جس کی بنا پر گناہ کیے جاتے ہیں۔ گویا کہ عادتاً بھی گناہ کیے جاتے ہیں۔ تیسری وجہ حرام مال کا پیٹ میں داخل ہونا ہے۔ چوتھی وجہ گناہوں کی کثرت سے دلوں پر لگنے والے داغ ہوتے ہیں جو دلوں کو سیاہ کردیتے ہیں، جب کہ پانچویں وجہ انسان کے اختیار کی آزادی ہے جو ربّ تعالیٰ نے اُسے عطا فرمائی ہے جس کا وہ ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے، اور چھٹی وجہ ماحول کا اثر ہے۔

  • انسان کا اپنا نفس: وَمَآاُبَرِّئُ نَفْسِيْ۝۰ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْۗءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ۝۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵۳ (یوسف۱۲: ۵۳) ’’اور میں اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس (نفس امارہ انسان کو) برائی سکھاتا ہے، مگر یہ کہ میرا اللہ رحم کرے ۔یقیناً وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔ مشہور قول ہے کہ انسان کا نفس ایک بدکا ہوا گھوڑا ہے، اسے جتنا چارہ ڈالو گے یہ اتنی ہی سرکشی دکھائے گا۔ لہٰذا رمضان مبارک کے روزو شب اگر نفس کی تربیت کرتے ہوئے نہ گزارے جائیں بلکہ دن میں محض کھانا پینا چھوڑ دیا جائے اور رات میں نوافل (تراویح)ادا کرکے ہم سمجھیں کہ ہمارا کام مکمل ہوگیا تو ایسا ممکن نہیں۔ بلکہ اس کے لیے اپنی جبلت کو مارنا پڑے گا اور خود کو حقیقی معنوں میں ربّ کے آگے جھکانا پڑے گا۔

اللہ تعالیٰ نے اسی نفس کو قابو رکھنے کے لیے کم و بیش سوا لاکھ انبیا علیہم السلام اس دنیا میں بھیجے ہیں۔ اس نفس ہی کی بدولت انسانی دل میں طرح طرح کی خواہشات جنم لیتی ہیں اور جب انسان ان خواہشات کے پیچھے دوڑتا ہے تو وہ اچھے برے کی تمیز کھودیتا ہے اور نفس کے رحم و کرم پر چلا جاتا ہے۔ اسی نفس امارہ نے آج کے معاشروں میں فحاشی و عریانیت کا ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے۔گھر، خاندان، انفرادی و اجتماعی ماحول، خوشی اور غمی، عبادات و معاملات، حتیٰ کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہی کیوں نہ ہوں، ہر جگہ اور ہر سطح پر اللہ کی نافرمانیوں کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ نفس امارہ کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر سے حیا کا وصف نکال دیتا ہے۔ اور حیا ہی وہ اہم صفت ہے جس کے خاتمے سے سب سے گہری ضرب انسان کے ایمان پر پڑتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو‘‘۔ لہٰذا اگر رمضان المبارک میں کسی مومن کے گناہ جاری و ساری رہتے ہیں تو یہ صرف شیطان کا بھڑکاوا نہیں ہے بلکہ اُس کے نفس کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے، لہٰذا اُسے اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔ اسی نفس کو لگام ڈالنے کےلیے اللہ تعالیٰ نے روزہ ہر نبیؑ کی اُمت پر فرض کیا ہے۔

  • انسان کی اپنی عادت:ایک گاڑی کسی راستے پر ۱۲۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کررہی ہو اور اچانک اُسے روکنے کی ضرورت پیش آجائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اُسے بریک لگایا جاتا ہے فوری طور وہ وہاں کبھی بھی نہیں رُکتی بلکہ رُکتے رُکتے کچھ وقت لیتی ہے۔ انسان کی عادتوں کی مثال بھی گاڑی کی رفتار کی طرح ہے جسے قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ انسان کی شخصی عادات بھی گناہوں کی طرف لے جانے کا ایک اہم سبب ہوتی ہیں جو برسہا برس سے انسان کے معمولات میں غیر محسوس طریقے سے شامل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بارہا تو یہ بچپن کی تربیت، ماحول اور تعلیم کا ایک ایسا اثر ہوتی ہیں جن سے انسان زندگی بھر پیچھا نہیں چھڑا پاتا۔ بڑے ہونے کے بعد بھی خارجی حالات اور ترغیبات کے تحت لوگ ایسی عادات اختیار کر لیتے ہیں، مثلاً غیبت ، جھوٹ بولنا، بد زبانی و دشنام طرازی ، وعدہ خلافی ، طنز ، تکبر ، تجسس وغیرہ۔

دراصل ایسی عادتوں سے جان چھڑانے اور خوداحتسابی کے عمل سے خود کو گزارنے کا نام رمضان ہے۔ لہٰذا اگر کوئی مومن خود کو خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزارتا اور گناہ کا ارتکاب جاری رکھتا ہے تو یہ گناہ محض شیطان کے وسوسوں کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے کرنے میں اُس کی اپنی عادتوں کا دخل بھی کارفرما ہوتا ہے ۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ انسان رمضان آنے سے پہلے ہی ربّ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرکے اپنی غلط عادتوں کو درست کرنے کی طلب اور ساتھ سعی کرے۔ اس کے لیے ہر وہ عادت جو گناہ اور نافرمانی کی سمت لے جانے والی ہے، اس کی اصلاح کی بھرپور کوشش کرے۔ اس کے لیے دوسروں کی مدد لے۔ اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرے۔ اپنا احتساب کرتا رہے۔ اپنے لیے کچھ مطلوبہ معیارات مقرر کرے۔ ان کی خلاف ورزی کی صورت میں خود پر جرمانہ مقرر کرے، وغیرہ۔

  • حرام مال کی آمیزش : يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ؗۖ  (البقرہ ۲:۱۶۸)’’اے لوگو ! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں ، انھیں کھاؤ‘‘۔ آج معاشرے میں والدین کو اپنے بچوں سے گِلہ رہتا ہے کہ وہ اُن کا کہنا نہیں مانتے باوجود اس کے کہ وہ اُن کی ہر قسم کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں، اچھی تربیت کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اُن کے رویے برقرار رہتے ہیں۔ اسی طرح آج کے دور میں دیکھا جائے تو یہ رویہ عام ہوگیا ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں کی اطاعت سے باہر نکل رہی ہیں اور طلاق کی شرح پہلے کے مقابلے میں کہیں بڑھ گئی ہے۔ مسلمانوں کو شکوہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ رمضان آتے ہی شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تو پھر رمضان میں بھی ایسا کیوں ہوتا رہتا ہے؟ اس کے لیے تنہائی میں بیٹھ کر ہمیں اپنی ذات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھیں کہ ہم جن بیوی بچوں کی ضروریات کا ہر طرح خیال رکھ رہے ہیں، ان کے لیے ضروریاتِ زندگی کا جو انتظام کرتے ہیں، اُس میں کہیں حرام کی آمیزش تو نہیں ہو رہی۔ حرام مال سے مُراد سُود کی رقم، رشوت کا مال، چوری اور ڈاکا زنی کا مال، جھوٹی قسم کھاکر کمایا گیا مال، زنا و شراب اور جُوے سے کمائی گئی رقم، جھوٹی گواہی اور وکالت کے ذریعے کمایا ہوا مال، یتیم کی اجازت کے بغیر اُس کا استعمال کیا جانے والا مال، بھائی، بہنوں اور دیگر کی وراثت کا مال، گانا بجانا اور اخلاق باختہ فلم کے ذریعے کمایا ہوا مال، ناپ تول میں کمی کرکے یا دھوکا دہی سے فروخت کیا گیا مال وغیرہ۔

اسلام میں ایسے حرام مال کے کمانے، کھانے اور استعمال سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اس طرح کا مال کمانے سے ایک طرف جہاں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی نافرمانی ہوتی ہے، تو دوسری طرف ایسے مال کے کمانے، کھانے اور استعمال سے معاشرے میں مختلف طرح کے بگاڑ بھی پیدا ہوتے ہیں، جس سے معاشرتی زندگی بُری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔ لہٰذا رمضان ہمیں دعوتِ عمل دیتا ہے کہ ہم خود کو خوداحتسابی کے عمل سے گزارتے ہوئے سچی توبہ کریں اور جن حق داروں کا حق ہمارے ذمہ ہے اور ہم انھیں جانتے ہیں تو فوری طور پر ادا کریں۔ اگر ہم ایسا کرنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتے تو پھر شیطان کو بھی دوش نہ دیں کہ اُس کے جکڑے رہنے کے بعد گناہ کیوں عام ہیں اور دھڑلے سے ہو رہے ہیں؟ میرے بچے، میری بیوی، بھائی بہن اور میں خود اگر رمضان پانے کے باوجود، روزہ رکھنے کے باوجود، قیام اللیل کرنے کے باوجود گناہ نہیں چھوڑ پا رہا تو اس کا سبب ان پیٹوں میں حرام کا مال جانا ہے کیونکہ اُن کے جسم کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے اور حرام اُن کے رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے، اُن کے جسم کا حصہ بن چکا ہے۔ گویا کہ شیطان کیا ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالے گا بلکہ وہ تو خود چلتا پھرتا شیطان بن چکے ہیں۔ احادیث میں ملتا ہے کہ حرام پر پلنے والے جسم کی اللہ تعالیٰ کوئی عبادت قبول نہیں کرتا اور ہرعبادت کو اس کے منہ پر مار دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ کے درمیان ایک ایسے شخص کا نقشہ کھینچا جو کہ لمبا سفر کر کے بیت اللہ کی زیارت کے لیے آیا۔ اس کے سرکے بال گرد و غبار سے اَٹے ہوئے تھے اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا: یَارَبِّ یَارَبِّ وَمَطْعَمُہ حَرَام وَمَشْرَبُہ حَرَام وَمَلْبَسُہ حَرَام وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ، ’’اے میرے ربّ! اے میرے ربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، 'اس کا پینا حرام کاہے ، اس کا لباس حرام کا ہے اور حرام مال اس کی غذا ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبول کی جائے؟‘‘

  • گناہوں سے دل کا سیاہ ہو جانا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے اور گناہ کو ترک کردیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو صاف ہوجاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو وہ داغ بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ یہی وہ ’ران‘ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے : کَلَّا بَلْ سکتہ  رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَّا کَانُوا يَكْسِبُوْنَ۝۱۴(المطففین ۸۳:۱۴)’’ ہرگز نہیں بلکہ ان کے (بُرے) کاموں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے‘‘، میں کیا ہے (مسند البزار: ۱۵/۳۵۸) ۔ اس روایت کے آخر میں جس آیت کی طرف اشارہ فرمایاگیاہے اس سے واضح ہوجاتاہے کہ دل پر زنگ پڑنے کے نتیجے میں جب دل سخت وسیاہ ہوجاتاہے تو اس میں حق قبول کرنے کی صلاحیت نہایت کمزور یا ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد حق قبول کرنے کے بجائے اس میں طرح طرح کے شبہات واعتراضات نکالے جاتے ہیں۔

امام بیہقی ؒ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:’’مومن کا دل شیشے کی طرح سفید ،صاف اور روشن ہوتا ہے۔ شیطان اس میں گناہ کے کسی بھی راستے سے نہیں آسکتا،مگر اس کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح وہ اپنے چہرے کو شیشے میں دیکھتاہے۔ پھر جب وہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ داغ لگایا جاتاہے۔اگر وہ اپنے گناہ سے توبہ کرے تو اس کے دل سے داغ کو مٹایا جاتاہے اور وہ صاف ہو جاتا ہے اور اگر توبہ نہیں کرتا اور دوبارہ ایک کے بعد دوسرا گناہ کرتا رہا تو اس کے دل پر ایک داغ لگایا جاتا ہے، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا قول کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ ہے۔ فرمایا:گناہ پر گناہ کرنا یہاں تک کہ دل سیاہ پڑ جائے،اس دل میں نصیحت داخل نہیں ہوتی ،پھر اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور وہ داغ اس کے دل سے شیشے کی طرح صاف ہوجاتا ہے‘‘۔(شعب الایمان: ۹/۳۷۵)

اب ایسے میں، جب کہ دل گناہوں کے راستے پر چلنے کا عادی ہو ، تو رمضان کے آتے ہی اچانک درست راستے کی جانب کیسے مُڑ سکتا ہے؟ ظاہر ہے یہ جب ہی ممکن ہے کہ گناہ کا رسیا انسان توبہ و استغفار کرے، گناہوں کو چھوڑنے کا عزم کرے، اُس کے لیے عملی اقدامات اُٹھائے، دنیاوی لذتوں کو ٹھکرائے، تب ہی جا کر کہیں وہ معصیت کے کاموں سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر شیطان کا زنجیروں میں جکڑے رہنا بے معنی ہوجاتا ہے کیونکہ اُس کے اپنے اندر کے شیطان نے اُس کے دل کو سیاہ کردیا ہوتا ہے۔ اُس کو چاروں طرف سے گناہوں کی تاریک گھٹاؤں نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے میں اُس پر رمضان المبارک میں برسائے جانے والے انوار کی تجلیات کیسے پڑیں؟

  • انسان کو اختیار کی آزادی:اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے: وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِ۝۱۰ۚ (البلد۹۰: ۱۰) ’’اور کیا ہم نے اُسے (انسان کو) دو راستے نہیں دکھادیے؟‘‘۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو محض عقل و فکر کی طاقتیں عطا کر کے چھوڑ نہیں دیا کہ اپنا راستہ خود تلاش کرے، بلکہ اس کی رہنمائی بھی کی اور اس کے سامنے بھلائی اور برائی، نیکی اور بدی کے دونوں راستے نمایاں کر کے رکھ دیے تاکہ وہ خوب سوچ سمجھ کر ان میں سے جس کو چاہے اپنی ذمہ داری پر اختیار کرلے۔یہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حکمت اور عدل کا تقاضا بھی تھا کہ انسان پرجن کاموں کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ان میں اُسے آزاد وخود مختار رکھے کیونکہ انسان پر ایسے کاموں کی ذمہ داری ڈالنا جواس کی طاقت اور توازن سے باہر ہو ،انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔ یہ اس لیے کہ اُسی کے مطابق اُس نے انسان سے باز پرس کرنی ہے، جزا و سزا کا فیصلہ کرنا ہے۔

کسی شخص نے امام جعفر صادقؒ سےپوچھا : کیا خدا نے انسان کو مختلف کاموں پر مجبور کیا ہے ؟امام نے فرمایا:خداوند تعالیٰ عادل ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو کسی کام پر مجبور کرے پھراسے اس کی سزا بھی دے ۔ اب ایسے میں کوئی انسان کراچی سے مکہ مکرمہ کی فلائٹ میں بیٹھنے کے بجائے ویٹیکن سٹی کی فلائٹ میں بیٹھے تو ظاہر ہے وہ مکہ المکرمہ تو نہیں پہنچ سکتا، بلکہ فطرت کے مطابق اُسے ویٹیکن سٹی ہی پہنچنا ہوگا۔ بالکل یہی مثال نیکی اور بدی کے راستے کی ہے کہ انسان نیکی کے راستے پر چلنے کی طلب اور جدوجہد کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اُسے اُسی راستے کی آسانی بہم پہنچادیتا ہے۔اگر کوئی فرد اپنے لیے بدی کے راستے پر چلنے کا انتخاب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اُس مشکل راستے کی آسانی بہم پہنچادیتا ہے۔ قرآن میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہماری اس طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے:

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى۝۵ۙ  وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى۝۶ۙ  فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْيُسْرٰى۝۷ۭ  وَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى۝۸ۙ  وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى۝۹ۙ  فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰى۝۱۰ۭ (اللیل۹۲: ۵-۱۰) تو جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا، اور بھلائی کو سچ مانا، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اور جس نے بُخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی ، اور بھلائی کو جھٹلایا، اُس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔

 پھر جب انسان اپنے اختیار کردہ راستے میں سے جس راستے پر بھی چل کر اُس کے حضور پیش ہوگا تو وہ اُسی تناظر میں اُس سے باز پُرس کرے گا۔ اب اگر انسان یہ تصور کرے کہ اُس نے انتخاب تو بدی کے راستے پر چلنے کا کیا لیکن رمضان کے آتے ہی چونکہ شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، لہٰذا وہ خود مختار نظام (Automatic System)کے تحت اچانک نیک راہ پر چلنے لگے گا اور شوال کا چاند نظر آتے ہی اُسی خود مختار نظام کے تحت اپنی پُرانی راہ پر واپس آجائے گا۔ یقیناً ہرصاحبِ عقل اس چیز کی نفی کرے گا۔ ہر کوئی یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ جب اُس انسان نے خود اپنے دل کی رضا سے بدی کے راستے کو اختیار کیا اور نیکی کے راستے پر چلنے کا اُس کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا، تو اُس کا شیطان تو خود اُس کے اندر پرورش پا رہا ہے، جو اپنے دائرے میں آزاد ہے اور اُسے اللہ تعالیٰ نے بزور زنجیریں نہیں ڈالیں ہیں۔

  • ماحول کا اثر: ایک انسان اپنے نفسِ امّارہ کو بھی نفسِ لوّامہ میں تبدیل کرلے، جس سے اُس کی عادات بھی اپنا قبلہ درست کرلیں، اپنے رزق کے حصول میں بھی وہ بے حد احتیاط کرے اور خالص حلال حاصل کرنے کی کوشش کرے،انفرادی گناہوں سے ہر ممکن اجتناب کرے اور نیکیوں کو پروان چڑھانے میں مصروفِ عمل رہے، اور اپنے اللہ کے عطا کردہ اختیار کی آزادی کا بھی بہترین استعمال کرتے ہوئے نیکی کی راہ چلنے لگے، تب بھی وہ اسلام پر مکمل اور آزادی کے ساتھ عمل نہیں کرسکتا ۔ ہمارے اس جواب پر آپ حیران بھی ہوں گے اور سوچ بھی رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اگر نظام باطل قوتوں یا اُس کے ہرکاروں کے ہاتھوں میں ہو تو وہ نظام کے ہاتھوں مجبور ہوگا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس نظام پر چلے۔ اگر اُس نظام میں شیطانی افعال کا غلبہ ہے تو رمضان کیا سارا سال بھی شیاطین کو قید رکھا جائے تو وہ ماحول، وہ نظام اُس سے معصیتوں کا ارتکاب کرواتا رہے گا جو کبھی دانستہ ہوں گی اور کبھی نادانستہ۔ مثال کے طور پر آپ ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سود کی عمل داری ہو، بے حیائی، فحاشی و عریانی عام ہو، حلال و حرام کی تمیز مٹ چکی ہو، رشوت کا بازار گرم ہو، میڈیا کے ذریعے جھوٹ فخر کی علامت ہو، تو بتائیے کہ باطل نظام کے ہوتے ہوئے یعنی ایسے ماحول کے ہوتے ہوئے کیسے اِن گناہوں کے اثرات سے بچ سکیں گے؟ آپ چاہیں یا نہ چاہیں کسی نہ کسی طرح سود کی گندگی میں اپنے ہاتھ آلودہ کرنے پر مجبور ہوں گے، لاکھ نہ چاہتے ہوئے بھی بے حیائی اور فحاشی و عریانی کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے۔ کروڑوں بار جدید میڈیا کی خرابیوں کو بیان کرنا اپنا وطیرہ بنالیں لیکن یہ غلاظت آپ کے گھروں کے اندر داخل ہو کر رہے گی۔ یہی حال حلال و حرام کا ہوگا، علیٰ ہذالقیاس۔

اسی لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاؑ اور نبی ٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے کےلیے بھیجا ، جس کی نشاندہی قرآن پاک میں اس طرح کی کہ ہُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۹ (الصف ۶۱:۹)’’ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔  یہاں بتایا جارہا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دینِ حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کر دے۔

حاصلِ کلام یہ کہ اگر واقعی ہم شیاطین کے رمضان المبارک میں زنجیروں میں جکڑے جانے سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے نفس کے شیطان کو خود زنجیر ڈالنا ہوگی، اپنی عادات و اطوار کو تبدیل کرنا ہوگا، رزقِ حلال کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا، اللہ کی طرف سے دی گئی اختیار کی آزادی کو نیکی کے راستے کی جانب موڑنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کی جدوجہد یعنی نظامِ حیات کی تبدیلی کی جدوجہد یا اقامتِ دین کی جدوجہد میں اپنا حصہ دامے درمے سخنے ڈالنا ہوگا۔ تب ہی ہم رمضان کے اصل فیوض و برکات کو سمیٹ سکیں گے، تب ہی رمضان ہمارے لیے باعث مغفرت ہوگا اور تب ہی ہمیں شیاطین زنجیروں میں قید نظر آئیں گے۔