یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’موجودہ زمانہ دُنیا کا ترقی یافتہ ترین اور حددرجہ مہذب عہد ہے‘، مگر یہ کیا کہ پندرہ ماہ تک آسمان سے آگ اور بارود برستا رہا، انسانی جسموں کے چیتھڑے اُڑتے رہے، مریضوں کی دوا اور شہریوں کے لیے خوراک، پانی اور چھت تک ناپید ہوگئے۔ بڑی اور کھلی جیل کے لاکھوں انسانوں پر موت، دن رات جھپٹتی رہی۔ دُنیا بھر کے انسان چیخ اُٹھے کہ ظلم بند کرو، مگر امریکی اور مغربی قیادتوں کی پشت پناہی درندہ صہیونیت کا راستہ روکنے کے بجائے وحشت کی سرپرستی کرتی رہی۔ فلسطین کا مسئلہ پاکستان کے لیے محض ایک بین الاقوامی معاملہ نہیں بلکہ دینی، اصولی اور قومی سلامتی کا معاملہ بھی ہے۔ جس طرح کشمیر، پاکستان کی ریاستی پالیسی کا ایک غیر متزلزل حصہ ہے اور اس پہ تاریخی طور پر مکمل قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور انڈیا نے اس پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، بالکل اسی طرح فلسطین کے حوالے سے بھی پاکستان کی ریاستی اور عوامی پالیسی بالکل واضح ہے۔
فلسطین، فلسطینیوں اور عربوں کی سرزمین ہے اور اسرائیل کا اس پر قبضہ سراسر ناجائز ہے۔ یہ مسئلہ تقریباً ۱۲۵ برسوں پر محیط ہے۔ فلسطینی عوام نہایت بہادری اور استقامت کے ساتھ قربانیاں دے رہے ہیں۔ انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے، اور پوری دنیا سے صہیونیوں کو لا کر وہاں آباد کیا جا رہا ہے، جو بہت بڑا ظلم اور انسانی تاریخ کا المیہ ہے۔
یہ معاملہ ۱۸۸۰ء کے عشرے میں اس وقت شروع ہوا جب یورپ کے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۸۹۷ء میں’صہیونی تحریک‘ کے آغاز کے بعد اس عمل میں تیزی آگئی، اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے محروم کر کے ان پر ظلم وجبر کیا جا رہا ہے۔یہ ظلم اور ناانصافی ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکتی۔ ہمارا فرض ہے کہ مسلمان،پاکستانی اور انصاف پسند انسان کی حیثیت سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں ہر ممکن اقدام کریں اور ان کے حق کے لیے آواز بلند کریں۔
۱۹۱۷ء کا ’اعلانِ بالفور‘ انسانی تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ ہے جس کے تحت یہودیوں اور صہیونیوں کو طاقت، دھونس اور جبر کے زور پر یہاں لا کے بسانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پھر اس شیطانی منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا۔ ازاں بعد ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل نے یک طرفہ طور پر اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، اور جب فلسطینیوں نے اس پر ردِ عمل کا اظہار کیا، تو انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔
آج کچھ لوگ تمام حقائق کی نفی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ’’اس معاملے میں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ حماس کے اقدامات پریشانی کا باعث بن رہے ہیں‘‘۔ یہ بات ہر خاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کا واقعہ کسی علیحدہ اور غیر متعلقہ عمل کا نتیجہ نہیں تھا۔ فلسطین کے اس المیے کی تاریخ۷؍ اکتوبر سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس وقت سے چلی آ رہی ہے جب فلسطینی سرزمین پر باہر سے لا کر لوگوں کو بسایا گیا اور پھر ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا، ہزاروں کو شہید کیا گیا، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ہوا، اور اسرائیل نے اسی وقت سے نسل کشی اور دہشت گردی کا آغاز کر دیا تھا۔
تب سے لے کر آج تک فلسطینی مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوان اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جہاں سے ان کی رہائی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ حالیہ جنگ بندی کے دوران ایسے قیدی رہا کیے گئے، جو۱۶،۲۰ یا ۲۵ سال بعد جیل سے باہر آئے۔ اگر حماس نے ۷؍ اکتوبر کا اقدام نہ کیا ہوتا، تو کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز دنیا تک پہنچتی؟ جب لاکھوں افراد کو جیل میں ڈال دیا جائے، غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ بنا دیا جائے، ان کے تعلیمی اور معاشی مواقع برباد کر دیے جائیں، ہر وقت ان پر نگرانی رکھی جائے، اور انھیں کسی قسم کی بھی طبّی امداد نہ پہنچنے دی جائے، تو ایسے حالات میں ہر غیرت مند، باضمیر اور ایمان رکھنے والا شخص مزاحمت کرے گا۔ یہی وہ حق ہے جو حماس نے استعمال کیا ہے۔
حماس کے اقدامات نہ صرف دینی اور شرعی لحاظ سے درست ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی بالکل جائز ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اگر کسی علاقے پر قابض قوت موجود ہو، تو اس کے خلاف مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ فلسطین پر نہ صرف غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے بلکہ قابض فوج مسلسل فلسطینیوں کو شہید کر رہی ہے۔
امریکا، جو خود کو عالمی انصاف اور جمہوریت کا چیمپئن کہتا ہے، وہ ہر جگہ اپنی مرضی کی حکومتیں چاہتا ہے۔ اسے وہ جمہوریت پسند نہیں آتی جس میں حماس الیکشن جیت جائے، اسے وہ جمہوریت پسند نہیں جہاں اخوان المسلمون کامیاب ہو، یا الجزائر میں اسلامی فرنٹ اکثریت حاصل کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا صرف ان آمریتوں اور حکومتوں کی حمایت کرتا ہے، جو اس کے مفادات کے مطابق ہوں۔جمہوریت کا جنازہ تو ہر اس موقعے پر نکل جاتا ہے جب اقوامِ متحدہ میں پوری دنیا کسی موقف پر کھڑی ہوتی ہے، اور امریکا اسے ویٹو کر کے اسرائیلی ظلم کی حمایت کرتا ہے۔
ہمیں امریکا سے جمہوریت اور انسانیت اور تہذیب کا سبق لینے کی ضرورت نہیں، اور نہ اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو دہشت گرد قرار دے۔خود امریکا کی تاریخ ظلم اور جبر سے بھری ہوئی ہے۔ اس کی بنیاد لاکھوں مقامی ریڈ انڈینز کی لاشوں پر رکھی گئی، افریقا سے غلام لا کر ان پر ظلم ڈھائے گئے، ویت نام پر حملے کیے گئے، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، عراق میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا گیا، اور پورے مشرق وسطیٰ ہی کو نہیں بلکہ دُنیا بھر کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا گیا۔
یہی امریکا، جو دنیا میں اپنی چھپی اور کھلی مداخلتوں، تخریب کاریوں اور جنگوں کے ذریعے انتشار پھیلاتا ہے، آج فلسطین کی مزاحمتی تحریک کو دہشت گرد کہتا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہر قوم کا حق ہے۔ درحقیقت، سب سے بڑا دہشت گرد امریکا خود ہے۔
حماس کی جدوجہد اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک عالمی سطح پر اس کی حمایت نہیں کی جاتی۔ ہمیں آدھا سچ نہیں بولنا چاہیے، بلکہ مکمل اور سچی تصویر دنیا کے سامنے رکھنی چاہیے۔ جب اسرائیل دہشت گردی کر رہا ہے، تو جو اس کے مقابلے میں کھڑا ہے، اس کی حمایت کیے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ بعض لوگوں کو اس سچائی کا سامنا کرنے میں خوف محسوس ہوتا ہے، شاید اس لیے کہ انھیں مختلف حلقوں کو جواب دینا پڑے گا۔ لیکن ہمیں مضبوطی سے اور کھلے الفاظ میں دنیا کے ایک ایک فرد تک یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے اور اسرائیل کو وہاں آباد کرنے کا پورا عمل ناجائز اور ناقابلِ قبول ہے۔
قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ سے لے کر آج تک ہماری ایک ہی پالیسی رہی ہے۔ایک انصاف پسند فرد کی حیثیت سے فلسطین پہ کوئی دو ریاستی نظریہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطین ایک ہی ریاست ہے، اور وہ آزاد فلسطین ریاست ہے۔ اسرائیل ایک ناجائز وجود ہے، اور ہم اسے تسلیم نہیں کرتے اور نہ اس کے ناجائز قبضے کو قبول کرنے کے لیے ریاستی وجود تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔
اگر کوئی غاصب زبردستی آپ کے گھر پر قبضہ کر لے، تو اس کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے۔ اس میں کبھی جنگ، کبھی جنگ بندی —ہوتی ہے، اور یہی حماس کر رہی ہے۔ یہ حق صرف انھی کو حاصل ہے کہ وہ جنگ بندی یا جنگ کا فیصلہ کریں، کیونکہ وہی لڑ رہے ہیں، باقی تو سب محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ محض عربوں یا عجمیوں کا نہیں، بلکہ یہ ہمارے عقیدے، ایمان، انسانیت اور ضمیر کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اسی طرح اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، جیسے ایک باضمیر قوم یا فرد حق اور انصاف کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
جو کچھ اسرائیل نے ۷؍ اکتوبر کے بعد کیا، اگر حماس اس کارروائی کے لیے نہ اٹھتی تو کیا ہوتا؟ چند ممالک پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے۔ نام نہاد ’ابراہیمی معاہدہ‘ مزید آگے بڑھ رہا تھا، اور یہاں پاکستان پر بھی اسے تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ کچھ دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیں پھر وہی گھسے پٹے لیکچر دیے جائیں گے کہ ’جنگ سے کیا حاصل ہوگا؟تشدد مسائل کا حل نہیں ، 'مذاکرات ہی بہترین راستہ ہیں‘، وغیرہ۔
اگر ایسا ہے، تو کیا آپ ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہونے کی پوری تاریخ کو مسترد کر دیں گے؟ کیا آپ امام حسینؓ کی شہادت پر بھی سوال اٹھائیں گے؟ کیا آپ غزوہ بدر پر بھی یہی کہیں گے کہ مسلمان تعداد میں کم تھے، ہتھیار بھی پورے نہیں تھے، وسائل بھی محدود تھے، تو کیوں میدان میں اُترے؟ مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور دعا کی اور اللہ نے حق کو فتح دی۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ جذبات میں آ کر سر پھوڑ لیا جائے، لیکن قرآن کا یہ فرمان برحق ہے کہ جتنی استطاعت ہو، اتنی قوت جمع کرو اور حق کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ۔ جب ایسا کیا جائے تو جھوٹ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، آخرکار ملیامیٹ ہو کر رہتا ہے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جو کچھ ہوا، اسے الگ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ وہ تاریخ کا ایک تسلسل ہے۔ اگر فلسطینی مزاحمت نہ کرتے تو کیا کرتے؟ ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے، ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں جیلوں میں قید ہیں، اور غزہ کے عوام بدترین محاصرے اور تباہ شدہ گھروں کے کھنڈرات پر کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ قریبی دولت مند اور طاقت ور عرب ممالک بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ تو ایسی صورتِ حال میں اگر وہ اپنی زندگی کا وجود منوانے کے لیے یہ قدم نہ اٹھاتے تو کیا کرتے؟
دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے زیرِ سایہ، دنیا کی پانچویں یا چھٹی سب سے طاقت ور فوج کے قائم کردہ ’آئرن ڈوم‘ اور انٹیلی جنس کے فعال نیٹ ورک کو ۷؍اکتوبر کے روز شکست ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل اسی دن ہار گیا تھا، جب اس کی فوجیں غزہ میں داخل ہوئیں، تو القسام بریگیڈ نے کھلی جیل کی سرحدوں پر ان کا استقبال کیا، اور اسرائیلی فوجی پسپا ہونے لگے جس کے نتیجے میں سٹپٹا کر اور بدحواسی و بدمستی میں اس نے نہتے شہریوں پر بمباری شروع کی،بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا، خیموں کو جلایا اور ہسپتالوں تک کو مریضوں ، ڈاکٹروں سمیت کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔
حالیہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اسرائیلی نشانے بازوں نے بچوں کو چُن چُن کر قتل کیا۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی مہذب دنیا کے اصول ہیں؟
ہمیں اس صورتِ حال میں واضح موقف اپنانا ہوگا: فلسطینیوں کی جدوجہد برحق ہے، اور جب تک اس مزاحمت کی حمایت نہیں کی جائے گی، انصاف کا قیام ممکن نہیں ہوگا۔یہ کس قدر ظالم لوگ ہیں کہ پورے ظلم کے ساتھ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، اور اس میں سب سے نمایاں کردار امریکا کا ہے، جو اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ جو بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں، انھیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک بڑے دہشت گرد کے حمایتی ہیں۔ ٹرمپ جس انداز میں گفتگو کر رہا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پراپرٹی ڈیلر بات کر رہا ہو —کہ فلسطینی نکل جائیں اور ہم یہ زمین خرید لیں۔ اس طرزِعمل اور طرزِ تکلم کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔
پہلے اَدوار میں یہ عالمی غنڈا ریاستیں اور حکمران بی بی سی، سی این این، اسکائی نیوز، اور فاکس جیسے نیوزچینلوں پہ خبروں کو کنٹرول کر لیتے تھے اور سچائی کو دنیا کے سامنے آنے سے روکتے تھے۔ عوام کے پاس وسائل نہیں ہوتے تھے کہ وہ حقائق جان سکیں، مگر اب سوشل میڈیا نے اس صورت حال کو بدل دیا ہے۔ اگرچہ اب بھی طاقت ور قوتیں سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود بڑے تلخ حقائق سامنے آرہے ہیں۔
ہم یہاں ’الجزیرہ نیٹ ورک‘ کی بے پناہ بہادری کو سراہتے ہیں، جس کے نامہ نگاروں نے جان کی بازی لگا کر دنیا کے سامنے حقائق پیش کیے۔ میں وائل الدحدوح کو کبھی نہیں بھلا سکتا، جس سے ہماری قطر میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اس کی بیوی شہید ہو گئی، اس کی بیٹی اور اس کے پانچ بھتیجے شہید ہو گئے، اس کے خاندان کے کئی افراد شہید ہو گئے، مگر وہ جنازے دفنانے کے بعد پھر ہیلمٹ پہن کر رپورٹنگ کرنے چلا جاتا تھا۔
یہی صحافتی غیرجانب داری ہے، یہی جرأت ہے، اور یہی حقائق کو دنیا کے سامنے لانے کی اصل قیمت ہے۔ آج درجنوں صحافی شہید ہو چکے ہیں، مگر افسوس کہ عالمی سطح پر اس پہ وہ مذمتی فضا نہیں بن سکی، جو بننی چاہیے تھی۔
حماس نے جانبازی سے جو قدم اٹھایا اور مسئلہ فلسطین کو دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ پہلے یہ مسئلہ پس منظر میں چلا گیا تھا، مگر آج یہ دنیا کا سب سے اہم موضوع بن چکا ہے۔ یہی وہ قربانیاں ہیں جنھوں نے ایشو کو نمایاں کیا ہے، اور ایسی قربانیاں اور جرأتیں ہی تاریخ کا دھارا بدل دیتی ہیں۔ بظاہر کچھ لوگوں کو ناکامی نظر آتی ہے، مگر درحقیقت، یہی کامیابی کی بنیاد رکھتی ہیں۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق، امریکا میں ۲۰ فی صد لوگ براہِ راست حماس کی حمایت کررہے ہیں۔ یہ وہ برکت ہے جو مزاحمت (resistance) کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ جب ظلم کے خلاف کھڑا ہوا جاتا ہے تو اس کے حامی خود بخود پیدا ہونے لگتے ہیں۔ کولمبیا یونی ورسٹی کے طلبہ نے، نیویارک میں، واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس کے باہر جو بڑے احتجاج کیے، اس میں ہررنگ ، نسل اور مذہب کے لوگ شامل تھے۔ یہ وہ مزاحمت ہے جس نے دنیا کے ہر باشعور انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ پیغام دبایا نہیں جا سکتا۔ اب ضرورت ہے کہ ہم ایک مضبوط قوت بن کر اُن طاقتوں کے خلاف کھڑے ہوں جو ایک نئی نسل کشی (genocide) کو جنم دینا چاہتی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں جو بیانات دیے ہیں، ان کی شدید مذمت ہونی چاہیے۔ پوری دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ وہ کھلے عام ایک نئی وحشت و درندگی کو دعوت دے رہا ہے۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے اور اسرائیلی دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
ہم پاکستان کے حکمرانوں کو بھی واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ چاہے امریکا کا دباؤ ہو یا کسی عرب ملک کا، ہم کسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی کوشش برداشت نہیں کریں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب کوئی نہ دیکھے۔ ہمیں کوئی بھی اپنی نام نہاد دانش کا درس نہ دے، ہمیں حقائق معلوم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہیں، وہ تاریخ کو کتنا جانتے ہیں، انھیں فلسطین کے مسئلے کا کتنا ادراک ہے۔ وہ تو کشمیر کے مسئلے سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر اتفاقِ رائے برقرار رہنا چاہیے، اور پاکستان کو وہ کردار ادا کرنا چاہیے جو مسلم دنیا کی قیادت کے لائق ہو۔ ساتھ ہی، غیر مسلم ممالک جیسے کہ جنوبی افریقہ، اسپین، آئرلینڈ —جو فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں، —ان سے روابط قائم کیے جائیں۔ پوری دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو ساتھ ملایا جائے، سفارتی سطح پر کام ہو، بین الاقوامی فورمز کو متحرک کیا جائے، اور انھیں مکمل تائیدوحمایت فراہم کی جائے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر دنیا میں معیشت ترقی کر سکتی ہے، معاہدے ہو سکتے ہیں، یا ابراہام اکارڈ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کر کے تعلقات بہتر کیے جا سکتے ہیں، تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا! جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، خطے میں استحکام ممکن نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جب سے اسرائیل وجود میں آیا ہے، اس نے پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ عرب ہوں یا عجم، سب کو اس معاملے پر مضبوط مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس صورتِ حال کو سراہتے ہیں کہ جو کہ حالیہ دنوں میں عرب ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے خلاف آواز بلند کی، لیکن محض بیانات کافی نہیں، عمل بھی دکھانا ہوگا۔
اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب، پاکستان، انڈونیشیا اور ملایشیا پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ ایک ملک کو دوسرے کے لیے اور دوسرے کو تیسرے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہمیں ان ممالک کی قیادتوں کو قائل کرنا ہوگا کہ یہ راستہ کامیابی کا راستہ نہیں، بلکہ تباہی کا راستہ ہے۔ اس وقت سب سے ضروری یہ بات ہے کہ پوری اسلامی تعاون تنظیم (OIC) متحد ہو، عرب ممالک کھڑے ہوں، اور اس سلسلے میں پاکستان اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ترکیہ، ایران، روس، چین، جنوبی افریقہ، اور یورپی یونین کو ساتھ ملایا جائے تاکہ یہ مسئلہ سفارتی اور سیاسی طور پر درست طریقے سے حل کیا جا سکے۔
غزہ اس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، اور اس کی تعمیرِ نو کی اشد ضرورت ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ جنگی نقصان (war reparations) اسرائیل اور امریکا ادا کریں۔ یہ امداد کے طور پر نہیں، بلکہ جنگی تاوان کے طور پر دیا جانا چاہیے!
فلسطین ہمارا ایمانی، انسانی، اسلامی اور اخلاقی معاملہ ہے، اور ہم کسی صورت اس سے دستبردار نہیں ہوں گے!