نام نہاد جمہوریہ انڈیا کی نسل پرست اور فسطائی حکومت نے تہذیب و شائستگی کی تمام حدوں کو پامال کرتے ہوئے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو حالیہ اقدامات کیے ہیں، انھوں نے انڈین سیکولرازم اور جمہوریت کے داغ دار چہرے کو اور زیادہ بے نقاب کر دیا ہے۔
کشمیر کے طول و عرض میں انڈین پولیس اور عسکری عہدے داروں کی نگرانی میں عملے نے درجنوں دکانوں پر چھاپے مار کر دینی و سماجی موضوعات پر بڑے پیمانے پہ کتب ضبط کرلی ہیں۔ اسی طرح کئی جگہوں پر جماعت اسلامی کے فعال کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہوئے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ یہ سب کارروائیاں انڈیا نے اپنے زیرانتظام کشمیر کے علاقے میں اختلاف رائےدبانے کے لیے کی ہیں۔
انڈیا کے اخبار دی وائر (۱۴فروری ۲۰۲۵ء) کے مطابق: ’’سری نگر کے سب سے بڑے کاروباری مرکز لال چوک میں کتب کے ایک تاجر کے بقول: جمعرات (۱۳ فروری) کو ساڑھے تین بجے پولیس کا ایک گروہ ہماری دکان پر آن دھمکا اور اس کے افسر نے کہا: بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا(BNSS) ۲۰۲۳ء کی دفعہ ۱۲۶ کے تحت ہم مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی کتب ضبط کریں گے، اور اس کے بعد کچھ کہے سنے بغیر دکان پر دھاوا بول دیا‘‘۔
روزنامہ گارجین لندن (۱۹فروری ۲۰۲۵ء) نے لکھا ہے: ’’سیّد مودودی بیسویں صدی کے جید عالم ہیں، جن کی تحریریں دُنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں۔ کتابوں کی دکانوں پر یہ چھاپے سری نگر سے شروع ہوئے اور پھر دوسرے بڑے چھوٹے قصبوں تک پھیل گئے۔ یہ کتب زیادہ تر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے شائع کی ہیں۔ جماعت اسلامی برصغیر (پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش، جموں و کشمیر) کی سب سے بڑی دینی و سیاسی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے‘‘۔
ڈان نیوز (۲۰ فروری) کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے قصبوں سے مولانا مودودی کی کتب ضبط کرتے ہوئے پولیس نے کہا: ’’ابوالاعلیٰ کی تمام کتابوں کو ہم اس لیے ضبط کر رہے ہیں کہ ان پر پابندی ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ اس ممنوعہ لٹریچر کی تشہیر اور گردش کو روکنے کے لیے ہم سخت جانچ اور عملی اقدامات کرتے ہوئے ان کتب کے خلاف سخت کارروائی کریں گے‘‘۔
یاد رہے فروری ۲۰۱۹ء میں نسل پرست اور دہشت گرد تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (RSS) کی تابع فرمان بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی عائد کردی تھی۔ پھر اسی سال ۵؍اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو مختلف انتظامی حصوں میں تقسیم کرکے جبروظلم کے تمام ریکارڈ مات کر دیئے تھے، جس کے بعد اس پورے علاقے میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں شدت آگئی تھی۔
مقبوضہ کشمیر کے مختلف رہنمائوں، اخبار نویسوں، وکیلوں، یونی ورسٹی استادوں، ادیبوں اور دانش وروں نے مولانا مودودی کی کتب کی ضبطی اور ان پر پابندی کو غیرمنصفانہ، غیرآئینی قدم اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس فسطائی حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ یہ کتب ایک سو سال سے نہ صرف انڈیا بلکہ پوری دُنیا میں شائع ہورہی ہیں اور پڑھی جارہی ہیں۔ انڈین حکومت کا یہ قدم غیر مہذبانہ اور غیرمنصفانہ ہے۔
اخبار دی وائر کے مطابق:جماعت اسلامی کا دفاع کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کی جماعت ’پیپلزڈیموکریٹک پارٹی‘ (PDP) کی لیڈر التجامفتی نے الزام لگایا: ’’کتابوں کی یہ ضبطی، مطالعے کی آزادی پر حملہ ہے‘‘۔ نیشنل کانفرنس (NC)کے رکن پارلیمنٹ آغا سیّد روح اللہ مہدی کے بقول: ’’یہ جموں و کشمیر کے عوام کے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔ جس کے تحت مولانا مودودیؒ کی کتب ضبط کرلی گئی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب [انڈین] ریاست کشمیریوں کو یہ بتائے گی کہ وہ کیا پڑھیں، کیا سیکھیں اور کس پر ایمان و یقین رکھیں؟ یہ ناقابلِ تصور ہے، اسے فوراً منسوخ کیا جائے‘‘۔
اخبار دی ہندو کے مطابق سیّد روح اللہ مہدی نے مزید (ٹویٹر) ’ایکس‘ پر لکھا: ’’ریاست [انڈیا] کی جانب سے کشمیریوں کو ہراساں کرنے سے باز رہنا چاہیے اور ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت بند کرنی چاہیے ،کیونکہ اس غیر ذمہ دارانہ اقدام کی بھاری قیمت چکانا ہوگی‘‘۔
میرواعظ عمرفاروق نے اس کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اسلامی لٹریچر پر حکومت کا یہ کریک ڈائون نہایت قابلِ مذمت، حددرجہ افسوس ناک اور سخت مضحکہ خیز فعل ہے۔ اس طرح کتابوں کو ضبط کرکے اور خیالات پر پہرے بٹھا کر دھونس جمانا قطعی طور پر ایک بے معنی عمل ہے، خاص طور پر ایسے زمانے میں، جب کہ معلومات ’ورچول ہائی ویز‘ سے دُنیا بھر میں آسانی سے دستیاب ہیں‘‘۔ ’الجزیرہ‘ نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق: ’’عمر فاروق نے مزید کہا: ’’ضبط کی گئی کتابیں قانونی طور پر نئی دہلی سے شائع ہورہی ہیں اور جب پورے خطّے میں کتابوں کی دکانوں پر فروخت ہورہی ہیں تو ان پر کشمیر ہی میں پابندی کیوں؟‘‘
روزنامہ نوائے وقت کے مطابق ’’شمیم احمد نے کہا ہے: ’’مولانا مودودی کی یہ کتب لوگوں کے اخلاق سنوارنے اور ذمہ دار شہری بننے کی تعلیم دیتی ہیں۔ ان پر کریک ڈائون کرنا، ایک ناقابلِ فہم اور غیرمنطقی قدم ہے‘‘۔
اس افسوس ناک انڈین قدم پر وزارتِ خارجہ پاکستان کے ترجمان شفقت علی خاں نے کہا ہے: ’’یہ عمل اختلاف رائے کو کچلنے اور مقامی لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے مسلسل اقدامات کی کڑی ہے۔ اپنی پسند کی کتب پڑھنے کی آزادی کشمیریوں کا حق ہے‘‘۔
مولانا مودودی کی کتب کے ساتھ سیّد علی گیلانی مرحوم کی کتب بھی ضبط کی گئی ہیں۔ اس پابندی اور ضبطی کے افسوس ناک واقعے کے علاوہ جو دوسرا حددرجہ اذیت ناک قدم مودی حکومت نے اُٹھایا ہے، وہ یہ کہ ۱۴فروری کو سیّد علی گیلانی مرحوم و مغفور کی رہائش گاہ میں ان کے ذاتی کمرے کو سربمہر کردیا گیا ہے، اور ان کے ذاتی کاغذات، مسودات ، خطوط اور ڈائریاں وغیرہ قبضے میں لے لی ہیں۔ یہ کارروائی اُس وقت کی گئی جب محترم گیلانی صاحب کی اہلیہ اپنی بیٹی سے ملنے نئی دہلی گئی ہوئی تھیں۔ یہ اقدام گھر کے کسی فرد کے نوٹس میں لائے اور اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔ یہ تمام واقعات دُنیا بھر کے اہلِ دانش کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔