اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں زندگی، ایمان اور صحت کی حالت میں ایک دفعہ پھر رمضان گزارنے کی سعادت عطا کی، جوکہ ہمارے گناہوں کی مغفرت اور جنت کے حصول کے ساتھ ہماری تربیت کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کی مہلتِ عمل اس رمضان کی آمد سے پہلے ہی ختم ہو گئی اور وہ زندگی کے سفر کے اگلے مرحلے میں داخل ہو گئے، جہاں اب اپنے اعمال کے ذریعے مغفرت اور بلندیٔ درجات کا موقع ختم ہو گیا۔ البتہ صدقۂ جاریہ کے کاموں اور اولاد کی دعاؤں کے فیض سے اجر کا ایک راستہ باقی رہ گیا۔
رمضان کی فرضیت، فضیلت اور مقاصد کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمھیں بتایا جا رہا ہے تاکہ روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات تم انھیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پا لیں‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۸۵- ۱۸۶)
اب جب ہم نے رمضان کو پا لیا تو ہم پر اس ماہ کے تمام روزے رکھنا فرض ہوگئے۔ کتنا رحیم ہے وہ پروردگار جس نے فرضیت کے حکم کے ساتھ ہماری کمزوریوں اور مجبوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس میں استثنیٰ بھی عطا فرما دیا، یعنی بیماری یا حالتِ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت۔ البتہ عذر دور ہونے کے بعد ان روزوں کی تعداد بصورتِ قضا پوری کرنا ہوگی۔ مرض میں رخصت سے مراد کسی قسم کا دائمی مرض بھی ہے جیسے ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور گردوں کے امراض وغیرہ، اور انتہائی شدید مرض جیسے کینسر یا ہیپیٹائٹس و دیگر، یا معمولی تکلیف جیسے بخار ہو جانا اور ڈائریا و ہیضہ وغیرہ ہوجانا۔ نیز خواتین کے لیے حمل کی صورت میں، جب کہ خاتون یا بچے کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو، اور رضاعت کے دوران بھی اگر بچے کا محض ماں کے دودھ پر انحصار ہو اور ماں بھوک پیاس برداشت نہ کر پائے تو اسے اس شرعی عذر سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے۔ اگر کسی بھی قسم کا شرعی عذر دور ہو جائے تو ان روزوں کی قضا لازم ہوگی اور ماہانہ مخصوص ایّام میں چھوڑے گئے روزوں کی بھی قضا ہوگی۔ دائمی مرض کی صورت میں فدیہ دینا ہوگا اور وقتی عذر کی صورت میں فدیہ لازم نہیں، لیکن دے دینا افضل ہوگا کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں، کیا معلوم قضا رکھنے کی مہلت ہی نہ ملے۔ یہ تمام آسانیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب ہیں جو اپنے احکام کے ذریعے ہمیں تکلیف اور مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ مغفرت اور اجر عطا کرنا چاہتا ہے۔
رمضان کی فضیلت کی وجہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں قرآن کے نزول کو قرار دیتے ہوئے اس ہدایت عظمیٰ پر شکر گزار ہونے کی تاکید کی ہے۔ دورانِ رمضان ہرروز اپنی نیت کو تازہ کریں، اپنے عزم کو پختہ کریں کہ رمضان کی اہمیت، فضیلت، پیغام اور مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے معمولات کو ترتیب دوں گی اور روزوں کے مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کروں گی۔
اس ماہ مبارک میں ہمیں جس چیز کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا ہے وہ قرآن مجید کی صحبت اور معیّت ہے۔ تلاوت و سماعتِ ترجمہ و تفسیر دورۂ قرآن اور قیام اللیل کے ذریعے قرآن کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ضروری ہے۔ تلاوت کی مقدار کے حوالے سے تراویح کے ذریعے ایک پارہ روزانہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر دورۂ قرآن کی محفل میں شرکت ممکن نہ ہو تو واٹس ایپ پر ترجمہ و تفسیر کے گروپ میں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ناظرہ قرآن پڑھتے وقت کم از کم ایک رکوع کا ترجمہ ہی سمجھ کر پڑھ لیا جائے اور رفتہ رفتہ ترجمے کو بعد از رمضان مکمل کر لیں۔ اگر کسی جگہ خواتین کی تراویح کا اہتمام ہو تو ضرورشرکت کی کوشش کریں۔ بصورتِ دیگر گھر میں ہی تراویح پڑھیں۔ ایسی صورت میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ دیگر اوقات میں بھی فون، کمپیوٹر، ٹیبلٹ وغیرہ پر بہترین قراء حضرات کی تلاوت سنی جا سکتی ہے۔
ایک حدیثِ رسولؐ میں روزے کو ہمدردی کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے جس میں کسی روزہ دار کو افطار کروانے کے جو ذرائع بھی میسر ہوں اجر کا باعث بتائے گئے ہیں، خواہ ایک کھجور، دودھ ، لسی اور پانی کا ایک گھونٹ ہی ہو۔ البتہ اپنے وسائل کے مطابق مستحق روزہ داروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کا اہتمام ضرور کریں کہ اس کا اجر قیامت کے دن حوضِ کوثر سے سیرابی ہے۔ مستحق اور سائل کو گھر سے بھی اناج، پھل اور دیگر چیزیں دی جا سکتی ہیں۔ عید کے حوالے سے بھی خاندان میں محروم افراد یا دیگر کے لیے کپڑوں جوتوں وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ فرائض کے ستّر گنا اجر کی بنیاد پر اکثر لوگ ترجیحاً رمضان میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ اپنے پاس موجود سونے کے زیورات، جائیداد یا جمع شدہ رقم پر اہتمام کے ساتھ تعین کر کے اپنی زکوٰۃ ادا کریں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کی ذاتی ملکیت (زیورات، جائیداد و نقد رقوم) پر شوہر کے لیے زکوٰۃ دینا لازم نہیں۔ یہ شوہر کا حُسنِ سلوک ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے زکوٰۃ ادا کر دے۔ چنانچہ اگر شوہر کے لیے ممکن نہ ہو تو اپنی زکوٰۃ ادا کرنا ایک خاتون کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ کا کوئی ذریعۂ آمدنی نہ ہو تو اپنے زیورات میں سے بیچ کر ادا کریں۔ کیونکہ اس معاملے میں لاپرواہی آخرت میں بہت بڑے عذاب سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں زکوٰۃ کے احکام کو رمضان سے پہلے یا دورانِ رمضان پڑھنے اور سمجھنے کی ضرور کوشش کریں۔
آغازمیں بیان کردہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن اور رمضان کے ساتھ دعاؤں کے خصوصی تعلق کا ذکر کیا ہے۔ دعا درحقیقت ذکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ذکر کی اگرچہ قلبی، قولی اور عملی صورتیں بھی ہوتی ہیں لیکن رمضان المبارک میں آپ کو چاہیے کہ خصوصی طور پر زبان سے ذکر کا اہتمام کریں۔ کلمۂ شہادت، تیسرا اور چوتھا کلمہ، استغفار کے مختلف کلمات، صبح و شام کے اذکارو دیگر انتہائی توجہ اور یکسوئی سے ادا کریں۔ رمضان کی راتوں میں روزہ افطار کے وقت بلکہ سارا دن ہی توجہ اور یقین کے ساتھ اپنے مسائل، پریشانیوں، نعمتوں کے حصول اور مغفرت کی دعائیں مانگیں۔ اپنے ملک کی فلاح، خوش حالی اور استحکام کے ساتھ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بھی دُعا کریں۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ عرش کے حامل فرشتوں کو بھی کہتے ہیں کہ وہ دعا کرنے والوں کی دعا پر آمین کہیں۔ اور حدیث مبارکہ میں افطار کے وقت دعاؤں کی قبولیت کو بھی لازم بتایا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے، اور جس نے رمضان میں راتوں کو قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے، اور جس نے شب قدر میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔ (متفق علیہ)
اس حدیث مبارکہ میں رمضان کے روزوں، قیام اللیل یعنی تراویح اور شب ِقدر کی عبادت کے اجر میں گذشتہ گناہوں کی معافی کا زبردست پیکج دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی تینوں مراحل میں ایمان اور احتساب کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس شرط سے مقصود اللہ تعالیٰ پر ایمان، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بحیثیت رہبر اور راہنما ایمان، آخرت کے مراحل اور جواب دہی پر ایمان کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونے کی نیت اور کوشش کرنا ہے۔ دوسری اہم بات ایمانیات، اخلاقیات اور معاملات کے حوالے سے اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہے کہ کیا مطلوب ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ مجموعی طور پر ہم اپنی زندگی اور روزمرہ کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک، رازق تسلیم کرتے ہوئے اپنے عمل میں ان صفات میں کتنی مطابقت قائم کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کو رحیم، رحمان، شفیق، غفور، حلیم سمجھتے ہوئے اپنے گناہوں اور غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے کس طرح آہ وزاری سے استغفار کرتے ہیں؟ اور ان صفات کو انسانوں سے معاملات میں کس حد تک اپنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے آخرت کے تمام مراحل، میدانِ حشر کی حاضری اور جواب دہی، میزانِ اعمال، نامۂ اعمال، پل صراط اور شفاعتِ رسولؐ کو اپنے ذہن میں مستحضر رکھنے اور ان مراحل کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کی کتنی فکر اور عملی کوشش کرتے ہیں؟
احتساب کا عمل ایمانیات کے بعد ہمارے اخلاق اور معاملات سے متعلق ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہے کہ ہم اخلاقی معیار سے فضائلِ اخلاق سے کتنا قریب اور رزائل اخلاق سے کتنا دُور ہیں؟ سچائی، قناعت، حیا، امانت داری، ایفائے عہد، ہمدردی، ایثار و قربانی، بہادری اور بُردباری کا ہماری زندگیوں میں کتنا عمل دخل ہے؟ کہیں جھوٹ، غیبت، چغلی، عیب جوئی، خیانت، وعدہ خلافی وغیرہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے عمل کا حصہ تو نہیں؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اخلاق کی بہتری کی دعا کرتے ہوئے برے اخلاق کو دور کرنے اور اچھے اخلاق کو اختیار کرنے کی شعوری کوشش کریں۔
معاملات کے حوالے سے اپنے تمام رشتوں بحیثیت بیٹی، بہن، ماں، ساس، بہو، نند، بھابی، خالہ، پھوپھی اور دیگر میں دیکھیں کہ اپنے فرائض کی ادائیگی پر میری کتنی نظر اور کتنی کوشش ہے؟ محض حقوق طلب کرنا اور فرائض کی عدم ادائیگی معاشرت میں حسن پیدا نہیں کر سکتی۔ آپ کے حقوق کسی نے ادا نہ کیے تو اُس سے بازپُرس ہوگی، جب کہ آپ کو اپنے فرائض کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی۔ رزق حلال کے بارے میں محتاط رہیں۔ اس حوالے سے اپنے شوہر کی بھی مدد کریں اور ان کی استطاعت سے زیادہ مالی وسائل طلب نہ کریں۔ احتساب کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرماتے ہوئے کہ میں تمھاری پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں یہ بھی فرمایا کہ پھر میری بات کو بھی سنو اور مجھ پر ایمان لاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو دل سے قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔
اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کی عبادات بذات خود مقصود نہیں ہیں، بلکہ یہ ہمہ وقت اللہ کی رضا اور تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ہرسال رمضان کا مہینہ جو پوری امت کو سال کے ایک ہی دورانیہ میں گزارنا ہے، مسلمانوں کے لیے ایک تازگیِ ایمان و عمل کی تربیت گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ چنانچہ اس سے انھی فوائد کا حصول مطلوب ہے جو تربیت کا حاصل ہونے چاہئیں۔
اس تربیت گاہ سے گزرنے کے بعد اولاد کو چاہیے کہ والدین کا ماتھا چومے اور انھیں بتائے کہ وہ ان کی تمام محبتوں اور خدمات کے شکر گزار ہیں اور ان سے محبت کا اظہار کریں۔ شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کا شکریہ ادا کرے کہ اس نے تمام گھر والوں کے لیے کھانا پکانے، صفائی ستھرائی اور بچوں کی تربیت میں کتنی محنت کی ہے۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی شکر گزار ہو کہ وہ دن بھر مصروفِ عمل رہ کر بیوی بچوں اور والدین کے لیے وسائل زندگی مہیا کرتا ہے اور گھر والوں سے محبت و شفقت کا برتاؤ کرتا ہے۔ اس تربیت گاہ سے گزرنے والا فرد اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب سے کسی تکلیف پہنچانے پر تہ دل سے معافی بھی مانگ سکتا ہے، اور اپنے ملازمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنھوں نے اپنی خدمات سے انھیں سہولیات باہم پہنچائیں ان کی تواضع اور دلجوئی کرسکتا ہے۔ والدین اس تربیت گاہ سے گزرنے کے بعد اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے اور ان کی زندگی میں بڑے بڑے خوابوں کی تکمیل کے لیے عملی تعاون فراہم کرنے اور ان کی بہتر سے بہتر اخلاقی، معاشرتی اور روحانی تربیت پر توجہ دینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ رمضان کے اختتام پر ہم رُک کر ضرور سوچیں کہ ہم نے اس تربیت گاہ سے کیا کیا فوائد حاصل کیے؟
ان مختصر گزارشات کے ساتھ یہ عرض کرنا ہے کہ اپنی مصروفیات اور اپنے مشاغل میں ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے یہ ماہ مبارک گزاریں۔ بچوں اور بوڑھوں کے کام کو مشقت نہ سمجھیں۔ ان کے حوالے سے فرائض کی ادائیگی پر ستّر گنا اجر کی نوید ہے۔ بےجا خریداری سے گریز کریں اور وسائل سے محروم افراد پر خرچ کریں۔ اپنے کاموں اور نیند کے اوقات میں اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔ روزے کو ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے بہلانے کے بجائے ایک ایک لمحے کو بامقصد گزارنے کی کوشش کریں۔ رمضان، نماز اور زکوٰۃ کےمتفرق مسائل جاننے کے لیے متعلقہ کتب کا مطالعہ کریں یا اہلِ علم سے معلوم کریں۔ سحری اور افطاری میں سادگی اختیار کریں، البتہ گھر والوں کی بنیادی غذائی ضروریات کا خاص خیال رکھیں۔ بچوں کو رمضان کے فضائل بتاتے ہوئے انھیں اپنی عمر کے لحاظ سے مختلف نیکیوں کی ترغیب دلائیں۔ اس ماہ میں ان کی روحانی اور دینی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ روزے کو وجہ بناتے ہوئے غصے سے پرہیز کریں۔ اگر آپ ملازمت کرتی ہیں تو اپنی ڈیوٹی اور فرائض کو بخوبی انجام دیں۔ ملازمین کو روزے میں سہولت دیتے ہوئے ان کے کاموں میں کچھ تخفیف کر دیں۔
اگر حالات اجازت دیں تو کم از کم زندگی میں ایک دفعہ آخری عشرہ میں مسنون اعتکاف کریں، بصورتِ دیگر دوران رمضان کسی بھی وقت ایک، دو یا تین دن کا نفلی اعتکاف کریں۔ رمضان کے آخر میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے کفارے کے لیے دل کی خوشی سے صدقۂ فطر ادا کریں۔ یکم شوال کی رات لیلۃ الجائزہ میں مختصر سی عبادت کے ساتھ اپنے اجر کی وصولیابی کے لیے خصوصی دعا کریں، کیونکہ نبی آخر الزماںصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس رات میں مزدور کو اس کی مزدوری کی اُجرت دی جاتی ہے۔ ممکن ہو تو عید کی نماز کے لیے مسجد جانے کی کوشش کریں۔ آپؐ نے خواتین کو بھی عید کی نماز میں شرکت کی خصوصی تاکید فرمائی ہے۔
عید کے دن گھر والوں، رشتہ داروں اور احباب کی حسب ِاستطاعت خاطر مدارت کریں۔ شوہر، بچوں، والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں کو بھی تحائف دینے کا اہتمام کریں۔ بچوں کے لیے عید کے معمولات میں دلچسپی پیدا کریں تاکہ وہ اپنے تہواروں پر خوشی و فرحت محسوس کریں۔ عید کے دن یا بعد کے دنوں میں بچوں کے دوستوں کو اکٹھا کر کے ایک پارٹی کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان خوش قسمت افراد میں شامل کرے جن کے لیے رمضان میں مغفرت کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رمضان کے بعد ہمیں اپنی تربیت سے حاصل کردہ تقویٰ، شکر گزاری اور عبادتوں پر قائم و دائم رکھے، آمین!