مارچ ۲۰۲۵

فہرست مضامین

قرآن سے غفلت کا انجام

پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق | مارچ ۲۰۲۵ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

دنیا میں ہر چیز کا مقصد اور اس کے استعمال کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ جب ہمیں کسی مشین کے بارے میں معلومات نہ ہوں تو کسی جاننے والے سے اس کا مقصد اور طریقۂ استعمال معلوم کرلیتے ہیں یا اس کی ’عملی ہدایات‘(Operation Manual) سے اسے سمجھ لیتے ہیں، جواس کے بناے والے نے اس میں بیان کیا ہوتا ہے۔

ہمیں اپنے جسم کےہر عضو مثلاً ہاتھ پاؤں، آنکھ اور زبان وغیرہ کا مقصد اور استعمال معلوم ہے، لیکن جب ہم سے یہ سوال کیا جائے کہ بحیثیت انسان ہماری زندگی کا مقصد اورطریقہ کیا ہے؟ تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب جاننے کے لیے ہمیں اپنےبنانے والے (خالق) کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہماری تخلیق کا مقصد اورزندگی گزارنے کے طریقے کے لیے ’عملی ہدایت‘ (Operation Manual) قرآن کی صورت میں عطا کی ہے اوراس کا پورا عملی نقشہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ انسانوں کی ضرورت بھی ہے اور اللہ کا بہت بڑا کرم بھی کہ مقصدِ حیات اور طریقۂ زندگی معلوم کرنے کے لیے انھیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑا گیا ۔

ڈاکٹر بننے کے لیے ہر شخص کو چند مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ سکول اور کالج میں تقریباً سوکتابیں پڑھتا ہے اور اچھے نمبر لے کر میڈکل کالج میں داخل ہوتا ہے،جہاں وہ مختلف مضامین کی کم ازکم مزیدبیس کتابیں پڑھتا ہے ، ان کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تاکہ امتحان میں صحیح جوابات دے کر پاس ہو سکے۔اگر وہ کسی کتاب کے بارے میں ممتحن کو یہ کہہ دے کہ میں نے پڑھی ہے بلکہ مجھے ساری کتاب زبانی یاد ہے (یعنی اسےحفظ کیاہے) لیکن مجھے اس کی سمجھ نہیں ہے ،تو کیا ممتحن اسے پاس کرے گا؟ وہ یقیناً فیل ہوگا اور وہ ڈاکٹر بننے کا حق دار نہیں ہوگا۔

 اگر اس طالب علم کی طرح اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ہم سے یہ پوچھ لیا کہ ’’جوکتاب میں نے تمھارے لیے بھیجی تھی کیاتم نے پڑھی ہے ؟‘‘ اوراس وقت ہمارا جواب یہ ہو کہ ’’پڑھی ہے،بلکہ حفظ بھی کیاہے لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں کہ اس میں کیا لکھا تھا‘‘، تو کیا اس جواب کے ذریعے ہم آخرت کے امتحان میں پاس ہونے کے حق دار ہوسکتے ہیں ؟ اللہ ہمیں اس حالت سے محفوظ رکھے اور قرآن کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کیوں کہ آخرت میں تو سپلیمنٹری امتحان بھی نہیں ہوگا! قرآن ہماری کتابِ زندگی ہے، یہی ہماری رہنما ہے،اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہوگا۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’میرے پاس جبرئیلؑ آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ؐ! آپؐ کی امت آپؐ کے بعد اختلافات میں پڑجائے گی۔ میں نے پوچھا کہ جبرئیلؑ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ’قرآن کریم اسی کے ذریعے اللہ ہر ظالم کو تہس نہس کرے گا، جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ یہ بات انھوں نے دو مرتبہ کہی‘‘ (متفق علیہ)۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے برحق فرمایا تھا:’’ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزّت بخشی،اگر ہم نےعزت کو اسلام کے علاوہ کسی اور نظام میں تلاش کیا تو اللہ ہم کو ذلیل کر دے گا‘‘۔ اگر ہم پھر سے دنیا میں ایک اعلیٰ مقام اور غلبہ چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کی طرف پلٹنا ہوگا، اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

بدقسمتی سے آج عملی زندگی میں قرآن ہمارا راہ نما نہیں ۔نتیجتاًمسلمان مذہبی فرقہ واریت اور تعصب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ نظامِ زندگی کے لیے قرآن کی بجائے عملاً دوسروں کو رہنمابنا لیا ہے۔ ہمیں قرآن کی اہمیت اور افادیت کا صحیح ادراک ہی نہیں ہے، اس لیےاوروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

قرآن کا مقصد

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا مقصد خود ہی بیان فرما دیا ہے: وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۵۵ (الانعام۶:۱۵۵) ’’اور یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیروبرکت والی، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحم ہو‘‘۔

 اور سورۂ صٓ میں فرمایا:كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹ (صٓ  ۳۸:۲۹) ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ!) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘۔

یعنی قرآن برکت والی ایسی کتاب ہے جس کا مقصد اس کی پیروی کرنا ہے اور یہ سمجھ اور غورو فکرکے بغیر نہیں ہوسکتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصدبھی قرآن کی تعلیم دینا اوراس کے ذریعے لوگوں کا تزکیہ کرناہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۲۹ (البقرہ ۲:۱۲۹) ’’اے ہمارے پروردگار ان میں ایک پیغمبر انھی میں سے بھیج، (جو) انھیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور انھیں کتاب (الٰہی) اور دانائی کی تعلیم دے اور انھیں پاک (وصاف) کرے، یقیناً تو تو بڑا زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے ‘‘۔

سورۃ الرحمٰن سے اس کتاب کی عظمت کا اندازہ لگائیں، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلرَّحْمٰنُ۝۱ۙ  عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۝۲ۭ  خَلَقَ الْاِنْسَانَ۝۳ۙ  عَلَّمَہُ الْبَيَانَ۝۴ (الرحمٰن ۵۵:۱-۴) ’’وہ رحمٰن ہے،اس نےقرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا‘‘۔ذرا تصور کریں کہ یہ کتا ب براہِ راست ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اللہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معلّم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معلّم ہیں ، تو کیااس کتاب کے علاوہ کوئی دوسری کتاب ہماری اولین ترجیح کی مستحق ہو سکتی ہے؟

ہماری موجودہ حالت

 آج اُمت کا عمومی رویہ معاذاللہ ایسا لگتا ہے، جیسے یہودیوں کا تورات کے بارے میں تھا۔ سورۂ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْہَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا۝۰ۭ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۵ (الجمعہ ۶۲:۵) ’’جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انھوں نے اس کا بار نہ اُٹھایا ، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے، ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي، أَوْ سَيَكُونُ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ  يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ  هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ (سنن ابن ماجہ)’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے گلوں سے آگے نہیں بڑھے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور میں سے گزر جاتا ہے، پھر وہ (دین میں ) واپس نہیں آئیں گے۔ وہ تمام مخلوقات میں سے بدترین افراد ہوں گے‘‘___ قرآن حلق (گلے) سے آگے نہ گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر قرآن کا اثر نہیں ہو گا یا ان کے دل قرآن مجید کو سمجھنے سے عاری ہوں گے۔ہمیں انتہائی سنجیدگی سےسوچنا ہوگا کہ آج ہماری حالت رسولؐ اللہ کی اس حدیث کے مصداق تو نہیں ہے؟

کیا قرآن سیکھنا فرض ہـے؟

قرآن سیکھنے سے کوئی مسلمان انکارنہیں کرتا، لیکن وہ اسے بس ثواب کا کام سمجھتا ہے۔ عام طور پر یہ فہم و احساس کم ہی ہے کہ قرآن سیکھنا کتنا اہم فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۝۰ۭ (القصص ۲۸:۸۵) ’’اے نبیؐ! ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمھیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے‘‘۔ یعنی اس قرآن کو خلقِ خدا تک پہنچانے اور اس کی تعلیم دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق دنیا کی اصلاح کرنے کی ذمہ داری تم پر ڈالی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورئہ زخرف میں ارشادفرمایا:فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ ۝۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۴۳ وَاِنَّہٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۝۰ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۝۴۴ (زخرف۴۳:۴۳-۴۴) ’’(اےپیغمبرؐ!) تم اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے۔ یقینا تم سیدھے راستے پر ہو۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم سےاس کی بابت باز پُرس ہو گی‘‘۔

 یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کرنے کے بعد مسلمانوں کو اس کی جوابدہی کا مسٔول بنایا۔ انسان کسی کتاب کے بارے میں تب ہی مسؤل ہو سکتا ہے، جب اسے معلوم ہو کہ اس کتاب میں میرے لیے کیا احکام ہیں جن کا میں نے حساب دیناہے۔پس، جس طرح اللہ نے مسلمانوں کے لیے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ فرض کیے ہیں، جن کی ادائیگی اس وقت تک صحیح طور پر نہیں ہو سکتی جب تک ان کے بارے میں احکام کی بنیادی تفصیلات معلوم نہ ہوں۔اسی طرح زندگی گزارنے کے لیے قرآن کے بنیادی احکامات کو سیکھنا ، ماننا اور اس پر عمل کرنا بھی فرائض میں سے ہے اور یہی قرآن کی فرضیت ہے، لیکن یہ احساس کم ہی ہے کہ قر آن سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ویسے ہی فرض ہے جیسے نماز اور روزہ فرض ہے۔

قرآن نہ سمجھنے/چھوڑنے والوں کا انجام!

  • روز محشر اندھا اُٹھایا جانا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴  قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا۝۱۲۵  قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴- ۱۲۶) ’’اور جو میرے ’ذکر ‘ (قرآن) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ‘‘۔ وہ کہے گا ’’ پروردگار ، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ‘‘ ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو ،جب کہ وہ تیرےپاس آئی تھیں، تُو نے بھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جارہا ہے‘‘۔
  • قرآن چھوڑ نے والوں کے خلاف رسولؐ  اللہ  کی گواہی : سورئہ فرقان میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝۳۰ (الفرقان ۲۵:۳۰)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا ترجمہ یوں بیان فرمایا ہے: ’’اس روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: اے میرے پروردگار اس قوم نے اس قرآن کریم کو ، جو واجب العمل اور واجب الاعتقاد تھا، بالکل نظر انداز کر رکھا تھا کہ اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتے تھے اس پر عمل تو درکنار(تفسیر ابن عباس)۔ اور ابن کثیرؒ نے تشریح میں لکھا ہے کہ روزِ محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی اُمت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ ان لوگوں نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا،یعنی اسے سمجھتے نہ تھے اور اس پر عمل نہ کرتے تھے،بلکہ اس کے سوا اور کلاموں سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے۔ یہی اسے چھوڑ دینا ہے۔
  • اللہ کا انتقام:اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی گناہ کے ارتکاب کے بارے میں خود انتقام لینے کا ذکر کم ہی کیا ہے، لیکن قرآن کو پسِ پشت ڈالنے پر فرمایا: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا۝۰ۭ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ۝۲۲(السجدہ ۳۲: ۲۲) ’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے۔ ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے‘‘۔

دنیا میں شیطان سے قربت اور گہری دوستی

وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَہٗ شَيْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِيْنٌ۝۳۶ وَاِنَّہُمْ لَيَصُدُّوْنَہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۳۷ (الزخرف ۴۳:۳۶-۳۷) جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔

شیطان کا اصل اور بنیادی ہتھیار یہ ہے کہ دنیا کو خوشنما بنا کر پیش کرے تاکہ انسان دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگے۔ شیطان انھیں راہِ حق پر چلنے سے روک دیتا ہے،فسق وفجور کا خوگر بنا لیتا ہے،دنیا کی ہوس ان کے دلوں میں یوں بھڑکا دیتا ہے کہ وہ ساری قوم کا خون چوسنے کے باوجود تشنۂ لب دکھائی دیتے ہیں۔ ان تمام کھلی گمراہیوں کے باوجود وہ اپنے بارے میں بڑا حسن ظن رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں بس وہی صحیح ہے۔ شیطان کے اس بہکاوے کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے:قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاُزَيِّنَنَّ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۳۹ۙ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِيْنَ۝۴۰(الحجر۱۵: ۳۹-۴۰) ’’وہ (شیطان)بولا :اے رَبّ! اس وجہ سے کہ تو نے مجھے بھٹکا دیا ہے، میں ان کے لیے زمین میں (برے کاموں کو) ضرور خوشنما بنادوں گا ، اور میں ضرور گمراہ کروں گا ان سب کو، سوائےتیرےان بندوں کے جنھیں ان میں سے  چُن لیا گیاہے‘‘۔ اور اکثر لوگوں کی حالت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مصداق ہو جاتی ہے: قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا۝۱۰۳ۭ اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱۰۴ (الکہف ۱۸: ۱۰۳-۱۰۴) ’’اے محمدؐ، ان سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن حکیم سے اعراض پر قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے۔ ان آیات کے بارے میں ہم پوری سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ قیامت کے دن:

  • ہم اندھے اٹھائے جائیں ؟ اور اللہ کو ہماری کوئی پروا نہ ہو؟
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے خلاف اللہ کے دربار میں گواہی دیں؟
  • قرآن کو نظر انداز کرنے کی پاداش میں اللہ ہم سے انتقام لے؟
  •  دنیا میں ہر وقت شیطان ہمارا قریبی اور گہرا ساتھی بنا رہے؟

یقیناً ہر مسلمان اس کا جواب نفی ہی میں دے گا۔ پس ہمیں سنجیدگی سے قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا کیوں کہ خود رب العالمین ہم سے کہہ رہا ہے کہ یہ نہیں کرو گے تو پھر بیان کردہ انجام کے لیے تیار رہو۔ ہم میں سے ہر ایک کو انفرادی اور اجتماعی طور پر موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ قرآن کو پڑھنا، سمجھنا،اس پرانفرادی اور اجتماعی زندگی میں عمل کی کوشش کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہی ہماری دنیوی اور اُخروی کامیابی کی شاہ کلید ہے :

گر تو می خواہی مسلماں  زیستن 

نیست ممکن جز  بقرآن  زیستن

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف