مارچ ۲۰۲۵

فہرست مضامین

رمضان: تزکیہ، تربیت اور خود احتسابی

ایس امین الحسن | مارچ ۲۰۲۵ | استقبال رمضان

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اس انداز میں فرمائی ہے کہ اس کے اندر ہمیشہ خیر اور شر کی کش مکش جاری رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس کش مکش میں کیسے برائیوں اور کمزوریوں سے نجات حاصل کرے اور ایک بہتر انسان بن جائے؟ اسلام کے نزدیک اس کا جواب تزکیہ ہے اور تزکیہ کے دو بنیادی مفہوم بیان کیے گئے ہیں:

۱- پاکیزگی اور صفائی (Self-purification)

۲- ترقی اور کمال تک پہنچنا (Growth)

اسلام کے مطابق، انسان پیدائشی طور پر گناہگار نہیں ہوتا کہ اسے کسی پیدائشی گناہ سے پاک ہونے کی ضرورت ہو، جیسا کہ بعض مذاہب میں Born Sinner کا تصور پایا جاتا ہے۔ بلکہ، زندگی کے سفر میں انسان لاشعوری طور پر اپنے اندر حیوانی صفات سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اس میں ملکوتی صفات کمزور پڑ جاتی ہیں۔ یوں حیوانی خصائل (Beastly Traits)  غالب آجاتے ہیں اور ملکوتی خصوصیات (Angelic Traits ) پس پردہ چلی جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کو اسی مقصد کے لیے بھیجا کہ وہ انسانوں کا ’تزکیہ‘ کریں۔ مطلب یہ کہ وہ انسان کو برائیوں اور آلودگیوں سے پاک کریں اور اس کی چھپی ہوئی خوبیاں اور صلاحیتیں نکھار کر اسے درجۂ کمال تک پہنچائیں۔ تاکہ وہ ایک بہتر، بااخلاق، اور باکردار شخصیت بن سکے، نیک اور خداترس ہو، اپنے گھر اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو، اس کی زبان شیریں ہو، اور اس کا ہر عمل رحمت کا مظہر بن جائے۔

اسلام نے انسان کے تزکیہ کے لیے عبادات کا ایک مکمل نظام دیا ہے، اور فرد کے تزکیہ کے لیے رمضان میں روزے فرض کیے گئے۔ آیئے اب اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ روزوں اور رمضان کے ذریعے انسان اپنا تزکیہ کیسے کرتا ہے؟

ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر انسان کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں: ایک ظاہری شخصیت، جو اس کے رنگ و رُوپ، لباس اور جسمانی خدوخال میں نظر آتی ہے، اور ایک باطنی شخصیت، جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی، مگر اس کی سوچ، رویے اور اعمال کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ عام طور پر انسانوں کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ ظاہری شخصیت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، مگر اپنی باطنی شخصیت کو سنوارنے کی طرف ان کا ذہن نہیں جاتا۔ حالانکہ ظاہری حسن وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتا ہے، جب کہ باطنی حسن وقت کے ساتھ نکھرتا اور بڑھتا چلا جاتا ہے۔ انسان کی شخصیت کی حقیقی جاذبیت اور کشش اس کی باطنی شخصیت میں ہوتی ہے۔ اسی کو نکھارنے اور سنوارنے کی ضرورت ہے۔ رمضان اور روزہ اس عمل میں بہترین مدد فراہم کرتے ہیں، کیونکہ یہ انسان کو اپنے باطن کی اصلاح کا موقع دیتے ہیں۔

چند لمحوں کے لیے ایک شفاف شیشے کے انسان کا تصور کیجیے، جو اندر سے بالکل صاف اور نمایاں ہو، جس کے اندر دو مختلف کیفیات ہوسکتی ہیں:

  • پہلا منظر: ایک ایسا شیشے کا انسان، جس کے باطن میں نفرت اور خباثت کی آمیزش ہو۔ اندر کنکر، پتھر، زہریلے کیڑے، سانپ، بچھو، چمگادڑیں، خاردار جھاڑیاں، اور سوکھی ہوئی لکڑیوں کا چورا بکھرا ہو۔ یہ جب بولتا ہے، تو اس کے الفاظ نشتر بن کر چبھتے ہیں، کبھی بچھو کی طرح ڈنک مارتے ہیں، کبھی سانپ کی پھنکار بن جاتے ہیں۔ یہ جب کسی کو دیکھتا ہے، تو نفرت اور تعصب کی عینک سے دیکھتا ہے، جب کسی سے برتاؤ کرتا ہے، تو سامنے والے کو زخمی کردیتا ہے۔ اس کی موجودگی سے محبت اور سکون نہیں، بلکہ گھٹن اور اذیت پھیلتی ہے۔
  • دوسرا منظر: ایک اور شفاف شیشے کا انسان، مگر اس کے باطن میں نرمی، شفقت اور روشنی ہے۔ اس کے اندر خوشبودار پھول، نرم و نازک پنکھڑیاں، چمکدار موتی، جگمگاتے ہیرے، رنگ برنگی تتلیاں، اور نورانی کرنیں ہیں۔ یہ جب بولتا ہے، تو اس کے الفاظ دلوں کو سکون دیتے ہیں۔ جب یہ کسی کو دیکھتا ہے، تو محبت، خیر اور روشنی کے زاویے سے دیکھتا ہے۔ جب یہ کسی سے معاملہ کرتا ہے، تو اس پر خوشبو نچھاور کر دیتا ہے۔

ان دونوں میں پہلا شخص وہ ہے جس نے اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کیا، جب کہ دوسرا شخص وہ ہے، جس نے اپنے باطن کی صفائی پر محنت کی ہے۔ رمضان اسی تزکیے کا مہینہ ہے، تاکہ ہم اپنے اندر چھپے زہریلے خیالات اور رویوں سے نجات حاصل کر سکیں۔

روزے کا اصل مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں، بلکہ اپنے نفس کی تربیت اور اخلاق کی تہذیب ہے۔ روزے میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ جھوٹ سے بچیں، کسی سے جھگڑا نہ کریں، اور اگر کوئی جھگڑنے آئے، تو نرمی سے جواب دیں: ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ روزہ نگاہوں کی حفاظت، زبان کی شائستگی، اور بُرے خیالات کو روکنے کی مشق ہے۔ یہ ایک ڈھال ہے، جو جہنم کی آگ سے بچانے والی ہے۔ (ترغیب و ترہیب)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ ‌لَمْ ‌يَدَعْ ‌قَوْلَ ‌الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهٖ فَلَيْسَ لِلهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهٗ وَشَرَابَهٗ (صحیح البخاري)’’جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور جھوٹے کام کرنے نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس سے بھی کوئی سر وکار نہیں ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑے! (یعنی جب وہ روزہ کا مقصد پورا نہیں کرتا تو بھوکا پیاسا رہنے کی کیا ضرورت ہے ؟)

رمضان وہ موقع ہے جب ہم اپنے اندرونی کانٹوں کو کم کر سکتے ہیں، اپنے دل کے زہریلے سانپ اور بچھو ختم کر سکتے ہیں، اور اپنی ذات میں نرمی، روشنی اور خوشبو پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ محض خواہشات سے ممکن نہیں، بلکہ شعوری کوشش اور محنت کا تقاضا کرتا ہے۔

رمضان ایک خزانوں کے حصول (Treasure Hunt) کا مہینہ ہے۔ اس میں تزکیے اور تربیت کی کنجی موجود ہے، مگر یہ صرف انھی خوش نصیبوں کو ملتی ہے، جو اسے تلاش کرتے ہیں۔

باطنی پاکیزگی اور رمضان کی روح

انسان کی اصل حقیقت اس کا باطن ہے۔ اس کی نیت، اس کے خیالات، اس کے دل کی کیفیات، وہ چیزیں ہیں جو اللہ کے ہاں میزان میں تولی جائیں گی۔ روزہ اسی باطن کی تطہیر کا ذریعہ ہے، تاکہ انسان صرف ظاہری پرہیزگاری تک محدود نہ رہے، بلکہ اس کی باطنی شخصیت بھی نورانیت اور تقویٰ سے مزین ہو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا درحقیقت باطنی اصلاح اور نفس کے تزکیے کی بہترین التجا ہے:اَللّٰهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيْ مِنَ النِّفَاقِ ، وَعَمَلِيْ مِنَ الرِّيَاءِ ، وَلِسَانِيْ مِنَ الْكَذِبِ ، وَعَيْــنِيْ مِنَ الْخِيَانَةِ ، فَإنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ’’اے اللہ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریاکاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے، اور میری آنکھوں کو خیانت سے پاک کردے، کیونکہ تو جانتا ہے کہ آنکھوں کی خیانت کیا ہے اور سینوں میں کیا چھپا ہے‘‘۔(الدعوات الکبیرہ، للبیہقی)

اس دعا میں رمضان کے مقاصد کی اصل روح کو بیان کیا گیا ہے۔ روزہ صرف کھانے پینے سے رُک جانے کا نام نہیں، بلکہ یہ خود کو نفاق، ریا، جھوٹ اور خیانت سے پاک کرنے کا ایک تربیتی عمل ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: قُلِ اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً (رواہ الترمذی)’’اے اللہ! میرے باطن کو میری ظاہری حالت سے بہتر بنادے، اور میری ظاہری حالت کو صالح اور درست کر دے‘‘۔

یہ وہی چیز ہے جس کا رمضان میں تزکیہ مطلوب ہے۔ انسان اکثر ظاہری دین داری کا اہتمام تو کرتا ہے، لیکن اس کا باطن حسد، کینہ، غرور، تکبر، اور فخر کی آلودگیوں سے بھرا رہتا ہے۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے باطن کو اپنے ظاہر سے بہتر کرنے پر محنت کریں۔ جب کوئی شخص سحری سے لے کر افطار تک کھانے پینے سے رک سکتا ہے، تو وہ اپنی زبان کو جھوٹ سے، دل کو کدورت سے، اور آنکھوں کو خیانت سے کیوں نہیں روک سکتا؟

حدیث کے آخری جملے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِي النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالأَهْلِ وَالْوَلَدِ غَيْرِ الضَّالِّ وَلاَ الْمُضِلِّ(رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث غریب)’’اے اللہ! میں تجھ سے وہ بھلائیاں مانگتا ہوں، جو تو لوگوں کو مال، اہل و عیال اور اولاد کی صورت میں عطا فرماتا ہے، مگر ایسا رزق اور ایسی نعمتیں نہ ہوں جو گمراہی میں ڈال دیں یا گمراہ کر دیں‘‘۔

یہ رزق اور نعمتوں کے بارے میں ایک حسین توازن کی دعا ہے۔ آج ہم اکثر مال، عہدے، شہرت اور ترقی کی دعائیں مانگتے ہیں، مگر اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ چیزیں ہمارے لیے باعثِ خیر ہوں گی یا فتنے کا سبب بنیں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھا رہے ہیں کہ صرف دنیا نہیں مانگنی چاہیے، بلکہ خیر والی دنیا مانگنی چاہیے۔

رمضان کا حقیقی مقصد یہی تزکیہ ہے کہ انسان اپنے باطن کو پاک کرے، ریاکاری کو ختم کرے، جھوٹ سے بچے، اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرے، اور ایسی دنیا مانگے جو اسے گمراہی سے بچائے، نہ کہ گمراہ کرے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی اندرونی شخصیت کا جائزہ لیں۔ کیا ہمارے اندر نفاق، ریا، جھوٹ، اور خیانت کی جھلک ہے؟ کیا ہمارا باطن اور ظاہر یکساں ہیں؟ کیا ہم جو مانگ رہے ہیں، وہ ہمارے لیے خیر کا سبب بھی ہے یا صرف دنیا کی چمک دمک کا فریب؟ اگر ہم نے رمضان میں اپنے اندرونی سانپ اور بچھو ختم نہ کیے، اگر ہم نے اپنے باطن کی کثافتوں کو دور نہ کیا، اگر ہم نے اپنی نیت میں اخلاص پیدا نہ کیا —تو پھر روزہ محض بھوک اور پیاس رہ جائے گا، اور اس کا حقیقی فائدہ ہم حاصل نہیں کر سکیں گے۔ہم سب کو چاہیے کہ اس رمضان میں کوشش کریں:

  • اپنی نیتوں کو خالص کریں
  • اپنے دل کو نفاق اور کدورت سے پاک کریں
  • اپنی زبان کو سچائی اور شائستگی کا خوگر بنائیں
  • اپنی آنکھوں کو خیانت سے محفوظ کریں
  • مال اور دنیا کی بھلائی ضرور مانگیں، مگر ایسی جو ہمیں اللہ سے قریب کرے، دُور نہ کرے۔

اصلاح ذات کے دو پہلو

اس مضمون میں ذاتی تربیت کے لیے دو اہم نکات پر توجہ دی جائے گی۔ ان میں ایک برائی ایسی ہے جس کے اثرات زیادہ تر فرد کی ذات تک محدود رہتے ہیں، جب کہ دوسری برائی سے نہ صرف فرد بلکہ اس کا خاندان اور نسلیں متاثر ہوتی ہیں۔

بظاہر، پہلی برائی صرف فرد تک محدود دکھائی دیتی ہے، مگر یہ سماجی اور اخلاقی سطح پر بھی اپنا ایک اثر ضرور چھوڑتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص سگریٹ نوشی کرتا ہے تو اس کے بُرے اثرات اَن دیکھے نہیں ہوتے، مگر اس کے رویے سے ماحول پر ایک غیر محسوس اثر ضرور پڑتا ہے۔ اگر وہ خالی سگریٹ کے پیکٹ سڑک پر پھینک دیتا ہے، تو یہ شاید ماحولیات (Ecology) کو زیادہ نقصان نہ پہنچائے، لیکن نئی نسل کے لیے یہ ایک اخلاقی پیغام ضرور چھوڑے گا اور سماجی اخلاقیات کو ضرور متاثر کرے گا ۔ جو چیز ہمیں بار بار نظر آتی ہے، وہ ہمارے لاشعور میں گھر کر جاتی ہے۔ بچے اور نوجوان جب بار بار یہ مناظر دیکھتے ہیں، تو ان میں سگریٹ نوشی کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے، خاص طور پر وہ جو خود پر قابو پانے میں کمزور ہوتے ہیں۔ اسی طرح، اگر کسی شخص میں نمائشی مزاج پایا جاتا ہے، تو وہ بظاہر کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہا، مگر معاشرے میں نمائشی طرزِ زندگی کا ایک خاموش مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پھر لوگ یہ سمجھے بغیر کہ اس دوڑ کا آغاز کہاں سے ہوا، اس میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

دوسری طرف، کچھ برائیاں ایسی ہیں، جن کے اثرات براہ راست قریبی رشتوں پر پڑتے ہیں، اور ان سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ مثلاً، اگر کوئی شخص مار پیٹ کا عادی ہو، تو وہ صرف اپنی شخصیت کا نقصان نہیں کرتا بلکہ اپنے گھر کے ماحول کو زہر آلود بنا دیتا ہے۔ اس کے بیوی اور بچے اس کے ظلم کا شکار بنتے ہیں، اور یہ سلسلہ اکثر اگلی نسل تک منتقل ہو جاتا ہے۔ گھر میں موجود بچے اس رویے کو دیکھ کر خود بھی جبر اور تشدد کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر جب وہ اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں، تو اسی رویے کو دُہراتے ہیں، اور یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

یہ ہیں وہ دو خرابیاں جن کے ازالے کے بغیر تزکیہ ناممکن ہے۔ ان سے چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں ’ریوڑ ذہنیت‘ (Herd Mentality) سے نکل کر سوچنا ہوگا۔ یعنی وہ اجتماعی رویہ جس میں لوگ سوچے سمجھے بغیر دوسروں کے پیچھے چل پڑتے ہیں، اس سے ہٹ کر ہمیں شعوری بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ رمضان اسی بیداری کا نام ہے، تاکہ ہم نہ صرف اپنی ذات کی اصلاح کریں بلکہ معاشرے پر بھی مثبت اثر ڈال سکیں۔

اندرون کی اصلاح

رمضان المبارک ایک زریں موقع فراہم کرتا ہے کہ انسان اپنی ذات کے اندر جھانک کر یہ دیکھے کہ اس کا باطنی وجود کس حالت میں ہے؟ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل و دماغ کی گلیوں میں گرد و غبار جمی ہے، جذبات میں کدورتیں بسی ہیں، سوچ پر منفی خیالات کا پہرہ ہے، اور نفس میں ایسی اُلجھنیں سرایت کر چکی ہیں جو انسان کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ بعض لوگ غصّے اور تشدد کے غلام ہوتے ہیں، کچھ شہوت اور نفس پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بعض کو احساسِ برتری کا روگ لگ جاتا ہے، اور کچھ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اپنی شخصیت کو مفلوج کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ دولت کی محبت میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ حقوق العباد کی ادائیگی بھول جاتے ہیں، جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اذیت دے کر سکون محسوس کرتے ہیں۔کوئی اپنے حسن کے غرور میں مبتلا ہے، تو کسی کو اپنے خاندان کی طاقت، شہرت اور پھیلائو پر ناز ہے۔ کچھ لوگ کسی کی مستقل دشمنی پال کر رکھتے ہیں، اور کچھ بددیانتی کو اپنا حق سمجھ بیٹھتے ہیں۔ بعض افراد اپنی کمزوریوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیراتے ہیں، جب کہ افراد میں کچھ لوگ دین کے کام میں دوسروں کی خامیوں کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

تزکیہ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان باطنی آلودگیوں کو پہچانے اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے خود احتسابی کرے۔ یہ اور اس جیسے کئی رویے اور عادات ہیں جن سے نکلے بغیر حقیقی تزکیہ ممکن نہیں۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے باطن کا محاسبہ کریں، اپنی اصلاح کریں، اور اپنی زندگی میں وہ پاکیزگی پیدا کریں جو ہمیں اللہ کے قریب لے جائے۔

خود احتسابی: وہ برائیاں جو خود کو نظر نہیں آتیں

انسان کے مزاج میں بعض ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں، جن کے اثرات بظاہر دوسروں پر نمایاں نہیں ہوتے، مگر وہ اس کی شخصیت کی تعمیر اور باطنی ترقی کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر دیتی ہیں،  جیسے خود پسندی، نمایشی مزاج، معمولی باتوں پر غصہ، بے جا حسد، وقت ضائع کرنے کی عادت، یا دوسروں کی کامیابیوں پر دل میں ناپسندیدگی محسوس کرنا۔ یہ وہ خامیاں ہیں جو بظاہر معاشرے پر براہِ راست اثر نہیں ڈالتیں، مگر فرد کی سوچ، رویے اور فیصلوں کو متاثر ضرور کرتی ہیں۔ بسااوقات فرد محسوس نہیں کرتا کہ اس کے وہ منفی رویے اس کے تعلقات کو خراب کرنے، کامیابی کی منزلوں کو دُور کرنے، اور ذہنی سکون پر ڈاکا ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ اصل میں فرد کی ناپسندیدہ عادتیں ہی اسے نقصان پہنچاتی ہیں ۔ اکثر لوگ ان خرابیوں کو محسوس ہی نہیں کرتے کیونکہ یہ آہستہ آہستہ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں، اور جب تک انسان خود شعوری کوشش نہ کرے، وہ انھیں اپنے وجود سے الگ نہیں کر سکتا۔ رمضان خود احتسابی کا مہینہ ہے، اس موقع پر ہم ان نظر نہ آنے والی کمزوریوں پر غور کریں اور ان سے باہر نکلنے کی راہ تلاش کریں۔

ان اندرونی کمزوریوں سے باہر نکلنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان خود آگاہ ہو، یعنی اپنے مزاج کو سمجھے اور اس کا تجزیہ کرے۔ اس کے لیے روزانہ رات کو چند لمحے نکال کر اپنا محاسبہ کیا جائے کہ آج کے دن کیا میں نے کسی موقع پر خود پسندی دکھائی؟ کیا میں نے وقت ضائع کیا؟ کیا میں نے کسی کی برتری کو دل میں ناگوار محسوس کیا؟ کیا میں نے اخلاقی رزائل کو دبے پاؤں اپنے اندر آنے کی آہٹ کو محسوس کیا ؟کیا میں سگرٹ نوشی کی عادت چھوڑ سکتا ہوں؟ کیا میں اپنے اسکرین ٹائم کو کم کر سکتا ہوں؟ کیا میں موبائل فون کی لت سے باہر آ سکتا ہوں؟ یہ سوالات انسان کو اپنی خامیوں کا شعور دیں گے اور بہتری کی راہ کھولیں گے۔

دوسرا قدم چھوٹے چھوٹے عملی اقدامات ہیں۔ اگر کوئی شخص جلد غصے میں آتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ رمضان میں ضبطِ نفس کی مشق کرے اور اپنے ردعمل کو سنوارنے کے لیے خاموش رہنے اور برداشت کرنے کی عادت اپنائے۔ اگر کوئی دوسروں کی کامیابیوں سے حسد محسوس کرتا ہے، تو وہ شعوری طور پر دوسروں کے لیے دعا دینے اور ان کی کامیابی پر خوش ہونے کی عادت ڈالے۔ اسی طرح اگر کوئی وقت ضائع کرنے کی عادت کا شکار ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ہر دن کا ایک ہدف مقرر کرے اور دن کے آخر میں جائزہ لے کہ اس نے وقت کیسے گزارا؟ اگر وہ اخلاقی رذائل جیسے جھوٹ، بے شرمی، بے حیائی، لڑائی جھگڑا اپنے اندر پاتا ہے تو اسے چاہیے کہ منصوبہ بند طریقے سے بیک وقت ایک ایک بُرائی سے بچنے کی کوشش کرے۔ اگر موبائل فون کا کثرت سے بے جا استعمال ہو رہا ہو تو اس کے مفید استعمال کے طریقوں کو سیکھنے کا اہتمام کرے اور رمضان تبدیلی کا بہترین موقع ہے۔

شناخت کا تضاد ( Cognitive Dissonance)

انسان کی شخصیت میں موجود غیر محسوس برائیاں اکثر لاشعوری سطح پر پروان چڑھتی ہیں۔ مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر کارل راجرز (Carl Rogers) کے Self-Concept Theory کے مطابق، ہر انسان کے اندر ایک ’اپنی حقیقی ذات‘ (Real Self) اور ایک ’اپنی مثالی ذات‘ (Ideal Self) موجود ہوتی ہے۔ اگر دونوں میں زیادہ فرق ہو، تو انسان اندرونی بےچینی اور عدم اطمینان کا شکار ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک شخص اپنے آپ کو بہت منظم اور باوقار سمجھتا ہے، مگر عملی زندگی میں وہ وقت ضائع کرتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرتا ہے، یا خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب اس کا اصل رویہ اس کے خیالی تصور سے میل نہیں کھاتا، تو وہ یا تو اپنے رویے کو درست کرتا ہے یا خود کو دھوکا دینے لگتا ہے۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی اصل شخصیت اور اپنے مثالی تصور کے درمیان فرق کو کم کریں، تاکہ ہماری شخصیت میں بے چینی اور داخلی تضاد ختم ہو، اور پُرسکون زندگی گزار سکیں۔

مشہور ماہرِ نفسیات لیون فیسٹنگر (Leon Festinger) نے Cognitive Dissonance Theory پیش کی، جس کے مطابق جب انسان کے عقائد، رویے اور اعمال میں تضاد ہوتا ہے، تو وہ اندرونی بےچینی (psychological discomfort) محسوس کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک شخص اپنے آپ کو دُنیا کے سامنے ایمان دار فرد کے طور پر پیش کرتا ہے اور پھر یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ واقعی ایمان دار ہے، مگر دوسری طرف معمولی مواقع پر جھوٹ بولتا ہے، یا اپنے آپ کو نیک اور خدا ترس جانتا ہے، مگر دوسروں کی برائی کرتا ہے یا حسد میں مبتلا ہوتا ہے، تو اس کے لاشعور میں ایک ذہنی تصادم پیدا ہوتا ہے، جو یا تو اسے اپنی غلطیوں کو درست کرنے پر مجبور کرتا ہے یا پھر اسے خود فریبی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

یہ ذہنی تضاد ہماری روزمرہ زندگی میں کئی جگہوں پر نمایاں نظر آتا ہے۔ ہم چاہتے کچھ اور ہیں، مگر کرتے کچھ اور ہیں۔ مثال کے طور پر، عورتیں دوسروں کے بچوں سے نرمی اور محبت سے پیش آتی ہیں، مگر اپنے ہی بچوں پر سختی برتتی ہیں۔ مرد مجلسوں میں عورتوں کے حقوق پر پُرجوش تقاریر کرتے ہیں، مگر اپنے گھروں میں بیوی کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ واعظین دینداری اور ایمانداری کی تلقین کرتے ہیں، مگر خود ان کے ادارے ان کے اصولوں کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ مقررین امت میں اتحاد کا درس دیتے ہیں، مگر ذاتی ملاقاتوں میں مسلکی تعصب اور گروہی وابستگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک شہر میں اتحاد امت کا ایک عظیم جلسہ ہوا۔ اس جلسے میں ایک مکتب فکر کے مولانا نے بہت اچھی تقریر کی۔ کچھ دنوں کے بعد منتظمین کی جماعت سے کچھ لوگ ان کی مسجد میں گئے اور ان سے کہا کہ آپ کی مسجد میں ہم ایک پروگرام کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا نے ارشاد فرمایا کہ میں تمھارے اسٹیج پر جلوہ افروز ہوا، اس پر اکتفا کریں۔ اتحاد کے مظہر کے طور پر اگر ہماری مسجد میں آپ لوگوں کا کوئی جلسہ ہوگا تو میرے مقتدی خفا ہو جائیں گے اور اس مسجد میں ہمارا کنٹرول ختم ہو جائے گا۔

یہ تضادات Cognitive Dissonance کا عملی مظہر ہیں، جہاں انسان اپنی اصلی شخصیت اور اپنے ظاہری نظریات کے درمیان تضاد سے دوچار ہوتا ہے۔ ان تضادات کو ہمیں سمجھنے اور ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ قول و فعل میں ہم آہنگی ہی اصل اخلاقی خوبصورتی ہے۔ رمضان وہ وقت ہے جب انسان کو ان تضادات کا سامنا کر کے، اپنی اصل شخصیت کو اپنے اخلاقی اور روحانی نظریات کے قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہمارے خیالات، رویے اور اعمال میں ہم آہنگی پیدا ہو اور ہم اندرونی سکون حاصل کر سکیں۔

شناخت کے تضاد کو دُور کرنا

ماہرین نفسیات کے مطابق شناخت کے تضاد (Cognitive Dissonance) کو دُور کرنے کے لیے انسان کو یا تو اپنے رویے میں تبدیلی لانی پڑتی ہے، یا اپنے خیالات اور عقائد کو نئے طریقے سے ترتیب دینا پڑتا ہے، تاکہ اس کے ذہن میں تضاد ختم ہو اور وہ داخلی سکون حاصل کر سکے۔

اس بےچینی سے نجات کے لیے وہ تین طریقے اختیار کر سکتا ہے:

  • یا تو اپنا رویہ بدل لے (مثلاً، اگر وہ دیانت داری کو اچھا سمجھتا ہے تو خود بھی دیانت داری اختیار کرے)۔
  • یا اپنے نظریے میں نرمی پیدا کر لے (مثلاً، خود کو یہ کہہ کر مطمئن کر لے کہ آج کے زمانے میں یہ ممکن نہیں جب حالات بدل جائیں گے تو میں بھی بدل جاؤں گا)۔
  • یا اپنے اعمال اور نظریات میں ایک نیا ربط تلاش کرے (مثلاً، کسی برے عمل کے لیے کوئی جواز گھڑ لے اور کہے کہ یہ میری مجبوری ہے مجھے رعایت ملنی چاہیے)۔

اصل کامیابی تب ہوتی ہے جب انسان اپنے تضاد کو جواز دینے کے بجائے، اپنے رویے کو اپنی اصل اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔

شناخت کے تضاد کو ختم کرنے کے لیے عملی طریقے

۱- اپنے اعمال کا تجزیہ کریں –۔ اس رمضان میں کسی دن چند لمحے نکال کر یہ سوچیں کہ کیا میں واقعی وہی شخص ہوں جس کا میں دعویٰ کرتا ہوں یا جو عام طور پر میرے قدردان مجھے سمجھتے ہیں؟

۲-  اپنے نظریات کو اپنے عمل سے قریب کریں۔ – اگر آپ انصاف، دیانت، اور محبت کے قائل ہیں، تو اپنی زندگی میں ان کو عملی طور پر اپنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ بچوں کی تربیت کی بات کرتے ہیں تو ان پر وقت صرف کریں۔ اُوپر مذکور مثال میں کبھی کبھی اپنی مسجد میں دیگر مکتب فکر کے عالم دین سے خطبہ دینے کی گزارش کریں یا کسی جلسے کے بہانے انھیں اظہارِ خیال کا موقع دیں۔

الغرض اس رمضان میں ہماری کوشش ہو کہ ہم ’اپنی حقیقی ذات‘ (Real Self) اور اپنی  ’مثالی ذات‘ (Ideal Self) میں ہم آہنگی پیدا کرلیں۔ – اپنی اصل شخصیت کو مثالی شخصیت کے قریب لے آئیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ بہتری پیدا کرنے کے لیے تدریجی اور منصوبہ بند کوشش کرنی چاہیے۔ 

تباہ کن رویوں کے تواتر کو ختم کرنا

ابتدا میں ہم نے یہ ذکر کیا تھا کہ بعض افراد ایسے متشدد رویوں کے عادی ہوتے ہیں، جن کے اثرات صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ان کا پورا خاندان متاثر ہوتا ہے اور یہ رویے نسل در نسل منتقل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل بے نتیجہ نہیں ہوتا، اور اس کا ہر رویہ دوسروں کے لیے ایک پیغام بن جاتا ہے، —چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا۔

گھر میں شوہر کا اپنی اہلیہ سے سلوک درحقیقت اس کے بچوں کے لیے ایک خاموش پیغام ہوتا ہے۔ مائیں بھی بعض اوقات بچوں کے ساتھ نرمی، ہمدردی اور شائستگی سے پیش آنے کے بجائے سختی اور درشتی اختیار کر لیتی ہیں، جو ان کی نفسیاتی نشوونما پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ نفسیات کا اصول کہتا ہے کہ ’’انسان چاہے بولے یا خاموش رہے، اس کے الفاظ، حرکات و سکنات اور طرزِ عمل ہمیشہ دوسروں تک کوئی نہ کوئی پیغام ضرور پہنچاتے ہیں‘‘۔ اسی طرح، کسی بھی فرد کے اعمال کا ایک انجام ہوتا ہے۔ اگر گھر میں حُسنِ سلوک اور محبت کا رویہ ہو تو اس کا نتیجہ ایک خوش حال اور پُرامن خاندان کی صورت میں نکلتا ہے، جہاں بیوی بچوں کی دعائیں اور محبتیں نصیب ہوتی ہیں۔ ایسے گھروں میں پروان چڑھنے والے بچے والدین کے لیے نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اگر رویہ سخت اور ظالمانہ ہو، تو یہی قریبی رشتے نفرت کا شکار ہو جاتے ہیں، اور بعض اوقات اس کے اثرات نسلوں تک پھیل جاتے ہیں۔

میرے پاس ایسے بے شمار کیسز آتے ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو شدید ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا سامنا ہوتا ہے، کیونکہ ان کے والدین نے گھریلو تشدد کو معمول بنا رکھا تھا، یا بچوں پر شدید دباؤ ڈالتے ہیں، یا ان کے مطالبے انتہائی سخت ہوتے ہیں۔ بعض نے اپنی ماؤں کو پٹتے دیکھا اور بڑے ہو کر وہی عمل اپنی زندگی میں دہرایا۔ اب جب ان کی شادی ہونے کو ہے، تو وہ اس عادت سے نجات حاصل کرنے کے لیے بے حد فکر مند ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گھر کے بچے جو کچھ اپنے بچپن میں دیکھتے، سہتے اور محسوس کرتے ہیں وہ لاشعور میں ثبت ہو کر شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر اس رویے کو درست نہ کیا جائے، تو یہی زنجیر نسل در نسل منتقل ہو کر ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ بن جاتی ہے۔

اس کی بے شمار مثالیں میرے پاس موجود ہیں۔یہاں ایک لڑکے کی کہانی نقل کی جاتی ہے جو شدید ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس نے اپنی کہانی یوں بیان کی ہے:

میری والدہ ایک تعلیم یافتہ اور خوشحال خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، جب کہ میرے والد بالکل اَن پڑھ اور غریب خاندان سے تھے۔ دونوں کے درمیان ذہنی مطابقت نہیں تھی۔ میرے والد میری والدہ پر ذرا ذرا سی بات پر تشدد کرتے تھے۔

ایک مرتبہ ہم دوسرے شہر جا رہے تھے کہ راستے میں میرا پیٹ خراب ہوگیا تھا۔ جیسے ہی ہم کسی بستی میں پہنچے، میری والدہ نے والد سے کہا کہ بس اسٹینڈ پر رک کر مجھے دھو لیں۔ والد نے بس رکوا دی، لیکن جب وہ مجھے صاف کر رہی تھی، تو بس والا چلا گیا۔ والدہ نے والد سے پوچھا کہ بس والا کہاں ہے؟ تو والد نے کہا کہ وہ تو چلا گیا اور میں نے اس سے باقی کے پیسے واپس لے لیے ہیں۔ یہ کہہ کر میرے والد نے والدہ کو اتنے زور سے طمانچہ مارا کہ وہاں موجود لوگ دیکھنے لگے۔

یہی سب ہوتا رہا، اور جیسے جیسے ہم بڑے ہوئے، ہم بھی اپنی والدہ کے لیے سہارا بننے کے بجائے انھیں مارنے لگے۔ میں خود کئی بار اپنی ماں کی لیٹی ہوئی چارپائی پلٹ چکا ہوں، کئی بار دودھ کے برتن پھینک کر مارے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں میری والدہ کو شوگر ہو گئی۔ ایک دن میری نانی انھیں ہسپتال لے گئیں، تو ڈاکٹر نے شوگر لیول چیک کیا، جو اتنا زیادہ تھا کہ وہ چھوٹی مشین میں آ ہی نہیں رہا تھا۔ بڑی مشین سے چیک کیا تو اتنا زیادہ نکلا کہ فوراً ICU میں داخل کر دیا گیا۔ والد ہسپتال آئے اور زور زور سے چلّانے لگے کہ یہ کھانا بنانے سے بچنے کے بہانے کر رہی ہے۔ ایک دن فجر کے بعد میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ مگر ان کے انتقال سے ایک روز پہلے بھی میرے والد نے اُن سے درشتی اور سنگ دلی سے طعنہ زنی کی جس پر میرا جی چاہا کہ میں اپنے والد کو جان سے مار ڈالوں۔

طویل خط کا ایک مختصر حصہ یہاں پیش کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو اس گہرے نفسیاتی مسئلے کی نشاندہی ہو، جسے Intergenerational Transmission of Trauma یعنی ’نسلی صدمے کی منتقلی‘ کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد وہ صدمات ہیں جو ایک نسل کے تجربات سے پیدا ہوتے ہیں اور اگلی نسلوں پر نفسیاتی اور جسمانی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

یہ منتقلی مختلف ذرائع سے ہوتی ہے، جن میں خاندانی رویے اور حرکیات (Family Dynamics) بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ باپ کس طرح کا رویہ اپناتا ہے، ماں کا کردار کیا ہوتا ہے، اور والدین کے درمیان ہونے والی گفتگو اور رویے کس انداز میں بچوں پر اثر ڈالتے ہیں؟ یہاں تک کہ یہ عمل حیاتیاتی طور پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، جہاں اسٹریس ہارمونز (Stress Hormones) اور دیگر نفسیاتی عوامل نسل در نسل منتقل ہو سکتے ہیں۔

اس موضوع پر ماہرین نفسیات یھیل ڈینیئلی (Yael Danieli) اور جینیٹ نیبٹ (Janet Nebbit) نے تفصیلی تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق، اگر ایک نسل کسی تکلیف دہ تجربے (جیسے تشدد، ظلم، یا ذہنی دباؤ) سے گزرتی ہے، تو وہ شعوری یا لاشعوری طور پر یہی رویے اگلی نسل میں منتقل کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی بچہ بچپن میں والدین کے تشدد کا مشاہدہ کرتا ہے، تو اس کے اندر بھی یہی رویہ پروان چڑھنے لگتا ہے، اور بعد میں وہ اپنے تعلقات میں اسی طرزِ عمل کو دُہراتا ہے۔

اُوپر کے خط میں آپ نے دیکھا کہ بچوں میں بھی تشدد کا رجحان غیر شعوری طور پر جڑ پکڑ لیتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بیٹا خود اپنے باپ پر تشدد کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ نفسیات میں اس عمل کو Coping Mechanisms یعنی ’مقابلہ کرنے کی حکمت عملی‘ کہا جاتا ہے۔ جب گھر کا ماحول مسلسل خراب رہتا ہے، تو بچے اسی ماحول میں جینے کے لیے ڈرے سہمے خاموش، بے زبان ہو جاتے ہیں اور زندگی کے کسی معاملے میں فیصلہ لینے کی ان کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے یا وہ اسی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ مار پیٹ اور تشدد ایک عام سی بات بن جاتی ہے، اور بچے اپنے والدین کے طرزِ عمل کی نقل کرتے ہوئے یا تو جارحیت اختیار کرتے ہیں یا بالکل خاموش اور اجتناب کی راہ اپنا لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ اپنے تعلقات میں بھی انھی رویوں کو دُہرانے لگتے ہیں۔

نسلی صدمے سے متاثرہ بچوں میں نفسیاتی پیچیدگیاں

  • جذباتی مسائل اور ذہنی دباؤ: یہ بچے شدید اضطراب (Anxiety)، افسردگی (Depression)، اور احساسِ جرم (Guilt) میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اگر یہ کیفیت مزید بڑھ جائے، تو خودکشی کے خیالات (Suicidal Thoughts) بھی جنم لے سکتے ہیں۔
  • سماجی رویوں میں مسائل: یہ بچے سماجی طور پر غیر موزوں رویے اپناتے ہیں اور اسکول میں ان کا برتاؤ اساتذہ، ساتھی طلبہ، اور اسکول مینجمنٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔

ان میں غیر مہذب رویہ، جھگڑالو طبیعت، یا بالکل تنہائی پسندی پیدا ہو سکتی ہے۔

  • رشتے بنانے میں مشکلات:ان بچوں کے لیے دوسروں سے صحت مند تعلقات بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔چونکہ بچوں کے لیے پہلا رشتہ والدین کے ساتھ ہوتا ہے، اور اگر یہ رشتہ تلخیوں اور تشدد سے بھرا ہو، تو وہ اسی طرزِ عمل کو دوسرے تعلقات میں بھی دہرانے لگتے ہیں۔

یہ تمام مسائل درحقیقت وہی نفسیاتی زخم ہیں جنھیں والدین نے اپنی نسل میں حل نہیں کیا، اور اس کی لعنت بچے بھگتتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے، جب تک کہ کوئی شعوری طور پر اس سائیکل کو توڑنے کا فیصلہ نہ کرے۔

رمضان میں تشدد کی زنجیروں کو توڑنا آسان ہے

ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں۔اس موقع پر آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس مسئلے کا رمضان سے کیا تعلق ہے؟

اس موضوع کو چھیڑنے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر لوگ رمضان کو محض نیکیاں کمانے اور ثواب جمع کرنے کا مہینہ سمجھتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ان کی زندگیوں میں کوئی عملی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ حالانکہ رمضان المبارک شخصیت کی تربیت اور اس کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ روزے داروں کی ایک بڑی تعداد اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہے کہ رمضان ان کی شخصیت کو نیا رُخ دے سکتا ہے، اور ان کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے۔

عمومی طور پر خطبے، گفتگو اور تقاریر زیادہ تر ’ثواب تولنے‘ کے تصور پر مرکوز رہتی ہیں، لیکن اس پہلو پر کم ہی زور دیا جاتا ہے کہ رمضان فرد کی شخصیت کو سنوارنے کا ایک نادر موقع ہے۔ یہ مہینہ خود احتسابی اور شعورِ ذات (Self-Awareness) کو بیدار کرنے کے لیے آیا ہے، تاکہ انسان اپنے اندرونی تضادات کو ختم کرے، رویے میں متانت اور بردباری پیدا کرے، برتاؤ میں وقار پیدا ہو، اور وہ اپنے گھر اور معاشرے کے لیے رحمت بن جائے۔

اس کے لیے سب سے پہلی شرط ’شعورِ ذات‘ ہے، —یعنی انسان خود کو سمجھے، اپنی خامیوں اور خوبیوں کو پہچانے، اور اپنی اصلاح کے لیے رمضان کو ایک عملی موقع بنائے، نہ کہ صرف ظاہری عبادات تک محدود رہے۔

نسل در نسل منتقل ہونے والے صدمے سے نجات

اب ہم ان اقدامات پر بات کریں گے جو ایک فرد کو نسل در نسل منتقل ہونے والے صدمات (Generational Trauma) کے چکر کو ختم کرنے اور روحانی و نفسیاتی زخموں سے شفا پانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یہ ایک نیا سفر ہوگا، جہاں پرانے تشدد اور ظلم کے سلسلے کو روکنا ہوگا اور سائیکل آف وائلنس پر بریک لگانی ہوگی۔

جو شخص ’سائیکل بریکر‘ (Cycle-Breaker) بنے گا، وہ آنے والی نسلوں کی دعاؤں کا حق دار بنے گا۔ لیکن اگر یہ زنجیر نہ توڑی گئی، تو ظلم، تشدد، مار پیٹ اور تذلیل کے رویے کا نقصان دونوں جہانوں میں اٹھانا پڑے گا۔

۱- —یہ رویے اگلی نسلوں کو برباد کر دیں گے، اور ان کی بددعائیں قیامت تک جاری رہیں گی۔

۲- آخرت میں —ہر شخص کو اللہ کے حضور تنہا جواب دہ ہونا ہے، اور اس کا حساب دینا ہے کہ اس نے اپنی نسلوں کے لیے کیسا نمونہ چھوڑا۔

جو فرد اپنے خاندانی پس منظر میں نقصان دہ رویوں اور عادات کو پہچانےگا، جن کی جڑیں مضبوط ہو چکی ہوں اور ان میں مثبت تبدیلی لائے گا، وہ شخص قابل مبارک باد ہے۔ ان شاءاللہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پُرامن زندگی کی بنیاد رکھ سکے گا۔ اس کے نتیجے میں اس کا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل نسل در نسل منتقل ہونے والے تشدد سے آزاد ہوگا۔

اگلے مرحلے میں، ہم ان نکات پر روشنی ڈالیں گے جو نہ صرف جذباتی صدمے کو پہچاننے میں مدد دیں گے، بلکہ خاندانی پس منظر میں موجود مضبوطی، صبر، اور استقامت کو بھی نمایاں کریں گے۔

سائیکل بریکر: ایک نئی شفا بخش وراثت کی بنیاد

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ذہنی سکون ملے اور اس کے خاندانی تعلقات میں مفاہمت ہو۔ کچھ لوگوں میں یہ خواہش بہت طاقت ور ہوتی ہے، جب کہ کچھ میں یہ احساس مضمحل ہوجاتا ہے۔ ہم اپنی اگلی نسلوں کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں، لیکن اکثر اپنے رویوں سے ان کی ذہنی صحت پر گہرے منفی اثرات چھوڑ دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اثرات اس قدر شدید ہو جاتے ہیں کہ وہ زندگی میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔

کچھ عادات اور رویے ایسے ہوتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں، جیسے:l✔ غیر معمولی غصہ اور تشدد l✔ گھر میں مار پیٹ اور بدزبانی l✔ بچوں پر غیر ضروری سختی اور بے جا دباؤ l✔ بے اعتدالی اور جذباتی بے قابو پن۔

انسانی اَنا اور شیطان ان زنجیروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انسان خدا کا نائب ہونے کا شرف نہ پا سکے۔ مگر جو لوگ ان زنجیروں کو توڑنے کی ہمت کرتے ہیں، وہ درحقیقت ایک شفا بخش وراثت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ان کے مثبت اور خوشگوار رویے خاندان کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے مینارِ نور ثابت ہوں گے۔ جب کبھی زندگی میں مشکلات اور اندھیروں کا سامنا ہو، تو ان کے بچے اپنے والدین کے رویوں سے حوصلہ اور عزم حاصل کریں گے۔

ایسے افراد جو یہ پہلا قدم اٹھاتے ہیں، وہی درحقیقت ’سائیکل بریکر‘ کہلاتے ہیں۔

سائیکل بریکنگ یعنی خاندانی صدمے اور منفی رویوں کے سلسلے کو توڑنا ایک بہت بڑا قدم ہے۔ یہ اس بات کا شعوری فیصلہ ہے کہ ماضی سے چلے آ رہے نقصان دہ رویوں کو ختم کرنا ہے اور ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھنی ہے۔

یہ صرف بقا (Survival) کی کوشش نہیں، بلکہ حقیقی شفا، نشوونما، اور تبدیلی کی طرف ایک مضبوط قدم ہے۔ جو لوگ اس سفر کا آغاز کرتے ہیں، وہ نہ صرف خود کو بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس تکلیف دہ دائرے سے آزاد کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ محض ایک ذاتی کامیابی نہیں، بلکہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو نسلوں کے لیے شفایابی کا نیا باب کھول سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں گھر اور خاندان میں مثبت تبدیلی آئے گی، جہاں محبت، برداشت اور ہم آہنگی کی فضا پروان چڑھے گی۔

سائیکل بریکنگ میں پہلا قدم: پہچان اور قبولیت

کسی بھی زخم کو بھرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا اعتراف ضروری ہے۔ ہمیں اپنی خاندانی روایات اور طرزِ زندگی پر اثر انداز ہونے والی تکلیف دہ حقیقتوں کو پہچاننا اور قبول کرنا ہوگا۔ شفا کا پہلا قدم یہی ہے کہ ہم اپنی اندرونی تکلیفوں اور غلطیوں کا سامنا کریں، ورنہ ہم ان پر قابو نہیں پا سکیں گے۔

لیکن صرف ماضی کے زخموں کو تسلیم کرنا کافی نہیں۔ ہمیں اپنے اندر خیر کی خواہش، خدا کا خوف، اور اپنی اصلاح کی شدید تمنا کو بھی بیدار کرنا ہوگا۔ اپنی غلطی تسلیم کرنا ہمت کا کام ہے، اور جب ایک ہمت کر لی جائے، تو دوسری ہمت آسان ہو جاتی ہے، —یعنی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا عزم۔

ہمارے ماضی کے رویے اور عادتیں ہماری شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں، اور ہمیں خود بھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارے کون سے رویے زہریلے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے ساتھی ہماری کسی کمی یا برے رویے کی نشاندہی کریں، تو انا اور ضد ہمیں اسے تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔

رمضان کا روحانی ماحول ایک موقع ہے کہ ہم اپنی ذات میں گہرائی سے جھانکیں اور اپنے آپ سے سوال کریں:

  • کیا میرے اندر غصے، خود پسندی، یا بے حسی کی زنجیریں ہیں؟
  • کیا میں نے اپنے قریبی رشتوں کو اذیت دی ہے؟
  • کیا میں معافی مانگ کر اپنے خاندان کے لیے سکون کا راستہ ہموار کر سکتا ہوں؟

جواب ہمیشہ ہمارے اندر سے آتا ہے، اور وہی حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہی خود آگہی (Self-Awareness) ہے، اور ہر انسان اس صلاحیت سے مالا مال ہے۔ رمضان ہمیں اس شعور کے دروازے پر لے آتا ہے، اب یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم اس دروازے سے گزر کر ایک بہتر انسان بننے کا سفر شروع کریں۔

یونانی مفکر سقراط کے زمانے سے لے کر آج تک ماہرینِ نفسیات اس بات سے متاثر رہے ہیں کہ انسان نہ صرف سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ یہ بھی جانچ سکتا ہے کہ وہ کس طرح سوچتا ہے اور کیوں ایسے سوچتا ہے؟ آج کے دور میں، یہی خود آگہی کی صلاحیت (Self-Awareness) عصبی سائنس (Neuroscience) کا میدانِ تحقیق بن گئی ہے ۔اس سوچنے کے عمل کو میٹا کگنیشن (Metacognition) کہا جاتا ہے۔

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں ہم اپنی کہانی کو ایک نئے زاویے سے لکھ سکتے ہیں اور ایک بہتر زندگی کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس سفر میں خود آگہی (Self-Awareness) سب سے مؤثر ذریعہ ہے، اور جرنلنگ (Journaling) اس کا بہترین عملی طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔

جرنلنگ: اپنی ذات سے ملاقات

خود احتسابی کا یہ عمل، جسے ہم یہاں جرنلنگ کہہ رہے ہیں، صرف خیالات قلم بند کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے اندرونی تجربات اور تبدیلیوں کو محفوظ کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ اس کے ذریعے ہم اپنے سفر کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اپنی ترقی کا احساس کر سکتے ہیں۔

رمضان میں روح کا میلان خدا کی طرف زیادہ ہوتا ہے، نفسِ امّارہ کی اکساہٹیں کمزور پڑجاتی ہیں، اور ماحول شخصیت میں تبدیلی کے لیے سازگار ہو جاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب سائیکل بریکر بننے اور اس کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

خود احتسابی کے عمل کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ احساسِ جرم کے بوجھ کو ہلکا کر دیتا ہے، ہمیں اپنے ماضی کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے، حال میں غیر شعوری زندگی گزارنے کے بجائے شعوری فیصلے لینے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے، اور مستقبل کو بہتر بنانے کی راہ دکھاتا ہے۔

معافی: سائیکل بریکنگ کا تیسرا عملی قدم

اگر شوہر نے بیوی کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہو، تو اسے اپنی آخرت کی ناکامی سے بچنے کے لیے دنیا میں اپنی بیوی سے معافی مانگ لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

اسی طرح، اگر بیوی کا رویہ شوہر کے لیے تکلیف دہ رہا ہو، تو رمضان کی ساعتوں میں معافی مانگ لینا ’سائیکل کو بریک‘ کرنے کا اہم قدم ہوگا۔

والدین نے اگر اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہو، تو انھیں اپنے بچوں کے سامنے ندامت کا اظہار کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

بچوں نے اگر والدین کے ساتھ نازیبا سلوک کیا ہو، تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی آغوشِ رحمت میں جا کر معافی طلب کریں، ورنہ وہ بھی اپنے بچوں سے وہی سلوک دیکھیں گے جو انھوں نے اپنے والدین کے ساتھ کیا تھا۔

خود آگہی مایوسی نہیں، بہتری کا راستہ

جب انسان اپنی ذات کی گہرائی میں جھانکتا ہے اور اپنی خامیوں کو پہچانتا ہے، تو بعض اوقات مایوسی کا احساس بھی پیدا ہو سکتا ہے، مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ غلطیوں کا صدور انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ انسان ہمیشہ کامل نہیں ہوتا، لیکن اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور بہتری کی طرف بڑھنا بھی اسی فطرت کا ایک لازمی جزو ہے۔

قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کی اصلاح کی صلاحیت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی مثال ہمارے لیے بہترین سبق ہے۔ انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا کر ایک غلطی کی، مگر جب انھیں اپنی لغزش کا احساس ہوا تو وہ ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اللہ کی طرف پلٹے اور معافی طلب کی۔

یہی وہ روشنی ہے جو ہمیں مایوسی سے نکال کر اصلاح کے راستے پر ڈالتی ہے۔ اصل کامیابی یہ نہیں کہ ہم کبھی غلطی نہ کریں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو پہچان کر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ جو شخص اپنی کوتاہیوں کو پہچان کر انھیں سدھارنے کی نیت کرتا ہے، وہ درحقیقت اپنی شخصیت میں حقیقی تبدیلی کا آغاز کر دیتا ہے۔

خود آگہی: سزا نہیں، شفا کی راہ

خود احتسابی کو مایوسی یا بوجھ سمجھنے کے بجائے، اسے ایک نئے آغاز کا موقع سمجھنا چاہیے۔ انسان اپنی کسی بھی کمزوری کو اپنی تقدیر نہ سمجھے، بلکہ اسے بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اللہ کی رحمت ہمیشہ پکار رہی ہوتی ہے کہ جو پلٹنا چاہے، اس کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے سائیکل بریکر بننے کا حقیقی سفر شروع ہوتا ہے:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا  ۝۰۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۲۳ (اعراف ۷:۲۳)دونوں بول اٹھے:’’اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔

رمضان: ایک نئی زندگی کی ابتدا

رمضان محض ثواب کمانے کا مہینہ نہیں، بلکہ اپنی زندگی کو بدلنے کا مہینہ ہے۔ یہ موقع ہے کہ ہم اپنی ذاتی زندگی کی خامیوں کو پہچانیں اور انھیں دور کریں، اور ان رویوں کی زنجیروں کو توڑیں جو نسل در نسل منتقل ہو کر آنے والی نسلوں کو بھی جکڑ لیتی ہیں۔

اس تبدیلی کے لیے اعتراف پہلا قدم ہے۔ غلطی کرنا انسانی فطرت ہے، اور توبہ کرنا حضرت آدم علیہ السلام کی سنت۔ اگر ہمارے سخت رویے کسی کی دل شکنی کا باعث بنے ہوں، یا ہم نے کسی کو نفسیاتی اذیت میں مبتلا کیا ہو، تو ہمیں ان سے معافی مانگنے میں تردد نہیں کرنا چاہیے۔

غلطیوں کو جان لینے کے بعد ان پر اکڑ جانا شیطانی رویہ ہے۔ لہٰذا، رمضان میں خود احتسابی کا آغاز کریں، تاکہ ہم اپنی زندگی کا رخ درست کر سکیں۔

اس خود احتسابی کے عمل کو مؤثر بنانے کے لیے جرنلنگ کی جائے، تحریری طور پر اپنا جائزہ لیا جائے تاکہ وہ آئینہ ہمارے سامنے رہے جسے دیکھ کر ہم اپنی زندگی کو سنوارنے کا سفر جاری رکھ سکیں۔

امید کی شمع روشن رکھیں!

رمضان کے روزے اور عبادات کا اصل مقصد تزکیۂ نفس اور اصلاحِ کردار ہے۔ یہ مہینہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی شخصیت میں چھپی ہوئی برائیوں کو پہچانیں اور انھیں دُور کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آیا ہم بھی لاشعوری طور پر انھی غلطیوں کو دُہرائے جا رہے ہیں جو ہمارے بڑوں سے ہمیں ملی تھیں؟ اگر ہاں، تو یہی وہ وقت ہے جب ہم اس سلسلے کو توڑ سکتے ہیں اور ایک نئی، بہتر زندگی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔