اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اس انداز میں فرمائی ہے کہ اس کے اندر ہمیشہ خیر اور شر کی کش مکش جاری رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس کش مکش میں کیسے برائیوں اور کمزوریوں سے نجات حاصل کرے اور ایک بہتر انسان بن جائے؟ اسلام کے نزدیک اس کا جواب تزکیہ ہے اور تزکیہ کے دو بنیادی مفہوم بیان کیے گئے ہیں:
۱- پاکیزگی اور صفائی (Self-purification)
۲- ترقی اور کمال تک پہنچنا (Growth)
اسلام کے مطابق، انسان پیدائشی طور پر گناہگار نہیں ہوتا کہ اسے کسی پیدائشی گناہ سے پاک ہونے کی ضرورت ہو، جیسا کہ بعض مذاہب میں Born Sinner کا تصور پایا جاتا ہے۔ بلکہ، زندگی کے سفر میں انسان لاشعوری طور پر اپنے اندر حیوانی صفات سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اس میں ملکوتی صفات کمزور پڑ جاتی ہیں۔ یوں حیوانی خصائل (Beastly Traits) غالب آجاتے ہیں اور ملکوتی خصوصیات (Angelic Traits ) پس پردہ چلی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کو اسی مقصد کے لیے بھیجا کہ وہ انسانوں کا ’تزکیہ‘ کریں۔ مطلب یہ کہ وہ انسان کو برائیوں اور آلودگیوں سے پاک کریں اور اس کی چھپی ہوئی خوبیاں اور صلاحیتیں نکھار کر اسے درجۂ کمال تک پہنچائیں۔ تاکہ وہ ایک بہتر، بااخلاق، اور باکردار شخصیت بن سکے، نیک اور خداترس ہو، اپنے گھر اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو، اس کی زبان شیریں ہو، اور اس کا ہر عمل رحمت کا مظہر بن جائے۔
اسلام نے انسان کے تزکیہ کے لیے عبادات کا ایک مکمل نظام دیا ہے، اور فرد کے تزکیہ کے لیے رمضان میں روزے فرض کیے گئے۔ آیئے اب اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ روزوں اور رمضان کے ذریعے انسان اپنا تزکیہ کیسے کرتا ہے؟
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر انسان کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں: ایک ظاہری شخصیت، جو اس کے رنگ و رُوپ، لباس اور جسمانی خدوخال میں نظر آتی ہے، اور ایک باطنی شخصیت، جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی، مگر اس کی سوچ، رویے اور اعمال کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ عام طور پر انسانوں کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ ظاہری شخصیت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، مگر اپنی باطنی شخصیت کو سنوارنے کی طرف ان کا ذہن نہیں جاتا۔ حالانکہ ظاہری حسن وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتا ہے، جب کہ باطنی حسن وقت کے ساتھ نکھرتا اور بڑھتا چلا جاتا ہے۔ انسان کی شخصیت کی حقیقی جاذبیت اور کشش اس کی باطنی شخصیت میں ہوتی ہے۔ اسی کو نکھارنے اور سنوارنے کی ضرورت ہے۔ رمضان اور روزہ اس عمل میں بہترین مدد فراہم کرتے ہیں، کیونکہ یہ انسان کو اپنے باطن کی اصلاح کا موقع دیتے ہیں۔
چند لمحوں کے لیے ایک شفاف شیشے کے انسان کا تصور کیجیے، جو اندر سے بالکل صاف اور نمایاں ہو، جس کے اندر دو مختلف کیفیات ہوسکتی ہیں:
ان دونوں میں پہلا شخص وہ ہے جس نے اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کیا، جب کہ دوسرا شخص وہ ہے، جس نے اپنے باطن کی صفائی پر محنت کی ہے۔ رمضان اسی تزکیے کا مہینہ ہے، تاکہ ہم اپنے اندر چھپے زہریلے خیالات اور رویوں سے نجات حاصل کر سکیں۔
روزے کا اصل مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں، بلکہ اپنے نفس کی تربیت اور اخلاق کی تہذیب ہے۔ روزے میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ جھوٹ سے بچیں، کسی سے جھگڑا نہ کریں، اور اگر کوئی جھگڑنے آئے، تو نرمی سے جواب دیں: ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ روزہ نگاہوں کی حفاظت، زبان کی شائستگی، اور بُرے خیالات کو روکنے کی مشق ہے۔ یہ ایک ڈھال ہے، جو جہنم کی آگ سے بچانے والی ہے۔ (ترغیب و ترہیب)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهٖ فَلَيْسَ لِلهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهٗ وَشَرَابَهٗ (صحیح البخاري)’’جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور جھوٹے کام کرنے نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس سے بھی کوئی سر وکار نہیں ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑے! (یعنی جب وہ روزہ کا مقصد پورا نہیں کرتا تو بھوکا پیاسا رہنے کی کیا ضرورت ہے ؟)
رمضان وہ موقع ہے جب ہم اپنے اندرونی کانٹوں کو کم کر سکتے ہیں، اپنے دل کے زہریلے سانپ اور بچھو ختم کر سکتے ہیں، اور اپنی ذات میں نرمی، روشنی اور خوشبو پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ محض خواہشات سے ممکن نہیں، بلکہ شعوری کوشش اور محنت کا تقاضا کرتا ہے۔
رمضان ایک خزانوں کے حصول (Treasure Hunt) کا مہینہ ہے۔ اس میں تزکیے اور تربیت کی کنجی موجود ہے، مگر یہ صرف انھی خوش نصیبوں کو ملتی ہے، جو اسے تلاش کرتے ہیں۔
انسان کی اصل حقیقت اس کا باطن ہے۔ اس کی نیت، اس کے خیالات، اس کے دل کی کیفیات، وہ چیزیں ہیں جو اللہ کے ہاں میزان میں تولی جائیں گی۔ روزہ اسی باطن کی تطہیر کا ذریعہ ہے، تاکہ انسان صرف ظاہری پرہیزگاری تک محدود نہ رہے، بلکہ اس کی باطنی شخصیت بھی نورانیت اور تقویٰ سے مزین ہو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا درحقیقت باطنی اصلاح اور نفس کے تزکیے کی بہترین التجا ہے:اَللّٰهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيْ مِنَ النِّفَاقِ ، وَعَمَلِيْ مِنَ الرِّيَاءِ ، وَلِسَانِيْ مِنَ الْكَذِبِ ، وَعَيْــنِيْ مِنَ الْخِيَانَةِ ، فَإنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ’’اے اللہ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریاکاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے، اور میری آنکھوں کو خیانت سے پاک کردے، کیونکہ تو جانتا ہے کہ آنکھوں کی خیانت کیا ہے اور سینوں میں کیا چھپا ہے‘‘۔(الدعوات الکبیرہ، للبیہقی)
اس دعا میں رمضان کے مقاصد کی اصل روح کو بیان کیا گیا ہے۔ روزہ صرف کھانے پینے سے رُک جانے کا نام نہیں، بلکہ یہ خود کو نفاق، ریا، جھوٹ اور خیانت سے پاک کرنے کا ایک تربیتی عمل ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: قُلِ اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً (رواہ الترمذی)’’اے اللہ! میرے باطن کو میری ظاہری حالت سے بہتر بنادے، اور میری ظاہری حالت کو صالح اور درست کر دے‘‘۔
یہ وہی چیز ہے جس کا رمضان میں تزکیہ مطلوب ہے۔ انسان اکثر ظاہری دین داری کا اہتمام تو کرتا ہے، لیکن اس کا باطن حسد، کینہ، غرور، تکبر، اور فخر کی آلودگیوں سے بھرا رہتا ہے۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے باطن کو اپنے ظاہر سے بہتر کرنے پر محنت کریں۔ جب کوئی شخص سحری سے لے کر افطار تک کھانے پینے سے رک سکتا ہے، تو وہ اپنی زبان کو جھوٹ سے، دل کو کدورت سے، اور آنکھوں کو خیانت سے کیوں نہیں روک سکتا؟
حدیث کے آخری جملے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِي النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالأَهْلِ وَالْوَلَدِ غَيْرِ الضَّالِّ وَلاَ الْمُضِلِّ(رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث غریب)’’اے اللہ! میں تجھ سے وہ بھلائیاں مانگتا ہوں، جو تو لوگوں کو مال، اہل و عیال اور اولاد کی صورت میں عطا فرماتا ہے، مگر ایسا رزق اور ایسی نعمتیں نہ ہوں جو گمراہی میں ڈال دیں یا گمراہ کر دیں‘‘۔
یہ رزق اور نعمتوں کے بارے میں ایک حسین توازن کی دعا ہے۔ آج ہم اکثر مال، عہدے، شہرت اور ترقی کی دعائیں مانگتے ہیں، مگر اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ چیزیں ہمارے لیے باعثِ خیر ہوں گی یا فتنے کا سبب بنیں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھا رہے ہیں کہ صرف دنیا نہیں مانگنی چاہیے، بلکہ خیر والی دنیا مانگنی چاہیے۔
رمضان کا حقیقی مقصد یہی تزکیہ ہے کہ انسان اپنے باطن کو پاک کرے، ریاکاری کو ختم کرے، جھوٹ سے بچے، اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرے، اور ایسی دنیا مانگے جو اسے گمراہی سے بچائے، نہ کہ گمراہ کرے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی اندرونی شخصیت کا جائزہ لیں۔ کیا ہمارے اندر نفاق، ریا، جھوٹ، اور خیانت کی جھلک ہے؟ کیا ہمارا باطن اور ظاہر یکساں ہیں؟ کیا ہم جو مانگ رہے ہیں، وہ ہمارے لیے خیر کا سبب بھی ہے یا صرف دنیا کی چمک دمک کا فریب؟ اگر ہم نے رمضان میں اپنے اندرونی سانپ اور بچھو ختم نہ کیے، اگر ہم نے اپنے باطن کی کثافتوں کو دور نہ کیا، اگر ہم نے اپنی نیت میں اخلاص پیدا نہ کیا —تو پھر روزہ محض بھوک اور پیاس رہ جائے گا، اور اس کا حقیقی فائدہ ہم حاصل نہیں کر سکیں گے۔ہم سب کو چاہیے کہ اس رمضان میں کوشش کریں:
اس مضمون میں ذاتی تربیت کے لیے دو اہم نکات پر توجہ دی جائے گی۔ ان میں ایک برائی ایسی ہے جس کے اثرات زیادہ تر فرد کی ذات تک محدود رہتے ہیں، جب کہ دوسری برائی سے نہ صرف فرد بلکہ اس کا خاندان اور نسلیں متاثر ہوتی ہیں۔
بظاہر، پہلی برائی صرف فرد تک محدود دکھائی دیتی ہے، مگر یہ سماجی اور اخلاقی سطح پر بھی اپنا ایک اثر ضرور چھوڑتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص سگریٹ نوشی کرتا ہے تو اس کے بُرے اثرات اَن دیکھے نہیں ہوتے، مگر اس کے رویے سے ماحول پر ایک غیر محسوس اثر ضرور پڑتا ہے۔ اگر وہ خالی سگریٹ کے پیکٹ سڑک پر پھینک دیتا ہے، تو یہ شاید ماحولیات (Ecology) کو زیادہ نقصان نہ پہنچائے، لیکن نئی نسل کے لیے یہ ایک اخلاقی پیغام ضرور چھوڑے گا اور سماجی اخلاقیات کو ضرور متاثر کرے گا ۔ جو چیز ہمیں بار بار نظر آتی ہے، وہ ہمارے لاشعور میں گھر کر جاتی ہے۔ بچے اور نوجوان جب بار بار یہ مناظر دیکھتے ہیں، تو ان میں سگریٹ نوشی کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے، خاص طور پر وہ جو خود پر قابو پانے میں کمزور ہوتے ہیں۔ اسی طرح، اگر کسی شخص میں نمائشی مزاج پایا جاتا ہے، تو وہ بظاہر کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہا، مگر معاشرے میں نمائشی طرزِ زندگی کا ایک خاموش مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پھر لوگ یہ سمجھے بغیر کہ اس دوڑ کا آغاز کہاں سے ہوا، اس میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
دوسری طرف، کچھ برائیاں ایسی ہیں، جن کے اثرات براہ راست قریبی رشتوں پر پڑتے ہیں، اور ان سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ مثلاً، اگر کوئی شخص مار پیٹ کا عادی ہو، تو وہ صرف اپنی شخصیت کا نقصان نہیں کرتا بلکہ اپنے گھر کے ماحول کو زہر آلود بنا دیتا ہے۔ اس کے بیوی اور بچے اس کے ظلم کا شکار بنتے ہیں، اور یہ سلسلہ اکثر اگلی نسل تک منتقل ہو جاتا ہے۔ گھر میں موجود بچے اس رویے کو دیکھ کر خود بھی جبر اور تشدد کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر جب وہ اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں، تو اسی رویے کو دُہراتے ہیں، اور یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
یہ ہیں وہ دو خرابیاں جن کے ازالے کے بغیر تزکیہ ناممکن ہے۔ ان سے چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں ’ریوڑ ذہنیت‘ (Herd Mentality) سے نکل کر سوچنا ہوگا۔ یعنی وہ اجتماعی رویہ جس میں لوگ سوچے سمجھے بغیر دوسروں کے پیچھے چل پڑتے ہیں، اس سے ہٹ کر ہمیں شعوری بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ رمضان اسی بیداری کا نام ہے، تاکہ ہم نہ صرف اپنی ذات کی اصلاح کریں بلکہ معاشرے پر بھی مثبت اثر ڈال سکیں۔
رمضان المبارک ایک زریں موقع فراہم کرتا ہے کہ انسان اپنی ذات کے اندر جھانک کر یہ دیکھے کہ اس کا باطنی وجود کس حالت میں ہے؟ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل و دماغ کی گلیوں میں گرد و غبار جمی ہے، جذبات میں کدورتیں بسی ہیں، سوچ پر منفی خیالات کا پہرہ ہے، اور نفس میں ایسی اُلجھنیں سرایت کر چکی ہیں جو انسان کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ بعض لوگ غصّے اور تشدد کے غلام ہوتے ہیں، کچھ شہوت اور نفس پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بعض کو احساسِ برتری کا روگ لگ جاتا ہے، اور کچھ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اپنی شخصیت کو مفلوج کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ دولت کی محبت میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ حقوق العباد کی ادائیگی بھول جاتے ہیں، جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اذیت دے کر سکون محسوس کرتے ہیں۔کوئی اپنے حسن کے غرور میں مبتلا ہے، تو کسی کو اپنے خاندان کی طاقت، شہرت اور پھیلائو پر ناز ہے۔ کچھ لوگ کسی کی مستقل دشمنی پال کر رکھتے ہیں، اور کچھ بددیانتی کو اپنا حق سمجھ بیٹھتے ہیں۔ بعض افراد اپنی کمزوریوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیراتے ہیں، جب کہ افراد میں کچھ لوگ دین کے کام میں دوسروں کی خامیوں کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
تزکیہ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان باطنی آلودگیوں کو پہچانے اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے خود احتسابی کرے۔ یہ اور اس جیسے کئی رویے اور عادات ہیں جن سے نکلے بغیر حقیقی تزکیہ ممکن نہیں۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے باطن کا محاسبہ کریں، اپنی اصلاح کریں، اور اپنی زندگی میں وہ پاکیزگی پیدا کریں جو ہمیں اللہ کے قریب لے جائے۔
انسان کے مزاج میں بعض ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں، جن کے اثرات بظاہر دوسروں پر نمایاں نہیں ہوتے، مگر وہ اس کی شخصیت کی تعمیر اور باطنی ترقی کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر دیتی ہیں، جیسے خود پسندی، نمایشی مزاج، معمولی باتوں پر غصہ، بے جا حسد، وقت ضائع کرنے کی عادت، یا دوسروں کی کامیابیوں پر دل میں ناپسندیدگی محسوس کرنا۔ یہ وہ خامیاں ہیں جو بظاہر معاشرے پر براہِ راست اثر نہیں ڈالتیں، مگر فرد کی سوچ، رویے اور فیصلوں کو متاثر ضرور کرتی ہیں۔ بسااوقات فرد محسوس نہیں کرتا کہ اس کے وہ منفی رویے اس کے تعلقات کو خراب کرنے، کامیابی کی منزلوں کو دُور کرنے، اور ذہنی سکون پر ڈاکا ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ اصل میں فرد کی ناپسندیدہ عادتیں ہی اسے نقصان پہنچاتی ہیں ۔ اکثر لوگ ان خرابیوں کو محسوس ہی نہیں کرتے کیونکہ یہ آہستہ آہستہ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں، اور جب تک انسان خود شعوری کوشش نہ کرے، وہ انھیں اپنے وجود سے الگ نہیں کر سکتا۔ رمضان خود احتسابی کا مہینہ ہے، اس موقع پر ہم ان نظر نہ آنے والی کمزوریوں پر غور کریں اور ان سے باہر نکلنے کی راہ تلاش کریں۔
ان اندرونی کمزوریوں سے باہر نکلنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان خود آگاہ ہو، یعنی اپنے مزاج کو سمجھے اور اس کا تجزیہ کرے۔ اس کے لیے روزانہ رات کو چند لمحے نکال کر اپنا محاسبہ کیا جائے کہ آج کے دن کیا میں نے کسی موقع پر خود پسندی دکھائی؟ کیا میں نے وقت ضائع کیا؟ کیا میں نے کسی کی برتری کو دل میں ناگوار محسوس کیا؟ کیا میں نے اخلاقی رزائل کو دبے پاؤں اپنے اندر آنے کی آہٹ کو محسوس کیا ؟کیا میں سگرٹ نوشی کی عادت چھوڑ سکتا ہوں؟ کیا میں اپنے اسکرین ٹائم کو کم کر سکتا ہوں؟ کیا میں موبائل فون کی لت سے باہر آ سکتا ہوں؟ یہ سوالات انسان کو اپنی خامیوں کا شعور دیں گے اور بہتری کی راہ کھولیں گے۔
دوسرا قدم چھوٹے چھوٹے عملی اقدامات ہیں۔ اگر کوئی شخص جلد غصے میں آتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ رمضان میں ضبطِ نفس کی مشق کرے اور اپنے ردعمل کو سنوارنے کے لیے خاموش رہنے اور برداشت کرنے کی عادت اپنائے۔ اگر کوئی دوسروں کی کامیابیوں سے حسد محسوس کرتا ہے، تو وہ شعوری طور پر دوسروں کے لیے دعا دینے اور ان کی کامیابی پر خوش ہونے کی عادت ڈالے۔ اسی طرح اگر کوئی وقت ضائع کرنے کی عادت کا شکار ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ہر دن کا ایک ہدف مقرر کرے اور دن کے آخر میں جائزہ لے کہ اس نے وقت کیسے گزارا؟ اگر وہ اخلاقی رذائل جیسے جھوٹ، بے شرمی، بے حیائی، لڑائی جھگڑا اپنے اندر پاتا ہے تو اسے چاہیے کہ منصوبہ بند طریقے سے بیک وقت ایک ایک بُرائی سے بچنے کی کوشش کرے۔ اگر موبائل فون کا کثرت سے بے جا استعمال ہو رہا ہو تو اس کے مفید استعمال کے طریقوں کو سیکھنے کا اہتمام کرے اور رمضان تبدیلی کا بہترین موقع ہے۔
انسان کی شخصیت میں موجود غیر محسوس برائیاں اکثر لاشعوری سطح پر پروان چڑھتی ہیں۔ مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر کارل راجرز (Carl Rogers) کے Self-Concept Theory کے مطابق، ہر انسان کے اندر ایک ’اپنی حقیقی ذات‘ (Real Self) اور ایک ’اپنی مثالی ذات‘ (Ideal Self) موجود ہوتی ہے۔ اگر دونوں میں زیادہ فرق ہو، تو انسان اندرونی بےچینی اور عدم اطمینان کا شکار ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک شخص اپنے آپ کو بہت منظم اور باوقار سمجھتا ہے، مگر عملی زندگی میں وہ وقت ضائع کرتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرتا ہے، یا خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب اس کا اصل رویہ اس کے خیالی تصور سے میل نہیں کھاتا، تو وہ یا تو اپنے رویے کو درست کرتا ہے یا خود کو دھوکا دینے لگتا ہے۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی اصل شخصیت اور اپنے مثالی تصور کے درمیان فرق کو کم کریں، تاکہ ہماری شخصیت میں بے چینی اور داخلی تضاد ختم ہو، اور پُرسکون زندگی گزار سکیں۔
مشہور ماہرِ نفسیات لیون فیسٹنگر (Leon Festinger) نے Cognitive Dissonance Theory پیش کی، جس کے مطابق جب انسان کے عقائد، رویے اور اعمال میں تضاد ہوتا ہے، تو وہ اندرونی بےچینی (psychological discomfort) محسوس کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک شخص اپنے آپ کو دُنیا کے سامنے ایمان دار فرد کے طور پر پیش کرتا ہے اور پھر یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ واقعی ایمان دار ہے، مگر دوسری طرف معمولی مواقع پر جھوٹ بولتا ہے، یا اپنے آپ کو نیک اور خدا ترس جانتا ہے، مگر دوسروں کی برائی کرتا ہے یا حسد میں مبتلا ہوتا ہے، تو اس کے لاشعور میں ایک ذہنی تصادم پیدا ہوتا ہے، جو یا تو اسے اپنی غلطیوں کو درست کرنے پر مجبور کرتا ہے یا پھر اسے خود فریبی میں مبتلا کر دیتا ہے۔
یہ ذہنی تضاد ہماری روزمرہ زندگی میں کئی جگہوں پر نمایاں نظر آتا ہے۔ ہم چاہتے کچھ اور ہیں، مگر کرتے کچھ اور ہیں۔ مثال کے طور پر، عورتیں دوسروں کے بچوں سے نرمی اور محبت سے پیش آتی ہیں، مگر اپنے ہی بچوں پر سختی برتتی ہیں۔ مرد مجلسوں میں عورتوں کے حقوق پر پُرجوش تقاریر کرتے ہیں، مگر اپنے گھروں میں بیوی کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ واعظین دینداری اور ایمانداری کی تلقین کرتے ہیں، مگر خود ان کے ادارے ان کے اصولوں کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ مقررین امت میں اتحاد کا درس دیتے ہیں، مگر ذاتی ملاقاتوں میں مسلکی تعصب اور گروہی وابستگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک شہر میں اتحاد امت کا ایک عظیم جلسہ ہوا۔ اس جلسے میں ایک مکتب فکر کے مولانا نے بہت اچھی تقریر کی۔ کچھ دنوں کے بعد منتظمین کی جماعت سے کچھ لوگ ان کی مسجد میں گئے اور ان سے کہا کہ آپ کی مسجد میں ہم ایک پروگرام کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا نے ارشاد فرمایا کہ میں تمھارے اسٹیج پر جلوہ افروز ہوا، اس پر اکتفا کریں۔ اتحاد کے مظہر کے طور پر اگر ہماری مسجد میں آپ لوگوں کا کوئی جلسہ ہوگا تو میرے مقتدی خفا ہو جائیں گے اور اس مسجد میں ہمارا کنٹرول ختم ہو جائے گا۔
یہ تضادات Cognitive Dissonance کا عملی مظہر ہیں، جہاں انسان اپنی اصلی شخصیت اور اپنے ظاہری نظریات کے درمیان تضاد سے دوچار ہوتا ہے۔ ان تضادات کو ہمیں سمجھنے اور ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ قول و فعل میں ہم آہنگی ہی اصل اخلاقی خوبصورتی ہے۔ رمضان وہ وقت ہے جب انسان کو ان تضادات کا سامنا کر کے، اپنی اصل شخصیت کو اپنے اخلاقی اور روحانی نظریات کے قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہمارے خیالات، رویے اور اعمال میں ہم آہنگی پیدا ہو اور ہم اندرونی سکون حاصل کر سکیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق شناخت کے تضاد (Cognitive Dissonance) کو دُور کرنے کے لیے انسان کو یا تو اپنے رویے میں تبدیلی لانی پڑتی ہے، یا اپنے خیالات اور عقائد کو نئے طریقے سے ترتیب دینا پڑتا ہے، تاکہ اس کے ذہن میں تضاد ختم ہو اور وہ داخلی سکون حاصل کر سکے۔
اس بےچینی سے نجات کے لیے وہ تین طریقے اختیار کر سکتا ہے:
اصل کامیابی تب ہوتی ہے جب انسان اپنے تضاد کو جواز دینے کے بجائے، اپنے رویے کو اپنی اصل اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔
۱- اپنے اعمال کا تجزیہ کریں –۔ اس رمضان میں کسی دن چند لمحے نکال کر یہ سوچیں کہ کیا میں واقعی وہی شخص ہوں جس کا میں دعویٰ کرتا ہوں یا جو عام طور پر میرے قدردان مجھے سمجھتے ہیں؟
۲- اپنے نظریات کو اپنے عمل سے قریب کریں۔ – اگر آپ انصاف، دیانت، اور محبت کے قائل ہیں، تو اپنی زندگی میں ان کو عملی طور پر اپنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ بچوں کی تربیت کی بات کرتے ہیں تو ان پر وقت صرف کریں۔ اُوپر مذکور مثال میں کبھی کبھی اپنی مسجد میں دیگر مکتب فکر کے عالم دین سے خطبہ دینے کی گزارش کریں یا کسی جلسے کے بہانے انھیں اظہارِ خیال کا موقع دیں۔
الغرض اس رمضان میں ہماری کوشش ہو کہ ہم ’اپنی حقیقی ذات‘ (Real Self) اور اپنی ’مثالی ذات‘ (Ideal Self) میں ہم آہنگی پیدا کرلیں۔ – اپنی اصل شخصیت کو مثالی شخصیت کے قریب لے آئیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ بہتری پیدا کرنے کے لیے تدریجی اور منصوبہ بند کوشش کرنی چاہیے۔
ابتدا میں ہم نے یہ ذکر کیا تھا کہ بعض افراد ایسے متشدد رویوں کے عادی ہوتے ہیں، جن کے اثرات صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ان کا پورا خاندان متاثر ہوتا ہے اور یہ رویے نسل در نسل منتقل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل بے نتیجہ نہیں ہوتا، اور اس کا ہر رویہ دوسروں کے لیے ایک پیغام بن جاتا ہے، —چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا۔
گھر میں شوہر کا اپنی اہلیہ سے سلوک درحقیقت اس کے بچوں کے لیے ایک خاموش پیغام ہوتا ہے۔ مائیں بھی بعض اوقات بچوں کے ساتھ نرمی، ہمدردی اور شائستگی سے پیش آنے کے بجائے سختی اور درشتی اختیار کر لیتی ہیں، جو ان کی نفسیاتی نشوونما پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ نفسیات کا اصول کہتا ہے کہ ’’انسان چاہے بولے یا خاموش رہے، اس کے الفاظ، حرکات و سکنات اور طرزِ عمل ہمیشہ دوسروں تک کوئی نہ کوئی پیغام ضرور پہنچاتے ہیں‘‘۔ اسی طرح، کسی بھی فرد کے اعمال کا ایک انجام ہوتا ہے۔ اگر گھر میں حُسنِ سلوک اور محبت کا رویہ ہو تو اس کا نتیجہ ایک خوش حال اور پُرامن خاندان کی صورت میں نکلتا ہے، جہاں بیوی بچوں کی دعائیں اور محبتیں نصیب ہوتی ہیں۔ ایسے گھروں میں پروان چڑھنے والے بچے والدین کے لیے نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اگر رویہ سخت اور ظالمانہ ہو، تو یہی قریبی رشتے نفرت کا شکار ہو جاتے ہیں، اور بعض اوقات اس کے اثرات نسلوں تک پھیل جاتے ہیں۔
میرے پاس ایسے بے شمار کیسز آتے ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو شدید ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا سامنا ہوتا ہے، کیونکہ ان کے والدین نے گھریلو تشدد کو معمول بنا رکھا تھا، یا بچوں پر شدید دباؤ ڈالتے ہیں، یا ان کے مطالبے انتہائی سخت ہوتے ہیں۔ بعض نے اپنی ماؤں کو پٹتے دیکھا اور بڑے ہو کر وہی عمل اپنی زندگی میں دہرایا۔ اب جب ان کی شادی ہونے کو ہے، تو وہ اس عادت سے نجات حاصل کرنے کے لیے بے حد فکر مند ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گھر کے بچے جو کچھ اپنے بچپن میں دیکھتے، سہتے اور محسوس کرتے ہیں وہ لاشعور میں ثبت ہو کر شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر اس رویے کو درست نہ کیا جائے، تو یہی زنجیر نسل در نسل منتقل ہو کر ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ بن جاتی ہے۔
اس کی بے شمار مثالیں میرے پاس موجود ہیں۔یہاں ایک لڑکے کی کہانی نقل کی جاتی ہے جو شدید ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس نے اپنی کہانی یوں بیان کی ہے:
میری والدہ ایک تعلیم یافتہ اور خوشحال خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، جب کہ میرے والد بالکل اَن پڑھ اور غریب خاندان سے تھے۔ دونوں کے درمیان ذہنی مطابقت نہیں تھی۔ میرے والد میری والدہ پر ذرا ذرا سی بات پر تشدد کرتے تھے۔
ایک مرتبہ ہم دوسرے شہر جا رہے تھے کہ راستے میں میرا پیٹ خراب ہوگیا تھا۔ جیسے ہی ہم کسی بستی میں پہنچے، میری والدہ نے والد سے کہا کہ بس اسٹینڈ پر رک کر مجھے دھو لیں۔ والد نے بس رکوا دی، لیکن جب وہ مجھے صاف کر رہی تھی، تو بس والا چلا گیا۔ والدہ نے والد سے پوچھا کہ بس والا کہاں ہے؟ تو والد نے کہا کہ وہ تو چلا گیا اور میں نے اس سے باقی کے پیسے واپس لے لیے ہیں۔ یہ کہہ کر میرے والد نے والدہ کو اتنے زور سے طمانچہ مارا کہ وہاں موجود لوگ دیکھنے لگے۔
یہی سب ہوتا رہا، اور جیسے جیسے ہم بڑے ہوئے، ہم بھی اپنی والدہ کے لیے سہارا بننے کے بجائے انھیں مارنے لگے۔ میں خود کئی بار اپنی ماں کی لیٹی ہوئی چارپائی پلٹ چکا ہوں، کئی بار دودھ کے برتن پھینک کر مارے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں میری والدہ کو شوگر ہو گئی۔ ایک دن میری نانی انھیں ہسپتال لے گئیں، تو ڈاکٹر نے شوگر لیول چیک کیا، جو اتنا زیادہ تھا کہ وہ چھوٹی مشین میں آ ہی نہیں رہا تھا۔ بڑی مشین سے چیک کیا تو اتنا زیادہ نکلا کہ فوراً ICU میں داخل کر دیا گیا۔ والد ہسپتال آئے اور زور زور سے چلّانے لگے کہ یہ کھانا بنانے سے بچنے کے بہانے کر رہی ہے۔ ایک دن فجر کے بعد میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ مگر ان کے انتقال سے ایک روز پہلے بھی میرے والد نے اُن سے درشتی اور سنگ دلی سے طعنہ زنی کی جس پر میرا جی چاہا کہ میں اپنے والد کو جان سے مار ڈالوں۔
طویل خط کا ایک مختصر حصہ یہاں پیش کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو اس گہرے نفسیاتی مسئلے کی نشاندہی ہو، جسے Intergenerational Transmission of Trauma یعنی ’نسلی صدمے کی منتقلی‘ کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد وہ صدمات ہیں جو ایک نسل کے تجربات سے پیدا ہوتے ہیں اور اگلی نسلوں پر نفسیاتی اور جسمانی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
یہ منتقلی مختلف ذرائع سے ہوتی ہے، جن میں خاندانی رویے اور حرکیات (Family Dynamics) بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ باپ کس طرح کا رویہ اپناتا ہے، ماں کا کردار کیا ہوتا ہے، اور والدین کے درمیان ہونے والی گفتگو اور رویے کس انداز میں بچوں پر اثر ڈالتے ہیں؟ یہاں تک کہ یہ عمل حیاتیاتی طور پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، جہاں اسٹریس ہارمونز (Stress Hormones) اور دیگر نفسیاتی عوامل نسل در نسل منتقل ہو سکتے ہیں۔
اس موضوع پر ماہرین نفسیات یھیل ڈینیئلی (Yael Danieli) اور جینیٹ نیبٹ (Janet Nebbit) نے تفصیلی تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق، اگر ایک نسل کسی تکلیف دہ تجربے (جیسے تشدد، ظلم، یا ذہنی دباؤ) سے گزرتی ہے، تو وہ شعوری یا لاشعوری طور پر یہی رویے اگلی نسل میں منتقل کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی بچہ بچپن میں والدین کے تشدد کا مشاہدہ کرتا ہے، تو اس کے اندر بھی یہی رویہ پروان چڑھنے لگتا ہے، اور بعد میں وہ اپنے تعلقات میں اسی طرزِ عمل کو دُہراتا ہے۔
اُوپر کے خط میں آپ نے دیکھا کہ بچوں میں بھی تشدد کا رجحان غیر شعوری طور پر جڑ پکڑ لیتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بیٹا خود اپنے باپ پر تشدد کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ نفسیات میں اس عمل کو Coping Mechanisms یعنی ’مقابلہ کرنے کی حکمت عملی‘ کہا جاتا ہے۔ جب گھر کا ماحول مسلسل خراب رہتا ہے، تو بچے اسی ماحول میں جینے کے لیے ڈرے سہمے خاموش، بے زبان ہو جاتے ہیں اور زندگی کے کسی معاملے میں فیصلہ لینے کی ان کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے یا وہ اسی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ مار پیٹ اور تشدد ایک عام سی بات بن جاتی ہے، اور بچے اپنے والدین کے طرزِ عمل کی نقل کرتے ہوئے یا تو جارحیت اختیار کرتے ہیں یا بالکل خاموش اور اجتناب کی راہ اپنا لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ اپنے تعلقات میں بھی انھی رویوں کو دُہرانے لگتے ہیں۔
ان میں غیر مہذب رویہ، جھگڑالو طبیعت، یا بالکل تنہائی پسندی پیدا ہو سکتی ہے۔
یہ تمام مسائل درحقیقت وہی نفسیاتی زخم ہیں جنھیں والدین نے اپنی نسل میں حل نہیں کیا، اور اس کی لعنت بچے بھگتتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے، جب تک کہ کوئی شعوری طور پر اس سائیکل کو توڑنے کا فیصلہ نہ کرے۔
ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں۔اس موقع پر آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس مسئلے کا رمضان سے کیا تعلق ہے؟
اس موضوع کو چھیڑنے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر لوگ رمضان کو محض نیکیاں کمانے اور ثواب جمع کرنے کا مہینہ سمجھتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ان کی زندگیوں میں کوئی عملی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ حالانکہ رمضان المبارک شخصیت کی تربیت اور اس کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ روزے داروں کی ایک بڑی تعداد اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہے کہ رمضان ان کی شخصیت کو نیا رُخ دے سکتا ہے، اور ان کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے۔
عمومی طور پر خطبے، گفتگو اور تقاریر زیادہ تر ’ثواب تولنے‘ کے تصور پر مرکوز رہتی ہیں، لیکن اس پہلو پر کم ہی زور دیا جاتا ہے کہ رمضان فرد کی شخصیت کو سنوارنے کا ایک نادر موقع ہے۔ یہ مہینہ خود احتسابی اور شعورِ ذات (Self-Awareness) کو بیدار کرنے کے لیے آیا ہے، تاکہ انسان اپنے اندرونی تضادات کو ختم کرے، رویے میں متانت اور بردباری پیدا کرے، برتاؤ میں وقار پیدا ہو، اور وہ اپنے گھر اور معاشرے کے لیے رحمت بن جائے۔
اس کے لیے سب سے پہلی شرط ’شعورِ ذات‘ ہے، —یعنی انسان خود کو سمجھے، اپنی خامیوں اور خوبیوں کو پہچانے، اور اپنی اصلاح کے لیے رمضان کو ایک عملی موقع بنائے، نہ کہ صرف ظاہری عبادات تک محدود رہے۔
اب ہم ان اقدامات پر بات کریں گے جو ایک فرد کو نسل در نسل منتقل ہونے والے صدمات (Generational Trauma) کے چکر کو ختم کرنے اور روحانی و نفسیاتی زخموں سے شفا پانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یہ ایک نیا سفر ہوگا، جہاں پرانے تشدد اور ظلم کے سلسلے کو روکنا ہوگا اور سائیکل آف وائلنس پر بریک لگانی ہوگی۔
جو شخص ’سائیکل بریکر‘ (Cycle-Breaker) بنے گا، وہ آنے والی نسلوں کی دعاؤں کا حق دار بنے گا۔ لیکن اگر یہ زنجیر نہ توڑی گئی، تو ظلم، تشدد، مار پیٹ اور تذلیل کے رویے کا نقصان دونوں جہانوں میں اٹھانا پڑے گا۔
۱- —یہ رویے اگلی نسلوں کو برباد کر دیں گے، اور ان کی بددعائیں قیامت تک جاری رہیں گی۔
۲- آخرت میں —ہر شخص کو اللہ کے حضور تنہا جواب دہ ہونا ہے، اور اس کا حساب دینا ہے کہ اس نے اپنی نسلوں کے لیے کیسا نمونہ چھوڑا۔
جو فرد اپنے خاندانی پس منظر میں نقصان دہ رویوں اور عادات کو پہچانےگا، جن کی جڑیں مضبوط ہو چکی ہوں اور ان میں مثبت تبدیلی لائے گا، وہ شخص قابل مبارک باد ہے۔ ان شاءاللہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پُرامن زندگی کی بنیاد رکھ سکے گا۔ اس کے نتیجے میں اس کا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل نسل در نسل منتقل ہونے والے تشدد سے آزاد ہوگا۔
اگلے مرحلے میں، ہم ان نکات پر روشنی ڈالیں گے جو نہ صرف جذباتی صدمے کو پہچاننے میں مدد دیں گے، بلکہ خاندانی پس منظر میں موجود مضبوطی، صبر، اور استقامت کو بھی نمایاں کریں گے۔
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ذہنی سکون ملے اور اس کے خاندانی تعلقات میں مفاہمت ہو۔ کچھ لوگوں میں یہ خواہش بہت طاقت ور ہوتی ہے، جب کہ کچھ میں یہ احساس مضمحل ہوجاتا ہے۔ ہم اپنی اگلی نسلوں کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں، لیکن اکثر اپنے رویوں سے ان کی ذہنی صحت پر گہرے منفی اثرات چھوڑ دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اثرات اس قدر شدید ہو جاتے ہیں کہ وہ زندگی میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔
کچھ عادات اور رویے ایسے ہوتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں، جیسے:l✔ غیر معمولی غصہ اور تشدد l✔ گھر میں مار پیٹ اور بدزبانی l✔ بچوں پر غیر ضروری سختی اور بے جا دباؤ l✔ بے اعتدالی اور جذباتی بے قابو پن۔
انسانی اَنا اور شیطان ان زنجیروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انسان خدا کا نائب ہونے کا شرف نہ پا سکے۔ مگر جو لوگ ان زنجیروں کو توڑنے کی ہمت کرتے ہیں، وہ درحقیقت ایک شفا بخش وراثت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ان کے مثبت اور خوشگوار رویے خاندان کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے مینارِ نور ثابت ہوں گے۔ جب کبھی زندگی میں مشکلات اور اندھیروں کا سامنا ہو، تو ان کے بچے اپنے والدین کے رویوں سے حوصلہ اور عزم حاصل کریں گے۔
ایسے افراد جو یہ پہلا قدم اٹھاتے ہیں، وہی درحقیقت ’سائیکل بریکر‘ کہلاتے ہیں۔
سائیکل بریکنگ یعنی خاندانی صدمے اور منفی رویوں کے سلسلے کو توڑنا ایک بہت بڑا قدم ہے۔ یہ اس بات کا شعوری فیصلہ ہے کہ ماضی سے چلے آ رہے نقصان دہ رویوں کو ختم کرنا ہے اور ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھنی ہے۔
یہ صرف بقا (Survival) کی کوشش نہیں، بلکہ حقیقی شفا، نشوونما، اور تبدیلی کی طرف ایک مضبوط قدم ہے۔ جو لوگ اس سفر کا آغاز کرتے ہیں، وہ نہ صرف خود کو بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس تکلیف دہ دائرے سے آزاد کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ محض ایک ذاتی کامیابی نہیں، بلکہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو نسلوں کے لیے شفایابی کا نیا باب کھول سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں گھر اور خاندان میں مثبت تبدیلی آئے گی، جہاں محبت، برداشت اور ہم آہنگی کی فضا پروان چڑھے گی۔
کسی بھی زخم کو بھرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا اعتراف ضروری ہے۔ ہمیں اپنی خاندانی روایات اور طرزِ زندگی پر اثر انداز ہونے والی تکلیف دہ حقیقتوں کو پہچاننا اور قبول کرنا ہوگا۔ شفا کا پہلا قدم یہی ہے کہ ہم اپنی اندرونی تکلیفوں اور غلطیوں کا سامنا کریں، ورنہ ہم ان پر قابو نہیں پا سکیں گے۔
لیکن صرف ماضی کے زخموں کو تسلیم کرنا کافی نہیں۔ ہمیں اپنے اندر خیر کی خواہش، خدا کا خوف، اور اپنی اصلاح کی شدید تمنا کو بھی بیدار کرنا ہوگا۔ اپنی غلطی تسلیم کرنا ہمت کا کام ہے، اور جب ایک ہمت کر لی جائے، تو دوسری ہمت آسان ہو جاتی ہے، —یعنی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا عزم۔
ہمارے ماضی کے رویے اور عادتیں ہماری شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں، اور ہمیں خود بھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارے کون سے رویے زہریلے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے ساتھی ہماری کسی کمی یا برے رویے کی نشاندہی کریں، تو انا اور ضد ہمیں اسے تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔
رمضان کا روحانی ماحول ایک موقع ہے کہ ہم اپنی ذات میں گہرائی سے جھانکیں اور اپنے آپ سے سوال کریں:
جواب ہمیشہ ہمارے اندر سے آتا ہے، اور وہی حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہی خود آگہی (Self-Awareness) ہے، اور ہر انسان اس صلاحیت سے مالا مال ہے۔ رمضان ہمیں اس شعور کے دروازے پر لے آتا ہے، اب یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم اس دروازے سے گزر کر ایک بہتر انسان بننے کا سفر شروع کریں۔
یونانی مفکر سقراط کے زمانے سے لے کر آج تک ماہرینِ نفسیات اس بات سے متاثر رہے ہیں کہ انسان نہ صرف سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ یہ بھی جانچ سکتا ہے کہ وہ کس طرح سوچتا ہے اور کیوں ایسے سوچتا ہے؟ آج کے دور میں، یہی خود آگہی کی صلاحیت (Self-Awareness) عصبی سائنس (Neuroscience) کا میدانِ تحقیق بن گئی ہے ۔اس سوچنے کے عمل کو میٹا کگنیشن (Metacognition) کہا جاتا ہے۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں ہم اپنی کہانی کو ایک نئے زاویے سے لکھ سکتے ہیں اور ایک بہتر زندگی کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس سفر میں خود آگہی (Self-Awareness) سب سے مؤثر ذریعہ ہے، اور جرنلنگ (Journaling) اس کا بہترین عملی طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔
خود احتسابی کا یہ عمل، جسے ہم یہاں جرنلنگ کہہ رہے ہیں، صرف خیالات قلم بند کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے اندرونی تجربات اور تبدیلیوں کو محفوظ کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ اس کے ذریعے ہم اپنے سفر کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اپنی ترقی کا احساس کر سکتے ہیں۔
رمضان میں روح کا میلان خدا کی طرف زیادہ ہوتا ہے، نفسِ امّارہ کی اکساہٹیں کمزور پڑجاتی ہیں، اور ماحول شخصیت میں تبدیلی کے لیے سازگار ہو جاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب سائیکل بریکر بننے اور اس کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
خود احتسابی کے عمل کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ احساسِ جرم کے بوجھ کو ہلکا کر دیتا ہے، ہمیں اپنے ماضی کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے، حال میں غیر شعوری زندگی گزارنے کے بجائے شعوری فیصلے لینے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے، اور مستقبل کو بہتر بنانے کی راہ دکھاتا ہے۔
اگر شوہر نے بیوی کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہو، تو اسے اپنی آخرت کی ناکامی سے بچنے کے لیے دنیا میں اپنی بیوی سے معافی مانگ لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح، اگر بیوی کا رویہ شوہر کے لیے تکلیف دہ رہا ہو، تو رمضان کی ساعتوں میں معافی مانگ لینا ’سائیکل کو بریک‘ کرنے کا اہم قدم ہوگا۔
والدین نے اگر اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہو، تو انھیں اپنے بچوں کے سامنے ندامت کا اظہار کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
بچوں نے اگر والدین کے ساتھ نازیبا سلوک کیا ہو، تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی آغوشِ رحمت میں جا کر معافی طلب کریں، ورنہ وہ بھی اپنے بچوں سے وہی سلوک دیکھیں گے جو انھوں نے اپنے والدین کے ساتھ کیا تھا۔
جب انسان اپنی ذات کی گہرائی میں جھانکتا ہے اور اپنی خامیوں کو پہچانتا ہے، تو بعض اوقات مایوسی کا احساس بھی پیدا ہو سکتا ہے، مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ غلطیوں کا صدور انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ انسان ہمیشہ کامل نہیں ہوتا، لیکن اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور بہتری کی طرف بڑھنا بھی اسی فطرت کا ایک لازمی جزو ہے۔
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کی اصلاح کی صلاحیت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی مثال ہمارے لیے بہترین سبق ہے۔ انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا کر ایک غلطی کی، مگر جب انھیں اپنی لغزش کا احساس ہوا تو وہ ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اللہ کی طرف پلٹے اور معافی طلب کی۔
یہی وہ روشنی ہے جو ہمیں مایوسی سے نکال کر اصلاح کے راستے پر ڈالتی ہے۔ اصل کامیابی یہ نہیں کہ ہم کبھی غلطی نہ کریں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو پہچان کر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ جو شخص اپنی کوتاہیوں کو پہچان کر انھیں سدھارنے کی نیت کرتا ہے، وہ درحقیقت اپنی شخصیت میں حقیقی تبدیلی کا آغاز کر دیتا ہے۔
خود احتسابی کو مایوسی یا بوجھ سمجھنے کے بجائے، اسے ایک نئے آغاز کا موقع سمجھنا چاہیے۔ انسان اپنی کسی بھی کمزوری کو اپنی تقدیر نہ سمجھے، بلکہ اسے بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اللہ کی رحمت ہمیشہ پکار رہی ہوتی ہے کہ جو پلٹنا چاہے، اس کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے سائیکل بریکر بننے کا حقیقی سفر شروع ہوتا ہے:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا ۰۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۲۳ (اعراف ۷:۲۳)دونوں بول اٹھے:’’اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔
رمضان محض ثواب کمانے کا مہینہ نہیں، بلکہ اپنی زندگی کو بدلنے کا مہینہ ہے۔ یہ موقع ہے کہ ہم اپنی ذاتی زندگی کی خامیوں کو پہچانیں اور انھیں دور کریں، اور ان رویوں کی زنجیروں کو توڑیں جو نسل در نسل منتقل ہو کر آنے والی نسلوں کو بھی جکڑ لیتی ہیں۔
اس تبدیلی کے لیے اعتراف پہلا قدم ہے۔ غلطی کرنا انسانی فطرت ہے، اور توبہ کرنا حضرت آدم علیہ السلام کی سنت۔ اگر ہمارے سخت رویے کسی کی دل شکنی کا باعث بنے ہوں، یا ہم نے کسی کو نفسیاتی اذیت میں مبتلا کیا ہو، تو ہمیں ان سے معافی مانگنے میں تردد نہیں کرنا چاہیے۔
غلطیوں کو جان لینے کے بعد ان پر اکڑ جانا شیطانی رویہ ہے۔ لہٰذا، رمضان میں خود احتسابی کا آغاز کریں، تاکہ ہم اپنی زندگی کا رخ درست کر سکیں۔
اس خود احتسابی کے عمل کو مؤثر بنانے کے لیے جرنلنگ کی جائے، تحریری طور پر اپنا جائزہ لیا جائے تاکہ وہ آئینہ ہمارے سامنے رہے جسے دیکھ کر ہم اپنی زندگی کو سنوارنے کا سفر جاری رکھ سکیں۔
رمضان کے روزے اور عبادات کا اصل مقصد تزکیۂ نفس اور اصلاحِ کردار ہے۔ یہ مہینہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی شخصیت میں چھپی ہوئی برائیوں کو پہچانیں اور انھیں دُور کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آیا ہم بھی لاشعوری طور پر انھی غلطیوں کو دُہرائے جا رہے ہیں جو ہمارے بڑوں سے ہمیں ملی تھیں؟ اگر ہاں، تو یہی وہ وقت ہے جب ہم اس سلسلے کو توڑ سکتے ہیں اور ایک نئی، بہتر زندگی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
آج آزادی، جمہوریت، انصاف، اور انسانی حقوق کے مغربی دعوے ان کے اسرائیلی جنگی جرائم میں متحرک کردار اور شرمناک تعاون سے خود بخود بے وقعت ہوچکے ہیں۔ اس جنگ میں مغرب کے دو نظریات سچ ثابت ہو رہے ہیں: پہلا نظریہ، یہ کہ دنیا ایک شطرنج کی بساط ہے، ۱ اور مغرب اپنے مفادات کے مطابق اس میں مہروں کو حرکت دے رہا ہے، جو اسلامی دنیا میں اس کی جارحیت سے واضح ہے۔ دوسرا نظریہ تہذیبوں کے تصادم کا ہے، ۲ جس پر مغرب گذشتہ ایک چوتھائی صدی سے عمل پیرا ہے۔ شطرنج کے اس کھیل میں اسلام کی نظریاتی برتری کو نیچا دکھانے اور تہذیبوں کے تصادم میں اسلامی تہذیب کو کم تر ثابت کرنے کی کوششیں واضح کرتی ہیں کہ حقیقی وحشت و درندگی کا علَم بردار کون ہے اور کس کے پاس حقیقی تہذیب کا سرمایہ ہے؟
اس تناظر میں اسلام سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تحریکات اسلامی اسلام کی نمائندگی کر رہی ہیں، اور موجودہ حالات میں انھیں اسلامی کاز کے لیے مزید فعال ہونا ہوگا۔ ان کے سامنے نئے چیلنج ہیں، جن کے جواب میں انھیں فکری محاذ پر نئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے عملی اقدامات، ان کے بنیادی افکار کے آئینہ دار ہونے چاہییں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں اپنے نصب العین کو پیش کرنے کے لیے کون سی نئی علمی کاوشیں ضروری ہیں، اور کن عملی اقدامات سے اسلام کی احیائی کوششوں کو مزید تیز کیا جا سکتا ہے؟
اسلام میں ’تجدید‘ اور ’احیائے اسلام‘ کی کوششیں اسلامی تعلیمات کا لازمی حصہ ہیں۔۳ احیائے اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جب امت مسلمہ اسلامی تعلیمات کو بھول جائے یا اسلام کا کوئی پہلو نظرانداز ہو جائے، تو اسے دوبارہ زندہ اور متحرک کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب زمانہ اسلام کے خلاف چیلنج پیش کرے، تو ان چیلنجوں کا فکری اور عملی سطح پر مقابلہ کرنا بھی احیائے اسلام کا حصہ ہوتا ہے۔
یہ یقین کہ اسلام آخری ہدایت نامہ ہے، مسلمانوں کو یہ جذبہ اور تحریک دیتا ہے کہ جب بھی جاہلیت اپنے نئے روپ میں لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے، تو اس کا مقابلہ کریں اور اسلام کے حیات بخش پیغام کو اس طرح پیش کریں کہ لوگوں کو بجاطور پر یقین ہو جائے کہ ان کے مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ چونکہ اسلام ہدایت کا آخری اور مکمل پیکج ہے، اس لیے ہر دور کے مسائل کا حل اسلام کے اندر تلاش کرنے کا عمل جاری رہا ہے اور مستقبل میں بھی یہ جاری رہے گا۔
اسلامی تاریخ میں مجدّدین نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے عصری اسلوب میں اور نئے انداز میں پیش کرتے ہوئے زمانے کے چیلنجوں کا مدلل جواب دیا۔۴ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ ہر صدی کے آغاز میں امت کے لیے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو دین کی تجدید کرے گا‘‘۔۵
یہ اللہ کا بڑا انعام ہے کہ ہر دور میں ایسے صالحین موجود رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، جو دین کی تجدید کریں گے اور اسلام کی روشنی کو برقرار رکھیں گے۔ ضروری نہیں کہ یہ تجدیدی شخصیات خود اس کا شعور رکھتی ہوں یا لوگوں میں ان کا تعارف ہو، یا وہ خود اپنا چرچا کریں۔ کچھ افراد اپنے کارناموں کی وجہ سے عالمی سطح پر معروف ہوں گے، جب کہ کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اسلام کے کسی خاص پہلو پر یا مخصوص علاقے میں کام کریں گے۔
اسلامی احیاء ایک اہم اور ہمہ پہلو عمل ہے جو روحانی، سماجی، معاشی، اور سیاسی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ مسلمانوں کو اسلام پر قائم رکھنے کے لیے یہ عمل ضروری ہے، خاص طور پر جب مسلم دنیا جدیدیت، سیکولرازم، مغربی فتنوں اور مختلف چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے وقت میں اسلامی اصولوں اور بنیادوں کی طرف واپسی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ دور میں ’اسلاموفوبیا‘ کے ماحول میں، احیائے اسلام کی کوششیں انتہائی ضروری ہو گئی ہیں۔
اس مختصر مضمون میں تمام اہم اسلامی اسکالرز کی تحقیقات اور مضامین کی روشنی میں مسلم اکثریتی اور اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کو فروغ دینے کے ممکنہ فکری اور عملی اقدامات کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے، لیکن ہم کچھ اہم پہلوؤں کی نشاندہی کریں گے:
اسلامی احیاء کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں۔ ان اصلاحی اور احیائی تحریکوں نے اسلامی اصولوں کے تحت عصرِحاضر کے مسائل و معاملات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور موجودہ احیائی کوششوں کے لیے بنیادیں فراہم کیں، جن میں اسلام کی سائنسی اور تکنیکی ترقیات کے ساتھ ہم آہنگی پر زور دیا گیا۔ اطالوی نژاد امریکی پروفیسر جان ایسپوزیٹو کے مطابق: ماضی قریب کی تحریکوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: استعمار سے پہلے کی اسلامی تحریکیں، استعماری دور کی اسلامی تحریکیں، اور استعمار کے بعد کی اسلامی تحریکیں۔۶
مغرب کی توسیع پسندی اور استعماریت سے پہلے بھی مسلم ممالک میں تجدید و احیا کا عمل جاری رہا۔ ہر زمانے اور مقام کے مسائل اور چیلنج مختلف تھے، اور اصلاح کی کوششیں بھی متنوع تھیں، جن میں کچھ صوفی تحریکوں کا بھی اس میں بڑا کردار رہا۔ ۷ ان تحریکوں کا مقصد تھا کہ مسلمان، خاص طور پر نوجوان، اسلام کے روحانی پہلو سے آشنا ہوں اور انھیں معاشرے کے لیے تعمیری قوت بنانے کے لیے منظم کیا جائے۔ ان تحریکوں میں تعلیمی اداروں کا قیام بھی شامل تھا، ۸ جہاں علما اور مختلف اُمور کے ماہرین کی تربیت اس طرح کی جاتی تھی کہ وہ اسلام کی دل نشین تعبیر و تشریح کرسکیں، ۹ ⁹ اور زمانے کے مسائل کا حل پیش کرسکیں۔ ان تحریکوں میں ثقافتی عناصر اور اسلامی تہذیب کا احیا بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی ساتھ، وہ اپنے زمانے کے سیاسی نظام پر بھی اثر انداز ہوتے تھے۔ اس میں چشتی، نقش بندی، قادری، اور سہروردی سلسلوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ بنگال میں اسلامی دعوت کی تحریکیں چلیں، دلی، لکھنؤ اور دیگر علاقوں میں دینی مدارس قائم ہوئے۔ ان سب میں نمایاں علمی کام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا، جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو عقل و استدلال کے ساتھ پیش کیا، تفقہ فی الدین پر زور دیا، حدیث پر نئے انداز سے کام کیا اور اجتہادی کارنامے انجام دیے۔۱۰
یورپی استعماریت کے دوران، جب مسلم ممالک کے بڑے حصے پر برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کا تسلط تھا، تب بھی مختلف علاقوں میں صلحائے امت اور مجدّدین نے تجدیدی کارنامے انجام دیے۔ ان کا کام مغربی استعمار کی مخالفت، مسلم نوجوانوں کو مغرب زدگی سے بچانے، اسلامی شناخت کی بقا، اور مغرب کے علمی سوالات کے جوابات پر مبنی تھا۔۱۱ ان تحریکوں کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ مغرب کے طرز زندگی کے مخالف تھے، مگر مغربی علوم اور انکشافات سے استفادہ کرنے کے قائل تھے۔ وہ مسلم ممالک کی حکمرانی کے ڈھانچے کو جدید طرز پر ڈھالنا چاہتے تھے، جس میں دستور، پارلیمنٹ، اور انتخابات شامل ہوں۔ ان تحریکوں کے اثرات کسی ایک ملک تک محدود نہیں تھے بلکہ مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے تھے۔
جمال الدین افغانی، محمد عبدہٗ، رشید رضا مصری، حسن البنا شہید، اور علامہ محمد اقبال ۱۲جیسی عظیم شخصیات کے افکار نے مسلمانوں میں ایک نئی تازگی پیدا کی۔ علامہ محمد اقبال نے اپنی مشہور کتاب تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ ۱۳ میں اسلام کی ایک متحرک حکمت عملی اور ترقی کی راہیں کشادہ کرنے کے لیے دلائل فراہم کیے، جو عصرِحاضر کی زندگی سے ہم آہنگ ہو۔ انھوں نے اجتہاد (آزادانہ استدلال) کی ضرورت پر زور دیا اور اسلامی فریم ورک کے اندر فلسفیانہ اور سائنسی تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اقبال کا نظریہ، معاصر احیائی تحریکوں کے لیے ایک فلسفیانہ بنیاد فراہم کرتا ہے، اور ان کا کلام مسلمانوں کی عقل اور روح کی بیداری کا پیغام دیتا ہے۔
مغربی استعماری قوتوں کے زوال اور مسلم علاقوں کی آزادی کے بعد ابھرنے والی تحریکیں بنیادی طور پر اسلام سے جوڑنے کی تحریکیں تھیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آزاد ہونے کے بعد مسلم ممالک کا نظام اسلام کی بنیادوں پر استوار ہو۔ ان تحریکوں نے حکومت، معیشت، تعلیم، عدلیہ، اور زندگی کے تمام شعبوں کو شریعت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔۱۴
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تحریریں استعماری دور میں سامنے آنا شروع ہوئیں اور استعماری قوتوں کے جانے کے بعد ان تحریروں نے مسلم ممالک کے نظام کی تشکیل کا واضح خاکہ پیش کیا اور عملی طور پر بھی یہ سرگرم رہے۔ ان کی محنت اور قربانیاں مستقبل کی تحریکوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی تحریکوں نے مسلم ممالک کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے اور ان کی بنیادی شناخت برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
ہم نے ان تین دورانیوں کی تحریکوں کا تذکرہ اس لیے کیا ہے ، تاکہ آئندہ فکری اور عملی کام کے لیے ان تحریکوں کے رہنما نقوش اور قابل تقلید مثالیں بیان کی جا سکیں۔
اسلامی احیائی تحریکوں کے بنیادی مقاصد انفرادی اور معاشرتی تبدیلیوں پر مرکوز ہیں، اور ان کے چار اہم کام درج ذیل ہیں:
۱- اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انفرادی اصلاح کو فروغ دینا۔
۲- اسلامی اقدار کو معاشرتی، اقتصادی، اور انتظامی ڈھانچوں میں شامل کرنا۔۱۵
۳- شرعی قانون کے تحت ایک اسلامی ریاست قائم کرنا، جو انصاف، مساوات، اور اخلاقی پاکیزگی کو فروغ دے۔۱۶
۴- لادینیت اور مغربیت کا مقابلہ کرتے ہوئے سیاسی اور معاشرتی زندگی کو اسلام کی طرف موڑنا۔
اسلامی احیاء کا ایک واضح نظریاتی فریم ورک، اسلامی اصولوں کے مطابق دنیا کی تعمیر نو ہے۔ یہ تصور ایک ایسے جہان کی تشکیل پر مبنی ہے جہاں ہر فرد کو اس کا حق ملے، برائیوں کا سدباب ہو، نیکی کی راہیں آسان اور انصاف کا حصول ممکن ہو۔ اسلامی احیاء کے تحت صرف ایک ایسی ریاست کی تشکیل کی کوشش ہی پیش نظر نہیں ہے، جہاں انصاف، مساوات، اور امن غالب ہو، بلکہ اسلام کو ایک جامع نظام کے طور پر پیش کیا جائے جو سماجی، اقتصادی، سیاسی، اور روحانی پہلوؤں کا احاطہ کرے۔۱۷ ⁷ اس کے لیے ایک صالح معاشرے کی ضرورت ہے، اور جب معاشرہ اسلام کا حقیقی آئینہ بنے گا، تب سیاسی سطح کی تبدیلیاں بھی پائے دار ہوں گی۔ بصورت دیگر، کمزور بنیادوں پر تعمیر شدہ عمارت کی طرح، تبدیلیاں جلدی ختم ہو سکتی ہیں۔ معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، زندہ ضمیر اور اسلام کا پختہ یقین رکھتا ہو، اور اسے اپنی عظیم اسلامی تہذیب پر فخر ہو۔ یہ یقین ہو کہ دنیا میں اس سے بہتر کوئی عقیدہ یا تصورِ حیات موجود نہیں۔
مسلم اکثریتی ممالک میں سرگرم تحریکوں کا بنیادی مقصد ہے کہ قانون سازی میں خدا کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کیا جائے، یعنی کوئی بھی قانون اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہو اور نظام حکومت جمہور کی حقیقی رائے سے تشکیل پائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انسان، اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں، اور ان کا نمائندہ حکمران ان کی مرضی سے منتخب ہونا چاہیے۔ ۱۸ تاہم، عالمی سطح پر مغرب کا غالب نظام مسلم ممالک پر مختلف شکلوں میں مسلط ہے، جس کے مطابق قانون سازی ہوتی ہے اور یہ نظام ایک خاص طبقے کے مفادات کے حق میں ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کو ان کا حق نہیں ملتا اور غربت، مہنگائی، اور بے روزگاری ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
مؤثر اسلامی احیاء کے فروغ کے لیے، فکری اور عملی اقدامات کا ملاپ ضروری ہے، جو مسلم اکثریتی اور اقلیتی سیاق و سباق میں مخصوص ضروریات اور چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا جائے۔
نظام اسلامی کے قیام کے لیے ایک نئے بیانیہ کی تشکیل کی ضرورت ہے، اور تیونس کی النہضہ پارٹی کے شریک بانی راشد غنوشی [پ: ۲۲جون ۱۹۴۱ء] جیسے عملیت پسند اسلامی مفکرین کے کام کو سمجھنا اہم ہے۔ راشد غنوشی، اسلامی ریاست کے قیام میں توسع پسندانہ رویہ رکھتے ہیں اور جدید طرزِ حکمرانی کے ساتھ ہم آہنگ اسلامی نظریے کو پیش کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ شہری حقوق کے تحفظ اور مختلف سماجی دھاروں کی سیاسی شرکت پر زور دیتا ہے۔ وہ اسلام کے آئیڈیل اور غیر اسلامی طرز حکمرانی کے درمیان ایک راہ تجویز کرتے ہیں۔۲۲ ان کی فکر میں سیاسی میدان میں خواتین کی شرکت اور قیادت پر بھی زور دیا گیا ہے، جسے اسلامی تحریکوں میں کم پذیرائی حاصل ہے۔
موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے محقق اور استاد ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی [پ: ۱۹۶۶ء]بھی اسلام کے نظام حکمرانی کے بارے میں نیا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، اسلام موجودہ جمہوری نظام اور انسانی حقوق کے بیانیہ کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے، اور وہ غیر مسلموں کی شراکت کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ وہ خدا کے اقتدار اعلیٰ اور اخلاقی فریم ورک کے تحت مختلف طرزِحکمرانی پر بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صدارتی نظام، خلافت کے نظام کے قریب تر ہے ۔۲۳
تحریکات اسلامی کا موجودہ بیانیہ اور اس سے وابستہ فکر اگر متوقع نتائج پیدا نہ کر سکے، تو احیائے اسلام کے لیے کام کرنے والے مفکرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن و سنت سے اجتہاد اور استنباط کرتے ہوئے نیا بیانیہ اور فکر تشکیل دیں، جو عوام اور خواص کے لیے زیادہ قابلِ فہم اور قابلِ عمل ہو۔
ایک نقطۂ نظر یہ بھی موجود ہے کہ اسلامی تحریکات اگر اپنے سامنے موجود حکومتوں کے ساتھ تصادم کے بجائے تعاون کی راہیں نکالنے پر غور کریں تو احیائے اسلام کی منزل قریب تر ہو سکتی ہے ۔۲۴
مکالمے (ڈائیلاگ) میں شامل ہونا بقائے باہمی اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس طرح موجودہ دور میں حکومت اور تحریکوں کے بیچ علامتی تنازعات سے آگے بڑھنے کے امکانات اور نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہ نقطۂ نظر انتہا پسندانہ بیانیے کا مقابلہ کر سکتا ہے اور استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔ فعال شرکت اور رابطہ کاری (Engagement and Communication ) پر زور دینے سے مخالفانہ تعلقات کو باہمی تعاون کی کوششوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے اسلامی تحریکوں اور ان ریاستوں دونوں کو فائدہ ہوگا، جن سے وہ بات چیت اور تعاون کی راہیں نکالیں گے ۔۲۵
سوچ میں تبدیلی ایک مشکل کام ہے، لیکن فکری میدان کے دانش وروں سے توقع ہے کہ وہ اسلامی تحریکوں کے لیے ایسی نئی راہیں تجویز کریں، جن سے ان کی منزل قریب تر ہو۔ حکومت کی سماجی فلاح و بہبود کی اسکیمیں، حادثات اور آفات کے متاثرین کی دادرسی، اصل میں حکومت اور تحریک اسلامی دونوں کا کام ہے، اور تعاون کی راہیں یہاں سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔
موجودہ اسلامی لٹریچر کی بہت سی خوبیوں کے باوجود تیزی سے بدلتے منظرنامے کا ایک منفی اثر یہ نظر آیا ہے کہ اس کے قارئین میں وقت کے نظام کے ساتھ تصادم کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے۔ جب تحریکی لٹریچر سے متاثر افراد مغربی دنیا میں جاتے ہیں، تو وہ وہاں نظاموں کے ساتھ تعاون کی راہیں تلاش کرنے کی بجائے تنقید اور تردید کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے انسان ہمیشہ تین میں سے ایک کردار ادا کرتا رہتا ہے: کبھی وہ جارح (prosecutor) ہوتا ہے، کبھی مظلوم (victim) بن جاتا ہے، اور کبھی نجات دہندہ (rescuer) کا کردار ادا کرتا ہے ۔۲۶ ⁶ تحریک اسلامی کے لیے نئے بیانیہ میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانیت کے لیے نجات دہندہ کا کردار کیسے ادا کر سکتی ہے؟ یہ تجدید و احیا کی کوششوں کے لیے ایک سنہرا باب ہوگا۔
اسلامی تحریکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اصولی اور نظریاتی طور پر یقین رکھتی ہیں کہ زندگی کے مسائل کا حل اسلام میں ہے، لیکن اس اصولی یقین کے بعد عملی خاکے اور حکومتوں کے ساتھ تعاون کے لیے منصوبے پیش کرنے کے معاملے میں وہ پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ہر ملک کے حالات اور مسائل مختلف ہوتے ہیں، اور ایک ہی ملک میں حالات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ تحریک اسلامی کے علمی اور فکری کام میں جمود کی حالت، کوئی یقین اور اعتماد پیدا نہیں کر سکتی۔ زندگی کے مختلف مسائل کے حل کے لیے منصوبے درکار ہیں، جو بتدریج تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر، مسلم ممالک کی معاشی ترقی کے لیے تحریکات اسلامی کو جو منصوبے پیش کرنے چاہییں، ذیل میں اس کا ایک آئیڈیا دیا جا رہا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی طرف سے مسلم ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقی کا منصوبہ درج ذیل کلیدی اصولوں پر مرکوز ہوسکتا ہے:
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر پائے دار، مساوی، اور ماحول دوست اقتصادی ترقی پر توجہ دینی چاہیے، اور مسلم دنیا کے تنوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مناسب اصلاحات کو اپنانا چاہیے۔ حکومت کو مؤثر پالیسیاں بنانے اور سبز شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔
جس طرح معاشی نظام کے حوالے سے علمی اور فکری کام کرنے اور منصوبے تیار کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح سیاسی، تعلیمی، اور خارجہ پالیسی کے میدانوں میں بھی اسلامی تحریکات کو نجات دہندہ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جب تک واضح راستہ متعین نہ کیا جائے، اہل علم کا طبقہ متاثر نہیں ہو سکتا اور وہ صرف دعوؤں، نعروں اور موہوم وعدوں پر مبنی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔
اسلامی تحریکیں حکومت و اقتدار تک پہنچنے میں متعدد اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے بمشکل ہی وہاں تک پہنچ پاتی ہیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مدرسے اور مسجد میں تعلیم و تبلیغ کے ایک اہم کام کے متوازی یہ ایک بڑا مشکل راستہ ہے، جس میں عوام، موجودہ حکومتیں، دفاعی ادارے، ایجنسیاں، اور عالمی طاقتیں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ اقامت دین کی منزل سے پہلے کچھ عبوری منازل ہیں، جنھیں طے کیے بغیر حتمی منزل تک پہنچنا ناممکن امر ہے۔
کسی بھی ملک کو چلانے میں بیوروکریسی، عدلیہ، اور انتظامیہ کا ایک بڑا عملہ درکار ہوتا ہے۔ ملکی نظام انھی کے بل بوتے پر چلتا ہے۔ ان کے ذمے جو امور ہوتے ہیں ان میں سے ایک بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جس کا شریعت سے کوئی تصادم نہیں ہوتا، جیسے اسکولز چلانا، سڑکیں بچھانا، پل بنانا، بسیں اور ریل چلانا، پنشن اسکیمیں جاری کرنا، راشن کی دکانوں کا انتظام چلانا، کسانوں سے اناج خریدنا اور گودام میں محفوظ کرنا وغیرہ۔ ان کاموں کو انجام دینے والے افسران میں ایک بڑی تعداد رشوت خور ہوتی ہے۔ کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں عوام پر ظلم ہوتا ہے، جیسے پولیس اور عدلیہ کا نظام۔ یہاں انصاف حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، اور صاحبِ اثر چھوٹ جاتے ہیں،جب کہ حقیقی مظلوم کی داد رسی اکثر ممکن نہیں ہوتی۔ تحریکات اسلامی کو ان میدانوں میں عملی اثر و نفوذ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے لیے کچھ اقدامات کیے جانے چاہییں، مثلاً:
اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، جو عقیدہ پر مبنی تعلیم دیتے ہوئے قرآن و سنت کے مطابق کردار سازی کو مرکز بنائیں اور ایمان کی پرورش کریں۔ ان اداروں میں طلبہ کو سول سروس میں کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے۔ ان کورسس میں مذہبی اور عمومی دونوں مضامین شامل ہونے چاہییں۔۳۲ ایسے اسکول اور ٹریننگ سینٹرز جگہ جگہ قائم ہونے چاہییں، جن کا معیار اتنا بلند ہو کہ لوگ وہاں داخلے کے لیے قطار میں کھڑے ہوں اور ان کی کامیابی کی شرح تقریباً سو فی صد ہو۔ ان اداروں کی یہ پہچان ہو کہ یہاں سے تعلیم و تربیت اور تکنیکی تربیت حاصل کرنے والے افراد سول سرونٹس بنتے ہیں۔
تحریکات اسلامی کو ایسے پروگرام تیار کرنے چاہییں، جو اسلامی نقطۂ نظر سے قائدانہ صلاحیتوں، اخلاقیات، اور حکمرانی پر مرکوز ہوں۔ ان پروگراموں میں عوامی خدمت میں تجربہ کار پیشہ ور افراد کے ساتھ ورکشاپس، انٹرنشپ، اور رہنمائی کے مواقع شامل ہونے چاہییں۳۳ تاکہ زیرتربیت نوجوانوں کے فکری، علمی اور عملی اُفق، بلندیوں کو چھو سکیں۔ ان تربیتی پروگراموں کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ ذمہ دار افسران ان میں دلچسپی لیں اور شرکت کریں، تاکہ ان کے اندر بے نفسی، اصلاح احوال، اور خدمت خلق کے جذبات پیدا ہوں۔ اس کے علاوہ، تحریکی فکر کے نوجوانوں کو بھی یہاں تربیت ملے تاکہ وہ معاشرے میں قیادت فراہم کر سکیں۔ یہ لیڈرشپ کالج اپنے ظاہر و باطن میں اعلیٰ معیار کا ہو اور اس کی شناخت اس کی کوالٹی سے ہو، نہ کہ تحریکی مینجمنٹ سے۔
کمیونٹی سروس کے لیے چھوٹے بڑے ادارے قائم کیے جانے چاہییں۔ رضاکار انجمنوں کے ذریعے کمیونٹی سروس اور ترقیاتی منصوبوں میں نوجوانوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے، تاکہ ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اور وہ حکمرانی اور انصاف کے لیے ہماری جدوجہد کا حصہ بنیں ۔۳۴
حکومتی سطح کے افسران اور نوجوان پیشہ ور افراد کے درمیان نیٹ ورک قائم کیے جائیں، جہاں وہ اپنے کام میں اسلامی اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے علم، وسائل، اور حکمت عملیوں کا تبادلہ کریں۔ نوجوان، افسران کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں، جب کہ افسران نوجوانوں کے وقت اور جذبے کو معاشرے کی بہبود کے منصوبوں کے نفاذ میں استعمال کریں ۔۳۵
ان شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے، اسلامی تحریکیں نوجوانوں کو حکومت میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے مؤثر طریقے سے تیار کرسکتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق انصاف اور ترقی کو یقینی بناسکتی ہیں۔ دنیا کے بعض ممالک میں غیر اسلامی تحریکیں بھی انھی راستوں کو اپناتے ہوئے اقتدار تک پہنچیں اور ترقی کے زینے چڑھتی رہیں۔ یہاں تک کہ حکومت کسی کے بھی ہاتھ میں ہو، پالیسی، منصوبہ بندی اور نفاذ انھی کی فکر کے مطابق ہوتا ہے۔
مسلم اقلیتی ممالک کی تحریکوں کے لیے سب سے اہم فکری کام اپنے نظریات کا بیانیہ تشکیل دینا ہے۔ تحریکات کی فکری بنیادیں قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، جنھیں ہر دور کے مفکرین نے عصر حاضر کی اصطلاحات میں بیان کیا ہے۔ سید مودودی علیہ الرحمہ کی تحریریں اس باب میں بہت واضح ہیں، مگر انھوں نے ان موضوعات پر تب لکھا جب ہندستان استعماری دور سے گزر رہا تھا۔ تقریباً ایک صدی بعد حالات و واقعات بدل چکے ہیں اور دنیا میں اصطلاحات بھی تبدیل ہو چکی ہیں۔
مغرب نے منفی پراپیگنڈا کرتے ہوئے اسلامی تحریکات کے نظریات کو کچھ ایسے سانچے دیے ہیں، جن سے عام ذہنوں میں تحریکات کے بارے میں منفی رائے پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تحریکات اپنی باتوں کو متنوع طریقے سے پیش کریں۔ تحریکات کو نہ ذہنی افلاس کا شکار ہونا چاہیے اور نہ ان میں اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے مناسب زبان کی کمی ہونی چاہیے۔ ’اقامت دین‘ قرآن کی اصطلاح ہے، اور اس آخری منزل تک تدریج کے ساتھ سفر کا خاکہ ذہنوں میں ہونا اَزبس ضروری ہے۔ اس سفر کے مختلف عبوری مرحلوں کے الگ الگ نام ہونے چاہییں، تاکہ ’جز ‘اور’ کل‘ کی نشاندہی ہو سکے۔ ’کل‘ مراد لیا جائے تو اس کے اجزا بھی ذہنوں میں واضح ہو سکیں۔ دراصل ہمارے ہاں دل نشین، عام فہم مدلل اظہار بیان کا مسئلہ ہے۔
مغربی ممالک میں کام کرنے والی تحریکات کے لیے سب سے بڑا فکری چیلنج یہ ہے کہ وہ تحریک کے نظریے کو اپنے زمان و مکان کے دائرے میں کس طرح بیان کریں کہ ایک مثبت رائے قائم ہو سکے۔ اس بیانیہ کی عدم موجودگی میں اپنے ملک کے اصول و ضوابط اور قوانین کے فریم ورک میں تحریک کا تعارف کمیونٹی سروس کی تنظیم کے طور پر ہی کرایا جاتا ہے، جو اپنی کمیونٹی کے افراد کو مذہب سے جوڑے رکھنے کے لیے ادارے قائم کرتی ہیں اور کانفرنسیں منعقد کرتی ہیں۔ ان کا تعارف یہ نہیں ہے کہ وہ جس ملک میں متحرک ہیں، اس ملک کو کچھ دینا چاہتی ہیں، وہاں کے نظام کے ساتھ تعاون کرنا چاہتی ہیں، اور نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کے ازالے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتی ہیں، تاکہ اس سرزمین پر لوگ الٰہی ہدایات کے طالب ہوں اور ان کی زندگیاں سنور جائیں۔ اہل ملک کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جن سنگین مسائل اور چیلنجز کا انھیں سامنا ہے، ان کے حل میں اسلام ان کی مدد اور رہنمائی کر سکتا ہے ۔۳۶
امریکا اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک میں اسلامی تحریکوں کو صرف سماجی تنظیموں کے طور پر نہیں بلکہ سماجی و سیاسی مسائل کے حل میں شراکت دار کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ انھیں پُرامن اور جمہوری طریقوں سے سماجی و سیاسی منظرنامے کو بہتر بنانے کی اپنی خواہش کو نمایاں کرنا چاہیے۔
یہ بات واضح ہے کہ 'مغرب اب بہت سی اسلامی تحریکوں کے لیے سرگرمی کا ایک اہم مرکز ہے، کیونکہ حالیہ برسوں میں ان تحریکوں کو اپنے آبائی ممالک میں بڑھتے ہوئے جبر اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے ۳۷ ،جب کہ مغربی ممالک میں ان کے لیے آسانی ہے کہ وہ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔
ان گروہوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت اور دیگر عناصر و عوامل کے ساتھ فعال طور پر تعاون کرنا چاہیے۔ انھیں ایسی بیان بازی سے پرہیز کرنا چاہیے، جو تنگ نظری یا انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہو، بلکہ انھیں معاشرے میں مثبت انداز سے نفوذ، سیاست میں شرکت، اور غیر مسلموں کے ساتھ تعاون پر توجہ دینی چاہیے۔ انھیں اپنے اہداف اور ایجنڈوں کے بارے میں شفاف ہونا چاہیے اور مثبت تبدیلی کے حصول کے لیے قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
ان ممالک میں اسلامی تحریکوں کو یہ پہلو بہت واضح طور پر بیان کرنا چاہیے کہ وہ اِس ملک میں عدل و انصاف کی سرگرمیوں میں معاون ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ میں اسلامی نقطۂ نظر کو صاف طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان ممالک میں ان کا ایجنڈا تدریج کے اصول کے تحت، نفاذِ شریعت کے بجائے مقاصد شریعت ہونا چاہیے، اور اس عبوری منزل سے گزرے بغیر اگلے مرحلے میں قدم رکھنا ناممکن ہے۔ انھیں اپنا بیانیہ مقاصد شریعت کی روشنی میں تیار کرنا چاہیے۔
اقلیتی ممالک میں کام کرنے والی اسلامی تحریکوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مسلم اقلیتوں کے لیے فقہ تیار کریں، جو شریعت کے عملی اطلاق پر توجہ مرکوز کرے اور مقامی قوانین اور معاشرتی اصولوں کے مطابق ممکن حد تک گنجائش پیدا کرے، تاکہ مذہبی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اجنبیت میں کمی لائی جاسکے، اور بقائے باہم کو فروغ دیا جاسکے ۔۳۸ ، ۳۹
مسلم اقلیتی ممالک کی تحریکات کے عملی محاذ
آج سے ۳۰ سال قبل، طلبہ تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کے لیے مجھے سوڈان جانا ہوا۔ وہاں اسلامی تحریک کے ممتاز رہنما ڈاکٹر حسن ترابی صاحب [۱۹۳۲ء-۲۰۱۶ء]سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ہندستانی تحریک اسلامی کے لیے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم مسلم ممالک میں پیدا ہوئے اور یہاں کی سیاست پر اثر انداز ہونے کے مقصد کے اطراف تحریک چلاتے ہیں، جب کہ آپ دگنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ ایک طرف، آپ خدا سے غافل انسانوں کو خدا کی طرف بلانے کا عظیم فریضہ انجام دے رہے ہیں اور دوسری طرف، آپ اپنے ملک کی سیاست کو ظلم سے پاک کرنے، عدل قائم کرنے، اور نظام کو فساد سے دُور اور صلاح کے قریب کرنے کی قابل تحسین کوششیں کر رہے ہیں‘‘۔ یہ سب سے بڑا عملی کام ہے جو کارکنان تحریک کو ہر حال میں کرنا ہے۔ اس کے لیے کئی ذرائع اپنائے جا سکتے ہیں، مگر دو ذرائع اہم بھی ہیں اور وقت کی ضرورت بھی۔
حقائق کسی کی پسند اور ناپسند کے محتاج نہیں ہوتے۔ آج کے زمانے میں فلم کمیونی کیشن کا ایک طاقت ور ذریعہ ہے۔ جب باطل اسے جاہلیت کے فروغ کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس میں اسلام دشمنی ہوتی ہے، یا کم از کم اخلاق و کردار کی کمی تو ضرور ہوتی ہے۔ اسی لیے لوگ فلموں کو فی نفسہٖ حرام سمجھتے ہیں، حالانکہ خیالات اور نظریات کے اظہار کا یہ مؤثر وسیلہ ہے۔ اسلام مخالف تصورات پر مبنی فلمیں بنائی اور پھیلائی جا رہی ہیں۔ یہ فلمیں نظریۂ سازی کا کام کرتی ہیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد جذبات کے ذریعے معاملات کو سمجھتی ہے۔ اسلام کے خلاف جذبات اُبھارنے اور نظریات پیش کرنے اور ان کے لیے افراد کو کھڑا کرنے میں فلمیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ بحث ایک الگ سے تفصیلی مضمون کی طالب ہے، مگر میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اسلام کے حق میں مثبت رائے عامہ کی تشکیل کے لیے، دیگر ذرائع کے ساتھ فلمیں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ فلمیں بنانا اعلیٰ تکنیکی مہارت اور بڑے بجٹ کی متقاضی ہوتی ہیں، مگر ان کے اثرات کئی گھنٹوں کی تقریروں اور سیکڑوں کتابوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اسلام کے بہت سے اہم تصورات، جیسے خواتین کے ساتھ حسن معاشرت، وراثت، بین المذاہب شادیوں پر اسلامی نقطۂ نظر، امن، مساوات، انسان دوستی، اسلامی تہذیب، اسلامی معیشت، جائیداد اور اوقاف کے موضوعات، پر فلمیں بننی چاہییں۔
اس کے علاوہ معاشرے کے سلگتے مسائل پر فلمیں بنا کر غیر محسوس طریقے سے اسلامی حل پیش کرنے کی ضرورت ہے، جیسے منشیات کی وبا، سیل فون کا ایڈکشن، سیل فون کے ذریعے برائیوں کا ایڈکشن، نوجوانوں کی بے راہ روی، سودی نظام کی لعنت، اور عورتوں پر ہونے والے مظالم وغیرہ۔ ایسی فلمیں بنائی جائیں جن سے ناظرین نظام باطل کے ظالمانہ رویوں کو سمجھ سکیں اور ان پر حق آشکار ہو، اور ان فلموں میں پیش کیے گئے حل ان کو فطرت کی آواز محسوس ہوں۔۴۰ ، ۴۱
کاروبار اور چیمبر آف کامرس، اسلام کے حق میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ تحریکی کاموں کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ باطل اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہاتا ہے، تاکہ جھوٹ کو سچ کی طرح پیش کرے اور ضمیر کی خرید و فروخت کرے۔ حق کو باطل کا مقابلہ کرنے کے لیے مالی وسائل کی کمی کا سامنا نہ ہو۔ اکثر تحریکیں مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے رک جاتی ہیں۔ جب دولت مند لوگ ایمان والے اور تحریکی فکر کے حامل ہوں، تو وہ اپنی دولت تحریک کی راہ میں نچھاور کر سکتے ہیں۔
ہندستان کے ساحلوں پر عرب تاجر ، ظہورِ اسلام سے پہلے بھی آتے تھے اور ظہورِ اسلام کے بعد بھی۔ مؤرخین کے مطابق جب عرب تاجر مسلمان ہو گئے تو انھوں نے ہندستان کو نہ صرف تجارت سے مالا مال کیا بلکہ اپنے نظریے کو بھی لے کر آئے، جسے یہاں کے عوام نے قبول کیا۔ ان کی تجارت نے ہندستان کی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے حکمرانوں نے مسلم تاجروں کا پرتپاک استقبال کیا۔ انھوں نے مسلم تاجروں کے لیے خصوصی محلے بسانے اور مساجد بنانے کا حکم دیا اور بندرگاہوں پر ان کے تجارتی سامان کی حفاظت کے انتظامات کیے۔۴۲
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت بھی دعوت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حکمرانوں کو فکر ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی پیداوار میں اضافہ ہو، اور جب ایمان دار تاجر تحریک سے وابستہ ہوں، تو تحریک اور ملک دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے خصوصی چیمبر آف کامرس تشکیل دینے کی ضرورت ہے، جہاں نئی نسل کو انٹرپرینیورشپ کا ہنر سکھایا جائے، چھوٹے کاروباریوں کو بڑے خواب دکھائے جائیں اور انھیں ترقی کی راہیں بتائی جائیں۔ تجارت کے سلسلے میں حکومتی مراعات سے فائدہ اٹھانے کے منصوبے بنائے جائیں اور عالمی تجارت میں تحریک کے قائم کردہ چیمبر آف کامرس ایک نمائندہ کردار ادا کریں، جس سے ملک کی پیداوار میں اضافہ ہو۔ ہر شہر میں اس طرح کے چیمبر آف کامرس بنائے جا سکتے ہیں، ان سے درج ذیل باتیں مطلوب ہیں:
ان اقدامات کے ذریعے، کاروبار اور چیمبر آف کامرس مختلف معاشروں میں اسلام کے بارے میں ایک مثبت بیانیہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں اسلامی تحریکات کو علمی اور عملی دونوں میدانوں میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے ضروری ہے کہ تحریکات کے مفکرین احیائے اسلام کی فکری کاوشوں کو ایک نئے انداز میں پیش کریں۔ صرف نظریاتی یقین کافی نہیں، بلکہ اسلامی تحریکات کو انسانی معاشرے کے مسائل کے لیے نئے منصوبے اور خاکے، قابلِ قبول شکل میں دنیا کے سامنے لانا ہوں گے۔ بدقسمتی سے، اسلام دشمن عناصر نے تحریکات کے بارے میں خوف پیدا کر دیا ہے، اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی تحریکات لوگوں کو یقین دلائیں کہ ان کے تجویز کردہ اسلامی حل دنیا میں ترقی، خوشی، اور وسعت کا سبب بنیں گے۔ اس مقصد کے لیے بے شمار ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون میں ایسے چند اہم اداروں اور ان کی پیش رفت پر گفتگو کی گئی ہے۔
1. The Grand Chess Board, chapter 3 , Zbigniew Brzezinski · 2016
2. The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order, Samuel P Huntington 2007
3. The Nature Of Islamic Resurgence, Prof. Khurshid Ahmad
https://khurshidahmad.info/the-nature-of-islamic-resurgence/
4- تجدید و احیائے دین، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، ۱۹۶۴ء، لاہور
5- سنن ابی داؤد، حدیث نمبر۴۲۹۱
6. Voices of Resurgent Islam, John L. Esposito
7. South Asian Islamic Education in the Precolonial, Colonial, and Postcolonial Periods
https://link.springer.com/referenceworkentry/10.1007/978-981-15-0032-9_67
8. A Brief Survey of Muslim Education in Pre-Colonial India (1206-1857) May 2017, 5(
2): Authors: , Muhammad Anwar Farooq, Mazher Hussain.
https://www.researchgate.net/publication/317045796_A_Brief_Survey_of_Muslim_
Education_in_Pre-Colonial_India_1206-1857
9. South Asian Islamic Education in the Precolonial, Colonial, and Postcolonial Periods.
https://link.springer.com/referenceworkentry/10.1007/978-981-15-0032-9_67
10. ibid.
11. To Be A Muslim, Author: Fathi Yakan
https://islambasics.com/chapter/iii-the-islamic-movement-its-task-characteristics-and-tools/?
12. The Rise of British Colonialism to the End of the Ottoman Empire, by Marilyn.R. Waldman & Malika Zeghal
13. The Reconstruction of Religious Thought in Islam, by Mohammad Iqbal
14. Islamist Movements from the 1960s by Marilyn.R. Waldman & Malika Zeghal
https://www.britannica.com/topic/Islamic-world/Islamist-movements-from-the-1960s
15. Islamic Revival: https://en.m.wikipedia.org/wiki/Islamic_revival?
16. Islamic Revivalism and the Quest for Political Power, by Nasser Momayezi
https://journals.lib.unb.ca/index.php/jcs/article/view/11753/12527
17- اسلامی تحریک کا فکری سفر، پروفیسر خورشید احمد، ص ۱۲۱
18- اسلامی ریاست، فلسفہ، نظام کار اور سول حکمرانی، مؤلف:سیّد ابو الاعلیٰ مودودی، (مرتب: خورشید احمد)، تصور خلافت، ص ۳۹۳، ۱۹۶۸ء، لاہور
19. Islamism https://en.m.wikipedia.org/wiki/Islamism?
20. Islamic Fundamentalism، Religion and Politics، Actions Also known as: Islamist Movement, Encyclopaedia Britannica
https://www.britannica.com/topic/Islamic-fundamentalism
21. Radical Islam/ Islamic Radicalism: Towards a Theoretical Framing، January 2013. https://www.researchgate.net/publication/266030514_Radical_Islam_Islamic_
Radicalism_Towards_a_Theoretical_Framing
22. Public Freedoms in the Islamic State، by Rached Ghannouchi، Translated by David L. Johnston, Yale University press
23- اسلامی تمدن میں آئینی بحران : مختار شنقیطی، (ترجمہ: محی الدین غازی)، لاہور، دہلی
24. Understanding: Islamism by John Jenkins, Dr. Martyn Frampton and Tom Wilson
https://policyexchange.org.uk/understanding-islamism/
25. Muslim Networks and Movements in Western Europe , Pew Research Center
https://www.pewresearch.org/religion/2010/09/15/muslim-networks-and-
movements-in-western-europe/
26. Born to Win: Transactional Analysis with Gestalt Experiments, Book by Dorothy Jongeward and Muriel James
27. https://www.scirp.org/journal/paperinformation?paperid=53713&
28. https://eprints.um.edu.my/3335/1/SUSTAINABLE_ECONOMIC_
DEVELOPMENT.pdf
29. ibid
30. Quran 12:55
31. https://www.cgdev.org/sites/default/files/archive/doc/commentary/timmer_USAIDw.pdf
32- Priorities of the Islamic Movement in the Coming Phase by Yusuf al Qardawi
33. https://www.linkedin.com/pulse/learning-from-past-envisioning-future
-role-muslim-youth-junaid-ahmad
34. https://www.cetri.be/Islamic-Youth-Movements?lang=fr&
35. https://www.iias.asia/sites/default/files/2020-11/IIAS_NL32_22.pdf
36. https://www.cambridge.org/core/journals/government-and-opposition/article/
37. https://policyexchange.org.uk/understanding-islamism/
38. https://acrobat.adobe.com/id/urn:aaid:sc:AP:6d83fa84-0c6a-41a5-8249-29e32c976a6a
39. https://www.cambridge.org/core/books/abs/sharia-in-the-modern-era/muslim-minorities
-implementation-of-sharia-in-general-andfiqh-alaqalliyyatin-particular/
40. https://acrobat.adobe.com/id/urn:aaid:sc:AP:bd99e127-6597-457f-9237
-d398ea5f0982
41. https://acrobat.adobe.com/id/urn:aaid:sc:AP:be7a4951-32b1-4885
-84b2-5829968dff37
42. Influence of Islam and India by Tara Chand,s Allahabad
43. https://www.researchgate.net/publication/268002558_Islamic_Business_Ethics
44. https://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_Chamber_of_Commerce,_Industry
and_Agriculture
45. ibid
46. https://ummahpreneur.com/blog/reasons-muslims-should-consider-entrepreneurship/
47. https://www.linkedin.com/pulse/what-role-businesses-entrepreneurship-islam-
dr-farrah-arif
_______________
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی ایک نمایاں خوبی انسانی صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے۔ روز ِاول سے آپؐ نے وہ متنوع صلاحیتیں جن کی اسلام کو ضرورت تھی، کبھی پیدا کیں اور کبھی معاشرے میں میسر صلاحیتوں کو اپنے قریب کیا اور ان کے ذریعے اپنے مشن کی طرف پیش قدمی کو تیز تر کر دیا۔
آپؐ کی دعوت کا جب آغاز ہوا تو ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی، جو آپؐ کے پرسنل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکے۔ اس کے لیے حضرت علیؓ سے زیادہ موزوں کوئی نہیں تھا، جن کے ذریعے آپؐ مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام فرماتے، لوگوں تک اپنی بات کو پہنچانے کا واسطہ بناتے۔ ہجرت کی رات مشرکین کو غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کے لیے کسی شخص کا آپؐ کے بستر پر سونا ضروری تھا۔ اس صورت میں سونے والے پر حملہ ہونے کا قوی اندیشہ موجود تھا، اس لیے اس ذمہ داری کو سرانجام دینے کے لیے حضرت علیؓ جیسے بہادر اور سرفروش شخص کا انتخاب بہترین فیصلہ تھا۔
مدینہ پہنچنے کے بعد وقتاً فوقتاً دشمن قبیلوں کے لوگ رات میں مدینے پر حملہ آور ہوتے اور موقع پاکر مدینہ کے مویشیوں کو ہانک لے جاتے۔ صورت حال کی نزاکت کا تقاضا تھا کہ پورے شہر کے علاوہ کوئی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اطراف رات بھر پہرہ دے۔ اس خدمت کے لیے حضرت علیؓ نے خود کو پیش کیا ،اور ہجرت کے بعد مسلسل ڈیڑھ سال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔
حبشہ کی طرف ہجرت کے لیے ایک قافلہ روانہ ہوا۔ اس کے پیشِ نظر دو مقصد تھے: ایک یہ کہ ظلم وستم کا نشانہ بننے سے کچھ برسوں تک دُور رہا جائے اور دوسرا یہ کہ قریش تجارت پیشہ قبیلہ تھا، اس کے نئے ایمان لانے والے افراد نے تجارت کی غرض سے حبشہ کی طرف سفر کا ارادہ کیا۔ اس مہم میں آپؐ نے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کو مہاجرین کا امیر منتخب فرمایا ،اور حضرت جعفرؓ کے نجاشی کے ساتھ ہونے والے مکالمے نے اس انتخاب کی پیغمبرانہ دُور اندیشی کا عملی ثبوت پیش کردیا۔
پہلے دن سے آپؐکا ہدف مختلف طبقوں میں کام کرنا تھا اور اس کی عملی شکل یہی تھی کہ تاجر تاجروں میں ، قبیلے کے سردار سرداروں میں ، غلام غلاموں میں کام کریں۔ آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ذریعے مکہ کے تاجروں میں کام کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف اور ان جیسے مقام و مرتبے کے اور بہت سے صاحبِ ثروت تاجر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ اسی طرح آپؐ کی ہجرت میں رفاقت اور سفر میں مصاحبت کے لیے کسی ہستی کا انتخاب ہونا تھا۔ اس کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب فرمایا، جنھوں نے ہمیشہ آپؐ کے قائم مقام کی حیثیت سے کام کیا۔ آپؐ نے بالکل آغاز سے ہی حضرت ابوبکرؓ کو اس منصب پر فائز فرمایا اور وہ آخر تک اس پر فائز رہے۔
جب مدینہ پر عرب کا متحدہ لشکر اٹھ کر آیا اور حملہ آور ہونے کے لیے مدینے کا گھیراؤ کرلیا، تو اس وقت بنوقریظہ کی طرف سے جو مدینے میں آپؐ کے حلیف تھے، عہد شکنی کے آثار نظر آنے لگے۔ اسی دوران حضرت نعیم بن مسعودؓ اسلام لے آئے، اور آپؐ کے سامنے انھوں نے پیش کش رکھی کہ ان سے جو کام لینا چاہیں لے لیں۔ وہ قبیلہ بنو غطفان سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلام کے خلاف متحدہ محاذ میں بنو غطفان قبیلہ بھی قریش کے ساتھ تھا۔ آپؐ نے حضرت نعیمؓ بن مسعود کو ذمہ داری دی کہ وہ دشمنوں کے درمیان پھوٹ ڈال دیں۔ آپؐ کا یہ انتخاب بالکل درست ثابت ہوا۔ آپؐ ہمیشہ اہل افراد کو ذمہ داریاں سونپنے کے اصول پر کاربند رہتے تھے۔ اسی جنگ میں آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو دشمنوں کی اس مجلس میں بھیجا جہاں جنگ کی اسٹرے ٹیجی زیر ِبحث تھی۔ جان جوکھم میں ڈال کر حضرت حذیفہؓدشمنوں کے لشکر میں پہنچے اور معلوم کرلیا کہ اب ان کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں ہے اور ان میں سے بڑی تعداد کوچ کرچکی ہے۔
l صلاحیتوں کا ادراک اور فروغ: انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فارمولا اس طرح نظر آتا ہے کہ : bulid, buy and borrow ، یعنی صلاحیتوں کو نشوونما دینا، معاشرے کے باصلاحیت افراد کو متاثر کرنا، اور بعض مخصوص صلاحیتوں سے بوقت ضرورت استفادہ کرنا۔
انسانی ذہن اور خیالات کو بدلنا، معاشرے کی اقدار کو نئے پیمانوں میں ڈھالنا، فکر کے زاویے کو صحیح سمت دینا اور پوری زندگی کے اندر ایک صالح انقلاب برپا کرنا، گوناگوں صلاحیتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ آپؐ نے اس عظیم الشان اور ہمہ جہت تبدیلی کے عمل کے لیے اعلیٰ انسانی صلاحیتوں کو فروغ دیا۔ ہم اُوپر ذکر کیے گئے فارمولے کے تحت تینوں اپروچ کی مثالیں پیش کریں گے۔
انسانوں کے سلسلے میں آپؐ کا نظریہ یہ تھا کہ صاحب ِ ایمان اور مخلص لوگ سونے چاندی کی کانوں سے بڑھ کر قیمتی اثاثہ ہیں۔ لوگوں کی صلاحیتیں اور قابلیتیں وہ انسانی وسائل ہیں، جو مادی وسائل سے زیادہ قیمتی اور دور رس نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ’’سب سے معزز آدمی کون ہے؟ ‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’جو اللہ کا خوف زیادہ رکھتا ہو‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’پھر سب سے زیادہ معزز اللہ کے نبی یوسف ؑہیں ، جن کے باپ نبی، دادا نبی اور پردادا اللہ کے خلیل ہیں‘‘۔صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا کہ’’ تم لوگ عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو۔ دیکھو، لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے ( کسی کان میں سے اچھا مال نکلتا ہے کسی میں سے بُرا)۔ جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں معزز اور بہتر اخلاق کے ہیں ، وہی قبولِ اسلام کے بعد بھی اچھے اور معزز ہیں، جب کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں‘‘۔ (صحیح بخاری)
اس حدیث میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئیں :
۱- انسانوں میں سب سے زیادہ قیمتی وہ لوگ ہیں جن کے پاس اعلیٰ صلاحیتیں ہوتی ہیں ، قطع نظر اس کے کہ وہ دائرۂ اسلام میں ہیں یا اس سے باہر ہیں۔
۲- صرف صلاحیتیں انسانیت کے لیے مفید نہیں ہوتیں ، اگر وہ ایمان اور تقویٰ سے عاری ہوں۔ سب سے زیادہ اچھے انسان وہ ہیں، جن میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہو۔
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح کانیں ہیں ، جو زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے، وہ اگر دین کو سمجھ لیں تو زمانہ اسلام میں بھی اچھے ہیں۔ اور روحیں ایک ساتھ رہنے والی جماعتیں ہیں جو آپس میں ( ایک جیسی صفات کی بنا پر ) ایک دوسرے کو پہنچاننے لگیں تو ان میں الفت پیدا ہوجاتی ہے، اور جو (صفات کے اختلاف کی بنا پر) ایک دوسرے سے گریزاں رہیں ، وہ ایک دوسرے سے متنفرہوجاتی ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باصلاحیت لوگ اگرچہ جاہلیت کے علم بردار ہی کیوں نہ ہوں اور ظالموں اور اسلام دشمنوں کی صفوں میں ہی کیوں نہ ہوں ، اگر وہ ایمان لے آئیں تو یہاں بھی وہ بہت قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے۔ اس کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں ، جن میں سب سے نمایاں نام حضرت عمر بن الخطابؓ کا ہے۔
l دعاے رسالتؐ __ حضرت عمرفاروقؓ: حضرت عمرؓ دلیر اور بہادر انسان تھے، طبیعت کے جری اور ارادے کے قوی تھے۔ معاشرہ انھیں اسی حیثیت سے جانتا تھا۔ بہادری میں پورے مکہ مکرمہ میں ان کا اونچا مقام تھا۔ اسلام کو ایک ایسی ہی دلیر اور شجاع شخصیت کی ضرورت تھی جو کفار کے بیچ میں اسلام کا پرچم بلند کرسکے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کی دلیری کو ان کے شایان شان ایک ایسے میدان کی ضرورت تھی کہ جہاں وہ تاریخ میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے خصوصی دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ دعا مقبول بھی ہوئی، اور اللہ کی توفیق نے دونوں میں ایک تاریخ ساز رشتہ قائم کردیا۔ جب حضرت عمرؓ اسلام لے آئے تو اپنی شجاعت اور دلیری ساتھ لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صلاحیتوں کی قدر کی اور انھیں استعمال کرنے کی صحیح جگہ بتائی۔ حضرت عمرؓ نے انھیں ٹھیک جگہ صرف کر کے ایران و روم کی شہنشاہیت کو اسلام کے قدموں پر لاجھکایا۔ وہ جاہلیت میں بھی شجاع اور دلیر تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی ویسے ہی بلند عزم اور بہادر ثابت ہوئے۔
اس حدیث سے ایک لطیف بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ روحوں میں آپس میں ایک غیرمرئی رشتہ اور غیر محسوس کشش ہوتی ہے۔ اس لیے سعید روحوں کے ساتھ سعادت مند وابستہ ہوتے ہیں اور ظالم لوگوں کے ساتھ بدبخت جڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر باصلاحیت فرد کے ارد گرد اسی قسم کی صلاحیتوں کے لوگوں کی موجودگی ہوتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ متعلق میدان میں خواہ وہ علمی وادبی ہو یا تہذیبی وسائنسی، یہ تعلقات ان صلاحیتوں کے ارتقا اور ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
جس طرح سونے چاندی کی کانیں دنیا کے بہت سے ملکوں میں پائی جاتی ہیں اور انسانوں کے بس کی بات نہیں کہ ان کو اپنے محبوب وطن اور اپنے مقدس ملک کے ساتھ مخصوص کردیں ، اسی طرح جوہر انسانیت کی کانیں اور انسانی صفات وکمالات کے دفینے بہت سے ملکوں میں پائے جاتے ہیں: النَّاسُ مَعَادِنٌ كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّۃِ [مسلم:۲۶۳۸]۔
انسان بھی اعلیٰ صفات اور قابلیتوں کی کانیں ہیں، جو پورے پورے ملک اور انسانی حدبندیوں سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ ویسی ہی مخفی جو بغیر خدمت ومحنت اور تہذیب وتنظیم کے نتیجے میں مٹی میں ملی ہوتی ہیں ،لیکن مٹی سے نکال لیا جائے تو کھری اور اصلی اپنی قیمت اپنے ساتھ اور ہر صرافہ بازار میں موتیوں کے تول تلیں اور سونے کے مول بکیں۔
اس بنیادی جوہر میں عقیدے کا اختلاف حارج نہیں ہوتا، نہ مذہب وملت کا فرق۔ سونا سونا ہے اگرچہ کافر کے ہاتھ میں ہو یا مومن کے ہاتھ میں۔ ہیرے کا دام ایک ہے، جوہری میلا کچیلا اور بداخلاق ہو یا صاف ستھرا اور مہذب۔ گوہر شب چراغ بڑھیا کے جھونپڑے اور بادشاہ کے محل دونوں کو روشن کرسکتا ہے:فَـخِیَارُهُمْ فِی الْجَاهِلِیَّۃِ خِیَارُهُمْ فِی الْاِسْلَامُ، جو جاہلیت میں اپنے ذہن و ذکاوت اور فہم و فراست میں ممتاز تھا، وہ اسلام میں بھی ان چیزوں میں ممتاز رہے گا۔
جاہلیت میں جو حمیت وغیرت اور قوت وشجاعت میں امتیاز رکھتا تھا، وہ اسلام میں بھی ان کمالات میں ممتاز رہے گا، عمل میں اور میدانِ جہاد میں دوسروں سے سبقت لے جائے گا، البتہ اس کی ضرورت ہے کہ جاہلیت کی ان صفات میں اسلام توازن واعتدال اور نظم وتہذیب پیدا کردے۔ سونا بہرحال سونا ہے، لیکن بازار میں جانے سے پہلے ضرورت ہے کہ اس کو مٹی سے صاف کرکے اور رگڑ کر اور چمکا کر زیور بنانے کے کام کا بنادیا جائے: فَـخِیَارُهُمْ فِی الْجَاهِلِیَّۃِ خِیَارُهُمْ فِی الْاِسْلَامُ اِذَا فَقَهُوا فِی الدِّیْنُ، جو ان میں سے جاہلیت میں سب سے بہتر تھے، اسلام میں بھی بہتر رہیں گے، بشرطیکہ انھیں دین میں درجۂ فقاہت (جس کا لازمی نتیجہ اعتدال، تہذیب اور اشیا کا صحیح تناسب معلوم ہونا ہے) حاصل ہوجائے۔ (نیا خون، مولانا سید ابوالفضل حسینیؒ)
حکمتِ دعوت و تزکیہ:انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے ضمن میں سب سے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ اپنی ہی صفوں میں جو مخلص کارکنان ہمہ دم دین کے لیے ہر کام کی انجام دہی کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنی زندگی اسی کاز کے لیے وقف کردینے کا تہیہ کیے ہوئے تحریک میں شامل ہوتے ہیں ، ان پر پہلی توجہ دی جائے۔ ان کا ’تزکیہ‘ ہو، ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں ، ان کی شخصیت سازی ہو اور وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانیں ، تاکہ انھیں درجۂ کمال تک پہنچاسکیں۔ اسی کا نام ’تزکیہ‘ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دعوت کا یہ فن سکھایا کہ: اپنی صفوں میں وہ احباب جن کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ سماجی لحاظ سے پس ماندہ ہیں، لیکن ان باطل پرستوں پر فوقیت رکھتے ہیں ، جو معاشرے کے سرکردہ مانے جاتے ہوں، اس سلسلے میں اسلام کا پیمانہ بہت انوکھا ہے۔ آخر وہ صلاحیت کیا فائدہ دے گی، جو انسانوں کے لیے نفع بخش بننے کے بجاے اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لیے کام آئے۔ ظالموں کو جن چیزوں نے گم راہ کیا، ان میں ان کا مال، اقتدار اور صلاحیتیں پہلی وجہ ہیں:
اچھا، جب صور میں پھونک ماری جائے گی، وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔ چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا، بہت سا مال اس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔ ہرگز نہیں ، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ میں تو اسے عن قریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواؤں گا۔ (المدثر۷۴:۸- ۱۷)
اسی قسم کے سرداران قریش ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے، اور آپس میں یہ باور کرا رہے تھے کہ انھیں بھی اسلام سے دل چسپی ہے اور وہ کچھ آپؐ سے سننا چاہتے ہیں ۔ اسی موقعے پر ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم حاضر ہوکر آپؐ سے کچھ سوالات کررہے تھے۔ آپؐ نے ان کی طرف عدم التفات کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دعوت کا یہ سبق سکھایا کہ اسلام کی دعوت اور اس کی خدمت انتہائی بلندی وعظمت والا کام ہے، اور اس کام کو انجام دینے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ معاشرے کے مغرور ومتکبر لوگوں کی رعایت کے لیے دعوت کے اونچے مقام سے نیچے اتر کر آئیں۔ یہ قرآن اور پیغام رسالت سے مناسبت نہیں رکھتا۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
ترش رو ہوا اور بےرخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمھیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ جو شخص بے پروائی برتتا ہے، اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو خود تمھارے پاس دوڑا آتا ہے، اور ڈر رہا ہوتا ہے، اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ہرگز نہیں ، یہ تو ایک نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔ (عبس۸۰:۱-۱۲)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف بلانے والا ہر داعی اپنی دعوت کے دوران اس نکتے کا گہرا شعور رکھے کہ کون تزکیہ کے لیے آمادہ ہے اور کون گناہوں کے دلدل سے نکلنے کے لیے دل میں خلش رکھتا ہے، اور کس کے اندر معنوی اور اخلاقی ارتقا کی پیاس اور تڑپ موجود ہے؟ یہی داعی کی گم شدہ پونجی ہے۔ یہی اس کا اصل مخاطب ہے کہ جس کسی میں غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کی آرزو نظر آئے، جو چاہتا ہو کہ اپنے ضمیر کی سطح سے زنگ اور گرد وغبار کھرچ کر اپنی اصل اور سالم انسانی فطرت کی طرف رجوع کرے، تو داعی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس پر پوری توجہ دے۔ یہ آیات ہر داعی اسلام کو سکھاتی ہیں کہ حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم جیسا حق کا پیاسا اپنے ظاہر ہی سے نظر آتا ہے، کہ وہ تزکیہ اور تذکیر کی تلاش میں آیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر توجہ دی اور ان کی شخصیت کو سنوارا اور ابھارا، یہاں تک کہ مدینہ میں حضرت بلالؓ کے ساتھ وہ بھی اذان دینے کے منصب پر فائز تھے۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوات میں شرکت کے لیے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو کبھی ان کو اپنا جانشین بنا کر جاتے اور وہ وہاں موجود مسلمانوں کی نماز کی امامت کرتے۔
تعمیر شخصیت کی ایک درخشاں مثال:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے انسانی صلاحیتوں کے فروغ کی ایک اور درخشاں مثال ہمیں حضرت بلالؓ حبشی کی ذات والاصفات میں ملتی ہے۔ اسلام لاتے وقت وہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ غلام نہ صرف عرب معاشرے میں بلکہ دنیا کے ہرمعاشرے میں سماجی پسماندگی کی آخری سطح پر ہوتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ سخت سزائیں شخصیت کے عزم وحوصلے کو توڑ دیتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال غلام کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے توسط سے آزاد فرمایا۔ پھر دھیرے دھیرے ان کی صلاحیتوں کو بڑھاتے چلے گئے، یہاں تک کہ مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت بلالؓ کی تین نمایاں حیثیتیں ملتی ہیں: ایک یہ کہ مدینہ پہنچنے اور مسجدنبوی کے بنانے کے کچھ دنوں بعد جب اذان کا رواج شروع ہوا تو آپؐ کی نگاہ انتخاب حضرت بلالؓ پر پڑی۔ اور حضرت بلالؓ نے اس ذمہ داری کو بڑی خوبی کے ساتھ آپؐ کی رحلت تک نبھایا۔ آج کی سائنسی دنیا سے تھوڑی دیر کے لیے باہر نکل کر عرب کے اس وقت کا تصور کریں، جب وقت کو معلوم کرنے کے لیے آلات موجود نہیں تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسلام نے نماز کے اوقات کو کائنات کی بڑی تبدیلیوں کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ اس لیے عبادت کو اپنے وقت پر انجام دینے کے لیے لازم ہے کہ کائنات کی تبدیلیوں سے واقفیت ہو، یعنی اگر آج کی اصطلاح میں کہا جائے تو علم فلکیات سے ایک مؤذن کے لیے واقف ہونا از حد ضروری تھا۔ نماز کے تمام اوقات مختلف علامتوں سے وابستہ کیے گئے ہیں۔ ان علامتوں کی پہچان آسان نہیں ہے، کیوں کہ موسمیات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، جس میں آثار کائنات کو دیکھ کر نمازوں کے اوقات پر اذان دینی ہوتی، اور اس کی صلاحیت حضرت بلالؓکے اندر پیدا کر دی گئی تھی۔
دوسری حیثیت یہ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پرسنل اسسٹنٹ تھے۔ آپؐ کی مالیات کا وہ حساب رکھتے تھے، آمدنی اور خرچ آپ کے ہاتھوں سے ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھی آپؐ، حضرت بلالؓ سے پوچھتے کہ آپ کی کتنی رقم ان کے پاس ہے؟ اگر کچھ ہوتا تو بتا دیتے ورنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کہیں سے قرض لے کر فلاں شخص کی ضرورت پوری کر دی جائے۔
تیسری حیثیت یہ کہ مسجد نبوی سے ملحق ایک کمرہ تھا اور وہ نو مولود اسلامی ریاست کے خزانے کا کمرہ تھا۔ مدینہ میں لوگ اپنی زکوۃ، ٹیکس، صدقات وغیرہ جمع کیا کرتے تھے اور جب جب کوئی بڑی ضرورت پیش آ جاتی، جیسے غزوات وغیرہ، تو انفاق فی سبیل اللہ کی ایک خصوصی اپیل جاری کر دی جاتی۔ جس کے جواب میں لوگ درہم و دینار اور اپنے پاس میسر سازو سامان لاکر اسلامی تحریک کے حوالے کر دیتے۔ ان سب کا حساب کتاب رکھنا، مجاہدوں میں تقسیم کرنا، مال غنیمت کا حساب رکھنا اور رسول اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر انھیں حق داروں میں تقسیم کرنا، یہ سب کام حضرت بلالؓ بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے۔
واقعہ ٔ ہجرت میں ایک اہم مثال :ہجرت کے موقعے پر حضرت ابوبکرؓ نے غیر مسلم بدو، عبد اللہ بن اریقط کی خدمات حاصل کیں ، تاکہ وہ غیر معروف راستے سے یثرب [مدینہ]کی طرف لے جائیں۔ روانگی کے لیے مقررہ وقت پر، ابن اریقط اونٹوں کے ساتھ غار میں ان سے ملنے آیا، اور وہ سیدھے شمال کی سمت میں یثرب کی طرف جانے کے بجاے جنوب مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ بہت ہی پرخطر سفر تھا، اور دوسری طرف قریش انھیں گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی نے خود کو خدا کے سپرد کردیا تھا، تاہم انھوں نے راستہ بتانے والے کی مدد حاصل کرنے میں دریغ نہیں کیا۔ حالانکہ وہ شخص دشمنوں کا ہم مذہب، یعنی مشرک تھا، لیکن وہ اسے اچھی طرح جانتے تھے، کہ وہ قابل اعتماد بھی ہے، اور راستوں کا غیرمعمولی واقف کار بھی ۔ اس لیے اس پر اعتماد کیا اور راستہ بتانے والے کی حیثیت سے اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقا کی صلاحیتوں کی قدر کرتے، انھیں استعمال میں لاتے اور ان کے فروغ میں رہنمائی عطا فرماتے۔اب ذیل میں کچھ مخصوص صلاحیتوں کا تذکرہ کیا جائے گا۔
۱- کاتبین وحی: قرآن مجید ۳۰ سال تک جستہ جستہ نازل ہوتا رہا، مختلف زمانوں میں سورتیں اور آیتیں نازل ہوئیں۔ جب بھی جبریلؑ آتے اور آپؐ تک پیغام پہنچاتے تو آپؐ انھیں لکھوانے کا انتظام فرماتے۔جب بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوتیں، آپؐ سب سے پہلے مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے تھے، پھر اس کے بعد عورتوں کوبھی سناتے تھے۔ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو اپنے صحابہؓ میں سے کسی ایسے شخص کو جسے لکھنا پڑھنا آتا ہو یاد فرماتے اور اس کو املا کراتے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے کے بعد اس سے کہتے کہ جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ تاکہ اگر کوئی غلطی کی ہو تو اس کی اصلاح کرسکیں۔یاد رہے کہ قرآن کتاب کی صورت میں مرتب ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تیار ہو گیا تھا اور اس کی مکمل کتابت ہو چکی تھی جس کی ترتیب وہی تھی جو آج ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد افراد کو وحی لکھنے پر مقرر فرمایا تھا۔ جب وحی نازل ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کاتبین وحی کو یا ان میں سے بعض کو طلب فرماتے اور خود بول کر ان کو وحی لکھواتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ جب وحی نازل ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاتبوں میں سے کسی کو لکھنے کے لیے بلاتے۔ براء کہتے ہیں کہ جب آیت لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ نازل ہوئی تو آپ ؐ نے زیدؓ کو بلایا اور انھوں نے آیت کو لکھ لیا (صحیح بخاری)۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو کاتبین وحی میں سے تھے، فرماتے ہیں کہ ہم کاتبین کی جماعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد کتابت میں مصروف تھے (سنن دارمی)۔ حضرت زیدؓ بن ثابت فرماتے ہیں کہ: ’’جب میں لکھتا تو آپ ؐ فرماتے کہ ’پڑھو‘، میں پڑھتا، اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی تو آپؐ اس کو درست فرماتے‘‘(مجمع الزوائد)۔
۲- مبلغین و معلّمین کی تیاری :مکی ومدنی دونوں زمانوں میں اسلام کی تبلیغ وتعلیم کا سرچشمہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اَنور تھی۔ اسلام سے ناواقف لوگوں کے سامنے آپؐ اسلام کی تبلیغ فرماتے اور جو اسلام قبول کرلیتے، انھیں قرآن کی تعلیم دیتے۔ پھر رفتہ رفتہ آپؐ نے اس کام کے لیے بہت سے صحابۂ کرامؓ کو تیار فرمایا۔ اس طرح حضور اکرمؓ نے اپنی ذاتی حیثیت میں اور مرکزی سطح پر صحابہؓ کے ذریعے دعوتی کام اور تعلیم کا کام برابر جاری رکھا۔ مکی دور میں عبد الرحمٰنؓ بن عوف، علیؓ بن ابی طالب، اسامہ بن زیدؓ وغیرہ کے ذریعے چاروں طرف دعوتی وفود گشت کرتے تھے۔ خود حدود حرم میں بھی صحابۂ کرامؓ کی تبلیغی کوششیں جاری رہتیں۔ مکہ سے دُور دراز علاقوں میں تبلیغی مہمات کا اندازہ مصعبؓ بن عمیر، ابو موسی اشعریؓ ، طفیلؓ بن عمرو دوسی، ابوذرغفاریؓ وغیرہ جیسے متعدد صحابۂ کرامؓ کی دعوتی سرگرمیوں سے کیا جاسکتا ہے۔
بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہؓ بن مسعود، سالمؓ اور حضرت معاذؓ بن جبل کو قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لیے مقرر فرمایا ۔ اسی طرح جب اسلام پھیلنے لگا تو آپؐ نے نومسلموں کی تعلیم کے لیے اور بہت سے احباب مقرر فرمائے۔ پھر انھوں نے بے شمار شاگردوں کو عہد نبویؐ ہی میں تیار کیا، جو آپؐ کے بعد مختلف مقامات پر قرآن مجید کی تعلیم دینے پر مامور ہوئے۔
مکی دور کی مانند مدنی دور میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد دعوتی جماعتیں منظم کی تھیں اور ان جماعتوں یا انفرادی مبلغوں کو جزیرہ نماے عرب کے مختلف علاقوں بلکہ اس کے باہر دوسرے ملکوں میں بھی بھیجا تھا۔
۳- توسیع دعوت اور تنظیم مسلمین :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ مکہ میں جب بازار لگتا تو باہر سے آنے والے قبیلوں کے درمیان آپؐ تشریف لےجاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے۔ اسی طرح ایام حج میں آپؐ منیٰ کے میدان میں تشریف لے جاتے اور خیموں میں پہنچ کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے۔ دوسری طرف ابوجہل لوگوں کو ورغلاتا اور آپؐ کے خلاف بھڑکاتا، مگر آپؐ اپنا کام اس وقت تک جاری رکھتے، جب تک آخری خیمے میں پہنچ نہ جاتے۔
۱۰ نبوی میں ایسا ہی ہوا کہ آپؐ تبلیغ فرماتے ہوئے جب آخری خیمے میں پہنچے تو وہاں چھے آدمی ملے، جو مدینہ کے قبیلہ خزرج سے آئے ہوئے تھے۔ وہ لوگ سلیم الفطرت ثابت ہوئے۔ آپ ؐ نے جب ان کے سامنے اللہ کی وحدانیت اور عظمت بیان کی، تو بہت متاثر ہوئے اور جب آپ ؐ نے قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت فرمائی تو ان کے دل بالکل ہی پگھل گئے اور آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہنے لگے کہ:’’ واللہ!یہ تو وہی نبی ہیں جن کا تذکرہ ہر وقت ہمارے ہاں مدینے میں یہود کی زبان پر ہوا کرتا ہے۔ دیکھنا یہود کہیں ہم سے قبولِ حق میں سبقت نہ لے جائیں‘‘۔ یہ کہہ کر سب اسی وقت کلمۂ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ خزرج کا کیا اسلام قبول کرنا تھا، گویا مدینہ میں اسلام کا سورج طلوع ہوگیا۔
یثرب کا وفد جب واپس جانے لگا تو سرداران خزرج نے سرور کونینؐ سے التجا کی: ’’ہمیں قرآن پڑھانے اور اسلام سکھانے کے لیے ایک معلم ساتھ بھیج دیجیے‘‘۔نئے مسلمان ہونے والوں کی تربیت اور ملی تنظیم کے لیے ایک قابل و ہونہار ناظم کی ضرورت، آپؐ نے محسوس کی، تو آپؐ کی نگاہ انتخاب حضرت مصعبؓ بن عمیر پر پڑی اور آپؐ نے انھیں یثرب چلے جانے کا حکم دیا۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر ایثار وخلوص کے پیکر جمیل تھے۔ رسولؐ اللہ کا حکم پاتے ہی کسی عذر و تامل کے بغیر، اسلام کے پہلے داعی اور مستقبل کے شہر مدینۃ النبی کے ناظم بن کر یثرب روانہ ہوگئے۔
حضرت مصعبؓ بن عمیر نے یثرب میں اپنی ذمہ داریاں نہایت احسن طریقے سے ادا کیں۔ فہم و فراست، شریں بیانی اور حکمت کے ساتھ جس طرح سے انھوں نے دعوت دی، اس کے نتیجے میں بڑے بڑے سردار بشمول سعدؓ بن معاذ اور اسیدؓ بن حضیر جیسے قائدین کو اسلام کے حق میں قائل کرلیا۔ دعوت وتبلیغ کے ساتھ حضرت مصعبؓ یثرب کے مسلمانوں کی تنظیم اور تعلیم سے بھی غافل نہ رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے آپ نے باجماعت نماز کی شروعات کی اور نومسلم انصار کو بڑی محنت سے دین کی تعلیم دی۔ اس طرح چند ماہ کے اندر یثرب کی گلی گلی اور کوچے کوچے میں خداے واحد اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر ہونے لگا۔ اگلے سال ۱۳ نبوی میں دین حق کا یہ کامیاب داعی ۷۲ مردوں اور دو عورتوں کو ساتھ لے کر حج کے لیے مکہ پہنچا۔ آپ ؐ ان کی کوششوں سے بہت مسرور ہوئے اور انھیں دعاے خیر دی۔ حضرت مصعبؓنے اپنے ساتھیوں کو رات کی تاریکی میں منیٰ کی ایک گھاٹی میں جمع کیا۔ آپ ؐ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سب کو اپنی بیعت سے مشرف فرمایا۔
۴- مفتیان کرام: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک انتہائی دُوراندیشی پر مبنی عملی حکمت تھی کہ آپؐ نے اپنی موجودگی میں کتاب و سنت کے ایسے عالم اور مفتی پیدا کر دیے، جو آپؐؐ کے بعد بھی اسلام کی امامت وسیادت کا کام بخوبی کرسکتے تھے۔ اس لیے آپؐ نے اپنی تربیت میں صحابۂ کرامؓ کی ایک ایسی ٹیم کو منصب افتاء کے لیے تیار فرمایا، جو سب سے زیادہ وسیع علم والے، سب سے کم تکلف والے، سب سے اچھے بیان کرنے والے اور سب سے سچے ایمان والے، اور خدا ترس تھے۔ آپؐ اپنی موجودگی میں، بعض صحابۂ کرامؓ سے دینی امور اور مذہبی مسائل پر فیصلے کرایا کرتے تھے۔ اس وقت تک، زیر بحث معاملات کے حل کے لیے تین اصول پوری طرح ظہور اور عمل میں آچکے تھے۔ پہلے قرآن حکیم کی روشنی میں مسائل کو حل کیا جائے۔ پھر سنت کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے۔ لیکن ان دونوں سے بھی اگر کسی خاص معاملے پر روشنی نہ مل سکے تو دینی فہم پر اعتماد کرکے فیصلہ کیا جائے۔
اسلامی ریاست جیسے جیسے پھیلتی گئی، ویسے ویسے مفتیان کرام کا کردار بھی بڑھتا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجے میں جو ذہن سازی ہوئی تھی، اس کی بنیاد پر کسی بھی مسئلے میں جہاں قرآن وسنت کی واضح رہنمائی موجود نہ ہو، وہاں وہ اپنی راے سے فیصلہ اور فتویٰ دیتے۔
۵- ائمہ مساجد :نبیؐ کی حیثیت سے آپ ؐ ہی امت کے تنہا امام تھے اور آپؐ کی موجودگی میں کوئی اور نماز کی بھی امامت نہیں کرسکتا تھا۔ البتہ آپ ؐ کی غیر حاضری میں کوئی صالح مسلمان امامت کے فرائض انجام دے سکتا تھا، اور عموماً آپؐ خود ایسے اماموں کا تقرر فرما دیتے تھے۔
یاد رہے کہ اسلام میں مسجدیں محض عبادت گاہ نہیں ہیں، بلکہ مقامی مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، تنظیمی و تہذیبی مراکز بھی ہوا کرتی ہیں اور وہاں کا امام صرف نمازوں کا امام نہیں بلکہ وہ مسلم امت کی زندگی کے تمام مسائل میں رہنمائی کرنے والا قائد ورہنما ہوا کرتا ہے۔ مدینہ منورہ میں جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی مسجدوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ تواریخ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مسجدوں میں نماز کے اماموں کا تقرر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔
سنن ابو داؤد کی ایک روایت سے پتا چلتا ہے کہ مدینے میں کم از کم نو مسجدیں تھیں جن میں عہد نبوی میں باقاعدہ جماعت کے ساتھ نمازیں ہوا کرتی تھی اور ان کے اپنے امام مقرر تھے جن کی تربیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی تھی۔
۶- مو ٔ ذنین رسولؐ:اذان نماز کو قائم کرنے کے لیے لازمی شرط ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ نمازوں کے اوقات کائنات کی تبدیلیوں کے اوقات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس لیے مؤذن کو ان کا ادراک و فہم ہونا ضروری تھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں اپنے مؤذنین کو تربیت دی۔ مسجد نبوی سے متعلق تین مؤذنین کے نام ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں جن میں حضرت بلالؓ کا نام سرفہرست ہے اور آپ کے علاوہ ابو محذورہؓ اور ابن ام مکتومؓ کا نام ملتا ہے۔ اسی طرح اوپر جتنی مسجدوں کا ذکر آیا ہے ان تمام کے لیے امامت کے علاوہ مؤذنین کا بھی تقرر کیا جاتا تھا۔
۷- سکریٹری (ڈاکومنٹ رائٹر): اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ عرب میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم تھے اور جو پڑھے لکھے ہوتے تھے، عرب میں ہر لحاظ سے ان کی بڑی قدرومنزلت ہوتی تھی اور احتراماً ان کے نام کے ساتھ الکاتب، یعنی لکھنے والا لگایا جاتا تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد کتابت کے فن کو عروج ملا اور دوسرے علوم وفنون کے ساتھ کاتبین کی تیاری پر پوری توجہ دی گئی۔ کتابت وحی کے علاوہ اور بہت سے امور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے فرامین، خطوط، عہد وپیمان، امان وغیرہ دینے کا کام لکھ کر ہوا کرتا تھا۔
مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد کاتبوں کے کام کی نوعیت مذہبی ہونے کے ساتھ سیاسی رنگ بھی اختیار کرگئی۔ اسلامی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فوجی افسروں، سپہ سالاروں، گورنروں، صوبائی اور مقامی منتظمین، قبائلی سرداروں، ملک و بیرون ملک کے حکمرانوں اور عوام کے نام خطوط اور فرامین لکھنا ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ آپؐ نے متعدد عرب عیسائی اور یہودی قبیلوں سے صلح اور باہمی تعاون کے معاہدے کیے تھے۔ بعد کے زمانے میں غیرمسلم طبقات کے سرداروں کے نام فرامین صادر کیے تھے۔ آخری زمانے میں متعدد قبائل نے اسلامی ریاست کے ساتھ حلیفانہ تعلقات قائم کیے، ان کی دستاویزات لکھی جاتی تھیں۔ ان جیسے اور بھی متعدد مقاصد کے لیے کاتبوں کا ایک پورا شعبہ آپؐ نے قائم فرمایا۔
متعدد خطوط مختلف عرب حکمرانوں، قبائلی سرداروں اور غیرملکی بادشاہوں اور مسلم گورنروں اور افسروں کے نام ہیں، جو انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھیجے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ ایسی دستاویزات بھی ہیں، جو آپؐ نے ان کے ساتھ معاہدات لکھوائے تھے یا انھیں خطوط لکھے تھے۔ بہرحال کم ازکم ۷۴دستاویزیں ایسی ہیں جو اپنے کاتبوں کے نام بھی رکھتی ہیں۔ ان کی پوری فہرست ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے مرتب کرکے شائع کی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر معاہدوں کی کتابت حضرت علیؓ بن ابی طالب کیا کرتے تھے۔ اسی طرح عبداللہ ؓبن ارقم اور زیدؓ بن ثابت رسول اللہ کے خطوط و فرامین لکھا کرتے تھے، جو غیر ملکی حکمرانوں، اسلامی ریاست کے مختلف گورنروں اور اسلامی لشکروں کے سالاروں کے نام ہوتے تھے۔ عرب قبائل کے درمیان معاہدوں کی ایک بڑی تعداد کے کاتب امیرمعاویہؓ ہیں۔ ایک خاندان بنو قرہ، نجران کے عیسائی ، ربیعہ بن ذی المرجب اور حضر موت کے قبائلی حکمران کے نام تحریر کردہ تمام فرامین امیرمعاویہؓ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ ذمہ داری حصینؓ بن نمیر اور مغیرہؓ بن شعبہ بھی ادا کرتے تھے۔ اسی طرح زبیرؓ بن عوام اور جہمؓ بن صلت صدقات و محاصل کی تحریر کے ذمہ دار تھے۔ حذیفہؓ بن یمان اراضی کی پیداوار کے معاملات تحریر کرتے تھے اور شرحبیلؓ بن حسنہ کندی بادشاہوں اور حکمرانوں کے نام خطوط نبوی تحریر کیا کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف کاتبوں کو مختلف کام ان کی صلاحیتوں اور فنی مہارتوں کے سبب عطا کیے گئے تھے۔
بعض مصنّفین نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ان سکریٹریوں کے نام اور قبائل کی فہرستیں تیار کی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ قبیلوں سے چوالیس حضرات کو اس طرح کے کام کے لیے تیار کیا تھا۔
۸- سفیرانِ رسولؐ :زمانہ قدیم سے جزیرہ نما عرب اور بالخصوص مکہ میں سفارت کا ادارہ معروف تھا۔ قریشی اشرافیہ میں سفارت کی ذمہ داری نباہنے والا خاندان بنوعدی بہت مشہور تھا۔ اس عہدے پر حضرت عمرؓ بن خطاب بھی فائز تھے اور اپنے باپ سے یہ منصب انھوں نے پایا تھا۔ سفارت کے منصب پر آدمی قریش کے رؤسا اور شیوخ میں شمار ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ قبولِ اسلام سے قبل کے سیاسی نظامِ قریش میں اس کے آخری عہدے دار تھے۔
بہرحال، اسلامی ریاست کے بننے کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیغام مختلف بادشاہوں اور قبیلوں تک پہنچانے کے لیے آپؐ نے سفیروں کا تقرر فرمایا اور ان کی تربیت کی۔ ایک بہترین سفیر بننے کے لیے لازم ہے کہ اس میں اعلی فراست، ذہانت، عمدہ زبان و طرز ادا ، جاذبِ نظر شخصیت ہو اور وہ متعلقہ علاقے کی زبان جانتا ہو اور اس زبان میں ادایگی فرائض پر قدرت رکھتا ہو۔ یہ وہ اوصاف تھے جو ایک اچھا سفیر بناتے تھے۔ اس کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم موقع و محل کی مناسبت سے مخصوص اور موزوں شخص کا انتخاب کرتے تھے اور اس کی روانگی سے قبل حسب معمول اس کو ہدایت دیتے تھے کہ نرم لہجے میں گفتگو کریں، رحمت و نرم دلی کا مظاہرہ کریں، سختی اور سخت روی سے پرہیز کریں، آسانی پیدا کریں اور اختلاف و تصادم سے گریز کریں، خوش خبری سنائیں، نفرت وعداوت سے اجتناب کریں اور رحمت واتفاق کا رویہ اپنائیں۔
۹- شعرا :آج کے زمانے میں شعرا کو سرکاری یا ریاستی افسر میں شمار کرنا ایک عجیب سی بات سمجھا جائے گا، مگر پرانے زمانے میں ان کی بہت اہمیت ہوتی تھی، اور عرب میں ان کو ایک بڑا مقام حاصل تھا۔ عرب چونکہ اپنی زبان پر فخر کرتے تھے، اس لیے ان کو اپنے شاعروں اور خطیبوں پر بہت ناز تھا۔ یہ شاعر حضرات نہ صرف اپنے قبیلہ اور لوگوں کی آواز تھے اور ان کے جذبات و خیالات کی ترجمانی کرتے تھے بلکہ وہ آرا و خیالات کو بناتے اور بگاڑتے بھی تھے۔ اپنی قوم کو اکساتے، جنگوں میں ہیجان برپا کرتے اور جنگ کی آگ بھڑکاتے تھے۔ اس طرح معاشرے میں ان کا ایک اُونچا مقام تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی اہمیت سے واقف تھے۔ آپؐ نے اپنے شعرا کی جب تربیت کی، تو شاعرانہ مبالغہ آرائی اور فحش گوئی کی سختی سے مخالفت کی، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے شاعری کے خوب صورت ودل آویز پہلوؤں کو ہمیشہ بنظر تحسین دیکھا اور بہتر شاعری کی تعریف فرمائی اور پسند کیا۔ آپؐ اس کے غیر معمولی اثرات سے واقف تھے، لہٰذا اس کو اسلامی امت اور اسلامی ریاست کے مفاد میں بہتر سے بہتر طریقے پر استعمال بھی کیا۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اہم شاعروں کی خدمات حاصل کیں، جو آپؐ اور اسلامی ریاست کا دفاع کرتے تھے۔ ان میں سے حضرت حسانؓ بن ثابت دربار رسالت کے عظیم شاعر تھے۔ ان کے علاوہ حضرت کعبؓ بن مالک اور حضرت عبداللہؓ بن رواحہ تھے۔ یہ تینوں شاعر ناموس رسول کے محافظ اور اسلامی ریاست کے ترجمان تھے۔ سیرت نگاروں نے عہد نبوی کے دو سو شعرا کو شمار کیا ہے، ان میں کعبؓ بن زہیر، لبیدؓ، خنساءؓ، علیؓ بن ابی طالب، عامرؓ بن اکوع ، اور عباسؓ بن مرداس ممتاز ہیں۔
۱۰- مقررین :کسی بھی نظریہ اور سماج میں اپنے افکار و نظریات کو پھیلانے اور دشمن کے نظریات اور خیالات کی تردید کرنے کے لیے زورآور اور زبان دان خطیب اور مقررین کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکاری خطیبوں میں حضرت ثابتؓ بن قیس کا ذکر ملتا ہے، جو انصار کے قومی خطیب تھے۔ ان کی خدمات کا ذکر بنوتمیم کے کے وفد کی آمد کے موقع پر شاعروں اور خطیبوں کی مفاخرت کے ضمن میں ملتا ہے۔ ان کے علاوہ متعدد صحابۂ کرامؓ وقت کے شعلہ نوا خطیب تھے۔ ان میں ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، علیؓ بن ابی طالب، جعفر طیارؓ ممتاز مقام کے مالک تھے، اور ان کے جواہر پارے آج بھی دلوں کو گرماتے ہیں۔ اس زمانے کے سب سے بڑے اور پرشکوہ خطیب خود اللہ کے رسول ؐ تھے جن کے پاک اقوال عربی ادب کی شان ہیں۔ جعفر طیارؓ نے نجاشی کے دربار میں جس شاندار انداز سے تقریر کی انھیں آج بھی ہم پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دربار نجاشی میں اس کی کیا گونج رہی ہوگی اور سامعین کے حواس پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔
اس مختصر جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقا کو ایمان کی دولت عطا کرنے کے ساتھ، بہترین تنظیم میں پرویا۔ ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا اور اداراتی (Institutional)سطح پر انھیں اس شان سے ذمہ داریاں سونپیں کہ اشاعت ِ اسلام اور اقامت ِ دین کا یہ کام ایک ہمہ گیر سسٹم کی شکل میں قائم ہوا، اور پھلا پھولا۔ آج تحریک ِ اسلامی کے لیے بھی اسوئہ حسنہ کا یہی سبق ہے کہ وہ محض چند شعبوں میں نہیں بلکہ دینی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے تمام چیلنجوں کو سامنے رکھ کر افرادی قوت کو تیار اور ذمہ داریوں پر مقرر کریں۔