نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی ایک نمایاں خوبی انسانی صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے۔ روز ِاول سے آپؐ نے وہ متنوع صلاحیتیں جن کی اسلام کو ضرورت تھی، کبھی پیدا کیں اور کبھی معاشرے میں میسر صلاحیتوں کو اپنے قریب کیا اور ان کے ذریعے اپنے مشن کی طرف پیش قدمی کو تیز تر کر دیا۔
آپؐ کی دعوت کا جب آغاز ہوا تو ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی، جو آپؐ کے پرسنل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکے۔ اس کے لیے حضرت علیؓ سے زیادہ موزوں کوئی نہیں تھا، جن کے ذریعے آپؐ مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام فرماتے، لوگوں تک اپنی بات کو پہنچانے کا واسطہ بناتے۔ ہجرت کی رات مشرکین کو غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کے لیے کسی شخص کا آپؐ کے بستر پر سونا ضروری تھا۔ اس صورت میں سونے والے پر حملہ ہونے کا قوی اندیشہ موجود تھا، اس لیے اس ذمہ داری کو سرانجام دینے کے لیے حضرت علیؓ جیسے بہادر اور سرفروش شخص کا انتخاب بہترین فیصلہ تھا۔
مدینہ پہنچنے کے بعد وقتاً فوقتاً دشمن قبیلوں کے لوگ رات میں مدینے پر حملہ آور ہوتے اور موقع پاکر مدینہ کے مویشیوں کو ہانک لے جاتے۔ صورت حال کی نزاکت کا تقاضا تھا کہ پورے شہر کے علاوہ کوئی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اطراف رات بھر پہرہ دے۔ اس خدمت کے لیے حضرت علیؓ نے خود کو پیش کیا ،اور ہجرت کے بعد مسلسل ڈیڑھ سال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔
حبشہ کی طرف ہجرت کے لیے ایک قافلہ روانہ ہوا۔ اس کے پیشِ نظر دو مقصد تھے: ایک یہ کہ ظلم وستم کا نشانہ بننے سے کچھ برسوں تک دُور رہا جائے اور دوسرا یہ کہ قریش تجارت پیشہ قبیلہ تھا، اس کے نئے ایمان لانے والے افراد نے تجارت کی غرض سے حبشہ کی طرف سفر کا ارادہ کیا۔ اس مہم میں آپؐ نے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کو مہاجرین کا امیر منتخب فرمایا ،اور حضرت جعفرؓ کے نجاشی کے ساتھ ہونے والے مکالمے نے اس انتخاب کی پیغمبرانہ دُور اندیشی کا عملی ثبوت پیش کردیا۔
پہلے دن سے آپؐکا ہدف مختلف طبقوں میں کام کرنا تھا اور اس کی عملی شکل یہی تھی کہ تاجر تاجروں میں ، قبیلے کے سردار سرداروں میں ، غلام غلاموں میں کام کریں۔ آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ذریعے مکہ کے تاجروں میں کام کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف اور ان جیسے مقام و مرتبے کے اور بہت سے صاحبِ ثروت تاجر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ اسی طرح آپؐ کی ہجرت میں رفاقت اور سفر میں مصاحبت کے لیے کسی ہستی کا انتخاب ہونا تھا۔ اس کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب فرمایا، جنھوں نے ہمیشہ آپؐ کے قائم مقام کی حیثیت سے کام کیا۔ آپؐ نے بالکل آغاز سے ہی حضرت ابوبکرؓ کو اس منصب پر فائز فرمایا اور وہ آخر تک اس پر فائز رہے۔
جب مدینہ پر عرب کا متحدہ لشکر اٹھ کر آیا اور حملہ آور ہونے کے لیے مدینے کا گھیراؤ کرلیا، تو اس وقت بنوقریظہ کی طرف سے جو مدینے میں آپؐ کے حلیف تھے، عہد شکنی کے آثار نظر آنے لگے۔ اسی دوران حضرت نعیم بن مسعودؓ اسلام لے آئے، اور آپؐ کے سامنے انھوں نے پیش کش رکھی کہ ان سے جو کام لینا چاہیں لے لیں۔ وہ قبیلہ بنو غطفان سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلام کے خلاف متحدہ محاذ میں بنو غطفان قبیلہ بھی قریش کے ساتھ تھا۔ آپؐ نے حضرت نعیمؓ بن مسعود کو ذمہ داری دی کہ وہ دشمنوں کے درمیان پھوٹ ڈال دیں۔ آپؐ کا یہ انتخاب بالکل درست ثابت ہوا۔ آپؐ ہمیشہ اہل افراد کو ذمہ داریاں سونپنے کے اصول پر کاربند رہتے تھے۔ اسی جنگ میں آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو دشمنوں کی اس مجلس میں بھیجا جہاں جنگ کی اسٹرے ٹیجی زیر ِبحث تھی۔ جان جوکھم میں ڈال کر حضرت حذیفہؓدشمنوں کے لشکر میں پہنچے اور معلوم کرلیا کہ اب ان کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں ہے اور ان میں سے بڑی تعداد کوچ کرچکی ہے۔
l صلاحیتوں کا ادراک اور فروغ: انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فارمولا اس طرح نظر آتا ہے کہ : bulid, buy and borrow ، یعنی صلاحیتوں کو نشوونما دینا، معاشرے کے باصلاحیت افراد کو متاثر کرنا، اور بعض مخصوص صلاحیتوں سے بوقت ضرورت استفادہ کرنا۔
انسانی ذہن اور خیالات کو بدلنا، معاشرے کی اقدار کو نئے پیمانوں میں ڈھالنا، فکر کے زاویے کو صحیح سمت دینا اور پوری زندگی کے اندر ایک صالح انقلاب برپا کرنا، گوناگوں صلاحیتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ آپؐ نے اس عظیم الشان اور ہمہ جہت تبدیلی کے عمل کے لیے اعلیٰ انسانی صلاحیتوں کو فروغ دیا۔ ہم اُوپر ذکر کیے گئے فارمولے کے تحت تینوں اپروچ کی مثالیں پیش کریں گے۔
انسانوں کے سلسلے میں آپؐ کا نظریہ یہ تھا کہ صاحب ِ ایمان اور مخلص لوگ سونے چاندی کی کانوں سے بڑھ کر قیمتی اثاثہ ہیں۔ لوگوں کی صلاحیتیں اور قابلیتیں وہ انسانی وسائل ہیں، جو مادی وسائل سے زیادہ قیمتی اور دور رس نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ’’سب سے معزز آدمی کون ہے؟ ‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’جو اللہ کا خوف زیادہ رکھتا ہو‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’پھر سب سے زیادہ معزز اللہ کے نبی یوسف ؑہیں ، جن کے باپ نبی، دادا نبی اور پردادا اللہ کے خلیل ہیں‘‘۔صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا کہ’’ تم لوگ عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو۔ دیکھو، لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے ( کسی کان میں سے اچھا مال نکلتا ہے کسی میں سے بُرا)۔ جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں معزز اور بہتر اخلاق کے ہیں ، وہی قبولِ اسلام کے بعد بھی اچھے اور معزز ہیں، جب کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں‘‘۔ (صحیح بخاری)
اس حدیث میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئیں :
۱- انسانوں میں سب سے زیادہ قیمتی وہ لوگ ہیں جن کے پاس اعلیٰ صلاحیتیں ہوتی ہیں ، قطع نظر اس کے کہ وہ دائرۂ اسلام میں ہیں یا اس سے باہر ہیں۔
۲- صرف صلاحیتیں انسانیت کے لیے مفید نہیں ہوتیں ، اگر وہ ایمان اور تقویٰ سے عاری ہوں۔ سب سے زیادہ اچھے انسان وہ ہیں، جن میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہو۔
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح کانیں ہیں ، جو زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے، وہ اگر دین کو سمجھ لیں تو زمانہ اسلام میں بھی اچھے ہیں۔ اور روحیں ایک ساتھ رہنے والی جماعتیں ہیں جو آپس میں ( ایک جیسی صفات کی بنا پر ) ایک دوسرے کو پہنچاننے لگیں تو ان میں الفت پیدا ہوجاتی ہے، اور جو (صفات کے اختلاف کی بنا پر) ایک دوسرے سے گریزاں رہیں ، وہ ایک دوسرے سے متنفرہوجاتی ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باصلاحیت لوگ اگرچہ جاہلیت کے علم بردار ہی کیوں نہ ہوں اور ظالموں اور اسلام دشمنوں کی صفوں میں ہی کیوں نہ ہوں ، اگر وہ ایمان لے آئیں تو یہاں بھی وہ بہت قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے۔ اس کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں ، جن میں سب سے نمایاں نام حضرت عمر بن الخطابؓ کا ہے۔
l دعاے رسالتؐ __ حضرت عمرفاروقؓ: حضرت عمرؓ دلیر اور بہادر انسان تھے، طبیعت کے جری اور ارادے کے قوی تھے۔ معاشرہ انھیں اسی حیثیت سے جانتا تھا۔ بہادری میں پورے مکہ مکرمہ میں ان کا اونچا مقام تھا۔ اسلام کو ایک ایسی ہی دلیر اور شجاع شخصیت کی ضرورت تھی جو کفار کے بیچ میں اسلام کا پرچم بلند کرسکے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کی دلیری کو ان کے شایان شان ایک ایسے میدان کی ضرورت تھی کہ جہاں وہ تاریخ میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے خصوصی دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ دعا مقبول بھی ہوئی، اور اللہ کی توفیق نے دونوں میں ایک تاریخ ساز رشتہ قائم کردیا۔ جب حضرت عمرؓ اسلام لے آئے تو اپنی شجاعت اور دلیری ساتھ لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صلاحیتوں کی قدر کی اور انھیں استعمال کرنے کی صحیح جگہ بتائی۔ حضرت عمرؓ نے انھیں ٹھیک جگہ صرف کر کے ایران و روم کی شہنشاہیت کو اسلام کے قدموں پر لاجھکایا۔ وہ جاہلیت میں بھی شجاع اور دلیر تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی ویسے ہی بلند عزم اور بہادر ثابت ہوئے۔
اس حدیث سے ایک لطیف بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ روحوں میں آپس میں ایک غیرمرئی رشتہ اور غیر محسوس کشش ہوتی ہے۔ اس لیے سعید روحوں کے ساتھ سعادت مند وابستہ ہوتے ہیں اور ظالم لوگوں کے ساتھ بدبخت جڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر باصلاحیت فرد کے ارد گرد اسی قسم کی صلاحیتوں کے لوگوں کی موجودگی ہوتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ متعلق میدان میں خواہ وہ علمی وادبی ہو یا تہذیبی وسائنسی، یہ تعلقات ان صلاحیتوں کے ارتقا اور ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
جس طرح سونے چاندی کی کانیں دنیا کے بہت سے ملکوں میں پائی جاتی ہیں اور انسانوں کے بس کی بات نہیں کہ ان کو اپنے محبوب وطن اور اپنے مقدس ملک کے ساتھ مخصوص کردیں ، اسی طرح جوہر انسانیت کی کانیں اور انسانی صفات وکمالات کے دفینے بہت سے ملکوں میں پائے جاتے ہیں: النَّاسُ مَعَادِنٌ كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّۃِ [مسلم:۲۶۳۸]۔
انسان بھی اعلیٰ صفات اور قابلیتوں کی کانیں ہیں، جو پورے پورے ملک اور انسانی حدبندیوں سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ ویسی ہی مخفی جو بغیر خدمت ومحنت اور تہذیب وتنظیم کے نتیجے میں مٹی میں ملی ہوتی ہیں ،لیکن مٹی سے نکال لیا جائے تو کھری اور اصلی اپنی قیمت اپنے ساتھ اور ہر صرافہ بازار میں موتیوں کے تول تلیں اور سونے کے مول بکیں۔
اس بنیادی جوہر میں عقیدے کا اختلاف حارج نہیں ہوتا، نہ مذہب وملت کا فرق۔ سونا سونا ہے اگرچہ کافر کے ہاتھ میں ہو یا مومن کے ہاتھ میں۔ ہیرے کا دام ایک ہے، جوہری میلا کچیلا اور بداخلاق ہو یا صاف ستھرا اور مہذب۔ گوہر شب چراغ بڑھیا کے جھونپڑے اور بادشاہ کے محل دونوں کو روشن کرسکتا ہے:فَـخِیَارُهُمْ فِی الْجَاهِلِیَّۃِ خِیَارُهُمْ فِی الْاِسْلَامُ، جو جاہلیت میں اپنے ذہن و ذکاوت اور فہم و فراست میں ممتاز تھا، وہ اسلام میں بھی ان چیزوں میں ممتاز رہے گا۔
جاہلیت میں جو حمیت وغیرت اور قوت وشجاعت میں امتیاز رکھتا تھا، وہ اسلام میں بھی ان کمالات میں ممتاز رہے گا، عمل میں اور میدانِ جہاد میں دوسروں سے سبقت لے جائے گا، البتہ اس کی ضرورت ہے کہ جاہلیت کی ان صفات میں اسلام توازن واعتدال اور نظم وتہذیب پیدا کردے۔ سونا بہرحال سونا ہے، لیکن بازار میں جانے سے پہلے ضرورت ہے کہ اس کو مٹی سے صاف کرکے اور رگڑ کر اور چمکا کر زیور بنانے کے کام کا بنادیا جائے: فَـخِیَارُهُمْ فِی الْجَاهِلِیَّۃِ خِیَارُهُمْ فِی الْاِسْلَامُ اِذَا فَقَهُوا فِی الدِّیْنُ، جو ان میں سے جاہلیت میں سب سے بہتر تھے، اسلام میں بھی بہتر رہیں گے، بشرطیکہ انھیں دین میں درجۂ فقاہت (جس کا لازمی نتیجہ اعتدال، تہذیب اور اشیا کا صحیح تناسب معلوم ہونا ہے) حاصل ہوجائے۔ (نیا خون، مولانا سید ابوالفضل حسینیؒ)
حکمتِ دعوت و تزکیہ:انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے ضمن میں سب سے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ اپنی ہی صفوں میں جو مخلص کارکنان ہمہ دم دین کے لیے ہر کام کی انجام دہی کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنی زندگی اسی کاز کے لیے وقف کردینے کا تہیہ کیے ہوئے تحریک میں شامل ہوتے ہیں ، ان پر پہلی توجہ دی جائے۔ ان کا ’تزکیہ‘ ہو، ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں ، ان کی شخصیت سازی ہو اور وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانیں ، تاکہ انھیں درجۂ کمال تک پہنچاسکیں۔ اسی کا نام ’تزکیہ‘ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دعوت کا یہ فن سکھایا کہ: اپنی صفوں میں وہ احباب جن کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ سماجی لحاظ سے پس ماندہ ہیں، لیکن ان باطل پرستوں پر فوقیت رکھتے ہیں ، جو معاشرے کے سرکردہ مانے جاتے ہوں، اس سلسلے میں اسلام کا پیمانہ بہت انوکھا ہے۔ آخر وہ صلاحیت کیا فائدہ دے گی، جو انسانوں کے لیے نفع بخش بننے کے بجاے اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لیے کام آئے۔ ظالموں کو جن چیزوں نے گم راہ کیا، ان میں ان کا مال، اقتدار اور صلاحیتیں پہلی وجہ ہیں:
اچھا، جب صور میں پھونک ماری جائے گی، وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔ چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا، بہت سا مال اس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔ ہرگز نہیں ، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ میں تو اسے عن قریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواؤں گا۔ (المدثر۷۴:۸- ۱۷)
اسی قسم کے سرداران قریش ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے، اور آپس میں یہ باور کرا رہے تھے کہ انھیں بھی اسلام سے دل چسپی ہے اور وہ کچھ آپؐ سے سننا چاہتے ہیں ۔ اسی موقعے پر ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم حاضر ہوکر آپؐ سے کچھ سوالات کررہے تھے۔ آپؐ نے ان کی طرف عدم التفات کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دعوت کا یہ سبق سکھایا کہ اسلام کی دعوت اور اس کی خدمت انتہائی بلندی وعظمت والا کام ہے، اور اس کام کو انجام دینے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ معاشرے کے مغرور ومتکبر لوگوں کی رعایت کے لیے دعوت کے اونچے مقام سے نیچے اتر کر آئیں۔ یہ قرآن اور پیغام رسالت سے مناسبت نہیں رکھتا۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
ترش رو ہوا اور بےرخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمھیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ جو شخص بے پروائی برتتا ہے، اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو خود تمھارے پاس دوڑا آتا ہے، اور ڈر رہا ہوتا ہے، اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ہرگز نہیں ، یہ تو ایک نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔ (عبس۸۰:۱-۱۲)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف بلانے والا ہر داعی اپنی دعوت کے دوران اس نکتے کا گہرا شعور رکھے کہ کون تزکیہ کے لیے آمادہ ہے اور کون گناہوں کے دلدل سے نکلنے کے لیے دل میں خلش رکھتا ہے، اور کس کے اندر معنوی اور اخلاقی ارتقا کی پیاس اور تڑپ موجود ہے؟ یہی داعی کی گم شدہ پونجی ہے۔ یہی اس کا اصل مخاطب ہے کہ جس کسی میں غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کی آرزو نظر آئے، جو چاہتا ہو کہ اپنے ضمیر کی سطح سے زنگ اور گرد وغبار کھرچ کر اپنی اصل اور سالم انسانی فطرت کی طرف رجوع کرے، تو داعی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس پر پوری توجہ دے۔ یہ آیات ہر داعی اسلام کو سکھاتی ہیں کہ حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم جیسا حق کا پیاسا اپنے ظاہر ہی سے نظر آتا ہے، کہ وہ تزکیہ اور تذکیر کی تلاش میں آیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر توجہ دی اور ان کی شخصیت کو سنوارا اور ابھارا، یہاں تک کہ مدینہ میں حضرت بلالؓ کے ساتھ وہ بھی اذان دینے کے منصب پر فائز تھے۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوات میں شرکت کے لیے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو کبھی ان کو اپنا جانشین بنا کر جاتے اور وہ وہاں موجود مسلمانوں کی نماز کی امامت کرتے۔
تعمیر شخصیت کی ایک درخشاں مثال:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے انسانی صلاحیتوں کے فروغ کی ایک اور درخشاں مثال ہمیں حضرت بلالؓ حبشی کی ذات والاصفات میں ملتی ہے۔ اسلام لاتے وقت وہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ غلام نہ صرف عرب معاشرے میں بلکہ دنیا کے ہرمعاشرے میں سماجی پسماندگی کی آخری سطح پر ہوتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ سخت سزائیں شخصیت کے عزم وحوصلے کو توڑ دیتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال غلام کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے توسط سے آزاد فرمایا۔ پھر دھیرے دھیرے ان کی صلاحیتوں کو بڑھاتے چلے گئے، یہاں تک کہ مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت بلالؓ کی تین نمایاں حیثیتیں ملتی ہیں: ایک یہ کہ مدینہ پہنچنے اور مسجدنبوی کے بنانے کے کچھ دنوں بعد جب اذان کا رواج شروع ہوا تو آپؐ کی نگاہ انتخاب حضرت بلالؓ پر پڑی۔ اور حضرت بلالؓ نے اس ذمہ داری کو بڑی خوبی کے ساتھ آپؐ کی رحلت تک نبھایا۔ آج کی سائنسی دنیا سے تھوڑی دیر کے لیے باہر نکل کر عرب کے اس وقت کا تصور کریں، جب وقت کو معلوم کرنے کے لیے آلات موجود نہیں تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسلام نے نماز کے اوقات کو کائنات کی بڑی تبدیلیوں کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ اس لیے عبادت کو اپنے وقت پر انجام دینے کے لیے لازم ہے کہ کائنات کی تبدیلیوں سے واقفیت ہو، یعنی اگر آج کی اصطلاح میں کہا جائے تو علم فلکیات سے ایک مؤذن کے لیے واقف ہونا از حد ضروری تھا۔ نماز کے تمام اوقات مختلف علامتوں سے وابستہ کیے گئے ہیں۔ ان علامتوں کی پہچان آسان نہیں ہے، کیوں کہ موسمیات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، جس میں آثار کائنات کو دیکھ کر نمازوں کے اوقات پر اذان دینی ہوتی، اور اس کی صلاحیت حضرت بلالؓکے اندر پیدا کر دی گئی تھی۔
دوسری حیثیت یہ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پرسنل اسسٹنٹ تھے۔ آپؐ کی مالیات کا وہ حساب رکھتے تھے، آمدنی اور خرچ آپ کے ہاتھوں سے ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھی آپؐ، حضرت بلالؓ سے پوچھتے کہ آپ کی کتنی رقم ان کے پاس ہے؟ اگر کچھ ہوتا تو بتا دیتے ورنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کہیں سے قرض لے کر فلاں شخص کی ضرورت پوری کر دی جائے۔
تیسری حیثیت یہ کہ مسجد نبوی سے ملحق ایک کمرہ تھا اور وہ نو مولود اسلامی ریاست کے خزانے کا کمرہ تھا۔ مدینہ میں لوگ اپنی زکوۃ، ٹیکس، صدقات وغیرہ جمع کیا کرتے تھے اور جب جب کوئی بڑی ضرورت پیش آ جاتی، جیسے غزوات وغیرہ، تو انفاق فی سبیل اللہ کی ایک خصوصی اپیل جاری کر دی جاتی۔ جس کے جواب میں لوگ درہم و دینار اور اپنے پاس میسر سازو سامان لاکر اسلامی تحریک کے حوالے کر دیتے۔ ان سب کا حساب کتاب رکھنا، مجاہدوں میں تقسیم کرنا، مال غنیمت کا حساب رکھنا اور رسول اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر انھیں حق داروں میں تقسیم کرنا، یہ سب کام حضرت بلالؓ بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے۔
واقعہ ٔ ہجرت میں ایک اہم مثال :ہجرت کے موقعے پر حضرت ابوبکرؓ نے غیر مسلم بدو، عبد اللہ بن اریقط کی خدمات حاصل کیں ، تاکہ وہ غیر معروف راستے سے یثرب [مدینہ]کی طرف لے جائیں۔ روانگی کے لیے مقررہ وقت پر، ابن اریقط اونٹوں کے ساتھ غار میں ان سے ملنے آیا، اور وہ سیدھے شمال کی سمت میں یثرب کی طرف جانے کے بجاے جنوب مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ بہت ہی پرخطر سفر تھا، اور دوسری طرف قریش انھیں گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی نے خود کو خدا کے سپرد کردیا تھا، تاہم انھوں نے راستہ بتانے والے کی مدد حاصل کرنے میں دریغ نہیں کیا۔ حالانکہ وہ شخص دشمنوں کا ہم مذہب، یعنی مشرک تھا، لیکن وہ اسے اچھی طرح جانتے تھے، کہ وہ قابل اعتماد بھی ہے، اور راستوں کا غیرمعمولی واقف کار بھی ۔ اس لیے اس پر اعتماد کیا اور راستہ بتانے والے کی حیثیت سے اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقا کی صلاحیتوں کی قدر کرتے، انھیں استعمال میں لاتے اور ان کے فروغ میں رہنمائی عطا فرماتے۔اب ذیل میں کچھ مخصوص صلاحیتوں کا تذکرہ کیا جائے گا۔
۱- کاتبین وحی: قرآن مجید ۳۰ سال تک جستہ جستہ نازل ہوتا رہا، مختلف زمانوں میں سورتیں اور آیتیں نازل ہوئیں۔ جب بھی جبریلؑ آتے اور آپؐ تک پیغام پہنچاتے تو آپؐ انھیں لکھوانے کا انتظام فرماتے۔جب بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوتیں، آپؐ سب سے پہلے مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے تھے، پھر اس کے بعد عورتوں کوبھی سناتے تھے۔ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو اپنے صحابہؓ میں سے کسی ایسے شخص کو جسے لکھنا پڑھنا آتا ہو یاد فرماتے اور اس کو املا کراتے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے کے بعد اس سے کہتے کہ جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ تاکہ اگر کوئی غلطی کی ہو تو اس کی اصلاح کرسکیں۔یاد رہے کہ قرآن کتاب کی صورت میں مرتب ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تیار ہو گیا تھا اور اس کی مکمل کتابت ہو چکی تھی جس کی ترتیب وہی تھی جو آج ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد افراد کو وحی لکھنے پر مقرر فرمایا تھا۔ جب وحی نازل ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کاتبین وحی کو یا ان میں سے بعض کو طلب فرماتے اور خود بول کر ان کو وحی لکھواتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ جب وحی نازل ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاتبوں میں سے کسی کو لکھنے کے لیے بلاتے۔ براء کہتے ہیں کہ جب آیت لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ نازل ہوئی تو آپ ؐ نے زیدؓ کو بلایا اور انھوں نے آیت کو لکھ لیا (صحیح بخاری)۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو کاتبین وحی میں سے تھے، فرماتے ہیں کہ ہم کاتبین کی جماعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد کتابت میں مصروف تھے (سنن دارمی)۔ حضرت زیدؓ بن ثابت فرماتے ہیں کہ: ’’جب میں لکھتا تو آپ ؐ فرماتے کہ ’پڑھو‘، میں پڑھتا، اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی تو آپؐ اس کو درست فرماتے‘‘(مجمع الزوائد)۔
۲- مبلغین و معلّمین کی تیاری :مکی ومدنی دونوں زمانوں میں اسلام کی تبلیغ وتعلیم کا سرچشمہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اَنور تھی۔ اسلام سے ناواقف لوگوں کے سامنے آپؐ اسلام کی تبلیغ فرماتے اور جو اسلام قبول کرلیتے، انھیں قرآن کی تعلیم دیتے۔ پھر رفتہ رفتہ آپؐ نے اس کام کے لیے بہت سے صحابۂ کرامؓ کو تیار فرمایا۔ اس طرح حضور اکرمؓ نے اپنی ذاتی حیثیت میں اور مرکزی سطح پر صحابہؓ کے ذریعے دعوتی کام اور تعلیم کا کام برابر جاری رکھا۔ مکی دور میں عبد الرحمٰنؓ بن عوف، علیؓ بن ابی طالب، اسامہ بن زیدؓ وغیرہ کے ذریعے چاروں طرف دعوتی وفود گشت کرتے تھے۔ خود حدود حرم میں بھی صحابۂ کرامؓ کی تبلیغی کوششیں جاری رہتیں۔ مکہ سے دُور دراز علاقوں میں تبلیغی مہمات کا اندازہ مصعبؓ بن عمیر، ابو موسی اشعریؓ ، طفیلؓ بن عمرو دوسی، ابوذرغفاریؓ وغیرہ جیسے متعدد صحابۂ کرامؓ کی دعوتی سرگرمیوں سے کیا جاسکتا ہے۔
بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہؓ بن مسعود، سالمؓ اور حضرت معاذؓ بن جبل کو قرآن مجید کی تعلیم دینے کے لیے مقرر فرمایا ۔ اسی طرح جب اسلام پھیلنے لگا تو آپؐ نے نومسلموں کی تعلیم کے لیے اور بہت سے احباب مقرر فرمائے۔ پھر انھوں نے بے شمار شاگردوں کو عہد نبویؐ ہی میں تیار کیا، جو آپؐ کے بعد مختلف مقامات پر قرآن مجید کی تعلیم دینے پر مامور ہوئے۔
مکی دور کی مانند مدنی دور میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد دعوتی جماعتیں منظم کی تھیں اور ان جماعتوں یا انفرادی مبلغوں کو جزیرہ نماے عرب کے مختلف علاقوں بلکہ اس کے باہر دوسرے ملکوں میں بھی بھیجا تھا۔
۳- توسیع دعوت اور تنظیم مسلمین :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ مکہ میں جب بازار لگتا تو باہر سے آنے والے قبیلوں کے درمیان آپؐ تشریف لےجاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے۔ اسی طرح ایام حج میں آپؐ منیٰ کے میدان میں تشریف لے جاتے اور خیموں میں پہنچ کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے۔ دوسری طرف ابوجہل لوگوں کو ورغلاتا اور آپؐ کے خلاف بھڑکاتا، مگر آپؐ اپنا کام اس وقت تک جاری رکھتے، جب تک آخری خیمے میں پہنچ نہ جاتے۔
۱۰ نبوی میں ایسا ہی ہوا کہ آپؐ تبلیغ فرماتے ہوئے جب آخری خیمے میں پہنچے تو وہاں چھے آدمی ملے، جو مدینہ کے قبیلہ خزرج سے آئے ہوئے تھے۔ وہ لوگ سلیم الفطرت ثابت ہوئے۔ آپ ؐ نے جب ان کے سامنے اللہ کی وحدانیت اور عظمت بیان کی، تو بہت متاثر ہوئے اور جب آپ ؐ نے قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت فرمائی تو ان کے دل بالکل ہی پگھل گئے اور آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہنے لگے کہ:’’ واللہ!یہ تو وہی نبی ہیں جن کا تذکرہ ہر وقت ہمارے ہاں مدینے میں یہود کی زبان پر ہوا کرتا ہے۔ دیکھنا یہود کہیں ہم سے قبولِ حق میں سبقت نہ لے جائیں‘‘۔ یہ کہہ کر سب اسی وقت کلمۂ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ خزرج کا کیا اسلام قبول کرنا تھا، گویا مدینہ میں اسلام کا سورج طلوع ہوگیا۔
یثرب کا وفد جب واپس جانے لگا تو سرداران خزرج نے سرور کونینؐ سے التجا کی: ’’ہمیں قرآن پڑھانے اور اسلام سکھانے کے لیے ایک معلم ساتھ بھیج دیجیے‘‘۔نئے مسلمان ہونے والوں کی تربیت اور ملی تنظیم کے لیے ایک قابل و ہونہار ناظم کی ضرورت، آپؐ نے محسوس کی، تو آپؐ کی نگاہ انتخاب حضرت مصعبؓ بن عمیر پر پڑی اور آپؐ نے انھیں یثرب چلے جانے کا حکم دیا۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر ایثار وخلوص کے پیکر جمیل تھے۔ رسولؐ اللہ کا حکم پاتے ہی کسی عذر و تامل کے بغیر، اسلام کے پہلے داعی اور مستقبل کے شہر مدینۃ النبی کے ناظم بن کر یثرب روانہ ہوگئے۔
حضرت مصعبؓ بن عمیر نے یثرب میں اپنی ذمہ داریاں نہایت احسن طریقے سے ادا کیں۔ فہم و فراست، شریں بیانی اور حکمت کے ساتھ جس طرح سے انھوں نے دعوت دی، اس کے نتیجے میں بڑے بڑے سردار بشمول سعدؓ بن معاذ اور اسیدؓ بن حضیر جیسے قائدین کو اسلام کے حق میں قائل کرلیا۔ دعوت وتبلیغ کے ساتھ حضرت مصعبؓ یثرب کے مسلمانوں کی تنظیم اور تعلیم سے بھی غافل نہ رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے آپ نے باجماعت نماز کی شروعات کی اور نومسلم انصار کو بڑی محنت سے دین کی تعلیم دی۔ اس طرح چند ماہ کے اندر یثرب کی گلی گلی اور کوچے کوچے میں خداے واحد اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر ہونے لگا۔ اگلے سال ۱۳ نبوی میں دین حق کا یہ کامیاب داعی ۷۲ مردوں اور دو عورتوں کو ساتھ لے کر حج کے لیے مکہ پہنچا۔ آپ ؐ ان کی کوششوں سے بہت مسرور ہوئے اور انھیں دعاے خیر دی۔ حضرت مصعبؓنے اپنے ساتھیوں کو رات کی تاریکی میں منیٰ کی ایک گھاٹی میں جمع کیا۔ آپ ؐ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سب کو اپنی بیعت سے مشرف فرمایا۔
۴- مفتیان کرام: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک انتہائی دُوراندیشی پر مبنی عملی حکمت تھی کہ آپؐ نے اپنی موجودگی میں کتاب و سنت کے ایسے عالم اور مفتی پیدا کر دیے، جو آپؐؐ کے بعد بھی اسلام کی امامت وسیادت کا کام بخوبی کرسکتے تھے۔ اس لیے آپؐ نے اپنی تربیت میں صحابۂ کرامؓ کی ایک ایسی ٹیم کو منصب افتاء کے لیے تیار فرمایا، جو سب سے زیادہ وسیع علم والے، سب سے کم تکلف والے، سب سے اچھے بیان کرنے والے اور سب سے سچے ایمان والے، اور خدا ترس تھے۔ آپؐ اپنی موجودگی میں، بعض صحابۂ کرامؓ سے دینی امور اور مذہبی مسائل پر فیصلے کرایا کرتے تھے۔ اس وقت تک، زیر بحث معاملات کے حل کے لیے تین اصول پوری طرح ظہور اور عمل میں آچکے تھے۔ پہلے قرآن حکیم کی روشنی میں مسائل کو حل کیا جائے۔ پھر سنت کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے۔ لیکن ان دونوں سے بھی اگر کسی خاص معاملے پر روشنی نہ مل سکے تو دینی فہم پر اعتماد کرکے فیصلہ کیا جائے۔
اسلامی ریاست جیسے جیسے پھیلتی گئی، ویسے ویسے مفتیان کرام کا کردار بھی بڑھتا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجے میں جو ذہن سازی ہوئی تھی، اس کی بنیاد پر کسی بھی مسئلے میں جہاں قرآن وسنت کی واضح رہنمائی موجود نہ ہو، وہاں وہ اپنی راے سے فیصلہ اور فتویٰ دیتے۔
۵- ائمہ مساجد :نبیؐ کی حیثیت سے آپ ؐ ہی امت کے تنہا امام تھے اور آپؐ کی موجودگی میں کوئی اور نماز کی بھی امامت نہیں کرسکتا تھا۔ البتہ آپ ؐ کی غیر حاضری میں کوئی صالح مسلمان امامت کے فرائض انجام دے سکتا تھا، اور عموماً آپؐ خود ایسے اماموں کا تقرر فرما دیتے تھے۔
یاد رہے کہ اسلام میں مسجدیں محض عبادت گاہ نہیں ہیں، بلکہ مقامی مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، تنظیمی و تہذیبی مراکز بھی ہوا کرتی ہیں اور وہاں کا امام صرف نمازوں کا امام نہیں بلکہ وہ مسلم امت کی زندگی کے تمام مسائل میں رہنمائی کرنے والا قائد ورہنما ہوا کرتا ہے۔ مدینہ منورہ میں جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی مسجدوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ تواریخ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مسجدوں میں نماز کے اماموں کا تقرر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔
سنن ابو داؤد کی ایک روایت سے پتا چلتا ہے کہ مدینے میں کم از کم نو مسجدیں تھیں جن میں عہد نبوی میں باقاعدہ جماعت کے ساتھ نمازیں ہوا کرتی تھی اور ان کے اپنے امام مقرر تھے جن کی تربیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی تھی۔
۶- مو ٔ ذنین رسولؐ:اذان نماز کو قائم کرنے کے لیے لازمی شرط ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ نمازوں کے اوقات کائنات کی تبدیلیوں کے اوقات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس لیے مؤذن کو ان کا ادراک و فہم ہونا ضروری تھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں اپنے مؤذنین کو تربیت دی۔ مسجد نبوی سے متعلق تین مؤذنین کے نام ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں جن میں حضرت بلالؓ کا نام سرفہرست ہے اور آپ کے علاوہ ابو محذورہؓ اور ابن ام مکتومؓ کا نام ملتا ہے۔ اسی طرح اوپر جتنی مسجدوں کا ذکر آیا ہے ان تمام کے لیے امامت کے علاوہ مؤذنین کا بھی تقرر کیا جاتا تھا۔
۷- سکریٹری (ڈاکومنٹ رائٹر): اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ عرب میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم تھے اور جو پڑھے لکھے ہوتے تھے، عرب میں ہر لحاظ سے ان کی بڑی قدرومنزلت ہوتی تھی اور احتراماً ان کے نام کے ساتھ الکاتب، یعنی لکھنے والا لگایا جاتا تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد کتابت کے فن کو عروج ملا اور دوسرے علوم وفنون کے ساتھ کاتبین کی تیاری پر پوری توجہ دی گئی۔ کتابت وحی کے علاوہ اور بہت سے امور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے فرامین، خطوط، عہد وپیمان، امان وغیرہ دینے کا کام لکھ کر ہوا کرتا تھا۔
مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد کاتبوں کے کام کی نوعیت مذہبی ہونے کے ساتھ سیاسی رنگ بھی اختیار کرگئی۔ اسلامی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فوجی افسروں، سپہ سالاروں، گورنروں، صوبائی اور مقامی منتظمین، قبائلی سرداروں، ملک و بیرون ملک کے حکمرانوں اور عوام کے نام خطوط اور فرامین لکھنا ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ آپؐ نے متعدد عرب عیسائی اور یہودی قبیلوں سے صلح اور باہمی تعاون کے معاہدے کیے تھے۔ بعد کے زمانے میں غیرمسلم طبقات کے سرداروں کے نام فرامین صادر کیے تھے۔ آخری زمانے میں متعدد قبائل نے اسلامی ریاست کے ساتھ حلیفانہ تعلقات قائم کیے، ان کی دستاویزات لکھی جاتی تھیں۔ ان جیسے اور بھی متعدد مقاصد کے لیے کاتبوں کا ایک پورا شعبہ آپؐ نے قائم فرمایا۔
متعدد خطوط مختلف عرب حکمرانوں، قبائلی سرداروں اور غیرملکی بادشاہوں اور مسلم گورنروں اور افسروں کے نام ہیں، جو انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھیجے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ ایسی دستاویزات بھی ہیں، جو آپؐ نے ان کے ساتھ معاہدات لکھوائے تھے یا انھیں خطوط لکھے تھے۔ بہرحال کم ازکم ۷۴دستاویزیں ایسی ہیں جو اپنے کاتبوں کے نام بھی رکھتی ہیں۔ ان کی پوری فہرست ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے مرتب کرکے شائع کی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر معاہدوں کی کتابت حضرت علیؓ بن ابی طالب کیا کرتے تھے۔ اسی طرح عبداللہ ؓبن ارقم اور زیدؓ بن ثابت رسول اللہ کے خطوط و فرامین لکھا کرتے تھے، جو غیر ملکی حکمرانوں، اسلامی ریاست کے مختلف گورنروں اور اسلامی لشکروں کے سالاروں کے نام ہوتے تھے۔ عرب قبائل کے درمیان معاہدوں کی ایک بڑی تعداد کے کاتب امیرمعاویہؓ ہیں۔ ایک خاندان بنو قرہ، نجران کے عیسائی ، ربیعہ بن ذی المرجب اور حضر موت کے قبائلی حکمران کے نام تحریر کردہ تمام فرامین امیرمعاویہؓ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ ذمہ داری حصینؓ بن نمیر اور مغیرہؓ بن شعبہ بھی ادا کرتے تھے۔ اسی طرح زبیرؓ بن عوام اور جہمؓ بن صلت صدقات و محاصل کی تحریر کے ذمہ دار تھے۔ حذیفہؓ بن یمان اراضی کی پیداوار کے معاملات تحریر کرتے تھے اور شرحبیلؓ بن حسنہ کندی بادشاہوں اور حکمرانوں کے نام خطوط نبوی تحریر کیا کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف کاتبوں کو مختلف کام ان کی صلاحیتوں اور فنی مہارتوں کے سبب عطا کیے گئے تھے۔
بعض مصنّفین نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ان سکریٹریوں کے نام اور قبائل کی فہرستیں تیار کی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ قبیلوں سے چوالیس حضرات کو اس طرح کے کام کے لیے تیار کیا تھا۔
۸- سفیرانِ رسولؐ :زمانہ قدیم سے جزیرہ نما عرب اور بالخصوص مکہ میں سفارت کا ادارہ معروف تھا۔ قریشی اشرافیہ میں سفارت کی ذمہ داری نباہنے والا خاندان بنوعدی بہت مشہور تھا۔ اس عہدے پر حضرت عمرؓ بن خطاب بھی فائز تھے اور اپنے باپ سے یہ منصب انھوں نے پایا تھا۔ سفارت کے منصب پر آدمی قریش کے رؤسا اور شیوخ میں شمار ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ قبولِ اسلام سے قبل کے سیاسی نظامِ قریش میں اس کے آخری عہدے دار تھے۔
بہرحال، اسلامی ریاست کے بننے کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیغام مختلف بادشاہوں اور قبیلوں تک پہنچانے کے لیے آپؐ نے سفیروں کا تقرر فرمایا اور ان کی تربیت کی۔ ایک بہترین سفیر بننے کے لیے لازم ہے کہ اس میں اعلی فراست، ذہانت، عمدہ زبان و طرز ادا ، جاذبِ نظر شخصیت ہو اور وہ متعلقہ علاقے کی زبان جانتا ہو اور اس زبان میں ادایگی فرائض پر قدرت رکھتا ہو۔ یہ وہ اوصاف تھے جو ایک اچھا سفیر بناتے تھے۔ اس کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم موقع و محل کی مناسبت سے مخصوص اور موزوں شخص کا انتخاب کرتے تھے اور اس کی روانگی سے قبل حسب معمول اس کو ہدایت دیتے تھے کہ نرم لہجے میں گفتگو کریں، رحمت و نرم دلی کا مظاہرہ کریں، سختی اور سخت روی سے پرہیز کریں، آسانی پیدا کریں اور اختلاف و تصادم سے گریز کریں، خوش خبری سنائیں، نفرت وعداوت سے اجتناب کریں اور رحمت واتفاق کا رویہ اپنائیں۔
۹- شعرا :آج کے زمانے میں شعرا کو سرکاری یا ریاستی افسر میں شمار کرنا ایک عجیب سی بات سمجھا جائے گا، مگر پرانے زمانے میں ان کی بہت اہمیت ہوتی تھی، اور عرب میں ان کو ایک بڑا مقام حاصل تھا۔ عرب چونکہ اپنی زبان پر فخر کرتے تھے، اس لیے ان کو اپنے شاعروں اور خطیبوں پر بہت ناز تھا۔ یہ شاعر حضرات نہ صرف اپنے قبیلہ اور لوگوں کی آواز تھے اور ان کے جذبات و خیالات کی ترجمانی کرتے تھے بلکہ وہ آرا و خیالات کو بناتے اور بگاڑتے بھی تھے۔ اپنی قوم کو اکساتے، جنگوں میں ہیجان برپا کرتے اور جنگ کی آگ بھڑکاتے تھے۔ اس طرح معاشرے میں ان کا ایک اُونچا مقام تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی اہمیت سے واقف تھے۔ آپؐ نے اپنے شعرا کی جب تربیت کی، تو شاعرانہ مبالغہ آرائی اور فحش گوئی کی سختی سے مخالفت کی، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے شاعری کے خوب صورت ودل آویز پہلوؤں کو ہمیشہ بنظر تحسین دیکھا اور بہتر شاعری کی تعریف فرمائی اور پسند کیا۔ آپؐ اس کے غیر معمولی اثرات سے واقف تھے، لہٰذا اس کو اسلامی امت اور اسلامی ریاست کے مفاد میں بہتر سے بہتر طریقے پر استعمال بھی کیا۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اہم شاعروں کی خدمات حاصل کیں، جو آپؐ اور اسلامی ریاست کا دفاع کرتے تھے۔ ان میں سے حضرت حسانؓ بن ثابت دربار رسالت کے عظیم شاعر تھے۔ ان کے علاوہ حضرت کعبؓ بن مالک اور حضرت عبداللہؓ بن رواحہ تھے۔ یہ تینوں شاعر ناموس رسول کے محافظ اور اسلامی ریاست کے ترجمان تھے۔ سیرت نگاروں نے عہد نبوی کے دو سو شعرا کو شمار کیا ہے، ان میں کعبؓ بن زہیر، لبیدؓ، خنساءؓ، علیؓ بن ابی طالب، عامرؓ بن اکوع ، اور عباسؓ بن مرداس ممتاز ہیں۔
۱۰- مقررین :کسی بھی نظریہ اور سماج میں اپنے افکار و نظریات کو پھیلانے اور دشمن کے نظریات اور خیالات کی تردید کرنے کے لیے زورآور اور زبان دان خطیب اور مقررین کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکاری خطیبوں میں حضرت ثابتؓ بن قیس کا ذکر ملتا ہے، جو انصار کے قومی خطیب تھے۔ ان کی خدمات کا ذکر بنوتمیم کے کے وفد کی آمد کے موقع پر شاعروں اور خطیبوں کی مفاخرت کے ضمن میں ملتا ہے۔ ان کے علاوہ متعدد صحابۂ کرامؓ وقت کے شعلہ نوا خطیب تھے۔ ان میں ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، علیؓ بن ابی طالب، جعفر طیارؓ ممتاز مقام کے مالک تھے، اور ان کے جواہر پارے آج بھی دلوں کو گرماتے ہیں۔ اس زمانے کے سب سے بڑے اور پرشکوہ خطیب خود اللہ کے رسول ؐ تھے جن کے پاک اقوال عربی ادب کی شان ہیں۔ جعفر طیارؓ نے نجاشی کے دربار میں جس شاندار انداز سے تقریر کی انھیں آج بھی ہم پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دربار نجاشی میں اس کی کیا گونج رہی ہوگی اور سامعین کے حواس پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔
اس مختصر جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقا کو ایمان کی دولت عطا کرنے کے ساتھ، بہترین تنظیم میں پرویا۔ ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا اور اداراتی (Institutional)سطح پر انھیں اس شان سے ذمہ داریاں سونپیں کہ اشاعت ِ اسلام اور اقامت ِ دین کا یہ کام ایک ہمہ گیر سسٹم کی شکل میں قائم ہوا، اور پھلا پھولا۔ آج تحریک ِ اسلامی کے لیے بھی اسوئہ حسنہ کا یہی سبق ہے کہ وہ محض چند شعبوں میں نہیں بلکہ دینی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے تمام چیلنجوں کو سامنے رکھ کر افرادی قوت کو تیار اور ذمہ داریوں پر مقرر کریں۔