ہمارا فرض ہے کہ حق و صداقت کی دعوتِ اسلام کو اپنے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے بھی پیش کریں اور پوری دل سوزی اور برادرانہ ہمدردی سے انھیں سمجھائیں کہ ’’بھائی یہ اسلام، ہماری یا کسی کی بھی ذاتی میراث نہیں ہے۔ یہ تمام اولاد آدم کی مشترک متاع ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے ہم سب کے خالق و مالک اور ربّ کے بتائے ہوئے وہ اصول ہیں، جنھیں اختیار کرکے انسان دنیا و آخرت دونوں جگہ نجات سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ اس لیے انھیں قبول کرنا آپ کی اپنی بھلائی ہے۔ اور اگر انھیں قبول نہیں کرتے تو ان اصولوں کا یا کسی اور کا تو کچھ نہیں بگڑتا، خود اپنے آپ ہی کو خسران میں ڈالتے ہو۔ اپنے سامنے پھیلی ہوئی خدا کی اس کائنات کا کھلی آنکھوں اور کھلے دل سے مشاہدہ کیجیے۔ ہر شے اصل حقیقت کی نشان دہی کرتی چلی جائے گی‘‘۔
یہ سورج، چاند اور ستارے، یہ آگ، پانی اور ہوا، یہ پھل پھول اور نباتات، یہ لوہا، تانبا، سونا اور ساری کی ساری جمادات اور اس زمین و آسمان کی ایک ایک چیز ایک اٹل اور بے لچک قانون میں جکڑی ہوئی ہے، جس کے خلاف وہ بال برابر بھی جنبش نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ آپ کے یہ دن رات اور ماہ و سال اور موسموں کی آمد و رفت اسی پر تو موقوف ہے کہ سورج، چاند اور زمین ایک قطعی اور اٹل قانون کے ماتحت بلا چون و چرا اپنے اپنے مقرر راستوں پر اپنی مقرر رفتار کے ساتھ مسلسل چلے جارہے ہیں۔ آپ کے پھل پھول اور باغات کی ساری رونق اسی کی تو مرہونِ منت ہے کہ زمین کی ہر پیداوار مختلف موسموں، اقسام زمین اور آب و ہوا کی اس طرح پابند بنا دی گئی ہے کہ ہر شے اپنے موسم، اپنے لیے مقرر قسم کی زمین اور آب و ہوا میں بے چون و چرا پیدا ہوتی، نشوونما پاتی اور پروان چڑھتی چلی جاتی ہے۔ آپ کی یہ ساری صنعتی ترقیاں اور کارخانے اسی وجہ سے توممکن ہوئے کہ ساری جمادات، آگ، پانی، بجلی اور دوسری سب اشیا اور قوتیں جو اس کام کے لیے درکار ہیں، اٹل اور بالکل معین قوانین طبیعی اور کیمیاوی کی بے عذر اطاعت پر مجبور کر دی گئی ہیں۔
اور پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ان قوانین سے انحراف اور ان کی خلاف ورزی ہی کا دوسرا نام بگاڑ ہے۔ مثلاً آپ ذرا مشینی ضوابط (Laws of Mechanics) کی خلاف ورزی کیجیے، وہیں آپ کی مشین میں اس انحراف کے تناسب سے نقص پیدا ہو جائے گا۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کو توڑئیے، آپ کی صحت و تندرستی رخصت ہو جائے گی۔ قوانین زراعت کی پابندی میں کوتاہی برتئے، آپ کے سب پھل پھول اور پودے برباد ہو جائیں گے، حتیٰ کہ زندگی کے کسی گوشے میں بھی قوانین فطرت کو نظر انداز کرکے دیکھیے وہیں خرابی و بگاڑ کی کوئی شکل سامنے آجائے گی۔ یہی نہیں بلکہ ہر مشین کی کارگزاری (efficiency)، صحت کی درستی، فصل کی افزونی اور دنیا کی ہر چیز کی ترقی اسی پر موقوف ہے کہ اس قانون قدرت کی زیادہ سے زیادہ پابندی کی جائے جو اس کے لیے خالق کی طرف سے مقرر کردیا گیا ہے۔ جو جس قدر زیادہ ان قوانین، ضوابط اور اصولوں کو جانے اور برتے گا اسی قدر اس کو اس دنیا میں کامیابی اور ترقی اور اس کے ذرائع و وسائل پر تسلط و تصرف حاصل ہوتا چلا جائے گا۔ اس صورت حال سے کم سے کم طبعی زندگی کی حد تک تو یہ بات تجربے سے ثابت ہو جاتی ہے کہ ترقی و ارتقا اور کامیابی اور غلبہ کا حصول قوانین قدرت کو ٹھیک ٹھیک جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے ہی کی صورت میں ہوتا اور ہوسکتا ہے۔ اور یہ قوانین و ضوابط سب اس خدا کے بنائے ہوئے اور جاری کردہ ہیں، جس نے اس کائنات کو بنایا ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی باقی کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کے لیے اور خود انسان کی طبیعی اور تکوینی زندگی کے لیے اٹل قوانین فطرت (Laws of Nature) بنادیے ہیں جن کی پابندی اور پیروی ہی میں انسان کے لیے امن و فلاح اور ترقی و ارتقا ہے، عین اسی طرح سے انسان کی اخلاقی، سماجی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اٹل اور قطعی قوانین اور اصول و ضوابط موجود ہیں جن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنے سے ہی انسانوں کو اس دنیا میں مکمل امن اور سکون کی زندگی اور مرنے کے بعد نجات اور سرخروئی حاصل ہوسکتی ہے، مگر اس دنیا میں طبیعیات و تکوین اور انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین قدرت (Laws of Nature) میں فرق یہ ہے کہ طبعی و تکوینی دائرے میں ان قوانین کو اللہ نے اپنی قوت قاہرہ سے بہ جبر نافذ کردیا ہے اور انسانیت (اخلاق، معاشرت، معیشت و سیاست وغیرہ) کے دائرے میں ان کو بہ جبر نافذ کرنے کے بجائے اولاد آدم کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ چاہے تو ان پر چلے اور نہ چاہے تو نہ چلے۔
چونکہ اس کائنات کا پورا طبعی نظام، خدا کے طبعی قوانین (Laws of Nature)کے تابع ہے۔ اس لیے ان قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ تو فوراً سامنے آجاتا ہے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کے خلاف ورزی کا بُرا انجام فوراً ظاہر نہیں ہوتا اور بعض اوقات برسوں اور صدیوں تک اور کبھی اس دنیا میں سرے سے ہی ظاہر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک قوانین طبعی (سائنسی علوم) کا تعلق ہے، ان کو معلوم کرنے کاکام خود انسان ہی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ مشاہدہ و تحقیق اور تجربات کے ذریعے ان کا علم خود حاصل کرے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کی تعلیم اور تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے ہر ملک اور ہر قوم میں اپنے نبی اور رسول مقرر فرمائے، جنھوں نے نہ صرف یہ کہ خدا کی ساری کی ساری تعلیمات من و عن اور بلاکم و کاست اپنی اپنی قوم تک پہنچا دیں، بلکہ ان میں سے ایک ایک چیز پر عمل کرکے بھی دکھا دیا۔ اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں نظام زندگی ’’انبیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوا، یہ زمین جنت کا نمونہ اور امن و سلامتی کا گہوارا بن گئی۔ چنانچہ کم و بیش ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں میں جس گذشتہ، ’سنہری زمانے‘کے قصے اور کہانیاں اب تک مشہور چلے آتے ہیں، یہ سب دراصل اسی زمانے سے متعلق ہیں، جب کہ اس قوم یا ملک کی زمام کار اور انتظام ملکی اللہ کے ان برگزیدہ بندوں یا ان کے ماننے والو ں کے ہاتھ میں تھے، یا پھر ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے بیش تر حصے کو لوگ عملاً اختیار کیے ہوئے تھے۔
اللہ کے ان سب نمایندوں نے اپنے اپنے وقت میں ہر جگہ لوگوں کو غیر اللہ کی بندگی سے نکال کر ایک ہی دین (خالق کل اور معبود حقیقی کی اطاعت و بندگی کے طریقے) پر جمع کیا اور انھیں بتایا کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر جن جن کی بھی تم اطاعت و بندگی کرتے ہو، وہ سب تمھاری طرح اس کے بندے اور غلام ہیں۔ زمان و مکان اور انسانی زندگی کے مختلف ادوار میں تمدن کے فرق کی بنا پر بعض تفصیلات کے سوا ان سب کی ایک ہی تعلیم تھی اور وہ یہ کہ، یہ چاند، یہ تارے، یہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں ایک خدا کی مخلوق ہیں۔ وہی تمھارا پیدا کرنے والا ہے، وہی رزق دینے والا ہے، وہی مارنے والا اور جِلانے والا ہے۔ سب کو چھوڑ کر اسی کو پوجو، سب کو چھوڑ کر اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو۔ یہ چوری، یہ لُوٹ مار، یہ شراب خوری، یہ جوا، یہ بدکاریاں جو تم کرتے ہو، سب گناہ ہیں، انھیں چھوڑ دو۔ خدا انھیں پسند نہیں کرتا۔ سچ بولو، انصاف کرو، نہ کسی کی جان لو، نہ کسی کا مال چھینو، جو کچھ لو، حق کے ساتھ لو، جو کچھ دو، حق کے ساتھ دو۔ تم سب انسان ہو، انسان اور انسان سب برابر ہیں۔ بزرگی اور شرافت انسان کی نسل اور نسب میں نہیں، رنگ و روپ اور مال دولت میں نہیں، خداپرستی، نیکی اور پاکیزگی میں ہے۔ جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اور نیک و پاک ہے، وہی اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور جو ایسا نہیں وہ کچھ بھی نہیں۔ مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس عادل حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی، نہ رشوت چلے گی، نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا، وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہوگی، جس کے پاس یہ سامان ہوگا، وہ جنت میں جائے گا اور جس کے پاس ان میں سے کچھ نہ ہوگا، وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
اللہ کے سب نبیوںؑ نے اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کو دین کی یہی تعلیم دی۔ دین کے جو اختلافات انبیا علیہم السلام کو ماننے والوں میں آپ پا رہے ہیں، یہ درحقیقت ان انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کی پیروی و اتباع کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سے انحراف و غفلت اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی اور طلب دنیا کی دوڑ میں مجنونانہ مسابقت کی پیداوار ہیں۔ اس بات کی صحت کا اندازہ اس امر سے بآسانی کیا جاسکتا ہے کہ مختلف زمانوں اور اقوام میں آنے والے انبیا علیہم السلام کے نام لیوا تو رہے ایک طرف، خود اس وقت موجودہ امت مسلمہ کا حال دیکھ لیجیے کہ خدا کی شریعت (قرآن و سنت)، جن کے وہ ہر معاملے میں آخری سند ہونے پر متفق اور ایمان رکھتے ہیں، اور وہ دونوں ان کے درمیان اپنی اصل صورت میں موجود اور مکمل طور پر محفوظ ہیں، مگر اس کے باوجود مسلمان محض تاویل و تعبیر کے اختلافات کو طول دے کر مختلف فرقوں میں اس طرح بٹ گئے ہیں گویا کہ وہ مختلف مذاہب ہی نہیں، مختلف ادیان کے پیرو ہیں۔
پھر یہ بات بھی ساری دنیا کے مسلم و کافر تمام انسانوں کے سامنے بطور حقیقت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی مختلف انواع و اجناس (خواہ وہ جان دار ہوں یا بے جان) کے لیے جو قوانین (Laws of Nature)مقرر فرمائے ہیں وہ ہر نوع اور ہر جنس کے تمام افراد و اجزا کے لیے بھی اور ان کے اجتماعی وجود و بقا اور نشوونما کے لیے بھی ایک ہی ہیں۔ زمان و مکان کے اختلاف کی بنا پر کسی نوع یا جنس کے افراد و اجزا کے درمیان ان کے متعلق قوانین قدرت میں یا ان کے ان پر اطلاق میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یعنی ہر نوع اور ہر جنس کے لیے جو ’دین‘ اور ضابطۂ حیات اللہ تعالیٰ نے اول روز تجویز اور مقرر فرما دیا وہی تاابد اس کا دین ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انسان گورے ہوں یا کالے اور گندمی ہوں یا زرد اور شرقی ہوں یا غربی، سب ایک ہی نوع سے تعلق رکھتے ہوں، ایک ہی فطرت کے مالک ہیں، تو ان کے لیے ان کے خالق کی طرف سے زمان و مکان کے فرق کی بنا پر مختلف دین کیسے آسکتے تھے؟ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا علیہم السلام کا ایک ہی دین لے کر آنا عقل کا تقاضا اور نقل سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت ہم انسانوں پر واضح کرنے کے لیے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید میں فرمایا کہ: تمھیں کوئی نیا دین دے کرنہیں بھیجا گیا بلکہ یہ وہی دین ہے جسے پہلے انبیا علیہم السلام لے کر آتے رہے ہیں:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ (الشوریٰ۴۲: ۱۳) اس (اللہ) نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ابراہیم ؑ اور موسٰی اورعیسٰیؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۰ۭ (ال عمرٰن۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جن کو کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔
آسمانی مذاہب کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی اصل وجہ کو مذکورہ بالا آیت میں صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔
یہ امر بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آسمانی کتب میں سے صرف قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کے نمایندگان فی الارض (انبیا و رسل علیہم السلام) میں سے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کی سیرت و رہنمائی اس وقت دنیا میں بلا کم و کاست محفوظ ہے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جہاں گذشتہ انبیا علیہم السلام کے اسوہ اور ان کی تعلیمات کا اس وقت صحیح صحیح موجود ہونا تو درکنار، ان کے دو چار سو سال بعد بھی ان کے ٹھیک ٹھیک دنیا میں موجود ہونے کا ثبوت نہیں ملتا، وہاں گذشتہ تیرہ چودہ سو سال کے نشیب و فراز اور’مسلمان قوم‘ کی ساری نالایقیوں اور گراوٹوں کے باوجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت آئی ہوئی پوری کی پوری تعلیمات آج بھی اسی طرح موجود و محفوظ ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چھوڑا تھا اور یہ کوئی اتفاق زمانہ کی بات نہیں، قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسولؐ ، قرآن اللہ کی آخری کتاب اور یہ دونوں آیندہ ہمیشہ کے لیے ہدایت کا واحد ذریعہ ہیں اور اس نور ہدایت کو متلاشیانِ حق کے لیے قیامت تک محفوظ رکھنے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا ہے۔ فرمایا:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo (الحجر۱۵:۹) اس ذکر (قرآن کریم) کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں۔
اس بات کا ثبوت کہ یہ بات برحق ہے، کہیں باہر سے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، کتاب و سنت کا ایک ایک شوشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ’طالبان حق‘ کے لیے اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ دوسرے تمام سرچشمہ ہاے ہدایت (جنھیں لوگوں نے اپنی تحریف و تصرف سے گدلا کر دیا ہے) کو چھوڑ کر صرف قرآن کریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف رجوع کریں، اور انھی سے رہنمائی حاصل کریں۔ ان اختلافات مذہب کو دور کرنے کے لیے ہی تو اللہ تعالیٰ نے سابقہ تعلیمات کو جو مختلف اقوام اور مختلف ممالک میں ابتدا سے وقتاً فوقتاً نازل کی جاتی رہی تھیں، یک جا کرکے قرآن کریم اور خاتم النبیین ؐ کی سیرتِ مقدسہ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا، اور بتا دیا کہ اللہ کی طرف سے آنے والے سب ہادیوں کی یہی تعلیم تھی۔ وہ سب اللہ کے سچے پیغامبر اور برگزیدہ بندے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سب کو سچا تسلیم کرنا اور ان پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازمی شرط ہے، اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار انسان کو دائرۂ حق پرستی (دین اسلام) سے خارج کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:
قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓى اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَالنَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ۰۠ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۰ۡوَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۸۴ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۸۵(اٰل عمرٰن۳:۸۴-۸۵) اے محمدؐ ، کہو، ہم اللہ کو مانتے ہیں، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ ، اسحاق ؑ، یعقوب ؑ اور اولاد یعقوب علیہ السلام پر نازل ہوئی تھیں اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی اور عیسٰیؑاور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مسلم) ہیں۔ اس فرماںبرداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
پس ہم لوگ جو قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کے عمل کو اب واحد سرچشمۂ ہدایت کے طور پر پیش کرتے ہیں تو اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم خدانخواستہ خدا کی طرف سے بھیجے جانے والے پہلے رسولوں کے خلاف کسی تعصب یا ضد میں مبتلا ہیں۔ ایسی کسی بات کا ادنیٰ ارتکاب بھی خود اسلام کی رو سے کفر میں مبتلا ہونا ہے۔ ہم یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ مذکورہ چشمۂ ہدایت کے سوا کسی اور نبی اور رسول کی تعلیم اپنی اصل اور بے آمیز صورت میں کہیں موجود نہیں ہے۔ خدا کے دین اور اس کے تعلیم کردہ ضابطۂ حیات کو معلوم کرنے کی اب ایک ہی ممکن صورت ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید اور سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے۔ جو لوگ اپنے گرد و پیش کائنات میں پھیلے ہوئے کھلے ہوئے حقائق سے آنکھیں بند کرکے قیاس، فلسفوں اور تقلید آبا کی راہ پر چل رہے ہیں، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ خدا کے رسول تو انسانوں کو بہت سے خداؤں سے چھڑا کر ایک خدا کی بندگی اور حق پرستی، عدل و انصاف، سچائی، امانت و دیانت، پاکیزہ عائلی زندگی اور امن و سلامتی کی راہ دکھانے اور ان کی تعلیم دینے آتے ہیں۔ وہ بتائیں کہ کیا ایک خالقِ کائنات کے بجائے بہت سے رب، خالص حق پرستی کے بجائے یہ تعصبات و تنگ نظری، سچائی کے بجائے مکر و فریب، عدل و انصاف کے بجائے ظلم و ستم، امانت و دیانت کے بجائے خیانت و بے ایمانی، نکاح و پاکیزگیِ اخلاق کے بجائے روز افزوں جنسی آوارگی، امن اور سلامتی اور صلۂ رحمی کے بجائے مردم آزاری اور برادر کشی، مختصراً یہ کہ کیا خدا اور اس کے رسولوں کی تعلیمات اور آخرت کی جواب دہی سے بے نیاز زندگی کو کسی طرح سے بھی مذہبی تو درکنار شریفانہ زندگی بھی قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو کم سے کم ’دین حق‘ اور اس کے لانے والے کی سیرت سے واقف ہونے کی تو تکلیف فرمائیے۔
کسی بات یا طریقے کو قبول یا رد کرنے کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس طرزِ عمل کو آپ کیسے صحیح کہہ سکتے ہیں کہ آدمی دوسرے سے ضد کی بنا پر اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال دے اور بھلائی کو صرف اس لیے جاننے کی بھی کوشش نہ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی (جس سے اسے کسی بناپر نفرت ہوگئی ہے) اسے اختیار کیے ہوئے ہے؟ کیا آپ اس تعصب کی وجہ سے جو آپ کو اپنے ملک کی ’مسلم قوم‘ سے مادی مفادات کے لیے مدتوں کی کش مکش کے نتیجے ہی سے پیدا ہوگیا ہے، ان سب سچائیوں اور بھلائیوں کو چھوڑ دیں گے جنھیں ان مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے یا جن کی نسبت انھوں نے اپنی طرف کر رکھی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کو تو کوئی دانشمند آدمی عاقلانہ رویہ نہیں کہہ سکتا۔ نیکی اور بھلائی اور فلاح کی راہ تو انسان کو دوست دشمن جہاں سے ملے، حاصل کرلینی چاہیے اور پھر جب مسلمانوں سے تعصب کی بنا پر آپ نے وہ پانی پینا نہیں چھوڑا جو مسلمان پیتے ہیں، وہ رزق کھانا نہیں چھوڑا جو مسلمان کھاتے ہیں۔ زراعت، حفظان صحت، سائنس اور دوسرے قوانین طبعی اور وہ کاروبار کے اصول نہیں چھوڑے جو مسلمان بھی استعمال کرتے ہیں، تو آخر انسانی فلاح کے لیے ان اصولوں کی جن کا نام عربی زبان میں ’اسلام‘ یعنی اللہ کی اطاعت و بندگی کی راہ ہے، صرف اس بنا پر کیوں چھوڑ رہے ہیں کہ مسلمان بھی اسے اپنا دین کہتے ہیں اور وہ بھی اسے اختیار کیے ہوئے ہیں؟
’اسلام‘ کسی کی آبائی جایداد نہیں، یہ تو اسی کا ہے جو اس پر چلے۔ پاکستان یا ہندستان کے لوگ اس پر چلیں تو ان کا ہے، عرب والے اس پر چلیں تو ان کا ہے، اور یورپ کے لوگ اسے اختیار کرلیں تو ان کا ہے۔ عبداللہ، رام داس، یا کرتارسنگھ کسی سے بھی ملک، قوم یا خاندان کی بنا پر اسے کوئی تعلق یا نفرت نہیں۔ اسے تو بس ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اس کی راہ پر چلنے والے ہوں خواہ ان کا کوئی ملک، قوم، رنگ یا خاندان ہو۔ حد یہ ہے کہ کسی بت گر کافر کا بیٹا اسے اختیار کرلے تو خلیل اللہ اور خدا کا دوست بن جائے گا اور نبی کا بیٹا اس پر چلنا چھوڑ دے تو وہ کفار و مشرکین میں شمار ہوگا، اور طوفان نوح میں غرق ہونے والوں کے ساتھ ڈبو دیا جائے گا۔
اور پھر یہ دانش مندی تو نہیں ہے کہ انسانی فلاح کا ایک مکمل نظام جو خود خالق کل نے اپنے آخری رسولؐ کے ذریعے دیا، چودہ سو برس سے اپنی اصل صورت میں سرتاپا محفوظ ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ اس پر عملاً قائم ہونے والا نظام زندگی امن و سلامتی اور عدل و انصاف میں بس آپ ہی اپنی مثال تھا۔ اس نظام کا مطالعہ اور اس پر غور تک کرنے سے آدمی اس وجہ سے اجتناب کرے کہ اسے ایک ایسی قوم نے اپنی طرف منسوب کر رکھا ہے جس سے اس کی قوم کی سیاسی اور معاشی کش مکش ہے۔ حالانکہ اگر اس ملک کے مسلمانوں نے اس نظام زندگی کو فی الحقیقت اپنایا ہوتا اور اپنا طریقِ زندگی بنایا ہوتا تو یہاں کی پوری آبادی حق و صداقت اور فلاح انسانیت کی اس راہ پر متحد ہو کر شیر و شکر ہوگئی ہوتی۔ جن مسلمانوں سے ناراضی کی بنا پر ہمارے غیر مسلم بھائی اسلام سے تعصب برت رہے ہیں، ان کا بحیثیت مجموعی اسلام سے اس سے زائد کیا واسطہ ہے کہ اپنے جلسوں جلوسوں میں ’نعرہ تکبیر… اللہ اکبر… اور’اسلام زندہ باد‘ کے نعرے لگا لیتے ہیں اور جمعہ اور عیدین کے موقعوں پر کچھ لوگ رکوع و سجود کر لیتے ہیں، باقی معاملاتِ زندگی، ان کے کاروبار، لین دین، تجارتیں، سیاست، معیشت، قانون، حکومت اور دوسرے قومی اور اجتماعی امور اور طور طریقے سب اسلام سے آزاد و بے نیاز اور اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جو دوسری اقوام کی ہے۔ اس لیے مسلمانوں سے ضد میں اس خدا کے مقرر کردہ نظام سے تعصب برتنا، جو صرف مسلمانوں کا خدا نہیں ہے بلکہ رب الناس، ملک الناس اور الٰہ الناس ہے، کسی اور کا نہیں، اپنا ہی سب کچھ بگاڑنا ہے۔
پھر جب آپ پانی تک اسی خداوند عالم کا پیتے ہیں، رزق اس کا کھاتے ہیں، سانس اس کی ہوا میں لیتے ہیں، اپنے کھیت، کارخانے اور ورکشاپ میں اسی کے قوانین قدرت (Laws of Nature)کے مطابق عمل کرتے ہیں، صحت و تندرستی، دیکھنے، سننے، سونگھنے، چھونے، گرمی و سردی سے استفادہ کرنے اور اپنے دل و دماغ اور اپنے گرد و پیش پھیلے ہوئے وسائل اور قوتوں کے سلسلے میں خدا ہی کے قوانین اور ضوابط قدرت پر چلتے ہیں اور یہ امر واقعہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ طبعی و تکوینی دائرۂ زندگی میں انسانی کامیابی و ترقی کا سارا انحصار خالق کائنات کے مقرر کردہ قوانین قدرت کو جاننے اور ٹھیک ٹھیک ان کے مطابق کام کرنے پر ہے، تو یہ بات سمجھنے میں کیا اور کیوں دشواری پیش آرہی ہے کہ انسانی زندگی کے اخلاقی، معاشرتی، اقتصادی و سیاسی، یعنی اختیاری و تشریعی دائرے میں بھی انسانی فلاح و عافیت اور حقیقی و پایدار ترقی و کامیابی کی راہِ خدا کے مقرر کردہ قوانین قدرت (شریعت الٰہی) پر چلنے پر ہی منحصر ہے؟ لہٰذا طبعی و تکوینی زندگی کی طرح اپنے اختیاری دائرۂ زندگی میں بھی سرکشی اور دوسروں کی غلامی اور نقالی چھوڑ کر اس کے مقرر کردہ قوانین حیات پر چل کر ذرا دیکھ تو لو۔
خدا کے لیے ان بے اصل تعصبات اور عصبیتوں کو بالاے طاق رکھ کر کھلے دل سے خدا کی آخری کتاب اور اس کے آخری رسولؐ کی تعلیمات کا مطالعہ کیجیے۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور زندگی گھڑی کی چابی کی طرح سے ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ کیا عجب ہے کہ اللہ کے دین کا پرچم از سر نو بلند کرنے کاکام اب اسی ملک کے بسنے والوں سے لیا جائے اورپوری انسانیت جو اس وقت انسان نما درندوں کے ہاتھوں جان بلب ہو رہی ہے، اس تک اب انھی کے ہاتھوں یہ آب حیات پہنچایا جانا مقدر ہو چکا ہو۔ دعوت حق کا اس منزہ شکل میں اس دیار سے اٹھنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پونے چودہ سو برس پہلے یہ مژدہ سنانا کہ مشرق سے مجھے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے، کیا عجب کہ اس کے رنگ لانے کا وقت آگیا ہو اور یہ سعادت اللہ اسی دور کے لوگوں کو عطا فرما دے۔
انسانی تاریخ کے اس نازک ترین مرحلے پر اب مسلمانوں کو بھی متنبہ ہو جانا چاہیے کہ یا تو وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر اور شاہراہ اسلام پر سیدھی طرح قائم ہوکر اس کی طرف دنیا کی رہنمائی کریں اور انبیا علیہم السلام کے صحیح جانشین بن کر اپنے سپرد خدائی مشن کو سرانجام دینے کے لیے تیار ہو جائیں، یا پھر اپنے اعمال و اخلاق سے اسلام کے لیے بدنامی کا موجب نہ بنیں کہ دنیا ان کے اخلاق اور طرزِ عمل کو اسلامی اخلاق اور اسلامی طرز عمل کا نمونہ سمجھ کر اسلام سے بدظن ہو رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کے دین کی اس غلط نمایندگی پر غضب الٰہی بھڑک اٹھے:
اللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي (وَ قُلُوْبِ قَوْمِنَا) عَلٰی دِیْنِکَ، اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ اے دلوں کے بدلنے والے! میرے (اور میری قوم کے) دل کو اپنے دین پر جما دے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۸ (اٰل عمرن۳:۸) اے پروردگار! ہمیں راہ ہدایت دکھانے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ ہونے دے، ہمیں اپنی رحمت سے نواز، تو ہی فیاضِ حقیقی ہے۔