مال و اسباب سے محرومی کو ابتلا و آزمایش سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اہل ایمان جب اللہ کے باغیوں کو دنیا میں پھلتا پھولتا دیکھتے ہیں تو انھیں اس پر تعجب ہوتا ہے کہ آخر ان کو کیوں نوازا گیا ہے ؟ علامہ اقبال اپنی شہرۂ آفاق نظم ’شکوہ‘ میں ربِ کائنات سے کبھی تو اس طرح گلہ کرتے ہیں کہ ’ ’رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر ‘‘ اور کبھی برملا سوال کرتے ہیں ’’کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب؟‘‘
یہ نہایت فطری استفسار ہے مگر قرآن حکیم میں اس کا نہایت دل چسپ اور ہمہ پہلو جواب دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ان کا مال ومنال اور اُن کی اولاد آپ کو حیرت میں نہ ڈالے ، یہ تو محض اِس لیے ہےکہ اللہ اس دُنیا کی زندگی میں اُنھیں عذاب میں مبتلا کرے ‘‘(توبہ۹: ۵۵)۔ مال و متاع سے متعلق چونکہ حشر میں حساب کتاب ہوگا، تو اس لیے آخرت میں عذاب و ثواب فطری ہے، لیکن حیات دنیا میں اس کا باعثِ عذاب بن جانا بہ آسانی سمجھ میں نہیں آتا ۔ تاہم، کورونا کی وبا نے اس حقیقت کاپردہ فاش کردیا ہے۔
فی الحال اس عذاب کا سب سے زیادہ شکار دنیا کے مال دار ترین ممالک ہیں ۔ مذکورہ آیت بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اس مصیبت کا شکار وہ بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں جن کو ساری دنیا کے لوگ حیرت و رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔یہ معروف ہستیاں جب کسی تقریب میں رونق افروز ہوتیں، تو عوام کی وہی کیفیت ہوتی جو قارون کو اس کے لاؤ لشکر کے ساتھ دیکھ کر بنی اسرائیل کے بڑے طبقے کی ہوئی تھی۔ قرآن حکیم میں اس کی منظرکشی ملاحظہ فرمائیں: ’’ پھر وہ اپنی قوم کے سامنے (پوری) زینت و آرایش (کی حالت) میں نکلا۔ (اس کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر) وہ لوگ بول اٹھے جو دنیوی زندگی کے خواہش مند تھے: کاش! ہمارے لیے (بھی) ایسا (مال و متاع) ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے، بے شک وہ بڑے نصیب والا ہے‘‘(القصص۲۸: ۷۹)۔
آسمان نے ابھی حال میں یہ منظر دیکھا کہ بظاہر خوش بخت نظر آنے والے یہ اہل ثروت دیکھتے دیکھتے کائناتِ ہستی میں عذاب کا شکار ہوگئے اور کوئی طاقت ان کے کام نہیں آسکی ۔ ریزرو بنک یا فیڈرل خزانے کی مداخلت بھی اسٹاک ایکسچینج کی ریت کی دیوار کو تھام نہ سکی۔ یہ تباہی ان مفلس لوگوں کے لیے آزمایش نہیں بنی کہ جن کے پاس پس انداز کرنے کے لیے کچھ نہیں تھایا جن کو آرزومندی انھیں بازارِ حصص کی دہلیز تک لے کر نہیں گئی تھی۔ ایسے سارے لوگ اس کربِ عظیم سے محفوظ و مامون رہے۔ لیکن جن کو خوب نوازا گیا تھا، وہ مبتلاے عذاب ہوگئے ۔
ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھن دولت سے نوازنے کے بعد ربِّ کائنات اپنے بندوں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کرتا ہے ؟ اس سوال کا جواب سورۂ اعراف کی مندرجہ ذیل آیات میں دیکھیں:’’اور اگر (ان) بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر اُنھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اُس بری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے ‘‘(الاعراف ۷:۹۶)، یعنی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ان لوگوں نےایمان و تقویٰ کی روش اختیار کرنے کے بجائے کفر و بداعمالی کا راستہ اپنایا ۔ ہر دو جگہ (محرومی و سرفرازی میں ) پہلی شرط کا تعلق عقیدے سے اور دوسری کا عمل سے ہے۔ یہ آیت اجتماعی سطح پر برکتوں کے حق دار بننے اور ان سے محرومی کا شکار ہو نے کی وجہ بتاتی ہے ۔
اب اگلا سوال یہ ہے کہ ان نامراد لوگوں نے خدائی نعمتوں سے نوازے جانے کے بعد شکر واحسان مندی سے کیوں اعراض برتا؟ استفہامیہ اسلوب بیان میں اس سوال کا انتہائی مؤثر جواب بالکل اگلی ہی آیات کے اندر موجود ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آ جائے گی، جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟‘‘(الاعراف۷:۹۷-۹۸)۔ کورونا وائرس کی آمد سےقبل غفلت کا شکار عالمِ انسانیت بالکل اسی کیفیت میں مبتلا تھا ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک امریکا میں تادمِ تحریر[۲۸مئی ] کورونا سے متاثرین کی تعداد تقریباً ۱۸لاکھ ہے اور ایک لاکھ ۵ سو۹۰ لوگ اس سے ہلاک ہوچکے ہیں،جب کہ دُنیا بھر میں ۲۹لاکھ افراد متاثر اور ۳ لاکھ ۷۰ہزار افراد موت کی وادی میں اُتر چکے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک پر یہ مصیبت اچانک وارد ہوگئی ؟ جائزہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی غفلت کی قیمت چکا رہے ہیں ۔
امریکی صدر فی الحال چین پر الزامات لگا رہے ہیں، مگر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ۳۱دسمبر۲۰۱۹ء کوچین نے اقوام متحدہ میں عالمی صحت کے ادارے کو خبردار کردیا تھا کہ: وُوہان شہر میں ۱۲ سے ۲۹ دسمبرکے درمیان ایک نئے وائرس کا پتا چلا ہے۔ اس کے بعد ہوانن کا مچھلی بازار بندکردیا گیا۔۵ جنوری کو چین نے انکشاف کیا کہ یہ وائرس سارس یا میرس سے مختلف ہے اور ۷جنوری کو اسے نوول کورونا وائرس کا نام دیا گیا ۔ ۱۱ جنوری کو چین میں اس سے پہلی موت ہوئی اور ۱۲ جنوری کو یہ وائرس ایک چینی باشندے کے ذریعے تھائی لینڈ پہنچ گیا ۔ یہ ساری خبریں اخبارات میں شائع ہورہی تھیں۔ دنیا کے چپے چپے پر نظر رکھنے والا امریکا یقیناً اس سے بے خبر نہ ہوگا۔
امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں کورونا کی آمد کا اشارہ ۲۱ جنوری کو مل گیا تھا۔ ۲۲جنوری کو اس کے انسانوں کے ذریعے پھیلنے کی تصدیق ہوگئی اور اسی دن وُوہان سے باہر جانے والوں کے لیے ہوائی اڈا اور ریل کی سہولت بند کردی گئی۔ اس وقت تک چین میں ۵۴۷ لوگ متاثر اور ۱۷ہلاک ہوچکے تھے۔ ۲۳ جنوری کو عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اس پر تشویش کا اظہار تو کیا، مگر اسے عالمی وبا تسلیم نہیں کیا۔ ۲۹جنوری کو وائٹ ہاؤس نے ٹاسک فورس بنا کر وائرس کے پھیلاؤ کی نگرانی کا اعلان کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی حکام اس سے خبردار ہوچکے تھے ۔
اتفاق سے ارضِ چین پرکورونا سے ہلاک ہونے والا پہلاغیر ملکی امریکی نژاد باشندہ تھا۔ ان تمام واقعات کے باوجود امریکی صدر کو یہ غلط فہمی تھی کورونا صرف چین سے دیگر ممالک کو بر آمد ہوتا ہے۔ اس لیے وہ بڑے ٹھاٹ باٹ کے ساتھ ہندستان کے دورے پر آگئے اور کورونا کی عالمی وبا کے دوران احمد آباد میں ہزاروں کے مجمع سے خطاب کیا۔ ہندستان سے پلٹ کر جب ۲۶ فروری کی صبح وہ امریکا پہنچے تو انھیں پتا چلا ہوگاکہ کیلی فورنیا میں ایک ایسا شخص کورونا سے ہلاک ہوگیا ہے، جس نے نہ تو غیر ملکی سفر کیا تھا اور نہ کسی مسافر کے رابطے میں آیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کے اندر بیرونی ذرائع کے بغیر بیماری کا پھیلاؤ شروع ہوچکا تھا، جسے کمیونٹی ٹرانسفر( یعنی معاشرتی پھیلاؤ) کہا جاتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے کہ جس کے بعد اس طرح کی وبا پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔
امریکی حکومت نے بحالتِ مجبوری اس وبا سے نمٹنے کے لیے سرکاری نگرانِ کار مقرر کیا ۔ ۲۹ فروری کو واشنگٹن کا وہ پہلا مریض بھی لقمۂ اجل بن گیا۔ اس کے باوجود وبا کے حوالے سے امریکی حکام کے علاوہ عوام بھی سنجیدہ نہیں تھے ۔یکم مارچ کو فلوریڈا میں عوامی حفظان صحت کی ایمرجنسی نافذ کرکے۵۰ سے زیادہ لوگوں کے اکٹھا ہونے پر پابندی لگادی گئی، مگر اس کے۱۸ دن بعد اسی شہر کے ہزاروں لوگ بہار کا جشن منانے کی خاطر ساحلِ سمندر پر جمع ہوگئے۔اسی دن لوئزانا میں ایسٹ بیٹن چرچ کے اندر سیکڑوں لوگ عبادت کے لیے جمع ہوگئے۔
کسی آفت کے بارے میں جانتے بوجھتے اس طرح کی لاپروائی برتنے والی قوموں کے انجام سے متعلق فرمان ربّانی ہے :’’کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘(الاعراف ۷:۹۹)۔ ان کے خسارے کا سبب نفس کی بندگی، مستقبل سے لاپروائی، رب کائنات کے تئیں بے فکری اور اس کی ہدایات سے بے نیازی بنی ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس سنت کا اعادہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے ۔ انسانی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، لیکن لوگ ان سے عبرت نہیں پکڑتے۔ انسان اگر پہلے والوں کے انجام سے سبق سیکھ کر اپنے عقائد و معاملات درست کرلے تو اس طرح کی اجتماعی تباہی سے محفوظ و مامون رہ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اگلی آیت میں یہی ہے ، فرمایا: ’’ اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے ‘‘(الاعراف ۷:۱۰۰)۔
جب انسانوں کے دل پر مہر لگ جائے تو وہ اپنے آپ کو قوت سماعت سے محروم کرلیتے ہیں، اور عمدہ نصیحت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تاریخ انسانی میں اس کی ایک مثال قارون ہے۔ سورۃ القصص میں دیکھیں: ’’ یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون، موسٰی کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی‘‘(القصص ۲۸:۷۶)۔ اس سرکشی کے باوجود بنی اسرائیل کے اہل دانش نے اس کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی: ’’ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا:’’پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا‘‘(القصص ۲۸:۷۶-۷۷)۔
قارون نے مندرجہ بالا نصیحت کےجواب میں کہا تھا: ’’یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘ (القصص ۲۸:۷۸)۔ قارون کے رعونت آمیز ردعمل پر قرآن حکیم کا تبصرہ یہ ہے کہ: ’’کیا اس کو علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے، جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے‘‘ (القصص ۲۸:۷۸)۔ اس قصے میں قارون کے اُخروی انجام کا نہیں بلکہ دُنیوی تباہی کا ذکر ہے۔
کورونا وائرس نے اس منظر کو ایک نئے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار اپنے حصص سمیت زمین میں دھنس چکے ہیں ۔ ان پر مال و منال کا خسارہ عذاب کا کوڑا بن کر برس رہا ہے ۔ اس کی چونکا دینے والی ایک مثال گذشتہ دنوں دبئی میں سامنے آئی، جہاں جوائے اراکل نامی کیرالہ کے ایک نام وَر سرمایہ دار نے ۱۴ویں منزل سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی ۔ وہ مالی معاملات کے باعث ذہنی تناؤ کا شکار تھا۔ معمولی منشی کے عہدے سے اپنا کیرئیر شروع کرکے دولت اور شہرت کی بلندی پر پہنچنے والا یہ فرد جدید ترین ریفائنری کا مالک تھا۔ کورونا کے سبب جوائے کے دو لاکھ ہم وطنوں کو امارات میں اپنا روزگار گنوانا پڑا، لیکن شاید ہی کسی نے جوائے اراکل جیسے امیر کبیر شخص کی مانند خودکشی کے بارے میں سوچا ہو۔ کیا یہ عذابِ عام کی وہ مخصوص شکل نہیں ہے کہ جس کی شدت ان خاص لوگوں تک محدود ہے کہ جن کا ذکر اول الذکر آیت میں کیا گیا ہے:’’ان کا مال ومنال اور اُن کی اولاد آپ کو حیرت میں نہ ڈالے ، یہ تو محض اِس لیے ہےکہ اللہ اس دُنیا کی زندگی میں اُنھیں عذاب میں مبتلا کرے ‘‘ (التوبہ ۹:۵۵)۔