عوام کی توجہ جہاں ’کورونا تباہی‘ پر مرکوز ہے، وہاں ایک ہی وقت میں جموں و کشمیر کے عوام کو دوبار لاک ڈاؤن، بڑھتے ہوئے تشدد اور یک طرفہ طور پر دہلی حکومت کے پےدرپے اقدامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ نریندر مودی حکومت کی دوسری مدت کے پہلے ۱۲مہینوں کی کشمیر پالیسی میں ایسے اقدامات شامل ہیں، جو وادیِ کشمیر میں تباہ کن سمجھے جاتے ہیں، جموں اور لداخ میں مخلوط ردعمل کا اظہار سامنے آرہا ہے،جب کہ باقی بھارت میں قدرے اطمینان کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔
مودی حکومت کی ان کارروائیوں میں تازہ ترین شاخسانہ نئے ڈومیسائل قواعد ہیں ، جنھیں ۱۸مئی ۲۰۲۰ء کو مشتہر کیا گیا ہے۔ دہلی وزارتِ داخلہ کے ۳۱مارچ کے حکم کے مطابق، یہ ضابطے جموں و کشمیر ریاست کے اس بنیادی قانون کو تبدیل کردیتے ہیں، جسے ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۵ -اے کے تحت تسلیم کیا گیا تھا۔ جس میں ریاست کے مستقل باشندوں کو سرکای ملازمتوں کے ریزرویشن کے ساتھ ساتھ مفت تعلیم اور زمین کی ملکیت کے مکمل حقوق کا حق حاصل چلا آرہاتھا۔
ڈومیسائل کے یہ نئے قواعد کسی ایسے شخص کو جو: ریاست میں۱۵سال تک کام کرتا رہا ہے یا رہایش پذیر ہے، یا سات سال تک وہاں تعلیم حاصل کی ہے، وہ کشمیر کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرسکے گا اور کشمیر کے مستقل رہایشیوں کے لیے محفوظ کردہ تمام فوائد کا مستحق ہوگا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ ترمیم ان سرکاری عہدے داروں کو بھی ڈومیسائل کا مستحق ٹھیراتی ہے، جنھوں نے اپنے غیررہایشی بچوں کے ساتھ، ریاست میں ۱۰ سال تک مختلف سطحوں پر نوکری کی۔ اس رعایت کا فائدہ اُٹھانے والے اہل کاروں کی اقسام کی فہرست کے مطابق: ہندستانی انتظامی خدمات کے ممبر، قانون ساز اداروں میں کام کرنے والے) ، عوامی شعبے کی اکائیوں اور بنکوں ، مرکزی یونی ورسٹیوں اور 'مرکزی حکومت کے تسلیم شدہ تحقیقی اداروں وغیرہ میں خدمات انجام دینے والے شامل ہیں۔
صرف سرکاری عہدے داروں اور ان کے بچوں کی حمایت کرتے ہوئے مراعات دینے کا مطلب ایک واضح تعصب ہے۔ یاد رہے ۲۰۰۰کے عشرے کے اوائل میں سول سروس کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد ، بھارت کی بہت سی ریاستوں اور حکومتوں نے ان مراعات کو ختم کرنا شروع کیا، تاکہ بڑے شہروں پر ملک کے مختلف حصوں سے آبادی کا دباؤ ختم کیا جائے۔ مگر یہ تعصب کی انتہا ہے کہ دوسرے حصوں میں تو بھارت کی دیگر ریاستوں کے لوگوں کو روکا جارہا ہے، مگر جموں وکشمیر پر اسے نافذ کیا جارہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا موقف ہے کہ ’’نئے ڈومیسائل قواعد ضروری تھے کیونکہ بہت سے پس ماندہ گروہوں کو ریاست میں بہتر معاشی مستقبل دینا ضروری ہوگیا ہے، جیسے مغربی پاکستان سے آنے والے مہاجرین وغیرہ‘‘۔ مگر یہ دلیل فی الحقیقت بے بنیاد ہے۔ مودی حکومت یا دہلی کی حکومتوں کو ان گروپوں میں شامل لوگوں کی مدد اور مستقل رہایشی زمرے میں توسیع سے کسی نے کبھی نہیںروکا تھا۔ پہلے اس سوال نے چند لاکھ لوگوں کا مسئلہ کھڑا کیا تھا، مگر مودی سرکار نے ایک کروڑ ۲۰ لاکھ لوگوں کو رجسٹریشن اور ریکارڈ کی دلدل میں کیوں دھکیل دیا ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا۔
بی جے پی پارٹی کے ترجمان کہتے ہیں:’’ہمارے فیصلوں پر ہنگامہ آرائی کیوں ہے؟ جب کہ پارٹی منشور میں ہم نے اپنا ارادہ بیان کیا تھا اور ہندستان کے صدر اور پارلیمنٹ نے اسی کی پیروی کی ہے‘‘۔ یہاں پر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگست ۲۰۱۹ء کے صدارتی احکامات اور تنظیم نو ایکٹ بشمول ان تمام اقدامات کے، سپریم کورٹ میں آئینی سطح پر چیلنج کردیے گئے ہیں۔ ایک جمہوری حکومت جو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ عدالتی فیصلے تک زیرسماعت چیزوں پر عمل درآمد کو منجمد کرنے کی پابند ہے، لیکن مودی حکومت بے جھجک حیرت انگیز تیزی کے ساتھ قدم آگے بڑھاتی جارہی ہے۔
اگست کے اعلانات کے چند مہینوں کے اندر ، جموں و کشمیر کے اثاثوں کو دو نئے مرکزی خطوں میں تقسیم کرنے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے علیحدہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ریاستی پولیس کو مرکزی وزارت داخلہ نے براہِ راست اپنی حکمرانی میں لے لیا۔ صنعتی فروغ کے لیے کشمیر میں اراضی کے حصول کا کھلا حق دے دیا گیا، بھارتی سیاحتی کمپنیوں کو ترقی پذیر مقامی صنعت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے مدعو کیا گیا ، اور کان کنی کے حقوق غیر کشمیری ٹھیکے داروں کو فروخت کردیے گئے۔ اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن سمیت ریاست کے سابقہ تمام قانونی اداروں کو تحلیل کردیا گیا۔ اقتدار لیفٹیننٹ گورنر اور اس کے مشیروں کے ہاتھوں میں مرکوز کردیا گیا۔ اس طرح حکمرانی کے اس نئے نظام میں متحرک اور مقتدر لوگوں میں ایک کے علاوہ تمام افراد کا تعلق ریاست سے باہر ہے۔
جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی تحلیل چلی آرہی ہے۔ یہاں کے بہت سارے سیاسی رہنما نظربند ہیں، انھیں بولنے سے روک دیا گیا ہے اور میڈیا کو ان موضوعات پر بات کرنے پر دھمکایا جاتا ہے۔ اس تمام تر جبر کے باوجود ، جموں و کشمیر میں واحد بی جے پی کے علاوہ ، تمام سیاسی جماعتوں کے نئے ڈومیسائل قواعد کے خلاف احتجاج کو بڑی بے دردی سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھاؤ نے نئے ڈومیسائل قواعد کو ’ایک معاہدہ‘ قرار دیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ مودی انتظامیہ ان پر نظرثانی نہیں کرے گی (انڈین ایکسپریس، ۲۱مئی ۲۰۲۰ء)۔
جموں وکشمیر کے بیش تر افراد نے دستوری کی دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے کو ریاست کی داخلی خودمختاری کے تابوت پر آخری کیل قرار دیا ہے، اور درست کہا ہے۔ یاد رہے ۳۵-اے کے نتیجے میں تحفظات کی ضمانت کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ اس کی ضمانت مہاراجا ہری سنگھ کے دستخط کے تحت دی گئی تھی۔ گذشتہ ۷۰برسوں کے دوران یکے بعد دیگرے حکومتوں نے سابقہ ریاست کے اختیارات رفتہ رفتہ ختم کردیے ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی آرٹیکل ۳۵-اے یا ریاست کے تابع قانون سازی پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا، اور آہستہ آہستہ یہ چیز کشمیریوں کی شناخت سے جڑ گئی تھی۔ پھر اہم تر بات یہ ہے کہ تعلیم اور روزگار کے ذریعے کشمیریوں کو بااختیار بنائے جانے کو تحفظ حاصل تھا۔ اور جب ۱۹۹۰ کے عشرے میں مسلح شورش میں اضافہ ہوا تو ، بہت سے کشمیری سیاسی رہنماؤں نے مسلم اکثریتی وادی اور جموں کے متعدد اضلاع کی آبادی کو تبدیل کرنے کے ہندستانی ارادے کو بھانپ لیا تھا۔
۲۰۱۹ءتک ، یہ خدشات کشمیریوں کی تنہائی کے احساس کو تیز کرنے کے عمل میں ڈھل گئے۔ پھر اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات نے ماضی کی تمام مثبت کوششوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا، جموں و کشمیر کے آئین کو زیر و زَبر کردیا اور آرٹیکل ۳۵- اے کو ختم کرکے رکھ دیا۔ جس کے بعد ڈومیسائل قواعد کو جبری طور پر مسلط کیا جارہا ہے۔
اس آخری اقدام کے ساتھ ہی جموں و کشمیر میں عدم استحکام بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ مسلح مقابلوں میں اضافہ ہورہا ہے اور سیکیورٹی کی صورتِ حال انتہائی نازک ہے۔ اس خراب صورت حال کو پیدا کرنے کا پاکستان پر الزام لگانا ایک فضول سی بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وادیِ کشمیر کے پیدا شدہ عدم استحکام ہی کا پاکستان کو فائدہ ہوتا ہے اور چین کو بھی ۔ مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کے نتیجے میں ، ہندستان کو اپنے مغربی محاذ پر ، اور جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق سے مسلسل انکار کرکے ، خود بھارت کی سلامتی کے لیے خطرات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کیا بھارت واقعی صرف ’ہندوتوا‘ نظریاتی جذبے کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ (روزنامہ The Hindu، ۲۶مئی ۲۰۲۰ء، ترجمہ: ادارہ)