اخوان کے مرشد عام اوّل امام حسن البنا شہید [۱۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء- ۱۲فرورری ۱۹۴۹ء] اور مرشدعام دوم حسن الہضیبی [دسمبر ۱۸۹۱ء-۱۱نومبر ۱۹۷۳ء] دونوں بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ استاذ الہضیبی نے نہایت کٹھن حالات میں ہماری رہنمائی کی اور اخوان کی قیادت کا حق ادا کیا۔ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے، امانت کا حق ادا کرنے، قربانی پیش کرنے، وفا، صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنے اور مشکلات کو اجر کی اُمید پر ہمت سے برداشت کرنے کا بہترین نمونہ مرشدعام حسن الہضیبی مرحوم کی زندگی میں ہم نے بارہا دیکھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے برگزیدہ بندوں میں شامل کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں مومن کی حُرمت کو بڑے مؤثر انداز میں یوں بیان فرمایا کہ بندئہ مومن کی حُرمت اللہ کے نزدیک کعبہ شریف اور مسجدحرام سے بڑھ کر ہے___ اخوان، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر پابندی سے کاربند ہیں۔ اخوان کے نزدیک کسی مسلمان مردو زن کی حُرمت کو بے حُرمت کرنا یا اسے کوئی ایذا پہنچانا بہت بڑا جرم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہرقسم کے تشدد کا مظاہرہ کرنے سے محفوظ رکھا ہے، کیوںکہ ہم حقیقی طور پر سلف صالحین کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں اور سلف صالحین نے کسی مسلمان کا خون مباح نہیں ٹھیرایا، اگرچہ اس نے چوری کی ہو یا شراب پی ہو۔ اخوان کا دین اسلام کے معاملے میں نقطۂ نظر بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ اسلام دین بھی ہے اور حکومت بھی۔ ہمارے اس نقطۂ نظر نے دشمنانِ دین کو ہمارے خلاف بے چین اور مشتعل کررکھا ہے۔ وہ ہم پر ایسے ایسے الزامات لگاتے ہیں، جو کسی شریف انسان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتے۔پھر اس سے بڑھ کر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے اختیار میں دنیا کے سب سے زیادہ طاقت ور ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے وسائل ہیں۔ یہ سب وسائل، بے پناہ مالی و انتظامی اختیار کے ساتھ ہمارے خلاف مسلسل استعمال ہوتے رہتے ہیں۔
اخوان کی قیادت:مرشد عام حسن الہضیبی کی قیادت کے دوران جماعت اخوان قانونی طورپر کالعدم تھی۔ اخوان قانون کی پابندی بھی کرتے ہیں اور اپنے بنیادی عقیدے پر کاربند بھی رہتے ہیں۔ اس موقعے پر اخوان نے مل کر نئے مرشدعام کے بارے میں غوروخوض کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ: ’’مکتب ارشاد کے ارکان میں سے جو رکن عمر میں سب سے بڑا ہو، اسے مرشدعام بنالیا جائے‘‘۔
اتفاق سے اس وقت مکتب ارشاد کے جملہ ارکان میں سے مَیں عمر میں بڑا تھا۔ پس، یہ ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ اگرچہ حکومت ہمارا وجود قانوناً تسلیم نہیں کرتی مگرعملاً حکومت بھی ہمارے وجود سے انکار نہیں کرسکتی۔ اہل حل و عقد مجھے اخوان المسلمون کا رہنما تسلیم کرتے ہوئے، اور اسی حیثیت میں مجھ سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں اور مختلف موضوعات پر مذاکرات کے دوران بھی ہم نے انھیں کبھی موقع نہیں دیا کہ وہ ہم پر ہاتھ ڈالنے کا قانونی جواز نکال سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی انھیں کوئی بہانہ مل جائے تو وہ ہمیں مقدمات میں پھنسا لیں۔
کس کا اعتبار کیجیے:اس صورتِ حال کو ہم نے بھی قبول کیا ہوا ہے اور بہت سارے مواقع پر میں نے قوم اور وطن کی خاطر حکومت سے کئی معاملات میں تعاون کیا ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قانونی پابندی کے باوجود مخلص اور یکسو انسانی نفوس کی وابستگی سے اخوان کی تنظیم موجود ہے۔ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے وزارتِ داخلہ کے ذمہ داران کو جب بھی مجھ سے کوئی رابطہ قائم کرنا مقصود ہو تو مَیں ملاقات سے کبھی انکار نہیں کرتا۔ پھر کبھی یہ اصرار بھی نہیں کرتا کہ وہ میرے پاس آئیں۔ میں نے ان سے کہہ رکھا ہے کہ جہاں قوم و وطن کی بھلائی کا معاملہ ہوگا، مجھے بس ٹیلی فون پر اطلاع دے دیں، مَیں وزارت کے دفتر میں پہنچ جاؤں گا۔ ہاں، کبھی کبھار میری صحت کی کمزوری کی وجہ سے، یا کسی خاص موقعے کی مناسبت سے بعض افسران میرے ہاں بھی آجاتے ہیں ۔ ان کی اس آمد کا مَیں ہمیشہ شکرگزار ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر یہ بڑا احسان ہے کہ مَیں کبھی ہنگامہ آرائی کے مقام پرنہیں گیا، اِلا یہ کہ میں نے کسی سے وعدہ کر رکھا ہو اور اسے ایفا کرنے کے لیے جانا ضروری ہو۔ میری کوشش ہمیشہ امن و امان قائم رکھنے پر صرف ہوتی ہے اور وزارتِ داخلہ کے موجودہ اہل کار اس پرشکرگزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وزیرداخلہ حسن ابوپاشا نے خصوصی طور پر تصریحات فرمائیں کہ اخوان المسلمون کا دہشت اور تخریب کاری سے کوئی تعلق نہیں، نیز یہ کہ دہشت پسند تنظیمیں اخوان المسلمون کی سرپرستی میں کبھی نہیں پنپ سکتیں۔ وزیرداخلہ داخلی امن و امان کے حوالے سے جواب دہ ہوتا ہے، اس کی زبان سے یہ اعتراف سچائی کا مظہر ہے، حالانکہ اخوان کے دشمنوں کے ہاتھوں ان کی تصویر ذرائع ابلاغ سے بڑے بھیانک انداز میں پیش کی جاتی رہی ہے۔ اب اہلِ وطن وزیرداخلہ کا اعتبار کریں یا ذرائع ابلاغ کا؟
جوش پر ہوش کا غلبہ: میں نے عہد کررکھا تھا کہ جب بھی الدعوہ کا اداریہ لکھوں گا تو کسی شخص پر ذاتی حملہ ہرگز نہ کروں گا اور اپنی تحریروں میں معروضیت کا اہتمام کروں گا۔ اشتعال انگیز حوادث کے موقعے پر لوگوں سے درخواست کیا کرتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ ستمبر ۱۹۸۱ء میں جب مختلف جماعتوں کے کارکنان کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا گیا تو وہاں ہماری آپس میں ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک جماعت کے رکن نے مجھ سے کہا: ’’آپ نے تو نوجوانوں کے اعصاب منجمد کردیے ہیں اور ان کے جوش و جذبے کو ریفریجرٹر میں ڈال کر برف بنادیا ہے‘‘۔
میں نہیں جانتا کہ ان الفاظ سے موصوف میری تعریف کر رہے تھے یا مذمت۔ بہرحال ان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد صرف اتنا کہا: ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنےرفقا کے ہاں میری باتوں میں کچھ تاثیر ہے‘‘۔ اس سب کچھ کے باوجود اس دور میں بھی صحافیوں اور ادیبوں کے حملوں سے مَیں محفوظ نہ رہا۔ وہی دہشت گردی کے الزامات۔ اگرچہ اس دور میں یہ حملے ذرا نرم اور وقفے وقفے سے جاری بھی رہے تھے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ صدر انورالسادات کی زیادتیوں کے باوجود یہ بیان کر دیا جائے کہ سادات نے اخوان کو کسی حد تک آزادی کی فضا مہیا کی۔ ہمارا مجلہ الدعوہ بھی اس دور میں نئے سرے سے شائع ہونے لگا تھا اوردینی مناسبت سے ہم ملک بھر میں بعض اجتماعات منعقد کرنے کے قابل بھی ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم کرے اور سادات پر بھی رحم کرے۔
فضیلۃ الاستاذ حسن الہضیبی کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد بعض اسلامی تنظیمیں، اخوان پر شدید حملے کرتی تھیں، بلکہ یوں معلوم ہوتا ہےکہ ان کا مقصد صرف اخوان ہی سے لڑنا ہے۔ وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ’’اخوان نے جہاد کو ترک کردیا اورصرف مصحف لے کر بیٹھ گئے ہیں‘‘۔ جب ایک مرتبہ بعض اخوان نے میرے سامنے ان سنگ دلانہ حملوں کی شکایت کی تو میں نے نہایت سکون سے جواب دیا: ’’اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ان بھائیوں نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے صرف قرآن کو اختیار کرلیا ہے۔ اچھی بات ہے، قرآن کے اندر دین بھی ہے اور دولت بھی، امن بھی ہے اور جہاد بھی۔ انھوں نے تو ممکن ہے ، تہمت لگانے کے لیے یہ کہا ہے ،لیکن اگر وہ اپنے الفاظ کے معنی جانتے ہیں تو یہ ہمارے لیے ایک سرٹیفکیٹ ہے۔ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ ہم نے قرآن کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے اور الحمدللہ، فضیلت یہی ہوتی ہے کہ ناقدین نے تسلیم کرلیاہے کہ ہم نے قرآن کو پکڑ رکھا ہے‘‘۔
آپ کی دل چسپی کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ ہمارے یہ پُرجوش بھائی جو ہم پر ’کفر‘ کے فتوے عائد کرتے، بے سروپا الزام لگاتے اور جہاد سے منہ موڑنے کی تہمت باندھتے ہیں، ان خیرخواہوں کے مقدمات بھی اخوانی وکلا ہی نے عدالتوں میں لڑے اور بلامعاوضہ یہ خدمت انجام دی۔ ہمیں کسی سے نہ صلے کی اُمید ہے نہ داد کی تمنا۔ ہم ان شاء اللہ اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔
ہمارا ایک واضح نصب العین ہے، جس کی جانب ہم رواں دواںرہتے ہیں ۔ راستے میں اگر کوئی کانٹا ہمارے دامن سے اُلجھ جائے یا کوئی چٹان راستہ روک لے تو ہم رُک نہیں جاتے۔ ہم کوئی نہ کوئی راستہ نکال کراپنی منزل کی جانب مسلسل چلتے رہتے ہیں۔ جن جماعتوں کا اُوپر ذکر کیا ہے ان کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ جماعتیں اس مقصد کے لیے قائم کی گئی تھیں کہ اخوان پر محاذ اور انداز بدل بدل کر حملے کیے جائیں۔
وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہِ :غیرمسلموں کے ذریعے اور غیراسلامی طریقوں سے اخوان پر حملے کرانے کے بعد اب یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا تھا کہ اسلامی ناموں سے اخوان کی مخالفت کی جائے۔ مسلمانوں پر مسلمان حملے کر رہے تھے اور دشمن خوش تھا کہ دونوں میں سے جو بھی مار کھاجائے، اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ بجاے جوابی حملہ کرنے کے، ہم نے خاموشی اختیار کرلی، اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کرہم پر حملہ کرنے والی یہ جماعتیں خود ہی زوال کا شکار ہوگئیں۔