مولانا زاہد الراشدی | جون ۲۰۲۰ | تقابل ادیان
یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے کہ امریکا کے سفر کے دوران میرا قیام کچھ عرصہ نیویارک میں رہا۔ وہاں مکی مسجد، بروک لین میں چند روز تک ’اسلام میں عقیدۂ ختم نبوت‘ پر درس دینےکی سعادت حاصل ہوئی۔ اسی دوران وہاں دوستوں نے ایک یہودی صحافی سے ملاقات کرائی، جو مسئلۂ ختم نبوت اور قادیانیت کا قضیہ سمجھنا چاہتا تھا۔ یہاں اسی گفتگو کے ایک حصے کا خلاصہ پیش ہے:
اس صحافی نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا کہ: ’احمدی‘ قرآن کو بھی مانتے ہیں اور حضرت محمد ؐ کو بھی مانتے ہیں۔ مسلمان وہ ہے، جو قرآن اور حضرت محمد ؐ کو مانے۔ پھر وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟‘
میں نے کہا: ’میرے بھائی، مذہبی طور پر آپ کون ہیں؟‘
اس نے جواب دیا: ’یہودی‘۔
اس سے پوچھا: ’وجہ یہ ہے کہ آپ موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں، تورات کومانتے ہیں، اور ذرا یہ بتائیے کہ عیسائی، موسٰی کو مانتے ہیں یا نہیں مانتے؟‘
اس نے کہا: ’ہاں، مسیحی،موسٰی اور تورات کو بھی مانتے ہیں‘۔
میں نے کہا: ’عیسائی، موسیٰ علیہ السلام اورتورات کو ماننے کے بعد کیا یہودی ہیں؟ اگر وہ یہودی ہونے کا دعویٰ کریں گے تو کیا آپ مانیں گے؟‘
یہودی صحافی کہنے لگا:’ہم نہیں مان سکتے، کیونکہ وہ تورات اور موسٰی کو ماننے کے بعد ایک نئے نبی اورکتاب کو بھی مانتے ہیں۔ بے شک وہ مانتے پھریں تورات اور موسیٰ علیہ السلام کو، لیکن چونکہ وہ انجیل اور عیسیٰؑ کو بھی مانتے ہیں اس لیے وہ یہودی نہیں ہیں‘۔
میں نے کہا: ’مَیں مسلمان ہوں اور الحمدللہ ، تورات اور موسٰی کو بھی مانتا ہوں، عیسیٰؑ اور انجیل کو بھی مانتا ہوں۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ میں یہودی ہوں تو کیا آپ اس دعوے کو تسلیم کریں گے؟‘
صحافی نے کہا: ’ہرگز نہیں، کیونکہ تم موسیٰؑ اور تورات کے بعد، محمد ؐ کو رسول اور قرآن کو مانتے ہو‘۔
میں نے اُن سے کہا: ’بھائی، میرا بھی یہی مسئلہ ہے۔ عیسائی، موسیٰ علیہ السلام اور تورات کو ماننے کے باوجود یہودی نہیں کہلا سکتے، اس لیے کہ وہ انھیں نبی تو مانتے ہیں، مگر بعد ازاں نئی الہامی کتاب انجیل کو بھی مانتے ہیں۔ مسلمان، موسیٰ علیہ السلام اور تورات ، عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل کو ماننے کے باوجود نہ یہودی کہلا سکتے ہیں اور نہ عیسائی، کیوں کہ ان کے بعد وہ حضرت محمد ؐ کو مانتے ہیں اور قرآن کومانتے ہیں‘۔ ٹھیک ہے مانتے ہوں گے قادیانی قرآن کو، حضرت محمد ؐ کو بھی، میں سردست اس بحث میں نہیں پڑتا ،لیکن جس اصول کی بنیاد پر ہماری گفتگو ہورہی ہے، اسے آپ ذہن میں رکھیںکہ وہ حضرت محمدؐ اور قرآن کے بعد، مرزا غلام احمد کو نبی اور اس پر وحی و الہام مان کر مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰ ؑ او ر انجیل کو ماننے والے یہودیوں سے الگ مذہب رکھتے ہیں، حضرت محمد ؐاور قرآن کو ماننے والے یہودیوں اور عیسائیوں سے الگ مذہب کے مالک ہیں، تو اسی اصول پر مرزا غلام احمد کو’نبی‘قرار دینے والے بھی یقینی طور پر الگ مذہب کے حامل ہیں‘۔
مہمان صحافی نے کہا: ’ٹھیک ہے یہ بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔ اچھا اب یہ بتائیں کہ آپ ان کے حقوق کیوں نہیں مانتے؟‘
میں نے کہا: ’کون سے حقوق؟ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ: ’ہمارا ٹائٹل اور پہچان کا حوالہ اسلام ہی رہے گا‘۔ اب آپ بتائیں کہ ایک فرم یا کمپنی ایک سو سال سے ایک ٹریڈ مارک اور ایک ہی نام پر کام کر رہی ہے۔ ظاہر ہے اس کی ایک ساکھ، تاریخ اور ٹریڈ مارک ہے۔ اس میں سے ایک دو آدمی الگ ہو کر ایک نئی کمپنی بنا لیتے ہیں۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا اس نئی کمپنی کو پرانی کمپنی کا نام، اس کا مونو گرام اور اس کے ٹریڈ مارک کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہوگا؟‘
صحافی نے جواب میں کہا: ’نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ نئے نام سے کمپنی بنائے، کمپنی چلائے اور نیا مونوگرام بنائے‘۔
میں نے ان سے عرض کیا: ’جب دنیا کے کسی قانون اور رواج میں اس کی گنجایش نہیں ہے، تویہاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا فراڈ روا رکھنے پر کیوں زور دیا جا رہا ہے؟‘
یہ بات سن کر وہ خاموش ہوگیا تو میں نے کہا: ’بات یہ نہیں ہے کہ ہم ان کے حقوق نہیں مانتے، بلکہ آپ سے میرا ایک سوال ہے: میں پاکستان میں رہتا ہوں۔ پاکستان میں عیسائی رہتے ہیں۔ یہودی رہتے ہیں۔ سکھ اور ہندو رہتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے وقتاً فوقتاً عیسائیوں پر چڑھائی کی ہے کہ وہ جلسہ کیوں کر رہے ہیں، یا وہ کیوں اپنے اشاعتی ادارے چلا رہے ہیں؟ سال میں دو ایک بار تو اتنے زیادہ سکھ آجاتے ہیں کہ ہر طرف انھی کی پگڑیاں نظر آتی ہیں، مگر کیا کبھی کسی عالم دین نے ان کے آنے اور مذہبی معاملات ادا کرنے پر کوئی سوال یا اعتراض اٹھایا؟ اسی طرح عیسائیوں اور ان کے گرجا گھروں پر سوال کیوں نہیں اٹھتا؟ یہودیوں سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ ہندوؤں کی دیوالی، ہولی اور پوجا پاٹھ پر کیوں کوئی اعتراض نہیں ہوتا؟ آخر قادیانیوں پر ہی کیوں اعتراض ہوتاہے؟‘‘
مہمان نے کہا: ’واقعی یہ دل چسپ سوال ہے، آپ خود ہی بتائیے اس کاکیا سبب ہے؟‘
ان سے عرض کیا: ’بات دراصل یہ ہے کہ ہندو اپنے آپ کو ہندو کہہ کر بات کرتے ہیں، اور اپنے حقوق کے دائرے میں رہتے ہیں اور سکھ اپنے حقوق کے دائرے میں رہتے اور ہم پر کوئی دعویٰ نہیں جماتے۔ مسئلہ وہاں پر شروع ہوتا ہے، جہاں قادیانی اپنا الگ وجود رکھنے کے باوجود اسے الگ تسلیم نہیں کرتے اور ہمارے حقوق اپنے نام الاٹ کرانا چاہتے ہیں۔ آپ بتائیں یہ کیسے ممکن ہے؟صحیح یا غلط کی بات الگ ہے، مگر تفریق کا اصول یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرح یہاں بھی ویسے ہی لاگو ہوگا کہ مرزاے قادیان کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے والے الگ مذہب رکھتے ہیں، اور اس کا انکار کرنے والوں کا مذہب الگ ہے‘۔
میں نے سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا: ’اس لیے زیادتی ہم نہیں کر رہے ہیں، زیادتی تو خود قادیانی کر رہے ہیں۔ اور اس زیادتی پر بین الاقوامی راے عامہ کی لابیاں یا مخصوص این جی اوز قادیانیوں کی تائیدو حمایت کر کے ہمارے جذبات اور ہمارے عقائد، ہمارے مفادات اور ہمارے اسٹیٹس کو مجروح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح قادیانی مذہب کے حاملین کے بین الاقوامی سیاسی عزائم کی ایک تاریخ ہے، جسے یہاں پر زیر بحث نہیں لارہا۔ پیغمبروںؑ سے لے کر صحابہ کرامؓ تک کے بارے میں ان کے گرو (Guru) مرزا غلام احمد کی، معیارِ اخلاق اور عقل سے گری گفتگو کو دہراتے ہوئے طبیعت کراہت محسوس کرتی ہے۔ پھر ان کی طرف سے دین اسلام میں تحریف تو ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ ان سب زیادتیوں کے باوجود یہ نام مسلمانوں جیسے رکھیں، اپنے مراکز کو ’مساجد‘ قرار دیں، اپنی پروپیگنڈا مہمات کو ’تبلیغ اسلام‘ قرار دیں اور سادہ لوح افراد کو مغالطہ انگیزی کا شکار کریں، تو کوئی انصاف پسند انسان ایسی تحریف اور جعل سازی کو بھلا کیسے قبول کرسکتا ہے؟ اسی لیے ستمبر۱۹۷۴ء میں پاکستان کی پا رلیمنٹ نے انھیں مسلمانوں سے الگ مذہب کا پیروکار قرار دیا تھا، جو مبنی بر حقیقت فیصلہ ہے۔ اب وہ دنیا کے تسلیم شدہ اصولوں اور پاکستان کے آئین و قانون کی خلاف ورزی کرکے خود اشتعال انگیزی کرتے ہیں۔ اگر وہ بھلے سُبھاؤں اپنے مذہب پر ہی چلیں، اپنی ہی نئی اصطلاحات، منفرد شناخت اور الگ نام برتیں، اور پاکستان کے قانون کو تسلیم کریں تو کسی کو کیا اعتراض ہوگا؟‘