اُمت مسلمہ کے اجتماعی شعور نے ظہورِ اسلام سے آج تک دو صداقتوں کو دل و جاں سے زیادہ عزیز رکھا ہے۔ اوّلاً: زمین پر توحید الٰہی کی علامت بیت اللہ کی مرکزیت اور قبلہ ہونا، اپنی سمت عبودیت، سمت معیشت ، سمت ثقافت اور اندرونی وبیرونی تعلقات کوبراہِ راست بیت اللہ کے مالک کی رضا کا پابند رکھتے ہوئے زندگی کے ہرمعاملے میں توحید خالص کو اختیار کرنا ہے۔ ثانیاً: اپنی زندگی کی تہذیب ، اسے سنوارنے اور بنانے کے لیے عملی نمونہ اور مثال کے لیے صرف اور صرف اللہ کے آخری رسولؐ اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور فیصلوں کو قیامت تک کے لیے حتمی اور سند سمجھنا ہے۔
یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ اجتماعی شعور کی موجودگی میں حادثاتِ زمانہ کی بناپر وقتی طور پر اُمت مسلمہ نے کسی بیرونی، فکری یا سیاسی تسلط کی بناپر یونانی فکر اور لادینی تصورات کواختیار کرلیا ہو اور ان بیرونی یا اندرونی گمراہ کن تصورات کی وجہ سے قومیت، لادینیت اور محض معاشی ترقی اس کا قومی ہدف بن جائے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی وہ ترکی ہو یا تیونس یا مصر، اُمت مسلمہ کا اجتماعی شعور وقتی انحراف سے نکلنے اوردوبارہ اپنا قبلہ درست کرنے سے غافل نہیں رہا۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کا ایک نمایاں پہلو اس کا عربوں کی قبائلی عصبیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق اور مالی وسائل کی بنیاد پر قیادت حاصل کرنے کے تصور کاابطال اور لا الٰہ الا اللہ کے مطالبات کو عملاً نافذ کرنا تھا ۔گویا مدینہ کی ریاست کا قیام عرب و عجم اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کی ’عوامی جمہوریہ‘ کے تصورکا متبادل ایک انقلابی فکر کا نفاذ تھا کہ ریاست کی بنیاد نسلی اور قبائلی اتحاد کی جگہ نظریہ ، عقیدہ اور اقدارِ حیات کو ہونا چاہیے۔چنانچہ ریاست مدینہ کا مقصد اقامت دین اور ایک ایسی امت کا قیام تھا جو رنگ ونسل اور زبان اور زمین کی کشش سے آزاد ہو اورصرف انسانوں اور کائنات کے خالق و مالک کی بندگی پر کاربند ہو۔ مدینہ کی اسلامی ریاست عربوں میں مروجہ قبائلی نظام اور پڑوس کے ممالک میں رائج بادشاہت (ایران و روم) سے بالکل مختلف ایک نئے تصور اورنئے سیاسی نظام کی نمایندہ تھی ۔اس ریاست کا مقصد کسی فرد کی موروثی ریاست کا قیام نہ تھا، نہ کسی خاص مذہبی گروہ کی اجارہ داری قائم کرنا تھا، بلکہ اللہ کی زمین پر اس کے دین کی اقامت تھا۔ قرآن کریم نے اقامت دین کے تصور کو ہماری آسانی کے لیے خود واضح کر دیا ہےکہ یہ دین میں مکمل داخل ہونے کا نام ہے۔یہ صرف مراسم عبودیت ، نماز، روزہ، کا نام نہیں ہے کہ مسجد اور گھر میں نماز ، روزہ ہو رہا ہو، جب کہ حاکمیت سرمایہ دارانہ ملوکیت زدہ ، اخلاق باختہ نظام کی ہو۔ اللہ کی بندگی محض مسجد میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہو۔ ثقافت ہو یا فنون لطیفہ ، معیشت ہو یا معاشرت، غرض ان تمام شعبوں میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو بلا شرکت غیر اپنا رب مانتے ہوئے اس کے نازل کردہ احکامات کا نفاذ ہو۔ جس طرح اسلام مکمل نظام حیات ہے ایسے ہی اسلامی ریاست بھی دین کی مکمل اقامت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نافذ کرنے کا نام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم Nation State یا قومی ریاست کا تصور جسے یورپ نے کلیسا کے پاپائیت کے نظام سے نجات کے لیے اپنایا ۔ اسلام میں اس تصور کا کوئی مقام نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اسلامی تصورِ ریاست میں کسی مسلم پاپائیت کی بھی کوئی گنجا یش نہیں۔ چنانچہ کوئی خاص فرقہ اقتدار پر قابض ہو کر دوسروں کو اپنا محکوم نہیں بنا سکتا ۔ گویا تھیا کریسی (Theocracy )یا مذہبی پاپائیت اسلام کی ضد ہے اور اسلامی ریاست کسی مسلکی فرقے کی حاکمیت کی جگہ صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کا ذریعہ ہے ۔
۱-حاکمیت الٰہی: قرآن کریم نے ریاست کی اولین ذمہ داری اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے کو قرار دیا ہے ۔ چنانچہ سورۂ یوسف میں واضح الفاظ میں ان تمام تصورات کو جن میں بادشاہ کو یا حاکم کو قانون سازی کے اختیارات دیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تابع کردیا ۔اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (یوسف۱۲:۴۰) ’’حکومت سواے اللہ کے کسی کی نہیں ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے ‘‘۔گویا حاکمیت اعلیٰ نہ پارلیمنٹ کی ہے ، نہ عوام کی ، نہ کسی صدر ، وزیر اعظم یا بادشاہ کی، بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فرمان کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ قانون کو جائز یا ناجائز قرار دے۔ پارلیمان صرف اس وقت تک قانون سازی کر سکتی ہے ، جب تک اس کا ہر قانون قرآن و سنت سے مطابقت رکھتا ہو۔
۲- مشاورت : ریاست ِمدینہ میں معاملات کے فیصلے شوریٰ کی بنیاد پر کیے جاتے تھے ۔قرآن کریم نے شوریٰ کے انعقاد اور شوریٰ کے نتیجے میں عزم الامور یا اجتماعی راے پر عمل کرنے کو فریضہ قرار دے کر انفرادی راے کو اجتماعی راے کا تابع کر دیا ۔شوریٰ کے دوران اختلاف کرنا اور اپنے موقف کو دلائل سے پیش کرنا ہر صاحب راے کا حق ہے لیکن شرکا ے مشورہ کے یکسو ہو جانے کے بعد کسی فرد کو چاہے وہ صاحب ِامر ہی کیوں نہ ہو اپنی راےاراکین شوریٰ پر مسلط کرنے کا حق نہیں ہے ۔اسے اپنی راے کو قربان کر کے اکثریت کی راے کی پیروی کرنی ہوگی۔ قرآن میں خود حضور اکرمؐ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ۱۵۹ (ال عمرٰن۳:۱۵۹)’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کے تمام معاملات کو انجام دینے کے لیے اس ابدی اصول کو حکم ہی نہیں، ملّت اسلامیہ کے عمل اور نمونے کے طورپر ان الفاظ میں بیان فرمایا: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ ،یعنی ان کے تمام معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں (الشوریٰ۴۲: ۳۸)۔
۳-شریعت کی بالا دستی :ریاست کا بنیادی فریضہ قرآن و سنت کے احکامات کا نفاذ اور ان احکامات کی روشنی میں جدید قانون سازی ہے ۔پارلیمان صرف وہ قانون سازی کر سکتی ہے جو شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو۔وہ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی اور نہ کسی ایسے قانون کو نافذ کر سکتی ہے ۔
۴- نظام صلٰوۃ و نظامِ زکوٰۃ: ریاست نظامِ صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کو قائم کرنے اور اس کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔
۵-امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ: ریاست معاشرے کی اخلاقی، معاشرتی ، ثقافتی ، تعلیمی ضروریات کے پیش نظر ہر شعبۂ حیات میں معروف اخلاقی اقدار کو نافذ کرنے اور ہربُرائی کو وہ کسی بھی درجے کی کیوں نہ ہو روکنے کی ذمہ دار ہے۔
۶- فلاح و بہبود اور بنیادی حقوق کی فراہمی:ریاست اپنی حدود میں رعایا کی فلاح کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔وہ ان کی تعلیم، صحت ،غذا، تحفظ ، عزت و ناموس کی حفاظت جیسے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے گی۔ وہ ایک رفاہی ریاست ہے ، جس کا بیت المال رعایا کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ہے ۔ وہ کسی فرماں روا کی ملکیت نہیں ہے۔
۷-قانون کی یکسانیت : اسلامی ریاست میں ہر شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔صدر مللکت ہو یا وزیر اعظم یا ایک یتیم بچہ، قانون ان میں کوئی تفریق نہیں کر سکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات ہیں کہ پچھلی اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ وہ اعلیٰ طبقاتِ معاشرہ کے لیے الگ اور عام شہری کے لیے الگ قانون استعمال کرتی تھیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام انسان خواہ مرد ہو یا عورت، یکساں ہیں اور اگر کوئی فرق ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ ہے: يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ(الحجرات ۴۹:۱۳) ’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔
۸- مسؤلیت: اسلامی ریاست میں ہر ذمہ دار اپنی ذمہ داری کے لیے جواب دہ ہے: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔(بخاری، کتاب الا حکام، مسلم، کتاب الایمان )
۹- مناصب کا امانت ہونا :قرآن نے ریاست کو پابند کر دیا ہے کہ ذ مہ داری صرف ان کو دے جو اس کے اہل ہو ں، اور ایسے ہی عوام کو پابند کر دیا ہے کہ وہ صرف ان افراد کو منتخب کریں جو امانت دار اور اہل ہوں ۔ کسی قسم کی گروہی وابستگی کی بنا پر حمایت کی گنجایش نہیں ہے۔
۱۰- نظام احتساب : اسلامی ریاست نظام احتساب، یعنی حسبہ کے قائم کرنے کی ذ مہ دار ہے ۔ جس کا کام پیمانوں کا احتساب ، مال کا خالص ہونا ، قیمتوں کا مناسب ہونا ، راہ داری کا کھلا ہونا، بازاروں میںامن و عدل کا قیام ، صارف کے حقوق کا تحفظ اور ساہوکار پر نگاہ رکھنا اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ وہ اہم کام ہیں جو حسبہ کے تحت دور نبویؐ سے ریاست نے انجام دیا۔
۱۱- نظامِ عدل کا قیام :ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عادلانہ فیصلوں کا اہتمام کرے۔ چنانچہ عدلیہ کا قیام، قاضی کا تقرر اور اس کے فیصلوں کا نفاذ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔
۱۲- مناصب کی طلب پر گرفت : ریاست کی ذمہ د اری ہے کہ وہ کسی ایسے فرد کو منصب پر فائز نہ ہونے دے جو اس منصب کا طلب گار ہو۔امانت اور للہیت کے اصولوں کو قائم کرنا اور منصب طلبی، حصولِ اقتدار کی خواہش کرنے کو ختم کرنے کا نظام قائم کرنا ہے۔
۱۳- آزادی راے اور آزادی اختلاف:مدینہ کی اسلامی ریاست میں ہر شہری کو ریاستی معاملات میں اپنی راے دینے اور خلیفہ کا احتساب کرنے کا حق حاصل تھا ۔ ایک عام خاتون سربراہ ریاست سے پوچھ سکتی تھی کہ وہ کس بنیاد پر یکساں مہر کا نفاذ کرنا چاہتا ہے ؟اس خاتون کا استدال یہ تھا کہ قرآن مہر کی رقم کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ ایک ڈھیر سا مال بھی ہو سکتا ہے اور حضرت عمرؓ سنت رسول ؐکی پیروی کرتے ہوئے وہ مہر جو نبی کریمؐ نے امہات المومنینؓ کے لیے پسند فرمایا، اسی مہر کی رقم کو سب کے لیے مقرر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ایک صحابیہؓ کے سر عام ان کو قرآن سے دلیل دینے پر وہ بغیر کسی حجت اور بحث کے اپنی راے سے دستبردار ہو گئے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کی ان چند خصوصیات کے ساتھ اب ہم ریاست مدینہ کے ایک اور اہم پہلو پر غور کرنا چاہتے ہیں ، جس پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی اور وہ ہے تصورِ امانت ۔
ریاست مدینہ کا سب سے نمایاں پہلو تصورِامانت ہے ۔”ا م ن “سے ماخوذ اس قرآنی اصطلاح کا معنی قابل اعتبار ، اعتماد اور وفادار کے ہیں، اور ہم عام طور پر اس سے روز مرہ کے اقتصادی مالی معاملات مراد لیتے ہیں۔ اگر ایک شخص بددیانتی یا کمی بیشی نہیں کرتا تو ہم اسے امانت دار سمجھتے ہیں ۔قرآن کریم بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے:
فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ ۰ۭ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ۰ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۳) اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسا کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے۔ اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شہادت چھپاتا ہے اُس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔
اسی پہلو کو دیگر مقامات پر وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو جانتے بوجھتے اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو ، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو۔
امانت کے وسیع تر مفہوم کی طرف اشارہ کرتےہوئے قرآن کریم اہل ایمان کی صفات میں سے امانت کو ایک بنیادی صفت قرار دیتا ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۳۲۠ۙ (المومنون۲۳:۸)’’اپنی امانتوں اور عہد وپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ یہی مضمون المعارج (۷۰:۳۲) میں دُہرایا گیا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو امانت کی تشریح خود قرآن کریم سورۃ النساء میں یوں کرتا ہے: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ……اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۵۸ (النساء۴:۵۷-۵۸) ’’مسلمانوں اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو… اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ‘‘۔
دوسرے مقام پر یوں فرمایا گیا: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۵۹ۧ (النساء ۴:۵۹) ’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی ، اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب ِامر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔
یہاں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ امانت اس کے مستحق کے حوالے کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم (امر)ہے ۔اس حکم کی پیروی کے لیے ضروری ہو گاکہ اولاً امانت داری کے معیار کو متعین کر لیا جائے اور پھر اس فرد کو جو اس پیمانے پر پورا اترے، وہ امانت حوالے کی جائے۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے کائنات، زمین اور پہاڑوں کے حوالے سے فرمایا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہدایت کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟ تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا ۔کیوں کہ پہاڑوں اور زمین کو علم تھا کہ ان میں ارادہ و اختیار کی صلاحیت کی کمی ہے اور اس بنا پر وہ ذمہ داری کو ادا نہیں کرسکیں گے (الاحزاب ۳۳:۷۲)۔ پہاڑوں کی معذرت سے یہ اصول واضح ہو گیا کہ اگر ایک شخص کو کوئی امانت سپرد کی جارہی ہو اور اسے معلوم ہو کہ وہ اس کے بارِ امانت کو صحیح طور پر نہیں اٹھا سکے گا، تو اسے وہ امانت قبول نہیں کرنی چاہیے۔اس تناظر میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی اس حدیث کے مفہوم پر غور کیا جائے جس میں فرمایا گیا ہے:’’اس کا ایمان نہیں جوامانت دارنہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جوعہد کا پابند نہیں‘‘ (مسند امام احمد، حدیث:۱۲۳۲۴)۔
سورۃ النساء(۴:۵۶-۵۹)میں دی گئی ہدایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امانت اور عہد میں کتنا قریبی تعلق ہے اور دونوں ایمان کے مظاہر ہیں ۔ایمان کا اظہار ایک جانب دی گئی ذمہ داری کو جیساکہ اس کا حق ہے ادا کرنے سے ہوتا ہے، اور دوسری جانب جس کسی کو ذمہ دار بنایا جائے اگر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو ایمان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ یقینا اس سے بڑھ کر اور کوئی محرومی نہیں ہو سکتی کہ ایک شخص دنیا اور آخرت دونوں کو کھو بیٹھے ۔
فقہاکا اس بات پر اتفاق ہے کہ ووٹ ایک امانت ہے اور ووٹ کا حق دار کو دیا جانا ہی اس امانت کا ادا کرنا ہے۔ دوسری طرف عام مشاہدہ ہے کہ ووٹ دینے اور ووٹ طلب کرنے والا دونوں ہی اس کے دینی اور شرعی تقاضوں سے بہت کم آگاہ ہوتے ہیں ۔
منصب چھوٹا ہو یا بڑا، ایک امانت ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک تعلیمی ادارے کی سربراہی کے لیے ایک ایسےشخص کو منتخب کیا جاتا ہے جس میں انتظامی ، مالی اور تادیبی امور کو سمجھنے اور یکسوئی اور اعتماد سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے، تو نہ صرف منتخب کرنے والے بلکہ وہ فرد خود بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو گاکہ اس نےوہ ذمہ داری کیسے قبول کر لی جس کی صلاحیت اس میں نہیں پائی جاتی تھی ؟
امانت ،عہد اور عدل جن کی طرف مندرجہ بالا سورۂ نساء اور المؤمنون کی آیات نشان دہی کرتی ہیں، اپنی وسعت کے لحاظ سے حالیہ تناظر میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر کسی تنظیم میں داخلے کے لیے یہ شرط ہے کہ ایک شخص حلال و حرام کے فرق کو سمجھتا ہے اور مالی معاملات میں جس حدتک ممکن ہو منکر کا ارتکاب نہیں کرتا، تو اپنی تعداد میں اضافے کی خواہش کے باوجود صرف ان کو تحریک میں شامل کیا جانا چاہیے جو حرام سے مکمل اجتناب ہی نہ کرتے ہوں بلکہ مشتبہ اُمور سے بھی اجتناب کرتے ہوں۔ گویا ان اُمور سے بھی جو حلال و حرام کی سرحد پر ہوں جنھیں ہم عموماً گرے ایریا (Gray Area)کہتے ہیں ، ان کے قریب بھی نہ جاتے ہوں ۔ حدیث نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ گرے ایریا ہی ہمیں حرام کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس لیے نظامِ تربیت سے گزارنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بجائےتعداد بڑھانے کے تطہیرِ فکر کے ساتھ تعمیرِ سیرت پر توجہ دی جائے، تاکہ ایک تربیت یافتہ فرد کا تحریک میں اضافہ دس غیر تربیت یافتہ افراد کے اضافے سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک ہو یا حکومت، ہر ایک کے پاس ایک جامع نظام تربیت ہونا چاہیے، جس سے گزرے بغیر کوئی ایسا فرد ذمہ داری کے مناصب پر فائز نہ ہوسکے جس کی فکر اور سیرت میں کمزوری پائی جاتی اور جو دیانت اور صلاحیت ہردو اعتبار سے معیارِ مطلوب پر پورا نہ اُترتا ہو۔
اسی طرح کسی عہدے کی طلب یا کسی عہدے پر کسی کو لانے کے لیے راے عامہ ہموار کرنا بھی اسلامی ریاست مدینہ کی روایات و ضوابط سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔کسی عہدے کی خواہش کرنا اس سے بھی بڑھ کر ظلم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے :’’اللہ کی قسم! ہم اس کام کی نگرانی پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرسکتے، جو اسے مانگتا ہو اور نہ کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘(صحیح ابن حبان، کتاب البر ، باب الخلافہ والامارہ)۔ یہی وجہ ہے کہ دور خلافت راشدہ میں لوگ ذمہ داری قبول کرنے سے بھاگتے تھے اور کسی عہدے کی طلب نہیں کرتے تھےاور اگر ان پر کوئی ذمہ داری اس کی خواہش اور طلب کے بغیر ڈال دی جاتی، تو اس کے مطالبات کو پوراکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ۔ ان کا مقصد ذمہ داری کے حوالے سے سہولیات اور status کا حصول کبھی نہیں ہوتا تھا ۔اس احساس ذمہ داری اور احتساب و جواب دہی کی بنا پر اقربا پروری کا امکان تھا ، نہ دوست نوازی کا۔ مناصب کی طلب کی بجائے ان سے دُور رہنے کی خواہش ان میں بے لوثی پیدا کرتی تھی اور عہدے کی طلب اور ذاتی نمودونمایش کے جذبات کو قریب نہیں آنے دیتی تھی۔ امانت ، عہد اور عدل، وہ تین بنیادیں ہیں جو احساس ذمہ داری کو مستحکم کرتی ہیں۔ ان میں کمی تنظیم میں انتشار فکری اور گروہ بندی کو ہوا دیتی ہے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے نمونے کے مطابق آج کے دور میں سوسائٹی اور ریاست کے قیام کے لیے فرد کی اصلاح، معاشرے کی اخلاقی تعمیر اور حکومت، ریاست اسلامی کے تمام اداروں اور پالیسیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب فرد ، معاشرہ اور ریاست، ہرسطح پر اسلامی تعمیرنو کو ایک تحریک کی شکل میں انجام دیا جائے۔ اس اخلاقی تعمیر کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ انابت الیٰ اللہ ہے___ اللہ کی طرف پلٹنا، رجوع کرنا ، اس سے تعلق کو مضبوط کرنا اور اس کے سامنے حاضری کی تیاری کرنا!