’کارپس قرآنیکم‘ (Corpus Coranicum) برلن-برانڈنبرگ اکیڈیمی آف سائنسز اینڈ ہیومینی ٹیز (Berlin-Brandenburg Academy of Sciences and Humanities) کا پراجیکٹ ہے، جو پچھلی صدی کی دوسرے عشرے میں شروع ہونے والے پراجیکٹ کا احیا ہے۔
یہ وہی پراجیکٹ ہے جس کے بارے میں جلیل القدر عالم ڈاکٹر محمد حمید اللہ [۹ فروری ۱۹۰۸ء - ۱۷؍دسمبر ۲۰۰۲ء] نے مارچ ۱۹۸۰ء کو اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایاتھا کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ:
قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کایہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں ۱۹۳۳ء میں پیرس یونی ورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر [اوٹو]پریتسل Pretzl [۱۸۹۳ء- ۱۹۴۱ء] پیرس آیا تھا، تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ ۱۹۳۳ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے ۴۲ ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (collation) کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا اور عمارت، اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا۔ لیکن جنگ شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ’’ قرآنِ مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا، وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں، لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی نہیں۔(۱)
یہی بات شاید ڈاکٹر حمید اللہؒ نے پہلے بھی کہیں لکھی یا کہی ہوگی کیونکہ مولانا مودودیؒ نے بھی بالکل اسی طرح کے الفاظ کہے تھے،جن کو راقم نے ان کے ایک درس کے آڈیو ریکارڈ سے سنا تھا۔
معلوم نہیں ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب کس عارضی رپورٹ کا ذکر کر رہے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ پراجیکٹ قرآن کا ایک کریٹیکل ایڈیشن (Critical Edition) شائع کرنے کی غرض سے ۱۹۲۹ء میں مشہور جرمن مستشرق گوتھیلف برگس ٹیسر[Gotthelf Bergstasser : ۱۸۸۶ء- ۱۹۳۳ء] نے شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہؒ نے یہ جو تین نسلوں کا ذکر کیا ہے، وہ اس اعتبار سے صحیح ہے کہ پراجیکٹ کے رسمی اجرا سے پہلے غیر رسمی طور پر بہت کام ہوتا رہا تھا ۔ بہرحال ۱۹۳۳ء میں برگس ٹیسر کی وفات کے بعد ڈاکٹر پریٹزل (Otto Pretzl) نے اس پر پیش رفت کی۔ اس کو مصاحف اور قراءات پر قدیم لٹریچر جمع کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے استنبول کے ایک مقری سے فنِ قراءات بھی سیکھا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر ایک دمشقی مقری اس کی قراءت سن کر حیران رہ گیا تھا۔(۲)ترکی میں رہنے کی وجہ سے اس کے مسلم شیوخ اور علما سے بھی اچھے مراسم قائم ہوگئے تھے۔ وہ ۱۹۴۱ء میں ایک فوجی مہم پر تھا، جب ہوائی جہاز کے فضا میں تباہ ہوجانے کی وجہ سے مارا گیا۔ اس کا جانشین ڈاکٹر اینٹن سپائی ٹالر [Anton Spitaler: ۱۹۱۰ء- ۲۰۰۳ء] تھا، جس کو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں ایک لمبی عمر ملی۔(۳)
۲۴؍اپریل ۱۹۴۴ء کو امریکی نہیں بلکہ برطانوی بمباری کے باعث، بویرین اکیڈمی آف سائنس کی وہ عمارت کہ جہاں اس پراجیکٹ کا دفتر تھا، ملبے کا ڈھیر بن گئی اورمبینہ طور پر وہ نادر ذخیرہ بھی، جو قرآنی نُسَخ کی تصاویر وغیرہ پر مشتمل تھا، سب برباد ہوگیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر سپائی ٹالر تعلیمی دنیا میں مشغول ہوگیا اور پلٹ کر بھی اس پراجیکٹ کا نام نہیں لیا، جس کا وہ ڈائریکٹر رہا تھا۔ عربی زبان پر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی لیکن اس نے علمی دنیا میں مقالات وغیرہ لکھنے سے گریز ہی کیا۔ وہ غیر روایتی نقطہ ہاے نظر کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں مستشرق گونتر لولینگ [ Günter Lüling: ۱۹۲۸ء- ۲۰۱۴ء] کا پی ایچ ڈی کا مقالہ،(۴)جس میں اس نےیہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ’’قرآن عیسائی حمدیہ نشیدوں سے تالیف کیا گیا تھا، اس افسانے کو ڈاکٹر سپائی ٹالر نے نہ صرف رد کردیا تھا، بلکہ یونی ورسٹی سے اس کی نوکری بھی ختم کروا دی تھی۔(۵) کہا جاتا ہے کہ وہ مذہبی کتب کا احترام کرتا تھا ، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ قرآن کے اس پراجیکٹ سے غیر متعلق رہنا چاہتا ہو؟
اپنی وفات سے کچھ سال پہلے اس نے اپنی شاگرد، مشہور جرمن مستشرقہ اور علومِ قرآنی کی تحقیق کار، اور برلن میں فری یونی ورسٹی کی پروفیسر انجلیکا نُووَرتھ [ Angelika Neuwirth : پ:۱۹۴۳ء] کواطلاع دی کہ قدیم نُسَخِ قرآن کی تصاویر ضائع نہیں ہوئی تھیں، بلکہ اس کے پاس محفوظ ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کے رفقا کا ایک محدود حلقہ ان تصاویر کے بارے میں جانتا تھا کہ وہ ضائع نہیں ہوئی تھیں۔ بہرحال، علمی دنیا کو پہلے تو اس ارادی جھوٹ کی اطلاع اور پھر نوادر کی موجودگی کی خوش خبری ۶۰سال بعد ۲۰۰۷ء کے اواخر میں ہی مل سکی، جب پروفیسر نُووَرتھ کی نگرانی میں یہ پراجیکٹ د وبارہ شروع ہوا۔ ’کارپس قرآنیکم‘ کی مدت ۱۸ سال، یعنی ۲۰۲۵ء تک ہے، جس میں توسیع کا خاصا امکان ہے۔پروفیسر نُووَرتھ مسلم روایات کا احترام کرنے والی اسکالر سمجھی جاتی ہیں۔
اب تک اس پراجیکٹ کے تحت جو کام ہوا ہے اس میں ۱۵ قرآنی نسخہ جات کی تحریر کشائی (decipher)، معیاری مصحف سے مقابلہ اور ترجمے کا کام کیا گیا ہے جو آن لائن دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں رام پور [اترپردیش، بھارت]کی رضا لائبریری [رضا کتب خانہ: ۱۷۹۲ء]کا مصحف منسوبہ امیر المو منین علی بن ابو طالبؓ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ قدیم مخطوطات کو پڑھنے کا کام خاصا مشکل ہے، چنانچہ ایک ہی تحریر کو مختلف لوگ مختلف انداز میں پڑھتے ہیں۔ بہت سے مشہور اور قدیم ترین نسخہ جات کو اس فہرست میں شامل کرنے کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے علاوہ قراءاتِ متعددہ پر تقریباً ۳۰ مصادر کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مسلمانوں کو اس پراجیکٹ سے پریشان ہونے کی کچھ ضرورت نہیں۔ پروفیسر نُووَرتھ خود لکھ چکی ہیں: ’’قرآنی نسخہ جات کی نئی دریافتیں اس بات پر سوال اٹھانے کے بجاے الٹا تصدیق کررہی ہیں کہ قرآن ابتدا ہی سے ایک متنِ ثابت (fixed text) تھا اور انھی سورتوں پر مشتمل تھا، جو ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔ وہ اسکالرز کامیاب نہ ہو سکے جو لسانیاتی بنیادوں پر قرآن کو ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے تھے‘‘۔(۶) یہاں پر یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ قرآن کے ’کریٹیکل ایڈیشن‘ سے مراد قرآن کے متن کے ساتھ اس کےا رتقا، —ترمیم و اضافہ، تعدیل و تہذیب —کو تاریخی اور علاقائی پس منظر کے ساتھ منضبط کرنا ہے۔ ظاہر ہے مذکورہ محترم اور فاضل علما نے اس خبر کو جو باعثِ فخروانبساط سمجھا، تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ وہ خود صحت ِ قرآن کی صداقت کا اعتراف کر رہے ہیں۔افسوس کہ ڈاکٹر حمیداللہ کے مذکورہ بیان کا بے وجہ بہت چرچا ہوا۔(۷)
اسی نوعیت کا دوسرا پراجیکٹ قرآنیکا (Coranica ) کے نام سے مشہور ہے ۔یہ ۲۰۱۱ء میں جرمن اور فرانسیسی اداروں (Deutsche Forschungsgemeinschaft and the Agence Nationale de la Recherche) کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اسلامی/ عربی روایات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، قرآنی متن کی تاریخ، دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر جمع و تدوین کرنا تھا۔ اس کاوش کا عنوان ہے: Manuscripta et Testimonia Coranica۔
اسی پراجیکٹ کا دوسرا مقصد جزیرۃ العرب کے مذاہب اور السنہ کی نہ صرف جمع و تدوین بلکہ قرآنی زبان پر ان کے اثرات کا جائزہ بھی ہے۔اس کوشش کو Glossarium Coranicum کا عنوان دیا جاتا ہے۔ قرانیکا پراجیکٹ ۲۰۱۴ء میں ختم ہوگیا۔ اس پراجیکٹ کی کارپس قرآنیکم کے ساتھ بہت زیادہ شراکتِ کار رہی ہے، شاید اسی وجہ سے یا نام میں کچھ مماثلت کی بنا پر اکثر لوگ ان کو آپس میں خلط ملط کردیتے ہیں۔
’ قرآنیکا‘ کے بطن سے ایک اور پراجیکٹ ' ’پیلیو قرآن‘ ' (Paleocoran) کے نام سے برآمد ہوا جو ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۸ء کے دورانیہ پر محیط تھا۔ اس کا مقصد ان مخطوطات پر تحقیق و تجزیہ کرنا تھا، جو جامع عمروبن العاص، فسطاط، میں انیسویں صدی شمسی کے آغاز تک محفوظ تھے اور پھر نوآبادیاتی نظام کے طفیل برلن، کیمبرج، شکاگو، ڈبلن، گوتھا، کوپن ہیگن، لیڈن، پیرس، برمنگھم اور سینٹ پیٹرز برگ تک پائے جاتے ہیں۔ یہ تقریباً ۳۵۰ قرآنی نسخے ہیں، جو ۷ہزار اوراق پر مشتمل ہیں۔ جرمن/فرنچ محققین کا کام علم المصاحف (codicology)، علمِ تحاریرِ قدیمہ (paleography) اور تاریخی و سائنسی طریقوں سےان پارچوں پر روشنائی کے تجزیے اور ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے ان نسخوں کی عمر نیز ہجاء اور متن کے( مبینہ) تغیرات (Orthographical and textual variants) کا موازنہ قراءت کے لٹریچر سے کرنا بتایا گیا تھا۔
ہالینڈ کا مشہور اشاعتی ادارہ بِرل (Brill) مذکورہ دونوں تحقیقی کوششوں کو ’ ڈاکومینٹا قرآنیکا‘ (Documenta Coranica) نامی سیریزکے عنوان سے شائع کررہا ہے۔ اب تک صرف دو مجلد طبع ہوئے ہیں، ایک جنوری ۲۰۱۸ء میں اور دوسرا جولائی ۲۰۱۹ء میں۔
https://brill.com/view/serial/DOCO?qt-qt_serial_details=0
_______________
حوالے
۱- ڈاکٹر محمد حمید اللہ، خطباتِ بہاولپور، طبع۱۱ (۲۰۰۷ء)، طابع و ناشر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد، ص۱۶
۲- Theodor, Nöldeke [1836-1930] ,Geschichte des Qorâns. English [The History of the Qur'an], Theodor Noldeke, Friedrich Schwally, Gotthelf Bergstrasser, Otto Pretzl ; Wolfgang H.Behn ed, Koninklijke Brill NV, Leiden, The Netherlands, 2013, p. xiv.
۳- ]Anton Spitaler, Die Verszahlung des Koran nach Islamischer [The Enumeration of the Koran According to Islamic Tradition], Munchen, 1935. [ادارہ
۴- ]Gunter Luling Kritisch Exegetische Undersuchung des Qurantextes,1970.[ ادارہ
۵- Andrew Higgins,The Lost Archives:Missing for a half century, a cache of photos spurs sensitive research on Islam's holy text, Wall Street Journal, January 12, 2008.
۶- Angelika Neuwirth," Structural, Linguistic and Literary Features", Ch. 5 in Cambridge Companion to the Quran, Jane D. McCuliffe, ed, Cambridge University Press, Cambridge, UK, 2006, pp. 97-114.
۷- Sami Ameri, Hunting for the Word of God: The quest for the original text of the New Testament and the Qur’an in light of textual and historical criticism, Thoughts of Light Publishing, Columbia Heights, MN 55421, USA, 2013.