۲۲ فروری ۲۰۲۰ء بروز ہفتہ ،بوقتِ سحر حفیظ الرحمٰن احسن اپنے ربّ کے پاس چلے گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ احسن ان کا تخلص تھا،وہ شاعر تھے مگر شاعر کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھے۔ استاد، ادیب، نقاد، مقرر،منتظم۔ابتدائی دور میں وہ ـ’حفیظ الرحمٰن غازی پسروری‘ کے نام سے لکھتے تھے۔ وہ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۴ء کو پسرور (ضلع سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔
ان کا علمی و ادبی ذوق پروان چڑھانے میں زیادہ دخل دو شخصیتوں کا رہا۔اوّل: اسکول کے زمانے میں جناب طاہر شادانی(استاد گورنمنٹ ہائی سکول پسرور)اور مرے کالج سیالکوٹ کے دورِ طالب علمی میں پروفیسر آسی ضیائی۔
انٹر میڈیٹ کے زمانے (۱۹۵۰ء-۱۹۵۲ ء)میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے۔ یہ وابستگی،جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت پر منتج ہوئی۔بی اے میں انھوں نے عربی کے مضمون میں (علامہ اقبال کی طرح)یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔مزید تعلیم کے لیے وظیفہ ملا۔ انھوں نے(بوساطت اسلامیہ کالج لاہور)۱۹۵۹ء میں یونی ورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا اورتیسری پوزیشن حاصل ہوئی۔بعد ازا ں ایم اے اردو بھی کر لیا۔گورنمنٹ کالج لائل پور[فیصل آباد]، گورنمنٹ کالج سرگودھا،مرے کالج سیالکوٹ اوراشاعتِ تعلیم کالج لاہور میں عربی اور اردو کے استاد رہے ۔۱۹۶۶ء میں وہ مستقلاً لاہور آگئے اور باقاعدہ درس و تدریس چھوڑ کر امین جاوید صاحب کے تعاون سے اشاعتی ادارے ’ایوانِ ادب‘کی بنیاد رکھی۔تعلیم و تعلّم سے ان کا رشتہ اس صورت میں برقرار رہاکہ انھوں نے انٹر میڈیٹ کے لازمی مضمون اردو کے لیے تحسینِ اردو مرتب کی، اور بچوں کے لیے بھی نظم و نثر کی چندخوب صورت کتابیں شائع کیں۔
حفیظ صاحب کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے دروسِ قرآن و حدیث کو فیتہ بند (taperecord) کرنے کا اہتمام بڑی محبت اور ثابت قدمی سے کیا۔ پھر ان دروس کو کیسٹ کے ذریعے مولانا کی آواز میں ہزاروں لاکھوں افراد تک پہنچایا۔ مولانا سے محبت کے اس تعلق کو انھوں نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح واضح کیا ہے: ’’دسمبر۱۹۴۶ء کے آخری ایام میں سیالکوٹ کے قصبے مرادپور میں جماعت اسلامی لاہور کمشنری کا دوروزہ اجتماع ہوا اور مَیں داداجان کے ساتھ اس اجتماع میں شریک ہوا۔ اس اجتماع میں مولانا کا تاریخی خطبہ ’شہادتِ حق‘ (۱۳دسمبر ۱۹۴۶ء) سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس اجتماع کی بدولت مجھے مولانا کو مسلسل دو روز تک دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، اور اس طرح ان کی شخصیت کا ایک گہرا نقش میرے نہاں خانۂ شعور میں ثبت ہوگیا‘‘۔
راقم اپریل ۱۹۶۴ء میں سرگودھا سے لاہور آکر پنجاب یونی ورسٹی ایم اے اردوکی جماعت اوّل میں داخل ہوا۔باری تعالیٰ ہفت روزہ آئین لاہور کے مدیر مظفر بیگ (۱۹۳۵ء-۱۹۹۹ء)کو غریقِ رحمت کرے (آمین)،انھوں نے راقم الحروف کو مولانامودودیؒ کے دروس قرآن و حدیث اور دیگر خطبات کو قلم بند (رپورٹنگ)کرنے پر مامور کیا۔اس سلسلے میں راقم کے مرتب کردہ چند دروس اور خطبے آئین میں شائع ہوئے۔چند ایک تحریریں ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں بھی نقل ہوئی ہیں۔
غالباً ۱۹۶۶ء سے حفیظ صاحب مولانا کے دروس فیتہ بند (ٹیپ) کرنے لگے تھے۔ ان کے پاس جہازی سائز کا ایک ٹیپ ریکارڈر تھا،جو باہر سے گراموفون معلوم ہوتا تھا۔ان کے مرتب کردہ دروس آئین میں شائع ہونے لگے۔ بعض جلسوں میں مولانا کے خطبات وہ ٹیپ کرتے اور راقم انھیں مرتب کرنا اور آئین میں شائع ہوتے۔ترتیب و تدوین کا کام کبھی تو راقم ۲۳ وُولنر ہاسٹل میں کرتا اور جب کبھی ہاسٹل بند ہوتا (جیسے جنوری ۱۹۶۶ ء میں اعلانِ تاشقند پر ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہونے پر ہوسٹل بند کر دیے گئے تھے)تو پھر یہ کام حفیظ صاحب کے دفتر نسبت روڈ میں ہوتا تھا۔
مظفر بیگ مرحوم نے ۱۹۶۵ء میں راقم کو سید مودودی کی عصری مجالس کی رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی۔بعد ازاں ’۵ اے ذیلدار پارک ‘کے اس سلسلے میں خود بیگ صاحب اور حفیظ الرحمٰن صاحب بھی شامل ہو گئے۔ان مجالس کی رُودادیں تین حصوں میں بارہا چھپ چکی ہیں۔غالباً ۱۹۷۶ ء میں حفیظ صاحب ،جناب نعیم صدیقی مرحوم کے علمی و ادبی رسالے سیارہ سے رضاکارانہ طور پر وابستہ ہوگئے اور انھوں نے نعیم صاحب کاخوب ہاتھ بٹایا۔یہاں تک کہ نعیم صاحب نے رسالہ مستقلاً ان کے سپرد کر دیااور انھوں نے اسے بڑی مہارت اور کامیابی سے جاری رکھا۔سیارہ نے بعض یادگار نمبر شائع کیے(اقبال نمبر تین بار،سید مودودی نمبر ایک بار)۔ اسلامی اور تعمیری ادب کے فروغ میں مجلّہ سیارہ لاہور کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ سیارہ کے سلسلے میں وہ اپنے حلقۂ احباب سے بھی مدد لیتے۔ مثال کے طور پر ایک بار مجھے خط میں لکھا کہ جگن ناتھ آزاد اور معین الدین عقیل سے مضامین کا تقاضا کیجیے اور کرتے رہیے کہ ان دونوں سے راقم کا مسلسل رابطہ رہتا تھا۔
۱۹۸۹ ء کی بات ہے ۔احباب میں سیارہ کا نعیم صدیقی نمبر نکالنے کی تجویز گردش کر رہی تھی۔ ظفر حجازی صاحب نے ’نعیم صدیقی نمبر‘ کا ایک مفصل خاکہ بنا کر حفیظ صاحب کو ارسال کیا۔ حفیظ صاحب نے جواب میں لکھا:’’آپ نے جو سنہری تجاویز پیش کر کے مجھے ان پہ عمل در آمد کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے،اسے آپ کے حُسنِ ظن یا پھر حُسنِ تخیل کا شاہکار قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔اگر اسی طرح کی مکتوب آرائی منصوبوں کی تکمیل کا کبھی بھی وسیلہ بن سکتی تو میں بخوشی روزانہ آپ کی خدمت میں ایک ایسا ہی طویل محبت نامہ لکھنے کی ذمہ داری قبول کر لیتا‘‘۔
احسن صاحب زبان و بیان اور قواعد و انشا پر بخوبی دسترس رکھتے تھے۔اشاعت کے لیے موصول ہونے والے شعری اور نثری مسوًدوں کی نوک پلک سنوارنے میں خاصا وقت صرف کرتے تھے۔اس ضمن میں اگر کہیں اپنی معلومات میں کمی محسوس کرتے تو بلاتکلف اپنے دوستوں سے تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے۔ایوان ادبِ میں بعد دوپہر ان کے قریبی احباب جمع ہوتے ، پروفیسر جعفر بلوچ،ڈاکٹر تحسین فراقی،افضل آرش، شیدا کاشمیری،انور میر،طاہر شادانی اور کبھی کبھار راقم بھی حاضری دیتا۔ سیارہ یا حلقہ ادب یا کسی اور موضوع پر مشاورت کے لیے وہ احباب کو ازخود بھی بلالیتے اور احباب بڑی مسرت سے حاضر ہو جاتے۔
مولانا مودودی کے دروسِ قرآن و حدیث کی نشرواشاعت میں ،ایک مرحلہ ایسا آیا، جب انھوں نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کے مشورے اور اعانت سے الابلاغ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مگر چند کرم فرماؤں نے اسے مقدموں میں اُلجھا دیا۔ بہرحال اعلیٰ عدلیہ نے حفیظ الرحمٰن صاحب کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس طرح خاصا وقت ضائع ہوجانے کے بعد مولانا مودودی کی آواز میں کیسٹوں کی نشرواشاعت ہونے لگی۔لیکن کیسٹ کا دور ختم ہوا اور یہ ادارہ بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔
ہمارے ایک مشترکہ دوست تھے عبدالرحمٰن بزمی(م: ۱۴نومبر ۲۰۰۵ء) شاعر اور ادیب اور حفیظ صاحب کی طرح ہی اعلیٰ درجے کا علمی و ادبی ذوق رکھتے تھے۔ ان کے ورثا نے بزمی صاحب کا مجموعۂ کلام چھپوانا چاہا۔لندن ہی میں مقیم ایک مشترکہ دوست (جاوید اقبال خواجہ، م:۸؍اپریل ۲۰۱۹ء)کی وساطت سے ترتیب و تدوین اوراہتمام اشاعت کا قرعہ میرے نام نکلا۔ حفیظ صاحب فنِ شاعری کے کم و کیف سے بخوبی واقف تھے اور راقم اناڑی۔ چنانچہ راقم نے تدوین کی ذمہ داری حفیظ صاحب کو سونپ دی۔انھوں نے بڑی محنت سے مجموعہ:حرفِ تمنا مرتب کیا ،جو ۲۰۱۱ء میں منشورات لاہور سے شائع ہوا۔
مرحوم پروفیسر فروغ احمد (م:۲نومبر ۱۹۹۴ء)بھی اپنی وفات سے دو تین برس پہلے اپنے کلام کی تدوین و اشاعت کی ذمہ داری مجھے سونپ گئے تھے۔ حفیظ صاحب نے اس کی پروف خوانی کے علاوہ حسب ضرورت اصلاح و تصحیح بھی کر دی۔میری مصروفیات کی وجہ سے ’کلیاتِ کلام فروغ احمد‘ ابھی تک شائع نہیں ہو سکا(پروف محفوظ ہیں مگر کمپوزنگ تلاش طلب ہے)۔
غالباً ۱۹۸۱ء میں لاہور کے بعض ادب دوستوں نے ،حلقۂ ارباب ذوق کے باوجود، اسلام دوست اور تعمیر پسند مصنّفین کا ایک نیا ادبی فورم بنانے کی ضرورت محسوس کی ۔ان میں ڈاکٹر تحسین فراقی، جناب حفیظ الرحمٰن احسن، افضل آرش اور جعفر بلوچ پیش پیش تھے۔چند ایک مشاورتوں کے نتیجے میں ’حلقۂ ادب ‘قائم ہو گیااور اس کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس ہر منگل کی شام چائنیز لنچ ہوم میں ہونے لگے۔اس کی مجلسِ عاملہ میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ،حفیظ صاحب ،سراج منیر،شہباز ملک اور راقم شامل تھے(شاید کچھ اور احباب بھی)۔پروفیسر آسی ضیائی حلقے کے صدراور حفیظ الرحمٰن احسن نائب صدر ، تحسین فراقی سیکرٹری اورسلیم منصور خالدجائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے، جو مسلسل تین برس تک باقاعدگی سے اجلاسوں کی کارروائی قلم بند کر کے پیش کرتے رہے۔پھر آفتا ب ثاقب اور ان کے بعد اصغرعابدنے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ اس حلقے کو چلانے میں حفیظ الرحمٰن احسن کا بنیادی اور فعال کردار رہا۔ان کا دفتر(ایوانِ ادب، حبیب بلڈنگ، اردو بازار لاہور) سیارہکے ساتھ حلقے کا دفتر بھی تھا۔وہیں دو ماہی یا سہ ماہی پروگرام بناتے اور اس کا سائیکلوسٹائل نکلوا کر یا کتابت کرا کے، نقول پھیلاتے ۔ وہ خود بھی اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔اکثر وبیش تر وہ مقررہ وقت سے پہلے مجلس گاہ میں پہنچ جاتے۔ حلقہ ۱۹۸۹ء تک چلتا رہا۔
حالیہ دنوں میں مجھے حلقے کے ۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۹ء دو ماہی پروگراموں پر مشتمل کاغذات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ان سے پتا چلتا ہے کہ لاہور کے بیش تر اہم اور سینئر مصنّفین اور شعرا حسب پروگرام اپنی نگارشات پیش کرتے رہے۔چند نام:میرزا ادیب،جیلانی بی اے،عبداللہ قریشی،نعیم صدیقی، شیخ منظور الٰہی، عبدالعزیز خالد، انجم رومانی، ڈاکٹر وحید قریشی، صلاح الدین محمود، عبدالکریم عابد، حفیظ تائب، حمیدجالندھری، جیلانی کامران،پروفیسر فروغ احمد،انتظار حسین، سیّد امجد الطاف، مقبول بیگ بدخشانی، رحمان مذنب، غلام الثقلین نقوی، اکرم جلیلی،سائرہ ہاشمی، سراج منیر، ہارون الرشید، سہیل عمر، عطاء الحق قاسمی، فضل الرحمان، یونس احقر، امجد طفیل وغیرہ۔
ادارہ معارفِ اسلامی لاہور نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے سیرتِ سرورِ عالم ؐ کے مدنی دور پر مشتمل ،سیرت کاتیسرا حصہ مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ابتدائی مرحلے پر لوازمہ مولانا عبدالوکیل علوی [م:۱۱جنوری ۲۰۱۶ء] نے جمع کیا، جسے حفیظ صاحب نے مرتب و مدوّن کیا اور حد درجہ تحقیق و تدقیق سے کام لیتے ہوئے نہایت محنت سے اس میں نیا لوازمہ شامل کیا ۔نظر ثانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں آخری تدوین کی ذمے داری مجھے سونپی گئی، جس پر خاصا وقت صرف کیا اور مزید لوازمے کی شمولیت سے اسے حتمی شکل دی۔
۴۰برس کی رفاقت کے بعد اپریل ۱۹۹۴ء میں جماعت اسلامی سے الگ ہوکر ’تحریک اسلامی‘ تنظیم میں شامل ہوگئے۔ تاہم، اہل جماعت سے بھی تعلق برقرار رکھا، اور اس دیرینہ تعلق کو آخر وقت تک بڑے اعتدال سے نبھاتے رہے۔ مولانا مودودی کے ریکارڈ شدہ خطبات پر مشتمل انھوں نے کتاب الصوم ، فضائلِ قرآن مرتب کی۔ علاوہ ازیں ۵-اے ذیلدار پارک، سوم اسلام کا سرچشمہ قوت جماعت اسلامی اور مشرقی پاکستان ان کی اہم مرتبات ہیں۔