قرآن نے خود کو آسان قرار دیا ہے (سورئہ قمر، سورئہ مریم، سورئہ دخان)۔ آسان ہونے کا مفہوم کیا ہے؟ کیا ہرشخص قرآن کے مفہوم کو متعین کرسکتا ہے؟ اس بارے میں دوانتہائی رویے پائے جاتے ہیں: ایک ان دین دار لوگوں کا جو درسِ قرآن دینے، حتیٰ کہ ترجمۂ قرآن پڑھنے کو بھی ایمان کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں اور اسے سمجھنے سے پہلے ۱۷، ۱۸ علوم کے جاننے کو شرط قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف پروٹسٹنٹ فکرسے متاثر جدید افکار کا علَم بردار طبقہ یہ کہتا ہے کہ دینی ماخذ کی تفسیر و تعبیرپر کسی طبقے کی اجارہ داری نہیں، الہامی کتاب کا ہرماننے والا اس کی تشریح کا حق رکھتا ہے۔
یاد رہے عیسائی مذہب کی اصلاح کی پروٹسٹنٹ تحریک پاپائیت کے اس جبر کا ردعمل تھی جس نے یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے دور میں سائنسی مفکرین و فلاسفہ کی سوچ کو اپنے مذہبی عقائد پر حملہ سمجھتے ہوئے ان کے خلاف نہ صرف گمراہی کے فتوے دیے بلکہ سخت گیر سزائیں بھی دیں۔ مارٹن لوتھر نے جواب میں کہا: خدا نے انجیل انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کی ہے اور ہر عیسائی کی نجات کا دارومدار اس کے انفرادی عقیدہ و اعمال پر ہے۔ اس لیے ہرآدمی کا یہ حق ہے کہ وہ براہِ راست کلامِ الٰہی کو پڑھے اور دینی اُمور سے متعلق خود فیصلہ کرے۔ اس لیے کہ نجات کے لیے اصل ذمہ دار فرد ہے اور اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسے اختیار بھی چاہیے۔ چنانچہ ہرفرد کو اختیار ہے کہ وہ بائیبل کی تعبیر کرسکے۔ گویا ہرفرد کو تفسیر بالراے کی آزادی دے دی گئی۔
ہمارے ذرائع ابلاغ میں موجود ایک بڑا طبقہ اس بات کا پرچارک ہے کہ کوئی بھی عالمِ دین قرآن کی تشریح کا اجارہ دار نہیں کہ اس کی تفسیر و تعبیر کو آخری سند مانا جائے۔ بلاشبہہ الہامی ہدایت کی تفسیر و تعبیر پر کوئی طبقہ اجارہ داری کا حق نہیں رکھتا اور اسلام میں نہ تو وراثتی برہمنیت کا کوئی تصور ہے اور نہ پاپائیت کا نظام۔ اسلام تو آیا ہی اس لیے تھا کہ بندے اور ربّ کے درمیان جو ہستیاں حائل ہوگئی تھیں ، ان کی رکاوٹ کو ختم کردے۔ لیکن کیا ہرشخص یہ اہلیت رکھتا ہے کہ وہ قرآنی مفاہیم کا تعین کرسکے ، اور کیا دنیا کے دیگر شعبہ ہاے زندگی کے اُمور سےمتعلق بھی ہرشخص کی راے معتبر گردانی جاتی ہے؟ کیا کسی طبّی عارضے کے بارے میں کسی انجینیرکی راے کو وہی اعتبار حاصل ہوگا جو ایک ڈاکٹر یا طبیب کی راے کا ہوسکتا ہے؟ کیا کسی قانونی مسئلے کی تفہیم میں کسی ڈاکٹر کی راے کسی قانون دان کی راے کے ہم پلہ قرار دی جاسکتی ہے؟ غرضیکہ ہرعلم سے متعلق اسی شخص کی راے صائب قرار دی جاتی ہے جس نے اس علم کے اصول و مبادی سیکھنے میں زندگی کا ایک عرصہ کھپایا ہو۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے بقول: ’’قرآنِ کے اسرار و حکم کے خزانے پر کسی خاص گروہ کا اجارہ نہیں ہے۔ اس خزانے سے بقدرِصلاحیت و استعداد وہ لوگ حصہ پاتے ہیں جو کتابِ الٰہی پر تدبر کرتے ہیں اور اُن شرائط کے ماتحت تدبر کرتے ہیں جو قرآن پر تدبر کے لیے مقرر ہیں‘‘۔ (تزکیہ نفس، ص۳۱)
کسی آیت کا شانِ نزول کیا ہے؟ ناسخ و منسوخ آیات کون سی ہیں؟ کسی آیت کا سیاق و سباق کیا ہے؟ غریب الفاظ کا مفہوم کیا ہے؟کوئی لفظ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یا مجازی معنی میں؟ حذف و محذوف اور محکم ومتشابہ آیات کا علم، اصولِ تفسیر اور ماخذ تفسیر کو گہرائی سےجانے بغیر قرآنی مفاہیم کے تعین میں قدم قدم پر ٹھوکر کھانے کا اندیشہ موجود ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے توہرشخص اس قابل نہیں کہ وہ قرآن سے صحیح طور پر استفادہ کرسکے ، جب کہ قرآن خود کو تذکیر کے لیے آسان قراردیتا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷ (القمر ۵۴: ۱۷) ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘‘
مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ لِلذِّكْرِ،ذکر کے معنی یادکرنے اور حفظ کرنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کلام سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے بھی۔ یہ دونوں معانی یہاں مراد ہوسکتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے قرآن کریم کو حفظ کرنے کے لیے آسان کر دیا۔ یہ بات اس سے پہلے کسی کتاب کو حاصل نہیں ہوئی… اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ قرآنِ کریم نےاپنے مضامینِ عبرت و نصیحت کو ایسا آسان کرکے بیان کیا ہے کہ جس طرح بڑے سے بڑا عالم و ماہر، فلسفی اور حکیم اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے، اسی طرح ہرعامی وجاہل جس کو علم سے کوئی مناسبت نہ ہو، وہ بھی عبرت و نصیحت کے مضامینِ قرآنی کو سمجھ کر اس سے متاثر ہوتا ہے۔آیت میں يَسَّرْنَا کے ساتھ لِلذِّكْرِ کی قید لگا کر یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ قرآن کو حفظ کرنے اور اس کے مضامین سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی حد تک آسان کردیا گیا ہے جس سے ہرعالم و جاہل، چھوٹا بڑا یکساں فائدہ اُٹھا سکتاہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآنِ کریم سے مسائل واحکام کا استنباط بھی ایسا ہی آسان ہو، وہ اپنی جگہ ایک مستقل اور مشکل فن ہے جس میں عمریں صرف کرنےوالے علماے راسخین کو ہی حصہ ملتا ہے، ہر ایک کا وہ میدان نہیں۔ اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوگئی جوقرآن کریم کے اس جملے کا سہارا لے کر قرآن کی مکمل تعلیم اس کے اصول و قواعد سے حاصل کیے بغیر مجتہد بننا اور اپنی راے سے احکام و مسائل کا استخراج کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کھلی گمراہی کا راستہ ہے‘‘ (معارف القرآن، جلد۸،ص ۲۳۰)۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بقول:’’بعض لوگوں نے يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ کے الفاظ سے یہ غلط مطلب نکال لیا ہے کہ قرآن ایک آسان کتاب ہے، اسے سمجھنے کے لیے کسی علم کی ضرورت نہیں، حتیٰ کہ عربی زبان تک سے واقفیت کے بغیر جو شخص چاہے اس کی تفسیر کرسکتا ہے اور حدیث و فقہ سے بے نیاز ہوکر اُس کی آیات سے جو احکام چاہے مستنبط کرسکتا ہے۔ حالانکہ جس سیاق و سباق میں یہ الفاظ آئے ہیں ، اُس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد کا مدُعا لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ نصیحت کا ایک ذریعہ تو ہیں وہ عبرت ناک عذاب جو سرکش قوموں پر نازل ہوئے، اور دوسرا ذریعہ ہے یہ قرآن جو دلائل اور وعظ و تلقین سے تم کو سیدھا راستہ بتارہا ہے۔ اُس ذریعے کےمقابلے میں نصیحت کا یہ ذریعہ زیادہ آسان ہے۔ پھر کیوں تم اس سےفائدہ نہیں اُٹھاتے اور عذاب ہی دیکھنے پر اصرار کیے جاتے ہو؟ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اپنے نبیؐ کے ذریعے سے یہ کتاب بھیج کر وہ تمھیں خبردار کررہا ہے کہ جن راہوں پر تم لوگ جارہے ہو وہ کس تباہی کی طرف جاتی ہیں اور تمھاری خیر کس راہ میں ہے؟ نصیحت کا یہ طریقہ اسی لیے تو اختیار کیا گیا ہے کہ تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے تمھیں اُس سے بچا لیا جائے۔ اب اُس سے زیادہ نادان اور کون ہوگا جو سیدھی طرح سمجھانے سے نہ مانے اور گڑھے میں گر کر ہی یہ تسلیم کرے کہ واقعی یہ گڑھا تھا‘‘ (تفہیم القرآن، جلد۵،ص ۲۳۴-۲۳۵)۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں: ’’اس آیت کا مطلب عام طور پر لوگوں نے یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےقرآن کو حفظ کرنے یا نصیحت حاصل کرنے کے لیے نہایت آسان کتاب بنایا ہے۔ یہ بات اگرچہ بجائے خود صحیح ہے لیکن آیت کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے۔ لفظ تیسیر عربی میں کسی چیز کو کیل کانٹے سے درست کرنے، پیش نظر مقصد کے لیے اس کو اچھی طرح موزوں بنانے اور جملہ لوازم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے معنوں میں آتا ہے، مثلاً یَسَّرَ الْفَرْسَ لِلرَّکُوب کے معنی ہوں گے گھوڑے کو تربیت دے کر ، اس کو کھلاپلا کر، زین، لگام، رکاب سے آراستہ کرکے سواری کے لیے بالکل ٹھیک ٹھاک کردیا … لفظ ذکر بھی یہاں وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی تعلیم، تذکیر، آگاہی، تنبیہہ، نصیحت، موعظت، حصولِ عبرت اور اتمامِ حجت، سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں… ہماری فطرت اور ہماری عقل کے اندر اللہ تعالیٰ نےعلم و معرفت کے جوخزانے ودیعت فرمائے ہیں لیکن ہم ان سے غافل ہیں، (قرآن) انھی کو ہمارے سامنے اُجاگرکرتاہے… تم مچلے ہوئے ہو کہ جب اس عذاب کی نشانی دیکھ لو گے تو مانو گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری تعلیم وتذکیر کے لیے قرآن اُتارا ہے جو ہرپہلو سے اس مقصد کے لیے جملہ لوازم سے آراستہ و مسلّح ہے تو آخر اس عظیم نصیحت سے کیوں فائدہ نہیں اُٹھاتے، عذاب کے تازیانے ہی کے لیے کیوں بے قرار ہو!‘‘ (تدبرقرآن، جلد۸، ص ۹۹-۱۰۰)
اب تک کی بحث سے ہمیں فہم قرآن کے دو درجے معلوم ہوئے۔ قرآن کے الفاظ میں ایک درجے کو ہم تذکر اور دوسرے کو تدبر کہہ سکتے ہیں:
تذکر: اس سے مراد نصیحت کرنا، متنبہ کرنا، یاد کرناہے۔ گویا علم کے مطابق عمل کرنے کا عزم کرنا۔ قرآن کے ایک ایک لفظ کا تو نہیں البتہ مجموعی پیغام کا ادراک کرنا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن کے سب سے پہلے مخاطبین اُونٹ اور بکریاں چرانے والے بدو، تاجر اور کاشتکار تھے۔ ان میں سے ایک فی صد بھی پڑ ھے لکھے نہ تھے۔ ان کے پاس صَرف و نحو ، فلسفے اور تاریخ کی کوئی کتاب نہ تھی۔ لیکن انھوں نے قرآن سے جو اثر لیا اور وہ ان کے عمل میں ڈھل گیا۔ یہ وہ علم تھا جس کی تعلیم دیناقرآن کا مقصد تھا اور جس کی بنیاد پر وہ دنیا کو بہترین تہذیب و تمدن دینے والے بن گئے۔
تدبر:اس سے مراد ایسا غوروخوض کہ قرآن کے ایک ایک لفظ، آیت اور سورۃ کے مفہوم و مقاصد کو سمجھا جاسکے۔ اصولِ تفسیر اور علومِ تفسیر سے آگہی کے ساتھ یہ تدبر ہی ہے جو ایک انسان کو استنباطِ احکام، تفقہ فی الدین اور فتویٰ و تفسیرلکھنے کا اہل بناتاہے۔ یہی وہ عمل تھا جس کے لیے صحابۂ کرامؓ ایک ایک سورۃ کے سمجھنے میں کئی کئی ماہ و سال صرف کرتے تھے۔ یہ تدبر ہی ہے جس کے ذریعے سے ازروے حدیث قیامت تک قرآن کے نت نئے عجائب کھلتے چلے جائیں گے۔
کسی بھی کلام کی آسانی دو پہلوؤں سے ہوتی ہے: ۱- اس کے الفاظ و عبارات نامانوس اور پیچیدہ نہ ہوں۔۲- اس کے مضامین اور نظریات قابل فہم اور آسان ہوں۔
قرآن اپنے موقف کو منوانے کے لیے آفاق و انفس کے ایسے فطری دلائل دیتا ہے جو ہردور اور ہرسطح کا انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اس میں فلسفہ و کلام کا اسلوبِ استدلال نہیں ہے کہ ایک خاص سطح کے لوگ ہی سمجھ سکیں۔
امام غزالی (م: ۵۰۵ھ) قرآنی دلائل اورمتکلمین و فلاسفہ کے دلائل کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’قرآنی دلائل غذا کی طرح ہیں جس سے ہرانسان فائدہ اُٹھاتاہے، اورمتکلمین کے دلائل دوا کی طرح ہیں جن سے کچھ افراد تو فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کو اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ قرآنی دلائل کی مثال پانی کی ہے جس سے دودھ پیتا بچہ اور تنومند آدمی دونوں فائدہ اُٹھاتے ہیں، جب کہ دوسرے دلائل کھانوں کی طرح ہیں جن سے صحت مند لوگوں کو کبھی فائدہ پہنچتا ہے تو کبھی نقصان، لیکن دودھ پیتے بچے اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے‘‘(علم الکلام، ص ۲۰)۔
امام فخرالدین رازی (م: ۶۰۶ھ) متکلمین و فلاسفہ کے امام ہیں۔وہ فرماتے ہیں: ’’میں نے علمِ کلام اورفلسفے کے طریقوں کو آزمالیا ہے۔ یہ نہ توکسی پیاسے کی پیاس بجھاسکتے ہیں اور نہ کسی بیمار کو شفا دے سکتے ہیں۔ میں نے سمجھ اوردیکھ لیا ہے کہ تمام راستوں کے مقابلے میں قریب ترین اور آسان ترین راستہ قرآن کا راستہ ہے‘‘ (البدایہ والنہایہ، جلد۱۳،ص ۵۶)۔
امام رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم کا طرزِ استدلال لوگوں کے ذہنوں کے زیادہ قریب ہے اور ان کی عقل میں بات کو بٹھانے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ قرآنی دلائل کو اذہان و افہام کے قریب ترین ہی ہونا چاہیے تاکہ ان سے خواص و عوام دونوں نفع اُٹھا سکیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنی دلائل کا مقصد مجادلہ و مناظرہ نہیں بلکہ صحیح اورسچے عقائد کو دلنشین کرانا ہے، اور اس مقصد کے لیے قرآنی دلائل دوسرے تمام طریقوں سے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں‘‘۔
قرآن کے آسان ہونے کے ایک پہلو سے متعلق مولانا اصلاحی کہتے ہیں: ’’قرآن مجید بنی نوعِ آدم کے تمام طبقات کے لیے صحیفۂ ہدایت بن کر نازل ہوا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جو اس پرایمان لائے گا، فلاح پائے گا اور جواعراض کرے گا، وہ ہلاک ہوگا۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس کی تعلیم و دعوت کا معیار عام عقل انسانی کے معیار کے مطابق ہو تاکہ ہرانسان جوفکرونظر کی عام استعداد رکھتا ہے اس کو سمجھ سکے،اور اس کی تعلیمات پر عمل کرکے خالق کی خوشنودی حاصل کرسکے۔ ایک ایسی کتاب جس کا مقصد عام تعلیم و دعوت ہو، نہ تو لفظاً اتنی پیچیدہ ہونی چاہیے کہ جب تک خواص اس کی مشکلات حل نہ کریں،وہ سمجھ نہ آئے، اور نہ معناً اتنی مبہم اور دقیق ہونی چاہیے کہ انسانی فہم و ادراک کی عام استعداد اس کے اسرار و رُموز سمجھنے سے قاصرہو‘‘ (مبادی تدبر قرآن، ص ۱۰۴-۱۰۵)۔
قرآن نے توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات پر عقلی دلائل بھی دیے ہیں اور نقلی بھی۔ نقلی دلائل میں جن انبیاے کرام اور صلحا، جیسے حضرت لقمان، حضرت مریم، اصحابِ کہف اور طاغوت، جیسے فرعون، اصحاب الاخدود، اصحاب الفیل وغیرہ کے واقعات بیان کیے ہیں۔ عرب ان سے مانوس تھے، جب کہ عقلی دلائل ایسے ہیں جو ایک اَن پڑھ آدمی کو بھی اپیل کرتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ان کی قوتِ تاثیرکا انکارنہیں کرسکتا۔ مثلاً زمانۂ قید کے دوران حضرت یوسف ؑ سے ان کے قیدی ہم نشین اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر جاننے کے خواہش مند ہوئے تو آپ نے بھی ان کے سامنے ایک سوال رکھا: ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف ۱۲: ۳۹) ’’کیا (کسی غلام کے لیے اس کے) کئی آقا بہتر ہیں یا ایک ہی اللہ غلبے والا؟‘‘
سوال کی صورت میں یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کے مخاطب کے لیے ’ایک‘ کہے بغیر چارہ نہیں۔ اور اتناکہنے کے لیے قائل کو اصولِ تفسیر اور علومِ قرآنی کی تحصیل کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح جب اللہ یہ فرماتا ہے: لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۰ۚ (الانبیاء ۲۱: ۲۲) ’’اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا اورمعبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے‘‘۔ یہ ایسی دلیل ہے جو چودہ سو سال پہلے کے عالم و جاہل کو بھی اپیل کرتی تھی اور آج کے ترقی یافتہ زمانے کے لوگوں کو بھی۔
دلائل و مضامین کے عام فہم اور آسان ہونے ہی کی وجہ سے قریش قرآن کی تاثیر سے خوف زدہ تھے۔ قرآن نے ان کے اس اندرونی خوف کو یوں افشا کیا ہے: وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۲۶(حم السجدہ ۴۱:۲۶)’’اور کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور (جب سنایا جائے تو) شور مچا دو تاکہ تم غالب رہو‘‘۔گویا سردارانِ مکہ کو خدشہ ہے کہ ع ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں
اگر کافر قرآن کے ابلاغ کو اپنے طاغوتی غلبے کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ اہلِ اسلام کا غلبہ کس چیز سے وابستہ ہے؟ لیکن مسلمان لیڈرشپ، اپنی بقا اور ترقی کے لیے غیرقرآنی تعلیم اور ٹکنالوجی کے حصول کو ہی مطمح نظر بنائے ہوئے ہیں۔ بقول احسان دانش ؎
مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پہ پھیلا دیے سایے ہم نے
کفارِ مکّہ جب اہلِ ایمان کو تضحیک و استہزا،ظلم و تشدد کے باوجود نہ جھکا سکے تو ایک وقت آیا کہ سردارِ مکہ عتبہ بن ربیعہ دولت، سرداری اور بادشاہت کا پیغام لے کر سمجھوتہ کرنے آیا تو اللہ کے رسولؐ نے اسے سورہ حم السجدہ کی آیات کی تلاوت کی صورت میں اپنا پیغام دیا۔ وہ واپس آکراپنی قوم کو کہنے لگا کہ ’’میں نے محمد کی زبان سے جو کلام سنا ہے وہ ضرور کوئی اثر دکھاکر رہے گا‘‘(ابن ہشام)۔ یہ قرآن کی تیسیر و تاثیر ہی کا کمال تھا کہ مشرکین مکہ کی خواتین اور بچے چھتوں اور دیواروں پر چڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کی تلاوت سنتے تھے اور ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے۔
حضورؐ اور صحابۂ کرامؓ سے جب بھی کوئی اسلام کا تعارف چاہتا تو وہ جواب میں اکثر قرآن کا کچھ حصہ سناتے۔ شاہِ حبشہ کے دربار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پوچھی گئی تو قرآن سنایا گیا۔ مکہ میں ابوذر غفاریؓ، طفیل دوسیؓ اوردیگر کو رسولؐ اللہ نے قرآن سنایا۔ مدینہ میں مصعب بن عمیرؓ نے اسید بن حضیرؓ، سعد بن معاذ ؓاور دیگر کو قرآن سنا کر ہی قبولِ اسلام پر آمادہ کیا۔
قرآن خود کوھُدًى لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲:۱۸۵)قرار دیتا ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کا مخاطب انسان اور اس کا موضوع ہدایت ہے۔ اور انسانوں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے اچھے بُرے، عالم و جاہل، سب شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے کسی قسم کے علومِ قرآنی نہیں پڑھے ہوں گے۔ اس کے باوجود قرآن خود کو ان کے لیے ہدایت کہتا ہے: ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۲ۙ (البقرہ ۲:۲) اور ہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ (یونس ۱۰:۵۷) کہتا ہے اور لازم نہیں کہ تمام متقین اور مومنین علمی رسوخ کے حامل ہوں۔ اب اگر قرآن تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے اور ہدایت ہرانسان کی ضرورت ہے تو ضروری ہواکہ ہدایت کے حصول کا راستہ آسان بھی ہو اور سب کی دسترس میں بھی۔ اس لیے کہ کائنات میں جس چیز کی ضرورت عام ہے قدرت نے اس کی دستیابی کو بھی عام رکھا ہے، جیسے ہوا اور پانی ہر آدمی کی ضرورت ہے تو اللہ نے اسے دوسری چیزوں کی نسبت اتنا ہی عام کردیا۔ ہدایت وہ چیز ہے جو ہوا اور پانی کی طرح ہرانسان کی ضرورت ہے تو یہ کس طرح درست ہے کہ اس تک انسانی دسترس کو مشکل بنا دیا جائے۔ چنانچہ اللہ نے فرمایا:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۹۷ (مریم ۱۹: ۹۷) پس اے نبیؐ، ہم نے اس قرآن کو آپؐ کی زبان میں اسی لیے آسان کر دیا کہ آپؐ اس کے ذریعے پرہیزگاروں کو خوشخبری دیں، اکھڑاور ہٹ دھرم قوم کو ڈرائیں۔
معلوم ہوا کہ خوشخبری اور ڈراوے کے لیے قرآن آسان بھی ہے اور مؤثر بھی، حتیٰ کہ اسی قرآن کے ذریعے عرب جیسی اکھڑقوم موم کی طرح نرم ہوگئی۔ اسی طرح تذکیر و یاددہانی کے لیے بھی قرآن آسان ہے۔ فرمایا:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۵۸ (الدخان ۴۴:۵۸) ہم نے اس قرآن کو تمھاری زبان میں آسان کر دیا تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
سورئہ قمر کے آغاز میں حضرت نوح ؑ کی قوم کی سرکشی اور پھران پر نزول عذاب کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ۱۶ (القمر ۵۴: ۱۶)’’پس کیسا تھا میرا عذاب اور کیسے تھے میرے ڈراوے‘‘۔ اس سے اگلی آیت میں فرمایا:وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷ (القمر۵۴:۱۷) ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، پس ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرے؟‘‘اس کے بعد قومِ عاد کی تباہی کا ذکر اور آیت ۲۱ میں فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ کی تکرار کے بعد آیت۲۲ میں يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ کی تکرار ہے۔ بعدازاں قومِ لوط کی سرکشی اور عذاب کے ذکر کے بعد آیت ۳۹ میں عذاب اور اِنذار کے بعد آیت۳۲ میں تیسیر قرآن کی تکرار ہے۔ پھر قومِ لوط کی سرکشی اورعذاب کے ذکر کے بعد آیت۳۹ میں عذاب اور ڈراوے اور آیت۴۰ میں چوتھی مرتبہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ کی تکرار اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ کی پکڑ سے خبردار کرنے،ڈرانے اور تذکیر و نصیحت کا جتنا آسان ذریعہ قرآن ہے کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔
قرآن کتابِ الٰہی سے اہلِ ایمان کے بدن کےرونگٹے کھڑے ہونے، دلوں کے نرم پڑنے اور یادالٰہی کی طرف متوجہ ہونے کی خبر دیتا ہے:
تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ۰ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللہِ۰ۭ (الزمر ۳۹:۲۳) اُسے سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر اُن کے جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔
برصغیر میں مسلمانوں کے دورِ زوال کی عظیم ہستی شاہ ولی اللہ نے اُمت کے زوال اور فساد کے علاج کے لیے فہم قرآن کو مؤثر علاج سمجھتےہوئے پہلی مرتبہ قرآن کا فارسی ترجمہ کیا جس کے باعث ان کے خلاف گمراہی کے فتوے بھی صادر ہوئے۔ ان کی کتاب تحفۃ الموحدین کا ذیل کا پیرا اُس ذہن کو سمجھنے میں مددگار ہے جو آج بھی قرآن فہمی میں رکاوٹ ہے۔ شاہ ولی اللہ قرآن فہمی سے خوف زدہ اس ذہن کی ایک ایک خلش کا آیاتِ قرآنی سے یوں ازالہ کرتے ہیں:
’’بعض کہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو بہت سے علوم اور بے شمار کتابیں پڑھا ہوا ہو اور اپنے زمانے کا علامہ ہو، جب کہ اللہ فرماتا ہے:
ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۲ۙ (الجمعہ۶۲:۲) اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس نے انھی اَن پڑھ لوگوں میں سے رسول مبعوث کیا جو ان پراس کی آیات کو تلاوت کرتا ہے، ان کےدلوں کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اس سے پہلے تووہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
یعنی اللہ کے رسولؐ بھی اَن پڑھ اور آپؐ کے اصحابِ بزرگوار بھی اَن پڑھ تھے لیکن جب رسولؐ اللہ نے اپنے اصحابؓ کے سامنے قرآن کی آیات پڑھیں تو ان کوسن کروہ ہرقسم کی بُرائی اور بگاڑ سے پاک صاف ہوگئے۔ پس اگراَن پڑھ آدمی قرآن و حدیث نہیں سمجھ سکتا اور اس کی سمجھ کی استعداد نہیں رکھتا تو صحابہؓ بُرائیوں اور عیبوں سے کیسے پاک صاف ہوگئے؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم بعد کے زمانے کے لوگ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی برکت اور صحابہؓ کے دل کی سلامتی کہاں سےلائیں جو قرآن و حدیث کے معنی سمجھ سکیں؟ اس کاجواب اس سے اگلی آیت میں ہے: وَّاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ۰ۭ (الجمعہ ۶۲ :۳)، یعنی بعد والے لوگ خواہ پڑھے ہوئے ہوں یا اَن پڑھ، جو بھی مسلمان ہوں اور اصحاب کے طریقے کی پیروی کا ارادہ کریں اور قرآن وحدیث کو سنیں تو انھیں بھی پاک کرنے کے لیے یہ ذریعہ کافی ہوسکتا ہے اور وہ فرماتا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ کافیہ پڑھنے والے اور شافیہ جاننے والے تو اس قرآن کے معنی سمجھنے سے عاجز ہوں ، جب کہ عرب کے جنگلی بدو اس کی حقیقت سے بہرہ ور ہوتے ہوں۔ اس کے علاوہ ایک جگہ یوں فرماتا ہے: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ (محمد۴۷:۲۴) ’’وہ قرآن میں غوروفکر کیوں نہیں کرتے؟‘‘ پس قرآن آسان نہ ہو تو اس میں غوروفکر کیوں کیا جائے؟ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا’’یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘۔ یعنی باوجودیکہ ان کےدلوں پر تالے نہیں لگے ہوئے ہیں، پھر بھی کیسی گمراہی ہے کہ قرآن پر غوروفکر میں زور نہیں لگاتے‘‘۔