اللہ نے قرآن کو آسان بنایا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ (القمر۵۴ :۱۷)، البتہ قرآن اپنی تفہیم کے لیے انسانوں سے غور وفکر اور تدبر کا تقاضا کرتا ہے: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۲۴ (محمد۴۷:۲۴) ’’کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘
عام طور پر غوروتدبر دماغ کا کام تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس آیت سے قرآن پر غوروفکر دل اور دماغ کی یکجائی کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن کے مطابق حقیقی اندھا وہ نہیں جو آنکھوں کی بینائی سے محروم ہے بلکہ وہ ہے جس کا دل اندھا ہو چکا ہے: فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۴۶ (الحج ۲۲:۴۶) ’’حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں، یہ سینوں میں موجود دل ہیں جو اندھے ہو جاتے ہیں‘‘۔
اس آیت میں دل کا مقام بھی بتا دیا گیا ہے، جو سر نہیں، سینہ ہے۔ قرآن میں قلب کا لفظ محض خون کی پمپنگ مشین کے لیے نہیں، عقل و ہوش اور جذبات کے متوازن وسیلے کے لیے استعمال ہوا ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر لازم ہے کہ بار بار تلاوت کرکے قرآن کے اسلوب کو اپنے اندر جذب کیا جائے اور قرآن کا درس قرآنی اسلوب ہی میں دیا جائے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے ہاں درسِ قرآن تو بہت ہوتے ہیں، مگر اکثر دروس میں قرآن سے اخذ شدہ قرآنی اسلوب کم ہی نظر آتا ہے۔ واعظ کی اپنی نصیحت اور روایات کی بھر مار سے بوجھل درس اگر محض نکتہ آفرینیوں کا مجموعہ بن جائے، تو ایسے دروس کے ذریعے عوام الناس کی بڑی تعداد کو قرآن سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ محترم خرم مراد کے بقول مدرس کو چاہیے کہ وہ قرآن اور اپنے سامعین کے درمیان زیادہ حائل نہ ہو اور نکتہ آفرینیوں میں پڑنے کے بجائے اپنے سننے والوں کو آیت کے مفہوم سے جوڑے رکھے۔
قرآن کے اسلوبِ درس کے ضمن میں ذیل میں چند نکات پیش ہیں:
قرآن نے اپنے موقف کو مدُلّل کرنے کے لیے عقلی دلائل بھی دیے ہیں اور نقلی دلائل بھی۔ یہ دلائل وہ ہیں جن کو ہر دور، ہر جگہ اور ہر علمی سطح کا انسان سمجھنے کے قابل ہے۔ جیسے: حضرت یوسفؑ کا اپنے قید کےساتھیوں سے سوال: ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف ۱۲:۳۹) ’’بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟‘‘ لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ۰ۚ (الانبیاء۲۱:۲۲) ’’اگرآسمان وزمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ان دونوں کا نظام بگڑ جاتا‘‘۔
یہ دونوں دلائل اتنے سادہ اور عام فہم ہیں کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہویا بالکل اَن پڑھ، وہ بھی توحید کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح آخرت کے انعقاد اور عدالت الٰہی کےقیام پر اس دلیل کا کوئی ایک بھی انکار نہیں کر سکتا: اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ۳۵ۭ مَا لَكُمْ ۰۪ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۳۶ۚ (القلم۶۸: ۳۵-۳۶) ’’کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں جیسا کر دیں؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے، یہ تم کیسے حکم لگاتے ہو؟‘‘ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۰ۭ (الزمر۳۹:۹)’’ کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
بہت سی طبیعتیں عقلی دلائل کی طرف تو رجحان نہیں رکھتیں، لیکن تاریخی مقامات و قصص سے عبرت پکڑتی ہیں، گویا انھیں نقلی دلائل متاثر کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں حضرت آدم اور ابلیس، ہابیل و قابیل، طوفانِ نوحؑ، عاد و ثمود کی تباہی، ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی سرگزشت، قومِ لوط پر عذاب، موسٰی و فرعون کا معرکہ، موسٰی و خضر ؑکا مکالمہ، بنی اسرائیل کا طرزِ عمل، اصحابِ کہف، ذوالقرنین، اصحاب الاخدود اور اصحاب الفیل کے عبرت آموز واقعات بیان ہوئے ہیں جن سے عرب مانوس تھے۔ اہل عرب نے یا تو ان مقات و کھنڈرات کو دیکھا ہوا تھا، یا وہ جن قوموں سے میل جول رکھتے تھے، ان کے ہاں یہ واقعات زبان زدِ عام تھے۔
اس لیے درس دیتے وقت شرکا کے مشاہدے کا بھی لحاظ رکھنا ہوگا۔ سائنسی اکتشافات اور فلسفیانہ استدلال، سامعین کو قرآن سے جوڑنے کے بجائے دُور کرنے کا باعث بنتا ہے۔
قرآن کے بنیادی موضوعات توحید، رسالت اور آخرت بار بار بیان ہوئے ہیں، عموماً ایک موضوع کی تکرار اور تعلیم و تدریس کا ایک ہی انداز سامعین اور قارئین کے لیے اکتاہٹ کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے قرآن ایک ہی موضوع کو سمجھانے کے لیے اس کے مختلف پہلوئوں کو مختلف مقامات پر مختلف انداز میں بیان کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّہُمْ يَفْقَہُوْنَ۶۵(الانعام۶:۶۵)’’دیکھو! ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی آیات ان کے سامنے پیش کررہے ہیں تاکہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں‘‘۔
تکرار سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک تصریفِ آیات کس قدر ضروری ہے۔ ایک مدرس کے لیے ضروری ہے کہ ہرمرتبہ نئے ڈھنگ اور آہنگ کے ساتھ درس کو ترتیب دے۔ یعنی نئی مثالوں، نئے واقعات اور نئے دلائل سے اپنی گفتگو کو مزین کرے اور زبان و بیان کی ایسی یکسانیت سے بچنے کی کوشش کرے جو اس کے سامعین میں اکتاہٹ پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہو۔
سوال اُٹھانا: کبھی قرآن انسان کو تدبّر پر یوں اُبھارتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے: یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ، اور کبھی یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ کہہ کر جواب دیتا ہے۔ کبھی انسان کو چونکانے کا یہ انداز ہے: وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ۱۷ۙثُمَّ مَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ۱۸ۭ (الانفطار۸۲: ۱۷-۱۸) اور کبھی اَلْقَارِعَۃُ۱ۙ مَا الْقَارِعَۃُ۲ۚوَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَۃُ۳ۭ (القارعۃ۱۰۱: ۱-۳)۔کبھی ایک ہی مضمون کے فہم کے لیے مختلف مثالیں بیان کرتا ہے۔ کبھی انسانی عقل کو اس طرح بھی اپیل کرتا ہے:اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ۳۵ۭ مَا لَكُمْ۰۪ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۳۶ ۚ(القلم۶۸: ۳۵-۳۶)’’کیا ہم اطاعت گزاروں اور مجرموں کو برابر کر دیں گے؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ایسے فیصلے کرتے ہو؟‘‘ فرمایا: ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۰ۭ (الزمر۳۹:۹)’’کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘۔
کبھی انسانی فطرت میں برائی کے لیے موجود کراہت کو یوں انگیخت دیتا ہے کہ غیبت کے گھنائونے پن کو نمایاں کرنے کے لیے یہ سوال سب کے سامنے رکھتا ہے:
اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا (الحجرات۴۹:۱۲)کیا تمھارے اندر کوئی ایسا بھی ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے؟
ایک اچھے معلّم و مربیّ کا یہی طریقہ ہے کہ وہ محض نصیحت اور زجرو توبیخ ہی نہ کرے بلکہ انسانی طبیعت میں برائی سے نفرت اور نیکی کی طرف رغبت کا جو جذبہ موجود ہے، اسے بھی اُبھارے۔
سورۃ النساء آیت۳۴ میں جہاں یہ بیان ہوا کہ ’’مرد عورتوں پر نگران ہیں‘‘وہاں ساتھ مردوں کو یہ یاد دہانی کرا دی گئی کہ تمھیں اگر عورتوں پر بالادست اور صاحب ِاختیار بنایا گیا ہے، تو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے اوپر اپنے رب کی پکڑ کا بھی دھیان رکھنا کہ وہ تم سے بھی زیادہ بالادست ہے۔
یہ بیان کیا گیا کہ رحمٰن کے بندے تو ان ان صفات کے حامل ہوتے ہیں، تاکہ ہر انسان اپنے کردار کا خود جائزہ لے کہ وہ رحمن کا بندہ کہلانے کا حق دار ہے یا شیطان کابندہ کہلانے کا سزاوار؟
قرآنی تربیت کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ وہ ہر لمحہ فرد میں اُمید اور خوف کی کیفیت کو اس طرح قائم رکھتا ہے کہ انسان نہ تو خدا کی گرفت سے بے خوف ہو سکے اور نہ اس کی رحمت و مغفرت سے مایوس ہو جائے۔ چنانچہ جہاں اس نے عذابِ جہنم کا ذکر کیا ہے ساتھ ہی جنت کی بشارت اور اس کی نعمتوں کا تفصیلی تذکرہ بھی کیا ہے۔
قرآن میں بنیادی انسانی اخلاقیات کو اُبھار کر بھی اسلامی عقائد و اصولوں کی افادیت اور فرضیت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ جیسے سورۃ الماعون میں یوم جزا کو جھٹلانے والے کی اس بدخلقی کا ذکر ہے کہ وہ نہ تو یتیم کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی موٹی اشیا عاریتاً کسی کو برتنے کے لیے دیتاہے۔ کبھی ان کے سامنے دو قسم کے کردار رکھ کر خود ان میں سے اپنے لیے کسی کردار کا انتخاب کرنے کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ جیسے سورئہ بقرہ کی آیت۲۰۴ سے ۲۰۷ میں پہلے باتوں سے دل موہ لینے والے ایک دنیا پرست انسان کا ذکر ہے۔ پھر اس کے برعکس ایک کردار ایسے شخص کا ہے جو محض رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنی جان تک کودائو پر لگائے رکھتا ہے۔
سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ كَلْبُہُمْ۰ۚ وَيَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ كَلْبُہُمْ رَجْمًۢـــا بِالْغَيْبِ۰ۚ وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ كَلْبُہُمْ۰ۭ (الکہف۱۸:۲۲)کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ اور کچھ دوسرے کہیں گے وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔
آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:’’مطلب یہ کہ اصل چیز ان کی تعداد نہیں ہے بلکہ اصل چیز وہ سبق ہیں جو اس قصے سے ملتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے سامنے سرجھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسبابِ دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے۔ ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحابِ کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے اور ان کے نام کیا کیا تھے اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا؟ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو اور آپؐ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو۔ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوقِ فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے‘‘۔(تفہیم القرآنج۳،ص۲۰)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو فرمایا:وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۳۵ (البقرۃ۲:۳۵)’’اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے‘‘۔
اب یہ درخت کون سا تھا؟ اسرائیلی روایات کے زیر اثر ہمارے ہاں اس پر بحثیں ہوئیں کہ گندم کا تھا یا انجیر یا کوئی اور۔ لیکن اللہ نے آدمؑ کو آزمانے اور یہ دکھانے کے لیے کہ شیطان اسے کس کس طریقے سے بہکائے گا، ایک درخت کو مقرر کر دیا۔ اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کون سا درخت ہے؟ لہٰذا، قرآن اور صحیح احادیث میں اس درخت کے نام کی کوئی بحث نہیں ملتی۔
سورج، چاند، ستاروں، شجرو حجر اور سمندروں کو کس طرح انسان کے لیے مسخر کر دیا ہے؟ جب کہ اپنے اچھے اعمال کو شرک کے ذریعے گدلا کر دینے والے کو اس عورت سے تشبیہ دی ہے جو محنت سےکاتے ہوئے سوت کو خود ہی ضائع کر دیتی ہے۔ موقف کو مدلّل کرنے کے لیے انبیا ؑ اور ان کی مخاطب اقوام کے مکالمے اور واقعات بیان کیے ہیں۔ اس لیے قرآن کی طرف بلانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے درس میں محض عقلی و فکری دلائل ہی نہ دے بلکہ اپنے استدلال کو مثالوں، تاریخی واقعات اور روز مرہ زندگی کے ہلکے پھلکے واقعات سے مزین کرے۔ اس لیے کہ ہر دور کا انسان قصے کہانیوں سے دلچسپی رکھتا ہے اور واقعات سے سبق حاصل کرتا ہے۔
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۳ۭ (الماعون۱۰۷: ۱-۳) تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔
كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ۱۷ۙ وَلَا تَحٰۗضُّوْنَ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۱۸ۙ وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا۱۹ۙ وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا۲۰ۭ (الفجر۸۹: ۱۷-۲۰) بلکہ تم یتیم کی تکریم نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔
جب اہل جنت دوزخیوں سے پوچھیں گے کہ تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی تو اس کی ایک وجہ یہ بیان کریں گے:وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ(المدثر۷۴:۴۴) ’’اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘‘۔
یتیم و مسکین کے صرف کھانے پینے کی ہی ضرورت کو پورا کرنا کافی نہیں، انسان ہونے کے ناطے وہ عزت و تکریم کے بھی مستحق ہیں۔ عموماً کمزوروں کو دینے والے ان کی بے توقیری کر رہے ہوتے ہیں۔ قرآن نے اسے انسان کی ایک بڑی خامی بتایا ہے:كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ۱۷ۙ(الفجر۸۹:۱۷)’’ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم کی عزت کرتے ہی نہیں‘‘۔
یتیم اور ضرورت مند سائل کی عزّتِ نفس کے خیال رکھنے کی ہدایت نزول قرآن کے ابتدائی دنوں سے آپؐ کو کی جارہی تھی، فرمایا: فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْہَرْ۹ۭ وَاَمَّا السَّاۗىِٕلَ فَلَا تَنْہَرْ۱۰ۭ(الضحٰی۹۳: ۹-۱۰)’’پس یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو نہ جھڑکو‘‘۔
ایسا صدقہ جس میں ضرورت مند کو ذہنی اذیت دی جائے، اسے تو نہ دینا بہتر ہے۔ فرمایا:
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ يَّتْبَعُہَآ اَذًى۰ۭ (البقرۃ۲:۲۶۳) ایک میٹھا بول اور (ضرورت مند کی کسی ناگوار بات پر)چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دُکھ ہو۔
انسانی طبیعتیں نرم بھی ہوتی ہیں اور سخت بھی۔ قانونِ قدرت ہے کہ چیزیں نرمی سے ہی باہم جڑتی ہیں، خواہ اشیا ہوں یا انسانی قلوب۔ انسانوں کو انسانوں سے جوڑنا ہو یا ان کے ربّ سے جوڑنا ہو، یہ کام دلوں میں رحمت، رقت اور نرمی پیدا کیے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم دلی کو اپنی رحمت قرار دیا اور سخت دلی اور ترش رُوئی کو انسانی تعلقات کا دشمن قرار دیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۰۠ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹ ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپؐ ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج ہیں۔ اگر کہیں آپؐ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپؐ کے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’نرمی جس چیز میں ہوتی ہے، اسے آراستہ کر دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی الگ کر لی جاتی ہے، اسے بدنما بنا دیتی ہے‘‘۔ ( مسلم، رقم ۲۵۹۴، مجمع الزواید ،۸/۱۸)۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’اللہ نرمی کرتا ہے اور نرمی کرنے کو پسند کرتا ہے اور نرم خوئی پر جتنا دیتا ہے، اتنا سختی کرنے پر نہیں دیتا‘۔ (مسلم، رقم:۳۵۹۳، بخاری، رقم:۶۹۲۷) ۔حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ایک اور حدیث کے مطابق جو نرمی سے محروم رہا، وہ بھلائی سے محروم رہا (معجم طبرانی، رقم:۲۴۴۹)۔ ایک حدیث کے مطابق رسولؐ اللہ نے تین خصلتوں پر رحمت کے سائے اور جنت میں داخلے کی خوش خبری سنائی: (۱) کمزور پر آسانی و نرمی کرنا (۲) والدین کے ساتھ مہربانی کرنا (۳) غلام پر احسان کرنا (ترمذی، رقم:۲۴۹۴)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں وہ شخص نہ بتائوں جس پر آگ حرام ہے اور وہ آگ پر حرام ہے: وہ شخص جو لوگوں سے قریب ہو، سکون وو قار والا، نرم خو اور آسانی کرنے والا ہے (ترمذی، رقم:۲۴۴۸)۔ حضرت عائشہؓ کے مطابق حضورؐ اکثر آسانی کرنے اور سختی نہ کرنے کی تلقین فرماتے تھے (بخاری)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق حضورؐ نے فرمایا: نرمی خیروبرکت، جب کہ عادت و معمول کے خلاف بولنا بدبختی ہے (بیہقی، رقم:۷۷۲۲)۔
ہمارے اہل دین کے ہاں کسی جرم کی سزا دینے کے لیے جتنی بےتابی نظر آتی ہے، وہ حضورؐ کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ نفاذ حدودمیں جس حد تک گنجائش ہوتی، حضورؐ نرمی کا رویہ اختیار کرتے۔ اگر کسی سے ایسا کوئی فعل سرزد ہو جاتا تو اسے استغفار کی اور دیکھنے والوں کو پردہ پوشی کی نصیحت فرماتے اور حتی المقدور سزا کو ٹالتے۔
ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ ’’سزائوں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پائو‘‘۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو کیونکہ حاکم کا معاف کر دینے میں غلطی کر جانا، اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرجائے۔
احکام شریعت کے نفاذ میں بھی حضورؐ نرمی و شفقت کا معاملہ فرماتے۔ کمزور طبقات کو برابری کا احساس دلا کر ان کی تالیف قلب کرنا نبیؐ کا شیوہ تھا۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی نے آپؐ سے بات کرنا چاہی۔ لیکن جلال نبوت سے گھبرا گئی۔ یہ دیکھ آپؐ نے فرمایا: ’’گھبرائو نہیں! میں اس ماں کا بیٹا ہوں جو سُکھایا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی (ابن ماجہ، رقم: ۳۳۰۲)۔ گویا میں بھی ایک انسان ہوں۔ پہلے زمانے میں گوشت کو اُبال کر دھوپ میں سُکھاتے تھے۔
اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا طرز عمل بھی لوگوں میں پایا جاتا ہے، جب کہ قرآن کے مطابق برائی کا دفاع برائی کے بجائے بہترین نیکی کے ساتھ کیا جائے تو دشمن کے دل میں بھی نرمی پیدا ہو جاتی ہے: اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۳۴ (حم السجدہ۴۱:۳۴) ’’تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔
ثمامہ بن اثال یمامہ کے علاقے کا بڑا سردار تھا۔ ایک مہم میں صحابہ کرامؓ اسے گرفتار کرکے مدینہ لے آئے۔ مسجد نبویؐ کے صحن میں اسے باندھ دیا گیا۔ حضورؐ جب نماز کے لیے آئے تو ثمامہ سے اس کا حال پوچھا۔ اس نے کہا:’’قیدی ہوں اگر آپ سزا دیں تو آپ کو حق حاصل ہے، چھوڑ دیں گے تو ایک احسان شناس پر احسان کریں گے‘‘۔ دوسری نماز میں آپؐ آئے، اس سے بات کی تو پھر وہی جواب دیا۔ تیسرے وقت بھی یہی جواب دیا۔ آپؐ نے اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔ اس مہربانی کا یہ اثر ہوا کہ وہ ایک باغ کے کنویں پر گیا۔ غسل کیااور آکر اس نے توحید و رسالت کی شہادت دی اور عرض کیا:’’یارسولؐ اللہ! آج سے پہلے آپؐ کا دین اور آپؐ کا شہر میرے نزدیک ناپسندیدہ ترین تھے، لیکن اس گھڑی آپؐ کی ذات، آپؐ کے دین اور آپؐ کے اس شہر سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہیں‘‘۔ بعدازاں وہ عمرہ کے لیے مکہ گئے۔ وہاں قریش نے انھیں صابی (بے دین) ہونے کے طعنے دیے تو ثمامہ ؓنے انھیں دھمکی دی کہ یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی اہلِ مکہ کو نہ ملے گا۔ جب اہل مکہ کے لیے گندم کی ترسیل بند ہو گئی تو انھوں نے حضورؐ سے گندم کی ترسیل کی بحالی کے لیے درخواست کی۔ حضورؐ نے ثمامہؓ کو ترسیل کی بحالی کے لیے کہا تو انھوںنے آپؐ کے حکم سے انھیں گندم دینا شروع کر دی۔ یہ اس نرم رویّے کا نتیجہ تھا، جو حضورؐ نے صاحب ِاختیار ہوتے ہوئے ایک مجبور آدمی کے ساتھ برتا۔ (بخاری کتاب المغازی، سیرت ابن ہشام، ۲/۴۲۰)
دلوں میں نرمی جہاں حُسنِ سلوک سے پیدا ہوتی ہے، وہاں یہ نرمی لوگوں پر مالی نوازشات کرنے سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ دشمن اسلام اُمیہ بن خلف کا بیٹا صفوان ہر جنگ میں مسلمانوں کے خلاف پیش پیش رہا، حتیٰ کہ فتح مکہ کے موقعے پر جب ابو سفیان سمیت اکثر قریش نے آپؐ کی امان کو قبول کر لیا، تو اس وقت بھی صفوان بن اُمیہ دیگر چند افراد کے ہمراہ مقابلے پر آیا۔ چند لاشیں گرنے کے بعد صفوان اور دیگر بھاگ کھڑے ہوئے۔ فتح کے بعد اس کے چچا زاد صحابی حضرت عمیرؓ بن وہب نے اس کے لیے بارگاہِ رسالت سے امان طلب کی۔ آپؐ نے اسے امان دے دی تو اس نے کہا کہ میں اسلام قبول نہیں کروں گا، مجھے غوروفکر کے لیے دو ماہ دیے جائیں۔ حضوؐر نے فرمایا:’’تجھے چار ماہ کی مہلت ہے‘‘۔ چند دن بعد ہی غزوۂ حنین ہوا۔ وہ مسلمان نہیں تھا لیکن بنوہوازن کے خلاف قریشی عصبیت کے باعث اس نے جنگ میں آپؐ کا ساتھ دیا۔ مال غنیمت میں سے آپؐ نے اسے سو اونٹ دیے۔ یہ لطف و کرم دیکھ کر وہ پکارا اُٹھا:’’ایسی فیاضی کوئی نبی ہی کر سکتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ (موطا امام مالک، سیرالصحابہ، ۲/۹۳۲)
ایک بدو نے ایک وادی میں چرنے والی بکریوں کا ریوڑ آپؐ سے مانگا۔ آپؐ نے اسے اس کی حسب خواہش یہ عطا کر دیں۔ اپنے قبیلے میں پہنچ کر اس نے لوگوں سے کہا: ’’بھائیو! اسلام قبول کر لو۔ خدا کی قسم! محمدؐ اتنا دیتے ہیں کہ گویا ان کو فقر وفاقے کا ڈر ہی نہیںہے۔ (مسلم، رقم۲۳۱۲)
ایک بدو سردار اقرع بن حابس نے حضورؐ کو دیکھا کہ آپ حسن و حسین کو چوم رہے ہیں ۔ اس نے حیرانی سے پوچھا: ’’آپؐ بچوں کو چومتے بھی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے بچوں کو کبھی نہیں چوما‘‘۔آپؐ نے فرمایا ’’اگر تمھارے دل سے اللہ نے رحمت چھین لی ہے، تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔
صاحب ِاختیار سرکاری حکام و افسران حکومتی معاملات چلانے کے لیے سختی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس حضورؐ اپنے عمّال کو نرمی کا حکم دیتے تھے۔ عاملین زکوٰۃ کو فرمایا کہ جب کسی سے زکوٰۃ وصول کرو تو اس کے بہترین مال میں سے نہ لو بلکہ کمتر میں سے قبول کرلو۔
سرکاری حکام عوام الناس کی جاسوسی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جب کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’امیر جب عوام الناس کے اندر شکوک و شبہات کا کھوج لگانے لگے تو ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے (ابوداؤد)۔حضرت معاویہؓ راوی ہیں کہ میں نے نبیؐ کو فرماتے سنا کہ تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے تو ان کوبگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچادو گے (ابوداؤد)۔
امام مسجد کو نرمی کی نصیحت فرماتے کہ وہ نماز پڑھاتے ہوئے یہ پیش نظر رکھے کہ اس کے پیچھے ضعیف و ناتواں بھی ہیں اور عورتیں اور بچے بھی۔ آپؐ نے فرمایا:’’ میرا جی چاہتا ہے کہ لمبی نماز پڑھائوں لیکن اس خیال سے نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ میرے پیچھے بوڑھے بھی ہیں اور عورتیں بھی جن کی ہانڈیاں جل رہی ہوں گی، بچے رو رہے ہوں گے‘‘(بخاری)۔
ہدایت فرمائی کہ مقروض سے تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کی جائے۔ حدیث کے مطابق ایک شخص محض اس وجہ سے جنت میں چلا گیا کہ وہ لوگوں کو قرض دیتا تھا اور جب تقاضے کی تاریخ آجاتی تو اپنے کارندوں کو کہتا کہ اگر وہ دینے سے معذرت کرے تو اسے مہلت دے دینا(بخاری)۔
مسافروں کا قافلہ ہو یا کوئی اصلاحی و رفاہی تنظیم و تحریک، ہر مزاج، صلاحیت اور ذوق کے افراد اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ اہل کارواں کا ہم منزل اور ہم مقصد ہونا ضروری ہے لیکن سب کا ہم مزاج ہونا ضروری نہیں۔ امیر کارواں کے لیے تمام صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری نہیں اور نہ یہ ہرجگہ ممکن ہے۔ البتہ اس کے لیے ایسا ہونا ضروری ہے کہ وہ مختلف مزاج اور صلاحیتوں کے حاملین کو مطمئن رکھ سکے، دل جوڑ سکے اور ساتھ لے کر چل سکے۔ اصول پرستی کے نام پر بے مروتی کرنے اور اپنے ماتحتوں اور کارکنوں کو ہر وقت کٹہرے میں کھڑا رکھنے کے شوقین حضرات جلد ہی نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔ اختیارات کے استعمال پر کمر بستہ لوگ جلد ہی تنظیم اور ادارے سے وابستہ اپنے ماتحتوں کو خود سے بدظن کر بیٹھتے ہیں۔
آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے امیر کارواں تھے، اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:فتح مکہ کے موقعے پر مسلمان ہونے والے ابو سفیانؓ، صفوانؓ بن امیہ، حکیمؓ بن حزام، سہیلؓ بن عمرو، حویطبؓ بن عبدالعزیٰ، ابوجہل کے بھائی حارثؓ بن ہشام کو سو سو اور تین تین سو اونٹ غزوۂ حنین کے مالِ غنیمت میں سے دیے۔ اسلام دشمنی میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے والوں پر حضورؐ کی مالی نوازشات دیکھ کر انصار کی زبانوں پر یہ شکوہ آگیاکہ رسولؐ اللہ نے قریش کے نومسلموں کو کثیر مال دیا اور ہمیں محروم رکھا، حالانکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک قریش کا خون ٹپک رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ جب مشکل وقت آتا ہے تو ہمیں پکارا جاتا ہے اور مال غنیمت اوروں کو دیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے انصار مدینہ کے یہ خیالات حضورؐ کو بتلائے تو آپؐ کو یہ سن کر دُکھ ہوا اور فرمایا:’’اللہ کی رحمت ہو حضرت موسٰی پر، بلاشبہہ ان کو ان کی قوم کی طرف سے زیادہ اذیت دی گئی اور انھوں نے صبر کیا‘‘۔
آپؐ کی ہدایت پر جب تمام انصار ایک خیمہ میں جمع ہو گئے تو آپؐ نے انصار کا موقف سنا اور پھر فرمایا:’’اے انصار! کیا ایسا نہیں کہ جب میں تمھارے پاس آیا تو تم گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعے تمھیں ہدایت عطا فرمائی۔ تم محتاج تھے، اللہ نے تمھیں غنی کر دیا۔ تم باہمی دشمنیوں کی آگ میں جھلس رہے تھے، میرے ذریعے اللہ نے تمھارے دل جوڑ دیے‘‘۔ سب انصار نے ان احسانات کا اعتراف کیا۔
آپؐ باتیں کرنے والوں کو گستاخ قرار دے کر ان کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرسکتے تھے لیکن آپؐ جانتے تھے کہ انصار کا یہ اضطراب مال کی حرص کی وجہ سے نہیں ۔ انھیں تو یہ دکھ تھا کہ وہ قریش جنھوں نے مکے اور مدینے میں حضورؐ کا جینا دوبھر کر دیا تھا، وہ آج آپؐ کی نظر کرم کے مستحق بن گئے ہیں۔ انصار نے حضورؐ اور صحابہ کے لیے قربانیاں ہی بہت دی تھیں چنانچہ حضورؐ نے انھیں ڈانٹنے کے بجائے اپنی ذات پر انصار کے احسانات خود بتانے کا دل نواز اسلوب اختیار کیا:
’’خداکی قسم، اے انصار! اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ اے محمدؐ! جب تمھاری قوم نے تمھیں جھٹلادیا تھا تو ہم نے تمھاری تصدیق کی تھی۔ تم قوم میں بے یارومددگار تھے تو ہم نے تمھاری مدد کی۔ تمھاری قوم نے تمھیں مسترد کر دیا تھا، ہم نے تمھیں ٹھکانہ دیا ۔ تم محتاج تھے، ہم نے تمھاری غمگساری کی۔ اگر تم یہ کہتے تو تمھارا یہ جواب سچا ہوتا اور سب اس کی تصدیق کرتے‘‘۔ انصار کے احسانات کا اعتراف کرکے آپؐ نے ان کے دل اپنی مٹھی میں لے لیے اور پھر فرمایا: ’’اے انصار! تم دنیا کی عارضی دولت کے لیے محمدؐ سے ناراض ہو گئے، جو میں نے نومسلموں کی تالیف ِقلب کے لیے ان کو دی ہے۔ اے انصار، کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو جائیں،جب کہ تم اللہ کے رسولؐ کو اپنے ساتھ لے کر گھروں کو پلٹو۔ خدا کی قسم! جس چیز کو لےکر تم جائو گے وہ اس چیز سے بہتر ہے جو وہ لے کر جائیں گے‘‘۔ ہر طرف سے ہچکیوں بھری آوازیں بلند ہوئیں:’’یارسولؐ اللہ! ہم راضی ہیں اس بات سے کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘۔
مزید فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! اگر ساری دنیا ایک راہ چلے اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں انصار ہی کی راہ چلوں گا۔ تم انصار میری چادر کا اندرونی حصہ ہو، جب کہ دوسرے لوگ بیرونی۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما۔ ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحم فرما‘‘۔
رسولؐ اللہ کے اس دل پذیر اور دل نواز خطاب کے دوران انصار اس قدر روئے کے داڑھیاں آنسوئوں سے تر ہو گئیں اور وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسولؐ ہیں۔ (بخاری، ابن ہشام بحوالہ الرحیق المختوم ، ص:۵۷۰-۵۷۲)
نومسلموں کی تالیف قلب کے لیے حضورؐ نے جو احسانات اور مالی نوازشات فرمائیں، ان لوگوں کی زندگی پر ان کے دیرپا اثرات مرتب ہوئے۔ سب سے بڑے دشمنِ اسلام ابوجہل کے بیٹے کو آپؐ نے امان دی تو وہ مسلمان ہو گئے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! جتنا مال و دولت خدا کی راہ سے روکنے کے لیے میں خرچ کیا کرتا تھا، اب اس کا دوگنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں گا۔ اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے جتنی لڑائیاں میں نے لڑی ہیں، اب اس کی راہ میں اُس سے دُوگنا جہاد کروں گا‘‘۔ (موطا امام مالک، مستدرک حاکم، ۳/۲۴۱)
عمان میں فتنۂ ارتداد کے سردار لقیط بن مالک کو عکرمہ نے قتل کرکے لوگوں کو اسلام پر قائم کیا۔ عمان کے دیگر قبائل اور خصوصاً بنی مہرہ کی سرکشی کو ختم کیا۔ یمن کے مرتدوں کے سردار کا زور توڑا۔ شام کے ایک معرکے میں دشمنوں کی صفوں میں بے دھڑک گھس گئے۔ جب خاندان کے لوگوں نے انھیں محتاط رہنے کے لیے کہا تو انھوں نے کہا:لات و عزیٰ کے لیے تو مَیں جان پر کھیلا کرتا تھا، آج خدا کے لیے جان بچائوں؟ خدا کی قسم! ایسا نہیں ہو سکتا۔ (اسد الغابہ، ۴/۶)
جنگ یرموک میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو مسلمانوں کو موت پر بیعت کی دعوت دی۔ چار سو مسلمان ان کے ساتھ مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے جن میں سے اکثر شہید ہوئے۔ عکرمہ کے دو بیٹے شدید زخمی ہوئے اور وہ خود شہید ہو گئے۔ عکرمہ نے تمام جنگوں میں بیت المال سے کچھ نہ لیا۔ وہ قرآن پر چہرہ رکھ کر کہا کرتے تھے: کتابُ ربّی، کتابُ ربّی، یہ کہتے ہوئے وہ زار و قطار روتے رہتے۔ (دارمی، ص:۲۰۷، مستدرک حاکم، ۳/۳۴۱، طبری، ص:۲۱۵)
قریش کے خطیب اور حدیبیہ میں قریش کے سفیر سہیلؓ بن عمر و فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ ان کے بیٹے ابوجندل کی سفارش پر حضور نے انھیں امان دی۔ رحلت ِنبویؐ کے بعد مکہ میں بھی ارتداد کی لہر اٹھی۔ یہ سہیلؓ بن عمرو تھے جن کی خطابت نے مرتدین اور مذبذبین کو اسلام پر راسخ کیا۔ جنگ یرموک میں ایک دستے کے سالار تھے۔ اپنے پورے گھرانے کو اس جنگ میں فدا کردیا اور خود بھی شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ، ۲/۳۷۲، الاستیعاب، ۲/۵۹۳)
حضرت ابوسفیان ؓ عہد فاروقی میںپورے خاندان کے ساتھ جنگ یرموک میں شریک ہوئے۔ ان کی ایک آنکھ غزوہ طائف اور دوسری آنکھ یرموک میں زایل ہو گئی۔ (استیعاب۲/۷۱۰)
ان چند مثالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ حضورؐ کی رحمت و رافت تھی جس کے باعث کفر کے بڑے بڑے ائمہ پاسبان اسلام بن گئے___ حقیقی قائد اپنے حکم کے سامنے گردنیں خم کرانے کے بجائے دلوں کو جھکانے والا ہوتا ہے۔ذاتی و خاندانی معاملات ہوں یا عوام الناس پر حکمرانی کرنا، احکام شریعت کا نفاذ ہو یا حدود کا اجراء، باہمی لین دین کا معاملہ ہو یا اداروں اور تحریکوں کی قیادت کرنا، ان سب امور کی انجام دہی میں نرمی و شفقت اور دل نوازی کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
دوسری صدی ہجری میں جب یونانی فلسفہ مسلمانوں کے درمیان بحث کا عنوان بنا تو ان علوم وافکار کے زیراثر، اُس زمانے کے ’دانش وروں‘ نے اسلامی عقائد کے بارے میں بے شمار اشکالات اور فکری مغالطوں کی تردید کے لیے فلسفیانہ سوالات کی عقلی بنیادوں پر تردید کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ مسلمانوں میں ایک نیاعلم، علم کلام وجود میں آیا، جس میں فلسفے کی طرح کسی بات کے اثبات وتردید کے لیے دلیل دینے کے طریقے رائج ہوئے۔ بلاشبہہ اس ذریعے سے اس دور کے اہلِ علم نے یونانی فلسفے کی زہر ناکی کا مؤثر علاج کیا۔ اس طرح نہ صرف عقلِ سلیم کو متاثر کیا بلکہ تہذیب نفس کا کام بھی کیا۔
امام غزالی [م:۵۰۵ھ/۱۱۱۱ء] نے اپنے زورِ استدلال سے یونانی فلسفہ سے مرعوب ذہنوں کے سامنے یونانی فلسفے کی کمزوری کو عیاں کیا۔ وہ قرآنی دلائل اور فلسفیانہ طرزِفکر رکھنے والے متکلمین کے دلائل کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’قرآنی دلائل غذا کی مانند ہیں، جس سے ہرانسان استفادہ کرتا ہے، جب کہ متکلمین کے دلائل دوا کی طرح ہیں جس سے کچھ لوگوں کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ قرآنی دلائل پانی کی مثل ہیں، جس سے دودھ پیتا بچہ اور تنو مند شخص، دونوں ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، جب کہ دوسرے دلائل [مرغن]کھانوں کی طرح ہیں، جن سے صحت مند اور طاقت ور لوگوں کو تو کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نقصان، لیکن دودھ پیتے بچے اس سے بالکل فائدہ نہیں اٹھا سکتے ‘‘ (علم الکلام ،ص۲۰)۔
مراد یہ کہ جن ذہنوں کو یونانی فلسفے نے پریشاں فکری میں مبتلا کر دیا ہو، ممکن ہے کہ منطقی دلائل سے ان کی تشفی ہو جائے، لیکن اس چیز کا امکان موجود ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ اسلوب الٹا شکوک وشبہات میں مبتلا کردے ، جب کہ قرآنی دلائل اپنی سادگی کے باعث غذا اور پانی کی طرح ہر ذہنی سطح کے فرد کی پیاس اور بھوک مٹا سکتے ہیں۔
امام فخرالدین رازی [م:۶۰۶ھ/۱۲۱۰ء] متکلمین وفلاسفہ کے امام ہیں اور مفسر قرآن بھی۔ وہ تـفسیرکبیر میں قرآنی طرزِ استدلال کی افادیت یوں بیان کرتے ہیں :’’قرآن کا دلیل دینے کا انداز عوام الناس کے ذہنوں کے زیادہ قریب ہے اور ان کی عقلوں میں بات بٹھانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ قرآنی دلائل کو انسانی ذہنوں کے قریب تر ہی ہونا چاہیے تا کہ خواص وعوام اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ پھر یہ ہے کہ قرآنی دلائل کا مقصد بحث ومناظرہ نہیں بلکہ صحیح عقائد کو دل نشین کرانا ہے اور اس مقصد کے لیے اس قسم کے دلائل دوسری قسم کے دلائل سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہوتے ہیں ‘‘ (تـفسیر کبیر،ج۲،ص ۹۸)۔
زندگی کے آخری دنوں میں امام رازی نے جو وصیت اپنے شاگرد ابراہیم اصبہانی کو تحریر کرائی ، اس میں بھی کلام وفلسفہ اور قرآن کے بارے میں انھوں نے کہا: ’’میں نے فلسفہ وکلام کے طریقوں کو آزمالیا، لیکن مجھے ان میں کوئی ایسا فائدہ نظر نہ آیا جو اُس فائدے کے برابر ہو، جو میں نے قرآن میں پایا ہے۔ اس لیے کہ قرآن، اللہ کی عظمت کو منواتاہے اور خواہ مخواہ کی باریک بینی اور موشگافی سے بچاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے، انسانی عقلیں ان طویل اور تنگ گھاٹیوں اور خفیہ راستوں میں بھٹک کر رہ جاتی ہیں ‘‘(طبقات الشافعیہ، ج۸،ص۹۱)۔
ابن کثیر [م: ۷۷۴ھ/۱۳۷۳ء]کے مطابق امام رازی نے لکھا ہے: ’’میں کلام اور فلسفے کے طریقوں کو آزما چکا ہوں۔یہ نہ تو کسی پیاسے کی پیاس بجھاسکتے ہیں اور نہ کسی بیمار کو شفا دے سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے تمام راستوں کے مقابلے میں قریب ترین راستہ قرآن کا راستہ ہے ‘‘ (البدایہ والنھایہ ، ج۱۳، ص۵۶)۔
امام ابن تیمیہ (م:۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء )کے مطابق متکلمین وفلاسفہ کے طرزِ استدلال میں غیر ضروری طوالت اور تکلفات سے کام لیا گیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :’’اہل کلام وفلسفہ نے مطالب الٰہیہ پر جو عقلی دلائل قائم کیے ہیں ، ان کے مقابلے میں قرآن مجید کے دلائل کہیں زیادہ مکمل، بلیغ اور مؤثر ہیں۔ پھر اس کے ساتھ وہ ان بڑے مغالطوں سے بھی پاک وصاف ہیں، جو فلسفیوں اورمتکلمین کے دلائل میں پائے جاتے ہیں ‘‘ (الرّد علی المنطقیین ،ص ۳۲۱،۲۵۵)۔
قرآنی استدلال کا آغاز خشک اور پیچیدہ متکلمانہ مقدمات سے نہیں ہوتا بلکہ ہر مخاطب کی ذہنی سطح کے اعتبار سے قرآن حجت پیش کرتا ہے ۔ حضرت یوسف ؑ کے پاس جب ان کے ہم نشین دوقیدی اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے، تو انھوں نے تعبیر بتانے کے وعدے کے ساتھ ان کے سامنے ایک سوال رکھا:
ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف ۱۲:۳۹) کیا بہت سے متفرق ربّ بہترہیں یا ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟
آقا وغلام کی معاشرتی حیثیت سے واقف ہر شخص کے لیے سوال کا یہ انداز جتنا عام فہم ہے، لامحالہ اس کا جواب ایک ہی ہے، خواہ اس سوال کا مخاطب اَن پڑھ ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ۔ یہ تو ممکن ہے کہ اس سوال کے جواب میں اَن پڑھ اتنا ذہنی وروحانی لطف نہ اٹھا ئے جتنا کہ ایک تعلیم یافتہ اس سے لذت پائے گا لیکن کوئی تعلیم یافتہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سوال عامیانہ ہے، میرے علمی مرتبے کے مطابق نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن جب یہ کہتا ہے کہ :
لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ۰ۚ (انبیاء ۲۱:۲۲) اگر آسمان اور زمین میں ایک اللہ کے علاوہ دوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین وآسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔
لہٰذا، اس آیت میں بتائی گئی حقیقت سے کسی سطح کا آدمی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ کوئی خاندان ہو یا ملک، اگر اس کے سربراہ ایک سے زائد ہوں گے تو نتیجہ کیا ہو گا۔
قرآن محسوس واقعات کے ذریعے غیرمحسوس حقائق پر استدلال کرتا ہے۔
اَبرہہ کے ہاتھیوں کے ساتھ آنے والے ۶۰ ہزار کے لشکر کے مقابلے کا تصور عرب کے منتشر قبائلی معاشرے میں ممکن ہی نہ تھا۔ اس موقعے پر خود مجاورینِ کعبہ (قریش) نے ۳۶۰بتوں کی موجودگی کے باوجود صرف ایک ربّ سے اپنے گھر کی حفاظت کی فریاد کی تھی، کسی دیوتا کو نہیں پکارا تھا۔ تمام جاہلی شاعری بھی اس واقعے پر گواہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس محسوس واقعہ کو یاد دلاتے ہوئے کس طرح غیر محسوس حقیقت کی طرف متوجہ کیا:
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ۱ۭ (الفیل۱۰۵:۱) تم نے دیکھا نہیں کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟
اصحاب الفیل کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ’تیرے ربّ ‘ یعنی محمد ؐ کے ربّ نے کیا۔ اس لیے کہ اس اکیلے ربّ کی طر ف تو محمد ؐ ہی دعوت دے رہے تھے، جب کہ مشرکین قریش کو تو ایک ربّ کی بات سننا بھی گوارا نہ تھی۔ حالانکہ اس حقیقت کا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ اپنی زبانوں سے اس کا اقرار خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر تمام سرداران قریش چالیس پینتالیس سال پہلے کر چکے تھے ۔
اسی طرح سورۂ قریش جو درحقیقت سورۂ فیل ہی کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے، محسوس واقعے کو غیر محسوس حقیقت کے ماننے پر متوجہ کرتی ہے ۔ دورجاہلیت میں عرب میں ہر طرف قافلے لٹتے تھے، لیکن مجاورینِ کعبہ ہونے کے باعث قریش کے تجارتی قافلوں کو عقیدت واحترام سے گزرنے دیا جاتا تھا۔ امن وامان کی اس گارنٹی کے باعث قریش کو عرب میں تجارتی اجارہ داری حاصل تھی اور حرم کے نذرانوں کی آمدن الگ تھی۔ عرب کی معاشی بد حالی اور بھوک کے زمانے میں قریش کو وافر سامانِ طعام ملا اور بدامنی کے خوف کے دنوں میں امن وامان ملا۔ اس کا وہ کیسے انکار کر سکتے تھے کہ یہ سب کچھ انھیں خانہ کعبہ کے متولی ہونے کی حیثیت سے ملا ہے ۔قرآن نے بھوک اور خوف کی جگہ کھانے اور امن کے محسوس واقعے کا حوالہ دے کر ربّ کی عبادت کی طرف متوجہ کیا:
فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَيْتِ۳ۙ الَّذِيْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ۰ۥۙ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ۴ۧ (القریش ۱۰۶:۳-۴) پس انھیں چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا ۔
قرآنی دلائل مخاطب کے اقرار پر مبنی ہوتے ہیں یا ایسے قوانین فطر ت کے بیان پر مبنی ہوتے ہیں، جو کائنات میں اٹل اور مستقل اصول کی حیثیت سے جاری ہیں ۔چونکہ قرآن کے مخاطب وجود باری کے منکر نہ تھے، اس لیے وجود باری پر براہ راست دلائل دینے کے بجائے بالواسطہ طور پر صفات باری کے بیان کے ذریعے ایسے خالق کا وجود منوایا گیا، جو قادر مطلق اور خلّاق عظیم ہے، جو قہّار وجبّار ہونے کے ساتھ ستّاروغفّار ہے، جو بصیر وعلیم ہونے کے ساتھ رحیم وکریم ہے۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے شرک کے بودے پن کو نمایاں کیا گیا:
ان سے پوچھو، کون تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جان دار کو اور جان دار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ اور کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو پھر اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں ہو ؟ (یونس ۱۰:۳۱)
مخاطب عوام ہوں یا ان کے اہل فکر، خدا کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے تھے، البتہ شرک کرتے تھے۔ وجود باری پر دلیل اس لیے نہیں دی گئی کہ دلائل کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں دلیل دعوے سے زیادہ واضح ہو۔ یہاں تو دعویٰ بذات خود واضح تھا۔
علوم قرآن کے ماہرین نے قرآنی دلائل کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا ہے :
(۱) دلائل عقلی (۲) دلائل نقلی ۔
دلائل عقلی کی بنیاد یہ آیت ہے :سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہٗ الْحَقُّ ط (حم السجدہ ۴۱:۵۳) ’’عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی ، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘۔
امام قرطبیؒ نے آفاق وانفس کا یہ مفہوم نقل کیا ہے:’’آفاق سے مراد ہیں آسمانوں اور زمین کے اطراف میں موجود قدرت کی نشانیاں، مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات اور دن ، ہوائیں اور بارشیں ، گرج چمک، کڑک، سبزہ ،درخت، پہاڑاور دریا وغیرہ،اور انفس میں انسانوں کے نفسوں میں لطیف صنعت اور عجیب وغریب حکمت کی جانب اشارہ ہے ‘‘ (تفسیر قرطبی،ج۱۵، ص۲۴۴)۔
مولانا مودودیؒ [م:۱۹۷۹ء] آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ آفاق ارض وسماء میں بھی اور انسانوں کے اپنے وجود میں بھی لوگوں کو وہ نشانیاں دکھائے گا، جن سے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن جو تعلیم دے رہا ہے، وہی برحق ہے ‘‘ (تفہیم القرآن ،ج۴،ص ۴۷۰)۔
مولانا امین احسن اصلاحی ؒ[م: ۱۹۹۷ء]کے مطابق :’’آفاقی دلائل سے مراد کائنات میں موجود شواہد ہیں۔ مثلاً رات دن کا تسلسل ، سورج اور چاند کی گردش ،ہوائوں کے تصرفات ،پہاڑوں اور سمندروں کے عجائبات، وسائل رزق کا انتظام وغیرہ۔ دلائل انفس سے مراد انسانی نفسیات اور اس کے اندر ودیعت کردہ حقائق ومسلمات ہیں ‘‘۔ (اصول فہم قرآن ،ص۹)
اسی بات کو ایک جگہ یوں فرمایا: وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ۲۰ۙ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۲۱ (الذاریات ۵۱:۲۰-۲۱) ’’زمین میںبہت سی نشانیاں ہیں یقین والوں کے لیے اور خود تمھارے اپنے وجود میں ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟‘‘۔
’نفس لوّامہ‘ کیا ہے؟ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق یہ وہ نفس ہے، جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پرنادم ہوتا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ’ضمیر‘ [Conscience] کہتے ہیں: اس ضمیر میں لازماً برائی اور اچھائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے۔ اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور بُرائی کی تمیز پائی جاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور بُرے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور جس برائی کا ارتکاب اس نے دوسروں کے ساتھ کیا ہو، اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دبا کر خوش بھی ہو لے ، تو اس کے برعکس صورت میں، جب کہ اُسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اس کے ساتھ کیا ہو،اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔ اب اگر انسان کے وجود میں اس طرح کے ایک نفس لوامہ کی موجودگی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ یہی نفس لوّامہ زندگی بعد ِموت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے ،کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور بُرے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے، ان کی جزا یا سزا اس کو ضرور ملنی چاہیے، زندگی بعد موت کے سوا کسی صورت میں پورا نہیں ہو سکتا ‘‘ (تفہیم القرآن ج۶،ص۱۶۳)۔
اسی سورت میں آگے یہ فرمایا:
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِہٖ بَصِيْرَۃٌ۱۴ۙ وَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَہٗ۱۵ (القیامۃ ۷۵:۱۴-۱۵) بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے ۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:’’ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے؟ اپنے آ پ کو جاننے کے لیے وہ اس کا محتاج نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا اسے بتائے کہ وہ کیا ہے؟ ایک جھوٹا دنیا بھر کو دھوکا دے سکتا ہے، لیکن اسے خود تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ ایک گمراہ آدمی ہزار دلیلیں پیش کرکے لوگوں کو یہ یقین دلا سکتا ہے کہ وہ جس کفر یا دہریت یا شرک کا قائل ہے ، وہ درحقیقت اس کی ایمان دارانہ رائے ہے، لیکن اس کا اپنا ضمیر تو اس سے بے خبر نہیں ہوتا کہ ان عقائد پر وہ کیوں جما ہوا ہے؟ ‘‘ (تفہیم القرآن ،ج۶،ص۱۶۷)۔
کہیں انسان کے غرور نفس اور اللہ کے سامنے اس کی بے بسی کو یوں بیان کیا :
يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِ۶ۙ الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۷ۙ فِيْٓ اَيِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۸ۭ (الانفطار۸۲:۶-۸) اے انسان!کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا ، تجھے متناسب بنایا، اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟
بے شک آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے اختلاف میں، اُن کشتیوں میں جو لوگوں کی نفع رسانی کی چیزیں اٹھائے دریائوں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے مُردہ زمین کو زندہ کیا اور اس میں ہرقسم کے چوپائے پھیلائے ، ہوائوں کی گردش میں اور بادلوں میں جو زمین وآسمان کے درمیان پابند ہیں ، عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں (البقرہ ۲:۱۶۷)۔
اس آیت میں گیارہ چیزوں کو توحید کے حق میں دلائل کے طورپر پیش کیا گیا۔ سورئہ انعام کی آیات ۹۰ تا ۹۹ میں اللہ نے سترہ چیزوں کو اپنی توحید کے اثبات میں دلائل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ سورۂ نحل کی آیات ۳ تا ۱۳ میں زمین وآسمان ، جانوروں اور پرندوں کی تیرہ نشانیوں کو علم وحکمت رکھنے والی ذات واحد کے وجود کی کھلی دلیل قرار دیا۔ اس موضوع پر سیکڑوں آیات ہیں جو انتہائی عام فہم اور دل نشین انداز میں اللہ کی یکتائی کے اوپر قطعی دلیل ہیں اور ان سے جہاں ایک تعلیم یافتہ آدمی اپنی ذہنی وفکری رہنمائی کا سامان پاتا ہے وہاں ایک اَن پڑھ دیہاتی بھی ان پر جھوم اٹھتا ہے ۔
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶) اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیااور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ‘‘۔
سورۂ اعراف میں حضرت نوحؑ ،حضرت ہودؑ، حضرت صالحؑ، اور حضرت شعیب ؑ اپنی اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے ایک ہی جملے کا بار بار تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں :
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط (اعراف ۷:۵۹،۶۵،۷۳،۸۵) اے میری قوم !اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے ۔
مختلف مقامات پر قرآن نے حضرت ابراہیم ؑ ،حضرت موسٰی، حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت بھی یہی بیان کی ہے :
وَ اِبْرٰھِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوْہُ ط (عنکبوت ۲۹:۱۶) اور ابراہیم ؑنے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرو ۔
اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو پہلی وحی میں یہ تاکید کی :
اِنَّنِیْٓ اَنَـا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَافَاعْبُدْنِیْ لا (طہٰ ۲۰:۱۴)بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، پس تو میری بندگی کر۔
وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ ط (المائدہ ۵:۷۲) مسیحؑ نے کہا: اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی ۔
ہم ان (اصحاب کہف) کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیئے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ’’ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے ۔اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔ (پھر انھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا )’’یہ ہماری قوم تو رب کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟‘‘ (الکہف ۱۸:۱۳-۱۴)
تفہیم القرآن کے مطابق یہ نوجوان ۲۵۰ء سے ۴۴۶ء تک ،یعنی تقریباً دو سو سال تک سوئے رہے ۔ ترکی کے شہراز میر (سمرنا) کے قریب شہر افسس کے کھنڈرات موجود ہیں، جہاں مشرک باد شاہ دقیانوس یا دَقیُوس کے ظلم کے باعث وہ غار میں پناہ گزیں ہوئے اور عیسائی باد شاہ تھیوڈوسیس ثانی کے دور میں بیدار ہوئے (تفہیم القرآن، ج ۳،ص ۱۳)۔
قرآن میں ایک واقعہ ’اصحاب الاخدود‘ کے مقابل ان اولیاء اللہ کا بیان ہوا ہے، جنھوں نے ’اصحاب الاخدود‘ کے وحشیانہ مظالم کے مقابلے میں صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر عقیدۂ توحید کے برحق ہونے کی شہادت دی تھی :
مارے گئے گڑھے والے۔ (اس گڑھے والے ) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ جب کہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے ، اسے دیکھ رہے تھے۔ اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خد ا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے، جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔ (البروج ۸۵:۴-۹)
ابن ہشام، طبرانی اورابن خلدون کے مطابق نجران (یمن ) کے یہودی باد شاہ ذونواس نے دین مسیح کے بیس ہزار پیروکار وں کو اپنا دین ترک نہ کرنے کی پاداش میں آگ میں بھرے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا۔ (تفہیم القرآن ،جلد ۶ ،ص ۲۹۷-۲۹۸)
یہ واقعہ اکتوبر ۵۲۳ء میں پیش آیا تھا ۔ نزول قرآن سے تقریباً نوے سال قبل کے اس واقعہ کو قرآن نے ایک تاریخی دلیل کے طور پر نقل کیا ہے کہ اولیاء اللہ صرف اللہ کی عبادت کرتے اور غیبی امداد کے لیے اسی کو پکارتے تھے ۔
اوّلین سیرت نگارابن اسحاق [م:۱۵۰ھ/۷۶۸ء]کے مطابق یثرب کے خاندان عمروبن عوف (بنو اوس ) کا ایک شخص سوید بن صامت حج کے لیے مکہ آیا۔ وہ اپنی قوم میں ’’الکامل ‘‘ کے لقب سے مشہور تھا۔ حضورؐ سے ملاقات میں اس نے بتایا کہ اس کے پاس لقمان کی حکیمانہ باتوں کا مجلّہ ہے ۔ اس نے اس میں سے جب کچھ سنایا تو آپؐ نے ان باتوں کو سراہا اور فرمایا: میرے پاس اس سے بھی بہتر کلام ہے ۔ پھر قرآن پڑھ کر سنایا تو سوید نے قرآن کی تعریف کی۔ یثرب پہنچنے کے بعد اسے بنوخزرج نے قتل کر دیا۔ ان کے خاندان کے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ مسلمان ہو چکا تھا۔ (سیرت ابن ہشام ،ص۳۷۳-۳۷۴)
قرآن نے حکیم لقمان کی باتیں نقل کی ہیں:
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا: ’’بیٹا، خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘ ۔ (لقمان ۳۱:۱۳)
مولانا مودودی آیت کے سیاق وسباق میں لکھتے ہیں :’’شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمھارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل ودانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمھارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے ‘‘۔(تفہیم القرآن ،ج ۴ ،ص ۱۳)
( لقمان نے کہا تھا) کہ ’’بیٹا کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو، اللہ اسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بین اور باخبر ہے۔ بیٹا، نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر ، نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر، اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۶-۱۹)
’’اے نبیؐ !کہو ، ’’اے اہل کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طر ف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے ‘‘۔ (اٰل عمٰرن ۳:۶۴)
نبی آخر الزماںؐ پر ایمان کے لیے سابقہ کتب میں ان کے ذکر کو بنیاد بنا یا گیا : (رحمت کے حق دار تو وہ ہیں) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تو رات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے ‘‘۔ (اعراف ۷:۱۵۷)
’’اور جب عیسیٰ ؑابن مریم نے کہا تھا کہ ’’اے بنی اسرائیل ،میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں،تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا ‘‘۔(الصف ۶۱:۶)
مولانا رحمت اللہ کیرانوی [م:۱۸۹۱ء] نے اپنی کتاب اظہار الحق میں تورات وانجیل کی بے شمار عبارات اور کتب حدیث وسیرت سے علمائے اہل کتاب کے مستندوواقعات جمع کردئیے ہیں جن سے رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوتی ہے ۔ مثلاً نجاشی [م:۶۳۲ء] حبشہ نے حضرت جعفر طیارؓ [شہادت: ۶۲۹ء]کی تقریر پر کہا: اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللہِ صَادِقًا مُصَدِّقًا ، وَقَدْ بَایَعْتُکَ وَبَایَعْتُ ابْنَ عَمِّکَ اَیْ جَعْفَرَ بْنَ اَبِی طَالِبٍ، وَاَسْلَمْتُ عَلٰی یَدَیْہِ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ ،’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے سچے اور تصدیق کرنے والے رسولؐ ہیں۔ میں آپؐ کی اور آپؐ کے چچازاد بھائی یعنی جعفربن ابی طالب کے ہاتھوں بیعت کرتا ہوں اور اُن کے ہاتھوں اپنے آپ کو اللہ ربّ العالمین کے سپرد کرتا ہوں‘‘ (اظہار الحق ، ج ۲، ص۴۲۲)۔
کیا ان (اہل مکہ ) کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں کہ اسے علمائے بنی اسرائیل جانتے ہیں؟ (الشعراء ۲۶: ۱۹۷) ۔
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس (قرآن) پر سچّے دل سے ایمان لے آتے ہیں (البقرہ ۲:۱۲۱) ۔
جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو جاتی ہیں۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ’’اے پرور دگار، ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے‘‘ (المائدہ ۵:۸۳)۔
ابن اسحاق کے مطابق جب محمدؐ کی نبوت کی خبر حبشہ پہنچی تو وہاں کے بیس عیسائیوں کا وفد مسجد حرام میں آپؐ سے آ کر ملا۔ ان کے سوالات کا جواب دینے کے بعد آپؐ نے انھیں قرآن سنایا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ آپ پر ایمان لے آئے ۔ (ابن ہشام ،ص۳۳۸)
دل ودماغ میں بات اُتارنے کا وہی طرزِ استدلال سب سے زیادہ مؤثر اور فطری ہے، جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ قدیم علم کلام اور جدید سائنسی طرزِ استدلال کی جزوی افادیت کو تسلیم کرنے کےباوجود علما اور داعیانِ دین کے لیےلازم ہے کہ وہ اپنی تحریر و تقریر اور بحث و گفتگو میں قرآن کے اسلوبِ استدلال کو اپنائیں، جس میں عقلی و نقلی دلائل کا توازن ہو۔ کائنات کے ساتھ ساتھ خود نفس انسانی پر غوروفکر کی دعوت ہو۔ انبیاء اور ا ولیاء کے ساتھ ساتھ قدیم وجدید خداپرست اہلِ دانش کے فکرو عمل کا حوالہ ہو اور خدا بیزار قدیم وجدید تہذیب و اقوام کی تباہی کے بیان میں عبرت و موعظت کا سامان ہو۔
دعوت وتبلیغ کے دوران قرآن سنانے کا التزام جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، اسی چیز کا اہتمام کرنا آپؐسے تربیت پانے والے صحابہ کرامؓ کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔
نبوت کے پانچویں سال قریش کے مظالم سے تنگ سو کے قریب مسلمان مردوخواتین جب ہجرت کر کے حبشہ پہنچ گئے تو قریش کو یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ ان کے آبائی دین کے باغی ایک دوسرے ملک میں امن وعافیت کی زندگی گزاریں اور ان کا دین وہاں پھلے پھولے۔چنانچہ قریش کے ایک اجتماعی فیصلے کے تحت سیاسی وسفارتی امور کے ماہر عمروبن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کی دورکنی سفارت حبشہ کے دربار میں بھیجی گئی۔ اس سفارت نے وہاں پہنچ کر پہلے درباری امرا اور عیسائی پیشواؤں کو قیمتی تحائف پیش کر کے انھیں اپنے موقف کا ہم نوا بنایا۔انھیں اس نئے دین کے خطرے سے آگاہ کیا جس کے ماننے والے حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے تھے اور کہا کہ یہ لوگ آپ کے مذہب کے لیے بھی اتنا ہی خطرہ ہیں جتنا ہمارے آبائی دھرم کے لیے۔
پھر نجاشی کے دربار میں پہنچ کر اسے شاہی آداب کے مطابق سجدہ کیا، رؤسائے مکہ کی طرف سے اعلیٰ عربی نسل کا گھوڑا اور نفیس ترین ریشمی جبہ بطور نذرانہ پیش کیا اور باد شاہ سے درخواست کی کہ آپ کے ملک میں ایک نئے دین کے پیرو کار ہمارے پیچھے بھاگ کر آ گئے ہیں ۔ ہمیں ان کے سرپرستوں نے اس لیے بھیجا ہے کہ آپ انھیں ہمارے ساتھ واپس بھیج دیں تا کہ وہ آپ کے پُرامن ملک میں اپنی تبلیغ سے کوئی فتنہ نہ کھڑا کر دیں جیسے انھوں نے مکہ میں کیا ہوا ہے ۔ درباری امرا اور پادریوں نے ان کے موقف کی حمایت کی لیکن نجاشی نے کہا کہ دوسرے فریق کی بات سنے بغیر فیصلہ کرنا خلاف انصاف ہو گا۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی دربار میں حاضری کا حکم ہوا۔ جب مسلمان دربار میں حاضر ہوئے تو انھوں نے شاہی آداب کے مطابق نجاشی کو سجدہ نہ کیا تو درباریوں نے اس پر ناک بھوں چڑھایا۔ مہاجرین کے ترجمان حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب نے عمروبن عاص کے پیش کیے گئے موقف کی ایک ایک دلیل کا توڑ کیا، پھر دین اسلام اور اللہ کے رسولؐ کی رسالت کے خصائص اور نمایاں تعلیمات بتائیں۔ اور آخر میںنجاشی کی خواہش پر سورئہ مریم، سورئہ کہف، سورئہ روم اور سورئہ عنکبوت کے ابتدائی حصے تلاوت کیے۔
اکثر روایات میں صرف سورۂ مریم کے ابتدائی حصے کے پڑھنے کا ذکر ملتا ہے لیکن شیخ عبداللہ بن محمدبن عبدالوہاب نے کتاب مختصر سیرت الرسول میں ان چار سورتوں کے پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ یہ چاروں سورتیں ہجرت حبشہ کے قریبی زمانے میں نازل ہوئی تھیں اور سورۂ کہف کی ابتدا میں دین مسیح قبول کرنے کے نتیجے میں باد شاہ کے مظالم سے بچنے کے لیے غار میں پناہ لینے والے چند نوجوانوں کا تحسین آمیز ذکر ہے ۔ سورۂ روم میں روم کے عیسائی حکمرانوں کے غلبے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جب کہ اس وقت ایران نے رومی عیسائیوں کا بھرکس نکال دیا تھا اور سورۂ مریم میں حضرت یحییٰ ؑو مریم ؑکی پاکیزگیِ کردار اور حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدایش کا ذکر ہے۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ مسیحی باد شاہ کے دربار میں حکمتاً حضرت جعفرؓ نے ان حصوں کا انتخاب کیا۔
تمام روایات میں ذکر ہے کہ آیات الٰہی سن کر نجاشی پر رقّت طاری ہو گئی ،آنکھیں پُرنم ہوگئیں اور بے اختیار وہ پکار اُٹھا:’’خدا کی قسم! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں۔ یہ تو وہی رسول ہیں جن کی خبر یسوع مسیح ؑنے دی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے ان کا زمانہ ملا‘‘۔
نجاشی نے مکے کی سفارت کو کہا کہ میں ان لوگوں کو تمھارے سپرد نہیں کروں گا۔اگلے دن عمروبن عاص نے پادریوں سے مل کر باد شاہ کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کے لیے دربار میں یہ مسئلہ اٹھادیا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ ؑکو عیسائیوں کی طرح اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔ یہ بڑا نازک مسئلہ تھا۔ اگر مسلمان نجاشی کے عقیدہ کے خلاف اپنا عقیدۂ توحید بیان کرتے تو نجاشی کی مذہبی عصبیت ان کے خلاف بھڑک سکتی تھی لیکن مسلمانوں نے سچی بات کے کہنے کا عزم کیا اور بھرے دربار میں کہا کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ کے بندے ، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری اور پاکدامن حضرت مریم ؑکی طرف القاء کیا اور یہ کہنے کے بعد حضرت جعفر طیارؓ نے سورئہ مریم کے ابتدائی دورکوع تلاوت کیے۔
یہ سن کر نجاشی نے اپنی مسواک سے ایک بار یک تنکا لیا اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’واللہ جو کچھ تم نے بیان کیا ہے، حضرت عیسیٰؑ اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہ تھے۔ یہ ضرور وہی رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ؑ نے دی تھی، جن کا تذکرہ ہم انجیل میں پاتے ہیں۔اللہ کی قسم! اگر باد شاہت کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے جوتے اٹھاتا‘‘۔ اپنے غلط عقیدے کی عصبیت میں جب پادری بُڑ بُڑائے تو نجاشی نے انھیں بھی یہی حقیقت بیان کی ۔ نجاشی نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے والوں پر جرمانہ عائد کر دیا۔ اہل مکہ کے تحائف انھیں واپس لوٹا دیئے۔ شاہی مصلحت کے تحت اس نے اپنے قبولِ اسلام کا اظہار تو نہ کیا البتہ چند سال بعد وہ علانیہ مسلمان ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت جعفر طیارؓ نے دونوں مرتبہ اپنی تقریر کے دوران قرآن سنایا اور اس کے حیرت انگیز اثرات مسلمانوں کے حق میں ظاہر ہوئے (مسند احمد، فتح الباری، ج۲، ص ۱۳۰، البدایہ،ج۳،ص ۶۹، بیہقی، طبرانی،ج۶، ص۳۱)۔
یہ کلام الٰہی کا ہی اعجاز تھا کہ کافروں نے درباری امراء وپیشواؤں کو اپنا ہم نوا بنایا، باد شاہ کو قیمتی تحائف دیے ،باد شاہ کےعقیدے کے خلاف ایک نازک بحث کو چھیڑا ، اس کے باوجود باد شاہ مسلمانوں کے حق میں مہربان رہا۔ایک حکمران قوم کے دربار میں اس کے عقیدے کے خلاف عقیدے کے بیان کو نہ صرف برداشت کرنا بلکہ سراہنا قرآن کی تاثیر سے ہی ممکن ہوا۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مدینہ کافاتح قرآن ہے۔ ابو نعیم نے امام زہری سے مروی یہ حدیث بیان کی کہ انصار مدینہ نے حضرت معاذ بن عفراء اور رافع بن مالک کو حضوؐرکی خدمت میں یہ پیغام دے کر مکے بھیجا کہ آپؐ اپنے ہاں سے ہمارے پاس ایک ایسا آدمی بھیج دیں جو لوگوں کو کتاب اللہ سنا کر دعوت دے ۔ کیونکہ اس کی بات ضرور قبول کی جائے گی۔ چنانچہ حضوؐر نے حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ مدینے بھیج دیا۔
اسی مضمون کی حامل ایک تفصیلی روایت حضرت عروہؓ بن زبیر سے مروی ہے کہ جب انصار قبول اسلام کے بعد یثرب چلے گئے تو اگلے سال حج کے موقع پرانھوں نے حضور ؐ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ دعوت دینے کے لیے کتاب اللہ کا عالم ان کے پاس بھیجیں ۔حضورؐ نے حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب روانہ کر دیا۔ وہ بنی غنم میں حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے ہاں ٹھیرے۔ وہ لوگوں کو حضورؐ کی باتیں بتاتے اور قرآن پڑھ کر سناتے، حتیٰ کہ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ مسلمان ہو گئے اور ان کے سرداروں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ یثرب میں حضرت مصعب ؓ بن عمیر کو ’مُقرِی(قرآن پڑھانے والا)کے نام سے پکارا جاتا تھا(حلیۃ الاولیاء،ج۱،ص۱۰۷)۔ طبرانی کی ایک روایت کے مطابق حضرت مصعب ؓ نے قرآن سنا کر انھیں حضورؐ اور دین کی طرف دعوت دی۔
حضرت مصعبؓ بن عمیر نے قرآن کے ذریعے کس طرح دعوت دی اور اس کے کیا اثرات ظاہر ہوئے؟ اس بارے میں عبداللہ بن ابی بکر کی ایک طویل اور دلچسپ روایت اوّلین سیرت نگار ابن اسحاق نے بیان کی ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ وہ حصہ بیان کریں گے جو براہِ راست ان کی دعوت بالقرآن سے متعلق ہے:
حضرت مصعبؓ نے نہایت تحمل سے کہا: ’’ذرا بیٹھ کر ہماری بات تو سن لو ۔ اگر پسند نہ آئے تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات سے رک جائیں گے‘‘۔ اسید نے جواباً کہا:’’تم نے انصاف کی بات کی ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے نیزہ زمین میں گاڑ کر مجلس میں بیٹھ گئے ۔حضرت مصعب ؓ نے اسلام کے بارے میں ان سے بات کی اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ قرآن سنتے ہی اُسید کے چہرے کی چمک اور رقت سے انھیں محسوس ہو گیا کہ یہ اسلام ضرور قبول کر لیں گے۔ چنانچہ اُسید نے کہا:یہ کتنا اچھا اور عمدہ کلام ہے۔پھر کلمۂ شہادت پڑھ کر داخلِ اسلام ہوگئے۔اس کے بعد حضرت اُسیدؓ نے ان دونوں سے کہا:’’میرے پیچھے ایک شخص ہے، میں اسے تمھارے پاس بھیجتا ہوں۔ اگر اس نے تمھاری بات مان لی تو ان کے قبیلے کا کوئی فرد بھی ان سے پیچھے نہ رہے گا‘‘۔یہ دیکھ کر حضرت اُسید ؓ بن حضیر جلدی جلدی سعد بن معاذ کے پاس گئے اور انھیں ایسی بات کہی کہ وہ مجلس کی طرف چل پڑے۔
سعد بن معاذ نے بھی کھڑے کھڑے انھیں بُرا بھلا کہا اور پھر اسعدؓ بن زرارہ سے کہا:’’اللہ کی قسم !اگر تم میرے خالہ زاد بھائی نہ ہوتے تو تم ہمارے محلے میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکتے‘‘۔حضرت مصعب ؓ نے ان سے کہا:’’اللہ کے بندے بیٹھ کر ہماری بات تو سن لو، اگر پسند آئے تو قبول کر لینا اور اگر پسند نہ آئے تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات پر اصرار نہیں کریں گے‘‘۔ یہ سن کر سعد نے کہا:’’آپ نے انصاف کی بات کہی ‘‘۔یہ کہہ کر انھوں نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑا اور مجلس میں بیٹھ گئے۔ حضرت مصعبؓ نے اسلام پیش کیا اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ موسیٰ بن عقبہ کا بیان ہے کہ انھوں نے سورئہ زخرف کی ابتدائی آیات سنائیں۔ قرآن سنتے ہی حضرت سعدؓ کے چہرے کی چمک اور نرمی سے دونوں مبلّغین نے محسوس کر لیا کہ یہ بھی اسلام قبول کر لیں گے۔ چنانچہ انھوں نے کلمۂ شہادت پڑھا۔ اور شام تک بنی عبدالا شہل کے تمام مردوعورت مسلمان ہو چکے تھے(البدایہ،ج۳،ص ۱۵۲)۔
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّيَۃُ وَالنَّطِيْحَۃُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ۰ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ۰ۭ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ ط (المائدہ ۵:۳) تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیاگیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اوروہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعالِ فسق ہیں۔
میں ان کو اسلام کی دعوت دینے لگا لیکن وہ اس کا انکار کرتے رہےبالآخر کچھ عرصے بعد وہ مسلمان ہو گئے(طبرانی ، مستدرک حاکم، ج۳،ص ۶۴۱، ہیثمی، ج۹، ص ۳۸۷)۔
lصحابہ کرامؓ میدانِ جنگ میں بھی دعوت بالقرآن کا اہتمام کرتے تھے اور وہ اس طریقے پر حضوؐر کے بعد بھی کاربند رہے۔واقدی کے مطابق جنگ یرموک (عہد فاروقی میں لڑی گئی) کے دن رومی لشکر کے سرداروں میں سے جرجہ نامی ایک سردار نے حضرت خالدؓ بن ولید سے اسلام کے متعلق بہت سے سوال کیے۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیے۔ ایک جواب یہ دیا کہ نبیؐ کے پاس آسمان سے خبریں آتی تھیں۔ وہ ہمیں قرآن سناتے تھے اور ہمیں معجزے دکھاتے تھے۔ جرجہ کو جب اطمینان ہو گیا تو اسی موقع پر وہ مسلمان ہو گئے اور پھر رومی فوج کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو گئے(البدایہ، ج۷،ص ۱۲، الاصابہ، ج۱، ص ۲۶۰)۔
عہد رسالتؐ میں باطل کے اوپر نظریاتی برتری کا سب سے بڑا ہتھیار مسلمانوں کی نظر میں قرآن تھا۔ جس کے سننے سنانے کے مواقع مسلمان پیدا کرتے رہتے تھے۔
مکے میں ایک مرتبہ اصحابِ رسولؐ آپس میں کہنے لگے کہ قریش نے آج تک با ٓواز بلند تلاوت نہیں سنی۔ کوئی ایسی صورت ہو کہ ان کے سامنے کلام الٰہی سنایا جائے۔یہ سن کر نوخیز لڑکے عبداللہ بن مسعودؓ نے فوراًخود کو اس کام کے لیے پیش کیا۔اگلی صبح جب حسب معمول حرم میں قریش کی مجالس برپا ہو گئیں تو حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے با ٓواز بلند قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ مشرکین مکہ کچھ دیر سکتے کے عالم میں سنتے رہے بالا ٓخر مشتعل ہو کر ابن مسعودؓ پر پِل پڑے۔ ان کے جسم کے کئی حصوں سے خون بہنے لگا۔ لیکن وہ پٹتے جا رہے تھے اور قرآن سناتے جا رہے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے جو سورت شروع کی تھی وہ مکمل ہو گئی ۔ ابن مسعودؓ جب سوجے ہوئے چہرے کے ساتھ اصحابِ رسولؐ کے پاس پہنچے تو انھوں نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا :’’اے ابن ام عبد! اسی خدشے کی وجہ سے ہم تمھیں روک رہے تھے‘‘۔یہ سن کر دبلے پتلے ابن مسعودؓ نے کہا:’’اللہ کی قسم! مشرکین کے بڑے بڑے سردار مجھے اتنے کمزور کبھی دکھائی نہ دیئے تھے جتنے وہ آج دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے توارادہ کر لیا ہے کہ کل پھر انھیں کلام الٰہی سناؤں گا۔ یہ سن کر سب صحابہؓ نے کہا:جس کلام کو سننا مشرکین کو سخت ناگوار تھا، اس کو تم نے ان کے کانوں تک پہنچانے کا حق ادا کردیا۔ اتنا ہی کافی ہے‘‘(سیرۃ ابن کثیر،ج۱،ص۴۴۴)۔
حضرت ابو بکرصدیقؓ بھی کافروں کو قرآن سنانے کے لیے دستیاب مواقع کو پورا استعمال کرتے تھے ۔حضرت ابو بکرؓ جب حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکل کر مکہ سے دور چلے گئے تو راستے میں انھیں قبائل احابیش کا سردار ابن دغنہ مل گیا۔ وہ آپؓ کے اخلاق فاضلہ کا قدر دان تھا۔ آپؓ کو اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ حضرت ابو بکرؓ جب اپنے گھر میں بلند آواز سے تلاوت کرتے اور کافروں کی عورتیں، بچے اور نوجوان مکانوں پر چڑھ کر اور دیواروں سے لگ کر آپؓ کی پُرسوز تلاوت قرآن سننے کے لیے جمع ہونے لگے تو کافروں نے ابن دغنہ پر دباؤ ڈالا۔ بالآخر اس نے حضرت ابو بکرؓ کو کہا کہ اگر وہ قرآن بلند آواز سے پڑھیں گے تو میں اپنی پناہ جاری نہ رکھ سکوں گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مجھے ایسی پناہ کی ضرورت نہیں جس میں مجھے تلاوت بھی اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت نہ ہو (ابن ہشام ،ص۳۲۳)۔
اللہ کے رسولؐ جس طرح دعوت دیتے ہوئے تلاوت قرآن کا اہتمام فرماتے تھے ایسے ہی لوگوں کے مسلمان ہو جانے کے بعد ان کی تربیت کے لیے بھی تعلیم قرآن کا اہتمام فرماتے۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد میں مکہ میں حضوؐر کے پاس ٹھیرگیا۔ آپؐ نے مجھے اسلام سکھایا اور میں نے کچھ قرآن بھی پڑھ لیا‘‘(طبرانی)۔
روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضورؐ کی تعلیم وتربیت کے باعث صحابہ کرامؓ خود بھی اپنے طور پر تعلیم قرآن کی مجالس کا اہتمام کرتے اور حضورؐ ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚ بِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۴۱ۭ (النساء۴:۴۱) ’’اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کو بلائیں گے اور آپ کو بھی ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے ‘‘۔پھر آپؐ نے فرمایا: ’’رُک جاؤ‘‘۔ میں جب تلاوت سے رک گیا تو دیکھا کہ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے(بخاری، کتاب التفسیر)۔
قرآن کو سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا وہ عمل ہے جس کے کرنے والے کو اللہ کے رسولؐ نے سب سے بہتر قرار دیا: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ (بخاری، نسائی، ترمذی، ابوداؤد)۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والے ہر نو مسلم کے لیے دین کو سمجھنے کے لیے قرآن سیکھنا ضروری قرار دیا۔گویا یہ ہر مسلمان کی تربیت کے لیے لازمی نصاب ہے۔
عمیر بن وہب جمحی نبیؐ کو قتل کرنے کے ارادے سے مکے سے مدینے پہنچا۔ حضوؐر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے قیدی بیٹے کی رہائی کے لیے آیا ہے جو جنگ بدر میں قید ہو گیا تھا۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہواور تم نے صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم کعبہ میں بیٹھ کر منصوبہ بنایا ہے۔ صفوان نے تیرا قرض اتارنے اور تیرے اہلِ وعیال کے زندگی بھر کے اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری لی ہے۔ یہ ایسا معاملہ تھا کہ صفوان اور عمیر کے سوا کسی اور کو اس کا علم ہی نہیں تھا۔ عمیر سمجھ گئے کہ یہ ضروراللہ نے انھیں بتایا ہے چنانچہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔اب رسولؐ اللہ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: فقّھوا ،اپنے بھائی میں دین کی سوجھ بوجھ پیدا کرو، قرآن پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کر دو(سیرت ابن ہشام، ص۵۹۵) ۔
مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ بھی حضورؐ کی طرح دعوت وتبلیغ میں تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ حضورؐ نومسلموں کو قرآن کے مختلف حصوں کی تعلیم کا اہتمام کرتے اور تعلیم قرآن کا اہتمام کرنے والے صحابہ کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے ۔ صحابہ کرامؓ کافروں کو قرآن سنانے کے مواقع پیدا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کی عظمت کلام کے سامنے وہ بے بس ہیں۔ مشرکین بھی قرآن کی تاثیر کلام سے خوف زدہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن کے سننے سنانے کے عمل کے نتیجے میں ان کے غلبے کا ٹوٹ جانا یقینی ہے:
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۲۶ (حم السجدہ۴۱:۲۶) یہ کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو، اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اسی طرح تم غالب آجاؤ۔
آج ہم جدید تعلیم یافتہ اور مغربی فکر سے متاثر لوگوں کو جدت پسندانہ مباحث سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ دشمن کو زیر کرنے کے لیے ہمیں ہتھیار اس چیز کو بنانے کی ضرورت ہے جس کا توڑ ہمارے دشمن کے پاس نہیں ہے اور وہ ہے اللہ کا کلام۔
دعوت واصلاح کے عمل کے مؤثر اور پائیدار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُس منہج سے زیادہ سے زیادہ قریب اور ہم آہنگ ہو جسے رسولِ اکرم ؐ نے اختیار کیا۔ بقول امام مالکؒ: اس قوم کے آخری حصے کی اصلاح بھی اس وقت تک نہ ہو گی جب تک وہ اسی طریقے کو نہ اختیار کرے جس طریقے پر ابتدا میں اصلاح ہوئی تھی۔ بعثت نبوی کا ابتدائی دور ہو یا بعد کے ادوار، اللہ کے رسولؐ کے دعوتی منہج میں تذکیر بالقرآن کی خصوصیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ آپ ؐ نے افراد کو دعوت دی یا قبائل کو، وفود کو تبلیغ کی یا شاہانِ وقت کو، آپؐ کی دعوتی گفتگو میں تلاوتِ قرآن کا التزام ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ نے آپ کو مکی دور میں ہی اس بات کی ہدایت کی تھی:
وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا كَبِيْرًا۵۲ (الفرقان ۲۵:۵۲)اور اس قرآن کو لے کر ان (کافروں)کے ساتھ بڑا جہاد کرو۔
گویا نظامِ باطل کو اگر چیلنج کرنا ہے تو مکی دور میں بھی جہاد کرنا ہو گا اور یہ جہاد قرآن کے ابلاغ کے ذریعے ہو گا۔ عرب کی اکھڑ اور جھگڑالو قوم کو ڈرانا بھی قرآن سنائے بغیر ممکن نہ تھا۔ فرمایا:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّـرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۹۷ (مریم ۱۹:۹۷) اس قرآن کو ہم نے آسان کر کے تمھاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوش خبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔
تمام انسانیت کو خبردار کرنے کے لیے بھی یہی مؤثر ذریعہ ہے:
ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوْا بِہٖ (ابراہیم ۱۴:۵۲) یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے ، تاکہ ان کو اس کے ذریعے سے خبردار کر دیا جائے۔
قرآن کی تاثیر ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ تلاوت کی تاثیر سے عرب کی اکھڑ اور جھگڑالو قوم نے اسلام قبول کیا اور جنھوں نے قبول نہیں کیا انھوں نے بھی اس کی تاثیر کا کھلے لفظوں اعتراف کیا۔ دوران دعوت قرآن سنانا نہ صرف سنتِ نبویؐ ہے بلکہ صحابہؓ کا عمل بھی ہے۔
قرآن کافروں کو انفرادی طور پر بھی اور ان کے مجمعوں کے اندر بھی سنایا گیا اور ان میں سے ہر ایک نے اس کی عظمت اور تاثیر کا اعتراف کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قریش کا سردار ولید بن مغیرہ نبی ؐ کے پاس آیا۔ آپ نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا ۔قرآن سن کر وہ نرم پڑ گیا۔ ابوجہل کو خبر پہنچی تو ولید کے پاس پہنچ کر اس نے کہا:’’اے چچا جان !آپ کی قوم آپ کے لیے مال جمع کرنا چاہتی ہے‘‘۔ولید نے پوچھا ’’کس لیے؟‘‘ ابو جہل نے کہا:’’آپ کو دینے کے لیے ، کیونکہ آپ محمد ؐ کے پاس اس لیے گئے تھے تا کہ آپ کو ان سے کچھ مل جائے‘‘۔ ولید نے کہا:’’قریش کو خوب معلوم ہے کہ میں ان میں سے سب سے زیادہ مال دار ہوں (مجھے محمدؐ سے مال لینے کی ضرورت نہیں )۔ ابو جہل نے کہا:’’تو پھر آپ محمد ؐ کے بارے میں ایسی بات کہیں جس سے قوم کو یقین ہو جائے کہ آپ محمد ؐ کے منکر ہیں‘‘۔ ولید نے کہا: ’’میں کیا کہوں ؟اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی آدمی مجھ سے زیادہ اشعار اور قصیدوں کا جاننے والا نہیں ہے۔ اللہ کی قسم !محمد ؐ جو کچھ کہتے ہیں، وہ ان میں سے کسی چیز کے مشابہ نہیں ہے۔ اللہ کی قسم !وہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں بڑی حلاوت اور کشش ہے اور ان کا کہا ہوا ایسا تناور درخت ہے جس کے اوپر کا حصہ خوب پھل دیتا ہے اور نیچے کا حصہ خوب سر سبز ہے۔ یہ کلام ہمیشہ اونچا رہنے والا ہے۔ کوئی کلام اس سے برتر نہیں ۔ ایسا کلام جو اپنے سے نیچے والے کلاموں کو تو ڑ کر رکھ دیتا ہے‘‘۔
ابوجہل نے کہا کہ آپ کی قوم اس وقت تک آپ سے راضی نہ ہو گی جب تک آپ محمد ؐ کے خلاف کچھ کہیں گے نہیں۔ولید نے کہا :’’اچھا اس بارے میں مجھے کچھ سوچنے دو‘‘۔کچھ دیر سوچ کر ولید نے کہا: ’’محمد کا کلام جادو ہے جسے وہ دوسروں سے سیکھ کر بیان کرتا ہے‘‘(بیہقی، البدایہ ، ج۳، ص۶۰؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۴،ص۴۴۳)۔
حضرت جابر ؓ بن عبداللہ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایات کے مطابق ایک دن قریش نے مشورہ کیا کہ محمد ؐ کو سمجھانے کے لیے ایسے آدمی کا انتخاب کیا جائے جو جادو کا جاننے والا ، کاہن اور سب سے بڑا شاعر ہو۔ عتبہ بن ربیعہ کے نام پر ان کا اتفاق ہوا کہ اس سے بہتر کوئی آدمی نہیں ۔ عتبہ بن ربیعہ قریش کے نمایندے کی حیثیت سے حضوؐر کے پاس آیا اور کہنے لگا:
’’اے بھتیجے :میں سمجھتا ہوں کہ آپ ہم سب سے بہترین خاندان والے اور سب سے اونچے مرتبے والے ہیں لیکن آپ نے ہمیں ایک ایسی مصیبت میں ڈال دیا ہے کہ کسی نے اپنی قوم کو ایسی مصیبت میں مبتلا نہ کیا ہو گا ۔ اس کی وجہ سے قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا ہے۔ اگر اس سے آپ کا مقصد مال جمع کرنا ہے تو آپ ؐ کی قوم آپ کے لیے اتنا مال جمع کر دے گی کہ آپ ہم سب سے زیادہ مال دار ہو جائیں ۔ اگر آپ باد شاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم سب آپ کو اپنا باد شاہ بنا لیتے ہیں۔ اگر آپ کو کسی عورت کی خواہش ہو تو قریش کی جس عورت سے چاہیں ہم آپ سے شادی کرا دیتے ہیں۔ اگریہ سب جنّاتی اثرات سے ہے تو قوم آپ کا علاج اپنے خرچے پر کروانے کے لیے تیار ہے۔ بشرطیکہ آپ اس دعوت سے باز آ جائیں‘‘۔
عتبہ کی بات سن کر رسولِ اکرمؐ نے پوچھا: ’’اے ابو الولید تم نے اپنی بات مکمل کر لی؟‘‘ عتبہ نے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘۔ اب حضور ؐ نے سورۂ حم السجدہ پڑھنا شروع کی۔ حتیٰ کہ آپ اس آیت پر پہنچے :فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ۱۳ۭ (۴۱:۱۳) ’’پھر اگر یہ منہ پھیرتے ہیں تو آپ کہہ دیں کہ میں تمھیں ایسی چنگھاڑ کے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسی چنگھاڑ (کا عذاب) عادوثمود پر آیا‘‘۔
یہ سن کر عتبہ اتنا گھبرایا کہ بے ساختہ اس نے آپؐ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا:بس کریں۔ پھر عتبہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا لیکن ان آیات سے وہ اتنا مرعوب ہوچکا تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ قریش کو کیا جواب دے۔ سرداران قریش نے اس کے اترے چہرے کو دیکھ کر دور سے ہی کہا:’’عتبہ جس شان کے ساتھ گیا تھا، ا س کا چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ اس شان کے ساتھ واپس نہیں آ رہا ہے‘‘۔ قریش کی مجلس میں پہنچ کر اس نے کہا :’’میں نے اس سے تمام طریقوں سے بات کی اور پھر محمد ؐ نے میری بات کا ایسا جواب دیا جو جادو ہے، نہ شعر اور نہ کہانت۔ اس نے جو کلام سنایا اللہ کی قسم !میرے کانوں نے ایسا کلام نہیں سنا ۔ اے قریش آج تم میری بات مان لو ، آیندہ چاہے نہ ماننا۔ اس آدمی کو اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ وہ تو اس کام کو چھوڑنے والا نہیں ہے۔ اگر وہ ان عربوں پر غالب آیا تو اُس کی برتری تمھاری برتری ، اُس کی عزت تمھاری عزت ہوگی۔ اور اگر عربوں نے اسے دبا لیا تو تمھارے آپس میں لڑے بغیر تمھارا مقصد پورا ہو جائے گا‘‘۔
یہ سن کر قریش نے کہا:’’اے ابو الولید !لگتا ہے تم بھی بے دین ہو گئے ہو‘‘ (دلائل النبوہ ، بیہقی ،ص۷۵؛ مجمع الزوائد ،ج ۶،ص۲۰، البدایہ، ج ۳،ص۶۲)۔
ان دو واقعات سے معلوم ہوا کہ ادبی وشعری ذوق رکھنے والے لوگ قرآن کی عظمت اور تاثیر کلام سے مرعوب تھے اور یہ بھی کہ کافروں کی بڑی سے بڑی بات کا مؤثر جواب وہی ہے جو آیاتِ قرآنی کے ذریعے دیا جائے۔ اسی طرح سیرت ابن ہشام میں بیان شدہ وہ واقعہ کہ ابوسفیان ، ابوجہل ، اخنس بن شریق اور ابن وہب ثقفی تین رات تک مسلسل حضور ؐ کی تلاوتِ قرآن چھپ کر سنتے رہے اور جب ایک دوسرے کے سامنے آتے تو نہ سننے کا وعدہ کرتے لیکن اگلے دن پھر ایک ایک کر کے سننے پہنچ جاتے اور قرآن کی عظمت کا اعتراف کرتے ۔حضرت عمر ؓ نے چھپ کر حضور ؐ سے قرآن سنا اور اس سے مرعوب ہوئے (ابن ہشام)۔
معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بلند آواز سے تلاوت کر کے دوسروں کو سنانے کے مواقع پیدا کرتے تھے ۔ اور یہ بھی کہ کافر قرآن کی تاثیر سے خوف زدہ تھے۔ قرآن نے ان کے اس خوف کو یوں بیان کیا ہے:
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۲۶ (حٰمٓ السجدہ ۴۱:۲۶)یہ کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو تا کہ تم غالب آ جاؤ۔
اعلانیہ تبلیغ کے آغاز میں جب قریش نے زائرین حرم کے سامنے اپنا مشترکہ موقف طے کرنے کے لیے اجتماع کیا اور اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کے کاہن، شاعر، دیوانے اور جادوگر ہونے کی تجاویز پیش ہوئیں تو ان کے سردار ولید بن مغیرہ نے ایک ایک تجویز کے بودے پن کو واضح کیا اور قرآن کی عظمت کا یوں اعتراف کیا:’’خدا کی قسم اس کلام میں بڑی حلاوت وشیرینی ہے۔ اس کی جڑ پائیدار اور شاخیں پھل دار ہیں۔ یہ پیغام غالب ہونے والا ہے، اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا اور یہ سب کو کچل کر رکھ دے گا‘‘ ( سیرۃ ابن ہشام، ص۲۳۳)۔
lحضرت امیر معاویہ ؓ راوی ہیں کہ ان کے والد ابو سفیان اپنی بیوی ہندہ کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھائے اپنے کھیت کی طرف چلے۔ میں بھی اپنی گدھی پر سوار ان دونوں کے آگے چل رہا تھا۔ میری نو عمری کا زمانہ تھا۔ اس دوران حضوؐر ہمارے پاس پہنچے ۔ میرے باپ نے مجھے کہا: ’’اے معاویہ ! تم سواری سے نیچے اتر جاؤ تا کہ محمد ؐ اس پر سوار ہو جائیں‘‘۔ چنانچہ میں اس سے اتر گیا اور حضوؐر اس پر سوار ہو گئے ۔ آپ کچھ دیر ہمارے ساتھ چلے اور پھر ہماری طرف توجہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اے ابو سفیان بن حرب، اے ہند بنت عتبہ !اللہ کی قسم تم ضرور مرو گے اور پھر تمھیں زندہ کیا جائے گا ۔ پھر نیکوکار جنت میں اور بد کار دوزخ میں جائیں گے اور میں تمھیں بالکل صحیح اور حق بات بتا رہا ہوں اور تم دونوں سب سے پہلے عذاب الٰہی سے ڈرائے گئے ہو‘‘۔ پھر حضوؐر نے سورئہ حٰمٓ السجدہ کی آیات حٰـمۗ۱ۚ تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۲ۚ سے لے کر قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ تک تلاوت فرمائیں۔ جب آپ اپنی بات سے فارغ ہوگئے تو گدھی سے اُتر گئے اور میں اس پر سوار ہو گیا۔ میری ماں ہند نے میرے باپ سے کہا: ’’کیا اس جادو گر کے لیے تم نے میرے بیٹے کو اس کی سواری سے اتارا؟ ابو سفیان نے کہا: ’’نہیں ! اللہ کی قسم وہ جادو گر اور جھوٹے نہیں ہیں‘‘ (طبرانی ، ابن عساکر، الہیثمی ج۴، ص۲۰، کنزالعمال ، ج ۷،ص۹۴)۔
اس حدیث کے مطابق حضوؐر نے پہلے فکرِ آخرت کے ذریعے دل کو نرم کرنے کی تدبیر کی اور پھر سورئہ حم السجدہ کی پہلی گیارہ آیات سنائیں جن میں قرآن کا تعارف اور قرآن سے لوگوںکی بے پروائی کا ذکر ہے ۔ پھر آپؐ کی رسالت اور توحید الٰہی اور اس کو نہ ماننے والوں کی تباہی کا ذکر ہے ۔ زمین و آسمان کی تخلیق اور وقوع آخرت پر دلیل دی گئی ہے۔
حضرت عمروؓبن عثمان اپنے والد حضرت عثمانؓ بن عفان سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ ارویٰ بنت عبدالمطلب (نبی ؐ کی پھوپھی) کے پاس ان کی بیمار پُرسی کے لیے گیا تو وہاں حضور ؐ بھی تشریف لے آئے۔ میں آپ ؐ کی طرف غور سے دیکھنے لگا تو آپ ؐنے مجھ سے پوچھا:’’اے عثمان!تم اس طرح مجھے کیوں گھور رہے ہو؟‘‘۔ میں نے کہا:’’میں اس بات پر حیران ہوںکہ آپ کا ہمارے ہاں بڑا مرتبہ ہے لیکن لوگ آپؐ کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کررہے ہیں ‘‘۔ یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا :لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ ۔ اللہ گواہ ہے کہ میں یہ سن کر کانپ گیا۔ پھر آپ ؐ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ۲۲ فَوَرَبِّ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ۲۳(الذاریات ۵۱:۲۲-۲۳) ’’اور آسمان ہی میں ہے تمھارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۔ پس قسم ہے آسمان اور زمین کے رب کی! یہ بات حق ہے۔ ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو‘‘۔ پھر حضوؐر کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے ۔ میں بھی آپؐ کے پیچھے چل دیا اور پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوا(الاستیعاب ،ج۲،ص۲۲۵ ، بحوالہ حیاۃ الصحابہ ، ج ۱،ص ۸۳)۔
ابن اسحاق کے مطابق حضرت ابو بکرؓ نے مسلمان ہونے کے بعد حضرت زبیرؓ بن عوام ، حضرت عثمانؓ بن عفان ،حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص ، اور حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو تبلیغ کی اور انھیں لے کر خدمت رسولؐ میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا ۔ انھیں قرآن پڑھ کر سنایا اور انھیں اسلام کے حقوق بتائے ۔ وہ سب ایمان لے آئے (مسند احمد، ابوداؤد، طبقات ابن سعد ، ج ۵،ص۵۱۰، البدایہ ، ج ۵،ص۳۲)۔
ابن اسحاق ہی کی روایت ہے کہ قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرو مکہ گئے تو قریش کے چند آدمی ان سے ملے اور انھیں کہا کہ ہماری قوم کے محمدؐ نا می شخص سے کوئی بات نہ کرنا۔ وہ ایسا جادو اثر کلام رکھتا ہے کہ جس کے ذریعے اس نے باپ بیٹے، بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان جدائیاں ڈال دی ہیں۔ انھوں نے اتنا اصرار کیا کہ طفیل دوسی کے بقول :میں نے حضوؐر کے کلام سے بچنے کے لیے کانوں میں روئی ٹھونس لی اور آپ ؐ سے دور رہنے کی کوشش کی۔ ایک صبح جب حضوؐر خانہ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو میں بھی آپؐ کے قریب کھڑا ہو گیا ۔ تمام تر احتیاط کے باوجود اللہ نے مجھے آپ ؐ کی تلاوت کے الفاظ سنا ہی دیئے ۔ مجھے وہ کلام بہت ہی بھلا محسوس ہوا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: ’’میری ماں مجھے روئے !میں ایک قبیلے کا سردار ہوں، خود شاعر ہوں، اچھے بُرے کلام میں تمیز کر سکتا ہوں ،کیا حرج ہے کہ میں محمد ؐ کی بات سنوں ۔ دل لگتی بات ہو گی تو قبول کر لوں گا۔ کوئی زبر دستی تو میرے ساتھ کر نہیں سکتا۔ چنانچہ میں خدمت رسولؐ میں حاضر ہو گیا۔ اپنی رُوداد سنانے کے بعد عرض کی:’’آپؐ اپنی دعوت میرے سامنے پیش کیجیے!‘‘ حضوؐر نے میرے سامنے اسلام کو پیش کیا اور قرآن سنایا ۔ اللہ کی قسم میں نے اس سے پہلے اس سے زیادہ عمدہ کلام اور انصاف والی بات نہیں سنی تھی، چنانچہ میں کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا (دلائل النبوہ للبیہقی، ص۷۸، طبقات ابن سعد ، ج۴،ص ۲۳۷ ، الاصابہ ، ج۲،ص۲۲۵)۔
ابن اسحاق کے مطابق حبشہ کے بیس عیسائیوں کا وفد حضوؐر کے پاس صحن حرم میں حاضر ہوا۔ رسولؐ اللہ سے جو سوالات وہ کرنا چاہتے تھے، جب کر چکے تو آپؐ نے انھیں اللہ کی طرف دعوت دی اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ جب انھوں نے تلاوت قرآن سنی تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ انھوں نے آپ ؐ کی نبوت کی تصدیق کی، ایمان لے آئے۔ جب وہ جانے لگے تو راہ میں ابو جہل نے انھیں دین اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کہا کہ ہم جاہلوں سے نہیں الجھتے تو اللہ نے سورۂ قصص کی آیت ۵۲ اور ۵۵ نازل فرما کر ان کی تعریف فرمائی: وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْہِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِـمِيْنَ۵۳ ’’اور جب انھیں قرآن سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ،ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں‘‘ (سیرۃ ابن ہشام،ص۳۳۸-۳۳۹)۔
حضرت علی کی ایک طویل روایت تلخیصاً ذکر ہے کہ بعثتِ نبوی کے دسویں سال حج کے موقع پر حضوؐر حضرت ابو بکرؓ اور حضرت علیؓ کے ہمراہ منیٰ میں تشریف لے گئے۔ آپؐ قبیلہ بنوشیبان کے خیمے میں پہنچے ۔ باہمی تعارف کے بعد حضور ؐ نے انھیں توحید و رسالت کے قبول کرنے اور اپنی حمایت کرنے کی دعوت دی تو قبیلہ کے ایک سردار مفروق بن عمرو نے کہا:’’اے قریشی بھائی آپ مزید کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟‘‘ آپ نے اس کے سوال کے جواب میں سورۃ الانعام کی آیات ۱۵۱ تا ۱۵۳ قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ سے لے کر ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ تلاوت فرمائیں ۔ جن کا ترجمہ ہے:’’ کہو ! کہ آؤ میں تمھیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمھارے ربّ نے تم پر پابندیاں عائد کی ہیں۔کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے حُسنِ سلوک کرتے رہنا، ناداری کے باعث اپنی اولاد قتل نہ کرنا کیونکہ تمھیں بھی اور انھیں بھی رزق ہم ہی دیتے ہیں اور بے حیائی خواہ ظاہری ہو یا پوشیدہ، اس کے پاس نہیں پھٹکنا اور کسی جان کو جس کے قتل کو اللہ نے حرام کر دیا ہے، قتل نہ کرنا سوائے حق کے۔ ان باتوں کی وہ تمھیں تاکید کرتا ہے تا کہ تم سمجھو۔ اور مالِ یتیم کے پاس بھی ہرگز نہ جانا سوائے اس طریقہ کے جو پسندیدہ ہو حتیٰ کہ یتیم جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو۔ ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ اور جب بات کہو انصاف کی کہو، خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ان باتوں کا اللہ تمھیں حکم دیتا ہے تا کہ تم نصیحت پاؤ۔نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی راستے پر چلو۔ اور راستوں پر نہ چلنا مبادا کہ اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ۔ اللہ تمھیں ان باتوں کا حکم دیتا ہے تا کہ تم پرہیز گار بنو‘‘(الانعام۶: ۱۵۱-۱۵۳)۔
مفروق جسے اپنی فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز تھا اللہ کا کلام سن کر کہنے لگا:’’اے قریشی بھائی ! آپ مزید کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ اللہ کی قسم یہ کلام جو تم نے سنایا ہے، زمین والوں کا کلام نہیں ہے اور اگر یہ زمین والوں کا کلام ہوتا تو ہم اسے ضرور پہچان لیتے ‘‘۔ اب حضور ؐ نے سورۃ النحل کی آیت ۹۰ کی تلاوت کی: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۹۰ ’’بے شک اللہ تمھیں انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بے حیائی اور بُرے کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے ۔وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم یاد رکھو‘‘۔ یہ سن کر مفروق نے کہا: اے قریشی بھائی !اللہ کی قسم !آپ نے بڑے عمدہ اخلاق اور اچھے اعمال کی دعوت دی۔
اس کے بعد قبیلہ کے دوسرے سرداروں ہانی بن قبیصہ اور مثنیٰ بن حارثہ نے بھی آپؐ کی دعوت اورر قرآن کی عظمت کا اعتراف کیا۔ البتہ انھوں نے اپنی علاقائی اور قبائلی مجبوریوں کے پیش نظر غوروفکر کی مہلت مانگی اور حضور ؐ نے بھی ان کی سچائی پر مبنی بات کو سراہا (چند سال بعد یہ قبیلہ مسلمان ہوا اور ان کے سردار مثنیٰ بن حارثہ نے ایک کمانڈر کی حیثیت سے عراق اور ایران کی فتوحات میں بنیادی کردار اداکیا)۔ بنو شیبان کے بعد حضور ؐ اوس وخزاج کی مجلس میں پہنچے ۔ ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کی اور وہاں بھی قرآن کی تلاوت کی۔ مجلس سے اٹھنے سے پہلے ہی نعمان بن شریک اور دیگر کئی افراد مشرف بہ اسلام ہوئے(بیہقی ، حاکم،ابو نعیم، فتح الباری، ج ۷، ص۱۵۶، سیرۃ ابن کثیر ، ج ۲،ص۱۲۹)۔
ابن اسحاق کے مطابق سوید بن صامت حج کی لیے یثرب سے مکہ آئے۔ ان کے حسب نسب ، جسمانی قوت اور شعرو شاعری میں پختگی کے باعث ان کی قوم انھیں ’الکامل‘ کہتی تھی۔ رسول اللہ نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو یہ کہنے لگے:’’غالباً آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی سے ملتا جلتا ہے جو میرے پاس ہے‘‘۔ آپ نے پوچھا:’’تمھارے پاس کیا ہے؟ سوید نے کہا: ’’حکمتِ لقمان‘‘۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ سناؤ۔ انھوں نے سنایا تو آپ ؐنے اس کی تعریف کی اور ساتھ فرمایا:’’میرے پاس اس سے بھی زیادہ عمدہ کلام ہے جو اللہ نے مجھ پر نازل کیا ہے ، وہ ہدایت ہے اور نور‘‘۔ اس کے بعد آپ ؐ نے قرآن کا کچھ حصہ تلاوت کیا اور انھیں اسلام کی دعوت دی۔ یہ سن کر سوید بولے:’’یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے‘‘ اور مسلمان ہو گئے (ابن ہشام،ص:۳۷۲-۳۷۴)۔
خبیب بن عبدالرحمٰن کی روایت ہے کہ حضرت اسعدؓ بن زرارہ ، اور حضرت ذکوان ؓ بن عبدقیس، سردارِ قریش عتبہ بن ربیعہ سے اپنا ایک فیصلہ کروانے کے لیے یثرب سے مکہ پہنچے ۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے نبی ؐ کے بارے میں کچھ سنا تو وہ دونوں حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ وہ دونوں مسلمان ہو گئے اور عتبہ بن ربیعہ کے پاس بھی نہیں گئے، واپس مدینے آ گئے ۔مدینہ میں یہ اوّلین مسلمان تھے (طبقات ابن سعد، ج۳، ص۳۴۷)۔
l ابن اسحاق کے مطابق محمود بن لبید بیان کرتے ہیں کہ ان کے قبیلہ اوس کے خاندان بنواشہل کے کچھ نوجوان انس بن رافع کی سربراہی میں یثرب سے مکے پہنچے تا کہ قبیلہ خزرج کے مقابلے کے لیے قریش کے ساتھ حلیفانہ معاہدہ کریں ۔ اللہ کے رسولؐ کو جب ان کی آمد کی خبر ہوئی تو آپ ؐ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا:’’تم جس کام کے لیے آئے ہو، میں تمھیں اس سے بھی بہتر بات نہ بتاؤں؟‘‘۔ انھوں نے کہا:’’وہ کون سی بات ہے ؟‘‘آپ ؐ نے فرمایا مجھے اللہ نے بندوں کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ میں انھیںایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور یہ کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اللہ نے مجھ پر کتاب نازل کی ہے۔ پھر آپ ؐ نے اسلام کی خوبیوں کا ذکر فرمایا اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا ۔ حضرت ایا سؓ بن معاذ ، جو کہ ابھی نوعمر لڑکے تھے، نے کہا:’’اے میری قوم !اللہ کی قسم !تم جس کام کے لیے آئے ہو، واقعی یہ بات اس سے بہتر ہے ، اگرچہ باقی لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا لیکن حضرت ایاسؓ نے خاموشی سے اسلام قبول کر لیا(مسند احمد، طبرانی ، کنزالعمال،ج۷،ص۱۱، سیرت ابن ہشام ، ص۳۷۴) ۔
طبرانی نے حضرت عروہ سے مرسل روایت بیان کی ہے کہ زمانہ حج میں یثرب کے بنومازن کے حضرت معاذؓ بن عفرا اور حضرت اسعدؓ بن زرارہ ، بنوزریق کے حضرت رافعؓ بن مالک اور حضرت ذکوانؓ بن عبدالقیس ، بنو اشہل کے حضرت ابوالہیثمؓ بن تیہان اور بنو عمروبن عوف کے حضرت عویم بن ساعدہؓ مکہ گئے۔ حضوؐر نے ان کے سامنے اپنی نبوت پیش کی، انھیں قرآن پڑھ کر سنایا ۔ جب انھوں نے آپ کی بات سنی تو خاموش ہو گئے۔ جب ان کے دل آپؐ کی دعوت پر مطمئن ہو گئے تو انھوں نے آپ کی تصدیق کی اور اسلام قبول کیا (حیاۃ الصحابہ، ج۱،ص ۴۸۶) ۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ قرآن سننے کا یہ اثر ہو اکہ سننے والے: ۱- خاموش ہو گئے۔ ۲-ان کے دل دعوت پر مطمئن ہو گئے اس لیے کہ دلوں کا اطمینان ذکر الٰہی میں ہے اور قرآن سب سے بڑا ذکر ہے۔ ۳- نہ صرف تصدیق کی بلکہ آپؐ کی رسالت پر ایمان لائے۔
حضرت اُمّ سعد بنت سعد ربیعؓ کی روایت ہے کہ حضور ؐ یثرب کے کچھ لوگوں کے پاس پہنچے جو منیٰ میں عقبہ کی گھاٹی کے پاس بیٹھے ہوئے اپنے سرمنڈوا رہے تھے۔ وہ چھے سات افراد تھے جن میں تین بنی نجار کے اور تین اسعد بن زرارہ اور عفرا کے دو بیٹے تھے۔ حضور ؐ نے ان کے پاس بیٹھ کر انھیں اللہ کی دعوت دی۔ انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ چنانچہ ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا(ابونعیم،دلائل النبوہ،ص۱۰۵)۔
حضرت عقیلؓ بن ابی طالب سے مروی ایک طویل روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ منیٰ کے دنوں میں جمرۂ عقبہ کے پاس رات کے وقت اوس وخزرج کے چھے آدمیوں سے حضوؐر کی ملاقات ہوئی۔ آپ نے انھیں اللہ کی عبادت اور دین اسلام کی نصرت کی دعوت دی۔ انھوں نے آپؐ سے وحی الٰہی سننے کی خواہش کی تو آپؐ نے سورۂ ابراہیم کی آیت ۳۵ تا۵۲ وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ سے لے کر آخر تک پڑھ کر انھیں سنائی ۔ جب انھوں نے قرآن سنا تو ان کے دل نرم پڑ گئے اور اللہ کے حضور عاجزی کرنے لگے اور انھوں نے آپؐ کی دعوت قبول کر لی۔
ان اٹھارہ آیات میں حضرت ابراہیم ؑ کی بیت اللہ کے لیے امن، رزق اور اولاد کی توحیدپرستی کی دعا مذکور ہے ۔ مومنوں کو تسلی دی گئی کہ آج کے ظالم کل روز قیامت خوف زدہ ہوں گے۔ روزِ قیامت کی ہولناکی اور میدان حشر کی پریشانی کا منظر پیش کیا گیا ہے ۔ یہ سننے کا نتیجہ یہ ہوا کہ: ۱-سننے والوں کے دل نرم پڑگئے ۲- اللہ کے حضور عاجزی کرنے لگے،۳- اسلام قبول کر لیا (ایضاً، بحوالہ حیاۃ الصحابہ ، ج۱،ص۱۳۲)
حضوؐر جب مدینہ تشریف لے آئے تو وہاں بھی تلاوت قرآن آپؐ کی دعوتی گفتگو کا اہم حصہ تھی۔ صحیح بخاری اور سیرۃ ابن ہشام میں اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ ایک دن حضوؐر گدھے پر سوار بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کی بیمار پُرسی کے لیے چلے اور مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ راستے میں عبداللہ بن ابی کے مکان کے سائے میں اس کی مجلس میں کچھ مسلمان، کچھ یہودی اور بت پرست ملے جلے بیٹھے تھے۔ آپ مروتاً وہاں رُک گئے، سواری سے اُترے، اہلِ مجلس کو سلام کیا اور کچھ دیر کے لیے بیٹھ گئے ۔ مجلس میں قرآن پڑھ کر سنایا اور لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی۔ اللہ کی رحمت کی خوش خبری اور عذاب الٰہی کی وعید سنائی۔ عبداللہ بن ابی نے اگرچہ آپؐ کی دعوت پر ناگواری کا اظہار کیا لیکن مجلس میں بیٹھے عبداللہ ؓبن رواحہ اور دیگر صحابہ نے آپؐ کی گفتگو پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ بعد ازاں آپؐ سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے ان کے گھر چلے گئے۔ (سیرۃ ابن ہشام ، ص۵۲۷)
سیرتِ نبویؐ کے ان واقعات وحقائق کے پیش نظر آج کے مبلّغین اور داعیانِ اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں ضعیف روایات وحکایات ، بزرگانِ دین سے منسوب کشف وکرامات کے غیر مستند واقعات اور اخباری کالم نگاروں کی سطحی معلومات کو دعوتی گفتگو کی بنیاد بنانے کی بجائے قرآن کی پُرتاثیر آیات اور ٹھوس تعلیمات کو اپنی دعوت کا محور ومرکز بنائیں۔ کیونکہ: الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) ’’قرآن وہ راہِ ہدایت دکھاتا ہے جو سیدھی اور واضح ہے‘‘۔ جس شخص میں تھوڑا سا بھی خوفِ خدا ہے، اس کی نصیحت کے لیے قرآن سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں۔ اسی لیے اللہ نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا: فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ۴۵(قٓ۵۰:۴۵) ’’بس تم اس قرآن کے ذریعے ہراس شخص کو نصیحت کردو جو میری تنبیہ سے ڈرے‘‘۔
لہٰذا قرآن کے ابلاغ کا حق ادا کیے بغیر غلبۂ اسلام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
قرآن نے خود کو آسان قرار دیا ہے (سورئہ قمر، سورئہ مریم، سورئہ دخان)۔ آسان ہونے کا مفہوم کیا ہے؟ کیا ہرشخص قرآن کے مفہوم کو متعین کرسکتا ہے؟ اس بارے میں دوانتہائی رویے پائے جاتے ہیں: ایک ان دین دار لوگوں کا جو درسِ قرآن دینے، حتیٰ کہ ترجمۂ قرآن پڑھنے کو بھی ایمان کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں اور اسے سمجھنے سے پہلے ۱۷، ۱۸ علوم کے جاننے کو شرط قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف پروٹسٹنٹ فکرسے متاثر جدید افکار کا علَم بردار طبقہ یہ کہتا ہے کہ دینی ماخذ کی تفسیر و تعبیرپر کسی طبقے کی اجارہ داری نہیں، الہامی کتاب کا ہرماننے والا اس کی تشریح کا حق رکھتا ہے۔
یاد رہے عیسائی مذہب کی اصلاح کی پروٹسٹنٹ تحریک پاپائیت کے اس جبر کا ردعمل تھی جس نے یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے دور میں سائنسی مفکرین و فلاسفہ کی سوچ کو اپنے مذہبی عقائد پر حملہ سمجھتے ہوئے ان کے خلاف نہ صرف گمراہی کے فتوے دیے بلکہ سخت گیر سزائیں بھی دیں۔ مارٹن لوتھر نے جواب میں کہا: خدا نے انجیل انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کی ہے اور ہر عیسائی کی نجات کا دارومدار اس کے انفرادی عقیدہ و اعمال پر ہے۔ اس لیے ہرآدمی کا یہ حق ہے کہ وہ براہِ راست کلامِ الٰہی کو پڑھے اور دینی اُمور سے متعلق خود فیصلہ کرے۔ اس لیے کہ نجات کے لیے اصل ذمہ دار فرد ہے اور اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسے اختیار بھی چاہیے۔ چنانچہ ہرفرد کو اختیار ہے کہ وہ بائیبل کی تعبیر کرسکے۔ گویا ہرفرد کو تفسیر بالراے کی آزادی دے دی گئی۔
ہمارے ذرائع ابلاغ میں موجود ایک بڑا طبقہ اس بات کا پرچارک ہے کہ کوئی بھی عالمِ دین قرآن کی تشریح کا اجارہ دار نہیں کہ اس کی تفسیر و تعبیر کو آخری سند مانا جائے۔ بلاشبہہ الہامی ہدایت کی تفسیر و تعبیر پر کوئی طبقہ اجارہ داری کا حق نہیں رکھتا اور اسلام میں نہ تو وراثتی برہمنیت کا کوئی تصور ہے اور نہ پاپائیت کا نظام۔ اسلام تو آیا ہی اس لیے تھا کہ بندے اور ربّ کے درمیان جو ہستیاں حائل ہوگئی تھیں ، ان کی رکاوٹ کو ختم کردے۔ لیکن کیا ہرشخص یہ اہلیت رکھتا ہے کہ وہ قرآنی مفاہیم کا تعین کرسکے ، اور کیا دنیا کے دیگر شعبہ ہاے زندگی کے اُمور سےمتعلق بھی ہرشخص کی راے معتبر گردانی جاتی ہے؟ کیا کسی طبّی عارضے کے بارے میں کسی انجینیرکی راے کو وہی اعتبار حاصل ہوگا جو ایک ڈاکٹر یا طبیب کی راے کا ہوسکتا ہے؟ کیا کسی قانونی مسئلے کی تفہیم میں کسی ڈاکٹر کی راے کسی قانون دان کی راے کے ہم پلہ قرار دی جاسکتی ہے؟ غرضیکہ ہرعلم سے متعلق اسی شخص کی راے صائب قرار دی جاتی ہے جس نے اس علم کے اصول و مبادی سیکھنے میں زندگی کا ایک عرصہ کھپایا ہو۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے بقول: ’’قرآنِ کے اسرار و حکم کے خزانے پر کسی خاص گروہ کا اجارہ نہیں ہے۔ اس خزانے سے بقدرِصلاحیت و استعداد وہ لوگ حصہ پاتے ہیں جو کتابِ الٰہی پر تدبر کرتے ہیں اور اُن شرائط کے ماتحت تدبر کرتے ہیں جو قرآن پر تدبر کے لیے مقرر ہیں‘‘۔ (تزکیہ نفس، ص۳۱)
کسی آیت کا شانِ نزول کیا ہے؟ ناسخ و منسوخ آیات کون سی ہیں؟ کسی آیت کا سیاق و سباق کیا ہے؟ غریب الفاظ کا مفہوم کیا ہے؟کوئی لفظ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یا مجازی معنی میں؟ حذف و محذوف اور محکم ومتشابہ آیات کا علم، اصولِ تفسیر اور ماخذ تفسیر کو گہرائی سےجانے بغیر قرآنی مفاہیم کے تعین میں قدم قدم پر ٹھوکر کھانے کا اندیشہ موجود ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے توہرشخص اس قابل نہیں کہ وہ قرآن سے صحیح طور پر استفادہ کرسکے ، جب کہ قرآن خود کو تذکیر کے لیے آسان قراردیتا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷ (القمر ۵۴: ۱۷) ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘‘
مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ لِلذِّكْرِ،ذکر کے معنی یادکرنے اور حفظ کرنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کلام سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے بھی۔ یہ دونوں معانی یہاں مراد ہوسکتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے قرآن کریم کو حفظ کرنے کے لیے آسان کر دیا۔ یہ بات اس سے پہلے کسی کتاب کو حاصل نہیں ہوئی… اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ قرآنِ کریم نےاپنے مضامینِ عبرت و نصیحت کو ایسا آسان کرکے بیان کیا ہے کہ جس طرح بڑے سے بڑا عالم و ماہر، فلسفی اور حکیم اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے، اسی طرح ہرعامی وجاہل جس کو علم سے کوئی مناسبت نہ ہو، وہ بھی عبرت و نصیحت کے مضامینِ قرآنی کو سمجھ کر اس سے متاثر ہوتا ہے۔آیت میں يَسَّرْنَا کے ساتھ لِلذِّكْرِ کی قید لگا کر یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ قرآن کو حفظ کرنے اور اس کے مضامین سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی حد تک آسان کردیا گیا ہے جس سے ہرعالم و جاہل، چھوٹا بڑا یکساں فائدہ اُٹھا سکتاہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآنِ کریم سے مسائل واحکام کا استنباط بھی ایسا ہی آسان ہو، وہ اپنی جگہ ایک مستقل اور مشکل فن ہے جس میں عمریں صرف کرنےوالے علماے راسخین کو ہی حصہ ملتا ہے، ہر ایک کا وہ میدان نہیں۔ اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوگئی جوقرآن کریم کے اس جملے کا سہارا لے کر قرآن کی مکمل تعلیم اس کے اصول و قواعد سے حاصل کیے بغیر مجتہد بننا اور اپنی راے سے احکام و مسائل کا استخراج کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کھلی گمراہی کا راستہ ہے‘‘ (معارف القرآن، جلد۸،ص ۲۳۰)۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بقول:’’بعض لوگوں نے يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ کے الفاظ سے یہ غلط مطلب نکال لیا ہے کہ قرآن ایک آسان کتاب ہے، اسے سمجھنے کے لیے کسی علم کی ضرورت نہیں، حتیٰ کہ عربی زبان تک سے واقفیت کے بغیر جو شخص چاہے اس کی تفسیر کرسکتا ہے اور حدیث و فقہ سے بے نیاز ہوکر اُس کی آیات سے جو احکام چاہے مستنبط کرسکتا ہے۔ حالانکہ جس سیاق و سباق میں یہ الفاظ آئے ہیں ، اُس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد کا مدُعا لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ نصیحت کا ایک ذریعہ تو ہیں وہ عبرت ناک عذاب جو سرکش قوموں پر نازل ہوئے، اور دوسرا ذریعہ ہے یہ قرآن جو دلائل اور وعظ و تلقین سے تم کو سیدھا راستہ بتارہا ہے۔ اُس ذریعے کےمقابلے میں نصیحت کا یہ ذریعہ زیادہ آسان ہے۔ پھر کیوں تم اس سےفائدہ نہیں اُٹھاتے اور عذاب ہی دیکھنے پر اصرار کیے جاتے ہو؟ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اپنے نبیؐ کے ذریعے سے یہ کتاب بھیج کر وہ تمھیں خبردار کررہا ہے کہ جن راہوں پر تم لوگ جارہے ہو وہ کس تباہی کی طرف جاتی ہیں اور تمھاری خیر کس راہ میں ہے؟ نصیحت کا یہ طریقہ اسی لیے تو اختیار کیا گیا ہے کہ تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے تمھیں اُس سے بچا لیا جائے۔ اب اُس سے زیادہ نادان اور کون ہوگا جو سیدھی طرح سمجھانے سے نہ مانے اور گڑھے میں گر کر ہی یہ تسلیم کرے کہ واقعی یہ گڑھا تھا‘‘ (تفہیم القرآن، جلد۵،ص ۲۳۴-۲۳۵)۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں: ’’اس آیت کا مطلب عام طور پر لوگوں نے یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےقرآن کو حفظ کرنے یا نصیحت حاصل کرنے کے لیے نہایت آسان کتاب بنایا ہے۔ یہ بات اگرچہ بجائے خود صحیح ہے لیکن آیت کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے۔ لفظ تیسیر عربی میں کسی چیز کو کیل کانٹے سے درست کرنے، پیش نظر مقصد کے لیے اس کو اچھی طرح موزوں بنانے اور جملہ لوازم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے معنوں میں آتا ہے، مثلاً یَسَّرَ الْفَرْسَ لِلرَّکُوب کے معنی ہوں گے گھوڑے کو تربیت دے کر ، اس کو کھلاپلا کر، زین، لگام، رکاب سے آراستہ کرکے سواری کے لیے بالکل ٹھیک ٹھاک کردیا … لفظ ذکر بھی یہاں وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی تعلیم، تذکیر، آگاہی، تنبیہہ، نصیحت، موعظت، حصولِ عبرت اور اتمامِ حجت، سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں… ہماری فطرت اور ہماری عقل کے اندر اللہ تعالیٰ نےعلم و معرفت کے جوخزانے ودیعت فرمائے ہیں لیکن ہم ان سے غافل ہیں، (قرآن) انھی کو ہمارے سامنے اُجاگرکرتاہے… تم مچلے ہوئے ہو کہ جب اس عذاب کی نشانی دیکھ لو گے تو مانو گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری تعلیم وتذکیر کے لیے قرآن اُتارا ہے جو ہرپہلو سے اس مقصد کے لیے جملہ لوازم سے آراستہ و مسلّح ہے تو آخر اس عظیم نصیحت سے کیوں فائدہ نہیں اُٹھاتے، عذاب کے تازیانے ہی کے لیے کیوں بے قرار ہو!‘‘ (تدبرقرآن، جلد۸، ص ۹۹-۱۰۰)
اب تک کی بحث سے ہمیں فہم قرآن کے دو درجے معلوم ہوئے۔ قرآن کے الفاظ میں ایک درجے کو ہم تذکر اور دوسرے کو تدبر کہہ سکتے ہیں:
تذکر: اس سے مراد نصیحت کرنا، متنبہ کرنا، یاد کرناہے۔ گویا علم کے مطابق عمل کرنے کا عزم کرنا۔ قرآن کے ایک ایک لفظ کا تو نہیں البتہ مجموعی پیغام کا ادراک کرنا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن کے سب سے پہلے مخاطبین اُونٹ اور بکریاں چرانے والے بدو، تاجر اور کاشتکار تھے۔ ان میں سے ایک فی صد بھی پڑ ھے لکھے نہ تھے۔ ان کے پاس صَرف و نحو ، فلسفے اور تاریخ کی کوئی کتاب نہ تھی۔ لیکن انھوں نے قرآن سے جو اثر لیا اور وہ ان کے عمل میں ڈھل گیا۔ یہ وہ علم تھا جس کی تعلیم دیناقرآن کا مقصد تھا اور جس کی بنیاد پر وہ دنیا کو بہترین تہذیب و تمدن دینے والے بن گئے۔
تدبر:اس سے مراد ایسا غوروخوض کہ قرآن کے ایک ایک لفظ، آیت اور سورۃ کے مفہوم و مقاصد کو سمجھا جاسکے۔ اصولِ تفسیر اور علومِ تفسیر سے آگہی کے ساتھ یہ تدبر ہی ہے جو ایک انسان کو استنباطِ احکام، تفقہ فی الدین اور فتویٰ و تفسیرلکھنے کا اہل بناتاہے۔ یہی وہ عمل تھا جس کے لیے صحابۂ کرامؓ ایک ایک سورۃ کے سمجھنے میں کئی کئی ماہ و سال صرف کرتے تھے۔ یہ تدبر ہی ہے جس کے ذریعے سے ازروے حدیث قیامت تک قرآن کے نت نئے عجائب کھلتے چلے جائیں گے۔
کسی بھی کلام کی آسانی دو پہلوؤں سے ہوتی ہے: ۱- اس کے الفاظ و عبارات نامانوس اور پیچیدہ نہ ہوں۔۲- اس کے مضامین اور نظریات قابل فہم اور آسان ہوں۔
قرآن اپنے موقف کو منوانے کے لیے آفاق و انفس کے ایسے فطری دلائل دیتا ہے جو ہردور اور ہرسطح کا انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اس میں فلسفہ و کلام کا اسلوبِ استدلال نہیں ہے کہ ایک خاص سطح کے لوگ ہی سمجھ سکیں۔
امام غزالی (م: ۵۰۵ھ) قرآنی دلائل اورمتکلمین و فلاسفہ کے دلائل کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’قرآنی دلائل غذا کی طرح ہیں جس سے ہرانسان فائدہ اُٹھاتاہے، اورمتکلمین کے دلائل دوا کی طرح ہیں جن سے کچھ افراد تو فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کو اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ قرآنی دلائل کی مثال پانی کی ہے جس سے دودھ پیتا بچہ اور تنومند آدمی دونوں فائدہ اُٹھاتے ہیں، جب کہ دوسرے دلائل کھانوں کی طرح ہیں جن سے صحت مند لوگوں کو کبھی فائدہ پہنچتا ہے تو کبھی نقصان، لیکن دودھ پیتے بچے اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے‘‘(علم الکلام، ص ۲۰)۔
امام فخرالدین رازی (م: ۶۰۶ھ) متکلمین و فلاسفہ کے امام ہیں۔وہ فرماتے ہیں: ’’میں نے علمِ کلام اورفلسفے کے طریقوں کو آزمالیا ہے۔ یہ نہ توکسی پیاسے کی پیاس بجھاسکتے ہیں اور نہ کسی بیمار کو شفا دے سکتے ہیں۔ میں نے سمجھ اوردیکھ لیا ہے کہ تمام راستوں کے مقابلے میں قریب ترین اور آسان ترین راستہ قرآن کا راستہ ہے‘‘ (البدایہ والنہایہ، جلد۱۳،ص ۵۶)۔
امام رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم کا طرزِ استدلال لوگوں کے ذہنوں کے زیادہ قریب ہے اور ان کی عقل میں بات کو بٹھانے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ قرآنی دلائل کو اذہان و افہام کے قریب ترین ہی ہونا چاہیے تاکہ ان سے خواص و عوام دونوں نفع اُٹھا سکیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنی دلائل کا مقصد مجادلہ و مناظرہ نہیں بلکہ صحیح اورسچے عقائد کو دلنشین کرانا ہے، اور اس مقصد کے لیے قرآنی دلائل دوسرے تمام طریقوں سے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں‘‘۔
قرآن کے آسان ہونے کے ایک پہلو سے متعلق مولانا اصلاحی کہتے ہیں: ’’قرآن مجید بنی نوعِ آدم کے تمام طبقات کے لیے صحیفۂ ہدایت بن کر نازل ہوا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جو اس پرایمان لائے گا، فلاح پائے گا اور جواعراض کرے گا، وہ ہلاک ہوگا۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس کی تعلیم و دعوت کا معیار عام عقل انسانی کے معیار کے مطابق ہو تاکہ ہرانسان جوفکرونظر کی عام استعداد رکھتا ہے اس کو سمجھ سکے،اور اس کی تعلیمات پر عمل کرکے خالق کی خوشنودی حاصل کرسکے۔ ایک ایسی کتاب جس کا مقصد عام تعلیم و دعوت ہو، نہ تو لفظاً اتنی پیچیدہ ہونی چاہیے کہ جب تک خواص اس کی مشکلات حل نہ کریں،وہ سمجھ نہ آئے، اور نہ معناً اتنی مبہم اور دقیق ہونی چاہیے کہ انسانی فہم و ادراک کی عام استعداد اس کے اسرار و رُموز سمجھنے سے قاصرہو‘‘ (مبادی تدبر قرآن، ص ۱۰۴-۱۰۵)۔
قرآن نے توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات پر عقلی دلائل بھی دیے ہیں اور نقلی بھی۔ نقلی دلائل میں جن انبیاے کرام اور صلحا، جیسے حضرت لقمان، حضرت مریم، اصحابِ کہف اور طاغوت، جیسے فرعون، اصحاب الاخدود، اصحاب الفیل وغیرہ کے واقعات بیان کیے ہیں۔ عرب ان سے مانوس تھے، جب کہ عقلی دلائل ایسے ہیں جو ایک اَن پڑھ آدمی کو بھی اپیل کرتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ان کی قوتِ تاثیرکا انکارنہیں کرسکتا۔ مثلاً زمانۂ قید کے دوران حضرت یوسف ؑ سے ان کے قیدی ہم نشین اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر جاننے کے خواہش مند ہوئے تو آپ نے بھی ان کے سامنے ایک سوال رکھا: ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف ۱۲: ۳۹) ’’کیا (کسی غلام کے لیے اس کے) کئی آقا بہتر ہیں یا ایک ہی اللہ غلبے والا؟‘‘
سوال کی صورت میں یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کے مخاطب کے لیے ’ایک‘ کہے بغیر چارہ نہیں۔ اور اتناکہنے کے لیے قائل کو اصولِ تفسیر اور علومِ قرآنی کی تحصیل کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح جب اللہ یہ فرماتا ہے: لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۰ۚ (الانبیاء ۲۱: ۲۲) ’’اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا اورمعبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے‘‘۔ یہ ایسی دلیل ہے جو چودہ سو سال پہلے کے عالم و جاہل کو بھی اپیل کرتی تھی اور آج کے ترقی یافتہ زمانے کے لوگوں کو بھی۔
دلائل و مضامین کے عام فہم اور آسان ہونے ہی کی وجہ سے قریش قرآن کی تاثیر سے خوف زدہ تھے۔ قرآن نے ان کے اس اندرونی خوف کو یوں افشا کیا ہے: وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۲۶(حم السجدہ ۴۱:۲۶)’’اور کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور (جب سنایا جائے تو) شور مچا دو تاکہ تم غالب رہو‘‘۔گویا سردارانِ مکہ کو خدشہ ہے کہ ع ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبرؐ کہیں
اگر کافر قرآن کے ابلاغ کو اپنے طاغوتی غلبے کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ اہلِ اسلام کا غلبہ کس چیز سے وابستہ ہے؟ لیکن مسلمان لیڈرشپ، اپنی بقا اور ترقی کے لیے غیرقرآنی تعلیم اور ٹکنالوجی کے حصول کو ہی مطمح نظر بنائے ہوئے ہیں۔ بقول احسان دانش ؎
مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پہ پھیلا دیے سایے ہم نے
کفارِ مکّہ جب اہلِ ایمان کو تضحیک و استہزا،ظلم و تشدد کے باوجود نہ جھکا سکے تو ایک وقت آیا کہ سردارِ مکہ عتبہ بن ربیعہ دولت، سرداری اور بادشاہت کا پیغام لے کر سمجھوتہ کرنے آیا تو اللہ کے رسولؐ نے اسے سورہ حم السجدہ کی آیات کی تلاوت کی صورت میں اپنا پیغام دیا۔ وہ واپس آکراپنی قوم کو کہنے لگا کہ ’’میں نے محمد کی زبان سے جو کلام سنا ہے وہ ضرور کوئی اثر دکھاکر رہے گا‘‘(ابن ہشام)۔ یہ قرآن کی تیسیر و تاثیر ہی کا کمال تھا کہ مشرکین مکہ کی خواتین اور بچے چھتوں اور دیواروں پر چڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کی تلاوت سنتے تھے اور ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے۔
حضورؐ اور صحابۂ کرامؓ سے جب بھی کوئی اسلام کا تعارف چاہتا تو وہ جواب میں اکثر قرآن کا کچھ حصہ سناتے۔ شاہِ حبشہ کے دربار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پوچھی گئی تو قرآن سنایا گیا۔ مکہ میں ابوذر غفاریؓ، طفیل دوسیؓ اوردیگر کو رسولؐ اللہ نے قرآن سنایا۔ مدینہ میں مصعب بن عمیرؓ نے اسید بن حضیرؓ، سعد بن معاذ ؓاور دیگر کو قرآن سنا کر ہی قبولِ اسلام پر آمادہ کیا۔
قرآن خود کوھُدًى لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲:۱۸۵)قرار دیتا ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کا مخاطب انسان اور اس کا موضوع ہدایت ہے۔ اور انسانوں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے اچھے بُرے، عالم و جاہل، سب شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے کسی قسم کے علومِ قرآنی نہیں پڑھے ہوں گے۔ اس کے باوجود قرآن خود کو ان کے لیے ہدایت کہتا ہے: ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۲ۙ (البقرہ ۲:۲) اور ہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ (یونس ۱۰:۵۷) کہتا ہے اور لازم نہیں کہ تمام متقین اور مومنین علمی رسوخ کے حامل ہوں۔ اب اگر قرآن تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے اور ہدایت ہرانسان کی ضرورت ہے تو ضروری ہواکہ ہدایت کے حصول کا راستہ آسان بھی ہو اور سب کی دسترس میں بھی۔ اس لیے کہ کائنات میں جس چیز کی ضرورت عام ہے قدرت نے اس کی دستیابی کو بھی عام رکھا ہے، جیسے ہوا اور پانی ہر آدمی کی ضرورت ہے تو اللہ نے اسے دوسری چیزوں کی نسبت اتنا ہی عام کردیا۔ ہدایت وہ چیز ہے جو ہوا اور پانی کی طرح ہرانسان کی ضرورت ہے تو یہ کس طرح درست ہے کہ اس تک انسانی دسترس کو مشکل بنا دیا جائے۔ چنانچہ اللہ نے فرمایا:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۹۷ (مریم ۱۹: ۹۷) پس اے نبیؐ، ہم نے اس قرآن کو آپؐ کی زبان میں اسی لیے آسان کر دیا کہ آپؐ اس کے ذریعے پرہیزگاروں کو خوشخبری دیں، اکھڑاور ہٹ دھرم قوم کو ڈرائیں۔
معلوم ہوا کہ خوشخبری اور ڈراوے کے لیے قرآن آسان بھی ہے اور مؤثر بھی، حتیٰ کہ اسی قرآن کے ذریعے عرب جیسی اکھڑقوم موم کی طرح نرم ہوگئی۔ اسی طرح تذکیر و یاددہانی کے لیے بھی قرآن آسان ہے۔ فرمایا:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۵۸ (الدخان ۴۴:۵۸) ہم نے اس قرآن کو تمھاری زبان میں آسان کر دیا تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
سورئہ قمر کے آغاز میں حضرت نوح ؑ کی قوم کی سرکشی اور پھران پر نزول عذاب کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ۱۶ (القمر ۵۴: ۱۶)’’پس کیسا تھا میرا عذاب اور کیسے تھے میرے ڈراوے‘‘۔ اس سے اگلی آیت میں فرمایا:وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷ (القمر۵۴:۱۷) ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، پس ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرے؟‘‘اس کے بعد قومِ عاد کی تباہی کا ذکر اور آیت ۲۱ میں فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ کی تکرار کے بعد آیت۲۲ میں يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ کی تکرار ہے۔ بعدازاں قومِ لوط کی سرکشی اور عذاب کے ذکر کے بعد آیت ۳۹ میں عذاب اور اِنذار کے بعد آیت۳۲ میں تیسیر قرآن کی تکرار ہے۔ پھر قومِ لوط کی سرکشی اورعذاب کے ذکر کے بعد آیت۳۹ میں عذاب اور ڈراوے اور آیت۴۰ میں چوتھی مرتبہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ کی تکرار اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ کی پکڑ سے خبردار کرنے،ڈرانے اور تذکیر و نصیحت کا جتنا آسان ذریعہ قرآن ہے کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔
قرآن کتابِ الٰہی سے اہلِ ایمان کے بدن کےرونگٹے کھڑے ہونے، دلوں کے نرم پڑنے اور یادالٰہی کی طرف متوجہ ہونے کی خبر دیتا ہے:
تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ۰ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللہِ۰ۭ (الزمر ۳۹:۲۳) اُسے سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر اُن کے جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔
برصغیر میں مسلمانوں کے دورِ زوال کی عظیم ہستی شاہ ولی اللہ نے اُمت کے زوال اور فساد کے علاج کے لیے فہم قرآن کو مؤثر علاج سمجھتےہوئے پہلی مرتبہ قرآن کا فارسی ترجمہ کیا جس کے باعث ان کے خلاف گمراہی کے فتوے بھی صادر ہوئے۔ ان کی کتاب تحفۃ الموحدین کا ذیل کا پیرا اُس ذہن کو سمجھنے میں مددگار ہے جو آج بھی قرآن فہمی میں رکاوٹ ہے۔ شاہ ولی اللہ قرآن فہمی سے خوف زدہ اس ذہن کی ایک ایک خلش کا آیاتِ قرآنی سے یوں ازالہ کرتے ہیں:
’’بعض کہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو بہت سے علوم اور بے شمار کتابیں پڑھا ہوا ہو اور اپنے زمانے کا علامہ ہو، جب کہ اللہ فرماتا ہے:
ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۲ۙ (الجمعہ۶۲:۲) اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس نے انھی اَن پڑھ لوگوں میں سے رسول مبعوث کیا جو ان پراس کی آیات کو تلاوت کرتا ہے، ان کےدلوں کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اس سے پہلے تووہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
یعنی اللہ کے رسولؐ بھی اَن پڑھ اور آپؐ کے اصحابِ بزرگوار بھی اَن پڑھ تھے لیکن جب رسولؐ اللہ نے اپنے اصحابؓ کے سامنے قرآن کی آیات پڑھیں تو ان کوسن کروہ ہرقسم کی بُرائی اور بگاڑ سے پاک صاف ہوگئے۔ پس اگراَن پڑھ آدمی قرآن و حدیث نہیں سمجھ سکتا اور اس کی سمجھ کی استعداد نہیں رکھتا تو صحابہؓ بُرائیوں اور عیبوں سے کیسے پاک صاف ہوگئے؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم بعد کے زمانے کے لوگ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی برکت اور صحابہؓ کے دل کی سلامتی کہاں سےلائیں جو قرآن و حدیث کے معنی سمجھ سکیں؟ اس کاجواب اس سے اگلی آیت میں ہے: وَّاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ۰ۭ (الجمعہ ۶۲ :۳)، یعنی بعد والے لوگ خواہ پڑھے ہوئے ہوں یا اَن پڑھ، جو بھی مسلمان ہوں اور اصحاب کے طریقے کی پیروی کا ارادہ کریں اور قرآن وحدیث کو سنیں تو انھیں بھی پاک کرنے کے لیے یہ ذریعہ کافی ہوسکتا ہے اور وہ فرماتا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ کافیہ پڑھنے والے اور شافیہ جاننے والے تو اس قرآن کے معنی سمجھنے سے عاجز ہوں ، جب کہ عرب کے جنگلی بدو اس کی حقیقت سے بہرہ ور ہوتے ہوں۔ اس کے علاوہ ایک جگہ یوں فرماتا ہے: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ (محمد۴۷:۲۴) ’’وہ قرآن میں غوروفکر کیوں نہیں کرتے؟‘‘ پس قرآن آسان نہ ہو تو اس میں غوروفکر کیوں کیا جائے؟ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا’’یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘۔ یعنی باوجودیکہ ان کےدلوں پر تالے نہیں لگے ہوئے ہیں، پھر بھی کیسی گمراہی ہے کہ قرآن پر غوروفکر میں زور نہیں لگاتے‘‘۔
قائد اعظمؒ نے واشگاف لفظوں میں اس حقیقت کا اظہار کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد صرف ’آزادی ‘ نہیں بلکہ ’اسلامی نظریہ‘ ہے۔ سیکولر تہذیب کے علَم برداروں، انگریز اور کانگریس سے اس اصول کو تسلیم کرا لینا اور مغربی تہذیب کے غلبے کے دور میں ، جو مذہب اور ریاست کی علیحدگی کے اصول پر قائم ہے، اس نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا قیام ملت اسلامیہ پر اللہ کا خصوصی کرم تھا۔ لیکن پاکستان میں سیکولر سوچ کا حامل ایک قلیل گروہ اس بنیاد کو کمزور اور پاکستان کے حقیقی وژن کو غبار آلود کرنے کے لیے مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ قائد اعظمؒ تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، اور نظریۂ پاکستان اور ’اسلام ‘ محض انتہا پسند ملاّئوں کی اختراع ہے۔ اس بات کو بعض سادہ لوح علما نے بھی قبول کر لیا کہ قائد اعظمؒ محض ایک سیاسی رہنما تھے اور ان کے پیش نظر کوئی اسلامی نظریہ نہ تھا۔
قائد اعظمؒ کی جس تقریر کی بنیاد پر ان کے تصّور ِ ریاست کو سیکولر قرار دیا جاتا ہے وہ ان کی ۱۱ ؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر ہے۔ اقتباس ملاحظہ کریں:
You are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other places of worship in this state of Pakistan.
اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں: اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں___ مزید فرمایا :
میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان ، مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، بزمِ اقبال، لاہور،جلد چہارم، ۱۹۴۶ء- ۱۹۴۸ء،ص ۳۵۹-۳۶۰ )
یہ ہیں وہ الفاظ جن کی بنیاد پر قائد اعظمؒ کے ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک کے تمام ارشادات کی نفی کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہاں ان کا مقصد غیر مسلم اقلیتوں کو اس امر کا اطمینان دلانا ہے کہ تمام غیر مسلم اقلیتوں کو اس نئی اسلامی ریاست میں عقیدہ وعبادات اور معاشرتی ومذہبی رسوم ورواج کی ادایگی کی پوری آزادی ہو گی، نیز پاکستان میں کسی کو مذہبی جبر کا اختیار نہ ہو گا۔ قائد اعظمؒ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ملک میں قانون سازی اسلامی اقدار کو سامنے رکھ کر ہی کی جائے گی۔ چنانچہ ۱۹۴۹ء میں جب ’قرار دار ِ مقاصد‘ پاس ہوئی تو اس میں وہ تمام باتیں شامل تھیں جو کسی بھی اسلامی دستور کا حصہ ہونا چاہییں۔
اب یہ بات انصاف کے منافی ہے کہ ایک شخص کے ایک جملے یا اقتباس کو لے کر اس کے دس سالہ تمام فرمودات اور اعلانات کی نفی کر دی جائے۔ قائد اعظمؒ کے بارے میں اس بات کو تو دوست دشمن سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہرگز دہرے کردار کے حامل سیاستدان نہ تھے۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے محض لوگوں کے جذبات کو اپیل کرنے کے لیے اسلام کا نام لیا ، بہت بڑی جسارت ہے۔ ذیل میںہم قائد اعظمؒ کے ان ارشادات کو پیش کرتے ہیں، جن سے یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ قائد اعظمؒ نہ صرف اسلام کے مکمل ضابطہ ٔ حیات ہونے اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے قائل تھے بلکہ وہ مغربی جمہوریت اور مغربی نظام معیشت سے نالاں تھے۔ بزمِ اقبال لاہور نے ان کے اخباری بیانات اور تقاریر اور ان کے ترجمے کو چار چار جلدوں میں شائع کیا ہے جن میں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
قائد اعظمؒ دین اسلام کو محض ایک پوجا پاٹ کا مذہب تصور نہ کرتے تھے بلکہ وہ اسے اجتماعی زندگی کا مکمل ضابطہ تصور کرتے تھے۔ وہ دین اسلام کو محض ایک مذہبی نظریہ نہیں بلکہ ایک حقیقت پسند اور عملی نظام تصور کرتے تھے۔ چنانچہ ۳فروری ۱۹۳۸ءکو طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
اسلام کے معنی صرف دین نہیں ہے۔ اسلام کا مطلب ہے ایک ضابطہ جس کا دنیا میں اور کوئی ثانی موجود نہیں ہے۔ یہ ہے ایک مکمل قانونی اور عدالتی نظام اور معاشرتی اور معاشی نظام۔ اس کے اساسی اور بنیادی اصول ہیں مساوات، اخوت اور آزادی۔
قائد اعظمؒ کے نزدیک اسلام محض روحانی نظریۂ نہیں بلکہ انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی نظام ہے۔ ۸ ستمبر ۱۹۴۵ء میں قائد اعظمؒ کے ’پیغام عید ‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے۔ زندگی کے ہر شعبے پر من حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔
کیا ان خیالات کے حامل شخص کو کسی طرح بھی سیکولر کہا جاسکتا ہے اور ان خیالات کا اظہار آپ نے پاکستان کے قیام سے صرف دو سال قبل کیا ہے۔
قائد اعظمؒ بھی علامہ اقبالؒ کی طرح قرآن کو روز مرّہ کے مسائل کا حل اور اجتماعی وانفرادی زندگی کا رہنما تسلیم کرتے تھے۔ ان کی نظر میں قرآن مسلمانوں کو سماجی وسیاسی ،معاشی وعسکری، عدالتی وتعلیمی میدانوں میں، نیز مذہبی رسوم سے لے کر روز مرہ زندگی تک، روحانی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، اخلاقیات سے لے کر جرم وسزا تک ہرمعاملے میں رہنمائی دیتا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں اپنے ’عید کے پیغام‘ میں اس پر تفصیلی انداز سے فرمایا:
ہرمسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی اُمور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول: اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطےکے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، نہ صرف دینیات کے اعتبا ر سے بلکہ سول اور فوجداری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیرمبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔ جہلاکے سوا ہرشخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآنِ کریم مسلمانوں کا عام ضابطۂ حیات ہے۔ ایک دینی، معاشرتی، سول، تجارتی، فوجی ، عدالتی ، فوجداری ضابطہ ہے۔ رسوم مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔ روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، حقوق العباد سے لے کر فردِ واحد کے حقوق تک، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا کہ ہرمسلمان کے پاس قرآنِ کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کرسکے۔
قائد اعظمؒ نے ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون (Law Giver ) پیغمبر ؐ اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے ۔
سیکولر ازم کو جس بات سے سب سے زیادہ چڑہے، وہ اجتماعی وسیاسی معاملات میں دین ومذہب کا کردار ہے ، جب کہ انسانوں کی اصلاح وتربیت کے لیے اسلام کے پیش نظر جو انقلاب برپا کرنا ہے وہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک سیاست کو دین کے تابع نہ کر دیا جائے ورنہ بقول اقبال
قائد اعظمؒ پر مخالفین نے ایک الزام یہ لگایا کہ وہ سیاست کے اندر مذہب کو لا رہے ہیں جیسے کہ آج بھی نفاذِ اسلام چاہنے والوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے۔ قائد اعظمؒ بجاے اس پر کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے ،اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے دین میں سیاست دین کے تابع ہے۔ یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا ایک بیان ملاحظہ ہو:
بہت سے لوگ ہمیں غلط سمجھتے ہیں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، بالخصوص ہمارے ہندو دوست۔ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ اسلام کا پرچم ہے، تو وہ سمجھتےہیں کہ ہم سیاست میں مذہب کو داخل کر رہے ہیں___ یہ ایک حقیقت ہے جس پر ہمیں فخر ہے!
قائد اعظمؒ کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ مغربی جمہوریت کے دل دادہ تھے۔ حالاںکہ جمہوریت پسند ہونے کے باوجود وہ مغربی جمہوریت سے سوفی فیصد متفق نہ تھے ۔ ان کے نزدیک ڈیمو کریسی گرگٹ کی طرح ہے جو حالات اور ماحول کے مطابق اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ ۱۱ نومبر ۱۹۳۹ء کو سول اینڈ ملٹری گزٹ میں ان کا شائع شدہ بیان ملاحظہ ہو جس میں وہ مغربی جمہوریت کے بجاے اسلامی مساوات اور آزادیِ اظہار کی تائید کرتے ہیں:
جمہوریت تخیل کے طور سے اور عمل کے اعتبار سے مختلف ہے، اور جمہوریت گرگٹ کی مانند ہے، جو ماحول کے مطابق اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ انگلستان میں جمہوریت اس وضع کی نہیں ہے جیسی کہ فرانس اور امریکا میں ہے۔ اسلام مساوات، آزادی اور اخوت کا قائل ہے، لیکن مغربی طرز کی جمہوریت کا نہیں۔
قائد اعظمؒ کس قسم کی جمہوریت چاہتے تھے وہ ہے اسلامی شورائیت ۔ چنانچہ ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی دربار بلوچستان سے خطا ب میں فرمایا:
ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہیے۔ اسلام کا سبق ہے کہ مملکت کے امور ومسائل کے بارے میں فیصلے باہمی مشورے سے کیا کرو۔
سیکولرازم قومیت کی بنیاد رنگ، نسل، وطن اور زبان کو قرار دیتا ہے لیکن اسلام قومیت کی ان تمام بنیادوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ علی گڑھ یونی ورسٹی میں ۸ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے خطاب میں فرمایا:
مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے، نہ وطن ، نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرّکہ کیا تھا ؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی اور نہ انگریزوں کی چال___ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔
قائد اعظمؒ قومیت کے مغربی تصور کی بجاے ملّت اسلامیہ کے نظریے کے داعی تھے۔ ۲جنوری ۱۹۳۸ء کو پرچم کشائی کے بعد جلسۂ عام سے خطاب کیا جس میں عالمی ملت اسلامیہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کی جھلک نظر آتی ہے:
پرچم آپ کے وقار کی، مسلمانوں کے وقار کی اور اسلام کے وقار کی علامت ہے۔ مسلم لیگ کا پرچم اسلام کا پرچم ہے۔ یہ نئی چیز نہیں۔ یہ گذشتہ ۱۳سو برس سے موجود ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے ہم اسے فراموش کربیٹھے تھے۔ اس پرچم کو بلند کرنے کا مطلب ہے اپنے وقار کو بلند کرنا۔
قائد اعظمؒ پوری ملت اسلامیہ کی وحدت کے علَم بر دار تھے۔ New York Times میں ۱۳ فروری ۱۹۴۶ء کو قائد اعظمؒ کا ایک انٹرویو شائع ہوا۔ نامہ نگار نے قائد سے پوچھا کہ عربوں کے ساتھ آپ کی ہمدردی کا کیا تصور ہے ؟قائد اعظمؒ نے جواب دیا:
اگر برطانیہ کی جانب سے فلسطین کے متعلق قرطاس ابیض میں اعلان کردہ حکمت عملی سے انحراف ہوا تو مسلمانانِ ہند خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے، اور وہ ہرممکن طریقے سے عربوں کی حمایت کریں گے۔
’’یعنی عربوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے طاقت بھی استعمال کرنا پڑی تو کریں گے‘‘ ۔
قائد اعظمؒ جیسے ٹھنڈے دل ودماغ کے شخص کا ایسی انتہائی بات کہنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ عالم اسلام کی بقا کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ کیا ایسی بات کوئی سیکولر لیڈر کہہ سکتا ہے ؟
قیامِ پاکستان کے بعد ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے اعلیٰ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا:
پاکستان کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایسی مملکت تخلیق کریںجہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب وتمدن کی روشنی میں پھلے پھولے ۔ اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔
۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے اسی بات کا اعادہ کیا:
اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھےجہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کی واحد تمنّا قرار دیا ۔ ۲۱ ؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کے روزنامہ انقلاب لاہور کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
میری زندگی کی واحد تمنّا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد وسربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غدّاری نہیں کی ۔ میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل ، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں عَلمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔
قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کی صورت میں اقلیتوں کو یہ اطمینان دلایا کہ ان کے ساتھ شودروں جیسا برتائو نہیں کیا جائے گا۔ اپنے اس عہد کی تائید میں انھوں نے قرآنی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کا حوالہ دیا ۔ ۲۹ مارچ ۱۹۴۴ء کے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع شدہ رپورٹ ملاحظہ ہو:
کوئی حکومت اقلیتوں میں احساسِ تحفظ اور اعتماد پیدا کیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی جس کی حکمت عملی اور پروگرام اقلیتوں کے ساتھ غیرمنصفانہ، ناروا اور ظالمانہ ہو۔ ایک نمایندہ قسم کی حکومت کی کامیابی کی کسوٹی یہ ہے کہ اقلیتوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ عادلانہ اور منصفانہ برتائو کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ہم دنیا کے کسی مہذب ملک سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ مجھے اعتماد ہے کہ جب وقت آئے گا ہمارے وطنوں میں اقلیتیں یہ محسوس کریں گی کہ ہماری روایات، ہمارا ورثہ اور اسلام کی تعلیمات نہ صرف مناسب اور منصفانہ ہوں گی بلکہ فیاضانہ !
قائد اعظمؒ کی نظر میں مغرب کا معاشی نظام انسانیت کو خوش حال بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے ملک کے معاشی نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سٹیٹ بنک میں ایک شعبۂ تحقیق قائم کیا۔ یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اس کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
مجھے اس بات سے بہت دل چسپی رہے گی کہ میں معلوم کرتا رہوں کہ یہ ریسرچ سیل بنکاری کے ایسے طریق کار کیوںکر وضع کرتا ہے جو سماجی ومعاشی زندگی کے اسلامی نظریات کے مطابق ہوں۔ مغربی معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ مغربی نظام انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں کش مکش اور چپقلش دُور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر ہم نے معیشت کا مغربی نظام اختیار کیا تو عوامی خوش حالی کی منزل ہمیں حاصل نہ ہو سکے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے معاشی نظام پیش کرنا ہے جو مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر قائم ہو۔ ایسا کر کے گویا ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض انجام دیں گے۔
ان خیالات کے حامل شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ پاکستان کو مغربی تصور کے مطابق سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے ، صریحاً علمی بد دیانتی ہے کہ ۳۷ء سے ۴۷ء تک ان کی ساری جدوجہد میں سواے ایک اقتباس کے کوئی ایسی بات نہیں جو بظاہر سیکولر ازم کی حمایت میں ہو ۔ اور جس جملے پر یہ ساری عمارت تعمیر کی جا رہی ہے، اس سے یہ مفہوم اصل عبارت کو سیاق وسباق سے کاٹنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
مغربی لباس میں ملبوس انگریزی میں گفتگو کرنے والا یہ شخص بظاہر بودوباش کے اعتبار سے سیکولر نظر آتا تھا، مگر اس مغربی لباس کے اندر کے انسان کو دشمن بھی اسلام کا سپاہی تصور کرتے تھے۔ ۱۹۴۶ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا ایک دس رکنی وفد ہندستان کے سیاسی زعما کے موقف کو سمجھنے کے لیے آیا ۔ اس وفد کے ایک رکن مسٹر سورنسن نے بعد میں My Impression of India نامی کتاب لکھی جس میں اس نے ۱۰؍جنوری ۱۹۴۶ء کو قائد اعظمؒ سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے قائد اعظمؒ کو سیکولر نیا م میںرکھی ہوئی اسلام کی تلوار قرار دیا۔ الفاظ ملاحظہ ہوں:
He (Mr. Jinnah) is a sword of Islam resting in a secular scabbard.
سیکولر عناصر کا یہ کہنا بھی ایک مغالطہ آمیزی ہے کہ علما کی اکثریت نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی یا قائد اعظمؒ علما کے خلاف تھے۔ علما کے ایک طبقے نے اگر کانگریس کا ساتھ دیا تو علما و مشائخ کے ایک بڑے طبقے نے اپنے اپنے انداز میں دو قومی نظریے اور تحریک پاکستان کے فروغ کے لیے خدمات انجام دیں۔ اور اس میں ہر مسلک اور مکتب فکر کے علما نے قائد اعظمؒ کے شانہ بشانہ جدوجہد کی: مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ، مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ، مولانا اطہر علیؒ، مولانا راغب احسنؒ، مولانا ابن الحسن جارچویؒ، مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ، مولانا عبدالستار خاں نیازیؒ، پیرجماعت علی شاہؒ، پیر صاحب مانکی شریفؒ، پیر صاحب زکوڑی شریفؒ، مولانا دائود غزنویؒ وغیرہ نے عوامی سطح پر لوگوں کو تحریک پاکستان کا پشتیبان بنایا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کانگریسی علما کے متحدہ قومیت کے نعرے کو مدلل انداز میں چیلنج کیا۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تحریک کی تائید کی۔ اسی لیے ان کے انتقال پر مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے قائداعظمؒ کی زیر صدارت ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ قیامِ پاکستان کے صرف چار ماہ بعد مولانا مودودیؒ سے ریڈیو پاکستان پر اسلام کے اخلاقی ، سیاسی، معاشرتی ، اقتصادی اور روحانی نظام پر تقاریر اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ قائد اعظمؒ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ان تاریخی حقائق کو جھٹلائے بغیر قائداعظمؒ کو سیکولر سٹیٹ کاحامی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ قائد اعظمؒ کے واضح نظریات اور نظریۂ پاکستان کے بارے میں نئی نسل کو ابہام اور کنفیوژن کا شکار کرنے والے ملک و قوم کی کوئی صحیح خدمت نہیں کررہے۔
موجودہ دور میں ’انتہا پسندی‘ اور’ دہشت گردی‘ کے فروغ کے اصل اسباب کیا ہیں؟ اس کا کوئی معروضی اور غیر جانب دار تجزیہ کرنے کے بجاے، اسلامی فکر میں ’جدت پسندی‘ یا ’تجدد پسندی‘ کے نقیب چند لکھاری دور کی کوڑی یہ لائے ہیں کہ: ’’داعش اورالقاعدہ ہوں یا جماعت التکفیراور خودکش طالبانی فکر، یہ سب اسلامی احیائی تحریکوں کے ہاں اقامت دین کے تصور کا نتیجۂ فکر اور شاخسانہ ہیں‘‘۔ کہیں اس الزام کی تکرار ملفوف انداز میں ہے تو کہیں سید ابوالاعلیٰ مودودی، حسن البنا شہید اور سید قطب شہید کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ: ’’انھوں نے حکمرانوں کو طاغوت قرار دے کر نوجوانوں کو مسلم حکمرانوں کے خلاف جذباتی بنا دیا ہے اور انھی کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں‘‘۔ مقصد یہ ہے کہ: ’’اگر انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو لازم ہے کہ اقامت دین کے تصور پر قائم جماعت اسلامی، اخوان المسلمون، النہضہ، حماس جیسی تحریکوںاور ان کے لٹریچر کا سدباب کیا جائے جو نوجوانوں میں سامراجیت اور اس کے طرف دار حاکموں کی حاکمیت کے خلاف بولنے کا جذبہ پیدا کر رہے ہیں‘‘۔
جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی سیاسی پالیسیوں سے اختلاف کرنا کوئی اَنہونی بات نہیں، لیکن ہر صاحب ِ علم اس بات کا شاہد ہے کہ ان تحریکوں کے بانی اور پھر بعدازاں قائدین بھی اس بارے میں ہمیشہ واضح رہے ہیں کہ: وہ کسی غیر آئینی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں گے۔ اگر ان تحریکوں میں کبھی کسی فرد نے انفرادی سطح پر انحراف کیا بھی تو ان تحریکوں نے فوراً اس پر گرفت کی ہے۔ خفیہ سرگرمیوں اور انقلاب کے بارے میں سید مودودی کا موقف واضح اور دو ٹوک رہا ہے۔ عرب ممالک میں جب بھی انھیں خطاب کا موقع ملا، انھوں نے نوجوانوں کو یہی نصیحت کی کہ وہ خفیہ کارروائیوں کا حصہ نہ بنیں۔ اپنے مطالعے، تجزیے اور بصیرت کے نتیجے میں انھیں اپنے اس موقف پر تیقن حاصل تھا کہ خفیہ انقلاب اس مقصد اور حصولِ منزل کے لیے ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ وہ کھلے عام دعوت پھیلانے اور راے عامہ کی تیاری اور ذہنوں کو مسخر کرنے کی بات کرتے ہیں۔ انھیں اس طرز عمل کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ حکومت نے ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی، لیکن انھوں نے قانونی جنگ لڑ کر تنظیم بحال کروائی۔ ۱۹۵۳ء میں تحریکِ ختم نبوت کے دوران میں ’ڈائرکٹ ایکشن پالیسی‘ کے خلاف ان کا بڑا واضحموقف تھا، جس کے باعث علما کے ایک حلقے نے انھیں مطعون بھی کیا اور آج تک نہیں بخشا۔ اسی مسئلے پر حکومت نے جب سمری کورٹ سے انھیں سزاے موت دلوائی تو جماعت اسلامی کی قیادت نے کوئی تشدد کا طریقہ اختیار نہ کیا۔ آئینی احتجاج کا حق استعمال کیا اور بس۔
یہی حال مصر اور دیگر عرب ممالک کی بڑی تنظیم اخوان المسلمون کا ہے۔ اس کے بانی حسن البنّا نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا کہ ہمارا ایک لگا بندھا راستہ ہے جن کی مخالفت نہ میں خود کروں گا او رنہ دوسرے کریں۔ مردانگی محض جوش اور جلد بازی کا نام نہیں بلکہ حقیقی جوانمردی تو صبرواستقامت، سنجیدگی اور مستقل مزاجی کا نام ہے۔ جو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کاشوق رکھتے ہیں اور پکنے سے پہلے پھل توڑنا چاہتے ہیں، یہ تحریک ان کا میدان نہیں۔ حسن البنا کے مطابق پہلے بیج بویا جاتا ہے پھر وہ نشوونما پاتا ہے۔ مدت مقررہ اور مطلوبہ محنت کے نتیجے میں پھول اور پھل لگتے ہیں، پھر انتظار کے بعد پھل پکتا ہے ، تب توڑنے کی نوبت آتی ہے۔
اسی فکری تربیت کا نتیجہ تھا کہ حسن البنا کو ۱۹۴۹ء میں حکومتی کارندوں نے قاہرہ کی اہم شاہراہ پر واقع اخوان المسلمون کے دفتر کے عین سامنے فائرنگ کرکے موت و زندگی کی کش مکش میں مبتلا کیا۔ ستم کی بات یہ ہے کہ قصر العینی ہسپتال میں ڈاکٹروں کو ان کی طبی امداد سے بھی روک دیاگیا۔مسلسل خون بہنے سے بالآخر وہ شہید ہو گئے ۔ان کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے صرف بوڑھے باپ اور گھر کی خواتین کو اجازت دی گئی۔ اس کے باوجود اخوان نے حکومتی جماعت کے کسی لیڈر کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ انھی دکھی کارکنوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ ہزاروں مردوں اور خواتین کو جیلوں میں مختلف ادوار میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
۶۰ کے عشرے میں مصر کے جدید فرعون جمال عبدالناصر نے سید قطب جیسے مفکر و مفسر قرآن کو تختۂ دار پر چڑھا دیا۔ انھوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا لیکن پھانسی دینے والے ’طاغوت‘ کے خلاف کسی قتل عام اور خروج کی وصیت نہ کی، اور نہ اخوان نے کبھی قانون کو ہاتھ میں لینے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی۔
آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ سید قطب شہید اور سید مودودی کی ’طاغوت‘ کی تشریح پڑھنے کے باوجود جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون سے وابستہ افراد کی عظیم اکثریت اور نمایندہ تنظیمیں تو ان حکمرانوں کے خلاف آمادہ قتال نہ ہوئے، مگر اتہام و الزام لگانے والوں کے بقول طالبان اور داعش ، القاعدہ کے ان مظلوم لیڈروں کی تحریروں سے متاثر ہو کر اس راہ پر چل نکلے۔یہاں پر دل چسپ لطیفہ یہ ہے کہ داعش اور طالبان قسم کی تنظیموں کے نزدیک سید مودودی اور قطب شہید گمراہ تھے اور جن کا لٹریچر پڑھنا ان کے ہاں شجر ممنوعہ ہے۔
اسی طرح اس حقیقت سے کوئی اندھا بھی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی ان سب تنظیموں کا تعلق جس مکتب فکر سے ہے ،اس کے نزدیک تو جماعت اسلامی کا لٹریچر ’گمراہ کن‘ ہے اور ان کے مدارس میں سید مودودی کی کتب کا داخلہ ممنوع ہے۔ افغانستان میں جب اس مکتب فکر کے پروردگان کو اقتدار ملا تو انھوں نے جن منکرات کو مٹانے کا حکم جاری کیا، ان میں سے ایک منکر مولانا مودودی کا لٹریچر بھی تھا، جب کہ جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا کے متعدد کارکن خود کش حملوںکی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ حتیٰ کہ رحلت سے چند ماہ پہلے قبل امیر جماعت اسلامی قاضی حسین پر بھی خود کش حملہ کیا گیا۔
ہمارے ’تجدد پسند‘ حلقے کے ترجمان رسائل و جرائد میں کبھی اُن سازشوں کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے جو یورپ اور امریکا مسلمانوں کے خلاف کررہا ہے۔ ان کی تہذیب و ثقافت مٹانے کے لیے جو حربے امریکا کی زیرقیادت مغرب و مشرق کی سامراجی قوتیں اختیار کررہی ہیں، ان کو کبھی ان ’اصلاح پسندوں‘ نے بے نقاب نہیں کیا ، مگر ہر آن مسلمانوں کی تحریکیں ہی ان کی نظر میں معتوب ٹھیرتی ہیں۔
جہاں تک جہاد کے لیے حکومت و امارت کی اجازت کا تعلق ہے تو پاکستان جیسے منضبط ملک میں تو اس فکر کو وزن حاصل ہے لیکن کشمیر کی مسلم ریاست پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے سامراج اور تمام بین الاقوامی فورمز پر وعدے کے باوجود ان کی کسی قرار داد کو پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دینے والے ملک کے بارے میں بھی کیا یہی اصول لاگو ہوگا؟ اس کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ عراق اور افغانستان پر امریکی قبضے کا کیا اخلاقی و بین الاقوامی جواز ہے؟ ان ملکوں میں اگر روس نے قبضہ کیا اور افغان عوام اپنی آزادی اور عزت و مال کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو ایک زمانے میں ان کے نزدیک یہ جہاد درست تھا۔ لیکن اگر اب وہ اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑیں تو اس لیے غلط قرار پائے کہ اس وقت صرف ایک امریکا کو دنیا پر کنٹرول حاصل ہے اور اسے چیلنج کرنا فساد کے سوا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کہیں صحیح وغلط کا معیار امریکا تو نہیں بن گیا کہ جب تک وہ جہاد افغانستان کا پشتی بان رہا ،جہاد درست اور جب مسند ِامریکا سے جہاد کے خلاف فتویٰ صادر ہوا تو جہاد یک قلم موقوف۔
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے۔ جو عزت و ناموس کی حفاظت میں اور اپنی جان کی حفاظت میںمارا گیا ،وہ شہید ہے۔ کیا جن کے گھر برباد ہوں، عصمتیں پامال ہوں، وہ بھی اس وقت تک انتظار کریں کہ مسلمان حکمران بیدار ہوں، یاان کے حکومت میں آنے کا انتظار کریں اور پھر جہاد کریں۔ یہ تو گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے والی بات ہوئی۔ ساحل پر بیٹھ کر دریا کا نظارہ کرنا اور تجویز اور اصول سمجھانا آسان ہے لیکن بھنور میں پھنسے ہوئے لوگوں کے حالات کا ادراک اُن کے بس میں نہیں جو مغربی حکومتی عطیات پر زندگی پانے والی این جی اوز سے رزق پاتے اور ان کی پشت پناہی پر نازاں رہتے ہیں۔
مصر میں باقاعدہ عوامی راے دہندگان کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے اخوان نے ایک سال حکومت کی۔ متجددین کی محبوب جمہوریت کے سارے تقاضے پورے کیے۔ انھوں نے لبرل لوگوں کو بھی باوجود اقلیتی گردہ ہونے کے، حکومت میں شامل رکھا۔ ان کے ناز نخرے برداشت کیے۔ لیکن عالمی قوتوں نے ایک فوجی حکمران کے ذریعے انھیں حکومت سے بے دخل کرکے منتخب صدر مرسی کو جیل میں بند کر دیا اور تحریر چوک میں پُرامن احتجاج کرنے والے روزہ دار شہریوں کو ٹینکوں تلے کچل دیا یا گولیوں کی بوچھاڑ میں بھون دیا، حتیٰ کہ روزہ دار خواتین کے ناموس تک کو پامال کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ متجددین کے ’حلقہ اصلاح پسنداں‘ نے اس شہید جمہوریت کے لیے کتنی آواز بلند کی؟
راشد الغنوشی کی جماعت النہضہ حکومت میں آئی۔ وہ جمہوریت کے استحکام کے لیے تمام بنیادی اسلامی مطالبات سے بھی دستبردار ہو گئے۔ لیکن یہ روشن خیال لبرلز انھیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکی میں طیب اردگان کی معمولی سی اسلام پسندی بھی گوارا نہیں۔ جس جماعت اسلامی کو انتہاپسندی کے حوالے سے مطعون کیا جا رہا ہے، اس کی اعتدال پسندانہ سوچ کا تو حال یہ ہے کہ وزیراعظم بھٹو کی تمام زیادتیوں کے باوجود مولانا مودودی نے آخری دم تک کوشش کی تھی کہ بھٹوصاحب پُرامن،جمہوری راستہ اختیار کرلیں اور مارشل سے بچا جاسکے۔ اسی طرح انھوں نے بھٹوصاحب کے ہر مثبت کام کی تائید بھی کی اور تعارف بھی کیا۔
اخوان المسلمون کے بانی مرشد جب پہلی مرتبہ الیکشن میں اُمیدوار بنے تو عین اس موقعے پر جب ان کی کامیابی کے واضح امکانات تھے، انھوں نے اپنی حب الوطنی کے باعث محض اس بنا پر الیکشن سے دست برداری اختیار کر لی کہ انھیں ملک کی معتبر شخصیات نے پیغام دیا تھا کہ: ’’حسن البنا کی کامیابی کی صورت میں بیرونی طاقتوں کی طرف سے ملک کو بہت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
ویسے تو لبرلز اور متجددین عناصر، علما و عوام کو فضائل جمہوریت کے ساتھ آداب جمہوریت کا سبق دیتے نہیں تھکتے۔ لیکن اگر یہی علما اور دینی جماعتیں اسی جمہوریت کے دیے ہوئے حقِ احتجاج کو اختیار کریں اور عوام کو سڑکوں پر لائیںتو یہ بات انھیں علماے کرام کے شایان شان دکھائی نہیں دیتی۔ لکھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے بڑ ے علماے کرام نے حکمرانوں کے خلاف کوئی انقلابی تحریک نہیں اٹھائی۔ عامۃ الناس کو سڑکوں پر نہیں لائے۔ گویا جمہوریت کی چوکھٹ پر سرنیاز رکھ کر بھی اگر علما، حاکمیت الٰہی کے قیام کا مطالبہ کریں یا حکمرانوں کے ظلم کی چکّی میں پسے ہوئے عوام کے جذبات کے جمہوری اظہار کی نمایندگی کریں، تو انھیں یہ بھی گوارا نہیں۔گویا ان کا مقصد یہ ہے کہ عوامی جذبات کی نکیل بھی دنیا دار سیاست دانوں کے ہاتھ میں رہے تو یہی جمہوری حسن کہلائے گا۔
تجدد پسندوں کے نزدیک حکمرانوں کے خلاف مسلح خروج درست نہیں، لیکن نہتے عوام کا سڑکوں پر آکر اپنے مطالبات پہنچانے کے لیے پر امن احتجاج بھی ان ’دانش مندوں‘ کے نزدیک خروج کا قائم مقام قرار پاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ: ’’ہم جمہوری عہد میں زندہ ہیں۔ سیاسی جدوجہد کا حق سب کو حاصل ہے اور علما کو بھی ابلاغ کے سب ذرائع میسر ہیں، انھیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمرانوں کے خلاف کلمۂ حق کہنا چاہیے‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے مسلم ممالک میں یہ جمہوریت موجود ہے؟ یہی بس گنتی کے چند ممالک۔ اور جن ممالک میں اس جمہوریت کے ذریعے علما کی کچھ تعداد یا دین کے طرف دار حکومت میں آگئے، انھیں بین الاقوامی سامراج اور ان کے مقامی کاسہ لیسوں نے کتنی وسعتِ ظرف سے برداشت کیا۔ الجزائر، مصر، اور فلسطین اتھارٹی اس کی مثالیں ہیں۔
متجددین کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے ابوحنیفہ، مالک وابن حنبل کی تعریف تو کرتے ہیں، لیکن یہ بات نہیں بتاتے کہ حکمران، اہل حق کو بدنام کرنے کے لیے ابلاغی ہتھکنڈے استعمال کریں تو کیا ا ن کے پراپیگنڈے کو بطور حقیقت قبول کر لیا جائے؟ اخوان المسلمون کے خلاف مصروشام میں ظلم و تشدد ہی نہیں کیا گیا بلکہ پراپیگنڈے کا طوفان برپا کیا گیا کہ وہ جنونی ہیں، متشدد ہیں، انتہا پسندہیں‘‘۔
البتہ اسلامی تحریکوں کی اولین قیادت کا یہی جرم کافی بڑا ہے کہ وہ حکمرانوں کے ظلم و تشدد کے باوجود انھی ملکوں میں موت کے سامنے بھی عزیمت کے ساتھ کلمۂ حق کہتے رہے۔ ہمارے ہم عصر پاکستانی متجددین کے استاد صاحب چند گم نام دھمکیوں سے ڈرکر اور عزیمت کا راستہ چھوڑ کر دوسرے ملک میں پناہ گزیں ہوگئے۔ ہم دھمکی دینے والوں کی مذمت کرتے ہیں اور دلیل سے بات کرنے اور سننے کی دعوت دیتے ہیں۔ بہرحال، اس ’دانش مند‘ حلقے میں اس بات کا وعظ بہت ہوتا ہے کہ اہل حق کو سخت ترین حالات میں صبرواستقامت اور تحمل سے انذار کرتے رہنا چاہیے۔ کاش! اور نہیں تو ان کے زعیم اول تو کم از کم اہل حق کی عزیمت اور صبر کا عملی نمونہ اپنے چاہنے والوں کے لیے چھوڑ جاتے، تاکہ آج کے جذباتی نوجوانوں کو صبر و تحمل کی حقیقت اور اہمیت کے سارے پہلو سمجھ آجاتے۔ اگر سقراط حق کے لیے زہر کا پیالہ پی سکتا ہے تو ایک تجدد پسند مذہبی اسکالر کو اپنے حق پر جمے رہنا چاہیے تھا۔
سیّد مودودی، حسن البنا شہید اور سیّد قطب شہید تک، پھر آج بنگلہ دیش کی اسلامی تحریک کے رہنمائوں نے جس عزیمت کے ساتھ پھانسی کے پھندوں کو چوما ہے، اور وہ بھی قطاراندرقطار، سوال یہ ہے کہ ابوحنیفہ و ابن حنبل کی استقامت کے جانشین وہ ہیں یا، ’جلیل القدر متجددین‘ جو چند دھمکیوں سے خوف زدہ ہو کر خاموشی سے دوسرے ملک میں جا بیٹھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ لوگ اس پر داد کے طلب گار ہیں اور اس کو یہ کہتے ہیں کہ کلمۂ حق کی پاداش میں انھیں ’ہجرت‘ کرنا پڑی۔ کیا واقعی ان کے لیے کلمۂ حق کہنا اور اسلام پر عمل کرنا اس ملک میں اتنا مشکل ہو گیا تھا کہ وہ ہجرت جیسی دینی اصطلاح کا سہارا لے رہے ہیں۔
کیا آج الجزائر، مصر، شام، خلیجی ریاستوں اور بنگلہ دیش کے حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنا آسان ہے؟ کلمۂ حق کی پاداش میں اس وحشیانہ ظلم و تشدد کا سامنا کرنے کے باوجود، جماعت اسلامی پاک و ہند ہو یا بنگلہ دیش یاعرب اخوان المسلمون، ان پر کسی حکمران جماعت کے معمولی لیڈر تک پر قاتلانہ حملے کی کوئی قابل ذکر مثال موجود نہیں۔ مگر اس کے ساتھ یہی متجددین لوگ ان تحریکوں کے کارکنوں سے ایسی اطاعت شعاری کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جس میں وہ تڑپ کر آہ بھی نہ کرسکیں۔ بس لاشیںاُٹھائیں، اور پھر اگلی لاش کا انتظار کریں۔ مگر اپنے من پسند غاصب اور ظالم کے لیے پھولوں کے ہاروں کے طلب گار ہیں۔ اگر وہ بے چارے، ان استعماری عزائم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو یہ دانش ور ان کے پشتی بان بننے کے بجاے انھی پر گولہ باری شروع کردیتے ہیں جن کوامریکی تھنک ٹینک ’رینڈکارپوریشن‘ پولیٹیکل اسلام کے نام سے خطرناک قرار دیتا ہے۔ عجیب حسن اتفاق ہے کہ جس ’پولیٹیکل اسلام ‘سے امریکا خوف زدہ ہے۔ وہی’ پولٹیکل اسلام‘ ان متجددین کی چاند ماری کے نشانے پر ہے۔
ان دانش وروں کی دانست میں موجودہ ’انتہا پسندی‘ کی اصل ذمہ دار یہ اسلامی تحریکیں ہیں، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ اسلامی تحریکیں ہی تھیںجنھوں نے پون صدی کے عرصے تک اس امت کے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف جانے سے روکے رکھا۔
مصر کے اندر جماعت التکفیر اس وقت پیدا ہوئی، جب نصف صدی تک اس امت کے صالح اور بے قصور نوجوانوں کو جیلوں میں گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ شام میں ۱۹۸۲ء میں اخوان کے اکثریتی شہر حماۃ کو حافظ الاسد نے ملیامیٹ کردیا۔ الجزائر کے اسلامک فرنٹ کی ۸۰ فی صد اکثریتی جمہوری کامیابی کو تسلیم نہ کیا گیا،تو نوجوانوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اس پر مستزاد یہ کہ سامراج کی ایجنسیوں نے ان مضطرب لوگوں کو اسلامی تحریکوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے آگے کیا۔ کیا اس میں اب کوئی ابہام رہ گیا ہے کہ طالبان کی ابتدائی ساخت پرداخت کب ہوئی؟ اس وقت بے نظیر بھٹوصاحبہ کی حکومت نے اسے منظم کیا۔ داعش کے پھلنے پھولنے اور اس کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے عراق میں خود امریکا نے کتنے ہی اپنے اڈے آسانی سے اس کے حوالے کیے۔ داعش نے امریکا کے بجاے ان اعتدال پسند مظلوم اخوانیوں کو ہی قتل کیا جو امریکا کو گوارا نہ تھے۔
ہماری درخواست ہے کہ جدت پسند اپنا سارا زور اپنے تجزیے کو درست ثابت کرنے پر لگانے کے بجاے حکمرانوں کے آئینی انحرافات پر لکھیں، جن کے رد عمل میں نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ آئین کی شرعی دفعات محض نمایشی ہیں۔ بین الاقوامی سامراجی قوتوں کے عزائم پر بھی لکھیں، جنھوںنے مسلمانوں کے معاشی وسائل کو ہی نہیں لوٹا، ان کی تہذیب و ثقافت پر بھی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ مگر اس متجدد قبیلے کے لیے یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہے کہ اُمت مسلمہ کے ظالم حکمرانوں نے نوجوانوں کو کتنا ذہنی ونفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایسے نام نہاد اصلاح پسندوں نے حکمرانوں کے سامنے کلمۂ خیر کہنے اور پُرامن احتجاج کو بھی خروج کے برابر تصور قرار دے رکھا ہے۔
ایک اور اچنبھے کی بات یہ ہے کہ ان جدت پسندوں کے ’استاد مکرم‘ ایک طرف تو تصوف کو دین کے متوازی دین قرار دیتے ہیں،دوسری طرف خود دین کا مقصد محض انفرادی تزکیہ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح وہ دوسرے انداز میں، انفرادیت پسندی کے اسی تصور پر مبنی شخصیت کو آئیڈیل قرار دے رہے ہیں جو تصوف تیار کرتا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تہذیب مغرب کے مفتی کے نزدیک انفرادیت پسندی (Individulism) ایک بنیادی قدر ہے اورا س کا فروغ سامراجی طاقتوں کی ضرورت ہے جو کہ تصوف سے پورا ہونے کی انھیں اُمید ہے۔
بنیاد پرستی، شدت پسندی اور دہشت گردی کے الفاظ کی معنویت کو جس طرح آج مغرب نے دھندلا دیا ہے، ایسے ہی مکالمہ بین المذاہب، انسان دوستی (humanism)، اعتدال پسندی، امن اور رواداری (tolerance) کے خوش کن الفاظ کو وہ اپنے مفہوم کا لبادہ اُوڑھانے پر مُصر ہے۔ اس طرح اُس نے اہلِ دین کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کر دیا ہے۔ مغالطے کی اس دُھول میں شرک کا رد، حاکمیت الٰہی کا مطالبہ، اپنی تہذیب و ثقافت کے احیا پر مسلمانوں کا اصرار اور یہود و نصاریٰ کی دوستی کے بارے میں ان کی احتیاط کی روش، بدامنی اور شدت پسندی میں اضافے کا سبب قرار پاتے ہیں، جب کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے لاکھوں انسانوں کو اپاہج، عراق میں ۵لاکھ بچوں کو ادویات کی عدم دستیابی کا شکار کرنے والا امریکا اور فکری آزادی کے نام پر فرانسیسی شاتمِ رسولؐ جریدے کی پشت پر کھڑا یورپ اور دیگر ممالک کے ۴۰حکمران رواداری کے ’معلّم‘ قرار پاتے ہیں۔
قرآن اور اسوئہ رسولؐ میں اپنے عقائد و افکار پر غیرمتزلزل یقین اور دوسروں کے جذبات کا لحاظ رکھنے کا جو حسین امتزاج ملتا ہے، اس سے رواداری کے حقیقی مفہوم سے آشنائی حاصل ہوتی ہے اور عصرِحاضر میں اس کے فروغ کی راہیں بھی نظر آتی ہیں۔ اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں رواداری کے تصور کی وسعت اور گہرائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یورپ آج جس رواداری کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے، وہ محض خیالات کی لیپاپوتی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ اسوئہ رسولؐ کی روشنی سے مغرب کی طرف سے رواداری کے فروغ کے نام پر برپا تحریک کے مکروہ عزائم بھی نظر آئیں گے اور یہ بھی کہ مغرب اور ہمارے تصورِ رواداری میں کیا فرق ہے اور اگر اس فرق کو ہم نے نظرانداز کردیا تو پھر ہم خود اپنی روایات و اقدار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
مغرب جو لبرلزم اور رواداری کے نام پر ہم سے ہماری اقدار چھیننا چاہتا ہے، خود کس قدر متشدد ہے اس کا اندازہ یورپ میں مسلمان خاتون کے سر پر اسکارف اور مساجد کے میناروں پر عائد ہونے والی پابندی سے لگایا جاسکتا ہے۔ محض اسکارف کی پابندی کرنے والی خاتون کو مقدمے کی سماعت کے دوران عین کمرۂ عدالت میں پولیس کی موجودگی میں قتل کرنا بقول اقبال مغرب کے ’اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ کا منظر دکھاتا ہے۔ اس لیے ہمیں مغرب سے متاثر ہوئے بغیر رواداری کی ان بنیادوں کو تلاش کرنا ہے جو امنِ عالم کے قیام میں انسانیت کے کام آسکیں اور تمام اقوام کو اُن کی تہذیب وثقافت کے تحفظ کا احساس دلا سکیں، نہ کہ رواداری کے نام پر ان کی اقدار پر ڈاکا مارنے اور کمزور اقوام کی خودداری چھیننے کا سنہری جال ہوں۔
کیا رواداری کا فروغ دو مخالف اور متصادم نظریات کی محض لیپاپوتی سے ممکن ہے؟ اس کا جواب اگر نفی میں ہے تو پھر مخالف نظریات کی موجودگی میں دیگر اقوام کا مل جل کر رہنے کا کیا طریقۂ کار ہو؟یہ وہ سوال ہے جس کا ہمیں جواب تلاش کرنا ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں غلط اور صحیح کی بنیادیں اور ہیں اور اہلِ اسلام کے ہاں اور۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ایک کے ہاں درست ہیں اور دوسرے کے ہاں غلط۔ اگر کچھ باتوں میں اشتراک پایا بھی جاتا ہے، تو بہت سی باتوں میں ٹکرائو بھی ہے۔ ٹکرائوکی صورت میں دونوں سے سازگاری ممکن نہیں۔
رواداری کا مفھوم
رواداری سے مراد کسی انسانی اجتماعیت کا ان باتوں کو جنھیں وہ نظریاتی طور پر اپنے دائرے میں غلط اور ناپسندیدہ سمجھتی ہے، دوسرے انسانوں کو جو انھیں پسند کرتے ہیں، ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے انھیں اختیار کرنے کا حق دینا اور ناپسندیدگی کے باوجود برداشت کرنا ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جب تک انسانوں کو ارادہ و عمل کی آزادی ہے، وہ ایک ہی نظامِ فکر کے پابند نہیں ہوسکتے اور جزوی تفصیلات میں تو ان کے درمیان اختلاف کا ہونا ان کے مزاج اور ذوق کے تنوع کے باعث ناگزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرضِ منصبی دعوت و تذکیر ہی قرار دیا ہے: فَذَکِّرْ ط اِِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ o (الغاشیہ ۸۸:۲۱)، اور ساتھ ہی آپ کو بتایا کہ آپ ان پر داروغہ نہیں ہیں: لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍo (الغاشیہ ۸۸:۲۲) ۔ لہٰذا اس فرمان کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تذکیر اور یاد دہانی میں انتہائی نرمی اختیار کی۔ ایک طرف اہلِ کفر کو لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ(الکافرون۱۰۹:۶)کہہ کر ان کے مشرکانہ عقائد سے براء ت و بے زاری کا اعلان کیا تو دوسری طرف لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ۲:۲۵۶) فرما کر انسانیت کے اس حق کو بھی باو رکرایا گیا کہ اللہ تعالیٰ قبولِ ہدایت کے لیے کسی قسم کے جبر کو پسند نہیں کرتا۔
حق و باطل کے معرکے میں نظریاتی جنگ بہرحال انسانی اذہان کے میدان میں لڑی جائے گی۔ اس لیے باطل کو ختم کرنا اور انسان کو آخری حد تک باطل سے نتھی رہنے سے بچانے کی کوشش کرنا مسلمانوں پر لازم ہے۔ جیساکہ فرمایا: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔ یہ اسی لیے فرمایاکہ جذباتِ انسانی کو کم سے کم ٹھیس پہنچا کر ان کے دل جیت لیے جائیں۔ حق اور باطل کا مقابلہ بھی ناگزیر ہے لیکن یہ مقابلہ انسان کی تکریم کے لیے ہے نہ کہ اس کی تذلیل کے لیے۔ انسانوں پر حق کو بہ جبر مسلط کرنے میں انسان کی تکریم ہے اور نہ حق کی، بلکہ ان دونوں کی تکریم اس میں ہے کہ انسان آزادانہ مرضی سے حق کو قبول کرے: فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ لا (الکھف۱۸:۲۹) ’’اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے ایک ایک مظہر پر ضرب لگائی۔ اہلِ شرک کی کٹ حجتیوں کا مدلل جواب دیا۔ اہلِ کفر کی ایک ایک خامی کو نمایاں کیا لیکن سواے ایک مقام کے اہلِ کفر کو بھی ٰٓیاََیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ کہہ کر مخاطب نہیں کیا گیا۔ بتوں کی کمزوریوں کو نمایاں کیا لیکن آپؐ نے بتوں کی تضحیک و استہزا کو اپنا شعار نہ بنایا، کیونکہ اللہ کا حکم تھا: وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوً م ا بِغَیْرِ عِلْمٍ ط (الانعام۶:۱۰۸)’’اور جن کو یہ کافر اللہ کے مقابلے میں پکارتے ہیں تم انھیں گالیاں مت دو ورنہ وہ بھی اللہ کو بغیر علم کے دشنام دیں گے‘‘۔
تمام انبیا ؑ اپنی قوموں کے شرک اور غلط کاریوں پر جب تنقید کرتے ہیں تو بار بار وہ مخاطبین کو یٰقُوْمِ (اے میری قوم) کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ قرآن نے منافقین کے رذائل کو کھول کھول کر سورئہ بقرہ، سورئہ منافقون، سورئہ احزاب اور دیگر سورتوں میں بیان کیا ہے لیکن ایک مقام پر بھی یاایھاا لمنافقون کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا گیا۔ انھیں اہلِ ایمان کے صیغۂ خطاب میں ہی یاایھا الذین امنوا کے الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، بلکہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی وفات پر اس کے کفن کے لیے اپنی قمیص بھی پیش کردی(بخاری، رقم الحدیث ۵۷۹۵)۔ آپؐ نے ایک یہودی کا جنازہ گزرتے ہوئے دیکھا تو آپؐ مجلس میں اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ (بخاری، رقم الحدیث، ۱۳۱۲)
قریش کے ایک سردار عتبہ بن ربیعہ نے آپؐ سے سمجھوتا کرنے کے لیے دولت، عورت اور حکومت کی جو پیش کش کی وہ آپؐ کی بلندیِ کردار اور مقاصد ِ جلیلہ کے مقابلے میں انتہائی گھٹیاتھی، لیکن آپؐ نے اپنے مقام و مرتبہ سے فروتر ان باتوں کو نہ صرف صبروتحمل سے سنا بلکہ اپنی بات شروع کرنے سے قبل آپؐ نے اس سے استفسار کیا کہ اے ابوالولید! کیا تم نے اپنی بات مکمل کرلی؟ گویا اس کی بات کو مکمل سننا ضروری سمجھا گیا۔ مزید یہ کہ عتبہ کو اس کی کنیت ابوالولیدسے پکار کر آپؐ نے گویا اُمت کو یہ سبق دیا کہ کافر خواہ کتنی ہی گھٹیا بات کرے، اس کا ادب و احترام تر ک نہیں کیا جائے گا۔
میثاقِ مدینہ کی شرائط میں یہود و مشرکین کی مذہبی آزادیوں کے تحفظ کا شامل کرنا، حقوقِ انسانی اور بین الاقوامی معاہدات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ واضح طور پر ملتا ہے۔ اس معاہدے کی ایک شق کے الفاظ یہ ہیں: لِلْیَھُودِ دِیْنُھُمْ وَلِلْمُسْلِمِیْنَ دِیْنُھُمْ (یہود کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین)۔ (ڈاکٹر محمد حمیداللہ، The First Written Constitution in the World، ص ۲۴)
مذہبی اختلاف جسے قریش نے ذاتی عناد میں تبدیل کرلیا تھا، جنگ ِ بدر میں قیدیوں سے حُسنِ سلوک کا مظاہرہ اور مخالفین اسلام سے مسلمان بچوں کی تعلیم کی خدمت لینا، رواداری کی عظیم مثال ہے۔ جس جہاد کو آج رواداری کا دشمن باور کرایا جاتا ہے، اللہ کے نزدیک وہی جہاد درحقیقت دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا ذریعہ ہے: وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ط (الحج۲۲:۴۰) ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کرڈالی جائیں‘‘۔
نجرانی عیسائیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاہدہ کیا تھا اس کی ایک شق یہ تھی: اَنْ لَا تُھَدَمَ لَھُمْ بِیْعَۃٌ ، وَلَا یُخْرَجَ لَھُمْ قِسٌّ ، وَلَا یُفْتَنُوا عَنْ دِیْنِھِمْ ، مَا لَمْ یُحْدِثُوا حَدَثًا اَوْ یَأکُلُوا الرِّبٰوا ،’’ان کے کسی معبد کو منہدم نہیں کیا جائے گا نہ کسی پادری کو نکالا جائے گا۔ تبدیلی مذہب کے لیے انھیں مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جب تک وہ کوئی نئی بات نہ نکالیں یا سود نہ کھائیں، معاہدہ برقرار رہے گا‘‘۔(سنن ابوداؤد، رقم الحدیث: ۲۶۴۴)
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد میں اہلِ حیرہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک شق امام ابویوسفؒ نے یہ بیان کی ہے: وَلَا یُمْنَعُوا مِنْ ضَرْبِ النَّوَاقِیْسِ، وَلَا مِنْ اِخْرَاجِ الصُّلْبَانِ فِیْ یَوْمِ عِیْدِھِمْ ، ’’ان کو کلیسا کی گھنٹیاں بجانے یا اپنی عید کے دن صلیب نکالنے سے منع نہیں کیا جائے گا‘‘۔ (ابویوسف، کتاب الخراج، ص ۱۵۴)
عہدفاروقی میں عیسائیوں کو ناقوس بجانے کی کتنی فراخ دلانہ آزادی دی گئی، اس کا کچھ اندازہ ان الفاظ سے ہوتا ہے: اَنْ یَضْرِبُوْا نَوَاقِیْسَھُمْ فِیْ أَیِّ سَاعَۃٍ شَآؤُوْا مِنْ لَیْلٍ وَنَھَارٍ اِلَّا فِیْ اَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ ’’کہ وہ نمازوں کے اوقات کے ماسوا دن اور رات کے جس پہر میں بھی چاہیں، اپنی گھنٹیاں بجا سکیں گے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۵۸)
امنِ عالم کا قیام اور روے زمین پر آباد افراد و اقوام کو اس قابل بنانا کہ وہ آزادانہ تبادلۂ خیال کی فضا میں سانس لے سکیں، جس میں ہرفرد کو اپنی راے رکھنے کا حق حاصل ہو اور باہمی افہام و تفہیم کا موقع ملے، وقت کی ضرورت ہے تاکہ باہمی میل جول (interaction) کے نتیجے میں اسلام کی حقانیت اور حکمت اہلِ کفر پر واضح ہوسکے۔ باہمی میل جول کا فائدہ ہمیشہ اس نظریاتی تحریک کو ہوتا ہے جس کا نظریہ ذہنوں کو مسخر کرنے اور دلوں کو موہ لینے کی صلاحیت (potential) رکھتا ہو۔
نجران کے عیسائیوں کا وفد (۹ہجری) مدینہ حاضر ہوا اور آپؐ نے مسجد نبویؐ میں انھیں اپنی رسوم و عبادات ادا کرنے کی اجازت دی (شبلی نعمانی، سیرۃ النبیؐ، ج۲،ص ۵۱) ،اور ایک ایسا منصفانہ اور ہمدردانہ معاہدہ کیا کہ ولیم میور جیسا متعصب مستشرق بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ لکھتا ہے:
محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] نے بشپوں، پادریوں اور راہبوں کو یہ تحریر دی کہ ان کے گرجاگھروں اور خانقاہوں کی ہر چیز ویسے ہی برقرار رہے گی۔ کوئی بشپ اپنے عہدہ، کوئی راہب اپنی خانقاہ سے اور کوئی پادری اپنے منصب سے معزول نہیں کیا جائے گا اور ان کے اختیارات، حقوق میں کسی قسم کا تغیر نہ کیا جائے گا اور جبر وتعدی سے کام نہیں لیا جائے گا۔ (ولیم میور، Life of Mohammad ،ص ۱۵۸)
فاضل ہندو محقق شری سندر لال جی اپنے مضمون ’آنحضرت کی زندگی‘ میں لکھتا ہے: ’’حکمران کی حیثیت سے محمدصاحب نے غیرمسلموں کو یہاں تک کہ بت پرستوں کو بھی اپنی ریاست کے اندر رہتے ہوئے، اپنے مذہبی مراسم ادا کرنے کی پوری پوری آزادی بخشی اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فریضہ قرار دیا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ مدنی آیت ہے اور محمدصاحب کی پوری زندگی اس آیت کی جیتی جاگتی تصویر ہے‘‘۔
محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] نے ایک ایسے مذہب اور روایت کی بنیاد ڈالی جو مغربی تصور کے باوجود تلوار کی ثقافت پر مبنی نہیں تھی،اور جس کا نام اسلام ، امن و سلامتی کی علامت ہے۔(آرم اسٹرانگ ، Muhammad a Western Attempt to Understand Islam،ص ۲۶۶)
برٹرینڈرسل لکھتا ہے: ’’عیسائیت اور ان کے علَم برداروں نے ہمیشہ اسلام اور حضرت محمدؐ کے خلاف باطل پروپیگنڈا جاری رکھا ہے، جب کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ محمدؐ ایک عظیم انسان اور فقیدالمثال مذہبی رہنما تھے۔ وہ ایک ایسے دین کے بانی تھے جو بُردباری، مساوات اور انصاف کی بنیادوں پر کھڑا ہے‘‘۔(برٹرینڈرسل، Why I am not Christian، ص ۵۲)
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حضوؐر نہ تو مردم بیزار اور گوشہ نشین ہستی تھے اور نہ شدت پسندی آپؐ کے مزاج کا حصہ تھی۔ آپؐ کی گوشہ نشینی کی زیادہ سے زیادہ مدت وہی ہے جو نزولِ وحی سے قبل آپؐ نے غارِحرامیں اختیار کی۔ نزولِ وحی کے بعد آپؐ کبھی غارِحرا میں زاویہ نشین نہ ہوئے۔اس کے بعد آپ انسانوں کے اندر ان کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے۔ قبل از بعثت آپؐ ایک بھرپور کاروباری زندگی گزار رہے تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ مکہ کی مال دار اور کاروباری خاتون حضرت خدیجہؓ آپؐ سے متاثر ہوئیں۔ بعثت سے قبل آپؐ ایک سرگرم سماجی زندگی گزارتے تھے جس کا ثبوت معاہدہ ’حلف الفضول‘ میں آپؐ کی شرکت اور حجراسود کی تنصیب میں آپؐ کی فہم و فراست اور اہلِ مکہ کاآپؐ پر اعتمادہے۔ ایک ایسا شخص جس کی جوانی ایک بھرپور عملی زندگی کا تاثر رکھتی ہے، جب وہ الہامی ہدایت کی روشنی میں لوگوں کو اصلاح و ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے تو یہ بات قابلِ فہم ہے کہ اس کی شخصیت کے سابقہ عمل اور تجربات اس کی دعوتی زندگی میں نظر آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسوئہ رسولؐ میں ہمیں اس بات کا اظہار ملتا ہے کہ آپ جہاں ایک طرف ٹھیٹھ عقیدہ و نظریہ کی بنیاد پر ایک اجتماعیت کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے وہاں آپؐ معاشرے میں انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں ایک عملی انسان تھے۔ ایک عملی انسان میں جہاں اپنے نظریات و عقائد اور زندگی کے تصورات پر کاربند ہونے اور اس کے ابلاغ کی تڑپ ہوتی ہے، وہاں دوسروں کے جذبات کا لحاظ کرنا بھی اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔
بظاہر تو رواداری کی صدا اس طبقے کی طرف سے بلند ہونی چاہیے جو کمزور اور اقلیت میں ہو لیکن امرواقع یہ ہے کہ اس کا پُرزور مطالبہ بالعموم status quo کی حامی قوتوں کی طرف سے ہوتا ہے، جیساکہ اہلِ مکہ نے حضوؐر کے پیغام کی قوتِ تاثیر سے ڈر کر آپ کو سمجھوتے کی میز پر لانے کی کوشش یہ کہہ کر کی: اِئْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ھَذَا اَوْ بَدِّلْـہٗ ، اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئو یا اسے تبدیل کردو، تو اللہ نے حضوؐر سے کہلوایا کہ:قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّ لَہٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ ج اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ج (یونس ۱۰:۱۵)’’کہو کہ میرا یہ کام نہیں کہ میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کرلوں، میں تو اس وحی کا پابند ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے‘‘۔ غیروں کی خوش نودی کے لیے اگر مسلمان اپنے دین کے اصولوں میں کتربیونت کرتے ہیں تو اللہ کے نزدیک اس سے بڑھ کر ظلم کوئی نہیں۔ وہ اللہ کے ہاں مجرم قرار پائیں گے اور انھیں دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل نہ ہوگی: فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ط اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ o (یونس ۱۰:۱۷) ’’پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے‘‘۔ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کے معاملے میں کسی لاگ لپیٹ اور مفاہمت خواہانہ رویے (compromising attitude) سے اللہ نے اپنے رسولؐ اور ان کے صحابہؓ کو منع فرمایا: وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ o (القلم۶۸:۹) ’’یہ کافر تو چاہتے ہیں کہ تم کچھ مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں‘‘۔
مداہنت جس کا ذکر یہاں اللہ نے ناپسندیدگی کے ساتھ کیا ہے، کیا ہوتی ہے؟ اس کی وضاحت مفسرین کی آرا کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امام ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: لَوْ تُرَخِّصْ لَہُمْ فَیُرَخِّصُوْنَ اَوْتَلِیْنُ فِیْ دِیْنِکَ فَیَلِیْنُوْنَ فِیْ دِیْنِھِمْ ’’کچھ تم ان کے لیے ڈھیل نکالو تو پھر یہ تمھارے لیے ڈھیل پیدا کریں یا یہ کہ تم اپنے دین میں نرمی لے آئو تو یہ بھی اپنے دین میں نرمی لے آئیں‘‘۔(تفسیر ابن جریر ،ج ۱۹، ص ۲۸)
امام قرطبیؒ کے مطابق: فَاِنَّ الْاِدِّھَانَ: اَللِّیْنُ وَالْمُصَانِعُ، وَقِیْلَ: مُجَامَلَۃُ الْعَدُوِّ مُمَایَلَتُـہٗ ، وَقِیْلَ: مُقَارَبَۃٌ فِی الْکَلَامِ وَالتَّلْیِیْنُ فِیْ الْقَوْلِ ’’ادھان کا مطلب ہے ڈھیل پیدا کرلینا اور سازگاری چاہنا۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد ہے مخالف کے ساتھ لحاظ کا رویہ اختیار کرلینا اور میلان باہمی چاہنا۔ دوسرے قول کے مطابق: اس سے مراد کلام میں ایک دوسرے سے قربت پیدا کرنا اور بات میں ملائمت لے آنا‘‘۔ (تفسیر قرطبی، ج ۹، ص ۲۳۰)
امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: حضرت عبداللہؓ بن عباس سے مروی ہے کہ ’’اللہ کے اس فرمان سے مراد ہے کہ تم ان کے لیے معاملہ کچھ ڈھیلا کرو تو پھر یہ بھی تمھارے لیے ڈھیل پیدا کرلیں گے‘‘۔(تفسیر ابن کثیر،ج ۴، ص ۴۰۳)
قرآن کے نزدیک کسی بھی عقیدے یا نظریے کو قبول کرنے یا رد کرنے، صحیح کہنے یا غلط کہنے کا اختیار تو انسانوں کو حاصل ہے لیکن یہ اختیار نہ اس عقیدے کے مخالفین کو حاصل ہے اور نہ اس کے ماننے والوں کو کہ وہ اس عقیدہ کی تشریح و تعبیر اس کے اصل مراجع سے ہٹ کر کریں۔ جذبات انسانی کا احترام بجا مگر حق کا احترام اس سے بڑی چیز ہے اور حق کے احترام کی بات کرنا، باطل کے خلاف دعوت و تبلیغ کرنا، رواداری کے خلاف نہیں۔ البتہ یہ رواداری کے خلاف ہے کہ تلوار کے زور پر لوگوں سے کلمہ پڑھوایا جائے۔
اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ حسنِ سلوک، نرمی اور رواداری انسانوں کے ساتھ کرنے کا ہمیں حکم ہے: وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرہ۲:۸۳) ’’لوگوں سے بھلی بات کہنا‘‘، چاہے و ہ باطل پر ہی کیوں نہ ہوں لیکن خود باطل نظریات کسی رواداری کا استحقاق نہیں رکھتے کیونکہ ان سے رواداری حق کی بھینٹ دیے بغیر ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقابلہ تو حق و باطل پر مبنی نظریات و رجحانات کے درمیان ہوگا لیکن اس کو بہرحال انسانی قلوب و اذہان میں برپا ہونا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ حق و باطل کی اس مڈبھیڑ میں اس سرزمین کا نقصان کم سے کم ہو، اور انسانی جذبات کم سے کم برانگیختہ ہوں۔ جیسے ایک ڈاکٹر کی اصل جنگ مرض کے خلاف ہوتی ہے۔ یہ جنگ اسے مریض کے جسم کے حساس اعضا کے درمیان لڑنا ہوتی ہے۔ وہ کم سے کم نقصان اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ محض کسی اذیت کے خوف سے مریض کا علاج ترک نہیں کردیتا۔ گویا کوئی معاملہ بھی، جس میں اللہ اور رسولؐ نے کسی بات کا فیصلہ کردیا ہو، اس میں کسی گروہ کی پسندوناپسند کا خیال رکھنا اسلام کے نزدیک رواداری نہیں۔ البتہ ایسی بات یا موضوع جسے دین نے مباح رکھا ہو یا جس کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہو، اس میں لوگوں کے رجحانِ طبع، آسانی اور پسند کا لحاظ کرنا اور شدت و غلو اور انتہاپسندی سے بچنا ہی اسوئہ رسولؐ ہے۔
اس موقف کی تائید ایک روایت کرتی ہے جو مداہنت اور رواداری کے درمیان حضوؐر کے متوازن اسوئہ کو نمایاں کرتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اِنِّیْ لَمْ اُبْعَثْ بِالْیَھُوْدِّیَّۃِ وَلَا بِالنَّصْرَانِیَّۃِ وَلٰکِنِّیْ بُعِثْتُ بِالْحَنِیْفِـیَّۃِ الْسُّمْحَۃِ ’’مجھے نہ تو یہود کے اندازِ دین داری کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور نہ نصرانی مذہبیت کے ساتھ، مجھے اس موحدانہ طرزِ بندگی کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے جس میں وسعت و آسایش ہے‘‘۔(مسند احمد، رقم ۲۱۶۲۰)
اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلَی اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ الْسُّمْحَۃُ’’دین داری کا انداز اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، وہ ٹھیٹھ موحدانہ طرز کی بندگی، جس میں خوب نرمی و میانہ روی ہو‘‘ (بخاری، رقم الحدیث ۳۷، طبرانی، رقم ۷۵۶۲)۔ یہ الفاظ اس طویل حدیث کا حصہ ہیں جس میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کچھ حبشی لوگ عید کے روز آئے اور انھوں نے مسجد میں ایک رقص نما کھیل پیش کیا۔ تب نبیؐ نے مجھے بھی بلا لیا۔ میں آپ کے کندھے پر اپنا سر رکھ کر ان کا کھیل دیکھتی رہی یہاں تک کہ میں نے خود ہی ان کی طرف سے توجہ پھیر لی۔(مسند احمد، مسلم)
حضرت عروہؓ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے کہا: اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: لِتَعْلَمَ الیَھُوْدُ اَنَّ فِیْ دِیْنِنَا فُسْحَۃٌ اِنِّیْ اُرْسِلْتُ بِحَنِیْفِیَّۃٍ سُمْحَۃٍ (مسنداحمد، رقم ۲۳۷۱۰)۔ علامہ البانی نے خُذُوْا یَابَنِی رَفْدَۃ! حَتّٰی تَعْلَمَ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی اَنَّ فِیْ دِیْنِنَا فُسْحَۃٌ ’’شاباش حبش کے جوانو! تاکہ عیسائی و یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں بڑی وسعت ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(ناصرالدین البانی: السلسلۃ الصحیحہ)
زمانۂ جاہلیت میں شرک و بت پرستی کو غلط جاننے اور عام بُرائیوں سے دامن کش رہنے والے صاحب ِ عزم انسانوں کو ’حنیف‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے لیے قرآن نے حَنِیْفًا مُّسْلِمًا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حنف یحنف کا مطلب مڑا ہونا بھی ہے اور سیدھا ہونا بھی۔ میلان ختم کرلینا بھی ہے اور میلان پیدا کرلینا بھی۔ ایک طرف سے ٹوٹنا دوسرے سے جڑنا۔ گویا حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی طرف سے بالکل ہٹ کر کسی اور طرف کا ہو لے۔ چنانچہ حنیفیت کا معروف معنی ہے سب معبودوں سے ناتا توڑ کر ایک ہی معبود کا ہو رہنا۔ سمحہ کے معنی ہیں میانہ روی، معقولیت، اعلیٰ ظرفی، وسعت نظر کے ساتھ آسانی و نرمی، رواداری و رحم دلی۔ گویا اسلام مذہبی جکڑبندیوں کا نام نہیں۔ اسلام میں جائز خواہشات کو دبا دینا اور جذبات و احساسات کا قتل جائز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں ہمیں حنیفیہ اور سمحہ کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ایک طرف ایسے اصول ہیں جن پر کوئی مفاہمت نہیں، یعنی باطل سے کوئی مفاہمت نہیں، یکسو ہوکر ایک رب کا ہورہنا ہے۔ دوسری طرف دعوت و تربیت، ابلاغ اور قائل کرنے میں کوئی جبر نہیں۔ دعوتی عمل میں معقولیت، مخاطبین کی سہولت کا خیال ، نہ ماننے والوں سے کسی الجھائو کا شائبہ تک نہ ہونا، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ کے شرک بے زار اعلان کے ساتھ ہر ایک کو بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا کی نوید جاںفزا ۔ (مسلم ، رقم ۳۲۶۲ )
اصولی مسائل میں جب خاندان میں آپؐ کے واحد پشتی بان چچا ابوطالب نے بھی سردارانِ قریش کے دبائو اور اپنی مجبوریوں کا احساس دلا کر ایک موقعے پر آپؐ کو کچھ مفاہمت کی راہ دکھانا چاہی، تو آپؐ کا یہ فرمانا کہ واللہ !اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دیں تو بھی میں اس دعوت سے باز نہیں آئوں گا۔ آپؐ کے اس اسوہ میں ہمارے لیے یہ رہنمائی موجود ہے کہ دینی اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ عتبہ بن ربیعہ کی طرف سے کلمہ کی دعوت چھوڑنے کے نتیجے میں حکومت و دولت کی پیش کش کو آپؐ کی طرف سے ٹھکرا یا جانا معمولی بات نہیں۔ کوئی دانش ور کہہ سکتا ہے کہ آپؐ پہلے حکومت بنالیتے اور پھر حکومت کی طاقت سے توحید کی دعوت کی ترویج کرتے لیکن آپ نے اصولِ توحید کی تنفیذ کے لیے مشرکانہ سیادت کا بار ِاحسان ہونا گوارا نہ کیا۔
اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں ایک مسلمان کا کام دین کو بلاکم و کاست انسانوں تک پہنچا دینا ہے۔ اب کوئی اللہ کے نازل کردہ دین کو نہیںمانتا تو اس زندگی میں اسے اس کی پوری آزادی حاصل ہے۔ اس کا فیصلہ روزِ محشر اللہ نے کرنا ہے، ہم نے نہیں۔ البتہ دنیا میں باطل کے پرستاروں پر ان کی غلطی واضح کرنا اور انھیں عذابِ الٰہی سے ڈرانا ہماری ذمہ داری ہے۔
مسلم مکاتبِِ فکر کے درمیان رواداری
اب تک ہم نے دیگر اقوام و مذاہب کے معاملے میں رواداری کے مفہوم کے تعین کی کوشش کی ہے۔ اب خود مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے مختلف مکاتب ِ فکر کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ کے لیے جس رواداری کی ضرورت ہے، اسے سیرتِ رسولؐ کی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں گے۔
اس میں شک نہیں کہ آج مسلمانوں میں بہت سے مکاتب فکر ہیں جن میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں پائی جاتی ہیں۔ کسی کو کسی کی توحید مشکوک نظر آتی ہے تو کوئی کسی دوسرے کو منکرِ رسولؐ قراردیتا ہے۔ عقائد اور معاملات میں کہیں کہیں بڑے انحرافات بھی نظر آتے ہیں۔ ان پر تنقید نہ کرنا بھی اُمت کے مفاد میں نہیں۔ اُمت کو اصل دین پر قائم رکھنے کے لیے اصل دین کا اُجاگر کرتے رہنا ضروری ہے۔ لیکن اس تنقیدوتحقیق کو ایسے اصولوں کا پابند رکھنا ضروری ہے جو ہمیں اسوۂ رسولؐ سے حاصل ہوتے ہیں۔
لوگوں پر کفروشرک کے فتوے لگانا، جب کہ وہ کلمہ گو ہوں، یہ نبویؐ دعوت کا اسلوب نہیں ہے، خصوصاً جب ان پر کوئی دعوتی حجت بھی قائم نہ ہوئی ہو۔ حضوؐر پر تو منافقین کا نفاق واضح تھا، آپؐ نے کبھی کسی منافق کو بھی منافق کہہ کر مخاطب نہیں فرمایا۔ قرآن میں کسی ایک جگہ بھی یایھا المنافقون کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے حالانکہ قرآن میں جگہ جگہ منافقین کے رذائل بیان ہوئے ہیں۔ جب بھی کسی مسلمان یا مسلمانوں کے کسی گروہ کی خامی حضوؐر کے علم میں آتی تو آپؐ برسرِ منبر اس خرابی پر توجہ ضرور دلاتے لیکن ان افراد کا نام کبھی نہ لیتے تھے۔
اگر کسی امر پر دلیل ملتی ہو اور اُمت کے معتبر اہلِ علم کی گواہی بھی موجود ہو تو اس کی روشنی میں یہ کہنا کہ یہ کام شرک ہے، یا یہ رویّہ کفر ہے، یہ گناہ ہے یا فسق ہے، اس کے کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ کسی متعین فرد یا گروہ کا نام لے کر اُسے کافرومشرک، بدعتی یا منافق کہنا بہت سے پہلوئوں سے تحقیق و تفتیش کا متقاضی ہے۔ لوگوں کو خدا کا حق بتانے میں پُرحکمت اور مؤثر انداز اختیار کرنا ضروری ہے۔
جہاں حق بات کے اظہار کی استطاعت و اہلیت نہ ہو یا جہاں باطل کو رد کرنے کی حالات اجازت نہ دیتے ہوں، وہاں وقتی طور پر خاموش رہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت موسٰی ؑ جب ۴۰روز بعد بنی اسرائیل کی طرف واپس آئے اور انھیں گئوپرستی میں مبتلا پایا تو انھوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون ؑ سے پوچھا: مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَھُمْ ضَلُّوْٓا o اَلَّا تَتَّبِعَنِط (طٰہٰ۲۰:۹۲-۹۳) ’’تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ تم میرے طریقے پر عمل نہ کرو‘‘۔ تو حضرت ہارون ؑ نے جواب میں کہا: اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ (طٰہٰ۲۰:۹۴) ’’مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔
حضرت موسٰی ؑ کے بعد قوم نے جو بت پرستی اور سرکشی کی راہ اختیار کی، سورئہ اعراف کے مطابق حضرت ہارون ؑ کو اپنی جان کی ہلاکت اور اس کے نتیجے میں قوم کے انتشار کا خطرہ محسوس ہوا تو انھوں نے حضرت موسٰی ؑ کی واپسی کے انتظار تک جو مصلحت اختیار کی، قرآن نے اسے ناپسندیدہ قرار نہیں دیا۔
دین کے اجتہادی و فروعی معاملات میں حضوؐر نے مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو نہ صرف برداشت کرنے کی تربیت دی بلکہ اس عمل کو حصولِ فضیلت کا ذریعہ قرار دیا۔ فرمایا: اَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَ اِنْ کَانَ مُحِقًّا ’’میں اس شخص کے لیے جنت کے وسط میں گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے‘‘۔(ابی داؤد، رقم ۴۸۰۰)
قوم کے فتنہ و ہیجان میں مبتلا ہونے کے خطرے کے پیش نظر آپ نے اپنے پسندیدہ عمل کو بھی ترک کردیا۔ خانہ کعبہ کی عمارت ادبارِ زمانہ کے باعث ان بنیادوں پر موجود نہ تھی جن پر اسے حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا، حضوؐر ایسا کرنا چاہتے تھے لیکن فتنہ پیدا ہوجانے کے اندیشے سے ایسا نہ کیا۔ ایک دن حضرت عائشہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’میرا دل چاہتا ہے کہ خانہ کعبہ کی عمارت انھی بنیادوں پر تعمیرکروں جہاں اسے حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا لیکن اس وجہ سے رُک جاتا ہوں کہ تیری قوم نئی نئی مسلمان ہوئی ہے‘‘۔ (بخاری، رقم ۱۴۸۳)
اللہ کے رسولؐ جنھوں نے دعوتِ حق کے بیان میں کبھی سختیوں اور مخالفتوں کی پروا نہ کی اور نہ کسی ملامت کا خوف کھایا، وہ اس بات سے کیوں محتاط ہیں کہ خانہ کعبہ کی نئی تعمیر سے قوم بگڑ جائے گی۔ اس لیے کہ یہ مسئلہ دین کا اساسی مسئلہ نہ تھا کہ جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ کسی بھی ملامت کا خوف نہ کھاتے۔ چونکہ یہ مسئلہ فروعی نوعیت کا تھا اس لیے آپؐ نے لوگوں کے جذبات کا لحاظ کرکے کعبہ کی تعمیرنوپر ترجیح دی۔ گویا مسلمانوں کو یہ راہ دکھائی کہ وہ فروعی معاملات میں آپس میں اُلجھنے سے زیادہ اُمت کے اتحاد کو اہمیت دیں اور باہمی رواداری کا رویّہ اپنائیں۔
اسوئہ رسولؐ میں ہمیں احکامِ شریعت کے فہم و استنباط میں توسّع اور تنوع کی اتنی گنجایش نظر آتی ہے کہ اس میں تعدّد مسالک کا قبول کیا جانا، ہمارے اَسلاف کی شان دار علمی روایت کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ اس ذریعے سے انسان کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں اور تعمیری و تحقیقی عمل کے لیے ایک سازگار ماحول بنانے میں بے حد متوازن آداب و حدود رہنمائی کا کام دے سکتے ہیں۔
بخاری میں ہے کہ حضوؐر نے بنی قریظہ کی طرف ایک دستے کو روانہ کرتے ہوئے نصیحت کی: لَایُصَلِّیَنَّ اَحَدٌ الْعَصْرَ اِلَّا فِیْ بَنِی قُرَیْظَۃَ ’’کوئی بھی شخص بنی قریظہ کی بستی کے سوا نمازِعصر نہ پڑھے‘‘۔ صحابہ کرامؓ ابھی راستے میں تھے کہ انھیں محسوس ہوا کہ وہ نمازِ مغرب سے پہلے کسی طرح بھی بنی قریظہ کی بستی میں نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس لیے ایک گروہ نے نماز قضا ہونے کے اندیشے کے پیش نظر کہا کہ نمازِ عصر یہیں ادا کرلینی چاہیے۔ دوسروں نے کہا کہ آپؐ کا حکم بنی قریظہ میں پہنچ کر نمازِ عصر ادا کرنے کا ہے۔
پہلے گروہ نے اس کی تاویل کی کہ آپؐ کا مقصد تھا کہ ہم جلد از جلد وہاں پہنچیں لیکن اب ایسا ممکن نہیں، جب ہم نمازِعصر کے دورانیے میں وہاں نہیں پہنچ سکتے تو نماز قضا نہ کریں۔ لہٰذا ایک گروہ نے عصر کی نماز راستے میں پڑھی، جب کہ دوسرے گروہ نے منزل پر پہنچنا ضروری سمجھا لیکن ان کی نماز قضا ہوگئی۔ آپ سے اس معاملے کا ذکر کیا گیا تو آپؐ نے کسی کی بھی سرزنش نہ فرمائی: فَذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ فَلَمْ یُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْھُمْ (بخاری، رقم ۴۱۱۹)
ایک اور حدیث جس کے راوی حضرت ابوسعید خدریؓ اور عطائؓ بن یسار ہیں، کے مطابق دوصحابی سفر پر تھے کہ پانی کی عدم دستیابی کے باعث تیمم کرکے نماز ادا کرلی اور پھر مزید سفر پر روانہ ہوگئے۔ ادا کی گئی نماز کا وقت ابھی باقی تھا کہ پانی میسر آگیا۔ ایک صحابی نے کہا کہ اب ہمارا عذر ختم ہوگیا ہے اور نماز کا وقت بھی باقی ہے، لہٰذا ہمیں وضو کرکے نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے۔دوسرے نے کہا کہ میں تو نہیں دہرائوں گا کیونکہ جس وقت ہم نے تیمم سے نماز پڑھی تھی اس وقت ہمارا عذر موجود تھا۔ جب بارگاہِ رسالتؐ میں رہنمائی کے طلب گار ہوئے تو جس نے نماز نہیں دُہرائی تھی آپؐ نے اس سے کہا کہ تو سنت کو پاگیا اور تیرے لیے تیری نماز کافی ہوگئی، جب کہ نماز دہرانے والے سے فرمایا کہ تمھارے لیے دہرا اجر ہے۔ (ابوداؤد) گویا آپؐ نے دونوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ میں بھی مختلف علمی ذوق و مزاج اور علمی سطح کے افراد موجود تھے اور حضوؐر نے قرآن و حدیث کے فہم و تعبیر میں ان کے اختلاف کو جائز قرار دیا۔ اس لیے کہ دونوں آرا رکھنے والوں کو قولِ رسولؐ کی حجیت اور اہمیت سے انکار نہیں تھا لیکن پیش آمدہ نئی صورت حال میں آپؐ کے الفاظ کی تفہیم و تعبیر میں اختلاف ہوا۔ اس لیے آپؐ نے کسی پر گرفت نہیں کی۔
اسوئہ رسولؐ کے اسی پہلو کے پیش نظر اَسلاف میں وہ روادارانہ طرزِعمل دکھائی دیتا ہے جس کا تذکرہ شاہ ولی اللہ کی کتاب الانصاف میں ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالکؒ سے کہا کہ آپ کے مجموعہ احادیث موطا کی فقہی آرا کا کیوں نہ تمام اُمت کو سرکاری طور پر اس کا پابند کردیا جائے، تو امام مالکؒ نے انھیں یہ کہہ کر منع فرما دیا کہ امیرالمومنین ایسا نہ کریں۔ مختلف دیار میں محدثین و فقہا پہنچ چکے ہیں جن کے علم و تقویٰ پر وہاں کے لوگوں کا اعتماد قائم ہے۔ آپ زبردستی کرکے ان پر زیادتی کریں گے۔ اسی طرح امام شافعیؒجو نماز ِ فجر میں دعاے قنوت پڑھنے کے قائل تھے۔ جب انھوں نے کوفہ میں امام ابوحنیفہؒ کے مدرسے میں نمازِ فجر پڑھائی اور دعاے قنوت نہ پڑھی، تو لوگوں نے پوچھا کہ آج آپ نے دعاے قنوت نہیں پڑھی، تو آپ نے فرمایا کہ آج میں ان کے شہر میں ہوں جو ایسا نہیں کرتے۔ لہٰذا میں نے اس کے خلاف کرنا مناسب نہ جانا۔ ( الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، ص ۴۱)
آج کے عالمی گائوں (Global Village) ،نئی دنیا میں جس تہذیبی اور ثقافتی کش مکش سے ہمیں واسطہ ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جہاں ایک طرف دین کے ٹھیٹھ اور واضح تصور کو اپنانے کی ضرورت ہے، وہاں داعیانِ دین کے لیے زمانہ شناس ہونا بھی ضروری ہے۔ اپنے زمانے کو سمجھے بغیر اگر ہم نے کوئی اقدام کیا تو اس کمزوری کا فائدہ کفر ہی کو ہوگا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جن موضوعات پر آج بین الاقوامی سطح پر بحث ہورہی ہے، ان کے بارے میں کسی ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوئے بغیر اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک رہنما خطوط متعین کیے جائیں، تاکہ ایک طرف ہم اپنی اقدار و روایات کا تحفظ کرسکیں تو دوسری طرف دیگر اقوام کے سامنے اسلام کا تشخص پیش کرسکیں۔
مقالہ نگار شعبہ علومِ اسلامیہ، گورنمنٹ کالج، ٹاؤن شپ لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ برقی پتا: drakhtarazmi27@gmail.com
ممالک اسلامیہ میں احیاے دین کے لیے اس وقت حکمت عملی کے اعتبار سے دو طریقے اسلام پسند عنصر کی بڑی تعداد میں مقبول و معروف نظر آتے ہیں۔ ایک نظری تبلیغ و تعلیم کا طریقہ ہے اور دوسرا عملی جہاد کا طریقہ۔
نظری تبلیغ و تعلیم کے نتیجے میں کہا جاتا ہے کہ جب معاشرے کے افراد کی اکثریت سدھرے گی تو اس کے نتیجے میں خود بخود ایک صالح انقلاب برپا ہو گا جو مقتدر طبقات میں بھی اپنے حامی افراد تلاش کر لے گا۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں کہ جب باطل نظریات محض علمی و نظری صورت میں ہی نہیں بلکہ ایک جیتے جاگتے معاشرے اور زندہ و متحرک اجتماعیت کی صورت میں موجود ہوں‘ اور باطل نظام نہ صرف عملی دنیا پر قابض ہو بلکہ اس کی پشت پناہی کے لیے فعال سماجی و سیاسی اور اقتصادی ادارے موجود ہوں‘ تو ایسی صورت میں اسلام کو محض علمی و نظری حیثیت سے پیش کرنے والی تحریک اس کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے ؟ بالخصوص‘ جب کہ مقصد ایک بالفعل قائم نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ ایک ایسے نظام کو عملاً برپا کرناہو جو اپنے مزاج، اصول حیات اور ہرکلّی و جزئی معاملے میں موجود غالب نظام سے مختلف ہو۔ نظریہ و نظام کی حیثیت سے اسلام کی خوبیوں کو زبان و قلم سے خواہ کتنا ہی واضح کیا جائے، یہ جدوجہد کبھی بھی اسلام کے غلبے کی تحریک برپا نہیں کرسکتی۔
محض ’نظری‘ مسلمان بالفعل قائم شدہ نظام اور متحرک وفعال فاسد معاشرے کی مشین کے ایک پرزے کی حیثیت سے اس کے تمام تنظیمی تقاضوں کو لبیک کہنے پر مجبور ہوں گے۔ فاسد اجتماعیت کو اکھیڑنا تو کجا ،وہ الٹے اسی بوسیدہ نظام کو اپنے سرمایۂ ایمان و اخلاق سے مستحکم کرنے کا باعث بنیں گے جس کی وہ نظری و علمی لحاظ سے مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔سید قطب شہیدؒ کے الفاظ میں: یہ لوگ اس نظام کے نسبتاً جان دار خلیے (cells) ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عناصر بقا اور اسباب حیات فراہم کرتے ہیں۔ اپنی قابلیتیں، اپنے تجربات اور اپنی تازہ دم قوتیں اس کی خدمت میں صرف کرتے ہیں تا کہ اسے عمرِ دراز اور قوتِ مزید حاصل ہو۔ اس لیے کہ ’کُل‘ جب اپنے تمام فرائض انجام دے گا تو ’جز‘ کو لازماً انھی فرائض کی ادایگی کے لیے ’کُل‘ کے مطابق ہی حرکت کرنا ہوگی۔ (معالم فی الطریق)
انسانوں کی حاکمیت کے بجاے حاکمیت الہٰیہ کا قیام، زمام کار کو غاصبین و فاسدین سے چھین کر قوانین انسانی کی تنسیخ اور شریعت الٰہی کی تنفیذ ایک ایسی کٹھن مہم ہے جو محض دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے نتیجے میں کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ خلق خدا کی گردنوں پر سوار غاصبانہ تسلّط رکھنے والوں نے تاریخ میں پہلے کبھی محض تعلیم و تبلیغ اور اپیل کے نتیجے میں سماجی و سیاسی قیادت سے دست برداری اختیار کی نہ آیندہ ایسا ممکن ہے، کیونکہ اللہ کے سوا ہر قسم کے اقتدار کی نفی کے ساتھ ساتھ خدا کے شرعی نظام کے قیام کا مثبت کام اس دعوت کا مغز ہے۔ اتنے اہم مشن کی انجام دہی کے لیے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ ایک ہمہ جہت تحریکِ جہاد کا برپا ہونا بھی اس مشن کا فطری تقاضا ہے۔ اسلامی نظریے کا ایک ایسی منظم تحریک کا قالب اختیار کر لینا جو باطل سے باغی اور بالکل جداگانہ طرز کی قیادت کے تابع ہو ، دین کا اس شکل میں دنیا سے اپنا تعارف کرانا ہی اس امر کے لیے کافی ہے کہ ارد گرد کے تمام باطل و فاسد معاشرے اور طبقے اس کو مٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے وجود کے تحفظ کے لیے باہر نکل آئیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نئی اسلامی اجتماعیت کو بھی اپنے تحفظ کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس کش مکش کو چھیڑنے میں اسلام کی پسند و ناپسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ کش مکش تو اسلام پر ٹھونسی جاتی ہے جو دو ایسے نظاموں کے مابین چھڑ کر رہتی ہے جو زیادہ عرصے تک بقاے باہم کے اصول پر ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اسلامی تحریک پر مسلط کردہ یہ جنگ لڑے بغیر چارہ نہیں۔
فساد فی الارض کفر کی فطرت اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا (یصدون عن سبیل اللّٰہ) اس کی فطرت کا لازمی تقاضاہے۔ لیکن اگر مسلم ممالک کے حکمران بھی اسی روش پر گامزن ہوں تو ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیاجائے؟ یہ آج کی مسلم دنیا کا اہم سوال ہے۔ غیروں کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے یہ حکمران بھی اگر اسلامی بنیاد پرستی کے نام سے ہوّا کھڑا کریں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر ان بنیاد پرستوں کا مطالبہ کیا ہے؟ ’اسلام‘ ۔۔۔ صرف اور صرف ’اسلام‘، وہ اسلام جو ان ممالک کی اکثریت کا عقیدہ و مذہب ہے۔ کیا کسی اجتماعیت کا اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے نظام کو اپنے عقیدے کے مطابق چلانے کا مطالبہ کرنا کوئی ایسا جرم ہے جس کی پاداش میں انھیں دہشت گرد، بنیاد پرست‘ جنونی‘ رجعت پسند قرار دیا جائے ،ان کے لیے درِزندان کھولے جائیں او ر صلیبیں گاڑی جائیں۔
ترکی و الجزائر میں انتخابی کامیابیوں کے باوجود اسلامی تحریکوں کو اقتدار سے محروم رکھنے کی سازش، پاکستان اور مصر میں جمہوریت کے ادھورے تجربات کے نتیجے میں غلبۂ اسلام کی منزل سے دُوری ، عوام کی سیاسی و معاشی بدحالی کی ذمہ دار امریکا کی آلۂ کار مقامی قوتوں کی کاسہ لیسی اور بین الاقوامی اداروں کی سیاسی و معاشی دھونس نے مسلمان نوجوانوں میں اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف جنگ آزمائی کا ایک مزاج پیدا کیا جسے افغانستان و کشمیر اور چیچنیا میں مجاہدینِ آزادی کی معرکہ آرائیوں اور افغانستان میں اس کے ذریعے طالبان کی اسلام پسند حکومت کے قیام نے ان کے جذبے کو مہمیز دی ہے۔ غیر ملکی تسلط کے خلاف برسرپیکار جہادی قوتیں ، جن کے زیر اثر افراد کی اکثریت جمہوریت سے بیزار اور سیاست سے نابلد ہے، اس احساس کو فزوں تر کر رہی ہے کہ پاکستان میں غلبۂ اسلام کی صورت صرف جہاد ہے ۔ تاہم‘ یہ سوال غور طلب ہیں: ایک مسلم اکثریتی ریاست میں یہ جہاد کیسے ہوگا، مسلح یا غیرمسلح؟ اگر مسلح ہوگا تو اس کا نشانہ کون سے طبقات اور افراد ہوں گے‘ اور اگر غیرمسلح ہو گا تو اس کا طریق کار کیا ہو گا؟ نیزاس جہاد کو فساد اور خانہ جنگی بننے سے کیسے روکا جائے گا؟
تمام تر خلوص اور جذبۂ قربانی کے باوجود یہ جہادی عنصر داخلی جہاد کے بارے میں ایک ابہام کا شکار ہے۔ یہ حضرات نہ تو زمینی حقائق سے آنکھیں چار کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ سیاسی و تمدنی ارتقا اور جغرافیائی اسٹرے ٹیجک تبدیلیوں کے تناظر میں قرآن و سیرت نبویؐ سے اجتہادی بصیرت کے ساتھ رہنمائی کے حصول کی صلاحیت سے ہی متصف ہیں ۔ عصر حاضر کے انقلابی مفکر راشد الغنوشی کے نزدیک جب تک صورت حال یا امر واقعہ کے اساسی اور فیصلہ کن توازن کا بغور جائزہ نہ لیا جائے، معروضی حالات کو سمجھ نہ لیاجائے، حالات کی نبض پر ہاتھ نہ ہو، تغیر و تبدل کے مواقع کابڑی باریک بینی سے جائزہ نہ لیا جائے‘ اور پھر اس نتیجے پر نہ پہنچا جائے کہ ہمیں جدوجہد کس سطح پر کرنی ہے؟ ہماری استطاعت کیا ہے اور امکانات کیا ہیں؟ کبھی اقدام درست نہیں ہوسکتا۔
تغیر احوال کو صحیح طر ح سے نہ سمجھ سکنے کی ایک وجہ ریاست کے جدید ادارے اور اس کے تقاضوں کا عدام ادراک ہے‘ اور یہ کمزوری نتیجہ ہے اجتہاد سے گریز کرنے کا۔ اپنے موضوع کو صرف پاکستان تک محدود رکھتے ہوئے پہلے ہمیں ملک کے معروضی حالات اور آئینی پوزیشن کا تعین کرناہوگا۔
(ا)دستوری لحاظ سے: (۱)پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے جس میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ (۲) ملکی پارلیمنٹ کے لیے قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی ممانعت ہے۔(۳) حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لیے ایسا سازگار ماحول پیدا کرے جس میں وہ صحیح مسلمان بن سکیں۔ (۴) صدر، وزیراعظم اور دیگر کلیدی عہدوں پر تقرر کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ (۵) ہر شہری کو بنیادی انسانی حقوق بشمول عقیدہ و عبادت کی آزادی، ظلم کے خلاف احتجاج ، تنقید و محاسبے کی آزادی ، انتخاب حکومت کے لیے حق راے دہی، تنظیم سازی و تبلیغ و تربیت جیسے حقوق حاصل ہیں۔
(ب) انتظامی اعتبار سے: ریاستی نظام کو چلانے اور کسی قسم کی مسلح بغاوت سے نبٹنے کے لیے ایک منظم اور جدید ترین حکومتی مشینری، فوج، پولیس اور دیگر عدالتی و انتظامی اداروں کا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔
(ج) عملی اعتبار سے: (۱) ارباب اختیار کا رویہّ مجموعی طور پر اسلام سے منافقانہ رہا ہے۔ (۲) اسلامی قانون و دستور پر عمل در آمد بحیثیت مجموعی تعطل کا شکار رہاہے۔ (۳) بالادست طبقے بالعموم آئینی و جمہوری حقوق کو غصب کرتے آ رہے ہیں ۔ (۴) عوام کی اکثریت مسلمان ہے مگر اجتماعی معاملات غیر الٰہی رسوم و قوانین کی گرفت میں ہیں‘ جب کہ انفرادی زندگی بھی مجموعی طور پر کفرو اسلام کا مرکب ہے۔
ان تینوں پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آغاز دعوت میں حضوؐر کی جدوجہد کا اسلوب کیا تھا ۔ امام مالکؒ کے مطابق امت کے آخری دور کی اصلاح بھی اسی طریقے پر ہو گی جس طورسے آغازِ دعوت کے دور میں ہوئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ مکی و مدنی ادوار جدوجہد کے کون سے راستے کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔
مکی دور میں نازل شدہ ذیل کی دو آیات جہاد کے مفہوم کے باے میں واضح ہیں:
(۱) ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰھَدُوْا وَ صَبَرُوْٓا لا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (النحل ۱۶:۱۱۰) بخلاف اس کے جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب (ایمان لانے کی وجہ سے) وہ ستائے گئے تو انھوں نے گھربار چھوڑ دیے‘ ہجرت کی‘ راہِ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبر سے کام لیا‘اُن کے لیے یقینا تیرا رب غفورو رحیم ہے۔
(۲) فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا (الفرقان ۲۵: ۵۲) پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔
پہلی آیت میں ہجرت کرنے والوں سے مراد مہاجرین حبشہ ہیں‘ اور اس کے بعد جس جہاد کا ذ کرہے وہ مکہ کے پورے دور میں تلوار کے ذریعے نہیں کیا گیا۔ اس دور میں جس طریقے سے جہاد کیا گیا، اس کا بیان دوسری آیت میں ہے جس میں جہاد کا حکم بھی دیا گیا ہے اور ساتھ جہاد کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے‘ جس کے مطابق ایک تو کافروں کی کسی نوعیت کی اطاعت نہیں کرنا‘ اور دوسرے اس قرآن کے ذریعے جہادکبیر کرنے کا حکم ہے۔ ظاہرہے کہ قرآن کوئی ہتھیار نہیں جس سے کسی پر ضرب لگائی جائے۔ قرآن کے ذریعے جہاد کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے استدلال کے ذریعے نظام شرک کا باطل اور اسلام کا حق ہونا واضح کیا جائے۔ حضوؐر نے پورے مکی دور میں کفار کے تمام تر ظلم و استبداد کے باوجود کوئی ہتھیار نہ اٹھایا ۔ امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: ’’آپؐ اپنی بعثت کے بعد تقریباً ۱۳سال تک دعوت و تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اللہ کا خوف دلاتے رہے۔ اس عرصے میں نہ جنگ کی اور نہ جزیہ لیا بلکہ آپؐ کو یہی حکم ملتا رہا کہ ہاتھ روکے رکھیں، صبر سے کام لیں۔ (زاد المعاد)
گویا کہ مکی زندگی میں بھی جہاد کا عمل جاری تھا مگر قتال پر پابندی تھی۔ ایسا کیوں تھا؟ سیدقطب شہید ؒکے مطابق: مکی زندگی میں جہاد بالسیف سے دست کش رہنا قابل فہم ہے۔ اس لیے کہ مکہ میں حضوؐر کے لیے بنو ہاشم کی تلواروں کی حمایت کی وجہ سے حریت تبلیغ کا انتظام موجود تھا، آپؐ فرداً فرداً ہر شخص کو مخاطب کر سکتے تھے۔ مکہ میں کوئی ایسی منظم سیاسی قوت موجود نہ تھی جو دعوت و تبلیغ کی آواز کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کر سکتی کہ لوگ اسے سننے سے بالکل محروم ہوجاتے۔ (فی ظلال القرآن)
سیدقطب شہید ؒ کُفُّوْا أَیْدِیَکُمْ (اپنے ہاتھ روکے رکھو) کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت کسی باضابطہ حکومت کا کوئی وجود نہ تھا، جو اہل ایمان کو ایذا رسانی کا نشانہ بناتی‘ بلکہ تعذیب و تادیب کا عمل ہر مومن کے اپنے ہی رشتہ داروں اور سرپرستوں کے ہاتھوں جاری تھا۔ اس طرح کی فضا میں اِذن قتال کے صاف معنی تھے کہ گھر گھر میں معرکہ برپا ہو جاتا اور خانہ جنگی کا طویل اور لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا۔ (فی ظلال القرآن)
مکی دور میںاگر جہاد بالسیف فرض کر دیاجاتا تو یہ محدودجنگ مسلمانوں کی اس قلیل جماعت کے کلّی خاتمے پر منتج ہوتی۔ خواہ مسلمان اپنے سے کئی گناز یادہ لوگوں کو مار ڈالتے لیکن نظام شرک و ظلم کی عمل داری جوں کی توں قائم رہ جاتی۔
اس صورت حال کے پیش نظر اگر ہمیں پاکستان میں آزادی تقریر و تحریر اور آزادی اجتماع و تنظیم حاصل ہے تو ابلاغ کے آئینی راستے کو چھوڑ کر جہاد کے لیے بندوق اٹھا کر کھڑے ہو جانا کہاں کی دانش مندی ہے‘ جب کہ ابھی دعوت و تبلیغ کا حق بھی ادا نہ کیا گیا ہو۔ آج‘ جب کہ ملک وملّت کو دشمن کے خلاف یک جہتی و اتحاد کی ضرورت ہے، مسلح جدوجہد کے نتائج سواے خانہ جنگی وانارکی کے، اسلام کے حق میں کچھ بھی بہتر نہ ہوں گے۔
موجودہ دور میں جب سبک رفتار ذرائع رسل و رسائل کے ذریعے حکومتی مشینری حرکت میں آتی ہے تو اپنے مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے کسی بھی گروہ کی بڑی سے بڑی جدوجہد کو سختی سے سے کچل بھی سکتی ہے اور عوام الناس کو اپنے سریع الاثر ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کے ذریعے اسلامی تحریک کو یکہ وتنہا کر سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آئینی و جمہوری خطوط پر استوار تحریک عوام میں اپنا ایک اخلاقی جواز اور عدالت میں قانونی تحفظ رکھتی ہے، جس کی وجہ سے ایک لمبے عرصے تک تحریک کو جاری رکھنا ممکن ہے ۔
مکی دور کی اس تحریک جہاد کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تحریک اپنی دعوت کے آفاقی ہونے کے باوجود زندگی کے روز مرہ معاملات اور مقامی مسائل سے بھی پوری طرح مربوط تھی اور ان کے حل کے لیے مروجہ متوازی و سائل سے کام لے رہی تھی۔ اس تحریک نے جہاں عقیدہ و اخلاق کی اصلاح کے لیے آواز بلند کی وہاں ظلم کے خاتمے کی جدوجہد کو دعوت کی کامیابی تک ملتوی نہیں کیا‘ بلکہ قولی دعوت کا عملی اظہار اسی صورت میں تھا کہ ہر داعی مظلوم کا ساتھی اور پشتیبان بن گیا۔
ایک مظلوم کا حق دلوانے کے لیے حضوؐر کا ابو جہل جیسے دشمن کا دروازہ کھٹکھٹانا (ابن ہشام)، مظلوموں کی حمایت کے لیے دور ِ جوانی میں کئے گئے معاہدہ حِلف الفضول کی دورِنبوت میں بھی تصویب و تائید (طبقات، مستدرک) ، پہلی وحی کی گھبراہٹ کے موقع پر حضرت خدیجہؓ کی طرف سے تسلی کے الفاظ: ’’آپ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ، محتاجوں کو کما کر دیتے اور راہِ حق میں پیش آمدہ مصائب پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘ ‘ (بخاری)، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو ان کی زمین سے بے دخلی کرنے والوں کو فرمانا: اگر میرے آنے کے بعد بھی کمزوروں پر ظلم ہو تو مجھے پھر اللہ نے رسول بناکر کیوں بھیجا ہے (انتخاب حدیث)‘ فرمان نبویؐ:’’بے شک اللہ ایسی امت کو پاکیزگی نہیں بخشتا جس کے ماحول میں کمزوروں کو ان کا حق نہ دلوایا جائے‘‘(مشکوٰۃ)___ سیرت نبویؐ کا یہ پہلو نہ صرف عام مسلمانوں نے نظر انداز کر دیا ہے بلکہ وہ لوگ جو افغانستان و کشمیر میں ہونے والے ظلم پر تڑپ اٹھتے ہیں اور جان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ وہ اپنے ملک میں اپنے ارد گرد ہونے والے ظلم سے بالکل آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ظالم جاگیرداروں او بدعنوان حکمرانوں اور افسران کے ہاتھوں کتنی ہی عصمتیں، عزتیں اور محنت کی کمائیاں برباد ہو رہی ہیں اور ان مظلوموں کی جنگ لڑنے والا کوئی نہیں۔ جذبات میں آکر گولی کھا لینا اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا ظلم اور گھٹن کے شکار معاشرے میں کسی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہو کر خوف و دہشت اور مایوسی کی فضا میںکسی ظالم کے سامنے مسلسل آوازۂ حق بلند کرنا مشکل ہے۔
مدنی زندگی کے اوائل میں‘ جب کہ مدینہ و اطراف مدینہ کے قبائل کی اکثریت ابھی تک شرک پر قائم تھی، عدم جنگ کے معاہدے کے مطابق وہاں تبلیغ و دعوت کے کھلے مواقع حاصل ہوگئے تھے اور کوئی سیاسی قوت اس پر قدغن لگانے والی اور لوگوں کو اس سے روکنے والی نہ تھی، حضوؐر نے منافقین کے خلاف تلوار نہ اٹھائی۔ اللہ کے عطا کردہ علم کی بنیاد پر حضوؐر کو منافقوں کی منافقت کا حال بھی معلوم تھا اور بعض مواقع پر تو ان کی مخالفت واضح شکل میں سامنے بھی آگئی اور مسلمانوں کو ان کی وجہ سے کئی مواقع پر نقصان بھی اٹھانا پڑا لیکن جب انھوں نے کوئی عذر بیان کیا تو آپؐ نے ان کے عذر کو قبول کیا۔ حتیٰ کہ غزوئہ بنو مصطلق کے موقع پر عبداللہ بن ابی نے حضوؐر اور مہاجر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی کی۔ حضرت عمرؓ نے آپ سے اس کے قتل کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے فرمایا : ’میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ محمد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگا ہے۔ (تفہیم القرآن)
مسلم معاشرے میں موجود منافقین کے خلاف جہاد بالسیف کے لیے سورۂ توبہ کی آیت یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاَغْلُظْ عَلَیْھِمْط (۹:۷۳) سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اس آیت کا حقیقی مفہوم کیاہے‘ اور منافقین کے خلاف جہاد کی نوعیت کیا ہوگی؟ امام ابن قیمؒ کے مطابق : کفار اور منافقین کے بارے میں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف جہاد کیا جائے اور ان سے سخت برتائو کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے کفار کے ساتھ شمشیروسناں سے جہاد کیا اور منافقین کے ساتھ دلیل و زبان سے___ رہا منافقین کے بارے میں آپؐ کا اسوہ توآپ ؐ کو حکم دیا گیا کہ آپؐ ان کے ظاہر کو قبول کر یں اور ان کے باطن کے حالات کو اللہ پر چھوڑ دیں‘ اور علم اور دلیل سے ان کے ساتھ جہاد کریں۔ ان سے شدت کا برتائو کریں۔ان کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر قیام کرنے سے منع کر دیا گیا ۔ (زاد المعاد)
مولانا مودودیؒ کے مطابق: منافقین کے خلاف جہاد اور سخت برتائو سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے جو چشم پوشی اب تک برتی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میںاپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا، اس کو آیندہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے ، اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، علانیہ اس کو ملامت کی جائے، سوسائٹی میں اس کے لیے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھاجائے، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کے لیے بند رہے۔ (تفہیم القرآن)
جہاں تک معاملہ ہے ایک مسلم ریاست میں ظالمانہ و غاصبانہ تسلط رکھنے والے مسلم حکمرانوں کا تو اس بارے میں مسلح جدوجہد(خروج) جمہور علما کے نزدیک ناپسندیدہ عمل رہاہے۔ یہ موقف مثالی نہ ہونے کے باوجود عملی طور پر امت کے لیے نسبتاً کم نقصان دہ ثابت ہوا ہے‘ جب کہ مسلح جدوجہد میں کامیابی کے بعد بھی ایک صالح انقلاب کی منزل ایک خواب ہی رہی۔ ابتدائی دور میںخوارج اور بنو عباس اور دور حاضر میں جنرل نجیب و ناصر کی حکومتیںاس کی واضح مثالیں ہیں۔ خوارج اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کی خون ریز معرکہ آرائیوں کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو ظلم سے نجات حاصل نہیں ہوئی بلکہ معصوموں کی جان تلفی کے ساتھ ساتھ دشمنان ملّت کی امت میں مداخلت کے لیے انتشار کے کئی دروازے کھل گئے ۔سید مودودی نے بھی اس تاریخی تجربے کی روشنی میں دعوت و تحریک کے آئینی اور علانیہ ذرائع اختیار کرنے پر زور دیا۔ان کے نزدیک سازشی اور خفیہ طریقے سے آنے والے انقلابات انھی ذرائع سے ختم کر دیے جاتے ہیں اور کبھی پایدار نہیں ہوتے۔
راشد الغنوشی کے نزدیک فتنہ و فساد اور انارکیت سے بچنے کاواحدراستہ یہی ہے کہ ’اسلامی جہاد‘ کا اصول اپنایا جائے اور اس میں سب سے افضل جہاد ’کلمۂ حق‘ ہے۔حضوؐر نے ظالم سلطان کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کو سب سے بڑا جہاد قرار دیا ہے (ترمذی)۔ ارشاد نبویؐ ہے کہ جو کوئی تم میں سے کوئی منکردیکھے اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کر ے۔ اگر اس کی استطاعت نہیں تو پھر زبان سے، اور اگر اس کی استطاعت نہیں تو اپنے دل میں بُرا جانے(مسلم)۔ اس ارشاد کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازالہ منکر اور ظالم و ناپسندیدہ عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے مسلمانوں کے سامنے کئی راستے کھول دیے ہیں تا کہ وہ خود پیش آمدہ حالات کا اچھی طرح جائزہ لے کر، حالات و امکانات سامنے رکھ کر مناسب اور موزوں قدم اٹھائیں۔ شارع نے اسے مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا اور امربالمعروف و نہی عن المنکر جیسے تنظیمی و وجوبی حکم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں فرمائی جس کی بناپر علما کہتے ہیں: ’’قرآن میں کیفیت کی تحدید نہیں ہے کہ کس طرح اس واجب کی ادایگی کی جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض مسلمانوں کی مصلحت اور ان کے حالات وظروف کی رعایت سے کیفیت کے بیان کو چھوڑ دیاگیا ہے‘‘۔ (الدستور القرآنی)
عصر حاضر میں سیاسی اداروں کے ارتقا او ر تمدنی تنظیم کے تغیرات نے مسلح جدوجہد (خروج) اور محض نظری تبلیغ کے درمیان ایک ایسا راستہ ہمارے لیے کھول دیا ہے جو ہمیں بد امنی و انتشار سے بھی بچا سکتا ہے اور کسی بھی منکر کے خلاف اسلامی غیرت و حمیت کے اظہار کا طریقہ بھی ہے۔ یہ ظالموں اور حق کے غاصبوں کے خلاف اہل حق اور مظلوموں کابہترین ہتھیار بھی ہے اور جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کا مؤثر ذریعہ بھی___ وہ ہے احتجاج کا حق۔ قرارداد مذمت، ہڑتال، جلسہ جلوس، دھرنا، احتجاج کی مختلف شکلیں ہیں۔ جو لوگ ان ذرائع کے اختیار کرنے کو وقت اور صلاحیت کا ضیاع قرار دیتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ آج احتجاج اور مظاہرے عوامی ہمدردیوں کے حصول اور اپنی بات کو اوپر پہنچانے اور منوانے کا ذریعہ بھی ہیں، اور قومی و بین الاقوامی راے عامہ کے جاننے کا پیمانہ بھی۔ خود پاکستان کی دستوری تاریخ میں قرارداد مقاصد کی منظوری، قادیانیوں کا غیر مسلم قرار پانا، اور سیاسی لحاظ سے پاکستان میں سوشلزم کی پسپائی، جہادافغان و کشمیر کی پشت پناہی، ایٹمی دھماکوں پر حکمرانوں کا مجبور ہونا، توہین رسالتؐ کے معاملے میں یورپ کا زیر دبائو رہنا ،امریکی پشت پناہی کے باوجود شاہ ایران کا ملک سے فرار انھی ذرائع سے ممکن ہوا ہے ۔ اب‘ جب کہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور منکرات کے رسیا اپنی عوامی قوت کے اظہار کے ذریعے راے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرکے اپنی بات منوالیتے ہیں تو نیکی کے علَم برداروں کا احتجاج کے آئینی راستے کو مخالفین کے لیے کھلا چھوڑ کراپنے کو حصولِ حق کے ایک جائز ذریعے سے محروم رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے۔
مذہب کے روایتی تصور کے مطابق اس بات کو دینی تقاضا سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مذہب قدیم تنظیم و معاشرت کانام نہیں بلکہ ان تعلیمات کا نام ہے جو اس کے اندر حلول کیے ہوئے ہیں۔ جس طرح قدیم کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے مذہبی بنایا گیا اور آج ہم اسے مذہبی سمجھتے ہیں‘ اسی طرح جدید کو بھی ہر دور میںدینی تعلیمات کی روشنی میں مذہبی بنایا جا سکتا ہے۔ ادوار کی تبدیلی کے ساتھ تمدن و معاشرت کی تنظیمی ہیئت اورمراکز قوت تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
حضوؐر نے جب کوہ صفا پر پہلاخطاب عام ارشاد فرمایا تو اس موقع پر آپؐ نے بھی قریش کو عرب کے اسی خاص اسلوب سے پکارا جس سے وہاں کسی خطرے کے نازک لمحے میں قوم کو بلایا جاتا تھا۔ پکارنے والابلندی پر کھڑے ہو کر معاملے کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے اپنا لباس اتار کر اسے فضا میں لہراتا اور واصباحاہ واصباحاہ کی ہانگ لگاتا۔ لازم تھا کہ لوگ دوڑ کر آئیں اور اس کی بات سنیں۔ حضوؐرکی شرم و حیا سے یہ تو بعید تھا کہ آپؐ اپنا لباس اتارتے، البتہ اس کی بجاے آپؐ نے اپنی رداے مبارک فضا میں لہرائی اور وہی واصباحاہ واصباحاہکی آواز بلند کی۔ گویا کہ عرب کے رواج کے غلط پہلو کو چھوڑ دیا اور اس کے ذریعے ابلاغ کے مقصدی پہلو سے استفادہ کیا۔
تمدنی تنظیم کی جدت کو اپنانے کی ایک مثال دیّت اور عاقلہ کے نظام میں ہے۔ زمانۂ جاہلیت کے قبائلی نظام میں عاقلہ (قریبی ورثا) کے ذریعے حادثات و خطرات کی تلافی کے لیے امداد باہمی اور اجتماعی جرمانے کی شکل نکالی گئی تھی، رسولؐ اللہ نے اسے برقرار رکھا۔ ابتدا میں نظام عاقلہ صرف خاندان و قبیلے تک محدود رہا لیکن عہد فاروقی میں حالات کی تبدیلی سے جب معاشرے کی نئی تنظیم وجود پذیر ہوئی تو حضرت عمرؓ نے نظام عاقلہ کو وسعت دیتے ہوئے قانون مقرر کیاکہ اگر قاتل اہل دیوان سے ہے تو عاقلہ اہل دیوان ہوں گے۔ اہل دیوان میں ایک دفتر یا محکمہ کے لوگ شامل ہوتے تھے جن کے نام ایک رجسٹر میں درج ہوتے تھے۔ اس تبدیلی کا سبب علامہ سرخسیؒ کی راے میں یہ ہے کہ: ’’رسولؐ اللہ نے دیّت کی ذمہ خاندان و قبیلے پر اس لیے ڈالی تھی کہ اس وقت قوت و مدد انھی کے ذریعے حاصل ہوتی تھی۔ پھر حضرت عمرؓ نے دفاتر کا نظام مرتب کیا تو یہ قوت و مدد اہل قبیلہ سے منتقل ہو کر اہل دفاتر سے وابستہ ہو گئی۔ آج اگر ہم پیشہ افراد کی یونین یا جماعت کے ممبران یا پیرکے مرید ین سے قوت و مدد حاصل ہو تو ان سب کو دیّت کاذمہ دار بنایا جاسکتاہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے: اگر آج باہمی مدد ہم پیشہ لوگوںسے ہو سکتی ہے تو عاقلہ ہم پیشہ لوگ ہی قرا ر پائیں گے۔ گویا کہ ناگریز ہے کہ ہر دور کی تنظیمی ہیئت میںقوت کے انتقال کا لحاظ کیا جائے ‘جب کہ اس مرکز قوت میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔
اس لحاظ سے دو ر حاضر میں احتجاج بھی ایک شرعی ضرورت ہے اور شرعی اصول کے مطابق ناگریز ضرورت کی صورتوں میں بہت سی ممنوعات بھی مباحات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ الضرورات تبیح المحظورات(سرخسی،المبسوط)۔ جس طرح جہاد کے مروجہ قدیم طریقوں کو عبادت شمار کیا گیا‘ اسی طرح ان جدید طریقوں کے اختیار کرنے کو بھی قابل اجر و ثواب اور مذہبی امور گردانا جائے گا۔ شریعت میں دنیوی مصالح کو جو درجہ حاصل ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے: ’’دنیوی زندگی میں جن چیزوںکی ضرورت ہے اور جو ممدومعاون ہیں ان کے بغیر لوگ حق قبول نہیں کرتے۔ اس بنا پر دینوی حظوظ بھی عبادت میں شمار ہو ںگے، کیونکہ عبادات ان کے بغیر پوری نہیں ہوتی ہیں اور جس کے بغیر واجب کی ادایگی نہ ہو ، وہ بھی واجب ہے‘‘۔(الجوامع فی السیاسۃ الالٰہیہ)
اس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حصول حق کے لیے پر امن احتجاج اور مظاہرے کا طریقہ اگر حضوؐر کے زمانے میں مروّج ہوتا تو اقامت دین اور حمایت مظلوم کے لیے آپؐ اس سے ضرور استفادہ فرماتے۔ جو لوگ احتجاج کے اس معروف طریقے کو خلافِ سنت کہہ کر رد کر دیتے ہیں، انھیں اس حدیث پر تدبر کی نگاہ ڈالنی چاہیے جسے بخاری و ابوداؤد نے روایت کیا ہے کہ: ایک صحابی نے رسولؐ اللہ سے اپنے پڑوسی کی طرف سے اذیت کی شکایت کی۔ آپؐ نے اسے صبر کی نصیحت کی۔ کچھ عرصے بعد پھر شکایت کی، آپؐ نے پھر صبر کرنے کو کہا۔ تیسری مرتبہ جب اس نے شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنے گھر کاسامان باہر گلی میں ڈال کر بیٹھ جائو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ جب گلی میں سے گزرنے والوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ سب لوگوں نے اس کے پڑوسی کو ملامت کی۔ وہ بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے پڑوسی کو منایا اور آیندہ نہ ستانے کا وعدہ کیا۔ ثابت ہوا کہ ناپسندیدہ عمل پر حضوؐر نے مظلوم کو صرف صبر کی تلقین ہی نہیں فرمائی بلکہ اظہار ناراضی اور حصول حق کا پر امن راستہ بھی دکھا دیا۔ اس واقعے سے اس طریقے کی قوت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
اسلامی جہاد درحقیقت ایک عملی تحریک ہے جو ہر مرحلے میں اپنی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق متوازی اور موزوں وسائل اختیار کرتی ہے۔ دین اسلام عملی زندگی کامقابلہ محض تجریدی نظریات سے نہیں کرتا، نہ وہ زندگی کے مختلف مراحل کو جامد اور ناقابل تغیر ذرائع سے طے کرتا ہے۔ جو لوگ نظام جہاد پر گفتگو کرتے ہوئے قرآنی نصوص سے استدلال کرتے وقت دین کے اس امتیازی وصف کا لحاظ نہیںکرتے اور ان ادوار و مراحل کی فطرت و حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے جن سے تحریک گزری ہے‘ تو اس طرح کے لوگ نظام جہاد کو نہایت بھونڈے انداز سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔
اسلامی تحریک مادی اقتدار سے نبر د آزمائی میں محض دعوت و تبلیغ پر اکتفا نہیں کرتی اور نہ عام انسانوں کے افکار کو بدلنے کے لیے محض جبرو اکراہ اور قوت کا استعمال ہی مناسب سمجھتی ہے۔ یہ دونوں اصول اس دین کے طریق کار میں یکساں طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔ سید قطب شہیدؒ کے الفاظ میں: ’’اسلام کی برپا کردہ تحریک جہاد کا مقابلہ ایک ایسی جاہلیت سے ہوتا ہے جو ایک طرف خیالات و عقائد پر قابض ہوتی ہے‘ اور دوسری طرف اس کی بنیاد پر زندگی کا عملی نظام قائم ہوتا ہے‘ اور تیسری طرف اسے اور اس کے قائم کردہ نظام زندگی کی پشت پناہی کے لیے سیاسی و مادی اقتدار موجود ہوتاہے۔ اس لیے تحریک کو جاہلیت کا مقابلہ کرنے کے لیے متوازی وسائل و اسباب بروے کار لانا پڑتے ہیں‘‘۔ (معالم فی الطریق )
واضح رہے کہ اسلام کی عمومی تعلیمات تو انقلاب کے لیے پُرامن جدوجہد کی ہیں۔ البتہ جہاں آزادیِ اظہار اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے تبدیلی کی راہیں مسدود ہوجائیں یا غاصب قوتیں ملک پر قبضہ ہی کرلیں‘ جیساکہ فلسطین‘ کشمیر‘ افغانستان اور عراق کی صورت حال ہے‘ تو وہاں پُرامن جدوجہد کے ساتھ ساتھ اگر حق کی سربلندی اور آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد بھی کرنا پڑے تو اس کا بھی جواز ہے۔
اس پہلو سے دیکھا جائے تو اسلامی تحریک:
(ا) خیالات و عقائد کی اصلاح کے لیے دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کو ذریعہ بناتی ہے ۔
(ب) باطل نظام زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی تحریک حق کی قولی شہادت اداکرنے والو ں کی ایک ایسی منظم جماعت تشکیل دیتی ہے جو زندہ و فعال ہو۔ افراد کے اندر باہمی تعاون و یک جہتی اور ہم آہنگی و ہم نوائی ہو۔ وہ اپنے جداگانہ تشخص پر حملہ آورایسے عوامل و اسباب کا تدراک کرتی ہے جو اس کے وجود کو مٹانے کے درپے ہوں۔ دوسری طرف اپنے اسلامی تشخص کے استحکام اور توسیع کا انتظام کرتی ہے ۔
(ج) باطل نظام زندگی کے پشت پناہ اقتدار کے ازالے کے لیے اسلامی تحریک حالات و زمانے کی رعایت سے مادی طاقت اور جہاد سے کام لیتی ہے۔ اس لیے کہ قوم کی اصلاح کے لیے اسلام نے بااثر طبقات کی اصلاح کو مقدم رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر اور تمام انبیا ؑنے اپنی دعوت کا پہلا مخاطب قوم کے بااثر افراد و طبقات کو بنایا۔ اس لیے کہ اللہ حکومت اور اقتدار کے ذریعے ان امور کی تنظیم کرتا ہے جن کی تنظیم صرف قرآن سے نہیں ہوتی: ان اللّٰہ لیزع بالسلطان مالا یزع بالقرآن۔ اگر تبلیغ عقائد و تصورات کی اصلاح کرتی ہے تو تحریک جہاد دوسرے مادی سنگ ہاے راہ کو صاف کرتی ہے۔ جن میں سر فہرست وہ سیاسی قوت ہے جو اجتماعی و اقتصادی سہاروں پر قائم ہوتی ہے اور یہ دونوں مل کر قائم شدہ نظام پر چاروں طرف سے اثر انداز ہوتے ہیں۔
یہی وہ فطری طریق کار ہے جس کی بدولت اسلام کا عملی وجود دنیا میں قائم ہواتھا۔ اس کے آتے ہی اس کی بنیاد پر ٹھوس، جان دار اور متحرک جماعت وجود میں آگئی جس نے نہ صرف باطل معاشرے میں اپنا جداگانہ تشخص قائم کیا بلکہ باطل وجود کو بھی چیلنج کر دیا۔ وہ ہرگز عملی وجود سے عاری محض خیالی نظریے کی صورت میں نہیں اترا‘ اور آیندہ بھی اس کا وجود ایک عملی نظام کے ذریعے ہی منصہ شہود پر آسکتا ہے۔