اللہ نے قرآن کو آسان بنایا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ (القمر۵۴ :۱۷)، البتہ قرآن اپنی تفہیم کے لیے انسانوں سے غور وفکر اور تدبر کا تقاضا کرتا ہے: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۲۴ (محمد۴۷:۲۴) ’’کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘
عام طور پر غوروتدبر دماغ کا کام تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس آیت سے قرآن پر غوروفکر دل اور دماغ کی یکجائی کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن کے مطابق حقیقی اندھا وہ نہیں جو آنکھوں کی بینائی سے محروم ہے بلکہ وہ ہے جس کا دل اندھا ہو چکا ہے: فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۴۶ (الحج ۲۲:۴۶) ’’حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں، یہ سینوں میں موجود دل ہیں جو اندھے ہو جاتے ہیں‘‘۔
اس آیت میں دل کا مقام بھی بتا دیا گیا ہے، جو سر نہیں، سینہ ہے۔ قرآن میں قلب کا لفظ محض خون کی پمپنگ مشین کے لیے نہیں، عقل و ہوش اور جذبات کے متوازن وسیلے کے لیے استعمال ہوا ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر لازم ہے کہ بار بار تلاوت کرکے قرآن کے اسلوب کو اپنے اندر جذب کیا جائے اور قرآن کا درس قرآنی اسلوب ہی میں دیا جائے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے ہاں درسِ قرآن تو بہت ہوتے ہیں، مگر اکثر دروس میں قرآن سے اخذ شدہ قرآنی اسلوب کم ہی نظر آتا ہے۔ واعظ کی اپنی نصیحت اور روایات کی بھر مار سے بوجھل درس اگر محض نکتہ آفرینیوں کا مجموعہ بن جائے، تو ایسے دروس کے ذریعے عوام الناس کی بڑی تعداد کو قرآن سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ محترم خرم مراد کے بقول مدرس کو چاہیے کہ وہ قرآن اور اپنے سامعین کے درمیان زیادہ حائل نہ ہو اور نکتہ آفرینیوں میں پڑنے کے بجائے اپنے سننے والوں کو آیت کے مفہوم سے جوڑے رکھے۔
قرآن کے اسلوبِ درس کے ضمن میں ذیل میں چند نکات پیش ہیں:
قرآن نے اپنے موقف کو مدُلّل کرنے کے لیے عقلی دلائل بھی دیے ہیں اور نقلی دلائل بھی۔ یہ دلائل وہ ہیں جن کو ہر دور، ہر جگہ اور ہر علمی سطح کا انسان سمجھنے کے قابل ہے۔ جیسے: حضرت یوسفؑ کا اپنے قید کےساتھیوں سے سوال: ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف ۱۲:۳۹) ’’بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟‘‘ لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ۰ۚ (الانبیاء۲۱:۲۲) ’’اگرآسمان وزمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ان دونوں کا نظام بگڑ جاتا‘‘۔
یہ دونوں دلائل اتنے سادہ اور عام فہم ہیں کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہویا بالکل اَن پڑھ، وہ بھی توحید کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح آخرت کے انعقاد اور عدالت الٰہی کےقیام پر اس دلیل کا کوئی ایک بھی انکار نہیں کر سکتا: اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ۳۵ۭ مَا لَكُمْ ۰۪ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۳۶ۚ (القلم۶۸: ۳۵-۳۶) ’’کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں جیسا کر دیں؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے، یہ تم کیسے حکم لگاتے ہو؟‘‘ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۰ۭ (الزمر۳۹:۹)’’ کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
بہت سی طبیعتیں عقلی دلائل کی طرف تو رجحان نہیں رکھتیں، لیکن تاریخی مقامات و قصص سے عبرت پکڑتی ہیں، گویا انھیں نقلی دلائل متاثر کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں حضرت آدم اور ابلیس، ہابیل و قابیل، طوفانِ نوحؑ، عاد و ثمود کی تباہی، ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی سرگزشت، قومِ لوط پر عذاب، موسٰی و فرعون کا معرکہ، موسٰی و خضر ؑکا مکالمہ، بنی اسرائیل کا طرزِ عمل، اصحابِ کہف، ذوالقرنین، اصحاب الاخدود اور اصحاب الفیل کے عبرت آموز واقعات بیان ہوئے ہیں جن سے عرب مانوس تھے۔ اہل عرب نے یا تو ان مقات و کھنڈرات کو دیکھا ہوا تھا، یا وہ جن قوموں سے میل جول رکھتے تھے، ان کے ہاں یہ واقعات زبان زدِ عام تھے۔
اس لیے درس دیتے وقت شرکا کے مشاہدے کا بھی لحاظ رکھنا ہوگا۔ سائنسی اکتشافات اور فلسفیانہ استدلال، سامعین کو قرآن سے جوڑنے کے بجائے دُور کرنے کا باعث بنتا ہے۔
قرآن کے بنیادی موضوعات توحید، رسالت اور آخرت بار بار بیان ہوئے ہیں، عموماً ایک موضوع کی تکرار اور تعلیم و تدریس کا ایک ہی انداز سامعین اور قارئین کے لیے اکتاہٹ کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے قرآن ایک ہی موضوع کو سمجھانے کے لیے اس کے مختلف پہلوئوں کو مختلف مقامات پر مختلف انداز میں بیان کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّہُمْ يَفْقَہُوْنَ۶۵(الانعام۶:۶۵)’’دیکھو! ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی آیات ان کے سامنے پیش کررہے ہیں تاکہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں‘‘۔
تکرار سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک تصریفِ آیات کس قدر ضروری ہے۔ ایک مدرس کے لیے ضروری ہے کہ ہرمرتبہ نئے ڈھنگ اور آہنگ کے ساتھ درس کو ترتیب دے۔ یعنی نئی مثالوں، نئے واقعات اور نئے دلائل سے اپنی گفتگو کو مزین کرے اور زبان و بیان کی ایسی یکسانیت سے بچنے کی کوشش کرے جو اس کے سامعین میں اکتاہٹ پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہو۔
سوال اُٹھانا: کبھی قرآن انسان کو تدبّر پر یوں اُبھارتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے: یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ، اور کبھی یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ کہہ کر جواب دیتا ہے۔ کبھی انسان کو چونکانے کا یہ انداز ہے: وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ۱۷ۙثُمَّ مَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ۱۸ۭ (الانفطار۸۲: ۱۷-۱۸) اور کبھی اَلْقَارِعَۃُ۱ۙ مَا الْقَارِعَۃُ۲ۚوَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَۃُ۳ۭ (القارعۃ۱۰۱: ۱-۳)۔کبھی ایک ہی مضمون کے فہم کے لیے مختلف مثالیں بیان کرتا ہے۔ کبھی انسانی عقل کو اس طرح بھی اپیل کرتا ہے:اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ۳۵ۭ مَا لَكُمْ۰۪ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۳۶ ۚ(القلم۶۸: ۳۵-۳۶)’’کیا ہم اطاعت گزاروں اور مجرموں کو برابر کر دیں گے؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ایسے فیصلے کرتے ہو؟‘‘ فرمایا: ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۰ۭ (الزمر۳۹:۹)’’کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘۔
کبھی انسانی فطرت میں برائی کے لیے موجود کراہت کو یوں انگیخت دیتا ہے کہ غیبت کے گھنائونے پن کو نمایاں کرنے کے لیے یہ سوال سب کے سامنے رکھتا ہے:
اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا (الحجرات۴۹:۱۲)کیا تمھارے اندر کوئی ایسا بھی ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے؟
ایک اچھے معلّم و مربیّ کا یہی طریقہ ہے کہ وہ محض نصیحت اور زجرو توبیخ ہی نہ کرے بلکہ انسانی طبیعت میں برائی سے نفرت اور نیکی کی طرف رغبت کا جو جذبہ موجود ہے، اسے بھی اُبھارے۔
سورۃ النساء آیت۳۴ میں جہاں یہ بیان ہوا کہ ’’مرد عورتوں پر نگران ہیں‘‘وہاں ساتھ مردوں کو یہ یاد دہانی کرا دی گئی کہ تمھیں اگر عورتوں پر بالادست اور صاحب ِاختیار بنایا گیا ہے، تو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے اوپر اپنے رب کی پکڑ کا بھی دھیان رکھنا کہ وہ تم سے بھی زیادہ بالادست ہے۔
یہ بیان کیا گیا کہ رحمٰن کے بندے تو ان ان صفات کے حامل ہوتے ہیں، تاکہ ہر انسان اپنے کردار کا خود جائزہ لے کہ وہ رحمن کا بندہ کہلانے کا حق دار ہے یا شیطان کابندہ کہلانے کا سزاوار؟
قرآنی تربیت کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ وہ ہر لمحہ فرد میں اُمید اور خوف کی کیفیت کو اس طرح قائم رکھتا ہے کہ انسان نہ تو خدا کی گرفت سے بے خوف ہو سکے اور نہ اس کی رحمت و مغفرت سے مایوس ہو جائے۔ چنانچہ جہاں اس نے عذابِ جہنم کا ذکر کیا ہے ساتھ ہی جنت کی بشارت اور اس کی نعمتوں کا تفصیلی تذکرہ بھی کیا ہے۔
قرآن میں بنیادی انسانی اخلاقیات کو اُبھار کر بھی اسلامی عقائد و اصولوں کی افادیت اور فرضیت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ جیسے سورۃ الماعون میں یوم جزا کو جھٹلانے والے کی اس بدخلقی کا ذکر ہے کہ وہ نہ تو یتیم کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی موٹی اشیا عاریتاً کسی کو برتنے کے لیے دیتاہے۔ کبھی ان کے سامنے دو قسم کے کردار رکھ کر خود ان میں سے اپنے لیے کسی کردار کا انتخاب کرنے کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ جیسے سورئہ بقرہ کی آیت۲۰۴ سے ۲۰۷ میں پہلے باتوں سے دل موہ لینے والے ایک دنیا پرست انسان کا ذکر ہے۔ پھر اس کے برعکس ایک کردار ایسے شخص کا ہے جو محض رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنی جان تک کودائو پر لگائے رکھتا ہے۔
سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ كَلْبُہُمْ۰ۚ وَيَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ كَلْبُہُمْ رَجْمًۢـــا بِالْغَيْبِ۰ۚ وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ كَلْبُہُمْ۰ۭ (الکہف۱۸:۲۲)کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ اور کچھ دوسرے کہیں گے وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔
آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:’’مطلب یہ کہ اصل چیز ان کی تعداد نہیں ہے بلکہ اصل چیز وہ سبق ہیں جو اس قصے سے ملتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے سامنے سرجھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسبابِ دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے۔ ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحابِ کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے اور ان کے نام کیا کیا تھے اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا؟ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو اور آپؐ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو۔ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوقِ فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے‘‘۔(تفہیم القرآنج۳،ص۲۰)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو فرمایا:وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۳۵ (البقرۃ۲:۳۵)’’اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے‘‘۔
اب یہ درخت کون سا تھا؟ اسرائیلی روایات کے زیر اثر ہمارے ہاں اس پر بحثیں ہوئیں کہ گندم کا تھا یا انجیر یا کوئی اور۔ لیکن اللہ نے آدمؑ کو آزمانے اور یہ دکھانے کے لیے کہ شیطان اسے کس کس طریقے سے بہکائے گا، ایک درخت کو مقرر کر دیا۔ اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کون سا درخت ہے؟ لہٰذا، قرآن اور صحیح احادیث میں اس درخت کے نام کی کوئی بحث نہیں ملتی۔
سورج، چاند، ستاروں، شجرو حجر اور سمندروں کو کس طرح انسان کے لیے مسخر کر دیا ہے؟ جب کہ اپنے اچھے اعمال کو شرک کے ذریعے گدلا کر دینے والے کو اس عورت سے تشبیہ دی ہے جو محنت سےکاتے ہوئے سوت کو خود ہی ضائع کر دیتی ہے۔ موقف کو مدلّل کرنے کے لیے انبیا ؑ اور ان کی مخاطب اقوام کے مکالمے اور واقعات بیان کیے ہیں۔ اس لیے قرآن کی طرف بلانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے درس میں محض عقلی و فکری دلائل ہی نہ دے بلکہ اپنے استدلال کو مثالوں، تاریخی واقعات اور روز مرہ زندگی کے ہلکے پھلکے واقعات سے مزین کرے۔ اس لیے کہ ہر دور کا انسان قصے کہانیوں سے دلچسپی رکھتا ہے اور واقعات سے سبق حاصل کرتا ہے۔
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۳ۭ (الماعون۱۰۷: ۱-۳) تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔
كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ۱۷ۙ وَلَا تَحٰۗضُّوْنَ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۱۸ۙ وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا۱۹ۙ وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا۲۰ۭ (الفجر۸۹: ۱۷-۲۰) بلکہ تم یتیم کی تکریم نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔
جب اہل جنت دوزخیوں سے پوچھیں گے کہ تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی تو اس کی ایک وجہ یہ بیان کریں گے:وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ(المدثر۷۴:۴۴) ’’اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘‘۔
یتیم و مسکین کے صرف کھانے پینے کی ہی ضرورت کو پورا کرنا کافی نہیں، انسان ہونے کے ناطے وہ عزت و تکریم کے بھی مستحق ہیں۔ عموماً کمزوروں کو دینے والے ان کی بے توقیری کر رہے ہوتے ہیں۔ قرآن نے اسے انسان کی ایک بڑی خامی بتایا ہے:كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ۱۷ۙ(الفجر۸۹:۱۷)’’ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم کی عزت کرتے ہی نہیں‘‘۔
یتیم اور ضرورت مند سائل کی عزّتِ نفس کے خیال رکھنے کی ہدایت نزول قرآن کے ابتدائی دنوں سے آپؐ کو کی جارہی تھی، فرمایا: فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْہَرْ۹ۭ وَاَمَّا السَّاۗىِٕلَ فَلَا تَنْہَرْ۱۰ۭ(الضحٰی۹۳: ۹-۱۰)’’پس یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو نہ جھڑکو‘‘۔
ایسا صدقہ جس میں ضرورت مند کو ذہنی اذیت دی جائے، اسے تو نہ دینا بہتر ہے۔ فرمایا:
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ يَّتْبَعُہَآ اَذًى۰ۭ (البقرۃ۲:۲۶۳) ایک میٹھا بول اور (ضرورت مند کی کسی ناگوار بات پر)چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دُکھ ہو۔