القدس اور حرم کعبہ اپنی عظمت و حرمت کے لحاظ سے دنیا کی ہرمسلم آبادی کے لیے غیرمعمولی اہمیت کے حامل مقامات ہیں۔روئے زمین پر پہلا مرکز عبادت حرم کعبہ بیت اللہ ابوالانبیا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوا، اور قیامت تک کے لیے محترم جائے سجود قرار پایا۔
اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمان کی طرف دیکھنے اور دل سے قبلۂ ابراہیمی کو اختیار کرنے کی خواہش کو قبول فرماتے ہوئے ہدایت فرما دی کہ ہر صاحب ایمان جہاں کہیں بھی ہو، نماز ادا کرنے کے لیے حرم کعبہ کی طرف رخ کرے۔ لیکن بنی اسرائیل کی تاریخ میں ایک دور وہ بھی آیا جب حضرت سلیمانؑ کے تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی کو بنی اسرائیل نے جو اس سے قبل کعبہ کی طرف ہی رخ کر کے دعائیں مانگتے تھے، اپنا قبلہ قرار دے دیا اورالقدس کی طرف رخ کر کے عبادت کرنے لگے۔اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے اذِن سے نبی کریمؐ نے بھی مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد تقریباً ۱۴ ماہ تک القدس ہی کی طرف رُخ کر کے نماز ادا فرمائی اور جب ربِّ کریم نے حکم دیا تو بلاکسی تاخیر قبلۂ ابراہیمی کو اختیار فرما لیا۔اس علامتی طور پر تبدیلیِ امامت و قیادت نے قیامت تک کے لیے ہدایت کا راستہ اور اس کی طرف دعوت کی ذمہ داری اُمت مسلمہ کو تفویض فرما دی۔
مسلمانوں کے لیے الاقصیٰ کی اہمیت محض جذباتی نہیں بلکہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن کریم نے الاقصیٰ کے اردگرد کے علاقے کو مبارک قرار دیا ، یہیں حضرت ابراہیمؑ نے مسجد قائم کی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج کا آغاز بھی یہیں سے ہوا ۔اس مسجد کے قرب و جوار میں حضرت ابراہیمؑ اور بنی اسرائیل کے انبیاؑ کی آخری آرام گاہیں واقع ہیں ۔ ان اسباب کی بناپر القدس کی اور مسجد اقصیٰ کی اہمیت ہرصاحب ِایمان کے دل میں جاگزیں ہے۔
یہی وہ القدس ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے عالمی استعمار اور صیہونی ناجائز تعاون کے نتیجے میں ظلم و جبر ،قتل و غارت اور حقوق انسانی کی پامالی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔غزہ کی مسلم اور عیسائی آبادی ناجائز طور پر قائم کردہ صیہونی اسرائیلی ریاست کے فضائی ،بری اور بحری تینوں راستوں سے بمباری کا ہدف بنی ہوئی ہے اور ہزار ہا معصوم بچے، خواتین، بزرگ، حتیٰ کہ ہسپتالوں میں داخل مریض بھی اسرائیلی بمباری اور قتل و غارت گری سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہر لمحہ زندگی سے ہاتھ دھوتے اور شہادت کا درجہ پانے والے مظلوموں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ مسلم دنیا کا ضمیر صرف حمایتی بیانات تک محدود ہے۔
امریکا کی اسرائیلی صیہونیت کی حمایت علانیہ طور پر اسلحہ اور سیاسی حمایت کے ذریعے واضح ہو چکی ہے۔ مارچ۲۰۲۳ء میں امریکی کانگریس سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۴۸ء سے اب تک امریکا نے اسرائیل کی ۲۶۰ بلین ڈالر کی بیرونی امداد کی ہے، جس میں نصف جنگی سازوسامان پر صرف ہوئی ہے۔
اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے حق میں ۴۲ (بشمول حالیہ۲) مرتبہ ’ویٹو‘ کا حق استعمال کیا ہے۔ یورپی ممالک اسرائیل کی ہمدردی میں بچھے جا رہے ہیں لیکن وہ مسلم ممالک جن کی جغرافیائی سرحدیں فلسطین کے ساتھ ملی ہوئی ہیں، ان کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے، ان کے حقوق انسانی کی بحالی اور انھیں زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی کی کوئی سنجیدہ کوشش تاحال سامنے نہیں آئی ۔ البتہ سفارتی محاذ پر اس حوالے سے سرد مہری اور نیم دلی سے جاری کیے گئے بیانات تواتر سے جاری کیے جا رہے ہیں۔
تاریخی لحاظ سے ۶۳۸عیسوی میں حضرت عمر ؓکے دور میں مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا اور حضرت عمر فاروق ؓ نے خود فلسطین جا کر وہاں کی غیر مسلم آبادی کو حقوق شہریت عطا کیے۔ حضرت عمرؓ کا یہ سفر تاریخ انسانی میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔اس سفر میں کلیسا کے سربراہ سےگفتگو کے دوران نماز کا وقت آیا تو پادری نے کہا کہ آپ یہیں نماز پڑھ لیں لیکن حضرت عمرؓ نے کلیسا سے کچھ فاصلہ پر جا کر نماز ادا فرمائی ۔انھیں خدشہ تھا کہ عیسائی عبادت گاہ میں ان کی نماز کی ادائیگی کو نظیر قرار دے کر بعد میں آنے والے مسلمان، عیسائی عبادت گاہ کو مسجد میں تبدیل نہ کردیں۔ دوسرے مذہب کے عبادت خانے کا ایک فاتح کی طرف سے یہ احترام تاریخ میں کہیں اورنہیں نظر آتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر ساڑھےچار سو سال تک یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر انتظام رہا۔ ۱۰۷۸ء میں سلجوقی اس کے حکمران بنے اور ۱۰۹۹ء میں کئی ممالک کی متحدہ عیسائی افواج نے مل کر حملہ کیا اور فلسطین پرعیسائی قابض ہو گئے ۔ اکتوبر ۱۱۸۷ ء میں صلاح الدین ایوبی (۱۱۳۷ء-۱۱۹۳ء)نے اسے دوبارہ فتح کیا اور رواداری اور عدل کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ ۱۵۱۷ء میں فلسطین کو عثمانی فرماں روا نے دوبارہ فتح کیا اور پھر ۴۰۰ سال یہ عثمانی ریاست کا حصہ رہا۔۱۹۰۸ء میں سلطان عبدالحمید کی برطرفی کے بعد مصطفیٰ کمال کی قیادت میں’نوجوان ترکوں‘کے زیر عنوان ترکی کو ایک سیکولر ریاست قرار دے دیا گیا۔ مصطفیٰ کمال نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ۱۹۱۴ء میں غیر جانب دار رہنے کی بجائے جرمنی کے حلیف کے طور پر معاہدہ کرلیا تھا۔ دوسری جانب برطانیہ ،فرانس ،روس اور امریکا آپس میں اتحادی بن گئے اور جرمنی کی شکست کے بعد اتحادیوں نے ترک مقبوضات کو ایک نئے نقشے کے تحت آپس میں تقسیم کرلیا۔
۱۰؍ اگست ۱۹۲۰ء مسلم دنیا کی تاریخ میں وہ تاریک دن ہے جب فرانسیسی اور برطانوی استعمار کے نمایندوں نے سہیورس(Sevres) میں سائکس- پائی کوٹ(Sykes-Picot) معاہدہ کے نام سے ایک دستاویز کے ذریعے طے کیا کہ سلطنت عثمانیہ کو تتّر بتّر کرنے کے لیے فرانس کے حصے میں لبنان اور شام اور برطانیہ کی جھولی میں عراق، فلسطین اور اردن کو ڈال دیا جائے ۔تاکہ مسلم ممالک فرانس اور برطانیہ کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں اور یہ دونوں ممالک مسلم دنیا کے قدرتی وسائل کو اپنی ترقی کے لیے استعمال کر سکیں۔
۱۹۱۴ءکے اعداد و شمار کے لحاظ سے فلسطین میں چھ لاکھ فلسطینی تھے اور یہودی بمشکل ۵۰ہزار تھے۔ آج اسرائیل کی دُوررس منصوبہ بندی اور مسلمانوں کی آنکھیں بند رکھنے کے نتیجے میں یہ تناسب اُلٹا ہے۔ فلسطین میں بمشکل ۲۰ فی صد مسلم آبادی ہے اور اس کو بھی قتل و غارت گری، دہشت گردی اور خوف کی فضا کے ذریعے مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلم ممالک آج بھی آنکھیں، کان اور عقل کو استعمال کرنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے۔
مسئلہ فلسطین کی تخلیق مغربی استعمار کی وسیع تر تخریبی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد یورپی مسیحی اتحادی حکومتوں نے ایک وسیع تر تخریبی حکمت عملی کے تحت عثمانی مملکت کا جس نے غیر دانش مندانہ بنیاد پر جرمنی کا ساتھ دیا تھا، بٹوارےکا فیصلہ کیا تاکہ مسلم قوت کی مرکزیت کو ختم کر کے انھیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دیا جائے ،جو ہمیشہ طاقت ور یورپی ممالک کی مدد طلب کرنے پر مجبور ہوں۔
برطانوی شاطر دو قدم اور آگے بڑھے اور برطانیہ کے ہائی کمشنر ہینری میکموہن نے اپنے ایک خفیہ خط کے ذریعے عثمانیہ ریاست کے مقرر کردہ والی شریف حسین کو عثمانیوں کے خلاف بغاوت پر ابھارا اور برطانوی حکومت کی جانب سے کسی اختیار کے بغیر شریف مکہ کو ایک نجی خط کے ذریعے برطانیہ کی جانب سے ایک آزاد مملکت کی سربراہی کی پیش کش کر دی، جسے شریف حسین نے بلا کسی تردد کےقبول کر لیا اور اس طرح عثمانی ریاست کے منتشر ہونے پر شام ، عراق ، فلسطین اور سعودی عرب سیاسی نقشے پر اُبھرے۔
نہ صرف یہ بلکہ برطانیہ نے کھلم کھلا فلسطین کے علاقے میں یہودی آباد کاری کے ایک منظم منصوبے کا بھی اہتمام کیا ۔دسمبر ۱۹۱۷ء میں برطانوی فوج نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اوربرطانوی استعمار نے اگلے تیس برسوں میں اس خطے میں یہودی آباد کاری کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کیا اور مقامی سادہ لو ح افراد کی زمینیں اونی پونی قیمتوں پر دنیا بھر سے آنے والے یہودیوں نے خریدنی شروع کر دیں ۔ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کی ناجائزریاست کے قیام کے وقت اس میں بہ مشکل ۷لاکھ ۵۸ ہزار یہودی آباد تھے۔ ملک کا بٹوارا کرتے وقت کل رقبےکا ۵۶ فی صد رقبہ اسرائیل کو دیا گیا اور ۴۴ فی صد حصہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، وہاں فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کو رہایشی حقوق دینے کا اعلان کیا گیا۔یہودی آبادی اس وقت کل آبادی کا بہ مشکل ایک تہائی تھی ۔ دوتہائی آبادی میں مسلمان اکثریت میں تھے اور قلیل تعداد میں عیسائی بھی آباد تھے۔ آج نا جائز مقبوضہ اسرائیل میں تقریباً ۱۸ لاکھ مسلمان ہیں ، جب کہ آبادی کے جائزوں اور گوشواروں میں مسلمانوں کی شرح پیدائش یہودیوں سے بہت زیادہ ہے ۔یہودی آبادی ۶۳ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
مشرق وسطیٰ کے وہ مسلم ممالک خصوصا ًجہاں عربی زبان رائج ہے ،وہ مسئلہ فلسطین کو فلسطینی عربوں اور یہودیوں کا تنازع سمجھتے ہیں اور اپنے سیاسی مصالح کو اولیت دیتے چلے آرہے ہیں اور اس نازک اور حساس معاملہ پر زبانی جمع خرچ سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے۔اگر واقعی یہ صرف عربوں اور یہودیوں کا مسئلہ ہے تو وہ عرب ممالک جو کچھ عرصہ قبل معقول عسکری قوت رکھتے تھے، وہ سیاسی اور عسکری دباؤ کا استعمال کر کے مسئلہ کا سیاسی حل نکال سکتے تھے۔لیکن مصر ہو یا اُردن یا مراکش ان ممالک نے ایک ناجائز قابض حکومت کو نہ صرف تسلیم کرتے ہوئے اپنے سفارتی تعلقات ہی قائم نہیں کیے بلکہ خفیہ اداروں کے ذریعے معلومات کے تبادلے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ۲۰۲۰ء میں ’معاہدہ ابراہیم‘ (Abraham accord )کے عنوان سے امریکا کی سرپرستی میں خلیجی ریاستوں یو اے ای نے اسرائیل سے ایک ایسے شرمناک معاہدے پر دستخط کیے جو نہ صرف ایک اعترافِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ صدیوں کی تاریخ کو غلط قرار دیتے ہوئے اصلاحات کرنے کے بعد ایک ایسی تاریخ تحریر کرنے کاپابند کرتا ہے جس میں کسی مقام پر جہاد کا تذکرہ نہ ہو اور صیہونیت کے خلاف ماضی میں جو کچھ قانونی یا دستوری اقدامات کیے گئے ہیں، انھیں منسوخ کرنے اور تاریخ کی نئی تعبیر کرنے کا پابند بناتا ہے ۔
یہ مسئلہ فقط عربوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے۔ ۳۰ لاکھ سے اُوپر مقامی باشندوں کو حقوق انسانی سے محروم اور بے گھر کرنے اور بچوں، خواتین، بزرگوں اور جوانوں کو تشدد اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے کی ذمہ داری صیہونی دہشت گردی پر ہے۔
یہ محض ایک مذہبی اختلافی مسئلہ بھی نہیں ہے کیونکہ صیہونی حکومت کو صحیح العقیدہ یہودی بھی یہودیت کانمایندہ نہیں سمجھتے۔ یہ ایک ناجائز حکومت کا نسلی برتری اورنسل پرستی (Racism) کی بنیاد پر نسل کشی (Genocide )کی پالیسی کے خلاف جدوجہد ہے، جو ہرباشعورانسان کی دل کی آواز ہے۔ اسرائیلی حکومت نسل پرست لادینی قومیت کی علَم بردار ہے، جب کہ فلسطین کے مسلمان صرف اپنے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور سرزمین پر اپنے آبائی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ فلسطینی یہودیوں کی طرح مشرقی یورپ ، افریقہ اور دیگر ممالک سے نقل مکانی کر کے آنے والے افراد نہیں ہیں بلکہ صدیوں سے مسجد اقصیٰ کے ارد گرد آباد ہیں، جنہیں ان کے گھروں سے جارحیت اور قتل و غارت گری کے ذریعے بے گھر کیا جا رہا ہے ۔یہ مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حفاظت کا مسئلہ ہے جو سیکولر ، صیہونی اسرائیلی حکومت کی نگاہ میں ایک غیر مطلوب عبادت گاہ ہے اور جسے مسمار کرنا ان کے مقاصد میں شامل ہے ۔غزہ میں حالیہ فضائی حملوں کے بعد زمینی بکتر بند حملے کا مطلب یہ ہے کہ جو جاندار بھی غزہ میں ہے ،اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے اور یہی وہ کام ہے جو ہلاکو خان نے بغداد میں کیا تھا۔ اس سفاکانہ عمل کی مخالفت اور اسرائیل کو اس سے باز رکھنا ہر انسان پر ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔
جس بے شرمی کے ساتھ مغربی ممالک، ہندستان اور اقوام متحدہ نے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ بے اعتنائی اور انسانی حقوق کی پامالی کو گوارا کیا ہے، اس کے بعد ان اداروں اور ممالک سے کسی خیریا تعاون کی امید رکھنا عقل مندی کے منافی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلم ممالک آنکھیں کھولیں اور خود کو مغربی اداروں کی معاشی غلامی سے نکالنے کے لیے ایک عالمی مالی ادارہ قائم کریں جو ان کے معاشی مسائل میں امداد کرے۔اس کے ساتھ ہی نظام تعلیم میں بنیادی اصلاحات کریں تاکہ قوم میں اعتماد پیدا کریں اور یوں القدس کی آزادی آج نہیں تو کل باشعور مسلم نوجوانوں کے ذریعے عملی شکل اختیار کرسکے۔
اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی تمام تحریکات اسلامی کا ایک اہم ہدف اسلامی نظام عدل پر مبنی معاشرہ اور ریاست کا قیام ہے۔ ملک اور ملک کے باہر جہاں کہیں بھی ظلم و استحصال ہورہا ہو، حقوق انسانی پامال کیے جا رہے ہوں اور انسانی جان اور مال کی حرمت باقی نہ ہو، تو تحریک اسلامی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ہرممکنہ ذریعے سے مظلوم اہل ایمان کی مدد کرے اور انھیں ظلم سے نجات دلائے۔
اس حوالے سے پہلا کرنے کا کام عوام و خواص کو مسئلے کی اصل نوعیت سے آگاہی فراہم کرنا ہے ۔اس غرض سے بڑے اور چھوٹے اجتماعات، وفود، گھر گھر جا کر مظلوم مسلمانوں کے لیے ادویات اور غذا فراہم کرنے کے لیے مالی وسائل کا جمع کرنا ،اسکولوں کالجوں اور جامعات میں امدادی فنڈ کی مہم کے ذریعے وسائل جمع کر کے جلد از جلد پوری ذمہ داری کے ساتھ مستحقین تک پہنچانا تحریک کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ مرکز جماعت کی جانب سے تمام اضلاع کو اس موضوع پر امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے جاری کردہ تفصیلی ہدایات دی جاچکی ہیں۔ ان کی روشنی میں ذیلی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ پوری تندہی سے اس فریضے کو سر انجام دیں۔
جتنی بڑی تعداد میں اسرائیلی جا رحیت کے نتیجے میں بچے، خواتین اور ضعیف افراد زخمی ہورہے ہیں، ان کے لیے مقامی طور پر طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ۷؍اکتوبر سے ۲۲؍اکتوبر تک صرف دو ہفتوں میں۷ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور ۱۵ہزار ۲سو۷۳؍ افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں ۱۱۱۹ خواتین اور دو ہزار ۳۵ بچّے شامل ہیں۔اسرائیلی بمباری نے ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں مریض ، ڈاکٹر اور طبی عملے کے افراد روزانہ کی بنیادوں پر شہید ، زخمی اور معذور ہو رہے ہیں ۔ علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھرپور سر گرمی ضروری ہے ۔ اس حوالے سے تحریک کو ملکی اور عالمی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے غزہ کے مظلوموں کی جانوں کے تحفظ کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ ایک انسانی فریضہ ہے اور کوشش کی جانی چاہیے کہ طبی امدای وفود کے لیے غزہ تک کے راستے سہولت میں تعاون کرے۔
تحریک سے وابستہ اصحاب علم کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے فلسطین کے مختلف پہلوؤں پر علمی اور تحقیقی مواد (حقائق اور معلومات) تیار کریں اور یونی ورسٹیوں اور بیرون ملک اخبارات تک ای میل اور دیگر ابلاغی و سماجی میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔
اس وقت سوشل میڈیا محاذِ جنگ کے بعد دوسرا اہم ترین محاذ بنا ہوا ہے ۔ سوشل میڈیا پر اسرائیل کی حمایت میں یہود و ہنود کے اشتراک سے جھوٹا پروپیگنڈا نقطۂ کمال پر ہے ۔ حماس کی تازہ کارروائی کے فوراً بعد اسرائل میں حماس کے ہاتھوں ۴۰ بچوں کے قتل کی جھوٹی خبر کو سوشل میڈیا پر پھیلا دیا گیا ۔ امریکی صدر نے بھی اس بنیاد پر حماس کے خلاف سخت ترین غیر سفارتی زبان میں اس عمل کی مذمت کی ۔ بعد ازاں خبر غلط ثابت ہوئی ۔ موبائل اور کمپیو ٹر کے ذریعے لڑی جانے والی اس جنگ کے لیے ہمیں بھی فعال ، ذہین اور مستعد افراد کے ذریعے منظم انداز میں روزانہ کی بنیاد پر جھوٹے پروپیگنڈے کا توڑ کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا محاذ کے ذریعے حسب ذیل اہداف پر توجہ کی ضرورت ہے :
اہم تاریخی اور نظریاتی اہمیت کے موضوعات ہمارے نصاب تعلیم کا حصہ نہیں ہیں۔جس کے باعث ہماری نوجوان نسل میں اہم نظریاتی موضوعات پر شعور کی کمی ہے ۔ ان حالات میں ہمیں ایسے پروگرام اور سرگرمیاں منعقد کرنی چاہییں جن کے نتیجے میں نوجوان نسل کے شعور میں اضافہ ہو۔ جامعات میں یونینوں پر پابندی کے باوجود ہر جامعہ میں طلبہ کی سرگرمیوں کے لیے سوسائٹیاں اور کلب موجود ہیں۔ مسئلہ فلسطین کی تاریخ، پس منظر، حقائق واضح کرنے کے لیے تقاریری مقابلے منعقد کیے جا سکتے ہیں۔ ہینڈ بلوں، کتابچوں، اور سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعے نوجوان نسل کو اس انسانی مسئلے کے حقائق اور تاریخی پس منظر سے آگاہ کرنے کا اہتمام ضروری ہے۔تعلیمی اداروں کی سطح پر پُرامن احتجاجی واک، شعور بیدار کرنے والی ریلیوں اور جلسوں کے ذریعے نوجوان نسل کی سیاسی جدوجہد کی تربیت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔تعلیمی اداروں کی سطح پر مختلف ڈارما سوسائٹیوں کے قیام کے ذریعے ڈراموں اور مختصر تمثیلی خاکوں کے ذریعے غزہ کے مظلوموں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور عالمی سامراج کے دُہرے منافقانہ معیار کو اجاگر کیا جائے۔غرض ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں نوجوانوں میں بیداری کے حصول کے لیے مختلف النوع تربیتی و آگاہی سرگرمیاں منعقدکرنا ضروری ہے۔ ان سرگرمیوں کے مختصر دورانیئے کے کلپس سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی شعور میں اضافے کا بھی سبب بنیں گے۔
غزہ کا مسئلہ بنیادی طور پر ایک انسانی مسئلہ ہے جس میں لاکھوں لوگ اپنی سرزمین سے بے دخل کر کے جبری طور پر مہاجر بنائے جا رہے ہیں اور ان پر بنیادی ضروریات زندگی کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ظالمانہ بمباری کے ذریعے ہزراوں عورتوں ، بچوں ،مریضوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس عظیم انسانی المیے کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے مقامی دفاتر کے سامنے مظاہروں کا انعقاد کیا جائے اور قراردادیں جمع کروائی جائیں ،جن میں اقوام متحدہ کو ذمہ داری ادا کرنے پر متوجہ کیا جائے۔ اس صورت حال پر اقوام متحدہ سے سوال کیا جائے کہ اگر وہ انڈونیشیا میں عیسائیوں کے تحفظ کے لیے اقدام کر سکتی ہے تو وہ فلسطین کے نہتے اور مظلوم انسانوں کے لیے کیوں جنگ بندی نہیں کروا سکتی اور اسرائیل پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ہرجانہ کیوں نہیں کر سکتی؟ اقوام متحدہ پر زور ڈالا جائے کہ وہ غزہ کے متاثرین تک طبی اور غذائی امداد کی فراہمی کے جلد از جلد انتظامات کرے۔
پاکستانی سیاست دان، دانش ور اور عوام عمومی طور پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم ؒ کے اصولی موقف سے آگاہ نہیں ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی قائدا عظمؒ کے موقف سے انحراف کی راہ پر گامزن ہے۔ قومی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں سے روابط اور اس موضوع پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تحریک کے زیر اہتمام عوامی احتجاجوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی شرکت سے یک جہتی کی فضا کے قیام میں مدد ملے گی ۔ تمام جماعتوں کے قائدین کو آل پارٹیز فلسطین کانفرنسوں میں مدعو کرکے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ تمام جماعتوں کی جانب سے مشترکہ اعلامیوں اور قراردادوں میں حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ جنگ بندی کے قیام ، فوری طبی امداد و دیگر بنیادی ضروریات کے ذریعے متاثرین کی ہر ممکن فوری امداد کی ذمہ داری ادا کرے۔ نیز تمام ریاستی وسائل مثلاً ٹی وی ، ریڈیو ، اخبارات کو بروئے کار لاتے ہوئے تنازع فلسطین کے تاریخی پس منظر اور اسرائیل کے سفاکانہ کردار کو پاکستان سمیت پوری دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کرے ۔
ذیل میں قائد اعظم ؒ کے فلسطین کے حوالے سے اصولی موقف کی ترجمانی کرنے والے اہم حوالے پیش کیے جا رہے ہیں ۔ قائداعظمؒ کے اصولی موقف کی روشنی میں قومی اتفاق رائے اور خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ ۱۷فروری ۱۹۴۴ء کو اپنے ایک تارکے ذریعے پیغام میں مسٹر چرچل کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :(روزنامہ ڈان، ۱۸فروری ۱۹۴۴ء)
America-Zionist propaganda supported by influential quarters causes alarm and serious apprehension. Any departure from White Paper and definite assurances given to Muslim India by Lord Linlithgow, Viceroy on behalf of His Majesty’s Government would be further act of flagrant injustice to Arabs and breach of faith. Not only Muslim India but entire Muslim world would deeply resent it. Consequences fraught with gravest danger.
بااثر حلقوں کی حمایت سے امریکی ور یہودی پروپیگنڈا زبردست خوف اور خطرے کو جنم دیتا ہے۔ قرطاسِ ابیض اور ان یقین دہانیوں سے کوئی انحراف جو وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے ملک معظم کی حکومت کی جانب سے مسلم ہند کو کرائی تھی عربوں کے ساتھ صریحی ناانصافی اور عہدشکنی کی جانب ایک اور قدم ہوگا۔ نہ صرف مسلم ہند بلکہ پورا عالم اسلام اس کے خلاف اظہارِ ناراضی کرے گا۔ اس کے نتائج شدید تشویش اور سنگین خطرات کا باعث ہوں گے۔
اسی طرح کا ایک برقی پیغام میں (۲؍ اکتوبر۱۹۴۵ء) برطانوی وزیر اعظم مسٹر ایٹلی کو لکھتے ہیں:
President Truman's reported Palestine immigration proposal is unwarranted, encroaching upon another country, monstrous and highly unjust. Any departure from the White Paper and Britain’s pledge will not only be sacrilege and a breach of faith with Muslim India but an acid test of British honour. It is my duty to inform you that any surrender to appease Jewry at the sacrifice of Arabs would be deeply resented and vehemently resisted by the Muslim would and Muslim India and its consequences will be most disastrous.
فلسطین میں یہودیوں کی آمد کے بارے میں صدر ٹرومین کی تجویز، جو اخبارات میں شائع ہوئی، ناجائز، دوسرے ملک کے معاملے میں مداخلت، خوفناک اور نہایت غیرمنصفانہ ہے۔ قرطاس ابیض اور برطانیہ کے عہد سے ماورا کوئی اقدام نہ صرف [مذہبی] بے حُرمتی اور مسلمانانِ ہند کے ساتھ عہدشکنی ہوگی بلکہ برطانوی وقار کی آزمایش بھی ہوگی۔ مَیں یہ اطلاع دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کی خوشامد کے لیے عربوں کو قربان گاہ کی بھینٹ چڑھانے کی سعی عالمِ اسلام اور مسلم ہند میں بے جا خفگی کا باعث ہوگی اور اس کی زبردست مزاحمت ہوگی اور اس کے نتائج نہایت تباہ کن ہوں گے۔
۲۳ جنوری ۱۹۴۶ء کو اپنے ایک بیان میں اسی بات کو دُہراتے کرتے ہیں :
If there is going to be any departure from the policy declared by Britain in the White Paper on Palestine, Mussalmans in India cannot remain detached observers and will support the Arabs in any way they can.
However, boycott measures might be levelled against goods of Jewish origin, as indicated by the Agra Report that Muslim shopkeepers are already refusing to sell "Jewish cigarettes" (APA). (The Dawn, January 24, 1946).
اگر برطانیہ کی جانب سے فلسطین کے متعلق قرطاس ابیض میںا علان کردہ حکمت عملی سے انحراف ہوا تو مسلمانانِ ہند خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے، اور وہ ہرممکن طریقے سے عربوں کی حمایت کریں گے…تاہم یہودی الاصل اشیا کی خریدوفروخت کے مقاطعے کے اقدامات اختیار کیے جاسکتے ہیں، جیساکہ ’آگرہ رپورٹ‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں مسلمان دکان دار ’یہودی سگریٹ‘ فروخت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
۲۴ دسمبر ۱۹۴۷ء کو یمن کے بادشاہ امام یحییٰ کے نام ان کے پیغام کے جواب میں اس عزم کا اظہار (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۲۵دسمبر ۱۹۴۷ء)کرتے ہیں:
I fully share your Majesty’s surprise and shock at the serious lack of judgment shown by the UNO by their unjust decision in respect of Palestine. I once more assure you and our Arab brethren that Pakistan will stand by them and do all that is possible to help and support them in their opposition on the UNO decision which is inherently unjust and outrageous.
اقوام متحدہ کے فلسطین کے حوالے سے انتہائی غیرذمہ دارانہ رویے کی بناپر کیے گئے غیرمنصفانہ فیصلے پر میں عزّت مآب کی حیرت اور صدمے کی کیفیت میں پوری طرح شریک ہوں۔ میں ایک بار پھر آپ کو اور اپنے عرب بھائیوں کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ اس مسئلے میں پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے اور اقوام متحدہ کے اس فیصلے کی مخالفت میں ان کی ہرممکن مدد اور حمایت کرے گا، جو کہ فطری طور پر غیرمنصفانہ، انتہائی شرمناک اور توہین آمیز ہے۔
قائد اعظمؒ نے بے شمار مواقع پر فلسطینی جہاد کی حمایت اور اسرائیل کو ایک ناجائز غاصبانہ ریاست قرار دیا تھا لیکن نئی نسل ان کے موقف سے آگاہ نہیں ہے ۔ ہم نے صرف دو تین حوالے انھی کے الفاظ میں درج کیے ہیں جنھیں ابلاغ عامہ کے ذریعے سے حکومت پاکستان کی سرکاری پالیسی کو طور پر بڑے پیمانے پر پھیلایا جا سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فلسطین کے مجاہدین کی غیبی مدد فرمائے اور انھیں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں کامیابی دے ، یروشلم جس کا دار الخلافہ ہو اور دنیا بھر کے مسلمان مسجد الاقصیٰ میں آزادی کے ساتھ عبادت کی سعادت سے بہرہ مند ہوں ۔ اس عظیم مقصد کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو اللہ رب العزت شہادت کے اعلیٰ درجے سے نوازے (آمین)۔